Tag: بنگلہ دیش

  • دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے – فیضان عبدالغنی

    دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے – فیضان عبدالغنی

    712 عیسوی سال تھا جب سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم کی فوج نے تجربہ کار راجہ داہر کی فوج کو ان کے اپنے ہی ملک میں شکست دیکر یہاں اسلام کا پرچم لہرا دیا۔ محمد بن قاسم کے حسن انتظام اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر سندھ کے بہت سارے خاندان مسلمان ہو گئے روایت یہ بھی ہے کہ راجہ داہر کا ایک بیٹا بھی مسلمان ہو گیا۔ یوں بقول قائداعظم برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ظاہر ہے جس شخص نے بتوں کی پرستش کو چھوڑ کر ایک اللہ کو اپنا معبود مان لیا تو اس نے ان تمام رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت کو چھوڑ دیا جس پر وہ عمل پیرا تھا۔ اس نے اس نام تک کو ترک کر لیا جو اسے پیدائش پر دیا گیا تھا۔ یہی کچھ بر صغیر میں ہوا اور ایک نئے نظریہ زندگی نے جنم لے لیا جو موجود طرز زندگی سے با لکل مختلف تھا۔

    اسلام اور ہندومت دو مختلف سمتوں چلتی ہوئے دو قوموں کی صورت میں موجود رہے۔ مسلمانوں نے محمود غزنوی اور قطب الدین ایبک سے لیکر تا وقت اپنا تشخص برقرار رکھا کیونکہ ان کے پاس ایک دین، مذہب اور اصول تھے۔ اس کے برعکس ہندو مذہب مخص رسوم و رواج کا ایک مجموعہ ہی ہے وہ ہر اس چیز کو معبود بنا دیتے ہیں جو انکے فائدے یا نقصان کا باعث بنے۔ اسلام مساوات کا داعی ہے جسمیں کالے کو گورے اور عربی کو عجمی پر برتری نہیں۔ یہاں ہر انسان اپنے اعمال کی بنا پر عزت یا ذلت کا حقدار ہے۔ جبکہ ہندو مت میں عزت و ذلت خاندان اور ذات پات کی بڑائی پر ہے۔ صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود ہندو اور مسلمان اپنے اپنے مذہب اور رہن سہن پر مکمل طور پر قائم رہے۔ البیرونی اپنی مشہور کتاب، کتاب الہند میں1001میں لکھتے ہیں ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں کی طرح اپنی اپنی راہ چل رہے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے کو چھو تو لیتے ہیں لیکن مدغم نہیں ہوتے۔ البیرونی کے صدیوں بعد بھی یہی صورتحال قائم رہی۔ اور ہندو اور مسلمان اپنے اپنے طرز زندگی پر قائم رہے۔ دراصل یہ معاملہ دو مذاہب کا تھا۔ سرسید احمد خان جو ایک عرصہ تک ہندو اور مسلمان کو ایک ہندوستانی قوم کے افراد سمجھتے رہے لیکن اردو ہندی تنازعے کے بعد نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنے خیالات بدلے بلکہ بڑی شدت سے ہندو اور مسلمان کو پہلی بار دو قوموں کے طور پر پیش کیا اور اعتراف کیا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے مذہب اور زندگی گزارنے کا طریقہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ سید امیر علی اور کئی دوسرے اکابرین نے اس نظریے کی بڑی مدلل اور منطقی انداز میں تشریح کی۔ اقبال کی آواز قوم مذہب سے ہے نے برصغیر کے مسلمانوں کے شعور کو مزید جلا بخشی۔ قائد اعظم نے اس نظریے کو سیاسی طور پر اتنے مضبوط انداز میں پیش کیا کہ انگریز کو پاکستان کے مطالبے کے سامنے ہار ماننا ہی پڑی۔ قائد نے کہا مسلمان اقلیت نہیں وہ قوم کی ہر تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں۔۱۹۳۷? میں قائد نے کہا کہ ہندوستان کبھی ایک ملک نہیں رہا اور نہ ہی اس کے رہنے والے ایک قوم۔ یہ بر صغیر ہے جس میں بہت ساری قومیں بستی ہیں جن میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔

    آج جب ہم ایک آزاد ملک میں آزاد شہری کی حیثیت سے رہ رہے ہیں تو کچھ ناشکرے اور احسان فراموش لوگوں کی دو قومی نظریے پر تنقید بھی سنائی دے دیتی ہے اور چند لوگوں سے منسوب اس بیان کی طرح کہ بنگلہ دیش کے قیام نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ وہ بدقسمت لوگ ہیں جو تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہیں ورنہ وہ جانتے کہ چوہدری رحمت علی نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگال میں بانگ اسلام کے نام سے مسلم مملکت کا منصوبہ پیش کیا تھا اور ابھی بھی ان کا ایک منصوبہ تشنہ تکمیل ہے یعنی حیدر آباد دکن میں عثمانستان کا قیام۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مسلمان رہ گئے، وہ بھی اپنا ریکارڈ اگر درست کر لیں تو بہتر ہوگا کہ اس وقت مغربی اور مشرقی پاکستان میں مسلمان ہندوستان سے دوگنا تھے اور جو لوگ پاکستان نہ پہنچ سکے، وہ بھی مجبوراً وہاں رہ گئے اور آج بھی کوئی اچھی زندگی نہیں گزار رہے۔ وہ لوگ اب بھی ہندوستان میں دو قومی نظریے کے ثبوت کے طور پر اپنے مذہب اور طرز زندگی پر قائم ہیں، وہ آج بھی عید میلاد النبی اور عاشورہ محرم مناتے ہیں، دیوالی اور ہولی اب بھی ان کے مذہبی تہوار نہیں، ان کے مہینے آج بھی محرم، صفر اور ربیع الاول ہیں، ماگھ اور جیٹ نہیں، اگرچہ وہ ان ناموں کو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا کیلنڈر ہجری ہے ہندی نہیں، لباس کے معاملے میں بھی وہ ہندوؤں سے بالکل مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ اور تو چھوڑیے طرز تعمیر ہی کو لیجیے جہاں روایتی طور پر ہندو تنگ اور ہوا بند گھروں میں رہتے ہیں، وہیں مسلمان کھلے اور ہوادار گھر بناتے ہیں، ان کے روایتی برتن اور ان کے رسم و رواج آج بھی یکسر مختلف ہیں۔ پیدائش، شادی اور موت ہر ہر طریقہ آج بھی ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ماڈرن ازم کے نام پر رسم و رواج کے ہندو ملغوبے کو اگرچہ میڈیا سے دیکھ دیکھ کر ہم میں سے بھی کچھ لوگ اپنانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن سنجیدہ طبقوں میں یہ سب کچھ آج بھی نا پسندیدہ ہے۔

    جو لوگ قوم کو مذہب سے الگ کر کے اس نظریے کو باطل ثابت کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قومیں بنتی ہی مذہب کی بنیاد پر ہیں ورنہ آج امریکہ مسیحی صدر کی شرط نہ رکھتا اور اسرائیل میں بھی مسلمان صدر ہونا ممکن ہوتا۔ لہٰذا اس انتہائی نا معقول نظریے پر بجائے فخر کے ندامت ان کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ بھارت میں مسلمان صدر بن جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ اب وہاں دو قومیں نہیں بستی گجرات، بہار اور احمد آباد بھی بھارت ہی کے شہر ہیں جہاں مسلمان کے خون کی کوئی قیمت نہیں اور انہیں ان کی مسلمانی کی شدید سزا دی جاتی ہے۔ گائے کی تقدیس کے لیے اب بھی انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ سوچ لینا کہ دو قومی نظریہ کوئی فرسودہ نظریہ ہے میرے خیال میں یہ خیال ہی فرسودہ ہے۔ دو قومی نظریہ آج بھی اتنا ہی جواز رکھتا ہے جتنا آج سے سو یا تریسٹھ سال پہلے رکھتا تھا۔ دو قومی نظریے نے ہی برصغیر کے عوام کو وہ توانائی عطا کی جس نے پاکستان کی بنیاد رکھی اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے دشمن جب پاکستان کے خلاف سازش کرتے ہیں تو سب سے پہلے جو بھارت سے محبت اور دوستی کا ثبوت دینے کی کوشش اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ ہمارا کلچر یعنی ثقافت ایک ہے اور اس کے لیے چھوٹی چھوٹی علاقائی مماثلتوں کا سہارا لیا جاتا ہے جیسے پتنگ بازی۔ اب اگر سوچا جائے تو پتنگ بازی تو چین میں بھی ہوتی ہے چائے پاکستان سمیت پوری دنیا میں پی جائے تو کیا ساری دنیا کو ایک ہی ملک تصور کر لیا جائے گا۔ بات آج بھی وہی ہے جو البیرونی نے ہزار سال پہلے کہی تھی کہ مسلمان اور ہندو دھارے ایک دوسرے کو چھوتے ضرور ہیں آپس میں مدغم نہیں ہوتے۔

    ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کے معاہدے یا دوستی کی کوشش میں کوئی حرج نہیں لیکن ایک تو اپنی غیرت ملی کی قیمت پر نہیں یعنی اتنا نہ جھکا سر کو کہ دستار سر سے گر پڑے اور دوسرے اپنی قومی شناخت کی قیمت پر بھی نہیں۔ آخر میں میں اس اہم ترین تقسیم کا ذکر کرونگی جو رب کائنات نے کی ہے یعنی مسلمان ایک ملت ہے اور غیر مسلم دوسری ملت۔ اور یہی حقیقت بر صغیر میں بھی ہے کہ مسلمان ایک قوم اور ہندو دوسری قوم ہے۔

  • بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی پامالی – حمیداللہ خٹک

    بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی پامالی – حمیداللہ خٹک

    حمید اللہ خٹک 4اگست 2016ء کی صبح ہمام قادر چودھری ایک عدالت میں مقدمے کی سماعت کے لیے ڈھاکا جارہے تھے۔ راستے میں ٹریفک سگنل پر ان کی کار رُکی، سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ لوگ آگے بڑھے، گاڑی کا دروازہ کھولا، ہمام قادر چودھری کو نیچے اترنے اور اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ چودھری نے پوچھا تم کون ہو؟ مجھے کہا ں لے کر جانا ہے؟ اور کیوں لے کر جانا ہے؟ جواب ملا ’’: ڈی ٹیکٹیو برانچ آف پولیس۔ اُوپر سے حکم ہے۔‘‘ وہ مزید کسی سوال کاجواب دینے اور وقت ’’ضائع‘‘ کرنے کے لیے تیا ر نہ تھے لہٰذا انھوں نے چودھری کو بازو سے پکڑا، کھینچ کرگاڑی سے اتارا، زبردستی سے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ساتھ لے گئے۔ چودھری کی غم زدہ ماں حیرت، پریشانی اور بےبسی کی تصویر بنی گاڑی میں بیٹھی رہ گئی۔ اس دن سے لے کر آج تک ہمام قادر چودھری کی کوئی خبر نہیں۔

    اس واقعے کے ٹھیک پانچ دن بعد 9اگست کو رات 11 بجے بیرسٹر میر احمد بن قاسم کے گھر کے دروازے پر زور کی دستک ہوئی۔ میر احمد نے دروازہ کھولا توسادہ کپڑوں میں ملبوس آٹھ افراد نمودار ہوئے۔ انھوں نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمھیں ہمارے ساتھ جانا ہوگا۔ میر احمد نے کہا کہ آپ لوگ اپنا تعارف کرائیں لیکن یہ لوگ اپنی بات کی رٹ لگائے اپنی شناخت ظاہر کرنے اور کوئی وضاحت دینے کو تیار نہ تھے۔ میر احمد نے کہا: میں ایک وکیل ہوں، مجھے اپنے حقوق کا علم ہے، آپ اپنی شناخت بتائیں اور وارنٹ گرفتاری دکھائیں۔ایک اہل کار نے کہا: آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔ تیار ہوجائیں اور ہمارے ساتھ چلیں۔ پھر وہ میر قاسم پر جھپٹے، ان کو اپنے ساتھ گھسیٹ کر ایک چھوٹی بس میں لے کر چلے گئے۔ میر احمد کی بیوی، چھوٹی بہن اور دو ننھے منے بچے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ اب وہ کہاں ہیں؟ اس سوال کا جواب کوئی بھی دینے کو تیار نہیں؟

    22اگست کی رات کو جب تاریکی اچھی طرح چھاگئی اور پورے ماحول پر سکوت طاری ہوگیا تو اس وقت ’’قانون نافذ کرنے والے ادارے‘‘ کے تیس اہل کار ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل عبداللہ الامان اعظمی کے گھر میں داخل ہوئے۔ انھوں نے اپارٹمنٹ کی سکیورٹی پر مامور اہل کار کو مارا پیٹا، اعظمی کو نیند سے جگا کرگرفتار کیا۔ اعظمی نے اپنے ساتھ کچھ کپڑے لے جانے چاہے لیکن سرکار کے ان وفادار کارندوں نے ان کو اس کی اجازت نہ دی۔ اس دن سے لے کر اب تک بریگیڈیئر جنرل اعظمی لا پتہ ہیں۔ ان کی 86 سالہ بوڑھی ماں تھانوں کے چکر کاٹتی ہیں لیکن کوئی اس بوڑھی ماں کی ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں۔

    بنگلہ دیش میں لاقانونیت اور انسانی حقوق کی پامالی کوئی نئی بات نہیں۔ سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیےگرفتاریاں، عدالتی قتل، ماورائے عدالت قتل، اغوا اور لاپتہ کرنا حسینہ حکومت کے معروف ہتھکنڈے ہیں۔ لیکن مذکورہ تینوں گرفتاریاں عام نہیں، خاص نوعیت کی ہیں۔ یہ تینوں اپوزیشن جماعت کے سرکردہ رہنمائوں کے بیٹے ہیں جن کو 1971ء کے نام نہاد جنگی جرائم کے پاداش میں بدنام زمانہ عدالتوں سے موت کی سزائیں دے دی گئیں۔ ہمام قادر چودھری خود بی این پی کے رہنما ہیں، بی این پی کے سرکردہ رہنما اور بیگم خالدہ ضیا کی سابقہ حکومت میں مشیر صلاح الدین قادر چودھری کے بیٹے ہیں جن کو پچھلے سال سزائے موت دے دی گئی۔ بیرسٹر میر احمد نوجوان وکیل ہیں، جماعت اسلامی بنگلادیش کی مرکزی شوری ٰ کے رکن ، معروف بزنس مین اور سماجی رہنما میر قاسم علی کے صاحب زادے ہیں جن کو آج سے دو مہینے پہلے سزائے موت دے دی گئی۔ عبداللہ الامان اعظمی بنگلہ دیش آرمی میں بریگیڈیئر جنرل رہے ہیں، حسینہ واجد نے انھیں جبری ریٹائر کر دیا، ورنہ وہ مزید اہم عہدوں تک پہنچ سکتے تھے. سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم کے بیٹے ہیں جن کو92سال کی عمرمیں عمر قید کی سزا سنائی گئی، جیل میں علاج معالجے سے محرومی اور ناقص خوراک کی وجہ سے ان کی صحت تیزی سے گرتی چلی گئی، بالاخر وہ جیل ہی میں موت سے ہم آغوش ہوگئے۔

