Tag: آمریت

  • مرد حق اور تاریخ کا بے رحم فیصلہ – عامر خاکوانی

    مرد حق اور تاریخ کا بے رحم فیصلہ – عامر خاکوانی

    عامر خاکوانیا یہ 18 اگست 88ء کا غیرمعمولی دن تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر لائیو ٹرانسمیشن جاری تھی۔ اپنے دور کے معروف نیوز کاسٹر اظہر لودھی کی بھرائی ہوئی آواز گونجی،’’محمود احمد غازی صاحب! آگے بڑھیے، یہ قوم صفیں باندھنا جانتی ہے۔ ہم اپنے شہیدوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے بےتاب ہیں۔‘‘ اچانک ہچکیوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو سننے والی ہر آنکھ آشکبار تھی۔ اظہر لودھی کی جذباتی کمنٹری نے سننے والوں کو کچھ اس طرح اپنے سحر میں لے لیا تھا کہ ان میں سے کوئی اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکا۔ ہمارے چھوٹے سے شہر میں الیکٹرانکس کی اس بڑی دکان کے اندر اور باہر لوگوں کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے۔ تنک مزاج شوروم مالک جو عام حالات میں گاہکوں سے بھی نرمی کا روادار نہ تھا، آج وہ مہربلب ٹی وی سکرین کو تکے جا رہا تھا، جہاں لاکھوں لوگ دیوانہ وار سانحہ بہاولپور میں جاں بحق ہونے والوں کی نمازجنازہ میں شرکت کے لیے جاتے نظر آرہے تھے۔ نعرے گونج رہے تھے،’’مرد مومن مرد حق، ضیاالحق ضیاالحق‘‘۔ ایک کمنٹیٹر نے جذباتی انداز میں کہا،’’آج ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔تاریخ اس قربانی کو نہیں بھول سکے گی۔‘‘

    جنرل ضیاء الحق ہماری قومی تاریخ کے متنازع ترین حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ اپنے گیارہ سالہ دور اقتدار میں انہوں نے مخالف بھی بہت پیدا کیے اور دوست بھی کئی بنائے۔ انہیں ابتدا میں ایک ’ایڈوانٹیج‘ یہ رہا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا، جو آخری دنوں میں عوام کے ایک بڑے حصے کو اپنا شدید مخالف بنا چکے تھے۔ یوں دائیں بازو کا روایت پسند حلقہ پہلے دن سے جنرل ضیا کا اتحادی بن گیا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ممکن تھا حالات تبدیل ہوجاتے، مگر روس کی افغانستان آمد نے پورا منظرنامہ ہی بدل دیا۔

    جرمن مرد آہن بسمارک نے ایک بار کہا تھا،’’چالاک حکمران وہ ہے جو تقدیر کے گھوڑے کی چاپ سنتے ہی ہوشیار ہوجائے اور چابک دستی سے دم پکڑ کر لٹک جائے۔‘‘ جنرل ضیاء نے بروقت اندازہ لگا لیا کہ ان کے اقتدار کو طوالت بخشنے والا لمحہ آ پہنچا۔ انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس وقت امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سی آئی اے میں موجود ایک طاقتور گروپ ’’شیطان روس‘‘کو شکست دینا چاہتا تھا۔جنرل ضیاء نے ان کے سپنوں میں رنگ بھرنے کی ہامی بھرلی ۔انہوں نے پاکستانی فوج اور حساس ادارے اس جنگ کے لیے وقف کر دیے۔ اگلے آٹھ سال تک افغانستان جدید تاریخ کی چند بڑی گوریلا جنگوں میں سے ایک کا مرکز بنا رہا۔ جماعت اسلامی سمیت دوسرے دینی گروپ افغان تحریک مزاحمت میں پوری قوت سے حصہ لیتے رہے۔ ان میں سے بعض پر مالی بدعنوانی اور کسی پر مارشل لاء کی بی ٹیم ہونے کے الزامات بھی لگے۔ ہماری دائیں بازوکی انٹیلی جنشیا جو ابھی تک بھٹو فوبیا سے باہر نہیں آسکی تھی، نے دیدہ دلیری سے فوجی آمر کا ساتھ دیا اور خارجہ پالیسی کی قیمت پر ان کی سیاست دانوں کو کچلنے کی پالیسی سے صرف نظر کیے رکھا۔ انہی لوگوں نے جنرل ضیاء کی موت کے بعد مرد مومن مردحق کا نعرہ بھی ایجاد کیا، جو جلد ہی تاریخ کی پگڈنڈیوں میں کہیں کھو گیا۔ دائیں بازو کے صحافی اور اخبارات جنرل ضیاء الحق کی امیج میکنگ میں پیش پیش رہے۔ تکبیر، زندگی اور اردو ڈائجسٹ جیسے قومی جریدوں نے جنرل کی شخصیت پر تقویٰ اور نیک نامی اور ملک دوستی کا ایسا سنہری ملمع چڑھایا جس نے چند برسوں کے لیے تو قارئین کی آنکھیں چندھیائے رکھیں، مگر وہ زیادہ دیر باقی نہ رہ سکا۔

    جنرل ضیاء الحق کے جرائم تو بہت سے ہیں۔ انہوں نے آئین کا تمسخر اڑایا اور بڑے غور و خوض کے بعد پاکستانی سیاسی کلچر کے بنیادی اجزا درہم برہم کر دییے۔ برادری اور پیسے کی بنیاد پر مسلسل بلدیاتی انتخابات کرائے۔ غیر جماعتی پارلیمانی انتخابات کا مشورہ مولانا ظفر احمد انصاری جیسے مہربانوں سے ملا۔ قومی سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کی غلطی کی اور اگلے تین برسوں کے لیے مین سٹریم سے باہر ہوگئے۔ کراچی کے پرجوش مزاحمتی کلچر کو بدلنے کے لیے قومی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں لسانی عنصر سامنے لایا گیا۔ اس سے جو مسائل پیدا ہوئے، وہ آج تک حل نہیں ہو سکے۔

