Tag: الحاد

  • مغربی تہذیب کا فکری واعتقادی چیلنج، مولانا دریابادی کے تجربات – عمار خان ناصر

    مغربی تہذیب کا فکری واعتقادی چیلنج، مولانا دریابادی کے تجربات – عمار خان ناصر

    عمار خان ناصر غلبہ مغرب کی نوعیت و ماہیت کی کوئی تفہیم اس فکری و اعتقادی چیلنج کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی جو جدید مغربی فکر نے مذہب اور مذہبی اعتقادات کے حوالے سے کھڑا کر دیا ہے۔ اس چیلنج کو درست طور پر سمجھنے کے لیے جدید مغربی فکر کے ارتقا پر نظر رکھنا ضروری ہے جو قرون وسطیٰ میں ابتداء مسیحی مذہبی فکر سے بےاعتنائی اور بعد ازاں اس کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے زیر اثر مغربی فکر میں کائنات اور انسان کے حوالے سے اہم ترین سوالات کا جواب مذہب سے قطع نظر کرتے ہوئے محض عقل، انسانی فطرت، فلسفیانہ غور وفکر اور تجربہ و مشاہدہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر تلاش کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔ اس رجحان نے ابتدا میں مذہب کی حقیقت اور مذہبی شعور کا فی نفسہ انکار کرنے کے بجائے ”فطری مذہب“ کے فلسفہ کی شکل اختیار کی اور روایتی مذاہب کو مذہبی تجربہ و احساس کا حتمی ماخذ تسلیم کرنے کے بجائے انسان کے فطری احساسات پر انحصار کرنے پر زور دیا۔ آگے چل کر اٹھارہویں صدی میں تحریک تنویر میں مذہبی تصور کائنات و تصور انسان کو بالکلیہ مسترد کر دیا گیا اور مذہبی علم کو کسی بھی درجے میں حقیقت کی معرفت کا کوئی ذریعہ تسلیم نہ کرتے ہوئے انسان کے دور جہالت کی پیداوار قرار دیا گیا۔ مذہب کو زمانہ قدیم کے توہمات سے پیدا شدہ جہالت کے ہم معنی اور سائنس کے دریافت کردہ تازہ حقائق سے متصادم ہونے کی بنیاد پر سرے سے ناقابل التفات تصور کیا جانے لگا۔ اس طرز فکر کے منطقی نتیجے طور پر مغربی ذہن تمام کائناتی، نفسی اور سماجی مظاہر کی توجیہ کے لیے متبادل نظریات اور فلسفوں کی طرف متوجہ ہوا اور یوں رفتہ رفتہ حیات وکائنات سے متعلق مذہبی نظریے کی مکمل نفی کر کے لا دینی نظریات اور فلسفوں پر استوار علوم وفنون کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا گیا جو انسانی فکر وعمل کے ہر ہر دائرے کی ایک خاص رخ پر تشکیل کرتا ہے اور جس میں مذہبی فکر یا مذہبی تصورات اب حیات وکائنات کی تفہیم کے لیے زاویہ نظر فراہم کرنے کے بجائے خود انسانی فکر کے ایک معروض (Subject) کی حیثیت سے زیر غور آتے ہیں۔ جدید مغربی فکر کے تمام اہم تصورات، نظریات، فلسفے اور فکری تحریکات بنیادی طور پر مذہب اور مذہبی علم سے بغاوت پر مبنی ہیں اور ان کا اساسی محرک انسانی ذہن کے سامنے مذہبی مقدمات کے متبادل مقدمات پیش کرنا رہا ہے۔

    ظاہر ہے کہ یہ صورت حال بطور ایک مذہب اور بطور ایک کامل تصور حیات، اسلام کے لیے ایک زبردست چیلنج کا درجہ رکھتی ہے، اور اس کا سامنا کرنا مسلم فکر و دانش کی اولین ذمہ داری قرار پاتی ہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کا ایک بنیادی اور اہم دائرہ تو علم الکلام ہے۔ علم الکلام کی اصطلاح علمی و فنی لحاظ سے ایسے جدلیاتی مباحث کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں کسی مخصوص الٰہیاتی اور اعتقادی مسئلے کا اثبات یا تردید مقصود ہو۔ تاہم اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسائل و مباحث کو براہ راست موضوع بحث بنانے کے علاوہ ایسی عمومی حکمت عملی وضع کرنا اور اس کے خط و خال کی وضاحت کرنا بھی اس علم کے دائرے میں ہی شمار ہوگا جس کا مقصد غلط نظریات اور باطل فلسفوں کے منفی اثر سے ذہنوں کو بچانا اور اسلامی عقائد ونظریات کی حقانیت اور صداقت کا یقین دلوں میں راسخ کرنا ہو۔ یہ پہلو عام طور سے علم الکلام سے متعلق تحریروں میں زیر غور نہیں لایا گیا، جبکہ غور کیا جائے تو انسانوں کے مزاجوں اور طبائع کے فرق اور جدید تہذیبی ونفسیاتی رجحانات کے تناظر میں ایسے راہ نما اصول متعین کرنے کی ضرورت اس علم کے اصل مقصد کے لحاظ سے بے حد واضح ہے جن کی روشنی میں ملحدانہ فکر سے متاثر اذہان کو مختلف اور متنوع طریقے اختیار کرتے ہوئے مذہب کی طرف مائل کیا جا سکے اور ان کے ذہنوں سے شکوک وشبہات کے کانٹے چنے جا سکیں۔

    molana-abdul-majid-dariya-abadi اس ضمن میں تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدلیاتی انداز میں براہ راست کسی مسئلے پر مباحثہ یا مناظرہ کا طریقہ بیشتر افراد کے لیے زیادہ مفید نہیں ہوتا۔ علمی و عقلی بحث و مباحثہ کی ایک خاص سطح پر اپنی اہمیت اور افادیت ہے اور فکر و دانش کی سطح پر مؤثر عقلی انداز میں حق کے اثبات اور باطل کی بےمائیگی واضح کرنے کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم جہاں تک انفرادی سطح پر متاثرین کی اصلاح کا تعلق ہے تو ان کے لیے براہ راست موضوع پر مناظرہ یا مباحثہ کا طریقہ بسا اوقات الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں بیسویں صدی کے ممتاز عالم اور دانش ور مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی آپ بیتی میں جو اپنے ذاتی تجربات بیان کیے ہیں، وہ بے حد مفید اور قابل توجہ ہیں اور الحاد سے متاثر نئی نسل کو مخاطب بنانے کے لیے نہایت اہم نفسیاتی اور دعوتی اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ (دیکھیے: آپ بیتی، مجلس نشریات اسلام کراچی، ۱۹۹۶، صفحات ۲۳۳ تا ۲۵۴)

    ذیل میں مولانا کی آپ بیتی کے متعلقہ ابواب سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں:
    ”ایک عزیز کے پاس ایک انگریزی کتاب محض اتفاق سے دیکھنے میں آ گئی۔ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، گویا ایک نیا عالم عقلیات کا کھلتا گیا اور عقائد واخلاق کی پوری پرانی دنیا جیسے زیر و زبر ہوتی چلی گئی! کتاب مذہب پر نہ تھی، نہ بظاہر اس کا کوئی تعلق ابطال اسلام یا ابطال مذاہب سے تھا۔ اصول معاشرت وآداب معاشرت تھی۔ نام تھا: Elements of Social Science ۔ کتاب کیا تھی، ایک بارود بچھی ہوئی سرنگ تھی۔ حملہ کا اصل ہدف وہ اخلاقی بندشیں تھیں جنھیں مذہب کی دنیا اب تک بطور علوم متعارفہ کے پکڑے ہوئے ہے اور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے ہے، مثلاً عفت وعصمت۔ کتاب کا اصل حملہ انھیں بنیادی اخلاقی قدروں پر تھا۔ کتاب کی زد ہر ایسی قدر پر پڑتی تھی جو مذہب اور اخلاق کو ہمیشہ عزیز رہے ہیں۔ پروپیگنڈے کا کمال بھی یہی ہے کہ حملہ براہ راست نہ ہو، بلکہ اطراف و جوانب سے گولہ باری کر کے قلعہ کی حالت کو اتنا مخدوش بنا دیا جائے کہ خود دفاع کرنے والوں میں تزلزل و تذبذب پیدا ہو جائے اور قدم از خود اکھڑ جانے پر آمادہ ہو جائیں۔“ (ص ۲۳۴ تا ۲۳۶)

    ”اسلام اور ایمان سے برگشتہ کرنے اور صاف وصریح ارتداد کی طرف لانے میں ملحدوں اور نیم ملحدوں کی تحریریں ہرگز اس درجہ موثر نہیں ہوئیں جتنی وہ فنی کتابیں ثابت ہوئیں جو نفسیات کے موضوع پر اہل فن کے قلم سے نکلی ہوئی تھیں۔ بظاہر مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتی تھیں، نہ نفیاً نہ اثباتاً۔ اصلی زہر انھیں بظاہر بےضرر کتابوں کے اندر کھلا ہوا ملا۔ مثلاً ایک شخص گزرا ہے ڈاکٹر ماڈسلی (Maudesley)۔ اختلال دماغی اور امراض نفسیاتی کو بیان کرتے کرتے یک بیک وہ بدبخت مثال میں وحی محمدی کو لے آیا اور اسم مبارک کی صراحت کے ساتھ لکھ گیا کہ مصروع شخص کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنا کوئی بڑا کارنامہ دنیا کے لیے چھوڑ جائے۔“ (ص ۲۴۰)

    مولانا عبدالماجد دریابادی
    مولانا عبدالماجد دریابادی

    مولانا نے الحاد سے واپسی کے ذہنی سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بدھ مت، تھیو سوفی، ہندو فلسفہ وتصوف اور مختلف ہندو مفکرین کی تحریریں پڑھنے کا ذکر کیا ہے اور اسے اسلام کی طرف واپسی کا پہلا مرحلہ قرار دیاہے۔ لکھتے ہیں:
    ”ڈیڑھ دو سال (۱۹ء، ۲۰ء) کے اس مسلسل مطالعہ کا حاصل یہ نکلا کہ فرنگی اور مادی فلسفہ کا جو بت دل میں بیٹھا ہوا تھا، وہ شکست ہوگیا اور ذہن کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اسرار کائنات سے متعلق آخری توجیہ اور قطعی تعبیر ان فرنگی مادیین کی نہیں، بلکہ دنیا میں ایک سے ایک اعلیٰ و دل نشین توجیہیں اور تعبیریں اور بھی موجود ہیں۔ اسلام سے ان تعلیمات کو بھی خاصا بعد تھا، لیکن بہرحال اب مسائل حیات، اسرار کائنات سے متعلق نظر کے سامنے ایک بالکل نیا رخ آ گیا اور مادیت، لا ادریت و تشکیک کی جو سربفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، وہ دھڑام سے زمین پر آ رہی۔ دل اب اس عقیدہ پر آ گیا کہ مادیت کے علاوہ اور اس سے کہیں ماورا و مافوق ایک دوسرا عالم روحانیت کا بھی ہے۔ حواس مادی محسوسات، مرئیات و مشہودات ہی سب کچھ نہیں، ان کی تہہ میں اور ان سے بالاتر ”غیب“ اور مغیبات کا بھی ایک مستقل عالم اپنا وجود رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے بالکل شروع میں جو ایمان کا وصف ایمان بالغیب بتا دیا ہے، وہ بہت ہی پرحکمت ومعنی خیز ہے۔ پہلے نفس ”غیب“ پر تو ایمان ہو، پھر اس کے جزئیات وتفصیلات بھی معلوم ہوتے رہیں گے۔ ہمارے مولوی صاحبان کو اس منزل و مقام کی کوئی قدر نہ ہو، لیکن درحقیقت یہ روحانیت کا اعتقاد، ایمان کی پہلی اور بڑی فتح مبین مادیت، الحاد وتشکیک کے لشکر پر تھی۔“ (ص ۲۴۷، ۲۴۸)

    ”اسی دور کی ابھی ابتدا ہی تھی کہ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے باہر آ گئی۔ کتاب شبلی کے قلم سے تھی۔ موضوع کچھ بھی سہی، کیسے نہ اس کو شوق سے ہاتھوں سے کھولتا اور اشتیاق کی آنکھوں سے پڑھتا۔ کھولی اور جب تک اول سے آخر تک پڑھ نہ لی، دم نہ لیا۔ دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اور نفس شوم کو سب سے بڑی ٹھوکر جو لگی تھی، وہ اسی سیرۃ اقدس ہی کے متعلق تو تھی۔ مستشرقین و محققین فرنگ کے حملوں کا اصل ہدف تو ذات رسالت ہی تھی۔ خصوصاً بسلسلہ غزوات و محاربات، ظالموں نے بھی تو طرح طرح سے دل میں بٹھا دیا تھا کہ ذات مبارک نعوذ باللہ بالکل ایک ظالم فاتح کی تھی۔ شبلی نے (اللہ ان کی تربت ٹھنڈی رکھے) اصل دوا اسی درد کی کی، مرہم اسی زخم پر رکھا۔ اور کتاب جب بند کی تو چشم تصور کے سامنے رسول عربی کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک وقوم اور ایک رحم دل و فیاض حاکم کی تھی جس کو اگر جدال و قتال سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخر درجہ میں، ہر طرح پر مجبور ہو کر۔ یہ مرتبہ یقینا آج ہر مسلمان کو رسول و نبی کے درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے گا اور شبلی کی کوئی قدر و قیمت نظر میں نہ آئے گی، لیکن اس کا حال ذرا ا س کے دل سے پوچھیے جس کے دل میں نعوذ باللہ پورا بغض و عناد اس ذات اقدس کی طرف سے جما ہوا تھا۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی بھولنے والا نہیں۔“ (ص ۲۴۸)

    ”ہندو فلسفہ اور جوگیانہ تصوف نے گویا کفر و ایمان کے درمیان پل کا کام دیا۔ اس معروضہ کو وہ متقشف حضرات خاص طور پر نوٹ کر لیں جو ہندو فلسفہ کے نام ہی سے بھڑکتے ہیں اور اسے یکسر کفر و ضلالت کے مرادف قرار دیے ہوئے ہیں۔ ہدایت کا ذریعہ بھی اسے بآسانی بنایا جا سکتا ہے۔ اور یہ حضرات اپنے جوش دین داری میں شبلی اور محمد علی لاہوری کی خدمت تبلیغ کو سرے سے نظر انداز نہ کر جائیں، میں نے تو دونوں کی دست گیری محسوس کی بلکہ اسپرٹ آف اسلام والے جسٹس امیر علی کے کام کو بھی حقیر نہ سمجھیں حالاں کہ وہ بےچارے تو قرآن مجید کو شاید کلام محمد ہی سمجھتے تھے۔ اپنی سرگزشت کا تو خلاصہ یہی ہے کہ جس فکری منزل میں، میں اس وقت تھا، حضرت تھانوی جیسے بزرگوں کی تحریروں کو ناقابل التفات ٹھہراتا، ان کی طرف نظر تک نہ اٹھاتا اور ان کے وعظ وتلقین سے الٹا ہی اثر قبول کرتا۔ غذا لطیف وتقویت بخش ہی سہی، لیکن اگر مریض کے معدہ سے مناسبت نہیں ہوگی تو الٹی مضر ہی پڑے گی۔“ (ص ۲۵۵، ۲۵۶)

    ”بڑی خیر یہ ہوئی کہ مجلسی، خانگی تعلقات اپنے عزیزوں اور خاندان والوں سے بدستور باقی رہے۔ اپنے ایک ساتھی کو اسی زمانہ میں دیکھا کہ اپنوں سے کٹ کر مکمل غیروں میں شامل ہوگئے تھے اور رہن سہن تک بالکل ہندوانہ کر لیا تھا۔ میں اپنے کھانے پینے، وضع و لباس اور عام معاشرت میں، بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک حد تک جذباتی حیثیت سے بھی مسلمان ہی رہا، البتہ ایک روشن خیال مسلمان۔ اور روشن خیال مسلمان اس وقت نوجوانوں میں کون نہ تھا؟ اور مسلم قومیت سے میری یگانگت کی جڑیں بحمداللہ کٹنے نہ پائیں۔ مسلم قومیت کی نعمت بھی، دین اسلام کے بعد، ایک بڑی نعمت ہے اور کوئی صاحب اسے بے وقعت و بے قیمت نہ سمجھیں۔ مجھے آگے چل کر اس بچی کھچی نعمت کی بھی بڑی قدر معلوم ہوئی۔“ (ص ۲۴۲)

    ”اکتوبر ۲۰ء میں سفر دکن میں ایک عزیز ناظر یار جنگ جج کے ہاں اورنگ آباد میں قیام کا اتفاق ہوا اور ان کے انگریزی کتب خانہ میں نظر محمد علی لاہوری احمدی (عرف عام میں قادیانی) کے انگریزی ترجمہ و تفسیر قرآن مجید پر پڑ گئی۔ بےتاب ہو کر الماری سے نکالا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ جوں جوں پڑھتا گیا، الحمدللہ ایمان بڑھتا گیا۔ جس ”صاحبانہ“ ذہنیت میں اس وقت تک تھا، اس کا عین مقتضا یہ تھا کہ جو مطالب اردو میں بےاثر رہتے اور سپاٹ معلوم ہوتے، وہی انگریزی کے قالب میں جا کر مؤثر و جاندار بن جاتے۔ یہ کوئی مغالطہ نفس ہو یا نہ ہو، بہرحال میرے حق میں تو حقیقت واقعہ بن کر رہا۔ اور اس انگریزی قرآن کو جب ختم کر کے دل کو ٹٹولا تو اپنے کو مسلمان ہی پایا اور اب اپنے ضمیر کو دھوکا دیے بغیر کلمہ شہادت بلا تامل پڑھ چکا تھا۔ اللہ اس محمد علی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اس کا عقیدہ مرزا صاحب کے متعلق غلط تھا یا صحیح، مجھے اس سے مطلق بحث نہیں۔ بہرحال اپنے ذاتی تجربہ کو کیا کروں، میرے کفر و ارتداد کے تابوت پر تو آخری کیل اسی نے ٹھونکی۔“ (ص ۲۵۴، ۲۵۵)

    اپنی اصلاح کے ضمن میں مختلف حضرات کی کوششوں اور ان کے رائیگاں جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ”ہاں، مخلصانہ و حکیمانہ کوششیں پھر اگر تھوڑی بہت کسی کی چپکے چپکے کارگر ہوتی رہیں تو بس ان دو ہستیوں کی:
    (۱) ایک الہ آباد کے نامور ظریف شاعر حضرت اکبرؒ۔ بحث و مناظرہ کی انھوں نے کبھی چھاؤں بھی نہیں پڑنے دی اور نہ کبھی پند و موعظت ہی کی طرح ڈالی۔ بس موقع بہ موقع اپنے میٹھے انداز میں کوئی بات چپکے سے ایسی کہہ گزرتے جو دل میں اتر جاتی اور ذہن کو جیسے ٹہوکے دے دیتے کہ قبول حق کی گنجائش کچھ تو بہرحال پیدا ہو کر رہتی۔
    (۲) دوسری ہستی وقت کے نامور رہ نمائے ملک و ملت مولانا محمد علیؒ کی تھی۔ بڑی زوردار شخصیت ان کی تھی اور میرے تو گویا محبوب ہی تھے۔ کبھی خط میں اور کبھی زبانی، جہاں ذرا بھی موقع پاتے، ابل پڑتے اور جوش و خروش کے ساتھ، کبھی ہنستے ہوئے، کبھی گرجتے ہوئے اور کبھی آنسو بہاتے ہوئے تبلیغ کر ڈالتے۔ ان کی عالی دماغی، ذہانت، علم، اخلاص کا پوری طرح قائل تھا، اس لیے کبھی بھی کوئی گرانی دونوں کی تبلیغ سے نہ ہوئی اور دونوں حق نصح (خیر خواہی) ادا کر کے پورا اجر سمیٹتے رہے۔“ (ص ۲۴۹، ۲۵۰)

    ”گیتا کے مطالعہ کے بعد سے طبیعت میں رجحان تصوف کی جانب پیدا ہو گیا تھا اور مسلم صوفیا کی کرامتوں اور ملفوظات سے اب وحشت نہیں رہی تھی، دلچسپی پیدا ہوگئی تھی اور خاصی کتابیں فارسی اور اردو کی دیکھ بھی ڈالی تھیں۔ ۱۹۱۹ء کا آخر تھا کہ اپنے ایک عزیز سید ممتاز احمد بانسوی لکھنوی کے پاس مثنوی رومی کے چھ دفتر کان پور کے بہت صاف، روشن و خوشنما چھپے ہوئے دکھائی دیے اور طبیعت للچا اٹھی۔ ان بےچارے نے بڑی خوشی سے ایک ایک دفتر دینا شروع کر دیا۔ کتاب شروع کرنے کی دیر تھی کہ یہ معلوم ہوا کہ کسی نے جادو کر دیا۔ کتاب اب چھوڑنا چاہوں بھی تو کتاب مجھے نہیں چھوڑ رہی ہے۔ یاد نہیں کہ کتاب کتنے عرصے میں ختم کی۔ بہرحال جب بھی ختم کی، تو اتنا یاد ہے کہ دل ممتاز میاں کا نہایت درجہ احسان مند تھا کہ یہ نعمت بےبہا انھی کے ذریعے ہاتھ آئی تھی۔ شکوک و شبہات بغیر کسی رد و قدح میں پڑے، اب دل سے کافور تھے اور دل صاحب مثنوی پر ایمان لے آنے کے لیے بےقرار تھا! (ص ۱۵۲، ۲۵۲)

    ”۲۳ء کا غالباً ستمبر تھا کہ مکتوبات مجدد سرہندی کے مطالعہ کی توفیق ہوئی۔ بڑا اچھا نسخہ، خوب خوش خط و روشن اچھے کاغذ پر، حاشیہ کے ساتھ (مثنوی کے کان پوری ایڈیشن کی طرح) نو حصوں میں امرتسر کا چھپا ہوا مل گیا۔ اس نے طبیعت پر تقریباً ویسا ہی گہرا اثر ڈالا جیسا تین چار سال قبل مثنوی سے پڑ چکا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ مثنوی نے جوش ومستی کی ایک گرمی سی پیدا کر دی تھی۔ بجائے ادھر دھر کی آوارہ گردی اور ہر صاحب مزار و صاحب آستانہ سے لو لگانے کے، اب متعین شاہراہ اتباع شریعت کی مل گئی۔ منزل مقصود متعین ہو گئی کہ وہ رضائے الٰہی ہے، اس کے حصول و وصول کا ذریعہ اتباع احکام مصطفوی ہے۔ مثنوی اور مکتوبات، دونوں کا یہ احسان عمر بھر بھولنے والا نہیں۔ راہ ہدایت جو کچھ نصیب ہوئی، کہنا چاہیے کہ بالآخر انھیں دونوں کے مطالعہ کا ثمرہ ہے۔“ (ص ۲۵۷)

    مولانا عبدالماجد دریابادی کی آپ بیتی کا یہ پورا حصہ لائق مطالعہ ہے اور انسانی نفسیات اور تجربے کی سطح پر یہ سمجھنے میں بہت مدد دیتا ہے کہ گمراہ کن نظریات کیسے انسان کے فکر و دماغ کو متاثر کرتے ہیں اور ان کا مداوا کرتے ہوئے کن علمی و نفسیاتی اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

  • الحاد کیسے پھیلتا ہے؟ سوال کیا ہے، جواب کیا؟ عبدالسلام فیصل

    الحاد کیسے پھیلتا ہے؟ سوال کیا ہے، جواب کیا؟ عبدالسلام فیصل

    جب سے انسان پیدا ہوا ہے تب سے اس میں ایک صلاحیت پائی جاتی ہے جس کو ہم شک و شبہ، حیرت یا سوال کرنے کی صلاحیت کہتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے ایک بڑے ہجوم میں جس کی تعداد کم و بیش 7 ارب سے بھی زیادہ ہے اور ہر انسان کے پاس اپنا دماغ، اپنی سوچنے کی صلاحیت موجود ہے، یہ کیسے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کون سا انسان عقل و فہم میں بہتر اور خیر والا ہے، اور کون سا انسان عقل و فہم میں برائی والا یا شر والا ہے؟ یہاں پر لازم آئے گا کہ اختلاف جنم لے۔ لیکن یہ اختلاف ایک ایسے شخص کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ جو عقل و فہم کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، اور خود کو نمایاں رکھنے کی کوشش میں لوگوں کے سامنے ایسے سوالات رکھتا ہے جس کا کوئی سر ہو نہ پاؤں تو آپ کبھی بھی اس شخص کو کسی نتیجہ پر نہیں پائیں گے۔ اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

