Category: کچھ خاص

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (3) – ریحان اصغر سید

    میں کچھ دیر حیرت کی شدت سے کچھ بول ہی نہیں پایا اور سکتے کی کیفیت میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو تکتا رہا۔ جو اب اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو گھٹنے پر پھنسائے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھ رہی تھیں۔ ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ مجھے بےاختیار ان پر بہت ترس آیا۔ میں اپنے بارے میں قطعاً کسی غلط فہمی کا شکار نہیں تھا، ایک معمولی پس منظر کا معمولی جاہل انسان۔ جس کے پاس تعلیم، خاندان، شکل و صورت کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے مقابلے میں بیگم صاحبہ کے پاس سب کچھ تھا۔ میں انھیں کسی بھی لحاظ سے ڈیزرو نہیں کرتا تھا۔ ان کے لائق تو کوئی ان جیسا خاندانی، اعلی تعلیم یافتہ اور خوبصورت انسان ہونا چاہیے۔ کوئی آرمی کا کرنل، پائلٹ، ڈاکٹر یا پھر کوئی اعلی سرکاری افسر۔ وہ اتنی اچھی تھیں کہ ان کے عشق میں کوئی بھی مرد گرفتار ہو سکتا تھا۔ میرے دل میں موجود ان کے لیے محبت اور عقیدت کا تقاضا تھا کہ میں فورا انکار کر دوں اور کہوں کہ میری جان بچانے کی یہ قیمت بہت بڑی ہے اور آپ میری جان بچانے کے چکر میں اپنی جان بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ میں آپ کی زندگی کو اپنے ہاتھوں برباد نہیں کر سکتا۔ آپ نے میرے لیے جو کچھ کیا وہ بہت غیر معمولی ہے لیکن اب میں آپ کو مزید مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں یہیں سے پنجاب لوٹ جاتا ہوں، کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔ آپ بھی اس قصے کو یہیں ختم کر دیجیے۔ حارث نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، میں آپ کے صدقے اسے معاف کرتا ہوں۔ آپ بھی اسے معاف کر دیں۔

    میں انھیں بتانا چاہتا تھا کہ میرا نکاح میری خالہ زاد کے ساتھ لڑکپن میں ہی کر دیا گیا تھا اور وہ گھر بیٹھے میری راہ تک رہی ہے۔ اگلے سال مارچ اپریل تک ہماری شادی ہے لیکن میں ان باتوں میں سے انھیں کچھ بھی نہیں بتا پایا۔ ایک عجیب سے کمینگی اور خودغرضی نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ شاید میری رگوں میں دوڑتا معمولی خون اپنا اثر دکھا رہا تھا۔ میری عقل مجھے سمھا رہی تھی کہ بے وقوف، جس کے تو دن رات سپنے دیکھتا رہا ہے، وہ تجھے مل رہی ہے، تجھے اور کیا چاہیے؟ زندگی میں ایسے مواقع روز روز اور ہر کسی کو نہیں ملتے۔ ایک معمولی نوجوان سے ایک امیر کبیر پری کی شادی، ایسا تو صرف فلموں میں ہوتا ہے یا پھر رومانی رسالوں میں، اور تیری منکوحہ شمسہ کا کیا ہے، نہ شکل و صورت اور نہ رنگ روپ۔ تین مرلے کے کچے مکان اور بھینسوں کے ساتھ زندگی گزارنے والی ایک معمولی لڑکی جس کے جسم سے ہر وقت ایک ناگوار سی بُو اٹھتی ہے۔ یہاں سے لوٹو گے تو ساری عمر غربت کی چکی میں پستے ہوئے گزارنی پڑے گی۔
    چلیں؟
    بیگم صاحبہ نے شاید میری خاموشی سے تنگ آ کر کار کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا۔
    کار میں بیٹھ کر میں نے بیگم صاحبہ کی طرف دیکھے بنا کہا،
    میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
    تو ساحل میں سمندروں کی ہوا
    چھوٹی بیگم صاحبہ بےاختیار کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
    ہمیں تو آج پتہ چلا ہے کہ آپ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

    میں نے بہت محتاط لفظوں میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنے بچپن اور ماضی کے بارے میں تفصیلاً بتایا لیکن اپنے نکاح کی بات گول کر گیا۔ ہمت کر کے میں نے انھیں یہ بھی بتا دیا کہ میں چپکے چپکے ان پر کتنا مرتا رہا ہوں اور دن رات ان کے سپنے دیکھتا رہا ہوں۔ اس کے بعد میں نے انھیں اپنے اور ان کے متوقع نکاح کے بعد پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی نیم دلانہ سی کوشش کی۔ میں انھیں ان کے فیصلے سے باز رکھنے کے لیے دلائل تو دے رہا تھا لیکن دل میں ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں وہ قائل ہی نہ ہو جائیں اور نہ ہی میں انھیں کوئی ایسی دلیل دینا چاہتا تھا کہ جس سے وہ قائل ہو کر پیچھے ہٹ جائیں۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری ساری باتیں بہت غور و تحمل سے سنیں۔
    اوکے ! لیٹس میک اِٹ سِمپل۔
    ہم نے آپ کی ساری گفتگو سے جو اندازہ لگایا ہے، وہ یہ کہ آپ ہمیں بہت پسند کرتے ہیں اور ہم سے شادی بھی کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کو صرف دو باتوں پر اعتراض ہے۔ ایک تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ہمارے قابل نہیں ہیں۔ دوسرا آپ ڈر رہے ہیں کہ ہماری شادی کے بعد ہمیں خاندان و سماج کی بہت ساری مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایم آئی رائٹ؟؟
    جی بیگم صاحبہ ! میں نے تائید کی۔
    آئی جسٹ ڈونٹ کیئر! اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو ہمیں دنیا میں کسی کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہم سب سنبھال لیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ہیں نا الیاس؟
    کار رک چکی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ دل و جان سے میری طرف متوجہ تھیں۔ میں سرشاری کی سی کیفیت میں سر اثبات میں ہلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا۔
    الیاس ہم آپ پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم سے اقرار کرنے کے بعد آپ کے لیے واپسی کے سارے رستے بند ہو جائیں گے۔ آپ پر ہماری فیملی، اور ہو سکتا ہے کہ آپ کی فیملی کا بھی شدید دباؤ آئے۔ ہو سکتا ہے آپ کو ڈرایا جائے یا لالچ کے جال میں پھنسانے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم دونوں قتل کر دیے جائیں۔ آپ نے جو کچھ سوچنا ہے، ابھی سوچ لیجیے. بعد میں پچھتانے یا پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن نہیں بچے گا۔
    بیگم صاحبہ کے چہرے پر بے پناہ سختی اور ان کی روایتی بے نیازی نمودار ہو چکی تھی۔
    میں مر جاؤں گا لیکن اب پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میرے ہاتھ تو کاٹے جا سکتے مگر آپ کے ہاتھ سے چھڑوائے نہیں جا سکتے۔ میں نے بے اختیار چھوٹی بیگم صاحبہ کا ہاتھ تھام لیا۔

    ولی خان نے گھر جا کر سیٹھ صاحب کو ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔ سیٹھ صاحب کی چھوٹی بیگم صاحبہ کو دو دفعہ کال آ چکی تھی لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نے انھیں مطمئن کر دیا تھا۔ کراچی پہنچ کر ہم سیدھے کورٹ چلے گئے۔ جہاں ایک وکیل نے پارکنگ میں ہمارا استقبال کیا۔ میرا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا لیکن مستقبل کے خدشات بھی ڈرا رہے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ حسب معمول پرسکون و پراعتماد تھیں۔ دوپہر تک ہم ساری کاغذی کاروائی مکمل کر کے باقاعدہ ایک دوسرے کے میاں بیوی بن چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو گھر جلدی جانا تھا اور میں چاہ رہا تھا کہ وقتی طور پر اپنے کزن کے گھر چلا جاؤں لیکن چھوٹی بیگم صاحبہ نہیں مانیں۔ انھوں نے مجھے تسلی دی کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر اپنے بنگلے پہنچیں۔ میں اپنے کواٹر میں چلا گیا اور چھوٹی بیگم صاحبہ سیٹھ صاحب کے پاس چلی گئیں جو ان کے انتظار میں آج آفس نہیں گئے تھے۔ بیگم صاحبہ نے میری مرہم پٹی حیدرآباد سے ہی کروا دی تھی۔ میں درد کش گولیاں کھا کر لیٹ گیا۔

    ساری رات کی ہلچل اور رت جگے کے بعد میرا خیال تھا کہ میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا لیکن میری توجہ دروازے پر ہی مرکوز رہی۔ کبھی لگتا کہ ابھی دھماکے سے دروازہ کھلے گا اور سیٹھ صاحب یا ولی خان مجھے گولیوں سے سے بھون دیں گے۔ پھر سیٹھ صاحب کی بردباری اور بیگم صاحبہ کے لیے ان کی محبت دیکھ کر دل کو تھوڑی ڈھارس بندھتی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد میرے کوارٹر کے دروازے پر ایک نفیس سے دستک ہوئی۔
    میرا دل بے اختیار پکار اٹھا کہ یہ چھوٹی بیگم صاحبہ ہیں۔ میں نے لپک کر دروازہ کھولا اور چھوٹی بیگم صاحبہ میرے کمرے میں تشریف لے آئیں۔ وہ پہلی دفعہ میرے کمرے میں آئی تھیں، اس لیے کافی دلچسپی سے اردگرد کا معائنہ کر رہی تھیں۔ میں نے ان کے چہرے کے تاثرات تاڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔
    آپ کی بڑے صاحب سے ملاقات ہوئی ہے؟؟ آپ نے ہماری شادی کے بارے میں کیا بتایا ہے؟؟
    میں نے بے چینی سے پوچھا۔
    ہاں ! ہم ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے انھیں سب کچھ بتا دیا ہے۔ پہلے تو وہ بہت سٹپٹائے اور ہم پر بہت غصہ بھی ہوئے، مگر ہم بھی ہم ہیں، جب ہم بھی غصے میں آ گئے تو انھیں نارمل ہونا پڑا۔ کیا کریں بے چارے، وہ ہم سے محبت جو اتنی کرتے ہیں۔ ان کی جان ہمارے اندر ہے، ہمیں پتہ تھا کہ وہ مان جائیں گے۔ ابھی وہ آپ کو بلا رہے ہیں، اس لیے ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے بڑے شوخ و چنچل انداز میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تک رات والے ڈریس میں ہی ملبوس تھیں مگر پھر بھی فریش اور کھلی کھلی لگ رہیں تھیں۔

    میں ان کی راہنمائی میں چلتا ہوا بنگلے کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا۔ اس سے بیشتر میں اس حصے میں کبھی نہیں آیا تھا۔ بنگلے کی شان و شوکت مجھے مرعوب کر رہی تھی۔ ایک شاندار کمرے میں سیٹھ صاحب ٹہل رہے تھے۔ سفید ریشم کی شلوار قمیض میں ان کی شخصیت مجھے ہمیشہ سے زیادہ بارعب و پرقار لگی۔ انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور چھوٹی بیگم صاحب کو تشریف لے جانے کا کہا۔
    ہم تو کہیں نہیں جا رہے، یہیں بیٹھے ہیں۔ آپ کو جو بات کرنی ہے ہمارے سامنے ہی کیجیے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے میرے قریب ہی ایک صوفے پر آلتی پالتی مارتے ہوئے کہا۔
    سیٹھ صاحب کے چہرے پر برہمی کے تاثرات ابھرے۔
    بےبی، سٹاپ اِٹ ! اتنی بڑی حماقت کے بعد تمہاری یہ بچگانہ حرکتیں اور شوخی زہر لگ رہی ہیں مجھے، جاؤ یہاں سے۔ جب میں نے ایک دفعہ تم سے وعدہ کر لیا ہے کہ تمہارے فیصلے کا احترام کیا جائے گا اور الیاس کی زندگی محفوظ رہے گی تو پھر تمہیں کوئی ڈاؤٹ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تمہارے بابا کی زبان ہے۔
    بےبی عرف چھوٹی بیگم صاحبہ پر اس تقریر کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے گھٹنوں پر کہنیاں رکھ کر اپنے چہرے کو ہاتھوں پر ٹکا رکھا تھا۔ سیٹھ ٓصاحب کی بات ختم ہوتے ہی وہ ٹھنک کر بولیں،
    تو بابا ہم نے کب کہا ہے کہ ہمیں آپ کی بات یا زبان پر ڈاؤٹ ہے۔ ہم تو بس الیاس کی مورل سپورٹ کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، دیکھیں نا کتنے گھبرائے ہوئے ہیں بیچارے۔ ہم بھی اٹھ کر چلے گئے تو خاک بات کر پائیں گے آپ سے۔ بابا ہم پرامس کرتے ہیں کہ آپ دونوں کی کنورسیشن میں بالکل نہیں بولیں گے۔
    سیٹھ صاحب بے بسی سے ہونٹ کاٹ کر رہ گئے۔ انھوں نے صوفے پر بیٹھ کر سگار سلگایا اور ایک طویل کش لے کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پرسوچ نظروں سے مجھے دیکھنے لگے۔

    الیاس ! ہمیں بہت افسوس ہے تم پر۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ہمارے ساتھ ایسا کرو گے۔ ہم نے ہمیشہ تمھیں اپنے گھر کا فرد سمجھا۔ تمہاری ہر ضرورت پوری کی۔ اپنی سب سے قیمتی چیز ہماری بیٹی کے لیے تم پر اعتماد کیا، میرے احسانات کا یہ صلہ دیا ہے تم نے؟
    چلو بےبی تو بچی ہے مگر تم تو میچور مرد ہو۔ بجائے اسے سمجھانے کے تم بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ شادی کو گڈے گڈی کا کھیل سمجھ رکھا ہے تم دونوں نے؟؟
    بابا ۔۔۔۔! چھوٹی بیگم صاحبہ نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔
    شٹ اپ ، آئی سے جسٹ شٹ اپ ! سیٹھ صاحب بھڑک اٹھے۔
    کم از کم اپنے الفاظ اور اپنی زبان کا پاس کرنا سیکھ لو کہ تم پر کوئی اندھا اعتماد کرے تو اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتے۔ سیٹھ صاحب کے لہجے میں بلا کی تلخی اور کاٹ تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھبرا کے اپنے منہ کے سامنے کشن رکھ لیا۔
    سیٹھ صاحب انھیں کچھ دیر گھورتے رہے۔۔ اگر یہاں بیٹھنا ہے تو اب دوبارہ تمہاری آواز نہ آئے۔۔
    تھوڑا سا پانی پینے اور سگار کے ایک دو کش لینے کے بعد وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے۔
    دیکھو الیاس ! تم نے ہمارا رہن سہن اور ہماری کلاس دیکھ رکھی ہے۔ بےبی کا بچپن برطانیہ میں گزرا ہے۔ میں نے ساری زندگی اس کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ اس نے شہزادیوں کی طرح زندگی گزاری ہے۔ تم نے نکاح نامے پر دستخط کرنے سے پہلے سوچا تھا کہ تم اسے کہاں رکھو گے؟ اور اس کی شاہانہ ضروریات کیسے پوری کرو گے؟ میں تمہاری انسلٹ نہیں کر رہا لیکن تم خود غیر جانبداری سے مجھے جواب دو کہ کیا تم اور بےبی کسی بھی طور پر میاں بیوی لگتے ہو؟ اپنی تعلیم، شکل و صورت اور سٹیٹس دیکھ کر کیا تمھیں نہیں لگتا کہ تم نے بہت زیادتی کر دی ہے ہمارے ساتھ۔
    سیٹھ صاحب کے لہجے میں تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اور میں شرم سے زمین میں گڑ رہا تھا۔
    الیاس ! بےبی بہت رحمدل اور حساس بچی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ میرے بھتیجے نے بہت زیادتی کی ہے اور اِس پاگل نے اپنے کزن کے ظلم کی تلافی کے لیے خود کو تمھارے نکاح میں دے دیا ہے۔ اور تم نے بھی خوب بدلہ لیا ہے ہم سے۔۔۔ ٹھنڈے دل سے سوچو الیاس۔۔۔! جس طرح بےبی نے آدھی رات کو جا کر تمھیں ریسکیو کیا اور تمہاری مرہم پٹی کروائی، کون کرتا ہے اپنے ملازموں کے لیے اتنا؟ اور اس کے بعد تم لوگوں نے کورٹ میں جا کر نکاح والا تماشا کیا ہے۔ کوئی بھی دوسرا صاحب حیثیت گھر ہوتا تو تمہاری لاش اس وقت کچرے پر پڑی ہوتی۔۔!
    بڑے صاحب، میں۔۔۔۔۔!
    میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے ہاتھ اٹھا کر مجھے بولنے سے روک دیا۔ سگار کا کش لگا کر انھوں نے گھڑی پر وقت دیکھا ۔
    اب میں کس منہ سے حارث کی سرزنش کروں۔ تم لوگوں نے تو اس کی بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ اگر حارث کو پتہ چلا کہ تم نے بےبی سے نکاح کر لیا ہے تو وہ زندہ چھوڑے گا تمھیں؟
    جواب دو!
    سیٹھ صاحب نہایت غضب ناک ہو چکے تھے۔ میں چپ چاپ سر جھکائے پیر کے ناخن سے قالین کھرچتا رہا۔
    میں نے بےبی سے وعدہ کیا ہے کہ تمہارا نکاح برقرار رکھا جائے گا لیکن اس کے لیے میری کچھ شرائط ہیں۔
    میں نے سر اٹھا کر سیٹھ صاحب کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں قیامت کی سنجیدگی اور سختی تھی۔
    کمرے میں کچھ دیر خاموشی کا راج رہا۔