    ان کی سب سے تباہ کن غلطی افغان تنظیموں کو پاکستانی معاشرے میں نفوذ کی اجازت دینا تھا۔ ایران کو بھی کئی ملین مہاجرین کا سامنا کرنا پڑا، مگر انہوں نے کمال مہارت سے انہیں کیمپوں تک محدود رکھا اور ایرانی معاشرے کو نقصان نہ پہنچنے دیا۔ جنرل ضیاکی حماقت کا نتیجہ ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کی صورت میں نکلا۔ آج پاکستان کی قبائلی ایجنسیوں میں جو عسکریت پسندی اور قتل وغارت جاری ہے، اس کی بنیادی ذمہ داری جنرل موصوف پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے افغان مہاجرین کو پاکستان کے چاروں کونوں تک پھیلنے کی اجازت دی۔ آج افغان عنصر کو مقامی آبادی سے الگ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ وہ روس کو شکست دینے پر نازاں تھے، مگر آج امریکی ماہرین برملا انھیں کرائے کا ایک سپاہی قرار دیتے ہیں، جس نے معاوضہ لے کر بھرپور خدمات ادا کیں۔ ان دنوں دنیا بھر سے اربوں ڈالر کی امداد آئی، مگر وہ ہوا میں اڑا دی گئی۔ایک بھی بڑا قومی پراجیکٹ نہ بن سکا۔ وہ بآسانی ایک بڑا ڈیم بنا سکتے تھے، مگر وقتی مصلحتوں کے تحت اس سے گریز کرتے رہے۔

    جنرل ضیاءالحق کی اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ وہ تمام عمر بھٹو کے سائے سے بھاگتے رہے، مگر ان کا اقتدار ختم ہوتے ہی اسی بھٹو کی بیٹی وزیراعظم بن گئی۔ کرنل (ر) رفیع الدین بھٹوصاحب کی قید کے دنوں میں جیل کے انچارج رہے۔ ان کے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ اچھے مراسم تھے۔ جنرل کی مخصوص مسکراہٹ اور’’منکسر المزاجی‘‘ کا ان پر گہرا اثر تھا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کو کئی سال گزرگئے۔ کرنل رفیع الدین ریٹائرمنٹ سے پہلے ضیاء الحق سے ملنے گئے، واپسی سے قبل انہوں نے برسبیل تذکرہ بتایا،’’میں ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دنوں پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘یہ سنتے ہی جنرل ضیاء الحق کا مسکراتا چہرہ متغیر ہوگیا، اور آگ بگولا ہوکر کہنے لگے، بھٹو کو تو اس کے گھر والے بھی بھول گئے ہیں، اب تم اسے کیوں زندہ کرنا چاہتے ہو؟ کرنل رفیع ان کا یہ روپ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔

    17 اگست 88ء کو بیس برس گزر گئے۔ اس دن کی پراسراریت آج تک نہیں کھل سکی۔ طیارے کے اس حادثے کے اصل ذمہ داروں کا تعین بھی نہیں ہوسکا۔ ان کے حامی بھی حکومت ملنے کے باوجود کوئی پیش رفت نہ کرسکے۔ اس حوالے سے دو رپورٹس بڑی اہم ہیں۔ ایک کراچی کے ہفت روزہ تکبیر کی، جس نے باقاعدہ طور پر پاک فوج کے ایک سابق سربراہ کو ملزم ٹھہرایا۔ اس رپورٹ میں مبینہ ملزموں کے نام بھی دیے گئے۔ دوسری رپورٹ پچھلے سال معروف عالمی جریدے ’’ورلڈ پالیسی جرنل‘‘ میں باربرا کراسیٹ نے تحریرکی۔جس میں اس وقت بھارت میں مقیم امریکی سفیر جان گنتھرڈین کے حوالے سے انکشاف کیا گیا کہ یہ کارروائی اسرائیلی تنظیم موساد کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گنتھرڈین نے جب اپنے حلقے میں اس شک اظہار کیا تو اسے فاتر العقل قرار دے کر نہ صرف فوری واپس امریکہ بلوا لیا گیا بلکہ فوری ریٹائر کر دیا گیا۔

    18 اگست 88ء کو اسلام آباد میں ماتم کناں اجتماع کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ان کا ممدوح اس قدر جلد تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جائے گا۔ وقت نے ان کے اپنے حامیوں کو اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا، بلکہ ان میں سے بہت سوں کے لیے ماضی شرمناک حوالے کے سوا کچھ نہیں۔ تاریخ کے ترازو میں جنرل ضیاء الحق دیگر تمام آمروں کی طرح ہلکے ثابت ہوئے۔ غیر جانبدار مئورخ کسی تامل کے بغیر پوری سفاکی سے انہیں پاکستانی تاریخ کا بدترین ڈکٹیٹر قرار دیتے ہیں۔ یہی وہ بے رحم فیصلہ ہے، جس کا سامنا ہر آمر نے جلد یا بدیر کرنا ہوتا ہے۔

  • جمہوریت اورسیاستدانوں کی ذمہ داریاں –  ملک محمد سلمان

    جمہوریت اورسیاستدانوں کی ذمہ داریاں – ملک محمد سلمان

    ملک سلمان قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہمارے ملک میں مخلص اور دیانتدار سیاسی لیڈر شپ ناپید ہو گئی تھی، اس خلا کو پورا کرنے کے لیے طالع آزما لیڈر شپ نے جنم لیا مگر اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جمہوریت پر ایسے وار کیے کہ یہ بےچاری لولی لنگڑی ہو کر رہ گئی۔ مفاد پرست لیڈروں کے مسلسل اقتدار میں رہنے سے ملک کو ایک تو صاف ستھری لیڈر شپ نصیب نہ ہوسکی اور دوسرا یہ کہ آمریت کو مسلسل فروغ ملا جس سے جمہوری ادارے نیم جان ہو کر رہ گئے اور ذرائع ابلاغ کو ذاتی تشہیر کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی باگ ڈور ہمیشہ سے جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے ہاتھوں میں جکڑی رہی ہے، جنھوں نے مجبور و بے کس جمہوریت کو دولت کے بل بوتے پر خریدے رکھا اور ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے بجائے ذاتی جاگیر سمجھ کر لوٹ کھسوٹ کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے ملکی دولت سے اپنی تجوریاں خوب بھریں۔

    یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عوام جمہوریت کو پسند تو کرتی ہے لیکن دل سے قبول نہیں کرتی۔ اس کی اصل وجہ ملک میں مخلص اور دیانتدارانہ قیادت کا فقدان اور مفاد پرست لیڈروں کی بھر مار ہے۔ ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے جن بنیادی عوامل کی شدید ضرورت ہے اس سے انحراف ان خود غرض سیاستدانوں کی عادت بن گئی ہے۔ فلور کراسنگ کی پابندی کے باوجود ارکان اسمبلی کے روز بروز فارورڈ بلاک کی مسلسل تشکیل نے اس بات کو سچ کر دکھایا ہے کہ جمہوریت کی اصل قاتل یہ سیاسی لیڈر شپ ہی ہے جو اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر ہرگز قربان نہیں کرنا چاہتی اور جمہوریت کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنے کی متمنی ہے۔

    یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جمہوریت میں بھی غریبوں کو سستے بھائو انصاف ملتا ہے نہ ان کے چھوٹے موٹے مسائل حل ہوتے ہیں، وہ بےچارے دکھوں کے مارے سسک سسک کر اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ چوکیاں، تھانے، عدالتیں اور ثالثی کونسلیں، یہ سب کے سب ادارے غریبوں اور دکھ کے مارے لوگوں کے لیے نہیں ہیں بلکہ یہاں بھی سیاسی اور صحافتی بلائوں اور آفتوں اور کالے جنوں کا قبضہ ہے۔ تھانے اور چوکیوں میں بھی کسی شریف آدمی کو بیٹھے نہیں دیکھا بلکہ دو نمبری صحافیوں، کن ٹٹے سیاسی ورکروں اور پولیس ٹائوٹوں اور مخبروں کو اکثر براجمان دیکھا ہے۔ امید تھی کہ مارشل لا کے ظلم سے تنگ آئے سیاستدان اور افسران اپنا قبلہ درست کرکے جمہوریت کو چار چاند لگائیں گے، غریبوں، مفلسوں اور مسکینوں کے مسائل و مشکلات کا مداوا کرنے کے جتن کریں گے مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا. غریبوں، مسکینوں اور بے سہارا لوگوں کے مسائل بڑھ گئے ہیں، یہ لوگ سیاسی ڈیروں پر سارا دن زمین پر بیٹھ کر اپنی انگلیوں سے دائرے بناتے تھک ہار کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسا ہنر نہیں ہوتا جس سے وہ کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو رام کر سکیں. ایسے ڈیروں پر کن ٹٹے ورکروں اور دو نمبریوں کو چوہدراہٹ نصیب ہوتی ہے اور پھر یہ لوگ ڈیروں پر آئے ہوئے مجبور بے کس لوگوں سے سودے بازی کرتے ہیں اور اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں. جو دے جائے اس کو دیدار کرا دیا جاتا ہے ورنہ تسلی کے جام پلا کر گھروں کو واپس بھیج دیا جاتا ہے.

    ملک کی اقتصادی، معاشی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی جا رہی ہے، سرمایہ کاری کا عمل سست پڑ رہا ہے، صنعتی ترقی کا عمل رک گیاہے، امن و امان درہم برہم ہو رہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کار ایسی صورتحال میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں، تعلیمی سرگرمیاں مانند پڑ رہی ہیں، سنگین جرائم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بااثر افراد قانون کو ہاتھ میں لے کر نقص امن کے مرتکب ہو رہے ہیں، سیاسی مصلحتوں نے غریب عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے، جنگل کا قانون فروغ پا رہا ہے، شریف آدمی کی عزت نفس سر بازار مجروح کی جا رہی ہے، انصاف خاموش ہو رہا ہے اور ظلم کی سیاہ راتیں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ سیاستدانوں کے لیے یہ ایک عظیم لمحہ فکریہ ہے۔

    ہمارے سیاسی نظام کی بدقسمتی اور بدنصیبی یہ رہی ہے کہ فوج اقتدار پر مسلط ہو کر جانے کا نام نہیں لیتی۔ جو سیاستدان فوج کو اقتدار میں آنے پر مجبور کرتے ہیں پھر وہی فوج پر انگلیاں بھی اُٹھانا شروع کر دیتے ہیں، بار بار فوج کو اقتدار میں آنے سے جہاں اس کے وقار کو زک پہنچی وہاں جمہوری نظام بھی متزلزل ہوا. اب امید رکھنی چاہیے کہ سیاستدان ایسی غلطیاں نہیں دہرائیں گے جس سے فوج اقتدار پر قابض ہو کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دے ۔ سیاستدانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سیاسی یکجہتی، برداشت، رواداری اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اختلافات و تنازعات مٹائیں، اور ایک جگہ بیٹھ کر ملک کے گھمبیر مسائل کا مثبت حل تلاش کریں۔

  • انسانی ضرورت، نظام یا انتظام؟ نصیر احمد ناصر

    انسانی ضرورت، نظام یا انتظام؟ نصیر احمد ناصر

    نصیر ناصر وطن عزیز اپنے قیام کے دن سے ہی انقلابات کی یلغار مسلسل سہہ رہا ہے، حالیہ دور میں کہیں سونامی سے تقدیریں بدلنے کا غلغلہ ہے، تو کہیں کینیڈا میڈ انقلاب ریاست بچانے کے لیے کمر باندھے نظر آتا ہے، کوئی جمہوریت بچانے کے درد میں مبتلا ہے تو کوئی مارشل لاء کے نفاذ میں ہی عافیت کے سبق پڑھا رہا ہے، ایک طبقہ خودکش بمباروں کے ذریعے ’’نظامِ ظلم ‘‘ بدلنے کا داعی ہے تو دوسرا اپنے ہی ملک کی آبادی کو ڈرون حملوں سے تہس نہس کرا کے تبدیلی کے خوش نما مناظر دکھا رہا ہے.

