Category: معاشرت

  • خاندانی تعلقات کی استواری – بشری تسنیم

    خاندانی تعلقات کی استواری – بشری تسنیم

    اللہ رب العالمین نے خاتم النبیین ﷺ پہ کتاب اُتاری جو ھُدًی للعٰلمین ہے اور اس میں کائنا ت کے بارے میں بے شمار آیات اُتاریںاور عقل والوں کے لیے اس میں غور وفکر کی دعوت ہے۔ ارض وسما کی ہر شے اللہ تعالیٰ سے رابطے کا ذریعہ ہے ۔ قرآن پاک میں جابجا آیات الٰہی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ عقل وخرد رکھنے والے آثار کائنات پر غور کرکے توحید کا اقرار کریں۔ اس کو وحدہ لاشریک تسلیم کریں اور اس کے حقیقی بندے بن جائیں۔ سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    ’’اور وہی ہے جس نے دوسمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ شیریں اور دوسرا تلخ وشور، اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے، ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔‘‘(آیت ۵۳)
    اس آیت کی تشریح میں تفہیم القرآن جلد سوم حاشیہ۲۸ میں مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں آکر گرتاہے۔ اس کے علاوہ خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس قائم رکھتاہے۔

    ترکی امیر البحر سیدی علی ریئس(کاتب والی) اپنی کتاب مرأۃ الممالک میں جو سولہویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے،خلیج فارس کے اندر ایسے مقام کی نشان دہی کرتاہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لئے پینے کا پانی حاصل کرتا رہاہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کاکام شروع کیا تو ابتداً وہ خلیج فارس کے انہی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعدمیں ظہران کے پاس کنویں کھود لیے گئے اوران سے پانی لیاجانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہہ میں آبِ شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ وقت پہلے تک پینے کاپانی حاصل کرتے رہے ہیں۔

    یہ تو ہے آیت کا ظاہری مضمون، جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے سے اس کے الٰہ واحد اورربِ واحد ہونے پر استدلال کررہاہے۔ مگر اس کے بین السطورسے بھی ایک لطیف اشارہ ایک دوسرے مضمون کی طرف نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی معاشرے کا سمندر خواہ کتنا ہی تلخ وشورہوجائے اللہ تعالیٰ جب چاہے اس کی تہہ سے ایک جماعت صالحہ کا چشمہ شیریں نکال سکتاہے اور سمندر کے آبِ تلخ کی موجیں خواہ کتنا ہی زورمارلیں وہ اس میٹھے چشمے کو ہڑپ کرجانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں(تفہیم القرآن، ج سوم،ص۴۵۸)

    اللہ تعالیٰ نے کائنات میں ہرچیز کا جوڑا بنایا ہے۔ جوڑا بنانے میں بہت سی مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ایک حقیقت تو نرومادہ کے جوڑے سے پیدائش کا تسلسل بنایا۔ ذی روح مخلوق ہو نباتات ان کے جوڑے مسلمہ حقیقت ہیں۔ اس کے علاوہ پہچان کے لئے، غوروفکر کے لئے او ر بہت سی پوشیدہ مصلحتوں کے تحت کائنات میں ہرطرف تزویج کا عمل جاری وساری ہے کہ یکتا وتنہا صرف رب العالمین کی ذات ہے۔

    دن رات، دھوپ چھائوں، گرمی سردی،غم خوشی، اندھیرااجالا، صحت بیماری غرض ہر معاملے میں دوطرح کا احساس نمایاں ہے۔ اسی طرح دریائوں کا پانی میٹھا بنایا۔ سمندروں کا پانی کھارا بنایا اور اپنی قدرت کا کرشمہ دکھایا کہ کھاری پانی کے طویل وعریض سمندر میں میٹھے پانی کے چشمے جاری کردیے۔ بظاہر پانی ایک جیسا نظرآتاہے، مگر دونوں کے درمیان ایک نظرنہ آنے والا پردہ حائل ہے۔ ایک اورنظام جو سمندروں کے حوالے سے ازل سے چل رہاہے وہ یہ ہے کہ اسی کھاری اوربھاری پانی کو ہوائیں اُڑا کر لے جاتی ہیں جو کہ میٹھا اور ہلکا ہوتاہے۔ یہ پانی بارش کی شکل میں جہاں اللہ اپنی مرضی سے چاہتاہے برساتاہے اوریہی پانی ندی نالوں، چشموں، دریائوں سے ہوتا ہوا دوبارہ سمندرمیں ضم ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہ کارندے اپنے کام میں مستعد ہیں اور جب تک مالک کا حکم ہوگا اپنے فرض سے عہدہ برآ ہوتے رہیں گے اور اس میٹھے اور کھاری پانی کا دائرہ چلتارہے گا۔ اب تو کھاری پانی کو عام استعمال کے لئے حتیٰ کہ گھروں او رکھیتوں میں روزمرہ کے استعمال کے لئے صاف کرنے کے انتظام ہونے لگے ہیں۔ تلخ او رکھاری پانی کو میٹھابنانے کے لیے پلانٹ لگائے جاتے ہیں۔ انسانی دماغ وقت، محنت ، مشقت اوربہت کچھ قربان کرکے تلخ کو شیریں بنانے میں کامیاب ہوہی جاتاہے۔ جب کائنات انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہے تو مسخر کرنے کے لئے عقل اور وسائل بھی مہیا کیے گئے ہیں۔

    اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان کی مذکور پہلی آیت کے بعد فرمایا، اللہ تعالیٰ کی ہر آیت کا تعلق او رنسبت ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے، ہر آیت دوسری آیت کا مفہوم واضح کرتی ہے:
    ’’اور وہ ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔ تیرا رب بڑی ہی قدر ت والا ہے۔‘‘(الفرقان۲۵:۵۴)
    یہ اسی کی قدرت ہے کہ دونوں کی یکجائی کے نتیجے میں نسب کا سلسلہ بنتا ہے اور یہ دائرہ چلتا رہتاہے۔ ا س کی تشریح میں مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:’’یعنی بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوندسے انسان میں حیرت انگیز مخلوق بنا کھڑی کرتاہے مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نہیں بلکہ دونمونے (عورت اورمرد)بنائے جو انسانیت میں یکساں مگر جسمانی ونفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف ہیں، اور اس اختلاف کی وجہ سے باہم مخالف ومتضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پوراجوڑ ہیں اورپھر ان جوڑوں کوملا کر وہ عجیب توازن کے ساتھ(جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنیٰ دخل بھی نہیں ہے)دنیا میں مرد بھی پیدا کررہاہے اور عورتیں بھی، جن سے سلسلہ تعلقات بیٹوں اورپوتوں کا چلتا ہے۔ جو دوسرے گھروں سے بہوئیں لاتے ہیں اور ایک دوسرا سلسلہ تعلقات بیٹیوں اورنواسیوں کا چلتاہے جو دوسرے گھر میں بہو ئیں بن کرجاتی ہیں۔اس طرح خاندان جڑکر پورے ملک ایک نسل اورایک تمدن سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔

    یہاں بھی ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ سارے کارخانۂ حیات میں جو حکمت کام کررہی ہے اس کا اندازِ کار ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں اختلاف اورپھر مختلفین کے جوڑسے ہی سارے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ لہٰذا(اے انسانو!)جس اختلاف سے تم دوچار ہو، اس سے گھبرائونہیں یہ بھی ایک نتیجہ خیز چیز ہے۔(تفہیم القرآن، حصہ سوم،ص۴۵۹)
    آدمؑ وحواؑ بحیثیت انسان ایک مخلوق ہے مگر دونوں میں اختلاف بھی ہے۔ دونوں میں جسمانی ونفسانی اختلاف ایک دوسرے کا تتمہ ہے۔

    اسی طرح انسانی دل کو مختلف قسم کے احساسات سے آشنا کردیا۔ قلب جس میں انقلاب، تبدیلی، مسلسل حرکت کی خاصیت ہے۔منفی ومثبت سوچوں سے جذبات واحساسات سے دوچار رہتاہے۔ قلب میں انقلاب پوشیدہ ہے۔ اس کی ماہیت ہی تبدیل ہوتے رہنا ہے اوراس کی حرکت ہی انسان کی زندگی کی علامت ہے۔ ایک انسان کے اسی ایک دل میں نہ جانے کب میٹھے جذبات کھاری پن میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہے کہ ہم اپنے دل کی کیفیات کو آن کی آن تبدیل ہوتا محسوس کرتے ہیں۔کچھ چہرے،کچھ مقام ہمارے دل کو بھاتے ہیں۔ اسی لمحے اگر ناپسند چہرے اورمقام آجائیں تو دل میں انقباض پیدا ہوتاہے۔کچھ کام ہم دل کی پوری آمادگی سے کرتے ہیں اورکچھ بادل نخواستہ۔ کچھ معاملات پیش آنے پر ہمارا دل رنجیدہ ہوتاہے اور ہم ہی ہوتے ہیں جو اپنے اسی رنجیدہ دل میں کچھ معاملات میں راحت وخوشی محسوس کرتے ہیں۔

    چونکہ کائنات میں ہر چیز جوڑا یعنی اصولِ تزویج پہ بنائی گئی ہے اسی لیے سلطنت کائنات میں قانونِ طبعی کے ساتھ ساتھ قانونِ اخلاق بھی کارفرما ہے۔ چونکہ فطرت خود عدل پر قائم کی گئی ہے اس لئے تقاضا کرتی ہے کہ ہر جگہ عدل ہو، اور توازن دراصل عدل ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور توازن کسی بھی عمل اور چیز کو حُسن بخشتا ہے۔ تزویج میں تضاد واختلاف ہونا، حقیقت میں تکمیل ہونا ہے۔ کائنات ہویا انسانی اخلاق، توازن حاصل کرنے اور چیزوں کی حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ تضاد اور اختلاف ہی ہے۔ ہرچیز اپنی ضد کے ذریعے ہی شعوری پہچان دیتی ہے۔

    انسانی مزاج اور خصلت میں منفی اور مثبت دونوں رخ پائے جاتے ہیں۔وہ ظالم بھی ہے مظلوم بھی ،حاکم بھی ہے محکوم بھی ہے۔ وہ احسان کیش بھی ہے احسان فراموش بھی۔ وہ محبت کرتا ہے تونفرت بھی، کبھی سخی ہے کبھی بخیل۔ منفی ومثبت احساسات وجذبات کی ایک طویل فہرست ہے جس سے انسان وقت وحالات کے ساتھ نبردآزمارہتاہے۔ کبھی وہ سسرال ہوتاہے اور کہیں نسبی رشتہ نبھانا ہوتاہے۔ گویا ہر فرد نسب اور مہر سے جڑا ہواہے جیسے دایاں اوربایاں بازو جسم سے جڑے ہیںیا پھر جیسے تصویر کے دورخ ہوتے ہیں۔
    انسانی رشتوں کو نبھانے کے لئے کتنے ہی نشیب وفراز منفی ومثبت اندازِ فکر سے گزرنا پڑتاہے۔یہ ایک عجیب وغریب معاملہ ہے کہ ایک انسان سے کچھ رشتے اور تعلق ایسا ہوتاہے کہ محبت وعقیدت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دل میں موجز ن ہوتاہے، مگر اسی انسان سے کچھ لوگوں کی وابستگی میں وہ فریفتگی اور تعلق نہیں ہوتا، چاہیں بھی تو نہیں ہوسکتا۔ بلکہ ایک انسان کچھ لوگوں کی محبت سمیٹتا ہے تو وہی انسان کچھ لوگوں کے لئے قابلِ نفرت ہوتاہے۔ متضاد، طبعی حالتیں اور فطری جذبات کی کمی بیشی اس زمین کے باسیوں کو قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہیں۔اورکچھ آفاقی واخلاقی قوانین کی بنا پر انسانوں کے مزاج ایک دوسرے سے ہم آہنگ بھی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اختلافات سے مبرا نہیں ہوسکتے۔ حتیٰ کہ جڑواں بچے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتے ہیں۔اور اللہ تعالیٰ نے قانونِ تزویج پہ دوا لگ سلسلے چلائے۔ جن کو نسب اورسسرال کا نام دیا۔ ان دونوں کے درمیان تلخ وشیریں پانی اور مزاجوں اور تزویج کی مثال دی جاسکتی ہے۔ انسانوں کے اس وسیع وعریض سمندر میں رشتوں ناطوں کا میٹھا پن اورکھاری پانی نمایاں نظرآتاہے۔ بظاہر سب انسان ایک جیسے ہیں مگرجیسے پانی کے درمیان ایک اَن دیکھا پردہ حائل رہتاہے جیسے ایک انسان مختلف منفی ومثبت مزاج کا حامل ہے جیسے دل کی کیفیات میں تبدیلی آنے میں دیر نہیں لگتی۔

