Category: کچھ خاص

  • امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

    امریکہ میں صدارتی الیکشن کے بعد ہنگامے کیوں ہوئے؟ ابومحمد مصعب

    ابومصعب اگر آپ یہاں واشنگٹن پوسٹ کے دیے گئے لنک پر کلک کریں گے تو بالکل حیران نہیں ہوں گے کیوں کہ ویڈیو میں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ ہم اور آپ بارہا اپنے ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور وغیرہ میں دیکھ چکے ہیں۔ دوکانوں کے شیشے لاٹھیوں سے توڑے جا رہے ہیں، سڑک کے درمیان چیزوں کو رکھ کر نذرآتش کیا جا رہا ہے، ایک شخص کو آپ درخت کو آگ لگاتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مظاہرین کا بس ایک ہی نعرہ ہے:
    Not my President
    یعنی ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہے۔

    امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج سے لوگ اتنے اپ سیٹ ہیں کہ کئی لوگوں کو اپنے ٹی وی سیٹ توڑتے، لیپ ٹاپس کے اوپر ڈنڈے برساتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے دکھایا گیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو صدر ٹرمپ بھی بڑی حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور جیت کی خوشی میں ان کی کھلی باچھیں ابھی اپنی جگہ پر بھی نہ آئی تھیں کہ ہنگاموں کے پھوٹنے پر حیران و پریشان ہیں۔ لوگ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ٹرمپ کے خلاف نہ صرف مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ غم و غصہ میں بھرے لوگ ہنگامے بھی کر رہے ہیں۔ ٹرمپ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور کئی ریاستوں میں ان کی فلک بوس عمارتیں ہیں۔ لوگوں نے ان عمارتوں کے باہر جمع ہو کر بھی اپنی نفرت اور غصہ کا اظہار کیا ہے۔ اسی لیے نو منتخب صدر ٹرمپ نے تازہ ٹوئٹ کیا ہے کہ اس قدر واضح جیت کے باوجود جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے، وہ میڈیا کے مقرر کردہ لوگوں کی ایما پر ہو رہا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کے الفاظ:
    Just had a very open and successful presidential election. Now professional protesters, incited by the media, are protesting. Very unfair!

    یہ سب کیوں ہوا؟ جمہوری ملک میں جمہوری مزاج رکھنے والے عوام کو آخر ٹرمپ کی جیت کیوں ہضم نہیں ہوئی؟ جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ امریکہ میں چاہے صدر جو بھی آئے، بادشاہ گروں کی طرف سے اس کے پیچھے ایک لمبی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ لابنگ کرنے والی فرموں کو اپنا اپنا گھوڑا جتوانے کے لیے ہائر کیا جاتا ہے، مہمات لانچ کی جاتی ہیں اور میڈیا کے ذریعہ ملک کے اندر ایک عمومی فضا بنا دی جاتی ہے کہ فلاں تو آیا ہی آیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر میڈیا ٹاکس، صحافیوں کے تجزیے اور سروے، مس کلنٹن کی جیت کی خوشخبری سنا رہے تھے، مگر الیکشن کے رزلٹ نے عوام کو حیران و پریشان کر دیا، اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ آج سے بارہ تیرہ سال قبل کسی فلم میں یا ویڈیو گیم میں مسٹر ٹرمپ کو امریکی صدارتی دوڑ میں شامل دکھایا گیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ اویں ای تھا؟

    آخر میں یہ بات کہ امریکی عوام کی اکثریت نے مس کلنٹن پر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیوں ترجیح دی؟ اس کا جواب ہے کہ امریکی عوام کے ساتھ جارج بش کے بعد اوبامہ کی صورت میں ہاتھ ہو چکا ہے۔ لوگ جارج بش کی امریکی فارن پالیسی سے خوش نہیں تھے جبکہ وہ قوتیں جو اسی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی تھیں، جانتی تھیں کہ اگر کوئی ایسا شخص امریکہ کا صدر بن گیا جس پر ان کا ہاتھ نہ ہو تو کھیل کا پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے عوام کو ایک تبدیلی دکھانے کے لیے اوبامہ کو میدان میں اتارا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ ملک جس میں کالوں کے ساتھ ہر سطح پر تھوڑا بہت امتیاز برتا جاتا ہے، وہاں کیا کوئی گورا میسر نہیں تھا جو مسٹر اوبامہ کو آگے لایا گیا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے یہ محض ایک چال تھی۔ گوری چمڑی کے بجائے جب لوگ کالی چمڑی کو دیکھیں گے تو پچاس فیصد تو نفسیاتی طور پر ویسے ہی ’’تبدیلی‘‘ آنے کا ذہن بنا لیں گے۔ مگر ثابت ہوا کہ یہ سب دھوکے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور عوام نے دیکھ لیا کہ امریکی فارن پالیسی سے لے کر گوانتانامو بے تک، اوبامہ نے جتنے وعدے کیے تھے، وہ سب سراب ثابت ہوئے، اور پالیسیاں جوں کی توں چلتی رہیں۔

    اب کی بار اسی شکاری نے ایک بار پھر ’’تبدیلی‘‘ کا تاثر دینے کے لیے جنس کا انتخاب کیا اور کسی مرد کے بجائے عورت کو آگے کیا، تاکہ لوگ ’’تبدیلی‘‘ کو نفسیاتی طور پر محسوس کریں۔ مگر اس بار عوام نے جان لیا کہ انہیں ایک بار پھر ماموں بنایا جا رہا ہے، اور مس کلنٹن کٹھ پتلی سے بڑھ کر کچھ نہیں، جو اسی فارن پالیسی کو جاری رکھیں گی جو پچھلے سولہ سالوں سے چل رہی ہے، لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں ایک مختلف پروگرام رکھنے والے شخص کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نومنتخب صدر اپنے وہ وعدے پورے کر سکیں گے جو انہوں نے امریکی عوام سے الیکشن مہم کے دوران کیے تھے؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا کرنا ان کے لیے ناممکن نہیں تو آسان بھی نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس سلسلہ میں ان کو کئی قانونی پیچیدگیوں اور ’’بادشاہ گروں‘‘ کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نتیجہ یہ کہ کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے اصل ’’بادشاہ گروں‘‘ کی قوت کو بھی خوب جانتے ہیں۔ کیا انہیں چار امریکی صدور کا علم نہ ہوگا جن کو ان کی حکومت ہی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ہیں: ابراہام لنکن، جیمس اے گارفیلڈ، ولیم مکین لی اور صدر جان ایف کینیڈی۔ یوں اب تک امریکہ کے 44 صدور میں سے چار کو مار کر جان چھڑائی گئی ہے۔
    ٹرمپ کے خلاف احتجاج کی ویڈیو

    https://www.youtube.com/watch?v=mEF-ruKn_fs

    خبریں
    https://www.washingtonpost.com/news/post-politics/wp/2016/11/10/not-my-president-thousand-protest-trump-in-rallies-across-the-u-s/

    http://www.dailymail.co.uk/news/article-3922098/The-backlash-begins-Disgruntled-anti-Trump-protesters-refuse-accept-election-result-gather-New-York-cities-country.html

  • جمعیت علمائے اسلام کی ہر حکومت میں شمولیت، کتنی حقیقت کتنا افسانہ – عادل لطیف

    جمعیت علمائے اسلام کی ہر حکومت میں شمولیت، کتنی حقیقت کتنا افسانہ – عادل لطیف

    عادل لطیف مغربی تہذیب اپنی پوری چمک دمک، آب و تاب کے ساتھ، اسلامی تمدن، اسلامی روایات، اسلامی اخلاق و اقدار پر حملہ آور ہے، اسلامی تہذیب کے نشیمن کے ایک ایک تنکے پر بجلیاں گرائی جا رہی ہیں، یہ تہذیب عالم اسلام کے ایک بڑے طبقے پر فتح حاصل کر چکی ہے، اس کی تابانیوں کے سامنے، اس کی آنکھیں خیرہ، اس کا دل گردیدہ، اس کا دماغ مسحور اور اس کا شعور مفلوج اور مکمل مفلوج ہو چکا ہے. تہذیبوں کے اس تصادم میں ایک جماعت ہے جو ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے جس میں صنعتی، سائنسی، ٹیکنالوجی اور مادی ترقی پورے عروج پر ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب وتمدن، اسلامی اخلاق و ثقافت کسی تحریف و تاویل کے بغیر رائج ہو، ایک ایسا اسلامی معاشرہ جس میں مغرب کے بظاہر خوشنما لیکن درحقیقت جذام زدہ نظام اخلاق و تہذیب سے مرعوبیت کا ذرہ بھر شائبہ نہ ہو، مادی وسائل سے لیس ہونے کے ساتھ اس میں اسلام کی ایک ایک تعلیم اور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں پورے فخر مکمل یقین اور بھرپور اعتماد کے ساتھ اختیار کیا ہو، اس بارے میں کسی قسم کی مداہنت، مصلحت، معذرت اور رواداری کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو. ایک ایسا مسلمان معاشرہ جو دوسری قوموں کی تہذیب کو پورے احساس برتری کے ساتھ یہ کہہ کر رد کر دیتا ہو کہ کیا ہم اپنے نبی سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ان احمق قوموں کی تہذیب کی خاطر ترک کر دیں.

