Tag: بنگلہ دیش

  • واگ دا ڈاگ-محمد بلال غوری

    واگ دا ڈاگ-محمد بلال غوری

    m-bathak.com-1421246902muhammad-bilal-ghouri

    کراچی میں آوارہ کتوں کو تلف کرنے کی مہم شروع ہوئی تو چند حساس لوگوں نے سندھ ہائیکورٹ کا دروازہ جاکھٹکھٹایا اور دہائی دی کہ صرف اگست کے مہینے میں 800کتوں کو وحشیانہ اور ظالمانہ انداز میں قتل کیا گیاہے جس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے اور سخت تکلیف پہنچی ہے۔درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ کتوں کے قتل عام کی مہم کو فوری طور پر روکا جائے اور حکومت سے کہا جائے کہ کتوں کو زہر دینے کے بجائے بانجھ کرنے کے انجکشن لگائے جائیں ۔کراچی وہ بدنصیب شہر ہے جہاں تین سال پہلے روزانہ اوسطاً 9افراد مارے جارہے تھے اور آج حالات بہتر ہونے کے باجود بھی بلاناغہ قتل کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔حیرت ہے کسی درد دل رکھنے والے انسان کو یہ خیال نہیں آیا کہ انسانوں کے قتل عام پر صدائے احتجاج بلند کرے۔

    بلوچستان میں سالہا سال سے مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں،حقوق انسانی کی تنظیموں کے مطابق تو مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر صوبائی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک ہزار افراد کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔تعجب ہے اس ظلم و زیادتی پر کسی کا دل نہیں پسیجا۔پولیس حکام کے مطابق گزشتہ اتوار سی ٹی ڈی لاہور کے اہلکار 4دہشتگردوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے تھے کہ پہلے سے گھات میں بیٹھے ان کے ساتھیوں نے فائرنگ کر دی۔کون کہتا ہے ،آجکل معجزے نہیں ہوتے۔قدرت کا کرشمہ دیکھیں ،چاروں دہشتگرد موقع پر ہی مارے گئے،کسی پولیس والے کو خراش تک نہیں آئی اور حملہ آور بھی یوں غائب ہو گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ایسے اصلی،معجزاتی اور کرشماتی پولیس مقابلوں میں گزشتہ برس 2115انسان مارے گئے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ہاں جب آوارہ کتے تلف ہونے لگتے ہیں تو ان حساس لوگوں کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔انسان تو روز مرتے ہیں،خبر تو تب ہے جب کتا انسان کی موت مرے اس لئے حقوق کی دہائی دینے والے اس الجھن میں نہیں پڑتے کہ کب کہاں کتنے انسان مر گئے۔

    مہذب دنیا کتوں کی فطرت کو سمجھتی ہے اس لئے ان کے گلے میں پٹہ ڈال کر رکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں آوارہ کتوں کی بہتات ہے ویسے جب آوارہ اور بد چلن کتوں کا ذکر ہوتا ہے تو سوچتا ہوں کیا ایسے کتے بھی پائے جاتے ہیں جو آوارگی اوربدچلنی کے قائل نہ ہوں؟بہر حال مغربی یورپ میں پالتو کتوں کی آبادی چار کروڑتیس لاکھ تک جا پہنچی ہے۔برطانیہ میں 68لاکھ پالتو کتے موجود ہیں۔اٹلی اور پولینڈ میں ان کی تعداد 75,75لاکھ ہے۔کینیڈا میں 60لاکھ کتے پائے جاتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ کتے فرانس میں جہاں ان کا تخمینہ 88لاکھ لگایا گیا ہے۔

    ہمارے ہاں حکومت انسانوں کو گننے کا تکلف گوارا نہیں کرتی تو کتوں کا شمار کیسے ہو۔ہاں مگر یہاں کتے پالنے والے ان کے گلے میں پٹہ ڈالنے کے بجائے آوارہ مزاج بنانے کیلئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے مخالفین پر بھونکیں بھی اور ضرورت پڑنے پر کاٹ بھی سکیں۔ ویسے تو یہاں سنگ مقید ہیں اور سگ آزادلیکن جب ان کتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ استعمال ہو رہے ہیں اور وہ اپنے مالکوں پر بھونکنے لگتے ہیں تو انہیں پاگل قرار دیکر مار دیا جاتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ بعض کتے ،کتے کی دُم ثابت ہوتے ہیں اور آسانی سے جان نہیں چھوڑتے۔

    کتوں کا ذکر ہو اور پطرس بخاری یاد نہ آئیں ،یہ کیسے ہو سکتا ہے۔میرا گمان ہے کہ پطرس نے کتوں کو موضوع بنا کر ان کی عزت افزائی کی البتہ نگوڑے کتے کہتے ہیں کہ ان کی بدولت پطرس کو مقبولیت حاصل ہوئی۔پطرس کتوں کی ہلڑ بازی سے بہت تنگ تھے۔کتوں کے جلسے جلوسوں کی وجہ سے راستوں کی بندش کا گلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’کتوں کی یہ پرلے درجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کیساتھ آکر کہہ دے کہ عالی جناب،سڑک بند ہے تو خد اکی قسم ہم بغیر چوں و چراں کئے واپس لوٹ جائیں۔لیکن سب کا یوں متحدہ و متفقہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینی حرکت ہے۔‘‘

    1997ء میں ہالی وڈ کی ایک کامیڈی فلم ریلیز ہوئی جس کانام تھا’’Wag the Dog ‘‘یہ ایک انگریزی محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کسی جعلسازی کے ذریعے لوگوں کی توجہ ہٹانا۔اس فلم میں ایک امریکی ڈاکٹر صدارتی انتخابات سے چند روز قبل ووٹرز کی توجہ سیکس اسیکنڈل سے بھٹکانے کیلئے ہالی وڈ کے ایک ڈائریکٹر کی خدمات مستعار لیتا ہے اور البانیہ کے ساتھ امریکہ کی جنگ کا شوشہ چھوڑتا ہے تاکہ سیکس اسکینڈل سے ان کی توجہ ہٹ جائے۔چونکہ یہ فلم مونیکا لیونسکی اسکینڈل سامنے آنے کے چند روز بعد تب ریلیز ہوئی جب امریکہ نے سوڈان کے شہر خرطوم پر حملہ کیا تھا اس لئے لوگوں اور میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔اس فلم کے آغاز میں ایک خوبصورت حقیقت بیان کی گئی ہے۔فلم کے نام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ ہمیشہ کتا ہی اپنی دُم کو ہلاتا ہے کیونکہ وہ چالاک اور ہوشیار ہے اگر کتے کے مقابلے میں اس کی دُم زیادہ اسمارٹ ہوتی تو وہ ناچنے کے بجائے نچاتی۔

    بہر حال بات ہو رہی تھی ’’واگ دا ڈاگ‘‘ کی۔ہمارے ہاں بھی سیاست کے بازار میں ایک عرصے سے توجہ ہٹانے اور لوگوں کو بھٹکانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔بعض اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ حکومت پاناما لیکس کےا سکینڈل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ تحریک انقلاب،تحریک قصاص اور تحریک احتساب برپا کرنے والے ملکی ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے سے توجہ ہٹانے اور لوگوں کو بھٹکانے کیلئے سڑکوں پر ہیں۔یہ لوگ ایک دوسرے کو بھٹکانے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں ،دونوں فریق میڈیا کو بھٹکانے میں ضرور کامیاب ہوچکے ہیں۔جب ان کی سیاست گردی عروج پر تھی تو راولپنڈی اور لاہور میں کئی بیمار سسک سسک کر مر گئے ۔ان کے لواحقین روتے پیٹتے اور منتیں سماجتیں کرتے رہ گئے۔

