Tag: بیوی

  • جو پاس ہے اس کی قدر کرو – راحیلہ ساجد

    جو پاس ہے اس کی قدر کرو – راحیلہ ساجد

    واہ ، کیا لہجہ تھا ، کتنی ملائمت تھی لہجے میں، اور بات کرنے کا انداز کتنا دلکش تھا؟ حامد تو شام سے ہی اسی سحر میں کھویا ہوا تھا۔ اس کی بیوی نے کھانا لا کر سامنے رکھ دیا تو اس نے چپ کر کے کھا لیا، نہ کوئی اعتراض نہ غصہ۔ چائے لا کر دی تو چپ کر کے پی لی، نہ چینی کم کا واویلا اور نہ زیادہ کی شکایت۔ حمنہ حیران تو بہت ہوئی مگر کہا کچھ نہیں۔ آج میاں صاحب کہیں اور ہی گم تھے۔

    قصہ کچھ یوں تھا کہ 6 ماہ پہلے وہ اس کی فرینڈ لسٹ میں شامل ہوئی تھی۔ پہلے تین ماہ تو لائکس اور کمنٹس تک ہی بات رہی، پھر ان باکس میں ہلکی پھلکی سلام دعا شروع ہوئی جو روزانہ کی گپ شپ میں بدل گئی۔ اب کام سے واپس آ کر کھانا کھاتا، چائے پیتا اور موبائل پر فیس بک کھول کر بیٹھ جاتا۔ جونہی حلیمہ آن لائن ہوتی تو وہ اسے سلام بھیج دیتا اور بس، پھر وہ ہوتا اور حلیمہ۔ باتوں میں دو گھنٹے گزر جاتے اور جب دونوں تھک جاتے تو ایک دوسرے کو خداحافظ کرتے۔ اس دوران کسی قسم کی ڈسٹربنس اسے غصہ دلا دیتی اور بیوی کو خواہ مخواہ کی جھاڑ پلا دیتا۔

    حمنہ اس کے بدلتے رنگ ڈھنگ دیکھ رہی تھی۔ کچھ دن تو خاموش رہی لیکن ایک دن حامد کا اچھا موڈ دیکھ کر پوچھ ہی لیا کہ ”کیا وجہ ہے، آپ اب میری طرف بہت کم دھیان دیتے ہیں، بہت غصہ کرتے ہیں اور روزانہ اتنا وقت موبائل پر لگا دیتے ہیں.“ حامد نے کہا ”دیکھو ڈئیر! تم بہت اچھی ہو، میں تم سے بالکل بھی ناراض نہیں ہوں۔ بس ڈسٹرب کرتی ہو تو غصہ آ جاتا ہے۔ میں تمہارے سارے کام تو کرتا ہوں۔ سودا سلف بھی لا دیتا ہوں، بچوں کے ساتھ بھی وقت گزارتا ہوں، تمہارے حقوق بھی پورے کرتا ہوں اور اگر اس کے بدلے میں شام کا کچھ وقت موبائل پر مصروف رہتا ہوں تو مجھے اس کی اجازت تو ہونی چاہیے نا.” حمنہ یہ سن کر خاموش ہو گئی۔ لیکن اس کے دل کی خلش نہ گئی۔

    دن گزرتے گئے حامد، حمنہ اور بچوں کی طرف سے لاپرواہ ہوتا گیا اور گھر پر توجہ کم ہوتی گئی۔ حلیمہ سے بات کا دورانیہ بڑھنے لگا۔ حلیمہ نے اسے بتایا کہ وہ اکیلی رہتی ہے، اس کا آگے پیچھے کوئی نہیں، شام کو فیس بک پر وقت گزارتی ہے۔ دن میں آفس میں ہوتی ہے۔ دن گزرتے گئے، شناسائی بڑھتی گئی۔ پھر تصاویر کا بھی تبادلہ ہوا۔ حامد نے اسے 30 سال کی عمر والی تصویر بھیجی اور خوب داد سمیٹی۔ حلیمہ کی عمر بھی کوئی 22، 23 سال کی ہوگی. حامد تو دل و جان سے اس پر فدا ہو گیا۔ اسے حمنہ بری لگنے لگی۔ نہ پہننے کا سلیقہ، نہ اوڑھنے کا۔ بڈھی مائی کی طرح سر ڈھانپی رکھتی ہے۔ رنگ دیکھو جیسے مہینوں منہ نہ دھویا ہو۔

    اب وہ حلیمہ سے میسنجر پر بات کرنا چاہتا تھا۔ حلیمہ نے بھی کوئی خاص پس و پیش نہ کی۔ اور یوں آج ان کی بات ہوئی اور بس تب سے حامد ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ اس کی آواز کی ملاحت اس کے کانوں میں ابھی تک رس گھول رہی تھی۔ اب تو روزانہ وہ موبائل لے کر چھت پر چڑھ جاتا اور اس سے باتیں کرتا رہتا۔ حمنہ یہ سب دیکھ رہی تھی اور سمجھ بھی چکی تھی کہ کسی عورت کا چکر ہے۔ وہ رونے کڑھنے کے علاوہ صرف اللہ سے میاں کی واپسی کی دعا کر سکتی تھی جو وہ کر رہی تھی۔

    حامد جس فرم میں کام کرتا تھا، اس کی طرف سے اسے آج لاہور جانا تھا، وہ دشمن جاں بھی لاہور میں ہی رہتی تھی۔ حامد نے سوچا، لاہور پہنچ کر اسے بتاؤں گا اور ملنے کے لیے کہوں گا۔ ڈوسرے دن وہ ڈائیوو سے لاہور پہنچ گیا۔ کام سے فارغ ہو کر وہ اور اس کا دوست شام کو فورٹریس کی طرف گھومنے پھرنے نکلے۔ ان سے آگے آگے ایک فیملی چل رہی تھی۔ خاتون کے کپڑے چڑمڑ ہو رہے تھے جیسے بغير استری کے پہن لیے ہوں۔ اور بال بندھے ہونے کے باوجود ادھر ادھر سے ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اس نے بچہ اٹھایا ہوا تھا، وہ کبھی ایک ہاتھ سے بچے کو سنبھالتی اور کبھی دوسرے ہاتھ سے لٹ کو کان کے پیچھے اڑستی۔ مرد نے ایک بچے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور تیسرا بچہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اچانک بچہ ہاتھ چھڑا کرایک آوارہ اڑتے غبارے کے پیچھے بھاگا۔ خاتون چیخی۔”احسن پکڑو اسے۔ ایک بچہ نہيں سنبھالا جا رہا تم سے۔ مجال ہے جو کوئی فکر ہو۔“ حامد کو آواز کچھ جانی پہچانی لگی۔ لیکن وہ اسے وہم سمجھا۔

