Tag: حکومت

  • سانحۂ کربلا، اعتباری شخصیت اور مطلق العنانیت: چند قابلِ غور پہلو – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    سانحۂ کربلا، اعتباری شخصیت اور مطلق العنانیت: چند قابلِ غور پہلو – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق برادر محترم جناب عمار خان ناصر صاحب نے اس موضوع پر ایک فکر انگیز مضمون لکھا ہے۔ یہاں اس مضمون پر تبصرہ چند نکات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے:

    1۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ سانحۂ کربلا اور ریاست کی اعتباری شخصیت کے تعلق کو قابلِ غور سمجھا گیا ہے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ جس وقت یہ سانحہ ہوا، اس وقت مسلمان بھی’’ریاست‘‘ نامی اعتباری شخصیت کے قائل تھے۔ اس مفروضے کے ساتھ سانحۂ کربلا کا جائزہ لیجیے۔ جن لوگوں نے ’’حکومت‘‘ کے حکم پر یہ ’’کارروائی‘‘ کی، کیا انھیں اس کام کے لیے کسی عدالت میں ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے؟ (تفہیم میں آسانی کی خاطر فی الحال سانحۂ کربلا کو بھول کر اس کی جگہ سانحۂ لال مسجد، جسٹ فار دا سیک آف ایگزامپل، فرض کیجیے۔) وہ تو ریاست نامی شخص کے کارندے ہیں، اس کے ہاتھ میں محض آلہ ہیں، ان کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔ (کیا لال مسجد کے مسئلے میں کسی نے ان اہلکاروں کی ذمہ داری کی بات کی ہے جنھوں نے احکامات پر عمل کیا؟ صرف پرویز مشرف اور چند افراد کی حد تک کیوں معاملہ محدود رکھا گیا ہے؟)

    اچھا تو کیا ’’حکومت‘‘ ذمہ دار ہے؟ نہیں کیونکہ وہ تو ریاست نامی شخص کی نمائندہ ہے۔ البتہ اگر یہ ثابت کیا جائے کہ اس نمائندے نے ان حدود سے تجاوز کیا ہے جو ریاست نامی شخص نے اس کے لیے مقرر کیے ہیں تو پھر اسے ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ (پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے خلاف کارروائی کی بنیاد یہی امر ہے۔) تاہم مسئلہ یہ ہے کہ حکومت صرف مفروضے کی حد تک ہی ریاست کی مقررہ حدود کی پابند ہے۔ عملاً ان حدود کا تعین دستور اور قانون کے ذریعے ہوتا ہے اور دونوں میں ترمیم کا اختیار حکومت کے پاس ہی ہے کیونکہ جمہوریت میں یہ کام اکثریت سے کیا جاتا ہے اور مفروضہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت میں اکثریت حکومت ہی کے پاس ہے۔

    پھر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص حکمران ہونے کے ناطے بطور حکمران ذمہ دار ہے یا ذاتی حیثیت میں بطور فرد ذمہ دار ہے؟ (پرویز مشرف نے مثلاً آرمی چیف کے طور پر دستور معطل کرکے پرویزمشرف کو بطور صدر اختیارات منتقل کردیے، اور پرویزمشرف بطور پرویزمشرف سائیڈ پر کھڑا دیکھتا رہا۔ یہی پیچیدگی غداری کیس میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔)

    اچھا تو کیا ریاست کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا جائے؟ یہاں دو مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں: ایک یہ کہ ریاست کبھی غلط نہیں کرسکتی (The king can do no wrong)۔ دوسرا یہ کہ ریاست کو جرم کی سزا کیسے دی جائے؟ جسمانی سزا تو اعتباری شخصیت کو دی نہیں جاسکتی اور مالی سزا کا بوجھ اس کے بجائے اس کی رعایا کی جیبوں پر آتا ہے۔
    پس یہ وہی بات ہوئی جو اعتباری شخصیت پر تفصیلی بحث میں واضح کی گئی تھی کہ اعتباری شخصیت دراصل ذمہ داری سے بچنے اور اسے کسی اور کی طرف منتقل کرنے (shifting the liability) کےلیے وجود میں لائی گئی ہے، نہ کہ ’’مطلق العنانیت‘‘ سے نمٹنے کے لیے۔

    2۔ اگر اس نکتے کے جواب میں عصرحاضر میں بعض سربراہانِ حکومت یا بعض فوجی جرنیلوں کے خلاف فوجداری کارروائی اور مقدمات کا ذکر کیا جائے، تو ابھی سے وضاحت کردوں کہ ایسا تبھی ممکن ہوا ہے جب ریاست کی اعتباری شخصیت کے پردے میں چھید کر لیے گئے ہیں۔ جب تک ریاست کا پردہ بیچ میں حائل ہوتا ہے، ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ یہ کارروائی تبھی ہوسکتی ہے اور ان افراد کو ذمہ دار تبھی قرار دیا جاسکتا ہے، جب یہ پردہ اٹھالیا جائے۔ (پردہ جو اٹھ گیا تو پھر؟)

    3۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس بحث میں ریاست اور حکومت کے فرق کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ طاقت کی جس تقسیم کی مثال دی گئی ہے (مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ) وہ حکومت کی شاخیں ہیں، نہ کہ ریاست کی۔ ریاست نامی اعتباری شخص کے لیے حکومت محض ایک نمائندہ ہے۔ پھر حکومت کی تین شاخیں فرض کی گئی ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔

    مونٹیسکیو نے، جس نے طاقت کی تقسیم کا یہ تصور دیا ہے، یہ فرض کیا تھا کہ فرد واحد میں یہ تینوں اختیارات مرتکز ہوں تو مطلق العنانیت وجود میں آتی ہے۔ یہ مفروضہ نظری طور پر بھی اور عملاً بھی غلط ثابت ہوا ہے۔ جس وقت مونٹیسکیو نے یہ نظریہ دیا عین اسی وقت برطانیہ میں لارڈ چانسلر کے پاس عدالتی اختیارات بھی تھے (کہ وہ سب سے بڑی عدالت کا سربراہ تھا)، مقننہ کے اختیارات بھی (کہ وہ مقننہ کے ایوانِ بالا کا سب سے اہم رکن تھا) اور انتظامی اختیارات بھی (کہ وہ کابینہ کا سب سے اہم رکن تھا)۔ اس کے باوجود وہ مطلق العنان نہیں تھا۔گویا مطلق العنانیت کا سبب غلط بتایا گیا اور علاج بھی غلط ہی بتایا گیا۔

    علاج کی غلطی یہ ہے کہ جب طاقت تقسیم ہو تو طاقت کے ان ستونوں میں تصادم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ (پاکستان میں ہی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان کھینچا تانی دیکھ لیجیے۔) یہ تصادم بارہا ریاست کا سارا نظام معطل کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ (سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے کیسے نواز شریف کی حکومت کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا تھا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ نہ دستور کے مطابق تھا نہ طاقت کی تقسیم کے نظریے کے مطابق۔ غیر قانونی و غیر دستوری طریقے سے سجاد علی شاہ کو برطرف کیا گیا تو نظام واپس سیدھی راہ پر آگیا۔ گویا فوج کی مطلق العنانیت نے نظام بچا لیا۔ یہ کوئی ایک تنہا مثال نہیں ہے۔ اندرا گاندھی کے دور میں اس کے اور سپریم کورٹ کے جھگڑے کو دیکھ لیں۔ بیسیوں مثالیں اور بھی دی جاسکتی ہیں۔)

    دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب طاقت کی تقسیم کے نظریے کو عملاً امریکا کے دستور میں نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ ناممکن ہے۔ چنانچہ صدر کے لیے، جو نظری اعتبار سے انتظامیہ کا سربراہ ہے، قانون سازی کے اختیارات بھی مان لیے گئے کہ وہ جو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتا ہے، اس کی حیثیت کانگریس کے منظور کردہ قانون کی ہے اور اس کے لیے یہ اختیار بھی مانا گیا کہ کانگریس کے منظور کردہ قانون کو ویٹو کردے۔ پھر اس کے لیے عدالتی اختیارات بھی مان لیے گئے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی وہ ختم کرسکتا ہے اور مجرم کو معاف کرسکتا ہے، اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی بھی وہ اپنی مرضی سے اور خالص سیاسی بنیادوں پر کر سکتا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ کے لیے قانونی و انتظامی اختیارات اور کانگریس کے لیے عدالتی و انتظامی اختیارات بھی مان لیے گئے۔ اس کو ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کا نام دیا گیا لیکن آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ اعتراف تھا کہ طاقت کی تقسیم کا نظریہ عملاً ناقابلِ تنفیذ ہے۔

    4۔ پھر جس وقت مونٹیسکیو نے طاقت کی تقسیم کا نظریہ دیا تو اس کے سامنے حکومت، نہ کہ ریاست، کی تین شاخیں تھیں: مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ طاقت کے بعض اہم ستون اس نے نظرانداز کیے ہیں۔ سب سے اہم ستون فوج ہے جو طاقت کی اس تقسیم میں کہیں دکھائی نہیں دیتی اور مطلق العنانیت کا سب سے بڑا سبب ماضی میں بھی فوج ہی تھی اور اب بھی فوج ہی ہے۔ اس کے پاس قانون سازی کے اختیارات نہیں ہوتے، قانون کی تعبیر کے اختیارات نہیں ہوتے، قانون کی تنقید کے اختیارات نہیں ہوتے اور اس کے باجود سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہی نہیں، امریکا میں بھی۔ پھر فوج کی اس مطلق العنانیت کو روکنے کے لیے، یا اس کو کسی حد تک محدود کرنے کے لیے، امریکا نے بھی کچھ نظام بنانے کی کوشش کی ہے اور فقہائے کرام نے بھی کی تھی لیکن ان دونوں نظاموں میں اعتباری شخصیت کو مطلق العنانیت پر روک لگانے کے لیے ناگزیر نہیں مانا گیا۔

    5۔ فقہائے کرام نے جب ’’شریعت کی بالادستی‘‘ کا نعرہ بلند کیا تو یہ وہی بات تھی جسے اب Rule of Law کہا جاتا ہے اور ارسطو نے کہا تھا Rule of law is better than the rule of any individual.
    لیکن قانون کی حکمرانی ہو کیسے؟ جب یہ فرض کیا جائے کہ ریاست نامی اعتباری شخص ہی قانون کا ماخذ ہے۔ قانون تو اس اعتباری شخص کی مرضی کے اظہار کو کہتے ہیں۔ اس قانون کے جواز پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا (سپریم کورٹ میں بعض قوانین کو چیلنج کرنے کی بات دراصل دستور کے تحت ہوتی ہے اور دستور بھی ریاست ہی کی تخلیق ہوتی ہے)۔ جب حکومت کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ کسی بھی قانون کو تبدیل کرسکتی ہے تو اس کا آسان مطلب یہ ہوا کہ وہ کسی بھی جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز کرسکتی ہے۔