    لیکن اس کے باوجود بعض ٹی وی چینلز کی نشریات پر ان بعض شعبدہ بازوں اور فال نکالنے والے طوطا مارکہ تجزیہ نگاروں کا غلبہ رہا اور اصل ایشوز نظر انداز ہوتے رہے۔جب ہمارا میڈیا ان فضولیات میں الجھا ہوا تھا تو غازی پور کی سینٹرل جیل میں متحدہ پاکستان کے ایک اور وفادار شہری میر قاسم علی کو پھانسی دیدی گئی۔عبدالقادر مُلا کی شہادت سے شروع ہونے والی اس انتقامی کارروائی میں اب تک بنگلہ دیش کے 6رہنمائوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے اور ہم بطور احتجاج بنگلہ دیش کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی نہیں کر سکے۔کتوں کے قتل پر غل مچ جاتا ہے مگر بنگلہ دیش میں انسانوں کے خون ناحق پر صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی کیونکہ چار سو ’’واگ دا ڈاگ‘‘کی پالیسی جاری ہے۔

  • حکومت کے لئے سب اچھا نہیں-حامد میر

    حکومت کے لئے سب اچھا نہیں-حامد میر

    hamid_mir1

    تین ستمبر کو بنگلہ دیش کے شہر غازی پور میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما میر قاسم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ میر قاسم پر الزام تھاکہ انہوں نے1971ءمیںالبدر کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی سلامتی کی جنگ لڑی۔ جس دن میر قاسم کو پھانسی پر لٹکایا گیا اس دن لاہور میں عمران خان جبکہ راولپنڈی میں ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید احمد کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا۔ کسی کو میر قاسم کی پھانسی کے خلاف احتجاج یاد نہ رہا۔ اس پھانسی پر پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے ایک کمزور سا مذمتی بیان جاری کیا گیا جس میں ایک دفعہ پھر صرف یہ کہا گیا کہ1974ءمیں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس کے تحت1971ءکے واقعات کو بھول کر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

    پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں ہیومن رائٹس واچ کا ذکر نہیں کیا جس کے ایشیاء کےڈائریکٹر بریڈ ایڈمز نے بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کی طرف سے میر قاسم کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا اور کہا کہ میر قاسم کا فیئر ٹرائل نہیں ہوا۔ میر قاسم کو چودہ مختلف مقدمات میں72سال قید اور پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو اغواء اور تشدد کے تین مقدامات میں سزا معطل کردی گئی اور قتل کے دو مقدمات میں سزا بھی ختم کردی گئی البتہ ایک مقدمے میں پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سریندرا کمار سنہا نے میر قاسم کے خلاف پیش کئے جانے والے شواہد اور گواہوں کے بیانات پر کھلم کھلا عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل محبوب عالم کو کہا کہ آپ کرائمز ٹربیونل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ یہ پہلو انتہائی اہم ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ہمیشہ 1971ءمیں ہونے والے جرائم کی مذمت کی اور 1971ءکے جرائم میں ملوث افراد کا ٹرائل کرنے کی حمایت کی لیکن حسینہ واجد کی حکومت نے جس انداز میں ٹرائل شروع کئے اور سیاسی مخالفین کو پھانسیوں پر لٹکانا شروع کیا اس پر ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کمیٹی سمیت انسانی حقوق کے کئی عالمی ادارے بھی چیخ اٹھے ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت نے ڈیلی اسٹار ڈھاکہ کے لبرل اور سیکولر ایڈیٹر محفوظ انعام پر غداری کے مقدمات بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کی جارہی ہے۔ میں نے ذاتی طور پر1971ءمیں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن پر ہمیشہ تنقید کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت ظلم کی یاد میں مزید ظلم کرے اور ناانصافی کے نام پر مزید ناانصافی کرے۔ ان اقدامات سے خطے میں مزید نفرتیں جنم لیں گی اور نوجوان نسل میں انتہا پسندی فروغ پائے گی، لہٰذا بنگلہ دیش میں ہونے والی ناانصافی پر آواز اٹھانا کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ اس پورے خطے کو انتہا پسندی سے بچانے کی کوشش ہے۔

    بنگلہ دیش میں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں ناانصافی نہیں ہوتی۔ تین ستمبر کو لاہور اور راولپنڈی میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج پر کئی اعتراضات کئے جاسکتے ہیں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ2014ءمیں لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر پولیس نے گولیاں برسائیں اور14بے گناہ مرد و خواتین مرغابیوں کی طرح مارے گئے؟ عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے انداز سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ان کی جماعت کے مقتولین کو انصاف نہیں ملا اور اگر وہ بار بار احتجاج کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ تین ستمبر کو ڈاکٹر طاہر القادری اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد نے راولپنڈی میں احتجاج کیا۔ دونوں مل کر بڑی تعداد میں لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب رہے۔ لوگوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے کے لئے راولپنڈی اور لاہور کی سڑکوں کو کنٹینروں سے بند کیا گیا لیکن اس کے باوجود دونوں شہروں میں رات گئے تک ہزاروں افراد وفاقی و صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔

    2014ءمیں عمران خان اور طاہر القادری سڑکوں پر آئے تو اکثر اپوزیشن جماعتوں کا خیال تھا کہ یہ دونوں جمہوریت کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہیں۔2014ء میں جب عمران خان اور طاہر القادری نے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنادیا تو پیپلز پارٹی سمیت کئی دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ ہائوس کے اندر وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دیا۔ جماعت اسلامی نے مذاکرات کے ذریعے حکومت اور سڑکوں پر موجود مظاہرین میں پل بننے کی کوشش کی۔ 2016ءمیں صورتحال مختلف ہے، پاناما پیپرز کے معاملے پر پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی نو جماعتیں یکساں موقف رکھتی ہیں۔ تین ستمبر کو لاہور میں تحریک انصاف کی احتساب ریلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین کی شرکت بہت اہم ہے۔

    آنے والے دنوں میں پیپلز پارٹی بھی وفاقی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی تیاری کررہی ہے اور قربانی کی عید کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں قربتیں بڑھ سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی صرف یہ چاہتی ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کے نتیجے میں جمہوریت کو کوئی خطرہ پیدا نہ ہوجائے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے پیپلز پارٹی کو یقین دلایا ہے کہ اس کے احتجاج کا مقصد صرف اور صرف کرپشن میں ملوث طاقتور افراد کا احتساب اور2018ءمیں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔ یہ دونوں جماعتیں دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گی۔ حکومت کے خلاف سیاسی دبائو کے ساتھ ساتھ قانونی دبائو بھی بڑھایا جائے گا۔حکومت کو معاملہ فہمی سے کام لینا ہوگا۔ حکومت اس غلط فہمی سے نکل آئے کہ چند اہم عہدوں پر نئی تقرریوں سے اس کے مسائل ختم ہوجائیں گے۔2014ءاور2016ءمیں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ دو سال کے دوران غیر ملکی دشمنوں نے پاکستان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کردیا ہے اور پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں داخلی استحکام کی ضرورت ہے لیکن پاناما پیپرز کے معاملے میں حکومت کا غیر لچکدار رویہ صرف حکومت کے لئے نہیں بلکہ داخلی استحکام کے لئے بھی خطرات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے لہٰذا حالات کی نزاکت حکومت کے رویے میں لچک کا تقاضا کرتی ہے۔