    ملحد آپ سے سوال کر سکتا ہے کہ اگر ’’اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے‘‘؟ تو انسان کو ’’ آنکھیں‘‘ سامنے کی جانب کیوں عطا کیں؟ ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے کیوں نہ عطا کیں؟ تاکہ وہ آ گے اور پیچھے دونوں جانب دیکھ سکتا؟
    اب اہل منطق یہ سوال اٹھائیں گے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ انسان کا آگے والا حصہ کون سا ہے اور پیچھے والا حصہ کون سا؟ پھر یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ اگر انسان کی ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے ہوگی تو لازم بات ہے کہ انسان کے ناک کا ایک سوراخ بھی پیچھے ہونا چاہیے تھا؟ تا کہ وہ جس طرف سے بھی کسی بدبو دار چیز کو دیکھتا تو اس کی طرف اسی سمت میں متوجہ ہوتاَ؟
    پھر یہ سوال کیا جائے گا کہ لازم آتا ہے کہ ’’انسان کے آگے اور پیچھے 2 منہ بھی ہونے چاہیے تھے؟‘‘ تاکہ وہ اپنی خوراک کو جس طرف کی آنکھ سے بھی دیکھتا اسی طرف سے اس کے خیر و شر یعنی وہ خوراک اس کے کھانے کے لیے درست ہے یا نہیں سمجھ کر کھانا دونوں جانب سے کھا سکتا؟ پھر یہ سوال بھی تو کیا جا سکتا ہے؟ گردن کیوں دی گئی؟ کیا صرف کھانا نگل لینے کے لیے دی گئی؟ نہیں بلکہ اس کو اردگرد کے ماحول کو دیکھنے کے لیے حرکت کی طاقت عطا کی گئی؟ کیا وجہ ہے کہ انسان کو ایک کان کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں بھی دو آنکھیں دی جاتیں تا کہ گردن کی حرکت کی حجت و علت ختم ہو جاتی۔ اور انسان کی یہ محتاجی ختم ہو جاتی؟
    نوٹ: آپ اندازہ کریں کہ ملحد کے ایک سوال نے کیسے کیسے سوالات کو جنم دیا۔ اور پھر تصوراتی طور پر اگر ان سوالات کو حقیقی تجزیہ سے عمل میں لایا جائے تو سوچیں کہ انسان اگر مندرجہ بالا خصوصیات کا مالک ہوتا تو کتنا بےڈھنگا اور بد صورت تصور ہوتا۔

    ملحد اس بات کے قطع نظر کہ انسانی آنکھیں 180 ڈگری میں اپنے سامنے کی طرف سے دیکھ سکتی ہیں اور گردن کے مڑنے سے انسان اپنے اردگرد 180 ڈگری اینگل کے وژن سے دیکھ سکتا ہے۔ انسان کا ’’نضام انہضام، نظام دماغ، نظام پیشاب‘‘ فطری طور پر آنکھوں والی جانب اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر پائی جانے والی تبدیلیوں کو محسوس کر سکے۔ پیٹ کا درد، گردوں کا درد، دل کا درد سب کچھ سامنے کی طرف ہی انسان کو محسوس ہوتا ہے۔ ہندؤں کے بگھوان کی مورتی کو دیکھیں جس کے 6 منہ یا 4 ہاتھ ہیں؟ کیا وہ ایک کامل تخلیق ہے؟ یا ہم یہ کیسے مان لیں کہ جو مورتی خدا ہونے کا دعویٰ کرتی ہو وہ اتنی بد صورت ہواور اس میں اتنی قدرت موجود نہ ہو کہ وہ دو ہاتھوں، ایک منہ، اور دو ٹانگوں کے ساتھ ہوتے ہوئے ہر کام کو بجا لائے؟ کیا خدا بدصورت بھی ہوتا ہے؟ معاذ اللہ، کیا دنیا میں ایسے انسان نہیں پائے جاتے جن کو ایک دکھائی دینے والی چیز اچھی اور دوسروں کو بری لگتی ہے؟ اس بات سے قطع نظر کہ وہ یہ بات مانتا ہے کہ انسان ایک حادثاتی کرشمہ ہے۔ لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس قدر پیچیدہ انتظام کسی خالق کے بنائے بغیر تخلیق پا ہی نہیں سکتا۔

    اہل مذہب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جو اعتراض آپ نے اہل مذہب اور خدا کے ماننے والوں پر کیا اسی کا اطلاق ہم آپ پر کرتے ہیں کہ انسان نے ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے بے شمار تبدیلیاں اپنے اندر دیکھیں. آخر کیا وجہ ہے کہ انسانی شعور ان تبدیلیوں پر قابو نہ پا سکا؟ یعنی ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا محتاج نہ رہتا؟ اور اپنی مرضی سے اپنے جسم کو ڈھال لیتا؟ اور جو سوال آج کے جدت پسند انسان کے ذہن میں پائے جا رہے ہیں وہی سوالوں کا حل انسانیت کے لیے خود پیش کرتا؟ ملحدین اس کا جواب کبھی بھی نہیں دے سکتے۔ حتیٰ کے قیامت آ جائے گی لیکن یہ لوگ شکوک و شبہات کی ایسی دلدل میں پھنسے رہیں گے اور موت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ یعنی سوالات کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا جائے جس سے نفس مسئلہ کی خوب اکھاڑ بچھاڑ ہو، اور ہر سوال سے کئی نقطے اور پہلو کھلتے چلے جائیں۔ پیچیدہ در پیچیدہ علم اس شخص کے حصے میں آئے جو دوسری جانب فریق مخالف کے پاس موجود نہ ہو۔ یہ وہ طریق کار ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے، اور اس نے دہریت کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

    قارئین کرام! اگر انسان واقعی میں ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا حامل ہے تو آگ اس ماحول کا حصہ ہے، کیا وجہ ہے کہ ہندو ہزاروں سالوں سے انسان کو جلا رہے ہیں اور انسان جلتا جا رہا ہے؟ اگر واقعی جینیاتی تبدیلیاں انسان کی جسمانی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں، اور ابتدائی طور پر مادہ نے انسان کی پہلی حالت ہونے کا شرف حاصل کیا ہے اور ماحول سے چھپکلی، پھر ڈائینو سارس ، پھر بڑے دیوقامت بن مانس اور پھر بندروں کی شکل اختیار کر کے موجودہ انسانی شکل تک پہنچا ہے؟ تو لازم طور پر ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وقت کی رفتار انسان کو ایسا کرنے سے روک رہی ہے ورنہ ان تبدیلیوں پر اربوں سال نہ لگتے۔
    ہم ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ انسان کو دوڑنے سے سانس کیوں چڑھ جاتا ہے کیا یہ خامی نہیں؟ یا پھر یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انسانی آنکھ بھی تو اسی ماحول کی عطا کردہ ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ انسانی آنکھ سورج کے نیچے یا سامنے کھڑے ہو کر اسے دیکھنے سے قاصر ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سوال کر دیا جائے کہ انسان یا مادہ کی میل اور فی میل سیکس کیوں تشکیل پائے؟ کیا وجہ ہے کہ جو ملحدین انسانیت کا نام لے لے کر عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے کی بات کرتے ہیں، یہ ماحول انسان کو صرف مرد رہنے دیتا یا پھر صرف عورت یعنی فی میل، آج کی یہ ہل چل جس میں عورت کے حقوق کے نام پر عورت کو جگہ جگہ ذلیل کیا جاتا ہے وہ نہ ہوتی؟

    کیا آپ یہ بات سمجھنے کو تیار ہیں کہ اگر دنیا میں صرف مرد ہی مرد پیدا ہوتے اور مرد ہی میں بچہ جننے کی طاقت ہوتی تو جنگوں میں لڑنے والے حاملہ مردوں کو تلواروں، گولیوں اور دوسرے ہتھیاروں سے جب قتل کیا جاتا تو کتنے مرد اولاد سے محروم ہو جاتے؟ کیا ملحد بتا سکتے ہیں کہ مردوں کو کیا کہا جاتا؟ ماں یا باپ؟ ملحدین اگر بیس سوال کر سکتے ہیں تو یقین مانیں کہ ان کے خلاف بیس ہزار سوال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ ان کے دماغ کو منتشر کر دیا جاتا ہے۔ ملحد کا کوئی سوال آپ کو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتا جبکہ مذہب آپ کو کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچا دیتا ہے۔

    مثلاً: ملحدین آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ’’ہم آپ کے نبی محمد ﷺ کو نہیں مانتے کیونکہ یہ سب قصے کہانیاں ہیں (معاذاللہ )، تاریخ میں کسی محمد ﷺ کا یا عیسی علیہ السلام کا کوئی وجود نہ تھا۔ تو اہل مذہب جواب دیں گے کہ اللہ کے انبیاء کو دیکھنے والی ایک بہت بڑی جماعت موجود تھی۔ محمد ﷺ کو دیکھنے والے ایک لاکھ سے زائد مسلمان صحابہ رضی اللہ عنھم موجود تھے، جن سے ان کے لاکھوں تابعین اور تبع تابعین نے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے نبی بنایا۔ ان کے خاندانوں اور ان کا سلسلہ نسب موجود ہے۔ آج بھی ان کی اولادیں موجود ہیں۔ جن سے تاریخ کی ضمانت لی جاتی ہے۔
    جبکہ ملحدین کے پاس اپنی تاریخ کا کوئی بھی پہلو محفوظ نہیں۔ وہ نہیں بتا سکتے کہ انسان نے سب سے پہلے کیا الفاظ بولے ؟ وہ نہیں بتا سکتے کہ ان الفاظ کو سننے والے کتنے تھے؟ یا تھے بھی یا نہیں؟ ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ ان میں کتنے میل اور کتنے فی میل تھے؟ انہوں نے علم کی ترسیل کس طرح کی، کوئی حتمی جواب موجود نہیں؟ سب سے پہلے جس انسان نے لباس پہنا اس کا کیا نام تھا؟ سب سے پہلے جس انسان نے آگ جلائی وہ کون تھا؟ یا کس انسان نے کس انسان کا نام رکھا؟
    نوٹ : یہ موازنہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے خیر و شر کو سمجھنے کی ایک مثال ہے۔
    یعنی کوئی بھی ملحد جو دین کو نہیں مانتا وہ آپ کو کسی نتیجہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن مذاہب نتیجہ خیز ہوتے ہیں اور دین اسلام نے مسلمانوں کو جن نتائج سے آگاہ کر دیا ہے اس کی مثال کسی مذہب میں موجود نہیں۔

    مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ نے کائنات کی تخلیق سے 50 ہزار سال پہلے تقدیر یعنی پلان مرتب کیا۔ پھر کائنات اور اس میں موجود اشیاء کی تخلیق کی۔ پہلا انسان آدم تھا، وہ ایک مرد تھا، اس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السلام کے ذریعے شیطان اور شیطان کے ذریعے آدم علیہ السلام کو آزمایا گیا۔ پھر ان کو جنت میں رکھا گیا۔ جنت میں اللہ نے ان کو ایک ابتلاء یا آزمائش میں مبتلا کیا۔ آدم سب سے پہلے بولے۔ آدم علیہ السلام کو علم دیا گیا۔ آدم علیہ السلام کو کثیر اولاد حوا علیھا السلام کے ذریعے عطا کی گئی۔ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السلام کو زمین میں موجود تین رنگوں کی مٹی سے پیدا کیا گیا۔ یعنی سرخ، سیاہ اور سفید ۔ آدم علیہ السلام سے اب تک کے لوگ سب اسی ابتلاء میں مبتلا ہیں۔ موت اس لیے دی جاتی ہے کہ انسان کے اعمال کا محاسبہ آخرت میں دیا جا سکے۔ قیامت قائم ہو۔ سب سے پہلی موت آدم کی اولاد کو ہی آئی۔ سب سے پہلے آدم کی اولاد ہی کو دفنایا گیا۔ انسان کو اس امتحان کا نصاب دیا گیا۔ وہ دین اسلام ہے۔ انسان کو اسی پر عمل پیرا ہو کر اللہ سے اپنے گناہوں سے نجات حاصل کرنی ہے۔ یہ ہے وہ نتیجہ جس تک دین رہنمائی کرتا ہے۔

    ملحد یہ سوال بھی کرتا ہے کہ انسان کو آگ میں کیوں ڈالا جائے گا، اگر آگ ہی میں ڈالنا تھا تو پیدا کیوں کیا۔ جبکہ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو وہ یہ سوال تب کرتے ہیں جب انہوں نے دین کی طرف سے پیش کردہ فلسفہ آزمائش کو پس پشت ڈال دیا ہوتا ہے اور اس کے بارے میں کوئی ملحد کچھ بھی علم نہیں رکھتا۔
    ملحد آپ سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ اللہ نے عورت کے حیض کو پلید قرار دیا ہے، وہ عورت کو اس کے بغیر بھی تو پیدا کر سکتا تھا جبکہ یہی سوال ہم ماحول کو خدا ماننے والوں سے کر سکتے ہیں کہ آپ کا نظریہ حقیقت پر مبنی ہے تو اس مسئلہ پر انسان نے اپنے ارتقاء میں جن بری تبدیلیوں سے اپنے جسم میں اچھی تبدیلیاں پیدا کیں، اس میں عورت بھی حیض سے نجات حاصل کر لیتی۔ آج کا ملحد سائنس کا ڈنکا بجانے میں مگن ہے، میڈیکل سائنس پر فخر کرتا ہے لیکن اربوں سالوں سے موت جیسی بیماری پر آج تک قابو نہ پا سکا؟

    آپ جانتے ہیں کہ اگر انسان واقعی ماحول کا بیٹا ہوتا اور اپنے اندر کی تبدیلیوں کا مالک خود ہوتا تو آج یہ دنیا جس کے 7 براعظم ہیں، انسانوں کے جم غفیر کے لیے تھوڑی پڑ جاتی۔ جو انسان آج 5یا 10مرلہ کی زمین کے لیے ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے، وہ کتنا جھگڑالو ہوتا۔ افزائش نسل کے لیے جانوروں کی حد تک اپنی طاقت کا استعمال کرتا۔ ممکن ہے ماں ، باپ ، بیٹی اور بہن بھائی جیسے مقدس رشتے وجود میں نہ ہوتے۔ جو توازن موت نے انسان اور اس کی زندگی اور اس کے معاشرے میں پائی جانے والی بے شمار تبدیلیوں کی وجہ سے قائم رکھا ہے، وہ زندہ انسانوں کا وہ ہجوم جو شاید ایک کے اوپر ایک رہتا۔ اور کائنات کتنی غیر متوازی ہوتی۔

    ملحدین کا طریقہ واردات علوم فلاسفہ کی بنیاد پر ہے۔ ’’فلسفہ‘‘ کا معنی ’’عقل و دانش‘‘ سے محبت ہے، لیکن فلسفہ کی کوئی جامع تعریف موجود نہیں ۔مسائل کی تحقیق کے نام پر دوسرے علوم کے ’’قوانین‘‘ اور ’’اصول و ضوابط‘‘ کا ناقدانہ انداز میں جائزہ لے کر اپنی مرضی کی تردید کر دینے کا نام ’’فلسفہ‘‘ ہے۔ فلسفہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’دلیل‘‘ کسی چیز کو نہیں مانتے۔ اگر آپ کسی فلسفی کو دلیل کے طور پر قرآن کی آیت یا رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو پیش کریں گے تو فوری طور پر دلیل کو ایک مغالطہ کہے گا۔ لیکن جب آپ سائنسی حوالے سے کسی بھی اصول پر دلیل مانگیں گے، وہ تجربہ کو مثال بنا کر دلیل مانے گا۔ فلسفیوں کا یہ انداز فکر ان پر کڑی تنقید کرتا ہے جیسے ’’تجزیاتی فلسفہ‘‘ جس میں اشیاء کے اجزاء کو سمجھ کر کل کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس میں بے شمار خامیاں ہیں، اور اس کو مندرجہ ذیل مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
    آپ کے سامنے قرآن کا ایک جز لکھ دیا جائے گا۔ [pullquote]ومکرو مکر اللہ واللہ خیر الماکرین[/pullquote]

    ملحداس آیت پر اعتراض کرے گا کہ اللہ قرآن میں خود کہہ رہا ہے کہ ’’ اور جو مکر کرے گا اللہ اس کے ساتھ مکر کرے گا اور اللہ بہتر مکر کرنے والا ہے.‘‘
    اس سے تو ثابت ہوا کہ اللہ مکر کر سکتا ہے بلکہ کرتا ہے، اس لیے اس قرآن میں جو بھی ہوگا اس کو ہم مکر بھی تسلیم کریں گے۔ اب ایک اہل دین’’اصول ترجمہ اور تفسیر‘‘ کو مدنظر رکھ کر سورۃ آل عمرآن کی اس آیت کا ’’سیاق و سباق‘‘ دیکھے گا۔ اس کے بعد لغوی اعتبار پر ’’مدعی معترض‘‘ کے پیش کردہ لفظ کا اصطلاحی معنی پیش کرے گا کہ عربی زبان میں ’’مکر‘‘ سے مراد تدبیر کرنا بھی ہے۔ پھر وہ اس آیت کے شان نزول کو بیان کرے گا۔ اس کے بعد سمجھائے گا کہ بنی اسرائیل کے مکر کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے قرآن میں اس آیت کو نازل کیا۔ اس کے بعد وہ اس آیت سے قبل اور بعد والی آیات پیش کر کے معاملہ صاف کر دے گا کہ بھائی یہ آیت تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی پر دلالت والی آیت سے قبل اللہ نے نازل فرمائی، اور معاملہ صاف ہو جائے گا۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ ملحدین سے ایسا سوال کر سکتے ہیں کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کے پاس ’’دین‘‘ کے علم میں ’’دین کی تاریخ‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ کیا اس کے پاس ’’اصول حدیث اور اصول تفسیر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ اور کیا اس کے پاس ’’عربی ادب اور گرامر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ جس سے یہ بات ثابت کی جا سکے کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کسی بھی مذہب یا دین جس کو ’’فلسفی‘‘ ایک کل کے طور پر مانتے ہیں اور اجزائے دین سے اپنی عقل کے تحت ’’کل‘‘ پر جو تجزیہ کرے گا وہ بالکل درست کرے گا؟ یہ ایک نہایت احمقانہ اور جاہلانہ بات ہے۔

    فلسفی یا ملحدین دین کے ماننے والوں کے بد اعمال کو بنیاد بنا کر بطور حجت پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بد قسمتی سے ایک عالم دین شراب پیتا ہے تو وہ کسی بھی دیندار کے سامنے یہ اعتراض رکھ سکتے ہیں کہ شراب کے حلال و حرام کا تصور بالکل غلط ہے۔ (معاذ اللہ ) کیونکہ میں نے ایک عالم کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ لیکن جب اس سے سوال کیا جائے گا کہ بھائی یہ بتاؤ؟ کیا اللہ نے دین اسلام میں شراب کو کسی جگہ بھی حلال کہا ہے تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی زنا کرتا ہے، ڈاکہ ڈالتا ہے، اور وہ نمازی بھی ہے تو شریعت نے کبھی اس کو نہ زنا کرنے کا حکم دیا ہے نہ ہی ڈاکہ ڈالنے کا۔ وہ اس کے اپنے نفس کی بد اعمالی ہے۔ اس کا تعلق کسی صورت دین سے نہیں ہے۔

    آج کے دور میں’’ملحدین‘‘ کے کام میں جتنی جدت موجود ہے، پہلے موجود نہ تھی۔ ملحدین عیسائیوں، قادیانیوں، منکرین حدیث، ہندوؤں، بدھ مت، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے کیے گئے اعتراضات کو جمع کرتے ہیں اور اس کو انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام زد عام کرتے ہیں۔ ان نظریات کو پھیلانے سے ملحدین کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کالج، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات جو دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں، وہ ان کے ورغلاوے میں آ جاتے ہیں، اور آہستہ آہستہ دین سے مکمل دور ہو کر دہریے ہو جاتے ہیں۔ آج کی دہریت کو کیمونزم، سوشلزم، مارکس ازم، بدھ ازم، ہندو ازم جیسے نظریات کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ ایسے دہریوں کو ’’سیاسی فلسفی‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا کام صرف اور صرف اسلام کو نشانہ بنانا ہے۔ دینی ریاستوں میں رائج نظام کو بنیاد بنا کر اس کو بےجا ’’اسلام‘‘ پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں مثلاً ’’ کرنل قذافی‘‘ نے اپنے ساتھ ’’خواتین گارڈ ز‘‘ رکھی تھیں۔ اب اس کو بنیاد بنا کر اسلام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ’’داعش‘‘ جیسی تنظیموں کو خود پروان چڑھاتے ہیں، اور ان سے مسلمانوں کا ہی قتل عام کروا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام ایک عدم برداشت اور دہشت گردی والا مذہب ہے۔ اسلام قتل و غارت کا درس دیتا ہے۔ میڈیا میں اربوں روپیہ انویسٹ کرتے ہیں، طالبان سے خود کش حملہ کی قبولیت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ اسلام نے کبھی کسی مسجد، کسی جلسہ یا جلوس یا کسی دوسری عبادت گاہ کو تباہ کرنے سے گریز کا حکم دیا ہے۔ لیکن اگر آپ ان ملحدین سے پوچھیں تو وہ تاریخ کی من گھڑت روایات بیان کرنے کے علاوہ کچھ جواب نہیں دے پاتے۔

    آج کے الحاد کو ’’تعلیمی فلسفہ‘‘ کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی یہ دیکھنے میں آیا کہ امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں ’’الحاد کیا ہے یا دہریت کیا ہے‘‘ کے عنوان سے کتب شامل کی گئی ہیں۔ اور یہ نچلی سطح پر سکولوں میں بھی رائج کی گئی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں ان کتب کو صرف روس اور چائنہ کے چند اداروں میں ہی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس کا ایک انداز یہ دیکھنے کو ملا کہ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کے تعلیمی بورڈ میں اسلام سے پھیلنے والی تعلیمات کو متشدد ثابت کیا گیا ہے۔ اور ایسی شخصیات جن کا تعلق صرف دین سے ہو اور خاص دین کی تعلیم دینا ان سے منسوب ہو ان شخصیات کے نام کتب نصاب سے نکال دیے گئے ہیں۔ جیسے پاکستان کی مثال لی جائے ’’خالدبن ولید‘‘ کا نام کتب نصاب سے نکالا گیا ’’ملالہ یوسفزئی‘‘ کا نام ڈال کر، اور ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا‘‘ کا نام نصاب سے نکالا گیا۔ ’’نیلسن منڈیلا‘‘ کا نام نصاب میں ڈال دیا گیا۔ سورۃ الانفال، سورۃ الاحزاب جیسی سورتیں نصاب سے نکالی گئیں جس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ اس سے بچوں میں انتہا پسندی اور دہشتگردی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی کہ اس نصاب کو پڑھانے والے کیا یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ ساتھ ساتھ بچوں کی مثبت تربیت کو بھی مد نظر رکھیں کہ کل کو ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق کوئی منفی خیال نہ آئے۔

    چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے لیکن یہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں بہت بڑے بڑے مسائل پیدا کرتی ہیں۔ ایمانیات اور دینیات نفس میں نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ الحاد بندے میں تشکیک، شبہات اور غیرسنجیدگی، جلد بازی اور عدم ٹھہراؤ پیدا کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی ملحد اللہ کو نہیں مانتا، یہ بات سمجھ لیں کہ آپ جب بھی کسی ملحد سے بات کریں گے تو آپ کو اس میں خود پسندی سے زیادہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔
    اللہ مجھے اور آپ کو دین پر زندہ رکھے اور خاتمہ بالایمان فرمائے۔ آمین ۔

  • منکرینِ خدا سے چند سوالات – سیّد ثمر احمد

    منکرینِ خدا سے چند سوالات – سیّد ثمر احمد

    سید ثمر احمد ہم خواہ مخواہ خدا کی حمایت میں اپنی بہترین صلاحیتیں لگانا نہیں چاہتے، ہمارا اندر نہیں چاہتا کہ کوئی نفس کی شترِّ بے مہار آزادی کو لگامیں ڈالے، ہم مادر پدر آزادی کے ساتھ ہر ’باغ‘ میں چرنا چاہتے ہیں، اگر کوئی ذہن کو جواب کا پانی مہیاکر سکے، کوئی سجھا سکے کہ خدا سے ہٹ کر بھی ایک راہ سیدھی فلاح و سکون کی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔

    ہم نظریاتی ملحدین سے بھی مخاطب ہیں اور خصوصی طور پہ پاکستانی معاشرے میں واقعاتی طور پہ بڑھتے ہوئے جدید تعلیم یافتہ طبقے کے الحاد سے بھی۔ ہم وطن ِ عزیز کے متشککین سے بھی عرض گزار ہیں اور مخلصین سے بھی۔ کیا نفس پرستی، مفاد پرستی، تعصب و عناد اس قابل ہیں کہ وہ انسان کو اس کی سب سے بڑی ضرورت سے دور رکھ سکیں؟نظریاتی ملحدین مندرجہ ذیل سوالات کی تحقیق کی سچائی سے جواب تلاش کریں، واقعاتی بنیادوں پہ ملحد ہونے والے سچائی اور جھوٹ کی معیاری کسوٹی حاصل کریں،متشککین شک سے نکلیں اور مخلصین کچھ کر گزرنے کا عزم باندھیں ۔ وگرنہ طوفان تو طوفان ہے اجاڑ کے رکھ دیتا ہے، سیلاب تو سیلاب ہے تباہی مقدر کردیتا ہے، زلزلہ تو زلزلہ ہے مضبوطی اس کے سامنے بودی ثابت ہوتی ہے، لاوا تو لاوا ہے کون رکاوٹ بن سکتاہے؟ہم سمجھتے ہیں کہ خدا کا وصل انسان کو لذت، ترقی ، سکون اور ابدی کامیابی نصیب کرتا ہے اور خدا کا انکار بد ذوقی، اضطراب،گھْن اور ہمیشہ کی ناکامی۔ انکار گھٹن اور اقرار آزاد فضا کے صحت مند سانس کی ضمانت دیتا ہے۔ ذہن کے ’غبار‘ سے کچھ سوالیہ نشان برآمد ہوئے ہیں، پیش کرتا ہوں:

    ٭خدا کا ہونا زیادہ سائنسی ہے یا نہ ہونا؟
    ٭خدا کاہونا زیادہ تاریخی ہے یا نہ ہونا؟
    ٭خدا کاہونا انسان اور سماج کے لیے زیادہ ضروری ہے یا نہ ہونا؟
    ٭خدا کے ساتھ کائنات کا تصور کامل ہے یا خدا کے بغیر؟
    ٭نفسیاتی طور پہ خدا کا انکار فائدہ مند ہے یا اقرار؟
    ٭خدائی سہارے کا ہونا دگرگوں حالات میں مایوسی سے حوصلے کی جانب سفر ہے یا نہ ہونا؟
    ٭حقیقتِ مطلقہ کے انکاریوں کی سوچ کو آخر پھر کس بنیاد پہ حقیقت تسلیم کیا جاسکتا ہے؟نیز اگر اس موقف کو تسلیم کربھی لیا جائے تو خدا کے بارے میں پائی جانے والی دو آرابڑھ کر اربوں سر پھٹول میں تبدیل نہ ہوجائیں گی؟ خدا کے بغیر ان پہ روک کیسے لگائی جا سکتی ہے؟
    ٭محض کسی چیز کا نظر نہ آنا اس کی نفی کی دلیل بن سکتا ہے؟
    ٭فزکس کے اس اصول کا کیا جائے کہ ہم 10لاکھ میں سے صرف 5چیزوں کے جانتے ہیں۔ گویا باقی سب کچھ غیب میں ہے یعنی عظیم ترین حقائق غیب میں ہیں؟
    ٭عقلی طور پہ منکرینِ خدا کا موقف زیادہ وزنی معلوم ہوتا ہے یا خدا پرستوں کا؟
    ٭پسند ناپسند، تعصبا ت،محدود سوچ اور رجحانات رکھنے والے انسان کا اصولی ضابطہ بنانا زیادہ ممکن نظر آیا ہے یا انسانی تناقضات سے پاک اصول کسی برتر طاقت کا تقاضا کرتے ہیں؟
    ٭ان منکرین کا کیا جائے جو کہتے ہیں کہ اگر چہ خدا نہیں ہے تب بھی یہ انسانی معاشرے کے سدھار کی ضرورت ہے؟
    ٭جو کہتے ہیں کہ زندگی یک خلوی جاندار سے شروع ہوئی تو یہ جان دار کیسے تخلیق ہوا؟
    ٭جانداروں کا’ ایک ‘آغاز متجسس ذہن کے لیے آسودگی کا زیادہ سامان رکھتا ہے یا کوئی ’شروعات‘ نہ ہونا؟
    ٭ خدا کا تصور زیادہ قدیم ہے یا انکار؟
    ٭خدا پرستوں کے دعوئوں اور پیغامات میں زیادہ یکسانیت رہی ہے یا خدا بیزاروں کے؟
    ٭خدا کن ’ٹھوس‘ حقائق کی بنیاد پہ خوف کی حالت میںتراشا من گھڑت خدا ٹھہرتا ہے؟
    ٭پیغمبرانِ قدس کے مثالی سیرت و کردار کے مقابلے میں ملحدین کے کس قدر نمونے لائے جاسکتے ہیں؟اور سچائی کے مجسموں کے دعوے مانے جانے کے زیادہ لائق ہیں یا نہیں؟
    ٭کائنات کی ابتدا و انتہا پہ فیصلہ کن کلام الحاد پیش کرتا ہے یا خدا؟
    ٭تاریخ میںہر حوالے سے خدائی دعوئوں کوپیچھے ہٹنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے یا الحادی دعاوی کو؟
    ٭تجرباتی طور پہ ہمہ نوع اضطراب دور کرنے کی طاقت خدا کے پاس ثابت ہوئی ہے یا منکرین کے پاس؟
    ٭بارہا مطمئن الہامی معاشروں کے مقابلے میں کتنے مطمئن الحادی معاشرے پیش کیے جاسکتے ہیں؟
    ٭آپ کہتے ہیں کہ خدا کے اثبات کا کیا ثبوت پیش کریںگے۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا کی نفی کا کیا ثبوت پیش ہو سکا ہے ؟
    ٭اگر خدا کے ہونے نہ ہونے کے چانسز ففٹی ففٹی ہیں تو بتائیے اس کا ماننا زیادہ سود مند ٹھہرے گا کہ نہ ماننا؟یعنی وہ نہ ہوا تو قصہ ہی ختم لیکن اگر ہوا تو ہٹ دھرمی کیوں کر نفع دے سکے گی؟
    ٭کائنات کے بے مثال اور عظیم الشان نظم و ربط کو بنانے والا زیادہ سوٹ کرتا ہے یا خود بخود جاری و ساری رہنے کا نظریہ؟
    ٭ جدید ترین تحقیقات الوہیت کی قبولیت کی طرف جھکائو رکھتی ہیں یا رَد کی طرف؟
    ٭سب سہاروں کے گِر جانے کے باوجود’ ایک سہارا‘ قائم رہنے کا تصور ’پلٹ کر جھپٹنے ‘ کے لیے معاون ہے یا بے سہارا رہ جانے کا تصور؟
    ٭دنیا کے عظیم ترین دماغوں کی غالب ترین اکثریت خدا کے حق میں اکٹھی ہے یا مخالفت میں؟
    ٭کیا خدا کے انکار میں 342ق م کی طرح خدا کے اقرار کی تاریخ پیش کی جاسکتی ہے؟ تو کون سی بات زیادہ مصنوعی معلوم ہوتی ہے؟
    ٭سوسائٹی کی ترقی کے لیے متشککین زیادہ کارآمد ہیں یا یقین والے ؟
    ٭انسانی دماغ یقین کو پانا چاہتا ہے یا مستقل شکّی پن کے نفسیاتی مرض کو؟
    ٭ لب پہ آتی ہے بات دل سے ندیم
    بات دل میں کہاںسے آتی ہے؟
    ٭انسانی تجسس جواب چاہتا ہے یا سوال در سوال در سوال؟ اور اس با شعور مخلوق کے مشکل ترین سوالات کو حتمی جوابات’لا ریب فیہ‘ کے انمٹ دعوے کے ساتھ الحاد پیش کرتا آیا ہے یا خدا؟

    تو ہے کوئی بندہ خدا جو انکارِ خدا کی راہ ہموار کرے ۔ اگر کوئی ذہن کی آوارہ گردی کو لگا م ڈال سکے تو مجھ جیسوں کو خدا بیزاری میں آگے آگے پائے گا۔ او ر اگر ایسا نہ کرسکے تو کم از کم دوسرے رخ پہ سوچنا ہی شروع کردے شاید یہی اس کی بھٹکتی آتما کو پر سکون آغوش فراہم کرنے کا باعث بن جائے.

  • الحادی فتنوں سے بچاؤ کیسے؟ محمد سعد

    الحادی فتنوں سے بچاؤ کیسے؟ محمد سعد

    تمام مذاہب کو اس وقت فکری محاذ پر سب سے بڑا چیلنج لامذہبیت کا درپیش ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک منظم انداز میں آسمانی مذاہب کے خلاف شکوک و شبہات کی یلغار کی گئی ہے۔ ملحدین وجود باری تعالیٰ، تصوررسالت، عقیدۂ آخرت، کتاب اللہ اور انبیائے کرام علیہم السلام کی تاریخی حیثیت کو جھٹلاتے اور طرح طرح کے سوالات کے ذریعہ ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ جو مذاہب ان عقائد و مسائل میں پہلے ہی تضاد کا شکار اور کمزور بنیادوں پر کھڑے تھے، وہ ان کے فلسفیانہ وساوس کی یلغار کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے اور الحاد ان کے معاشروں میں بہت آسانی سے جڑ پکڑتا چلا گیا۔ یہودیت، عیسائیت، ہندومت کا دہریت کے سامنے اتنی آسانی سے سجدہ ریز ہوجانا دہریوں کو اعتماد بھی دلا گیا، وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید تمام مذاہب ہی ایسے خودساختہ اور متضاد نظریات کی بنیاد پر کھڑے اور مکر و فریب کے ذریعے پیروکار جمع کیے ہوئے ہیں، لیکن الحادی نظریات کو مسلم معاشروں میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پڑ رہا ہے۔ ملحدین کے لیے قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا علمی، عقلی اور تاریخی طور پر ممکن نہیں تھا ۔ باقی عقائد توحید، آخرت وغیرہ کا تعلق مابعد الطبیعات سے ہے جنہیں مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں مکمل طور پر ثابت یا رد نہیں کیا جاسکتا، اور اسلام ان مسائل میں دوسرے مذاہب کی نسبت بہت واضح اور محکم دلائل و براہین بھی رکھتا ہے، اس لیے انہوں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی مثلا کمزور اور من گھڑت روایات کا سہارا لے کر اکابرین اسلام کی کردار کشی، اسلام کا تمسخر، اسلامی سزاؤں کے خلاف پراپیگنڈہ، عقائد میں فلسفیانہ انداز میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، مسلمانوں کے اختلافات کو ہوا دینا، مسلمان علماء کی کردار کشی کرنا وغیرہ۔ یہ ہر ملحد کے خاص موضوعات ہیں۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ان کی دل آزاری کے لیے انتہائی گری ہوئی حرکات کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پرنٹ میڈیا میں یہ تجزیہ نگاروں، کالم نگاروں، صحافیوں اور شاعروں کی شکل میں موجود ہیں جو مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں ڈالتے، زہریلے مضامین، جھوٹی کہانیاں پیش کرتے اور معمولی قصے کو بڑھاچڑھا کر مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں، سوشل میڈیا دیکھیں تو اسلام کے خلاف ایک پورا محاذ نظر آتا ہے۔ مختلف پیجز اور عجیب و غریب ناموں کی فیک آئی ڈیز سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ، فریبی اور گمراہ کن تحاریر اور ان سے بھی بڑھ کر گستاخانہ جملے، تصاویر تقریبا روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔

    گزشتہ دو سال سے میری دلچسپی کا محور یہی لوگ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے پیجز لائک کیے، ان کے گروپس میں شمولیت اختیار کی، ان سے دوستیاں لگا کے ان کے رویوں، نفسیات کا مطالعہ کیا۔ الحاد کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں میں سیکولر، لبرل فاسشٹ، عیسائی، قادیانی لوگوں کے علاوہ کچھ ایسے مسلم جوان بھی نظر آئے جو اپنے دینی عقائد و نظریات کے علمی دلائل سے ناواقفیت اور ان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے دین سے بدظن اور بےزار ہوئے یا سہل پسندی اور عیاشی کے حصول میں دین سے دور نکلتے چلے گئے اور چند ایسے بھی دیکھے جو تعلیم یافتہ اور منصف مزاج ہیں اور جن شکوک و شبہات کا وہ شکار ہیں، ان موضوعات پر غیرجانبداری سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا انداز بھی باقیوں سے کافی بہتر اور علمی ہے۔ مجھے دینی راستے سے ان کے بھٹک جانے کی جو سب سے بڑی وجہ یا وہ کمی جس کی وجہ سے یہ مطالعہ اور تحقیق کے باوجود حق تک نہیں پہنچ سکے یا کنفیوژن کا شکار ہوئے، نظر آئی، وہ ایک صالح، علم و عمل والے شخص کی صحبت، ایک امین ناصح کے مشورے اور راہنمائی کا نہ ہونا تھی۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے سینکڑوں بڑی اچھی اور تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کیا، لیکن ہدایت نہیں پاسکے بلکہ الٹا مزید گمراہ ہوتے چلےگئے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ایک طرف الحاد کی محنتیں عروج پر ہوں اور جدید سیکولر تہذیب کی چمک دھمک آنکھیں خیرہ کر رہی ہو اور دوسری طرف خود مذہب کا یہ حال ہو کہ کئی قسم کے مسالک و مکاتب فکر پیدا ہوگئے ہوں، بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہوں اور کتابیں تصنیف کی جا رہی ہوں، اس افراتفری کے ماحول میں اپنی مرضی سے چند اچھے برے رائٹرز کی اہم دینی موضوعات پر کتابیں منتخب کر کے ان کا مطالعہ شروع کر دینا، ہرگری پڑی کتاب کو پڑھ لینا، کتاب کا محض ٹائٹل اور پرنٹنگ خوبصورت دیکھ کر اسے پڑھنے بیٹھ جانا، نہ کتاب کے انتخاب میں کسی مربی اصلاح، اچھے علم والے سے مشورہ کرنا اور نہ شکوک و شبہات پیدا ہونے کی صورت میں کسی مصلح کی رہنمائی کی سعی کرنا، ایسی خشکی اور بوریت ہی پیدا کرسکتا ہے جو مذہب سے ہی بد دل یا بےزار کردے۔

    یہ بےلگام مطالعہ کی عادت ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے حالانکہ غور کیا جائے تو یہی فتنوں کی اصل جڑ ہے۔ ایک بزرگ عالم لکھتے ہیں ”جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے، ان کے بانی سب اہل علم ہیں، لیکن سب کے سب بغیر استاد اور رہبر والے، پس شروع شروع میں تو ٹھیک چلتے ہیں، لیکن جب موڑ یا چوراہا آتا ہے، وہیں بھٹک جاتے ہیں اور عجب و کبر میں مبتلا ہو کر کسی کی سنتے بھی نہیں ہیں۔“ (مجالس ابرار ج:۱،ص:۴۷) ایک اور جگہ لکھتے ہیں” ہر فتنے کے بانی پر غور کیجیے تو یہی معلوم ہوگا کہ یہ کسی بڑے کے زیر تربیت نہیں رہا ہے۔ جب آدمی بے لگام ہوتا ہے اور کوئی اس کا مربی اور بڑا نہیں ہوتا تو بگاڑ شروع ہوجا تا ہے اور وہ جاہ اور مال کے فتنے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔“ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۲۵)

    مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مولانا ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے جس موضوع پر قلم اُٹھایا حق ادا کردیا۔ مولانا ایک جید عالم دین، بے مثل ادیب، مرثیہ نگار، آب بیتی نگار، عظیم کالم نویس، صحافی اور مفسر قرآن تھے۔ کالج کے زمانے میں اسی آزاد اور بےلگام مطالعہ کی عادت میں کسی لائبریری میں موجود مستشرقین کی چند مشہور کتابیں پڑھ بیٹھے، پھر ایسے ملحد بنے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخیاں کرتے رہے، قابل گردن زنی قرار پائے، سالوں مذہب کے خلاف لکھا اور کھل کر لکھا۔ پھر علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی جیسے علم و عمل والے دوستوں کی صحبت اور کتابوں سے روشنی ملنی شروع ہوئی۔ ایک دوست نے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے ”مواعظ“ پڑھنے کو دیے، ان کو پڑھ کر بہت متاثر ہوئے۔ تھانوی رحمہ اللہ سے مراسلات شروع ہوئے، ایک سال تک مراسلات پر رہنمائی لیتے رہے، پھر خود تھانہ بھون پہنچ گئے۔ طویل نشستیں رہیں، بیعت کے لیے درخواست کی لیکن حضرت تھانوی نے ان کا میلان دیکھتے ہوئے مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کو کہا کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں، آپ دیوبند گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ (مولانا کے دہریہ ہوجانے کی مکمل داستان اگلی تحریر میں پیش کی جائے گی۔ ان شاء اللہ)

    آپ نوٹ فرمائیں کہ ایک جید عالم کو اپنی اصلاح کے لیے مستقل بیعت ہونا پڑا، عوام کو اس کی کتنی ضرورت ہوگی، حالانکہ یہ تو آج سے ستر اسی سال پہلے کی مثال ہے۔ اب تو حالات مزید بدتر ہوچکے ہیں۔ اس دور میں اتنی آزاد خیالی اور فتنے نہیں تھے، مطالعہ اور دینی تعلیم و تربیت کا رواج تھا جبکہ آج کے دور میں نہ دینی تربیت کا کوئی نظام ہے اور نہ مطالعے کا کوئی رجحان، لوگ علمی لحاظ سے بالکل کورے اور کھوکھلے ہیں، دوسری طرف کتابوں اور میڈیا کے ذریعے ایسے فتنے سامنے آ رہے ہیں جو علماء کو بھی پریشان کر دیں، ایسے ماحول میں تو عوام کو خصوصی طور پر پڑھنے، سننے میں بہت احتیاط اور بڑوں سے مشورے کی ضرورت تھی، لیکن افسوس پہلے سے بھی زیادہ بےاحتیاطی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ایک عالم شیخ جمال زرابوزو لکھتے ہیں کہ
    ” آج کے دور میں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مغرب میں پرورش پائی یا پھر اپنی تعلیم مغرب سے حاصل کی۔ یہ لوگ جو لٹریچر پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مسلم مصنفین کا ہوتا ہے۔ اس لٹریچر میں بہت سے ایسے افکار بیان کیے جاتے ہیں جو بظاہر تو بہت مفید، بےضرر اور اسلامی تعلیمات کے عین مطابق نہ سہی تو اسلامی اصولوں سے زیادہ دور بھی نظر نہیں آتے۔ لیکن اگر ان افکار کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کے پسِ پشت فلسفہ کو سمجھا جائے تو کسی بھی سلیم فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ ان کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بسا اوقات یہ آپ کو گمراہی اور الحاد کی طرف لے جاتے ہیں۔“

    اس دور میں علم و عمل والوں کی صحبت کی اہمیت اور ضرورت پہلے سے زیادہ ہے لیکن بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں بیعت، اصلاح، تصوف کے الفاظ سے ہی سخت چڑ ہے، وہ صوفیاء کی کرامات، شطحیات، جعلی صوفیاء کے واقعات اور تصوف کی مخصوص اصطلاحات کو اپنی مرضی کے مطالب اور معانی کے ساتھ پیش کرکے تصوف کا رد کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ اسلامی تصوف میں غیر اسلامی عقائد و نظریات کی آمیزش ہوئی اور جعلی خانقاہوں اور پیروں کی آمد سے بہت نقصان ہوا، بہت سی خانقاہیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس دیا جاتا تھا، ان کی روحانی اصلاح ہوتی تھی، آج شخصیت پرستی بلکہ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے تھے، آج وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرکز بن گئی ہیں، شاید اقبال نے بھی اسی حالت کو دیکھ کر فرمایا تھا۔
    یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر
    کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی

    لیکن دوسری طرف ہمیں یہی اقبال مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا روم کے متعقد بھی نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری میں بھی تصوفانہ رنگ نظر آتا ہے۔ اصل میں ضرورت افراط و تفریط سے بچنے کی ہے۔ سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا جعلی ڈاکٹر وں کی وجہ سے کسی نے ڈاکٹروں کے پاس جانا اور علاج کروانا چھوڑا؟ جس طرح روحانی علاج کے شعبے میں ہزاروں جعلی ڈاکٹر موجود ہیں، اسی طرح جسمانی علاج کے شعبے میں بھی ہیں، جنہیں علاج یا اصلاح کی طلب ہوتی ہے، انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ اپنامعالج ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مزید جب دین کے کسی دوسرے شعبہ پر غلط لوگوں کے قبضےاور کمیوں کوتاہیوں کی وجہ سے اس شعبے کو نہیں چھوڑا جاسکتا، تزکیہ و احسان یا تصوف و سلوک تو دین اسلام کی روح اور جان ہے، اس کو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا رکن ہے جس کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں شامل تھی، اس کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس گئے گزرے دور میں بھی ایسی خانقاہیں اور مراکز موجود ہیں جہاں اہل علم وعمل بالکل اسلامی طریقہ پر لوگوں کی اصلاح فرما رہے ہیں۔

    یہ اللہ کی سنت بھی ہے کہ جب بھی کوئی کتاب بھیجی ساتھ ایک رسول لازمی بھیجا جو لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا اور ان کا تزکیہ کرتا۔ اسی طرح لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تو صحابہ بن گئے اور جو صحابہ کی صحبت میں رہے تابعین بن گئے، تابعین کی صحبت میں رہے توتبع تابعین بن گئے، یہ سلسلہ علم و دین ابھی تک چل رہا ہے۔ مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں۔ لکھتے ہیں:
    ”ہر شبہ کا جواب دینے سے شبہات رفع نہیں ہوسکتے، تم منشاء کا علاج کرو، جیسے ایک گھر کے اندر رات کو اندھیرے میں چوہے، چھچھوندر کودتے پھرتے تھے،گھر والا ایک ایک کو پکڑ کر نکالتا مگر پھر وہ سب کے سب دوبارہ اندر آجاتے۔ ایک عاقل نے کہا کہ میاں! یہ سب اندھیرے کی وجہ سے کودتے پھرتے ہیں، تم لیمپ روشن کر دو، یہ سب خود ہی بھاگ جائیں گے، چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات جو آپ کو پیش آتے ہیں، ان کا منشاء ظلمت قلب ہے، جس کا علاج یہ ہے کہ قلب میں نور پیدا کر لو۔ وہ نور نورمحبت ہے۔ یہ محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی حکم اور کسی قول و فعل میں کوئی شبہ وسوسہ نہیں پیدا ہوتا۔ اگر ایک فلسفی پروفیسر کسی عورت پر عاشق ہو جائے اور وہ عورت اس سے یوں کہے کہ سر بازار کپڑے اتار کر آئو تو میں تم سے بات کروں گی، ورنہ نہیں! تو فلسفی صاحب اس کے لیے بھی تیار ہوجائیں اور یہ بھی نہ پوچھیں گے کہ بی بی! اس میں تیری مصلحت کیا ہے؟ اب کوئی اس سے پوچھے کہ آپ کی وہ عقل اور فلسفیت اس عورت کے سامنے کہاں چلی گئی؟
    عشق مولی کے کم از لیلی بود
    گوئے گشتن بہر او اولی بود
    میں نہایت پختگی سے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیدا ہوتے ہیں، ان کے اس مرض کا منشاء قلت محبت مع اللہ ہے، ان کو اللہ و رسول کے ساتھ محبت نہیں اور محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے۔ تعلق مع اللہ کے حاصل ہونے کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے، اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ ا س سے بہت جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے، پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل ہوجائے گا، یہ لم و کیف باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے۔“ (اشرف الجواب از مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ 561، 562)

  • محبت کی ترتیب سمجھنے میں کوتاہی – اختر عباس

    محبت کی ترتیب سمجھنے میں کوتاہی – اختر عباس

    اختر عباس بات بظاہر کچھ بھی نہیں تھی مگر میں اندر تک لرز گیا تھا۔ میں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی طرف دیکھا وہ جوس اپنے اپنے بیگوں میں ٹھونس رہی تھیں۔ بسکٹ کے ڈبے وہ بیک پاکٹ میں رکھ چکی تھیں، مجھے گاڑی چلانا مشکل ہو رہا تھا۔ پائوں کلچ پر رکھتا تو بریک دب جاتی اور بریک دباتا تو ریس بڑھ جاتی۔ یہ بالکل اچانک ہوا تھا۔