    اسلام کے اسی بلند اخلاق و کردار کے حاملین کی جماعت کا نام جمعیت علمائے اسلام ہے. اس روح و بدن کی کشمکش میں مغرب نے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے کیل کانٹوں سے لیس ہو کر جمعیت علماء اسلام کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے. یار لوگوں کو جمعیت علمائے اسلام کے خلاف کوئی اور ثبوت نہیں ملتا تو بڑے طمطراق سے یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ جمعیت تو اقتدار کی غلام گردش، وزارت کا نشہ، پروٹوکول کی مستی اور دولت کی ہوس کی خوگر ہے، تبھی تو یہ ہر حکومت کی اتحادی ہوتی ہے. یہ بات تو آئندہ سطور میں واضح ہو جائے گی کہ جمعیت نے کتنا وقت حکومت کے ساتھ گذارا ہے اور کتنا اپوزیشن میں، لیکن اس سے پہلے میں وقت کے ان بقراطوں سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ کیا کوئی جمہوری پارٹی الیکشن میں حصہ اس لیے لیتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھے یا استعفی دے کر اسمبلیوں سے باہر چلی جائے. ظاہر بات ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا، ہر پارٹی الیکشن لڑتی ہی اس لیے ہے کہ وہ ایوان کا حصہ بنے اور حکومت بنائے، جب ہر پارٹی ہی اقتدار چاہتی ہے تو جمعیت ہی مورد الزام کیوں؟ اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مفکر اسلام مفتی محمود رحمۃ اللۃ علیہ کی وفات کے بعد سے اور قائد جمعیت کی امارت کے شروع سے لے کر اب تک جمعیت کتنی مرتبہ حکومت کا حصہ رہی اور کتنی مرتبہ مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا.

    maulanafazlurrehman قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جمعیت نے پہلا انتخابی معرکہ 1988ء میں لڑا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ جمعیت مفتی محمود کے ساتھ ہی دفن ہوگئی ہے مگر الیکشن 1988ء کے نتائج نے بتادیا کہ جمعیت ابھی زندہ ہے۔ 360526 ووٹ لے کر جمعیت قومی اسمبلی کی 7 سیٹوں پر منتخب ہوئی اور مخالف قوتوں کو تاریخ ساز جواب دیا۔ 1988ء سے لے کر 1990ء تک اس اسمبلی میں جمعیت نے بھرپور انداز میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا.
    1990 کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے مجموعی طور پر 622214 ووٹ حاصل کرکے 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1990ء سے 1993ء کی اس اسمبلی میں بھی جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن میں رہی۔
    1993ء کے الیکشن میں جمعیت نے 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، 1993ء سے 1997ء تک کا یہ عرصہ بھی جمعیت اپوزیشن میں رہی۔
    1997ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 324910 ووٹ کے ساتھ 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1997ء سے 2002ء تک جمعیت نے یہ عرصہ بھی کامیابی کے ساتھ اپوزیشن میں گزارا۔
    2002ء کے الیکشن میں جمعیت نے متحدہ مجلس عمل کے محاذ سے انتخاب لڑتے ہوئے مجموعی طور پر 63 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2002ء سے 2008ء تک کا یہ وہ وقت تھا جس میں ایم ایم اے کی قیادت میں جمعیت نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی مگر مرکز میں حقیقی اپوزیشن کو فروغ دیا اور آج کی یہ اپوزیشن اسی رویہ کا تسلسل ہے جو ایم ایم اے نے متعارف کروایا تھا۔
    2008ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 766260 ووٹوں کے ساتھ 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اور آصف زرداری کی دعوت پر حکومت میں شریک ہوئی.
    2013ء کے الیکشن میں جمعیت نے 1461371 ووٹ کے ساتھ مجموعی طور پر 15 سیٹیں حاصل کیں، اور نوازشریف کی دعوت پر وفاقی حکومت میں شامل ہوئی۔

    اب اگر حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جمعیت علمائے اسلام نے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں 1988ء سے لے کر 2013ء تک تقریبا 20 سال اپوزیشن میں، جبکہ صرف چھ سال کے لگ بھگ کسی حکومت سے اتحاد میں گزارے. اس جائزہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جمعیت کے مخالف پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ پروپیگنڈہ محض افسانہ ہے. جمعیت مخالفین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جمعیت کوئی پانی کا بلبلہ نہیں ہے جو اٹھتا ہے، کچھ چلتا ہے، فنا ہو جاتا ہے، جمعیت کوئی ٹمٹماتا چراغ نہیں ہے جو چند بھڑکیں مار کر تاریکی کا حصہ بن جاتا ہے، جمعیت بہتی ندی کے کنارے ابھرنے والی جھاگ نہیں ہے جو خشکی تک پہنچنے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے. جمعیت ایک حقیقت ہے جس نے ملکی سیاست میں اپنے وجود کو تسلیم کروایا ہے، اس کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاست میں کیجیے، دروغ گوئی سے کام مت لیجیے، آخر جھوٹ کی کوئی حد ہوتی ہے.

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (1) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (1) – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میرا نام الیاس خان ہے۔ میں سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوا۔ میرا سارا بچپن عسرت اور تنگدستی میں گزرا۔ میں ساتویں کلاس میں تھا جب میرے باپ نے مجھے سکول سے چھڑوا کے کام سیکھنے کے لیے ایک ورکشاپ میں بیٹھا دیا۔ میں سانولی رنگت، عام نقوش، اور اوسط قامت کا ویسا ہی ایک معمولی انسان تھا جو مزدوری کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ شادی کرتے ہیں، بچے پالتے ہیں، پھر ایک دن مسائل، غربت اور بیماریوں سے لڑتے لڑتے مر جاتے ہیں۔ میرے کچھ کزنز کراچی میں بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ میں بھی ایک دن ان کے پاس چلا گیا اور انھوں نے مجھے ایک سیٹھ صاحب کے پاس ڈرائیور کی نوکری دلوا دی۔ سیٹھ صاحب بہت مالدار اور اچھے آدمی تھے۔ انھوں نے مجھے کبھی ملازم نہیں سمجھا، سیٹھ صاحب کے سارے بیٹے بھی بہت شریف النفس اور غریب پرور انسان تھے۔ میں کچھ مہینے سیٹھ صاحب کی ذاتی کار چلاتا رہا، پھر سیٹھ صاحب کو گھر کے لیے ایک با اعتماد آدمی کی ضرورت تھی تو انھوں نے گھر والی گاڑی میرے حوالے کر دی ،اور خود اپنی گاڑی کے لیے دوسرے ڈرائیور کا بندوبست کر لیا۔ اب میری ذمہ داریوں کی نوعیت بدل گئی تھی۔ اب میں صبح اُٹھ کے نئی نکور ہنڈا سوک کو دھوتا چمکاتا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کا انتظار شروع کر دیتا۔ سیٹھ صاحب کی اکلوتی بیٹی لائبہ عرف چھوٹی بیگم صاحبہ یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں۔ ان کو یونیورسٹی لے کر جانا اور واپس لانا میرے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
    ……………………………………………
    میں حسب معمول گاڑی کے پاس کھڑا چھوٹی بیگم صاحبہ کا انتظار کر رہا تھا، جیسے ہی وہ آئیں، میں نے نظریں جھکا کے مؤدب انداز میں کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور وہ نزاکت سے اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے کار میں بیٹھ گئیں۔ ایک مدھم لیکن موڈ کو خوشگوار کر دینے والی خوشبو کا جھونکا میری ناک سے ٹکرایا۔ میں گھوم کے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
    الیاس! آج ہمیں یونی سے بارہ بجے ہی پک کرنا، ہم بازار جائیں گے، کچھ شاپنگ کرنی ہے۔
    جی بیگم صاحبہ! میں نے مودب انداز میں جواب دیا، اور بیک ویو مرر میں انھیں دیکھا۔ اپنے سن گلاسز کو ہاتھ میں پکڑے جانے وہ کن سوچوں میں گم تھیں۔ جب وہ کچھ سوچتی تھیں تو ان کی بڑی بڑی آنکھوں کے تحیر پر بےاختیار پیار آ جاتا تھا۔ آپ نے زیبا بختیار کو جوانی میں دیکھا ہے؟ بس وہ کچھ ویسی ہی تھیں، بڑی بڑی خمار آلود آنکھیں، شہابی رنگت اور غیر معمولی دارز قامت، مں چپکے چپکے انھیں بیک ویو مرر میں دیکھتا رہا۔ مقررہ وقت پر میں نے انھیں یونیورسٹی سے لیا اور ایک قریبی مارکیٹ کا رخ کیا، وہاں بیگم صاحبہ نے کچھ شاپنگ کی اور پھر مجھے لے کر ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں آ بیٹھیں۔
    میں نے زندگی میں کبھی اتنے شاندار ریسٹورنٹ کو اندر سے نہیں دیکھا تھا، میں بیگم صاحبہ کے سامنے والی کرسی پر پریشان اور بوکھلایا سا بیٹھا تھا۔
    میں نے سوچا آج الیاس کو بہت پیدل گھمایا ہے، اس لیے ایک چھوٹی سی کھانے کی دعوت تو بنتی ہے باس۔۔کیا کھائیں گے آپ؟ بیگم صاحبہ نے سن گلاسز کو آنکھوں سے اتار کر سر پر لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
    میں بے اختیار ان کے موتیوں کی طرح جڑے دانت دیکھتا رہا۔
    کیا بات ہے یار، ریلیکس ہو کے بیٹھیں، آپ تو کرسی پر یوں ٹکے ہیں جیسے موقع ملتے ہی بھاگ لیں گے۔ بیگم صاحبہ نے مینو پکڑ کے بےتکلفی اور مصنوعی خفگی سے کہا۔ میرے منع کرنے کے باوجود انھیں نے میرے لیے پزا اور کولڈ ڈرنک منگوا لی۔ میں جھجکتا رہا اور ان کو دیکھتا رہا، وہ بے نیازی سے کھانا کھاتے ہوئے مجھ سے یوں ہلکی پھلکی باتیں کرتی رہیں جیسے میں ان کا بچپن کا دوست ہوں۔ اس سے پہلے کہ ہم اُٹھتے، ایک دارز قامت خوبصورت لڑکے نے ہماری ٹیبل پر جھک کے، اسے بجا کے ہمیں چونکا دیا۔
    ہائے حارث! بیگم صاحبہ نے خوش دلی سے کہا۔
    یہ بندر کون ہے؟ حارث نے حیرت اور غصے سے مجھے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا۔
    کیا بکواس کر رہے ہو؟ یہ الیاس ہیں، ہماری گاڑی ڈرائیو کرتے ہیں۔
    واٹ دی ہیل آف دس؟
    ڈرائیور ہے تو باہر گاڑی میں جا کے بیٹھے۔ لائبہ تمھیں شرم نہیں آتی، ان چوڑھے چماروں کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے۔ لائبہ پورا ہال تمھیں گھور رہا ہے، تمھیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ نمونہ کتنا ان فٹ ہے اس آٹماسفیر میں۔ اگر اسے کچھ کھلانا ہی تھا تو گاڑی میں بھجوا دیتی۔ حارث کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے کچا چبا جائے۔
    شٹ اپ حارث! شٹ اپ۔
    ہمیں کس کو اپنے ساتھ بٹھانا ہے، کس کو نہیں، اس کا فیصلہ ہم خود کریں گے۔ ہو دی ہیل آف یو؟ مائنڈ یور اون بزنس۔
    بیگم صاحب کے چہرے پر آگ جل رہی تھی انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور حارث کو دھکا دے کر باہر کی طرف چل پڑیں، حارث کے چہرے کے نقوش غصے اور نفرت سے بگڑ رہے تھے۔
    یہ ہمارا کزن ہے. ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، اس لیے بہت بگڑ گیا ہے۔ آئی ایم سو سوری الیاس! آپ کو ہماری وجہ سے اتنی انسلٹ برداشت کرنی پڑی، آپ بے فکر رہیں، ہم جا کے بابا سے اس کی شکایت کریں گے۔
    بیگم صاحبہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی معذرت کی۔
    مجھے شرمندہ نہ کیجیے بیگم صاحبہ! آپ کے کزن صاحب بالکل درست کہہ رہے تھے۔ میں واقعی ہی اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کے ساتھ بیٹھ سکوں۔
    آپ چپ کر جائیے۔ ہمارا موڈ پہلے ہی حارث نے خراب کر رکھا ہے، ہمیں زیادہ بہتر پتہ ہے آپ کس قابل ہیں۔
    ……………………………………………
    گھر پہنچ کر میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اتارا اور اپنے کواٹر میں آ کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ آج کے سارے دن کے مناظر کی فلم میری آنکھوں میں چلنے لگی۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں بیگم صاحبہ کے اتنے پاس ان کے روبرو بیٹھوں گا اور وہ مجھ سے اتنی باتیں کریں گی۔ میں اتنے سرور میں تھا کہ مجھے حارث کے ہاتھوں ہوئی بےعزتی بھی بےمعنی لگ رہی تھی۔ جس طرح بیگم صاحبہ نے میرا دفاع کیا، مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور ہاتھ پکڑ کر گاڑی تک لائیں، وہ منظر کئی دن تک میں جاگتی آنکھوں سے بھی چشم تصور سے دیکھتا رہا۔ اس دن کے بعد سے بیگم صاحبہ مجھ سے کافی بےتکلفی سے بات کرتیں اور کبھی کار کی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ بھی بیٹھ جاتیں۔ بیگم صاحبہ بہت کم بولتی تھیں لیکن جب بھی بولتیں تو ان کی آواز میں ایک خاص قسم کا تحکم اور رعب ہوتا تھا۔ ان کا اپنے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ بیگم صاحبہ جب بھی شاپنگ کرتیں، کچھ نہ کچھ میرے لیے بھی لے لیتیں۔ اس لیے اب میرے جوتے، کپڑے، پرفیومز وغیرہ بھی برانڈڈ ہوتے تھے۔ لیکن میں پھر بھی ان کے ساتھ چلتا ہوا ان کا خادم اور غلام ہی لگتا تھا۔
    کچھ دن بعد یونیورسٹی سے واپسی پر ہم ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ یہ نومبر کے اوائل تھے، موسم خوشگوار تھا، بیگم صاحبہ نے کار کا آدھا شیشہ نیچے کر رکھا تھا، کار میں نصرت صاحب کی غزلیں دھیمی آواز میں چل رہی تھیں۔ ایک موٹر سائیکل پر سوار تین لڑکے ہماری کار کی بائیں جانب رکے ہوئے تھے، اپنے حلیے اور انداز و اطوار سے وہ انتہائی اوباش اور بگڑے ہوئے لگ رہےتھے، انھوں نے پچھلی نشست پر بیٹھی بیگم صاحب کے بالکل قریب موٹر سائیکل روک رکھا تھا، اور انھیں گھورنے کے علاوہ آپس میں ذومعنی باتیں بھی کر رہےتھے۔ مجھے خون اپنے سر کو چڑھتا ہوا محسوس ہوا، غیر ارادی طور پر میرے اعصاب تن گئے، میں نے اپنے سائیڈ والے دروازے پر لگے کنڑول پینل سے سارے شیشے پورے اوپر چڑھا دیے۔ جس پر باہر ایک زوردار قہقہ پڑا۔ تینوں میں سے ایک لڑکے نے بےباکی سے بیگم صاحبہ والے شیشے کو انگلی سے بجایا اور نہایت بے ہودہ بات کی۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے اس وقت کیا ہوا تھا، شاد یہ وہی کفیت تھی جس میں انسان سے غیر ارادی قتل ہو جاتے ہیں، میں نیچے اترا اور گھوم کر موٹرسائکیل کے پاس پہنچا، نوجوانوں کو شاید مجھ سے ایسے کسی ردعمل کی توقع نہیں تھی، اس لیے وہ بدستور مجھے تمسخر اڑانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے فقرے کس رہے تھے۔ میرا نشانہ شیشہ بجانے والا لڑکا تھا۔ اس کا چہرہ کتنا نفرت انگیز ہے۔ اس کے چہرے کو کچل دینا چاہیے۔ میں نے اسے موٹر سائیکل سے گھیسٹ کے اتارتے ہوئے سوچا۔ میرے اندر اس وقت جناتی طاقت آ چکی تھی، مجھے ان تین لڑکوں نے بہت پیٹا، میں لہو لہان ہو گیا لیکن میں نے اپنے شکار کو نہیں چھوڑا، مکے مار مار کے میں نے اس کے چہرے کا بھرتا بنا دیا، میرے اور اس کے سارے کپڑے پھٹ گئے، وہ نیم جان ہو چکا تھا لیکن میرا غصہ سرد نہیں ہو رہا تھا۔ آخرکار جب بیگم صاحبہ نے مجھے چلاتے ہوئے جنجھوڑا تو مجھے ہوش آیا۔