    تین ستمبر کی رات عمران خان نے وزیر اعظم سے کہا ہے کہ ان کے خاندان نے لندن میں جو جائیداد خریدی اس کی دستاویزات دکھادیں، یہ بتادیں کہ اس جائیداد کو خریدنے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا، یہ پیسہ ملک سے باہر کیسے گیا اور جس پیسے سے جائیداد خریدی گئی اس پر ٹیکس دیا گیا یا نہیں؟ یہ بڑے سادہ سے سوالات ہیں۔ حکومت کچھ سوالات کا جواب دے چکی ہے اور کچھ کا جواب دے سکتی ہے لیکن نجانے کیوں پاناما پیپرز پر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات میں لچک کیوں نہ دکھائی گئی۔ حکومت سے گزارش ہے کہ ضمنی انتخابات میں فتح کے نشے سے چھٹکارا پائے اور عمران خان کے سوالات کا ٹھوس شواہد کی مدد سے جواب دے بصورت دیگر قربانی کی عید کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد تشکیل پانے والا ہے اور حکومت کے اندر بھی بغاوت ہوسکتی ہے۔ جمہوریت قائم رہے گی لیکن چہروں میں تبدیلی کا دبائو بڑھنے والا ہے۔

  • حسینہ واجد کے سیکرٹری سے ملاقات کا احوال – مولوی روکڑا

    حسینہ واجد کے سیکرٹری سے ملاقات کا احوال – مولوی روکڑا

    کاروبار کے سلسلے میں بنگلہ دیش جانا ہوتا ہے. کچھ دن پہلے گیا تو اتفاق سے بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے پی اے سے ملاقات ہوئی جو حال ہی میں ریٹائر ہوا تھا اور آج کل انویسٹمنٹ بینک چلاتا ہے. ہم نے لنچ ایک ساتھ کیا اور بنگلہ دیش کی مشہور ہلشہ فش کھائی! اس ملاقات کے دوران بہت سے امور پر بحث اور تبادلہ خیال ہوا.

    بحث کے دوران میں نے ایک سوال جماعت اسلامی کے لیڈروں پھانسی پر اٹھایا کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ بنگلہ دیش کے غدار ہو نہیں سکتے کیونکہ جب انہوں نے بالفرض پاکستان کا ساتھ دیا تھا تب تو بنگلہ دیش کا نہ تو کوئی وجود تھا اور نہ کوئی آئین جبکہ یہی لیڈران بعد میں بنگلہ دیش اسمبلی کا حصہ تھے اور انھوں نے ملک کی ترقی و خوشحالی اور مضبوطی میں اپنا کردار ادا کیا.

    پی.اے نے آرام سے سوال سنا اور عجیب انکشاف کیا اور کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ بد قسمتی سے کچھ سیاستدان ایسے ہیں جو اپنی سیاست زندہ رکھنے کے لیے اکہتر کا کارڈ ابھی تک کھیل رہے ہیں، لیکن حقیقت میں پاکستان نے اکہتر کے بعد کبھی بھی بنگلہ دیش کے داخلی امور میں مداخلت یا کسی قسم کی لابنگ نہیں کی جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کا اگر کسی ملک سے سب سے زیادہ complementary relation ہے تو وہ پاکستان سے ہے، جبکہ دوسری طرف انڈیا بنگلہ دیش کا استحصال کر رہا ہے، ابھی انڈیا نے دو بلین ڈالر بنگلہ دیش میں انویسٹ کیے ہیں اور جب بھی کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں کچھ انویسٹ کرتا ہے تو اس کے آفسیٹ بھی ادا کرنے پڑتے ہیں چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہوں. انڈیا کسی صورت بھی بنگلہ دیش کی اکنامک گروتھ نہیں چاہتا، اس کے اپنے مفادات ہیں، جبکہ پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں، ملکوں کے تعلقات مفاد پر مبنی ہوتے ہیں جذبات پر نہیں.

    رہی بات جماعت اسلامی کی تو جماعت ایک بہت ہی مضبوط نیٹ ورک رکھتی ہے، جماعت کے وابستگان معمولی لوگ نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے بڑے بڑے بزنس مین اس سے وابستہ ہیں جو اپنی تنظیم کے لوگوں کو ہر قسم کے مواقع فراہم کرتے ہیں، جماعت اسلامی اپنے کارکنوں کے روٹس تک پھیلی ہوئی ہے، اور اپنے کارکنوں کی زندگیاں سنوارتی ہے، عوام کے ویلفیئر کے بھی بڑے پروگرام اور نیٹ ورک جماعت چلاتی ہے اور سب کی بلاتفریق خدمت کرتی ہے، اس خصوصیت کے پیش نظر جماعت میں بہت سے ایسے افراد بھی شامل ہو رہے تھے جو بےشک ان کے نظریات سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں. جماعت کے لیڈر گروپ آف کمپنیز کے مالک بھی ہیں اور پیسے اپنے کارکنوں پر خرچ بھی کرتے ہیں. حزب اختلاف میں اگر کوئی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو وہ یہ جماعت کے لیڈران ہی ہیں، اس لیے اپوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ جماعت کے ان لیڈران کو ختم کیا جائے، اور اب اس وقت جماعت کے پاس کوئی نامور لیڈر موجود نہیں ہے، اور یہ سب سیاست ہے. ہاں اس میں اکہتر کا کارڈ ضرور استعمال ہو رہا ہے اور جماعت کے ان لیڈران نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ وقت ان پر آئے گا ورنہ انہوں نے بھی ٹھوس اقدامات اپنائے ہوتے یا ہو سکتا تھا کہ ملک سے باہر چلے جاتے.

    بنگلہ دیش کے عوام کو یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ اکہتر کے مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں صرف اپنی پوزیشن اور سیاست کو مضبوط کیا جا رہا ہے، چونکہ پاکستان کا ہمارے ساتھ کوئی بارڈر نہیں لگتا اس لیے اسے بنگلہ دیش کے داخلی معاملوں سے کوئی سروکار نہیں. پاکستان کو دوسرے خطرات لاحق ضرور ہیں، اگر آج پاکستان مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے تو وہ صرف پاکستان کی آرمی کی وجہ سے کھڑا ہے، جو آج ایک سٹیل کی مانند انڈیا، ایران اور افغانستان گٹھ جوڑ کی ہر سازش کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، نواز شریف ایک کروک انسان ہے لیکن اس کو لیڈر اسی آرمی نے ہی بنایا ہے، آرمی کا کردار پاکستان کی سیاست میں بہت مضبوط ہے .

    ایک سوال میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے متعلق کیا تو پی.اے نے جواب دیا کہ یہ بھی ایک سیاست ہے، جس صوبے میں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں حال ہی میں معدنی ذخائر دریافت ہوۓ ہیں اور جہاں معدنی ذخائر ہوں وہاں امریکہ تو ہوتا ہی ہے، امریکہ کی ہی سر پرستی میں بدھوں کو استعمال کر کے مسلمانوں کا صفایا کیا جا رہا ہے . خیر بہت ہی اچھی نشست تھی، کافی agree and disagreement ہمارے رہے.

