Category: معاشرت

  • قندیل بلوچ کی موت میں سبق – نیر تاباں

    قندیل بلوچ کی موت میں سبق – نیر تاباں

    قندیل بلوچ کے آفیشل پیج کا چکر لگایا۔ پہلی دو تین پوسٹس دیکھ کر واپسی میں ہی عافیت جانی۔ یہ سوچ کر بھی لرز گئی ہوں کہ جس طرح صدقہ جاریہ ہوتا ہے، یہ سب گناہ جاریہ بن رہا ہے۔ سب سے پہلے تو پلیز ایک فیور یہ دیں کہ اس پیج کو رپورٹ کریں۔ جی، پورے انٹرنیٹ سے تو ہم سب کچھ ڈیلیٹ نہیں کروا سکتے لیکن آفیشل پیج تو بند ہو سکتا ہے۔

    ہم سب کے لیے کتنے سبق ہیں اس موت میں۔ کوئی بھی ٹیکسٹ، کوئی گانا، کوئی ایسی تصویر، کوئی ایسی بات جو ہم نے شیئر کی اور اس کے بعد ہماری تو موت واقع ہو جائے مگر وہ لوگوں میں circulate ہوتی رہے۔ ہر بار post/send/share کا بٹن دبانے سے پہلے ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ اعمال توبہ کے بغیر ڈیلیٹ نہیں کیے جا سکتے اور موت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔

    دوسری بات یہ کہ گناہ تو گناہ ہی ہے لیکن اس کو چھپ کر کرنا ایک بات ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کرنا اور اس پر اترانا اور فخر کرنا الگ بات۔ اگر کچھ غلطی کر بھی بیٹھیں تو اس کی تشہیر نہ کریں۔ آپ تو شاید تائب ہو جائیں لیکن لوگ اس کا حوالہ دینا آخری دم تک یاد رکھیں گے۔

    برائی اور ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو پکڑ ہو ہی جاتی ہے۔ اللہ کی مقرر کردہ حدود جب انسان پھلانگتا ہے تو عبرت ناک انجام کو پہنچتا ہے. کبھی اپنی دینی قابلیت پر اکڑ کر دوسرے کو کم تر نہ سمجھیں۔ مفتی قوی صاحب کی ساری عمر کی ریاضت اور مقام ایک جھٹکے میں اس جگہ آن کھڑا ہوا ہے کہ اس قتل کے پیچھے بھی ان کا نام لیا جا رہا ہے۔ اپنے لیے ہم سب اللہ سے خاتمہ بالخیر کی دعا اور ایمان پر زندگی اور ایمان پر موت مانگیں۔ قدم لڑکھڑانے میں بس ایک لمحہ لگتا ہے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جو دعوی کر سکے کہ وہ کبھی نہیں پھسلا یا آئندہ بھی ہمیشہ ثابت قدم رہے گا۔

    قندیل بلوچ کی شادی شدہ زندگی میں بہت بڑا سبق والدین کے لیے بھی پوشیدہ ہے۔ بچوں کی شادی میں ان کی پسند کو بھی ملحوظ رکھیں۔ زبردستی کے نکاح خوشیاں کم ہی لے کر آتے ہیں۔

    ایک بات اس کے پیج پر یہ نوٹ کی کہ لگ بھگ 750K لوگ اس کو فالو کر رہے تھے۔ میں بھی ایک پیج کے لیے کام کرتی ہوں. اس پر تین سال کی مسلسل محنت کے بعد بھی ہم پانچ لوگ قریب 176K ممبرز جوڑ پائے ہیں جبکہ وہ اکیلی ہی اس سے کم عرصے میں اتنے سارے فالوورز جمع کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ شاید وہ وہی دکھاتی تھی جو لوگ دیکھنا چاہتے تھے. اس کی موت پر ہم سب جو متقی پرہیز گار بنے بیٹھے ہیں، ایک بار ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیں۔ وہ تو ایک ویڈیو پوسٹ کرتی تھی، مگر اس کو لاکھوں کے حساب سے views دینے والے ہم ہی تھے جو اب استغفراللہ پڑھ کر سائیڈ سے نکل رہے ہیں۔