    ہمام قادر چودھری کی گرفتاری سے ایک ہفتہ قبل بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اور وزیر داخلہ دونوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کچھ لوگ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما میر قاسم علی کے پھانسی پر عمل درآمد میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سازش کر رہے ہیں۔ یہ خیال کیا جانے لگا کہ مفروضہ سازش کو ناکام بنانے کے لیے یہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، اس لیے سزا پر عمل درآمد کے بعد ان تینوں کو رہا کر دیا جائے گا لیکن میر قاسم علی کو پھانسی دینے کے دو مہینے بعد بھی گرفتار شدگان کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ ایک افواہ یہ تھی کہ ان تینوں کا تعلق ڈھاکا ہولی آرٹیسن بیکری پر حملے سے جوڑا جا رہا ہے جس میں 2 پولیس اہلکاروں سمیت کل 20 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن حکومت یا کسی حکومتی ادارے کی طرف سے باضابطہ طور پر ایسی کوئی بات سامنے نہیں آسکی۔

    بنگلہ دیش ایک عرصے سے کچھ نادیدہ ہاتھوں کے ذریعے سیاسی بحران کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے کہنے پر حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے چوٹی کے رہنماؤں کو 1971ء کے نام نہاد جنگی جرائم کے الزامات لگا کر گرفتار کیا، پھر ایسی عدالتوں سے ان کو سزائے موت سنائی گئی جن کو بھارت کے علاوہ مہذب دنیا کا کوئی ملک عدالت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر گواہ ہیں کہ ان لوگوں کے مقدمات میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ ان لوگوں نے عدالتی عمل تک تو اپنا مقدمہ لڑا لیکن اس کے بعد رحم کی اپیل اور زندگی کی بھیک مانگنے سے انکار کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے بیوی بچوں اور لواحقین اور جماعت کے ذمہ داران اور کارکنان نے بھی صبرکا دامن تھامے رکھا۔ یہی بات سفاک خصلت حسینہ حکومت سے برداشت نہ ہوسکی۔ ان کی فرعونیت کو اس بات سے تکلیف پہنچی کہ یہ لوگ جھکے کیوں نہیں؟ یہ لوگ گڑگڑائے کیوں نہیں؟ ان لوگوں نے مردانگی کا مظاہرہ کیوں کیا؟ اب ان کے خاندانوں کو زچ کرنے کے لیے ان کے بیٹوں کو اغوا کرکے لاپتا کر دیا گیا ہے۔

    ہمام قادر چودھری کے والد صلاح الدین چودھری کا تعلق اگرچہ جماعت اسلامی سے نہ تھا لیکن ان کو پاکستان سے پرانے تعلق اور بھارت سے نفرت کی سزا دی گئی۔ واضح رہے کہ ہمام قادر چودھر ی کے دادا عبدالقادر چودھری متحدہ پاکستان قومی اسمبلی کے سپیکر رہے تھے، اس وقت ان کا سیاسی تعلق مسلم لیگ سے تھا، بنگلہ دیش بننے کے وہ بی این پی میں شامل ہوئے۔

    حقیقت یہ ہے کہ حسینہ بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے جس کی ہوس اقتدار اور بےلگام طاقت و اقتدار کی بھوک نے بنگلہ دیش کو دنیا بھر میں بدنام کر دیا ہے۔ بھارت کا مقصد بھی یہی ہے کہ بنگلہ دیش کو بدنام کرکے دنیا بھر میں یکہ و تنہاکیا جائے اور ہمیشہ کے لیے اپنا دست نگر بنایا جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2009ء میں جب حسینہ اقتدار میں آئی تھی، اُس وقت انسانی حقوق کا مسئلہ صرف گھریلو تشدد کے چند واقعات تک محدود تھا، لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہزاروں بےگناہ لوگ جیلوں میں ہیں۔ امن و امان مخدوش اور انسانی حقوق معطل ہیں۔ اظہار رائے پر قدغن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فیس بک پر بھی حکومت مخالف تبصرے کی اجازت نہیں۔ ہیومن رائٹس گروپ کے مطابق جب سے حسینہ اقتدار میں آئی ہے 700سے زائد افراد لاپتا ہوگئے ہیں۔ صرف اس سال 60 افراد لاپتا ہوگئے ہیں لیکن معروف صحافی اور محقق ڈیوڈبرگ مین کا کہنا ہے کہ جنوری 2016ء سے اب تک 70 ایسے افراد کے لواحقین انھیں ملے ہیں جن کو حکومتی اداروں نے اٹھایا ہے، اب یہ لاپتاہیں۔ برگ مین کا کہنا ہے کہ صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ لاپتا افراد کامعاملہ تب سامنے آتا ہے جب ان کے لواحقین میڈیا، یا انسانی حقوق کی تنظیموں کو وقوعہ کی اطلاع دیں۔ لیکن اکثر متاثرہ خاندان ایسا کرنے سے اس خدشے کی بنیاد پر گریز کرتے ہیں کہ معاملے کی تشہیر کہیں ان کے مسائل میں اضافے کا سبب نہ بن جائے۔ یہ خدشہ کچھ ایسا بےبنیاد بھی نہیں۔ حال ہی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے آٹھ افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ یہ آٹھ افراد ان 70 افراد میں سے ہیں جن کو حکومتی اداروں نے گرفتار کرکے لاپتا کردیا ہے۔ صرف ایک مثال دی جارہی ہے:
    30جون 2016ء کو دو افراد نورالاسلام اور محمد نبی کو ایک پولیس افسر کی بیوی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔گرفتاری کے چند دن بعد نورالاسلام کے والد نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر میرا بیٹا مجرم ہے تو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے، اگر ایسا نہیں ہے تو مجھے میرا بیٹا واپس دے دیا جائے۔مذکورہ پریس کانفرنس کے ٹھیک دس دن بعد نورالاسلام اور محمد نبی کو’’ پولیس مقابلے‘‘ میں مار دیا گیا۔

    جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی چھاترو شبر کے ذمہ داران اور کارکنان عوامی لیگ حکومت کے خاص نشانے پر ہیں۔ ہزاروں کارکنان عقوبت خانوں میں ہیں، سیکڑوں لاپتا اور سیکڑوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ برٹش پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی مخدوش صورت حال پر بات کرتے ہوئے برطانوی وزیرخارجہ برائے ایشیا الوک شرما نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ انتہا پسندی وہاں پروان چڑھتی ہے جہاں اظہار رائے پر قدغن ہو، جہاں جمہوری چیلنجوں کو جگہ نہ دی جائے اور جہاں عدم برداشت کا کلچر عام ہو۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر براد آدم نے کہا ہے کہ بنگلہ دیشی حکام اپوزیشن کے تین اہم رہنمائوں کے بیٹوں کو فوری طور پر رہا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے معاونین اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے اس کے اتحادیوں کو حکومت کے سیاسی مخالفین اور تنقید کرنے والوں کے حقوق غصب کرنے کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔انھوں نے کہا ہے کہ ان تینوں افراد: ہمام قادر چودھری، میر احمد بن قاسم اور عبداللہ اعظمی کو کسی عدالتی حکم نامے (judicial warants) دکھائے بغیر گرفتار کیا گیا۔ ان کو نہ تو قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ان کے خاندان والوں اور وکلا کو ان سے ملنے کی اجازت دے دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کے قانون نافذ کرنے والے حکام سیاسی بنیادوں پر گرفتاریوں، محبوس رکھنے اور انھی لوگوں کو لا پتا قرار دینے کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو عقوبت خانوں میں اذیت سے دوچار کیا جاتا ہے اور ان میں سے بعض کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت ان لوگوں کو عدالت کے سامنے پیش کرے یا انھیں رہا کردے۔ اور لوگوں کو لاپتا کرنے اور غیر قانونی طور پر جیل میں رکھنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

    اگرچہ 71ء کے واقعات تلخ ہیں لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد دونوں طرف کے عوام میں ایک دوسرے کے لیے محبت کا بے پناہ جذبہ پایا جانے لگا۔ 1992ء میں جب پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تو ڈھاکہ کی بیکریاں مٹھائیوں سے خالی ہوگئی تھیں۔ خوشی اور جشن کا اسی طرح کا منظر 1998ء میں پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے بعد دیکھنے کو ملا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں سارا کھیل اسی محبت کے جذبے کو ختم کرنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے۔ اس گھناؤنے کھیل میں حسینہ واجد کی حیثیت محض ایک مہرے کی سی ہے جس کے ذریعے سے بھارت بی این پی اور جماعت اسلامی کو دیوار سے لگا کر افراتفری، انتشار اور نفرت کے بیج بو رہا ہے۔ نادان حسینہ واجد پاکستان سے نسبت رکھنے والوں اور اسلام اور مسلمانوں کی بات کرنے والوں کو ختم کرنے کے درپے ہہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بنگلہ دیش کو سیاسی بحران کے ایک ایسے دلدل میں دھکیل رہی ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ افسوس! انسانی حقوق کی تنظیموں کا واویلا اب تک زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ عملادنیا خاموش اور عالمی ضمیر سو رہا ہے۔

  • ہم کہ ٹھہرے اجنبی – صالحہ سراج

    ہم کہ ٹھہرے اجنبی – صالحہ سراج

    سال 1957ء کی بات ہے، خطۂ ارضی کی اِک بابرکت سَرزمین کہ جو فقط اِک نظریاتی و اُصولی بنیاد پر مَعرضِ وجود میں آئی، میں اِک ننھّی جان نے جنم لیا، والدین نے دین سے محبت کا بیج اُس نا م کے ساتھ ہی اُس کے دل میں بو دیا تھا کہ جِس کے ساتھ تاحیات دنیا اُسے پہچانتی۔
    ”سراج الحق“ یعنی ”حق کا چراغ“
    بانیانِ پاکستان کی سرزمین مشرقی پاکستان کے زرخیز پہاڑی و ساحلی علاقے چٹاگانگ میں جنم لینے والے اس ”حق کے چراغ“ کو قُدرت کی جانب سے حقیقتاً اسلام اور پاکستان سے عشق کی انتہاؤں کو چُھوتی ہوئی محبت عطا کردی گئی تھی۔
    پاکستانی شناخت کے ساتھ پیدا ہونے والے اِس شخص نے اپنی پہلی سانس سے لےکر شعوری و لاشعوری زندگی میں ہمیشہ خود کو ایک پاکستانی مسلمان سے زیادہ کچھ نہ جانا اور زندگی کے ہر امتحان و آزمائش کے موقع پر اپنے اِسی عشق کی سچائی اور کھرے پن کا بے لاگ ثبوت دیتا رہا۔
    پاکستان کی بقا و دفاع کی جنگ وہاں لڑتا رہا کہ جہاں اُس کی ہمنوائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ لڑکپن کے دور میں ہی اپنے محبوب وطن کو اپنوں کی غدّاری کا زخم کھا کر ٹوٹنے کا المناک دن بھی اُس کی جاگتی آنکھوں نےدیکھا۔
    مگر ”پاکستان زندہ باد“ کے ترانے پڑھنے اور نعرے لگانے والی زبان کبھی بھی ”سُونار بنگلہ“ جیسے سَراب سے آشنا نہ ہوسکی۔اگرچہ پاک وطن سے عشق اور اُس کے دولخت ہوجانے کا غم اُس کی بساط سے باہر تھا۔ جِس طرح پہلی سانس کے ساتھ وہ مسلمان اور پاکستانی تھا، اِسی طرح وہ آخری سانس تک خود کو مسلمان اور پاکستانی کہلوانے اور جاننے کا عہد رکھتا تھا۔ اُس کی یہ محبت اور عقیدت کسی ثبوت، دعویٰ اور دستاویز کی محتاج نہ تھی، کیونکہ اُس کا سراپا، اُس کا انگ انگ اور اُس کا ہر عمل بذاتِ خود ایک دستاویز ہے۔ اقبالؒ کو اقبالؒ ہی کی فکر میں سمجھنے والا ایک بےلوث اور فطین معتقد، حضرت قائدِاعظم کا شرحِ صدر کے ساتھ شیدائی۔۔ نظریۂ پاکستان گویا اُس کا اوڑھنا بچھونا۔
    مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے تک کے سَفر کے دوران وہ کِن کِن آزمائشوں سے گزرا، یہ ایک الگ قصّہ ہے۔ اپنی پاکستانیت کی بجھتی ہوئی شناخت کوبچانے کی خاطر اِس حق کے چراغ نے اِک ایسی سرزمین کو الوداع کہنے کا فیصلہ کیا کہ جو اب پاکستان نہ تھی۔ اُس پاکستانی نے ہر شے ترک کرکے پاکستان کی جانب رُخ کرلیا کہ جو اُس کا اصل محبوب وطن تھا۔
    لیکن نہ زمین جانتی تھی نہ آسمان باخبر تھا کہ ایک روز زندگی کے ایک ایسے موڑپہ آ کر اُس کو اپنی اِس عظیم اور عزیز محبت کا خراج دینا پڑے گا کہ جِس محبت اور عشق کو وہ اپنی دوسری نسل میں اُسی شدّت اور سچّائی کے ساتھ منتقل کر رہا تھا جو اُس کے وجود میں رچی ہوئی تھی۔ آج وہی اُس کا اپنا، بہت اپنا پاکستان اُس سے پاکستانی ہونے کے ثبوت مانگ رہا تھا کہ جِس نے اِس وطن کی مٹی میں اپنے چالیس سال دبا دیے۔ جِس میں اُس کی جڑیں پیوست ہیں، کہ جِس پاکستان میں اِس بوڑھے درخت کے برگ و بار پوری آب و تاب کے ساتھ ”پاکستان زندہ باد“ کے نغمے گاتے، جھومتے ہوئے نمو پا رہے ہیں۔
    آج وہ پاکستان اُس سے سوال کرتا ہے کہ تمہارے پاکستانی ہونے کے کاغذی ثبوت کہاں ہیں؟
    اور یہ سوال اُس سے کیا جارہا ہے کہ جو پاکستان بننے کے دس برس بعد ہی سے پاکستانی تھا۔
    یہ سوال سے بڑھ کر ایک الزام ہے اُس کی محبت پر، اُس کے عشق پر اور اُس کی اُن لازوال قربانیوں پر کہ جِس پاک سرزمین کی خاطر اُس نے ہجرت کی۔ 40 برس تک اپنے خون کے رشتوں کو اپنی کمزور ہوتی بصارتوں سے محروم رکھا۔ نہ کبھی اِک بار اس بنگلہ دیش کی جانب جانے کا خیال بھی دل میں لایا کہ جہاں اُس کے چار بھائی اور اکلوتی بہن ایک بڑے خاندان کے روپ میں ڈھل چکے ہیں۔
    آج اُسی پاکستان میں اُسے اجنبیت اور غیریت کی سرحد پر لا کھڑا کردیا گیا۔ اُس کی ساری زندگی کی جدوجہد کو یکلخت ایک سوالیہ نشان میں تبدیل کرڈالا۔ پاکستان کے عشق میں ڈوب کر جوان ہونے والی اُس کی اولادوں کو اُن کے مستقبل کے حوالے سے بے یقین کر ڈالا۔
    فیض احمد فیض نے اُس خونچکاں درد کو پوری شدت کے ساتھ دُرست طور پر محسوس کیا تھا کہ جِس سے یہ انسان آج گزر رہا ہے، بس ضرورت ہے تو فقط مقام بدلنے کی کہ فیض نے یہ اَلمناک تجربہ ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر محسوس کیا اور اُس نے یہ جاں گسل تجربہ اِسی پاک سرزمین، اپنے ازلی و محبوب وطن میں رہ کر حاصل کیا
    کہ
    ؂
    ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
    پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
    کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
    خون کے دَھبّے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