    بہت برس ہوئے میں نے جانا کہ کسی کو اچانک خوشی عطا کرنے سے کائنات کا رب بہت خوش ہوتا ہے۔ کسی کی توقع سے زیادہ عطا، کسی کی آرزو اور تمنا سے ذرا زیادہ تحسین، بن مانگے مدد کے ساتھ احسان جتائے بغیر بہتر رویہ، مسکراتے ہوئے لفظ، اچھی مہمانداری، بروقت عیادت، غرض اپنے تئیں خوشی کے کئی راستے سوچ لیے تھے اور برسوں سے جب جب موقع ملتا، چاہے وہ لمبے وقفے بعد میسر آتا، اللہ اور اس کے رسول ؐکے لفظوں کو محبوب جان کر محبوب رکھا۔ انسانی زندگی کی تعمیر کو اپنا مقصد زندگی جانا تاکہ میرے اللہ جی مجھ سے راضی رہیں، گھر میں کسی صبح جب سکول وین والا نہ آئے تو بیٹیوں کو اسکول چھوڑنے کی ذمہ داری میری ہوتی ہے، ایسے میں سکول جاتے ہوئے میں سبزہ زار کے جی بلاک کی مارکیٹ ضرور رُکتا ہوں۔ انشراح کو روپے دے کر کہتا ہوں آج کیا چاہیے؟ حالانکہ جانتا ہوں کہ دونوں کو جوس چاہیے ہوتا ہے۔ پھر وہ انتظار کرتی ہے کہ بابا کہیں گے جو جو دل چاہے لے آئیں۔ 8سالہ انورے تزمین زیادہ ایکسپریسو ہے۔ اپنی توقع سے زیادہ چیزیں پا کر پچھلی سیٹ سے اُٹھ کر میرے ماتھے یا گالوں پر پیار کرنے آئے گی اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے اظہارِ تشکر یا اظہارِ محبت کے ساتھ ہی ایک روز میں نے بڑے مان سے پوچھا
    ’’بیٹا دنیا میں سب سے زیادہ کس سے پیار کرتی ہو؟‘‘
    اس نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر کہنا شروع کیا
    سب سے زیادہ ماما۔ پھر مم (نانو)، پھر ابو (نانا) پھر بابا۔‘‘
    اپنی بیٹی کے پیاروں کی لسٹ میں چوتھے نمبر پر آنا یقینا خوشگوار احساس نہیں تھا۔ مجھے اس لمحے تن بدن میں آگ لگنے والی کیفیت ہی کا سامنا تھا۔ میں ان سے اتنی محبت کروں اور نمبر ملے آخری۔

    دس سالوں میں، میں شعوری طور پر تین باتیں ضرور سکھاتا رہا ہوں:
    پاکستان کی کم سے کم پانچ بڑی یونیورسٹیوں میں گزرے دس بارہ سالوں میں، میں شعوری طور پر اپنے طلبہ کو تین باتیں بڑی محبت سے سمجھاتا رہا ہوں۔
    اول۔ اپنی زندگی کا مقصد اور ہدف (Goal Setting) ابھی سے طے کرو ورنہ خالی ہاتھ رہ جائو گے۔ زندگی گزر جائے گی اور کسی مقصد کے پانے کی خوشی چھو کر بھی نہیں جائے گی۔
    دوم۔ محبت ضرور کرو مگر اس کی ترتیب ٹھیک رکھو ورنہ یہ بےترتیبی تمھیں کبھی ٹھیک نہ رہنے دے گی۔ جب جب کسی نئی کلاس کا ٹیسٹ لینا ہوتا تو ضرور پوچھتا، دنیا میں سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہو؟ کس کے بنا جی نہیں سکتے؟ کس کے بنا ادھورے اور نامکمل رہ گئے؟ پچانوے فیصد جواب ماں باپ آتا، کہیں کہیں بہن بھائی۔ کسی دوست یا کبھی کبھار کسی اُستاد کا نام آجاتا تو ضرور پوچھتا کہ جب وہ زندہ نہیں رہیں گے تو پھر خوشی کہاں سے ڈھونڈو گے، محبت کس سے کرو گے؟
    سوم ۔کتابیں پڑھو، انگریزی، اُردو، فارسی، عربی، ترجمہ شدہ جس زبان کی بھی ملے۔ علم و دانش سے بھری۔ کہانیوں اور افسانوں سے سجی یا افکار کے پھول پتے لیے۔ بس اتنا یاد رکھو کہ قرآن کے علاوہ کوئی کتاب حرفِ آخر نہیں۔ پڑھو اور ذہن میں اسے چیلنج کرو۔ آنکھیں بند کرکے کبھی کسی کی مت مانو، چاہے مقامی ہو یا عالمی طور پر مشہور و معروف۔اس کو حق ہے سوچنے، رائے دینے اور کوئی نتیجہ نکالنے کا، تو آپ کو بھی اتنا ہی حق ہے، اس کو رد کرنے، اس سے مختلف سوچنے، اس کے نتائج کا انکار کرنے کا۔ یہ کسی کی حق تلفی نہیں، بطور قاری آپ کا حق ہے، استحقاق ہے، اسے مت چھوڑو۔ یہ نہیں کرو گے تو’’ دولے شاہ کے چوہے‘‘ بن کر زندگی گزارو گے اور ہر لکھنے والا قلم کار، کالم نگار تمھیں تختہ مشق سمجھ کر استعمال کرے گا۔ کچھ عرصے بعد اس کی رائے اور محبوب بدلیں گے تو ساتھ ساتھ آپ بھی کسی ہپنا ٹائزکیے جانے والے معمول کی طرح بن سوچے، بن غور کیے بدلتے جائو گے۔ بےاثر اور بےوقعت ہوتے جائو گے۔ روبوٹ بھلا کسی کی کیا راہنمائی کرسکتے ہیں۔ اس ذہنی کیفیت میں کیا کسی کے دل میں جگہ پائو گے۔ اس لیے یاد رکھو کہ ہیں تو یہ صرف تین کام مگر محبت کی ترتیب سے کرنے والے ہیں۔

    کیا انسانی ذہن کی بُنَّت اور مزاج تھانیدار جیسا ہوتا ہے:
    بیٹی کی بات سن کر لمحہ بھر کو میں دہل گیا کہ ملک بھر کے نوجوانوں اور اداروں کے مینیجرز کو گیان دیتے، علم و دانش کی باتیں سکھاتے سکھاتے اپنی ہی نورِ نظر، نورِ چشم کو بھول گیا، اس وقت بتانا اور سمجھانا مشکل تھا۔ اب میں موقع کی تلاش میں رہنے لگا، یہ موقع ایک روز ہاتھ آگیا جب مجھے بھی ہفتہ وار چھٹی تھی۔ اس سے پہلے وہ اپنی ماما سے پڑھتی رہیں یا اپنی ٹیوٹر سے میں نے کبھی اپنے پاس پڑھنے کے لیے نہیں بلایا یا بٹھایا، اپنے بچوں کو پڑھانا مشکل ہی نہیں بہت مشکل ہے، اسی لیے میں نے اسے بھاری پتھر سمجھ کر کبھی چھیڑنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

    ناشتے سے ذرا پہلے ان کو ساتھ لے کر گورمے بیکرزگیا۔ ان کی مرضی کی آئس کریم کے بعد اضافی خوشی کے طور پر چاکلیٹ اور زنگر برگر دلایا۔ واپسی پہ وہی سوال پھر ان کا منتظر تھا۔ ان کے جواب میں بھی رَتی برابر فرق نہیں تھا۔ تب ان کو بتانا شروع کیا کہ ماں باپ اس لیے اچھے ہوتے ہیں کہ انھیں دنیا کے سب سے اچھے انسان ﷺ نے اپنے بچوں کو محبت کرنے کا کہا اور انہیں یہ خیال خود سے نہیں آیا۔ ساری دنیا کے انسانوں کے مہربان رب نے سکھایا۔ سو محبت کرنے کی ترتیب یہ ہوگی کہ سب سے زیادہ محبت اس رب سے ہوگی جس نے اس جہان کے علاوہ ہمیں بھی بنایا، ہمارے پیارے بنائے اور ہمیں ان سے رشتوں میں جوڑا، پھر ہمیں اچھا بنانے کے لیے سب سے اچھے انسان ﷺ کو اپنا نمائندہ اور پیغمبر بنایا، رسول ٹھہرایا اور اس کے ذریعے زندگی کو خوب صورت اور اچھا بنانے والی اچھی اچھی باتیں سکھائیں، اس کے بعد ماں باپ کی باری آئے گی، بہن بھائی اور باقی رشتے دار اور عزیز و اقارب جو جتنا عزیز اور دل کے قریب ہو پھر ان کا نمبر ہوگا ‘‘۔

    ایک دو باتیں بتا کر مجھے لگا میرے سمجھانے پڑھانے کا کوٹہ ختم ہوگیا۔ میں آرام سے اخبار لے کر بیٹھ گیا اور وہ اپنا چھٹیوں کا کام کرنے لگیں۔ انسانی ذہن کی بُنَّت اور مزاج تھانیدار جیسا ہوتا ہے جو پہلے بات کرلے، وہی ذہن میں اٹکی رہتی ہے، اسی پر رائے بنتی ہے اور اسی کے حق میں منہ سے بات اور آواز نکلتی ہے۔

    چھٹیاں ختم ہونے میں چند روز باقی تھے جب رائے ونڈ روڈ پر یونیورسٹی آف لاہور کے بالکل ساتھ واقع پرائیڈ پبلک اسکول اینڈ کالج کے سربراہ جناب ظفر اقبال نے یاد کیا۔ مجھے وہ اس لیے بھی بہت عزیز ہیں کہ اپنے اسکول کے بچوں کے علاوہ اس کی اساتذات کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ 100 سے زائد اساتذات دن بھر کی ٹریننگ کے لیے سامنے تھیں اور موضوع تھا ’’بچوں کی کونسلنگ کیوں کی جائے؟ کیا کتابیں پڑھانا کافی نہیں‘‘؟

    وقت وقت کی بات ہے. چند سال قبل لاہور کے پانچ ستارہ ہوٹل میں ایچ آر کے مشہور کنسلٹنٹ جناب عامر صدیق نے کونسلنگ اینڈ منٹارنگ (Mentoring) پر ایک روز کی ورکشاپ کرائی تو اس کی رجسٹریشن فیس 30 ہزار روپے تھی۔ ان کی محبت بھری دعوت پر میں دن بھر وہاں شریک رہا، جہاں ملک کی ہر اہم کمپنی سے ایک ایک دو دو لوگ یہ خطیر رقم خرچ کرکے آئے ہوئے تھے۔ آپ نے کبھی کچھ اچھا پڑھا ہو۔ سیکھا ہو توبنک اکائونٹ میں پڑی رقم جیسا ہوتا ہے۔ چیک کاٹتے ہوئے آپ کو علم ہوتا ہے کہ اصل رقم ہے کتنی اور کس قدر خرچ کی جاسکتی ہے۔ اس صبح وہ ساری باتیں میرے اکاؤنٹ میں موجود تھیں۔ پرائیڈ اسکول کی اساتذات کی اکثریت بہت نوجوان لڑکیوں کی تھی۔ ان میں کچھ سیانی اور سمجھدار سپروائزر اور رابطہ کار بھی اپنی پرنسپل مس افشاں کے ساتھ موجود تھیں۔ اپنی بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی زندگی کی محبتوں کا پوچھا تو جواب دینے والوں کی اکثریت نے اپنے والدین کو ہی مرکز زندگی بتایا۔ ایسے لوگوں کے لیے میں نے بارہا دیکھا کہ جب یہ مرکز محبت زندہ نہیں رہتا تو زندگی نیو کلیس اور گرِڈ اسٹیشن کے بنا رہنے جیسی اور بےوقعت ہوجاتی ہے۔ اللہ معاف کرے لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو حنوط کر کے رہنے لگتے ہیں کہ ان کے بنا ان کی زندگی کا کوئی مطلب ہی نہ رہا تھا۔

    انسانی رشتوں سے محبت مستقل ہو نہیں پاتی :
    محبت کی ترجیحات کی عدم درستی کے معاملات سے مجھے بارہا واسطہ پڑا، کہیں سمجھانے سے بات بنی تو کہیں ڈرانے سے۔ انسانی رشتوں سے محبت مستقل ہو نہیں پاتی۔ والدین سے محبت چند ہی سالوں بعد کسی لڑکے اور لڑکی کی محبت تلے دب کر کچلی جاتی ہے۔ اس سال گھروں سے بھاگنے والی 8 ہزار لڑکیوں نے بھی تو کبھی اپنے والدین سے محبت کا دم بھرا ہوگا۔ بھاگ کر شادی کرنے والوں کی محبت کی سوئی کب کہیں اور جا کر اٹک گئی۔ وہ خود بھی نہیں بتا سکتے۔ نوکری، عمدہ تنخواہ، اعلیٰ منصب، بااختیار پوزیشن، امیر رشتہ دار، خوبصورت دوست، اپنی اولاد، اپنا گھر، اپنی جائیداد، اپنی دنیا اور اپنی آخرت۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ محبت کے مراکز اس تیزی سے بدلتے ہیں کہ خود حیرت ہونے لگتی ہے کیونکہ بظاہر ہر محبت اس وقت سچی، بے لوث، غیر مشروط اور پائیدار لگتی ہے، مگر اپنی اصل سے ہٹ کر کوئی تعلق اور محبت کیسے مستقل اور پائیدار ہوسکتی ہے۔

    زیادہ تو نہیں جانتی آپ نے خودہی بتایا تھا:
    ایک اَن جانے نمبر سے فون آیا تو میں خوشی اور حیرت سے اسے سننے لگا، یہ میری چھوٹی بیٹی کی ٹیچر کا فون تھا، اس نے بتایا کہ میں نے مائی سیلف پر بھری کلاس میں بولنے کو کہا توآپ کی بیٹی نے پورے اعتماد سے آنکھیں ٹپٹپاتے ہوئے کہا:
    ’’دنیا میں سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ سے، پھر محمدﷺ سے، پھر آدم سے، پھر نوح سے، پھر اپنی ماما سے، پھر مم سے، پھر ابو سے، پھر بابا سے۔‘‘
    ٹیچر نے پوچھا’’ یہ آدم اور نوح کون ہیں؟‘‘
    بولی’’زیادہ تو نہیں جانتی آپ نے خودہی بتایا تھا اللہ کے پیغمبر تھے‘‘۔
    اب ٹیچر نے اُٹھ کر اسے پیار کیا، سینے سے لگایا اور پوچھا:’’یہ محبت کی ترتیب کہاں سے سیکھی؟ ‘‘ اس نے جواب دیا۔
    ’’میرے بابا کہتے ہیں، اچھی بیٹیوں کو یہ ترتیب خود سے آتی ہے‘‘۔
    پرائیڈ اسکول کی ٹیچرز نے اس روز پورے دل سے محبت کی یہ ترتیب اس لیے سیکھی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو کتاب سے ہٹ کر بھی پڑھا اور بتا سکیں۔ دوسروں کے بچوں کو ان کی ذاتی، سماجی اور تعلیمی مسائل میں وقتاً فوقتاً راہنمائی کرسکیں جنھوں نے بچوں کی زندگی کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔

    کبھی کوئی خود سے سوچنا، پڑھنا، غور کرنا اور نتائج نکالنا نہیں سکھاتا:
    ایسی ہی مشکل میں، میں نے یونیورسٹیوں میں آکر فلسفے یا نفسیات کی کتابیں اور مضامین پڑھنے والوں کو پایا۔ انھیں کبھی کوئی خود سے سوچنا، پڑھنا، غور کرنا اور نتائج نکالنا نہیں سکھاتا۔ یہ مضامین لکھنے والے مغربی دانشوروں کے ان خیالات پر مشتمل ہیں جنھیں اکثر انھی کے شاگردوں نے غلط ٹھہرایا۔ مگر چونکہ ہمارے ہاں نصاب سے ہٹ کر کچھ پڑھنے کی عادت ہے نہ حاجت کہ کوئی بتائے تو ہی ذہن اس طرف چلے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دو دو چار چار نامکمل اسباق پڑھنے والے بھی یوں رب کے ہونے اور ان کے خالق ہونے سے انکار کردیتے ہیں جیسے اللہ نے خود انھیں اس امر کی اطلاع دی ہو کہ میں اب نہیں رہا اور دنیا میرے بنا ہی بنی اور چل رہی ہے۔ یہ ’’انکار‘‘ شروع میں ایک محدود پیمانے پر’’فیشن‘‘ میں چل رہا تھا، پھر انٹرنیٹ نے اس کو پر لگا دیے، بنگلہ دیش کے کچھ لوگوں نے اس مہم کو مہمیز دی ہے جن میں سے اب تک آٹھ مارے جا چکے ہیں اور اس کی فہرست کا ذکر آ رہا ہے۔ ایسی بدقسمت روحیں ہمارے ہاں اس لیے فوراََپیدا ہو جاتی ہیں کہ انہوں نے کسی کو کسی نئی بات پر بات کرتے سنا ہوتا ہے۔

    منکر سے ہاں کرانی بہت مشکل ہو جاتی ہے:
    جب جب کوئی ایسی دُکھی روح میرے پاس آئی، اسے سمجھانے اور راہ راست پر لانے میں بڑی تگ و دو کرنی پڑی۔ منکر سے ہاں کرانی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ اثبات سے نفی میں جانا تو اونچائی سے گہرائی میں اُترنا ہے۔ اکثر انسان یہ سفر دوڑ کر طے کر لیتے ہیں اور محبت کے رشتے کے علاوہ کوئی اسے نہیں روک سکتا۔ ایف سی کالج سے تعلق رکھنے والے صابر چودھری جو اب دبئی میں ماہر نفسیات ہیں، بارہا اس تکلیف دہ صورتِ حال سے گزرے جب ان کے استاد بھری کلاس میں اللہ سے انکار کر دیتے اور اس کے لیے مغربی مصنفین کے حوالوں سے اپنا دل شاد اور صابر کا ناشاد کرتے۔ صابر کی پوری بات سُن کر بھی کبھی کبھی دل کہتا مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہونے والا کوئی کتنا بھی ناخلف ہو جائے یوں منہ کھول کر کیسے کہہ سکتا ہے۔ وہ پروفیسر صاحب گزشتہ دنوں فوت ہوئے تو جنازے میں 13 لوگ شریک تھے اور ان میں سوائے ایک کے کسی نے زندگی میں کبھی کسی کی نماز جنازہ پڑھنا تو دور کی بات کسی جنازے میں گئے بھی نہیں تھے۔ وہ پریشان تھے کہ جس خدا کا برسوں انکار کیا، اب دفن کرتے ہوئے اس سے کیا اور کیسے مانگیں۔ نتیجتاً بغیر کسی جنازے کے دو اصحاب نے مردے کو اٹھایا اور قبر میں یوں گرا دیا جیسے کھاد کی بوری پھینکتے ہیں۔ ان گرانے والوں میں ایک ان کا اپناصاحبزادہ بھی شامل تھا، جو مٹی ڈال کر یہاں دوبارہ کبھی واپس نہ جانے کے لیے گھر واپس آ گیا۔

    اس کتاب نے خدا پر یقین اور ایمان ختم کرنے میں بہت آسانی پیدا کی:
    چند روز ہوئے اسکیم موڑ کے قریب واقع ’ایک فلیکس شاپ‘ جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں مجھے دو فلیکس بورڈز بنوانے تھے۔ کمپوزر کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور بےنیازی کے اس کے چہرے پر ڈھیر لگے تھے۔ کام کے دوران اچانک اس نے نیٹ سے ایک کتاب کھولی اور بتانا شروع کر دیا کہ میں فارغ وقت میں ایسی نایاب کتابیں پڑھتا ہوں۔ اس کتاب پر پابندی ہے، یہ بہت پرانی ہے مگر بہت اچھی ہے۔ کتاب کی خوبی یہ بتائی کہ اس نے خدا کی ذات سے یقین اور ایمان ختم کرنے میں بہت آسانی پیدا کی۔ پھر اس نے کہا یہاں میں اکیلا نہیں ہوں۔ ایتھیٔسٹ (Athiest) دہریہ خیالات کے حامل لڑکوں کا ایک بہت بڑا گروپ ہے نیٹ پر بھی اور لاہور میں بھی۔ ہم کتابیں آپس میں شیئر کرتے ہیں، ملتے ہیں، دلائل کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ہماری کمیونٹی ابھی ’گے‘ (ہم جنس پرست مردوں) کمیونٹی کی طرح چھوٹی ہے مگر تیزی سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر اس نے فخر سے بتایا کہ پچھلے سال میری شادی ہوئی تھی۔ چھ ماہ میری بیوی بہت تنگ رہی، اب وہ بھی ہماری کمیونٹی کا حصہ ہے اور سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔

    کوئی اور ہوتا تو منکر اور مرتد کہہ کر فارغ ہو جاتا:
    ہم عام طور پر مسائل کو اسی طرح نمٹنے کے نام پر پھیلاتے آئے ہیں، کوئی اور ہوتا تو منکر اور مرتد کہہ کر فارغ ہو جاتا۔ ان بےچاروں کو تو استاد بھی ایسے ملتے رہے ہیں کہ خدا کے حوالے سے کوئی بات پوچھ لیں تو وہ چڑ کر کہتے ہیں:
    ’’پڑھائی پر دھیان دو، اِدھر اُدھر کی باتیں چھوڑو!‘‘
    جبکہ خود خدا یہ کہتا اور یاد دلاتا ہے کہ جیسے تم اپنے آبائو اجداد کا ذکر کرتے ہو، مجھے پسند ہے کہ میرا بھی ویسے ہی ذکر کرو بلکہ اس سے بھی زیادہ مگر ہماری زندگی میں سب کچھ زیر بحث آتا ہے سوائے اپنے رب کی عظمت اور اس سے بے لوث محبت کے، وہ محبت جو کبھی کم نہیں ہوتی، جس کا مرکزِ نگاہ موجود رہتا ہے اور محبت سے دیکھتا اور خیال سے تھام کر رکھتا ہے۔ ایک منکر اپنی بیوی بیچاری کو اس عذاب میں گھسیٹ لے گیا، ہم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے کم ہی اس طرح کا تکلف کرتے ہیں۔
    جب جب گھر اور اسکول میں اپنے بچوں سے رابطے کی کمی ہوتی ہے، انھیں زندگی کے مقصد سے آگاہی نہیں دی جاتی۔ آخرت میں کامیابی کا ہدف ہی واضح نہیں ہوتا، اس کا ذکر ہی نہیں ہوتا نہ ویلیوز کا تعین ہو پاتا ہے نہ گول سیٹنگ ہو پاتی ہے۔ محبت کی ترتیب بتانے، سمجھانے میں کوتاہی بہت بھاری پڑتی ہے۔ کٹی پتنگ جیسے ذہن کسی بھی بےبرگ و بار سوکھی شاخ سے اٹک اور لٹک سکتے ہیں۔ فیشن کے طور پر غیر ملکی کتابوں کے ترجمے پڑھنے سے شروع ہونے والی کہانی اب کم پڑھے لکھے نوجوانوں تک آن پہنچی ہے اور یہاں پہنچتے پہنچتے دامنِ دل خالی کر جاتی ہے۔ دوسروں کی لکھی اور کہی باتیں جو پڑھنے والوں کے ایمان، اعتقاد، اخلاق پر کبھی چھُپ کر دھیرے سے اور کبھی اعلانیہ اور سامنے سے حملہ کرتی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو ان کے مقابلے کا نہ گُر بتا پاتے ہیں نہ انھیں رد کرنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں، چونکہ خود ہم نے ان پر کبھی سوچا نہیں ہوتا۔ ہم سڑک پار کرنا سکھا دیتے ہیں، موٹر سائیکل چلانا، اپنی عزت بچانا، اعلیٰ درجے کی کامیابی کو پانا، امیر اور خوب صورت لوگوں کو شادی کے لیے قابو کرنا، کون سا گُر ہے جو ہم سے چھُوٹا ہوا اور بھولا ہوا ہے۔ مگر لمحہ بھر کو سوچیے تو سہی دل کو دُکھی کرنے والی یہ بڑھتی کمیونیٹیز آخر کسی والد، کسی اُستاد کی کوتاہی کا ہی تو ثمر ہیں جو نہ انھیں زندگی کا مقصد بتا پائے، نہ محبت کی صحیح ترتیب سکھا پائے۔ کسی روز آپ بھی تو اپنے بچوں، دوستوں اور شاگردوں سے پوچھ لیں کہ’’بیٹا دنیا میں سب سے زیادہ کس سے پیار کرتے ہو؟‘‘
    اور وہ لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر کہنا شروع کرے کہ
    سب سے زیادہ ماما۔ پھر مم (نانو)، پھر ابو (نانا) پھر بابا۔‘‘