    انقلاب اور تبدیلی کی خواہش اور امید کے ساتھ 70سال کا طویل دورانیہ گذارتے گذارتے اس بے کس قوم کی کتنی ہی نسلیں ناامیدی کی موت مرچکی ہیں اور موجود نسلوں میں سے ہر پیر و جواں نت نئے انداز کے نعروں اور وعدوں کو دیکھتے ہوئے آج اس حالت کو پہنچ چکا ہے کہ اسے ہر قائد انقلاب مداری، ہر طرزِ انقلاب دھوکہ، اور ہر منزل انقلاب سراب نظر آتی ہے، اور ہر لگنے والے تماشے کے بعد نئے تماشے کا انتظار شروع ہوجاتا ہے. نصف صدی سے زائد مدت میں پارلیمانی، صدارتی، سول و فوجی آمریت سمیت ہر اس نظام کو اس ملک کی بدقسمت عوام پر تجرباتی بنیاد پر آزمایا گیا ہے، جس کا تصور بھی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں ممکن نہیں، رنگ برنگی دستوری موشگافیوں، آئینی ترمیموں، قانون سازی اور نام نہاد عوامی و قومی مفاد کے بینر تلے نمائش کے لیے پیش کی گئی ہارر، فنی اور ٹریجڈی فلموں کے ذریعے عوام کے اعتبار، وقار اور جان و مال کو حصول اقتدار کا ذریعہ بنا کر ملک و قوم کو پستی و تباہی کے پاتال میں دھکیلنے کا سلسلہ جاری ہے، اور اس مکروہ کھیل میں صرف خون آشام سیاسی اشرافیہ ہی نہیں، جبہ ودستار کے حاملین بھی پوری تندہی اور جانفشانی سے شریک ہیں، جن کی سیاسی میدان میں ’’عوامی خدمات‘‘ نے عوام کو صرف’’ اسلامی سیاست ‘‘سے ہی بیزار نہیں کیا بلکہ ’’اسلام‘‘جیسے نفیس اور کامل ضابطہ حیات سے بھی برگشتہ کرنا شروع کردیا ہے.

    ایوان ہائے اقتدار تک ہرجائز یا ناجائز طریقہ سے پہنچنے والے تمام سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور فوجی آمروں نے قوم اور ملک کے ساتھ کھلواڑ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، لیکن عوام کے مفادات کی نام نہاد جنگ میں برسر پیکار ان رہنمایان قوم کے کوڑھ زدہ دماغوں میں کبھی ایک لمحہ کےلیے بھی یہ خیال نہیں گزرا کہ ریاست ہو یا حکومت، جمہوریت ہو یا آمریت، ان سب کی بنیاد انسانی معاشرہ ہے، جس کی ابتداء و انتہاء ’’انسان‘‘ہے. حکومت اور نظام حکومت کا وجود انسانی معاشرہ کی فلاح وبقا کے لیے تشکیل پاتا ہے، نہ کہ علاقہ، ملک یا خطہ زمین کے لیے، یہی وجہ ہے کہ ہر ترقی یافتہ معاشرہ اور ریاست میں ہمیشہ ریاست وحکومت کی تمام تر ذمہ داریوں کا محور ’’انسان‘‘کو بنایا گیا ہے، اور اسی نظریہ کی بنیاد پر ریاستیں اور حکومتیں اپنے شہریوں کی عزت وحرمت، جان ومال کی حفاظت اور فلاح وبہبود کےلیے آخری حد تک چلی جاتی ہیں، اور ان کے نزدیک ہر وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی سخت ترین گرفت کا موجب قرار پاتا ہے، جو ریاست کے بنیادی عنصر ’’انسان‘‘ کی بقا و ترقی اور فلاح کو متاثر کرتا نظر آئے، اور یہ خصوصیت کسی مخصوص ’’نظام ‘‘سے نہیں بلکہ’’ انتظام ‘‘کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے.

    لیکن شاید منظم دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں آج تک انتظام کے بجائے نظام سے تبدیلی لانے کی خواہش لاحاصل نے جنت ارضی کے مصداق اس ملک کو نہ صرف ایک انوکھی تجربہ گاہ میں بدل ڈالا ہے بلکہ اقتدار کے بھوکے بھیڑیوں نے ہوس اقتدار اور دوامِ اقتدار کےلیے حکومتی اداروں، نظام حکومت اور عناصر ریاست کےلیے ریاست و حکومت کے بنیادی محور’’انسان‘‘ کے بنیادی حقوق کی پامالی، انصاف کی عدم فراہمی، حقوق معیشت کی سلبی، اور امن و تحفظ سے محرومی کو صرف حلال ہی قرار نہیں دیا بلکہ انسانی خون کو بھی غیر تحریری معاہدہ کے تحت جائز قرار دے رکھا ہے. سیاسی، سماجی، مذہبی و معاشی اور ریاستی و حکومتی طاقت و قوت کے بل بوتے پر انسانوں کو انسانوں پر ظلم و بربریت کے تمام تر اختیارات تفویض کرکے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوام جمہوریت پسند کرتے ہیں یا آمریت، صدارتی نظام کے دلدادہ ہیں یا پارلیمانی نظام کے خواہاں، بنیادی جمہوریتوں سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں یا سول آمریت سے؟ ان سب سوالوں کا شافی جواب صرف ان ماؤں سے لیا جا سکتا ہے جن کی گودیں اس ظالمانہ انتظام نے اجاڑ ڈالی ہیں، اور یہ خون خرابے کا سلسلہ تھما ہے اور نہ رکنے کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں، کیوں کہ نام نہاد انقلابیوں کے روزگار کا واحد ذریعہ بھی انسانی خون ہے اور عوام کے دکھ میں ہلکان ہوتے حکمرانوں کے اقتدار کےلیے آبِ حیات بھی یہی انسانی خون قرار پاچکا ہے.