    نسب اور صھر کے رشتوں میں بھی ایک حجاب حائل رہتاہے۔ یہ کسی خاص قوم یا معاشرے کا معاملہ نہیں ہے۔ اس دنیا کی ہرقوم میں ’’نسب‘‘ اور’’ صھر‘‘میں تعلقات کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ نسب کے رشتے جب سسرالی رشتوں میں تبدیل ہوتے ہیں تو احساسات،جذبات ،گمان، توقعات میں فرق آجاتا ہے۔ منتوں مرادوں سے حاصل کردہ رشتوں میں بھی برائیاں نظرآنے لگتی ہیں۔ اور گلے شکوئوں کے انبار لگنے لگتے ہیں۔مرد ہو یا عورت، اپنے سسرال اورمیکے والوں کے درمیان کچھ نہ کچھ امتیاز ضروربرت رہاہوتاہے۔ معاملات، جذبات واحساسات کا فطری میلان نسب کے رشتوں کے ساتھ کچھ اور ہے اور صھر کے ساتھ کچھ اور۔اللہ تعالیٰ نے بھی قانونِ وراثت میں نسب اور سسرال کے امتیاز کو اپنی فطری میلانات کے ساتھ بنایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد کی اہمیت ان کی ترتیب کے ساتھ متعین کی ہے، وراثت کی تقسیم ہویا رشتوں کی تعظیم۔ اطاعت وفرماں برداری ہو یا خدمت ،رشتوں کے فطری میلانات کا خیال رکھا گیا ہے۔ بیٹے کے لئے ماں اور بیوی کے لیے شوہر افضل ہے اور اس میں توازن رکھنا ہی امتحان ہے۔ جب بہن بھائی اپنے بچوں کے رشتے آپس میں کرتے ہیں تو اولاد کا میٹھا رشتہ فطرتاًزیادہ قریب ہوتاہے۔ یہاں بھی عدل وتوازن اور فطری جذبے نفس اورانا کے ہتھے نہ چڑھیں تو زندگی کے اس سمندر سے سکون اور خوشی کے جواہرات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    پوری دنیا کی معاشرت گواہ ہے کہ ایک عورت اپنی بیٹی کے لئے جو کچھ تمنائیں وخواہشات رکھتی ہے وہ اپنی بہو کے لئے نہیں رکھتی۔ وہ داماد کو بیٹی کا تابع دار اوربہو کو اپنے بیٹے کی تابع دار دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک بہو اپنی ماں کی سخت مزاجی کو برداشت کرتی آئی ہوتی ہے مگر اپنی ساس کی جائز بات بھی برداشت نہیں کرتی۔اسی طرح مرد کے رویے اپنے والدین اوربہن بھائیوں سے اور ’’صھر‘‘ کے رشتوں سے فرق ہوتے ہیں۔ نسب کے رشتے بھی جب سسرال کے رشتے میں تبدیل ہوتے ہیں اور اکثردل کی مٹھاس میں کمی آجاتی ہے۔ پھر اسی صھر کی نسبت سے نسب کے میٹھے رشتے بنتے ہیں۔ ان میں تعلق کی نوعیت کچھ اور ہی بن جاتی ہے۔ گویا قانونی رشتوں کے نمکین پانی سے پھر میٹھا پانی وجود میں آنے لگتاہے۔

    نسب اورصھر کے رشتوں کے مابین غوروفکر کی بات یہ ہے کہ قانونی رشتوں کے لئے زاویہ نگاہ کہاں او رکیوں بدل جاتاہے؟ لفظوں کے انتخاب میں بداحتیاطی کی وجہ کیا ہے؟ دلوں میں احساسِ نازک کی ڈور کیوں ٹوٹ جاتی ہے؟

    انسانی مزاجوں میں اچانک تبدیلی کیسے آجاتی ہے؟ قانونی رشتے کے بارے میں اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ’’نسب‘‘ا ور صھر‘‘ کا معاملہ سمندر اوربارش او رپھر دریا کے پانی کا سمندر میں آملنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کے کھاری پانی اورمیٹھے پانی کی مثال دے کر متصلاً آدمؑ کی پیدائش اور پھر دوسلسلوں کی بات کرکے ایک گہری نشان دہی کی ہے کہ جس طرح کھاری پانی سے ہی پھر میٹھے پانی کا حصول ہوگا(بارش کی صورت میں)اسی طرح’’صھر‘‘ سے ہی ’’نسب‘‘ کا میٹھا رشتہ وجود میں آئے گا۔ گویا کہ ہر انسان دوقسم کے جذبات رکھتاہے،دوقسم کے رشتے رکھتا ہے۔ قانونی رشتے کے لیے زاویۂ نگاہ بدل جاتاہے کہ قانون کا احترام یا تو سزا کے خوف سے ہوتاہے یا پھر انعام کے لالچ میں۔

    اگرچہ قانون لوگوں کے مفاد کے لئے ہوتاہے۔ درست سمت چلنے کے لئے ہوتاہے مگر طبیعت پہ شاق گزرتاہے۔ وہ اگر اللہ تعالیٰ کا قانون ہوتو دوجہاں کے لئے کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور دونوں جہان کی زندگی آسان بنانے کے لئے قانون کی پابندی میں جب دل کی رغبت اوربھلائی کا یقین شامل ہوگا تو قانون پر عمل بھی آسان ہوجائے گا اور احساسِ نازک کی ڈور خوفِ خدا کی وجہ سے جڑی رہے گی۔ اورانعامات الٰہی کے حصول کے لالچ سے معاملات میں سُدھار کا احساس غالب رہے گا۔ بے شک یہ سب کرنے کے لئے نفس پہ جبر کرنا ہوگا۔
    جو قانون کی افادیت کو جان لیتا ہے، وہ سزا سے بچنے اورانعام پانے کی تگ ودو میں لگ جاتاہے۔ وہ قانون کا احترام کرتاہے اسی میں اس کا فائدہ ہے۔ قانون سب کے لئے ہوتاہے۔ قانونی رشتوں سے بھی واسطہ ہر مرد اورعورت کو پڑتاہے، دونوں کے لئے ان کا احترام لازم ہے۔ انسانی وجود کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے دورُ خ ہیں، دوپہلو ہیں۔ دایاں پہلو جو اعضا رکھتاہے وہی بایاں بھی رکھتا ہے، ایک جیسے ہونے کے باوجود دونوں الگ ہیں۔ دونوں اپنے مقام پہ رہ کر ہی کارآمد اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے ہی دنیا میں کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح رشتوں کی حقیقت کو پہچان کر ان کے تضادات کا ادراک کرکے ان کے طبعی اختلافات سے گھبرانے کے بجائے ان کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
    ایک ہی درخت کے پھل مختلف ذائقے کے ہیں۔ کوئی کھٹا ہے کوئی میٹھا۔ ایک ہی آدم کی اولاد مختلف مزاج رکھتی ہے۔ کوئی نافرمان ہے، کوئی فرماں بردار، کوئی حلاوت والا ہے تو کوئی ملاحت والا مزاج رکھتا ہے۔ کوئی میٹھے مزاج کا ہے کوئی کڑوے یا کھٹے مزاج کا۔ جیسے پھلوں کا کھٹا میٹھا ذائقہ او رکڑواہٹ کی وجہ سے مٹھاس کی پہچان ہوتی ہے۔ یہی امتیازات ہی دنیامیں دل چسپی کا اور رونق کا باعث ہیں تو یہی جذبات ومعاملات اور اخلاقی رویے امتحان بھی ہیں، ایک دوسرے کے لئے آزمائش ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے مواقع بھی ہیں۔ ان سب حقیقتوں کو جان کر قانونی رشتوں کے نمکین اورکھاری پانی میں میٹھے چشمے تلاش کرنے کے لئے محنت مشقت کرنا ہوگی۔ جس طرح منفی جذبات، منفی اعمال، غصہ، غیبت،کینہ، حسد وغیرہ کو نفس پہ جبر کرکے درست کیاجاسکتاہے۔اوررشتوں کے آبِ تلخ کی موجیں خواہ کتنا ہی زور لگالیں وہ اس میٹھے چشمے کو ہڑپ کر جانے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ اس میٹھے چشمے تک پہنچنے سے پہلے انسان کے لئے رشتوں کی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے توقعات کی ترجیحات بھی متعین کرنا لازم ہیں۔ بے محل توقعات سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ عقل مند وہ ہے جو توقعات وابستہ کرنے سے پہلے تعلقات کی نوعیت اور ترتیب وترجیحات کو پرکھ لے۔

    مرد اورعورت دونوں کی یہ خواہش اورمطالبہ ہوتاہے کہ وہ اس کے والدین اور رشتہ داروںکو ویسی ہی مثبت نگاہ سے دیکھے جیسے کہ وہ خود دیکھتا یا دیکھتی ہے۔ دونوں خود اپنے رشتہ داروں کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہوں تو بھی وہ اپنے ساتھی سے توقع رکھتے اورمطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے خاندان کے بارے میں ایک لفظ منہ سے نہ نکالے۔ ایک دوسرے سے بے محل اور انتہا درجے کی توقعات رکھنے کے کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آتے۔ ساس اپنی بہو سے توقع رکھتی اورمطالبہ کرتی ہے کہ وہ سگی بیٹی سے بھی بڑھ کر فرمانبردار اور محبت کرنے والی ہو اور بہو اپنی ساس سے اپنی ماں جیسی بلکہ کچھ زیادہ ہی عفوودرگزر چاہتی ہے۔ دونوں اس پیمانے پر پورا نہیں اترتیں۔

    دنیا کی کوئی عورت اپنی کوکھ سے جنم دینے والے بچے سے زیادہ کسی کونہیں چاہ سکتی، اور جس نے جنم دیا ہے اس کی جگہ اور مقام کوئی نہیں لے سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے رشتوں کی جو ترتیب اور ترجیحات متعین کی ہیں ان کی حقیقت کو ساتھ لے کر سمجھ کر اورپورے شعور اور ادراک کے ساتھ، ان کے اصلی مقام پہ رکھتے ہوئے زندگی کی راہ پہ چلنا ہوگا۔
    اور یہی اصول ہررشتے کو نبھانے کے لئے کارفرما رکھنا ہوگا۔ رشتوں کے اس گلستان میں جس رشتۂ گل کا جو مقام ہے رنگ اور خوشبو ہے اس کو قبول کرنا ہوگا۔ گلاب کے ساتھ اگر کانٹے ہیں تو یہ قدرت کا اٹل فیصلہ اور حکمت عظیم ہے۔

    ہر انسان نسب اور صھر کے رشتے سے منسلک ہے کیونکہ یہ ایک سرکل ہے۔ ہر جوڑا قانون کے تحت یک جا ہوتاہے۔ پھران سے(صھر کے رشتے سے) نسب کا سلسلہ چلتاہے۔ جیسے لطیف ہوا مل کر سمندر کے کھاری اور بھاری پن کو زندگی بخش بارش میں تبدیل کردیتی ہے۔ اسی طرح ہر مرد اور عورت اپنی پرخلوص محبت کی حرارت اورحُسن عمل کی ہوا سے معاشرے میں امن وسکون کا ابرباراں اور رحمت کا باعث بن سکتا ہے۔

    سورۃ فرقان کی مندرجہ بالا آیات کے بعد توحید ورسالت اورآثارِ کائنات پہ غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے بعد معاشرے میں آئیڈیل اورمثالی لوگوں کے کردار کو واضح کیا گیاہے اور رشتے کی تلاش کے لئے کردار جانچنے کا ایک پیمانہ بھی دے دیا گیا ہے اور باہمی تضاد وانتشار، اختلافات ونزاعات میں ایک ربانی کردار کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ یہ تنازعات خاندانی ہوں، نسب کے رشتوں میں ہو ںیا صھر کے ادارے کے کارکنان کے درمیان ہوں، کسی قوم برادری کے درمیان ہوں غرض زندگی کے ہر شعبے میں،یہ ایک نسخۂ کارگر ہے جو اخلاقی بیماریوں کی مکمل شفا کا باعث ہے۔ تلخ وشور جذبات کو ہرممکن میٹھا بنانے کا فارمولا۔ اس نسخے اور فارمولے کو ہر خاص وعام کے لئے یکساں مفید بنایاگیاہے۔ عمر،جنس، رشتے، مقام، ماحول اورحالات وواقعات کوئی قید نہیں ہے، جو زندگی میں رشتوں کی مٹھاس کشید کرنا چاہتاہے وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتاہے مگر شرط رب سے اجر کی توقع ہے۔ رب کی رضا جب نصب العین ہو تو انسانوں سے توقعات کا پودا پنپنے نہیں پاتا۔ اور ایسے ہی کردار مومنین کو اس رحمن ورحیم ذات نے اپنے خالص اوراصلی بندے ہونے کا اعزاز بخشاہے۔ جیسے کسی بڑی کمپنی میں کسی ملازمت کی پیش کش ہوجائے۔ کمپنی خود اس کو اپنے ادارے میں جگہ دے، اس کی کارکردگی کے پیش نظر ا س کو اعزازت سے نوازے اورفخر کرے اوردنیا میں تشہیر کرے کہ یہ شخص ہمارے ادارے کا ممبر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے معزز کارندے کا تعارف کراتے ہیں اور رشتے کی تلاش کے لئے ایک ایسا خاکہ تیار کرکے دیاگیا ہے جو’’معزز‘‘ ہونے کی دلیل ہے۔

    رحمن کے اصلی بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں۔ ان کی شخصیت پہلی نظرمیں ہی اپنے کردار کی وضاحت کردیتی ہے۔ چال ڈھال سے اللہ کے بندے کا مقام ومرتبہ اور احساسِ ذمہ داری نمایاں ہوتاہے۔ اس کے ذہن ا س کی سیرت وکردار کی اولین ترجمان بھی اس کی چال ڈھال ہی ہوتی ہے۔ کسی سابقہ تعارف کے بغیر ہی رحمن کے بندے اپنی پہچان کرادیتے ہیں۔ اسی طرح خاندان،قوم اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ نئے رشتوں میں بندھنے سے پہلے، اگر ایسا کردار تلاش کیا جائے اور ایسی ہی شخصیت اپنی بنائی جائے تو بنیادیں مضبوط ہوںگی۔ رحمن کے اصلی بندوں والے گھر انے خاص ترکیب سے تشکیل پاتے ہیں۔ رحمن کی بندگی ان کی ذہنیت اور سیرت کو دوسروں سے ممتاز بنا دیتی ہیں۔؎
    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