    کیسی شرائط بابا؟ چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں کچھ پریشانی جھلک رہی تھی۔
    بے فکر رہو بیٹا! میری شرائط کچھ ایسی ناجائز نہیں ہیں۔ بس یوں سمجھ لو کہ میرے کچھ تحفظات ہیں۔ انھیں دور کیے بنا میں تمہیں الیاس سے نہیں بیاہ سکتا۔ بطور باپ یہ میرا فرض بھی ہے اور حق بھی کہ میں آپ کے فیوچر کو سیکیور و پرعزت بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کروں۔ سیٹھ صاحب نے نرمی سے جواب دیا۔
    بڑے صاحب! چھوٹی بیگم صاحبہ سے خلع کی شرائط کے علاوہ مجھے آپ کی تمام شرائط منظور ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے۔
    مجھے تم سے ایسی ہی تابعداری کی امید تھی۔ میری پہلی شرط یہ ہے کہ مناسب وقت آنے تک تم دونوں اس نکاح کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرو گے۔ کسی سے بھی نہیں۔ اگر تم لوگوں نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا تو میں الیاس کی زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
    میں پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ مناسب وقت کب آئے گا لیکن بڑے صاحب کا موڈ دیکھ کر محض صرف اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔
    میری دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم دونوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم دونوں علیحدگی میں نہیں ملو گے۔ نو باڈی ریلیشن شپ، ناٹ ایٹ آل ! اگر ایسا کچھ ہوا تو الیاس میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہیں عبرت کا نشان بنا دوں گا۔ بےشک قانونی طور پر تم لوگ میاں بیوی بن چکے ہو لیکن شرعا والی ایسا نکاح منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے، جو بالکل بےجوڑ اور ہتک آمیز ہو، میں صحیح غلط کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ بس تم میری اس بات کو اپنے پلے سے باندھ لو کہ جب تک تم لوگوں کی باقاعدہ شادی نہیں ہو جاتی، تم میری بیٹی سے دور رہو گے۔
    بڑے صاحب کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ مجھے بے اختیار جھرجھری آ گئی۔ میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو صوفے پر ٹانگیں فولڈ کیے گود میں پڑے کشن کے ریشمی غلاف کے دھاگے کھینچ رہی تھیں۔
    مجھے منظور ہے۔۔ میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔۔ میں نے نظریں جھکا کر کہا۔
    میری تیسری شرط یہ ہے الیاس کہ تمھیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اپنے آپ کو ہمارے سوسائٹی کے قابل بناؤ، ہمارا انداز و اطور اور رہن سہن اپناؤ۔! تم جو بھی بزنس کرنا چاہتے ہو کرو، تمھیں سرمایہ میں فراہم کروں گا۔ میں تمہیں ایک کامیاب بزنس مین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ تم اپنی تعلیم مکمل کرو، تب تک بےبی کی ڈگری بھی مکمل ہو جائے گی، تو پھر میں تم دونوں کی شادی دھوم دھام سے کر دوں گا لیکن اس سے پہلے تمہیں خود کو بےبی کا اہل ثابت کرنا ہے۔
    جی! بڑے صاحب میں پوری کوشش کروں گا۔ میں نے ایک بار پھر جواب دینے سے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا، حسب سابق اسی شغل میں مشغول تھیں۔
    صرف کوشش نہیں کرنی۔۔! تمیں کامیاب ہونا ہے۔۔! یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن اگر تم واقعی بےبی سے محبت کرتے ہو تو یہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ کسی بزنس کا تجربہ ہے تمہیں؟؟ کیا کرنا چاہتے ہو؟
    یہ سوال میرے لیے کافی غیر متوقع تھا ۔
    میں نے اس بارے میں کچھ سوچا نہیں بڑے صاحب۔۔! مجھے کسی قسم کے بزنس کا تجربہ نہیں ہے۔
    ھووووں۔۔! سیٹھ صاحب نے ایک ہنکارا بھر کر سگار کر کش لیا۔
    ہماری ایک کنسٹرکشن کمپنی ابوظہبی میں بھی ہے۔ کیوں نہ تمہیں وہاں بھیج دیا جائے؟ یوں تم حارث کی نظروں سے بھی دور رہو گے اور کام بھی سیکھ جاؤ گے۔ اگر تم نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو کچھ عجب نہیں کہ میں وہ کمپنی تمہیں شادی کے تحفے میں دے دوں۔
    میں نے چونک کر بڑے صاحب کی طرف دیکھا جو پہلے ہی مجھے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے کنفیوژ ہو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا تو انھوں نے مسکرا کر کندھے اچکائے۔
    ٹھیک ہے بڑے صاحب ! جو آپ مناسب سمجھیں۔ میں تو آپ کے حکم کا غلام ہوں۔ میں نے کوشش کی کہ میری اندرونی خوشی کے تاثرات میرے چہرے پر نہ آئیں۔
    اور میری ایک آخری شرط بھی ہے جسے تم میری درخواست بھی سمجھ سکتے ہو۔
    حارث کو معاف کر دو۔۔! حارث ایک جذباتی ٹین ایج بچہ ہے۔ وہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے بہت عزیز ہے۔ کبھی اس سے بدلہ لینے کا خیال دل میں مت لان ا۔۔ اسی میں تمہاری اور سب کی بہتری ہے۔
    بڑے صاحب! آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ میں حارث صاحب کو پہلے ہی معاف کر چکا ہوں۔
    چلو ٹھیک ہے۔ بےبی آج رات ہی لندن اپنی نانی اور ماموں کے گھر دو تین ہفتے کے لیے جا رہی ہے۔ اس کا پروگرام تو کچھ دن بعد کا تھا لیکن میں نے اس کی آج رات کی ہی ٹکٹ کروا دی ہے۔ تم بھی اپنا سامان پیک کر کے میرے کلفٹن والے فلیٹ میں چلے جاؤ۔ اب تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں۔ کل تمہارے پاس میرا ایک شخص آئے گا جو تمہارا ارجنٹ پاسپورٹ بنوا دے گا۔ تم اگلے دس دن میں ان شاءاللہ ابوظہبی میں ہوگے۔ بڑے صاحب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
    بےبی تمہیں میرے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟
    بابا! ہم پہلے ہی آپ سے بہت شرمندہ ہیں اور گلٹی فیل کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بہت دکھ پہنچایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ہماری اور الیاس کی بہتری کے لیے ہی کر رہے ہیں۔
    اپنے کوارٹر میں آ کر میں نے اپنا سامان پیک کیا مگر روانہ نہیں ہوا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے رات دس بجے ائیرپورٹ کے لیے نکلنا تھا۔ میں انھیں آخری بار دیکھنا چاہتا تھا کہ نہ جانے اب کب ملاقات ہو۔

    دس بجے بنگلے کے پورچ میں سیٹھ صاحب کی مرسیڈیز آ کر رکی۔ کالی شلوار قمیض کے نیچے جوگرز پہنے اور اپنی رائفل گلے میں لٹکائے ولی خان بھی آس پاس ہی گھوم رہا تھا۔ کچھ دیر بعد چھوٹی بیگم صاحبہ اور بڑے صاحب بنگلے کے اندرونی حصے سے باہر آئے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے گھٹنوں تک سفید رنگ کی بڑی خوبصورت فراک پہن رکھی تھی جبکہ دونوں بازو چوڑیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی انھیں اتنے اہتمام سے میک اپ کیے اور تیار ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
    شاید یہ تیاری میرے لیے تھی۔ میرا دل بے اختیار زور سے دھڑکا۔ میں اندھیرے میں کوارٹر کے دروازے کے پیچھے کھڑا تھا۔ انھوں نے کار میں بیٹھنے سے پہلے میرے کوارٹر کی طرف دیکھ کر شرما کر ہاتھ ہلایا۔ جانے انھیں کیسے معلوم پڑ گیا کہ میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوں۔۔
    ولی خان ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بڑے صاحب اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے بیٹھتے ہی کار روانہ ہو گئی۔
    اس کے چند منٹ بعد ہی میں بھی اپنا بیگ کندھے سے لٹکائے، گیٹ پر کھڑے گارڈز سے سلام دعا کرتے ہوئے بنگلے سے نکل آیا۔ رکشہ لینے کے لیے مجھے کچھ دور تک پیدل چلنا پڑا۔ سیٹھ صاحب نے پچاس ہزار سے بھی زائد رقم میری جیب میں ڈال دی تھی۔ میں رکشہ میں بیٹھا سیٹھ صاحب کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ سیٹھ صاحب نے بظاہر بڑی ہوشیاری سے مجھے چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور ہٹا دیا تھا۔ انھیں یقیناً مجھ پر ذرا سا بھی اعتبار و اعتماد نہیں رہا تھا۔ اس لیے نہ صرف انھوں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو لندن بھیج دیا تھا بلکہ ان کی واپسی سے پہلے مجھے ابوظبہی روانہ کرنے کے انتظامات بھی کر دیے تھے۔ انھوں نے یہ سب انتہائی غیر محسوس انداز میں کیا تھا۔ میں جتنا بڑے صاحب کی معاملہ فہمی اور فراست کا قائل ہوتا جا رہا تھا، اتنا ہی ان سے مزید خوفزدہ اور مرعوب ہوتا جا رہا تھا۔

    کلفٹن کا فلیٹ بہت شاندار تھا۔ اگلے کچھ دن میں میرا پاسپورٹ اور ابوظہبی کا ویزہ بھی آ گیا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دو تین بار چند منٹ کے لیے بات ہوئی مگر میں ان کو اپنے خدشات سے آگاہ نہ کر پایا۔ وہ اپنے بابا سے کافی خوش تھیں اور ہم دونوں کے مستقبل کے لیے کافی پرجوش بھی۔
    ابوظہبی کے لیے میری فلیٹ رات دو بجے کی تھی۔ میں رات دس بجے کے قریب تیاری مکمل کر کے فلیٹ سے نکلنے ہی والا تھا کہ فلیٹ کی کھڑکی سے ولی خان کو دیکھا۔ یہ فلیٹ چوتھی منزل پر تھا۔ اس کی چند کھڑکیاں سڑک والی سائیڈ پر بھی کھلتی تھیں۔ ولی خان لیدر کی جیکٹ اور جینز میں ملبوس ایک سپورٹس بائیک پر سوار تھا جو بڑے صاحب نے اسے لے کر دی تھی۔ بڑے صاحب واقعی اپنی ملازموں کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔
    میں نے کمرے کی لائٹ کو بند کیا اور پردے کے پیچھے سے ولی خان کو دیکھنے لگا۔ آج خلاف معمول اس کے گلے میں رائفل نہیں جھول رہی تھی مگر قابل تشویش بات یہی تھی کہ وہ میرے فلیٹ کی طرف ہی متوجہ تھا۔ پھر وہ اپنی مخصوص چال چلتا بلڈنگ کے گیٹ کی طرف آیا۔
    کچھ دیر بعد وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ ولی خان کی آنکھوں کا رنگ گہرا سبز تھا اور اس کا چہرہ ہر وقت بخار سے تپا ہوا سا محسوس ہوتا تھا۔ اس کی ٹھوڑی اور گالوں پر داڑھی
    کے چند لمبے بال تھے۔
    ام چھوٹا سا تھا جب امارا والد صاب، بڑے صاب پر قربان ہو گیا۔ ماں تو پہلے ہی گزر گیا تھا۔ امارے والد کی لاش خون میں لت پت بنگلے کے صحن میں چارپائی پر پڑا تھا۔ جب بڑے صاب نے امارے سر پر ہاتھ رکھ کر بولاولی فکر نہ کرنا۔ اب ام تمہارا باپ ہے۔ پھر بڑے صاب نے امارا باپ ای نہیں ، ماں بن کر بھی پالا۔ ہمیں اچھے سکول پڑھایا۔ تمہیں اماری شکل دیکھ کر یقین نہیں آئے گا مگر ام کراچی کے سب سے مہنگے کالج کا گریجویٹ ہے۔ دنیا کے چھ زبانیں پَھر پَھر بولتا اے۔ بڑے صاب نے امارا ہر خواہش کا احترام کیا اور اسے پورا کیا۔ تم مانو گے نہیں کہ اس وقت امارے اکاوئنٹ میں جتنا پیسہ ہے، اور شہر میں ہمارے نام پر جتنی جائیدار ہے وہ چھوٹے صاحبوں کے نام پر بھی نہیں ہے۔ بڑا صاب امارا صرف مالک ہی نہیں بلکہ باپ بھی ہے اور اس وقت امارا باپ تم جیسی گندی نسل کی وجہ سے سخت ٹینشن میں ہے۔ بڑے صاب کا ٹینشن ام نہیں دیکھ سکتا۔ خدایا پاک کی قسم ! امارا بس چلے تو تمیں قتل کر کے تمہارے ٹکڑے کر دے۔ حیدر آباد کا ایس ایچ اور سچا تھا۔ تم واقعی نمک حرام ہو۔ جس ٹہنی کا پھل کھاتا ہے اسی کی جڑیں کاٹتا ہے۔
    ولی خان غصے سے کھول رہا تھا اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ مجھے شدید خطرے کا احساس ہوا۔
    بڑا صاب اپنے سگے بیٹوں سے پرشانی چھپا لیتا ہے مگر اپنا دل امارے سامنے کھول دیتا ہے۔ امارا بس نہیں چلتا کہ اس کی پرشانی کیسے دور کرے۔ ام نے خود پر بہت جبر کیا مگر آج خود کو روک نہیں پایا۔ یہ گن دیکھ رہے ہو؟ اب یہ تومارے اور امارے درمیان پھسلہ کرے گا۔ ام دونوں میں سے یہاں سے ایک ہی زندہ واپس جائے گا۔ ولی خان نے جیکٹ کے نیچے سے ماوزر نکال کر میز کے اوپر رکھ دیا۔
    الیاس خان ! تمہارے پاس دو آپشن ہیں۔
    نمبر ایک، اپنی قیمت بول۔ کیا چاہیے تمیں ایک کروڑ، دو کروڑ، دس کروڑ ؟؟ پچاس کروڑ تو ام اپنے پلے سے دے سکتا ہے۔ اپنی قیمت لے۔ اس طلاق نامے پر سائن کر اور دفعہ ہو جا۔ دوبارہ کبھی امارے سامنے مت آنا ورنہ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔
    دوسرا آپشن یہ ہے کہ اگر مرد کا بچہ ہے اور حلال اولاد ہے تو یہ ماؤزر تمہارے سامنے پڑا ہے اور اس کے میگزین میں گیارہ گولیاں ہیں۔ ساری کی ساری امارے سینے میں اتار دے۔ تیسرا کوئی آپشن نہیں ہے تمہارے پاس۔
    پتہ نہیں زندگی میرے ساتھ کیا چوہے بلی کا کھیل کھیل رہی تھی۔ جب کبھی میں منزل پر پہنچنے لگتا تو ایک ڈیڈ اینڈ سامنے آ جاتا اور لگتا کہ اب میں بچ نہیں پاؤں گا۔ پھر مقدر یاوری کرتا اور میں عروج کی طرف سفر کرنے ہی لگتا تھا کہ دوبارہ بگولے میرے پاؤں پکڑ لیتے۔
    اگر میں کہوں کہ مجھے تمہارے دونوں آپشن قبول نہیں ہیں، تو؟؟ میں نے صوفے کی ٹیک سے پشت لگا کر عزم سے کہا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مرنا ہی ہے تو عزت سے مروں گا، کسی کی دھمکی دھونس میں نہیں آؤں گا۔
    پھر امارے پاس بھی دو ہی آپشن ہے۔ پہلا تجھے قتل کر کے چلا جائے۔ دوسرا حارث صاب کو فون کر کے تمہارے نکاح اور لوکیشن کے بارے میں بتا دے۔ باقی حارث صاب جانے اور تم جانے۔! ولی خان نے بھی صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر پھیل کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
    ولی خان تم سے جو ہوتا ہے کرلو۔۔۔!! میں لائبہ بی بی کو طلاق نہیں دوں گا۔
    میرے لہجے کی دلیری اور عزم نے ولی خان کو چونکا دیا۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔ اس نے ماؤزر اٹھا کر بیلٹ کے نیچے اڑسا۔ طلاق کے کاغذات رول کر کے جیکٹ کی جیب میں ڈالے اور کھڑا ہو گیا۔
    مرد کا بچہ اے توم بھی۔۔۔ ام یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ تم زندگی کے کسی موڑ پر ڈر کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو چھوڑ تو نہیں دے گا۔ یہ کہہ کر ولی خان تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا فلیٹ سے نکل گیا۔

    کچھ دیر بعد میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ ولی خان تیز آدمی ہے مگر وہ اتنا عیار اور اتنا بڑا اداکار بھی ہے، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا کہ یہ سٹنٹ ولی خان نے اپنے طور پر کھیلا ہے یا اس کے پیچھے سیٹھ صاحب ہیں۔ یہ سخت نفسیاتی قسم کا بھرپور وار تھا جس سے میں بمشکل بچا تھا۔ میرے خدشات و تفکرات میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ابوظہبی پہنچ کر میں مکمل طور پر بڑے صاحب کے رحم و کرم پر ہوتا۔ اگر وہ چاہتے تو میں بآسانی کسی حادثے یا مشکل میں گرفتار ہو سکتا تھا۔
    ابوظبہی ائیر پورٹ پر مجھے بڑے صاحب کی کنسٹرکشن کمپنی کے مینیجر نے ریسیو کیا۔ اس کا نام زکریا تھا۔ زکریا بہت کھلا ڈھلا اور خوش باش بندہ تھا۔ اس نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور ہر جگہ میری راہنمائی کی۔ اگلے دن اس نے مجھے کمپنی کے ہیڈ آفس اور آس پاس چلنے والے پروجیکٹس کی سائٹس کا معائنہ کروایا۔ میری رہائش کا بندوبست ایک معقول فلیٹ میں کیا گیا تھا۔ ڈرائیونگ لائسنس بن جانے کے بعد مجھے ایک ٹیوٹا لیکسس کار بھی عنایت کر دی گئی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا ویسے ویسے میرے خدشات دھلتے جا رہے تھے۔ بڑے صاحب نے مجھے آفس کے بجائے ایک بڑی سائٹ کے پروجیکٹ مینیجر کے ساتھ منسلک کر دیا تھا۔ پروجیکٹ مینیجر پاکستان میں سیالکوٹ کا رہائشی تھا اور اس کا نام سہیل علی تھا۔ ایک ہی علاقے کے ہونے اور ڈیوٹی ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے۔
    مجھے یہاں آئے تین ماہ ہو چکے تھے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر دوسرے تیسرے دن چند منٹ بات ہو جاتی تھی۔ ایک تو وہ فطرتاً ہی کم گو تھیں۔ دوسرا انھوں نے مجھ سے بے تکلف ہونے کی کوئی کوشش بھی نہ کی اور نہ ہی میں کوئی ایسی جرات کر پایا تھا حتی کہ میں انھیں چھوٹی بیگم صاحبہ کے نام سے ہی بلاتا تھا مگر انھوں نے مجھے کبھی منع نہیں تھا کیا اور نہ ہی خود کو کبھی اصل نام سے بلوانے کی فرامائش کی۔ سہیل کے تعاون کی وجہ سے میں کام کو بڑی تیزی سے سمجھ رہا تھا۔ جلد ہی مجھے ایک نئے کام کا پروجیکٹ مینجر بنا دیا گیا۔