    مسلسل تجربات سے تھکی ہاری اور نت نئے عذابوں میں مبتلا قوم کےلیے نظام کے نام یا طرز میں کوئی چاشنی باقی ہے نہ نعروں اور وعدوں میں کوئی دلکشی، عوام تو ایسے انتظام کے خواہاں ہیں جس میں انسان کی توقیر سلامت رہے، عزت وحرمت محفوظ ہو، معاشی، سماجی، مذہبی حقوق اور ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں، بلاتفریق حصول ِانصاف کا حق میسر ہو، اور کوئی بھی فرد یا ادارہ، گروہ یا جماعت، طبقہ یا مسلک کسی دوسرے کے حقوق غصب نہ کرسکے، ایسا انتظام جس نظام نے بھی فراہم کردیا، وہی نظام کامیاب بھی ہوگا اور عوامی امنگوں کا ترجمان بھی قرار پائے گا.

  • سیکولر، لبرل، قوم پرست دہشت گردی (1)…اوریا مقبول جان

    سیکولر، لبرل، قوم پرست دہشت گردی (1)…اوریا مقبول جان

    omj-harfaraz-1466700536-530-640x480
    موجودہ دور کے ترقی پسند دانشوروں میں دو تصورات بہت مقبول ہیں۔ ایک سیکولر اور دوسرا لبرل۔ ترقی پسندی بھی عجیب چیز ہے، آج سے صرف پچیس سال قبل ترقی پسندوں میں ایسے دو تصورات بہت مقبول تھے، ایک کمیونزم اور دوسرا مزدور کی آمریت۔ جمہوریت ان کے نزدیک سرمایہ دارانہ تعیش کا دوسرا نام تھا اور لبرل ہونا دراصل معاشرے کو کھلی چھوٹ دے کر سرمایہ دار کو کھل کھیلنے کا موقع دینا تھا۔ ان کی ہدف تنقید لبرل معیشت تھی جسے عرف عام میں Laissez-Faire کہا جاتا ہے یعنی ریاست کاروباری معاملات میں بالکل دخل نہ دے اور سرمائے کے زور پر منڈی کی معیشت کو چلنے دے۔تقریباً دو سو سال دنیا کا ہر بڑا ادیب، شاعر، افسانہ نگار اور دانشور ترقی پسندی کے اس تصور سے متاثر تھا اور جمہوریت، لبرل ازم اور سیکولر ازم کو استحصال کی علامتیں تصور کرتے ہوئے۔
    ان سے نفرت کرتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کے کتنے بڑے نام ہیں جو انھی تصورات کے حامل تھے، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، اخترالایمان، جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری، سبط حسن، علی عباس جلالپوری، احمد ندیم قاسمی، ظہیر کاشمیری، سجاد ظہیر اور اس قبیل کے ہزاروں نام ایسے ہیں جو ہندوستان میں مزدوروں اور کسانوں کے انقلاب کا پرچم لہرانا چاہتے تھے۔ یہ سب کسی جمہوری جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ جتھہ بندی، خفیہ تنظیم سازی، استحصالی طبقوں سے جنگ اور بالآخر لینن کی سرخ فوج یا ماوزے تنگ کے لانگ مارچ کی طرح اقتدار پر قبضہ کر کے کمیونسٹ نظام کو نافذ کرنا چاہتے تھے۔ اس برصغیر کی پوری ایک صدی ان ادیبوں، شاعروں، افسانہ نگاروں اور دانش وروں نے اس طرز انقلاب اور جدوجہد کے قصیدے تحریر کیے۔ صرف پاک و ہند میں ہی نہیں بلکہ جہاں کہیں کوئی تحریک مزدور کی آمریت نافذ کرنے کے لیے کام کر رہی تھی۔
    انھوں نے اس کے حق میں آواز بلند کی۔ ان کی تحریریں اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان میں کسی مسلمان تشخص والی تحریک یعنی تحریک آزادی کشمیر کا تذکرہ بہت ہی کم ملے گا مگر انگولا، ویت نام اور کیوبا کے شہدا کو سرخ سلام دیا جا رہا ہو گا۔ چہیہ گیویرا اپنے ملک سے نکل کر تین دوسرے ملکوں میں جا کر ہتھیار اٹھا کر وہاں کی ’’سرمایہ دارانہ‘‘ حکومت کے خلاف لڑتا ہے لیکن کوئی اسے درانداز، گھس بیٹھیا یا دہشت گرد نہیں کہتا، کیونکہ کیمونزم کا بھی اپنا ایک دو قومی نظریہ ہے۔ ان کے نزدیک دنیا دو قوموں میں تقسیم ہے ایک سرمایہ دار جسے وہ بوژوا کہتے ہیں اور دوسرے مزدور جسے وہ پرولٹوریٹ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے جب کمیونسٹ مینی فیسٹو تحریر کیا تو اس کا آخری فقرہ یہ تھا ’’دنیا بھر کے مزدور متحد ہو جاؤ‘‘۔
    کمیونزم کے نزدیک رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور قومیت کے نعرے دراصل سرمایہ دار نے مزدور کو تقسیم کرنے کے لیے لگائے ہیں تاکہ مزدوروں کو ان میں الجھا کر آپس میں لڑائے اور خود حکومت کرے۔ مزدوروں کی آمریت کا یہ نظام 1917 میں روس میں نافذ ہوا، اور پھر آدھی دنیا کی حکومتوں میں بزور طاقت نافذ کیا گیا۔ اس میں کسی جمہوری جدوجہد کا کوئی دخل نہ تھا۔ جب تک یہ نظام دنیا میں نافذ رہا۔ اسی مزدوروں کی آمریت کے سرخیل ملک سوویت روس سے فیض احمد فیض اور دیگر ادیبوں شاعروں نے ادب کے لینن انعامات وصول کیے اور انھیں سینے پہ سجائے رکھا۔
    اس دوران انھیں تاجکستان، ازبکستان اور دیگر مسلمان ریاستوں میں مسلمانوں کا قتل عام یاد نہ آیا۔ انھیں یوکرائن کے وہ پچاس ہزار شہری بھول گئے جو زار روس کے وفا دار تھے اور انھیں شہر سے باہر نکال کر قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ پچاس ہزار انسانوں کی قطار، گولیوں کی تڑاخ پڑاخ اور گرتے ہوئے انسانوں کے لاشے۔ 1930 میں رد انقلاب طاقتوں کے خلاف ایکشن شروع ہوا تو پورے روس سے تین لاکھ پچاس ہزار لوگ گرفتار کیے گئے جن میں سے دو لاکھ سنتالیس ہزار ایک سو ستاون (2,47,157) افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 1937 میں منگولیا پر قبضہ مستحکم کرنے اور مزدور کی آمریت نافذ کرنے کا دور شروع ہوا تو پنتیس ہزار بدھ بھکشوؤں کو گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا۔