    اسے چھوڑ دیں الیاس! یہ مر جائے گا، فار گاڈ سیک چھوڑ دیں اسے۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ بیگم صاحبہ روتے ہوئے چلا رہی تھیں، میری حالت ایسی تھی جیسے چابی والے کھلونے کی چابی اچانک ختم ہو جائے اور اس کے اعضا جہاں تھے وہی معلق ہو جائیں۔ بیگم صاحبہ نے مجھے بازو سے پکڑ کے کار میں بٹھایا اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے ہاسپٹل لے گئیں۔ سارا رستہ وہ مجھے مجھے دیکھ دیکھ کے روتی رہیں، ان کی آنکھیں اور ناک کی نوک ٹماٹر کی طرح سرخ ہو رہی تھیں، میں اس وقت بڑی بےخودی اور بےباکی سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ وارفتگی اور لاپروائی کی ایک لہر نے مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ مرہم پٹی کے بعد ہم گھر پہنچے تو شام کو میری پیشی سیٹھ صاحب کے سامنے ہوئی، مجھے زیادہ تشویش حارث کو ان کے پاس بیٹھے دیکھ کر ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے میرے منہ سے سارے واقعہ کی تفصیل سنی اور بیچ میں سوال بھی پوچھتے رہے۔ میں نے اس سے پہلے سیٹھ صاحب کو کبھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔ انھوں نے نہ ہی مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور نہ ہی میری چوٹوں کے بابت کچھ دریافت کیا۔ کچھ دیر بعد میں واپس اپنے کواٹر میں تھا۔ ابھی میں چارپائی پر لیٹا ہی تھا کہ میں نے تنک مزاج اور دارز قامت حارث کو اپنے کواٹر میں داخل ہوتے دیکھا۔
    مزے کر رہے ہو استاد!
    حارث نے سگریٹ سلگا کے مجھے گہری نظروں سے دیکھا۔ میں اُٹھ کے بیٹھ گیا تھا۔ حارث کپڑوں کی الماری کھول کے میرے کپڑے دیکھ رہا تھا، اس نے ایک دو قمیضوں کے کالر الٹ کے ان کے برانڈ دیکھے، پھر مڑ کے مجھے دیکھا۔ اس کے چہرے کی درشتی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اب وہ جھک کے الماری میں پڑے میرے جوتے دیکھ رہا تھا۔ او گوچی! اس نے ہونٹ سکوڑے اور پرفیوم کی بوتل کو دیوار پر دے مارا۔ ایک زوردار ِآواز پیدا ہوئی اور بوتل ٹوٹ گئی۔ سارے کمرے میں خوشبو اور شیشے پھیل گئے۔ حارث تیز قدموں سے چلتا ہوا آیا اور کرسی گھیسٹ کے بالکل میرے قریب بیٹھ گیا، میرے اور اس کے چہرے میں بمشکل چند انچ کا فاصلہ تھا، کچھ دیر ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے ،پھر میں نے نظریں جھکا لیں۔ یہ سب تم نے خود خریدا ہے؟
    حارث نے سگریٹ کا کش لے کر اسی ہاتھ سے الماری کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا اس کا ہاتھ پتلا اور انگلیاں باریک اور لمبی ہیں۔
    نہیں، یہ بیگم صاحبہ نے لے کر دیا ہے۔
    میں نے دھیمے انداز میں جواب دیا۔
    کس حثیت سے؟
    ایک ملازم کی حثیت سے!
    آپ غلط سوچ رہے ہیں صاحب۔ میں نے حارث کی آنکھوں میں دیکھا، جہاں حسد اور غصے کی آگ جل رہی تھی۔
    اچھا! یعنی ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والا ایک ان پڑھ جاہل دیہاتی مجھے بتائے گا کہ مجھے کیا سوچنا ہے۔ شکل دیکھی ہے تم نے اپنی؟ یاجوج ماجوج لگتے ہو بلڈی فول۔
    مجھے لگا کہ وہ مجھ پر جھپٹے گا لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا، کچھ دیر وہ سگریٹ کے کش لیتا رہا اور مجھے انگلش میں گالیوں سے نوازتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کسی کو سیل پر کال ملائی اور اس سے انگلش میں بات کی جو میں بالکل نہیں سمجھ سکا۔
    ہری اپ ہری اپ۔ جلدی اٹھو، اس نے خود اٹھتے ہوئے مجھے بھی اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شوز پہنو، جلدی تمھیں حیدر آباد جانا ہے۔
    لیکن صاحب؟؟
    لیکن ویکن کچھ نہیں، ڈارمے نہ کرو، اچھے بھلے ہو تم، کچھ نہیں ہوا تمھیں۔
    میرے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا لیکن میں حارث کی خوشنودی کے لیے تیار ہوگیا ورنہ مجھے خطرہ تھا کہ وہ مجھے نوکری سے ہی نہ نکلوا دے۔ حارث نے مجھے ایک پیکٹ دیا اور اسے فوراً حیدر آباد اس کے دوست کے گھر پہنچانے کا حکم سنا دیا۔ میں چھوٹی بیگم صاحبہ یا سیٹھ صاحب کو بتا کے جانا چاہتا تھا لیکن حارث کا موڈ دیکھتے ہوئے چپ ہی رہا۔ کچھ دیر بعد میری گاڑی نیشنل ہائی وے پر حیدر آباد کی طرف اڑی جا رہی تھی، مجھے صبح تک واپس آ کے بیگم صاحبہ کو یونیورسٹی بھی لے کر جانا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں حیدر آباد پہنچتا، چھوٹی بیگم صاحبہ کی کال آ گئی۔
    ہم سونے لگے تھے، سوچا آپ کا حال احوال پوچھ لیں۔ اب کسی طبعیت ہے؟ سو تو نہیں گئے تھے آپ؟
    بیگم صاحبہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں حیدر آباد جا رہا ہوں ۔میں نے کار کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے کہا۔
    حیدر آباد؟ کیوں؟ بابا ساتھ ہیں؟
    نہیں بیگم صاحبہ! مجھے حارث صاحب نے بھیجا ہے، ان کا کچھ سامان ہے جو یہاں دینا ہے۔ ابھی پولیس ناکہ آ رہا ہے، میں آپ کو بعد میں کال کرتا ہوں۔
    واٹ ار یو ٹاکنگ مین؟ کون حارث؟ وہ کون ہوتا ہے آپ کو کہیں بھیجنے والا؟ آپ نے حالت دیکھی ہے اپنی؟ فوراً واپس آئیے، جہنم میں جائے حارث۔ حسب توقع بیگم صاحبہ کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔ میری کار ناکے پر پہنچ چکی تھی، میں نے کال بند کر کے سیل سائیڈ سیٹ پر رکھا اور شیشہ نیچے کیا۔ میرا شناحتی کارڈ دیکھتے ہی پولیس والوں نے مجھے اتار لیا، ایسا لگتا تھا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھے میری ہی کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھایا اور دو پولیس والے میری سائیڈوں پر بیٹھ گئے۔ وہ میرے ہر سوال کا جواب مکوں اور تھپڑوں کی شکل میں دے رہے تھے۔ ایک پولیس والا کار چلا رہا تھا۔ میں سخت خوفزدہ ہو چکا تھا۔ پولیس والوں نے مجھے سیٹ پر اس طرح جھکا کے بیٹھایا کہ میرے دونوں ہاتھ ان کے پیروں کے نیچے کچلے جار ہے تھے۔ اور میرا سر کار کے فرش کو چھو رہا تھا۔ انھوں نے میری کمر ننگی کی اور اسے چمڑے کے لتر سے مارنا شروع کر دیا۔ میری چیخوں سے گاڑی گونج رہی تھی لیکن وہ بڑے پروفیشنل انداز میں بڑی بے حسی سے مجھے مار رہے تھے۔ اتنی دیر میں کار کی اگلی سیٹ پر پڑا میرا فون بجا۔ یقیناً یہ چھوٹی بیگم صاحبہ کی کال تھی۔