    جب متعین ہوگیا کہ رحمن کے بندوں کی ظاہری شخصیت، شرافت، حلم اور بردباری وہمدردی ہے تواگلی صفت خودبخود ظاہر ہونے لگتی ہے۔
    ٭جب جاہل ان کے منہ کو آئیں توکہہ دیتے ہیں، تم کو سلام۔(۶۳)
    یعنی رشتوں ناتوں او ردیگر معاملات میں کوئی غیر شریفانہ طرزِ عمل اختیار کرے تو وہ نزاع کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں نہ کہ بحثا بحثی میں پڑ کر طول دیتے۔ اور اپنی انا کا بت پوجنے میں لگ جاتے ہیں۔ بیوقوف سے تکرار کرنا اور بھی زیادہ بے وقوفی ہے۔قیامت کے دن جب لوگ گزرے ہوئے حالات ایک دوسرے سے پوچھیں گے تو جنتی لوگ کہیں ’’ہم دنیا میں اپنے گھروالوں کے درمیان بے خوف ہوکر نہیں بلکہ احساسِ جواب دہی کے ساتھ ذمہ داریاں اداکرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے(تقویٰ کی)زندگی گزارتے تھے، اسی لئے آج اللہ کریم نے ہم پہ فضل فرمایاہے(الطور،۲۵۔۲۵۔۲۷)
    ٭ وہ جب کوئی غیر شریفانہ طرزِ عمل سے دوچار ہوتے ہیں یا بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اس کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بھائی! ہمارے اعمال ہمارے لیے تمہارے اعمال تمہارے لیے، سلام ہے تم پر(ہماری طرف سے)ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے۔ (القصص۲۶:۵۵)
    انسانی معاشرے میںجب فطرت کے خلاف طرز زندگی پنپنے لگتا ہے توسکون اورعافیت رخصت ہوجاتاہے۔ مسلم گھرانوں میں شب وروز کے اوقات جس طرح غیر فطری ہوگئے ہیں تو عبادتوں اور ریاضتوں کا رخ بھی بدل گیا ہے۔رات کے اوقات سکون اور آرام کے لئے ہوتے ہیں، یا اپنے رب سے مناجات کے لئے کہ محبوب سے ملاقات کا وقت تنہائی کا ہی ہوتاہے۔
    دن میں شریفانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں تو رات کو اپنے رب کے ساتھ خشوع وخضوع ، الحاح وزاری کا معاملہ رکھتے ہیں:
    وہی شخص رب سے ڈرتے ہوئے رات کے اوقات بسر کرے گا جو دن کواپنے معاملات رحمن کا بندہ ہونے کی حیثیت سے طے کرے گا۔ راتیں لہو ولعب کے لئے نہیں ہیں اوردنیا کی رنگینیوں میں مگن ان کی مسرتوں میں مبتلا ہونے کے لئے نہیں ہیں۔ رحمن کے خالص بندے تو یہ ہیں۔
    ٭ جو اپنے رب کے حضور سجدے اورقیام میں راتیں گزارتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ ہمارے رب ، جہنم کے عذاب سے ہم کوبچا لے اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بہت ہی برا مستقر اورمقام ہے(الفرقان۲۵:۶۶)
    جو جہنم کے عذاب سے بچنے کی فکر کرتاہے وہ اپنے معاملات پہ بھی کڑی نظر رکھتاہے۔ ہر گھر،خاندان میں باہمی چپقلش کی ایک وجہ معاشی رویے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کا حل بیان کیا ہے کہ تلخی، دلوں سے دور ہو۔ اوربرکت کی مٹھاس معاشی معاملات میں نظر آئے جس سے معاشرت میں حُسن پیداہو۔
    ٭جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوںکے درمیان اعتدال پہ قائم رہتاہے۔
    ٭اور کسی بھی حال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی معبود نہیں بناتے۔ نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔(۶۸)

    معبود انِ باطل ، اقتدار، شہرت،نفس پرستی، مال ودولت وغیرہ سے اپنا دامن بچا کر رکھتے ہیں اور قتلِ ناحق کی وجہ ان سب معبودانِ باطل سے وابستگی کی بنا پر ہوتاہے۔ او رپھر ایک خاص گناہ کی طرف اشارہ ہے جس سے معاشرے میں ابتری پھیلتی ہے۔ گھروں اوردلوں میں پاکیزگی کے بجائے گندگی پھیلتی ہے۔ جب عزت آبرو سے بے نیازی کا چلن عام ہوجائے تو گونا گوں عذاب نازل ہوتے رہتے ہیں۔ اس بے حیائی کے عذاب سے ڈرایا جارہاہے ’’جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو بار بار عذاب دیاجائے گا اور وہ ہمیشہ اسی ذلت میں پڑا رہے گا۔(۶۹)

    اس بے حیائی کو عام کرنے والے، فواحش کو آسان کرنے والے اور اس کا ارتکاب کرنے والے توبہ کرکے عملِ صالح کی طرف آجائیں تو باہمی تعلقات کی کڑاوہٹ دورہوجائے گی۔ بدکاری کے مرتکب لوگ صرف اپنے لیے نہیں پورے خاندان اورقبیلہ قوم کے لئے باعث ننگ وعار ہوتے ہیں۔’’مگرجو اپنے گناہوں سے توبہ کرچکا ہو اورایمان لاکر عملِ صالح کرنے لگا ہو تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ بھلائیوں میں بدل دے گا، اس لیے کہ وہ بڑا غفور رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کرکے نیک عملی اختیار کرتاہے تو وہ اللہ کی طرف ایسے پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔‘‘(۷۱)

    معاشرے میں اور باہم گھرانوں میں تعلقات کی درستگی میں اس طرزِ عمل کو بہت عمل دخل ہے۔ گناہ کے بعد ہٹ ،مزید گناہ کا باعث ہے۔ نیک طرزِعمل اور توبہ پہ استقامت ہوگی تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے تائب بندوں کو نیکی کا راستہ آسان کرکے دکھائے اور برائیوں کو نیکیوں سے بدل لینے کے مواقع فراہم کرے۔
    جھوٹ اورمومن دومتضاد چیزیں ہیں۔ رحمن کے اصلی بندے اپنے گھروں میں، معاشرے میں نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ جھوٹ کو فروغ دیتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والے لوگ تلخیوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جھوٹ پر قائم کردہ رشتے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔قانونی رشتوںکو جھوٹ کی بنیاد پر قائم کیسے رکھا جاسکتاہے؟’’ رحمن کے اصلی بندے وہ ہیں جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے۔‘‘یعنی مومن حق کی معرفت رکھتا ہے اورجھوٹ کی تائید نہیں کرتا۔ گواہ نہیں بنتا۔ رشتے ہوں یا معاملات حق کا ساتھ دیتاہے اورکسی لغو بات پہ ان کا گزر ہوتاہے تو شریف آدمیوں کی طرح گزرجاتے ہیں۔‘‘(۷۲)

    یعنی جان بوجھ کر ایسی چیزیں دیکھنے، سننے یا ان میں حصہ لینے کے لئے نہیں جاتے بلکہ اتفاقاً گزرتے ہوئے نظر پڑبھی جائے تو دوسری نگاہ ڈالے بغیر شرافت سے گزرجاتے ہیں۔ غلاظت وگندگی کے ڈھیر سے دامن بچا کر نگاہ ڈالے بغیر تیزی سے گزرجاتے۔ کجا کہ کوئی اس گندگی میں جان بوجھ کر ، رقم خرچ کرکے، اپنا قیمتی وقت برباد کرکے سانس لینے کی حماقت کررہاہو۔خوش ذوق اورمہذب انسان غلاظت کو ایک منٹ کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ معاشرے میں ہرطرف پھیلی فواحش کی غلاظت نے گھروں کے باہم تعلقات ومعاملات کو بہت متاثر کیا ہے۔ رحمن کے اصلی اورخالص بندے رشتوں کے تقدس کو قائم رکھتے اور ان میں تلخی گھولنے سے کوسوں دوررہتے ہیں۔ نسب اور قانونی رشتوں کے درمیان فاصلے مٹانے کا نسخہ یہ ہے کہ ’’رحمن کے پیارے بندوں کو جب رب کی آیات سنا کر غلطی پہ متنبہ کیا جاتاہے تو اس پہ اندھے بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔‘‘
    باہم رشتوں میں نشیب وفراز آتے ہیں۔ ان پہ اصرار نہیں کرتے۔ تنازعات کے کانٹے ختم کرکے عافیت کی راہ اسی ایک نکتہ میں مستور ہے[pullquote] (وَ لَمْ یُصُِّروا عَلیٰ مَا فَعَلُوْا وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ۔ آل عمران:۳:۱۳۵)[/pullquote]

    رحمن کے پیارکو حاصل کرنے والے تو اپنی گھریلو اور خاندانی زندگی میں بہار لانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔’’نسب‘‘ کا رشتہ یا’’صھر‘‘ کا وہ اپنی اولادوں اور زندگی کے ساتھی کے لیے یکساں خیر کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اپنی اولادوں کے علاوہ اپنے بیٹے اوربیٹی سے چلنے والے سلسلے کے لئے دعائیں مانگا کرتے ہیں’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی زندگی کے ساتھی اور اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطافرما دے اورہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔‘‘(۷۴)

    اپنے نفس کی شرانگیزیوں اورتلخیوں پہ قابو پانے کے لئے وہ صبر واستقامت سے کوشش میں لگے رہیں گے تاکہ دنیا میں ان کی معاشرت امن وسکون کا گہوارہ بنے اوراپنے گھروں میں چین سے رہیں جہاں ’’نسب‘‘ اور’’صھر‘‘ کے رشتے اپنی اپنی مٹھاس کے ساتھ تلخیوں پہ قابو پالیتے ہیں۔ انسانوں کے سمندر میں میٹھے چشمے جیسے متصف لوگوں اورگھرانوں کے لئے خوشخبری ہے
    ’’وہ اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے۔‘‘حُسن معاشرت کی ایک تصویر دنیا میں ان کے سامنے تھی کہ وہ اپنے رشتوں کو نبھاتے ہوئے گھروں میں بلند مرتبہ رہے۔ تو آخرت میں ان گھرانوں کو منزل بلند کی شکل میں رہائش عطا کی جائے گی۔
    ’’آداب وتسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا۔وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا مستقر ہے اورکیا ہی بہترین ہے وہ مقام۔‘‘(۷۶)

    سبحان اللہ! یہ باہمی رشتوں میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرتے اور آداب وتسلیمات سے دنیا میں ایک دوسرے کا استقبال کرتے تھے۔ تلخیوں کو نظرانداز کرتے تھے۔ شب وروز کے اوقات میں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہوتے تھے۔ آج اسی شیریں عمل کا صلہ دیکھیں گے کہ ہر طرف سے ان کو آداب وتسلیمات سے پکارا جائے گا۔ دنیا میں ایک دوسرے کو دعائوں میں یاد رکھتے تھے۔ تقویٰ اور اطاعت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کا شوق تھا جس میں نہ حسد ہے نہ کینہ۔ اپنی اولادکو متقی لوگوں کا پیشوا بنانے کی دُھن تھی۔ نہ شریکے کی ضد تھی، نہ مال ودولت جمع کرنے کا زُعم، نہ جاہ وحشمت کی مسابقت اور نہ ہی سابقہ احسانات کو جتانے کا عیب تھا۔سب کی ایک ہی لگن تھی کہ کون زیادہ اچھے عمل کرلے۔ دوسرے کو عطا کرکے، معاف کرکے اپنے کردار کو چشمۂ صافی بنالے۔

    میاں بیوی ہوں یا ان کے حوالے سے دیگر رشتے، ہر ایک رشتے کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’وہ ذات ہے جس نے زندگی اورموت کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ دیکھے، آزمائے تم میں سے کون زیادہ بہتر عمل کرکے آتاہے۔‘‘(الملک)

    جب اپنے مفادات پر زد پڑتی ہوتو کون ’’احسن عملاً‘‘ کی کوشش کرتاہے۔ معاملہ بہترعمل کی تلاش، کوشش اور پھر اس پہ استقامت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظرمیں کون زیادہ اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی جنت کا کون زیادہ مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا کون زیادہ امیدوار ہے۔ تلخیوں، شکووں کو نظرانداز کرکے کون ان ہمیشگی کے اچھے مقامات، پائیدار عزت کو حاصل کرنا چاہتاہے۔ رشتوںناتوں، مزاجوں کا اختلاف،قوموں، قبیلوں، رنگ ونسل کی رنگا رنگی محض تعارف وپہچان اور آزمائش کے لئے ہے کہ کون تقویٰ کے اس معیار پہ پہنچتا ہے جس کی جزاجنت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اس سے بھی بڑھ کرنعمت ہے۔ یہ نعمت ان کو ملے گی جو غصہ ، انتقام اوربدلہ لینے کے حق رکھنے کے باوجود درگزر کریں گے۔

    رشتوں کے درمیان منفی خیالات وجذبات کا آنا غیر فطری نہیں ہے۔ ان کی آڑ بناکر رشتوں سے منہ موڑنا غیر فطری اورغیر مستحسن ہے۔ انسانی جذبات میں منفی طرزِ عمل ہی باور کراتاہے کہ ہمارا ٹارگٹ کیا ہے؟ کس کو چھوڑکر کیاحاصل کرناہے؟ اختلافات وانتشار میں قرآنی اورربانی فیصلے کا اختیار نفس کو دیا جائے یا پھر اُس احکم الحاکمین کو جس کی طرف سارے معاملات لوٹائے جائیں گے۔ جہاں کسی پر ذرہّ برابر ظلم نہ ہوگا۔ جہاں ایسی کتاب سے واسطہ پڑے گا جس میں ہمارے ہر چھوٹے بڑے عمل کا اندراج ہوگا۔ اورجہاں رحمن ورحیم اپنے خالص بندوں کی عزت افزائی فرمارہاہوگا۔