    آخری بات پھر وہی جو امجد صابری کی موت پر بھی ہوئی، ایدھی صاحب کی وفات پر بھی اور اب قندیل بلوچ کے قتل پر بھی. وہ لوگ اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہوئے۔ ان کا معاملہ اب اپنے رب کے ساتھ ہے، آپ اور میں بس اللہ سے یہی گمان رکھیں کہ ہمارے رب کی رحمت اس کے غضب پر بھاری ہے۔ وہ ان کے کھلے چھپے گناہ بخش دے اور ان کی نیکیاں قبول فرما کر انہیں جنت میں بلند مقام عطا فرمائے۔
    میری دعا ہے کہ اللہ تعالی! تو نے ہمارے جو گناہ ڈھانپ رکھے ہیں، انھں ڈھانپ کر ہی رکھنا، ہمیں بخش دینا، ہمارا خاتمہ بالخیر کرنا اور ہمارے پیچھے ایسے لوگ ہوں جو ہماری جنت جہنم کے فیصلے کرنے کے بجائے ہماری مغفرت کی دعا کریں کیونکہ اب تو دل بہت ڈر گیا ہے۔ آمین

  • خرد کا نام جنوں – نسرین غوری

    خرد کا نام جنوں – نسرین غوری

    nasreen-ghori ہمارے معاشرے میں خاص کر شہری معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا الزام خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔
    شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اور معاہدے دو یا زائد فریقوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں ورنہ وہ معاہدے نہیں سمجھوتے کہلاتے ہیں۔ لہذہ شادی بھی ایک ایسا ہی معاہدہ ہے جو ایک مرد اور ایک خاتون کے درمیان برابری کی بنیاد پر طے ہوتا ہے اور اسے برابری کی بنیاد پر ہی جاری رہنا چاہیے۔ لیکن برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرے میں یہ معاہدہ شاذ و نادر ہی برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں شادی دراصل شوہر کی ہوتی ہے۔

    یہ ایک یک طرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں دوسرے فریق کا کام صرف پہلے فریق کا حکم بجالانا فرض کرلیا جاتا ہے۔ دوسرا فریق یعنی بیوی پہلے فریق یعنی شوہر کی download-131مرضی کے مطابق سانس لے گی، اس کے خاندان کی خدمت بجا لائے گی۔ اس کی جنسی ضروریات اس کی مرضی اور فریکوئنسی کے مطابق پوری کرے گی، اس کی اجازت سے لوگوں سے میل ملاقات کرے گی، اس کی مرضی اور اجازت کے مطابق ملازمت کرے گی یا نہیں کرے گی۔ گویا اس کی اپنی کوئی شخصیت ، مرضی یا ضروریات نہیں ہیں۔

    شادی جسے دراصل companionship یا ہمسفری ہونا چاہیے، ایک خوشی اور سکون دینے والے خاندان کی بنیاد ہونا چاہیے۔ دراصل آقا اور غلام کا رشتہ بنا دی گئی ہے جس میں غلام اگر آقا کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو ٹھیک ورنہ ۔۔ ۔ ارے بھائی اگر ایسا ہی ہے تو شادی کیوں کرتے ہو، ایک کتا پال لو، سارے حکم بجالائے گا ، ساتھ میں دم بھی ہلائے گا اور سامنے پیروں میں لوٹنیاں بھی لگائے گا۔

    بہت ساری خواتین بلکہ خواتین کی اکثریت ایسی ہی شادی کے رشتے میں زندگی گزار رہی ہوتی ہیں ، جہاں خوشی اور سکون کے بجائے ناگواری اور بے سکونی ہے، خوف ہے، یا پھر انہیں یہی بتایا گیا ہے کہ ایک بیوی کا یہی فرض ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ ایک غلام کی سی زندگی گزارے سو وہ اسی حال میں مگن ہیں ، انہیں ادراک ہی نہیں کہ وہ ایک بیمار رشتے میں بندھی ہیں۔

    اب اگر تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ خواتین اپنے آقاوں کی روش سے سمجھوتہ نہیں کرتیں اور ایک ناگوار ، غیر صحتمند رشتے سے الگ ہوجاتی ہیں تو یہ الزام ان کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ رائے عامہ ہمیشہ طاقتور اور اکثریت کے حق میں ہوتی ہے، سو جو طاقتور مردوں نے مشہور کردیا، عوام کی اکثریت نے بھی اسے من و عن قبول کرلیا۔

