یہ کہانی کوئی عام کہانی نہیں ہے، یہ عشق و مستی میں گندھی ہوئی لازوال داستان ہے. یہ ایک عہد کی کتھا ہے، ناولوں اور افسانوں کے دیو مالائی کردار کی حقیقی داستان ہے. کسی مقصد اور کاز کے لیے جیے جانے اور وفا نبھانے کی انمول کہانی ہے .
گئے زمانے میں ایسے عجیب لوگ بھی تھے
جو اپنے ساتھ زمانہ بدل کے چلتے تھے
نانیوں ، دادیوں کی بچوں کو سنائی جانے والی وہ کویتا ہے جہاں شہزادہ پہاڑوں اور صحراؤں کو سر کرتا ہوا اپنی جان پر کھیل کر زنجیروں میں جکڑی شہزادی بچا لیتا ہے اور بچوں کی آنکھیں خوشی سے نم ہو جاتی ہیں. یہ بھی ایسی ہی کہانی ہے، دولخت ہوئے ملک کے مایوس اور رنجیدہ لوگوں کو فتح کے غرور اور آہنی دفاع سے توانا کرکے ناقابل تسخیر بنانے والے شہزادے کی کہانی ہے. یہ کہانی ہوش ربا بھی ہے اور سحر انگیز بھی۔
لیکن شاید ہر کہانی کا انت دُکھی ہی ہونا ہوتا ہے .
میرے باہر فصیلیں تھیں غبار بادوباراں کی
ملی مجھ کو تیرے غم کی خبر ، آہستہ آہستہ
عبدالغفور صاحب کا تعلق اورکزئی قبیلے سے تھا .وہ شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے. ان کے خاندان کو بھوپال میں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا. ۲۷ اپریل ۱۹۳۶ کو ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس کا نام عبدالقدیر خان رکھا گیا۔ ان کی تاریخ پیدائش کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ بھوپال میں میٹرک کا امتحان دینے کے لیے ۱۶ سال کی عمر کا ہونا شرط تھا. یکم اپریل کو میٹرک کا امتحان تھا اور تاریخ پیدائش کے مطابق ۲۷ اپریل کو یہ عرصہ پورا ہونا تھا. حمیدیہ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر ذکی صدیقی اپنے شاگرد کی قابلیت سے متاثر تھے، ان کی سفارش پر تاریخ پیدائش کو تبدیل کیا گیا اور اس طرح عبدالقدیر خان کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی ۔ ۱۹۴۷ ءکو تقسیم ہند کے بعد ان کے خاندان میں کچھ لوگ ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا،بھوپال میں بڑھتی ہوئی ہندو عصبیت کے کارن فسادات شروع ہوگئے اور۱۹۵۲ ءمیں عبدالقدیر خان اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی چلے آئے. اس وقت عبدالقدیر کی عمر ۱۶ برس تھی، یوں انہوں نے مملکت خداداد کی طرف پہلی ہجرت کی ۔ کراچی آ کر ڈی جے کالج اور بعد ازاں جامعہ کراچی میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۷ ءمیں گریجویشن مکمل کی اور سٹی گورنمنٹ میں کچھ عرصہ ملازمت بھی کرتے رہے، لیکن اعلی تعلیم کا شوق انہیں دیار غیر میں لے گیا. ۱۹۶۱ ء میں مغربی جرمنی میں سکالرشپ پر اعلی تعلیم کے لیے عازم سفر ہوئے ۔ ہالینڈ اور بیلجیم کی اعلی درسگاہوں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور ان کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ۱۹۷۲ ءمیں ایمسٹرڈیم ہالینڈ میں واقع ادارے ایف ڈی او کی طرف سے ملازمت کی آفر ہوئی جو انہوں نے قبول کرلی. ایک سب کنٹریکٹر کی حیثیت سے ایف ڈی او کا تعلق یورینکو گروپ سے تھا. یورینکو گروپ جرمنی ، ہالینڈ اور برطانیہ میں ایٹمی بجلی گھروں کو افزودہ یورینیم فراہم کرتا تھا. اس طرح ڈاکٹر خان کو یورینیم افزودگی کو باریکی سے سمجھنے اور عملی طور پر آزمانے کا بھرپور موقع ملا۔ ۱۹۶۴ءمیں افریقہ میں پلی بڑھی جرمن خاتون سے شادی کرلی جو ہینی خان کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا. اعلی تعلیم ، اعلی روزگار , بہترین مقام ۔زندگی اپنی ڈگر پر تھی نہ واپسی کا ارادہ تھا نہ ضرورت۔ ایک کامیاب کہانی تھی جس کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔ ایک پر آسائش زندگی جس کی ہر کوئی خواہش کر سکتا ہے.