    وہ فیملی دکان میں گھس گئی۔ حامد کا دوست بھی اسی دکان ميں داخل ہوا تو حامد کو بھی جانا پڑا۔ اچانک اپنے پیچھے سیلزمین سے بات کرتی خاتون کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی، وہی لہجہ، وہی آواز، وہی انداز۔ چونک کر مڑا تو دیکھا کہ وہی بچوں والی خاتون سیلزمین سے بات کر رہی تھی اور اب تو وہ سائیڈ سے چہرہ بھی دیکھ سکتا تھا۔ یہ تو وہی تھی، حلیمہ۔ لیکن یہ ویسی تو نہ تھی جیسی تصویر میں تھی۔ تصویر تو شاید 22 سال کی عمر کی تھی اور اب وہ کم ازکم 40 کے آس پاس اور قدرے موٹی تھی۔ رنگ بھی شاید کچھ سنولا گیا تھا۔ حامد تو حیران پریشان اپنے خوابوں کے محل ٹوٹتے دیکھ رہا تھا۔ اس نے تو نجانے کیا کیا پلان کر لیا تھا، اپنی توند اور گنجے ہوتے سر اور 40 کی عمر کو بھلا کر وہ خود کو 28، 30 سال کا جوان سمجھ بیٹھا تھا اور حلیمہ کو سہارا دینا چاہتا تھا۔

    وہ دوست کو اشارہ کر کے باہر نکل آیا۔ اب وہ جلد از جلد یہاں سے دور جانا چاہ رہا تھا مبادا وہ اسے دیکھ لے۔ دوسرے دن وہ گھر پہنچا۔ حمنہ اسے اسی طرح ملی انتظار کرتی ہوئی، تیار، سر پر دوپٹہ رکھے، مسکراتی ہوئی۔ آج اسے حمنہ پہلے کی طرح سمارٹ اور خوبصورت دکھائی دی۔ اس نے بچوں کے گفٹس ان کو دیے، مل کر کھانا کھایا اور گپیں لگاتے رہے. اور اس کے بعد حمنہ نے اسے کبھی موبائل پر لمبے وقت کے لیے مصروف نہیں دیکھا۔

    ممکن ہے کچھ لوگوں کو یہ افسانہ لگے لیکن یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا شکار آج کل کے کئی شادی شدہ جوڑے بن رہے ہیں۔ خدا کے لیے موبائل، انٹرنیٹ کو اپنی زندگی پر اتنا اثر انداز نہ ہونے دیجیے اور نہ ہی دوسروں سے وہ رشتے بنائیں جس کی نہ اسلام میں اجازت ہے نہ معاشرتی لحاظ سے۔ اور ان رشتوں کی قدر کیجیے جو آپ کے آس پاس، آپ کے ساتھ ساتھ ہیں۔

  • بےچارے مرد کی مظلومیت کی داستان – طاہرہ عالم

    بےچارے مرد کی مظلومیت کی داستان – طاہرہ عالم

    %d9%85%d8%b7%db%81%d8%b1%db%81 ہوش سنبھالنے سے پہلے سے آنکھوں نے عورتوں کو مظلوم کی دیوی اور مرد کو ظلم کا دیوتا دیکھا. کیا مرد مظلوم نہیں ہو سکتا؟ یہ سوال ذہن میں کئی بار آیا اور اتنی ہی تیزی سے ختم بھی گیا کیونکہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مرد مظلوم ہو کہ اس کے نام کے ساتھ ظلم جڑا ہوا ہے. ’’خواتین کا احترام کرو‘‘ جگہ جگہ پڑھنے کو ملتا ہے، تو کیا مرد حضرات کا کوئی احترام نہیں؟ یہ جملہ کیوں پڑھنے میں نہیں آتا کہ ’’مردوں کا احترام کرو‘‘ یا پھر ان کی عزت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اکثر ’’لیڈیزفرسٹ‘‘ پر عمل ہوتا دیکھنے کو ملتا ہے لیکن پھر بھی خواتین ہر جگہ شکایت کا دفتر کھولے ہوئے نظر آتی ہیں. کہا جاتا ہے کہ ہمارا تو معاشرہ ہی مردوں کا ہے لیکن جائزہ لیا جائے تو حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ مرد انتہائی بے چارہ ہوتا ہے اور ساری زندگی یہ بےچارگی ختم نہیں ہوتی. اس کے پیدا ہونے پر بہت خوشیاں منائی جاتی ہیں، آنکھوں کا تارا بنا رہتا ہے، مگر یہی قید بن جاتی ہے، اماں زیادہ دور جانے نہیں دیتیں، آنکھوں کے سامنے ہی رکھنا پسند کرتی ہیں، تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو بےچارے کا بہت دل چاہتا ہے کہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارے لیکن یہ تو ممکن ہی نہیں، اماں اور بہنوں کی پولیس والی نظروں کا سامنا کیسے کرے اور اگراپنی مرضی سے کچھ وقت دوستوں کے ساتھ گزار بھی لے تو ایسے سوالات کے جوابات مطلوب ہوتے ہیں کہ آئندہ مہینے بھر باہرجانے سے پریز ہی کرتا ہے، اور اگر ابا جی نے کسی ایسے لڑکے کے ساتھ دیکھ لیا جو چھالیہ بھی کھاتا ہو، توگھورنے کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ آنکھ بچانے پر ہی عافیت نصیب ہوتی ہے. اسکول کالج یونیورسٹی تک اپنے ہی گھر میں قیدی بنا رہتا ہے. اور تو اور بےچارہ اپنی شریک سفر کا انتخاب بھی نہیں کر سکتا کیونکہ جو اسے پسند ہوتی ہے، اس میں ہزاروں کیڑے نکالے جاتے ہیں، اماں جی کو ساری برائی اس ایک لڑکی میں نظر آنا شروع ہوجا تی ہے، بہنوں کو بلاواسطے کا بیر رہتا ہے. بےچارہ مرد یہاں بھی قربانی دیتا ہے اور اماں بہنوں کی مرضی کے مطابق گھوڑی نہیں بلکہ سولی چڑھ جاتا ہے.