    اس کے برعکس جب یہ کہا جائے کہ کچھ امور ایسے ہیں جو’’ریاست‘‘ کے اختیار سے ہی باہر ہیں، تب ریاست کی مطلق العنانیت کو لگام ڈالی جاتی ہے۔ امریکی نظام میں یہ (جان لاک کے فطری حقوق کے تصور اور سوشل کنٹریکٹ کے نظریے کی بنیاد پر) ’’قانونِ فطرت‘‘ کے موہوم تصور کے ذریعے کیا گیا، جبکہ فقہائے کرام نے ایسا شریعت کی بالادستی، یعنی رول آف لا، کے تصور کے ذریعے کیا۔ جیسے امریکی سپریم کورٹ کانگریس کے بعض قوانین یا صدر کے بعض احکامات کو فطری حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر کالعدم قرر دے سکتی ہے، ایسے ہی فقہائے کرام نے اپنے وقت کے مطلق العنان حکمرانوں کے احکامات کو خلافِ شریعت قرار دے کر ان کی اطاعت ناجائز قرار دی (متغلب کے بعض احکام کی اطاعت دراصل de jure اور de facto کے درمیان فرق پر مبنی ہے جو جدید ریاستوں نے بھی تسلیم کیا ہے)۔

    یہ فقہائے کرام کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ امت کے اجتماعی ضمیر نے صدیوں سے سانحۂ کربلا کو ظلم مانا ہوا ہے اور چند ذہنی مریضوں کو مستثنی کیا جائے تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ ہوا اس میں شریعت کی خلاف ورزی نہیں تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ شریعت کی خلاف ورزی کے باوجود اس کی روک تھام نہیں کی گئی تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ یہ بات مستشرقین بھی مانتے ہیں کہ اموی اور عباسی مطلق العنانیت کے سامنے اپوزیشن کی حیثیت صرف طبقۂ فقہاء و علماء کو ہی حاصل تھی۔ پھر یہ بھی دیکھیے کہ کیسے یہ ممکن ہوا کہ ان مطلق العنان حکمرانوں نے فقہائے کرام ہی کے اخذ کردہ قوانین کو عملاً نافذ کیا اور عدالتوں میں بھی فقہائے کرام ہی کو بٹھانے پر مجبور ہوئے؟ ہارون الرشید جیسے طاقت ور خلیفہ کو یہ جرات نہ ہوسکی کہ ایک عام قاضی سے پوچھ سکے کہ اس نے ایک مقدمے میں اس کی چہیتی ملکۂ زبیدہ کی سفارش کیوں نہیں مانی؟

    6۔ سیاسہ کے متعلق یہ تصور کہ یہاں حکمران کو کھلی چھٹی تھی، بالکل غلط ہے۔ فقہائے کرام نے جس طرح کا نظام وضع کیا، اور جو عملاً صدیوں رائج رہا ہے، اس میں ’’سیاسہ‘‘ کا اختیار ’’شریعہ‘‘ کے قواعد عامہ کی حدود کے اندر مقید تھا اور اس کی حیثیت delegated legislation کی تھی، جیسے آج پارلیمنٹ قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے لیکن بعض افراد یا اداروں کو قانون سازی کے اختیارات تفویض کرلیتی ہے اور اس تفویض کی بنا پر جو قانون بنے وہ تب تک جائز ہوتا ہے جب تک وہ تفویض کے حدود کے اندر ہو۔ چنانچہ جب بھی حکمران نے شریعت کے حدود کی خلاف ورزی کی ہے، فقہائے کرام نے اسے سیاسہ ظالمہ قرار دیا اور شرعاً اسے ناجائز، یعنی کالعدم، قرار دیا ہے۔ اسی لیے تو کسی نے بھی ابن زیاد یا حجاج کے اقدام کو جائز نہیں کہا۔

    اگر سوال یہ ہے کہ پھر روکنے کا نظام کیوں نہیں بنایا گیا تو جواب یہ ہے کہ نظام بنتے بنتے عشرے اور بعض اوقات صدیاں لگ جاتی ہیں اور نظام بالآخر وجود میں آگیا۔ جس دور کی یہ مثالیں پیش کی جارہی ہیں وہ دور تو تشکیلی دور (formative phase) تھا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہو یا دیگر واقعات، یا فقہائے کرام کی قربانیاں اور کاوشیں ہوںِ، ان سے بالآخر وہ تفصیلی قانونی نظام وجود میں آیا جو سیاسہ اور شریعہ کے دو حصوں میں تقسیم تھا اور ان حصوں کے درمیان ہم آہنگی تھی۔ (سیاسہ کی باقی تفصیلات میرے پی ایچ ڈی مقالے میں دیکھی جاسکتی ہیں۔)

    7۔ اعتباری شخصیت مطلق العنانیت کا علاج نہیں بلکہ ذمہ داری سے فرار کا طریقہ ہے۔ فقہائے کرام نے جو نظام وضع کیا ہے اس میں معلوم ہے کہ ذمہ داری کس کی ہے اور اس ذمہ داری کی حد کیا ہے۔ یہ مفروضہ غلط ہے کہ امام مطلق العنان تھا۔ امام کے اختیارات ایک جانب شریعت کی حدود کے پابند تھے اور اس کی خلاف ورزی پر اس کے احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، اور دوسری طرف وہ امت کا وکیل تھا اور اس حیثیت سے اس کے اختیارات وکیل کی طرح وکالت کے حدود میں مقید تھے۔ اس پروپوزیشن کو امریکی اعلانِ آزادی کے ساتھ ملا کر پڑھیے تو فقہائے کرام کے مؤقف کی معنویت واضح ہوجائے گی۔

    We hold these truths to be self-evident, that all men are created equal, that they are endowed by their Creator with certain unalienable rights, that among these are life, liberty and the pursuit of happiness. That to secure these rights, governments are instituted among men, deriving their just powers from the consent of the governed. That whenever any form of government becomes destructive to these ends, it is the right of the people to alter or to abolish it, and to institute new government, laying its foundation on such principles and organizing its powers in such form, as to them shall seem most likely to effect their safety and happiness.
    (ہمارے نزدیک یہ سچائیاں کسی ثبوت کی محتاج نہیں ہیں کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں؛ کہ انھیں ان کے خالق کی طرف سے بعض ایسے حقوق بخشے گئے ہیں جو ان سے چھینے نہیں جاسکتے؛ کہ ان حقوق میں زندگی، آزادی اور خوشی کے حصول کے حقوق شامل ہیں؛ کہ ان حقوق کے تحفظ کے لیے انسانوں کے درمیان حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں جو اپنے عادلانہ اختیارات ان لوگوں سے ہی حاصل کرتے ہیں جن پر وہ حکومتیں قائم ہوتی ہیں؛ کہ جب بھی کوئی نظامِ حکومت ان مقاصد کی بربادی کا باعث بنتا ہے تو لوگوں کا یہ حق ہے کہ اسے تبدیل یا ختم کردیں اور اس کی جگہ ایسی حکومت قائم کریں، اس کی بنیادیں ایسے اصولوں پر استوار کریں اور اس کے اختیارات اس طرح تقسیم کریں جو ان کے خیال میں ان کے تحفظ اور خوشی کے حصول کے لیے زیادہ مفید ہو۔)

    8۔ اعتباری شخصیت دو طرح کی ہوتی ہے:
    ایک کارپوریشن سول: جیسے برطانوی دستور میں ’’کراؤن‘‘ کو مستقل شخصیت مانا جاتا ہے اور ملکہ یا بادشاہ آتے جاتے ہیں (The king is dead; long live the king)۔
    اور دوسرا کارپوریشن ایگریگیٹ جب کئی حقیقی اشخاص کے مجموعے کو ایک اعتباری شخص مان لیا جاتا ہے، جیسے کمپنی۔
    عمار خان ناصر صاحب کے مضمون میں مسئلہ یہ ہے کہ وہ ریاست کی اعتباری شخصیت کی بات کرتے ہیں، جو کارپوریشن ایگریگیٹ ہے، لیکن اس کے لیے استدلال کارپوریشن سول کے تصور سے کرتے ہیں۔ یہ وہ غلط فہمی ہے جس میں ہمارے کئی دیگر دانشور بھی اس وقت مبتلا ہیں۔
    کارپوریشن سول کے دو بڑے فوائد ذکر کیے جاتے ہیں:
    ایک یہ کہ یہ ’’نظام کے تسلسل‘‘کے لیے ضروری ہے؛ بادشاہ آئے یا جائے، نظام چلتا رہے۔ ایک صدر کے بعد دوسرا، یا ایک وزیراعظم کی جگہ دوسرا آتا ہے۔
    دوسرا یہ کہ اس طرح نواز شریف بطور وزیراعظم اور نواز شریف بطور ابن محمد شریف (یا آصف زرداری بطور صدر یا آصف زرداری بطور ابن حاکم زرداری) میں فرق کیا جاتا ہے۔
    فقہائے کرام نے جو نظام وضع کیا اس میں یہ دونوں فوائد موجود ہیں۔ ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ، یا ایک قاضی کے بعد دوسرا قاضی آتا لیکن نظام چلتا رہتا؛ اسی طرح وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اہلیت بطور امیرالمؤمنین اور بطور ابن الخطاب میں فرق کرتے (جنین کے غرہ کی مثال یاد کیجیے)، لیکن اس کے لیے انھیں اعتباری شخصیت کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

    9۔ عمار خان ناصر صاحب کی یہ بات نظری طور پر قابل قبول ہے کہ اگر کسی اجنبی تصور کو آج اپنانے کی ضرورت پڑے تو اس سے صرف اس بنیاد پر اعراض نہ کیا جائے کہ وہ اجنبی ہے۔ ان کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ اجنبی تصور اپناتے ہوئے اس میں مناسب تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہوگی۔ اس لیے اگر آج پیچیدہ مالیاتی امور یا بین الاقوامی سیاست کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے اعتباری شخصیت کو اپنانے کی ضرورت ہے تو محض یہ ضرورت اسے جواز نہیں دیتی بلکہ پہلے اس تصور کا صحیح فہم حاصل ہونا چاہیے اور پھر اسے اسلامی قانون کے تصورات اور قواعد سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی اس تبدیل شدہ شکل، یا نئے جنم، میں یہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے اہل علم نے فقہ کی کتابوں سے اس تصور کو برآمد کرنے کی کوشش کی ہے جس کا فائدہ کچھ نہیں ہے اور نقصان بہت زیادہ ہے کیونکہ اس طرح یہ تصور کیا ہمارے نظام کا حصہ بنتا، الٹا اپنے نظام کے متعلق ہی ہمارا تصور ناقص ہوگیا ہے۔

    10۔ آخری بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ سانحۂ کربلا کے وقت فقہائے کرام نے اعتباری شخصیت کا تصور نہیں مانا ہوا تھا ورنہ ریاست کے پردے کے پیچھے چھپنے کی وجہ سے یزید کیا، ابن زیاد بھی اس سانحے کی ذمہ داری سے بری ہوتا۔
    ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ۔

    (ڈاکٹر محمد مشتاق احمد، ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)

  • حکومت، نظام اور عوام – عالیہ چودھری

    حکومت، نظام اور عوام – عالیہ چودھری

    ترقی پذیر سے ترقی یافتہ کی صف میں آنے کے لیے کسی ملک کا سسٹم ہی بنیاد بنتا ہے۔ وہ سسٹم جو دنیا میں اسے روشناس کرواتا ہے۔ ہر ترقی یافتہ اور مہذب ملک اپنے شہریوں کے لئے ایک مضبوط سسٹم کا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور پھر عملی طور پر شہریوں کو اس میں زعم کر دیتا ہے۔ قومیں اسی صورت ترقی کرتی ہیں جب ان کو ملکی مفاد کی دوڑ میں شامل کیا جاتا ہے۔ ان کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے تاکہ وہ محنت اور لگن کے ساتھ ملک کو آگے لے جا سکیں۔ اور ایسا بھی ممکن ہوتا ہے جب ملک کے اندر ایک مضبوط نظام موجود ہو، جو حکمران طبقہ اور عوام کے درمیان تفریق کا باعث نہ بنے، جو ملکی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، جو اپنے لوگوں کی زندگیوں اور ضرورتوں کا تحفظ کر سکے۔