    اسی عزت افزائی کو حاصل کرنے کے لئے اس دنیا کی جھوٹی عزتوں کو قربان کرنا پڑے گا۔ان کے بت کو پاش پاش کرنا ہوگا۔ دوسروں کی کمزوریوں کو نظرانداز کرکے تحمل اور برداشت کا کلچر رواج دینا ہوگا۔ہر شخص حقوق دینے کے فرائض اداکرنے کی فکر کرے۔ لینے اور حاصل کرنے کی پالیسی کے بجائے دینے اور ایثار کرنے کی پالیسی پہ عمل کیا جائے۔ اختلاف رائے کو زحمت کے بجائے رحمت بنایا جائے۔ متضاد چیزوں اوررویوں کے ساتھ بہتر حکمت عملی اپنا کر معاونت کی راہ تلاش کی جائے۔یگانگت اوربھائی چارے کے میٹھے چشمے انہی تضادات کے کھاری پانی اورنمکین پانی کے اندرہیں۔ کھاری پانی کو میٹھا بنانے کے لئے سائنسی طریقے انسان نے ایجاد کرلیے ہیں تو ان رشتوں کی مٹھاس حاصل کرنے کے لیے قرآنی فارمولے پر ہی عمل کرنا ہوگا۔
    گرتو می خواہی مسلماں زیستن
    نیست ممکن بجز قرآں زیستن

  • امریکی انتخابات کے نتائج پر سجاد خان کا مختصر مگر پر اثر تجزیہ

    امریکی انتخابات کے نتائج پر سجاد خان کا مختصر مگر پر اثر تجزیہ

    امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی سے امریکی عوام کے بارے میں دو باتیں تو واضح ہوگئی ہیں.
    ان دو باتوں کو سمجھنے سے پہل یہ جان لیجئے کہ ہلیری کلنٹن جیتے یا ٹرمپ. ہر دو صورتوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے.
    یہ کہنا کہ ان دو میں سے کون پاکستان کے لئے فائدہ مند ہوگا غلط ہے،
    یوں کہنا چاہیے کہ ان دونوں میں سے پاکستان کے لئے کون کم نقصان دہ ہوگا.
    اب آتے ہیں ان دو باتوں کی طرف،
    اول یہ کہ عورت کے مقابلے میں مرد کو کامیاب کرواکے انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ عورت اور مرد کی برابری سے متعلق ان کے نعرے کھوکھلے ہیں،
    خود وہ اس پر عمل نہیں کرتے اور اس بارے میں غیر سنجیدہ ہیں.
    دوم یہ کہ ہلیری کلنٹن جو نسبتاً معتدل ہیں، کے مقابلے میں تعصب پرست ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیکر انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ امریکی عوام کی اکثریت خود تعصب پسند ہیں.
    دیگر اقوام اور دیگر مذاہب کے بارے میں وہ شدت کا شکار ہیں.
    سجاد خان

  • چائے کی تاریخ. عامر احمد عثمانی

    چائے کی تاریخ. عامر احمد عثمانی

    چائے کی دریافت آج سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل چینیوں کے عہد میں ہوئی
    *مختلف ممالک میں چائے کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سبز چائے مقبول ترین قسم شمار کی جاتی ہے۔
    *دنیا میں سبز چائے کی اتنی اقسام وانواع پائی جاتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔
    *یہ چائے کولیسٹرول کم کرنے، امراض قلب وجگر سے حفاظت اور ہاضمے کی درستگی کا اہم ذریعہ ہے۔
    چائے ہماری روز مرہ زندگی کا اہم جزو بن چکی ہے۔ دن کا کھانا ہو یا رات کا دسترخوان، مہمان کی خاطر مدارت کرنی ہو یا یارانِ محفل کی دلجوئی ولجمعی کا لحاظ رکھنا ہو، کوئی خوشی کی تقریب ہو یا غم کا موقع چائے پیش کرنا ایک روایت بن چکی ہے۔ ناشتہ تو چائے کے بغیر ایسا ہی لگتا ہے جیسے گاڑی ہو اور اس میں پیٹرول نہ ہو۔ یہ توچولی دامن کے ساتھی ہیں۔ امیر ہو یا غریب سب آپ کو اس روایت کی پیروی کرتے نظر آئیں گے۔ پاکستان میں اس مشروبِ گرم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گرمی ہو یا سردی چائے نوشی کا تسلسل بدستور جاری رہتا ہے اور اس کے پینے میں کوئی ناغہ ہرگز برداشت نہیں کیاجاتا۔ ایک سروے کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ مزدور طبقہ چائے کا زیادہ شوقین ہوتا ہے۔ کیوں کہ چائے میں ایسے مادے پائے جاتے ہیں جو وقتی طور چستی، پھرتی اور نشاط پیدا کرتے ہیں۔ لیکن کثرتِ استعمال کی وجہ سے ہمارے ذہن اس کے اتنے عادی بن چکے ہیں کہ اگر وقت پر چائے نہ ملے تو جسم تھکن محسوس کرنے لگتا ہے اور اعصاب ٹھوٹے پھوٹنے لگتے ہیں۔ برصغیر میں چائے کا چسکہ انگریز کی مرہونِ منت ہے۔ اس نے سب سے پہلے ہندوستانی لوگوں کو مفت چائے پلاکرانہیں اس کا عادی بنایا۔ پھر اس کی تھوڑی سی قیمت مقرر کرکے تجارت شروع کی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ قیمت بڑھتی چلی گئی اور برصغیر کے لوگو ں کی عادت بنتی چلی گئی۔
    چائے کی دریافت آج سے تقریبا پانچ ہزار سال قبل چینیوں کے عہد میں ہوئی۔ اور اس دریافت کا سہرا ایک چینی بادشاہ کے سر جاتا ہے جس نے علاج کی غرض سے جڑی بوٹیوں کے ساتھ چائے کے پودے کی بھی دریافت کی۔ چائے کا پودا ایک ایسی جھاڑی پر مشتمل ہوتا ہے جو سدا بہار ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں اس جھاڑی کے پتے کو ایک ٹکیہ کی شکل دی جاتی اور اس ٹکیہ کو پیس کرادرک اور مالٹے کے ساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس چورے کو نمک کے ساتھ استعمال کیا جانے لگااور پھر چین سے ہوتا ہوا یہ مشروب ترکی اور ہندوستان تک پہنچا۔ چائے میں سب سے پہلے دودھ کا استعمال چنگیز خان نے کیاجس نے چائے کو پہلی مرتبہ بطورِ پتی استعمال کیا۔
    چائے کی ایک اور قسم جسے ’’سبز چائے‘‘ کہا جاتا ہے، بعض قوموں اور قبیلوں کے نزدیک اس سبز چائے کا شمار اہم ترین مشروبات میں ہوتاہے۔ لیکن ہر قوم و قبیلہ کے قہوہ پیش کرنے کا انداز دوسرے سے مختلف اور جدا ہے۔ بعض تاریخی روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قہوہ چائے کی ابتداء حبشہ (موجودہ ایتھوپیا واقع براعظم افریقہ) کے’’ کافا‘‘ نامی علاقے سے ہوئی۔ اس کے بعد میلاد کے نویں سال قہوہ چائے رفتہ رفتہ حبشہ سے یمن کی طرف منتقل ہونے لگی۔ یمن منتقل ہونے کے بعد قہوہ چائے دھیرے دھیرے دنیا کے مشرقی ممالک میں مقبول ہوتی چلی گئی اور مشرقی ممالک میں قہوہ خانے قائم ہونا شروع ہوئے۔ یمنی شہر ’’بندقیہ‘‘ کے تاجروں نے قہوہ چائے کا کاروباروسیع کرتے ہوئے اسے جنوبی یورپ کے علاقوں میں میں بھیجنا شروع کیا اور پہلی مرتبہ سال 1615ء میں قہوہ یمن سے یورپ کی طرف منتقل ہوا ۔ چلتے چلاتے یورپ کے شمال وجنوب میں قہوہ چائے کا ڈنکا بجتا چلا گیا اور قہوہ چائے پھیلتی چلی گئی۔ یورپ کے بعد قہوہ چائے امریکا اور دوسرے ممالک میں میں بھی کاشت کی جانے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی پیداوار ا پوری دنیا میں پھیلتی چلی گئی اور چائے کی مختلف اور متعدد اقسام کی کاشت کا عمل شروع ہوگیا۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی کہ البیان کی رپورٹ کے مطابق اگر پوری دنیا میں پھیلے قہوہ چائے کی اقسام اور اس کی تیاری کے مختلف طریقوں اور پیش کش کے مختلف سلیقوں کو شمار کرنے کی کوشش کی جائے تو شمار نہیں کیا جاسکتا۔
    محمد غسان جو ملک یمن کے علاقے ’’شارقہ ‘‘ کے ’’لوید‘‘ نامی مشہور قہوہ خانے میں کام کرنے والا ہے وہ کہتا ہے: ہمارے ہاں ترکی اور مختلف عربی قسم کی قہوہ چائے بنائی جاتی ہے لیکن لوگوں کا سب سے زیادہ شوق سے عربی قہوہ پیتے ہیں۔ اس کی بہ نسبت ترکی ودیگر قہوہ جات کے کی طرف لوگ بہت کم مائل ہوپاتے ہیں۔ محمد غسان کا مزید کہنا ہے کہ عربی قہوہ کا معاملہ اب ہمارے ہاں بالکل ایسا ہی بن چکا ہے جیسا ابتداء میں سادہ قہوہ کا معاملہ ہوا کرتا تھا۔ اب ہمارے یہاںیہ ثقافت چل پڑی ہے کہ بڑے سے بڑے مہمان کے لئے اچھے سے اچھا عربی قہوہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ رواج قاہرہ، استنبول اور مختلف عرب سوسائیٹیز اور صحراوں میں رائج ہے۔براعظم افریقہ کے شمالی شہر الجزائر کی ثقافت سبز قہوہ پیش کرنے کی ہے جو مہمانوں کے سامنے تازہ تر کھجوروں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ، معمر اور بزرگ حضرات کے سامنے سب سے پہلے گرم گرم قہوہ پیش کیا جاتا ہے، جو انتہائی مقبول روایت ہے۔
    چینی سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ سبز چائے میں ایک ایسا کیمیکل ہوتا ہے جو ایل ڈی ایل یعنی برے کولیسٹرال کو کم کرتا ہے اور ایچ ڈی ایل یعنی اچھے کولیسٹرال کو بڑھاتا ہے ۔ پنگ ٹم چان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے ہیمسٹرز لے کر ان کو زیادہ چکنائی والی خوراک کھلائی جب ان میں ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح بہت اونچی ہوگئی تو ان کو تین کپ سبز چائے چار پانچ ہفتے پلائی جس سے ان کی ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح نیچے آگئی ۔ جن ہیمسٹرز کو 15 کپ روزانہ پلائے گئے ان کی کولیسٹرال کی سطح ۔ کل کا تیسرا حصہ کم ہو گئی اس کے علاوہ ایپوبی پروٹین جو کہ انتہائی ضرر رساں ہے کوئی آدھی کے لگ بھگ کم ہو گئی ۔ میں نے صرف چائینیز کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے ۔
    سبز چائے میں پولی فینالز کی کافی مقدار ہوتی ہے جو نہائت طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں ۔ یہ ان آزاد ریڈیکلز کو نیوٹریلائز کرتے ہیں جو الٹراوائلٹ لائٹ ۔ ریڈی ایشن ۔ سگریٹ کے دھوئیں یا ہوا کی پولیوشن کی وجہ سے خطرناک بن جاتے ہیں اور کینسر یا امراض قلب کا باعث بنتے ہیں ۔ سبز چائے انسانی جسم کے مندرجہ ذیل حصّوں کے سرطان یا کینسر کو جو کہ بہت خطرناک بیماری ہے روکتی ہے:مثانہ ۔ چھاتی یا پستان ۔ بڑی آنت ۔ رگ یا شریان ۔ پھیپھڑے ۔ لبلہ ۔ غدود مثانہ یا پروسٹیٹ ۔ جِلد ۔ معدہ ۔
    سبز چائے ہاضمہ ٹھیک کرنے کا بھی عمدہ نسخہ ہے ۔ سبز چائے اتھیروسکلیروسیس ۔ انفلیمیٹری باویل ۔ السریٹڈ کولائیٹس ۔ ذیابیطس ۔ جگر کی بیماریوں میں بھی مفید ہے ۔ ریح یا ابھراؤ کو کم کرتی ہے اور بطور ڈائی یورَیٹِک استعمال ہوتی ہے ۔ بلیڈنگ کنٹرول کرنے اور زخموں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ دارچینی ڈال کر بنائی جائے تو ذیابیطس کو کنٹرول کرتی ہے ۔ سبز چائے اتھروسلروسس بالخصوص کورونری آرٹری کے مرض کو روکتی ہے ۔

  • مسیحا یا ملک الموت : شیخ محمد ہاشم

    مسیحا یا ملک الموت : شیخ محمد ہاشم

    شیخ محمد ہاشم
    ڈاکٹر صاحب کو جب ہم نے بہت ہی کم وقتوں میں امیر بنتے دیکھا تو ہم نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی ترقی کا راز پوچھا تو مسکراکر مولویوں کی طرح فتوے کے انداز میں گویا ہوئے “میاں محبت ،جنگ اور کاروبارمیں سب کچھ جائز ہے” ڈاکٹر صاحب مسکرا رہے تھے اُن کے اس محاورے کو سمجھنے میں ہمیںکچھ وقت لگا تب ہم حیرت کے عالم میں انھیں ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہے تھے ہم سکتے میں تھے اس ایک محاورے نے ہمارے سامنے ان کی شخصیت کو برہنہ کر دیا تھا ہمیںاس ڈاکٹری فتوے نے سناٹے میں لا کر کھڑا کر دیا ہر سو ویرانی دکھائی دینے لگی اس محاورے کو سننے سے قبل ہمارے تحت ُالشعور میں ڈاکٹر کا روپ ایک مسیحا کی مانند تھا زندگی بچانے والے تمام شعبے کے لوگ ہمیںسفید کوٹ میں ملبوس فرشتے کے ہیولے دکھائی دیتے تھے ہم اس شعبے سے جڑے افراد کی تعظیم میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے رہے لیکن اس ایک محاورے نے ہماری سوچوں کو منتشر کر دیا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جن ڈاکٹر صاحب کو میرے رب نے زندگی بچانے والے فرشتے کے روپ میں ایک ذمہ داری سونپی ہے ایساا علیٰ مقام دیا ہے، وہ صرف چند سکوں کے خاطراس ذمہ داری کو کاروبار میں منتقل کر چکے ہیں تب ہم پر اُن کی ترقی کے راز آشکار ہونے شروع ہوئے ہم نے مزید کھوج لگانے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر صاحب کے کاروبار میں اتنی برکت اتنی تیزی سے کیسے پیدا ہو گئی کہ اتنے کم وقتوں میں یہ امیروں کی صفوں میںکیسے کھڑے ہو گئے ؟ تو جناب ایسے ایسے انکشافات نے جنم لئے کہ ہمارے پیروں تلے زمین نکلنا شروع ہو گئی۔