    ایک ویک اینڈ پر میں اور سہیل کار پر یہاں وہاں گھوم رہے تھے۔ سہیل کار ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے لے کر ایک شیشہ کلب جا پہنچا۔ ایسی جگہیں میرے لیے نئی نہیں رہی تھیِں۔ ہم اکثر ایسے کلبوں میں آتے جاتے تھے لیکن اس کلب کا ماحول کچھ زیادہ ہی کھلا تھا۔ سٹیج پر نیم برہنہ پاکستانی اور انڈین لڑکیاں ڈانس کر رہی تھیں۔ سہیل نے وہاں سے اپنے ساتھ دو پاکستانی لڑکیوں کو لیا اور میرے ساتھ کار میں ہمارے فلیٹ والی بلڈنگ کی طرف بڑھا۔ میرا اور سہیل کا فلیٹ ساتھ ساتھ ہی تھا۔ وہ پہلے بھی یہ کاروائیاں کرتا رہا تھا مگر آج اس نے مجھے بھی نیم رضا مند کر لیا تھا۔
    اس کے بعد میرا حوصلہ بڑھتا چلا گیا۔ اب یہ ہمارا ہر ویک اینڈ کا معمول بن چکا تھا۔ میں خود کئی ایسی جگہوں سے واقف ہو چکا تھا۔ میں بہت خوش تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک میری نگرانی میں بننے والی کثیرالمنزلہ عمارت کی ایک چھت گرگئی جس کے نیچے دب کر دو تین مزدور جاں بحق ہو گئے۔ میں اتفاقاً اس دن دبئی گیا ہوا تھا۔ اطلاع ملتے ہی میں فورا واپس پہنچا۔ پولیس موقع پر پہنچ چکی تھی اور اس نے باقاعدہ اپنی تفتیش کا آغاز کر دیا تھا۔ میرا بھی تفصیلی انٹرویو لیا گیا جس کے بعد مجھے شہر نہ چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔ فلیٹ واپس جاتے ہوئے میری چھوٹی بیگم صاحبہ سے فون پر بات ہوئی۔ وہ سخت پریشان تھیں۔ انھیں خدشہ تھا کہ مجھے گرفتار نہ کر لیا جائے۔ انھوں نے مجھے فورا ابوظہبی چھوڑنے کی ہدایت کی۔
    لیکن بیگم صاحبہ ! جب میرا کوئی قصور ہی نہیں ہے تو میں کیوں بھاگوں اور کیا سیٹھ صاحب اس کی اجازت دیں گے ؟
    سیٹھ صاحب سے میری پہلے ہی فون پر بات ہو چکی تھی۔ وہ سخت برہم تھے۔ انھوں نے مجھے سخت سست سنایا اور آگاہ کیا کہ کمپنی پر بھاری جرمانہ ہونے کا قوی خدشہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کمپنی کا لائسنس ہی معطل کر دیا جائے۔ وہ اس سب کا ذمہ دار مجھے قرار دے رہے تھے۔
    مجھے خطرے کا احساس ہو رہا تھا۔ میں نے فورا ٹکٹ کروائی اور اپنے سامان کی پیکنگ میں مصروف ہوگیا۔ ابھی میں پیکنگ کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے ڈور آئی سے دیکھا تو بےاختیار چونک پڑا۔
    باہر بڑے صاحب کا رائٹ ہینڈ اور ذاتی محافظ ولی خان کھڑا تھا۔ میں نے دروازہ کھولا۔
    ولی خان کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔ وہ بہت شاندار اور قیمتی سوٹ میں ملبوس تھا۔ میرے پاس سے گزر کر اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا فریج کی طرف بڑھا۔ سافٹ ڈرنک کا ٹن پیک نکال کر اس نے بیڈ پر پڑے میرے بیگ کی طرف دیکھا،
    بھاگنے کی تیاری مکمل ہے۔۔۔؟
    ولی خان کو میں نے پہلے بھی دو تین دفعہ اپنی کمپنی کے آفس یا پروجیکٹ سائٹس کے آس پاس دیکھا تھا۔ وہ انگلش و عربی فر فر بولتا تھا۔ وہ اردو بھی بڑے اچھے تلفظ میں بول سکتا تھا مگر جب اسے اپنے آپ کو کہیں ان پڑھ اور جاہل ظاہر کروانا ہوتا تھا، تو وہ پشتو کے لہجے میں توڑ پھوڑ کر اردو بولنے لگتا تھا۔ ابوظبہی میں ہمارا جب بھی ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا تو نہ ہی میں نے اسے مخاطب کرنے کی زحمت کی اور نہ ہی اس نے مجھے بلایا۔
    آج اس کا یوں فلیٹ پر آنا کسی خطرے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پیکنگ میں مصروف رہا۔
    تم کہیں بھی بھاگ جاؤ۔ اگر یہ چاہیں تو تمہیں پکڑ کر واپس لے آئیں گے اور کڑی سزا دیں گے۔ ولی خان نے صوفے پر ڈھیر ہوتے ہوئے دوبارہ اشتعال دلایا۔
    یہ میرا مسئلہ ہے۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔! میں نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کہا۔
    تم کسی کام سے آئے ہو؟
    ہاں ! کسی کام سے آیا ہوں۔ کچھ تصویریں ہیں میرے پاس، جو تمہیں دکھانا ضروری تھیں۔ اس نے کوٹ اٹھا کر اس کی اندرونی جیب سے ایک لفافہ نکال کر مجھے تھمایا۔
    میں کچھ دیر اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
    پکڑ لو، فکر مت کرو اس میں بم نہیں ہے۔ وہ بے اختیار ہنسا۔
    میں نے اسے زندگی میں پہلی دفعہ ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے لفافہ تھام کر اس میں موجود تصویریں باہر نکال کر دیکھیں.
    پہلی تصویر دیکھتے ہی میں اس طرح اچھلا جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ تصویریں میرے ہاتھ سے پھسل کر بیڈ پر پھیل گئیں جنہیں میں پھٹی پھٹی
    نظروں سے دیکھ رہا تھا
    (جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • گلابی داغ – احسان کوہاٹی

    گلابی داغ – احسان کوہاٹی

    ’’یار یہ کم بخت شرٹ کہاں چلی گئی۔ کہا بھی تھا کہ پریس کر کے رکھ دینا، پریس نہ کرتیں، کم از کم نکال کر تو رکھ دیتیں۔‘‘ سیلانی الماری میں رکھے کپڑوں کو ادھر ادھر کرتے ہوئے بڑبڑائے جا رہا تھا، کپڑوں سے بھری الماری میں کوئی چیز تلاش کرنا گویا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنا تھی، اسے وہ شرٹ نہ ملنی تھی نہ ملی لیکن اس بہانے اسے اور بہت سے کپڑے مل گئے، جو اک عرصہ سے نظر التفات کے منتظرتھے، ان ہی میں کاٹن کا ایک سفید جوڑا بھی دکھائی دے گیال۔ سیلانی بڑبڑانے لگا بول بول کے ہونٹ لٹک گئے کہ جمعے کے روز سفید قمیض شلوار پریس کر دیا کریں، لیکن کم بخت جینز شرٹ سے جان ہی نہیں چھوٹتی، یہ سامنے سفید سوٹ پڑا ہوا ہے۔ سیلانی نے منہ بناتے ہوئے کپڑے استری کرنے کے لیے نکالے کہ اس پر پانی چھڑک کر پریس کرنا شروع کرے لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی، سفید قمیض پر بڑے بڑے گلابی داغ کہہ رہے تھے کہ اسے اسی طرح تہہ کرکے سلیقے سے الماری میں رکھ دیا جائے۔

    سیلانی نے مسہری پر پڑی قمیض اٹھائی اور ان داغوں کا بغور جائزہ لینے لگا، یہ داغ جانے والے نہ تھے، پکے رنگ کے پکے داغ تھے لیکن یہ لگے کب؟ سیلانی ماتھے پر بل ڈالے سوچ میں پڑ گیا لیکن کچھ یاد ہی نہیں آرہا تھا، پھر دفعتا اسے یاد آگیا کہ یہ داغ اسے سات برس پیچھے کراچی کے پوش کلفٹن میں خوشبوؤں اور رنگوں سے سجی ایک تقریب میں لے گئے، اقلیتی برادری کی اس تقریب میں وہ اس وقت ’’اقلیت‘‘ میں تھا، یہ ہندو برادری کی ہولی کی تقریب تھی۔ ظاہر ہے کہ اس تقریب میں اسے اقلیت ہی میں ہونا تھا بلکہ وہ ہی نہیں وہاں موجود اس کے دیگر صحافی دوست بھی اس وقت اقلیت میں تھے، وہ یہاں ہولی کی تقریب کی کوریج کے لیے مدعو تھے۔

    رنگوں بھری مہکتی یاد کیا آئی، اس کے لبوں پر بےساختہ مسکان آگئی اور وہ مسکراتے ہوئے یادوں کی اسکرین پر کراچی کے متمول علاقے کلفٹن کے ایک لان میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے تمتماتے ہوئے چہرے دیکھنے لگا، شرارتی بچے لان میں دوڑتے بھاگتے پھر رہے تھے، ٹین ایجر، منچلے، خوب سج سنور کر فلمی ہیرو بنے دکھائی دے رہے تھے، خواتین مہنگی ساڑھیوں اور بیش قیمت لباس پہنے ایک دوسرے سے سبقت لیے جا رہی تھیں، زلفیں کھولے لڑکیاں بالیاں بھی محفل کی رونق اور منچلوں کے دلوں کی دھڑکن بڑھا رہی تھیں، یہ رنگوں امنگوں اور خوشیوں کی تقریب تھی اور پھر شریک بھی شہر کے متمول لوگ تھے، رنگ تو جمنا ہی تھا اور رنگ ہی جم رہا تھا، اسٹیج پر سے رسمی تقاریر ہو رہی تھیں، جن پر کم ہی لوگ کان دھر رہے تھے، زیادہ تر لوگ اسٹیج کے نیچے لان میں ایک دوسرے سے گلے مل مل کر ہولی کی مبارک بادیں دے رہے تھے۔

    سیلانی کے لیے یہ کسی بھی ہولی کی تقریب میں شرکت کا پہلا موقع تھا۔ وہ بچے کی طرح دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور اس وقت کا منتظر تھا جب تقریب میں رنگ اڑائے جانے تھے۔ سیلانی گلابی داغوں والی قمیض ہاتھ میں لیے پرانی یادوں سے محظوظ ہو رہا تھا، اسے یاد آیا کہ تقاریر کے طویل سلسلے کے بعد جب مہمانوں کو کھانا کھانے کی دعوت دی گئی تو وہ چمچ اٹھائے بریانی میں گوشت ڈھونڈتا ہی رہ گیا، وہاں میز پر سبزیاں دال بھاجی، کچوریاں اور طرح طرح کے اچار چٹنیاں تو تھیں، مگر گوشت نام کی کوئی چیز دکھائی نہ پڑ رہی تھی کہ ہندو گوشت سے دور ہی رہتے ہیں اور سیلانی کو سبزیاں دالیں ہمیشہ اتنی مرغوب رہی ہیں جتنی کہ رہنی چاہییں۔ مجبوری میں وہ جتنا کھا سکتا تھا، اس نے کھایا البتہ میٹھا خوب تھا، کھانا کھایا ہی جا رہا تھا کہ فضا میں رنگ بکھرنے لگے، نوجوان لڑکے لڑکیاں ہولی ہے کہہ کہہ کر بلاتفریق سب کو رنگوں میں رنگ رہے تھے، سیلانی نے نیا جوڑا پہناہوا تھا اور پہلی بار پہنا تھا، وہ ابھی اس ہولی سے بچنے کی تدبیر کر رہا تھا کہ پیچھے سے دو ہاتھ آئے اور اس کا چہرہ رنگ گئے، سیلانی نے پلٹ کر دیکھا تو ہندو نوجوانوں کی ایک ٹولی صحافیوں کو رنگنے میں مصروف دکھائی دی، سیلانی کی ان سے نظریں ملیں تو زوردار نعرہ لگا ہولی ہے اور سیلانی کندھے اچکا کر رہ گیا۔

    سیلانی کو آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ نجانے وہ کس نسل کا رنگ تھا، دفتر کیا گھر پہنچ کر بھی وہ صابن رگڑ رگڑ کر جلد کے مسام بھر بیٹھا لیکن رنگ نے اترنے کا نام ہی نہیں لیا، کپڑوں کا تو پوچھیے ہی مت، ہولی کی رنگ بھری یادیں اس کے ساتھ زیادہ دیر چھپن چھپائی نہیں کھیل سکیں، سیل فون کی گھنٹی کسی پیغام کی آمد کی اطلاع دینے لگی، سیلانی نے ہاتھ بڑھا کر سیل فون قریب کیا، ایک دوست نے ’’واٹس اپ‘‘ پر دو وڈیو کلپ ارسال کیے تھے، سیلانی نے ڈاؤن لوڈ کیے اور پھر ہولی کے رنگوں کی جگہ خون کے رنگ نے لے لی۔یہ دو بھارتی مسلمان بہنوں کے پیغام تھے، واٹس اپ پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے پہلی بہن بڑھی جذباتی انداز میں کہہ رہی تھی
    ’’بی جی پی والو تم سے اچھی تو کانگریس تھی، کم سے کم ہمیں اس طرح انکاؤنٹر کر کر کے مارتی تو نہ تھی۔۔ مسلمانوں سب ایک ہوجاؤ اور دکھاؤ کہ پچیس کروڑ ہو۔۔ مسلمانو! نکلو، سڑکوں پر اپنے حق کے لیے ایک ہو جاؤ۔ کہتے ہو کہ مڈبھیڑ ہوگئی مڈبھیڑ ہوگئی، کیسے ہوئی یہ مڈبھیڑ کہ پولیس کو ایک کھرونچ تک نہیں آئی۔‘‘
    دوسرا پیغام کار ڈرائیو کرتی ہوئی کسی بہن کا تھا، وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والی معلوم ہوتی تھیں، وہ بہن کہنے لگی، کل کچھ نیوز دیکھے میں نے، دو تین سے نیوز دیکھ رہی ہوں میں، شریعت کے نام پر بہت سی بہنیں باہر نکلیں، مسلمان بہنیں جنہیں میں سلیوٹ کرتی ہوں، اور دلت پنجابی سکھ عیسائی بہنوں سے درخواست کروں گی کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے باہر آئیں، اپنے اپنے گھروں سے نکلیں، ہمیں اپنی موجودگی کااحساس دلانا ہوگا، بتانا ہوگا کہ ہم جانور اور چینوٹیاں نہیں ہیں، انسان ہیں۔ دوسری بات میں پرائم منسٹر جی ذرا کان کھول کر سن لیجیے کہ اس بھارت کو آپ کی نہیں آپ کو بھارت والوں کی ضرورت ہے۔۔ بھارت کے پردھان منتری بننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صرف ہندو قوم کے پردھان منتری ہیں‘‘۔

    یہ واٹس اپ پیغامات مہاراشٹر میں جیل سے نکال کر جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے مسلمان نوجوانوں کے واقعے کے بعد کے تھے جس نے بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں میں خوف سراسیمگی پھیلا دی ہے، سیلانی سوچنے لگا کہ ایک پاکستان ہے، دہشت گردی کا بالواسطہ اور بلاواسطہ شکار ملک، جس میں ہندو شہریوں کی تعداد بمشکل دو یا ڈھائی فیصد ہے اور یہ شہری اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بھائی بندوں نے بھارت میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، جہاں مسلمان گھر کی چہار دیوار ی میں نہیں خوف کے حصار میں جی رہے ہیں کہ جانے کب کون سی ریاست ’’مودی کی گجرات‘‘ بن جائے جانے، کب کون سا شہر احمد آباد بن جائے اور انہیں گھروں کے دروازے بند کر کے عورتوں بچوں سمیت زندہ جلا دیا جائے۔۔ لیکن اس سب کے باوجود ’’انتہا پسند پاکستان‘‘ میں آج تک کبھی کوئی مندر نہیں جلا، آج تک کسی مندر میں بم دھماکہ نہیں ہوا، آج تک کسی ہندو قیدی کو جیل سے نکال کر گولیاں نہیں ماری گئیں، کسی مندر میں گائے کا سرکاٹ کر نہیں پھینکا گیا۔

    یہاں ہندو برادری کم تعداد میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی زندگی اپنی مرضی سے جی رہی ہے، سندھ میں تو ہندو رہنما حکومت میں شامل ہیں، ان کے پاس وزارتیں ہیں، وہ جھنڈے والی گاڑیوں میں پولیس اسکواڈ کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں، وہ یہاں جائیدادیں زمینیں رکھتے ہیں، یہاں ان کے ہزار ہزار برس پرانے مندر ہیں، تھرپارکر، اسلام کوٹ، مٹھی میں ہندو برادری کی اکثریت ہے، یہاں السلام علیکم کہنے والے کم اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کرنے والے زیادہ ملیں گے، اسلام کوٹ میں مساجد سے زیادہ مندر ہیں لیکن آج تک کبھی کسی مندر کے ساتھ بابری مسجد والا سلوک نہیں کیا گیا، اقلیتوں کی دلجوئی میں تو ہمارے لیڈر ان کے مندر میں جا کر پوجا پاٹ تک کر آتے ہیں، اور دوسری طرف بھارت ہے جو اپنے ملک کی سب سے بڑی ااقلیت کے لیے بھیانک خواب بن چکا ہے، اب تو مسلمان نوجوانوں کو جیلوں سے نکال کر مار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پولیس مقابلے میں مارے گئے ۔۔ بھارتیوں کو سب سے زیادہ ڈراؤنے خواب جماعۃ الدعوۃ کے حافظ محمد سعید کے آتے ہیں، بھارتی میڈیا انہیں ہندوؤں کا خونی دشمن بنا کر پیش کرتا ہے لیکن اسی حافظ محمد سعید کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن تھرپارکر کے ہندؤں کے لئے پانی کے کنویں کھدوا رہی ہے ،اسپتال بنوا رہی ہے ،قحط میں راشن دے رہی ہے ۔