    15688_47507340
    چین میں ماؤزے تنگ کی کسان کی آمریت 1949 میں قائم ہوئی۔ اس کو مستحکم کرنے کے لیے 1966 میں رد انقلاب قوتوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا جسے کلچرل انقلاب کہتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ لاکھ لوگ صرف اس لیے مار دیے گئے کہ ان کے نظریات ماؤزے تنگ کی سرخ کتاب میں دیے گئے نظریات سے مختلف تھے۔اس پچاس سالہ قتل و غارت کا ایک نوحہ، ایک مرثیہ بھی آپ کو ان ترقی پسند شعرا فیض ااحمد فیض، ساحر لدھیانوی، جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری، اخترالایمان یا دیگر کے کلام میں نہیں ملے گا۔ ان انسانوں کی موت پر کسی ناول نگار، افسانہ نگار یا کہانی کار نے کوئی کہانی تک تحریر نہ کی۔ اس لیے کہ جو کوئی ان کے نظریات کے مخالف ہوتا ہے وہ انسان کی نہیں، جانور کی موت مرتا ہے۔ جانور بھی وہ جسے تفنن طبع یا کھیل کود کے لیے شکار کیا جاتا ہے۔ ان عظیم ترقی پسندوں اور مزدور کی آمریت کے علمبردار دانشوروں کو جو کوئی اپنی آمرانہ نظریات کی صف سے علیحدہ نظر آتا اسے مطعون کرتے، گالی دیتے، خوفزدہ کرتے۔ سعادت حسن منٹو اور انتظار حسین ان کے تیروں کا ٹھیک ٹھیک نشانہ تھے۔

    intizar-hussain
    انتظار حسین صاحب کی زندگی کا آخری انٹرویو میں نے اپنے پروگرام ’’متبادل‘‘ کے لیے کیا۔ وہ پاک ٹی ہاؤس کے اس ماحول کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی رنجیدہ ہو گئے جب انھیں یہی ترقی پسند قابل نفرت سمجھتے تھے۔ کہتے تھے، یہ ماضی کے قصے سنا کر رومانیت پیدا کرتا ہے اور انقلاب کی منزل کھوٹی ہو جاتی ہے۔ موجودہ دور کے اکثر لبرل اور سیکولر اس دور میں نوجوان تھے اور اسی گروہ میں شامل تھے جو انتظار حسین جیسے افسانہ نگاروں کو خوفزدہ کرتے تھے۔ ادب کے میدان میں ان کی دہشت گردی کا عالم یہ تھا کہ ان کے سامنے علامہ اقبال کا نام لینا ایسے تھا جیسے آج کے دور میں اسامہ بن لادن کا تذکرہ کر دیا جائے۔
    اس کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں ان کے نظریات کے حامل ایسی ہر طرح کی خونریزی کے قائل تھے جس سے مزدور کی آمریت قائم ہو سکے۔ پاکستان کا پہلی فوجی ناکام بغاوت راولپنڈی سازش کیس تھا جو جنرل اکبر خان کی سربراہی میں منظم کیا گیا اور جس میں فیض احمد فیض اور دیگر شامل تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس فوجی انقلاب کے حق میں جیل کاٹنے کے دوران فیض احمد فیض نے زنداں نامہ تحریر کی۔ آج کے سیکولر اور لبرل اسی کتاب کی نظموں کو جمہوریت، سیکولر ازم اور لبرل ازم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس دور کا سب سے قابل نفرت نام امریکا تھا۔ یہ کمیونسٹ اور ان کے حامی ترقی پسند ادیب و شاعر جس کسی سے نفرت کرتے، جسے برا بھلا کہنا مقصود ہوتا اسے امریکی ایجنٹ کہہ کر پکارتے۔
    کمیونزم پچھتر سال آدھی دنیا پر مزدور کی آمریت کو نافذ کرنے کے بعد ذلت و رسوائی کی موت مر گیا۔ وہ سینٹ پیٹرز برگ کا شہر جس کا نام بدل کر لینن گراڈ رکھ دیا گیا اور وہاں لینن کا بہت بڑا مجسمہ نصب کر دیا گیا۔ اسٹالن برسراقتدار آیا تو اس کا نام اسٹالن گراڈ رکھا گیا، اس کے مرنے کے بعد دوبارہ لینن گراڈ ہو گیا اور اب پھر سے سینٹ پیٹرز برگ ہے۔ کمیونزم کا زوال آیا تو اسی شہر میں لوگ مجسمے کے گرد جمع ہوئے اور اس کے بانی لینن کا مجسمہ زمین بوس کر دیا گیا۔ چین میں ماؤزے تنگ کا لانگ مارچ منڈی کی معیشت اور سرمایہ دارانہ ماحول کی روشنیوں میں گم ہو گیا۔ دنیا بھر کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور سیاسی پنڈتوں پر ایک سناٹا طاری ہو گیا۔ اب کیا کریں۔