    تو گویا اِن تمام تجربات سے یہ ثابت ہوگیا کہ نصف صدی سے زائد عرصہ جِس شناخت کو سینے سے لگاتے گزرا آج وہ شناخت فقط شناختی کارڈ کی محتاج ہے۔ اِس کے سوا اُس کی کوئی معتبر پہچان نہیں، کوئی شناخت نہیں۔
    وہ کاغذ کا ایک سَبز مُستطیل چمکتا ہوا ٹکڑا ہی حقیقت میں اُس کی نصف صدی کی جانفشاں محبت پر بھاری ہے۔
    یہ احساس کو کچل دینے والی داستان صرف ایک فرد کی داستان نہیں۔ نہ ہی اِس درد کو ایک ہی انسان تک محدود کرنے کی ضرورت ہے۔
    کراچی میں بسنے والی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کر کے آ کر بسنے والوں کی یہی کہانی و رُوداد ہے۔
    پاکستان ممکنہ طور پر دنیا کاایسا واحد ملک ہوگا کہ جِس میں آ کر بسنے والوں کی تیسری اور چوتھی نسل جو کہ اِسی سَرزمین کے خمیر سے اُبھری ہے، سے اُن کی شناخت کے بارے میں سوال کیا جارہا ہے۔ اُنہیں غیر ملکی ہونے کی گالی دی جارہی ہے۔70 برس بعد بھی انہیں اجنبیت اور اہانت آمیز رویّوں کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسا آگ و خون کا دریا پار کرکے آنے والے اُن کے بزگوں نے کبھی نہ سوچا ہوگا۔
    دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں تو محض 3 سے 4 سال کی اقامت کے بعد ہی وہاں کی شہریت عطا کردی جاتی ہے۔ تو یہ کون سا زمانے سے الگ اور تاریخ سے جدا ملک ہے کہ جو 70 برس بیت جانے کے بعد بھی اِسی وطن میں پیدا ہونے والے، رہنے بسنے، اپنی صلاحیتوں کو اِس ملک کی ترقی کے لیے کھپانے والوں کو غیر مُلکی قرار دے کر دھتکار رہا ہے؟
    بفرضِ محال اگر ایسے افراد حکّامِ پاکستان کی نظر میں غیر ملکی و غیر پاکستانی ہیں تو پاکستان کی اعلیٰ سرکار یہ جواب دیں کہ آخر 30 لاکھ سے زائد یہ غیر مُلکی کون سے ملک کی جانب واپس جائیں؟
    کیا اس بھارت کی جانب کہ جو انہیں خونی و شکّی نگاہوں سے دیکھتا ہے؟ اور یہاں سے محض غلطی سے سرحد پار کر جانے والوں تک کو غدّار و جاسوس قرار دے کر یا تو ہمیشہ کی نیند سُلا دیتا ہے یا پھر تاریک زندان خانوں میں رُوپوش کر ڈالتا ہے۔
    یا پھر اُس بنگلہ دیش کی طرف جو آج چوالیس سال کی مدتِ دراز گزر جانے کے باوجود پاکستان سے محبت کے جُرم میں انسانوں کو تختۂ دار پر لٹکا رہا ہے؟
    یا اُس برما (میانمار) کی سَمت کہ جہاں اسلام کے نام لیوا ٹکڑوں میں تبدیل کر دیے گئے؟
    یہ اگر پاکستانی نہیں تو پھر اِن کا ملک آخر کونسا ہے؟
    احساس اور دانش کی نگاہوں سے آئندہ آنے والے ایّام کی سنگینی کا اندازہ مقتدر حلقوں کو آج ہی لگا لینا چاہیے کہ اربابِ حلّ و عقد کا یہ طرزِ عمل اور برتا جانے والا یہ رویہ کہیں سنگین قسم کے انسانی المیے کو نہ جنم دے دے۔
    پاکستان سے اُلفت اور عقیدت رکھنے والی پہلی نسل تو اپنی عمر تقریباً پوری ہی کر چکی،اَب اُن کی اُمّید بَھری روشن آنکھیں اپنی نسلوں کو اِسی پاک سَر زمین کی وفاداری و سَپاس گُزاری میں پھَلتا پھُولتا دیکھنا چاہتی ہیں۔اُن کی آنکھیں اُن کے دل کے ساتھ اِس وطن کے لئے پَل پَل دُعاگو ہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ جوان دِل اور پُر شباب دماغ آتش جوالہ کی صورت ہوا کرتے ہیں۔ متحمل مزاج بزرگوں کی شفقت اور صبر آمیز نصیحتوں کے باوجود خودی و غیرت پر کیے جانےوالے وار کو بمشکل ہی سہا جا سکتا ہے۔ شناختی دستاویزات سے متعلق حکّام کے اہانت آمیز سلوک اور کٹھور پن سے لبریز زہریلے لہجے کہیں اُن کو اپنی حدّوں سے ہی نہ نکال لیں۔ بَھڑکتے جذبات اور مُسلسل دَر دَر کی خواری اِس پر مُستزاد ذلّت بھری لمبی قطار، اُس میں کیا جانے والا طویل انتظار، کَڑکتی تپتی دھوپ میں جھُلسا دینے والے جوابات۔
    یہ سب ڈھائی کروڑ کی آبادی میں موجود 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کے مُمکنہ اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں موجود نوجوانوں کے ساتھ برتا جانے والا سلوک ہے کہ جس کا وہ پوری حدّت و شدّت کے ساتھ سامنا کر رہے ہیں۔ اور اُنہیں یہ باور کروایا جارہا ہے کہ اِس دُرشت اور کرخت رویے میں آئندہ آنے والے ایّام میں مذید تیزی لائی جائے گی۔
    اِس نہج پر پہنچ کر ایک لَحظہ کے لیے دماغ نئے نئے وسوسوں اور طرح طرح کے خدشات کا شکار ہو جاتا ہے کہ جِن سے ملک و قوم کے نگہبانوں، اَن داتاؤں کو پوری قوت کے ساتھ جھنجھوڑنے کا احساس جاگتا ہے۔ اگر شناختی دستاویزات کے متعلقہ عملے کا اِن نوجوانوں کے ساتھ ایسا ہی مُشتعل کر دینے والا رویہ جاری رہا تو کہیں یہ بہترین اور اعلیٰ گھرانوں کے پروردہ نوجوان اشتعال و اضطراب اور شدتِ غضب و بے بسی کے عالم میں محرومی کے درد میں مبتلا ہو کر کسی غلط راہ کی جانب یا کسی غلط گروہ کی طرف گامزن نہ ہو جائیں۔
    سلامتی اور منصوبہ ساز اداروں سے دست بستہ التماس ہے کہ جو لوگ محُبانِ وطن اور اِس ملک کی خیر و فلاح کے لیے دن رات اپنی عمریں لگا رہے ہیں ، اُن کو اور اُن کی نسلوں کو خدارا اِس انسانی المیے سے باہر نکالیں۔ اُنہیں اُن کی کاغذی شناخت بحیثیت پاکستانی کے بِنا کسی ذلّت و اہانت کے دے دی جائے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم و تربیت اور دیگر زندگی کے مدارج طے کرتے ہوئے اس سَبز ہلالی پرچم کی شان بڑھاتے رہیں۔ اِس پاک سَر زمین کے لیے اپنا تَن مَن دَھن وارنے کی داستانیں دُہراتے رہیں اور مکمل آسودگی کے ساتھ اِس شناخت کو جو کہ فقط اِسلام سے وابستگی کی شناخت ہے اور پاکستان سے تعلق کی پہچان ہے، کو لے کر اِسی مٹّی میں ہمیشہ کے لیے اوڑھ کر سوجائیں۔
    بزبانِ حالی
    ؂
    کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
    خُدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

  • جعلی سیکولر پرچہ اور اصلی مطالعہ پاکستان – محمد بلال

    جعلی سیکولر پرچہ اور اصلی مطالعہ پاکستان – محمد بلال

    کچھ دن پہلے ایک صاحب نے مطالعہ پاکستان کو بےہودہ ثابت کرنے کے لیے ایسے سوالات کیے ہیں جن کا فہم و دانش سے کوئی تعلق نہیں بلکہ زمینی حقائق سے دور چونکہ چنانچہ اور اگر مگر جیسے فرضی سوالات ہیں۔ اپنے نظریہ کی ترویج کے لیے لکھنا اور دوسرے کی فکر کا رد کرنا اہل علم کا اسلوب ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا کہ دوسرے کے نظریے کو ”بےہودہ“ قرار دیا جائے۔ کیا سوسائٹی کی کثیر تعداد کے نظریے کو جو آئینی اور ہر لحاظ سے ہر شہری کے لیے معتبر ہے، اس کو یوں اپنی دانشوری کے زعم میں ”بےہودہ“ کہنا کیا بدتہذیبی نہیں۔ لیکن کیا کہیے کہ سیکولرزم و جمہوریت کی بنیادی اقدار آزادی اظہار رائے پر عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تہذیب کا کچھ زیادہ لینا دینا نہیں رہا۔ سوالات کا پلندہ تیار کرنے والے صاحب نے شاید اندرا گاندھی کے بعد خود کو دوسرا شخص سمجھا جس نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا سہرا اپنے سر لیا، لیکن کوئی بتائے ان کو کہ نظریات کو ڈبویا نہیں جا سکتا۔ خود بنگال والے بھی ایک قومی نظریے کے تحت ہندوستان میں ضم نہیں ہوئے بلکہ الگ ملک ہی ہیں. کوشش کی ہے کہ ان سوالات کا معتدل انداز میں جواب دیا جائے، انسانی فطرت کی وجہ سے کہیں زیادتی بھی ہوسکتی ہے اس لیے کسی کی دل آزاری ہو تو معافی کی درخواست ہے ۔

    سوال نمبر1: اگر علامہ ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال نے واقعی خطبہ الہ آباد میں مسلمانان ہند کے لیے الگ آزاد مملکت کا مطالبہ پیش کیا تھا تو کس کی سازش کے تحت ان کے یہ الفاظ خطبے کے اصل متن سے غائب کیےگئے جبکہ مملکت خداداد کی تیسری جماعت سے لے کر ایم اے تک کے نصاب میں ان کا حوالہ موجود ہے؟
    جواب: علامہ اقبال کی شاعری ان کے نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔ باقی آپ خطبے کا متن دیں تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ خالی سنی سنائی ہے یا کہیں کوئی حقیقت کا عنصر بھی ہے۔ یہاں کا نصاب صحیح نہ لگے تو کیمبرج یونیورسٹی کی تجویز کنندہ کتاب، ”نیگل کیلی“ کی مطالعہ پاکستان بھی اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ اقبال سرحد ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ اپنے اسی خطبے میں ہی کر چکے تھے۔ شاید انگریز مصنفین کی دیانت داری پر اعتراض نہ ہو۔

    سوال نمبر 2: نظریہ پاکستان کب اور کس نے لکھا تھا؟ قائداعظم محمد علی جناح کی تمام تقاریر میں نظریہ پاکستان نامی کسی ترکیب کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ جنرل شیر علی خان پٹوڈی کون تھے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ملک پہلے بن جائے اور نظریہ بعد میں جنم لے؟
    جواب: دنیا میں کوئی بھی نظریہ کئی ارتقائی مراحل سے گزر کر اپنی منطقی شکل پاتا ہے۔ یہی حال نظریہ پاکستان کا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی مساعی سے لے کر سرسید کی کوششوں تک، مولانا عبدالحلیم شرر کے مسلمانوں کے علیحدہ ملک کے علاقوں کی حدود کا بیان، شملہ وفد کی شکل میں مسلمانوں کے حقوق کی بات اور ان کے لیے علیحدہ انتخابات کا مطالبہ، مسلم لیگ کا قیام ، خلافت کی بقا کے لیے مساعی، قائداعظم کے چودہ نکات، علامہ اقبال کی علیحدہ ریاست کے لیے تجویز، ہندو ذہنیت کی حقیقت دیکھ کر چوہدری رحمت علی کا مطالبہ پاکستان، قرارداد پاکستان، قائداعظم کی اسلامی نظریے اور اسلامی نظام کےلیے سینکڑوں تقریریں، پاکستان کے قیام پر اسلامی فلاحی نظام اور اسلامی رواداری کے نظام کو اپنانے کا قائد کا عزم، یہ سب کچھ نظریہ پاکستان نہیں تو کیا ہے۔ نظریہ پاکستان کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان برطانیہ کی غلامی سے نکل کر ہندؤوں کی غلامی میں نہیں آنا چاہتے، ان کی شناخت الگ ہے اور اس کے لیے علیحدہ ریاست ضروری ہے۔ اس نظریہ کی عملی شکل مملکت خداداد پاکستان ہے۔ یہ لفظی جنگ ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی یہ کہے کہ مارکسزم کی اصطلاح مارکس نے کیوں نہ استعمال کی۔ عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں نہیں، عمارت بننے کے بعد ہی لکھا جاتا ہے، اس لیے عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں ڈھونڈنا آپ جیسے دانشوروں کی قسمت میں ہی آیا ہے ۔