زندگی بھی عجیب ہے، ہمارے وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ تقدیر کا کوڑا کہاں لے جائے گا ۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ ءکو سقوط ڈھاکہ ہوگیا ۔ اپنوں کی کہہ مکرنیاں تھیں اور دشمن کی ریشہ دوانیاں تھیں، مسلم تاریخ میں اس سے بڑا سر نڈر کبھی نہ ہوا تھا. اپنے پرکھوں کی روایت رہی تھی سامنے دشمن ہو اور پیچھے سمندر تب بھی عزت سے مرنے کو ذلت میں جینےسے ہمیشہ بہتر جانا گیا تھا. ڈاکٹر خان اس واقعہ کے بعد بہت بے چین رہنے لگے تھے۔ انڈیا نے اپنی جارحیت اور بالادستی کو مزید مظبوط کرنے کو سمائلنگ بدھا کے نام سے ایٹمی دھماکے کرکے جنوبی ایشیا کی بڑی طاقت ہونے کا اعلان کردیا۔ اب ڈاکٹر خان کی سوچ فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی تھی. ڈاکٹر خان نے اس دوران اعلی حکومتی عہدیداران کو متعدد خطوط لکھے لیکن جواب ندارد ۔ بالآخر ان کے دو خط وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچ گئے. ابتدا میں بھٹو نے ان کی ملاقات انرجی کمیشن کے اعلی عہدیداران سے کروائی لیکن وہ ملاقات بہت امید افزا ثابت نہ ہوسکی. انرجی کمیشن پلوٹونیم افزودگی پر کام کر رہا تھا لیکن ڈاکٹر خان کا اصرار تھاکہ مطلوبہ مقاصد یورینیم افزودگی سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں. بہرحال ڈاکٹر خان نے ہالینڈ میں رہتے ہوئے اپنی خدمات پیش کرنے کا اعادہ کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی بھٹو صاحب کا اصرار بڑھنے لگا اور عبدالقدیر خان نے دوسری دفعہ پاک سرزمین کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا. ذوالفقار علی بھٹو کی ذہانت اور مردم شناس طبع نے ڈاکٹر خان کو ایک الگ ادارہ ای آر ایل انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کا سر براہ بنا دیا جوبعد ازاں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (کے آر ایل) کے نام سے مشہور ہوا ۔ ۱۹۸۱ ءمیں جنرل ضیاء الحق نے نام تبدیل کرکے عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا ۔ ڈاکٹر خان کی پاکستان آمد کے بعد ہالینڈ میں ان کی غیر موجودگی میں ان پر اہم راز چوری کرنے کے الزام پر مقدمہ قائم کر دیا گیا اور ان کی غیر موجودگی میں ہی ان کو مجرم قرار دیا گیا ۔ ڈاکٹر خان نے اس فیصلے کیخلاف اپیل کی اور ان کے دیے گئے حقائق کا جرمنی ، برطانیہ ، ہالینڈ اور بیلجیم کے ماہرین نے جائزہ لیا اور ڈاکٹر خان کے مؤقف کو صحیح قرار دے دیا. ڈاکٹر خان کا مؤقف تھا کہ مجھ پر جن اہم رازوں کی چوری کا الزام ہے، وہ سب کچھ کتابوں میں موجود ہے .