    سو باتوں کی ایک بات کہ سیاست میں صرف مفاد دیکھے جاتے ہیں، چاہے وہ ذاتی ہو یا ملکی، لہذا مفاد سب سے پہلے، عوام کا کیا ہے؟ سڑکوں پر آتی اور مرتی رہتی ہے .

  • بنگلہ دیش سے پیغام، پاکستانیوں کے نام  –  جمال عبداللہ عثمان

    بنگلہ دیش سے پیغام، پاکستانیوں کے نام – جمال عبداللہ عثمان

    شیخ سعدی کہتے ہیں، میں کسی راستے سے گزر رہا تھا۔ دیکھا تو ایک نوجوان آگے آگے جارہا ہے اور ہرن کا بچہ اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ میں سمجھا کہ شاید اس نوجوان نے اسے رسی سے باندھ رکھا ہے جبھی یہ پیچھے چلتا جارہا ہے، لیکن بڑی حیرت ہوئی جب غور سے دیکھا اور کوئی رسّی نظر نہ آئی۔

    میں نے نوجوان سے پوچھا:
    ’’برخوردار! یہ ایسا جانور ہے جو انسان کی شکل دیکھ کر گھبرا جاتا ہے۔ لیکن یہ تم سے اس قدر مانوس ہوگیا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

    نوجوان نے کہا:
    ’’میں اس کی غذا کی فکر میں لگا رہتا ہوں۔ اسے کھلاتا پلاتا ہوں۔ یہی وہ احسان ہے جس نے اسے میرے ساتھ باندھ رکھا ہے۔ احسان اور نیکی، رسی اور زنجیر سے زیادہ مضبوط ہے۔‘‘

    شیخ سعدی کہتے ہیں، میں نے سوچا بات سچ ہے۔ احسان اور نیکی کی مثال مضبوط رسی کی طرح ہے۔ یہ درندوں اور جانوروں کو بھی فرماں بردار اور وفادار بنادیتی ہے۔ پھر اگر کسی انسان کے ساتھ احسان کیا جائے تو وہ کیوں دوست نہ بن جائے؟

    پاکستان کے محسنین یکے بعد دیگرے تختہ دار پر جھول رہے ہیں۔ 90 سالہ پروفیسر غلام اعظم کا وہ پیغام آج بھی پڑھ کر دل چھلنی ہوجاتا ہے جو انہوں نے جیل سے قوم کے نام بھیجا تھا۔ ہم محسنین کو بھول گئے تو حسینہ واجد کی ہمت مزید بڑھی۔ عبدالقادر ملا اور قمر الزماں بھی تختہ دار پر جھول گئے۔ 72 سالہ مطیع الرحمن نظامی نہ بخشے گئے۔ صلاح الدین قادر چوہدری ”جرم“ کی سزا بھگت چکے۔ ان سب کا ”جرم“ کیا ہے؟ یہی کہ پاکستان کا ساتھ دیا۔ گویا پاکستان سے تعلق جرم اور اس کی سزا موت!!!

    ہمارے لیے واضح پیغام، مگر ہم نے میدان میں آخر وقت ڈٹے رہنے والے ان محسنین کے ساتھ کیا کیا؟ وہی جو احسان فراموش اور بے وفا کرتے ہیں۔ میں نے اور آپ نے احسان فراموشی کی بہت سی مثالیں دیکھی، سنی اور پڑھی ہوں گی، مگر جو تاریخ ہم رقم کررہے ہیں، وہ حقیقت میں خون کے آنسو رُلادینے والی ہے۔ بھلا ذرا دل پر ہاتھ رکھ بتائیے تو سہی ایک شخص آپ پر محض چند گھنٹے فدا کردے تو آپ اس کا یہ احسان عرصے تک یاد رکھتے ہیں، جنہوں نے آپ پر جان قربانی کردی، جو آپ پر فدا ہوگئے، آپ اسے ”اپنا“ کہنے سے ہی انکاری ہوگئے۔ اس سے تعلق پر ہی شرمندگی محسوس کرنے لگے۔ ہم اس کی لاکھ تاویلیں کریں۔ ہزار بہانے ڈھونڈیں، مگر حقیقت تو یہی ہے کہ ہم نے نہ صرف بے وفائی کی، بلکہ اس میں ”مثالیں“ قائم کردیں۔

    گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا
    لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا

    یاد رکھنا چاہیے کہ بنگلہ دیش میں آج رات میر قاسم علی کو ہونے والی پھانسی پہلی ہے نہ آخری۔ اس سے پہلے 90 سالہ بوڑھا موت کو گلے لگاچکا ہے۔ اس قافلے کے کئی باوفا تختہ دار پر جھول چکے ہیں اور دسیوں کے لیے راستے ہموار ہیں۔ مگر احسان فراموش مزاج بتارہے ہیں کہ یہ سب دیکھ کر ہمارے ماتھے پر پہلے بل پڑا تھا نہ آیندہ اس پر شکن نظر آنے کے امکانات ہیں کہ ہماری خاطر سب کچھ تج دینے والے بزبانِ حال کہہ رہے ہیں

    تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
    ہم نے تمہاری یاد میں سب کچھ بھلادیا

    بھلا بتائیں تو سہی، احسان فراموشی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے جنہوں نے آپ کی خاطر اپنے خون کے رشتوں کا خون کیا۔۔۔ ان سے آپ ایسی آنکھیں پھیر رہے ہیں۔ یہ بے وفائی اور احسان فراموشی کی ایسی داستان ہے جسے ہماری آنے والی نسلیں بطورِ حوالہ پیش کریں گی۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم دنیا میں ایک مقام رکھتے ہیں اور یہ مقام کئی قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ آپ اپنے محسنین کو ایسے ہی تختہ دار پر جاتا تماشا دیکھتے رہیں گے تو کل خدانخواستہ کوئی مشکل وقت آنے پر آپ کسی سے کٹنے مرنے کی توقع کیا رکھ سکیں گے؟

    آپ کہہ سکتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ ہماری کچھ ”مصلحتیں“ ہیں۔ میں مصلحتوں سے واقف ہوں، مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ریاستیں بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بندر استے کھول دیتی ہیں۔ دبائو کے ذریعے بہت سے کام نکلوالیتی ہیں۔ جو آپ کرسکتے ہیں اور نہیں کررہے ہیں، اس سارے پروسس سے باخبر ہوکر کم ازکم میں تو اسے بے وفائی اور احسان فراموشی کے سوا کوئی نام نہیں دے سکتا۔ عرض ہے کہ مجھ اور آپ سے بھلا تو ہرن کا وہ بچہ ہوا جو معمولی احسان پر اپنے ”دشمن“ کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ مگر ہم۔۔۔ ہمیں مورخ کس نام سے یاد کرے گا!!!

    مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے
    تمہیں ”احسان فراموش“ کہہ رہا ہے زمانہ

  • خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش پچھلے دنوں ایک تحریر نظر سے گزری جس میں پاکستان کے حوالے سے ایک بڑی ستم ظریفی کا ذکر تھا. مصنف کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ملک ہے جس کے لیے اس کی سرحدوں سے پار رہنے والے بنگلہ دیش اور مقبوضہ کشمیر میں اپنی جانوں سے جا رہے ہیں جبکہ خود اس کے اندر سے اس کے لیے مردہ باد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں.

    اول الذکر روایت کو آج سابقہ مشرقی پاکستان کے فرزند میر قاسم نے اور آگے بڑھایا اور جان اپنے خالق حقیقی کے حوالے کر دی. جرم وہی، پاکستان کو سلامت رکھنے کی کوشش.