    سوال نمبر 3: اگر دو قومی نظریے کے تحت مسلمانان ہند اور ہندوئوں کا تشخص اتنا جداگانہ تھا تو ہزار سال یہ اکٹھے کیسے رہتے رہے؟ اور اگر یہ دو قومی نظریہ جمہوریت کے خطرے سے عبارت تھا تو اس پر عملدرآمد کے بعد یہ کیونکر ممکن تھا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر بھی ہندوستان ہی میں رہتی اور ایک الگ مملکت بننے سے جنم لینے والی نفرت کا کفارہ ہمیشہ کے لیے ادا کرتی؟ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو دو قومی نظریے کی رو سے فائدہ ہوا یا نقصان؟
    جواب: اس سطحی سوال کا جواب اتنا ہے کہ نظریہ پاکستان میں یہ کہیں نہیں تھا کہ آپس میں اکٹھے رہنا غلط ہے بلکہ یہ تھا کہ ہمارا اس صورت میں مسلم تشخص برقرار نہیں رہ سکتا. جب برطانیہ کی ”ہیجمنی“ کے بعد مہا بھارت کا تسلط آئےگا جس کے نیچے رہنا مشکل ہو جائے گا. یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ ایک صدی پہلے بھی گائے کی قربانی پر ویسے ہی قتل کیا جاتا تھا جیسے آج مہا بھارت کیا جا رہا ہے، اصل مسئلہ اپنے بنیادی آئینی حق کا مطالبہ تھا. عجیب المیہ ہے کہ بعض سیکولر اور قوم پرست دانشوروں کو ہم مختلف قومیتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے دیکھتے ہیں مگر انھیں برصغیر کے مسلمانوں کا آئینی حق اور نظریہ چبھتا ہے۔ بنگال سے بلوچستان، خیبر سے سندھ تک، اور پنجاب سے بلتستان تک، یہ قومیت کے ساتھ کھڑے ہیں مگر حیرانی ہے کہ ہندو اکثریت میں انھیں یہ قومیتیں یا ان کی شناخت گم ہوتی محسوس نہیں ہوتی، اس لیے آج تک ہندوستان اور ہندو کی محبت ختم ہونے میں نہیں آ رہی. مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت صدیوں پرانی ہے، البیرونی کی کتاب الہند میں اس کی تفصیل موجود ہے اور بتایا گیا کہ ان کو ”ملیچھ“ سمجھا جاتا تھا۔ جمہوریت کے نظام کی حقیقت کے لیے صرف اتنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں 25 کروڑ مسلمانوں کے شاید پچیس نمائندے بھی بھارتی پارلیمنٹ میں نہیں ہیں تو جمہوریت کے نظام کا یہی طرز عمل پاکستان کے لیے خطرہ تھا جس کے لیے پہلے جداگانہ انتخابات اور پھر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کے فائدہ یا نقصان کی بات ہے تو اس میں کئی عوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ حائل کی، بائونڈری کمیشن کی نا انصافی، سرحدوں کی غیرمنصفانہ تقسیم اور متعصب کانگریسی سیاستدان، ان 25 کروڑ کا سوال آپ ان سے کریں جن کے کہنے پر وہ وہاں رہے۔ یہی سوال ہمارا بھی ہے کہ جمہوریت کو پاکر وہاں کے 25 کروڑ مسلمانوں کو کیا ملا ہے؟ اس کا جو جواب آپ دیں گے وہی میرا جواب سمجھیے گا۔

    سوال نمبر 4: کیا دو قومی نظریے کے تحت پاکستان آج تمام ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی شہریت دینے کا پابند ہے؟
    جواب: کیا ایک ہندوستانی قوم کے نظریے کے تحت بھارت آج پاکستانیوں کو وہاں کی شہریت دینے کا پابند ہے۔ پاکستان نے تو اس وقت تنگ دستی کے باوجود آنے والوں کو خوش آمدید کہا، جو وہاں مرضی سے رک گئے، آج وہ روتے ہیں کہیں گجرات میں، کہیں مظفر نگر میں اور کہیں مہاراشٹر میں۔ اس کے باوجود پاکستان نے وہاں سے آنے والوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے، مہاجرین کے قافلے سالوں بعد تک آتے اور یہاں بستے رہے. 90ء کی دہائی میں آنے والے کشمیری بھائیوں کو بھی پاکستان نے خوش آمدید کہا تھا۔ افغانستان کے 3 ملین مہاجرین تو اب تک یہاں ہیں جن کا ایک یا دو قومی نظریہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بطور مسلم ریاست ہماری بانہیں مسلمانوں کےلیے کھلی ہیں. جو اس وقت اپنے پیروں میں بیڑیاں پہن کر بیٹھ گئے، ان کی اپنی مرضی ہے۔

    سوال نمبر 5: کیا بنگلہ دیش میں پناہ گزین بہاری بنگالی کہلائیں گے یا پاکستانی؟ اور اگر انہیں پاکستان بلایا گیا تو کون سا صوبہ کون سے نظریے کے تحت ان کا استقبال کرے گا؟
    اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے ۔

    سوال نمبر 6: اگر دو قومی نظریہ ایک آفاقی سچائی ہے تو کیا پاکستان کو برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لیے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہیے؟
    جواب : میں جناب کی دانشوری پر حیران ہوں کیونکہ یہ سوال اور ابہام صرف اس لیے ہیں کہ جناب کو نظریہ پاکستان کی بنیاد اسلام سے ہی چڑ ہے جس کی ایک شکل یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کا نام لے کر مسلمانوں کی اسلامی سوچ کا رد کیا جائے۔ پاکستان کا آئین موجود ہے، اس میں کیا یہ چیز لکھی ہے۔ یہ آئین نظریہ پاکستان کی عملی شکل ہی ہے۔ کیا مطالعہ پاکستان میں یہ بات کہیں ہے۔ تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ تنقید کا اصل ہدف آفاقی نظریہ اسلام ہے۔ مسلمان غیر مسلم ملک میں رہ سکتے ہیں، اس کی ممانعت نہیں ہے، جب نجاشی مسلمان نہیں ہواتھا تو اس کے پاس مسلمان ہجرت کرکے گئے، وہاں رہے اور علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، جب مکہ میں تھے تب بھی علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، مگر جب مدینہ میں گئے اور کثرت ان کے پاس تھی تو اپنی حکومت قائم کی اور اپنے اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ فقہ میں دارالاسلام، دارالکفر اور دارالحرب میں رہائش کے حوالے سے ہدایات موجود ہیں. اب دنیا کے قانون بھی دیکھیں ذرا، کوئی بھی قوم اگر اس حد تک آبادی رکھتی ہے اور علاقہ بھی کہ اس کو ریاست تسلیم کیا جائے، پھر اگر وہ جمہوری یا عسکری طریقے سے اس علاقے پر قبضہ کرلیتی ہے تو وہ بین الاقوامی فورم میں ایک ملک کی حیثیت سے آ سکتی ہے جس کی مثالیں سنگاپور، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان وغیرہ ہیں۔ اب برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کا بقیہ حصہ الگ ہونا چاہتا ہے، سپین اور دیگر ممالک میں علیحدگی کی تحریکیں ہیں، ایک قومی نظریہ یا علاقہ کوئی چیز ہے تو یہ سب ایک ساتھ کیوں نہ رہے یا کیوں نہیں رہنا چاہتے؟ یا برق صرف مسلمانوں‌ پر گرانی ہے. ویسے اب اگر جمہوریت ایک بہترین نظریہ ہے تو کیا برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لیے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہیے؟

    سوال نمبر 7: دو قومی نظریے کی رو سے پاکستانیوں کو سعودی عرب، ایران، ترکی یا متحدہ عرب امارات کی اعزازی شہریت کا حق حاصل کرنے کے لیے کیا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنی چاہیے؟
    جواب: دو قومی نظریہ اور آو آئی سی کا مقصد کیا ہے. سرحدات اور ویزے جیسے ماڈرن ریاست کے جمہوری تصورات کے ہوتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے ایسے سوالات اٹھانا تجاہل عارفانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے. اگر مسلم امہ جس کا نام سنتے ہی آپ جیسے دانشوروں کو چڑ ہوتی ہے، عملی شکل پہنے تو یہ مشکل دور ہو جائے گی. ریاستی یا جمہوری دور حکومت سے پہلے ایسا ہی تھا، کوئی بھی کہیں بھی جا کر رہ سکتا تھا، کاروبار کر سکتا تھا. اسلامی نقطہ نظر سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے. او آئی سی کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کےلیے آواز اٹھانا ہے، یہ اس وقت قائم ہوئی جب بیت المقدس میں آگ لگانے کی کوشش کی گئی، اس سے دوقومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ثابت ہورہا ہے کہ نہیں اور اس کی سمت کا بھی صحیح تعین ہو رہا ہے، کہ مسلمان دوسری اقوام سے الگ اور متحد ہیں۔ ہمارے خیال میں تو پاکستان کو آگے بڑھ کر کوشش کرنی چاہیے کہ او آئی سی کو یورپی یونین جیسا بنانا چاہیے. شہریت کا سوال ہی ختم ہو جائے گا.

    سوال نمبر 8: بنگلہ دیش کون سے نظریے کے تحت بنا؟ کیا ہمیں انہیں اب بھی مسلم برادر سمجھنا چاہیے؟
    جواب: بنگلہ دیش جس نظریے کے تحت بنا اس کو قوم پرستی کہتے ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت اب کیا کررہی ہے اور کیسے بنی اور کس نے بنائی سب کے سامنے ہے۔ شاید اندرا گاندھی کا جملہ آپ کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے کہ آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ یا پھر مودی جی کا اعتراف حق کہ بنگلہ دیش ہم نے بنایا۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ کیا کیا کسی کی غداری اور کسی سازش سے نظریہ پر کوئی حرف آئے گا مگر پھر بھی یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان سے الگ ہو کر بنگال ہندوستان میں ضم ہو گیا، اس نے ایک قومی نظریہ قبول کر لیا؟ بنگلہ اب بھی اسلامی ریاست ہے، الگ ہے، منموہن سنگھ کے بقول 25 فیصد بنگالی اس سے سخت نفرت کرتے ہیں، پاکستان ہندوستان بنگلہ دیش میں کھیلیں تو اسٹیڈیم پاکستان کے ساتھ ہوتا ہے، اور آج بلوچستان میں مداخلت کے اشارے کے بعد ہندوستانی دانشور اور اخبارات اسے سمجھا رہے ہیں کہ بنگلہ دیش بنوا کر دیکھ لیا، وہاں اب بھی ویسی نفرت ہے، اور کئی تنازعات ہیں. بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلق کی بحالی او آئی سی کے سر ہے، 1974ء میں لاہور کانفرنس میں مجیب کی شرکت اس کی دلیل ہے اور یہ آپ کی او آئی سی کی ذمہ داریوں کے بارے میں غلط فہمی کا بھی جواب ہے ۔ تنازعات اور حسینہ واجد کے ظلم کے باوجود بھی بنگلہ دیشی ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ان کی نسبت سے بنگلہ دیش برادر اسلامی ملک ہے۔

    سوال نمبر 9: کیا مسلمانوں کی اکثریت پاکستان بننے کے لیے تحریک کے دوران قتل ہوئی یا پاکستان بننے کےاعلان کے بعد فسادات کے دوران؟ کیا ان کی قربانیوں کی وجہ سے ملک بنا یا ملک بننے کی وجہ سے وہ قربان ہوئے۔ یہی سوال لاکھوں عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک ملک بننے کی قیمت میں کتنی لاشوں اور عزتوں کا سودا منافع بخش کہلائے گا؟
    جواب: تحریک پاکستان قیام پاکستان بننے کے اعلان تک تو نہیں تھی، ظاہر ہے کہ ریاست نے عملی طور پر وجود میں آنا تھا. یہاں ایک بات تو یہ ہے کہ ہجرت نہ کرتے تو پھر آپ نے زیادہ شدت سے سوال کرنا تھا کہ دو قومی نظریہ تھا تو ہجرت کی نہ کی گئی دوسرے علاقوں سے، ہجرت تو بذات خود اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اپنی الگ ریاست کےلیے دل و جان سے پرعزم اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے. دوسرا یہ کہ یہ سوال تو قاتلوں سے ہونا چاہیے، جن کی محبت آپ کو ستائے جا رہی ہے. مسلمانوں کا اپنے وطن میں آنا اسی تحریک کا حصہ ہی تھا اور قتل عام تحریک کے بعد نہیں بلکہ تحریک کے دوران بھی ہوا۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ یہ اعتراض صرف برصغیر کے مسلمانوں تک محدود کیوں؟ آزادی کی تحریک جہاں بھی چلی ہے، ایسے ہی قربانیاں دینی پڑی ہیں، امریکہ و سوویت یونین تک اور مشرقی تیمور سے جنوبی سوڈان تک، کوئی بھی خانہ جنگی سے پاک نہیں رہا. آج کی طاقتوں نے عراق سے افغانستان تک جمہوریت لانے کے نام پر لاکھوں لوگ قتل کر دیے تو اس جمہوریت اور جمہوری نظام کے بارے میں کیا کہیے گا۔ یہ تعین کرلیں ظالم کون ہے؟ ظالم تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ٹھہری اور مظلوم کو یہ کہا جارہا ہے کہ تمھیں کس نے کہا تھا کہ جمہوریت کی خلاف دو قومی نظریہ کا راگ الاپو، اب بھگتو جمہوری ظلم۔ کیا انصاف اور کیا جمہوریت ہے۔ ایک اور بات کہ کشمیر میں دو لاکھ شہید ہوئے، کیا وہ بھی اس نئے ملک میں آنے کے دوران شہید ہوئے۔ افسوس کہ مظلوم کو کوسا جاتا ہے اورظالم کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔

    سوال نمبر 10: ” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی“ سے کون سی قوم مراد ہے؟ اور یہ کہاں قیام پذیر ہے؟
    جواب: یہ وہی قوم ہے جس کی فکر سے سیکولرزم کو خطرہ ہے ۔ اور وہ دن رات اسی تگ و دو میں ہے کہ اس فکر کو فضول سوالات کرکے مشتبہ بنایا جائے۔