    ایکسکیوزمی ۔ ۔ ۔

    یہ خواتین کی تعلیم یا ملازمت نہیں ، مردوں کی فیوڈل نفسیات اور ان کی آقا بننے اور بنے رہنے کی خواہشات ہیں جو معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھنے کی اصل وجوہات ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ کم از شہروں کی حد تک خواتین تعلیم اور ملازمت کے باعث ذہنی طور پر ترقی کر گئی ہیں لیکن مرد اپنی فیوڈل نفسیات کے باعث خواتین کو اپنے برابر یا کچھ معاملات میں اپنے سے بہتر قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ایک تعلیم یافتہ بیوی گھریلو فیصلہ سازی میں رائے دینے سے نہیں ہچکچاتی، اور ایک ملازمت پیشہ بیوی خانگی معاملات میں صرف رائے ہی نہیں دیتی بلکہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے اور کر بھی لیتی ہے ۔ یہ بیوی غلط بات برداشت کرنے کے بجائے منہ پر کہہ بھی دیتی ہے اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ صرف صنف کی بنیاد پر شوہر کو اپنا غلط بھی درست بنانے کا حق ہے۔ اور یہ بات شوہر حضرات سے برداشت نہیں ہو پاتی، نتیجہ روز روز کے جھگڑے، مار پیٹ تعلقات اس نہج پر لے آتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ بیوی کو علیحدگی کا فیصلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ شادی بندہ کرتا ہے ایک باعزت ، پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے۔ اور جب کسی رشتے میں یہ باقی نہیں رہتا تو ایسے بیمار ، کمزور اور ناخوشگوار تعلق سے لٹکے رہنےسے بہتر ہے کہ الگ ہوکر پرسکون زندگی گزاری جائے۔

    جو خواتین کم تعلیم، کوئی اور معاشی سہارا نہ ہونے کے باعث، یا خاندانی /سماجی دبائو کے تحت ایسی ناخوشگوار شادی شدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں ان کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کے ساتھ ساتھ انکی اولاد بھی اس صورت حال سے منفی طور پر متاثر ہوتی ہے۔ اور اگر ان خواتین کو بھی موقع یا سہارا ملے تو وہ بھی ایسے بیمار رشتے سے باہر نکلنے کو ترجیح دیں گی کہ بار بار رونے سے ایک بار رونا بہتر ہے۔

    تو خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر طلاق کا بوجھ رکھنے کے بجائے مردوں کو مورد الزام ٹھہرائییے جو خواتین کی تعلیم، ملازمت اور ذہنی ترقی سے مطابقت پیدا نہیں کرسکے، جو خاتون کو انسان کا درجہ نہیں دے سکے ، اور جو برابری کی بنیاد پر خاتون کو حیات میں برابر کا شریک نہیں کرسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرد اب اپنی سوچ کو ترقی دیں، خواتین کے بارے میں اپنی سوچ کو بدلیں، انہیں انسان سمجھیں، ان سے انسان والا سلوک کریں تاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے۔ ایسا نہیں کہ معاشرے میں ایسے مرد نہیں ، ہیں لیکن بہت کم تعداد میں۔ اور ایسے مردوں کو یہ معاشرہ بہت آرام سے زن مرید کہہ کر فارغ ہوجاتا ہے۔

    خدارا اس معاملے میں اسلام کو نہ گھسیٹ لائیے گا ، کیونکہ اسلام نے عورت کو جو حقوق اور آسانیاں دی ہیں وہ آپ خواتین کو اگلے ہزار سال تک نہیں دے سکیں گے۔ اس لیے اس مضمون کو پاکستانی معاشرے میں رائج سماجی رویوں کی روشنی میں ہی پڑھ لیں۔ بڑی مہربانی ہوگی ۔

    پی ایس: جس کو اس مضمون کا مرکزی خیال سمجھ نہ آئے وہ محض الفاظ کی پکڑ کرکے بحث و مباحثے سے گریز کرے۔

  • آئیے مسائل کے جوڑے بنائیں – حنا نرجس

    آئیے مسائل کے جوڑے بنائیں – حنا نرجس

    1. آپ بلیک ٹی چھوڑ کر گرین ٹی کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں کیونکہ بلیک ٹی پی کر گھبراہٹ سی محسوس ہوتی ہے

    2. کوئی اچھی، شریف، پھرتیلی، سگھڑ، بس اپنے کام سے کام رکھنے والی، کم گو سی گھریلو ملازمہ/ملازم چاہیے آپ کو، مگر ان صفات کی حامل کوئی نہیں مل رہی/ رہا.