    (اس سچی داستان کا کا بقیہ حصہ اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے)

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • واٹس ایپ یوزرز کی مشکلات کا حل – حنا نرجس

    واٹس ایپ یوزرز کی مشکلات کا حل – حنا نرجس

    جو بھی سمارٹ فون رکھتا ہے، میسجنگ ایپ اس کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی بدولت ٹیکسٹ پیغامات، وائس نوٹس، آڈیوز، وڈیوز اور تصاویر بھیجنے کے ساتھ ساتھ وائس کال اور ویڈیو کال کی سہولت میسر آ جاتی ہے. آج کل بہت سی میسجنگ ایپس مقبول ہیں مثلاً واٹس ایپ، میسنجر، سکائپ، لائن، ٹیلی گرام، وائبر، سنیپ چیٹ وغیرہ. اگر تقابل کیا جائے تو ان میں سے بعض اپنے مخصوص فیچرز کی بنا پر بعض پر فوقیت رکھتے ہیں. لیکن فیچرز کی پسندیدگی سے زیادہ آپ اسی ایپ کو استعمال کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں جسے آپ کے دوست اور خاندان کے دوسرے افراد استعمال کر رہے ہوتے ہیں.

    اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مقبولِ عام واٹس ایپ ہے. تعلیم و تدریس سے وابستہ افراد نے اس کو بہترین طریقے پر استعمال کیا ہے. پہلے جو فاصلاتی تعلیم کی سہولت تھی، وہ اب واٹس ایپ کورسز کی شکل اختیار کر گئی ہے. باقاعدہ فیس کے ساتھ کورسز کروا کر سرٹیفکیٹس دیے جاتے ہیں. لیکن بہت سے سٹڈی سرکلز فی سبیل اللّٰہ کام کر رہے ہیں. ایک مکمل سبق بھیجا جاتا ہے جو آڈیوز، کتاب کے صفحات کی تصاویر اور ٹائپ کیے ہوئے ٹیکسٹ کی شکل میں نوٹس پر مشتمل ہوتا ہے. پھر ہفتہ وار کوئز بھی منعقد ہوتا ہے جس کا باقاعدہ رزلٹ بنایا جاتا ہے. اس طرح طالب علم چھوٹے چھوٹے اسباق کی صورت میں اپنی پسند کے کورسز سنجیدگی کے ساتھ مکمل کرتے ہوئے دین و دنیا کی تعلیم حاصل کرتے ہیں.

    مجھے بھی خواتین کی ایسی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ اس طریقہ تدریس نے بہت سی بہنوں کو جو تعلیم و تعلم کو خیر باد کہہ بیٹھی تھیں، پھر سے بنیادی تعلیم کے ساتھ لا جوڑا ہے. میری یہ بہنیں واٹس ایپ کورسز میں داخلہ تو لے لیتی ہیں لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی سیٹنگز سے نابلد ہیں. آج دراصل میں انھی کی سطح پر رہتے ہوئے واٹس ایپ کے استعمال کے دوران پیش آنے والے کچھ بنیادی مسائل کے حوالے سے بات کروں گی.

    1 1. پہلا اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ گروپس میں آنے والے ہر میسج کا جب نوٹیفکیشن موصول ہوتا ہے تو پریشانی ہوتی ہے. تو حل اس کا آسان سا ہے. آپ گروپ پر کلک کریں. اب اوپر دائیں کونے میں نظر آنے والے تین عمودی نقطوں پر کلک کریں. پھر یہاں میوٹ پر کلک کر کے ”ایک سال“ کو منتخب کر لیں. نیچے ”شو نوٹیفکیشنز“ کو بھی اَن چیک کر دیں یعنی باکس میں ٹک کا نشان نظر نہیں آنا چاہیے.
    اس کے علاوہ آپ واٹس ایپ سیٹنگز میں نوٹیفکیشنز پر کلک کر کے میسجز، گروپس اور کالز کے لیے اپنی مرضی سے ٹون، وائبریشن یا سائلنٹ منتخب کر سکتے ہیں. ایک اور طریقہ فون پر موصول ہونے والے تمام نوٹیفکیشنز کو فون سیٹنگز میں ساؤنڈ پروفائل میں جا کر میوٹ (خاموش) یا وائبریٹ پر سیٹ کرنے کا ہے. یوں بار بار ہونے والی ٹون پریشان نہیں کرے گی. چوتھا طریقہ یہ ہے کہ فون سیٹنگز میں ایپس پر جا کر جس ایپ کے چاہیں نوٹیفکیشنز مکمل طور پر بند کر دیں. لیکن اس طریقے میں پھر ضروری نوٹیفکیشنز بھی مِس ہو جاتے ہیں.

    22. دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ گروپ میں کسی ممبر کی طرف سے غلطی سے شیئر ہونے والی پوسٹس بھی ڈاؤن لوڈ ہو جاتی ہیں جن کی آپ کو قطعاً ضرورت نہیں ہوتی. عام واٹس ایپ یوزرز بھی اس مسئلے کی وجہ سے پریشان ہیں. مثلاً فرینڈز کا گروپ ہے. ہر مزاج کے لوگ مختلف شیئرنگ کرتے رہتے ہیں. ہر تصویر، آڈیو، ویڈیو آپ کے مطلب یا پسند کی نہیں ہوتی مگر وہ ڈاؤن لوڈ ہو کر فون میموری بھر دیتی ہے. اس کے لیے آپ کو کرنا یہ ہے کہ آٹو ڈاؤن لوڈ آف کر دیں. وہ یوں کہ واٹس ایپ کھول کر تین نقطوں پر کلک کرتے ہوئے سیٹنگز پر کلک کریں. یہاں ”ڈیٹا یوزیج“ پر کلک کرنا ہے. اب آپ باری باری تینوں آپشنز کو کھول کر فوٹوز، آڈیوز، وڈیوز، ڈاکومنٹس کے ساتھ بنے باکسز کو اَن چیک کر دیں.
    3 اب آپ جس پوسٹ کو ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کے کلک کرنے سے ڈاؤن لوڈ ہو گی. یہاں یہ بتاتی چلوں کہ اگر آپ گھر پر وائی فائی استعمال کرتے ہیں اور باہر آپ کے پاس کوئی انٹرنیٹ کنکشن نہیں ہوتا تو یاد سے آنے والے اسباق، لیکچرز وغیرہ کو رات کو ہی ڈاؤن لوڈ کر لیں تاکہ اگلے دن جب آپ جاب، یونیورسٹی یا سفر پر گھر سے باہر ہوں اور فارغ وقت میں لیکچرز سننا چاہیں تو وہ آپ کے موبائل میں موجود ہوں. مزید ایک درخواست پوسٹ شیئر کرنے والوں سے بھی کروں گی کہ ہر شیئرنگ کے ساتھ چند الفاظ پر مبنی مختصر تعارف بھی شیئر کریں تاکہ ریسیو کرنے والا جان سکے آیا یہ پوسٹ اس سے متعلق ہے یا نہیں یعنی ڈاؤن لوڈ کرنی چاہیے یا نہیں.