    سوال نمبر 11: قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی اعلی قیادت میں جاگیرداروں، نوابزادوں، وڈیروں اور اشرافیہ کا کیا تناسب تھا؟ کیا یہ سب واقعی عوام کے غم میں گھلنے کے سبب ایک الگ مملکت کے قیام کے حامی تھے؟
    جواب: یہ سوال تو انھیں کرنا چاہیے جو خود جاگیردار کے حامی نہ ہوں. ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں کی کمیونسٹ اور لبرل لابی بھٹو جیسے جاگیردار کی فدائی رہی ہے اور اس سے ان کی انقلابیت پر کوئی حرف نہیں آیا. پھر اگر برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت الگ وطن چاہتی تھی تو یہ خود جمہوری اصولوں کے عین مطابق تھا، اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ لیڈر بھٹو ہے یا نوازشریف. جہاں تک تناسب کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت مطالبہ پاکستان کی حامی تھی، اور پاکستان بننے کے بعد اپنی جاگیریں چھوڑ کر یہاں منتقل ہو گئی. کسی کے جاگیردار یا وڈیرہ ہونے سے اس کی کریڈیبیلیٹی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ آج کسی بھی ملک کا لیڈر آپ کو غریب طبقے سے نظر نہیں آئے گا۔ اس کی سوچ کیا ہے اصل بات یہ ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اس طبقے نے وعدے پورے نہیں کیے اور ملک کی جڑیں کھوکھلا کرنے میں مصروف رہے. مگر آپ تو آج انھی جاگیرداروں اور جمہوری نظام کے حامی ہیں جس میں صرف وہی آسکتا ہے جس کی جیب میں کچھ ہے۔ جمہوریت کے جتنے نام لیوا آج آپ کو نظر آتے ہیں، کیا یہ عوام کے غم میں گھلے جا رہے ہیں۔ آج پاکستان میں جمہوریت سے مخلص دو چار ہی ہوں شاید لیکن جمہوریت کے غم میں گھلنے کےلیے ہر کوئی تیار بیٹھا ہے۔

    سوال نمبر 12: مسلم لیگ کے اولین اجلاس منعقدہ 1906ء میں تاج برطانیہ سے وفاداری کے بارے میں موقف کیا تھا؟
    جواب : سوال نمبر 2 کے جواب میں اس کا جواب موجود ہے اور بتایا گیا ہے کن کن ارتقائی مراحل سے گزر کر مسلم لیگ ایک منطقی حل ”قیام پاکستان“ تک پہنچی۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلم لیگ کے قیام سے لے کر قیام پاکستان تک جو سب سے بڑا مقصد نظر آیا، وہ یہ تھا”مسلم قوم“ کا تحفظ۔ جو دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تحریک آزادی مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر حتمی نتیجے تک پہنچی. جب تاج برطانیہ سے ہی آزادی حاصل کر لی گئی تو یہ سوال ویسے ہی بےمعنی ہو جاتا ہے.

    سوال نمبر 13: اگر جواہر لال نہرو عوام کی فلاح کے لیے لینڈ ریفارمز ایکٹ انڈیا میں نافذ کر سکتا تھا تو ہماری حکومت کے ہاتھ کس نے باندھے تھے بلکہ کس نے آج تک باندھے ہوئے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ انڈیا میں جاگیرداریاں ختم ہو گئیں لیکن ہم آج بھی ایک جاگیردارانہ معاشرہ ہیں؟
    جواب: پاکستان میں یہ کام نہیں ہوسکا، اس کا افسوس ہے، یہ کام ہونا چاہیے تھا۔

    سوال نمبر 14: اگر 1919ء میں جلیانوالہ باغ میں 380 نہتوں کا قتل جنرل ڈائر، وائسرائے ہند اور ملکہ برطانیہ کے سر ہے تو اگست 1948ء میں بابڑہ میں حکومتی گولیوں سے مرنے والے 1300 نہتوں اور پھر مرنے والوں کے خاندانوں سے گولیوں کی قیمت تک وصول کرنے کا الزام خان عبدالقیوم اور گورنر جنرل پر رکھنا جائز ہو گا؟ یاد رہے کہ اس سانحے سے ایک ماہ قبل قائداعظم کی خواہش پر ڈاکٹر خان کی حکومت ختم کر کے خان عبدالقیوم کو اقتدار سونپا گیا تھا۔ کیا ایسے واقعات مثلا ڈھاکہ بنگلہ بھاشا فائرنگ 1952ء، لالو کھیت فائرنگ 1965ء، مشرقی پاکستان ملٹری ایکشن 1971ء، لیاقت باغ فائرنگ 1973ء، ٹیکسٹائل کالونی فائرنگ 1978ء، پکا قلعہ حیدر آباد فائرنگ 1989ء، 12 مئی کراچی فائرنگ 2007ء وغیرہ کو مطالعہ پاکستان کی کتب میں شامل کرنا چاہیے یا جلیانوالہ باغ ہر سینہ کوبی ہی کافی ہوگی؟

    جواب: تحریک پاکستان کی تاریخ میں تو وہی پڑھایا جائے گا جو اس وقت وقوع پذیر ہوا. حیرانی ہے کہ انگریز سرکار اور ہندو بنیے سے تو محبت ہے مگر اسلام اور پاکستان کے حوالے سے بس سوال ہی ہیں. سیدھا جواب تو یہ ہے کہ جب اس ملک میں آپ سیکولرزم نافذ کرلیں تب سیکولر مطالعہ پاکستان لکھ کر ان واقعات پر ماتم کیجیےگا، لیکن فی زمانہ جمہوریت کی اماں اور ابا کے دنیا پر ظلم و ستم ہی لکھ دیں۔ دنیا کی کوئی حکومت اپنے دفاع کے لیے کسی حد تک جاتی ہے، اس میں اکثر اوقات وہ انصاف کا دامن چھوڑ دیتی ہے۔ بغاوت کو کچلنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بغاوت کو کچلنے اور قتل و غارت میں فرق ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ جالیانوالہ باغ حملے سے پہلے ایک ایکٹ متعارف کرایا گیا، روولٹ ایکٹ، جس کا مقصد یہی تھا کہ آزادی کی لہر کا انجام دکھایا جائے، اور اصل مسئلہ ہے پری پلان قتل و غارت کی منصوبہ سازی، یہی ڈائر نے کیا تھا۔ چونکہ اس کو آئینی شکل دی گئی تھی اس لیے اس کی اتنی زیادہ مذمت کی گئی ورنہ اس سے پہلے برطانیہ نے لاکھوں مارے لیکن ایک آئینی شکل میں غنڈہ گردی کو متعارف کرانا ”جمہوریت کی بڑی اماں“ کے سر ہے۔ باقی جتنے واقعات نقل کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک کا جواب کافی ہوگا۔ 48ء میں کس نے ”جہاد پاکستان“ برائے ”افغانستان و کانگریس“ کے لیے لوگوں کو اکسایا۔ جب آپ کی حدود میں غیروں کے دیے ہوئے مال سے جہاد کا نام لے کر فساد پھیلایا جائے اور اس کی سرکوبی میں آپ لڑیں تو کیا یہ غلط ہوگا، ہرگز نہیں۔ آج کے دہشت گردوں سے پاکستان کی لڑائی دیکھ لیں، کیا یہ صحیح ہے یا نہیں۔ 30 سال بعد کوئی دانشور اس پر سوال اٹھائے گا؟

    سوال نمبر 15: 1947ء سے لے کر اب تک فسادات، دنگوں اور بم دھماکوں میں انڈیا میں کتنے مسلمان مرے ہیں او پاکستان میں کتنے؟ آپ چاہیں تو 1971ء کے مقتولوں کو جواب سے خارج کر سکتے ہیں؟ کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اگر ایک ملک میں مرنے والے مسلمان دوسرے ملک میں مرنے والوں سے کئی گنا کم ہوں تو اس ملک کو مسلمانوں کے لیے زیادہ محفوظ سمجھا جائے؟
    جواب: آپ انصاف چاہتے ہیں لیکن اپنے بنائے ہوئے خودساختہ قوانین کی روشنی میں جبکہ انصاف غیر جانبدارانہ ہی ہوتا ہے۔ آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ جتنے غیر حربی لوگ انڈیا میں مارے گئے، ان کی تعداد اور پاکستان میں مارے جانے والوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے کیونکہ انسانی جان کسی کی بھی ہو وہ قیمتی ہے لیکن آپ نے صرف مسلمان کی قید لگائی جس سے خاص ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری بات اگر مسلمان کی قید لگائی تو ٹھیک ہے پھر ہجرت کے دوران اور کشمیر میں مارے جانے والوں کو بھی شمال کریں اور پھر موازنہ کرلیں۔ اصل سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ انڈیا میں اقلیتی افراد کے قتل عام اور پاکستان میں ہونے والے قتل عام کا موازنہ کیا جائے؟ جویقینا آپ نہیں کریں گے۔

    سوال نمبر 16: اگر آپ کو پتہ ہو کہ آپ کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں لیکن پھر بھی آپ خریداری کے لیے بازار جا پہنچیں اور خریداری کی کوشش بھی کریں تو کیا یہ طرز عمل دانش مندانہ کہلائے گا؟
    جواب: اگر جمہوریت کی جیب میں موجود کھوٹے سکوں کے باوجود ہمارے احباب جمہوری اقدار کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر بھی جمہوریت کی خریداری کے لیے کوشاں ہے توکیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا۔ کبھی بھی کسی کے پاس سارے سکے کھوٹے نہیں ہوتے جیسے جمہوریت کے حامیوں کے پاس کچھ نظریاتی جمہوریت پسند موجود ہیں جو اپنے نظریہ سے مخلص ہیں اور وہ دن رات اس کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ تو کیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا؟

  • میر قاسم علی کا شناختی کارڈ – معظم معین

    میر قاسم علی کا شناختی کارڈ – معظم معین

    معظم معین ا تو بنگلہ دیش کی حسینہ نے 63 سالہ خطرناک دہشت گرد کو پھانسی دے دی. اب ملک میں امن ہو جائے گا اور ترقی ہو گی. سنا ہے حسینہ واجد کی حکومت سیکولر ہے. اسلامی تو خیر نہیں ہے. اسلامی ہوتی تو اسلام پسندوں کا جو حال کر رہی ہے وہ کیوں کرتی. سکھ، عیسائی یا یہودی بھی نہیں کہہ سکتے. ہندو بھی نہیں ہے. جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں، بھارت نواز کہہ لیں… بھارت بھی سیکولر ملک ہے… تو ایسا لگتا ہے سیکولرازم کے قریب قریب ہی کہیں ہو گی. مگر سیکولر لوگ تو بڑے سمجھدار اور پرامن ہوتے ہیں. دن رات امن کی آشا کے کبوتر چھوڑتے رہتے ہیں… اب امن کہاں گیا؟ ستر ستر سال کے قریب المرگ بوڑھوں کو پھانسیاں لگا کر ملک کیسے ترقی کرے گا؟ اب تک یہ سمجھ نہیں آ سکی.

    گزشتہ تین برس سے جو یہ سلسلہ چل رہا ہے کتنا زرمبادلہ کمایا؟ اس سے. کتنا جی ڈی پی میں اضافہ ہوا؟ بے روزگاری میں کتنی کمی ہوئی؟ حسینہ واجد کہتی ہے کہ ان پھانسیوں کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھے گا. تو پچھلے تین سال میں کتنا آگے بڑھ گیا. دودھ اور شہد کی نہروں کی بھل صفائی شروع ہوئی کہ نہیں؟ وہ کہ پنتالیس سال جنہوں نے اپنے وطن سے محبت کی، بنگلہ دیشی کہلائے، عہدے نبھائے، قوم کی ایک تعداد جنہیں اپنا قائد مانتی رہی، یکایک اب وہ غدار ڈیکلئر ہو گئے، پھانسیوں پر جھول گئے.

    ساری دنیا پر سناٹا طاری ہے. وہ کہ ایک پرندے کی جان بچانے کی خاطر جن کی ساری سرکاری مشینری حرکت میں آجاتی ہے وہ بھی خاموش ہیں. جو ادھر ادھر سے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے سزائے موت پر پابندی کا راگ الاپتے ہیں اس موقع پر وہ بھی آنکھیں موندے ہوئے ہیں. کون سی عالمی برادری کون سا عالمگیر بھائی چارہ. لوگو نوٹ کر لو عالمی بھائی چارہ صرف اپنے مفادات کے وقت سپر پاوروں کو یاد آتا ہے. صرف اپنا الو سیدھا کرنے کے حربے ہیں. اخلاقیات ایتھکس اور امن کی آشا کے نفمے صرف اپنی مطلب براری کے ہتھکنڈے ہیں. سنا ہے عالمی قانون کے مطابق ستر سال سے زائد عمر کے فرد کو پھنسی نہیں دی جا سکتی شاید بتانے والے نے پوری بات نہیں بتائی. شاید کوئی ایسی شق ہو گی کہ تیسری چوتھی دنیا کے بوڑھے کو ہو سکتی ہے کہ عالمی قوانین وغیرہ عالمی طاقتوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتے ہیں چوتھی پانچویں یا چھٹی دنیا کے باسیوں کے لئے نہیں اور اگر حسن اتفاق سے وہ کوئی پسماندہ فکر کا حامل ہو تو بالکل بھی نہیں…

    یہ بھی عجب کہانی ہے. جماعت اسلامی والے کبھی پاکستان کی مخالفت کے طعنے سنتے ہیں کبھی پاکستان کی محبت میں پھانسیاں جھیلتے ہیں… آخر یہ ہیں کیا ملک دشمن یا محب وطن … کس بات کو سچ سمجھیں… پرانی پرانی تحریروں کو یا نوشتہ دیوار کو… کبھی طالبان کے حامی قرار دیے جاتے ہیں تو کبھی پاک فوج کی ذیلی تنظیم… آخر سچا کون ہے. کیا یہ پھانسیاں بھگت کر پاکستان کی مخالفت کے طعنوں کا طوق اپنی گردن سے اتار سکیں گے…. شاید نہیں کہ ہر کوئی اپنی اپنی خود ساختہ دنیا کا باسی ہے… جس نے جس کو جس طرح اپنے ذہن کے خانے میں ڈھال رکھا ہے وہ اس کو بدلنے کے لئے تیار نہیں. اور بہت سی پھانسیوں اور سانحوں کی طرح ہم اس سانحے کو بھی بھول جائیں گے اور پھر وہی طعنے ہوں گے اور وہی دلائل.

