ہوم << مساجدکومندروں میں بدلنے کے بھارتی فیصلے - عبدالرافع رسول

مساجدکومندروں میں بدلنے کے بھارتی فیصلے - عبدالرافع رسول

بھارت میں پوری قوت کے ساتھ مساجد کو مندروں میں بدلاجا رہا ہے ۔اس حوالے سے انتظامیہ ،عدلیہ اورمقننہ کے گٹھ جوڑ کے ساتھ یک نکاتی پالیسی مرتب کی گئی ہے۔تکونی سازش رچاتے ہوئے مودی بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی بنیادیں مٹارہا ہے ۔مودی نے بھارتی عدلیہ کو یہ ٹھیکہ سونپا ہے کہ مسلمانوں کو زیر کرنے ،انہیں پھانسی کی سزائیں دینے اوران کی مساجد کوشہید کرنے کے لئے وہ آزاد ہے۔ جس پر بھارتی عدلیہ بلاجھجک عمل پیرا ہے۔

اس وقت بھارت میں تمام تاریخی مساجد کے خلاف بھارتی عدلیہ میں کسیز چل رہے ہیں۔عدلیہ سے یکے بعد دیگرے ان مساجدکو شہید کرکے ان کی جگہ مندر بنانے کے آڈر جاری ہورہے ہیں۔اس ناپاک اور اس شرمناک کھیل کاآغاز2019ء میں پانچ سو برس قدیم تاریخی بابری مسجدکی شہادت اور اس کی بنیاد پررام مندر بنانے کا فیصلہ سنانے کے ساتھ شروع ہوا تھا، جس کے بعد لگاتار کئی دیگرتاریخی مساجدکے خلاف فیصلے صادر ہوئے اور کئی مساجد شہید کردیں گئیں۔ المیہ یہ ہے کہ بھارتی عدلیہ ، مقننہ اورانتظامیہ کی اس مسلم کش سازش کے خلاف مسلم امہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔اس مجرمانہ خاموشی کافائدہ اٹھاتے ہوئے اوراسے شہہ پا کر اب پورے بھارت کی تاریخی مساجد کوشہید کرکے ان کی جگہ مندربنانے کے شرمناک فیصلے صادر ہو رہے ہیں ۔بھارتی عدلیہ کی اس شرمناک پالیسی کے بعداب ہندو بھارت میں یہ نہایت آسان بات ہے کہ کسی بھی مسجد پریہ جھوٹا الزام دھر لیاجائے کہ دراصل یہ پہلے مندر تھااوراسے توڑ کرمسجد بنا ئی گئی۔

اب اسے اپنی اصل حالت میں دوبارہ کھڑاکرکے مندر بنا دیا جائے۔ اس حوالے سے تازہ ترین معاملہ اتر پردیش میں گیان واپی مسجد ہے جسے شہیدکر کے اس کی جگہ مندربنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ گیان واپی مسجدکومندر قرار دیتے ہوئے ہندوئوں کا دعویٰ ہے کہ بنیادی طور مندر تھا جسے مغل بادشاہ اورنگزیب نے توڑ کر مسجد بنائی اس کے ساتھ ساتھ دوسرا معاملہ کرناٹک کے بنگلورو سے120 کلومیٹر دور شری رنگا پٹن میں موجود ایک جامع مسجد کا سامنے آیا ہے جس پر ہندئووں نے گیان واپی مسجد کی طرح دعویٰ کر دیا ہے کہ یہ بھی پہلے مندر ہی تھااور مندرکوتوڑ کرٹیپو سلطان نے اسے مسجد بنوائی تھی۔ ’’نریندر مودی وِچار منچ‘‘نامی ہندتنظیم نے اس مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ منچ کے سی ٹی منجوناتھ کاکہناہے کہ یہاں ایک ہنومان مندر ہوا کرتا تھا۔

دعویٰ تو یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس مسجد کی دیواروں پر سنسکرت تحریریں ملی ہیں جو ان کی مندر والی تھیوری کو طاقت دیتی ہیں۔انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے اس تعلق سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیاکہ کرناٹک میں جہاں یہ مسجد ہے اصل میں ایک مندر تھا۔ واضح رہے کہ ہندودہشت گرد تنظیموں جن کی سرپرستی براہ راست مودی کررہا ہے کا کہنا ہے کہ ہندوستان پرمغل سلطنت کے دوران مغلوں نے36000 مندروں کو توڑ دیا تھااورپھر مساجد تعمیر کی تھیں اب سبھی مندر واپس حاصل کیے جائیں گے۔ شری رنگا پٹن مانڈیا ضلع میں واقع ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پر ہندو ئوںکی ایک قسم ووکالیگا طبقہ کا اثر و رسوخ رہتا ہے جواس علاقے کو کرناٹک کا ایودھیا مانتے ہیں۔ اسی وجہ سے بی جے پی بھی اس علاقے میں اپنی توسیع کرنا چاہتی ہے۔