    3. اب آتے ہیں تیسرے مسئلے کی طرف. کچھ دوست اپنی براڈ کاسٹ لسٹ بنا کر آپ کا نام اس میں شامل کر دیتے ہیں، پھر اپنے مزاج کے مطابق سارا سارا دن کچھ نہ کچھ پوسٹ کرتے رہتے ہیں. بے تکی شاعری، لطیفے، مزاحیہ چیزیں، غیر مستند دینی پوسٹس یا یہ کہ دینی پوسٹس ہوتی تو مستند ہیں لیکن ایک ہی دن میں اتنی زیادہ تعداد میں شیئر کی جاتی ہیں کہ شیئر کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے. براڈ کاسٹ لسٹ بنانے والے نے تو بس ایک میسج کی طرح ہی میسج کرنا ہوتا ہے لیکن وہ تمام کانٹیکٹس کو چلا جاتا ہے. اگر آپ ایسے ہی کسی دوست کی وجہ سے تنگ ہیں اور مروت کے مارے کہہ بھی نہیں پاتے تو آسان سی ٹپ دیتی ہوں. آپ اس دوست کا نمبر اپنی فون بک میں سے ڈیلیٹ کر دیں. میسجز آنا بند ہو جائیں گے کیونکہ براڈ کاسٹ میسج ملنے کے لیے ضروری ہے کہ ریسیو کرنے والے نے آپ کا نمبر سیو کیا ہو. لیکن دھیان رہے کہ نمبر ڈیلیٹ کرنے سے پہلے کہیں ڈائری، فون کے میمو، نوٹ پیڈ وغیرہ میں لکھ لیں یا اپنے ہی نمبر پر ایس ایم ایس کی شکل میں بھیج دیں تاکہ حسب ضرورت آپ اس دوست سے رابطہ کر سکیں.

    5 4. کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ وہ اگلی لائن پر جانے کے لیے ”اَینٹر کِی“ دباتے ہیں تو بجائے اگلی لائن پر جانے کے، جتنا میسج ابھی لکھا ہوتا ہے، وہ سَینڈ ہو جاتا ہے. یہ اپنے مسئلے کے حل کے لیے بہت سے کِی بورڈز ٹرائی کر چکے ہوتے ہیں. اصل مسئلہ کی بورڈ کا نہیں بلکہ واٹس ایپ سیٹنگز کا ہے. اس کے لیے واٹس ایپ سیٹنگز میں ”چیٹ“ پر کلک کریں اور پھر ”اَینٹر اِز سَینڈ“ کے سامنے بنے باکس کو اَن چیک کر دیں. لیجیے آپ کا مسئلہ حل ہو گیا.

    5. واٹس ایپ پر آئی قدرے طویل آڈیوز کو واٹس ایپ پر سننے کے بجائے فون کے آڈیوز سیکشن میں جا کر سنیں. اس طرح بار بار کسی نئے نوٹیفکیشن کی وجہ سے آپ ڈسٹرب بھی نہیں ہوں گے اور آڈیو بیک گراؤنڈ میں بھی چلتی رہے گی. یعنی آپ فون پر ساتھ ساتھ کچھ دوسرا کام بھی کر سکتے ہیں.

    6 6. اگر آپ لکھتے ہیں، کوئز حل کرتے ہیں، کوئی پوسٹ محفوظ کرنا چاہتے ہیں یا کسی میسج میں کچھ ایڈیٹنگ کرنا چاہتے ہیں تو کسی اور ایپ کو استعمال کیے بنا واٹس ایپ میں ہی رہتے ہوئے یہ کام بآسانی کر سکتے ہیں. جیسے مجھے ٹائپنگ اور ایڈیٹنگ کا بہت سا کام کرنا ہوتا ہے. واٹس ایپ سیٹنگز میں جا کر ایک نیا گروپ بنائیں. صرف ایک فرد کو ایڈ کر لیں مثلاً اپنی بہن کو. گروپ بن جائے تو اس فرد کو بھی ریموو کر دیں. اب آپ اس گروپ کے اکیلے ہی ممبر ہیں. مزے سے اپنا کام کریں اور گروپ میں بھیج دیں. 🙂

    7. رومن اردو کے بجائے اردو فونٹ میں لکھیں. ”سوِفٹ کِی“ ایک اچھا کی بورڈ ہے. پلے سٹور سے انسٹال کر لیں اور لینگویجز میں انگریزی، اردو، عربی منتخب کر لیں. ایک سے دوسری زبان پر سپیس کِی کی مدد سے بآسانی منتقل ہوا جا سکتا ہے.

    امید ہے یہ معلومات آپ کے لیے مفید رہی ہوں گی. واٹس ایپ پرائیویسی اور کچھ دلچسپ فیچرز کے ساتھ ساتھ ٹیلی گرام ایپ کے کچھ ایسے مفید فیچرز جو واٹس ایپ میں نہیں ہیں، پر ان شاء اللہ اگلی تحریر میں بات ہو گی.

  • ذلیل ایسے ڈاکٹر ہیں نہ کہ ان کا پیشہ – احمر اکبر

    ذلیل ایسے ڈاکٹر ہیں نہ کہ ان کا پیشہ – احمر اکبر

    (ذیل میں جس تصویر کی بنا پر یہ تحریر لکھی گئی ہے، وہ دلیل کو موصول ہوئی ہے. تصویر بےشرمی اور بےحسی کی علامت ہے. حساسیت کی وجہ سے اسے شامل اشاعت نہیں کیا جا رہا. آپریشن تھیٹر میں مردوں کی موجودگی یا خود ان کا آپریشن کرنا ایک بھیانک مسئلہ ہے اور اس طرح کی شکایات مختلف مواقع پر آتی رہی ہیں، انٹرنیٹ پر بھی ایسے کئی واقعات کے حوالے سے مواد موجود ہے. ضروری ہو گیا ہے کہ نہ صرف حکومت قوانین سخت کرکے ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائے بلکہ ڈاکٹروں کو بھی اپنے درمیان ایسے کالی بھیڑوں کی نہ صرف نشاندہی کرنی چاہیے بلکہ انھیں اپنے پیشے سے الگ کرنا چاہیے.)

    ڈاکٹر ایک مسیحا سمجھا جاتا ہے. دنیا میں ڈاکٹری کو مقدس ترین پیشوں میں جانا اور پہچانا جاتا ہے، ہماری مقدس کتاب قرآن مجید میں بھی حضرت لقمان حکیم کا ذکر موجود ہے۔ ڈاکٹر حکیم لقمان کی ہی جدید قسم ہے.

    ڈاکٹروں کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ ہم کو بچپن سے ہی یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ڈاکٹر سے کبھی بھی شرمانا نہیں چاہیے. پہلے فیملی ڈاکٹر ہوا کرتے تھے، اب ان کی گھر آنے والی سروس تو ختم ہوئی، ساتھ میں نخرے بھی بڑھ گئے. مخصوص ڈاکٹروں کو ہم اپنا رازدار بنا کر، انھیں اپنی پریشانی اور جسمانی بیماریوں کے بارے میں بتا کر بہتر علاج کی توقع کرتے ہیں، جس کی ہم مخصوص رقم بھی ادا کرتے ہیں. اگر وہی ڈاکٹر جن کو ہم اپنا مسیحا مانتے ہیں، ہماری عزتیں بھی اچھالنے لگیں تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟ یقینا میری طرح آپ بھی ردعمل دیں گے.

    اب آتے ہیں اصلی بات کی طرف۔ کل سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی ہے جس کو دیکھنے کے بعد نہایت افسوس بھی ہوا، شرمندگی بھی ہوئی اور اپنی قوم کی بےحسی پر ترس بھی آیا۔ تصویر میں دو ڈاکٹرز کسی سرکاری یا نجی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں اپنی سیلفی بنا رہے ہیں، سیلفی بنانا جرم نہیں مگر اس تصویر کے پیچھے اگر ہم دیکھیں تو ایک بیٹی، ایک بہن، ایک ماں بنا کپڑوں کے نیم بےہوشی کی حالت میں سٹیچر پر پڑی نظر آتی ہے۔
    مجھے سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ لگا کہ ہم جن ڈاکٹروں کے سپرد اپنی عزت کرتے ہیں، وہ اتنے گھٹیا اور بےشرم بھی ہو سکتے ہیں کہ عورتوں کی اس حالت میں جب وہ اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہیں، نیم بے ہوش ہوتی ہیں، ان کی عزت کو نیلام کیا جائے؟ کیا ایسے ہوتے ہیں ڈاکٹر؟ کیا آپ اپنے ڈاکٹر کی ایسی حرکت برداشت کر سکتے ہیں؟ یقینا آپ میں سے کسی نے بھی کھی کوئی ایسی ریکی نہیں کی ہوگی، ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے کہ جن ڈاکٹروں کے پاس ہم بغیر کسی خوف کے جاتے ہیں، ان کا عملہ یا وہ خود ایسا کوئی کام کر سکتے ہیں، مگر یہ جو آج سب دیکھا، آنے والی نسلوں کے لیے بھی فکر کی علامت ہے.

    لوگ کہیں گے یہ ان کا ذاتی فعل ہے، سب ڈاکٹروں کو اس کیٹگری میں مت ڈالیں، مجھے اتفاق ہے مگر آپ لوگ خود بتائیں، جو واقعہ لکھا ہے یا جو باتیں بیان کرنے لگا ہوں؟ کیا وہ غلط ہیں؟
    عورتوں کو بےہوشی کے دوران ہلکی پھلکی ہوش ہوتی ہے، وہ بہتر بتا سکتی ہیں کہ کیا وہاں ڈاکٹر اپنا موبائل استعمال نہیں کرتے؟
    کیا ان کے ساتھ نرسیں اور عملہ آپس میں مذاق نہیں کرتا؟
    کیا فی میل ڈاکٹر، آپریشن کو میل ڈاکٹر سے نہیں کرواتی؟

    آج سے بیس سال پہلے وقت بہت اچھا تھا، ڈاکٹر لوگوں کے گھروں تک جاتے تھے، فیملی ڈاکٹر کہلواتے تھے. اب ہر کوئی اپنا کاروبار، اپنا بزنس، اپنا ہسپتال بنا کر عوام کو لوٹ رہا ہے، اور ہم اور ہماری عورتیں بڑی خوشی سے ان کے پاس جا کر اپنا پیٹ چاک کرواتی ہیں، اور کبھی اس بارے میں سوچا تک نہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس تصویر میں نظر آ رہا ہے.

    ایک ڈاکٹر پر کتنا خرچہ آتا ہو گا کوئی اندازہ ہے آپ کو؟
    ایک ڈاکٹر پر چالیس لاکھ تک خرچہ حکومت کا ہوتا ہے والدین کے علاوہ۔ دوسرے لفظوں میں وہ ہمارا پیسہ ہوتا ہے، عوام کے ٹیکس کا پیسہ۔ ہم کو معلوم ہی کب تھا کہ ان میں ایسے سانپ بھی پل رہے ہیں جو اس طرح عوام سے کھیلیں گے، پیسوں کے حوالے سے بھی اور عزت کے حوالے سے بھی۔گائنی کے شعبے میں آج کل مردوں کو بہت چارم نظر آتا ہے، اس کی کوئی خاص وجہ مجھے آپ ہی بتا دیں ؟ میں تو ناقص العقل ہوں کچھ بھی سوچ سکتا ہوں.