انڈیا اور اسرائیل پاکستان کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے منصوبہ پر تھے. یہ تو معلوم تھا کہ فرانس کی مدد سے پلوٹونیم پر کام ہو رہا ہے. ڈاکٹر خان اور یورینیم کی افزودگی کے متعلق بھی بہت سی باتیں زبان زد عام تھیں، مگر کہاں اور اس کا پلانٹ کدھر ہے ؟ یقینی طور پر اس کے بارے میں معلومات نہیں تھیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ پلانٹ کا پتہ چلتے ہی اسرائیل بھارت کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے فضائی حملہ کرکے ایٹمی پلانٹ تباہ کر دے گا ۔۱۹۸۱ء میں ایسے ہی ایک آپریشن میں عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا گیا تھا ۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را کے ذمہ اس پلانٹ کا پتہ لگانا تھا ۔جب اس میں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو ہدایات کے مطابق خفیہ اہلکاروں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے حجاموں کی دکانوں سے بکھرے ہوئے بالوں کے نمونے اکٹھے کرنے شروع کر دیے۔ ان کو ٹیسٹ ٹیوبوں میں محفوظ کرکے لیبل لگا کر ہندوستان بھیجا جاتا تھا، سالوں تک چلنے والے اس آپریشن میں ایک دن ایک سیمپل میں یورینیم ۲۳۵ آئسوٹوپس کے ذرات مل گئے۔ اس طرح تقریبأ یہ یقین ہو چلا تھا پاکستان ۹۰% یورینیم افزودگی کا ہدف حاصل کر چکا ہے ،جو ایٹم بم کے لیے ضروری ہے. یہ سیمپل اسلام آباد کے نواح میں کہوٹہ کے پاس ایک حجام کی دکان سے ملے تھے۔ ہندوستان میں سیاسی حکومت تبدیل ہو چکی تھی. کہا جاتا ہے کہ جب را کے افسران نے نئے وزیراعظم مرارجی ڈیسائی کا یہ منصوبہ پیش کیا تو انھوں نے منظوری دینے سے انکار کر دیا اور پاکستان کے صدر ضیاءالحق کو اطلاع دی گئی کہ انڈیا کہوٹہ میں ہونے والی سرگرمیوں سے پوری طرح واقف ہے۔ را نے کبھی بھی ڈیسائی کو معاف نہیں کیا ۔ان کے مطابق ڈیسائی نے ضیاء کو بتا کر را کے اہلکاروں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا ہے. را اس طرح کا نیٹ ورک پاکستان میں دوبارہ قائم نہیں کرسکا ۔ دوسری طرف پاکستان نے مرار جی ڈیسائی کی امن کی کوششوں کو سراہتے ہوئے پاکستان کے سب سے بڑے سویلین اعزاز سے نوازا۔
۱۹۷۹ ءمیں انڈیا کے بڑے اخبار نے اپنے سنڈے میگزین میں “اسلامی بم “کو بنائے جانے کی ایک کہانی لکھی جس کا مرکزی کردار ڈاکٹر خان کو ٹھہرایا گیا اور اسے دنیا بھر میں پھیلایا گیا اور اپنے حلیفوں کے ذریعے پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لیے دباو ڈالا گیا۔ یہی وہ دور تھاجب را اور موساد کو ڈاکٹر اے کیو خان کی زندگی ختم کرنے کے احکامات مل چکے تھے. ۱۹۸۶ء کی آخری سہ ماہی میں انڈیا نے آپریشن براس ٹیک کے نام سے فوجی مشقوں کا آغاز کیا تھا۔ برصغیر کی تاریخ میں “ ڈویژن اور کور “ کی سطح کی سب سے بڑی فوجی مشقیں تھیں. یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان مشقوں کا رخ اس دور میں سیاسی خلفشار کا شکار پاکستان کا صوبہ سندھ تھا. اس زمانے میں “ براس ٹیک “ کو پاکستان کے لیے سٹریٹجک خطرے کے طور پر دیکھا گیا ۔ ان باتوں کی تصدیق جنرل پریم ناتھ ہون کی لکھی گئی کتاب “ the untold truth “ سے ہوتی ہے. ان کے مطابق یہ محض جنگی مشقیں نہیں تھیں بلکہ پاکستان کیخلاف مکمل جنگ کا آغاز کرنا تھا ۔ وہ بتاتے ہیں ۱۵ جنوری ۱۹۸۷ء کو آرمی ڈے کے موقع پر ہونے والے عشائیہ میں وزیراعظم راجیو گاندھی چیف آف آرمی سٹاف جنرل سندر جی سے پوچھتے ہیں، آپ کی مغربی کمان کی کیا صورتحال ہے؟ جواب میں جنرل نے کہا جناب وزیراعظم! بہت اچھی صورتحال ہے، اور میں بہت جلد جنگی محاذ سے آگے بڑھ کر آپ کو ایک طشتری میں سندھ اور دوسری طشتری میں لاہور پیش کروں گا. “ اس واقعہ کے چند روز بعد ۲۸ جنوری کو سید مشاہد حسین اپنے ساتھ کلدیپ نئیر کو اسلام آباد میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کے لیے لے جاتے ہیں. کلدیپ نئیر ڈاکٹر خان سے کہتے ہیں آپ بھوپال سے ہیں اور اس وقت اسلام آباد میں ہیں اور میرا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور رہتا نیو دہلی میں ہوں۔ یہ تقسیم غیر فطری تھی. ڈاکٹر خان کا جواب تھا اس کو تسلیم کرنے میں ہی خطے کا امن پوشیدہ ہے. نئیر کا کہنا تھا اگر پاکستان ایک ایٹم بم بنائے گا تو ہندوستان سو ایٹم بم بنا سکتا ہے. ڈاکٹر خان نے کلدیپ کو ٹوکا اور مسکراتے ہوئے کہا کہ اتنے بموں کی ضرور ت نہیں ہوتی ، دو چار کافی ہوتے ہیں. اور پاکستان جب چاہے ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ ان باتوں کی اطلاع انڈین ہائی کمان کو پہنچیں اور “ لندن آبزرور “ میں ایک بریکنگ سٹوری کے طور پر شائع ہوئیں. امریکہ اور برطانیہ جو روس کیخلاف جنگ میں مصروف تھے، کے سفارت خانے جنوبی ایشیا میں ایک بڑی جنگ کو روکنے کے لیے متحرک ہوگئے، اور یوں خطے میں جنگ ٹل گئی. ۱۹۹۰ ءکا عشرہ شروع ہونے سے قبل ہی ایٹم بم سے متعلق بہت سے معاملات پختہ ہوچکے تھے. اس زمانے میں کے آر ایل نے اپنی خدمات کادائرہ یورینیم افزودگی سے بڑھا کر میزائل سازی اور دوسرے دفاعی آلات کی تیاری تک وسیع کردیا تھا. ان میں بکتر شکن اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائیل ، عنزہ میزائیل ، ریڈار سسٹمز ، الیکٹرونک سسٹمز اور لیزر رینج فائنڈر کے علاوہ غوری اوّل ، غوری دوم اور حتف اوّل جیسے بیلسٹک میزائل شامل ہیں .
۱۱ مئی ۱۹۹۸ ءکو بھارت نے پوکھران کے مقام پر “ شکتی “ کے نام سے ۳ ایٹمی دھماکے کیے اور دو مزید دھماکے ۱۳ مئی کو کیے گئے ، پاکستان کے اندر سے ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے دباؤ بڑھنے لگا ۔ بڑی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا ۔مگر ۲۸ مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر ۵ ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کا حساب چکتا کر دیا ۔کہا جا سکتا ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سالوں کی محنت “ یوم تکبیر “ کے دن رنگ لائی تھی.انہوں نے ہر پاکستانی کاسر فخر سے بلند کر دیا تھا .آج بجا طور پر وہ محسن پاکستان کہلانے کے حقدار تھے.
ڈاکٹر خان متعدد تحقیقی مقالہ جات کے خالق تھے۔ ان میں سے ۱۰۰ کے قریب اعلی سائنسی میگزینز کی زینت بنے ۔ وہ ایک دلیر آدمی تھے، بے لاگ بات کرنے کے عادی تھے ، وہ جوہری توانائی اور ہتھیاروں پر مغربی طاقتوں کی اجارہ داری کے سخت ناقد تھے. انہوں نے متعدد غیر ملکی دوروں اور کانفرنسز کے دوران اس بات کا کھل کر اظہار کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جوہری ہتھیار اگر انسانیت کے لیے خطرہ ہیں تو پابندی صرف مغرب کے ناپسندیدہ ممالک کے لیے ہی کیوں ہے ؟ اگر پابندی ناگزیر ہے تو مغربی طاقتیں بھی اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کریں۔ ان بے لاگ باتوں کی وجہ سے محسن پاکستان کو بھاری سزا سہنا پڑی
بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تمُ کو غیرت کی
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں بچتے
پرویز مشرف کی طرف سے کیے گئے اقدامات کچھ عجیب صورتحال پیدا کرتے نظر آتے ہیں اور معنی خیز بھی ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے ابھی ہمارے جوہری پروگرام کیخلاف بہت شور شرابہ نہ تھا لیکن ۹/۱۱ سے چند ماہ پہلے ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا ۔ ۲۰۰۳ ء میں اقوام متحدہ کی جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو دیکھنے والے ادارے واچ ڈاگ کی طرف سے اسلام آباد کو خط لکھا گیا جس پاکستان کے جوہری سائنسدانوں پر جوہری راز فروخت کرنے کا الزام عائد کیا گیا ۔ عالمی میڈیا کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ ڈاکٹر خان نے لیبیا ، ایران اور کوریا کو جوہری راز فروخت کیے ہیں ۔ ایران سے سینٹری فیوج پکڑے جانے کے بعد سی آئی اے ، ایم آئی ۶ اور موساد کا دباؤ بڑھاتو محسن فرخی زادہ نے محسن پاکستان کا نام لے دیا ۔ لیبیا کے صدر قذافی کو بھی ڈرایا گیا اور عراق جیسی صورتحال پیش آنے کا عندیہ دیا گیا. ٹونی بلئیر کی طرف سے ان کی حفاظت کی گارنٹی دی گئی تو قذافی حکومت نے بھی ڈاکٹر خان کو مجرم بنا دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کو میزائل ٹیکنالوجی کے عوض یورینیم افزودگی میں ڈاکٹر خان کی طرف سے مدد فراہم کی گئی لیکن کوریا کی جانب سے محسن پاکستان کیخلاف کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔ یا للعجب تاریخ کا سبق بھی انوکھا ہے کہ جن اپنوں نے دباؤ کا شکار ہوکر غداری کی، ان کے انجام میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں. محسن فرخی زادہ نومبر۲۰۲۰ ء میں موساد کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ کرنل قذافی جن پر تکیہ کیے بیٹھے تھے ان ہی کے ہاتھوں خود اور ان کا ملک عراق جیسے انجام سے دو چار ہوگیا .