    اپنی بیٹی کے پیاروں کی لسٹ میں چوتھے نمبر پر آنا کسی طور خوشگوار احساس نہیں تو میرے رب کو ہمارے پیاروں کی زندگیوں میں اپنے نام سے محبت کی بے ترتیبی کیونکر اچھی لگے گی۔ اپنے آس پاس دیکھیے، ممکن ہے کوئی خالی دل، کچھ خالی آنکھیں آپ سے راہنمائی کی طالب ہوں، اپنے رب کی محبت اور اس سے جوڑنے کی صورت میں ان کی روح میں ڈالنی ہوگی، ان کے دامنِ دل میں اس سوغات کو ڈالنا ہو گا۔ اللہ کی محبت سے دور یا محروم ہوجانے والوں کو بُرا بھلا کہنے اور کاٹ کر پھینکنے سے تو بات نہیں بنے گی، ہاں بدلتے دنوں میں اب ہمیں نئے بیان کی بھی ضرورت ہوگی اور بیانیہ کی بھی، نئے دلائل درکار ہوں گے اور نئی ڈکشن اور نئے انداز بھی، تبھی ان دلوں میں اس کی جگہ بنے گی جس نے یہ دل دیے تھے اور جس کے بنا یہ دلدل بنتے جا رہے ہیں۔ زندگی میں اللہ جی کی محبت اور محبتوں میں اس محبت کی صحیح ترتیب کو سکھائے بنا ہر کہانی نامکمل اور ہر رشتہ ادھورا ہے۔

    دلیل ڈاٹ پی کے پر اتنی شاندار تحریریں اور دلائل پڑھ کر جہاں یک گونہ خوشی کا احساس ہوتا ہے وہیں میں کبھی کبھی کانپ بھی جاتا ہوں کہ کسی روز رب نے ان سارے دانشوروں کو سامنے کھڑا کرکے پوچھ لیا کہ تمہارے ہوتے ہوئے میرے نام اور اختیار سے انکار کرنے والوں کی کمیونٹیز بنتی رہیں اور تم ساری دنیا کے کاموں پر دلیلیں لاتے رہے، ایک تم سے دلیل اور محبت کی یہ ترجیح نہ ٹھیک ہو سکی، ان کی خالی روح کی آبادی کا سامان نہ ہو سکا، تو جواب دینا کس قدر مشکل ہوجائے گا۔ ہم اللہ کے بارے میں کسی کا ایک جملہ پڑھ کر سر دھننے کے خواہش مند تو ہیں مگر اس کے بارے میں خود پیار سے سوچنے، پڑھنے، اور بات کرنے تک سے ڈرتے ہیں. ہمیں تو خدا کی تاریخ تک ایک غیرملکی اور غیرمسلم مصنفہ آرم سٹرانگ کی لکھی ملتی ہے، خود ہمیں بےروح سیاسی موضوعات اور شخصیات پر تبصروں اور دلیلوں سے ہی فرصت نہیں ملتی!
    ٭٭۔۔۔۔٭٭

  • تم کونسی دہریت چاہتے ہو؟ – رضوان اسد خان

    تم کونسی دہریت چاہتے ہو؟ – رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان قربان جاؤں میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے جنھوں نے ریت پر ایک تنکے کی مدد سے فلسفے کی بڑی بڑی گتھیاں سلجھا دیں :
    ایک سیدھی لکیر بنائی اور فرمایا یہ اللہ کا راستہ، صراط مستقیم ہے اور سیدھا جنت کو جاتا ہے. پھر اس لکیر کے ادھر ادھر سے کئی لکیریں نکالیں اور فرمایا یہ سب شیطان کے راستے ہیں جو اللہ کے راستے سے ہٹاتے اور گمراہ کرتے ہیں اور سیدھا جہنم کو جاتے ہیں. (مفہوم حدیث)

    آج دہریت کے بارے میں ایک حوالہ دیکھا تو مجھ کم علم پر انکشاف ہوا کہ یہ بھی کوئی سیدھا سادہ انکار خدا نہیں بلکہ اس میں بھی کئی فلسفیانہ موشگافیاں ہیں. دو چار دن قبل لبرل ازم، جمہوریت اور سیکولرازم کی فلسفیانہ تقسیم اور اقسام کا اجمالی ذکر کیا تھا، آج پتہ چلا کہ دہریت کی بھی قسمیں ہیں اور ہر ”فرقے“ والے دوسرے پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں. ظاہر ہے جب ایک خدا کو چھوڑیں گے تو ہر فلسفی خدا بن جائے گا. یعنی دہریت میں بھی کھوٹ ہے، جس فلسفی کی مانیں گے وہ آپ کا خدا نہیں تو اور کیا ہے؟

    تو جناب ذرا ا نکے ”فرقوں“ پر ایک نظر ڈالیں:

    Practical Atheism
    Theoretical Atheism
    Positive Atheism
    Negative Atheism
    Explicit Atheism
    Implicit Atheism

    پھر انکے ”مسالک“
    Agnosticism
    Ignosticism
    Theologic Incognitivism
    Atheistic Existentialism

    وغیرہ وغیرہ.

    اب مثال کے طور پر
    Explicit Positive Atheist
    خدا پہ یقین نہیں رکھتا اور اس کے دلائل دیتا ہے.
    خدا پہ یقین رکھنے والوں کا انکار کرتا ہے اور ان کے خلاف دلائل دیتا ہے.

    Explicit Negative Atheist
    خدا پہ یقین نہیں رکھتا اور اس کے دلائل دیتا ہے.
    خدا پہ یقین رکھنے والوں کے خلاف دلائل نہیں دیتا.

    Implicit Negative Atheist
    خدا پر یقین نہیں رکھتا مگر اس کے دلائل بھی نہیں دیتا اور نہ ہی خدا پر یقین رکھنے والوں کے خلاف دلائل دیتا ہے.

    ”کھچڑی“ ملاحظہ فرمائی؟ اگر آپ ان کے ”مسالک“ کو پڑھیں تو دماغ مزید گھومنے کا غالب گمان ہے.
    پھر یہ ہمیں طعنے دیتے ہیں ”فرقہ اور مسلک پرستی“ کے..!!!
    اور دین دیکھیں کتنا سیدھا سادہ ہے جس کی نظر میں یہ سارے کافر اور (اسی عقیدے پر مرے تو) جہنمی… بات ختم…. ?

  • ملحد کے دس اعتراض اور ان کے جوابات – خزیمہ رشید

    ملحد کے دس اعتراض اور ان کے جوابات – خزیمہ رشید

    پاکستانی فری تھنکرز کے پاپائے ملحدین میں سے ایک پاپی امجد حسین نے امام الانبیاء کو سید المرسلین محبوب رب ماننے سے انکار کی طرف ایک قدم بڑھایا۔اور تمام انبیاء کی حالات زندگی میں سے ایک ایک پہلو لے کر یہ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی کہ محمد رسول اللہ نہ امام الانبیاء ہیں اور نہ ہی محبوب خدا۔

    سب سے پہلے تو امجد کی توجہ اس بات کی کی طرف مبذول کروانے کی جسارت کروں گا کہ جب تم لوگ کتب سماوی کو مانتے نہیں، رب تعالی کے تم منکر ہو، مذہب سے تم باغی ہو، مذاہب خصوصا اسلام کا احترام تمہاری بری تربیت میں شامل ہی نہیں، کتب تواریخ تمہاری ثقاہت پر اترتی نہیں، علم حدیث و رجال تمہارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مذہب کے تم باغی ہو تو توریت، زبور و انجیل اور قرآن مجید، گرنتھ، ویداس و اپنشد تمہارے لیے کسی کھاتے کی کتابیں نہیں، اور نہ تمہارے معیار پر اترتی ہیں۔ تم انھیں تو شاید مان لیتے، مگر اصل نفرت کا منبع تمہارے لیے دین اسلام ہے اور اسی کی نفی کے لیے تمہیں مجبورا دین اسلام کے ساتھ باقی مذاہب کی جزوی نفی کرنا پڑتی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ جن چیزوں کا تم جیسے ملحد انکار کرتے ہیں، انھی چیزوں میں سے عبارتیں منتخب کرکے سادہ لوح عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ دہرا معیار! مگر کیوں؟

    1، 2۔ پہلا اور دوسرا اعتراض تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 63 سال تھی جبکہ نوح علیہ السلام کی 950 سال، آدم علیہ السلام کا قد 30 میٹر لمبا تھا جبکہ نبی کریم ﷺ کا قد 6 فٹ، اور جبکہ باسکٹ بال کے اکثر کھلاڑیوں کا قد 7 فٹ ہوتا ہے؟ (العیاذ باللہ)

    ارے امجد! اپنی فطرت سے مجبور اعتراض کرنے کے لیے سہارا تو تمہیں انھی مذہبی کتب کا لینا پڑتا ہے۔ اور یہ تو ایک انتہائی جاہل، عامیانہ سوچ رکھنے والا شخص اور علم سے کورا انسان بھی جانتا ہے کہ انسان کے مقام و مرتبہ کا معیار عمر ہے نہ قد۔ یہ معیار کسی مذہب کی کتابوں میں ہے نہ دنیا کے کسی اور قانون میں۔ ہوسکتا ہے الحادی نظریہ میں یہ ہوتا ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انسانوں کی عمریں اور قد ابتدائے آدم علیہ السلام تا ہنوز مسلسل گھٹتے گئے ہیں۔ اور چونکہ تم نے مذہبی کتب کا سہارا لیا اس لیے میں بھی مذہبی کتاب کا سہارا لیتا ہوں. نبی محترم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی عمر کی حد 60 سے 70 سال ہے اور بہت کم لوگ اس سے زیادہ عمر پائیں گے. (ابن ماجہ:4236)۔ تم چونکہ خدا کے بھی منکر ہو تو پھر یہ بات تو پکی ہے کہ جب اس نے خود کسی کو پیدا نہیں کیا تو وہ خدا کسی کو مارتا بھی نہیں ہوگا۔ ہر چیز اپنی مرضی سے بنی ہے اور ظاہر ہے ختم بھی اپنی مرضی سے ہی ہوگی۔ لہذا ہر انسان کی بھی اپنی مرضی ہے وہ جب مرضی مولود ہو، جب مرضی مرے اس سے تمہیں کیا لگے۔ یہ ان کی زندگی کا معاملہ تھا۔ تم ہی وہ تھے جس نے کہا کہ انسان کوئی بھی کام کرے تمہیں اعتراض نہیں، اور اگر تھوپا جائے تو اعتراض۔ اسی طرح تم چاہے 500 سال جیو تو تمہیں اپنے پر اعتراض نہیں مگر کوئی ’’اپنی مرضی‘‘ سے 63 سال جیا تو تمہیں تکلیف ہونے لگی۔ رہا ان کے قد کا معاملہ تو قد بھی کسی کی فضیلت اور مقام و مرتبہ کا معیار نہیں۔ چونکہ تم بھی اسی زمانے کی پیداوار ہو لہذا تمہیں جواب بھی اسی زمانے کی پیداوار سے دیا جائے گا۔ اور سونے پہ سہاگہ مثال بھی ان لوگوں کی جو تمہاری طرح منکر خدا ہیں۔ چین کی لڑکی ’’زنگ جن لیان‘‘ عالمی سطح پر لڑکیوں میں سب سے زیادہ لمبی تھی، اورعمرصرف سترہ سال۔ مگر کون اسے جانتا تھا بقول تمہارے کہ اگر مقام و مرتبہ کی معراج یہی ہے تو اسے چین کی صدر، وزیراعظم یا کسی شعبے کا وزیر ہونا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ پوری دنیا سینکڑوں قدآور لوگوں سے بھری پڑی ہے، کچھ اپنی ’’مرضی‘‘ سے مرگئے اور کچھ اپنی ’’مرضی‘‘ سے مرضی سے جب جی چاہا مرجائیں گے۔ لہذا تمہارے پہلے دونوں اعتراض باطل ہیں۔ تم نے کہا کہ ابن افک 120 سال کا تھا، وہ آپ سے بڑا تھا لہذا اسےمروادیا۔ ارے کیا حجاز میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ عمر کا اور کوئی نہیں تھا۔ وہاں کتنے لوگ تھے فتح مکہ کے موقع پر جنہیں رسول اللہ ﷺ نے معاف فرما دیا کہ جو ابوسفیان (حالت کفر میں تھے) کے گھر پناہ لے گا، اس کےلیے امان ہے۔ اور تمہارے علم میں تو ہو گا ہی کہ رسول کریمﷺ کے چچا عباس اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اور ایک کافر کے کہنے پر ایک کافر کے گھر کو دارالامان بنا دیا۔ اور ابوسفیان تو حالت کفر میں رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کاحق ادا کرتے رہے۔ لہذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کےلیے بھی شفیق تھے کجا کہ کسی بزرگ کو قتل کرواتے.

    ۳۔ تیسرا اعتراض کیا کہ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کی خوبصرتی کے پیچھے بھاگی جبکہ رسول اللہ عورتوں کے پیچھے بھاگتے (العیاذ باللہ)۔ اور ایک معزز گھرانے کی عورت نے رسول اللہ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا، کتنی بے عزتی کی بات ہے؟ (نعوذباللہ، نقل کفر کفر نباشد)
    تمہیں یہ اعتراض عزیز مصر کے واقعے کی پڑتال کر کے اس وقت کرنا چاہیےتھا جب تم اس کو سمجھ لیتے کہ جس طرح زوجہ عزیز مصر یوسف علیہ السلام کے پیچھے برے ارادے سے بھاگی اورگناہ کی دعوت دی۔ کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کے پیچھے (نعوذباللہ ثم نعوذ باللہ) اس طرح برے ارادے سے بھاگتے تھے۔ چونکہ اس اعتراض کا پہلا حصہ شاید قرآن سے نہیں تو کسی الہامی کتاب سے ہی لیا ہوگا۔ اور دوسرا حدیث سے لیا ہوگا گرنتھ اور اپنشد میں تو انکار والا واقعہ ملنےسے رہا۔ لہذا اگر تمہاری عقل وخرد کچھ تمہارا ساتھ دے تو تمہیں یاد ہوگا کہ رسول کریم ﷺ ایک مرتبہ اپنی زوجہ کے ساتھ راستے میں تھے تو سامنے سے کوئی آدمی آیا تو فرمانے لگے یہ میری بیوی ہے۔ اور پھر فرمانے لگے کہ انسان میں شیطان اس طرح دوڑتا ہے جس طرح خون، لہذا تم جیسوں کا اعتراض ختم کرنے اور منہ بند کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے پہلے ہی انتظام فرما لیا۔ رہا اس اعتراض کا دوسرا حصہ کہ اس نے انکار کیا تو کیا یہ بے عزتی نہیں۔ یہ تو یاد رہ گیا کہ رسول عورتوں کے پیچھے بھاگتے تھے (نعوذباللہ)، بخاری کی وہ روایت یاد نہیں جس میں ایک عورت آئی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکاح کی خواہش ظاہر کی مگر رسول اللہﷺ نے انکار کر دیا، اور پھر کسی اور مرد سےنکاح کردیا (۵۰۸۷)۔ رہی بے عزتی والی بات تو جب نبی ﷺ نے ہر لڑکی کو حق دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرے یا نہ کرے تو جب اس نے انکار کیا تو نبیﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ اور اس سے تو تمہاری خود اپنی باتوں کی نفی ہوتی ہے جو تم کہتے ہو کہ ان کا نبی شہوت پرست تھا۔ اگر نبی شہوت پرست ہوتا تو زبردستی نکاح کرکے لڑکی لے آتا۔ نبی ﷺ کے لیے یہ چنداں مشکل نہ تھا۔ ہاں مگر نبی کریم ﷺ نے ہر لڑکی کو اپنے وعدے، زبان اور شرع کے مطابق حق دے کر ایسے لوگوں کی زبان بندی کردی جو انہیں شہوت پرستی کا الزام دیتے نہیں تھکتے۔

    ۴۔ اگلا اعتراض یہ تھا کہ اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا کہ ان کے حکم پر جن سمندر کی تہوں سے خزانہ لے آئے اور نبی کریم ﷺ کی قسمت میں اللہ نے چوروں ڈاکوؤں کی طرح مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا۔

    تمہارا یہ اعتراض ہی غلط ہے کیونکہ اللہ نے جو سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا، وہ نبوت ملتے ہی نہیں عطا کیا بلکہ سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالی سے ایسی شاہانہ زندگی طلب کی تھی کہ مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی بادشاہی نہ ملے۔ اور رسول اکرم ﷺ چاہتے تو اللہ انہیں بھی ایسی بادشاہی دے دیتے مگر نبی کریم ﷺ کو مال و دولت اور بادشاہت سے بالکل سروکار نہیں تھا۔ تمہیں وہ حدیث تو یاد ہوگی کیونکہ تم حدیث کا حوالہ دے رہے ہو، اس لیے مجھے مجبورا احادیث کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے کہ جس میں رسول اکرمﷺ کے ہاتھ ایک جن آیا مگر آپﷺ نے چھوڑ دیا کہ مجھے میرے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی، اگر میں اسے پکڑ لیتا تو صبح مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ یہ معاملہ تھا بادشاہت کا لہذا رسول اکرم اگر چاہتے تو بادشاہت مانگ لیتے مگر اپنے بھائی کے الفاظ کی لاج رکھ لی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے لیے غربت کو ہی پسند فرمایا، چاہتے تو احد کے پہاڑ کو سونے سے بدل دیاجاتا. رہا پیسے کا معاملہ کہ اللہ نے لوٹ مار کرکے مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا تو جناب لفظ اللہ تمہارے لیے اجنبی ہونا چاہیے کہ تم تو اسے مانتے ہی نہیں، چونکہ اب تم نے نام لیا ہے تو جس اللہ کی تم بات کر رہے ہو اسی مال غنیمت میں جو رسول کا حصہ تھا وہ دراصل جس اللہ نے نبی کی قسمت میں لکھا تھا یہ دراصل اسی کا حصہ ہوتا تھا۔ جس میں اللہ کے نبی کو حصہ ملتا، غریبوں مسکینوں کو حصہ ملتا اور بیت المال کی ضروریات پوری کی جاتیں۔ اور پہلی جنگوں میں تو کیا، آج بھی جنگوں میں یہی رواج ہے کہ دشمن فوج جب شکست کھائے یا فوجی مرجائیں تو مقابل فوج ان کا اسلحہ سامان، پیسہ، کام کی چیزیں اٹھا لے جاتی ہے۔ وہ انھی کا تصور ہوتا ہے۔ اسلام نے اسے مال غنیمت کا نام دیا ہے، اور باقی اقوام جو مرضی نام دیں وہ ان کی مرضی۔ اور اگر تم غزوہ بدر سے پہلے ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی بات کرتے ہو تو اللہ نے تم سے پہلے ہی اس کی مذمت فرما دی تھی۔ لہذا اسے چوری ڈاکے کا مال کہنا ہی مذہبی اور حربی اصولوں کےاعتبار سے بالکل غلط ہے۔

    ۵۔ آگے کہتے ہو کہ اسماعیل کو اللہ نے خنجر کے نیچے سے بچا لیا اور محمد کے نوزائیدہ بچے کو چھین کر باپ کو بلکتا ہوا چھوڑ دیا۔
    حضرت اسماعیل کا واقعہ اگر تم نے پورا پڑھا ہو تو تمہیں معلوم ہو کہ حضرت ابراہیم کو متواتر خواب آتا رہا کہ میں بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ سو بیٹے سے رائے پوچھی تو بیٹا سمجھ گیا کہ باپ چونکہ نبی ہے لہذا وحی سمجھ کر سرتسلیم خم کردیا۔ اللہ نے دنیا کو یہی دکھانا تھا کہ اسماعیل کو آگے نبوت سے سرفراز کرنا ہے تو اس کا اپنے رب پر کتنا یقین تھا۔ تمہاری طرح ننھا اسماعیل ملحد تھوڑی تھا، اور ابراہیم علیہ السلام کو ایک مثال کے طور پر پیش کرنا بھی مقصود تھا کہ ایک باپ اپنے مالک کے کہنے پر کس طرح اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ اوراسماعیل و ابراہیم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی یہ سنت ابراہیمی آج تک جاری ہے جو تم لوگوں کو کسی صورت ہضم نہیں ہوتی۔سارا سارا سال غریبوں کا احساس نہیں ہوتا، اپنے پاس سے دھکے دے دے کر نکلواتے ہو، ہوٹلوں میں مہنگے کھانے کھاتے ہو، مہنگی گاڑیاں، موبائل خریدتے ہو مگر قربانی کے موسم میں غریبوں کا احساس تمہیں دن رات چین کی نیند نہیں سونے دیتا۔ رہا نوزائیدہ بچے کی وفات کا معاملہ تو جواب حاضر ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ کے آخری نبی تھے۔ اور نبوت کو یہیں ختم کرنا مقصود تھا، چونکہ عورتوں میں نبوت منتقل نہیں ہوتی لہذا لڑکیاں زندہ رکھیں۔ اور نبی کی ساری نرینہ اولاد اٹھا لی گئی کیونکہ آگے نبوت کا سلسلہ ختم کرنا مقصود تھا۔ جس طرح دائود کے بعد سلیمان۔ ابراہیم کے ساتھ اسماعیل، لوط، یحی، زکریا اور عیسی، اور اسحاق، یعقوب، یوسف علیہم السلام کو نبوت ملی۔ اگر نرینہ اولاد زندہ ہو تو عموما نبوت منتقل ہوتی ہے لہذا محمدﷺ پر نبوت کوختم کرنے کے لیے ساری نرینہ اولاد اللہ نے اپنے پاس بلا لی۔ اس لیے تمہیں محمد ﷺ کے لیے اتنا دکھ اور درد محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔

    ۶۔ آگے معترض ہو کہ یونس کو مچھلی کے پیٹ سے تو بچا لیا مگر عائشہ کی گود میں سر رکھے محمد ﷺ کی دعا نہ سنی اور وہ فوت ہوگئے۔
    قارئین کو کس غلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہتے ہو کہ کیا محمد ﷺ اپنی طویل عمری کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ نہیں بالکل نہیں، سیرت کی کتابیں لو، مطالعہ کرو، پھر بتاؤ کہ رسول پاک ﷺ نے کس دن اپنے رب سے گڑگڑا کر دعا کی کہ میری موت مؤخر کردے۔ اور جب موت قریب آئی تو لبوں پر دعا تھی اللھم بالرفیق الأعلی اللھم بالرفیق الأعل ی۔ترجمہ تو تم مجھ سے بہتر جانتے ہو گے کیونکہ قرآن پر بھی اعتراض تمھی نے کیا تھا کہ قرآن میں گرائمر کی غلطیاں ہیں، لہذا اس کا ترجمہ تم بھی کرلو گے۔ اور رہی دوسری بات کہ محمد ﷺ کی دعاؤں میں اکثر یہ دعا شامل رہتی تھی کہ اے اللہ میں تجھ سے بڑھاپے اور لمبی عمر سے پناہ مانگتا ہوں، لہذا تمہارے اعتراضات صرف عامی لوگوں کو دین اسلام سے بدظن کرنے کے لیے ہیں۔ اکثریت اپنی نبی ﷺ کی زندگی اور دعائوں سے واقف ہے.