    اس وقت دوائیوں کی ملٹی نیشنل اور نیشنل کمپنیاں سب سے زیادہ نا جائز منافع کما رہی ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ وہ ڈاکٹروںکو فراہم کر رہی ہیںسیمنارکے نام پر ڈاکٹروںکو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ ہماری کمپنی کی جتنی زیادہ دوائی لکھیں گے اُتنا زیادہ کمیشن کمائیں گے اس کے علاوہ تحائف جس میں الیکٹرونک اشیاء سے لے کر کار ،بچوں کی تعلیمی فیسیں ،اور دنیا بھر کا دورہ بھی شامل ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ عمرہ کا ٹکٹ بھی دیا جاتا ہے اب واللہ ا علم بصوا ب کہ اس صورت میں عمرہ جائز ہے کہ نہیں یا محبت، جنگ اور کاروبار میں مذہبی فرائض بھی جائز قرار ہو گئے ہو ؟آپ حیران ہو ں گے کہ ضمیر سے عاری ڈاکٹر حضرات دل کے عارضے میں مبتلا مریض کو دل کی ادویات کے ہمراہ معدے کی دوائی بھی شامل کر دیتے ہیں تاکہ دوائی لکھنے کی مد میں کمیشن دستیاب ہو سکے اس تجویز کردہ معدے کی دوائی کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہوتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ معدے میں گیس کے سبب درد کی شکایت میں مبتلا مریض جب ڈاکٹرز کے پاس آتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ یہ درد، دل کی دھڑکن درست نہ چلنے کے باعث ہے، ECGکروایا جاتا ہے جو کہ دل کی دھڑکن کو درست ثابت کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ دھڑکن کی رفتار اس وقت تو درست ہے لیکن یہ مرض آپ کو لاحق ہے اب آپ کو میری تجویز کردہ دوائی تمام عمر کھانی ہے ورنہ ملک عدم سدھار جائو گے۔ مریض بے چارے کے پاس ڈاکٹر کی بات ماننے کے سواکوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔

    پاکستان میں موجود 240 نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے منسلک کوٹ ، پینٹ،ٹائی میں ملبوس نوجوان لڑکوں کا ڈاکٹر ز کے کلینک اور ہسپتال کے گرد تانتا بندھا رہتا ہے ایک گائناکولوجسٹ لیڈی ڈاکٹر کو ان بیگ تھامے لڑکے سے ہم نے بانگ دہل یہ کہتے سُنا ہے کہ آپ کی کمپنی کی اس میڈیسن کے علاوہ میں کوئی دوسری میڈیسن نہیں لکھوں گی ،لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کی کمپنی اس کے عوض مجھے کتنا کمیشن دے سکتی ہے؟کمیشن کے عوض ان لالچی دیوتاوں کویہ بھی جانچنے کی قطعی ضرورت نہیںکہ اس کمپنی کی میڈیسن کامیعارکیاہے ۔ اس قسم کے لوگ ڈاکٹروںکے روپ میں ملک الموت بن چکے ہیں ۔ ہسپتال،ڈاکٹرز،میڈیسن کمپنیاں زندگی بچانے کی ضمانت سمجھے جاتے تھے لیکن اب یہ منعفت بخش کاروبار کا روپ دھار چکے ہیں ہسپتالوں میں طبی امداد دے کر گھر رخصت کرنے کا تصور بھی مند مل ہوتا جا رہا ہے غریب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کا محکمہ صحت نہ جانے کن ہوائوں کے دوش پر اُڑ رہا ہے اس کا وجود ہے بھی کہ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی ہوئی لیکن ادویات کی قیمتوں کے اضافے نے ہوش اُڑا کر رکھ دیا ،نادار و بے سہارا افراد کے پاس موت کو گلے لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ان فرشتہ صفت ڈاکٹروں کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں وہ واقعی مسیحا ہیں ان کی قدر و منزلت ہمارے دل اور معاشرے میں اسی طرح ہے جس طرح ہونی چاہئے اللہ ان کے دلوں میں انسانیت اور غرباء کی فکر اور قدر میں اضافہ فرمائیں آمین ، پاکستان کے وزیر اعظم اور انصاف کے رکھوالے غریبوں کا درد ضرور رکھتے ہیں اسی لئے تو وہ بے چارے اپنی ہر تقریروں میں غریبوں کے مستقبل کو روشن رکھتے ہیں ۔لیکن جو کچھ طب کے پیشے سے منسلک افراد غریبوں کے ساتھ کررہے ہیں یہ دیکھ کر تو اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران حیران ہو رہے ہوتے ہیں کہ اتنے غریب اب تک کیوں زندہ ہیں۔

  • مغربی تہذیب کی حقیقت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات – سعید الرحمن

    مغربی تہذیب کی حقیقت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات – سعید الرحمن

    سعید الرحمن جب کسی گورے سے اسکی تاریخ کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنی تاریخ قدیم یونان سے ملا کر بڑا فخر محسوس کرتا ہے کیونکہ یونان سے ہی بڑے علمی دانشور ارسطو اور اس جیسے کئی لوگ تعلق رکھتے ہیں یہی نہیں ڈرامہ،لٹریچر وغیرہ کی ابتدا بھی وہی سے ہوئی ۔دراصل گوروں کی پوری تاریخ سوائے جھوٹ کے پلندے کے کچھ نہیں ۔

    قدیم یونانی بہت سارے خداوں کو پوجتے تھے۔ یہ لوگ تو ویسے بھی بہت سارے خدائوں کا تصور رکھتے تھے ان بہت سارے خدائوں کے باوجود بھی ایک سب سے بڑا خدا ہوا کرتا تھا جسکو زیوس(Zeus ) کہا جاتا تھا ،زیوس انکے مطابق آسمانوں کا خدا تھا اسلئے اسکو باقی سب پر فوقیت حاصل تھی ۔زیوس کا بت انہوں نے سب سے اونچی جگہ رکھا ہوا تھاانکے مطابق اونچی جگہ سے زیوس کو سب پر نظر رکھنے میں آسانی ہوتی تھی۔ کچھ عرصے بعد آب پاشی کرنے والے لوگوں نے زرخیز زمینوں کی طرف نقل مکانی کی تو انہوں نے کچھ عرصے تک پچھلے عقائد پر چلنے کے بعد ان میں تبدیلی لائی اور اب ان کا سب سے بڑا خدا اپولو (Apollo ) بن گیا جو پہلے سورج کاخدا کہلایاکرتا تھا۔اس کو سب سے بڑا خدا کہلانے کا مقصد یہی تھا کہ وہ خود زراعت سے وابسطہ تھے اسی نسبت سے اسکو یہ رتبہ دے دیا۔مطلب انہوں نے اپنے ہی مفاد کیلئے خدا کا رتبہ ایک سے اٹھا کر دوسرے کو دے دیا۔یہی اپولو بعد میں انکے لئے ناچ گانے اور ہر طرح کی عیاشی مہیاکرنے والا خدا بھی بن گیا ۔اس طرح اس زمانے میں بہت سارے خدائوں کا تصور پایا جاتا تھا ان میں بیماری کا الگ،سورج کا الگ ،اور دیگر باقی امور کے الگ الگ خدا ہوتے تھے اور جس کو جو حاجت ہوتی وہ اسی چیز کے خدا سے رجوع کرتا تھا۔

    قدیم یونان آج کی مغربی تہذیب پر بہت زیادہ اثرانداز ہے کیونکہ مغرب میں بسنے والے اکثر لوگ اپنی تاریخ کی ابتدا قدیم یونان سے ہونے کادعوی کررہے ہوتے ہیں۔مغربی تہذیب کا یہ اثر آج کے مغرب میں بہت ذیادہ نظر آتا ہے ان کی روزمرہ زندگی کے ہر ہر پہلو قدیم یونان کااثر صاف دکھائی دیتا ہے ۔اولمپکس آج دنیا کا سب سے بڑا کھیلوں کے مقابلوں کا تہوار سمجھا جاتا ہے جب اسکے ماضی میں جھانکا جائے تو نظر آتا ہے قدیم یونان سے اسکی ابتداء ہوئی اور اس وقت لوگ اپنے خدائوں کو خوش کرنے کیلئے مذہبی تہواروں کا انعقاد کیا کرتے تھے جن میں ایک اولمپکس شمار کیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ اس زمانے میں لوگ آرٹ کو بھی بہت پسند کرتے تھے ۔ماربل سے اچھی اور بہترین انداز میں مورتیاں بناکر کانسی کا رنگ چڑھایاکرتے تھے تاکہ اسکی خوبصورتی میں اضافہ ہوسکے۔بڑے بڑے پتھروں سے مندر تعمیر کئے جاتے تھے ۔انکا فن آرٹ آج بھی پوری دنیا میں اپنی ایک حیثیت رکھتا ہے ۔اور اسکو اچھے انداز میں یاد کیاجاتا ہے ۔

    ابتدائی طور پر قدیم یونانیوں نے 24 الفاظ ایجاد کئے تھے جنکو آج کی جدید دنیا میں ریاضی اور سائنسی کتب میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ انہی الفاظ کو بعد میں رومیوں نے نقل کر کے اپنے دور میں نئے سرے سے مرتب کئے تھے۔ایسے اس میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتے آتے آج کے مغرب میں استعمال ہونے والی زبانیں بن گئی ۔وہی سے لٹریچر اور ڈرامے کی ابتداء بھی ہوئی جو آج سینما کی صورت موجود ہے اور سٹیج ڈرامہ بھی اسی کی ایک کڑی سمجھی جاتی ہے ۔ اس دور کے سائنسدانوں میں ارچمیدس،فیثاغورس جبکہ فلسفہ میں سقراط اور ارسطو قابل ذکر ہیں۔انہوں نے اپنے اپنے شعبے میں وہ کمال جوہر دکھائے کہ دنیا آج بھی حیرت زدہ ہے ۔قدیم یونانی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں رہتے تھے 150 چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر مشتمل قدیم یونان مشہور تھامگر اس وقت کی مشہور ریاستوں میں سپارٹا اور اتھینز شامل ہیں جو اپنے رہن سہن کے حوالے سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھیں۔

    یونانیوں کے بعد جس تہذیب کو دنیا میں شہرت ملی وہ رومیوں کی تہذیب تھی۔یونان جب اپنے ارتقا ء سے تنزلی کی طرف سفرکرنے لگا تو ایک نئی تہذیب کا جنم ہواجسکو دنیا رومیوں کی تہذیب کہتی ہے۔رومی بھی بہت سارے خدائوں کو ماننے والے تھے جس خدا کو یونانیوں نے زیوس کے نام سے اپنا سب سے بڑے خدا کا نام دیا انہوں نے اسکا نام تبدیل کر کے جوپیٹر رکھ دیا ،اسی طرح دیگر یونانیوں کے خدائوں کو انہوں نے سیاروں کے نام دئیے اور ہر ایک کی الگ الگ ذمہ داری لگا کر لوگوں کو بہت سارے توہمات کا اسیر بنادیا۔ رومیوں کو یقین تھا کہ وہ اگر اپنی رسوم و روایات کے مطابق کام کرینگے تو انکے خدا ان سے بہت خوش ہونگے۔انکے یہاں بھی بہت سارے تہواروں پر مختلف کھیل کھیلے جاتے تھے اور انکا مقابلہ بھی کروائے جاتے تھے ۔اس طرح سانڈ کو گرانے والا ایک کھیل تھا جس میں ایک موٹا تازہ سانڈ کو پچھاڑنے والے کو بھاری انعامات اور اسکو ایک خاص مرتبہ دیا جاتا تھا یہ کھیل آج بھی کئی ممالک میں کھیلا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ یونانی اور رومی دونوں بہت سارے خدائوں کو ماننے والے تھے۔مگر رومی اسکے علاوہ بھی بہت سارے توہمات کا شکار تھے۔رومن تہذیب کا آغاز 753 قبل مسیح میں ہواتھا یہ بھی تاریخ کا سنہرا دورتھا اس دورکے بادشاہوں میں آگسٹس قابل ذکر ہیں۔رومی باشندے خود کو دوسروں پر فوقیت دیتے تھے ۔یہ لوگ خودکو دنیا کی بہترین اور سب سے دلیر ،بہادر قوم سمجھتے تھااور دعوی کرتے تھے اور اس وقت کی تمام دیگر تہذیبوں سے آئے ہوئے لوگ ان رومیوں کے غلام یا پھر اس سے بدتر کسی حیثیت کے طور پر وہاں رہتے تھے۔اسی لئے رومی اپنے غرور اور تکبر ہی کی وجہ سے تاریخ میں مشہور ہیں ۔ان کے ہاں بھی قدیم یونان کی طرح مذہبی تہوار منائے جاتے تھے مگر انکا طریقہ کار مختلف ہوتا تھا طریقہ کار تبدیل کرنے کا مقصد دوسروں کو یہ دکھانا ہوتا تھا کہ رومی کسی اور کو نقل نہیں کرتے بلکہ انکی اپنی رسوم و روایات ہیں جو سب سے مختلف اور منفرد ہیں۔انکے زوال کے اسباب میں ایک یہ بھی تھا کہ انکے ہاں آمریت نے جنم لیا اور عام عوام نے سیاست پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے انکی فوجیں قتدار پر قابض ہوئی یہی انکی سرحدی کمزوری کا بھی سبب بنی۔امیر اور غریب طبقات میں بہت زیادہ فاصلے بڑھ رہے تھے جس نے انکی جڑیں کھوکھلی کردی۔رومیوں کے زوال کو موضوع بحث جب بنایا جائے تو اس بات کا ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی کہ اس وقت رومیوں میں تقسیم پیدا ہوئی تھی ،انکے ہاں بھی مشرقی اور مغربی روم الگ الگ ہوکر دو نئی سلطنتیں بن گئی جس کی وجہ سے مظبوط ترین قوت کم ہوکر آدھی رہ گئی اور بعد میں یہی اسکی زوال کی داستان بن گئی۔یہ لوگ جنگجو تھے اسی لئے اس وقت جنگیں بھی بہت ہوا کرتی تھی ،چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کو للکارنا اور حیلے بہانوں سے انکو تنگ کرکے جنگ کیلئے اکسانا جیسے انکا مشغلہ بن گیا تھا مگر اس جنگی جنون نے پھر رومیوں کو صفحہ ہستی سے مٹاکر دم لیا۔