    3. صبح شام کے اذکار کرنے میں باقاعدگی نہیں ہے. جب سب کے بیچ بیٹھے آپ اذکار کر رہے ہوتے ہیں تو بار بار آپ کی توجہ بٹتی ہے یا کوئی بچہ بلا لیتا ہے.

    4. اپنے وزن کے بارے میں آپ بہت حساس ہیں. ایک آدھ پاؤنڈ کا اضافہ بھی آپ کو پریشان کر دیتا ہے.

    5. اگلے دن کا دودھ آنے کا ابھی وقت نہیں ہوتا اور پچھلا پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے. احساس تب ہوتا ہے جب بچوں کو فروٹ، بادام یا کھجور شیک کے لیے دودھ کی ضرورت ہو اور پیکٹ والا دودھ (پاؤڈر/لیکویڈ) آپ کم سے کم استعمال کرنا چاہتے ہوں.

    6. آپ روزانہ سوچتے ہیں کہ کپڑے رات کو ہی استری کر لوں گا/گی مگر تھکن اتنی شدید ہوتی ہے کہ ہر رات یہ کام صبح پر ٹال دیتے ہیں.

    7. واک کے فوائد آپ کو ازبر ہیں. صحن یا چھت پر واک کرنا آپ کو اچھا نہیں لگتا اور باہر کسی پارک وغیرہ میں جانے میں سستی ہو جاتی ہے یا کوئی آپ کو لے کر نہیں جاتا.

    8. آپ جانتے ہیں کہ رات کو سورۃ ملک پڑھ کر سونا عذابِ قبر سے نجات کا باعث ہو گا مگر بستر پر لیٹتے ہی آپ کی آنکھ لگ جاتی ہے.

    اور… اور… اور…

    اسی طرح کے بے شمار چھوٹے چھوٹے مسائل کا سامنا آپ کو سارا دن رہتا ہے. دن اگلا شروع ہو جاتا ہے مگر مسائل وہی کے وہی اور وہیں کے وہیں

    تو آئیے ان کی کل تعداد کو دو پر تقسیم کر کے آدھا کر لیتے ہیں.

    16120Blacktea مثال کے طور پر ایک اور پانچ کو دیکھیے. بلیک ٹی چھوڑ کر گرین پینا شروع کر دیں، سارا دن چائے میں استعمال(ضائع) ہونے والا دودھ بھی شیک کے لیے بچ جائے گا، دل گھبرانا بھی ختم اور وزن مناسب رکھنے میں بھی گرین ٹی سے جزوی طور پر مدد ملے گی.

    carpet clean دو اور چار کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھیے. جن بہترین صفات کی حامل ملازم/ملازمہ آپ کو درکار ہے، یقین جانیے وہ صفات صرف آپ ہی میں پائی جاتی ہیں. لہذا خود کام کریں، سمارٹ اور چاق و چوبند رہیں گے.

    man-walking-park اب تین اور سات کو لے لیں. پارک میں جانے یا لے جائے جانے کا انتظار نہ کریں. دستیاب جگہ پر واک شروع کر دیں. چکر نہ گنیں بس گھڑی سے وقت دیکھ کر شروع کر دیں. ساتھ ساتھ اذکار کرتے رہیں. 20 منٹ میں دونوں کام ہو جائیں گے. دو وقت کے مسنون اذکار کے ساتھ دو وقت کی واک آپ کو روحانی اور جسمانی تازگی مہیا کرے گی.

    soora mulkچھ اور آٹھ کو بھی اکٹھا کر لیں. سورۃ ملک آپ کو ضرور زبانی یاد ہو گی، نہیں ہے تو روزانہ ایک ایک آیت کر کے اب کر لیجئے. رات کو کپڑے استری کرنے کے دوران آپ اس سورۃ کے ساتھ ہی سورۃ بقرہ کی آخری دو آیات اور آیت الکرسی پڑھ سکتے ہیں. صبح کے لیے استری شدہ کپڑے اور تلاوت دونوں پرسکون نیند کی ضامن ہیں:)

    یہ تو تھیں چند مثالیں. آپ اپنے مسائل کی لسٹ بنا کر اسی طرح کے جوڑے تلاش کریں. افادہ عام کے لیے کمنٹس میں شیئر بھی کریں. اس طرز عمل سے مسائل ختم تو نہیں ہوں گے لیکن امیدِ واثق ہے کہ تعداد نصف رہ جائے گی!