    اگر اس سسٹم کو کرپشن زدہ، ذاتی مفاد اور اقتدار کی شاہی کے لیے بنایا جائے تو پھر ملک کے اندر بے چینی عروج پہ ہوتی ہے۔ تب حق دینا نہیں بلکہ کسی کا حق چھین لینا یاد رہتا ہے۔ حکمران طبقہ اپنی اقتدار کی کرسی کے مزے لوٹتا ہے اور عوام وہ عزت اور حکم شاہی کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ ہم جو فلاحی اسلامی ریاست کی بنیاد کو مظبوط کرنے والے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے اسے اسلامی تو کیا فلاحی ریاست بھی نہ بننے دیا۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے، مخلص پالیسیاں بنائی گئیں جو انھیں ترقی کی راہ پہ آگے لے گئیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں اقتدار کی جنگ ملکی مفاد پہ ہمیشہ حاوی رہی ہے اور جو یہ جنگ جیت گئے انہوں نے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سارے فائدے لے لیے۔ عوام کا وہی حال رہا، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنا، کیا پتا کوئی آس رنگ لے آئے، خوابوں کو تعبیر مل جائے۔ مگر نظر کا دھوکہ وہی رہا اور عوام یہی دھوکہ آج بھی کھا رہی ہے۔ جب بے روزگاری عام ہو تب محنت اور جفا کشی کا جذبہ سرد پر جاتا ہے۔ اسی لیے آج کے دور میں ہر کوئی اپنے حالات میں الجھا ہوا بے بسی سے اس فرسودہ سسٹم کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ معاشی قتل عام ہو رہا ہے، ادارے آگے بڑھنے کے بجائے اپنے نام کو ہی ڈبوتے جا رہے ہیں۔ نعروں اور وعدوں میں ملاوٹ ہے ذاتی مفاد کی۔ عوام کو اتنا کمزور کیا جا رہا ہے کہ وہ اب آواز اٹھائیں بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ کیسا سسٹم ہے جہاں اعلیٰ ڈگریوں والے تو خاک در خاک گھوم رہے ہیں مگر جعلی ڈگریوں والے ملک کو چلا رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ملک کو نہیں بلکہ اپنے ذاتی اکاؤنٹس کو بہتر بنا رہے ہیں۔ شخصی آزادی پہ آواز کون اٹھائے، اب تو آزادی رائے پہ پابندی لگ جاتی ہے۔ حکومت آسودہ حال ہے جبکہ سسٹم فرسودہ ہے۔ فارن پالیسی کے نام پر ہمارے پاس ذاتی دورے اور فوٹو سیشن ہی رہ گیا ہے۔ مظبوط ڈائیلاگ پالیسی ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ سفارتکاری دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر اپنے ملکی مفادات اور معشیت کو استحکام بخشتی ہے۔ ہم ابھی اس میں بہت کمزور ہیں ۔

    حکومت اور سسٹم کو باہم جوڑا جا سکتا ہے مگر ان کو ہم معنی نہیں لے سکتے۔ دونوں کا اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہتر ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہی، اگر نظام کو صحیح فعال بنایا جائے تو نئی آنے والی حکومت اس میں گڑ بڑ نہیں کر سکتی۔ حکومت پالیسی میکر ہے جبکہ ایک مظبوط سسٹم کی نشاندہی ملک کا ہر ادارہ اپنے طور پر کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے اندر نظام کو یرغمال بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ ابھی تک ہر ادارہ نوکر شاہی کے ہاتھوں تباہ ہو رہا ہے۔ عوام ووٹوں کے ذریعے حکمران منتخب کرتی ہے اور حکمران ایسے سسٹم کو فعال کرتے ہیں جو ان کو فوائد دے سکے۔ اقتدار سے پہلے عوام کا ساتھ، اقتدار ملنے کے بعد غیروں کا ساتھ بھلا لگتا ہے۔ ایک بہتر سسٹم ملک کے اندر چلے یا نہ چلے بہرحال اپنی سیاست پورے پانچ سال چلنی چاہیے۔

    کسی بھی اچھے معاشرے کی نشاندہی اس کے اندر بسنے والوں کے اخلا قی کردار اور سوچ کی پختگی پر ہے۔ اگر بگاڑ ہی یہیں ہوگا تو پھر اس ملک کے اندر ایک مستحکم اجتماعی نظام مشکل سے ہی بن سکتا۔ باشعور معاشرہ ہی باطل اور حق کی پہچان کر کے شر کو خیر سے الگ کرتا ہے۔ جبکہ یہاں وعدوں کے بھنور میں پھنسے عوام بھی اپنی پسند کو لیے ایسے لوگوں کا دفاع کرتے ہیں جو انہی کو لوٹ رہے ہیں۔ لوٹتے بھی ایسے کہ خود معصوم ہی ٹھہرے۔ یہاں کی جمہوریت کے انداز ہی نرالے ہیں جبکہ ایوانوں کے اندر تحفظ دینے والے نہیں لوٹنے والے بیٹھے ہیں۔

    جب خداکا نائب اس کے احکام کے بجائے اپنی حاکمیت کا پرچار کرتا ہے تو وہ دنیاوی طور پر بادشاہ ہی سہی مگر رب کے سامنے حقیر سے حقیر تر ہو جاتا ہے۔ دولت کی چمک شخصیت پہ اثر دکھاتی ہے، دوسری طرف آگے پیچھے ایک آگ ہے جو لپٹی ہے حقوق العباد کو اپنے پیروں تلے روندنے والوں کے ساتھ ۔ اپنی اکڑ کو زمین پہ قائم رکھنے والے
    اس دن کیا کریں گے جب زمین اپنا آپ ظاہر کر دے گی۔ اگر ظلم و بے انصافی کی بنیاد ڈال کر ترقی اور امن کے خواب دِ کھائے جائیں گے تو انتشار کا پھیلنا یقینی ہے۔ ہمارے ہاں تقسیم کرنے والے ہی رہ گئے ہیں کیا؟ سوچنا ہوگا، بدلنا ہوگا ایسے سسٹم کو جو ملک اور عوام دونوں کو تباہ کیے جا رہا ہے۔

    ایک حکم وہ جو مقررہ وقت تک ہے اور ایک وہ جو ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ سمت کا صحیح تعین ہی کر کے چلنا ہو گا ورنہ مہذب اور تہذیب یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا ہونا تو در کنار اپنی خود ساختہ حاکمیت کے ہی نذر ہو جائیں گے۔ نظام کو سہی کرنے سے پہلے خود کو اس قابل تو یہ بنا لیں کہ خود ہی سیاست کر سکیں۔ ملکی مفاد کی سوچ ہی مظبوط منصوبہ سازی کر سکتی ہے اور یہی ملک کو ایک ایسا سسٹم مہیا کرتی ہے جس کی بنا پر عوام آسودہ حال ہوں۔کرپشن کے نظام کو اکھاڑ پھیکنا ہو گا ورنہ عوام اور حکمرانوں کا نباہ ہونا مشکل ہے۔ جمہوریت کے ایوانوں کو حقیقی طور پر عوامی مفادات کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ اگر عوام اور اداروں کو تباہ کرنا ہی رہ گیا ہے تو پھر اس جال میں پکڑ کرسی اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی بھی ہوگی۔

  • جنگل کا شیر اور جمہویت، کچھ الجھنیں، کچھ سوالات – فرہاد علی

    جنگل کا شیر اور جمہویت، کچھ الجھنیں، کچھ سوالات – فرہاد علی

    جنگل کا بادشاہ شیر روز بروز کمزور ہونے لگا تو تیز بھاگنے والے جانور اس کی دسترس سے باہر ہونے لگے۔ گزر اوقات کے لیے شیر چھوٹے موٹے جانوروں کا شکار کرنے لگا۔ مگر شیر کی بہادری پر سوالات اٹھنے کا اندیشہ تھا۔ شیر نے پروپیگنڈے کے بارے میں سنا تو اس نے ایک لومڑی اور ایک گیدڑ کو ہائر کیا۔ شیر لومڑی اور گیدڑ کو ایک آدھ ہڈی دے دیتا تھا اور پھر ان کو جنگل میں بھیج دیتا تاکہ وہ جنگل میں بادشاہ سلامت کی رحم دلی، بہادری اور رعایا سے محبت کی داستانیں عام کریں۔ لومڑی اور گیدڑ کو بیٹھے بٹھائے پیٹ بھر کھانا بھی ملتا اور جنگل میں ان کا رعب بھی قائم ہوگیا۔ دو وقت کے کھانے کے لیے خوار ہونے والے گیدڑ اور لومڑی کے وارے نیارے ہوگئے اور وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن گئے۔ انہوں نے جنگل میں شیر کی ایسی ساکھ بنائی کہ اگر کوئی اس کی قتل و غارت پر نکتہ چینی کرتا تو جنگل کے جذباتی بندر اور دوسرے نادان جانور اس کو جنگل کا دشمن اور ایجنٹ کہتے اور فسادی کے القابات سے نوازتے تھے۔ وہ بے چارہ جنگل میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ اس طرح شیر کو شکار اور لومڑی اور گیدڑ کو پس خوردہ ملتا رہا۔ بندر اچھل اچھل کر شیر کے حق میں نعرے لگاتے اور شیر کا کاروبار چلتا رہا۔

    جمہوریت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ عالمی معاملات کو اپنی مٹھی میں رکھنے والوں نے کچھ ایسے بندے ہائر کر رکھے ہیں جو اپنے پس خوردہ کے عوض جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور بندر مفت میں اس کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔ بد قسمتی سے بندروں کی تعداد ملک عزیز میں عام تناسب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ یوں تو جمہوریت نامی کوئی چیز اگر ہے تو صرف عالمی سامراج کے مفادات کا مہرہ ہے۔ مفادات پر زد پڑتی ہے تو جمہوریت کو دیوار سے اور آمروں کو سینے سے لگایا جاتا ہے۔ ایک ایک ملک کا نام لینا مشکل مگر جنوبی ایشیا، جزیرہ نما عرب، افریقہ، مشرق وسطی اور کچھ دوسرے متفرق ممالک اس میں شامل ہیں ۔

    اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ ایک پاک صاف اور پوتر نظام ہے تو بھی اس میں سو چھید ہیں جن میں کمزور طبقے نکل جاتے ہیں اور زور آور گھس آتے ہیں۔ جمہوریت خواہ کہیں بھی ہو، انتخابات اس کا لازمی جز ہے اور اس کے اختیارات انسانوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو اس پر طرح طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں، غیرقانونی طور پر بھی اور قانونی طور پر بھی۔ غیر قانونی طور پر تو سب ہی غلط تسلیم کرتے ہیں اگرچہ اس چور دروازے کا سدباب بھی ضروری ہے مگر قانون کی طرف سے اجازت ملنا چہ معنی دارد۔ نیز اس کے لیے وسائل بھی بے پناہ درکار ہوتے ہیں، ایک آدمی اگر محب وطن ہے اور انتظام و انصرام کی صلاحیتوں سے مالامال ہے تو جب تک اس کے پاس کمپین چلانے، میڈیا اور اینکر خریدنے، اشتہارات چلانے اور چھپوانے، سائن بورڈز بھرنے اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے گنجینہ قارون نہ ہو تو یہ آدمی عمر بھر کی تگ و دو اور خدمت خلق سے وزیراعظم کیا، اپنے یونین کونسل کا ناظم بھی نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی شخص ڈونیشن کا سہارا لے گا تو جو سرمایہ دار سرمایہ لگاتے ہیں، وہ سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو کروڑوں کی گاڑیاں دینے کے بعد ٹکٹ ملتا ہے وہ اربوں کا غبن کرتے ہیں۔ بعض حضرات لے دے کے نیلسن منڈیلا کی مثال دیں گے۔ اربوں کی آبادی میں ایک شخص اور بھی دہائیوں کی قید و بند کے بعد۔ یعنی بے چارہ غریب جوانی کے جیل کی سلاخوں کی نذر کرے گا تو کہیں جا کر اس نظام کا اعلی منصب حاصل کرے گا۔ البتہ جمہوریت کا یہ تابناک اور حسین چہرہ ملاحظہ کیجیے کہ ایک ایسا لڑکا جس کے شاید دانت بھی ابھی پورے نہیں ہوئے وہ ولی عہد بھی بن سکتا ہے اور طویل مدت تک وزارت اعلی کے عہدہ پر فائز شخص کو اشارہ آبرو سے نکال باہر بھی کر سکتا ہے۔

    انتخابات پر اثرانداز ہونے کے ثمرات دیکھیے کہ قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ایک ڈکٹیٹر کے مقابلہ میں ہرایا گیا اور بقول کسے اگرخود قائداعظم ہوتے تو بھی ہار جاتا۔ یہاں یار لوگ بڑی چالاکی سے سارا ملبہ مذہبی طبقہ پر ڈال دیتا ہے کہ فاطمہ جناح ان کے فتووں کی وجہ سے ہار گئی مگر ایوب خان کے وہ سارے دائو پیچ نظر انداز کردیتے ہیں جو
    انہوں نے فاطمہ جناح کو ہرانے کے لیے جمہوریت کی چھتری تلے اختیار کیے۔ یہ جمہوریت میں وہ چھید ہی ہیں جن سے ایوب خان اقتدار میں گھس آیا اور فاطمہ جناح کو باہر کیا۔

    اگر مال و دولت کے بل بوتے پر دیانت دار اور مخلص قیادت سامنے آتی تو اقتدار کو اسی طبقہ کا حق سمجھ کر مسلمان تقدیر، نصیب اور خدا کی تقسیم اور غیر مسلم طبقاتی تقسیم اور جرم ضعیفی سمجھ کر سہہ لیتے مگر درد اس وقت سوا ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ چوری، قتل، اغوا اور زنا جیسے جرائم میں جیل کی ہوا کھانے والے لوٹ کھسوٹ، چوری چکاری اور ناجائز دھن سے اقتدار کی کرسی پر پہنچ جاتے ہیں اور قانون کے رکھوالے ان مقدس چوروں اور ڈاکووں کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ جمہوریت کا یہ پہلو کتنا تابناک ہے کہ حقیر سے حقیر ملازمت کے لیے صلاحیت، تعلیم اور نیک کردار ضروری ہے مگر قیادت جیسا ’’بےکار‘‘ اور ’’ادنی‘‘ عہدہ نیم پاگل، انگوٹھا چھاپ، پارلیمنٹ میں خراٹے لینے والا اور کرپٹ شخص بھی حاصل کر سکتا ہے۔ شومئی قسمت کہ ہمارے ملک میں ایسے ہی لوگ اقتدار حاصل کرکے گل چھڑے اڑا رہے ہیں۔

    جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جمہوریت نے ستر سال میں اس ملک کو کیا دیا تو جواب دیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو تو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ ڈکٹیٹروں نے اس پر شب خون مارا اور آدھے سے زیادہ عرصہ ڈکٹیٹر شپ کی نذر ہوگیا مگر پریشانی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ہم اپنے پڑوسی ملک کو دیکھتے ہیں کہ وہاں پر تو روز اول سے جمہوریت ہی چلی آرہی ہے مگر وہاں بھی صورت حال کم و بیش ایسی ہی ہے۔ ایک پڑوسی ملک پر ہی کیا موقوف، تمام ترقی پذیر ممالک کی صورت حال جمہوریت کے باوجود یہی چلی آرہی ہے کیونکہ یہی عالمی سامراج کو مطلوب ہے ۔

    یہ کچھ الجھنیں ہیں جو الجھتی ہی چلی جا رہی ہیں اور کچھ سوالات ہیں جو پریشان کیے جا رہے ہیں مگر ڈر لگتا ہے ان گیدڑوں اور لومڑیوں سے جو ایک ہڈی کے عوض آدمی کو ملک دشمن، بوٹوں کا شیدائی، ملک کو پیچھے لے جانے والا، گنبد کے باسی، تخیلاتی دنیا کا اسیر، تنگ نظر اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔ ان کو تو چلو پھر بھی کچھ مل رہا ہے مگر ان بندروں کا حال عبد اللہ دیوانے کا ہے جو دوسروں کی شادی میں ناچ رہے ہیں۔

  • جمہوریت اور سیاسی استحکام: اصل محرک کیا ہے؟ زاہد مغل

    جمہوریت اور سیاسی استحکام: اصل محرک کیا ہے؟ زاہد مغل

    زاہد مغل جمہوری سیاسی نظم (ووٹنگ کے ذریعے حکمرانوں کے چناؤ) کی ایک خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے سیاسی نظام میں ٹھہراؤ (stability) آتا ہے اور دلیل کے طور پر یورپ کی تاریخ کو پیش کیا جاتا ہے کہ جمہوری استحکام کے بعد یورپ داخلی جنگوں سے محفوظ ہوسکا۔

    لیکن درج بالا تجزیہ دو وجوہات کی بنا پر بہت حد تک عمومی ہے۔ ایک اس لیے کہ جمہوری سیاسی نظم کا استحکام ووٹنگ کے ذریعے حکمرانوں کے چناؤ میں نہیں بلکہ اس چناؤ کے ذریعے چنے گئے حکمرانوں کی قوت کو بدستور کم کرکے قوت کو ریاست کے مستقل اداروں میں محفوظ کرنے میں پنہاں ہے۔ اس اجمال کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ جمہوری ریاست کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک مستقل ادارے و افراد (عدلیہ، بیوروکریسی، ٹیکنوکریسی، پالیسی ساز ادارے فوج وغیرہم ) اور دوسرا غیر مستقل افراد (مقننہ)۔ ریاست کے مستقل مفاد کا تحفظ کرنے والے اداروں میں الیکشن نہیں مخصوص علم و صلاحیت پر مبنی سیلیکشن کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مضبوط جمہوریت وہی ہوتی ہے جس میں ریاست کے مستقل ادارے آزادانہ حیثیت میں ریاست کے مستقل مفاد کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی کرسکیں، غیر مستقل افراد چاہتے ہوئے بھی قانونا ان کی ذمہ داریوں میں ٹانگ نہ اڑا سکیں (جمہوری اداروں کے استحکام کا مطلب یہی ہوتا ہے)۔ الغرض جمہوری ریاست کا استحکام ووٹنگ سے نہیں بلکہ مستقل جمہوری اداروں کے استحکام کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات بالکل عام فہم ہے کہ استحکام مستقل افراد و اداروں سے آتا ہے نہ کہ غیر مستقل افراد سے۔ پس یورپ میں مستقل جمہوری ادارے جس قدر مضبوط ہوتے گئے ریاستی نظام میں اسی قدر ٹھہراؤ آتا رہا۔

    دوسری اہم ترین بات یہ کہ یہ جسے جمہوری ریاست کا استحکام کہتے ہیں اس کے پس پشت کافرماں محرک مارکیٹ کا استحکام ہوتا ہے۔ سیاسی استحکام سرمائے اور سرمایہ دار کمپنیوں کے مفادات کی مرہون منت ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں، شوقین حضرات Karl Polanyi کی کتاب The Great Transformation کا مطالعہ فرمائیں جس میں وہ جنگ عظیم اول سے قبل یورپ کے سو سالہ امن کے معاشی محرکات کا تجزیہ کرکے بتاتا ہے کہ یہ کیونکہ جنگ و جدل کی طرف مائل ہوا اور اس کے بعد نئے امن کا دور کن بنیادوں پر قائم کیا گیا۔

  • تیرے وعدے پہ جئے ہم…..!!-ڈاکٹر صفدر محمود

    تیرے وعدے پہ جئے ہم…..!!-ڈاکٹر صفدر محمود

    dr-safdar-mehmood

    زندگی سے ایک سبق یہ بھی سیکھا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے بیانات کو اگنور کردینا چاہئے اور اگر ہوسکے تو انہیں پڑھنے پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اول تو یہ بیانات گزشتہ فرمودات کی بلاسوچے سمجھے تکرار اور اعادہ ہوتے ہیں، دوم یہ عام طور پر جھوٹے وعدوں اور سبزباغ دکھانے کی ’’واردات‘‘ ہوتے ہیں جبکہ یہ دعوے سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی وعدہ بھی ایفا نہیں ہوا۔ رہا سبزباغ دکھانے کا جادو تو وہ مستقبل کا خواب ہے کب پوراہو، کتنا تشنہ ٔ تعبیر رہے اور کتنی خوشحالی لائے، اللہ تبارک تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کیونکہ اگر ہم اپنے حکمرانوں کے بیانات پر یقین کرتے تو اب تک پاکستان میں شرح خواندگی سوفیصد کے قریب ہونی چاہئے تھی۔

    ہر شہری کو علاج و معالجے کی سہولت اورہر بچے کو اسکول میسر ہونا چاہئے تھا۔ غربت، مہنگائی اوربیروزگاری کا ذکر ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ آج کے زمینی حقائق دیکھیں توصورتحال مزید ابتر ہوئی ہے، بنیادی سہولتیں مزید کم یاب ہوئی ہیں، مہنگائی اس قدر کہ دال بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہے، غربت وافلاس کے سبب خودکشیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔ 70بلین ڈالر کے بیرونی قرضے ملک کی تاریخ کا نیاریکارڈ ہیں جو ہماری آئندہ نسلوں کو ادا کرنے ہیں۔ برآمدات گزشتہ سال سے بھی کم ہیں اور ملک عملی طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کے بھیجے ہوئے بیس ارب ڈالرسے چل رہا ہے۔ حکمران ہمیں معاشی راہداری، سی پیک کے خوابوں سے بہلا کر گیم چینجر اور خوشحالی کے سیلاب کے آمد کی خبریں سنا رہے ہیں۔ قوم بھی ا ن مدھر نغموں کوسننے میں مست ہے لیکن کل کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا۔

    اگر ماضی کوئی ثبوت یا آئینہ ہوتا ہے تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکمرانوں کے وعدے محض کھلونے ہوتے ہیں جن سےقوم کو بہلایا جاتا ہے اور پھر سیاست کے مداری ڈگڈگی بجا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ قوم کو اندھیروں سے نکالنے اور لوڈشیڈنگ سے نجات دینے کا وعدہ انتخابات سے قبل چھ ماہ کا تھا، پھر ایک سال کا خواب دکھایا گیا، پھر تین برس کی ڈگڈگی بجائی گئی۔ اب سواتین سال حکومت گزرنے کے بعداگلے دو سالوں کے وعدوں پر ٹرخایا جارہا ہے۔ کبھی کبھی کچھ صاحبان ِ اقتدار سچ بھی بول دیتے ہیں کہ 2018تک بھی لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگی۔ سوا تین برس کی حکمرانی نےبہتری کے آثار پیدا نہیں کئے، تو آئندہ کا کیا بھروسہ؟