    کیا یہ حقیقت نہیں کہ بڑی بڑی لیڈی ڈاکٹروں کے نام سے چلنے والے ہسپتالوں میں بھی 80% لیڈی ڈاکٹر صرف ڈیکوریشن پیس ہوتی ہیں، وہاں آپریشن میل ڈاکٹر یا میل او ٹی کرتے ہیں، اور میڈم پاس پڑی کرسی پر اپنے موبائل کے ایس ایم ایس چیک کر رہی ہوتی ہیں. آپریشن کا دورانیہ آدھا گھنٹہ ہوتا ہے مگر اسے بڑھا کر دو گھنٹے کر دیا جاتا ہے تاکہ ورثا سوچیں کہ بہت تسلی بخش کام کیا جاتا ہے. یہ نہیں پتہ کہ اندر نرس، او ٹی ڈاکٹر موبائل میں مصروف ہیں.
    فی میل سرجن کی نسبت میل سرجن زیادہ بہادری سے اور جلدی کام ختم کرتے ہیں مگر پھر عوام کو دھوکے میں کیوں رکھا جاتا ہے؟
    ڈاکٹروں کی سہولت کے لیے پورے ہسپتال میں کیمرے لگے ہوتے ہیں؟ کیا مریض کے ورثا بھی آپریشن تھیٹر کا اندرونی حال دیکھنے کی فرمائش نہیں کر سکتے؟
    آپ یقین کریں، آج کل نجی ہسپتالوں میں ماحول کسی یورپی ملک سے کم نہیں ہے۔ یہ تصویر کسی سرکاری یا غریب نجی ہسپتال کی ہو سکتی ہے مگر یہ عزت ہم سب کی ہے، ہم سب کی مائیں اور بہنیں ان کے پاس جاتی ہیں، ان پر ہم اندھا اعتماد کیوں کرتے ہیں؟
    کیا ہمارے پاس آپشن ختم ہو چکے ہیں؟ کیا ہم ان جیسے گھٹیا لوگوں اور نام کی لیڈی ڈاکٹروں کے علاوہ کہیں اور نہیں جا سکتے؟
    ہم سب کب تک چپ رہیں گے؟ کب تک اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر خاموش رہیں گے؟

    ابھی بھی وقت ہے، ہم سب مل کر ایسے عناصر کا خاتمہ کر سکتے ہیں، آپ نشاندہی کریں، آواز اٹھائیں کہ چپ رہنے سے ان جیسوں کو اور جرات مل جاتی ہے.
    میں حکومت وقت سے التجا کرتا ہوں کہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ایسے مسائل کا بھی حل نکالے اور ہسپتالوں میں کچھ اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے. جیسے
    آپریشن تھیٹر میں موبائل فون کا استعمال ممنوع ہو۔
    آپریشین تھیٹر کا عملہ جنس کے حساب سے ہو، مرد کے لیے مرد اور عورتوں کے لیے عورتیں۔
    آپریشن اگر میل سرجن کرے مگر ان کے ساتھ تمام عملہ مہذب اور ایک ہی جنس کا ہو۔
    ورثا کو آپریشن تھیٹر تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اندرونی ماحول کو دیکھ سکیں۔
    امید ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو گا اور جن کے چہرے تصویر میں نظر آ رہے ہیں، انھیں، اور ان جیسے عناصر کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ دوبارہ ایسی جرات کوئی اور نہ کر سکے۔

  • علامہ ابن حزم اندلسی سے ایک مکالمہ – محمد فیاض قرطبی

    علامہ ابن حزم اندلسی سے ایک مکالمہ – محمد فیاض قرطبی

    محمد فیاض آج قرطبہ کی سیر کے دوران پرانی فصیل، شہر کے پرانے دروازہ اشبلییہ کے سامنے پہنچا تو ایک مجسمہ نظر آیا، قریب پہنچا تو نیچے نام جانا پہچانا لگا؛ ابن حزم
    اتنے میں کانوں میں ایک سرگوشی سی گونجی، دائیں بائیں نظر دوڑائی مگر کوئی شخص نظر نہ آیا.
    سرگوشی دوبارہ گونجی، بیٹا یہ میں ہوں.
    میں حیران و پریشان ہوا، یا الہی ماجرا کیا ہے؟
    میں ہوں ابن حزم اندلسی جو تمہارے سامنے کھڑا ہوں.
    ایک عرصہ ہوا یہاں کھڑے ہوئے کھبی کوئی ایسا سیاح آیا نہیں جس سے دل کی باتیں کہہ سکوں.
    میں نے ڈرتے ڈرتے بابے کی جانب نظر کی اور پوچھا،
    اے امام ابن حزم! میں نے آپ کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے، کیا وہی ابن حزم ہیں جو دسویں صدی میں پیدا ہوئے تھے اور آپ کے والد وزیر تھے، امیر قرطبہ منصور کے؟
    بابا جی بولے، ہاں! میں وہی ہوں، کچھ عرصہ میں بھی دربار قرطبہ سے وابستہ مگر حکمران کی لڑائیوں میں قید و بند کی مصیبیتوں سے تنگ آ کر میں نےگوشہ نشینی اختیار کر کے تدریس و تصنیف شروع کر دی تھی. جامعہ قرطبہ میں طلبہ کو قرآن و سنت اور فقہ کے درس دیتا رہا.
    میں نے پوچھا؛
    بابا جی! میں نے یہ بھی پڑھ رکھا ہے کہ آپ کی کتاب (پیار کی کبوتری) ring of dove نے سب سے زیادہ شہرت پائی جو پیار کے موضوع پر ایک جامع کتاب ہے، اور آپ کے بعد سینکڑوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے،
    بابا جی گویا ہوئے، بیٹا میں نے تو کم و بیش اسی ہزار صفحات لکھے جو فقہ کے اصول، قرآنی تفسیر، گمراہ فرقوں کے باطل عقائد، اور اندلس میں عرب قبائل کی تاریخ جیسے موضوعات پر مشتمل تھے، ان میں سے ایک کتاب یہ بھی تھی، جس کا مقصد پیار کے حقیقی مقاصد عوام کے سامنے لانا تھا، کہ عشق حقیقی کیا ہوتا ہے اور انسانی ذہن کےخیالات اور دل کے جذبات انسان کو کیسے گمراہ کرتے ہیں؟
    بابا جی گہری سانس لے کر بولے، یہاں ہزاروں سیاح برسوں سے آ رہے ہیں، وہ میرے مجسمہ کے سامنے تصاویر بنا کر گزر جاتے ہیں اور مجھے افسوس ہوتا ہے کہ جو علم و عرفان کی باتیں میرے سینے میں دفن ہیں، ان کا کوئی طلبگار نہیں.
    میں نے بابا جی سے کہا آج آپ کا یہ گلہ دور ہو جائے گا، میں آیا ہوں نا دل میں کچھ سیکھنے کے جزبات لیے.
    باباجی بولے، میری داستان حیات سے تم واقف ہی ہو گے کہ کیسے میری حق گوئی کی پاداش میں شہر بدر کیا گیا اور اشبلیہ کے امیر نے میری تصانیف کو آگ میں جلایا، کیونکہ میرے نزدیک علم کا پہلا ماخد رب کی ذات، اور اس کی جانب سے آنی والی وحی ہے. مجھ سے پہلے دنیا میں ارسطو کا فلسفہ مشہور تھا کہ علم کے ماخذ پانچ حواس ہیں، مگر میرے نزدیک وہ چھ ہیں، ایک حس حق اور سچ کی ہے جو رب ودیعت کرتا ہے، انسان کی رہنمائی کےلیے.
    میں نے بابا جی کی فلسفیانہ گفتگو کو لمبا ہوتے دیکھا تو درمیان میں لقمہ دیا تاکہ بات مختصر ہو سکے.
    باباجی آپ کے متعلق تو بڑی متنازع باتیں مشہور ہیں جو ہم نے پڑھی تھیں مثلا آپ فقہ الظہری کے بڑے حامی اور مبلغ ہیں اور دوسرے مذاہب اور فرقوں کے رد میں کافی کتابچے لکھے؟
    بابا ابن حزم بولے؛ بیٹا سنی سنائی باتوں کے بجائے تم خود ہی پڑھ لینا، میری کتاب المحلی، جس میں، میں نے زندگی کے مسائل کو قرآن اور احادیث کے ساتھ اس وقت تک کے تمام فقہی مذاہب کے اماموں کی رائے کے ساتھ پیش کیا ہے، یہ کتاب فقہ پر ایک انسائیکلوپیڈیا ہے.
    میں نے اپنی گھڑی کی جانب نظر دوڑائی تو بابا جی کی تیز نظروں نے بھانپ لیا کہ اتنی لمبی خشک گفتگو سے میں جان چھڑانے کے چکر میں ہوں، تو وہ بولے،
    میں نے چالیس سالہ تصنیفی اور عملی زندگی میں جو سیکھا، وہ علم کے موتی میں نے اپنی کتاب میں جمع کر دیے تھے، جس کا نام میں نے مداوتہ نفوس رکھا، جس کو بعد میں لوگوں نے اخلاق و السیر کا نام بھی دیا.
    میں نے بابا ابن حزم سے دریافت کیا، بابا جی ان علم کے موتیوں سے مختصرا ہم کو بھی نوازیے نا آج. بابا جی نے اپنی زندگی کا نچوڑ مجھے عنایت کرتے ہوئے فرمایا؛
    1۔ سامان دنیا کی خاطر قربانی دینے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص لعل و جواہر کو کنکریوں کے عوض فروخت کر دے۔
    2۔ بہت سے لوگ ریاکاری کے اندیشے سے نیک کام چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ریاکاری کو ناپسند کرنے کا یہ انداز شیطان کا ایک جال ہے۔
    3۔ جس شخص کا طبعی رجحان جس علم کی طرف ہو اسے وہی سیکھنا چاہیے ورنہ وہ اندلس کے علاقہ میں ناریل اور ہندوستان میں زیتون کاشت کرنے کی سعی ناتمام کر رہا ہے۔
    4۔ مال و دولت و جسم اور صحت میں اپنے سے ادنی کو دیکھیں اور دین اور علم میں اعلی درجہ والوں کو۔
    ۵۔ غلط مشورہ یا رائےدینے والوں کے مشورہ پر تجربات کرکے اپنا وقت ضائع نہ کریں، بجائے تجربہ اور اپنا نقصان کرکے اسے اس کا موجب قرار دے کر اسے شرمندہ کریں۔
    6۔ علم اور اہل علم کو نقصان نااہل لوگوں کی اس سوچ کی وجہ سے ہوا کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں۔
    7۔ بہت سارے کام ایک ساتھ کرنے کا انجام یہ ہوگا کہ کوئی کام بھی مکمل نہیں ہوگا۔
    9۔ حکمرانوں کے لیے سب سے بڑے نقصان کا باعث ان کے فارغ مشیر بنتے ہیں، عقلمند حکمران وہ ہے جو ان کو کسی کام پر لگائے رکھے۔
    10۔ اپنے کاموں میں اس فرد سے مدد لو جو اس کام سے آپ کی طرح فوائد چاہتا ہے۔
    11۔ بدترین ظلم یہ ہے کہ کثرت سے برے کام کرنے والے سے اگر کوئی اچھا کام ہوجائے تو اسے تسلیم نہ کیا جائے۔
    12۔ ابلیس کی چالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کوئی برا کام کرے اور عذر پیش کرے کہ اس سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کام کیا تھا۔
    13۔ عدل و انصاف یہ ہے کہ آپ واجبات ادا کریں اور اپنے وصول بھی کریں۔
    14۔ ظلم یہ ہے کہ اپنے واجبات تو لوگوں سے لیں مگر ان کے ادا نہ کریں
    15۔ جو شخص آپ کو آپ کی خامی سے آگاہ کرتا ہے، وہ آپ کا دوست ہے، اور جو آپ کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معمولی سمجھا، وہ آپ کا دوست نہیں ہو سکتا۔
    16۔ دوستوں سے سسرالی اور تجارتی رشتہ بنانے سے پرہیز کریں، دونوں میں فریق بن کر تعلقات میں کمی آئے گی۔
    17۔ جب کسی کو نصیحت کریں تو درپردہ کریں یا اشارہ و کنایہ میں کریں۔
    18۔ کچھ لوگوں کو اپنے حکمرانوں اور دوست کی خاطر اسی طرح غیرت آتی ہے جیسے شوہر کو بیوی اور عاشق کو معشوقہ کے بارے میں۔
    19۔ اے انسان اپنی جسمانی قوت پر فخر نہ کر کیونکہ تم سے زیادہ قوت ہاتھی میں پائی جاتی ہے، اپنی شجاعت پر فخر نہ کر کہ شیر و چیتا تم سے زیادہ شجیح ہیں، زیادہ وزن اٹھانے پر نہ فخر کر کہ گدھا تم سے بوجھ اٹھاتا ہے۔
    بابا جی کی باتیں میں نے ذہن نشین کر لیں، ان کا شکریہ ادا کیا کہ اپنی زندگی کا نچوڑ مفت میں عنایت کر دیا۔
    جاتے جاتے میں نے بابا ابن حزم سے کہا کہ میں نے پڑھا تھا کہ آپ کے دور میں قرطبہ آپ جیسے علماء و فضلا سے بھرا پڑا تھا۔
    بابا ابن حزم بولے، میری طرح کئی اور مفکرین بھی کھڑے ہیں مجسموں کے صورت قرطبہ کی گلی کوچوں میں، ایک تو یہ میری بائیں جانب کھڑا ہے۔ ان سے بھی جا کر مل لو۔
    میں نے دور کھڑے دوسرے بابے کی جانب قدم بڑھانے شروع کر دیے۔
    آپ جاننا چاہیں گے وہ کون سا عظیم مفکر تھا؟