    شادی کے بعد تو اس کی مظلومیت کا صحیح پتہ چلتا ہے. جب اماں، بہن اور بیوی نام کی چکیوں کے درمیان ایک ہی وقت میں پس رہا ہوتا ہے. ماں جی کم آمدنی کا رونا شروع کر دیتی ہیں کہ ایک فرد کا اضافہ ہوگیا ہے، پورا نہیں پڑتا، تو دوسری طرف بیوی کی ’’فرمائشیں‘‘، سمجھتی ہے کہ اس کا خاوند دنیا کا امیر ترین شوہر ہے اور اس کی ہر جائز اور ناجائز فرمائش کو پورا کرنے کا ٹھیکا اُس نے لے رکھا ہے. ابھی سال بھی نہیں گزرتا کہ بچوں کی ذمہ داری کا بوجھ بھی اُس کے کندھوں پر آجاتا ہے جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے. اس دوران اسے بہت سے اتار چڑھائو کا سامنا رہتا ہے جس میں بہن کی ذمہ داری سرفہرست ہو تی ہے. اگر پورا کرے تو بیوی نالاں اور نہ کرے تو جورو کا غلام بن جاتا ہے۔

    بےچارہ مرد اپنے بال بچوں کی ذمہ داری پوری کرتے کرتے حرام حلال میں تمیز تک بھول جاتا ہے، اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر لیتا ہے لیکن عورت اس سب کچھ کے باوجود گھر کو جنت کا نمونہ بنانے کے بجائے مرد کے لیے ایک ایسی جگہ بنا دیتی ہے جہاں وہ صرف تب ہی جانا چاہتا ہے جب گھر کے بیشتر افراد سو چکے ہوں۔ سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، جائز و ناجائز تعلقات استوار کر رہا ہوتا ہے، اپنے لیے مصنوعی جنت ڈھونڈتا ہے جس میں دو پل سکون سے گزار سکے، اور اپنے فرائض بھی نبھاتا ہے۔ ضرروتوں کو پورا کرتے کرتے تھک جاتا ہے لیکن اسے کوئی ایوارڈ نہیں ملتا، بیٹی کی شادی، بیٹوں کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے وہ خود کو بھول ہی تو جاتا ہے۔ گاہے اس کےلیے پردیس کا منہ بھی دیکھتا ہے، اپنوں سے دور اپنوں کے لیے زندگی کے خو بصورت ترین سال تنہائی میں گزار آتا ہے.

    ان تمام قربانیوں کے باوجود مرد ذات کے لیے تعریف کے دو لفظ کوئی نہیں بولتا، اس کی قربانیوں کو سراہا نہیں جاتا. عورت چاہے پڑ ھی لکھی ہو یا تعلیم سے محروم، مر د کی زندگی کو بہت حد تک اجیرن ہی رکھتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ 90 فیصد مرد اپنی بیوی سے ڈرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہو تے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ بیچارے نہ کسی کزن سے بات کر سکتے ہیں اور نہ شادی بیاہ میں انھیں مسکرانے کی اجازت ہوتی ہے، کیونکہ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ واپس گھر ہی جانا ہے۔ اسی وجہ سے شادی بیاہ میں تمام مرد حضرات کے منہ پر تقر یبا 12 بجے ہوتے ہیں جبکہ خواتین زرق برق میچنگ والے لباس میں کھلکھلاتی نظر آتی ہیں۔

    سو نے پہ سہاگہ یہ ہے کہ مردوں کے معاشرے میں مردوں کی کوئی نہیں سنتا۔ ہمیشہ عورتوں کی سنی جاتی ہے۔ اگر کوئی عور ت کسی مرد پر کوئی بھی الزم لگا دے تو چاہے وہ بےچارہ کتنا ہی بےقصور ہی کیوں نہ ہو، ہزاروں بھائی نکل آتے ہیں اور زدوکوب کر نے سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔

    ظلم کہنے کو ایک لفظ لیکن اس کا اصل مطلب صرف وہی جانتا ہے جس پر بیتی ہو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ عورت پر ہونے والے مظالم ساری دنیا کے سامنے ظاہر ہو جاتے ہیں اس لیے لوگ ہمیشہ عورت کو ہی مظلوم سمجھتے ہیں، کتابوں کہانیوں اور دنیا میں بننے والی فلم چاہے وہ ہالی وڈ کی ہو یا بالی وڈ اور لالی وڈ کی، سب عورت کو ہی مظلوم دکھا رہے ہوتے ہیں لیکن کیا کسی نے کبھی یہ سوچا کہ مرد کہلائی جانے والی مخلوق بھی مظلوم ہو سکتی ہے. دنیا کا سب سے جان لیوا ظلم وہ ہے جو دکھائی نہ دے. مرد اگر عورت پر رات کے اندھیرے میں چار دیواری میں بھی ہاتھ اٹھاتا ہے تو جانے کہاں سے پوری دنیا کو خبر ہو جاتی ہے لیکن ایسے مرد بھی اسی دنیا میں بستے ہیں جو خواتین کے ہاتھوں زدوکوب کا نشانہ بنتے ہیں مگر چونکہ واویلا نہیں مچاتے اور مگرمچھ کے آنسو نہیں بہاتے، اس لیے مظلوم ہونے کے باوجود بھی ظالم ہی رہتے ہیں.

    ایک صحت مند معاشرہ عورت اور مرد کی مفاہمت سے ہی وجود میں آتا ہے. صرف عورت مظلوم نہیں مرد بھی ہوتے ہیں. صرف خواتین کا احترام نہیں بلکہ ایک دوسرے کا احترام ضروری ہے. سچی محبت صرف عورت کا حق اور ضرورت نہیں بلکہ مرد بھی اس کا مستحق ہیں۔ عورت اور مرد مل کر خاندان اور معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، اگر مستقبل بچانا ہے تو مظلومیت کے بجائے محبت کو فروغ دینا ہوگا۔

  • میری خوشی، میری عید تم سے ہے – ‎راحیلہ ساجد

    میری خوشی، میری عید تم سے ہے – ‎راحیلہ ساجد

    اسے گئے ہوئے دس ماہ ہوگئے تھے اور آمنہ کو یوں لگ رہا تھا کہ کتنے سال ہو گئے ہیں اسے گئے ہوئے۔ ان دس ماہ میں کہاں کہاں اسے اس کی کمی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ اس کو بھیجنے میں بھی اس کا اپنا ہاتھ تھا، اس لیے کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔

    ولید ايک سپر سٹور چلاتا تھا اور اللہ کے فضل سے اچھی گزر بسر بھی ہو رہی تھی، دو چھوٹے بچے تھے، بوڑھے والد تھے اور ایک چھوٹا بھائی 14 سال کا اور بیوی آمنہ۔ سب کچھ بہت اچھے سے چل رہا تھا، سب خوش تھے، مطمئن تھے کہ ایسے میں آمنہ کی ایک سہیلی ایک دن بازار میں اس سے ٹکرا گئی۔ حال احوال پوچھا تو پتا چلا کہ اس کا میاں تو مسقط چلا گیا ہے اور ان کے تو وارے نیارے ہو چکے ہیں۔ بہت جلد وہ نیا بنگلہ بنوانے کا سوچ رہی ہے اور سیکنڈ ہینڈ گاڑی بھی خرید لی ہے۔ بچے بھی اچھے انگلش پرائیویٹ سکول ميں داخل ہو چکے ہیں اور زندگی پہلے سے بہت بہتر ہو چکی ہے۔

