ہوم << استحصالی نظام اور ہم - سعداللہ شاہ

استحصالی نظام اور ہم - سعداللہ شاہ

مجھ پہ کیچڑ نہ اچھالے مرے دشمن سے کہو اپنی دستار سنبھالے مرے دشمن سے کہو وہ عدو میرا ہے اس کو یہ ذرا دھیان ر ہے اپنی قد کاٹھ نکالے مرے دشمن سے کہو ایسے ہی مجھے خیال آیا کہ ہم دوسروں سے مقابلہ کرتے وقت اسے چھوٹا کر کے خود کو بڑا دکھانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں! دوسروں کے عیب ہماری خوبیاں تو نہیں بن سکتے۔

آئینہ کے گھر میں رہ کر دوسوں پر سنگ باری چہ معنی دارد۔ بہرحال اس موضوع پر بعد میں بات کریں گے کہ کیسا معاشرہ متشکل ہو گیا ہے ۔ میں عام یا عموم کی بات کر رہا ہوں عموم میں جو خاص دہن دریدہ ہیں۔جو بقول منیر نیازی صرف منہ کھولتے ہیںاور خود بخود ان کے منہ سے الفاظ بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔میں نے جھڑنے کا ذکر نہیں کیا کہ جھڑتے صرف پھول ہیں ایسے بھی تو ہیںجو بات کریں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ چلیے اپنی بات کو بلند معیاروں پر لے جاتے ہیں کہ جو ہماری سنہری اقدار تھیں کیسی بات حمید حسین صاحب نے کر دی کہ ہمیں اپنے نظام کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے کہ جہاں الفاظ اپنی توقیر تک کھو چلے ہیں معانی اپنی جگہ شرمسار ہیں جب انہوں نے باتوں کی نشاندہی کی تو سچ مچ آنکھیں کھل گئیں کہ ایک لمحے کے لئے دیکھیے عالمی سطح کس طرح سے پراپیگنڈا کیا گیا کہ ہمارے لئے اپنی شرم و حیا کا دفاع کرنا بھی خلاف قانون ٹھہرا۔

انسان سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر کیسی کیسی دل آزاری کی گئی اور آزادی تہذیب کے نام پر تہذیبوں کی آزادی ختم کی گئی کہ آپ پردہ نہیں کر سکتے سکارف نہیں لے سکتے بعض جگہ تو اذان نہیں دے سکتے آپ گائے کا گوشت نہیں کھا سکتے کئی مثالیں ہیں یہ انسان کی سوچ؟کہ وہ اپنے نفس کے لئے چارہ مانگتا ہے وہ ایسے قانون کیوں بنائے جس سے اس کی ہوس کو لگام ڈالی جا سکے میرا خیال ہے بات ذرا ثقیل ہو گئی اور ہم اس کے عادی نہیں۔ سردست میری نظر سراج الحق صاحب کے بیان پر پڑ گئی کہ میرے موجودہ موضوع سے مطابقت رکھتا ہے۔ سراج الحق صاحب کا کہنا ہے کہ سود اور پاکستان اکٹھے نہیں چل سکتے۔اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ کہ اس حوالے سے پہلے بھی بہت کچھ لکھا جا چکا۔یہ میری اور آپ کی بات نہیں اللہ اپنے کلام میں کہتا ہے کہ سود لینے اور دینے والا مجھ سے اور میرے رسولؐ سے جنگ کے لئے تیار ہو جائے۔

اور پھر کتنی ناسمجھی کی بات ہے کہ ہم اس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے اللہ سے دعائیں کرتے ہیں آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ 1992ء میں جب شرعی عدالت نے سود کو حرام قرار دیا تھا تو نواز شریف صاحب سٹے لینے پہنچ گئے تھے ۔ یہ اور بھی دلچسپ اور مضحکہ خیز عمل ہے کہ ہم سود پر قانون سازی کرتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے قانون سازوں کی حیثیت ہی کیا ہے ایک چیز جسے خدائے بزرگ و برتر حرام قرار دے رہا ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کو تنبیہ کر رہا ہے اور ہم اس پر قانون سازی کرنے چلے ہیں۔ ہماری اوقات ہی کیا ہے۔ نظام ہم پے مسلط کیا گیا یہ استحصالی نظام ہے کم از کم اسے سمجھا تو جائے اس پر زیادہ سر بھی کھپانا نہیں پڑے گا ۔آپ کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا رول بھی آسانی سے سمجھ آ جائے گا۔سرمایہ داری نظام کا شکنجہ ہم پر کسا ہوا ہے وہ نہ مرنے دیتے ہیں اور نہ زندہ رہنے دیتے ہیں۔

ہم ان کی ضرورت ہیں ہمارے حکمران ان کے سہولت کار کہ ان کی آسائش اور عیاشیاں ان کے ساتھ وابستہ ہیں انہی کے ذریعے وہ ہم پر حکمران ہیں: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے مجھے اک تماشا بنا دیا بہرحال یہ ایک جال ہے جس کو توڑنے کی ہم کوشش کرتے ہیں تو اور الجھتے جاتے ہیں ویسے میں اس میں پھنسے ہوئے پرندے بھی ہیں کہ انہیں دانہ دنکا وہاں میسر ہے۔ مسئلہ تو بے چارے عوام کا ہے کہ جن کو نچوڑا جاتا ہے ایک نظر آپ موجودہ سیٹ اپ پر ذرا ڈالیں کہ استحصال میں تیزی آ گئی ہے کہ کسی طرح ہڈیاں تک بھنبھوڑ لی جائیں۔ معیشت کا ستیا ناس ہو گیا آئی ایم ایف نے خوب شکنجہ کسا اور لوگ فاقوں پر آ گئے : اس کو بھی بچانا ہے خود کو بھی بچانا ہے اک سمت ہے ذات اس کی اک سمت زمانہ ہے ن لیگ تذبذب میں ہے کہ نظام کو چلانے کے لئے مشکل فیصلے کرے۔

پہلے نمبر پر پٹرول کی قیمتوں کو بڑھائے مگر عدم اعتماد لا کر حکومت میں آنے والے پریشان ہیں کہ معیشت کا ساری ذمہ داری اب ان پر آ پڑی ہے وہ اپنی مار پر ہیں کہ جیسے تیسے وہ مشکل فیصلے ہی کر لیں جو انہیں نامقبول کر دیں گے مگر انہیں ڈیڑھ سال تو دیا جائے مگر عمران خان کی یلغار جار ی ہے انگریزی میں کہتے ہیں power dictates ساتھ ہی وہ محاورہ تھا: Power corrupts and absolete power corrupts absolutely. پورے نظام کو سمجھنے کے لئے کافی ہے اب مسئلہ اپنی ساکھ بچانے کا ہے۔ عوام کی کھال اتارنا بھی آسان نہیں گھوڑے سبھی ان کے معلوم ہوتے ہیں ہارنے والا اور جیتنے والا۔

قرآن کا فرمان ہے کہ کسی کا مال حیلے بہانے سے نہ کھائو۔یہاں تو مسئلہ ہی سارا مال کھانے کا۔جب فطرت سے ہٹتے ہیں تو خوفناک ہو جاتے ہیں۔واقعتاً تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے لیڈران کس سطح پر اتر آئے ہیں۔وہ جواباً پچھلوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔جو بھی ہے ہم استحصالی نظام کے تحت بغیر سوچے سمجھے چلے جا رہے ہیں ایک شعر: کیا بتائوں کہ وار کس نے کیا مسکراتا رہا میں گھائو کے ساتھ

Comments

Click here to post a comment