    دیہی علاقوں میں مسلسل کئی کئی گھنٹوں کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ضلعی مقامات کے اسپتالوں میں ڈاکٹر بجلی کی نایابی کے سبب موبائل کی روشنی میں آپریشن کرنے پر مجبور ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں دس بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول ہے لیکن کبھی کبھار بجلی مسلسل پانچ چھ گھنٹے تک تشریف لے جاتی ہے۔ ہمارے محبوب وزیراعظم انتخابی مہم کے دوران ایک سال اور پھر دوسال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کاوعدہ فرماتے رہے لیکن آج وہ پھر اپنےپرانے بیان کا اعادہ کرتے ہوئے وعدہ فرما رہے ہیں کہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے لوڈشیڈنگ ختم کریں گے۔ اگر لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ان کی حکومت کے خاتمے سے مشروط ہے تو کہیں لوگ حکومت کے وقت سے پہلے خاتمے کی دعائیں نہ کرنےلگیں؟قوم وعدوں پر زندہ ہے لیکن مجھے کبھی کبھی اس اندیشے سے خوف آتا ہے کہ اگر اقتصادی راہداری، سی پیک سے وابستہ خوشحالی اورگیم چینجر کی امیدیں بھی پوری نہ ہوئیں تو ہمارا کیا حشرہوگا؟

    خواب دکھاتے ہوئے مبالغے اور جھوٹ کی رنگ آمیزی سے کام لینا سیاست اور حکمرانی کا دیرینہ وطیرہ ہے۔ تاریخ کے صفحات میں جھانکیں تو شاید ہی کسی حکمران نے وعدے پورے کئے۔ وعدوں میں شاعری اورمبالغہ اپنی جگہ لیکن اس کی ایک بنیادی وجہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلیت اور کرپشن بھی تھی۔ میں نے حکومتوں میں ہمیشہ یہی دیکھا کہ حکمران مستقبل کے سہانے خواب تو دکھا دیتے تھے لیکن ان میں ان خوابوں کوشرمندہ تعبیر کرنے کی اہلیت نہیں تھی۔ حکومتی پالیسیاں ڈنگ ٹپائو، وقت گزاری، عیش و عشرت، بیرونی دورے اور پیسے بنانے میں ڈوب جاتی تھیں۔ وزیراعظم کے 68کروڑ روپوں کے غیرملکی دورے الگ۔ اب کشمیرکاز کی ترویج کے نام پر منتخب نمائندوں کو سیر و سیاحت کروا کر خوش کرنےکی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ جس سے کشمیریوں کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا البتہ غریب ملک کے خزانے کو کروڑوں روپوںکا ٹیکہ لگ جائے گا۔ اس ٹیم میں دو تین افراد کے علاوہ نہ کوئی کشمیر پر بات کرنے کا اہل ہے اور نہ ہی اس حوالے سے بیرون ملک کوئی خدمت کرسکتا ہے۔ بھلا دوست ممالک میں وفد بھیجنے سے کیا حاصل؟

    وہ تو پہلے ہی آپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس وقت کشمیر کے حوالے سے اہم ترین ضرورت ہندوستانی مظالم کو عالمی میڈیا میں اجاگر کرنا ہے تاکہ عالمی سطح پر رائے عامہ کشمیریوں کے مطالبے کے حق میں اور ہندوستان کے خلاف استوار ہو۔ کیا یہ وفود بیرون ملک میڈیا کو کشمیر کے حوالے سے قائل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جبکہ خود پاکستان پر دہشت گردی کا الزام نمایاں ہے۔ رہیں غیرممالک کی حکومتیں تو وہ اپنی اپنی حکمت ِ عملی اور تعلقات کی پابند ہوتی ہیں۔ ہمارے پارلیمانی وفد ان کی رائے تبدیل کرسکیں گے نہ حکمت عملی۔ قومی خزانے کو ان وفود پر ضائع کرنے سے پہلے ایک مربوط اسکیم کی ضرورت تھی جس پر غور و خوض نہیںہوا۔ میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ اگر پاکستان کشمیر کی تحریک ِ آزادی کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو تحریک کے جواز اور ہندوستانی مظالم کو عالمی میڈیا میں اجاگر کرنے کی حکمت عملی بنائے، عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے اقدامات کرے اور ایسے پڑھے لکھے میڈیا ماہرین کو باہر بھجوائے جو یہ کام سرانجام دینے کے اہل ہوں۔ میرا طویل تجربہ شاہد ہے کہ ہمارے پارلیمانی وفود ایک آدھ وزیر شامل کرکے اور پاکستانیوں کی ایک دو تقریبات سے خطاب کے بعد شاپنگ سے مالامال ہو کر واپس لوٹ آتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

    ذکر ہو رہا تھا کہ میں حکمرانوں کے بیانات سے صرفِ نظر کرنا بہتر سمجھتا ہوں لیکن کبھی کبھی کوئی ایسا بیان بھی پڑھنے کو مل جاتا ہے جس سے صدمہ ہوتا ہے اور سچ پوچھو تو رحم آتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان کہ چین دنیا میں پاکستان کے تشخص کا محافظ ہے….. ایک ایسا ہی بیان تھا جسے پڑھ کر مجھے بیان پر رحم آیا۔ سادگی کی انتہا ہے کہ بھلا کبھی کوئی دوسرا ملک یا قوم بھی پاکستان کے تشخص کی محافظ ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ چین ہمارا مخلص، وفادار اورقابل اعتماد دوست ہے لیکن تشخص تو ہر قوم کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ حکومت اور قوم ہی کو اس کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر چین کا تشخص ہم سے بالکل مختلف اور الگ ہے لیکن یہ موضوع بذات ِ خود کئی کالموں کا موضوع ہے۔ فی الحال اتنا لکھنا ہی کافی ہے کہ یہ بیان پڑھ کر مجھے اپنے آپ پر، پاکستانی قوم پر اور حکمرانوں پر رحم آیا اور ان کی سادگی پر آنکھیں بھیگ گئیں۔

    حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملکی تاریخ میں توانائی پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سرمایہ کاری کا حشر نندی پور پروجیکٹ سے لے کر قائداعظمؒ سولر پروجیکٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ سرمایہ کس قدر بہایا اور لگایا گیا، قومی خزانے کا زیاں کس طرح ہوا اور حاصل کیا ہوا اسے سمجھنے کے لئے ایک کیس اسٹڈی پیش خدمت ہے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ قائداعظمؒ سولر پروجیکٹ بہاولپور پر اربوں روپوں کی سرمایہ کاری ہوئی تھی، وزیراعلیٰ نے اپنے اس کارنامے پر خوب ڈھول بجوائے تھے لیکن کارکردگی یہ ہے کہ اس منصوبے سے سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی گئی تھی جبکہ اصل میں 8 سے لے کر 12میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کو پیداوار پر تقسیم کریں تو فی میگاواٹ کی قیمت سن کر قوم بے ہوش جائے گی۔ بریفنگ کے مطابق اس سولر پروجیکٹ پر چین کے چھ سو قیدی کام کرتے ہیں جن کی حفاظت کے لئے حکومت نے آٹھ سو پولیس والے تعینات کر رکھے ہیں۔ اس خبر کے آئینے میں سرمایہ کاری کے حشر، قومی خزانے کے زیاں اور مستقبل کے خوشنما وعدوں کی تکمیل کی جھلک دیکھ لیں کہ آپ خود عقلمند ہیں۔ یہ شعر اسی موقعے کے لئے کہا گیا تھا؎

    تیرے وعدے پہ جئے تو یہ جان جھوٹ جانا
    کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

  • آخری اٹھارہ ماہ ؟عمار چوہدری

    آخری اٹھارہ ماہ ؟عمار چوہدری

    emar

    میرے سامنے دو خبریں ہیں۔

    پہلی خبر وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے ہے جنہوں نے ملک بھر میں 39 جدیدترین ہسپتالوں کی تعمیرکی منظوری دے دی ہے۔ان انتالیس ہسپتالوں میں سے چھ ‘چھ سوبستروں کی گنجائش کے حامل تین ہسپتال اسلام آباد میںتعمیر کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانچ سو بستروں کے دس اور اڑھائی سو بستروں کے بیس ہسپتال قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ تمام ہسپتالوں کی تعمیرپر 110ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیراعظم نے ملک بھر میں ہسپتالوں پرپیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کا بھی عندیہ دیا۔یہ بھی کہا گیا کہ ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے مقامات کو حتمی شکل دیتے ہوئے بلوچستان ‘اندرون سندھ‘ جنوبی پنجاب‘ خیبر پختونخوا ‘فاٹا ‘آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کا سروے کیا جائے اور غربت درجہ بندی‘دورافتادگی ‘بیماریوں کا بوجھ‘سرکاری اور نجی ہسپتالوں کی موجودگی‘ صحت عامہ کے ناقص اشاریوں کو ترجیح دی جائے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان ہسپتالوں کی تمام تعمیرات آئندہ 18ماہ کے اندر مکمل کی جائیں گی۔

    اب دوسری خبر کی طرف آئیے۔

    خیبر پختونخوا حکومت نے میگا پراجیکٹ سوات موٹر وے کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جس پر35 ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے گزشتہ ہفتے سوات موٹروے کا افتتاح کیا۔ موٹروے صوابی میں کرنل شیر خان شہید انٹرچینج سے چکدرہ تک جائے گی۔اکیاسی کلومیٹر پر مشتمل اس موٹروے کا فاصلہ پینتالیس منٹ میں طے کیا جا سکے گا۔ روزانہ اٹھارہ ہزار گاڑیاں اس موٹروے کو استعمال کریں گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کے تحت اس منصوبے کا بھی اہم ترین نکتہ یہی ہے کہ یہ منصوبہ بھی 18 مہینوں میں مکمل ہو گا ۔

    ان دونوں خبروں میں جو چیز مشترک ہے‘ وہ آخری اٹھارہ ماہ ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ آخر وفاقی اور صوبائی حکومت کو یہ منصوبے شروع کرنے کا خیال اس وقت کیوں آیا جب آئندہ انتخابات میں صرف اٹھارہ ماہ باقی ہیں تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں منصوبے عوام اور ملک دونوں کے لئے سود مند ہیں اور ان کا فائدہ بالآخر عوام کو ہی ہو گا۔ مسلم لیگ ن تو اگرچہ پنجاب میں اس طرح کے کئی ترقیاتی منصوبے شروع اور مکمل بھی کر چکی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ یہ بنیادی طور پر ایسے بڑے منصوبوں کے حق میں نہ تھی اور اسی لئے اس کے سربراہ عمران خان ہر دوسرے جلسے اور بیان میں میاں صاحبان کو موٹروے جیسے منصوبوں کے طعنے ضرور دیتے تھے۔

    اسی طرح میٹرو بسوں ‘ انڈرپاسوں وغیرہ پر بھی کڑی تنقید کی جاتی رہی اور کہا جاتا کہ ایسے بڑے منصوبے عوام کی فلاح کے لئے نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کے لئے شروع کئے گئے۔ اب تین سال گزرنے کے بعد جبکہ الیکشن میں دھاندلی والا ایشو بھی دب چکا ہے‘ دھرنے کے ذریعے اقتدار میں آنے کی کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے اور پاناما لیکس پر بھی حکمران جماعت کو ٹف ٹائم
    نہیں دیا جا سکا‘تحریک انصاف کے پاس میگا پراجیکٹس کے اعلانات اور ان کی تکمیل کاہی واحد راستہ بچا تھا ۔