    ۷۔ پھر اعتراض کیا کہ دائود و یعقوب کی اولاد کی عمریں اتنی زیادہ تھیں اور محمد ﷺ کی اولاد کی عمریں تھوڑی سی تھیں۔ اور فاطمہ بھی بیس سال سے کم عمر میں وفات پاگئیں۔
    میرے خیال میں اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے۔ پہلے خدا کے وجود کو مانو اور پھر بات کرو وگرنہ چونکہ تمہارے نزدیک خدا کا وجود نہیں ہے، لہذا چونکہ دنیا خود بنی ہے، انسان خود بنا ہے تو منطقی طور پر انسان کو مرنا بھی خود ہی چاہیے اور اپنی مرضی کرنی چاہیے اور تمہیں معترض بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اور جو خدا کے منکر نہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اس اللہ کے ہی فیصلے ہیں جسے چاہے ہزار سال یا 950 سال سے نوازے اور چاہے تو 63 سال سے نوازے یا جتنی مرضی عمر دے. اس نے پیدا کیا ہے تو مارے گا بھی وہی اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔ تم کون ہوتے ہو اس ذات پر معترض جس کے وجود کے تم ویسے ہی انکاری ہو۔ رہا سیدہ فاطمہ کی عمر کا مسئلہ تو جب تمہیں اسلام سے کوئی انسیت نہیں تو تم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درد میں اتنا ہلکان کیوں ہوئے جا رہے ہو۔ تم صرف اپنی فکر کرو۔

    ۸۔ آگے اعتراض ابھرتا ہے کہ موسی سے ملاقات کے لیے اللہ بنفس نفیس زمین پر چلے آئے اور رسول اللہ کی کے لیےاتنے لمبے سفر کے لیے خچر بھیج دیا۔ توبتاؤ رسول اللہ کی کیا حالت ہوگی اللہ کو ترس نہیں آیا اتنا تھکا کر؟
    امجد! اگر تم نے تاریخ پڑھی ہو، یقینا پڑھی ہوگی مگر نہیں نہیں، تاریخ کو چھوڑو، حدیث کی طرف آؤ تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ تم بھلے حدیث کا انکار کرو، تاریخ کا انکار کرو مگر دال تھوڑی سی کالی نہیں بلکہ پوری ہی کالی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب نبی کریمﷺ پر تم جیسے لوگ ایمان نہیں لائے تھے۔ انھین سرداریاں چاہیے تھیں، ایمان لانے پر پیسہ ڈوبتا نظر آتا تھا، سو ایسے لوگوں کی چھان پھٹک کرنے کے لیے ہی اللہ نے اہل ایمان اور غیر مسلموں کا امتحان لینا چاہا کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جو نبی کو نبوت سے پہلے صادق و امین کہا کرتے تھے مگر نبوت کے بعد دشمن ہوگئے۔ اب ان کا مزید ایمان ٹٹولنے کے لیے اور دنیا کو دکھانے کے لیےاللہ نے اس سفر کا انتظام فرمایا۔ اس میں دو چیزیں پوشیدہ تھیں۔ایک تو نبی کو مقام اعلی عطا کرنا، نبی کو جنت، جہنم، سدرۃ المنتھی، اور انبیاء سے ملاقات کروانا مقصود تھا۔ اور دوسرا باقی تمام انبیاء کو محمدﷺکے پیچھے بطور مقتدی کھڑا کرکے محمدﷺکی شان میں اضافہ کرنا بھی مقصود تھا۔ حضرت موسی کو یہ نصیب نہیں ہوا. اور اللہ کبھی زمین پر نہیں آئے، طور پر بس تجلی ہی کی جس کی وہ تاب لایا نہ حضرت موسی، اور رب جب چاہے نبی سے ہم کلام ہو سکتا تھا، کہ وہ تو ہماری شہ رگ سے زیادہ ہم سے قریب ہے. لہذا امجد حسین تم خود ہی بتاؤ ایک شخص کے ساتھ صرف اس کا مالک ہم کلام ہو بس۔ اور دوسرے شخص کو اپنے خاص بندوں کا امام بنادے، پھر اسے وہ سواری دے جس کا اگلا قدم اس کی نظروں تک جائے، اسے سدرۃ المنتھی کی طرف لے جایا جائے، جنت جہنم دکھائی جائے اور پھر آگے اس مقام پر بھی لے جایا جائے جہاں نوری مخلوق کے پر جلتے ہوں اور فرشتے مرحبا کہہ کر استقبال کریں۔ انبیاء سے ملاقات ہو، اللہ سے ہمکلام ہو، پھر راتوں رات واپس آجائے۔ اگرچہ محمدﷺ نے اپنے آپ کو دوسرے انبیاء پر فوقیت دینے سے منع فرمایا ہے مگر تمہارے اعترض کا جواب ایسے ہی بنتا ہے۔ تو تم خود ہی بتاؤ امام الانبیاء اور محبوب خدا کون ہوا؟

    ۹۔ نواں اعتراض یہ کہ اللہ نے اپنے تمام انبیا کو ایک سے بڑھ کر ایک معجزے دیے۔ مثلاًحضرت ابراہیم کو آگ کو گلزار بنانے کا معجزہ دیا، حضرت موسیٰ کے عصا کو سانپ میں تبدیل ہونے اور سمندر میں راستہ نکالنے کا معجزہ عنایت کیا، حضرت عیسیٰ کو لوگوں کو مسیحا بنایا جو بیماروں کو شفا، مردوں کو زندہ، اندھوں کو آنکھیں عطا کرتے تھے، حضرت نوح کو ایک ایسی کشتی بنانے کا معجزہ دیا جس میں تمام جن و انس اور جانور و پرندے اور حشرات الارض وغیرہ سما سکیں، حضرت سلیمان کو جنوں اور جانوروں سے رابطہ پیدا کرنے کا معجزہ بخشا۔ لیکن جب امام الانبیا نے معجزہ طلب کیا تو اللہ نے جواب دیا کہ ’’قرآن آپ کا معجزہ ہے‘‘۔ ایک ایسی کتاب جس کے تضادات اور بچگانہ سائنسی توجیہات پر اب تو لونڈے لپاڑے بھی ہنستے ہیں۔
    ارے امجد! علمی بددیانتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے مگر تم لوگوں کو بددیانتی کی ایسی لت پڑی ہے کہ چھوڑے چھوٹتی نہیں۔ ویسے ان تمام معجزات کا ذکر انھی مذہبی کتابوں میں ہے نا جنھیں تم مانتے ہی نہیں. تم نے سارے انبیاء کے معجزات تو ایک ایک کرکے گنوادیے مگر محمدﷺ کی باری آئی تو صرف ایک قرآن مجید کا ذکر کرکے اپنا منہ بند کرلیا اور قلم کو جنبش دیتے ہوئے شاید کچھ شرم سی آنے لگی۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ رسول اللہ کو چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ بھی عطا ہوا۔ چند بندوں کا کھانا سینکڑوں لوگوں کو کفایت کرتا، پانی میں برکت پڑ جاتی، ہاتھوں سے چشمے پھوٹ پڑتے۔ اور سلیمان کی جانوروں کی بولی کا ذکر کیا تو اس اونٹ کا واقعہ بھی بتلاؤ کہ جس نے آ کر رسول اکرمﷺ کو مالک کی شکایت کی، اور آپ نے مالک کو بلایا اور بتایا کہ تمہارا اونٹ تمہاری شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے تھکاتے زیادہ ہو، خوراک کم دیتے ہو. (ابو دائود:2549)۔ وہ معجزہ بھی بتاؤ جب رسول اللہ قضائے حاجت کے لیے علیحدہ جگہ گئے تو دو درخت آپس میں مل گئے اور اوٹ بنادی، آپ کی فراغت پر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے۔ باقی رہا قرآن کے تضادات کا مسئلہ اور سائنسی توجیہات کا تو شنید نہیں کہ وہ لونڈا لپڑا تم خود ہو یا تمہارے مکتبۂ فکر کے لوگ ہی ہوں۔ جا کر پوچھو ان سائنسدانوں سے جو تمہاری طرح قرآن کی توجیہات کو غلط کہنے تو نکلے مگر بعض میں سچائی کی جستجو ہوتی ہے تو وہ خود مسلمان ہوجاتے ہیں یا حیران رہ جاتے ہیں اور سچائی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ مگر تمہارے جیسے لونڈے لپڑے کسی کھاتے کے نہیں رہتے۔ بلکہ ’’کالانعام بل ھم اضل‘‘ تم تو جانوروں سے بھی گئے گزرے ہو۔ تمہاری وہی حالت ہے’’نہ کھیڈنا اے نا کھیڈن دینااے‘‘یعنی اپنے لیےتو ہدایت مقصود نہیں تو دوسروں کے لیے بھی نہیں.

    ۱۰۔ آخری اعتراض ہے کہ سلیمان کو جانوروں کی بولی سکھا دی مگر رسول اللہﷺ کو مادری زبان میں بھی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نہیں دی، تو کیا اب بھی رسول اللہ ﷺ امام الانبیاء اور خدا کے محبوب ہیں؟

    بجا کہا کہ محمدﷺ کو مادری زبان لکھنی آتی تھی نہ پڑھنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نبی کو اس کے زمانے اور لوگوں کے ذہن، ان کے رجحانات کے مطابق بھیجا جاتا ہے، انہیں ایسی صفات سے متصف کیا جاتا ہے جو دوسروں سے ممتاز ہوں۔ جیسے حضرت عیسی، موسی علیہما السلام وغیرہ کا معاملہ ہے۔ قرآن کو معجزہ اسی لیے ہی نہیں کہا گیا۔ اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما تھا کہ اس وقت کے لوگ ادب ونثر، شاعری اور پڑھنے لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اگر محمدﷺ کو پڑھنا لکھنا سیکھنا ہوتا تو چنداں مشکل نہ تھا۔مگر نہ خود رسول اکرمﷺ نے سیکھا نہ اللہ نے حکم دیا کیونکہ اگر پڑھنا سیکھ لیتے تو تمہاری جنس کے لوگوں کا پہلا الزام ہی یہ ہوتا کہ چونکہ پڑھا لکھا ہے لہذا یہ کلام الہی نہیں بلکہ یہ اسی کا گھڑا ہوا کلام ہے۔ لہذا آپ کے پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود بھی لوگوں نے نہ بخشا اور الزام لگایا کہ یہ ایک لوہار کے پاس آتا جاتا ہے، لہذا اس سے سیکھا ہے اور آگے ہمیں بتاتا ہے۔ مگر وہ بھی ایسے عقل کے اندھے رہے کہ جس کے پاس سے رسول اکرم ﷺ کو آتے جاتے دیکھا، جھٹ یہ تو کہہ دیا کہ اس سے سیکھا ہے مگر یہ نہ سوچا کہ وہ لوہار خود علم و ادب و نثر اور شاعری میں مہارت رکھتا ہے بھی یا نہیں؟ اس لیے تم جیسوں کا یہ اعتراض بھی بالکل باطل ہے۔ اور تم نے کوئی حوالہ بھی تو نہیں دیا کہ سلیمان علیہ السلام بھی اپنی مادری زبان میں لکھت پڑھت کر سکتے تھے۔ جس طرح سلیمان جانوروں کی بولی سمجھتے تھے تو کیا نبیﷺنے اونٹ کی بولی نہیں سمجھی تھی۔منطقی طور پر بھی ایک مالک کے تحت کئی لوگ کام کرتے ہوں۔ ان میں تمام لوگ اپنی اپنی صفات کی وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتے ہوں، اور ان ہی میں سے ایک ایسا شخص بھی ہو، جو ہو تو ان پڑھ مگر مالک اسے اس کی ممتاز حیثیت کی بنا پر ایک اعلی مقام دے دے تو تمھیں کیا اعتراض ہے۔ یہ اس کا اور اس کے مالک کا معاملہ ہے. مالک جسے چاہے اپنے پاس بلند مرتبہ سے نوازے اور جسے چاہے کم مرتبہ دے۔ یہ مالک پر منحصر ہے کہ وہ جسے چاہے اپنا پسندیدہ قرار دے۔

  • الحاد کے خلاف صف آرائی کا احوال – فوزیہ جوگن نواز

    الحاد کے خلاف صف آرائی کا احوال – فوزیہ جوگن نواز

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم نے پہلی بار سحر خان نامی آئی ڈی سے فیس بک کی دنیا میں انٹری ماری. تب فیس بک پر ہمارا کام شعر و شاعری یا عمیرہ احمد کے جنّت کے پتے سے اپنی پسند کا اقتباس شیئر کرنا تھا. ایسے ہی ایک دن میری لسٹ موجود ایک بندے نے مجھے ایک گروپ ”ارتقائے فہم و دانش“ میں ایڈ کیا. گروپ وزٹ کرنے کی نیت سے اوپن کیا تو ہوش اڑ گئے. کتنی ہی دیر غم و غصّے کی کیفیت میں رہی اور سوچنے لگی کہ دنیا میں ایسی مخلوق بھی پائی جاتی ہے، جو اپنے ہی وجود کی منکر ہے؟ اللہ کا منکر اصل میں اپنی ذات کا منکر ہونا ہے. ملحد احساس سے پرے وہ بھٹکا ہوا ذرہ ہے جو اپنی کائنات پانے سے اس لیے دور ہے کہ اسے احساس ہی نہیں کہ اس کا حقیقی مدار کیا ہے۔

    اس گروپ میں علم کے نام پر مقدس ہستیوں کی جو توہین ہو رہی تھی، وہ میں پہلی بار دیکھ رہی تھی اور سوچنے لگی کہ کیا ان لوگوں کو روکنے ٹوکنے والا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے؟ کتنے ہی دن اس اذیت میں گزرے اور خود کو انتہائی بے بس محسوس کر رہی تھی. کافی لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی لیکن سب نے رپورٹ اور ایسے گروپ میں نہ جانے کا مشورہ دے کر ٹال دیا کہ کہیں میں بھی اپنے ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں لیکن میرے اندر جو آگ بھڑک اٹھی تھی، وہ رپورٹ اور گروپ میں نہ جانے سے کب بجھنے والی تھی. دوسرے دن اللہ کا نام لے کر اک ملحد نعمان سید کی پوسٹ پر میدان میں اتری. تقریباً دو گھنٹے مسلسل بحث ہوتی رہی، اس دوران کئی ملحدین اس پوسٹ پر ٹپک پڑے اور بحث کو پھیلانے، موضوع کو بدلنے اور اپنے قوال کے پیچھے تالیاں بجانے والا کام کرنے لگے، کچھ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گستاخانہ جملے لکھ کر مجھے ہائپر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے لگے، لیکن میں بھی اس دن جم کر بیٹھی تھی، ہر قسم کی بدتمیزی و گستاخی برداشت کر رہی تھی کہ اس دوران اچانک لائٹ چلی گئی. لائٹ آنے پر جب کمپیوٹر آن کیا تو دیکھا کہ مذکورہ گروپ غائب ہے. میں سمجھی شاید رپورٹ کی وجہ سے گروپ ختم کر دیا گیا ہے لیکن میں ان ملحدوں کی عیاریوں اور چال بازیوں سے بلکل ناواقف تھی. اس دوران گروپ ایڈمن شاہد رائے کا میسج آیا کہ آپ کو گروپ سے بلاک کیا گیا ہے. میں نے پوچھا بھلا کیوں بلاک کیا؟ شاہد صاحب کہنے لگے کہ یہی بات تو میں وہاں اس پوسٹ پر پوچھ رہا ہوں لیکن جواب نہ ملنے پر میں نے بھی احتجاج گروپ چھوڑ دیا. میرے اللہ کا مجھ پر خصوصی کرم ہے کہ اسلام کا سطحی سا علم رکھنے کے باوجود الحمد اللہ نہ میں کبھی ان لوگوں کے اعترضات سے ڈگمگائی نہ وساوس کا شکار ہوئی.

    ہمارے وہ کم علم مسمان بھائی اور بہنیں جو لاعلمی میں ایسےگروپس میں ایڈ کیے جاتے ہیں، جب اک دم ایسے لوگوں کے بیچ چلے آئیں جو یہ کہیں کہ کون خدا ارے کیا خدا؟ کون رسول کیا رسول؟ اک دیوار تو اسی وقت گرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ کبھی قرآن کا ترجمہ نہ پڑھا، نماز مشکل سے ادا کرتے ہیں، پہلے سے ضعیف العقیدہ یا کہہ لیں کہ آزاد منش، اسلام کو زندگی کے optional context میں رکھ کر، قرآن کو دراز میں لپیٹ کر چومنے کے قائل تھے، شاید سمجھتے تھے کہ قرآن کا مصرف یہ ہے کہ صرف اس کا ادب کیا جائے، بس یہی اس کے اتر آنے کا مقصد اور مفہوم تھا. ان کے سامنے وہ چیزیں رکھی جائیں جو اصلا مغربی مشتشرقین کے ریسرچ پیپر تھے، اور جن میں فقط چرپ زبانی کی out of context جولانیاں تھیں، مثلا
    1۔ اونٹی کے پیشاب والی حدیث. یعنی اسلام کہتا ہے کہ اونٹ کا پیشاب پیو! اور تم ہندو کو گالی دیتے ہو. میاں جھوٹ بولا گیا، اسلام ہندو ازم کا چربہ ہے.
    تو سادہ لوح مسلمان گیا کام سے، مگر ان کو یہ نہیں بتایا جائے گا کہ وہ صرف بطور دوا علاج کے لیے جائز ہے. اور اضطراری حالت میں حرام کو بھی حلال کیا گیا ہے.
    2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر دیکھو، اک بوڑھے کی بچی سے شادی کر دی گئی، یہ تمہارے رسول عربی کے اطورا ہیں ( نعوذ باللہ)، کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری بیٹی جوگڑیوں سے کھیلتی ہو، بوڑھے سے بیاہ دی جائے؟ کہو؟
    مگر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ وہ بچی خود کیا کہتی ہے؟ صحیح بخاری کتاب النکاح میں حضرت عائشہ فرماتیں ہیں، (عرب آب و ہوا کی) لڑکی جب نو سال کی ہوجائے تو وہ عورت ہے.
    3۔ بنوقریظہ کا واقعہ! دیکھو کس بےدردی سے یہود کو تمہارے نبی نے قتل کروایا، بچے بھی نہ چھوّڑے !
    مگر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ یہود نے توارت کا ہی فیصلہ منوایا کہ غداری کا فیصلہ و نتیجہ کیا ہوتا ہے.
    4 ۔جمع تدوین قرآن! دیکھو تو آپ کا قرآن کیسے محفوظ ہے جسے تمہارے نبی نے کبھی لکھوایا ہی نہ تھا، ابن مسعود تو معوذتین کے قائل ہی نہیں، مصحف ابن مسعود پہ تو آتا نہیں، تم سمجھتے ہو قرآن کا ذمہ اللہ نے لیا مگر یہاں تو امت اختلاف پہ ہے.
    مگر یہ نہیں بتایا جائے گا، اول منسوب احادیث ضعیف ہیں، دوم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے قرآن کریم کی جو متواتر قراتیں منقول ہیں، ان میں معوذتیں شامل ہیں، جمہور ِ صحابہ کےمقابل خبر واحد کی حیثیت نہ تھی. یہ بھی نہیں بتایا جائے گا کہ قرآن رسول اللہﷺ کی رحلت تک ہزاروں صحابہ کے دل میں محفوظ تھا. آپ کے پاس آپ کا نسخہ لکھا ہوا موجود تھا. اس کے علاوہ پانچ اصحاب اور عشرہ مبشرہ کو حفظ و کتاب چمڑے کے Bundle کی صورت موجود تھے! .بعد کے ادوار میں صرف کاغذ پہ منتقل کیا گیا، کاپیاں اور ایک قرات پہ جمع کیا گیا، جب آپ نے رحلت کی تو قرآن پہ گواہ ایک لاکھ پچیس ہزار اصحاب موجود تھے. تیس پارے کیا چیز، اگلے امرالقیس کے دو دو لاکھ اشعار منہ زبانی یاد رکھتے تھے! ان سے چوک ہوسکتی ہے؟ یہ قرآن کا معاملہ تھا جیسے دل میں محفوظ ویسے ہی چمڑے پہ. صرف منتقلی کے دوران چوک میں کھڑے ہوکر سب کو گواہ بنا کر اس کو منتقل کرکے کاپیاں تیار کروائی گیئں کہ کوئی یہ نہ کہے کہ اسے کسی آیات پہ گواہ نہ چنا گیا! الحمدللہ۔
    5۔ رجم کی آیات بکری کھا گئی اماں عائشہ کی تو قرآن کیسے محفوظ ؟
    مگر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ جناب عائشہ رض کے پاس سے ضائع ہوئیں، وہ اپنی بات کر رہی ہیں جبکہ اس وقت ابن مسعود، عثمان، طلحہ، ابوبکر رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے پاس قرآن کی ہر چیز موجود تھی، کاتبین باہر بھی موجود ہوتے.
    6۔عورت کی آدھی گواہی ہے تمہارے مذہب میں، حصہ بھی آدھا! یہ مذہب ہے؟ یہ انصاف ہے؟
    مگر یہ نہیں بتایا جائے گا کہ 5+ 5 ہی دس نہیں ہوتے! 3+4+3 بھی دس ہوتے ہیں. وراثت میں تقسیم برابر ہے، صرف نوعیت کا فرق ہے. یہی حال آدھی گواہی کا بھی ہے!
    7. زینب رض کا نکاح ، تمہارے نبی نے اپنی بہو سے شادی کرلی. یہ مکارم ہیں؟
    مگر یہ نہیں بتایا جاٰئےگا کہ منہ بولے بیٹے کی روایت ہی جاہلیت کی رسم تھی! لوگ سگی اولاد کا درجہ دے کر اصل اولاد کا حق مارتے تھے، جس کا تدارک سب سے پہلے اسلام نے کیا! اسلام ہر اس اصول کے خلاف آیا جو اس جہل کی پراگندگی میں مقدس تھے. منہ بولا بیٹا ختم کردیا گیا، مطلقہ رسول کی کزن تھیں. سو وہ طلاق کے بعد کس حیثیت سے بہو تھی؟ جس کا رشتہ رسول ِاقدسﷺ نے خود پڑھوایا، زید غلام تھے جس کو بیٹا کہا تھا، پھر قریش کے سردار کی بیٹی سے اپنے ہاتھوں عقد کروایا، کیا تب نہ کرسکتے تھے، جب زید سے نکاح نہ تھا، احسان یاد نہ رہا. بات کو توڑ کر پیش کرنا اس طبقے کا وطیرہ رہا ہے.
    8۔ رسول نے تو ورقہ بن نوفل سے قرآن چرایا! چوری شدہ، امرا القیس کی شاعری ہے قرآن میں!
    یہ نہیں بتایا جائے گا کہ ورقہ بن نوفل توارت عبرانی کا عالم تھا! اس نے فقط تائید کی تھی رسول ﷺ کی! رسول اللہﷺ تو لکھنا پڑھنا تک نہ جانتے تھے. جو تجارت میں سوت کو ریشم کے ساتھ ضم کر کے بیچنے کے قائل نہ تھے، وہ اعبرانی آیات کا کتمان کرکے عربی میں کیسے ڈھال سکتا تھا؟ نہ وہ شاعر نہ وہ ادیب نہ مشتشرق ، نہ لکھا نہ پڑھا! جسے مادری زبان کے سوا کچھ نہیں آتا وہ Edit& Exit کرے گا؟ تورات کے عالم یہودی جب مسلمان ہوئے تو کیا وہ اندھے تھے کہ اس پر احتجاج نہ کیا کہ یہ مثل تورات ہے یا یہ تورات کی آیت کا چربہ ہے؟ جب قرآن ہی کہا، وہ اندھوں کی طرح نہیں ٹوٹ پڑتے ! امرا القیس کے کس مقطع کا مثل قرآن سے جا ملتا ہے؟ بنو قیس کے لوگ جب حلقہ اسلام میں آئے جنہوں نے قیس کے دو لاکھ اشعار یاد کر رکھے تھے، قرآن پڑھتے وقت اندھے ہو رہے تھے؟ انہیں چربہ نہ ملا، بس فیس بک پہ بیٹھے مشتشرق عجمی کو چربہ نظر آ گیا ! خدا کی شان!
    9۔ رسول تو لوٹ مار کرتے تھے! فدیہ کے نام پر، غنیمت کے نام پر!
    یہ نہیں بتایا جائے گا کہ میدان جنگ میں جو چیز آئے وہ حق ہے! گھوڑا، زیور، اسلحہ جو میدان میں ہو، کوئی اک روایت نہیں ملتی جس میں چنگیزوں کی طرح گھروں میں گھس کر عورتوں کے بالے نوچ لیے گئے ہوں،گھروں کو لوٹا گیا ہو، انہوں نے تو اپنے دشمن ابو سفیان کے گھر کو دارالامان کہہ دیا کہ جو وہاں آجائے اسے امان ہے، کھیتیاں، املاک، بچوں بوڑھوں اور گھروں میں ہاتھ نہ ڈالا جائے. مرد مومن کا حصہ، میدانِ جنگ میں گرا پڑا مال ہے، اس سے زیادہ رتی بھی حرام جو کسی کے ہاتھ میں ہے جو کسی کے گھر میں ہے.
    10۔ رجم سنگسار قطع ِید تو ظلم ہیں، زیادتی ہے، ارتداد پہ قتل کی تاویل؟ یہ دین ِامن ہے؟ یہ انسانیت ہے؟
    یہ نہیں بتایا جائے گا کہ رجم اور سنگسار ”مجرم“ کے لیے ہیں، نہ کہ ہر چلتے کے لیے. مجرم کے ساتھ رعایت جرم کے ساتھ رعایت ہے. قتل کی سزا قتل ہر جگہ ہے. دین نے قصاص اور خون بہا دینے کی شق سب سے پہلے رکھی جو کہ تاریخ ِ انسانیت میں سب سے پہلا عظیم قانون تصور کیا جاتا ہے. خون معاف کر دینے کو قانونی شکل رسول اللہ.نے دی. ارتداد پر قتل اسلام کے moral کو نقصان پہچانے کے عوض ہے. غدار ہے وہ جس نے ارتداد کیا، غدار کی سزا تاریخ انسانیت میں قتل ہی ہے. سیکولر اسٹیٹس جب wiki leaks کے غدار کو پکڑنے اور قتل کرنے کے درپے ہیں تو غداری کا جواز اپنے ہی گریبان میں ڈھونڈ لیجیے! ہم نے قتل کے بدلے مجرم کو معاف کردینے کی شق کو افضل رکھا! انسانیت کا دین یہی ہے.