    آمنہ گھر تو آ گئی لیکن اس کا ذہن اس کی باتوں میں اٹک گیا تھا۔ اگر ولید بھی باہر چلا جائے تو ہمارے لیے بھی کتنی آسانی ہو جائے۔ شام کو اس نے ولید کو اپنی سہیلی کے بارے ميں بتایا اور کہنے لگی کہ اگر تم بھی باہر چلے جاؤ تو ہماری زندگی کتنی اچھی ہو جائے نا۔ ولید نے ایک طرح سے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے چادر منہ پر تان لی اور کوئی جواب نہ ديا۔ دوسری شام آمنہ نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ولید نے اس کو سمجھانے کے اندز میں کہا ”دیکھو، اللہ تعالی کا فضل ہے، ہم بہت اچھے طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں، کبھی فاقہ نہیں کیا، بچے اچھے سکول میں جاتے ہیں۔ میں تو مطمئن ہوں.“ مگر وہ آمنہ ہی کیا جو اپنی بات سے پیچھے ہٹ جائے۔ کھٹ سے بولی، ”دیکھو تمہارے پاس موٹرسائیکل ہے، دھوپ ہو یا بارش تم بچوں کو اس پر لے کر جاتے ہو۔ ابا جی کو ہسپتال لے کر جانا ہو تو بےچارے کتنی مشکل سے موٹرسائیکل پر بیٹھتے ہیں۔ سوچو اگر گاڑی ہو جائے گی تو کتنا آرام ہو جائے گا۔ بچوں کا سکول ہے تو اچھا مگرعام سا سکول ہے، کل جب بچے کسی اچھے اور بڑے سکول ميں جائیں گے تو ان کے مستقبل پر کتنا اچھا اثر پڑے گا؟ اس گھر میں بچے ہمارے کمرے میں سوتے ہیں، بڑا گھر ہوگا تو سب کا اپنا اپنا کمرہ ہو گا۔“ غرضیکہ آمنہ کے پاس ہر بات کی دلیل موجود تھی۔

    آمنہ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ ولید نے ایک دن اسے کہا کہ ”دیکھو، میں چلا گیا تو تمہیں بہت مشکل ہوگی۔ بھائی چھوٹا ہے، بچے چھوٹے ہیں، ابا جی ضعیف ہیں۔ تم اکیلے کیسے سنبھالوگی سب کچھ؟“ میں کر لوں گی سب کچھ، اب اتنا بھی مشکل نہیں۔ بچوں کو سکول وین لگوا دوں گی، بھائی کے پاس تو سائیکل ہے نا، اور اگر ابا جی نے ہسپتال جانا ہوا تو ٹیکسی سے چلے جائیں گے، اب تم بہانے مت بنائو۔ اس کی ضد کے ہاتھوں ولید مجبور ہو گیا اور پتا نہیں کن کن جتنوں سے اس نے ادھر ادھر کہلوا کر مسقط کا ویزا حاصل کر لیا۔ سٹور اس نے کرائے پر چڑھا دیا۔ جس دن اس نے جانا تھا، آمنہ تو اڑتی پھرتی تھی۔ ولید نے اسے کہا کہ ابھی بھی سوچ لو، بہت مشکل ہو جائے گی لیکن وہ بھی اپنے نام کی ہی تھی، نہیں مانی اور وہ بجھے دل کے ساتھ چلا گیا۔

    شام کو چھوٹے بيٹا گلی میں کھیلتے ہوئے گرگیا، سر پر چوٹ لگ گئی، خون نکلنے لگا، آمنہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے، ٹیکسی کروا کر ہسپتال پہنچی، مرہم پٹی کروائی، گھر واپس آئی تو شام کا کھانا بنا تھا، ابھی وہ بنا کر فارغ ہوئی تو ابا جی کی دوائی کا وقت ہو گیا۔ انہیں دوائی دی، کچھ دیر ان کی ٹانگیں دبائیں۔ پھر سارے دروازے بند کیے اور تھکن سے نڈھال بستر پر چلی آئی مگر نیند کوسوں دور تھی۔ ولید کمرے میں نہیں تھا تو اسے عجیب عجیب لگ رہا تھا۔ خیر کروٹیں بدلتے بدلتے نیند آ ہی گئی۔

    فجر کے وقت ابا جی نے آواز دی تو اس سے تو ہلا بھی نہیں جا رہا تھا لیکن اٹھنا پڑا۔ نماز پڑھی تو دودھ والا آ گیا۔ وہ لے کر اندر رکھا، ابھی وہ گیا ہی تھا کہ کوڑا اٹھانے والے نے دستک دی، اسے کوڑا پکڑایا۔ اس سے پہلے یہ سب کام ولید کرتا تھا۔ اتنے میں ابا جی کو ناشتے اور چائے کی طلب ہوئی، فٹافٹ ان کے لیے ناشتہ اور چائے بنائی۔ اس کے بعد بچوں کو جگایا۔ بھاگم بھاگ ناشتہ بنایا، ان کے لنچ باکس بنائے، خود ناشتہ کرنے نہیں بیٹھی کیونکہ اسے آج ان کے ساتھ ہی نکلنا تھا تاکہ سکول وین کا بندوبست کر سکے۔ وہ سب کرتے کراتے 11 بجے واپسی ہوئی تو گھر الٹا پڑا تھا۔ بھوک بھی سخت لگی۔ چائے کے کپ کے ساتھ ایک رس کھایا اور گھر کو صاف کیا تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا. کیا پکایا جائے؟ پہلے تو ولید دکان سے کسی بچے کے ہاتھ گھر جو بھیج دیتا تھا، وہ وہی پکا لیتی تھی یا وہ صبح بتا جاتا تھا کہ آج یہ پکا لينا۔ خیر دال چاول بنا کر فارغ ہوئی تو بچے بھی آگئے۔ اباجی اور بچوں کو کھانا دیا، برتن دھوئے۔ اس دوران ولید کی اطلاع آ چکی تھی کہ وہ خیریت سے پہنچ چکا ہے۔ شام کو کمر سیدھی کرنے لیٹی ہی تھی کہ بیل بجی، ابا جی کے کوئی ملنے والے تھے۔ اب ان کے لیے چائے بنائی، گھر میں چائے کے ساتھ رکھنے کے لیے کچھ تھا نہیں، بچے مسجد گئے ہوئے تھے، ولید ہوتا تو بھاگ کر لا دیتا۔ لیٹنے کی فرصت تو نہ ملی لیکن شام سر پر کھڑی تھی۔ اور وہی سب کچھ جو کل کیا تھا آج پھر کرنا تھا۔ لیکن اس نے ولید کو فون پر سب اچھا ہے، ٹھیک چل رہا ہے، کوئی مسئلہ نہیں کہہ کر اطمينان دلا تو دیا مگر اطمینان ابھی اس کی قسمت میں تھا نہیں۔ رات کو ابا جی کو کھانسی کا دورہ پڑ گيا۔ کافی دیر سے آرام آیا تو وہ سونے کے لیے کمرے میں آ گئی۔