    حسب روایت، ہمارا ردعمل… شدید خاموشی !

    اپوزیشن کے اپنے قضیے ختم ہونے میں نہیں آتے، یا وہ دانستہ خود کو الجھائے رکھتے ہیں کہ خدا سے تعلق اپنی جگہ، صنم کدہ سے بھی کیوں بگاڑیں؟ حکومت کو کچھ کہیں تو کہتے ہیں ہمارے پاس ہے ہی کیا، جس کا حساب مانگنے چلے آتے ہیں. اس پر مستزاد یہ کہ فوج کے ہاں بھی اس دن پریس ریلیز اور ٹوئٹر کی شٹرڈاؤن ہڑتال ہوتی ہے. عوام کا تو ذکر ہی کیا، وہ بھی حال مست ہیں یا مال مست.

    گھوم پھر کر یہ جماعت اسلامی کی ذمہ داری رہ جاتی ہے کہ وہ ان کا نوحہ کرے. دریں حالیکہ یہ میرے اور آپ کے لیے بھی اسی قدر صدمہ اور تشویش کی بات ہونا چاہیے. ان لوگوں کو پھانسیاں جماعت اسلامی کے رکن ہونے کی وجہ سے نہیں مل رہیں. ان کا قصور پاکستان سے محبت ہے. صلاح الدین قادر چودھری کا تعلق تو جماعت اسلامی سے نہیں تھا، بلکہ وہ تو ان دنوں مشرقی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھے. وہ تعلیم کے سلسلہ میں مغربی پاکستان میں موجود تھے لیکن، پاکستان سے محبت ہی کافی جرم ٹھہرا، اور اس کا صلہ جماعتی وابستگی سے قطع نظر دیا جا رہا ہے ان دنون بنگال میں.

    ہمارے ہاں سکون سے بیٹھنے والوں کو کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خطہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مقصد کیا ہے اور ہمارے ہاں اس کا ہدف کون ہے. برسبیل تذکرہ، جن لوگوں کو ”معاونت جرم“ میں تختہ دار پر لٹکایا جا رہا ہے اور جن مہاشوں کے آشیرباد سے یہ سب ہو رہا ہے، اگر ان ہی کی شہ پر اگلے مرحلہ میں بنگلہ دیشی حکومت ”اصل مجرموں“ کی دہائی دینے لگی تو پھر کیا ہوگا.

    یہ بات اتنی سادہ نہیں. موجودہ عالمی معاملات کیسے چلائے جاتے ہیں، ہم سب ہی کو معلوم ہے. بات نکلتی ہے (یا نکالی جاتی ہے)، پھر مغربی میڈیا اس کو آہستہ آہستہ ہوا دینا شروع کرتا ہے. اس کے بعد سوشل میڈیا پر چند ایسی سنسنی خیز فوٹیجز اپ لوڈ ہو جاتی ہیں جن میں مظالم کی داستانیں ہوتی ہیں اور ملک سے برگشتہ افراد کے انٹرویوز دنیا کے بڑے نیٹ ورکس پر پرائم ٹائم نشریات کی زینت بننے لگتے ہیں. یوں عالمی رائے عامہ کو ایک خاص ڈھب پر تیار کیا جاتا ہے.

    کس کو معلوم نہیں کہ پاکستانی فوج آج دشمنوں کا اصل ہدف ہے اور اسی کے حوالے سے آنے والے دنوں میں یہ کیس تیار کیا جائے گا. ہم نے ماضی میں دیکھا کہ سوات آپریشن کے دوران ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کی گئیں جن میں وردی والے لوگ ”نہتے“ سویلینز کو گولیاں مارتے نظر آتے ہیں.

    یہ نہایت قابل تشویش صورتحال ہے جس سے بظاہر ہم بالکل لاتعلق ہیں. یہ پہلی بار ہوگا کہ آنکھیں بند کرنے سے بلی بھاگ جائے گی، وہ بلی جو پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہے اور اس نے جنگل کے بادشاہ کے ساتھ بھی سانٹھ گانٹھ کر رکھی ہے. چیکوسلواکیہ اور سربیا کی مثال سے یہ یاد رہنا چاہیے کہ کس طرح ایک وقت کے ”اتحادی“ منظر بدلنے پر جنگی جرائم کے مجرم بنا دیے جاتے ہیں.

    پاکستان کو بھرپور بھاگ دوڑ کر کے ان کے کیسز اور ان پر عملدرآمد کو رکوانا چاہیے تھا. سعودی عرب، ترکی، چین جس کو بھی کہنا پڑتا اس سے دباؤ ڈلوانا نہایت ضروری تھا. اس سے ان بدنصیب ”سابق“ پاکستانیوں کی جانیں تو بچتی یا نہیں مگر پاکستان اپنے اور اپنی فوج کےخلاف ایک نہایت خطرناک چال کے خلاف مؤثر پیش بندی کر پاتا. حسینہ واجد اور ان کے پشت پناہوں کو بھی کان ہو جاتے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی. ہر مصیبت میں لتھڑ جانے کے بعد کارروائی کرنا وقت، افرادی قوت اور مالی وسائل کی عیاشی کے مترادف ہے. ضرب عضب سے کم از کم یہ سبق ضرور سیکھا جانا چاہیے.

    خون ناحق ہے جو بنگلہ دیش میں بے دریغ بہایا جا رہا ہے. اس کا خمیازہ بنگلہ دیشی قیادت کو تو بھگتنا ہی پڑے گا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم محفوظ و مامون رہ پائیں گے؟؟؟

  • تو کیا اب ہر محب وطن یہ سمجھ لے کہ وہ اکیلا ہے؟ زبیر منصوری

    تو کیا اب ہر محب وطن یہ سمجھ لے کہ وہ اکیلا ہے؟ زبیر منصوری

    زبیر منصوری تو کیا اب ہر محب وطن یہ سمجھ لے کہ وہ اکیلا ہے؟
    اس کی پیٹھ خالی ہے؟
    اس کو بس اپنے ہی بل بوتے پر جو کرنا ہے سو کرنا ہے؟
    اسے کسی سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ؟
    ان سے بھی نہیں جنہوں نے ان کے ملک و دین کے لیے اخلاص کو ملکہ نور جہاں کی ایک مسکراہٹ جتنی اہمیت بھی نہیں دی؟
    جن کی نظر میں ان کا اپنی زندگی سے گزر جانا کسی طوائف کے کوٹھے پر”چیچی دے چھلے“ والا گانا گا لینے سے بھی کم اہم ہے؟
    ان کے لیے بھی نہیں جو ملک و قوم کے نام پر سیاست کرتے نہیں تھکتے؟

    غضب خدا کا بنگلہ دیش میں پھانسی گھاٹ پر میرے شہداء کی قطاریں لگی ہیں اور پاکستان میں کوئی پھوٹے منہ ان کا ذکر کرنے کو بھی تیار نہیں؟
    کوئی بنگلہ سفیر کو بلا کر رسمی کارروائی کا روادار بھی نہیں؟
    کوئی میڈیا اینکر؟
    کسی سیاسی جماعت کا کوئی ورکر؟
    کوئی تیسرے درجہ کا سیاسی لیڈر ہی سہی؟
    کوئی این جی او ؟
    کوئی ادارہ ؟
    کوئی بھی نہیں ؟
    زبانیں گنگ ہیں، قدم زنگ آلود ہیں، کیوں آخر کیوں؟
    یارو کچھ تو بولو، یہ قبرستان کی خاموشی کیوں ہے؟