    عیسائیت کے پرانے زمانے والے پادریوں نے اپنے مذہبی عقائد ، بائبل کے نظریاتاور دیگر ہر طرح کی رسوم و روایات یونانی فلسفہ و سائنس سے اخذ کردہ بناکر یہ بتانے کی کوشش کی کہ گویا عیسائیت کی تمام تبلیغ و نظریات کی تعلیمات یونان سے چلی آرہی ہے اور ہمیں انہیں کے نظریات و عقائد پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔اورساتھ ہی انہوں نے یہ تنبیہ بھی کرڈالی کہ جوکوئی بھی انکے پیش کردہ دلائل و نظریات سے منہ موڑنے کی یا اس سے انحراف کی کوشش کرے گا وہ گویا تباہ و برباد ہوجائے گا۔اب ہوا یوں کہ انہی عیسائیوں میں سے ایک گروپ نے علمی تحقیق کا آغاز کردیا اور سائنس و فلسفہ پر نئی تحقیقاات کرنے کی کوششیں کیں تو انہیں انکے متکلمین کے بتائے ہوئے نظریاتو عقائد میں نہ صرف خامیاں بلکہ وہ بالکل اس دور کیلئے ناقابل قبول ایک نظام بن گیا تھا ۔یہاں سے اس گروپ کے شرکاء کے اذہان میں شکوک و شبہات شروع ہوئے اور ساتھ ساتھ مذہب سے ان کو چڑھ بھی محسوس ہونے لگی جسکا نتیجہ آخر میں یہی ہوا کہ مذہب و سائنس یعنی متکلمین کے بنائے ہوئے یونانی دور کے عقائد و نظریات اور علمی تحقیق پر کام کرنے والوں میں تصادم نے جنم لیا ۔اس تصادم کی وجہ سے جدید علمی گروہ میں مذہب سے بیزاری اور اس سے نفرت کرنے پر آمادہ کیا۔

    اب یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عیسائیت ایک الہامی مذہب ہے حضرت عیسی ؑ پر بائبل نازل ہوئی اور وہاں سے عیسائیت کا آغاز ہوا ۔ عیسائیت کی اصل جو سورت تھی وہ تو اسلام کی طرح ایک خدا کو ماننے والا اور اسکا کسی کو شریک نہ ٹھہرانے والانظریہ تھا اسکے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے رہنمائی وحی کے ذریعے اللہ تعالی نے عیسی ؑ تک پہنچائی اور عیسی ؑ نے اپنی قوم یعنی عیسائیوں تک پہنچادی تھی۔اب عیسی ؑ کے بعد عیسائیوں کے مذہبی پیشوائوں نے اس اصل صورت کو یونانی فلسفے اور نظریات میں تبدیل کردی جو ایک پرانی اور ناقابل عمل نظریات تھے ۔جن کا اطلاق اس وقت ممکن نہیں تھا۔اس لئے عام لوگ بھی دھیرے دھیرے مذہب کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور انہوں نے مذہب کو اپنے تمام معاملات سے بے دخل کردیا۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ مذہب اور جدید علمی تحقیقی نظریات اور جدید انسانوں میں دوریاں بڑھتی رہی مگر کسی نے بھی مذہب کے جو حقیقی اور فطری صورت تھی اس پر تحقیق کرنے کی کوشش نہیں کی البتہ مذہب کو اور بدنام کرنے اور اس سے لوگوں کو مزید دورکرنے کیلئے ہیگل،ڈارون اور مارکس جیسے دانشور دنیاکے نقشے پر نمودار ہوئے اور رہی سہی کثر انہوں نے پوری کردی۔

    دراصل یہاں بات سمجھنے کی یہ ہے کہ عیسائیت خود ایک الہامی مذہب ہے اور اس میں بھی ایک اللہ کا تصور ،الہامی کتابوں پر ،قیامت پر ان جیسے نظریات و عقائد پر ایمان لانا اور ان کا حق سچ ہونے کا اقرار کرنا ہی عیسائیت کی تعلیمات تھیں ۔مگر اہل کلیسا نے یونانی دور کے عقائد و نظریات کو عیسائیت کی اصل صورت کو مسخ کرکے ان کی جگہ رکھ کر ڈھنڈورا پیٹا کہ یہی عیسائیت ہے ۔اس سب کے بعد آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ آج کا ایک عیسائی جو اپنی تاریخ کا ارتقا ء یونان سے جوڑتا ہے کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط ؟ یونانی دور 2000 ؁ ء قبل مسیح کا تھا جبکہ عیسائیت کا آغاز تو حضرت عیسی ؑ پر نبوت سے ہوا۔

    قارئین کو یہی سمجھانا مقصود ہے کہ جس طرح عیسائیوں نے اپنا تعلق یونان سے جوڑ کر خود ہی اپنے مذہب کو ہی مشکوک بنا کر دنیاکے سامنے لایا اور اپنی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کے مرتکب ٹھہرے ،جس سے نہ صرف دیگر مذاہب کے لوگ ان کے حوالے سے شک میں مبتلا ہوئے بلکہ انکی بھی نئی نسل اسی طرح کے وسوسے سے دوچار ہے کیونکہ یہاں فطرت کے مقابلے میں کوئی نئی چیز لانے کی کوشش میں اپنی اصل حقیقت سے بھی ہاتھ دھوبیٹھنے کے مترادف عیسائیوں نے اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے ۔اسلئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آج کی مغربی تہذیب خود ایک مشکوک اور متنازعہ تہذیب ہے جس کی حقیقت خود انہی کو نہیں معلوم کیونکہ آج کا گورا خود کو یونان سے ہی جوڑتا ہے کیونکہ یونان ہی سے بڑے بڑے علمی دانشور اور لٹریچر کا آغاز ہوا تھا اور اسی پر گورا فخر محسوس کر رہا ہوتا ہے جس کا اسکو کوئی حق نہیں بلکہ ان گوروں کیلئے تو ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مغربی تہذیب مشکوک اور ایک الجھی ہوئی سوسائٹی ہے تو پھر پوری دنیا میں آج یہی گورے حکومت کیوں کر رہے ؟ کیوں یہی گورے تعمیر و ترقی میں سب سے آگے ہیں ؟

    اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ دنیا میں عروج و زوال کے حوالے سے اللہ تعالی کا قانون بقول مولانا مودودیؒ کسی قوم کی صلاحیت کی بنیا د پر منحصر ہے جو قوم سب سے زیادہ باصلاحیت اور دنیا پر حکومت کرنے کے قابل ہوگی اللہ تعالی اسی کو دنیا میں حکومت کا حقدار ٹھہرائے گا ۔اللہ تعالی کے اس اصول کو دیکھاجائے تو یقینا گورے عروج کے حقدار ہیں ۔مگر تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیا جائے تو انگریزوں کے عروج کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک وقت کے ساتھ چلنا ہے ۔گوروں نے وقت کے ساتھ آنے والی ہر فطری تبدیلی کیلئے خو دکو نہ صرف پہلے سے تیار کیا ہوتا ہے بلکہ وہ اس تبدیلی کو اپنے کام کیلئے استعمال کرنا بھی خوب جانتے ہیں۔یہاں ہم تھوڑا سا پیچھے جاکر دیکھتے ہیں کہ آخر انہوں نے کب اور کہاں سے یہ ہنر سیکھ لیا ہے ۔ چودھویں صدی عیسوی میں جب یورپ میں تمام سلطنتیں ایک پوپ کے حکم پر گرتی اور چلتی تھیں ۔وہاں لندن کی ایک بادشاہ نے پوپ سے بغاوت کر کے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور چرچ آف انگلینڈ کی بنیاد رکھی ،۔ اس سے پہلے یورپ کی تقریبا 200 سلطنتیں ویٹی کن سٹی کے اس پوپ کے زیر سایہ چلتی تھی ،اس سے زندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت وہاں مذہب کو بہت بڑی حیثیت حاصل تھی مگر اس ایک بادشاہ کی بغاوت کے بعد مذہب سے دشمنی شروع ہوگئی اور طرح طرح کے نظریات نے جنم لینا شروع کیا ان نظریات میں سیکولرزم یعنی لادینیت ،کمیونزم یعنی اشتراکیت جس کا جدید نام سوشلزم اور کئی دیگر نظریات نے اس الجھی ہوئے معاشرے میں لوگون کو اخلاقیات،رشتوں کی قدر اور ایسے کئی دیگر چیزوں سے نکال کر صرف مادہ پرست یا وحشی قوم بنادیا پھر جب ان نظریات سے لوگوں نے اکتاہٹ محسوس کی تو ایک نئی تحریک’’ حقوق نسواں‘‘نے جنم لیا جو آج کل عروج پر ہے۔

    اس کے پس پردہ حقائق تو یہاں بتانا مشکل ہے مگر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ سالوں تک یہ تحریک چلے گی پھر اچانک سے کوئی اور آواز بلند ہوگی ۔اس سب کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آج تک جتنے بھی نئے نظریات اور تحریکیں جو مغرب کی طرف سے آئی انہوں نے سیدھے اسلام کو اپنا نشانہ بنایا اور نام بدل بدل کر اسلام پر پے درپے ایسے وار کئے کہ ایک سیدھے سادھے مسلمان کو الجھن میں مبتلاکردیا کہ واقعی اسلام ایک ظالم دین ہے ،اسلام کے ماننے والوں کو طرح طرح کی قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑرہی ہیں ،پھر یہ خیالات دلوں میں وسوسے پیداکردیتے ہیں کہ اللہ تعالی زمین میں اپنے بندوں پر ظلم و ستم ہوتے دیکھ کر چپ کیوں بیٹھا ہے ؟ کیوں وہ مدد کیلئے نہیں آتا اور کیوں دنیا کے ظلم و جبر میں ہمیں اکیلا چھوڑکر تماشا دیکھ رہا ہے ؟ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو اللہ تعالی نے یہ دنیا سبھی کیلئے امتحانی ہال کی طرح بنائی ہے اب یہاں جو جو اسکے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا وہ کامیاب اور اسکے مقابلے میں دوسرے عقائد و نظریات کی پیروی کرنے والا نامراد و ناکام ہوجائے گا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مغرب نے شروع سے اب تک جتنے نظریات اور نئے فلسفے ایجاد کئے وہ سب دراصل اسلام کے مقابلے میں تھے وہ سارے نظریات و فلسفے انسانوں کو بہت زیادہ متاثر کردینے والے ہواکرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اکثر ان سے مرغوب ہوکراپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان نظریات و فلسفوں کی ایجاد کی ہی اسلئے کی جاتی ہے کہ لوگ اسلام سے دور ہوکر ان نظریات کو اپنا لیں اور خدائی نظام کو چیلنج کریں، یہی نہیں مجھے یقین ہے کہ مستقبل قریب ہو یابعید یہ لوگ طرح طرح کے نئے نظریات و فلسفوں کی ایجاد کرتے ہوئے انسانوں کو اسلام سے بغاوت کیلئے اکسانے کی کوشش کریں گے۔

  • سو لفظوں کی کہانی  : حسنین معاویہ

    سو لفظوں کی کہانی : حسنین معاویہ

    “بیٹا کہاں جارہے؟” میں نے پوچھا
    “انکل فیکٹری جا رہا ہوں” اس نے کہا
    کیا کرنے بیٹا؟
    “مزدوری” ایک معصوم سا جواب
    “عمر کتنا ہے تمہاری؟” میں نے پوچھا
    “دس سال”
    “تنخواہ کیا دیتے ہیں تمہیں؟
    “پانچ ہزار روپے ماہوار” اس نے بتایا
    ڈیوٹی کتنا گھنٹے کرتے ہو؟
    “انکل بارہ گھنٹے ”
    آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟
    “انکل ابو فوت ہو گئے ہیں”
    آپ لوگ کتنے بہن بھائی ہو؟
    “چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں”
    “بیٹا آپ مزدوری نہ کیا کرو ابھی آپ بچے ہو اور آپ کی پڑھائی کی عمر ہے”میں نے سمجھایا
    “انکل پھر کھائیں کیا؟”