    اگلے دنوں میں اسے لگنے لگا کہ وہ تو جیسے گھن چکر بن گئی ہے۔ باہر کے وہ سب کام جو ولید کرتا تھا اب اسے کرنے پڑتے تھے۔ گھر کے بہت سارے کاموں وہ اس کی مدد بھی کرتا تھا، اب وہ سب اسے ہی کرنے پڑتے تھے، ابا جی بوڑھے تھے، دیور اور بچے چھوٹے، وہ کتنی مدد کر سکتے تھے۔ 4، 5 ماہ کے اندر اندر اس کی ہمت جواب دینے لگی، اس کے انگ انگ میں تکلیف بیٹھ گئی، نہ وہ سکون سے سو سکے اور نہ دن کو آرام کر سکے۔ اس دوران ابا جی کو ہسپتال لے کر جانا، ان کی دوائیاں لانا، بچوں کے ہوم ورک میں مدد، غرض کہ ہر کام اسے ہی کرنا تھا۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر تھک چکی تھی۔ رمضان بھی شروع ہو چکا تھا اور روٹین مزید سخت ہو گئی تھی، سحری، افطاری، عبادت، اور باقی سب کام۔ اسے شدت سے ولید کی کمی محسوس ہونے لگی۔ اسے اپنا فيصلہ غلط لگنے لگا۔ اچھی بھلی زندگی تھی۔ سکون و آرام تھا۔ سب کام ہو رہے تھے۔ سیر وتفریح بھی ہوتی تھی لیکن ولید کے جانے کے بعد جیسے زندگی جامد ہو گئی تھی۔ وہ چڑچڑی ہو گئی تھی، بچے بدتمیز ہوگئے تھے۔ ابا جی بےچارے اکیلے سارا دن کمرے میں رہتے تھے۔

    عید قريب تھی اور اس کے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے تھے کہ وہ سب کچھ کیسے کرے گی؟ آج اس نے ولید کو فون کیا تو سب اچھا ہے، نہیں کہا، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہنے لگی ”ولید واپس آ جاؤ۔ ہم سب کو تمہاری ضرورت ہے، ہم یہاں اکٹھے مل کر بھلی بری گزار لیں گے۔ مجھے معاف کر دو۔ میں نے ہی ناشکری کی اور ان دس ماہ میں مجھے اس کی کافی سزا مل گئی، تم واپس آ جاؤ۔ خدا کے لیے عید ہم سب کے ساتھ آ کر مناؤ، ہماری عید تمہارے ساتھ ہی ہوگی.“

  • پاکستان میں طلاق کا بڑھتا تناسب – آفاق احمد

    پاکستان میں طلاق کا بڑھتا تناسب – آفاق احمد

    (ایک اخباری خبر سے اخذ کی گئی تحریر)
    29 اگست 2016ء جنگ اخبار میں مصر سے اُڑتی اُڑتی تحقیق پہنچی ہے۔ عنوان ہے بیوی کی ماہانہ تنخواہ پر اختلاف مصر میں طلاقوں کی بڑی وجہ بن گیا۔
    کچھ نکات دیکھتے ہیں :
    ● بیوی کی ماہانہ تنخواہ پر زوجین میں اختلاف
    ● بیوی کا شوہر پر طمع کا الزام لگانا
    ● شادی کی بنیادی وجہ میاں کی بیوی کی تنخواہ کی طرف کشش بتانا
    ● بیویوں کی جسمانی تشدد کے ساتھ معنوی اور مادی بلیک میلنگ کی شکایت
    ● شوہروں کا بیویوں سے رقم ہتھیانے کی کوشش کرنا
    ● ازدواجی زندگی پر اس کا اثر پڑنا
    ● میاں بیوی میں گرمجوشی کا فقدان ہوجانا
    اگرچہ یہ سب نکات خواتین کا نقطہ نظر بیان کر رہے ہیں اور شوہر حضرات کے موقف کے بارے میں یہ تحقیق یا سروے خاموش ہے۔ طلاق لینے والی خواتین میں ایک سال سے کم ازدواجی زندگی سے لے کر دس سال تک کی ازدواجی زندگی گزارنے والی خواتین شامل ہیں۔ اسے مصر میں طلاقوں کی اہم ترین وجہ گردانا گیا ہے۔
    ……………………………………
    اسلام نے معاش کی ذمہ داری مرد کے ذمے عائد کی ہے اگرچہ سخت عذر کی صورت میں عورت بھی ملازمت کرسکتی ہے یا کچھ ایسے شعبے ہیں جن میں خواتین کا ہونا ناگزیر ہے اور انھیں ہم فرضِ کفایہ کا درجہ بھی دے سکتے ہیں مثلاً گائنی کا شعبہ اپنی خصوصیت کی وجہ سے اس بات کا غماز ہے کہ یہاں فقط خواتین موجود ہوں۔ بہرحال اس کا تعین بھی اسلام کی ہدایات کی روشنی میں کیا جائے گا لیکن محض شوقیہ طور پر ملازمت کرنا ”گھروں میں قرار پکڑو“ کی عمومی اسلامی ہدایت کی نفی ہے۔