    الغرض یہ فتنہ یوں اٹھا کہ وہ کہتے ہیں نا سچ جب تک جوتیاں پہنتا ہے تب تک جھوٹ آدھی دنیا کا چکر لگا چکا ہوتا ہے. مگر جہاں بت ہوتے ہیں وہیں بت شکن بھی ہوتے ہیں، جس جگہ خداوند سانپ پیدا کرتا ہے وہیں اس کے آس پاس اس زہر کے تریاق کی جڑی بوٹی بھی اگا ڈالتا ہے، کہ تیرے رب نے تجھے تنہا نہیں چھوڑا، ان دھندلکوں میں جہاں یوں حبس تھا، یاد نہیں کس اللہ کے بندے نے مجھے آپریشن ارتقائے فہم و دانش گروپ میں ایڈ کیا. یہاں آکر میں نے ایک چھبیس سالہ جوان جواد علی کو دیکھا جو ملحدوں کے گرو گھنٹال جو فخر سے خود کو علامہ ایاز نظامی کہتا ہے کو چیلنج کرتا ہے اور مباحثے کے پہلے ہی راؤنڈ میں اس علامہ کو چاروں شانے چت کرتا ہے. یہاں میں نے وسیم بیگ جیسے نفیس انسان کو دیکھا جب یہی علامہ صاحب قران میں تضاد دکھانے پر وسیم بیگ کو چیلنج کرتا ہے، اور پہلے ہی تضاد جو کہ اصل میں اس کی عقل کا تضاد تھا کو تضاد ثابت کرنے پر وسیم بیگ کے آگے علامہ کو دانتوں پسینہ آتا ہے اور یوں اپنی علمیت کا جنازہ دھوم دھام سے اٹھا کر پورے دو ہفتے فیس بک سے مفرور رہتا ہے. سنا ہے وسیم بھائی سے چھتر کھانے کے بعد اس نے اپنے نام کے ساتھ علامہ لکھنا چھوڑ دیا ہے. یہاں میں نے خواجہ عباس بٹ بھائی کو دیکھا جب ایک ملحد خبیث امجد نبی کریم ﷺ کی ولدیت پر اعتراض اٹھاتا ہے اور ہمارے خواجہ بھائی اسی ملحد کو اس کو اپنےگروپ فری تھنکر میں اسی پوسٹ پر دلائل سے خبیث ثابت کرکے جدید اور مشہور ضرب المثل اندر گھس کر مارنے کی عملی وضاحت پیش کرتا ہے. یہاں میں نے ذوہیب انکل جیسے انسان کو دیکھا جو ہر اعتراض، ہر قسم کی کنفیوژن کو انتہائی خوصورتی سے کلیئر کرکے بندے کو اش اش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہاں میں نے چھوٹے استاد محمد اسامہ جو 18 سالہ معصوم سا بچہ ہے، کو فلسفے اور سائنسی بحث کے پیج پر ملحدوں کو لوہے کے چنے چبواتے دیکھا. یہاں ذیشان وڑائچ بھائی جب کسی ملحد کی پوسٹ پر انٹری مارتا ہے تو ملحد کو ایسے ہولے ہولے سے تھپاتا ہے کہ بےچارے کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ یوں ذیشان بھائی اپنے انوکھے انداز سے ملحد کو گھر کے دروازے تک چھوڑ آتا ہے. سالم فریادی اور اعوان یہ دونوں کسی تعارف کے محتاج نہیں، کلام پاک پر اعتراض ہو یا احادیث پر اعتراض کرنے والے پر اس کا اپنا جوتا اس کے منہ مارنے کا فن یہ دونوں بھائی خوب جانتے ہیں لیکن یہ دونوں آج کل غیر حاضر ہیں. میری ریکویسٹ ہے کہ دونوں بھائی اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر گروپس کے رونق میں مزید اضافہ کریں. یہاں میں نے مہران بھیا کو دیکھا کہ جب وہ کسی اعتراض کا جواب لکھتا ہے تو اعتراض کرنے والا بھی مارے حیرت کے دانتوں میں انگلی دبا لیتا ہے. یہ سب بھائی ایک ایک کرکے بغیر کسی جرم کے ملحدوں کے گروپ ارتقائے فہم و دانش سے بلاک ہو گئے تھے. یہاں میں ان ملحدوں کو مخاطب کروں گی جو اکثر یہ طعنہ دیتے ہیں کہ ہم فری تھنکر میں کیوں جواب نہیں دیتے؟ ان کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ ملحدین ذرا اپنی علمی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ فری تھنکر میں مجھ سمیت ہمارے تینوں گروپس کے ایڈمنز بلاک ہیں۔ وجہ صرف ملحدین کی روٹی روزی میں روڑے اٹکانا۔ اور ہمارے تینوں گروپس کے دروازے سارے ملحدین کےلیے ہر وقت کھلے ہیں سوا ان ملحدوں کے جو اپنی خباثت سے مجبور ہو کر مقدس ہستیوں کی توہین کرتے ہیں، قاری حنیف ڈار صاحب سے لاکھ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن رد الحاد پر ان کا کام قابل ستائش ہے. اس کے علاوہ اس محاذ پر کام کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے، اگر ایک ایک کی کوالٹی بیان کرنے لگوں تو شاید پوسٹ کئی اقساط پر پھیل جائے، سو میں یہاں صرف نام لکھنے پر اکتفا کروں گی،

    ہمایون ناصر، عرفان ریاض، اعجاز گوندل، قاضی عبدالرحمان، عفیفہ شمسی، عائشہ عمران، انعم علی، ڈاکٹر ذیل شہزاد، فیضان، میاں عمران، ملک ولید، ولید احمد، عبدالسلام فیصل، فیصل ریاض، خاور نعیم، انعام الحق، حسنین، محمد تیمور، طارق احسن، سعید خاور، اقبال، بابر علی ( اللہ بابر بھائی کو اچھی صحت و ایمان والی لمبی زندگی عطا فرمائے )، ممتاز علی، عمر اعوان، عاطف عمیر، مزمل بسمل، خاموش آواز، نوید حسین، نوید ہاشمی، ابو بکرملک، سلمان شیخ، صدف ناز، فائزہ خالد، سید ذوالقرنین، عاصم منیر، بن یامین مہر، سالار سکندر، محمد سعد چودھری، یہ سب وہ گوہر نایاب ہیں جنہوں ہر فورم پر ملحدین کو بری طرح پچھاڑا.

    ایک طرف بہت بڑی تعداد میں پروفیشنل، ٹرینڈ سکالرز اور ریسرچرز کا ایک گروہ ہے جن کو اس شعبے سے متعلق ماہرین نفسیات تک کی خدمات حاصل ہیں۔ ان کی پشت پناہی بڑی طاقتیں کر رہی ہیں، ان کو معاشی فکر سے آزاد کر دیا گیا ہے، اور دوسری طرف عام مسلمان نوجوان جن میں سے شاید کسی ایک نے بھی دین کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ شاید ان کو نماز کے فرائض و واجبات تک کا علم نہ ہو۔ ان کو کہیں سے کوئی مدد حاصل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ الحاد کے مقابلے میں غیرمعمولی تیزی سے ”ٹرینڈ“ ہوگئے اور ناقابل یقین انداز میں انہوں نے الحاد کو بےبس کردیا، اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ الحاد اپنا سارا رس نکال چکا۔ اب ان کے پاس سوائے طنز، ٹھٹھہ مذاق اور کج بحثی کے اور کچھ نہیں بچا.

    ان نوجوانوں کی محنت ہے کہ بہت سے لوگ الحاد سے واپس آ رہے ہیں اور زیادہ پکے مسلمان بن کر واپس آ رہے ہیں۔ جن کے دلوں میں شک اور وسوسے پڑ گئے تھے وہ دور ہو رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ملحدین کے پاس آخری اور فیصلہ کن دلیل ”بلاک کرنا“ ہی رہ گئی ہے. ان بھائیوں اور بہنوں کی یہ مزاحمت اسلام کی بلکل وہی مزاحمت ہے جیسی تاتاریوں کی یلغار کے مقابلے میں مسلمان شکست کھا گئے تو اسلام نے خود مزاحمت کی چند تاجروں اور قیدیوں کی شکل میں۔ بے شک اللہ جس سے چاہے کام لے سکتا ہے، وہ چاہے تو ابابیلوں کو ہاتھیوں پر غالب کر دے.

    ملحدین کے نام پیغام!

    ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام اُس غبارہ کی مانند ہے جس میں ذرا سوئی کیا گزرے، پھٹ کر بے نشاں ہوجائے. ہم کہتے ہیں کہ اسلام واقعی غبارے کی مانند ہے. اس کو الحاد پھاڑنے نہیں ڈبونے کے چکروں میں ہے، مگر ان کو معلوم نہیں کہ غبارہ اک فطرت ہے، اسے پھونک کر پانی کی سطح پر رکھ کر پورے وجود کے ساتھ چڑھ دوڑو، یہ ڈوبتا نہیں، جتنا دباؤ گے جھٹکے سے اچھل کر سطح سے باہر آ رہے گا، جتنا دباؤ ڈالو اتنا ہی اچھلے گا، نہ یہ خود ڈوبتا ہے اور نہ خود پر سوار ہونے والوں کو ڈوبنے دیتا ہے. یہ وہ نیا ہے جو سوار کو دریا پار لگاتی ہے! بھنور میں بھی اس کو پکڑنے والے قطعاً ڈوبتے نہیں.

  • جدید ذہن اور انکار آخرت – عظیم الرحمن عثمانی

    جدید ذہن اور انکار آخرت – عظیم الرحمن عثمانی

    عظیم عثمانی جدید تشکیک زدہ اذہان کا اصل مسئلہ خدا کے وجود کو تسلیم کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مسئلہ خدا کے سامنے جواب دہ ہونے کو قبول کرنا ہے. یہ احساس کہ وہ موت کے بعد کسی کو جواب دہ ہوں گے؟ اور اپنے اپنے اعمال کا اچھا برا اجر پائیں گے؟ اس نظریے کو تسلیم کرلینا بہت سے اذہان کے لیے ممکن نہیں ہے. ان کے لیے خود کو جواب دہ ماننا اپنی آزادی کو سلب کر دینے کے مترادف ہے. وہ اپنی شتر بےمہار جیسی آزادی پر کسی بیرونی پہرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں. لہٰذا سچ پوچھیے تو ان کا یہ انکار عقلی سے زیادہ جذباتی بنیاد پر استوار ہے. اس پر طرہ یہ ہے کہ دین بھی اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے بنا جھجھک اس کا اعلان کردیتا ہے کہ اس فانی دنیا میں انسان کو فی الواقع اپنی آزادی کو خدا کی مرضی کے سامنے قربان کرنا ہوگا اور اس کا عبد یعنی غلام بن کر رہنا ہوگا. اس کے برعکس دور حاضر کا جائزہ لیجیے تو جو ممالک الحاد سے جتنا متاثر ہیں اتنا ہی انسان کی مادر پدر آزادی کے مبلغ ہیں. فریڈم آف اسپیچ، لبرٹی اور لبرلزم ان معاشروں میں عقائد کی طرح رائج ہیں. اس آزادی انسان کے لیے وہ اتنے متشدد ہیں کہ ہم جنسی کے فروغ اور ہر طرح کے فطری انسانی رشتے کو قربان کرنے کےلیے تیار ہیں. اسی آزادی کا نام لے کر وہ مرد و زن کی ہر قیود کو توڑ کر انہیں کپڑوں اور دیگر ہر حرمت سے بے نیاز کرنے پر مصر ہیں. گویا ایک طرف یہ مغربی ذہن ہے جو پوری شدت سے مکمل”آزادی“ کا دلفریب نعرہ لگا رہا ہے تو دوسری جانب دین کا پیرو ذہن خود کو عبد کہنے پر مسرور ہے اور اسی جانب دوسروں کو نصیحت کرتا ہے. یہی وہ کشمکش ہے جس کے نتیجے میں بعض لوگ خدا کے منکر یعنی”ایتھیسٹ“ ہوجاتے ہیں تاکہ جواب دہی کے کسی امکان پر بات ہی نہ ہو جبکہ بعض دوسرے خدا کو ایک زندہ ہستی کے بجائے مختلف تاویلوں سے ایک ایسے وجود کا نقشہ کھینچ لاتے ہیں جس نے اس کائنات کو لامحالہ تخلیق تو کیا ہے مگر وہ کسی سے اس کے اعمال کا حساب نہیں لے گا. اس دوسرے گروہ میں مختلف نظریات سے منسلک لوگ وابستہ ہیں جن میں سے کچھ خود کو ”ڈیسٹ“ اور کچھ کو ”اسپرچولسٹ“ کہلواتے ہیں.
    .
    آپ انسانی تاریخ کے مقبول ترین سائنسدان ”البرٹ آئن سٹائن“ کی مثال لیجیے جو خدا کے وجود کو کھلے الفاظ میں قبول کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ کہتا ہے کہ میں کسی ”پرسنل گاڈ“ کو نہیں مان سکتا. ”پرسنل گاڈ“سے مراد اس کی ایک ایسی خدائی ہستی ہے جو اعمال کا حساب لے گی. اسی طرح سے دور حاضر کے شاید سب سے معروف سائنسدان ”اسٹیفن ہاکنگ“ کی مشہور زمانہ تصنیف”بریف ہسٹری آف ٹائم“ دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بذریعہ سائنس ”خدائی ذہن“ کو سمجھنے کی سعی کررہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کو کسی نہ کسی صورت مان رہا ہے مگر حال ہی میں اس نے خدا کے وجود کا مطلق انکار کر دیا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ اس کے لیے ایک ایسے خدا کے وجود کو ماننا ممکن نہیں ہے جو صرف خالق و مدبر ہی نہیں بلکہ ”مالک یوم الدین“ بھی ہے. آپ دیگر ملحدانہ سوچ سے متاثر سائنسدانوں کی گفتگو سنیے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایک جانب تو وجود خدا کا انکار کرتے ہیں مگر دوسری طرف کائناتی قوانین و توازن کو”مدر نیچر“ کہہ کر اس سے ان ہی صفات کو منسلک کرتے ہیں جو روایتی طور پر خدا ہی کی صفات سمجھی گئی ہیں. لفظ خدا کی جگہ ”مدر نیچر“ کی اس اصطلاح کو اسی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ روز آخرت یا خدا کو جواب دہی کے امکان کو ختم کیا جا سکے. اسی طرح ذرا دقت نظر سے دیکھیں تو جدید فلسفوں پر استوار ان ”اسپرچولسٹ“ گروؤں کا بھی حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں. لہٰذا آپ گرو رجنیش یعنی ”اوشو“ کی تعلیمات دیکھیے تو اس کا ماننا ہے کہ خدا موجود نہیں ہے مگر ساتھ ہی کہتا ہے کہ وجود خدا کا انکار اسے ”ایتھیسٹ“ نہیں بناتا. وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں خدا کا نہیں لیکن ایک ”کائناتی شعور“ (کاسمک کونشئیس نیس) کے وجود کا قائل ہوں. جس میں انسانی شعور ضم ہوکر ابدی حیات پا سکتا ہے. ایک اور مثال راقم کے مطابق اس وقت کے سب سے ذہین گرو ”سدھ گرو“ کی ہے جو ایک بار پھر خدا کے وجود کو منفرد استدلال سے ایک ایسی نادیدہ برتر ذہانت (سپریم انٹلیجنس) تک محدود کرنا چاہتے ہیں جو تخلیق کے مختلف رنگوں میں ڈھل گیا ہے اور جس کا روپ انسان خود ہے. گویا آج کا جدید ذہن کبھی”مدر نیچر“، کبھی ”کاسمک کونشئیس نیس“، کبھی ”سپریم انٹلیجنس“ جیسی دلفریب ”فینسی“ اصطلاحات کا استعمال کرکے وجود خدا پر ایمان کو روز جزا پر ایمان سے جدا کردینا چاہتا ہے.
    .
    اس کے بلکل برعکس دین کا وہ مقدمہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے. جس طرح رسول ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے والا کسی صورت یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قران حکیم پر ایمان نہیں رکھتا. ٹھیک اسی طرح خدا پر ایمان کا دعویٰ کرنے والا روز آخرت کا انکار نہیں کرسکتا. کلام پاک بڑی شان سے جابجا اعلان کرتا ہے کہ قیامت یا روز جزا کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا اور ہر شخص بلاتفریق اپنے ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی بدلہ پائے گا. اتنا ہی نہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دیگر عقائد کے مقابلے میں قران مجید روز آخرت کے عقیدے پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے. پورے قران پاک کا شاید ہی کوئی ایسا صفحہ موجود ہو جہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ قیامت یا روز آخرت کا ذکر نہ کیا گیا ہو. اس کی نمائندہ مثال سورہ البقرہ کی وہ ابتدائی آیات ہیں جن میں جہاں مومنین و متقین کی صفات بتاتے ہوئے بیان ہوا کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں، موجودہ کلام یعنی قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں اور سابقہ صحائف پر ایمان لاتے ہیں. وہاں اختتام اس پر کیا کہ وہ آخرت پر یقین لاتے ہیں. غور طلب امر یہ ہے کہ بقیہ عقائد پر فقط ایمان لانے کی بات ہوئی جبکہ روز آخرت پر یقین لانے کی بات کی گئی. دین کے طالب علم واقف ہیں کہ محققین کے مقبول موقف کے مطابق ایمان بڑھتا یا گھٹتا ہے مگر یقین ایمان کی مستحکم و مستقل صورت کا نام ہے. گویا مطالبہ یہ ہے کہ آخرت پر ایمان بھی اس درجے کا ہو جو یقین کا درجہ حاصل کرلے. حقیقت یہ ہے کہ روز آخرت یا خدا کو جواب دہی کا تصور ہی وہ بنیادی عقیدہ ہے جو ایک انسان کے مئومن ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے.

  • جدیدیت کی عقلی بنیاد اور شعورِ انسانی – مجیب الحق حقّی

    جدیدیت کی عقلی بنیاد اور شعورِ انسانی – مجیب الحق حقّی

    مجیب الحق حقی نئی اصطلاحات میں آپ نے جدیدیت Modernism ضرور سنی ہوگی، یعنی جدّت پسندی۔ جدیدیت کو عام تو کیا اکثر تعلیم یافتہ بھی لفظی معنوں میں ہی قبول کرتے ہیں یعنی جدید بمعنی نیا new ۔گویا عام لوگوں کے خیال میں جدیدیت میں جدید سائنسی دریافتیں اور نئے طرز ِ زندگی اور فیشن وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

    حالانکہ جدیدیت کے رد میں ایک اور فلسفہ مابعد جدیدیت Post-Modernism بھی متعارف ہوچکا ہے، جس کے مطابق جدیدیت ناکام ہوچکی ہے اور انسان کا تعارف نئی بنیادوں پر ہونا ہے، لیکن ہمارے اس محدود اور سطحی جائزے کے حوالے سے ان میں خاص جوہری فرق نہیں بلکہ دقیق فلسفیانہ اختلاف ہے۔ آئیے ہم جدیدیت کوبہت سادہ طور پر سمجھتے ہیں۔

    جدیدیت:
    جدیدیت کی آمد سے پہلے دنیا میں الہامی اور خدائی تہذیب کا دور دورہ تھا۔ انسان کسی نہ کسی پیرائے میں خدا کی حاکمیت کو مانتا اور اپنے دنیاوی اور روحانی مسائل کے لیے اس کی طرف رجوع کرتا تھا۔ لیکن اٹھارویں صدی میں خاص طور پر صنعتی انقلاب نے سوچ کے نئے افق متعارف کرائے۔ اس لہر نے فنون لطیفہ سے سفر کرتے ہوئے پورے معاشرے کو متاثر کیا۔ تبھی جدید فکر یعنی جدّت پسندی یا جدیدیت modernism کے فلسفے نے سر اٹھایا اور کمزور پڑتے مذہب کی اتھارٹی کو للکارا اور انسان کو ہر طرح کی پابندی سے جو اس کی سوچ پر قدغن لگاتی ہو، آزاد ہوجانے کا راستہ دکھایا۔ یہ مذہب اور خدا سے کھلی بغاوت کی ابتدا تھی۔

    خدا کے بجائے انسان کی عقل کو رہبرمان لیا گیا۔ انسان بندے کے بجائے آزاد ارادے کا حامل قرار پایا۔ مذہب سمٹ کرگھر اور ذات میں مقید ہوگیا۔ معاشرے میں خدائی احکام اور پیغمبرکی جگہ فلسفی معتبر ٹھہرے۔ فلسفی معاشرے کے رہنما بن گئے۔ ہر چیز کا محور اب انسان ہوا۔ انسان کے لیے ریاست قائم ہوئی جہاں پر قوانین کا منبع رائے عامہّ بنی، یہی جمہوریت کہلائی۔ گویا قوانین اور معاشرتی اصول کی تدوین انسان نے خدا سے لے کر کلّی طور پر اپنے ہاتھ میں لے لی۔

    جدیدیت میں صرف اور صرف انسان ہی حقیقت ہے، وہ مختار و قادر ہے اور ہر طرح کی بیرونی رہنمائی سے بے پرواہ اپنی ذات میں مکمّل اور ہدایت سے مبرّا ہے۔ فلسفہ ٔجدیدیت کے مطابق انسان ہی مرکز ِکائنات ہے، خدا مرکز ِکائنات نہیں کیونکہ انسان کے وجود میں شک نہیں! انسان ہی عقل کُل ہے۔ اسی جدیدیت کی فکر سے ہی کمیونزم، سوشلزم، لبرل ازم، سیکولرازم، جمہوریت، تحریک ِ نسواں اور دوسرے نظریات نکلے۔ اس فکر کو جدیدیت یا ماڈرن ازم کا نام دیا گیاجس کی منشا یہ ہے کہ ماضی کے ہر آثار کو جسے عقل قبول نہ کرے، تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دینا چاہیے۔

    جدید انسان:
    جدید انسان وہ ہے جو صرف شعوری، حواسی، تجرباتی اور سائنسی ذرائع علم پر بھروسہ اور یقین رکھتا ہے کہ یہی سچ ہے اور ہر اس علم اور ہدایت کو مسترد کرتا ہے جس کی انسان کے حواس تصدیق نہ کرسکیں جیسا کہ وحی۔ اسی لیے وحی اور اس سے ماخوذ قوانین اس کی نظر میں دقیانوسی، غیر عقلی اور جہالت کے دور کے پروردہ ہوتے ہیں۔

    ہمارے اس تجزیے کے حوالے سے یہ ضروری ہے کہ جدیدیت کے نظریے نے انسان کو جس ارفع مقام پر لا کھڑا کیا، اس کی تصدیق سائنس، منطق اور حقائق کی روشنی میں کریں کہ کیا واقعی انسان کا مرتبہ یہی ہے۔

    جدیدیت کی عقلی بنیادیں:
    اوپر درج سطور سے آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ اس فلسفے میں کس شدّ و مد سے انسانی شعور و عقل کو رہبرِاعلیٰ مانا اور ان کے فیصلوں کو سچ کا درجہ دیا جارہا ہے کہ جیسے یہی حتمی اور مستند سچّائی ہو۔ چلیے کچھ حقائق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اگر کوئی فلسفہ حیات ٹھوس بنیادوں پر نہ ہو یعنی خود انسان اور اس کی عقل اور شعور کی ابتدا اور ماہیّت جانے بغیر اگر فلسفہ تخلیق کیا جاتا ہے تو اس کی بنیاد پر سوال ہمیشہ اٹھتے رہیں گے۔ فلسفی کے دلائل بےشک بڑا دقیق علم لیے ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیاد کبھی مناسب اورمضبوط منطق سے خالی بھی ہوتی ہے۔

    فلسفی کی سواری اس کا شعور ہی تو ہے، لیکن اس شعور میں موجود فلسفی یہ کیوں نہیں جاننا چاہتا کہ: شعور کیا ہے؟ کیا وہ خود شعور ہے؟ جو کہ نہیں ہے کیونکہ وہ شعور کا حوالہ دیتا ہے، تو پھر وہ خود کہاں ہوتا ہے؟ کیا وہ ایک خیال abstract ہے جبکہ جسم اس کا لباس اور شعور اس کا ہتھیار؟ انسان شعور میں ہے یا شعور انسان میں؟ عقل کا منبع کیا ہے؟ کیا یہ یہاں سے پہلے بھی کہیں تھی؟ اگر تھی تو کہاں؟، اور نہیں تھی تو یہاں کیسے وارد ہوئی؟