    hqdefault
    ہمارے نظریات کا معبد تو مسمار ہو گیا ہے۔ چند ایک اس نظریاتی معبد کے پجاری کی طرح اس کی راکھ کو اکٹھا کر کے دوبارہ تعمیر کرنے میں مصروف ہو گئے لیکن باقی سب کے سب اسی امریکا کے مدح سرا بن گئے جس کو وہ اور ان کے پیش رو گالی دیتے آئے تھے۔ نظریاتی طور پر زندہ رہنے کے لیے ایک نظریے کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ اب امریکا اور مغرب اور ان کا سرمایہ دارانہ معاشرہ ہی آئیڈیل تھا اس لیے وہ سارے نظریے جو 1992 تک باطل تھے اب معزز ہو گئے۔ سیکولر ازم، لبرل ازم، آزاد معیشت اور سودی بنکاری کے سرمائے سے جنم لینے والی جمہوریت۔ یہ موجودہ دور کے دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں کے نظریاتی پرچم بن گئے۔ پہلے امریکا اور سرمایہ دار قابل نفرت تھے اور اب اسلام اور مسلمان حقارت کی علامت بنا دیے گئے۔ وجہ سیکولر ازم کی وہ تعریف ہے جو دنیا کی ہر مستند ڈکشنری یالغت میں درج ہے۔ کیمرج ڈکشنری کے بقول سیکولر ازم کا مطلب ہے
    (The belief that religion should not be involved with ordinary Social and Political activies of a conuntry)
    ’’ایسا عقیدہ جس کے مطابق مذہب کا انسان کی معاشرتی اور سیاسی زندگی سے تعلق نہ ہو‘‘۔ آکسفورڈ ڈکشنری سیکولر ازم کی مزید تشریح کرتی ہے۔
    (Denoting attitudes,activities or other thigs that have no religious and spritual basis)
    ’’ایسے خیالات اور عمل جن کی کوئی مذہبی یا روحانی بنیاد نہ ہو‘‘۔ دونوں تعریفوں میں مذہب اور روحانیت کو سیاست ہی نہیں بلکہ معاشرے سے بھی بے دخل کرنے کا نام سیکولر ازم ہے۔ اس سیکولر ازم کی کوکھ سے اس انتہا پسندی اور دہشت گردی نے جنم لیا جس نے ہر اس معاشرے، گروہ یا ملک کو تباہ کرنا شروع کر دیا جہاں مسلمان بحیثیت مجموعی اسلامی اقدار پر عمل پیرا نظر آتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک دنیا میں اسلام ہی ایک ہی مذہب ہے جو معاشرتی اور حکومتی سطح پر مذہب کا عمل دخل چاہتا ہے۔ افغانستان اور عراق کی تباہی تو ملکوں کی ملکوں پر جارحیت تھی لیکن فجورڈمین FJORDMAN جیسے سیکولر بلاگر کا کیا کیا جائے جس نے ناروے میں Counter-Jihad ،نام سے جہاد کے خلاف سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا اور اس سے متاثر ایک شخص اینڈرس بیورک (Anders Breivik) نے 2011 میں اوسلو میں دھماکا کر کے 77 لوگ مار دیے اور اب اسی نظریے کے حامی جرمنی کے علی ڈیوڈ سنبلی نے میونخ میں چند روزقبل ،قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا۔
    (جاری ہے)

  • میرا سوال آپ سے ہے – احمد بلال

    میرا سوال آپ سے ہے – احمد بلال

    احمد بلال پاکستان کو بنے 69 سال ہوچکے ہیں اور ہم اب تک نظریاتی کشمکش کا شکار ہیں. ہم نہیں سمجھ سکے کہ کون سا نظام ہمارے لیے سودمند ہے؟ وہ کون سی اقدار ہیں جن پہ عمل پیرا ہونے سے ہم کسی مثبت نتیجے پہ پہنچ سکتے ہیں؟ کب ہماری زندگی میں تمدن کی کوئی راہ ہموار ہوگی؟ یہ سوال بہرحال موجود ہے اور رہے گا، جب تک کہ ہماری قومی زندگی ہیجان سے نکل کر کسی ایک راستے پہ گامزن نہیں ہو جاتی.

    آج کل بہت شور اٹھ رہا ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک ہر طرف فوج کے آنے اور جمہوریت ڈی ریل ہونے کے حق اور مخالفت میں دلیلیں دی جا رہی ہیں. پاکستان نے جمہوریت اور آمریت کے کم و بیش 35،35 سال برداشت کیے ہیں تو کون سا دوراقتدار ایسا تھا جس کے اختتام پہ لوگوں نے خوشی نہیں منائی؟ کون سی ایسی حکومت تھی جس کے خاتمے کے بعد عوام نے سکھ کا سانس نہیں لیا؟ کون سا ایسا سیاست دان یا آمر تھا جس کا انجام قابل رشک ہوا؟

    ہماری مثال اس بیل کی سی ہے جس کی ایک ٹانگ رسی سے بندھی ہو اور رسی کا دوسرا سرا ایک کھونٹی سے باندھا ہو اور وہ مسلسل دوڑ رہا ہو لیکن خود کو ہلکان کرنے کے بعد بھی سمجھ نہ پا رہا ہو کہ وہ ادھر کا ادھر ہی کھڑا ہے جہاں سے اس نے عرق ریزی شروع کی تھی. ہم ایسی بحثوں کا شکار ہوئے ہیں جو ہمارے لیے کسی کام کی نہیں ہیں. یہ بات کہنا کہ فوج آجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن کیا ہم ہمیشہ کے لیے اس نظام کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے وقار کو بحال کیا ہے اور دہشت گردی کے معاملے میں ان کی حکمت عملی قابل تحسین ہے، لیکن کیا وہ نظام حکومت بھی ایسے ہی چلا سکیں گے؟ کیا ہمیں ہمیشہ راحیل شریف جیسے جنرل میسر ہوں گے؟ یقینا نہیں کہ قدرت کا قانون ہی ایسا ہے، تو گویا پھر سے جمہوری نظام کو عوام اپنا نجات دہندہ گردانے گی؟ کیا ہم پھر سے اس روش کے متحمل ہوسکتے ہیں جسے قیام پاکستان سے 2008 تک جاری رکھا گیا؟