    یہ میرا میر قاسم
    خدا کی قسم! تم ایک تو ایسا پیدا کر کے دکھائو؟
    موت کی سزا ہوئی ہے اسے، موت کی سزا!
    پتہ بھی ہے موت ہوتی کیا ہے؟
    مگر وہ کمال کا آدمی مسکرا کر بولا ہے رحم کی اپیل؟
    وہ بھی ان ظالموں سے؟
    سوری یہ زبان اس کے لیے بنی ہی نہیں

    جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
    یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو کوئی بات نہیں
    یہ وفاداروں کے قبیلہ کے لوگ ہیں
    یہ نظام حاضر و موجود کے باغی ہیں
    یہ مودودی کے شاگرد ہیں جس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ زندگی و موت کے فیصلہ یہاں نہیں ہوتے
    یہ اس قافلہ کے شہ سوار ہیں جسے صحابہ کی روایتوں نے قوت اور توانائی فراہم کی ہے
    ان کی راہیں عارضی وقتی فوری مفادات کی بنیاد پر بنتی اور تبدیل نہیں ہوتیں بلکہ ازلی اور ابدی اصولوں سے کشید کی جاتی ہیں
    ان کے پیش رو سید احمد شہید اور ٹیپو سلطان جیسے لوگ ہیں
    تم انہیں پھانسی نہیں دیتے، شہادت کا تحفہ دیتے ہو
    ان کی زندگی تو امانت ہوتی ہے اور امانت جتنی اچھی طرح مالک تک پہنچے، امین کے لیے اتنے ہی اچھے انعام کا سبب بنتی ہے
    یہ تو اس روایت کے پیروکار ہیں کہ جب ان کے ایک بڑے کی پھانسی نظربندی میں تبدیل ہوئی تو انہوں نے کیا خوب کہا تھا کہ
    مستحق دار کو حکم نظربندی ملا
    کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی
    یہ تو اپنا بہترین صلہ پانے جا ہی رہے ہیں
    یہ تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف لوٹ رہے ہیں مگر
    تیرا کیا بنے گا حسینہ ؟
    تو مودی کے ساتھ ہی اپنا انجام دیکھ لے
    اور وہ سب بھی سوچ لیں جنہوں نے اپنی زبانیں بےنام سے مفادات اور سفارتی آداب کی سوئیوں سے سی لی ہیں
    جلد میرے رب کے پھانسی گھاٹ سجنے کو ہیں
    تمہارے اور ان پھانسی گھاٹوں میں فرق بس اتنا ہے کہ تم پھانسی دے کر عزت والی موت سے ہمکنار کرتے ہو اور میرے رب کی سزا میں موت نہیں آئے گی، ہر لمحہ مرنا اور اذیت ناک مرنا ظالموں کا نصیب بن جائے گا. ان شا اللہ

  • حسینہ واجد کے ساتھ زیادتی – حامد کمال الدین

    حسینہ واجد کے ساتھ زیادتی – حامد کمال الدین

    حامد کمال مسلم معاشروں میں اسلام کی ریاست و سیادت کو واپس لانے کی متمنی آوازیں اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود میرے لیے قابل قدر ہیں۔ یہ میرا کیمپ ہیں، اگرچہ حالات و وقائع کو پڑھنے میں ان میں سے ایک ایک کا زاویہ نگاہ کتنا ہی ایک دوسرے سے جدا ہو۔ اپنا یہ کیمپ، اپنی تمام تر وسعت اور تنوع کے ساتھ، مجھے عزیز ہے اور اس کو کسی ایک ہی رائے یا ایک ہی نقطہ نظر میں سکیڑ ڈالنا نامنظور۔ ایسا کر کے میں اپنے ایک بڑے اثاثے سے محروم ہو جاؤں گا۔ پھر ایک مسئلہ ترکی میں ہو، اس پر یہاں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنا ہمارا بنتا ہی نہیں ہے۔ ہمارے لیے یہاں کے مسائل بھی کچھ اتنے کم نہیں ہیں۔ اور جس چیز کی سب سے بڑھ کر یہاں ضرورت ہے وہ ہے اسلامی آوازوں کی ہم آہنگی، تنوعِ آراء کو قربان کیے بغیر۔

    ترکی میں پیش آمدہ ایک مسئلے پر ہمارا کوئی رائے رکھنا یا ایک دوسرے سے مختلف زاویہ نگاہ رکھنا یقیناً حرج کی بات نہیں۔ تُرکی صورتحال سے لاتعلق رہنا ایک مسلمان کےلیے اِس ’الیکٹرانک‘ جہان میں ناممکن ہے، جبکہ دیکھنے کے زاویے ہمارے مابین جدا ہو سکتے ہیں، اور رہیں گے۔ البتہ اس کا طریقہ میرے خیال میں یہی درست ہے کہ آپ ایک بات کو اپنی رائے کے طور پر بیان کرنے تک رہیں۔ اپنی اس رائے کے حق میں بھرپور دلائل بےشک دیں۔ اس سے معارض نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ غلط ٹھہرانا بھی لامحالہ رہے گا کہ اس درجہ تبادلۂ آراء ایک صحتمند عمل ہے۔ البتہ یہ اسلوب اختیار کرنا کہ فلاں جماعت نے (باقاعدہ جماعت کا نام لے کر) یہ موقف اختیار کیوں کر رکھا ہے، میرے خیال میں اسلامی سیکٹر کے باہم الجھ پڑنے کا موجب ہو سکتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب نہ اس کی ضرورت ہے اور نہ ہم اس کے متحمل۔ یہ چیز اسلامی آوازوں کی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے اور شاید جواب در جواب کے کسی سلسلہ کو ایک غیرضروری انگیخت دے، جبکہ نقطہ نظر کا بیان کسی جماعت کو موضوع بنائے بغیر بھی ممکن ہے۔ اس کے باوجود، اگر کسی طرف سے ایسی کوئی بحث شروع ہو گئی ہے تو اس کو اچھے سے اچھے احتمال پر محمول کرنا چاہیے، نیز اسلامی سیکٹر کےلیے اس سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدے ہی لے کر آنے کی سعی ہونی چاہیے، جس پر میں تھوڑا آگے چل کر بات کروں گا۔ البتہ اس اعتراض کے مضمون پر بےتکلفی سے کچھ بات کر لینے میں بھی حرج نہیں۔