    آپ نے ISO Certification کا نام تو سنا ہوگا۔ یہ ایک سرٹیفکیٹ ہے جو ان اداروں کو دیا جاتا ہے جو انتظامی طور پر تمام پیشہ ورانہ قواعد و ضوابط کی بخوبی پابندی کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ادارے میں کام کرنے والے ہر شخص کو بخوبی اپنی ذمہ داری اور کام کی جگہ کی آگہی ہو۔ ادارے اس سرٹیفکیٹ کو حاصل کرنا اپنا اعزاز تصور کرتے ہیں۔ لیکن اس بنیادی اصول کو ہم گھر کے نظام پر فراموش کر بیٹھتے ہیں، اسلام میں گھر کی اندر کی انتظامی ذمہ داری عورت کے ہاتھ میں ہے اور گھر کے باہر کے معاملات مرد کے ہاتھ میں ہیں، مصر میں یہی اصول جب یورپ کی تقلید میں الٹ کیا گیا تو نتیجہ سماجی ڈھانچے میں بڑے پیمانے کی طلاقوں کی دراڑوں کی صورت میں منتج ہوا۔
    ابھی تو آغازِ تخریب ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
    ……………………………………
    اور بالکل یہی صورتحال پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، اگرچہ ہمارے ہاں مصر کی طرز کی تحقیق یا سروے کا اہتمام نہیں کیونکہ ہم مثلِ شتر مرغ ریت میں منہ دبانے کو فوقیت دیتے ہیں چاہے طوفان کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو۔ عورت کی یہی معاشی خودمختاری ہے جو اس کے اندر سے شوہر اور اس مقدس رشتے کی وقعت نکال دیتی ہے اور حاکمیت کا لہجہ لیے قوام کی حیثیٹ اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے گھر والے بھی اس بات پر خوش رہتے ہیں کہ طلاق ہو بھی جائے یا رشتہ نہ بھی ہو تو یہ اپنا انتظام خود ہی سنبھالے لے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض کمانا اس زندگی کا مقصد ہے اور اتنے پیارے تعلق کے جذبات و احساسات بے معنی ہیں۔ باتوں باتوں میں ڈونلڈ رمسفیلڈ کی زیرِ نگرانی کچھ سالوں پہلے کی رپورٹ یاد آگئی جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ملٹی نیشنل کمپنیز اور پرائیویٹ ادارے ملازمتوں میں ان لڑکوں کو فوقیت دیں جو مغرب سے نہ صرف ظاہراً متاثر ہیں بلکہ ان کے افکار و خیالات بھی مغرب سے میل کھاتے ہوں اورساتھ ساتھ خواتین کوفوقیت دی جائے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ کسی بھی پرائیویٹ ادارے میں چلے جائیں تو خواتین کی بڑی تعداد نظر آئے گی، موبائل سیکٹر تو بھرا ہوا ہے اور لڑکے جو اصل معاشی کفالت کے ذمہ دار ہیں، وہ ڈگریاں لیے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں۔
    ……………………………………
    جذباتیت سے نہ سوچیں، ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں کہ خواتین کی معاشی خود کفالت جو شوقیہ کے زمرے میں آتی ہو، کیا وہ معاشرتی اور سماجی ڈھانچے کو تیزی سے نقصان نہیں پہنچا رہی؟ مصر کی خواتین نے شوہر چھوڑنا تو گوارا کرلیا لیکن نوکری چھوڑنا گوارا نہ کی۔ اور آخر میں مصر کی طلاق یافتہ خواتین کی بات بھی پڑھتے جائیں۔ 80 فیصد طلاق حاصل کرنے والی خواتین نے کورٹ کے سامنے بیان دیا کہ انہیں ازدواجی رشتے میں بندھنے پر ندامت ہے اور وہ دوبارہ سے ازدواجی زندگی کی طرف نہ لوٹنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
    ؎
    کیا یہی ہے مغربی معاشرت کا کمال
    مرد بےکار و زن تہی آغوش!

  • آج پھر ماں جیت گئی تھی – مبین امجد

    آج پھر ماں جیت گئی تھی – مبین امجد

    مبین امجداماں ، اماں۔
    ذرا کمرے میں آنا اس کی طبیعت خراب ہے۔
    تو مجھے کیوں بتا رہا ہے جا کہ دائی بشیراں کو بلا لا۔ اور مجھے سونے دے اب۔
    اماں ناراضگی چھوڑ دے اب اور، میرے ساتھ چل ذرا دیر کے لیے۔
    میں نے کہا نا کہ میں نہیں آ رہی۔ بشیراں کو بلا لا۔


    جب سے میری بیوی کا ڈولا اس گھر میں آیا۔ میری زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ بیوی کی سنوں تو زن مرید، ماں کی سنوں تو بیوی کی نظروں میں برا۔
    پچھلے آٹھ نو ماہ میں اس گھر کا نقشہ ہی بدل گیا۔ صبح شام کی چخ چخ نے مجھے محلے میں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آئے دن لڑائی جھگڑے ، چیخ و پکار اور طعنوں نے گھر کو جہنم بنا ڈالا۔


    قصور۔؟ قصور تو شاید کسی کا نہیں تھا۔ اگر بیوی بد زبان تھی تو ماں میں بھی حوصلہ نہیں تھا۔
    مگر وہ ماں تھی اور اسی بات کی بیوی کو سمجھ نہیں تھی۔


    اب میرے گھر میں خوشخبری تھی۔ گو کہ ان دنوں ماں نے بہو کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اور اکثر اوقات تو وہ اس کی جلی کٹی بھی برداشت کر گئی تھی، جس سے میں بہت خوش تھا کہ چلو اب شاید گھریلو ماحول میں تنی کشیدگی کچھ کم ہو جائے۔
    مگر میں آج آفس سے آیا تو ، آج پھر صحن پانی پت کا میدان بنا ہوا تھا۔


    اب میں اس ماحول میں کیا کرتا۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
    پیچھے بیگم بھی آگئی۔ اس نے مجھے خوش کرنے کی بہتیری کوشش کی مگر میں منہ موڑے سو گیا۔
    رات کو تقریباََ 2 بجے اس نے مجھے جگایا کہ مجھے درد ہو رہی ہے۔


    میں بھاگم بھاگ اماں کے پاس گیا کہ چلو اس کو خوشخبری دوں اور۔
    مگر اماں نے میرا دل توڑ دیا۔
    اس نے بالکل ہی لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔


    میں افسردہ انھی سوچوں میں ڈوبا دائی کے گھر جا پہنچا۔
    اسے اپنے ساتھ لے کر آیا۔
    اور، صبح کے 5 بجے میری بیوی نے انتہائی جانکنی کے بعد ایک بیٹے کو جنم دیا۔


    دائی کے فارغ ہونے کے بعد میں کمرے میں گیا تو میری بیوی نیم بےہوشی کی حالت میں تھی۔
    میری موجودگی کا احساس پاتے ہی وہ گویا ہوئی، اماں یہ دیکھیں آپ کا پوتا کتنا پیارا ہے۔
    گو کہ بچے کی رونے کی آواز سن کر میری ماں جو صبح نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کر رہی تھی وہ بھی بے چین تھی، اور کمرے میں آنا چاہتی تھی، مگر ہچکچا رہی تھی۔


    میں نے بیوی کے ماتھے پہ بوسہ دیا تو وہ جاگ گئی اور کہا اماں کہاں ہے۔؟
    میں ایک خود غرض بیٹا، اس کے علاوہ بھلا کیا جواب دیتا کہ چھوڑو اماں کو۔ اس نے کون سا تمھارا احساس کیا تھا۔


    مگر میں ایک مرد تھا۔ کسی بھی ماں کا درد نہیں جان سکتا تھا۔
    اس لیے جب میں بھٹکنے لگا تو ایک عورت (مری بیوی) نے ہی مجھے صحیح راستہ دکھلایا اور کہا نئیں قربان۔
    ایسے نہ کہو۔ وہ ماں ہیں اور میں بھی اب ایک ماں ہوں، اس لیے ماؤں کا دکھ سمجھ سکتی ہوں ۔
    جا کر اماں کو بلا لاؤ تاکہ وہ بھی اپنے پوتے کو دیکھ سکے، تاکہ وہ بھی اپنے بیٹے کے بیٹے کو گود میں لے سکے، تاکہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکے


    اور آج پھر ماں جیت گئی تھی۔!