  • پاک بھارت حالیہ کشیدگی اور ہمارے نام نہاد دانشوروں کے رویے… آن علی

    پاک بھارت حالیہ کشیدگی اور ہمارے نام نہاد دانشوروں کے رویے… آن علی

    چار مجاہدین کے اڑی کیمپ پر حملے اور اس میں سترہ بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد سے فیس بک پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے دو دنوں میں بھارتی میڈیا نے جہاں پروفیشنل رپورٹنگ کی ہے وہیں پاکستانی میڈیا بھنگ پی کر سویا ہوا ہے.
    الیکٹرک اور پرنٹ میڈیا سے مایوس ہو کر جب سوشل میڈیا کا رخ کیا تو محب وطن پاکستانیوں کی کثیر تعداد جذبہ شہادت سے سرشار اپنا تن من دھن پیارے پاکستان پر لٹانے کے لیے تیار نظر آئی خوشی سے سیروں خون بڑھ گیا.. اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم میں اب بھی وہ جذبہ موجود ہے جو کسی بھی ملک کی اکڑ توڑ سکتا ہے پڑوسی ملک کی طرف سے جنگ کی واضح دھمکی سامنے آنے پر جہاں فوج نے دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کیا وہیں عوام بھی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئی .
    لیکن وہ کہتے ہیں نا دنیا میں دو ہی طاقتیں ہیں ایک خیر کی اور دوسری شر کی.. ہر ملک میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں
    ایک قسم وہ ہے جواگر ملک پر کڑا وقت آئے تو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتی چاہے عام حالات میں وہ اپنے ملک کے حالات سے کتنا ہی دلبرداشتہ کیوں نہ ہو،
    اور دوسری قسم وہ ہے جو کھاتی تو اپنے ملک کا ہو لیکن گُن دوسرے ملکوں کے گاتی ہو یعنی جس برتن میں کھائے اسی میں چھید کرے
    بدقسمتی سے میرے سوہنے ملک پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کی کثیر تعداد مجود ہے جو کھاتے بھی اسی کا ہیں اور بھونکتے بھی اسی کے خلاف ہیں ایسے نفسیاتی مریضوں میں سے ہی چند ایک کی پوسٹس نظر سے گذریں تو جو سیروں خون بڑھا تھا اس سے دوگنا کڑھ کڑھ کے ختم ہو گیا
    ان لوگوں کے لیے صرف ایک مثال ہی کافی ہے:
    “کتا بھی اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے” .
    تو کیا یہ لوگ کتوں سے بھی بدتر ہیں؟
    اپنے گریبان میں جھانکیں اور شکر ادا کریں اللہ کا جس نے آپ کو آزاد فضا میں پیدا کیا ہے آزادی کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو چند دن قبل ہونے والی بقر عید پر گائے کی قربانی تک نہ دے سکے کشمیر میں بستے ان لاکھوں لوگوں سے پوچھیں جو اسّی سال سے اپنی جانیں دے رہے ہیں لیکن جھکے ہیں نا جھکیں گے.
    ان شا ء اللہ .
    میرا ان نام نہاد دانشوروں سے سوال ہے:
    جو آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے اس ملک کی آزادی کے لیے لڑنے والے قائدین اور لاکھوں لوگوں کی شہادت( پاکستان بنتے وقت) پر انگلی اٹھاتے ہیں کہ اگر ہندوستان سے دوستی اتنی ہی عزیز ہے تو بسم اللہ کیوں نہیں کرتے جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے اس ملک کی اگر اتنا برا لگتا ہے تو….
    ان لوگوں پر وہ مثال صادق آتی ہے.
    “دور کے ڈھول سہانے ”
    دور سے ان کو یہی لگتا ہے کہ ہندوستان امن پسند ملک ہے،
    ذرا ایک نظر وہاں بسنے والوں پر ڈال لیں تو شاید کچھ افاقہ ہو…
    گزشتہ روز ٹوئیٹر پر جو سروے کیا گیا وہ شروع تو ہندوستان کی طرف ہوا لیکن اس کا شاندار اختتام پاکستان کی طرف سے ہوا
    شروعات انکی طرف سے ایک سنجےڈکشٹ نامی بندے نے کی.
    پول کا سوال : کیا ہم ہندوستانی ایک ایٹمی جنگ کے ذریعے پاکستان کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ہم میں سے بے شمار لوگ جان سے جائیں گے
    سوال کا انداز دیکھیں پاکستان کو ختم کرنے کے لیے ، یہ الفاظ ایک ہندوستانی استعمال کر رہا ہے اور اسے ہمارے ایک دانشور صاحب مہذب قرار دیتے ہیں.. اکیس توپوں کی سلامی ہے سر آپ کو.. توپ کے آگے رکھ کے..
    جواب میں% 39 لوگوں نے کہا کہ ہاں ہم تیار ہیں اور% 61 نے کہا نہیں، زندگی قیمتی ہے.
    جوابی سروے پاکستان کی طرف سے شروع کیا گیا .
    سوال تھا اگر انڈیا کی طرف سے ایٹمی جنگ شروع کی گئی تو کیا آپ جان دینے کے لیے تیار ہیں؟
    انتہائی مناسب انداز میں انہوں نے سوال سامنے رکھا جس کے جواب میں% 87 نے کہا جی ہاں ہم شہادت کے لیے تیار ہیں اور% 13 نے کہا نہیں…
    اب یہ سوشل میڈیا سروے شروع ان کی طرف سے کیا گیا اور اگر ہم نے جواب ان سے زیادہ مہذب انداز میں دیا ہے تو کسی کو تکلیف کیوں ہے
    انہیں لگتا ہے ہندوستان کے لوگ امن پسند ہیں جنہوں نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان بچانے کی فکر کی ہے اور ہم جذبہ شہادت سے سرشار ہیں تو تشددپسند ہیں حالانکہ اگر گزشتہ دو تین دن انڈین میڈیا پر چلنے والے پروگرامز دیکھ لیں تو ہو سکتا ہے ان کی آنکھیں کھل جائیں کہ وہ ہمارے بارے میں کیسے جذبات رکھتے ہیں پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے، یہ ایک وزیر موصوف فرما رہے ہیں ہندوستان کے… ساری دہشت گردی ی خود پھیلا کر ہمیں کس منہ سے دہشت گرد قرار دیتے ہیں.
    ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی صفوں میں موجود ان بھیڑیوں کو پہچانیں جن کی شناخت تو پاکستانی ہے لیکن دل بھارت کے ساتھ دھڑکتا ہے.
    تحریر: آن علی

  • قصہ چہار درویش. قاضی حارث

    قصہ چہار درویش. قاضی حارث

    ﻗﺼﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ :
    ﺑﮭﻮﮎ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺲ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ،
    ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺭﮈ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ :
    ” ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮ ﻭﯾﻠﻔﯿﺌﺮ ﭨﺮﺳﭧ ” ) ﺑﮭﻮﮐﻮﮞ ﮐو ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮨﮯ (
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﻖ ﺁﮔﺌﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﻠﮯ ﮨﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﻖ ﭘﮭﺮ ﮔﮩﺮﯼ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭨﺮﺳﭧ ﺗﻮ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺩﯾﻨﮕﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺳﺒﺰ ﻋﻤﺎﻣﮧ ﺳﺠﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺴﻤﺖ ﺁﺯﻣﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﺮﺳﭧ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮٖﻑ ﺑﮍﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ۔
    ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﻭ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮐﮯ ﮈﯾﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ﻗﺼﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ :
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﮐﻠﻮﺗﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮨﻮﺍ،
    ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮔﺎ بھاگا ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ، ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺍﺋﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﻗﺘﯽ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭘﮩﺮ ﺩﺭﺩ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ شدید ﺍﻧﮕﮍﺍﺋﯿﺎﮞ ﻟﯿﮟ، ﺩﺭﺩ ﺍﺗﻨﺎ ﺷﺪﯾﺪ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﭽﮧ ﺗﮍﭘﻨﮯ ﻟﮕﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﮯ باقی ﺧﺮﭼﮯ ﮐﯽ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ، ﭨﯿﮑﺴﯽ ﮐﯽ، ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﺁﮔﯿﺎ۔
    ﺑﮍﮮ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﺧﺮﭼﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮮ، ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﯽ ﻓﯿﺲ، ﭘﮭﺮ ﺗﯿﻦ ﻋﺪﺩ ﭨﯿﺴﭧ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺌﮯ، ﮈﮬﺎﺋﯽ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮔﺮﺩﮦ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮﯼ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﻮﺯﺵ ﮨﮯ، ﺟﻠﺪ ﺍﺯ ﺟﻠﺪ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮔﺮﺩﮦ ﻧﺎﮐﺎﺭﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﺪﺷﮧ ﮨﮯ،
    ﺑﮭﺎﮔﺎ ﮨﻮﺍ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﯽ ﻓﯿﺲ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ﺟﻮ ﻣﺒﻠﻎ 80،000 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ، ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻻﺗﺎ؟ ﺩﻭ ﺁﻧﺴﻮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮ ﭼﮑﻨﮯ ﻣﺎﺭﺑﻞ ﻣﯿﮟ پھیلﮔﺌﮯ۔ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺼﯿﺒﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﻧﮧ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ SIUT ﮐﺎ ﺑﺘﺎﯾﺎ، ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﮔﺮﺩﮮ ﮐﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﮐﺎ ﻣﻔﺖ ﻋﻼﺝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ ﻧﮯ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﺳﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﺍﺋﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﺗﮭﺎ۔
    ﻟﯿﮑﻦ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ اور ﺍﻓﻼﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﺐ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺍﻧﮕﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﮨﮑﺎ ﺑﮑﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﻣﺴﻠﮏ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺗﻤﺎﻡ ﮈﺍﮐﭩﺮﺯ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭼﮭﺎ ﺭﻭﯾﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﻣﻔﺖ ﻋﻼﺝ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ﻗﺼﮧ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ :
    ﺗﯿﺰﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﻠﯽ ﺳﮯ ﻣﮍﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺁﻣﺪ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﺪﺣﻮﺍﺱ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺋﯿﮏ ﮐﮯ ﺑﺮﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻟﮕﺎ ﺳﮑﺎ۔ ﮐﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺋﯿﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﮯ، ﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺟﺰﻭﯼ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﭼﮭﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﮔﺮﺍ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﯽ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﮔﮩﺮﺍ ﺯﺧﻢ ﺁﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﺑﮭﻞ ﺑﮭﻞ ﺑﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﻤﺒﻮﻟﯿﻨﺲ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ” ﭼﮭﯿﭙﺎ ” ﺍﯾﻤﺒﻮﻟﯿﻨﺲ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﺧﻮﻥ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮧ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ” ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ” ﻣﺴﻠﮏ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﭼﮭﯿﭙﺎ ﺗﻮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮯ ﻟﻮﺙ ﻣﺪﺩ کیسے کی؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ﻗﺼﮧ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ :
    ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﻌﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﻨﺪﮪ ﻣﯿﮟ ﺁﺑﺎﺅ ﺍﺟﺪﺍﺩ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺯﻣﯿﻨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ، ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﻮﺳﻂ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﭼﮭﺎ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﯿﻼﺏ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﺟﺎﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔
    ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﮩﮧ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ” ﺟﻤﺎﻋۃ ﺍﻟﺪﻋﻮﮦ ” ﻭﺍﻟﮯ ﺁﺋﮯ۔ ﺑﮩﺖ ﺳﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻟﯿﮑﺮ۔
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﺍﺗﺮ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﺑﮭﻼ؟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﻭﺭﻃﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﻭﯾﮧ ﺭﮐﮭﺎ جیسے ﻭﮦ ﺍﻧﮑﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﮞ، ﮐﺎﻓﯽ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺍﺷﻦ ﺩﯾﺎ۔
    ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺑﮯ ﻟﮕﺎﻡ ہوچکے ﺗﮭﮯ۔
    سبق: عقل والوں کیلیئے ان چار قصوں میں ایک نشانی ہے.

  • فیس بکی لکھاریوں کے نام…..!  –  فیضان اعجاز جتوئی

    فیس بکی لکھاریوں کے نام…..! – فیضان اعجاز جتوئی

    اسی رمضان کے اوائل کی بات ہے۔ـ حسب معمول فیس بک لاگ ان کی تو سامنے بھائی عامر خاکوانی کی وال سے شیئر کی ہوئی ایک پوسٹ پر نظر پڑی جس میں ایک تو رمضان کے اندر ختم قرآن کا آسان سا طریقہ بتایا گیا تھا اور دوسرا اپنی پسند کے کسی بھی عالم کا ترجمہ اٹھاکے اسے پڑھنے اور اس کے نوٹس بنانے کی ترغیب دی گئی تھی ـ جس کا فائدہ یہ تھا کہ ایک تو قرآن کا پیغام سمجھنے میں مدد ملتی، دوسرا مختلف احکامات اور ایشوز کے متعلق حوالہ جات محفوظ ہوجاتے۔
    ـ
    مجھے یہ دوسری تجویز بہت پسند آئی۔ ـ میں نے قرآن کا ترجمہ اٹھایا۔ روزانہ تھوڑا تھوڑا پڑھنا شروع کیا۔ اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ساتھ ساتھ نوٹس بنائے۔ ان پہ عمل شروع کیا اور الحمدللہ آج تک اس روٹین پہ کاربند ہوں۔
    ـ
    اب اس مثبت اور تعمیری پوسٹ کا نتیجہ کیا ہوا کہ جس بندے نے یہ پوسٹ لکھی اور جس نے شیئر کی، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ان کی پوسٹ کسی بے عمل کو عمل کی راہ پہ ڈال کر ان کے لیے صدقہ جاریہ بن چکی ہے اورروزانہ کی بنیادوں پر ان کے نامہ اعمال میں نیکیوں کے گراف میں اضافہ کر رہی ہے۔ـ

    یہ تو تھی ایک حقیقی کہانی… اب ذرا مختلف پوسٹس پر نتائج کا تصور کریں۔

    غیرت کے نام پر قتل ہوا، ریسٹورنٹس سے کتے اور گدھے کا گوشت پکڑا گیا۔ ملاوٹ زدہ اشیاء سے لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ مدرسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ ـآپ نے قلم اٹھایا۔ اپنے مضمون میں جان ڈالنے کے لیے معاشرتی برائیوں اور مولوی کی بدکرداری تک محدود رہنے کی بجائے آپ اسلام پر چڑھ دوڑے۔ اس کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا…. اب ایک نوجوان جو میڈیائی پروپیگنڈے کا شکار ہے، اسلام کے بارے میں کنفیوژ ہے…. آپ کی پوسٹ پڑھتا ہے، اس کی کنفیوژن کو تقویت ملتی ہے۔ وہ اسلام سے دور ہو جاتا ہے …. اس نوجوان کی اسلام سے دوری کا وبال کس پر ہوگا…..؟