    اس میں کوئی شک نہیں کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے. لیکن یہ نعرہ لگا کر کہیں ہم کسی مغالطہ کا شکار تو نہیں ہو رہے؟ ذر ا پنے اردگرد نظر دوڑائیے، کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے؟ جمہوریت کا مطلب جمہور یعنی عوام کی حکومت، لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سب سے زیادہ حقوق کی پامالی بھی جمہور کی ہو رہی ہے. کیا اس جمہوری نظام میں امید بھی کی جا سکتی ہے کہ کوئی حقیقی عوامی نمائندہ جو عوام میں سے ہو، اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکتا ہے؟ پہنچنا تو دور کی بات ہے عام آدمی کے لیے تو الیکشن لڑنے کا تصور کرنا بھی محال ہے. جب جمہوریت ملوکیت کا روپ دھارنے لگے اور وہی سرمایہ دار، جاگیر دار ، صنعت کار لوگوں پر بار بار مسلط ہو رہے ہوں تو ایسا جمہوری نظام بھی بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے! عوام کو سوچنا چاہیے کہ وہ نظام جس کی بنیاد عوام ہیں، اگر اس میں عوام کی نمائندگی ہی نہیں تو یہ کیسے ان کے مفاد کی حفاظت کر سکتی ہے؟

    “جمہوریت بہتر نظام زندگی ہے” کے دعوے کے اثبات کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جمہوریت میں مفاد کا مرکز عوام ہوتی ہے جبکہ آمریت میں ایک شخص عوامی مفاد کا ٹھیکے دار بنا ہوتا ہے. مگر پاکستانی قوم نے جمہوریت اور آمریت، دونوں کے نام پہ موقع پرست ہی دیکھے ہیں جن کا مقصد محض طاقت کا حصول تھا. ایک سپہ سالار کے لیے اس کی کارکردگی کا امتحان وہ میدان ہوتا ہے جہاں وہ اپنی طاقت سے معرکہ آرائی کرتا ہے، اس تناظر میں وہ ریاستی معاملات کو بھی اسی طرح چلانے کی کوشش کرتا ہے، جس کی کوئی قوم متحمل نہیں ہو سکتی. اسی طرح سرمایہ دار اور جاگیردار سیاستدانوں کی سوچ کی گاڑی کاروباری نفع نقصان کے گرد گھومتی ہے، قوم اور عوام کا نفع نقصان ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا. دونوں طرح کے لوگ پبلک آفس کے لیے موزوں نہیں ہوسکتے، اگر وہ ہوتے ہیں تو حال ہمارے ملک جیسا ہوتا ہے. مشرف آمریت کے بعد جمہوریت کو آئے ہوئے اب 9 سال ہونے کو ہیں، مگر کیا ایسی جمہوریت کا متحمل ہوا جا سکتا ہے جس میں مثبت پیش رفت کا سفر جامد ہونے کی حد تک آہستہ ہو؟ کب تک عوامی ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندے اپنے ہی ووٹرز کے سامنے جواب دہی کے احساس سے بے پروا رہیں گے؟ کب تک عوام کی قسمت میں مستقبل کے سہانے خواب ہی باندھے جائیں گے؟

    اب وقت بدل رہا ہے، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا نے زندگی میں ماضی جیسا ٹھہراؤ ختم کر دیا ہے. اب لوگ صرف امید کے سہارے کسی بھی نظام کے ساتھ صبر وتحمل سے جڑے نہیں رہ سکتے. لوگ سوال اٹھائیں گے اور اپنی فہم کے مطابق تنقید بھی کریں گے اورممکنہ راستے کریدنے کی تگ و دو بھی. ماضی کو کبھی بدلا نہیں جا سکتا. آمریت اور جمہوریت کے حق میں دلیلیں دینے والے اپنے پسندیدہ نظام کو بہتر ثابت کرنے میں کوشاں ہیں مگر عام آدمی کا استحصال جو گزشتہ سات دہائیوں سے ہو رہا ہے، اسے کس طرح جسٹیفائی کریں گے؟ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں ادوار میں مختلف طبقات نے صعوبتیں برداشت کی ہیں. عام آدمی کی حالت نہ جمہوریت میں بدلی نہ آمریت میں. ابراہم لنکن نے کہا تھا ” آپ سب لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے بےوقوف بنا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کو ہمیشہ بےوقوف بنا سکتے ہیں لیکن آپ ہمیشہ کے لیے سب لوگوں کو بےوقوف نہیں بنا سکتے” ۔ اب ہمیشہ جیسا ہوتا آیا ہے ویسا نہیں ہو سکتا، ماضی کی طرح لوگ اب مٹھائیاں تقسیم نہیں کریں گے. عام آدمی کی حالت نہ بدلی تو وہ جمہوریت ہو یا آمریت، دونوں کے انتقال پہ سکھ کا سانس لے گا. عام آدمی کا مفاد اس کے بنیادی حقوق اور بنیادی ضرورتوں سے جڑا ہوا ہے. جمہوریت کی زندگی جمہور سے مشروط ہے. وقت آ گیا ہے کہ عام آدمی اپنے حق کےلیے کھڑا ہو، آواز بلند کرے، اور فرسودہ جمہوری نظام کو بدلنے کی کوشش کرے. آخر کب تک ہم اس مسخ شدہ موروثی جمہوری بت کی پوجا کرتے رہیں گے؟