    پاکستان میں عیسائی برادری ہندؤں سے زیادہ بڑی ہے، ان کے گرجا گھر بھی زیادہ ہیں، چند ایک واقعات کو چھوڑ کر عیسائیوں کے خلاف کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا، یہ ہمارے معاشرے میں ہمارے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اٹھتے بیٹھتے ہیں، دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، سیلانی کو اپنے ہم جماعت کامران ڈیوڈ، مصدق طاہر چوہدری ابھی تک یاد ہیں،گھنی مونچھوں والا مصدق طاہر آج کراچی کے ایک ہوٹل میں منیجر ہے، اور اس سے آج بھی رابطہ اور ویسا ہی تعلق ہے جیسا برسوں پہلے زمانہ طالب علمی میں تھا،وہ کراٹے کے شوقین ندیم گل کو نہیں بھول سکتاجس کے ساتھ صبح سویرے جاگنگ کرتا تھاگندمی رنگ والا ندیم ایک فوجی کا بیٹا اور عیسائی خاندان سے ہی تعلق رکھنے والا نوجوان تھا۔

    بات کڑوی لیکن سچی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں اکثریت سے زیادہ محفوظ ہیں، ہمارے اقلیتی ساتھی اکثر اقلیت ہونے کا ٹھیک ٹھاک فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں، کیا کوئی یقین کرے گا، اگر سیلانی یہ کہے کہ تھرپاکر میں جماعۃ الدعوہ کے اسپتال کے لیے خریدی گئی زمین کے ایک حصے پر با اثر ہندو سیاسی رہنما قبضہ کر چکا ہے، اس قطعہ اراضی کے سامنے ہی اس کی شراب کی فیکٹری ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ یہاں ایک مذہبی مسلمان تنظیم اسپتال بنائے اور جماعۃ الدعوۃ اس لیے خاموش ہے کہ اس سے بھائی چارے کی فضا خراب نہ ہو۔۔ماری پور کراچی میں ایک اقلیت کے کچھ دوست سرکاری اسکول پر قبضہ کرکے دو منزلہ نجی اسکول بنا بیٹھے ہیں اور اکثریت پریشان ہے کہ ہم کس سے بات کریں ۔۔ جتنی آزادی پاکستان میں اقلیتوں کو ہے، اس سے نصف بھی بھارتی مسلمانوں کو مل جائے تو وہ بھارت کے لیے بی جی پی سے آگے کھڑے ہوں لیکن ایسا ہو نہیں سکتا، بی جی پی تنگ نظر انتہا پسندوں کی وہ جماعت ہے جو بھارت میں صرف مندروں کی گھنٹیاں بجتے سننا چاہتی ہے، اسے گرجوں کے گھنٹوں کی آوازیں چبھتی ہیں، مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں بےچین کرتی ہیں، سکھوں کے گوردوارے بےسکون کرتے ہیں اور دلت زہر لگتے ہیں ۔۔ یہی زہر بھارتی سرکار کی زبان سے بھی ٹپک رہا ہے اور یہی زہر کشمیریوں کا مستقبل ڈس رہا ہے، برصغیر کے امن میں سرایت کر رہا ہے، پاکستان کی اقلیتوں کو حقیقت میں پاکستان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے گلابی رنگ سے داغدار قمیض اٹھائی اور اسے ایک طرف اچھال کر پرسوچ نظروں سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • انصاف کی دو سنہری داستانیں اور ہمارا نظامِ انصاف – غلام نبی مدنی

    انصاف کی دو سنہری داستانیں اور ہمارا نظامِ انصاف – غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی کہانی پانچ سال پہلے شروع ہوئی، جب پولیس نے شراب سمگلنگ کے الزام میں ایک امریکی اور یونانی شہری سمیت سعودی شہری کو حراست میں لیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بحری راستے سے ایک کنٹینر کے ذریعے 3350 شراب کی بوتلیں سعودی عرب سمگل کرنے کی کوشش کی۔ محکمہ پولیس نے کیس عدالت میں دائر کیا اور یوں عدالت نے تینوں مجرموں کو جیل بھیج دیا۔ سعودی اخبار ”عکاظ“ کے مطابق سعودی شہری نے ہمت نہیں ہاری۔ چنانچہ اس نے پولیس کے خلاف سٹینڈ لیا اور عدالت میں اپنی بریت کے لیے کیس دائر کردیا۔ عدالت نے کیس کی از سر نو تفتیش کا حکم دیا۔ کیس کی جانچ پڑتال کرنے والی عدالتی کمیٹی نے پولیس کی طرف سے بیان کیے گئے شواہد کو غلط اور جھوٹا قرار دے دیا، یوں لگ بھگ ایک سال بعد سعودی شہری ناحق جیل میں قید رہنے کے بعد رہا ہوگیا۔ سعودی شہری نے ناحق سزا دیے جانے پر پولیس کے خلاف دوبارہ کیس دائر کیا، جس میں مطالبہ کیا کہ چوں کہ پولیس کے الزام کی وجہ سے اس کی شہرت داغدار ہوئی، اس کا کاروباری نقصان ہوا، خاندان کی بدنامی ہوئی، لہذا پولیس اس کا معاوضہ ادا کرے۔عدالت نے سعودی شہری کے اس مطالبے پر ماہرین کی ایک کمیٹی بنادی کہ وہ ناحق سزا کے عوض سعودی شہری کے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگائے۔ چنانچہ کمیٹی نے ایک سال جیل میں رہنے کے عوض یومیہ 1500 ریال خسارے کا تخمینہ لگایا، جو تقریبا 547500 سعودی ریال بنا۔ سعودی شہری کے مطابق جیل سے رہا ہونے کے بعد شہرت داغدار ہونے کے باعث تین سال تک وہ بےروزگار رہا، چنانچہ کمیٹی نے بیروزگار رہنے کی وجہ سے یومیہ 400 ریال خسارے کا تخمینہ لگایا جو تقریبا 438000 سعودی ریال بنا۔ یوں کل ملا کر 985500 سعودی ریال معاوضہ بنا۔ عدالت نے محکمہ پولیس کو یہ رقم سعودی شہری کو ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ ناحق مجرموں کے بارے احتیاط کرے۔

    یہ ایک سچی کہانی ہے جس میں سعودی عدالت نے حال ہی میں پولیس کی کوتاہی کی وجہ سے ناحق ملزم کو قید کرنے کی وجہ سے محکمہ پولیس کو 9 لاکھ پچاسی ہزار پانچ سو سعودی ریال، یعنی دو کروڑ 69 لاکھ چار ہزا ر ایک سو بیالیس روپے پاکستانی ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔

    اسے سے ملتی جلتی ایک کہانی امریکی شہری روڈیل سینڈرز کی ہے، جسے قتل کے جرم میں 20 سال قید رکھا گیا، بعدازاں 22 جولائی 2014ء کو عدالت نے روڈیل کیس کا جائزہ لے کر گواہوں کی جھوٹی گواہی کا اعتراف کیا اور روڈیل کو بری کردیا۔ 28 ستمبر 2016ء کو اسی عدالت نے جھوٹےگواہوں کے تعاون سے ملزم روڈیل کو بیس سال ناحق قید رکھنے کے جرم میں پولیس کے خلاف ایک تاریخی فیصلہ سنایا، جس میں محکمہ پولیس کو روڈیل سینڈرز کو 20 سال ناحق قید رکھنے کے عوض 15 ملین ڈالر یعنی ڈیڑھ ارب پاکستانی روپوں کا جرمانہ کیا۔

    انصاف کی ان دوکہانیوں کے بعد ہمارے عدالتی اور پولیس سسٹم پر نظر دوڑائیے، جہاں مظہر حسین ایسے ملزم کو ناحق 17سال جیل میں قید رکھاجاتاہے اور اس کے مرنے کے دو سال بعد اس کی برات کا فیصلہ سنایاجاتاہے۔ یہ ہمارا محکمہ پولیس ہی ہے جو لوگوں کو جھوٹے کیسوں میں جیل بھیج دیتا ہے، جو کسی بھی شریف آدمی کوسزا دلوانے اور مجرم کو بچانے کے لیے جھوٹی ایف آئی آر اور جھوٹے گواہ تک تیار کروا لیتا ہے۔ ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو مارنا بھی محکمہ پولیس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، اس کا اظہار پولیس کے افسروں نے گارڈین اخبار کی رپورٹ میں بھی کیا۔ لیکن افسوس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت پر کوئی قانون حرکت میں آتا ہے، نہ کوئی عدالت سوموٹو ایکشن لیتی ہے۔ حالیہ چند دنوں میں کراچی میں کئی لوگوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیا گیا، جن میں ایک عالم دین مولانا یوسف قدوسی بھی ہیں جن کو 8 اپریل 2016 کو اغوا کیا گیا، بعد ازاں جعلی پولیس مقابلے میں شہیدکردیا گیا۔ کراچی کی مذہبی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن کے ادارے بھی پاکستان میں اس طرح کے ماروائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلوں پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔ چنانچہ بین الاقومی خبررسال ادارے روئٹرزکی 2015ء کی رپورٹ اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق صرف کراچی میں ایک پولیس افسر راؤ انور نے 60 کے قریب لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا۔ چنانچہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے راؤ انور کے خلاف عدالت میں پیٹشن بھی دائر کی۔ 26 ستمبر 2016 کےگارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں پاکستان میں 2108 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔اسی طرح ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2015 میں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں 143 لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔حیرت اس بات پر ہے کہ ان پولیس مقابلوں میں کوئی پولیس اہلکار زخمی ہوتا ہے ،نہ ہلاک ہوتاہے۔ ہمارے عدالتی سسٹم کی بےحسی اور کمزوری دیکھیے کہ یہ 2001ء سے لاپتہ افراد کو اب تک بازیاب نہیں کرواسکا،جن میں سے کچھ کو امریکہ کے حوالے کیا گیا اور کچھ کو خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ عدالتی سسٹم کی کمزوری کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی کہ 2013ء میں فوج اورخفیہ ایجنسیوں کی طرف سے 35 لاپتہ کیے جانے والے افراد کے خلاف بھرپور عدالتی مہم جوئی کے باوجود ہمارا عدالتی سسٹم ان کو رہا نہ کروا سکا۔

    ہمارے نظام انصاف اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی اورناانصافی کی یہ چند ایک مثالیں ہیں۔ورنہ اگر مجموعی طورپر پاکستانی معاشرے سے نظامِ انصاف اور محکمہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والےاداروں کے بارے رائے لی جائے تو شاید ہی کوئی شخص ان کی حمایت پر تیار ہو۔یہی وجہ ہے ہمارے ہاں محکمہ پولیس کوعام طور پر تضحیک کا نشانہ بنایاجاتاہے، عدالتوں اور وکلاء سےاعتماد کا رشتہ ٹوٹتاجارہا ہے۔جھوٹے گواہوں کی بہتات، محکمہ پولیس اور وکلاء کی رشوت اور خیانت کے ڈر سے مظلوم لوگ ظلم کے خلاف عدالت جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔جھوٹے گواہ اس قدر عام ہوگئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جھوٹے گواہوں کو خدا کے عذاب سے ڈرناچاہیے،جھوٹی گواہی گناہ کبیرہ ہے۔ بھلااس طرح کی وعظ و نصیحت سے جھوٹے گواہ باز آسکتے ہیں؟ حیرت اس بات پر ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 193 کے مطابق جھوٹی گواہی دینے والے کو سات سال قیدسے لے کر عمر قید تک کی سزادی جاسکتی ہے۔ لیکن 40 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ ایک وکیل کا کہنا تھا کہ میں نے 40 سال سے کبھی کسی جھوٹے گواہ کو سزا ہوتی نہیں دیکھی۔ جب انصاف کا یہ حال ہوگا تو ملک میں بدامنی، کرپشن، لوٹ مار ایسے مسائل حل ہوں گے، نہ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ایسے واقعات رکیں گے۔ اگر ہم ملک کو واقعی پرامن ملک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سعودی اور امریکی عدالتوں کی طرح اپنی عدالتوں کا آزاد اور مضبوط کرنا ہوگا، جو نہ صرف بغیر کسی دباؤ کے آزاد تحقیقات کرسکیں، بلکہ پولیس، فوج، وزیراعظم اور صدر سمیت کسی بھی شخص کو باآسانی عدالت طلب کرکے ان کے خلاف کیس سن سکیں۔ اس کے ساتھ ہمیں جھوٹے گواہوں کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے عمر قید سزا کو عملی طور پر جاری کرنے کے ساتھ کم ازکم دو دو کروڑ تک مالی سزا بھی دینی ہوگی تب جاکر ہمارا نظام ِانصاف آزاد اور مضبوط ہوگا اور مظلوموں کو انصاف ملنے لگےگا۔

  • قومی شاعر کےنام پر ایسا بھیانک مذاق؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    قومی شاعر کےنام پر ایسا بھیانک مذاق؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    15036365_1216647801707184_6204532957496783179_n سوال نمبر 5.
    اپنی بڑی بہن کے بارے میں مضمون لکھیں خاص طور پر یہ چیزیں ضرور بتائیں
    1. بہن کی عمر کتنی ہے؟ Age
    2. جسمانی سائز کیا ہے؟ Physique
    3. قد کتنا ہے؟ Height
    4. دیکھنے میں کیسی ہے؟ Looks
    5. رویہ کیسا ہے؟ Attitude

    علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے لیے عمر کی کوئی معیاد نہیں. دسویں جماعت کا شاگرد پچاس سال کا بھی ہو سکتا ہے، 25 یا 15 کا بھی. شاید ان کی ذہنی بلوغت کا امتحان مقصود تھا جو ایسا شاندار سوالنامہ ترتیب دیا گیا اور رہنما نکات ہمراہ کیے گئے کہ کوئی معاشرتی حدود و قیود کا مارا مناسب جواب دینا چاہے تو اس کی راہ مسدود کی جا سکے.

    بس ایک اہم نکتہ بھول گئے کہ جس کی کوئی بڑی بہن نہیں، کیا وہ اپنی چھوٹی بہن کا سراپا بیان کر دے، اور جس کی کوئی بہن ہی نہیں، وہ کیا کرے؟ لازمی سوال کے جواب میں بھابی، ماں، کزن، محلےدار یا دوست کی بہن کا سراپا بیان کر سکتا ہے؟ اور کیا وہ سوال لکھنے والے پیپر سیٹر کی بہن کو اپنی منہ بولی ”بڑی بہن“ مان کر اس کا سراپا تفصیلا بیان کر سکتا ہے.

    ہر سوال کے دو جواب ممکن ہوتے ہیں، درست یا غلط. اسی طرح ہر رویے کے دو رخ ہوتے ہیں، اچھا رخ یا برا رخ. مجھے اپنی ناسمجھی کا اعتراف ہے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہ کر سکنے کو اس کی وجہ گردانتی ہوں کہ میں اس سوال نمبر 5 کے اچھے رخ کو سمجھنے سے قاصر ہوں. اس کے صحیح اور غلط ہر دو جواب کو غلط ہی مانتی ہوں.

    مسئلہ سوال کی حرمت کا ہے اور میں اس سوال کو اس کے جواب سمیت ”حلال“ نہیں سمجھتی.

    ہو سکتا ہے یہ پرچہ بائیولوجی کا ہو جس میں خاتون کے سراپے کا بیان کیا جانا ضروری ہو، یا یہ سوال آرٹس کی ڈرائنگ کلاس کا ہو جس میں مستقبل کے مصور یا مجسمہ ساز کی آبزرویشن اور تخیل کی رسائی کا جائزہ لینا مقصود ہو. ہو سکتا ہے کہ یہ سوال محض اپنے شاگردوں کو ”ضبط اشتعال“ کی تربیت دینے کے لیے لکھا گیا ہو.

    اور یہ بھی ممکن ہے کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ممتحن اپنی یونیورسٹی کو روشن خیال ظاہر کرنا چاہتے ہوں. اس پوائنٹ پر میں آپ سے متفق ہوں. آپ نے ”روشن خیالی“ (جسے ہمارے معاشرے میں غیرت کے متضاد کے لیے مستعمل دو لفظی ترکیب سے یاد کیا جاتا ہے) کی دوڑ میں اہل مغرب کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا. ایسا سوال تو گوری اقوام بھی اپنے پرچوں میں شامل نہیں کر سکتیں.

    اگر یہ کوئی نجی سروے ہوتا تو ہم اس متعلقہ ادارے کو مسلم معاشرے کی بنیاد کے خلاف کام کرنے والی استعماری قوتوں کا نمائندہ مانتے، لیکن ہماری قومی یونیورسٹی کے سرکاری طور پر منظور شدہ پرچے میں ایسے سوال کا پوچھے جانے اور اس پر ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا اس سوال کو عام روٹین کی بات قرار دینے کی کوشش کرنے کو کس خانے میں فٹ کیا جائے؟

    سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ کسی کو استاد کی سیٹ دینے سے پہلے اس کا نفسیاتی معائنہ ضرور کیا جائے کہ یہ استاد شاگردوں کو ”کیا“ پڑھانے کے لیے ادارے میں آیا ہے.

    .. nip the evil in the bud. ..
    حکومت پاکستان اور ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC اس معاملے کا نوٹس لے اور تمام تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے تعلیمی یا تخریبی مواد کا ازسرِنو جائزہ لے.