    جماعت اسلامی پر یہ تنقید ہوئی ہے کہ یہاں ایک جیسے واقعات کو دیکھنے کےلیے کچھ دہرے قسم کے پیمانے ہیں۔ اردگان صاحب ترکی میں عین وہی کر رہے ہیں جو حسینہ واجد صاحبہ بنگلہ دیش میں18 کر رہی ہیں (جو گویا اپنی جگہ ایک مسلَّمہ ہے، اختلاف صرف اس سے نکالے جانے والے ’نتائج‘ پر ہو رہا ہے!) لیکن عجب تضاد ہے کہ ایک ہی جیسے واقعے کی ایک طرف جماعتِ اسلامی تائید کر رہی ہے اور ایک طرف مخالفت! خصوصاً یہ کہ حسینہ واجد عین اردگان والے کام بس ذرا عجلت سے انجام دے رہی ہیں! کچھ تجزیے واقعتاً چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت اور ترکی حکومت کے اقدامات میں ’واضح مماثلت‘! اردگان ہمارے سامنے بغاوت کے ایک بالکل حالیہ تازہ واقعے پر اقدامات کر رہے ہیں، اور وہ بھی ایک ایسا بھاری بھرکم واقعہ جس میں نہ صرف وہ اور ان کے رفقائےکار داؤ پر لگ چکے تھے بلکہ ترکی کی جمہوریت اس کے اندر بال بال بچی (اردگان کو چھوڑیے، جمہوریت جس سے مقدس تر چیز اِس جہان میں، اور اس کی پوری تاریخ میں، کبھی پائی ہی نہیں گئی!)۔ پھر اردگان نے ابھی کوئی سزائیں دی بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا اردگان کےلیے تو ’عجلت‘ کا لفظ برمحل ہی ہے! لیکن حسینہ واجد تو نصف صدی پہلے کے واقعات، کہ جب ’ان کا‘ ملک بھی ابھی نہیں بنا تھا، ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور کھود کھود کر نکال رہی ہیں. تھوڑی اور دیر کر لیتیں تو وہ سارے بزرگ جو ’ان کا‘ ملک بننے سے پہلے اس کے خلاف کسی مبینہ بغاوت کے مرتکب رہ چکے ’ہوں گے‘، پھانسی کے بغیر ہی دنیا سے چلے جاتے! عجلت! کہاں نصف صدی پرانا ایک شدید متنازعہ اور ممکن التوجیہ واقعہ، اور کہاں تازہ بغاوت کا ایک چیختا دھاڑتا ناقابلِ تفسیر واقعہ! اردگان کے زیراقتدار دفاتر میں بھی پچاس سال پرانے ترکی کی کچھ فائلیں پڑی تو یقیناً ہوں گی۔ یہ ان بوسیدہ فائلوں کو نکالتے۔ تھوڑی ان کی گرد جھاڑتے۔ اس کے گڑے مردوں کو اٹھاتے اور پھانسی کے اعزازات سے سرفراز کر کر کے ترکی کے اُن سفید ریش بزرگوں کو جہانِ فانی سے رخصت کرواتے چلے جاتے، ظاہر ہے وہ سب پرانی باتیں دلوں کے کسی نہ کسی کونے میں ابھی پڑی ہوں گی، بھڑاس نکالنے میں سوائے معقولیت کے اور ’عجلت‘ وغیرہ ایسا کوئی الزام لگ جانے کے خوفناک اندیشے کے، آخر کیا چیز حائل تھی!؟ یا پھر، دوسری جانب، l_117874_030738_printحسینہ واجد کے خلاف اُن کہنہ سال پاپیوں نے اپنے پچاس برس پرانے گناہوں کو نہایت کم اور ناکافی جانتے ہوئے، حال ہی میں دن دہاڑے کوئی ایسی بڑی سطح کی مسلح بغاوت کر لی ہوتی جیسی ترکی میں ہوئی، پھر تو حسینہ واجد کےلیے بھی ’عجلت‘ کا لفظ بولنا اور بنگلہ دیش کی ان محترمہ کو ترکی کے اردگان کے ساتھ ملانا بنتا۔ لیکن ایسا کچھ بھی ہوئے بغیر دونوں کے مابین مماثلت اور وہ بھی عجلت کے حوالہ سے، جبکہ ترکی میں تو نہ ابھی کسی پر کوئی مقدمہ چلا اور نہ کسی کو کوئی سزا ہوئی، صرف ایک نیٹ ورک سے وابستہ لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ میرا خیال ہے، حسینہ واجد کے ساتھ تھوڑی زیادتی نہیں ہو گئی!؟

    پھر اس بات کا تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ جماعتِ اسلامی اردگان کی حمایت کس حوالے سے کر رہی ہے۔ آیا جماعت اسلامی یہ کہہ رہی ہے کہ گولن کو پھانسی چڑھا دو؟ یا حتیٰ کہ جماعت اسلامی نے بغاوت میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے عناصر کو سزائیں دلوانے کی تحریک چلا رکھی ہے؟ ایک جمہوریت کے خلاف ‘کُو’ ہوا اور اس میں جماعت اسلامی اپنے ملک میں اردگان کےلیے کلمۂ خیر کہلوا رہی ہے، جس کی پشت پر اسلامی اخوت کا جذبہ کارفرما ہے، اس حد تک اس میں اعتراض کی بات کیا ہے؟ اردگان کی حمایت کی ہے مگر یہ بھی تو دیکھیں کس حوالے سے؟ ایک ہی بات کے بےشمار حوالے ہو سکتے ہیں، کچھ ان میں سے غلط ہوں گے کچھ صحیح ہوں گے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ جب میں ایک جماعت پر اعتراض کرتا ہوں تو اس کےلیے میں اس کے کون سے بیان کو بنیاد بناتا ہوں۔ ترکی کے داخلی نزاع میں میرا خیال ہے

    سراج الحق پاکستان میں ترکی سفیر کے ساتھ
    سراج الحق پاکستان میں ترکی سفیر کے ساتھ

    جماعت اسلامی کوئی فریق نہیں بنی ہے۔ ترکوں کے داخلی معاملات جماعت نے بدستور ترکوں پر ہی چھوڑ رکھے ہیں۔ اردگان کی حمایت کا یہاں کوئی ریفرنس ہے تو وہ ہے مسلح بغاوت کاروں کے ہاتھوں جمہوری مینڈیٹ چھننے سے بچانا اور جمہوریت کے خلاف اس بغاوت کے پیچھے کارفرما عناصر کو اردگان کا شکستِ فاش سے دوچار کرنا۔ یا پھر اس مسلح بغاوت اور اس کے پیچھے کارفرما عناصر کی کچھ مذمت جماعت نے کر ڈالی ہو گی (اس گلوبل جہان میں اس سطح کے واقعات کسی پشت پناہ کے بغیر انجام پاتے ہوں، بالجزم ایسا کوئی دعویٰ کر ڈالنا ظاہر ہے ممکن نہیں ہے)۔ غرض ترکی کی ایک منتخب حکومت اور اس کے حقِ اقتدار کی حمایت۔ یا مسلح بغاوت کے کارپردازوں کی ایک عمومی مذمت۔ اس سے بڑھ کر جماعت نے کوئی مطالبہ کیا ہو، یا اردگان کے کسی مخصوص اقدام کی حمایت کی ہو تو اس کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ محض اردگان کی حمایت یا اس کےلیے اس مشکل گھڑی میں کلمۂ خیر، یہ تو دنیا بھر کے انصاف پسند کر رہے ہیں۔

    ہاں اس حالیہ خونیں واقعے کی گرد بیٹھے اور کوئی ٹھوس شواہد اس بات کے سامنے آئیں کہ 07fbaa508533eb2ad12537c795b38fa04353d7d9اردگان صاحب کچھ لوگوں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھی دینے لگے ہیں تو پھر حق بنے گا کہ اپنے ایک بھائی کو ظلم سے روکا جائے۔ (ابھی تو ایک نیٹ ورک کو توڑنے کا عمل ہو رہا ہے، جس پر باہر بیٹھ کر کچھ کہنا مشکل ہے کہ کہاں کہاں وہ عمل اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ البتہ اس نیٹ ورک کے وجود سے انکار کرنا کسی کےلیے بھی ممکن نہیں، حسینہ واجد کو درپیش ’مسئلہ‘ کے ساتھ مماثلت پر معذرت کے ساتھ)۔ اردگان کےلیے ہماری محبت کے پیچھے کارفرما چیز اگر اسلام ہے تو وہ اسلام ہی اس بات میں مانع ہو گا کہ ایک ظلم میں ہم کبھی بھی اردگان کی حمایت کریں۔ لیکن ہم کہتے ہیں، ایسا الزام ہم پر قبل از وقت ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اسلام محض ایک جذبہ نہیں، واضح احکام پر مبنی ایک شریعت ہے جو ظلم میں اپنے سگے بھائی تک کے ساتھ کھڑا ہونے سے ہم کو روک دیتی ہے اور اسلام کی روکی ہوئی چیز سے نہ رکنا اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ خدا نہ کرے اردگان کسی ایسے ظلم کی راہ چلے۔ اور لازم نہیں کہ جماعت اسلامی اس وقت بھی اردگان کی حمایت جاری رکھے۔ ہر دو کےلیے ہم عدل و انصاف پر استقامت کی دعاء کرتے ہیں۔ [pullquote] إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ
    [/pullquote]