    کچھ کم عقل دانشور اور تجزیہ کار پاکستانی حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا. مذمت تک نہیں کی. انہیں کون بتائے کہ اب ملک میں کمپیوٹرازڈ شناختی کارڈ چلتا ہے جس کے پاس پرانا شناختی کارڈ ہو اس کا بھلا کیا حق. میر قاسم علی کے پاس تو پنتالیس سال پرانا شناختی کارڈ تھا. ہماری حکومت اور سفارتخانے تو تازہ شناختی کارڈ والوں کو نہیں پوچھتے پرانے بھلا کس کھاتے میں.

    البتہ عالم اسلام کے ایک ملک نے دقیانوسی ہونے کا ثبوت دے دیا. ترکی نے اپنے سفیر کو بنگلہ دیش سے واپس بلا کرثابت کیا کہ وہ ترقی نہیں کرنا چاہتا. چلو عالم اسلام کا ایک ملک تنزلی کی طرف گامزن ہوا تو دوسرا تو پھانسیوں کی بنیاد پر اب ترقی کی منازل فل سپیڈ پر طے کرے گا. دیکھتے ہیں کب وہ غریب ملکوں کے باشندوں کے لئے گرین کارڈ اسکیم شروع کرتا ہے….

  • اے کاش!-خالد مسعود خان

    اے کاش!-خالد مسعود خان

    khalid masood

    لہو میں بھیگے تمام موسم…گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے…وفا کے رستے کا ہر مسافر…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے…سحر کا سورج گواہی دے گا…کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے…نکلنے والے یہ سوچتے تھے…کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے تو تم کھڑے تھے…تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں…جلے چراغوں کی روشنی نے…نئی منازل ہمیں دکھائیں…تمہارے چہرے کی بڑھتی جھریوں نے…ولولوں کو نمود بخشی…تمہارے بھائی‘ تمہارے بیٹے‘ تمہاری بہنیں…تمہاری مائیں‘ تمہاری مٹی کا ذرہ ذرہ…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے…ہماری دھرتی کے جسم سے جب…ہوس کے مارے…سیاہ جونکوں کی طرح چمٹے…تو تم کھڑے تھے…تمہاری ہمت‘ تمہاری عظمت اور استقامت…تو وہ ہمالہ ہے…جس کی چوٹی تلک پہنچنا…نہ پہلے بس میں رہا کسی کے…نہ آنے والے دنوں میں ہو گا…سو آنے والی تمام نسلیں…گواہی دیں گی کہ تم کھڑے تھے…لہو میں بھیگے تمام موسم…گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے…وفا کے رستے کا ہر مسافر…گواہی دے گا کہ تم کھڑے تھے.

    طارق حبیب کی یہ نظم گزشتہ ایک ہفتے سے میری نظروں کے سامنے ہے اور اس کے پس منظر میں پاکستان کی محبت میں پھانسی کا پھندہ چومنے والے سرپھروں کی ایک مختصر سی ”بٹالین‘‘ جنت کی کھڑکیوں سے جھانکتی نظر آتی ہے۔ اس ملک میں شہادت کے اتنے فتوے جاری ہو چکے ہیں کہ ان سرفروشوں کو اب شہید کہنا بھی عجیب لگتا ہے کہ ہم نے قاتلوں‘ تکفیریوں اور باغیوں کو بھی اس سند سے نوازنے میں تامل نہیں کیا تو بھلا اب اس فانی دنیا سے کسی رخصت ہو جانے والے کے لیے ہمارے جاری کردہ القاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ شہادت اور ہلاکت کے فیصلے وہ کرے گا جو ہر چیز پر قادر ہے اور اس دن سب معاملات سامنے آ جائیں گے جس روز وہ میزان عدل لگائے گا۔

    بیانوے سالہ پروفیسر غلام اعظم 23 اکتوبر 2014ء کو اپنے خالق حقیقی کے ہاں حاضر ہوئے۔ ضعیف العمر پروفیسر غلام اعظم کو پاکستان آرمی کے لیے رضاکار‘ البدر کے لیے جنگجو بھرتی کرنے اور پاک فوج کا ساتھ دینے کے جرم میں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں غلام اعظم صاحب کی بنگلہ دیشی شہریت ختم کر دی گئی تھی۔ وہ 1978ء سے لے کر 1994ء تک سولہ سال تک بنگلہ دیش میں ”غیر قانونی‘‘ طور پر رہائش پذیر رہے تاوقتیکہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ان کی شہریت بحال کر دی۔ 11 جنوری 2012 ء کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی ”جنگ آزادی‘‘ میں کئے جانے والے جنگی جرائم کے الزام میں انہیں حسینہ واجد کے خود ساختہ ”انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل‘‘ میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ جیل میں دو سال نو ماہ اور بارہ دن گزارنے کے بعد جیل اور زندگی کی قید سے اکٹھے ہی آزاد ہو گئے۔

    عبدالقادر ملا 12 دسمبر 2013ء کو، محمد قمر الزماں 11 اپریل 2015ء ، علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری 22 نومبر 2015ء ، مطیع الرحمان نظامی11 مئی 2015 ء کو اور اب میر قاسم علی 3 ستمبر 2016 ء کو اس دارفانی سے اپنے خالق حقیقی کے دربار میں حاضر ہو گئے۔ ان سب کو پاکستان سے محبت اور وفاداری نبھانے کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔ سب نے پھانسی پر مسکرا کر داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ کسی نے رحم کی اپیل نہ کی۔ سب مستانہ وار پھندے کو چومنے ایسے چلے کہ فیض یاد آ گیا ؎

    دست افشاں چلو…مست و رقصاں چلو…خاک بر سر چلو…خوں بداماں چلو …راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
    کسی کو سٹریچر پر ڈال کر تختہ دار تک پہنچانے کی تکلیف نہ اٹھانا پڑی۔

    پاکستان اس سارے معاملے میں اتنا غیر جانبدار ہے کہ لگتا ہے اس سارے معاملے میں نہ وہ فریق ہے اور نہ ان پھانسی پانے والوں سے ہماری کوئی جان پہچان ہے۔ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے اور ”مجرم‘‘ محض بنگلہ دیش کے عام سے ”غدار‘‘ تھے جنہیں اس غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی اور تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ موم بتی مافیا کو تو چھوڑیں کہ ان کی ترجیحات کا سب کو اندازہ ہے۔ کشمیر میں ”پیلٹ گن‘‘ یعنی چھروں والی بندوق سے کشمیریوں پر فائرنگ ہو، ان کو رتی برابر پروا نہیں، دو ماہ سے زائد عرصہ سے کرفیو لگا ہو اور شہری محصور ہوں، انہیں کوئی فکر نہیں۔ بچوں کو دودھ تک نہ مل رہا ہو، انہیں انسانی حقوق یاد نہیں آتے۔ تازہ ترین احتجاجی لہر میں پچانوے لوگ جاں بحق ہو جائیں، ان کو کوئی ملال نہیں کہ ان کے آقائے ولی نعمت کی جانب سے کوئی اشارا نہیں اور وہ ہو بھی کیسے؟ بھلا وہ یہ سارا خرچہ اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں پر کر سکتے ہیں اور کیا یہ موم بتی مافیا اپنے رزق روٹی فراہم کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کر سکتا ہے؟ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے ان تمام پھانسی پانے والوں کے ٹرائل پر شدید ترین تحفظات کا اظہار کیا اور سارے بنگلہ دیشی نظام انصاف کو اس معاملے میں عموماً اور انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل آف بنگلہ دیش کی ساری عدالتی کارروائی کو خصوصاً انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا؛

    تاہم ان تنظیموں نے اس سلسلے میں وہ کہرام نہ مچایا جو یہ عموماً مچاتی ہیں۔ سارا مغرب خاموش ہے اور ان این جی اور عالمی انسانی حقوق کے تنظیموں اور مغرب کے بارے میں کیا کہا جائے؟ خود حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں مکمل مجرمانہ خاموشی کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ ہر پھانسی پر ہماری وزارت خارجہ ایک ڈھیلا ڈھالا سا بیان جاری کر دیتی ہے کہ ان کا کام ایک پنجابی محاورے کے مطابق ”شلجموں سے مٹی اتارنے کے برابر ہے‘‘ صرف ایک ترک صدر اردوان تھا جس نے مطیع الرحمان نظامی کی سزائے موت کے خلاف کھل کر بات کی۔ بنگلہ دیشی حکومت کی مذمت کی اور اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا۔ اردوان نے یہ تقریر دراصل بنگلہ دیش کی حکومت کے اقدامات کے خلاف نہیں کی تھی، ہمارے منہ پر جوتا مارا تھا۔ ترک غیرت کا ثبوت نہیں دیا تھا، ہمارے بے غیرتی کا مذاق اڑایا تھا۔ مطیع الرحمان کی پھانسی پر احتجاج نہیں کیا تھا، ہماری خاموشی پر ہمیں شرم دلانے کی کوشش کی تھی۔ ترکی کی میٹرو سے لے کر نظام صفائی تک کی نقل مارنے والے ہمارے حکمرانوں کو صدر اردوان کی اس سلسلے میں نقل مارنے کی ہمت نہ ہوئی کہ یہ کام غیرت مند قوموں کا ہوتا ہے۔

    میں نے ترک صدر کی وہ تقریر دیکھی، سنی کا معاملہ یوں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تقریر ترک زبان میں تھی اور ”زبان یار من ترکی‘ ومن ترکی نمی دانم‘‘ والا معاملہ تھا؛ تاہم نیچے چلنے والے انگریزی ترجمے کو محض دیکھا جا سکتا تھا اور ترک صدر کے خطاب کے دوران اس کے جوش اور جذبے کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ ترجمہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا مگر اردوان کی ”باڈی لینگوئج‘‘ اتنی زوردار اور جاندار تھی کہ ترجمے کی کمی بیشی پوری کر دی۔ ترک صدر نے کہا : ”میں مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کا غم آپ لوگوں سے بانٹنا چاہتا ہوں۔ ہر بات سے پہلے میرا یقین ہے کہ مطیع الرحمان نظامی نہ کسی ایسے جرم کے مرتکب تھے اور نہ ہی اس سزا کے حقدار تھے۔ ہم بنگلہ دیش کی قیادت سے ملک کے امن‘ استحکام اور اچھے مستقبل کے لیے زیادہ محتاط اور صحیح فیصلوں کے منتظر ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور ایسے واقعات کی ہم خبر رکھتے ہیں۔

    جیسا کہ مطیع الرحمن نے اپنے خط میں کہا ‘میں جا رہا ہوں اور اپنے پیچھے ایک فکر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایسے مشکل حالات میں بھی موت کے خوف کے بجائے استقامت دیکھ کر حیران ہونے والوں اور ہمارے لیے موت کے معنی ایک نہیں ہیں۔ بھائیو! یہ احمق سمجھتے ہیں کہ ہمارے متعلق انہوں نے فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں تم کون ہوتے ہو یہ فیصلہ کرنے والے؟ اپنے بندے کو راضی کرنے کے لیے اللہ سے کوئی گلہ نہیں۔ میرا یہ پیغام ہے کہ میں جا رہا ہوں، میں خود سے پہلے جانے والے دوستوں‘ بھائیوں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس جا رہا ہوں۔ تم لوگ یہیں رہ جائو گے، جہاں میں جا رہا ہوں وہاں فیصلہ ہو جائے گا کہ کون حق پر تھا۔ میں جا رہا ہوں، تم اپنے آپ کو منظم کرو اور یہ نہ بھولنا کہ تمہاری باری بھی آئے گی۔ شہادت کی موت اور کسی انسان کی غلامی قبول نہ کرنے کو ہمیشہ یاد رکھنا‘۔ مطیع الرحمان نظامی پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔

    میں بنگلہ دیش اور دنیا کے مسلمانوں کے لیے صبر کی دعا کرتا ہوں۔ ڈھاکہ میں موجود سفیر کو ہم نے واپش بلا لیا ہے اور وہ اس وقت استنبول پہنچنے والا ہے۔ اور مت بھولنا، ظالموں کے لیے جہنم ہے‘‘۔ سارا ہال نعرے مار رہا تھا۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔ کاش میں وہاں ہوتا اور کم از کم کھل کر نعرہ تو لگا سکتا۔ کاش یہ تقریر صدر اردوان کے بجائے ہمارے کسی حکمران کی ہوتی۔ کاش یہ غیرت ہم نے دکھائی ہوتی۔ کاش اس شہادت کا درد ہم نے اسی طرح محسوس کیا ہوتا۔ اے کاش…اے کاش!