  • واحد پاکستانی جسے ٹرمپ کے منتخب ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    واحد پاکستانی جسے ٹرمپ کے منتخب ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہے – ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    ڈاکٹر عاصم اللہ بخش امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے پاکستان کو کچھ فائدہ ہو یا نہ ہو، ایک پاکستانی کا ضرور بھلا ہو سکتا ہے…. یعنی، عمران خان.
    کل تک جو دوست عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے تقابل، یا مماثلت، کے تذکرہ پر چیں بجیں نظر آتے تھے، وہ اب ایسا نہ کیے جانے پر شاید زیادہ خفگی کا مظاہرہ کریں. 🙂

    بہرحال، خان صاحب کے کیمپین مینیجرز کو ٹرمپ صاحب کی انتخابی مہم کا بھرپور جائزہ لینا ہوگا. خاص کر یہ کہ ایک ”مستقل مزاج“ مہم کیسے چلائی جاتی ہے تاکہ عوام میں موجود فرسٹریشن کو نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ اس کو ہلکی آنچ پر یہاں تک لایا جائے کہ وہ ہر حال میں ووٹ دینے گھروں سے نکلیں. بظاہر ناممکن نظر آنے والے ہدف کو ممکن بنانا اسی طرح ہو سکتا ہے. روز پریشر ککر صورتحال بنا کر پیچھے ہٹتے رہیں گے تو اس سے عوام کا کتھارسس ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا اور ووٹنگ تک پہنچتے پہنچتے ان کا جذبہ کافی سرد ہو جائے گا.

    دوسرا، یہ دعا اور کام کا وقت ہے. دعا یہ کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ ایک ڈیڑھ سال میں ہی لوگوں کو اتنا بیزار نہ کر دے کہ مثال کے بجائے عبرت بن کر رہ جائے، اور کام آپ کو کرنا ہے (خیبر پختون خوا میں) تاکہ آپ کے ووٹوں اور ممکنہ ووٹوں کو تحریک ملے.

    ٹرمپ صاحب ”شعور“ پر ”جذبہ“ کی فتح کی علامت ہیں. خان صاحب بھی جذبہ پر ہی بازی لگائے ہوئے ہیں. کوئی مانے یا نہ مانے، ٹرمپ صاحب کی پرفارمنس سے عمران صاحب کے دعوی اقتدار کی کامیابی کا ممکنہ گہرا تعلق ہو گا، بالخصوص اگر ڈونلڈ ٹرمپ کچھ بھی مثبت کر پائے. خان صاحب بہرحال ٹرمپ صاحب سے بہت بہتر کردار اور پرفارمنس رکھتے ہیں.
    یہ ایک دلچسپ ایکویشن ہے. دیکھتے ہیں وہ واحد پاکستانی جسے ٹرمپ کے منتخب ہونے سے فائدہ ہو سکتا ہے کہاں تک اس بت سے فیض پاتا ہے. ! 🙂

  • ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت، عقل والوں کےلیے ایک نشانی – احمد حامدی

    ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت، عقل والوں کےلیے ایک نشانی – احمد حامدی

    احمد حامدی پاکستان کے لیے یا مسلمانوں کے لیے نہ تو ٹرمپ کا صدر ہونا خوشی کا باعث ہے اور نہ ہی اگر ہیلری ہوتی تو خوشی کا موقع ہوتا۔ امریکا کے صدور کا امریکا کی پالیسیز پر کم ہی اثر پڑا ہے، کیونکہ ان کے سیاسی نظام کا ڈھانچہ ہی ایسا ہے کہ محض صدر کی صوابدید پر پالیسیز میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اس لیے ہمارے لیے ٹرمپ کا صدر ہونا بھی ایسا ہی ہے جیسے جارج ڈبلیو بش، بارک ابامہ یا ہیلری، اگر صدر بن جاتی۔

    جو لوگ یورپ میں چلنے والی مہم، امریکیوں کے مزاج اور ان کی اخلاقی حالات سے ناواقف ہوں، ان کے لیے تو ٹرمپ کا صدر ہونا حیرت انگیز ہو سکتا ہے لیکن ان کے لیے اس میں کوئی امرِ تعجب نہیں ہے جو امریکا کی پالیسیز یا ان کے حالات سے واقف ہوں۔ ٹرمپ کی تشدد پسندی، بے راہ روی اور سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی کے باوجود ان کا صدر بننا سوچ رکھنے والوں کے لیے بڑی نشانی ہے۔

    الیکشن مہم اور امریکا کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ ہمیشہ سے جو لوگ امریکا کی صدارتی دوڑ میں شامل ہوتے رہے ہیں انہوں نے امریکی عوام کو خیالی جنت اور یو ٹوپیا کے خواب دکھائے ہیں۔ صدر ابامہ نے الیکشن کپمین میں امریکی عوام سے یہی وعدے کیے تھے کہ ہم وسط ایشاء یا افغانستان وغیرہ کے بارے میں اپنی پالیسیز میں تبدیلی لائیں گے، ہم جنگ سے جان چھڑائیں گے، ہم ترقی یافتہ کاموں میں سرمایہ کاری کریں گے اور امریکا سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا لیکن یہ سارے دعوے ہمیشہ محض دعوے رہے۔ امریکا کی سرمایہ کاری ہر اس کام میں ہوتی جس سے صرف امریکا کا خیر وابستہ ہو خواہ آدھی دنیا تباہ ہو جائے یا وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں جہاں سے مسلمانوں اور سوشلسٹوں کی تخریب ہو سکتی ہو۔

    جنگوں کو فروغ دینا، بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنا اور بڑی سطح پر دنیا کو دھوکا و فریب میں مبتلا رکھنا ہمیشہ سے امریکا کی پالیسی رہی ہے۔ ریڈ اینڈینز کی نسل کشی، انہیں غلام بنانا، افریقیوں کو غلام بنانا، ان کی تہذیبی شناخت مٹانا اور زبردستی مذہب تبدیل کرانا۔ عالمی جنگوں اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے حالات، کیوبا پر جنگ مسلط کرنا اور جاپان پر ایٹمی دھماکے کرنا، مسلمانوں کو استعمال کرنا اور پھر بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی کرنا یہ شواہد کے انبار میں وہ چند ہیں جن کو غور کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ امریکا ہی واحد جنگی خدا ہے جس نے صدیوں سے دنیا میں خون کی ہولی برپا کر رکھی ہے۔