  • گل بدن کا شوہر اب کیا کرے؟ دائود ظفر ندیم

    گل بدن کا شوہر اب کیا کرے؟ دائود ظفر ندیم

    دائود ظفر ندیم میں شادی شدہ ہوں اور ایک عدد بیوی گلبدن بانو کا شوہر ہوں. یوں تو میں بہت مطیع و فرمانبردار قسم کا شوہر ہوں مگر میری بیوی مجھ سے ہمیشہ بدگمان رہتی ہے. اس کا خیال ہے کہ میری زندگی میں بہت سی رنگین اور اہم کہانیاں ہیں جس سے میں نے اسے آگاہ نہیں کیا۔ دراصل غلطی میری ہے. میں نے اپنے رشتے داروں میں نوجوانی میں اپنے بارے میں تاثر کی کبھی پروا نہیں کی تھی بلکہ اسے اپنے لیے قابل فخر خیال کرتا رہا. مجھے کیا علم تھا کہ اس نے خانگی معاملات میں اتنے مسائل پیدا کرنے ہیں اور مجھے عمر بھر وضاحتیں دینی ہیں تو میں ایسا کبھی نہ کرتا۔ اگرچہ میرے کزن، لڑکے اور لڑکیاں ہی میرا دماغ خراب کرنے کا سبب بنے، جب ملتے پوچھتے تو بھائی جان تازہ شکار کون ہے اور کیا ہو رہا ہے؟ میں اسے اپنی جواں مردگی خیال کرتا اور پھول جاتا، افسانہ طرازی کا شوق تو تھا چنانچہ ایک نئی زبردست کہانی تیار کر لیتا، پھر وہ کہانی حقیقت بن کر پورے خاندان میں پھیل جاتی اور میں سمجھتا کہ میری شہرت میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ بدنامی میں اضافہ ہوتا، اور جس سے سچ مچ عشق بھی تھا اس نے بھی سمجھا شاید اپنی شہرت یافتہ بدنامی کی وجہ سے اس کا شکار کرنے آیا ہوں اور اوپر سے میری کزنوں کے مرچ مسالے اس تک پہنچے تو وہ صاف بولی کہ میں اس ٹائپ کی نہیں اور یوں میری زندگی میں ایک المیہ بھی ہوا، اور کزنوں نے یہ مشہور کر دیا کہ میں نے فلاں پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ کہانی میں نے نہیں پھیلائی، یہ تو اس موصوفہ نے خود میری کزنوں کو بتلائی اور انھوں نے نشر کردی۔ یوں جو کہتے ہیں کہ محبت کو بدنام نہیں کرتے، اس کا باعث بھی میں نادانستگی میں بنا۔

    اب آپ کو اصل بات بتائوں، میرے زمانے میں موبائل اور ای میلیں نہیں تھیں، نوجوان اپنی دوستوں کو خط لکھتے تھے۔ مجھے لکھنے کا شوق تھا، ایک دوست کے اصرار پر اسے عشقیہ خط لکھ دیا اور پھر پورے دوستوں میں شہرہ ہوگیا۔ چنانچہ جس نے بھی عشقیہ خط لکھوانا ہوتا، مجھ سے رجوع کرتا اور میں مالی مجبوری کی وجہ سے حامی بھر لیتا، کہانی بنانے کا شوق تھا، اتنے کامیاب عشقیہ خطوط کی وجہ سے دوست سمجھنے لگے کہ میں بہت چھپا رستم ہوں اور ایک خلیفہ ہوں، چنانچہ دوستوں نے کچھ مجھ سے سن کر اور کچھ میرے بارے میں نت نئی کہانیاں اختراع کیں اور میں نے بھی بڑے شوق سے اس میں ڈرامائی رنگ پیدا کیے۔ اب شہر میں بھی کسی کو عشقیہ خط کی ضرورت پیش آتی تو وہ میرے پاس آتا کہ جناب کا بڑا تجربہ ہے۔ میں بھی اس کی کہانی سن کر اسے اپنے نام نہاد تجربے کی روشنی میں مفید مشورے دیتا اور اس کو صورتحال کے مطابق خط بھی تحریر کر دیتا۔مجھے کیا علم تھا کہ اس سے کیا عذاب میری زندگی میں ہوگا.

    اب میں اپنی بیوی گل بدن بانو سے اپنی زندگی کی کوئی بات نہیں چھپاتا مگر میری نصف بہتر کا یقین ہے کہ میں بہت میسنا انسان ہوں. میرے تمام کزنز نے میری بیوی کو یقین دلایا ہے کہ مجھ پر بھروسہ انتہائی خطرناک ہے، میں بہت ہی دل پھینک اور رنگین مزاج ہوں، راستے میں چلتے لڑکیوں کو پھنسانے کا ہنر رکھتا ہوں چنانچہ پوری جوانی اور اب ادھیڑ عمری میں بھی میں اپنی بیوی کو اپنے بارے میں مطمن نہیں کر سکا. ذرا موڈ خراب ہو تو کہتی ہے کہ ہاں کوئی کلموہی یاد آرہی ہوگی، ذرا اداس ہو جائوں تو کہتی ہے ہاں ہاں کوئی واقعہ ہوا ہوگا، نیا شگوفہ کھلا ہوگا۔ میں کہتا ہوں ارے بھلی لوک! اب تو بوڑھا ہو رہا ہوں، تو کہتی ہے ہاں ہاں، اس عمر میں تجربہ بھی بڑھ جاتا ہے اور معصوم لڑکیاں سفید بالوں کو بےضرر سمجھ کر زیادہ یقین کرنے لگتی ہیں۔ سچی بات ہے کہ یہ باتیں بھی میں نے ہی کی ہوئی ہیں مگر مجھے کیا علم تھا کہ مجھے ہی یہ باتیں سننا پڑیں گی تو دوستو! آپ ہی بتلائو کہ میں مظلوم کیا کروں؟

  • بیوی کے ساتھ برتاؤ – رضی الاسلام ندوی

    بیوی کے ساتھ برتاؤ – رضی الاسلام ندوی

    رضی الاسلام ندوی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم زیارتِ قبور اور مُردوں کے استغفار کے لیے وقتاً فوقتاً قریب کے قبرستان ’جنۃ البقیع‘ جایا کرتے تھے. ایک مرتبہ جب آپ کی باری ام المئومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تھی، آپ نے رات میں وہاں جانا چاہا، آپ نے انتظار کیا، یہاں تک کہ جب آپ کو لگا کہ عائشہ رض سو گئی ہیں تو آپ انتہائی خاموشی سے اٹھے، چپکے سے اپنی چادر اٹھائی، آہستہ سے جوتا پہنا، تاکہ ذرا بھی آہٹ نہ ہو، دھیرے سے دروازہ کھولا، باہر نکلے، اتنی ہی آہستگی سے دروازہ بند کیا اور جنۃ البقیع کی طرف روانہ ہوگئے.