  • بنگلہ دیش میں حکومتی بربریت اور قتل کی داستان – خالد ارشاد صوفی

    بنگلہ دیش میں حکومتی بربریت اور قتل کی داستان – خالد ارشاد صوفی

    %d8%ae%d8%a7%d9%84%d8%af-%d8%a7%d8%b1%d8%b4%d8%a7%d8%af-%d8%b5%d9%88%d9%81%db%8c گزشتہ ہفتے کی رات جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ایک اور رہنما 63سالہ میر قاسم علی کو پھانسی دے دی گئی۔ بنگلہ دیشی حکومت کے قائم کردہ متنازعہ جنگی ٹریبیونل میں میر قاسم علی پر 1971ء کی جنگ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔ انہوں نے بنگلہ دیشی صدر سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل میں بہت سی بے قاعدگیاں ہیں اور منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزیاں بھی کی جا رہی ہیں، ٹربیونل میں ملزمان کے خلاف جو شواہد پیش کیے جاتے ہیں، جعلی ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد بھی ان پھانسیوں اور اس سے پہلے مقدمات چلانے کے طریقہ کار کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا چمپا پٹیل نے کہا ہے کہ ایک ایسے ٹرائل، جس کے منصفانہ ہونے کے بارے میں اقوام متحدہ بھی آواز بلند کر چکی ہے‘ کے ذریعے پھانسیوں کے اس سلسلے سے بنگلہ عوام کو وہ انصاف نہیں ملے گا، جس کے وہ مستحق ہیں۔

    بنگلہ دیشی حکومت نے پھانسیوں کا یہ سلسلہ 2013ء میں شروع کیا تھا اور اب تک 8 افراد کو مختلف الزامات کے تحت سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ عبدالقادرملا کو دسمبر 2013ء میں پھانسی دی گئی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق لیڈر غلام اعظم کو 15جولائی2013ء کو 90سال قیدکی سزا سنائی گئی اور وہ اکتوبر2014ء میں دوران حراست ہی انتقال کر گئے جبکہ ان کو سنائی گئی سزا کے خلاف دائر اپیل کا فیصلہ آنا ابھی باقی تھا۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ غلام اعظم بنگلہ دیش کے پاکستان سے الگ ہونے کے سخت خلاف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ اس طرح مسلم کمیونٹی تقسیم ہو جائے گی۔ انہوں نے اس وقت (1971ءمیں) یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اگر بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تو اس پر بھارت کا تسلط قائم ہو جائےگا۔ قارئین کرام آپ خود اندازہ لگائیں کہ غلام اعظم اپنے خیالات میں کس قدر برحق تھے۔

    جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہی کے ایک اور رہنما 73 سالہ مطیع الرحمٰن نظامی کو 11مئی2016ء کو پھانسی دے دی گئی۔ 1971ء کی جنگ کے وقت وہ ایک طالب علم اور جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترا سنگھ کے صدر تھے۔ وہ بھی بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے سخت خلاف تھے۔ پاک فوج کی مدد کے لیے انہوں نے البدر گروپ بھی تشکیل دیا۔ وہ دو بار بنگلہ پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

    جماعت اسلامی کے ہی علی احسن محمد مجاہد اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے صلاح الدین قادر چودھری کو نومبر 2015ء میں پھانسی دی گئی۔ پھانسی کے وقت علی احسن محمد مجاہد کی عمر 64 سال تھی اور وہ پارٹی میں بااثر شخصیت تھے۔ وہ بی این پی کی حکومت میں وزیر بھی رہے۔ انہوں نے 1971ء کی جنگ میں البدر کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ صلاح الدین قادر چودھری، فضل القادر چودھری کے بیٹھے تھے، جو 1965ء میں متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے۔ انہوں نے پاکستان کی تقسیم کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ محمد قمرالزماں کو اپریل 2015ء میں پھانسی دی گئی۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے پاکستانی فوجیوں کی مدد کی تھی۔

    اس طرح اب تک پھانسی پانے والے سبھی افراد کا بڑا جرم ایک ہی تھا کہ انہوں نے 1971ء کی جنگ میں مکتی باہنی اور بھارتی فوج اور ایجنسیوں کی سازشوں کے خلاف پاکستان کی افواج کی مدد کی تھی اور اس اس تگ و دو میں رہے کہ وہ ملک نہ ٹوٹے، جس کے قیا م کے لیے سب نے مل کر محنت اور پھر بے شمار قربانیاں دیں اور تکلیفیں سہی تھی۔ اگر یہی غداری ہے تو کوئی بتائے کہ حب الوطنی کیا ہوتی ہے؟ حسینہ واجد سے کوئی تو یہ سوال پوچھے کہ آج اگر اسی بھارت کی مدد سے، جو پورے خطے کا امن برباد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، بنگلہ دیش میں علیحدگی کی کوئی تحریک شروع ہو جائے تو یہ قاتل حسینہ کسے حب الوطن قرار دے گی؟ ان کو جو بنگلہ دیش ٹوٹنے کے خلاف کوششیں کریں گے یا وہ جو بنگلہ دیش سے الگ ہونا چاہیں گے؟

    بنگلہ دیشی حکومت کا موقف ہے کہ ان پھانسیوں سے انصاف کے دیرینہ تقاضے پورے ہو رہے ہیں جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے بلکہ یہ انتقام کی ایک شکل ہے، جو بنگلہ حکومت بھارتی قیادت کو خوش کرنے کے لئے ان لوگوں سے لے رہی ہے‘ جنہوں نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی تقسیم کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ان لوگوں نے جو کچھ کیا وہ حب الوطنی کا تقاضا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے، جو نامناسب اور غیر واجب ہی نہیں، افسوسناک بھی ہے۔ پاکستان سے بھی بنگلہ حکومت کے ان اقدامات کے خلاف مسلسل آواز بلند کی جا رہی ہے، لیکن نجی سطح پر، حکومت کی جانب سے جیسے ردعمل کی توقع کی جا رہی تھی‘ ویسا نہیں آیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے رہنماؤں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر حکمرانوں کی خاموشی قابل مذمت ہے، اس معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جانا چاہیے۔ فی الحال عالمی سطح پر تو خاموشی ہی چھائی ہوئی ہے اورصرف ترکی کی جانب سے ردعمل ظاہر کیا گیا اوراس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی کے عوام کو یہ خبر سن کر دکھ ہوا‘ تاہم بنگلہ دیش کے اندر سے حکومت کے ان اقدامات کے خلاف بھرپور انداز میں احتجاج سامنے آ رہا ہے۔

    یہ پھانسیاں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے گڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف ہے ۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ 1971ء کی جنگ کن حالات میں ہوئی اور وہ حالات پیدا ہونے کے پس منظر میں کیا عوامل کارفرما تھے۔ اس جنگ کی راہ علیحدگی پسند بنگلہ دیشیوں نے کم اور بھارتی فوج اور ایجنسیوں نے زیادہ ہموار کی۔ ان سازشوں کا قلع قمع اور سدباب کرنا ہر محب وطن کا فرض تھا۔ اس کو غداری قرار دینا، جیسا کہ حسینہ واجد کی حکومت کر رہی ہے، اورحب الوطنی کا مظاہرہ کرنے والوں کا ٹرائل کر کے انہیں پھانسیوں پر چڑھانا قطعی مناسب اقدام نہیں ہے۔

    اب اس سانحے کو گزرے 45 برس ہونے والے ہیں۔ جو لوگ اس سانحے کے گواہ اور شاہد ہیں وقت نے ان کے زخموں پر کچھ نہ کچھ مرہم ضرور رکھ دیا ہو گا، لیکن بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد ان زخموں کو پھر سے کریدنے میں مصروف ہیں۔ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی بنگلہ دیش کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ایسی ہی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور کچھ ہی عرصے بعد قتل کر دیے گئے تھے۔ شیخ حسینہ واجد جو کچھ بو رہی ہیں، اس کی فصل انہیں جلد ہی کاٹنا پڑے گی۔ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے میں ہی عافیت اور بہتری ہے‘ لیکن حسینہ واجد کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہو پارہا۔

    سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ1974میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاہدہ دہلی کی خلاف ورزی کی بھی مرتکب ہو رہی ہیں۔ یہ معاہدہ دراصل تین مقاصد کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ پہلا بنگلہ دیش میں پھنسے اور قید کئے گئے پاکستانیوں کی واطن واپسی۔ دوئم،1971ء سے پہلے پاکستان میں کام کرنے والے بنگالیوں کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنا اور سوئم‘ بھارت میں قید کر لئے گئے پاکستانی فوجیوں اور دوسرے حکام کی واپسی کے لئے اقدامات کرنا۔ اس معاہدے کی شق 14 میں درج ہے: تینوں وزرا (منسٹر آف سٹیٹ فار ڈیفنس اینڈ فارن افیئرز پاکستان عزیز احمد، وزیر خارجہ بھارت سردار سوارن سنگھ، فارن منسٹر بنگلہ دیش ڈاکٹر کمال حسین) نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ بنگلہ دیش کے وزیر اعظم کی دعوت پر پاکستانی وزیر اعظم بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے اور انہوں نے بنگلہ دیش کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو بھول جائیں تاکہ ہم آہنگی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا جا سکے۔ جبکہ شق 15میں لکھا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کی اپیل کا احترام کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نے ٹرائل کے عمل کو آگے نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اور آج سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہونے کے 45سال بعد حسینہ واجد ان زخموں کو کریدنے کی کوشش کر رہی ہیں، جن کی کسک تو ختم نہیں ہوئی، لیکن حالات اور وقت نے جن پر کچھ کھرنڈ جما دیے ہیں۔ وہ اگر ایسا کرنے پر بضد ہیں تو اس کا آغاز اپنے والد اور 1971ء کے واقعات سے پہلے سے سے شروع کریں، پھر دیکھیں، کون کٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے اور کون پھانسی پر جھولتا ہے!

    ادھر پاکستانی حکمرانوں کی خاموشی پر بھی جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔کیا اب بھی سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے پاپولر بیانیہ بدلنے کا وقت نہیں آیا کہ بنگلہ دیش مغربی پاکستان کے سیاستدانوں اور اسٹیلمنٹ کی ذیادتیوں کی وجہ سے نہیں بنا بلکہ بنگالیوں کا بھارت کی ذہنی غلامی اختیار کرنے کی وجہ سے ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے افسانوں کی حقیقت کو بھارت اور بنگلہ دیش میں بیٹھے باضمیر محقق ثابت کرچکے ہیں لیکن قاتل حسینہ کا ظلم تو روز روشن کی حقیقت ہے۔ قاتل حسینہ کے انتقام کی آگ کب بجھے گی؟

  • آزادی یا شہادت	– حمیرہ خاتون

    آزادی یا شہادت – حمیرہ خاتون

    ”طیارے کا رخ بھارت کی طرف موڑدو۔“ انسٹرکٹر نے حکم دیا۔
    ”مگر کیوں سر۔“ نوجوان پائلٹ پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔اس کی چھٹی حس نے الارم دیا۔
    ”فالو می۔“ سختی سے کہا گیا۔
    ”سوری سر، آئی کانٹ فالو یو۔“ نوجوان پائلٹ راشد سمجھ چکا تھا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔ اس کا انسٹرکٹر کنٹرول ٹاور سے رابطہ پہلے ہی منقطع کر چکا تھا، اور اب وہ طیارے کو بھارت لے جانا چاہتا تھا۔ راشد کے انکار پر انسٹرکٹر مطیع الرحمن نے اس سے جہاز کا کنٹرول چھیننا چاہا۔ سترہ سالہ راشد کا مقابلہ تجربہ کار معمر استاد سے تھا جو کسی کمزور لمحے میں اپنی وفاداری تبدیل کر چکا تھا۔
    رات سے ہی راشد بہت پرجوش تھا۔ کل کی اپنی پہلی مشقی پرواز کا سوچ کر اس پر خوشی طاری تھی۔ فضائوں میں اڑنے کا اس کا خواب پورا ہونے جا رہا تھا۔ پاکستان اپنے پیارے وطن کی فضائی سرحدوں کی حفاظت کا عزم اسے پاکستان ائیر فورس میں لے کر آیا تھا۔
    اور وہ وقت بہت جلد آپہنچا تھا۔ وہ کیسے اپنے پاک وطن کے طیارے کو اپنے دشمن ملک لے جاتا۔
    راشد نے استاد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے مہذب انداز میں انہیں احساس دلایا۔
    ”سر، ہم تربیتی پرواز پر ہیں، وی کانٹ کراس دی بارڈر ود آئوٹ پرمیشن۔ واٹ آر یو ڈوئنگ؟“
    ”آئی نائو واٹ آئی ایم ڈوئنگ۔“ اس نے راشد کو دھکا دیا اور اس کی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
    اس کے تیز مکے نے راشد کو ہوش وحواس سے بےگانہ کر دیا۔ جہاز بری طرح ڈگمگا رہا تھا۔ انسٹرکٹر نے طیارے کا کنٹرول سنبھال کر اس کا رخ بھارت کی طرف کر دیا۔ اور ان سے رابطہ کی کوشش کرنے لگا۔ راشد کو ہوش آیا تو انسٹرکٹر بھارت کی فضائیہ کو اپنی آمد کی اطلاع دے رہا تھا۔
    ”میری پہلی پرواز، میرا بچپن کا خواب، میرا پیارا وطن اور میری وفاداری۔“ راشد کے ذہن میں پہلا خیال آیا۔
    کیا میں طیارے کو بھارت جانے دوں۔ اور اس کے دل نے جواب انکار میں دیا۔ اگلے ہی لمحے اس نے لرزتے ہاتھوں سے پوری طاقت لگا کر جہاز کا لیور نیچے کر دیا۔ طیارہ تیزی سے نیچے جانے لگا۔
    ”واٹ آر یو ڈوئنگ؟ وی ول ڈائی۔“ انسٹرکٹر چلایا۔
    ”آزادی یا شہادت۔“ سترہ سالہ راشد منہاس مسکرا رہا تھا۔ جہاز ایک زوردار آواز سے زمین سے جا ٹکرایا۔ ایک دھماکہ ہوا اور جہاز کے ساتھ ان دونوں کے جسم بھی فضا میں بکھر گئے۔
    دور فضا میں کہیں آواز گونج رہی تھی،
    چلے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم،
    رسول پاک نے بانہوں میں لے لیا ہو گا،
    علی تمھاری شہادت پہ جھومتے ہوں گے،
    حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہو گا،
    تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔
    اے راہ حق کے شہیدو،
    وفا کی تصویرو،
    تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔

  • گونگی حکومت اور خاموش سماج کا نوحہ – محمد حسان

    گونگی حکومت اور خاموش سماج کا نوحہ – محمد حسان

    حافظ حسان ہم کیا لکھیں؟ نوحہ لکھیں یا پرسہ دیں؟ ماتم کریں یا سوگ منائیں؟

    امت کے عظیم سپوت ایک ایک کرکے سولی پر چڑھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان سے محبت کے جرم میں بنگلہ دیش کے اندر پھانسیاں دینے کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے اور اہل پاکستان پر گہرا سکوت طاری ہے۔ حکومت گونگی اور سماج خاموش ہے۔ ایسے میں دل کے پھپھولے نہ جل اٹھیں تو اور کیا ہو؟

    مرنے والے کوئی اتنے عامی بھی نہ تھے کہ یوں فراموش کر دیے جائیں۔ ایک ایک شخص اپنی ذات میں انجمن، ایک ایک فرد قائد اور رہبر کے منصب پر فائز، قاتل حسینہ واجد کو کسی عامی کے خون سے کیا غرض؟ اسے تو ملت اسلامیہ کے انھی سپاہیوں کا خون چوسنا ہے جو اقامت دین کی سربلندی کے لیے تن من دھن سب کچھ نچھاور کردینے کے جذبے سے سرشار امت محمدیہ ﷺ کا بہترین اثاثہ ہیں۔ جو دین حق کے علمبردار بن کر اٹھے اور اپنے قول و عمل سے شہادت حق کا فریضہ انجام دینے لگے۔ بھارتی اور مغربی تہذیب کے مقابل اسلامی تہذیب کے رکھوالے بن کر اٹھے، انسانوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں دینے کا نظام برپا کرنے میں کمر بستہ ہوگئے۔ ان کی جدوجہد طاغوتی قوتوں کے لیے خطرہ قرار پائی اور بھارتی قوت کے نشے میں مخمور حسینہ واجد اپنے اقتدار کی کرسی کو بچانے کے لیے ان گوہر نایاب، امت کی عالی مرتبت شخصیات کے خون سے مقتل سجانے لگی۔