بھارت کے طول وعرض میں مساجد کا گھیرائو اور مساجد کے خلاف اٹھائے جانے والے طوفان بدتمیزی کو دیکھ کر8 مئی 2022ء کوممبئی کی سب سے بڑی مسجد کے مرکزی خطیب محمد اشفاق قاضی نے کہا ہے کہ ہماری اذان کی آواز کتنی ہونی چاہیے آج بھارت میں بی جے پی اورآرایس ایس کی سرپرستی میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والی تمام متعصب ہندو تنظیموں نے اسے ایک مسئلہ بنادیا ہے۔ان کاکہنا تھا کہ ہم نے اس کی شدت اورحدت کودیکھتے ہوئے ممبئی میں ایک اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں مہاراشٹر کے تین دیگر سینئر علما ء نے بھی شرکت کی جس میں ممبئی سمیت ریاست کے مغرب میں 900 سے زیادہ مساجد نے مقامی ہندو سیاست دان کی شکایات کے بعد اذان کی آواز کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مہاراشٹرکی ہندو پارٹی کے صدر راج ٹھاکرے نے اپریل 2022ء میں مطالبہ کیا تھا کہ مہارا شٹر کی تمام مساجداپنے لوڈاسپیکرز بند کردیں اورہمیں مساجد سے کوئی اذان سنائی نہ دے، اگر مساجد ایسا نہیں کرتیں تو ان کے پیروکار احتجاجاً مساجد کے باہر ہندو عبادت کریں گے۔

راج ٹھاکرے کاکہنا ہے کہ مسلمانوں کو سال کے پورے365 دن مساجد میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت کیوں ہے۔ برطانوی سامراج کے بعد بھارت بھر میں خونریز مسلم کش فسادات وقفے وقفے سے پھوٹتے رہے ہیں، بے حدوحساب مسلمان شہیدکردیئے گئے۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر کے مسلمانوں کا کہنا تھا کہ انکے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ۔ خیال رہے کہ مہاراشٹر میں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان اور 7 کروڑ سے زیادہ ہندو آباد ہیں۔ اذان کا مسئلہ مہاراشٹر سے باہر ملک کے دیگر حصوں تک بھی پھیلا ہوا ہے، تین ریاستوں میں بی جے پی کے سیاستدانوں نے مقامی پولیس سے عبادت گاہوں سے لاؤڈ اسپیکر کو ہٹانے یا ان کی آواز کو محدود کرنے کو کہا ہے۔ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ مساجد اور مندروں سے 60 ہزار سے زیادہ غیر اجازت یافتہ لاؤڈ اسپیکرز ہٹا دیے گئے ہیں۔

اسے قبل 30 اکتوبر 2021ء کو نئی دہلی کے مضافات میں واقع شمالی شہر گڑگاؤں میں ہندو گروہ ہفتوں سے حکام پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو کھلے مقامات پر نماز جمعہ ادا کرنے سے روکیں۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ جمعہ کو پولیس نے سیکڑوں اضافی اہلکار تعینات کیے اور کم از کم 30 افراد کو گرفتار کیا جبکہ مقامی لوگوں اور ہندو تنظیموں کے ہجوم نے نعرے بازی کی۔ 2018ء میں بھی ہندوئوں کی طرف سے مسلمانوں کے کھلے مقامات پر نماز پڑھنے پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا اور مسلمانوں کے لیے نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے تقریباً 35 کھلی جگہوں کی نشاندہی کی تھی یہاں مسلمان جمعہ کی نماز ادا نہیں کر سکتے۔

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عین جمعہ کی ادائیگی کے موقع پر مسلمانوں کو روکا گیااور جئے شری رام کے نعروں کا شور ڈالاگیا۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ ہندو قوم پرستوں کا سب سے بڑا نعرہ ہے۔شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے چند حصوں میں بھی جمعہ کومسلمانوں کے خلاف حملوں کے بعدجوانتہائی کشیدگی دیکھی گئی تھی اس کا ردعمل بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے بدلے کے طور پر دیکھا گیا تھاجس پر بھارت کو مرچیں لگیں اورو ہ سیخ پا ہوا تھا۔

Comments

Click here to post a comment