    روایت میں آگے اور بھی تفصیل ہے. اس میں ہے کہ حضرت عائشہ رض نے آپ کو غائب پایا تو آپ کو تلاش کرنے نکل پڑیں، انھوں نے آپ کو جنۃ البقیع میں پایا، وہ بیان کرتی ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد آپ مڑے تو فوراً میں بھی مڑ گئی، پھر مجھے لگا کہ آپ تیز تیز چلنے لگے ہیں تو میں نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی، پھر میں نے دیکھا کہ آپ دوڑنے لگے ہیں تو میں بھی آپ کے آگے آگے دوڑنے لگی، ابھی گھر میں داخل ہو کر میں بستر پر دراز ہی ہوئی تھی کہ آپ بھی تشریف لے آئے، سارا ماجرا آپ سمجھ گئے، آپ نے فرمایا : عائشہ! وہ سایہ تمھارا ہی تھا جو میرے آگے آگے چل رہا تھا. (مسلم:974، نسائی :2037)

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے رات میں جنۃ البقیع جانے کے لیے اتنی رازداری کیوں برتی؟ اس کا جواب یہ ہے: محض اس لیے تاکہ بیوی کے آرام میں خلل نہ پڑے، اس کی نیند خراب نہ ہو اور وہ ادنی سی بھی اذیت محسوس نہ کرے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا دم بھرنے اور اس کا اسوہ اختیار کرنے کا دعوٰی کرنے والوں سے سوال ہے: کیا ہم بھی اپنی بیویوں کا اتنا ہی خیال رکھتے ہیں؟ کیا ہم ان سے جتنی خدمت کی توقع رکھتے ہیں، اتنا ہی انھیں بھی آرام پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں؟
    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :خيرُكم خيرُكم لاھلہ و أنا خيرُكم لاھلي( ترمذی :3895،ابن ماجہ:1977) ’’تم میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جس کا سلوک اس کے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا ہو، اور میں گھر والوں کے ساتھ سلوک کے معاملے میں تم میں سب سے اچھا ہوں.‘‘
    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فرمایا وہ کرکے بھی دکھایا، کیا ہمارا سلوک بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ ایسا ہی ہے؟

  • الٹی شلوار – فرحانہ صادق

    الٹی شلوار – فرحانہ صادق

    فرحانہ صادق “صاب اب میرا کام ہو جائے گا نا”
    اس نے دیوار کی طرف رُخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی.
    “ہاں ہاں بھئی ”
    میری سانسیں ابھی بھی بے ترتیب تھیں.
    پھر میں پیسے لینے کب آؤں ؟
    دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اور پھر جھٹک کر لپیٹ لیا.
    “پیسے ملنے تک تمھیں ایک دو چکر تو اور لگانے ہی پڑیں گے. کل ہی میں مالکان سے تمھارے شوہر کا ذکر کرتا ہوں”
    میں نے شرٹ کے بٹن لگائے، ہاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم کے دروازے سے باہر جھانک کر آس پاس احتیاطاً ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا.
    ویسے تو نیا چوکیدار وقتا فوقتا چائے پانی کے نام پر میری طرف سے ملنے والی چھوٹی موٹی رقم کے بدلے میں میرا خیر خواہ تھا مگر پھر بھی میں کسی مشکل میں گرفتار نہیں ہونا چاہتا تھا.
    “پھر میں کل ہی آجاؤں” وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی.
    ” کل نہیں ! ! ! ”
    میں روز اس طرح یہاں آنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا، اس لیے بس آہ بھر کر رہ گیا.
    ہائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ہیں. میں نے نظروں سے اس کے جسم کے پیچ و خم کو تولتے ہوئے سوچا
    ” ارے سنو ! ! تم نے شلوار اُلٹی پہنی ہے.”
    وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور خجل ہوگئی.
    ” اسے اتار کر سیدھی کرلو. میں چلتا ہوں. پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا. اور ہاں احتیاط سے، کوئی دیکھ نہ لے تمھیں.
    زیمل خان چار سال سے ہماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا. تین ہفتے پہلے فیکٹری میں داخل ہونے والے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت میں ٹانگ پر گولی کھا کر گھر میں لاچار پڑا ہوا تھا. مالکان اس کے علاج کے لیے پچاس ہزار دینے کا اعلان کر کے بھول گئے تھے. سو اس کی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رہی تھی. میں نے اس کی مدد کا فیصلہ کیا اور چھٹی کے بعد شام میں اسے فیکٹری آنے کا اشارہ دے دیا.
    عمر! عمر!
    اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے عقب سے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی. اس کے اور میرے گھر لوٹنے کا وقت تقریبا ایک ہی تھا اور کبھی کبھار تو ہم اسی طرح اکھٹے گھر میں داخل ہوتے تھے. وہ ایک چھوٹے بینک میں کلرک تھی.
    “ایک خوشخبری ہے ” قدرے فربہی مائل وجود کو سنبھالے وہ تیزی سے اوپر آرہی تھی
    خوشی سیے اس کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں
    ” مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں اور آج ہی انھوں میرے پروموشن کی بات ہے.”
    دروازے کے سامنے رک کر اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکالی
    “انہوں نے کہا ہے تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ہوجائے گا”
    “ارے واہ ! مبارک ہو ” میں نے خوش دلی سے اسے مبارکباد دی
    ” تمھیں پتا ہے مجھ سمیت پانچ امیدوار ہیں، اور وہ آصفہ ہے نا، وہ بھی میرے حق میں نہیں مگر مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں. کیوں نہ ہوں؟ میں اتنی محنت جو کرتی ہوں اور ویسے بھی ….
    وہ گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے بھی مسلسل بولے چلی گئی
    میں اس کی پیروی کرتے ہوئے اس کی فتح کی داستان سے محظوظ ہورہا تھا کہ اچانک میری نظر اس کی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں میں الجھ گئی.