    ڈائریکٹر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا اعتراف
    https://youtu.be/QxYFbeTxqZs

  • عمران خان کے نام ایک نظریاتی ووٹر کا کھلا خط – فیضان رضا سید

    عمران خان کے نام ایک نظریاتی ووٹر کا کھلا خط – فیضان رضا سید

    محترم جناب عمران خان صاحب!
    امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔

    ناچیز کا یہ محبت نامہ ان گم گشتہ یادوں کا نوحہ ہے جنہوں نے آپ کو اوج ثریا تک پہنچایا تھا۔ ہمیں یاد ہے آپ جب کرکٹ کے میدان میں کھیل کے لیے اترتے تھے تو آپ کے کھیل سے زیادہ ہمیں آپ کا جذبہ، خود اعتمادی اور فتح کا یقین متاثر کرتے تھے۔ ہم کرکٹ ہار بھی رہے ہوتے تھے تو بھی آپ کی کپتانی دیکھ کر خوش ہوتے تھے کہ آپ ہمت نہیں چھوڑ رہے اور آخر دم تک لڑ رہے ہیں۔ پھر جب آپ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے عوام کے درمیان آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہ عوام اپنے ہیرو کو بھولی نہیں تھی، اور کیسے اپنا سب آپ پر لٹانے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ اسی عوامی یاترا سے آپ کو قوم کی زبوں حالی اور لاوارث پن کا ادراک بھی ہوا۔ آپ اس قوم کو ایک کینسر ہسپتال کا تحفہ دے چکے تھے لیکن قوم کا جذبہ حب الوطنی اور ایثار دیکھ کر بس اسی پر اکتفا نہ کرسکے اور عوامی بھلائی کے لیے سیاست میں آنے کا اعلان کردیا۔ آپ کی شخصیت کا قد اس قدر بلند تھا کہ جس بھی سیاسی پارٹی میں جاتے، ایک اہم عہدے اور وزارت کے ساتھ آپ کو خوش آمدید کہا جاتا، لیکن چونکہ آپ اس کرپٹ سیاسی نظام کے مخالف تھے، اس لیے بجائے اس آلودہ سیاست کا حصہ بننے کے آپ نے اپنی سیاسی پارٹی بنا ڈالی۔ بد قسمتی سے دو پارٹیوں کا اس ملک پر اس قدر مضبوط سیاسی قبضہ تھا کہ ایک عام شریف آدمی اس سیاست میں جگہ نہیں بنا سکتا تھا۔ کتنے ہی مخلص اور محب وطن سیاست میں آئے اور عوامی رد عمل و شعور دیکھ کر خاموشی سے بوریا بستر سمیٹ کرگمنام ہوگئے۔

    خان صاحب! آپ کی جس چیز نے متاثر کیا وہ مستقل مزاجی اور ہار نہ ماننا ہے، آپ تھک نہیں رہے تھے اور مسلسل لڑ رہے تھے۔ پھر آپ پر کرپشن کا الزام نہیں تھا، آپ کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان نہیں تھا، آپ مفاد پرست نہیں قوم پرست تھے، چنانچہ ملک کے تمام وفادار قوم پرست بشمول دائیں بازو کے لوگ آپ کے گرد جمع ہونا شروع ہوئے۔ الیکشن 2013ء سے پہلے آپ نے جس شہر میں جلسہ کیا، عوام کا ایک جم غفیر وہاں اکٹھا ہوا۔ غریب اور متوسط لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے کیونکہ وہ غربت، بیروزگاری، فاقہ کشی، خانہ بدوشی، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، سفارش و رشوت کلچر، بیماریوں اور لاوارثی سے عاجز آچکے تھے۔ وہ آپ میں وہ رہنما دیکھ رہے تھے جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا، جو ان کی مجبوریوں اور مفلوک الحالی پر نظر ڈالے گا۔ جبکہ ملک کا پڑھا لکھا اور خوش حال طبقہ آپ کے پیچھے اس لیے کھڑا تھا کہ وہ ملکی معیشت اور وسائل کا صحیح استعمال چاہتے تھے، وہ ملک کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی کہ ہمارا ملک بیرونی قرضوں سے آزاد ہوکر معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل ہوجائے ، اس کے لیے کرپشن سے آزاد لیڈرشپ ضروری تھی جو آپ کی شکل میں دکھائی دیتی تھی۔

    پھر الیکشن 2013 کے نتائج آتے ہیں۔ عوام نے آپ کو ووٹ ڈالا تھا، جیت ن لیگ گئی اور آپ اپوزیشن سیٹوں کے حق دار ٹھہرے۔ سب جانتے تھے کہ دھاندلی ہوئی ہے، اور آپ کا حق تھا کہ آپ اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھاتے، چنانچہ آپ نے تمام قانونی طریقوں سے مایوس ہونے کے بعد دھرنے کا اعلان کیا، اور عوام بھی آپ کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی حاضر ہوگئی کیونکہ بہرحال ان کے لیڈر کو انصاف چاہیے تھا۔ آپ نے جس جلسے میں بلایا، عوام پہنچی، آپ نے لاک ڈاؤن کال کی عوام ڈنڈے سوٹے کھاتی، حتیٰ کہ جان کے نذرانے پیش کرتی آپ کو انصاف کی فراہمی کے لیے سینہ سپر ہوئی۔ 2014ء اور اب 2016ء کے دھرنے اور دھرنے کے اعلان میں جب عوامی طاقت سے آپ نواز شریف پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تو وزیراعظم کے استعفیٰ کے سوا آپ ہر عوامی مطالبہ پورا کرواسکتے تھے۔ آپ بغیر چھت دربدر پھرنے والے خانہ بدوشوں کے لیے مکان کا مطالبہ کرسکتے تھے۔ آپ ملک کے فاقہ زدہ عوام کے لیے خوراک اور روزگار کا مطالبہ منوا سکتے تھے۔ حکومت وقت کو سکولز اور کالجز سے باہر اڑھائی کروڑ بچوں کی تعلیم اور تعلیمی اخراجات کا بار اٹھانے پر مجبور کرسکتے تھے۔ اسپتالوں اور صحت و صفائی سے متعلقہ دوسرے اداروں میں اصلاحات کےذریعے صحت اور صفائی کی صورت حال کو یقینی بنا سکتے تھے۔ اور کچھ نہیں تو، آپ ادارے مضبوط کرواسکتے تھے۔ انتخابی اصلاحات کروا کر اگلے انتخابات میں دھاندلی کا راستہ بند کرسکتے تھے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے حق رائے دہندگی حاصل کرسکتے تھے۔ لیکن آپ وزیر اعظم کے استعفے اور احتساب پر مشتمل دو نکاتی مطالبے پر کاربند رہے اور ہیں جس کا سب سے پہلا فائدہ آپ کی ذات کو ہے۔ یہ منتقم المزاج اور مفاد پرست طبیعت آپ کی اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

    عام انتخابات میں یہ ناچیز آپ کو ووٹ ڈالنے ملتان سے ساہیوال گیا تھا۔ اور اس مشقت کے پیش نظر کوئی ذاتی مفاد نہ تھا، میں کوئی پی ٹی آئی ورکر ہوں نہ ہی آپ کا جاں نثار تھا، اور میرا کوئی ماما یا تایا پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن بھی نہیں لڑ رہا تھا۔ میں ایک نظریاتی ووٹر ہوں اور میں ایک نظریے پر ووٹ دے رہا تھا۔ آپ الیکشن نہیں جیت سکے اس کا افسوس ہمیں بھی ہے، لیکن آپ ہمارے دیے ہوئے مینڈیٹ سے اپوزیشن میں تو بیٹھے ناں؟ میں آپ سے بطور ایک نظریاتی ووٹر سوال کرتا ہوں کہ آپ نے حزب اختلاف کی کرسیوں پر بیٹھ کر اس عوام کے لیے کیا کیا ہے؟ چلیں کرنا تو حکومت وقت نے تھا، آپ صرف یہی بتادیں کہ آپ نے حکومت پر کچھ کرنے کے لیے کتنا دباؤ ڈالا ہے؟ کوئی ایک عوامی ایشو بتا دیں جس پر آپ نے حکومت کو دھرنے کی دھمکی دی ہو؟ اگر ایسا ہوتا کہ آپ عوامی ایشوز پر آواز بلند کرتے، حکومت وقت کان نہ دھرتی، یا جیسے لاٹھی چارج اور گولیاں برسانے والا اس کا مزاج ہے، وہی اپناتی تو یقین مانیں آپ کو انقلاب کے لیے بنی گالہ سے باہر بھی نہ آنا پڑتا، اور یہ عوام ہی ان حکمرانوں کے گریبانوں تک پہنچ جاتی۔ آپ ان کو یہ احساس تو دلاتے کہ انہیں بھوکا، پیاسا، مفلوک الحال، پسماندہ، ننگے پاؤں، میلے کپڑوں میں رکھنے والے یہ حکمران ہیں جو پچھلے 40 سال سے اس پاک سرزمین کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور اس کے خون کا آخری قطرہ تک چوس لینا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ کی اپوزیشن کا مرکز و محور نواز شریف کی ذات بن کر رہ گئی ہے، اور ہم نظریاتی ووٹرز یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ لڑائی ہماری نہیں آپ کی ذاتی ہے۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس مائنس ون سے آپ اس قوم کی قسمت بدل دیں گے تو معذرت کے ساتھ یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ ماضی میں یہ مائنس ون نہیں، پوری پوری جماعتیں مائنس ہوچکی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ دوبارہ باریاں لے رہی ہیں۔ کیا اس سے پہلے ایسے مقام نہیں آئے جب لگتا تھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کی سیاست دفن ہوچکی ہے؟ کیا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز پر وہ وقت نہیں آیا جب ان جماعتوں کی ٹکٹس لینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہوتا تھا؟ دونوں ہی جماعتیں کتنی ہی بار ٹکڑے ٹکڑے ہوئی ہیں، آپ تو صرف استعفیٰ کی بات کر رہے ہیں جبکہ نواز شریف و آصف زرداری جیل یاترا تک بھی کر چکے ہیں، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ آج پھر اس قوم پر مسلط ہیں۔گویا مائنس ون یا کسی بھی پارٹی کو مائنس کرنے سے کوئی بات نہیں بنے گی۔آپ کو سسٹم تبدیلی کے لیے کمر بستہ ہونا ہوگا۔ آپ کو ہر جہت میں محنت کرنا ہوگی۔ آپ صرف بیٹنگ میں بہتری لا کر میچ نہیں جیت سکتے، بلکہ فیلڈنگ اور باؤلنگ میں بھی بہتری لانی ہوگی۔

    یہ کھلا خط آپ کے لیے ایک خاموش پیغام ہے۔ ابھی آپ کے پاس بطور اپوزیشن دو سال ہیں۔ کچھ کر کے دکھا دیں۔ الیکشن اصلاحات کروالیں۔ عوامی ایشوز پر حکومت کو کام کرنے پر مجبور کردیں۔ ورنہ جان لیں! جو آپ کو اٹھا کر عزت کی اس گدی پر بٹھا سکتے ہیں، وہ اتارنے میں بھی دیر نہیں کریں گے۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ جیسے باقی سیاسی جماعتوں کے کارکن ووٹ دے کر بھول جاتے ہیں اور اپنے رہنماؤں کا محاسبہ نہیں کرتے، آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا تو اس خوش فہمی سے باہر نکل آئیں۔ یاد رکھیں! اگر آپ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ آپ کے ووٹرز باشعور اور پڑھے لکھے لوگ ہیں تو اس بات کی فکر بھی کریں کہ انہیں مطمئن کرنے کے لیے آپ کو زیادہ سے بھی کچھ زیادہ کرنا ہوگا، ورنہ خالی نعروں سے انہیں بےوقوف بنانا آسان نہیں ہے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے اس قوم کی یوتھ کو سیاسی طور پر متحرک کردیا ہے، اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی بھی قوم کی نوجوان نسل جاگ جائے تو وہ انقلاب کے لیے کسی رہنما کی محتاج نہیں رہتی. ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی اچھے رہنما کی موجودگی میں یہ انقلاب بغیر انارکی کے وقوع پذیر ہوجاتا ہے اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپ جیسے بےداغ سیاست دان کی رہنمائی میں ہم اس قوم کی قسمت بدل ڈالیں۔
    امید ہے آنے والے دو سالوں میں آپ کی کارکردگی ہمیں پھر آپ کو ووٹ دینے پر مجبور کردے گی۔

  • یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا یادگار سفر – شازیہ طاہر

    یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا یادگار سفر – شازیہ طاہر

    سفرنامہ کا مفہوم یہ ہے کہ دورانِ سفر مسافر جس طے شدہ منزل پر پہنچتا ہے اور وہاں اس کے جو بھی مشاہدات، تاثرات اور کیفیات ہوتی ہیں یا جو حالات اس کو پیش آتے ہیں، انھیں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے حالاتِ سفر کو جمع کرتا ہے اور پھر دوسروں کو اپنے مشاہدات سے باخبر کرنے کے لیے ان کو صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیتا ہے۔ دنیا کا سب سے پہلا دریافت شدہ باقاعدہ سفرنامہ یونانی سیاح میگس تھینز کا تحریر کردہ ’’INDICA‘‘ (سفرنامہ ہند) ہے، جو ہندوستان کے سفر کے حالات پر مشتمل ہے۔ اس یونانی سیاح نے 300 قبل مسیح میں ہندوستان کا سفر کیا تھا۔ آئیے آج ہم بھی آپ کو اپنے ایک یادگار سفر سے آگاہی دیتے ہیں۔

    اطالوی آئین مذہبی آزادی کے حوالے سے بہت واضح ہے، اور یہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی اپنی عبادات کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے لیکن ابھی تک اٹلی میں بھی کچھ دوسرے یورپی ممالک کی طرح مساجد کی تعمیر، میناروں اور گنبد بنانے پر پابندی ہے۔ یہاں پر تقریبا ہر اس شہر یا علاقہ جہاں مسلمان آباد ہیں، اسلامک کلچرل سنٹرز موجود ہیں لیکن باقاعدہ تعمیر شدہ واحد مسجد صرف دارالحکومت روم میں ہی ہے۔ روم کو اطالوی زبان میں روما Roma کہا جاتا ہے۔ یہ بہت پرانا اور تاریخی شہر ہے۔ روم اپنی تاریخی حیثیت کے باعث یونیسکو کے عالمی ورثے کا امین ہے۔ شاندار تاریخی محلات، صدیوں پرانے کلیساؤں، رومی معاشرت کی یادگاروں، عبرت انگیز کھنڈرات، جگہ جگہ نصب مجسموں اور تازگی بخشتے ہوئے فواروں کی بہتات لیے ہوئے روم دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

    mosque-of-rome-italy-3 اگرچہ اٹلی میں رہتے ہوئے تقریبا دس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور دو مرتبہ روم جانے کا اتفاق بھی ہوا لیکن ابھی تک اٹلی کی مشہور اور واحد تعمیر شدہ مسجد دیکھنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکی تھی۔ بالآخر 27 ستمبر 2016 کو یہ خواہش بھی پوری ہو ہی گئی۔ ستمبر کے آخر میں اٹلی کا موسم نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ سو اب کے دورہ روم میں یہ طے پایا کہ روم مسجد کی سیر ضرور کر کے آئیں گے۔ روم کا تاریخی شہر ہمارے شہر بریشیا سے تقریباً 600 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گاڑی پر 6 سے 7 گھنٹے کا طویل اور تھکا دینےوالا سفر ہے، چنانچہ طے یہ پایا کہ کیوں نہ اس مرتبہ یہ سفر ٹرین پر کیا جائے۔ اٹلی میں ٹرین کاسفر انتہائی پرسکون اور آرام دہ ہوتا ہے، اور ان دنوں ویسے بھی ایک نئی ٹرین سروس ITALO TRAIN کا بڑا چرچا سن رکھا تھا، سو اسی ٹرین کی آن لائن بکنگ کروائی گئی۔ مقررہ تاریخ کو اپنے مجازی خدا کے ہمراہ اللہ کا نام لے کر سفر کا آغاز کیا۔ گاڑی بریشیا ریلوے سٹیشن پر پارک کی اور سٹیشن پہنچ کر اپنی مخصوص ٹرین کا نمبر تلاش کیا۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے چند منٹ پہلے سٹیشن پر پہنچی۔ ٹرین میں بیٹھتے ہی ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ ٹرین کی سیٹس بالکل ہوائی جہاز کی طرز پر نہایت کھلی اور آرام دہ تھیں۔ ٹرین نے پورے وقت پر سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ تقریباً 25 منٹ کے بعد جب ٹرین اپنے پہلے سٹیشن VERONA شہر جا کر رکی تو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا کہ دوسری ٹرینیں تو پورے ایک گھنٹے بعد اس سٹیشن پر آ کر رکتی تھیں۔اس کے بعد ٹرین صرف دو سٹیشنوں بلونیا اور فلورینس پر کچھ دیر رکی اور پھر اپنی منزل یعنی روم تیرمینی سٹیشن کی طرف رواں دواں ہو گئی۔ 1 تیرمینی سٹیشن سے روم مسجد کا فاصلہ تقریباً ایک گھنٹے کا ہے۔ وہاں سے میٹرو پر مسجد کے قریب ترین سٹیشن پر اترے۔ میٹرو سٹیشن پر ایک اوور برج پار کرتے ہی دور سے مسجد کا پرشکوہ، بلند اور خوبصورت گنبد اور مینار نمایاں نظر آرہا تھا۔ گنبد کا قطر 20میٹر ہے۔ مینار پر نظر پڑتے ہی سر بےاختیار فخر سے بلند ہوگیا کہ عیسائی دنیا کے اس مرکز، جو پوری دنیا میں عیسائیت کا قبلہ ہے، یہ مسجد پوری شان و شوکت، آن بان اور رعب و دبدبہ سے کھڑی تھی، یوں محسوس ہوا جیسے ہم آٹھ سو سال پہلے یورپ میں مسلمانوں کے سنہرے دور اور عظمتِ رفتہ میں آگئے ہیں۔

    5 اپنے خیالات کی رو میں بہتے بہتے مسجد کے مرکزی گیٹ سے ٖاندر داخل ہوئے تو مسجد کی خوبصورتی اور سحر میں کھو سے گئے۔ یہ مسجد اطالوی فنِ تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجدکے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی خوبصورت اور انتہائی نفاست سے تراشےلمبے لمبےسرو کے پودے اور بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ دور تک صاف ستھرا باغ نما لان دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ یوں گمان ہو رہا تھا جیسے ہم مغلیہ دور کے کسی پائیں باغ میں آنکلے ہوں۔

    3 روم کی جامع مسجد کو انگلش میں Great Mosque Rome یا Islamic Cultural Centre Rome اور اٹالین زبان میں Grande Moschea Roma کہتے ہیں۔ غیر اسلامی ممالک میں یہ بھارت اور روس کو چھوڑ کر اٹلی اور یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے، جو کہ 30,000 مربع میٹر (320000 مربع فٹ) کے رقبے پر محیط ہے اور 12000 لوگ بیک وقت اس میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد روم کے علاقے Monti Parioli کے دامن میں شہر سے شمال کی طرف Acqua Acetosa کے علاقے میں واقع ہے۔ شہر کی واحد مسجد ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اسلامک کلچرل سنٹر بھی ہے۔ مذہبی سرگرمیوں کے لیے ایک مرکز ہونے کے علاوہ یہ دنیا کے مختلف ممالک کے دین کی وجہ سے منسلک مسلمانوں کو ثقافتی اور سماجی خدمات فراہم کرتی ہے۔ یہاں پر شادی کی تقریبات بھی منعقد ہوتی ہیں۔ تعلیم وتربیت کا بھی ایک شعبہ ہے، جس میں ایک کتاب خانہ، بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تدریس کا ہال، کانفرنس ہال، نمائش گاہ کی جگہ اور امام مسجد اور مہمانوں کے لیے رہائشی فلیٹ بھی ہیں۔ مسجد کے چاروں طرف سرسبز علاقہ ہے۔ مسجد کی تعمیر میں جدید طرزِ تعمیر سے کام لیا گیا ہے۔ اس کا بیرونی حصہ بھی نہایت خوبصورت اور دلکش ہے۔

