Category: دنیائے اسلام

  • جب گنبدَ خضراء پہ وہ پہلی نظر گئی. قاضی حارث

    جب گنبدَ خضراء پہ وہ پہلی نظر گئی. قاضی حارث

    “جب گنبد خضراء پہ وہ پہلی نظر گئی”
    از
    قاضی محمد حارث
    سیڑھیوں سے اوپر چڑھتے ہی پہلا قدم مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کے صحن میں پڑا۔ سامنے ہی گنبد خضراء اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ مجمع خلائق بنا ہوا تھا۔
    رمضان کا مہینہ تھا، عاشقوں کا ہجوم تھا۔
    میں آہستہ آہستہ “باب السلام” کی طرف بڑھ رہا تھا۔
    ایک ایک قدم من من بھر کا ہورہا تھا۔ اور آنکھوں سے اشک رواں تھے، دل یوں دھڑکتا تھا جیسے سینہ ہی پھاڑ ڈالے گا۔
    باب السلام سے داخل ہوکر میں بھی اس ہجوم میں شامل ہوگیا جس میں نہ جانے کتنے اولیاء، مقربین، صدیقین ہونگے۔
    اس دربار میں حاضری ہونے جارہی تھی جس میں ابوبکر بھی دو زانو ہو کر بیٹھتے تھے، وہی ابو بکر جس نے پیر کے انگوٹھے پر سانپ کاٹ لینے کے باوجود سرور کائنات کو جگانا گوارا نہ کیا۔
    یہ وہی مجلس تھی جس میں عمر جیسا جریئ اور بہادر شخص بھی آنسو بہاتا کندھے ڈھلکا دیتا تھا۔
    جی ہاں اسی مجلس میں ذو النورین عثمان اور شیر خدا علی ہوتے تھے۔
    اس محفل میں بلال حبشی ہوتے تھے جو گرم ریت پر بھی “احد احد” کہتے نہ تھکتے تھے۔
    قاضی حارث!!! تیری اوقات ہی کیا ہے؟
    کس منہ سے جائیگا ان کے سامنے؟
    تیرے توشے میں کیا رکھا ہے؟
    اگر عرض کیا: قاضی محمد حارث ہوں، سلام پیش کرنے آیا ہوں،
    اور جواب آیا: کون قاضی حارث؟
    تو کیا کرے گا؟
    پھر کس کے پاس جائے گا؟
    طوفان بپا تھا سینے میں۔
    حضور معافی!! حضور معافی!!
    نظر اٹھی، سامنے محراب پر پڑی:
    جلی حروف میں عربی میں حدیث لکھی ہوئی تھی:
    قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: “شفاعتی لاہل الکبائر من امتی”۔
    محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری شفاعت میری امت کے بڑے گناہ کرنے والوں کیلیئے (بھی) ہوگی۔
    آہ!!!! جو رویا ہوں پھوٹ پھوٹ کر!!!
    زخموں پر مرہم رکھ دیا میرے آقا! آپ نے!
    ان الفاظ نے میرے مرے ہوئے قدموں کو زندگی عطا کی۔
    میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا وہاں گیا
    اور کیوں نہ جاتا؟ کہ آسرا بھی وہیں تھا۔
    پھر محسوس ہوا کہ وہ جگہ انوارات کا منبع ہے۔
    کوئی خالی ہاتھ نہیں آتا۔
    حاضری ہوئی اور الحمد للہ بھرپور حاضری ہوئی۔
    دروازے سے نکلا تو دل میں یہ الفاظ تھے:
    قاضی صاحب! اب تک کی زندگی ضائع ہی کی تھی۔
    بقول ہمارے استاد ڈاکٹر مظہر حامد کے:
    دنیا میں رہے مظہر اور اس کو نہیں دیکھا
    کیا فائدہ آنکھوں کا، کس کام کی بینائی؟

  • مراد نبی علیہ السلام, خلیفہ ثانی عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ.

    مراد نبی علیہ السلام, خلیفہ ثانی عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ.