جنوری ۲۰۰۴ ء میں عالمی جریدوں میں ڈاکٹر خان کیخلاف مضامین لکھے جانے لگے ۔۳۰ جنوری کو پرویز مشرف نے ڈاکٹر خان کو گرفتار کر لیا ۔ ڈاکٹر خان کے بقول چوہدری شجاعت اور ایس ایم ظفر نے ان سے ملاقات کی اور ملک کی خاطر الزامات اپنے سر لینے کی اپیل کی اور اس بات کی ضمانت دی کہ ڈاکٹر صاحب پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی ۔ ۴ فروری کو پاکستان ٹیلی ویژن پر ۱۹۷۱ ءسے ملتا جلتا ایک اور سر نڈر کروایا گیا ۔ یہ سب اس نے کروایا جو کہتا تھا “ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں “. اس کے بعد ڈاکٹر خان کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا اورعملأ یہ نظر بندی ان کی وفات تک جاری رہی ۔ وقت نے ثابت کیا کہ طاقت کی زبان سمجھانے والا خود سے طاقتور کے سامنے لیٹنے کا عادی تھا ۔ ۲۰۰۹ ءمیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی نظر بندی کیخلاف فیصلہ سنایا ۔ بعدازاں ڈاکٹر خان نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ ۲۰۱۹ ءمیں سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی مگر عدالت نے ان کی درخواست حکومت وقت کی طرف موڑ دی ۔ یوں پرویز مشرف کے کیے اقدامات کو کوئی عدالت اور سیاسی حکومت ختم نہ کر سکی ۔افسوس مشرف کیخلاف آرٹیکل ۶ کا مقدمہ کروانے والے نواز شریف سے لیکر تبدیلی سرکار اس معاملے میں ایک ہی صف کھڑے نظر آتے ہیں.
قد و گیسو میں قیس و کوہ کن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
استعمار کی سب سے بڑی چال سچ اور حقیقت کو نظروں سے اوجھل کردینا ہے. کبھی کبھی سچ تک پہنچے کے لییے یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ استعمار خود اور اس کے ایجنٹ کسی کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں اور یہی آرا سچا ہونے کی دلیل بن جاتی ہیں ۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کم ازکم اسامہ بن لادن جتنا خطرناک سمجھتے ہیں۔ مغربی جریدوں نے انہیں ایک “ خطرناک انسان “ قرار دیا ۔ اسرائیلی اخبار Haaretz میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ شہاتائی شاوت کی طرف سے یہ اعتراف سامنے آیا ہے کہ “موساد “ نے بار بار کوشش کی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قتل کیا جائے یا پکڑا جائے، لیکن ہم ناکام رہے۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ اور سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلری کلنٹن کا فکشن ناول terror state ابھی دو ہفتے قبل مارکیٹ میں آیا ہے. اس ناول میں جہاں انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر تنقید کی ہے وہیں پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر خان جنھیں اس ناول میں بشیر شاہ کے کردار میں دکھایا گیا ہے، ان پر جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور امریکہ میں جوہری ہتھیاروں کی مدد سے دہشت گردی کے منصوبے بنانے جیسے گٹھیا الزامات لگائے گئے ہیں ۔ امریکی حکمران اشرافیہ کے دل و دماغ میں پاکستان اور اس کے ایٹمی پروگرام سے نفرت انتہائی شدت اختیار کر گئی ہے اور اس سے بھی شدید نفرت وہ محسن پاکستان سے رکھتے ہیں۔ یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں محسن پاکستان کا دفاعی نقطۂ نظر سے ملک کو ناقابل تسخیر بنانا کس قدر عظیم کارنامہ ہے.
تبصرہ لکھیے