    مسجد کی عمارت دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا حصہ، جو سطح زمین سے 8 میٹر بلند ہے اور 60 میٹر چوڑا مستطیل شکل کا ہے جو قبلہ کی طرف واقع ہے، اور اس کے مرکزی ہال کے اوپر ایک گنبد ہے جس کا قطر 20 میٹر ہے۔ جس کے اطراف میں 16 چھوٹے چھوٹے گنبد ہیں، جن سے اس مسجد کی رونق بڑھ گئی ہے۔ اس کا دوسرا حصہ H کی شکل میں ہے، جس نے مسجد کی تمام فضا کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے۔2 مسجد کا مینار اس کے جنوب مغربی حصہ پر واقع ہے۔ مسجد کی تعمیر سعودی عرب کے شاہی خاندان کے سربراہ شاہ فیصل کی مرہونِ منت ہے جنہوں نے اس کارِ خیر کو سر انجام دینے کا بیڑا اٹھایا اور تمام اخراجات برداشت کیے۔ مسجد کا ڈیزائن اور ہدایات اطالوی ماہرتعمیرات Paolo Portoghesi Vittorio Gigliotti اور Sami موساوی نے دیں۔ مسجدکی منصوبہ بندی پر تقریبا دس سال لگے۔ روم سٹی کونسل نے 1974ء میں زمین کا عطیہ دیا لیکن سنگِ بنیاد دس سال بعد اطالوی جمہوریہ کے اس وقت کے صدر SANDRO Pertini کی موجودگی میں 1984ء میں رکھا گیا، اور 21 جون 1995ء کو مسجد کا با قاعدہ افتتاح افغانستان کے جلاوطن شہزادے محمد حسن اور ان کی بیوی شہزادی رضیہ بیگم اور اس وقت کے اطالوی صدر نے کیا۔ مسجد کے اندرونی ہال اور راہداریوں میں بنے بےشمار ہتھیلی نما ستون اللہ اور اس کے اطاعت گذار بندے کے درمیان مضبوط تعلق کی نمائندگی کرتے ہیں۔

    the-mosque-of-rome چلیے اب مسجد کی سیر کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔ اسی دوران نمازِ عصر کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ وضو خانہ کی طرف ایک صاحب نے رہنمائی کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ مسجد کے موذّن ہیں۔ وضو خانہ بیرونی گیٹ کی داہنی طرف سیڑھیاں چڑھ کر تقریبا بیس فٹ کی بلندی پر اور مسجد کے مرکزی گنبد والے ہال کے نیچے تھا اور کافی کشادہ تھا۔ وضو کر کے واپس نیچے اترے اور بائیں طرف نماز والے کمرے کی طرف جا ہی رہے تھے کہ زن سے ایک گاڑی ہمارے پاس آ کر پارک ہوئی اور اس میں سے مخصوص عربی لباس میں ایک صاحب نکلے اور بآوازِ بلند مسکراتے ہوئے السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہا۔ ہمارے شوہرِنامدار نے بھی انھی کے انداز میں سلام کا جواب دیا۔ ماشاءاللہ وہ مسجد کے امام صاحب محمد حسن عبدالغفار تھے جن کا تعلق مصر سے ہے۔ مسجد کے انچارج عبداللہ رضوان ہیں۔ امام صاحب کی معیت میں اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ مذکورہ بالا مؤذن صاحب سپیکر پر اذان دینے کی تیاری میں تھے اور پھر انتہائی خوبصورت انداز میں اذان کی آواز مسجد کے چاروں اطراف گونجنے لگی۔ سبحان اللہ! دل سکون اور خوشی سے باغ باغ ہو گیا کہ آج پورے دس سال بعد اٹلی کی سرزمین پر یوں اذان کی آواز سپیکر پر سنائی دے رہی تھی۔ شاعرِمشرق علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا
    ؏ دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
    کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

    اگرچہ الحمدللہ یہ ایک کلیسا نہیں مسجد تھی، لیکن یہ مسجد کلیساؤں کے گڑھ اور پوری دنیا میں عیسائیت کے مرکز روم میں واقع تھی، جہاں اس وقت اذان کی آواز مسجد کے اردگرد کلیساؤں میں بھی جا رہی ہوگی۔
    ؏ مری نگاہ کمالِ ہنر کو کیا دیکھے
    کہ حق سے یہ حرمِ مغربی ہے بیگانہ (علامہ اقبال)

    6 مسجد کا مرکزی ہال چونکہ صرف نمازِجمعہ، عیدین اور خاص تقریبات کے لیے ہی کھولا جاتا ہے۔ اس لیے پنج وقتہ نمازوں کے لیے ایک اورچھوٹا ہال اور ساتھ ملحقہ کمرے مخصوص کیے گئے ہیں۔ مسجد کی اندرونی دیواریں نیلے اور سفید سنگِ مرمر کی انتہائی خوبصورت ٹائلز اور فرش نہایت دبیز ایرانی قالینوں سے سجا ہوا ہے۔ مسجد کی اندرونی سجاوٹ، برقی قمقموں اور فانوسوں کا مرکزی خیال قرآن کریم کی آیت (اللہ نُورالسمواتِ و الارض ) God is lightسے لیا گیا ہے۔ نماز کے لیے اندرونی چھوٹے ہال میں داخل ہوئے تو دل بہت دکھی ہوا کہ اتنی بڑی مسجد میں امام صاحب اور مؤذن صاحب کے علاوہ صرف چار اور نمازی تھے۔ ہم نے خواتین کی نماز کے متعلق دریافت فرمایا تو امام صاحب نے کہا کہ یہاں عام نمازوں میں خواتین کم ہی آتی ہیں اور اگر ہوں تو وہ بھی اسی ہال میں ہی نماز ادا کرتی ہیں۔ خیر تھوڑی جھجک کے ساتھ اندرر داخل ہوئے تو شکر ادا کیا کہ دائیں طرف ہال کے ایک کونے میں سر سے لے کر پاؤں تک سفید گاؤن میں ملبوس تین اور خواتین بھی بیٹھی نظر آئیں۔ ابھی جماعت میں تھوڑا وقت تھا۔ خوشی سے آگے بڑھے، سلام کے تبادلے کے بعد جھٹ سے اٹالین زبان کا رعب جھاڑنا شروع کیا. یہ سوچ کر کہ مقامی عرب کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہوں گی، لیکن یہ کیا؟ انھوں نے اشارے سے بتایا کہ ان کے پلّے کچھ نہیں پڑا۔ انگلش میں بات شروع کی تو وہ بھی خوشی سے کھل پڑیں کہ اس انجانے دیس میں کوئی تو بات کرنے والا ملا۔ اب پتہ چلا کہ وہ ٹورسٹ تھیں اور جکارتہ انڈونیشیا سے تین دن کے سیاحتی دورے پر اٹلی دیکھنے آئی ہوئی تھیں۔ تینوں ماں بیٹیاں تھیں، بیٹیوں کے نام زینب اور ریما جبکہ والدہ کا نام مریم تھا۔ بڑی بہن ریما جس کی عمر 22 سال تھی، جکارتہ یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رہی تھی اور انگلش کی سمجھ بوجھ رکھتی تھی جبکہ چھوٹی 17 سال کی تھی اور کالج میں پڑھ رہی تھی۔ والدہ صرف اشاروں کی زبان سمجھ رہی تھیں اور سر ہلا ہلا کر ایسے خوش ہو رہی تھیں جیسے سب کچھ سمجھ میں آرہا ہو۔4 خیر ماؤں سے بات کرنے کے لیے کسی خاص زبان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اٹلی میں صرف تاریخی شہر روم اور یہاں کی واحد جامع مسجد اور دنیا بھر میں مشہور پانی پر تعمیر شدہ رومانوی شہر وینس دیکھنے کے لیے آئی تھیں. جب انھیں بتایا کہ ہم پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں تو ریما بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ وہاں جکارتہ یونیورسٹی میں میرے ساتھ ایک پاکستانی لڑکی بھی پڑھ رہی ہے۔ اسی اثنا میں اقامت شروع ہوگئی اور ہم سب بھی نماز کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ نماز کے بعد امام صاحب نے ان سیاح خواتین کی سہولت کے لیے انگریزی زبان میں مختصر درس دیا۔ امام صاحب کا تعلق مصر سے ہے اور انگلش اور عربی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں. امام صاحب نے اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف دنیاوی مال و متاع ، عہدے یا شہرت کی فراوانی نعمت نہیں بلکہ حقیقی نعمت دین اسلام اور ہدایت کے رستے پر چلنا ہے اور آپ لوگوں پر اللہ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے اربوں لوگوں میں سے آپ کو اپنے پسندیدہ دین کے لیے منتخب کیا اور آپ کو حجاب اور پردے کی توفیق دی۔ ابھی درس جاری تھا کہ گھڑی پر نظر پڑی اور بادل نخواستہ ہمیں امام صاحب سے اجازت لینی پڑی۔

    چونکہ ہماری واپسی کی ٹرین کا وقت ہو چکا تھا لہذا افسردہ اور اداس دل کے ساتھ مسجد سے باہر نکلے اس دعا اور ارادے کے ساتھ کہ ان شاء اللہ دوبارہ اس مسجد میں ضرور آئیں گے اور خاص طور پر جمعہ یا عیدین کے موقع پر تاکہ مسجد کے مرکزی ہال کو بھی اندر سے دیکھنے کا موقع مل سکے۔

    جب کبھی بھی آپ کو روم آنے کا اتفاق ہو تو اس مسجد کی سیر ضرو ر کیجیے گا۔ مسجد نہایت پر امن اور سکون کی جگہ ہوتی ہےاور تمام اہل ایمان کو مساجد میں جا کر ہمیشہ سکون ہی ملتا ہے کہ بےشک دلوں کا سکون اللہ کی یاد میں ہی ہے، اور جب اس کا ذکر اس کے اپنے گھر میں ہو تو اس سکینت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

    آپ کو روم کی تاریخی اور شاندار مسجد کی سیر تو کروا دی۔ (ان شاء اللہ بہت جلد روم کی ایک اور تاریخی عمارت کلوزیم Colosseum، جو دنیا کے سات عجائب میں سے ہے، کی سیر بھی آپ کو کروائی جائے گی اور اس کلوزیم کے تاریخی پس منظر میں نام نہاد مہذب، لبرل اور روشن خیال گوروں کے انتہائی ظالمانہ اور تاریک پہلوؤں سے آگاہی بھی دی جائے گی۔ ان شاء اللہ

  • سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (2) – ریحان اصغر سید

    سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (2) – ریحان اصغر سید

    ریحان اصغر سید میرے سیل فون کی گھنٹی کچھ دیر بجتی رہی۔ پھر بند ہو گئی۔ مجھ پر تشدد روک دیا گیا تھا۔ سر نیچے جھکا ہونے کی وجہ سے یہ دیکھنے سے قاصر تھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کا فی الحال مجھے فوری طور پر قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ورنہ اتنی دور لے جانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہاں آس پاس ہر طرف ویرانہ تھا۔ سیل فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ ڈرائیور نے فون والے کو ایک فصیح گالی سے نوازا، پھر کچھ کھٹ پھٹ کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد دوبارہ کال نہیں آئی۔ شاید بیٹری کھول کے سم پھینک دی گئی تھی۔ کچھ دیر بعد کار ایک جگہ جا کے رکی۔ کھینچ کر مجھے نیچے اتارا گیا۔ میں لڑکھڑا کے گرتے گرتے بچا، ٹانگیں اور پیر سن ہو چکے تھے اور کمر نے سیدھا ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک اہلکار نے میرے سر کو اپنے ہاتھ سے اس طرح دبائے رکھا کہ میری ٹھوڑی میرے سینے میں دھنس رہی تھی، اس لیے میں تھانے کا نام دیکھنے سا قاصر رہا، گھیسٹتے ہوئے مجھے ایک برآمدے سے گزار کر ایک سیلن زدہ سے کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک زرد رنگ کا بلب بیمار سی روشنی پھیلا رہا تھا۔ ٹیبل کے پیچھے ایک بھاری بھر کم ایس ائی ٹیبل پر ٹانگیں رکھے سگریٹ پینے میں مگن تھا۔ ایک نوعمر سا لڑکا اس کے پیچھے کھڑا اس کے کندھے دبا رہا تھا۔ ایس آئی نے اطمینان سے سگریٹ ختم کی، اپنی ٹانگیں میز سے نیچے اتاریں اور پیچھے کھڑے لڑکے کو ہاتھ کے اشارے سے وہاں سے جانے کا کہا۔ کچھ دیر تک میرا آنکھوں سے ایکسرے کرنے کے بعد اس نے ساتھ کھڑے اہلکار سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ پوچھا تو اس نے جیب سےمیرا بٹوا اور دوسرا سامان نکال کے اس کے سامنے رکھ دیا۔ ایس آئی نے نیا سگریٹ سلگایا اور باریک بینی سے میرے شناحتی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کا معائنہ شروع کیا۔
    اس کی کچھ خاطر تواضع کی ہے؟ ایس ائی نے میری طرف دیکھے بغیر کانسٹیبل سے پوچھا۔
    ہاں جی! کار میں کچھ چائے پانی پلایا ہے، ابھی ڈرائنگ روم میں لے جا کے کچھ ٹہل سیوا کرتے ہیں، اس۔۔۔۔کی۔
    کیوں بے! تجھے شرم نہیں آئی جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں گند ڈالتے ہوئے؟ بڑا ہی حرامی نسل کا انسان ہے یار تو، تو۔ تجھے تو آری سے کاٹ دینا چاہیے۔ کب سے چلا رہا ہے یہ عشق معشوقی کا چکر؟
    ایس آئی نے ٹانگیں دوبارہ ٹیبل پر چڑھاتے ہوئے کہا۔
    سر! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سیٹھ صاحب کے مجھ پر جتنے احسان ہیں، میں مر کے بھی وہ نہیں اتار سکتا۔ حارث صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں اس گھر سے دور رہوں تو میں یہ نوکری بلکہ یہ شہر چھوڑنے کو تیار ہوں۔ میں فوراً گھر چلا جاؤں گا، پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا۔
    سر میں بہت غریب آدمی ہوں۔ آپ مجھ پر رحم کریں میں ساری عمر آپ کو دعائیں دوں گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری آواز گلوگیر ہوگئی اور میں نے ہاتھ جوڑ دیے۔
    ابھی تو آیا ہے تو، ابھی سے جانے کی بات تو نہ کر یار ۔۔ لگتا ہے تجھے بیگم صاحبہ کی یاد آ رہی ہے۔ ایسی بات ہے نا؟؟
    ایسی کوئی بات نہیں ہے سرکار! مجھے مکے مدینے کی قسم، مجھے سوہنے رب دی قسم میں جھوٹ بولوں تو کافر ہو کے مروں۔ میں بے اختیار پھوٹ پھوٹ کے رو پڑا۔
    اس کو لے جاؤ اور ننگا کر کے الٹا لٹکا کے مارو اور تب تک مارو جب تک یہ ساری بات نہیں بتاتا اور اس سے پہلے جو یہ کرتوت کرتا رہا ہے، وہ بھی اس سے پوچھو۔ اور ظہیرے کو میرے پاس بھیج دو۔
    مجھے گھیسٹ کے ایک عقوبت خانے میں لے جایا گیا۔ یہاں بھی زرد رنگ کا بلب جل رہا تھا۔ کمرا سیلن اور عجیب سی بو سے بھرا ہوا تھا۔ دیواروں اور فرش پر جابجا خون کے داغ نظر آرہے تھے۔ میں مسلسل اپنی بےگناہی کی دہائی دے رہا تھا لیکن ان پولیس والوں پر میری کسی التجا کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
    میں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں کہ الف سے لے کر یے تک ساری کہانی مجھے سنا دے، ورنہ میں تجھے کوئی نئی کہانی بنانے کے قابل بھی نہیں چھوڑوں گا۔ شادی کے قابل بھی نہیں رہے گا تو۔ بڑی بڑی مونچھوں والے کانسٹیبل نے اپنے ریچھ جیسے ہاتھ سے میرے دونوں گالوں کو پچکا کے پوچھا۔ میں درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا لیکن اس کی جناتی گرفت سے نکلنا میرے لیے ناممکن تھا۔
    یہ اس طرح نہیں مانے گا۔ اس کے کپڑے اتار کے لٹکاؤ اسے۔ تھوڑی دیر بعد میں لباس فطری میں چھت کے ساتھ لگے کنڈے کے ساتھ بندھی رسی کے سہارے الٹا لٹک رہا تھا۔ کچھ گھنٹے پہلے میں نے اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک وحشی سا اہلکار پوری طاقت سے مجھے تار اور چمڑے کے چھتر سے مار رہا تھا۔ کھال ادھڑ رہی تھی لیکن اب میری چیخوں میں درد سے زیادہ غصہ اور بغاوت تھی۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ مجھے موقع ملا تو میں انھیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
    اچانک تشدد روک دیا گیا۔ میں نے آنکھیں کھول کے دیکھیں، کریہہ چہرے والا کانسٹیبل میرے کندھے اور بازو کا بغور معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے میرے جسم کو روشنی کی طرف گھما کے گولیوں کے زخموں کے نشان غور سے دیکھے.
    یہ گولیوں کے نشان ہیں؟ وہ چونکا ہوا لگ رہا تھا۔
    ہاں یہ گولیوں کے نشان ہیں۔ میں نے نقاہت سے کہا۔
    کچھ دیر بعد میں دوبارہ کپڑوں میں ملبوس ایس آئی کے سامنے کھڑا تھا۔
    میرے سامنے کوئی ہینگی پھینگی نہ مارنا۔ بیشتر کہانی کا مجھے پہلے ہی پتہ ہے۔ سیدھے اور آسان لفظوں میں مجھے بتاؤ۔ اس دن مغل پورہ کی نہر اور بھٹہ چوک پر کیا ہوا تھا؟
    ایس آئی نے دو سگریٹ سلگا کے ایک مجھے پیش کیا اور ایک اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔ میں نے جلدی جلدی دو تین کش لگا کے اپنے اعصاب کو پرسکون اور خیالات کو مجتمع کیا، اور بولنا شروع کر دیا۔
    یہ اکتوبر کی ایک شام تھی۔ ہم آٹھ پنجاب رینجرز کے جوان کیپٹن لودھی کی قیادت میں شالیمار کے قریب مغل پورہ کی نہر پر کھڑے اکا دکا اور مشکوک گاڑیوں کو چیک کر رہے تھے۔ اچانک ایک سفید رنگ کی کار بڑی تیزی سے زگ زیگ انداز میں دوڑتی ہوئی سڑک پر نمودار ہوئی۔ کار میں کم سے کم چار لوگ تھے بعد میں پتہ چلا پانچ تھے۔ ہمارے روکنے پر بھی وہ نہیں رکے۔ جی تھری کے ٹریگر پر میری انگلی مچل کے رہ گئی لیکن لودھی نے سڑک پر رش کی وجہ سے فائرنگ کی اجازت نہیں دی۔ اب ہماری ٹیوٹا ہائی لکس طوفانی رفتار سے سفید کار کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ کار کا رخ شہر سے باہر کی طرف تھا۔ ائیرپورٹ چوک کے قریب ہم نے ان پر پہلا فائر کیا۔ اگلے ایک کلومیڑ میں ہم ان کی کار ناکارہ کر چکے تھے۔ جوابی فائرنگ کرتے ہوئے وہ ایک کھلے میدان میں موجود کھڈوں اور مٹی کے چھوٹے ٹیلوں کے پیچھے اوٹ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے جبکہ ہم ان کے مقابلے میں کھلے میں تھے۔ دوسرا ایڈونٹیج انھیں اے کے فورٹی سیون کا تھا۔ ان کو پاس ایمونیشن کی کوئی کمی بھی نہیں تھی، ہم ایک فائر کرتے تو وہ جواباً پوری میگزین ہم پر خالی کر دیتے۔ حالات مخدوش لگ رہے تھے، میرے پاس صرف بارہ میگزین کا ایمونیشن تھا، ہر میگزین میں بیس گولیاں تھیں۔ قانون کے مطابق مجھے چار میگزین کا ایمونیشن ہر قیمت پر بچا کے رکھنا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دہشت گرد اندھیرے اور ایمونیشن کی برتری کا فائدہ اُٹھا کے بھاگنے میں کامیاب رہیں گے۔ خوشی قسمتی سے ہم ائیر پورٹ کے ریڈار کی رینج میں آ گئے تھے، ہماری گاڑی کے وائرلیس سے ریڈار آپریٹر ہماری راہنمائی کر رہا تھا۔ ہم دو جوان غیر محسوس انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم ابھی اس گڑھے سے دو سو گز دور ہی ہوں گے کہ وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو گئے۔ ایک طویل برسٹ فائر ہوا۔ میں نے بروقت خود کو زمین پر گرا لیا۔ لیکن مرزا علی کو کئی گولیاں لگ چکی تھیں، اب خاموشی یا واپسی کا مطلب بےبسی کی موت تھا، میں فائر کرتا ہوا گڑھے کی طرف دوڑا۔ دوبارہ فائرنگ کے لیے سر بلند کرتے ہوئے دو دہشت گرد میرا نشانہ بنے اور وہ الٹ کے گڑھے میں گرے۔ جوابی فائرنگ سے پہلے میں ان کے گڑھے کے نزدیک ایک گڑھے میں خود کو گرانے میں کامیاب رہا۔ لیکن کچھ تاخیر ہو چکی تھی، کئی انگارے میرے کندھوں اور بازوؤں میں گھس چکے تھے۔ چند لمحوں میں ہی میری گن اور ہاتھ خون سے تر بتر ہو گئے لیکن اب صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی آ چکی تھی۔ دو ساتھیوں کی موت کے بعد دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ دوسری طرف ہم ان کے بالکل سر پر پہنچ گئے تھے، اس لیے جب انھیں ہتھیار پھینکے کا حکم دیا گیا تو تھوڑی سی گالی گلوچ اور مذاکرات کے بعد وہ آمادہ ہو گئے۔ جیسے ہی وہ ہتھیار پھینک کے گڑھے سے نکلے، اپنی تربیت کے مطابق ہم نے مزید دو کو ٹانگوں پر گولیاں مار کے پنکچر کیا اور انھیں گرفتار کر لیا۔ مجھے اور علی کو فوراً ہاسپٹل پہنچایا گیا، لیکن ہماری بدقسمتی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ گرفتار ہونے والے دہشت گرد ایک وفاقی وزیر کے ذاتی سیکورٹی گارڈ تھے جو کہیں کارروائی ڈال کے آ رہے تھے اور مرنے والوں میں اس کا کوئی بھتیجا یا بھانجا بھی شامل تھا۔ کیپٹن لودھی سمیت ہمیں فوراً معطل کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر ہمیں اور خاص طور پر مجھے اور علی کو پھانسی کے پھندے پر دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ہم پر جعلی مقابلہ اور اقدام قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے بڑا پر عزم تھا لیکن کیپٹن لودھی کی کاٹھی بھی تگڑی تھی، اسی دوران ڈرامائی طور پر جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ لیکن کیپٹن لودھی کے سوا ہم سب دوبارہ کبھی بحال نہیں ہو سکے۔ چھ مہینے بعد ہمیں مستقل جبری رخصتی کا پروانہ مل گیا۔
    میرا قصہ مکمل کرنے تک ایس آئی جس کا نام بعد میں باسط ابڑو پتہ چلا، کے تاثرات اور رویہ بدل چکا تھا۔ اس نے مجھے کرسی پر بٹھایا، سگریٹ کی پوری ڈبی اور ماچس عنایت کی اور چائے بھی پلائی۔ حارث اس کے کسی جگری کا دوست تھا، جو پیکٹ مجھے دے کر کے بھیجا گیا تھا، اس میں باسط کے لیے نذرانہ موجود تھا۔ ایس آئی ابڑو نے مجھے اپنی مشکل بتاتے ہوئے کہا کہ تمھیں سیٹھ صاحب اور ان کے خاندان کی سیاسی اور سماجی حیثیت اور طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ تم ابھی تک زندہ ہو تو اسے حارث کی رحم دلی ہی سمجھو۔ تمھارے لیے یہی بہتر ہے کہ اپنی منحوس شکل لے کے کہیں دور دفع ہو جاؤ اور دوبارہ کبھی چھوٹی بیگم صاحبہ سے رابطہ نہ کرنا۔
    حارث نے مجھے تمھارے ہاتھ پیر توڑ کر معذور کرنے کا کہا تھا۔ تم ابھی دو چار دن ادھر ہی رہو گے، میں دیکھتا ہوں کہ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں لیکن زیادہ بہتری کی امید نہ رکھنا۔
    تھوڑی دیر بعد مجھے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ یہاں دوسرے کئی ملزم بھی چادریں اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، میں بھی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گیا۔ پچھلے چوبیس گھنٹے بہت ہنگامہ خیز رہے تھے، میں کئی دفعہ پٹا، جسم کا جوڑ جوڑ درد کر رہا تھا، لیکن آنکھیں بند ہوتے ہی ایک ملیح چہرہ میرے تصور میں ابھر آیا۔ دل سے بے اختیار ایک ہوک سی اٹھی۔ کیا میں زندگی میں دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھ پاؤں گا؟ میں نے دکھ سے سوچا۔
    اچھا ہے، میں ان سے اتنا دور چلا جاؤں کہ میرے منحوس وجود کی تہمت بھی ان کے پاکیزہ وجود تک نہ پہنچ سکے۔ خیالوں کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے کچھ دیر کے لیے میری آنکھ لگتی، پھر درد کی ٹیسیں اور مستقبل کے خدشات مجھے جگا دیتے۔ شاید رات کا آخری پہر چل رہا تھا کہ تھانے کے باہرایک گاڑی کے ٹائر سخت بریک سے چرچرائے۔ پھر زور سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ رات کی خاموشی کی وجہ سے آوازیں صاف سنائی دے رہیں تھیں۔ خوابیدہ تھانے کے ماحول میں اچانک ہی ہلچل سے مچ گئی تھی۔ ایک آواز سنتے ہی میرے سر پر گویا حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔
    اگر الیاس یہاں پر نہیں ہیں تو باہر کھڑی میری گاڑی یہاں تمھارا باپ لایا ہے؟ یو ایڈیٹ۔ تمھیں پتہ ہے تم کس سے بات کر رہے ہو؟ میں تمھارا خون پی جاؤں گی۔
    شیرنی کی طرح دھاڑتی یہ آواز چھوٹی بیگم صاحبہ کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی تھی۔
    اس آواز نے میرے نیم مردہ جسم میں نئی جان ڈال دی تھی۔ میں لپک کے حوالات کی سلاخوں کے پاس پہنچا اور باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ برآمدے کے بلب کی ہلکی سی روشنی اس راہدری میں پڑ رہی تھی جہاں سب انسپکڑ کا کمرہ تھا لیکن حوالات اس زوایے پر تھی کہ مجھے وہ کمرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کی آمد نے جہاں میرے اندر نیا ولولہ اور ہمت پیدا کر دی تھی وہاں میں کسی المیے اور انہونی کے خدشات سے لرز رہا تھا۔ سب انسپکٹر کی آنکھ میں سور کا بال تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کو رات کے اس پہر تھانے میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کمرے سے مسلسل تیز تیز بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک ایسی بھاری بھر کم اور گونج دار آواز سنائی دی جسے سن کے میرے سارے خدشات دھل گئے۔
    ”اوے حرامخور، چھووٹی بیگم صاحب کے سامنے اپنی آواز نیچھی رکوو۔ ورنہ خدایا پاکا کی قسم ام پورا میگزین تیرے تھوبڑے پر خالی کر دے گا۔پھر تیرا ماں بھی تیرا شناحت نہیں کر پائے گا۔“
    یہ ولی خان تھا، سیٹھ صاحب کا ذاتی محافظ۔ اس کا باپ بھتہ خوروں کی طرف سے کیے گئے قاتلانہ حملے میں سیٹھ صاحب کو بچاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا تھا۔ ولی خان کا بچپن اور لڑکپن سیٹھ صاحب کے بنگلے میں ہی گزرا تھا۔ یہ وفادار قبائلی سیٹھ صاحب کی خاطر جان دینے اور جان لینے کا حوصلہ رکھتا تھا۔
    لگ رہا تھا کہ سب انسپکڑ کے کمرے میں صورتحال کشیدہ ہو چکی ہے، کچھ عجب نہیں ولی خان نے پولیس والوں کو گن پوائنٹ پر لے رکھا ہو۔
    تھوڑی دیر بعد حوالات کی طرف آتے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میری ساری حسیات آنکھوں میں سمٹ آئیں تھیں۔ میں نے انتہائی دراز قد چھوٹی بیگم صاحبہ کو باسط ابڑو کے ساتھ حوالات کی طرف آتے دیکھا۔ پیچھے پیچھے ولی خان تھا۔ کلاشنکوف بیلٹ کے ساتھ اس کے سینے پر جھول رہی تھی اور وہ کسی جنگلی جانور کی طرح چوکنا نظر آ رہا تھا۔ بیگم صاحبہ نے نیلی جینز کے اوپر گہرے سبز رنگ کی ڈھیلی سی جرسی سی پہن رکھی تھی جس کی آستینیں فولڈ کی گئی تھیں، پیروں میں جاگر پہنے اور بالوں کا جوڑا بنائے ہوئے وہ ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ باسط ابڑو کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ وہ کافی دبنگ بندہ تھا لیکن اس وقت وہ کچھ پریشان نظر آتا تھا۔ بیگم صاحبہ حوالات کے پیچھے سے مجھے بغور دیکھتی رہیں۔ ان کی آنکھیں سرخ اور چہرے کی رنگت سفید لٹھے کی طرح ہو رہی تھی۔
    تالہ کھولو!
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے باسط ابڑو کو حکم دیا!
    باسط ابڑو کے چہرے پر روایتی ہٹ دھرمی نمودار ہو گئی۔
    بی بی جی! آپ بچوں جسی باتیں کرتی ہیں۔ دوبارہ عرض کر رہا ہوں کہ جس آدمی کو آپ چھوڑنے کا کہہ رہی ہیں، اسے آج رات میرے لوگوں نے نیشنل ہائی وے پر منشیات سمگل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ آپ کی ذاتی کار بھی اس مکروہ دھندے میں استعمال ہو رہی تھی، لیکن میں نے ایف آئی آر صرف آپ کے ڈرائیور کے خلاف کاٹی ہے۔ صبح ہونے والی ہے، صبح ہم اسے عدالت میں پیش کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ لے لیں گے۔ اگر آپ کا بالکل گزارہ نہیں ہو رہا اس کے بغیر تو صبح اپنے وکیل کے ساتھ عدالت تشریف لے آئیے گا، اور ضمانت کی درخوست دائر کر دیجیے گا۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
    لُک آفیسر۔ تمھیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ تم نے خود کو کس مصبیت میں پھنسا لیا ہے۔ تم نے لاک اپ میں ایک ایسے شخص کو بند کر رکھا ہے جس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہم جانتے ہیں تمھارے پاس اس کی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ ہے نہ ہی ابھی اس پر کوئی ایف آئی آر کٹی ہے۔ یہ سیدھا سادہ اغوا اور حبس بےجا کا کیس ہے۔ اس کے بعد تم لوگ الیاس پر بدترین تشدد کے بھی مرتکب ہو چکے ہو۔ ہم تم لوگوں کو عدالت میں گھیسٹ لیں گے۔ پھر تم ناک سے لکیریں بھی نکالو گے تو معاف نہیں کریں گے۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ کے لہجے میں ان کا روایتی تحکم اور شان بےنیازی تھی۔
    سب انسپکڑ باسط ابڑو کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ بی بی جی میں آپ کے والد محترم کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ بڑے معقول اور شریف النفس انسان ہیں۔ سچ پوچھیے تو ان کے کردار کی حیا ہی مجھے مارے جا رہی ہے ورنہ آپ جس طرح ایک پاگل گن مین کے ذریعے مجھے دھمکانے کی کوشش کر رہی ہیں اور کارسرکار میں مداخلت کر رہی ہیں، اگر کوئی اور ایسا کرتا تو میں اسے بھی اس حوالات میں بند کر کے ایک ایف آئی آر اس پر بھی کاٹ دیتا۔ آپ ایک نجیب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، ایک دو ٹکے کے سمگلر ڈرائیور کے پیچھے خود کو اتنا نہ گرائیے۔ آپ کو اس سے بہت بہتر مرد مل جائیں گے۔
    چھوٹی بیگم صاحب کے چہرے پر غصے کے شعلے لپکے۔ ولی خان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا، اس نے رائفل کو کاک کر کے برسٹ موڈ پر کیا، اور اسے باسط ابڑو کے چہرے پر تان لیا۔ اگر بیگم صاحبہ ایک لمحہ کی بھی تاخیر کرتیں تو باسط کی کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔ بیگم صاحبہ نے ہاتھ سے ولی کی رائفل کی نال کو پیچھے ہٹایا اور اسے ڈانٹ کے پیچھے دھکا دیا۔ صورتحال ایک دم سے دوبارہ سخت کشیدہ ہوگئی تھی۔ پولیس والوں نے بھی بیگم صاحبہ اور ولی کی طرف بندوقیں تان لیں تھیں۔ ولی غصے سے بل کھا رہا تھا اور پشتو میں باسط کو گالیاں اور قتل کرنے کا عزم دہرا رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اسے بمشکل شانت کیا۔
    تم ایسے نہیں مانو گے۔ ہم تمھارا دوسرا بندوبست کرتے ہیں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنی جینز کی سائیڈ پاکٹ سے اپنا سیل فون نکالتے ہوئے کہا۔
    سرکار! ہم تو صرف اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ہم قانون کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں، پر آپ سیٹھ لوگ قانون کو موم کی ناک اور قانون کے رکھوالوں کو دلا سمجھتے ہیں۔ آپ کے گن مین نے دو دفعہ ایک تھانے میں ڈیوٹی پر موجود وردی میں ملبوس پولیس آفیسر پر گن تانی ہے، یہ بذات خود ایک نہایت سنگین جرم ہے لیکن میں بات کو بڑھانا نہیں چاہتا، آپ سے یہی گزارش ہے کہ گھر لوٹ جائیے، صبح وکیل کے ساتھ عدالت آ جائیے گا۔
    سب انسپکڑ باسط ابڑو اب پوری طرح سنبھل چکا تھا، اور چھوٹی بیگم صاحبہ کو وقتی طور پر وہاں سے ٹالنے کی فکر میں تھا۔
    چھوٹی بیگم صاحبہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور فون پر بات کرتی رہیں۔ ان کے کال بند کرنے کے کچھ سیکنڈ بعد ہی باسط کے سیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ باسط نے سیل نکال کے نمبر دیکھا اور بے اختیار بیگم صاحب پر نظر ڈال کے فون کال ریسو کر لی۔
    جی سر!
    جی وہ ادھر ہی ہیں۔
    سر وہ۔۔۔
    جی سر۔۔
    ایف آئی آر تو ابھی نہیں کاٹی سر۔
    جی لیکن۔۔۔
    معافی چاہتا ہوں جناب۔
    باسط ابڑو بات کرتے ہوئے ہم سے دور چلا گیا اور کچھ دیر بعد وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتا ہوا لوٹا۔ وہ سخت پریشان لگ رہا تھا۔
    لگ رہا تھا کہ باسط نے اوور کانفیڈنس میں ایک سنگین غلطی کر دی تھی۔ اس نے مجھے اٹھوا تو لیا تھا لیکن کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی تھی، اور میری کار کو بھی منظر سے ہٹانا بھول گیا تھا۔ شاید اسے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ فدوی بالکل بے یار و مددگار اور لاوارث ہے، وہ بےفکر ہو کر اس کی ہڈیاں پسلیاں توڑتا رہے لیکن اللہ کی تقدیر ہمیشہ ظالموں کی تدبیر پر غالب آ جاتی ہے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے اپنے انکل ایس ایس پی صاحب کو کال کی تھی، اور باسط ابڑو سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے نہ صرف معطل کروا کے دم لیں گی بلکہ اسے بھی ایسے ہی تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔ مجھے باہر نکال کے باسط ابڑو اب میرے اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پیروں میں لوٹ رہا تھا، اور معافیاں مانگ رہا تھا۔ اس کی ساری اکڑ اور کروفر ہوا ہو چکا تھا۔ بیگم صاحبہ نے اس شرط پر اسے معاف کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ سیٹھ صاحب کے سامنے حارث کے خلاف گواہی دے گا۔ تھوڑی سی سوچ بچار کے بعد وہ آمادہ ہو گیا۔ سب انسپکڑ کے کمرے سے نکل کر ہم احاطے میں پہنچے تو فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔ مجھے ابھی پتہ چلا تھا کہ میں حیدر آباد شہر میں ہوں۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے ولی خان کو لینڈ کروزر لے کر کے بنگلے پر پہنچنے کی ہدایت کی اور مجھے لے کر اپنی ہونڈا میں آ بیٹھیں۔ ولی خان کے چہرے پر تذبذب کے ِآثار تھے، وہ ہماری کار کے قریب کھڑا ہونٹ کاٹتا ہوا مجھے دیکھتا رہا۔
    کیا بات ہے ولی؟ کیوں کھڑے ہو؟ ہم نے کہا نہ گھر جاؤ!
    بیگم صاحب، ام آپ کو لےکر آیا ہے، اب اکیلا کیسا چلا جاوے؟ سیٹھ صاحب کو کیا جواب دے گا؟
    ولی خان نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
    آپ فکر نہ کرو ولی۔۔ ہم بابا کے جاگنے سے پہلے واپس آ جائیں گے، ہمیں کچھ کام ہے وہ کر کے آئیں گے۔ اور یاد رکھنا یہاں جو کچھ ہوا، وہ بابا کو بتانا ہے، جب ہم آپ کو بابا کے سامنے بلائیں گے۔ اس حارث کو چھوڑنا نہیں ہم نے۔
    آج اس نے الیاس کو اٹھوایا ہے، کل کو آپ کو اٹھوا دے گا۔ ہی بیکیم ٹوٹلی میڈ، ۔
    اوکے؟
    جی میڈم۔
    ولی خان گاڑی لے کر چلا تو گیا لیکن وہ مطمئن نہیں لگ رہا تھا۔ جب ہم نیشنل ہائے وے پر آئے تو صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔ گاڑی بیگم صاحبہ ڈرائیو کر رہی تھیں، میں ان کے ساتھ سیٹ پر بیٹھا تھا۔
    اعصاب کو مطیع اور مفلوج کر دینے والی ایک بھینی بھینی خوشبو نے مسلسل مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ المناک رات کا اتنا روشن سویرا ہوگا، یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے کو حزن اور اداسی نے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ انھوں نے کئی دفعہ مجھ سے معذرت کی اور مجھے بتایا کہ اس واقعہ نے ان کے دل اور اعصاب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انھیں لگ رہا تھا کہ میری زندگی شدید خطرات میں گھر گئی ہے۔ حارث کے والد سیٹھ صاحب کے کئی کاموں میں بزنس پارٹنر بھی تھے۔ آثار یہی تھے کہ ایک معمولی ملازم کے لیے اس رشتے داری کو قربان نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ملازم کی جان کی قربانی ہی دے دی جائے۔ وہ مسلسل کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی حتمی فیصلے کے ساحل پر لنگر انداز ہونا چاہتی ہیں لیکن نامعلوم اندیشوں کے بھنور انھیں ڈبو رہے ہیں۔
    ناشتہ ہم نے سڑک کے کنارے آباد ایک وی آئی پی ریسٹورنٹ میں کیا۔ اب کراچی صرف پچاس کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ ناشتہ ختم کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ نے کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے مجھے گہری نظروں سے دیکھا، ایک گہری سانس لی، اور پھر بڑبڑائیں ۔۔ او کے لٹس فنش اٹ!
    پھر تھوڑا سا کھنکار کے، سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ نظریں جھکا کے بولیں،
    الیاس کیا آپ ہمیں اپنے نکاح میں قبول کر لیں گے؟
    میرے سر پر تو گویا کسی نے بم پھوڑ دیا تھا۔ میں حیرت سے اچھل پڑا۔