    جدیدیت نے انسان کی عقل کو رہبر تو مانا لیکن دوسری طرف انسان اور کائنات کی اصل پر اسی عقل کے اُٹھائے ہوئے بےشمار سوالات کا جواب جدید افکار میں ندارد ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کے فلسفوں کی بنیاد یہ ہے کہ انسان نہ کہیں سے آیا اور نہ ہی اسے کہیں جانا ہے بلکہ یہیں ظاہر ہوا اور اسے یہیں معدوم ہونا ہے۔

    آپ کو آگے چل کر اندازہ ہو جائے گا کہ آخر کیوں جدیدیت Modernism، مابعد جدیدیت Post-Modernism اور دوسرے نظریات، ان میں پسماندہ طبقات کے علمبردار اشتراکیت کو بھی شامل کر لیں، ہر طرح کے دعووں کے باوجود صدیوں میں بھی انسان کو فلاح نہ دے سکے۔

    اس صورتحال میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اس نظریے کی عقلی بنیاد میں کیا کوئی تضاد یا جھول ہے؟
    یہ ایک بڑے کینوس پر پھیلا ہوا سوال ہے جس کا جواب بھی وسیع پیرائے یعنی انسان کی حقیقی صلاحیتوں اور ان کی وسعت کار میں تلاش کرنا ہوگا۔ یعنی خود انسان کی تعمیری جبلّت اور اجزائے ترکیبی کی ماہیت کا علم اس کی ذہنی اُپچ کے پیرائیوں کا اظہار کرے گا۔ تو آئیے سب سے پہلے تخلیق کے پیرائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    تخلیق کے مدارج:
    انسان کی اپنی ڈیزائن کردہ تخلیق کے تکمیل پذیر ہونے کے تین مدارج ہیں؛ ارادہ، عمل اور تشکیل پذیری، جو ہمارے حواس اور عقل و قوّت کے استعمال کا حاصل ہے۔ گویا خام شکل سے تکمیل تک مراحل کے تین درجے ہوئے:
    شے کی خام شکل میں موجودگی یا اس کا قدرتی منبع، پہلا مرحلہ
    اس کی تخلیق کسی علم اور عمل سے کی گئی، دوسرا مرحلہ
    انسان کی بنائی شے وجود پذیر ہوئی، تیسرا مرحلہ
    دیگر الفاظ میں یہ تینوں مدارج کسی بھی تخلیق کے وجود کی حقیقت آشنائی کے پہلے سے دوسرے پر محیط و متّصل تین دائرے ہیں۔ انسان کی ہر تخلیق ان تینوں مدارج ارادہ (پلاننگ)، عمل اور ظہور یا تکمیل کی عقلی اور تحریری تشریح رکھتی ہے۔ وجود خواہ جاندار ہو یا بےجان حقائق کے تین دائروں میں مقیّد ہوتا ہے۔ پہلا دائرہ مادّی وجود، اس پر محیط دوسرا دائرہ تخلیقی مدارج اور اس پر محیط تیسرا دائرہ تخلیقی علم کی تمام جہتیں بشمول خالق۔ خالق تخلیقی عمل کے تیسرے وسیع تر دائرے میں مقیم ہوتا ہے خواہ کوئی کیوں نہ ہو۔ فطری آثار کی سائنسی جانچ اُلٹ یعنی معکوس سمت میں چلتی ہے یعنی تحقیق کی ابتدا شے کی موجودگی یا تخلیق کی تکمیل سے شروع ہو کر تمام تخلیقی عمل کو پرکھتے ہوئے تخلیق کی ابتدا پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے آگے کا مرحلہ خالق کی شناخت ہے۔

    اب ایک اور رخ پر توجّہ فرمائیں۔
    انسان بھی فطرت اور کائنات کا حصّہ ہے۔ انسان خود بھی موجود ہے، یہ سچائی ہے۔ کیسے پیدا ہوا اور بڑھا؟ اس کا علم سائنسی علوم سے کشیدہ سچائی ہوئی۔ اب انسان کے حوالے سے یہی عقل استفسار کرتی ہے کہ،
    انسان ظاہر ہونے سے پہلے کہاں تھا یا کیا تھا؟ اس کی خام کیا ہے؟ یہ کیوں بنا؟
    یہ منطقی اور سائنسی سوالات ہیں جن کا جواب بھی سائنس، عقل یا حواس کے بموجب تلاش کیا جائے گا کیونکہ یہ اُٹھے ہی انہی بنیادوں پر!
    مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حواس اور عقل جدید ترین سائنسی علوم کی روشنی میں انسان کے وجود کی تشریح طبعی مدارج تک ہی کر پاتے ہیں جبکہ طبعی وجود سے قبل کے مرحلے کے حوالے سے متعلق سوال ہر سائنسی و فلسفیانہ دماغ کو معطل اور زبان کو گُنگ کر دیتا ہے! آپ دیکھیں گے کہ جدیدیت، لبرل یا کوئی بھی جدید حیاتی فلسفہ بمع سائنسی علوم ان سوالات کا ایسا مکمل عقلی اور منطقی جواب دینے سے قاصر ہیں جو جدیدیت کے ممدوح انسان کو ہر طرح مطمئن کرسکے۔

    اس کا حل کیا ہے؟
    کیا ہم یہ سوال کوڑے دان میں ڈال دیں کہ انسان پیدائش سے پہلے کہاں ہوتا ہے؟ اس کی ہیئت کیا ہوتی ہے؟ اس کا شعور کہاں ہوتا ہے؟ اس میں زندگی کیوں آتی ہے؟
    جب ہر موجود شے سچ کے تین مدارج کے ساتھ انسان کے علم میں ہے یا ہو سکتی ہے تو خود انسان کیوں نہیں؟ یعنی انسان ظاہر ہونے سے پہلے خود کیا تھا؟ اس کا شعور کہاں تھا؟ زندگی کہاں سے وارد ہوئی؟ تخلیق کے ان مدارج کو جانے بغیر عقل کیسے مطمئن ہوگی اور جدیدیت کی آزاد خیالی کو منطقی جواز کیسے ملےگا؟
    اس کا جواب ہر اس نظریۂ حیات کو دینا ہوگا جو انسانیت کی رہنمائی کا دعویدار ہے۔ کیا جدیدیت یا مابعد جدیدیت اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟ نہیں!

    اس کی وجہ یہی ہے کہ ان مکاتب فکر کی ابتدا انسان کے جہاں ہے اور جیسے ہے کی بنیاد سے شروع ہوتی ہے جبکہ اس کے وجود سے پہلے کے مراحل کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی مناسب عقلی تشریح ان کے پاس نہیں۔ ان ہی محدود زاویوں اور نامکمل علم کے بموجب تمام فلاسفر زندگی کے حقائق کا تجزیہ کرتے چلے آرہے ہیں اور نت نئے نظریات پیش کرتے رہے ہیں جن پر ریاستوں نے عمل بھی کیا۔ اب تو تاریخ خود ہی گواہ بن چکی ہے کہ ہر فلسفہ ایک دور کے بعد اپنی خامیاں ظاہر کرتا ہے اور فلسفی نئے نظریات کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔

    تو پھر انسان کا مقام متعیّن کرنے کی تحقیق میں خامی کہاں ہے؟ آئیے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
    انسان اپنی تخلیق پر کنٹرول رکھتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی اپنی تخلیق کے تینوں درجے: یعنی(1) تخلیق کا شعوری علم اور قدرت، (2) تخلیقی پراسس یا طریقوں کا اطلاق اور (3) تخلیق کی تکمیل۔ انسانی حواس کی گرفت میں رہتے ہیں اور انسان مکمل تخلیقی علم کے ساتھ اپنی ہر تخلیق کا خالق بن کر عیاں تو ہوجاتا ہے مگر دوسری طرف انسان کی بنائی کوئی بھی چیز اپنے تیاّر کنندہ کو نہیں جان سکتی۔ فلسفوں کی ناکامیوں کی وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ مغربی فلسفیوں کے پاس حقیقت کے تیسرے دائرے کا علم نہیں ہے یعنی عدم کا علم کہ جہاں انسان کا خام شکل میں ہونا منطقی ہے اور کسی خالق کی شناخت بھی اتنی ہی ضروری۔ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ انسان کس طرح عدم اور خالق کو جان سکتا ہے جبکہ اس کی اپنی تخلیق اس کو نہیں پہچانتی؟

    خالق کا عرفان:
    ایک چڑیا اگر گھونسلہ بناتی ہے تو یہ اس کی تخلیق ہے۔ گھونسلہ پہلے صرف بہت سے بکھرے تنکے ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کی بنائی مشین پہلے خام لوہا ہوتی ہے۔ کیا گھونسلہ یا مشین جان سکتے ہیں کہ ان کو کس نے بنایا؟ یقیناً نہیں کیونکہ ان میں شعور نہیں ہے۔ گویا کوئی جاندار کسی بےجان کی تخلیق کرنے میں اپنا تخیّل تو طبعی شکل میں تخلیق میں منتقل کردیتا ہے لیکن اپنی ذات کاشعور نہیں کر پاتا، اسی لیے نہ ہی گھونسلہ اور نہ مشین جان سکتے ہیں کہ ان کو کس نے بنایا۔ جب تک کوئی تخلیق کار اتنا قادر نہ ہوجائے کہ اپنی تخلیق میں اپنی ذات کی پہچان کے عناصر پیوست کردے، اس کی تخلیق اس طور پر ادھوری رہے گی کہ وہ اُسے پہچان نہ سکے گی جبکہ کمال درجے کی تخلیق اور مخلوق وہی ہوگی جس میں اپنے خالق کو پہچاننے کی جبلّت بھی ہو۔
    اگرچہ انسان مصنوعی شعور اور ذہانت بنانے کا علم حاصل کرتا جا رہا ہے، پھر بھی فی الحال کوئی انسانی تخلیق اپنے خالق (انسان) کے وجودی پیرائے نہیں جان سکتی الِّا یہ کہ انسان کسی طرح مادّے سے خود انسانی شعور کو بنا کر اپنی تخلیق میں منتقل کرسکے! ایسی صورت میں ہی انسان کی بنائی چیز انسانی شعور کی رمق لے کر شاید انسان کوجان پائے لیکن یہ واضح رہے کہ اُس صورت میں اس کی وجہ خالق (انسان) اور تخلیق کی جبلّت کی کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ہوگی۔ یعنی انسان کسی طرح اپنے علم، شعور یا وجود کے کسی گوشے کی رمق یا راز اپنی ہی تخلیق کے حوالے کرکے اسے اپنی ذات کی سمجھ کا وسیلہ دے دے توصرف اسی صورت میں انسانی ایجادات اپنے بنانے والے کی حقیقت جان پائیں گی، دوسرے لفظوں میں اپنے خالق کا عرفان حاصل کرلیں گی۔

    تخلیق اکبر:
    اب خالق کی ذات کی پہچان کے عناصر یا عنصر وہی مئوثر ہوں گے جو اس کی ذات سے ہی متعلق ہوں کیونکہ اسی طرح فطری طور پر مخلوق میں اور خالق میں ایک غیر مرئی ہم آہنگی پیدا ہوگی جس کے باوصف مخلوق کسی نہ کسی پیرائے میں خالق کو جان سکے گی۔ اب اس پہچان کے درجے کا انحصار خالق کی مرضی پر ہوگا کہ وہ کیا چاہتا ہے اور تخلیقی علم اور تخلیقی عمل پر کتنی قدرت رکھتا ہے؟ اس کو اس طرح بھی سمجھیں کہ انسان کی بنائی ہوئی چیزیں انسان کو نہیں جان سکتیں کیونکہ انسان اپنی صلاحیتوں اور حاصل علوم کے باوصف ان کی تکمیل پر اپنے اُس علم کے کمال پر پہنچتا ہے جو طبعیات تک محدود ہیں لہذا اس کی تخلیقات زیادہ سے زیادہ طبعی پیرامیٹر تک ہی محدود رہ جاتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف خود انسان کے اندر کیونکہ انسان کے خالق نے اپنی ذات کی صفات اور کچھ نادیدہ قوت ودیعت کر دی ہیں جس کی وجہ سے انسان اپنے خالق کو جاننے کی نہ صرف صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس کے وجود اور عدم وجود کے سوالات کے ساتھ ہی ہر فلسفۂ حیات کی ابتدا پر مجبور ہوتا ہے۔ گویا انسان کے خالق نے اپنی ذات کے حوالے سے بنیادی سوال انسان کی جبلّت میں پیوست کردیے ہیں۔
    قصّہ مختصر! اگر خالق نہیں ہے تو اس سے متعلّق سوال بھی معدوم ہوتا! ہم یہ سوال کرتے ہی کیوں ہیں کہ خداہے یا نہیں، یا خدا کو کس نے بنایا؟ یہی عالیشان تخلیق کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ہمارے علم کے پیرائے میں یہی تخلیق ِاکبر ہے۔ ابھی جدید سائنس کو بھی پتہ نہیں کہ خیال کیوں آتے ہیں۔ اسی لیے خدا سے انکار ہی غیرفطری ہے۔

    شعور:
    انسانی شعور کیا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ شعور سائنسی طور پر موجود ہے! اب اگر شعور کا موجود ہونا قابل قبول ہے تو منطقی طور پر شعور کی بھی کوئی تخلیقی سائنس یا کیمسٹری تو ہوگی، تو وہ کیا ہے؟ کیا اس کا جواب جدیدیت یا جدید سائنس کے پاس ہے؟
    درحقیقت انسانی و حیوانی شعور ایک پہیلی ہے جو جدیدیت اور الحاد کے مفکّرین و فلسفیوں کے لیے عذاب سے کم نہیں۔ ان کا مسئلہ یہی ہے کہ اس سے انکار بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ عیاں حقیقت ہے، مگر آج تک کوئی اسکالر، کوئی فلاسفر، کوئی منکر خدا، کوئی سائنسدان شعور کی ماہیت کی تشریح نہیں کرسکا، نہ بتا پایا کہ یہ جانداروں میں کہاں سے اور کیوں آیا؟
    حقیقت شعور سے لاعلمی ہی وہ کمزوری ہے کہ جس کی وجہ سے فکرجدید کی اڑان صرف مذکورہ دو حقیقتوں کے دائروں میں ہی محو پرواز رہتی ہے جبکہ انسانی وجود کے حوالے سے کائناتی حقیقت درج ذیل تین پرَتی دائروں میں گردش کرتی مجموعی حقیقت ہے۔
    پہلادرجہ ذیلی سچائی (مادّہ) ہے جو موجود ہے یعنی مادّی وجودیت کا دائرہ۔
    اس دائرے پر محیط ایک اور دائرہ ہے جو حواسی اور شعوری سچائی یا حقیقت یعنی طبعی علوم کائنات کا دائرہ۔
    اور اس پر محیط الوہی علم کا لا محدود دائرہ، ایک ابدی، اُلوہی یا روحی سچائی ہے جو تخلیق کا اصل عالم ہے، جہاں ایک ارادہ ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح انسان اپنی تخلیقی دنیا میں ایک طبعی خلّاقی کے دائرے میں ہوتا ہے۔
    جدید انسان دوسرے دائرے کے کنارے پر کھڑا، مگر آگے کے سامانِ سفر سے تہی دست مسافر ہے۔

    حقیقت اکبر:
    اپنے شعور کے تئیں انسان کے طبعی حواس کے لیے یہی اُلوہی عالم حقیقت اکبر ہوگا، مگر انسانی علوم کی وہاں تک نارسائی کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت علوم کے میرکارواں جدیدیت کے پیروکار اسکالر و فلاسفر ہیں۔ انسان ان کے غیرحقیقی نظریات کی وجہ سے حقیقت اکبر تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جدیدیت روح کو مسترد کرتی ہے اور شعور کی حقیقت سے بھی نابلد ہے جبکہ شعور روح سے منسلک ڈائمنشن ہے۔ یہ روح کی طرح ہمارے وجود کا غیرمرئی گوشہ ہے۔ گویا موجودہ صورتحال میں شعور کی تخلیقی جہتیں یا تخلیقی منازل کا علم ہی جدید سائنس کو حقیقت کبریٰ کی سمجھ کی طبعی قوّت دے گا۔ تو ثابت یہی ہوتا ہے کہ جب تک انسان مادّے اور شعور کا تعلّق، اس کی جہتیں اور کیمسٹری نہیں جان لیتا، وہ مادّی اور طبعئی طور پر حقیقت ِاکبر کی پرچھائیں تک بھی نہیں پہنچ سکتا خواہ طبعی سائنسی علوم آسمان کی بلندی تک ہی نہ جا پہنچیں۔ وجہ اس کی یہی ہوگی کہ انسانی عقل الوہی علوم کے حقائق تک رسائی کے ذرائع یعنی روحی خصوصیات کی امداد سے محروم رہے گی۔

    منکرین کا مسئلہ:
    منکرین کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ علم کے اہم ذریعے یعنی وحی کو مسترد کرتے ہیں لہذٰا وہ روح اور روحانی صفات کی قوّتوں سے بےگانہ ہوجاتے ہیں جبکہ یہی واحد ذریعہ ہے جو ہر تخلیق کے منبع یعنی انسان کے خالق تک لے جاتاہے۔ یہی انکار ایک سختی سے پیوست تاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہر منکر فلاسفر عقل کی سرحد پر پہنچ کر ایک ناقابل عبور دیوار پاتا ہے تو راستہ بدل بدل کر حواسی حقائق کے بھنور میں بھٹکتا ہی رہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کا تذکرہ شروع میں کیا گیا کہ انسان ان خود ساختہ رکاوٹوں کے تئیں اس دیوار کے اندر ہی سینکڑوں سال سے مقید ہے اور فلاسفر نئے نئے فلسفے سوچ رہے ہیں کہ اس بھول بھلیّاں سے کسی طرح نکل جائیں۔ جدیدیت کی غلطی یہ ہے کہ اس نے عقل کے بموجب روح کو مسترد کیا جبکہ خود عقل بھی روحی ڈائمنشن کا جز ہے۔ یہ واضح رہے کہ مذہب میں روح کا تصوّر سائنسی ہے کیونکہ شعور، لاشعور، تحت الشعور، جذبات، خیالات اور دوسرے غیر مرئی آثار جیسے خواب وغیرہ اسی سے منسلک ہیں۔ شعور بھی انسانی روح کی ایک جہت ہے جو انسان کے تخیل کے پیرائیوں کو وہ مہمیز عطا کرتی ہے کہ انسان حواسی سچّائی کا بیرئیر توڑ کر برتر تخلیقی اور روحانی علوم کی حدود میں جا پہنچتا ہے۔ اس عالم سے تعلّق انسان کو پس پردہ حقیقتیں آشکارا کرتا ہے جو اس کی روح کو آسودہ کرتا ہے۔ یہی تعلّق انسان کو اس کے ہر سوال کا جواب سمجھاتا ہے۔

    عقیدے کی فصیل:
    ہر انسان اپنی عقل کی بنیاد پر ایک عقیدے کو قبول کرتا ہے اور انسان کے خیالات اسی خود مرتّب کردہ عقیدے کی فصیل میں ہی مقید ہوجاتے ہیں۔ کسی نئے خیال کی قبولیت کا انحصار اس قلعے کی وسعت اور کُھلے دریچوں پر ہوتا ہے۔ جدیدیت اور الحاد بھی عقیدہ ہے جس کی بنیاد عقل پر رکھی گئی ہے. اب ظاہر ہے کہ اس کی بےثباتی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ الحاد خود اپنی بنیاد یعنی عقل کی تشریح سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ اسی عقل کے اُٹھائے سوالات کے جواب بھی نہیں رکھتا۔ یہی فکر کی بھول بھلیّاں ہے جس میں جدیدیت غلطاں ہے اور حقیقت کی طرف صرف دو منازل چڑھنے کے بعد ہانپ رہی ہے۔ انسان کی قیادت جب سے انسان (فلسفی ) کے ہاتھ آئی ہے، کبھی ذرائع پیداوار اور طبقات کی بنیاد پر ڈاکٹرائن بنتے ہیں، کبھی انسانی آزادی اور بنیادی حقوق پر نظریات تشکیل پاتے ہیں، کبھی کمیونزم اور سوشلزم کے نعرے لگتے ہیں اور کبھی کچھ کبھی کچھ، اب مابعد جدیدیت نے سب درہم برہم کردیا. تو انسان جتنا نظریاتی گمراہ آج ہے پہلے کبھی نہ تھا۔

    ان گزارشات سے یہ عیاں ہوا کہ فلسفیانہ نظریات جیسے جدیدیت، مابعد جدیدیت اور الحاد وغیرہ حقیقت آشنائی کے صرف دو دائروں میں مقیّد سوچ ہیں جو انسان کو اس کی اصل بتانے سے قاصر ہیں۔ کئی سو سال میں جدیدیت کے پروردہ بڑے بڑے نامور سائنسدان، اسکالر اور فلاسفر ان ہی دو دائروں میں گھومتے اپنے نظریوں اور فلسفوں کی تشنہ کہانیاں سنا کر چلے گئے۔ آج کے اسکالرز بھی انھی غلام گردشوں میں گردش میں ہیں اور ان کے ساتھ جدید انسان بھی۔ انسانیت آج بھی نظریاتی طور پر یتیم ہی ہے۔
    اس کے مقابلے میں اسلام انسان کو فکر کے ایک کُشادہ تر ماحول کا ادراک عطا کرکے مکمل حقیقت آشنا بناتا ہے اور اس کو اس ماحول سے تعلّق کا موقع عطا کرتا ہے جہاں پر انسان کا لامحدود پیار کرنے والا خالق جلوہ افروز ہے۔ روح اس ذات باری کی ہستی کے کسی گوشے کا عکس ہوسکتی ہے جو انسان کو وہ ذرائع عطا کرتے ہیں کہ وہ ان سے اپنے خالق کو جان سکتا ہے۔ روح کا علم انسان کو کم دیا گیا ہے لیکن اتنا ضرور دیا گیا ہے کہ حقیقت اکبر کو سمجھ لے۔ اسی لیے جدیدیت کے مقابل اپنے وسیع تر افق کے ساتھ مذہب اسلام ایک عالیشان نظریہ حیات کے ساتھ آج بھی جلوہ گر ہے۔ میٹا فزکس اور فزکس کا بہترین امتزاج لیے یہ مذہب ہی ہے جو انسان کی اصل کیمسٹری کو جانتا ہے اور روح کی قوّت اور اس کی صفات و پرواز کے تئیں اس حقیقت کبریٰ تک انسان کو رسائی دیتا ہے جس کی جانکاری کے لیے جدیدیت اور جدید الحادی سائنس سو سال سے زائد سے بھٹک رہی ہیں۔
    ہمیں یہاں چند لمحے رک کر سوچنا ہوگا کہ کیا ہم بھی ازل اور ابد سے اپنے تعلّق سے حقیقی طور پر واقف ہیں؟ ہم یہاں کیوں آئے اور کہاں جانا ہے۔ اس سوال کا جواب ہم کو بتا دے گا کہ باطنی طور پر ہم کیا ہیں؟ جدیدیت کے پروردہ یا اپنے خالق کو جاننے والے۔

    ذرا سوچیں!
    تو دوستو، ہمیں اس سوچ کو خیرباد کہنا ہوگا کہ سائنس اور اسلام دو جدا چیزیں ہیں۔ یہ تاثر کہ سائنس برتر ہے، غلط ہے۔ جدید سائنس دراصل خالق کائنات کی برتر سائنس کی تشریح کر رہی ہے۔ کائنات کی تخلیق کو خالق کی سائنس سمجھیں، جو بہت برتر تخلیقی سائنس ہے جو کہ ہر طرح کی تخلیق میں جاری اور ساری ہے۔ انسان میں شعور، نفس، ضمیر اور عقل اس کی برتری اور پراسراریت کی مثال ہیں۔اسلام اِسی برتر سائنس کا نمائندہ ہے۔ جس دن مادّہ پرستی میں غرق اور بھٹکی ہوئی جدیدیت کو روح کی حقیقت کا سائنسی ادراک ہوجائے گا، جدیدیت اپنا رخ خود بدل لے گی۔ ہم انتظار کرتے ہیں، وہ بھی کریں۔

    امید ہے ان سطور سے قارئین کسی حد تک واقف ہو گئے ہوں گے کہ جدّت پسندی اور جدیدیت کی اصل جڑ root کیا ہے اور کتنی، فطری، منطقی اور عقلی ہے اور انسان کا اپنے آپ کو مر کزِ کائنات کہنا اس کی ذہنی اختراع ہی ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں. یہ بھی غیر عقلی ہے۔