    اسلام بےزار اور ملحدین اس پوسٹ کو شیئر کرتے ہیں۔ اسلام کے خلاف پروپیگنڈے میں آپ کی دی ہوئی مثالوں اور دلیلوں سے ہزاروں نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں تو آپ سوچیں کہ یہ پوسٹ آپ کے لیے کیا ثابت ہوئی….. صدقہ یا وبال……؟

    اپنوں کی نادانیوں اور دشمن کی عیاریوں سے، چاہتے نا چاہتے ہوئے ہم پچھلے پندرہ سالوں سے حالت جنگ میں ہیں… دشمن کبھی اسلام کا چوغہ پہن کر ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی اور دوسرے متحارب گروپوں کی شکل میں ہمارے نوجوانوں کو ورغلاتا ہے تو کبھی بی ایل اے، بی آر اے اور سندھو دیش کی تحریک بن کر قوم پرستی اور لسانی تعصب میں جکڑنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی بارڈر پر چھیڑ چھاڑ کرتا ہے تو کبھی سفارتی جارحیت دکھاتا ہے… ہم جانتے ہیں کہ ان حالات میں اس کے مقابلے میں صرف ایک ہی مزاحمتی دیوار ہے اور وہ ہے پاک فوج اور اس کے حساس ادارے…ـ

    اب آپ پرویز مشرف کی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ ضیاءالحق اور یحییٰ خان کے مخالف ہیں،۔ آپ قلم اٹھاتے ہیں اور ان شخصیات اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کی بجائے آپ فوج کے پورے ادارے کو ہی تختہ مشق بناکر ادھیڑ دیتے ہیں…. اب بی ایل اے، ٹی ٹی پی کے پروپیگنڈے کا شکار ایک نوجوان جو ابھی تک تذبذب میں ہے، آپ کی پوسٹ پڑھتا ہے اور اس کے ان خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ ہماری آرمی واقعی ناپاک آرمی اور ہماری سب سے بڑی دشمن ہے…. اب آپ کے دلائل اس کو دشمن سے قریب کر دیتے ہیں۔ اگر وہ ان کا حصہ بن جائے تو دو آپشن ہیں یا تو خود انجام کو پہنچ جائے گا یا کسی اور کو مارتا رہے گا… دونوں صورتوں میں جان کے نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا …..؟

    آپ کی یہ پوسٹ جتنی شیئر ہوتی رہے گی تو معاشرے کی تعمیر کا حصہ بنے گی یا تخریب کا ….؟

    یہی مثال سیاست میں لے لیں۔ ـ نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری، فضل الرحمن اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کی بجائے جب آپ پورے سیاسی نظام ہی کو ہدف تنقید بنالیں گے تو نوجوان یا تو داعشی خلافت کی جانب جائیں گے یا پھر اس ملک سے ہی مایوس اور بےزار ہوجائیں گے۔

    عرض کرنے کا مقصد صرف آپ لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ آپ کی تحریریں ہم نوجوانوں پر اثر انداز ہوتی ہیں… اس لیے آپ جو بھی لکھیں یا شیئر کریں، یہ ذہن میں رہے کہ مجھ جیسے ہزاروں نوجوان آپ کو پڑھ رہے ہیں۔ اثر لے رہے ہیں۔ آپ کے دیے گئے دلائل کو اپنی نجی محفلوں میں ہونے والے مباحث کا حصہ بنا رہے ہیں …. چونکہ معاشرے کی تربیت، تعمیر و تخریب کا تعلق براہِ راست آپ لوگوں سے ہے، اس لیے پوسٹس کی سلیکشن کے حوالے سے آپ لوگوں سے ہماری توقعات بھی زیادہ ہیں۔

  • یہ ٹی وی ڈرامے ہیں یا گندگی کا ڈھیر – ساجدہ فرحین فرحی

    یہ ٹی وی ڈرامے ہیں یا گندگی کا ڈھیر – ساجدہ فرحین فرحی

    ترکش ڈرامے ’عشق ممنوع‘ کا پاکستانی ورژن ڈرامہ ’ تیری چاہ میں‘ تیری چاہ میں عشق ممنوع جیسے تعلقات پر بنایا گیا ہے مگر ڈرامہ بنانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اُنھوں نے سچے واقعے پر بنایا ہے۔ ’تیری چاہ میں‘، میں بھتیجے کاکردار ادا کرنے والا فرحان اپنی چچی ماریہ واسطی سے شادی کرنے کا خواہشمند ہے مگر اُس کی شادی بچپن سے ہی اُس کی چچی کی بیٹی سے طے تھی، جبکہ ’عشق ممنوع‘ میں چچی کا کردار ادا کرنے والی پچیس سالہ بھیتر تھی اور بھیتر بہلول کے چچا عدنان کی دوسری بیوی تھی اور نہال بھیتر کی سوتیلی بیٹی تھی۔ اس ڈرمے نے بہت پذیرائی اور ریٹنگ حاصل کی تھی اسی لیے’اُردو ون چینل‘ نے اسے بار بار نشر کیا۔ مگر ریٹنگ سے قطع نظر معاشرے کے بڑے طبقے نے اس ڈرامے پر اعتراضات اُٹھائے کہ اس میں رشتوں کی پامالی کی جا رہی تھی لیکن ریٹنگ کے حصول کےلیے اب اس موضوع کا انتخاب پاکستانی ڈرامے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ’اے آر وائی‘ کے ہی ایک ڈرامے ’بےقصور‘ میں بھی ڈرامے کا کردار شہریار ( ساجد حسن ) اپنی بیوی صدف (ثمینہ پیرزادہ ) کی سوتیلی بیٹی سے شادی کرلیتا ہے، اس کے بعد اسی لڑکی کے باپ کی لے پالک بہن سے بھی شادی کرلیتا ہے۔

    حساس موضوعات پر ڈرامے بنانے کے پس منظر میں کیا مقاصد پنہاں ہیں؟ متنازعہ معاملات کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنے سے آخر پروڈکشن ہائوسز اور ٹی وی چینلز مالکان کیا چاہتے ہیں؟ معاشرتی برائیوں کا اس تاثر کے ساتھ پیش کیا جانا کہ گویا یہ معاشرے کے اجتماعی مسائل ہوں یا جیسے ایسے واقعات بڑے پیمانے پر ہو رہے ہوں۔ پاکیزہوہ موضوعات اور وہ الفاظ جو کبھی معیوب سمجھے جاتے تھے، اب انھیں ریٹنگ بڑھانے کا فارمولا بنالیا گیا ہے۔ ’ہم ٹی وی‘ کا ڈرامہ جس کا نام تو ’پاکیزہ‘ ہے مگر اس میں ڈرامے کا کردار شوہر جبران اپنی بیوی پاکیزہ کو طلا ق دے دیتا ہے مگردنیا کیا کہے گی اور اپنی بیٹی کی شادی میں مشکلات کے پیش نظر دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور پاکیزہ اپنی نند کے دیور عظیم سے شادی کر لیتی ہے مگر بیٹی کی شادی تک اپنے نئے شوہر کے بجائے پُرانے شوہر جبران کے ساتھ رہتی ہے۔

    2012ء میں ’جیو انٹرٹینمٹ‘ پر ڈرامہ ’جنت سے نکالی ہوئی عورت‘ نشر کیا گیا، اس میں ساجد حسن اور ثمینہ پیرزادہ میاں بیوی کا کردار ادا کر رہے تھے. ساجد حسن کو تیز مزاج شوہر کے طور پر دکھایا گیا تھا جو غصے میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے مگر بعد میں اُسے پچھتاوا ہوتا ہے، ان کی شادی شدہ اولاد کو جب طلاق کا علم ہوتا ہے تو بوڑھے ماں باپ کو الگ الگ رکھنے کے مسئلے اور دنیا والوں کی باتوں کے پیش نظر اولاد چاہتی ہے کہ ماں باپ ایک ہی گھر میں پہلے کی طرح ساتھ رہیں اور پھر اس مسئلے کا وہ حل نکالا جاتا ہے جو اب تقریبا ہرڈرامے کا موضوع بن گیا ہے.

    ایسے موضوعات پر پاکستان میں ڈرامے بنائے اور نشر کیے جا رہے ہیں جن پر کبھی بات کرنا نامناسب اور ایک لحاظ سے ممنوع سمجھا جاتا تھا. ایک کے بعد ایک ایسے موضوعات پر مختلف چینلز پر کم و بیش ایک جیسے ڈرامے پیش کیے جارہے ہیں، اور لوگ انھیں دیکھ کر ان کی ریٹنگ بھی بڑھا رہے ہیں۔ ہم ٹی وی پر بروز منگل کو نشر کیے جانے والے ڈرامے ’ذرا یاد کر‘ ذرا یاد کرمیں لڑکی بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ہی طلاق لے لیتی ہے مگر جس آدمی کے بہکنے سے طلاق لی ہوتی ہے، وہ بھی اُسے چھوڑ کے چلا جاتا ہے، پھر لڑکی کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے. ڈرامے میں لڑکی کو انتہائی بےشرمی اور ڈھٹائی سے ’حلالہ‘ کے لیے شوہر کی تلاش کرتے دکھایا گیا ہے، اس کے ساتھ یہ میسج دیا گیا کہ رخصتی نہیں صرف نکاح ہوا ہوتا ہے، اس لیے لڑکی عدت بھی پوری نہیں کرتی تو پھر حلالے کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہے مگر کیونکہ بات ہے ریٹنگ کی اس لیے اس موضوع کو ڈرامے کا حصہ بنا دیا گیا اور ڈرامہ ریٹنگ بھی خوب حاصل کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ہم ٹی وی کے ڈرامے ’تمھارے سوا‘ میں بھی اس کو موضوع بنایا گیا تھا۔

    پاکستانی ڈراموں میں اب دانستہ طور Taboo issues پر ڈرامے بنائے جارہے ہیں. ایسے ایشوز جن پر بات کرنا ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار میں مناسب نہ سمجھا جاتا ہو Taboo issues کہلاتے ہیں مگر اب یہ ایشوز حرف زدعام ہو چکے جیسے حلالہ کے حوالے سے بے شمار ڈرامے تواتر کے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں، کم و بیش ہر دوسرے ڈرامے کا یہی موضوع ہو گیا ہے۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے ریپ جیسے کبیرہ گناہ کو بھی ڈرامے کا مرکزی خیال بنا کر استعمال کیا جارہا ہے جبکہ پڑوسی ملک کے شوبز سے وابستہ افراد خود اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی فلموں اور ڈراموں میں اس کو موضوع بنا کر اس کے فروغ کا کام کیا اور اداکاروں نے تو یہ بھی کہا کہ آئندہ اس قسم کی فلموں اور ڈراموں میں کام نہیں کریں گے جو اس موضوع پر ہوں گی مگر افسوس کہ ہمارے ڈراموں میں آج کل کا یہ مقبول ترین موضوع بن چکا ہے۔ اب تو بچوں سے زیادتی کے موضوع پر بھی کینیڈین فنڈنگ این جی او کے تعاون سے ’ہم ٹی وی‘ پر ’اُڈاری‘اڈاری نشر کیا جارہا ہے. ڈرامے کا سب سے افسوسناک پہلو سوتیلے باپ کا سوتیلی بیٹی سے غیراخلاقی تعلق دکھایا جانا ہے۔ اس سے قبل ’اے آر وائی‘ پر ڈرامہ ’چپ رہو‘ نشر کیا گیا جس میں بہن کا شوہر اپنی سالی کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے۔ اس ڈرامے نے بھی کافی ریٹنگ حاصل کی اور حالیہ دنوں شروع کیے گئے نئے ڈراموں ’یہ شدتیں یہ چاہتیں‘ اور ’گھائل‘ میں بھی کچھ اسی قسم کے حالات دکھائے گئے ہیں. ان ڈراموں میں کزن اور فیملی فرینڈز اپنی ہی کزن کو اس کی شادی سے پہلے زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔’گھائل‘ میں طوبی کا کردار ادا کرنے والی سنبل اس سے پہلے اسی چینل کے ڈرامے ’روگ‘ میں بھی ایسا ہی کردار ادا کرچکی ہے۔ ’روگ‘ ڈرامے میں child sexual abuse کو مرکزی موضوع بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور ڈرامہ ’سنگت‘ میں ڈاکے کے دوران گھر میں موجود لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، اس ڈرامے نے بھی کافی ریٹنگ حاصل کی۔

    کہا جاتا ہے کہ مکھی گندگی کو خود تلاش کر لیتی ہے اور زخم پر بیٹھتی ہے، اسی طرح آج کل ٹی وی چینلز اور پروڈکشن ہائوسز صرف اکا دکا معاشرتی زخموں کو تلاش کرکے گندگی پر ہی ڈرامے بنا رہے ہیں اور ان ڈراموں کو دیکھ کر اُن کی ریٹنگ بڑھانے والے بھی اسی گند کا حصہ بن رہے ہیں۔ سماجی تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس گندگی کے خلاف آواز اُٹھائیں اور پیمرا کو چاہیے کہ وہ ٹی وی چینلز اور پروڈکشن ہائوسز کو معاشرتی ضابطہ اخلاق کا پابند کرے ورنہ تھوڑی نظر آنے والی اس گندگی کے پورے معاشرے میں پھیلنے کا خدشہ ہے. ایسا نہ ہو کہ ہم یہ معاشرتی برائیاں دیکھنے کے اتنے عادی ہوجائیں کہ برائی کو برائی سمجھنے کا احساس ہی ختم ہوجائے۔