    وہ لوگ جن پر 40 سالہ دور میں کرپشن کا کوئی داغ نہ مل سکا، ملک سے غداری جن کی سوچوں میں نہ تھی، آئین اور قانون کے جو محافظ رہے، ان پر چالیس سال قبل متحدہ پاکستان کو دو ٹکڑے ہونے سے بچانے کا جرم عائد کرکے پھانسیوں پر لٹکانا شروع کر دیا ہے کہ چالیس سال قبل تم نے پاکستان سے محبت کا دم کیوں بھرا؟ جبکہ چالیس سے قبل یعنی متحدہ پاکستان کی حفاظت کا دم بھرنا ہی ان کی حب الوطنی کا عین تقاضا تھا۔

    ذرا ایک نظر تو دوڑائیں ان عظیم شخصیات پر، پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمان نظامی، علی احسن مجاہد، عبدالقادر ملا، صلاح الدین چوہدری، قمر الزمان، کوئی شیریں بیاں تو کوئی شعلہ نوا مقرر، کوئی عالم باعمل قرآن کا مفسر، کوئی دعوت کا راہی تو کوئی سیاست کا شاہسوار، ظالم حسینہ نے چن چن کر ان نابغہ روزگار ہستیوں کو تختہ دار پر لٹکایا جو نہ صرف بنگلہ دیش کی مسلم شناخت کے امین تھے بلکہ پوری ملت کا اثاثہ تھے۔ ایسے ہی تو نہیں ترکی کے صدر طیب اردگان تمام سفارتی ضابطے بالائے طاق رکھتے ہوئے ان پھانسیوں پر چیخ اٹھے تھے اور احتجاجاً بنگلہ دیش سے سفارتی تعلقات بھی منقطع کرلیے تھے۔ ذرا تازہ ترین جام شہادت نوش کرنے والے میر قاسم کا پروفائل تو دیکھیے، کتنی قد آور شخصیت کو بونی حسینہ واجد نے بنگلہ دیش اور پوری امت سے چھین لیا ہے۔ جی ہاں میر قاسم صرف بنگلہ دیش ہی نہیں پوری امت کا قیمتی ترین اثاثہ تھے، بینکنگ کے نظام میں، ذرائع ابلاغ کے میدان میں، تعلیم، صحت اور ڈویلپمنٹ کے شعبوں میں اس قدر گراں خدمات کہ عقل دنگ رہ جائے۔ ایک آدمی اور اتنے کارنامے۔

    میر قاسم علی بنگلہ دیش کی ایک آئی کون شخصیت، معروف سیاستدان، کامیاب بزنس ٹائی کون، اور بنگلہ دیش میں سوشل انٹرپنورشپ کے بانی اور کمال درجے کی انسان دوست شخصیت تھے۔ 1976ء میں بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن اسلامی چھاترو شبر کے بانی صدر رہے۔ اور 1979ء میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔

    میر قاسم علی بنگلہ دیش اسلامک بنک کے ڈائریکٹر تھے۔ 12سال اسلامک بنک کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چئیرمین اور چار سال وائس چئرمین رہے۔ ان کی سربراہی میں اسلامی بنک پرائیویٹ سیکٹر میں بنگلہ دیش کو سب سے زیاد ہ ٹیکس ادا کرنے والا اور تمام کارپوریشنز میں دوسرا بڑا ٹیکس ادا کرنے والا بنک رہا ہے۔

    میر قاسم چیئرمین ڈی جنتا میڈیا کارپوریشن تھے، جس کے تحت ڈی جنتا ٹی وی، روزنامہ ڈی جنتا سمیت دو ماہانہ میگزین شائع ہو رہے ہیں، جبکہ ایک ایف ایم ریڈیو، ایک انگریزی زبان کا قومی اخبار، ایک انگریزی اور بنگلہ زبان میں ویب نیوز چینل کے پراجیکٹس زیر تکمیل مراحل میں ہیں.

    میر قاسم بانی ابن سینا ٹرسٹ اور ابن سینا فارماسیوٹیکل انڈسٹریز تھے، فواد الخطیب چیریٹی فائونڈیشن سمیت ویلفئیر کے 6 بڑے ادارے چلا رہے تھے، 12اسپتال،11 تعلیمی ادارے، یتیم بچوں اور خواتین کے تحفظ کے بہت سے مراکز، فری میڈیکل سنٹرز اور مساجد آپ کے زیرانتظام چل رہی تھی۔ کیری ٹیلی کمیونیکیشن اور کیری ٹورازم کی کمپنیاں بھی چلا رہے تھے.

    میر قاسم علی دو یونیورسٹیز کے سینڈی کیٹ ممبر تھے۔ ڈائریکٹر رابطہ العالم الاسلامی سمیت دو بڑے تھنک ٹینک اسلامک اکنامک ریسرچ بیورو اور سنٹر فار اسٹریٹیجی اینڈ پیس اسٹیڈیز آپ نے قائم کیے۔ امریکہ اور یورپ کے تھنک ٹینکس کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے۔ اسلام کا درست تصور اور بنگلہ دیش کی ترقی سے متعلق امور پر بات کرتے۔ 25 سے زائد ممالک کا دورہ کرچکے تھے۔ اور بیرون ملک ہی تھے جب حسینہ واجد نے 2010ء میں جنگی جرائم کا ٹربیونل بنایا، چاہتے تو واپس نہ آتے مگر صاحب ایمان اور صاحب کردار تھے، اپنے ملک آئے، جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا، اپنے اخبار کے دفتر سے ہی گرفتار ہوئے، ان کے جوان بیٹے کو لاپتہ کر دیا گیا مگر استقامت کے کوہ گراں ثابت ہوئے۔ سزائے موت سنائی گئی، مطمئن دکھائی دیے، سرکار نے رحم کی اپیل کا پیغام بھجوایا، جذبہ شہادت سے سرشار عظیم مجاہد نے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کر دیا، اور پھانسی کے پھندے پر جھول کر حسینی قافلے میں شامل ہوگیا. امام ابن تیمیہ، سید مودودی، حسن البنا اور سید قطب بھی اپنے وقتوں میں جس قافلے کے شاہسوار رہے، میر قاسم علی نے اسی قافلے کا راہرو بن کر عبدالمالک شہید سے لے کر مطیع الرحمان نظامی شہید تک اپنے پیشروئوں کے ساتھ اپنے رب کی جنت میں بسیرا کر لیا.

    بڑے کم ظرف ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں کوئی اصولوں اور نظریات پر جان نہیں دیا کرتا اور جو مرنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا۔ اے کم ظرفو! دیکھو اور بتائو کہ میر قاسم کے چاروں طرف دنیا بکھری ہوئی تھی، اس کے پاس تو کھونے کو سب کچھ تھا، اس کے بیوی بچے، خاندان، دوست احباب، ساتھی غمگسار، بینک بیلنس، روپیہ پیسہ، سونا چاندی جواہرات، عزت شہرت، سب کچھ ہی تو تھا اس کے پاس۔
    جی ہاں! میر قاسم نے خوب دنیا سمیٹی مگر اسے دنیا اور دولت کی ہوس ہرگز نہ تھی، اس کے پیش نظر ہمیشہ رضائے الِہی کا حصول رہا، وہ تاجر تھا اور کامیاب بزنس مین سمجھا جاتا تھا سو اس نے اپنے رب سے دنیا کے بدلے ہمیشہ رہنے والی آخرت کا سودا کر لیا، اور کیا خوب نفع کا سودا کیا۔

    آج بنگلہ دیش کا میر قاسم علی اپنے ملک، اپنے دین اور اپنے نظریات پر قربان ہو گیا، اس کی جان پاکستان سے محبت اور وفاداری کے جرم میں لی گئی۔ بنگلہ دیش ہزاروں یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کرنے والے، شہر شہر پھیلے اسپتالوں میں مفت علاج کروانے والوں کے انسان دوست سرپرست سے محروم ہو ا ہے تو ملت اسلامیہ اپنے عالی دماغ پالیسی ساز شخصیت سے محروم ہوئی ہے. اور پاکستان کی بد نصیبی کہ اٹھارہ سال کی عمر میں بھارت نواز مکتی باہنی کے سامنے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والا نہ رہا۔

    سمجھ نہیں آتا کہ کیا لکھیں، مرثیہ، نوحہ یا پرسہ لکھیں، ماتم کریں یا سوگ منائیں، ہاتھ شل ہو چکے اور قلم خشک، دل چاہتا ہے کہ کوئی نوحہ لکھے اور خوب لکھے، پاکستان کی گونگی حکومت اور خاموش سماج پر لکھے۔
    میں تو سلام لکھوں گا اس عظیم سپوت پر جو وفا کی انمول داستان رقم کر گیا
    عجیب ہو تم غریب ہو تم ، صلیب پر مسکرانے والو!
    تمھاری یادیں بسی ہیں دل میں، افق کے اس پار جانے والو ۔۔۔ سلام تم پر ۔۔۔ سلام تم پر ۔۔۔!

  • خونِ شہیداں رنگ لائے گا – رضی الاسلام ندوی

    خونِ شہیداں رنگ لائے گا – رضی الاسلام ندوی

    رضی الاسلام ندوی 3 ہزار افراد پر مشتمل فوج شام کی جانب روانہ ہوئی تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے دشمن کے ایک لاکھ فوجیوں پر مشتمل لشکر جرّار موجود تھا. پھر کیا کریں؟ جنگ کا ارادہ بدل دیں؟ کمک کا انتظار کریں؟ یا جو کچھ ہمارے بس میں ہے وہ کر گزریں؟ آخری آپشن اختیار کیا گیا. شام کے ایک مقام مُوتَہ پر جنگ ہوئی. 3 ہزار کا ایک لاکھ سے کیا مقابلہ، خاصا جانی نقصان ہوا، ایک ایک کرکے 3 سپہ سالار (حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم) بھی شہید ہوگئے. تھکی ہاری فوج واپس پہنچی تو بعض نے طعنہ دیا. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فوراً فرمایا: ”یہ راہِ فرار اختیار کرنے والے نہیں، بلکہ تازہ دم ہو کر پھر حملہ آور ہونے والے ہیں.“

    یہ ہے تحریک اسلامی سے وابستہ فوجیوں کی شان، اپنی تعداد کی قلّت، دشمنوں کی کثرت، حالات کی ناسازگاری، شہادت پر شہادت، انھیں ہراساں نہیں کرتی اور وہ پوری آن بان کے ساتھ شاہراہِ حق پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں.

    بنگلہ دیش سے ایک اور شہادت کی اطلاع آئی ہے. وہاں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما، عظیم دانشور، مدبّر، ماہرِ اقتصادیات جناب سید میر قاسم علی (ولادت 31 دسمبر 1952) کو پھانسی دے دی گئی ہے. اس طرح وہ بھی قافلہ شہداء میں شامل ہوگئے ہیں. اس سے قبل اسی طرح ایک ایک کر کے چار رہنماؤں کو پھانسی دی جا چکی ہے. سب کا تعلق ایک دینی جماعت سے ہے، سب ایک ہی فکر کے علم بردار ہیں، سب کا جرم ایک ہے [pullquote]وَ مَا نَقَمُوا مِنھُم الا ان یُومِنُوا بِاللہِ (البروج:8)[/pullquote]

    ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھنے والے اور حق کے پرستار ہیں.

    یہ کائنات فطرت کے اصولوں سے جکڑی ہوئی ہے. جس طرح زمین میں اگائی جانے والی کھیتی پانی پاکر تازگی حاصل کرتی ہے، اسے جتنا کھاد پانی دیا جائے اتنا ہی وہ لہلہاتی ہے، اسی طرح ایمان کی کھیتی خون سے لہلہاتی ہے، اس کی راہ میں جتنی قربانیاں اور جتنی شہادتیں پیش کی جاتی ہیں اتنا ہی اس کی شادابی، جمال و رعنائی اور استحکام میں اضافہ ہوتا ہے. بس دیکھنے اور جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت یہ ہے کہ جو لوگ اسلامی تحریک سے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں، کہیں ان کے عزائم میں کمزوری اور ارادوں میں فتور تو نہیں آ رہا ہے.

    غزوہ احد(3ھ) میں 70 مسلمان شہید ہوئے، بہت سے مسلمان زخمی ہوئے، قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش ہوا، بیواؤں اور یتیموں کے مسائل پیدا ہوئے، اس کے 2 سال بعد پورا عرب ایمان والوں کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے لیے چڑھ دوڑا. ایسے انتہائی نازک حالات میں ایمان کے علمبردار کن جذبات سے سرشار تھے، قرآن نے اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
    [pullquote]مِنَ المُؤمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاھدُوا اللہ عَلَیہ ، فَمِنھم مَن قَضَى نَحبَہ وَ مِنھم مَن يَنتَظِر وَ مَا بَدَّلُوا تَبدِيلاً (الاحزاب :23)[/pullquote]

    ”ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنے عہد کو پورا کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے، انھوں نے اپنے رویّے میں کوئی تبدیلی نہیں کی.“
    روایات میں آتا ہے کہ جب کسی صحابی کو اللہ کی راہ میں شہادت نصیب ہوتی تو دوسرے صحابہ کہتے: ”یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کردیا ہے.“

    بنگلہ دیش کی سرزمین بھی گواہ ہے کہ اس کے جیالوں نے اللہ سے جو کچھ عہد کیا تھا، اس کو سچ کر دکھایا ہے. انھوں نے اس راہ میں ذرا بھی کمزوری نہیں دکھائی ہے اور آزمائشوں، مصائب، قید و بند، پھانسی کے پھندوں، کسی سے وہ نہیں گھبرائے ہیں. ان میں سے کچھ نے اپنی نذریں پوری کردی ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے دعووں پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے اور بقیہ کے قدم بھی راہِ استقامت پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کے عزائم میں ذرا بھی ڈگمگاہٹ نہیں آئی ہے.

    اے اللہ! ہم نے بھی حق کی حمایت اور طرفداری کا اعلان کیا ہے. اے اللہ! تو ہمیں بھی استقامت عطا فرما. اے اللہ! ہمیں جتنے دن بھی زندگی عطا فرما، اسلام پر قائم رکھ اور جب موت آنی ہو تو ایمان کی حالت میں ہمیں اٹھا. آمین، یا رب العالمین!