    یہاں کی کسی بھی اسلامی جماعت کو میں اپنا وجود سمجھتا ہوں، اور اپنے وجود کےلیے جوش اور حمیت میں آنا میرے نزدیک نادرست ہے، خصوصاً کسی ایسے شخص کے مقابل جو خود بھی اسلام کا نہایت خیرخواہ ہے، اور مجھ سے تو یقیناً زیادہ ہو گا۔ لہٰذا ان مسائل پر بات کرنا اُسی حد تک اور صرف اُسی پہلو سے میرے نزدیک جائز ہے جس سے ملک میں اسلامی ایجنڈے کا بھلا ہو سکتا یا اس سے کسی ضرر کو دفع کیا جا سکتا ہو۔ لہٰذا مسئلہ کی کچھ وضاحت بھی ہو جانا ضروری تھا، جس پر میں کچھ گزارشات آپ کے سامنے رکھ چکا۔ مگر اب میں اس موضوع پر آؤں گا کہ اپنے کسی بھائی کی کسی اسلامی جماعت پر تنقید کو، اگرچہ وہ ہماری نظر میں بےجا بھی ہو، کیونکر اچھے احتمالات پر محمول کیا جا سکتا اور اسلامی ایجنڈا کےلیے اس سے فائدہ لیا جا سکتا ہے۔

    اِس مقام پر، میں مسئلہ کو کسی ایک جماعت یا ایک فورم کی نظر سے دیکھنا درست نہیں سمجھتا۔ بلکہ اسلامی سیکٹر کی نظر سے دیکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مسئلہ کچھ یوں ہو گیا ہے کہ ایک عرصہ سے عقول یہاں عالمی میڈیائی عوامل کے زیرِاثر ساخت پا رہی ہیں، جس کے باعث اسلامی جماعتوں اور ان کے ایشوز کو دیکھنے کا ایک خاص زاویہ عقول کے اندر تشکیل پا چکا ہے۔ بےشک دینی طبقوں کے اپنے اندر اس کا کچھ ردعمل ہو گا، اور اس کی اصلاح ایک الگ موضوع ہے، لیکن ہم بات کر رہے ہیں یہاں مین سٹریم میڈیا سے راہنمائی لینے والی عقول کی، جسے فی الوقت ’رائےعامہ‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک اصل چیلنج اس رائےعامہ کو اسلامی ایجنڈا کے حق میں متاثر کرنا ہے، جو اس وقت جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں ہمارے وہ کالم نگار ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں جن کی ہمدرردیاں ملکی اور عالمی سطح پر ایک اسلامی ایجنڈے کے ساتھ ہیں۔ اِس رائےعامہ کے محاذ پر ہمیں مختلف سطحوں پر کھیلنا اور اپنے ہر کھلاڑی کو داد دینی ہے۔ (کھلاڑی کی کسی غلط شاٹ کی نشاندہی ایک مختلف سیاق ہے مگر اس کے باوجود اس کے حوصلے بڑھانا ایک اور سیاق)۔ اوریا مقبول جاناوریا مقبول جان ایسی آوازیں جو بہت کھل کر آ جاتی ہیں، ایک تعداد کو آسودہ کرتی ہیں تو ایک تعداد ان کے ہاتھ سے نکل بھی جاتی ہے۔ کیونکہ رائےعامہ جن رجحانات کی تخلیق کردہ ہے وہ ایک سطح پر اوریامقبول ایسی آوازوں کو سُنے بغیر مسترد کر دینے کی جانب مائل رہتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے اسی رائےعامہ کی ایک تعداد عامر خاکوانیعامر خاکوانی ایسی آوازوں کو سننے کی روادار ہو جائے، جس کی وجہ لامحالہ اوریا کی نسبت خاکوانی کی بابت ان کا ایک مختلف تاثر ہے۔ یہ دونوں اگر اسلام کے خیرخواہ ہیں تو یہ دونوں میری ضرورت ہیں؛ میں اِن دونوں کے بغیر نہیں رہنے کا۔ صرف دو کیا، بہت زیادہ سطحیں یہاں بیک وقت میری ضرورت ہیں۔ اسلامی ایجنڈے کی ہمدرد صحافتی آوازوں میں سے ہر آواز اپنی ساکھ کے معاملہ میں ایک اکاؤنٹ کے مانند ہے۔ کوئی اکاؤنٹ ہولڈر اپنے اکاؤنٹ سے کچھ ’’کیش‘‘ نہیں کروا سکتا جب تک کہ وہ اس میں کچھ ’’ڈیپازٹ‘‘ نہ کرے (’کٹوتی‘ کا معاملہ الگ ہے!)۔

    قومی اخبارات کے ’اسلامی‘ قارئین کو چھوڑتے ہوئے، جو تعداد میں بہت زیادہ نہیں، رائےعامہ سے کچھ ’کیش‘ کروانے کے معاملے میں مختلف صحافیوں کی ’لِمِٹ‘ یہاں مختلف ہے۔ کسی کا ’ڈیپازٹ‘ زیادہ تو کسی کا کم۔ یہاں رائےعامہ جب ہمارے کسی ’اسلامی‘ سمجھے جانے والے صحافی کو اسلامی جماعتوں کا زیادہ بڑا ناقد دیکھے گی تو کسی دوسرے موقع پر وہ اس کے اسلامی خیالات کو سننے اور برداشت کرنے پر نسبتاً زیادہ آمادہ ہوگی۔ اور جو ہر وقت ’اسلامیوں‘ کی تائید میں لگا رہے گا اس کو پڑھنے سے پہلے لپیٹ دینے کی جانب مائل ہوگی۔ رائےعامہ کی یہ ایک عمومی ساخت، کچھ معلوم عوامل کے زیراثر، ایک واقعہ ہے، کم از کم میں اس کو نظرانداز نہیں کروں گا۔ لہٰذا ہمارا کوئی اسلام پسند صحافی ہماری کسی دینی جماعت پر تنقید کر جانے میں اگر کوئی غلطی کر بیٹھے تو میں اس غلطی کی نشاندہی تو جہاں ضرورت ہو گی، ضرور کر دوں گا اور اس سے اگر کوئی نقصان ہوا تو وہ تو ہو ہی چکا، لیکن میری نظر اس فائدہ پر بھی بہرحال چلی جاتی ہے جو مین سٹریم میڈیا میں ہمیں ایک دوسری صورت میں لامحالہ مل جائے گا۔ اصل چیز ہے ہمارے ان دوستوں بھائیوں کی اسلامی کاز سے ہمدردی، جو ان شاءاللہ ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