    (یہ سچی داستان ابھی جاری ہے)

    کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

    کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

  • نماز میں دھیان نہ لگنا سب کا مسئلہ، حل کیا ہے؟ نیر تاباں

    نماز میں دھیان نہ لگنا سب کا مسئلہ، حل کیا ہے؟ نیر تاباں

    نماز میں دھیان نہ لگنا ہم میں سے اکثریت کا مسئلہ ہے۔ نماز دین کا اہم ترین رکن ہے، باقی تمام ارکان سے زیادہ دہرایا جانے والا رکن، اور مؤمن اور کافر کے مابین فرق کرنے والی چیز بھی ہے لیکن ایسا کیا کیا جائے کہ نماز کا خشوع و خضوع بن سکے اور برقرار رہ سکے۔ اس میں مختلف آزمودہ نسخے آپ کے ساتھ شیئر کروں گی۔ انہی پر ایک ایک کر کے عمل کرنا ہے۔

    1- سب سے پہلی بات تو یہ کہ عربی ہماری اپنی زبان نہیں۔ اگر ہم اللہ سے ہم کلام ہیں لیکن کیا بات کہہ رہے ہیں، یہی معلوم نہ ہو تو بڑی قباحت ہے۔ سب سے پہلی اور سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ نماز کا لفظی ترجمہ پڑھیں تا کہ جب آپ عربی الفاظ ادا کریں تو آپ کے ذہن میں ان کے معنی ہوں۔ اس سے ان شاء اللہ نماز میں دھیان بنانے میں بہت مدد ملے گی۔

    2- ہم لوگ روز ایک کھانا نہیں کھا سکتے، ایک ہی کپڑے ہر وقت زیب تن نہیں کر سکتے، اپنے پسندیدہ ڈرامے کا پسندیدہ سین بھی کچھ دفعہ دیکھنے کے بعد اکتا جاتے ہیں لیکن بچپن کی یاد کی ہوئی نماز، وہی سورتیں وہی دعائیں پڑھ پڑھ کر ہم آج تک بیزار نہیں ہوئے۔ تو نماز میں دھیان برقرار رکھنے کے لیے نت نئی چھوٹی چھوٹی سورتیں اور مسنون دعائیں یاد کرنا شروع کریں۔ سورۃ الفاتحہ سے پہلے بھی، بعد میں بھی، رکوع و سجود میں بھی آپ بدل بدل کر مسنون طریقے پر دعائیں نماز میں شامل کر سکتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بچپن سے جو رٹا لگایا، آج تک اس میں کوئی نئی سورت اور دعا شامل نہیں کی۔ اب حالت یہ ہے کہ رٹا اتنا پکا ہو گیا ہے کہ شاید نیم بےہوشی میں بھی نہ بھولیں 🙂 جب آپ الفاتحہ کے بعد قل ھو اللہ احد کا رٹا رٹایا سبق شروع کرنے کے بجائے انا اعطینک الکوثر بولیں گے، اگلی نماز میں الھکم التکاثر، اس سے اگلی میں والعصر پڑھیں گے اور اسی طرح رکوع میں سبحان ربی العظیم کا رٹا بولنے کے بجائے رکوع کی کوئی اور مسنون دعا پڑھیں گے تو دھیان نماز میں ہی رہے کہ اچھا اب اس بار کون سی دعا پڑھنی ہے۔

    3- اس حوالے سے ایک صحیح حدیث بہت اہم ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ آپ تصور کریں کہ آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اتنا تو ضرور ہی تصور کر لیں کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ یقین کریں کہ یہ احساس آتے ہی تنے ہوئے تمام اعصاب ڈھیلے ہو جاتے ہیں، تیز تیز پڑھنے کے بجائے بندہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہے، بھاگم بھاگ سجدے کرنے کے بجائے آرام سے سجود کو انجوائے کرتا ہے کیونکہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں بھی ان کو عین حاضر ناظر جان کر سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر نہ تو بار بار گلہ کھنکھارتے ہیں، نہ بار بار ناک کھجاتے ہیں۔ صرف میرا رب اور میں! سبحان اللہ!

    عمل کی بات کے اسباق چھوٹے رکھنے کی نیت تھی، لیکن یہ ٹاپک ایسا ہے کہ اس کو تھوڑا تفصیل سے بتانا پڑا۔ تو آج سے عمل میں نماز کے حوالے سے جو چیزیں ایک ایک کر کے شامل کرنی ہیں، وہ ہیں:
    1۔ نماز کا ترجمہ دھیان سے پڑھنا ہے۔
    2- چھوٹی چھوٹی سورتیں اور رکوع و سجود کی مختلف مسنون دعائیں یاد کرنی اور پھر بدل بدل کر پڑھنی ہیں۔
    3- تصور میں لانا ہے کہ میں اللہ تعالی کے عین سامنے یہ نماز ادا کر رہی/رہا ہوں اور اللہ تعالی مجھے اس وقت نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

  • ڈاکٹرز ہڑتال کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    ڈاکٹرز ہڑتال کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

    میو اسپتال بچہ وارڈ میڈیکل ایمرجنسی میں میری نائٹ ڈیوٹی تھی .. ہیوی ٹرن اوور تھا. کھوے سے کھوا چل رہا تھا .. ایک ہاؤس آفیسر، ایک میڈیکل آفیسر اور ایک سینئر رجسٹرار دو نرسز کے ساتھ میڈیکل ایمرجنسی سنبھال رہی تھیں. اتفاق سے سارا سٹاف خواتین پر مشتمل تھا. صرف ایمرجنسی کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار مرد تھا.

    رات کے دو اڑھائی بجے ایک تین سالہ بچی کو جھٹکوں اور تیز بخار کے ساتھ اسپتال لایا گیا. خوبصورت اور فربہی مائل صحت مند بچی بےہوشی، بخار اور جھٹکوں میں مبتلا تھی. پریشان حال روتی دھوتی ماں، پریشان اور غصیلا باپ اور چار پانچ درباری قسم کے رشتے دار بچی کے ساتھ تھے. ویل آف سیاسی قسم کی فیملی لگ رہی تھی جو رات کے اس پہر کوئی پرائیویٹ ڈاکٹر نہ ملنے کے باعث میو اسپتال کا رخ کرنے پر مجبور ہوئی تھی. درباری رشتے داروں کو چوکیدار نےگیٹ پر روکا لیکن وہ ایم ایس سے تعلق کا حوالہ دے کر اندر گھس آئے .. ایمرجنسی کا چھوٹا سا کمرہ مریضوں سے بھرا ہوتا ہے، اس میں بچوں کے ساتھ ایک فرد کو کھڑا ہونے کی اجازت ہوتی ہے، جبکہ اس بچی کے ساتھ چھ سات لوگ اندر آ گئے تھے. بچی کو فوری طور پر ڈیوٹی ہاؤس آفیسر اور نرس نے اٹینڈ کیا جبکہ ایم او بھی ساتھ موجود تھی. اگر آپ لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو بچے کو کینولا لگانا ایک مشکل کام ہوتا ہے خصوصا ایک فربہ بچے کو جو جھٹکے بھی لے رہا ہو، اگر اس کے اٹینڈنٹس ڈاکٹر کو سوئی چبھونے کی اجازت بھی نہ دے رہے ہوں تو کینولا لگانا مزید مشکل ہو جاتا ہے. بچی کے ہاتھ کی طرف سوئی بعد میں بڑھتی تھی، پریشان حال ماں بچی کا بازو اپنی طرف پہلے کھینچ لیتی تھی. جھٹکے شدید ہوتے جا رہے تھے. غصیلے اور عدم تعاون پر آمادہ اٹینڈنٹس .. رات گئے کا وقت .. چوکیدار نے سینئر رجسٹرار صاحبہ کو بھی کال کر لیا. خدا خدا کر کے بچی کو کینولا پاس کرنے میں کامیابی ہوئی .. دوا دی گئی اور بچی کے جھٹکے رکے تو سب نے سکون کا سانس لیا ..

    اسی وقت میرے کندھے پر ایک غیر دوستانہ دستک ہوئی .. میں ڈیوٹی ہاؤس آفیسر تھی جو کینولا لگانے کی سب سے زیادہ ماہر مانی جاتی تھی، اس روز بھی کینولا میں نے ہی لگایا تھا، اور بچی کے جھٹکے کنٹرول ہوتے دیکھ کر بےحد خوش تھی .. خیر اس دستک کے جواب میں پلٹ کر دیکھا تو ایک درباری اٹینڈنٹ جسے بچی کے باپ کے سامنے کارروائی دکھانے کا کوئی موقع نصیب نہیں ہوا تھا، اس نے اپنی کمر سے لگا ہولسٹر اور گن دکھاتے ہوئے سلطان راہی کے انداز میں مجھے ایک ڈائیلاگ سے نوازا ..
    ”اگر آج تم ہماری بچی کا علاج نہ کرتی تو صبح تمہیں نوکری سے فارغ کروا دیتا . ایم ایس میرا رشتے دار ہے.“
    اتنی عمدہ تعریف اور حوصلہ افزائی پر مجھ سمیت تمام ڈاکٹرز کا دماغ گھوم گیا لیکن کچھ بولنے سے پہلے ہی چوکیدار نے اسے پکڑا، اور بزور باہر لے گیا. اس کے بعد ہماری ایس آر نے بچی کے والدین اور تمام وارڈ کے سامنے ایک جوشیلی جذباتی تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم ایک رات اور ایک دن میں سینکڑوں بچوں کی جان بچاتے ہیں. ایسے برے رویے کے حقدار ہم نہیں. اگلی صبح مارننگ میٹنگ میں رات کے واقعہ پر بحث ہوئی اور وارڈ سکیورٹی بڑھا دی گئی. اس واقعہ سے ڈاکٹرز خوفزدہ بھی تھے اور کام کرنے کا جذبہ بھی خوف و طیش کے ملے جلے جذبات کی آڑ میں چھپ سا گیا تھا .. لیکن پروفیسر صاحب اور سینئیرز کی حوصلہ افزائی کے بعد کام بلاتعطل جاری رہا..

    یہ واقعہ آج کل جاری ڈاکٹرز کی ہڑتال کے تناظر میں یاد آ گیا .. جہاں جذباتی اٹینڈنٹس اپنے غصے اور طاقت کا غلط استعمال کر کے ڈاکٹرز کا تعاون کھو دیتے ہیں. ڈاکٹر آپ کا دوست اور ساتھی ہے، آپ کی صحت اس کا مقصد ہے لیکن وہ ایک انسان ہے، آپ کا بےدام غلام نہیں. باہمی عزت و احترام پر دو طرف سے ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے.

    ڈاکٹرز کو اپنی بات سنانے کے لیے ہڑتال کرنا پڑی .. ایمرجنسی میں کام جاری تھا لیکن ریپورٹڈلی ایک ڈی ایم ایس صاحب پستول لہرا کر ایمرجنسی کے ڈاکٹرز کو دھمکاتے رہے. ینگ ڈاکٹر سے زیادہ انرجی اور کام کا جذبہ کسی میں نہیں ہوتا لیکن خوف و دہشت کے سائے میں گن پوائنٹ پر کیا کسی سے کوئی کام لے سکتا ہے؟ اگر دو ہفتے سے اسپتال کا آؤٹ ڈور اور ان ڈور بند ہے تو یہ انتظامیہ کی بد ترین نااہلی کا مظہر ہے.

    ینگ ڈاکٹرز کو بھی ہمدردی سے کام لیتے ہوئے غیر مشروط طور پر ایمرجنسی ڈیوٹیز کو سنبھال لینا چاہیے .. بےشک بطور احتجاج کالی پٹیاں باندھے رکھیں اور انتظامیہ کو بھی ڈاکٹرز کی خاطرخواہ دل جوئی اور حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے.

    ایک عام آدمی سے میرا سوال ہے کہ یہ نوجوان ڈاکٹر آپ کا بیٹا بیٹی یا چھوٹا بھائی بہن ہوتا اور اس کو مریض کے رشتے دار جان کی دھمکی دیتے یا پستول سے دھمکاتے تو آپ اپنی بہن کو اگلے روز مسیحائی کے لیے بھیجتے یا اسے تب تک کام پر جانے دیتے جب تک اس کی حفاظت کا یقینی بندوبست نہ کر دیا جاتا..

    میری تمام ینگ ڈاکٹرز سے درخواست ہے کہ وہ اپنےاعلی تعلیم و تربیت یافتہ ہونے کا ثبوت دیں اور مریض کے سوشل اسٹیٹس سے قطع نظر عزت و ہمدردی کا سلوک روا رکھیں ..
    اسی طرح عوام سے درخواست ہے کہ وہ بھی ڈاکٹر کو مشکل مصیبت اور تکلیف میں کام آنے والا مخلص اور ہمدرد دوست مانیں اور اس کو عزت دیں..

  • ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا

    ڈاکو مسیحا – حنیف سمانا

    اٹھارہ بیس سال درس گاہوں میں جھک مارنا ………. اپنے والدین کے لاکھوں روپے جھونک دینا … مسلمان کے گھر پیدا ہونا … گھروں میں قرآن شریف کی موجودگی … محلے میں بیسیوں مسجدوں اور مدرسوں کا ہونا …. صبح شام مؤذنوں کی چیخ و پکار سننا …… آس پاس اتنی ساری دینی جماعتوں کا ہونا .
    اور اس سب سے نکلتا کیا ہے؟
    ایک ایسا ڈاکٹر ………….
    کہ جو اپنے دنیاوی فائدے کے لیے ہڑتال کرے اور ایک معصوم بچی کو سسک سسک کے مرتا دیکھے .
    لعنت ہے ایسی پڑھائی لکھائی پر ………. ایسی درس گاہوں پر …. ایسے ماحول پر ……
    کہ جو ایک اچھا انسان تخلیق نہ کر سکے ….
    کہ جس میں احساس ہو ……. انسانیت ہو ……. مروت ہو …. شرم ہو …….. حیا ہو ……. جو کسی کو تکلیف میں دیکھے تو اپنی ضرورتیں بھول جائے .
    ارے دولت ہی کمانی تھی تو اس مقدس پیشے میں کیوں آئے تھے؟
    بن جاتے چور، ڈاکو ، اسمگلر، سیاستدان …….. کوئی ٹٹ پونجیے دکاندار ………. حلیم کی یا بریانی کی دیگ لگالیتے……… مل جاتے پیسے .
    اب اس پیشے میں آئے ہو تو قربانی دو … اپنے مسیحا ہونے کا ثبوت دو .
    یہ کیا کہ اپنے مفاد کے لیے آئے دن ہڑتالیں ……… احتجاج .
    اگر اپنے مسائل اوپر تک پہچانے کے لیے ہڑتال ضروری بھی ہو…. تو پھر بھی ہر ہسپتال کی ایمرجنسی میں کام نہیں رکنا چاہیے .
    یہ بحیثیت ڈاکٹر ………… مسلمان …………… اور انسان آپ پر فرض ہے کہ آپ تکلیف میں لوگوں کی مدد کرو .
    کچھ شرم کرو کس کے ماننے والے ہو ……… جو بلی کے بچے کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے .
    تم انسان کے بچے کو مرتا چھوڑ آئے .