    عمران خان نے گزشتہ روز فرمایا‘ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔ انہیں کوئی بتائے کہ یہ فرق صرف پنجاب یا سندھ میں نہیں خیبرپختونخوا میں بھی اتنا ہی بڑھ رہا ہے ۔خان صاحب کو معلوم ہے بقایا اٹھارہ ماہ میں ان کے پاس جادو کی کوئی ایسی چھڑی موجود نہیں جس کے ذریعے وہ پسے ہوئے عوام کو خوشحال کر سکیں؛ چنانچہ کڑوی گولی کھانے کے مصداق انہیں بھی موٹروے جیسے منصوبوں کا سہارا لینا پڑا جن پر وہ گزشتہ بیس برس سے تنقید بھی کرتے آ رہے ہیں اور سفر بھی۔ اگر وہ یہ کام پہلے کر دیتے تو سوات موٹر وے سے عوام اور خطے کو فوائد اب تک ملنا شروع ہو جاتے۔ موٹروے کی تکمیل کے بعد چالیس سے زائد مقامات کی اہم اور بڑی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو جائے گی اور ان چالیس منڈیوں تک رسائی ہونے کا مطلب ہزاروں لاکھوں افراد کے معاش میں بہتری آنا ہے۔

    شکر ہے کہ آج تحریک انصاف کی حکومت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ موٹروے کے کیا فوائد ہیں اور اگر انہوں نے اس طرح کے منصوبے مکمل نہ کئے تو کہیں آئندہ الیکشن میں عوام انہیں بالکل ہی فارغ نہ کر دیں۔ غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے دوسروں پر تنقید کرنا تو بہت آسان ہے لیکن عملی طور پر ان پر قابو پانا یا انہیں کم کرنا آسان نہیں۔ عمران خان جن امیدوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے تھے‘ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا کریں گے کہ ان کے دن بدل جائیں گے اور تبدیلی کے نعرے کو عملی سانچے میں ڈھال کر اپنے لئے آئندہ الیکشن میں کامیابی کا راستہ ہموار کر لیں گے۔ ایسا تو مگر نہ ہوا البتہ اسی جماعت کی نقالی شروع کر دی گئی جس پر تنقید کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے حکمران جماعت نے بہت بڑا کارڈ کھیلا ہے۔

    وقت تو ان کے پاس بھی ڈیڑھ سال کا ہی بچا ہے لیکن وزیراعظم نے صحت جیسے اہم ایشو کو چنا ہے اور ساتھ ہی اسے کسی ایک صوبے تک بھی محدود نہیں رکھا۔ ہسپتالوں کے حوالے سے عمران خان کو زیادہ بہتر تجربہ حاصل تھا۔ وہ شوکت خانم کو کامیابی سے چلا بھی رہے ہیں‘ اپنے صوبے میں مگر وہ صحت کے شعبے میں ایسی کوئی انقلابی تبدیلی نہ لا سکے۔ وفاقی حکومت نے یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے۔ اگر واقعی ہر صوبے میں ایسے جدید ہسپتال بہترین سہولیات کے ساتھ وقت مقررہ میں مکمل کر دئیے گئے تو یہ منصوبہ جہاں عوام کو ریلیف پہنچائے گا وہاں حکمران جماعت کے ووٹ بینک میں زبردست اضافہ کرے گا۔ یہی کام خان صاحب کرتے تو انہیں بھی پذیرائی ملتی ‘ انہیںمگر ان کے دوستوں نے انہیں مخالفین پر تنقید کے نشتر برسانے اور جلسے جلوسوں میں مصروف رکھا۔ خان صاحب کو بھی احساس ہوگیا ہے کہ وقت بہت ضائع ہو چکا‘ اب کچھ کرنے میں ہی عافیت ہے۔

    میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں‘ دونوں حریفوں کی اس سیاسی جنگ میں بہرحال فائدہ عوام کو ہی پہنچے گا۔ ایسے کام اگر پہلے اٹھارہ ماہ میں کئے جاتے‘ تو یہ تنقید ان پر نہ ہوتی کہ اب الیکشن کے قریب عوام کا خیال کیوں آ گیا ہے۔ وزیراعظم کو دیکھنا ہو گا کہ ان کے اعلانات صرف اعلانات ہی نہ رہ جائیں‘ ہسپتالوں کا اتنا بڑا نیٹ ورک بنانا آسان نہیں ۔ موجودہ سرکاری ہسپتالوں کا احوال سب کے سامنے ہے۔ کرپشن ‘ٹھیکیدار اور ڈرگ مافیا سے انہیں کیسے نمٹنا ہے‘ اس کے لئے انہیں اسی جذبے سے کام کرنا ہو گا جس جذبے سے شہبازشریف میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے لئے کام کرتے ہیں۔

    محض چند تعمیراتی ڈھانچے اگر الیکشن سے قبل کھڑے کر بھی لئے گئے تو انہیں واقعتاً الیکشن سٹنٹ سے تعبیر کیا جائے گا۔ عمران خان کو بھی اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ چاہے وہ تنقید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں لیکن عوامی فلاح کے ایسے منصوبوں میں صرف اس لئے مزید تاخیر نہ کریں کہ لوگ کہیں گے کہ وہ حکمران جماعت کی نقالی کر رہے ہیں۔سنا ہے کہ تحریک انصاف میں اس معاملے میں بھی دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ایک دھڑا احتجاجی سیاست جبکہ دوسرا تعمیری سیاست پر مصر ہے۔عمران خان کو پہلے دھڑے سے خود کو بچانا ہو گا وگرنہ عوام ان کا اگلے انتخابات میں دھڑن تختہ کر دیں گے۔

  • مکی دور میں شخصی دفاع کا حق اور بدلے کی اجازت – محمد مشتاق

    مکی دور میں شخصی دفاع کا حق اور بدلے کی اجازت – محمد مشتاق

    محمد مشتاق کئی دوستوں نے دو باتوں کا بار بار ذکر کیا ہے۔ ایک یہ کہ مکہ میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہیں تھی اور دوسری یہ کہ جہاد ریاست کا کام ہے۔ ان دونوں باتوں کو جتنا سادہ بنا کر اور ’’مسلمات‘‘ کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے، ایسا ہے نہیں۔ پہلے تو اس پر غور کریں کہ کیا جنگ کی اجازت نہ ملنے اور دفاع کا حق ملنے میں کوئی تعارض ہے؟ اگر ہاں تو پھر اسے کیا کہیں گے کہ مکی دور کے درمیان میں دفاع کا حق اور برابر کے بدلے کا حق تو مسلمانوں کو دے دیا گیا تھا؟ سورۃ النحل کی آیت ہے: ’’و ان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ۔‘‘ یہ مکی سورت اور مکی آیت ہے اور مولانا اصلاحی کی تحقیق کے مطابق اس سورت کا نزول سورۃ الانعام سے بھی پہلے ہوا تھا، گویا مکی دور کے درمیان میں مسلمانوں کو دفاع اور بدلے کا حق دے دیا گیا تھا۔ پھر سورۃ الشوری جو مکی دور ہی کی سورت ہے لیکن نسبتاًً بعد کے دور کی، اس میں مسلمانوں کی خصوصیت یہ ذکر کی گئی کہ ان پر ظلم ہوتا ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں: و الذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون۔ اور آیات کا سیاق و سباق دیکھیں تو نظم کی گواہی یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کو دفاع کے لیے اجتماعی طریقہ اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے کیوں کہ اس سے پہلے مسلمانوں کی یہ خصوصیت بھی ذکر کی گئی : ’’و امرھم شوری بینھم۔‘‘ واضح رہے کہ یہ حکم مدنی دور کے لیے نہیں بلکہ مکی دور کے لیے تھا اور اس سورت کے بعد بھی مسلمان کافی عرصہ مکہ میں ہی مقیم رہے اور سیرت کی کتابیں شاہد ہیں کہ انھوں نے ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے کئی طریقے وضع بھی کرلیے تھے۔ اب ذرا غور کریں اس بات پر کہ مکہ میں مسلمانوں کو اس وقت دفاع اور بدلے کی اجازت دی گئی جب ابھی ان کی تعداد سیرت نگاروں کی تحقیق کے مطابق بہ مشکل ساڑھے سات سو تھی!

    پھر مزید غور کریں کہ جو لوگ ریاست کے بغیر جہاد کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ مکہ میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہیں تھی، انھی دوستوں کا موقف یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جہاد ایک خاص نوعیت کا تھا اور اس کے ذریعے دراصل آپ کے منکرین کو اتمام حجت کے بعد خداوندی عذاب دیا جا رہا تھا اور ان دوستوں کا موقف یہ بھی ہے کہ اتمام حجت کے بعد ہی رسول کو ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے! تو بھئی اگر یہ اتمامِ حجت اور رسول کے منکرین پر عذاب کا معاملہ تھا تو ابھی جب اتمام حجت ہوا ہی نہیں تھا اور ہجرت ہوئی ہی نہیں تھی تو عذاب کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس سے ان مظلوموں کی جدوجہد کیسے غلط ثابت ہوتی ہے جو ظالم کے خلاف منظم دفاع کرنا چاہتے ہیں؟ جب رسول کا جہاد sui generis ہے تو اسے sui generis ہی رہنے دیں۔

    باقی رہا ریاست کا معاملہ ، تو وہ زیادہ تفصیلی بحث چاہتا ہے کیوں کہ اسلامی قانون ’’ریاست‘‘ نام کے ’’فرضی شخص‘‘ (fictitious person) کو جانتا ہی نہیں ہے۔ قرآنی آیات، رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور فقہائے کرام کی تمام بحث’’امام‘‘ یعنی حکمران کے ارد گرد گھومتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ اسے حکومت قرار دے سکتے ہیں۔ ریاست ایک بالکل ہی مختلف تصور ہے جو اسلامی قانون کے لیے اجنبی ہے۔ اس اجنبی تصور کو لے کر اسلامی قانون کے اصول و قواعد کی طرف دیکھنے سے ہی وہ بہت سی الجھنیں پیدا ہوئی ہیں جن میں اس وقت ہماے بیشتر دانشور مبتلا ہیں۔ اس تصور پر میں الگ سے بحث کروں گا، اگر اللہ نے توفیق دی۔ فی الوقت صرف اتنی گزارش ہے کہ سوال کو reframe کریں۔ بجائے اس کے کہ یہ پوچھیں کہ ریاست کے بغیر جہاد ہوسکتا ہے یا نہیں، یہ سوال کریں کہ حکومت کے بغیر جہاد ہوسکتا ہے یا نہیں؟

  • بروٹس! خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں-ہارون الرشید

    بروٹس! خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں-ہارون الرشید

    m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed

    اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے ”کلکم راع وکلکم مسئول‘‘۔ ہر شخص تم میں سے حاکم ہے اور ہر شخص تم میں سے جواب دہ! سب ذمہ دار ہیں‘ ہم سب!

    اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ابراہیم لوٹ آیا ہے۔ شدید گھبراہٹ کا وہ شکار ہے اور پولیس افسروں کا کہنا ہے کہ ذہنی دبائو سے بچانے کے لیے اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے۔ کم از کم اگلے دو دن تک۔ فیصل آباد کی پولیس نے غیرمعمولی ذمہ داری ہی نہیں‘ دردمندی کا بھی مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر ریجنل پولیس افسر بلال کمیانہ اور ڈی پی او افضال کوثر نے۔ ہمیشہ یہ خاندان ان کا شکرگزار رہے گا۔ مسلسل اور متواتر کئی ٹیمیں تلاش میں مصروف رہیں۔ آخرکار اسے ڈھونڈ نکالا۔

    ابھی کچھ دیر پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر سے ایک دوست نے فون کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بے شک اغوا کے واقعات ہو رہے ہیں اور اس بات میں پولیس کے مؤقف کو من و عن تسلیم نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم دو پہلو اس کے سوا بھی ہیں۔ ماں باپ کی سخت گیری کا شکار زیادہ تر کمسن خود گھروں سے بھاگتے ہیں۔ ان میں سے بعض جونشے کی لت کا شکار ہوتے ہیں‘ جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پھر حکومت سے نفرت کرنے والے ہیں‘ منصوبہ بندی کے ساتھ جو مبالغہ آرائی کرتے اور مہم چلاتے ہیں۔ کچھ تصاویر انہوں نے بھیجیں کہ ملائشیا کے بچوں کو پنجابی بنا کر سوشل میڈیا پر الزامات کی بارش کی گئی۔ ایک سیاسی لیڈر کا نام بھی لیا کہ ایسے لوگوں کی وہ حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کرتے ہیں۔

    عرض کیا: بنیادی مسئلہ اور ہے۔ پاکستان کی پولیس‘ سرے سے پولیس ہی نہیں۔ نیویارک اور لندن حتیٰ کہ جدہ‘ دبئی اور خرطوم میں ریاست کی پوری قوت کانسٹیبل کی پشت پر ہوتی ہے۔ قانون کیایک چھوٹی سی خلاف ورزی پر بھی‘ اگر وہ دھرلے تو آسانی سے قصوروار بچ نہیں سکتا۔ پاکستان میں پولیس افسر سرے سے افسر ہی نہیں‘ ”ملازم‘‘ ہے۔ طاقتوروں کے رحم و کرم پر۔ اخبار نویس‘ جج اور ایم پی اے سے ڈرائیونگ لائسنس تک طلب نہیں کیا جا سکتا۔ اس ملک میں جو دہشت گردی کا شکار ہے‘ اس بے نیازی کے متحمل ہم کیسے ہو سکتے ہیں؟ ترک پولیس‘ بغاوت کرنے والے فوجی اگر گرفتار کر سکتی ہے تو پاکستان میں یہ کیوں ممکن نہیں کہ بارسوخ لوگ بھی کسی نہ کسی درجے میں‘ اس کے خوف کا شکار ہوں۔ خوف ایک ہتھیار ہے‘ جو سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے‘ انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں‘ کارِ سرکار میں بھی۔

    سرما کے گزشتہ موسم میں وزیراعلیٰ شہبازشریف سے ملاقات ہوئی تو ان سے عرض کیا تھا کہ 1999ء کے بعد اب تک پولیس میں بہتری کے لیے کوئی ایک قدم بھی وہ کیوں نہ اٹھا سکے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ خاموشی سے وہ سنتے رہے۔ سندھی لیڈروں کی طرح تاویل کی کوشش نہ کی کہ قائداعظم کے زمانے میں بھی کرپشن ہوا کرتی تھی‘ بدامنی کے واقعات ہوا کرتے۔ پانچ برس ہوتے ہیں‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خواہش پر ایوان وزیراعظم جانا ہوا تو بڑھتی پھیلتی کرپشن اور سرکاری وسائل کے ضیاع پر متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے جواب کا خلاصہ یہ تھا۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا۔ پتھر کے دل‘اس معاشرے کا کیا ہوگا جس کے رہنمایہ انداز فکر اختیار کرلیں۔ ٹی وی پرابھی کچھ دیر قبل لطیف کھوسہ فرما رہے تھے کہ شریف خاندان امانت و دیانت سے محروم ہے۔ اقتدار میں رہنے کا ہرگز اسے کوئی حق نہیں۔ سبحان اللہ‘ آصف علی زرداری تو صلاح الدین ایوبی ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کے دوست اگر ناراض نہ ہوں تو سوال یہ ہے کہ اس میں خبر کیا ہے؟ پیپلزپارٹی کا ایک لیڈر اور وہ بھی جناب لطیف کھوسہ ایسی ذات گرامی‘ اگر کرپشن کی بات کرے تو ناظرین کا وقت ضائع کرنے کا جواز کیا ہے ؎

    یہ امت روایات میں کھو گئی
    حقیقت خرافات میں کھو گئی

    کوئی احساس نہیں‘ ادراک نہیں‘ نتیجہ یہ کہ کوئی تجزیہ ہی نہیں‘ کوئی منزلِ مراد ہی نہیں ؎

    اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
    دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی

    سب جانتے ہیں کہ آدم کی اولاد نے تین بنیادی مقاصد کے لیے حکومت کا ادارہ تشکیل دیا تھا۔ امن و امان کا قیام‘ انصاف کی فراہمی اور ملک کا دفاع۔ انفرادی صلاحیتوں کا فروغ‘ معاشی و علمی ترقی‘ صحت اور آزاد خارجہ پالیسی کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ مملکت خداداد میں قومی دفاع کے سوا‘ کس خبر پر کبھی توجہ دی گئی۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک گیریژن سٹیٹ ہے تو ایک اعتبار سے بالکل درست ہے۔ سول ادارے دولے شاہ کے چوہے بن کر رہے گئے۔ خالد لونگو‘ رانا مشہود اور شرجیل میمن ایسے وزیر ملک پر مسلط ہوگئے۔ بگاڑ اورپیہم بگاڑ کے سوا پھر کیا حاصل ہوگا؟ زرداری صاحب کو شرجیل میمن اب بھی عزیز ہیں اور شہباز شریف رانا مشہود کے محافظ ہیں تو ان کی جمہوریت کو کیا شہد لگا کر چاٹا جائے۔ میاں محمد نواز شریف کا ایک عالم فاضل وزیر اشتہاری مجرم پالتا اور ان کے بل پر انتخابی مہم چلاتا ہے ؎

    خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
    آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی

    حکمران ہی نہیں‘ اپوزیشن پارٹیوں کا عالم بھی یہی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے ایک مجبور خاندان کی جائیداد پر قبضہ جما رکھا ہے۔کوئی شنوائی نہیں‘ کوئی شنوائی نہیں۔

    کوئی معاشرہ‘ تہذیب‘ ترقی اور بالیدگی کی راہ پہ سفر کا آغاز ہی نہیں کر سکتا‘ اگر اس کی پولیس اور عدالتوں سے انصاف کی امید نہ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ‘ ترجیحات کا تمام تر انحصار‘ چند افراد‘فی الجملہ شاہی خاندان پہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کا رونا بہت ہے اور اس کے ”حسن‘‘ کا تذکرہ بے حد مگر اسمبلیوں کی کوئی سنتا ہے اور نہ کابینہ کی۔ اقبال نے چیخ کر کہا تھا ؎

    دیو استبداد اور جمہوری بقا میں پائے کوب
    تو سمجھتاہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

    قائد اعظم اور ان کے چند ساتھیوں‘ مہاتما گاندھی اور ان کے چند رفقا کی مستثنیات کے سوا‘ برصغیر کا سیاستدان اکثر پست رہا۔ آزادی کی تحریک نے لاکھوں نہیں تو ہزاروں اجلے سیاسی کارکن پیدا کیے‘مگر یہ غلیظ اشرافیہ۔ ان کی مگر کم ہی تربیت کی گئی۔ کارکنوں کی صلاحیت سے کم ہی فائدہ اٹھایا گیا۔ برصغیر میں قانون کی تقدیس کا تصور کبھی گہرا نہ ہو سکا۔ آج نہیں‘ لگ بھگ پون صدی پہلے اقبال نے کہا تھا ع

    ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست

    بیٹھے بٹھائے ایک دن میاں محمد شہباز شریف نے پولیس والوں اور پھر ججوں کی تنخواہیں دو گنا کر دیں۔ کس لیے‘ کس بنیاد پر؟۔ غورو فکر کے بغیر‘ مشاورت کے بغیر‘ منصوبہ بندی کے بغیر فرد واحد جب فیصلے فرمائے گا تو نتیجہ یہی ہو گا۔

    لاہور اسلام آباد موٹر وے‘ اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ اسی پنجاب پولیس کے انسپکٹر وہاںاپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پھر قانون وہاں کیوں نافذ ہے؟اس لیے کہ موٹر وے پر قانون کے دائرے میں‘ آزادی عمل انہیں حاصل ہے۔ عقل کے اندھے ہیں کہ غور نہیں کرتے۔ شیکسپیئر کا وہ جملہ: بروٹس خرابی ہمارے ستاروں میں نہیں‘ ہم میں ہے۔

    یہ ہمارے لیڈر ہیں‘آئین اور قانون کی عمل داری جو قائم نہیں ہونے دیتے… اور یہ ہم ہیں جو ان کا احتساب نہیں کرتے۔ ہم سب ذمہ دار ہیں ‘ ہم سب۔

    اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے” کلکم راع و کلکم مسئول‘‘۔ ہر شخص تم میں سے حاکم ہے اور ہر شخص جواب دہ!
    پس تحریر: ٹی او آر کمیٹی سے ایم کیو ایم بھاگ گئی۔ بابر غوری اور فاروق ستار سے اسحق ڈار کا رابطہ ہے۔ دبئی میں آصف علی زرداری سے بھی وہ مل چکے ۔ سیاسی حکمت عملی تشکیل دینے والے بزرجمہر بدلتی ہوئی صورتحال کو سمجھ رہے ہیں ؟

  • بچوں کا اغوا اور قوم کی بےحسی – افشاں فیصل شوانی

    بچوں کا اغوا اور قوم کی بےحسی – افشاں فیصل شوانی

    مسلسل حادثات کی وجہ سے قوم کے اندر ایک عجیب بےحسی پیدا ہو چکی ہے، کوئی خبر بڑی نہیں لگتی، کوئی حادثہ اثرانداز نہیں ہوتا جب تک کہ خدانخواستہ اپنے ساتھ پیش نہ آ جائے۔ کسی قوم میں اتنی بےحسی نہیں ہونی چاہیے، اگر احساس ہی ختم ہو جائے تو انسان اور جانور میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔

    پنجاب کے مختلف شہروں بالخصوص لاہور میں پچھلے دنوں کئی گھروں کے چراغ بجھا دیے گئے، کئی ماؤں کی گود اجڑ گئی مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ عوام سے لے کر حکمرانوں تک سب نے اس حادثہ کو ایسے جذب کر لیا جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو. کسی کو پرواہ ہی نہیں کہ کتنے گھرانے معصوم بچوں سے محروم ہو گئے ہیں، ہمارے بچے، ہماری قوم کا مستقبل کس قدر خطرے میں ہے؟ اگر بچے اپنے ہی ملک میں محفوظ نہیں تو پھر انھیں جائے پناہ کہاں ملے گی۔

    ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ان معصوم کلیوں کا یہ حال کر رہے ہیں، اب تک کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ ڈبوں میں لپٹے اسمگل کیے جانے والے بچوں کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں، وہ لرزا دینے والی ہیں، اگر ایک چیف جسٹس کے بیٹے کے لیے پوری حکومتی مشینری حرکت میں آ سکتی ہے تو ان معصوم بچوں کی حفاظت اور ان کے مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھایا جا سکتا؟ کیا یہ ملک صرف وی آئی پیز کےلیے . ان مجرموں کے خلاف باقاعدہ آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا. اولاد تو سب کی سانجھی ہوتی ہے، بچے کسی جنرل کے ہوں، جج کے ہوں، کسی حکمرانوں کے یا عوام کے، ہر بچہ ایک جیسا قیمتی ہے. اولاد کا درد ہر ماں کے دل میں ایک جیسا ہوتا ہے ۔

    قوم کے مستقبل کو اس طرح نقصان پہنچانے والوں اور ماؤں کی گود اجاڑنے والے ان درندوں کی اس درندگی کو روکنا بہت ضروری ہے. انھیں محفوظ ماحول اور مضبوط مستقبل دینے کی ذمہ داری حکومت کی ہے مگر ساتھ ہی والدین کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بچوں کو کہیں بھی اکیلا نہ چھوڑا جائے کہ احتیاط لازم ہے اب۔ اللہ ہر ماں کے لخت جگر کی حفاظت فرمائے. آمین

  • حکومت گرانے کا آسان طریقہ-سلیم صافی

    حکومت گرانے کا آسان طریقہ-سلیم صافی

    saleem safi

    وقت ثابت کرے گا کہ وہ لوگ غلطی پر تھے جو آزاد کشمیر انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جیت یا پھر پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابیوں کو اس جماعت کی مقبولیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ اس کی مقبولیت نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی عدم مقبولیت اور تحریک انصاف کی ناقص سیاست کا ثبوت ہے ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر ریفرنڈم کرایا جائے تو شاید ہی مسلم لیگ(ن) کو دس فی صد عوامی تائید حاصل ہو لیکن اگر انتخابی مقابلہ ہو تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو یہ جماعت ضرور شکست دے گی ۔گویا مسلم لیگ(ن) کی حکومت اپنی خوبیوں کے ساتھ نہیں بلکہ مخالفین کی خامیوں کے سہارے قائم ہے ۔ ورنہ تو یہ حکومت اپنا اخلاقی جواز بھی کھو چکی ہے اور شاید آئینی بھی (دھرنوں کے ڈراموں اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اپوزیشن نے میاں صاحب کے خلاف عدالتی اور قانونی جنگ پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی ورنہ تو کب کے ان کے حسب منشا نتائج برآمد ہوچکے ہوتے)۔

    مخالفین کہتے ہیں کہ مقبولیت کے زعم میں اللہ نے میاں صاحب کو سیاسی خودکشی کی ایسی بے پناہ صلاحیت دی ہوئی ہے کہ وہ عموماً انہی شاخوں کو کاٹتے ہیں جن پر وہ خود تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ پارلیمنٹ جس کے وہ قائد ایوان ہیں کو وہ ذرہ برابر وقعت نہیں دیتے ۔ اب کی بار تو اپنی کابینہ سے بھی الرجک ہیں اور اس کا اجلاس بلانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے ۔ پہلے صرف چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتیوں پر قناعت کرلیتے تھے لیکن اب کی بار تو سرائیکستان اور بہاولپور کے ساتھ بھی سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا ہے ۔ پارٹی جس کے وہ اپنے آپ کو قائد کہتے ہیں ، کو اقتدار میں آتے ہی معطل کرچکے ہیں لیکن اب پارلیمانی پارٹی کے اراکین کو بھی ان کی زیارت کے لئے ڈھائی سال کا انتظار کرنا پڑا ۔گویا میاں صاحب تسلسل کے ساتھ کوشش کرکے ،اپنی مقبولیت اور حکومت کی قبر کھود رہے ہیں لیکن اسکرپٹ والے گورکن تدفین کا فن جانتے ہیں اور نہ سیاسی مخالفین میں اس کو مارنے اور مقبرے تک لے جانے کی صلاحیت موجودہے ۔

    پیپلز پارٹی کی قیادت نے گزشتہ پانچ سال کے دوران بدترین حکمرانی کے ذریعے (جس کا اب بھی سندھ میں تسلسل جاری ہے ) جس طرح خود اپنی جماعت کو قبر میں دفن کیا ہے ، اب خود اس کا اٹھنا مشکل ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف کی قیادت کی، اپنی سیاست کی قبر خود کھودنے کی صلاحیت ، میاں صاحب سے بھی زیادہ ہے ۔ اس کے پاس موقع تھا کہ خیبر پختونخوا کو اچھی حکمرانی کے ذریعے مثال بناتی لیکن اس نے سیاست کی طرح حکمرانی کو بھی ڈرامہ بنا دیا۔ میاں صاحب دھرنوں سے قبل حسب عادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چھیڑخانی کررہے تھے اور اگر بے وقت دھرنوں کی وجہ سے وہ ہر طرح کی جمہوری قوتوں کی ہمدردی کا مستحق نہ بنتے اور یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے گریبان میں جانے والے ان کے ہاتھ الٹے قدموں کی طرف نہ جاتے تو کب کی ان کی حکومت ختم ہوچکی ہوتی ۔

    مخالف حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاناما لیکس سے قبل انہوں نے عدلیہ کے ساتھ جنگ کے لئے بھی سازوسامان تیار کیا تھا اور وہ جنگ بھی ان کو مہنگی پڑتی لیکن مخالفین کے بے وقت شوروغوغا اور دھمکیوں کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹ گئے ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے میں میاں نوازشریف مجرم ہیں اور اگر میرٹ پر فیصلہ ہو تو عدالتوں سے ان کا بچنا مشکل ہے لیکن اس محاذپر توجہ دینے کی بجائے اب تحریک انصاف وغیرہ دوبارہ احتجاج کا راستہ اختیار کرکے عوام کی نفرتوں کو سمیٹنا اور نواز حکومت کو سہارا دینا چاہتی ہیں۔ خان صاحب کا فرمان ہے کہ انہیں کنٹینر پر چڑھنے کا شوق نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں ان کے ذہن پر یہی دو شوق سوار ہیں ۔ وزیراعظم بننے کا شوق اور کیمروں کی موجودگی میں کنٹینر پر چڑھ کر لمبے لمبے خطاب کرنے کا شوق ۔ ورنہ تو نواز حکومت کی رخصتی کے کئی دیگر اور آسان طریقے موجود ہیں اور خود خان صاحب تو دنوں میں اس کو ختم کرسکتے ہیں ۔

    آج اگر خان صاحب پرویز خٹک کو کہہ کر صوبائی اسمبلی تڑوا دیں اور پی ٹی آئی کے ممبران ،قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں (حالانکہ وہ پہلے ہی استعفے دے چکے ہیں اور غیرقانونی اور غیراخلاقی طور پربے شرمی کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھ کر ناجائزمراعات لے رہے ہیں ) تو کونسی قوت نواز شریف کی حکومت بچاسکے گی۔ یوں بھی خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت اور پارٹی دھڑے بندیوں کاشکار ہے اور اس طریقے سے ان کی جماعت کا پردہ رہ جائے گا۔ پھر اگر پیپلز پارٹی کے اراکین بھی مستعفی ہوجائیں تو اسمبلی اور نوازحکومت کا برقرار رہنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔اسی طرح ایم کیوایم کے اراکین بھی ماضی میں استعفے دے چکے ہیں اور اگر پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی آمادہ ہو تو ایم کیوایم مستعفی ہونے میں دیر نہیں لگائے گی۔ ویسے بھی مسلم لیگ(ن) ہی کے ظفر علی شاہ استعفوں کا معاملہ عدالت میں لے جاچکے ہیں اور انہوں نے یہ موقف اپنایا ہے کہ پی ٹی آئی اور ایم کیوایم کے ممبران مزید اسمبلی کے ممبر نہیںرہے ہیں ۔ اب اگر عدالت میں اس کیس کو سنا جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ بغیر کسی الزام کے ان لوگوں کی قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں سے چھٹی ہوجائےگی ۔

    گزشتہ دھرنوں کو بھی عوام کی اکثریت کی تائید اس لئے حاصل نہیں ہوئی کہ پی ٹی آئی کی اخلاقی پوزیشن نہایت کمزور تھی اور موقف میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو والا تھا۔ لوگ یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ان سے قربانی کا مطالبہ کرنے والے عمران خان اپنی صوبائی حکومت کیوں نہیں چھوڑ دیتے ۔ اس مرتبہ تو دھرنوں میں صرف کارکن ہی ہوں گے اور عوام کی دلچسپی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ عوام یہ سوال اٹھائیں گے کہ ہم سے اپنے کاروبار چھوڑ کر سڑکوں پر ڈنڈے کھانے جیسی قربانی کا مطالبہ کرنے والے لیڈران خود اسمبلی رکنیت کی قربانی دے کر حکومت گرانے کا آسان راستہ کیوں نہیں اپناتے ۔ ہم جیسے لوگ بھی یہ رائے دیں گے کہ خان صاحب اور بلاول صاحب کو خود اپنی تحریک کی کامیابی اور حکومت کی رخصتی کا یقین نہیں ، اس لئے اسمبلیوں سے نہیں نکلتے ۔ ہاں اگر انہوں نے سڑکوں پر آنے سے پہلے اسمبلیوں سے استعفے دیدئے اور پختونخوا اسمبلی تحلیل کردی تو ہمیں بھی ان کی سنجیدگی کا یقین ہوجائے گا اور حکومت کے پائوں بھی اکھڑ جائیں گے ۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ خان صاحب اور بلاول صاحب حکومت گرانے کا یہ آسان راستہ نہیں اپنائیں گے کیونکہ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وہ نہ تو پاناما لیکس کے حوالے سے بلند ترین اخلاقی مقام پر فائز ہیں اور نہ انہیں کامیابی کا یقین ہے تو پھر احتجاج کے ذریعے اپنا ، قوم کا اور ریاست کا وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی بجائے درمیانہ راستہ کیوں نہیں اپنایا جاتا اور وہ ہے عدالتوں کا راستہ ۔

    احتجاجی سیاست کے معاملے میں پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف، اے این پی ، جماعت اسلامی اور ایم کیوایم جیسی قوتیں ایک صفحے پر نہیں آسکتیں لیکن اگر پاناما جیسے ایشوز پر عدالتی جنگ ہو تو یہ جماعتیں مشترکہ حکمت عملی بھی طے کرسکتی ہیں اور اگر بھرپور عدالتی جنگ منظم انداز میں لڑی گئی تو نوازشریف اور ان کی حکومت کا بچنا محال ہوجائے گا ۔ لیکن اگر یہ تکلیف نہیں اٹھاسکتے تو پھر سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپوزیشن آرام سے بیٹھ جائے ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیاد ت تنظیم سازی پر توجہ دے۔ قادری صاحب خواہ مخواہ کے تکلف کی بجائے اب کی بار پاکستان کی پکنک ختم کرکے واپس کینیڈا تشریف لے جاکر ایک آدھ کتاب اور لکھ دیں اور اگلے سال کے لئے خطابات تیار کریں ۔ اگر ان لوگوں نے آرام سے حکومت کرنے دی تو میاں صاحب الحمدللہ خود اپنے لئے کافی ہیں ۔ وہ انشاء اللہ اپنی حکومت چند ماہ میں ہی ختم کرکے رکھ دیں گے ۔ اب تو شاید وہ ہفتوں یا دنوں میں ختم کروا دیں کیونکہ اپوزیشن کے خیا ل میں اب تو وہ اپنے آپ کو پاکستان کا طیب اردوان سمجھتے ہیں ۔