    عوام کو اپنا ہمنوا بنانے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مغربی میڈیا ہی اصل ذریعہ رہا ہے۔ جس کے خلاف امریکا اپنی جنگ لانچ کرنا چاہتا ہو، تو پہلے اس کے حوالے سے ایسے اصلاحات کا پرچار میڈیا کے ذریعے سے کیا جاتا ہے جس سے دشمن کو وحشی ثابت کیا جائے اور جنگ کی ضرورت پر عوام کو کنونس کیا جائے۔ اسلام کے خلاف امریکا نے اسی قسم کی پروپیگنڈہ مہم چلائی ہے۔ امریکا نے اسلام کی ایسی تصویر کشی کی ہے جس کو دیکھ کر اسلام نعوذ باللہ وحشت، جہالت، شدت پسند اور دنیا کے لیے خطرہ نظر آتا ہے۔
    بطور ثبوت،کتاب: سرکش ریاستیں از نوم چومسکی سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں!
    ”آج کا دور جو کہ ابلاغ کا دور ہے اور امریکی معاشرہ جو کہ ایک جدید معاشرہ ہے وہ آج بھی سیاسی طور پر بہت حد تک تاریکی میں ہے اور آج بھی امریکی عوام کی اکثریت غلط فہمیوں کی شکار ہے۔ یہ سارا عمل امریکی حکمران طبقات نے بڑی چابکدستی سے کیا ہے۔ امریکی سرمایہ داری نظام نے جہاں دنیا بھر کو لوٹ اور ظلم کا شکار بنایا ہے، وہیں اس سے بڑا جرم امریکی حکمرانوں نے اپنے عوام کو سیاسی طور پر جاہل رکھ کر کیا ہے، اور یہ اسی لیے کیا گیا ہے کہ اگر حقائق امریکی عوام تک پہنچ گئے تو امریکی عوام ایک انقلاب برپا کر سکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جیسا کہ 60ء کی دہائی میں عوامی حقوق کی تحریک نے کیا تھا۔“

  • جمہوریت: کرپشن سے ہیر پھیر سے کارپوریٹ فنڈنگ تک – محمد زاہد صدیق مغل

    جمہوریت: کرپشن سے ہیر پھیر سے کارپوریٹ فنڈنگ تک – محمد زاہد صدیق مغل

    زاہد مغل یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جمہوری نظام میں ”حکومت بنانا“ عام بندے کے بس کی بات نہیں، یہ امیروں کا کھیل ہے۔ یہ کھیل متعدد طرح سے کھیلا جاتا ہے۔

    • پارٹی کے لیڈران نہایت امیر لوگ ہوں۔ یہ امیر لوگ ایک پارٹی فنڈ بھی قائم کرتے ہیں جس کا مقصد الیکشن کے دنوں میں چند بااثر مگر نسبتا کم امیر امیدواروں کو سپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہ جمہوریت کا بالکل ابتدائی دور ہوتا ہے۔

    • جمہوری سیاست چونکہ کل وقتی پیشہ ہے اور بہت قربانی مانگتا ہے نیز الیکشن میں لگائی گئی رقم جوئے میں لگائی گئی رقم کی طرح آر یا پار نوعیت کی ہوتی ہے (سوچیے عبدالعلیم خان نے لاہور کے ضمنی الیکشن میں کتنے کروڑ روپے ہارے!) لہذا یہ رقم انویسٹمنٹ ہوتی ہے جس پر مختلف انداز میں ریٹرن کمایا جاتا ہے۔

    • اس ریٹرن کی بعض صورتیں ”ننگی کرپشن“ شمار ہوتے ہیں، مثلا رشوت و کمیشن۔ جمہوری پراسس جوں جوں آگے بڑھتا ہے، اس قسم کی ننگی کرپشن کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ لہذا وقت کے ساتھ ”ہیر پھیر“ کی نسبتا پیچیدہ مگر قانونی شکلیں ایجاد کرنا پڑتی ہیں۔ اس کی عام صورتیں کک بیکس، ذاتی کاروبار کے ٹھیکے، سہولیات، لائسنس و قرضے وغیرہ ہوتی ہیں۔ اس قسم کی صورتیں بالعموم قانون کے دائرے کے اندر ہوا کرتی ہیں۔

    • جمہوری حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس قسم کے ”قانونی فوائد“ کو عوام سے چھپایا جائے مگرمیڈیا ”عوام کا شعور بیدار کرنے“ کے نام پر حکمرانوں کو بلیک میل کرنے کی غرض سے ایسی کہانیاں عام کرتا رہتا ہے۔ بسا اوقات ملک کے کسی ”دوسرے جمہوری ادارے“ کے لوگ خبریں عام کرنے کا یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب جمہوری الیکشن کے لیے روپوں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، بلکہ مسابقت سخت ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے ساتھ یہ ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے۔

    • اس موڑ پر سیاسی انویسٹمنٹ کو فنانس کرنے کی یہ صورت سامنے آتی ہے کہ اب حکمران زیادہ تر اپنے ذاتی کاروبار کے لیے نہیں بلکہ ان کمپنیوں کو کاروباری سہولتیں اور ٹھیکے فراہم کرتے ہیں، جو ان کی الیکشن مہم کے لیے ان کے پارٹی فنڈ میں چندہ دیتے ہیں۔ چنانچہ امریکہ جیسے جمہوریت کے چیمپئن ملک میں یہ امر بالکل قانونی ہے کہ کارپوریشنز اپنے پسند کے امیدوار کی الیکشن مہم کو فنانس کریں۔ کمپنیاں یہ سب فنانسنگ فی سبیل اللہ نہیں کرتیں بلکہ اپنے مطلب کی پالیسیوں اور کاروباری فوائد کے لیے کرتی ہیں۔

    • جمہوریت کے اس سفر کو صرف پاکستان سے متعلق نہ سمجھا جائے بلکہ یہ دنیا کی ہر جمہوریت کی کہانی ہے۔ اب اگر اس بارے میں کوئی بندے کی رائے جاننا چاہتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس سفر میں کہاں کھڑی ہیں؟ تو مختصرا یہ کہ ”اس جمہوری سفر“ میں ن لیگ اس وقت ان معنی میں پاکستان کی سب سے ترقی یافتہ جماعت ہے کہ یہ آخری سطح کو بھی چھو چکی ہے (یعنی اب یہاں زیادہ زور ان کمپنیوں کو ٹھیکے دینے پر ہے جو اس کی اگلے الیکشن مہم کو فنانس کرنے والی ہیں)” پی ٹی آئی فی الوقت دوسری سطح پر کھڑی ہے جہاں جہانگیر ترین جیسے لوگ پارٹی کے جلسوں اور دھرنوں کو فنانس کرکے کے پی میں اپنے ذاتی کاروبار کو پھیلا رہے ہیں۔ پی پی پی اب بھی سب سے دقیانوسی جماعت ہے کہ یہ پہلی سطح سے بہت زیادہ آگے نہیں بڑھ سکی۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کو انڈر اسٹیمیٹ نہ کریں – ثاقب ملک

    ڈونلڈ ٹرمپ کو انڈر اسٹیمیٹ نہ کریں – ثاقب ملک

    ثاقب ملک ڈونلڈ ٹرمپ کو انڈر اسٹیمیٹ نہ کیا جائے. ٹرمپ کی فتح سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لوگ اپنی پسند کا سچ سننا چاہتے ہیں. ٹرمپ نے لوگوں کو ان کا سچ یا سچ نما مغالطہ ( کہ امیگرینٹس تمھاری جابز کھا گئے، جرائم ان کی وجہ سے بڑھ گئے، ٹیکس کرپٹ مافیا اپنے اوپر نہیں لگانے دیتا، عام امریکی کا امریکن ڈریم ختم ہوگیا) ازبر کروایا اور الیکشن جیت گیا. ہیلری لوگوں کو کتابی باتیں بتاتی رہی جو سسٹم سے الرجک لوگوں کے لیے ہر گز قابل قبول نہیں تھیں. یہ بھی ثابت ہوا کہ امریکن عوام کی اکثریت بھی اسٹیٹس کو ( اسٹیبلشمنٹ، مین اسٹریم میڈیا، بڑی کاروباری ادارے، وغیرہ) کی مخالف ہے اور ٹرمپ نے اس کو اپنے حق میں استعمال کیا. ٹرمپ کی فتح سے میں خوش ہوں. میرا خیال ہے کہ دنیا میں مثبت یا منفی تبدیلی آنا لازمی تھی اور ٹرمپ شاید اس کا ٹرمپ کارڈ بنے.

    ٹرمپ نے پاور گیم کے پرانے کھلاڑیوں کو انھی کے انداز میں پراپیگنڈا پاور سے شکست دی. انتخابی مہم ایک دکھاوا تھا. اصل روپ صدارت کے بعد نظر آئے گا. یہ بات یاد رکھیں کہ ٹرمپ 1988 سے صدارتی دوڑ میں شریک ہونے کا سوچ رہا تھا. وہ مختلف امیدواروں کو مالی امداد اور کمیشن دیتا رہا گو کہ ذاتی فوائد اسے تو حاصل ہوتے رہے لیکن اس کی سوچ کے مطابق امریکا بدل نہ سکا. تمام تجربے کا حاصل اسے یہی لگاکہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلے گا. جھوٹ اور خوف پر مبنی اس کی مہم آج کل کی جمہوریت کی مجبوری ہے.

    پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے کچھ زیادہ نہیں بدلےگا. ہماری تنخواہ چینج ہو سکتی ہے. لیکن ہمارے تعلقات دراصل پینٹاگون اور سی آئی اے سے ہوتے ہیں اسی لیے پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکی صدر بدلنے سے امریکی پالیسی نہیں بدلتی. وہ اس لیے کہ ہمارے امریکہ سے تعلقات فوجی اور جغرافیائی نوعیت کے زیادہ ہیں. اس لیے امریکی صدر کی تبدیلی 180 ڈگری کی پالیسی شفٹ نہیں ہوتی.

    ایک بات مزید یہودی لابی اور یہودی میڈیا ٹرمپ کا شدید مخالف رہا مگر ٹرمپ نے اس کو بھی پچھاڑ دیا. میرا خیال ہے کہ ٹرمپ کی فتح عقل پر جذبات اور گٹ فیل کی فتح ہے. ٹرمپ ایک غیر متوقع شخص ہے اور میں ہیلری جیسی پرانی پاپی کے بجائے ہر بار ٹرمپ کا انتخاب کروں. میں پھر کہوں گا کہ مسلمانوں اور امیگرنٹس کے خلاف اس کے بیانات پر ہمیں انتظار کرنا پڑے گا کہ اصل ٹرمپ اور صدر ٹرمپ میں کیا فرق ہے.

    دنیا کی اسٹاک ایکسچینجز کا نیچے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا بھر کی اسٹیبلشمنٹ اور بڑے ادارے ٹرمپ کے متعلق غیر یقینی کا شکار ہیں اور یہ ”پلانڈ“ وکٹری اور پینٹاگون کی آشیرباد کے خلاف ایک اور دلیل ہے.
    Let’s wait and see.