    حضرت حمزہ رضی اللہ عنہہ کے اسلام لانے کے بعد ابو جہل ، ابو لہب ، امیہ ، عتبہ سب لوگ سناٹے میں آگئے تھے ان کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب مسلمانوں سے کیسے نمٹا جاۓ، بازار میں بھی جہاں دو آدمی کھڑے ہوتے گفتگو کا موضوع یہی ہوتا کبھی باآواز بلند ، کبھی سرگوشیوں کے انداز میں ۔ کسی میں ھمت نہیں تھی کہ وہ حمزہ جیسے بہادر سے ٹکر لے، تین روز ہو چکے تھے حمزہ کو اسلام لاۓ ، یہ مسلمانوں کے لیئے سکون کے دن تھے …مگر انہیں پتا تھا کہ یہ دور رھے گا نہیں، ھمارے دشمن ضرور کویئ نہ کویئ چال سوچ رھے ہوں گے مگر اس وقت طوفان تھم گیا تھا ، اگر کویئ راہ میں مل بھی جاتا ، منہ پھیر لیتا ، ناک بھوں چڑھا لیتا مگر کہتا کچھ نہیں ۔
    غموں پر غم سہنے کی تو مسلمانوں کو عادت سی ہوگیئ تھی مگر خوشی پر خوشی مسلمانوں کے لیئے نیئ بات تھے ، ابھی حضرت حمزہ کے قبول اسلام پر اللہ کا شکر ہی ادا کر رھے تھے کہ مکے کی گلیوں میں 1 شخص نظر آیا ، آنکھوں میں خون اترا ہوا ، ہاتھ میں ننگی تلوار لہراتا ، اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلتا ، وہ اعلان کر کے آیا تھا کہ آج وہ ایک ضرب میں قریش مکہ کی ساری پریشانیاں دور کر دے گا ،یہ مہم جو نوجوان اتنا طویل القامت تھا کہ کھڑے کھڑے گھوڑے پر سوار ہو جاتا تھا ، مزاج سنجیدہ مگر غصیلا ۔ پیشہ باز نطین سے پتھروں اور مصالحوں کی تجارت ۔ عمر چھبیس 26 سال ،
    جس وقت یہ نوجوان مکے کی گلیوں سے گزر رہا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں تھے ، ابو قبیس کی پہاڑی کے دامن میں حمر کعبہ کے نزدیک ، ارقم رضی اللہ کا گھر کچھ عرصے سے مسلمانوں کی مسجد بھی تھا اور پناہ گاہ بھی ، چند صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہہ کھڑکی سے باہر دیکھ رھے تھے کہ انہیں وہ نظر آیا ۔ اس وقت اس کے تیور دیکھے تو بلال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا ، حضرت بلال کا خیال تھا وہ یہ خبر سنتے ہی فورا کچھ حفاظتی انتظامات کا حکم دیں گے مگر انھوں نے نہایت دھیرج سے جواب دیا :
    “اس کے مجھ تک پہنچنے کے وقت کا انتخاب اللہ پاک کرے گا”
    بلال واپس کھڑکی کے باس دوڑ کے گئے ، وہ تلوار لیئے چلا آرہا تھا ، سیدھا مسلمانوں کی طرف ، بلال نے پھر عرض کی :
    “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ نے وقت کا انتخاب کر دیا ھے ۔ وہ آگیا ھے” ۔
    یہ سن کر حضرت حمزہ نے کہا :
    “آنے دو ، اگر نیک نیتی سے آیا ھے خیر ورنہ اسی کی تلوار سے اسکا سر قلم کر دیا جاۓ گا” ۔
    سب مسلمان چوکنے ہو کر بیٹھ گئے ، حضرت بلال نے چولہے ہر دیگچا رکھا تھا جس میں پانی کھول رہا تھا ، بلال نے دل میں سوچا اگر خدانخواستہ ضرورت پڑی تو شاید یہ بھی کام آجاۓ ، ویسے بھی مسلمانوں کو حضرت حمزہ کی موجودگی سے بڑا حوصلہ تھا !
    حجرت بلال پھر کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے ، وہ لمبا تڑنگا نوجوان اب مسلمانوں کے دروازے سے کویئ پچاس قدم کے فاصلے پر ہوگا ۔ اتنے میں بلال نے دیکھا کہ ایک ضعیف آدمی جسکی پشت بلال کی جانب تھی اسکے سامنے آکھڑا ہوا ۔ بلال کو لگا کویئ بھکاری ھے ۔ یہ بھکاری بھی مانگتے وقت کویئ موقع محل نہیں دیکھتے ۔ یہ شمشیر بکف نوجوان اپنی غصیلی طبیعت کے باوجود ایک مخیر انسان تھا لیکن اس نے اس بوڑھے کو دینے کے بجاۓ اسے جنجھوڑ کر راستے سے ہٹا دیا ، پھر پتا نہیں کیسی کیسی قسمیں کھا کر چلایا :
    “میں اس بد نصیب عورت کے ٹکڑوں کر ڈالوں گا ”
    پھر دیکھا کہ وہ یکایک مڑا اور الٹے پاؤں اسی راستے پر چلا گیا جدھر سے آیا تھا ۔ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا لگتا تھا جیسے اس کے اندر کویئ عفریت داخل ہو گیا ھے ۔
    بظاہر خطرہ ٹل گیا تھا مگر بلال کا دل گواہی دے رہا تھا کہ آج بات یہیں ختم نہیں ہوگی ۔ وہ اس نوجوان سے واقف تھے ، سارا مکہ اسے جانتا تھا ، وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو کسی کام کا عزم کرنے کے بعد اسے ادھورا چھوڑ دیتے ہیں ، چناچہ حضرت بلال کھڑکی کے پاس انتظار کرتے رھے ، اتنے میں حضرت بلال نے دیکھا کہ وہی بزرگ چلے آرھے ہیں جنہوں نے اس نوجوان کا راستہ روکا تھا اور جنہیں وہ بھکاری سمجھ رھے تھے ، یہ مکے کے درمیانے درجے کے تاجر تھے ، نعیم بن عبداللہ جو کچھ عرصہ پہلے مسلمان ہو چکے تھے ، مگر اسکا اعلان نہیں کیا تھا ۔۔ وہ دراوزے سے داخل ہوتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گیئے اور انہیں اس نوجوان سے ملاقات کا ماجرہ سنایا کہنے لگے : “میں نے باہر گلی میں اس کو ہاتھ میں تلوار لیئے ادھر آتے دیکھا تو پوچھا کہ تلوار کیوں میان سے نکال رکھی ھے ، اسنے جواب دیا اسکو قتل کرنے کے لیئے جس نے قریش میں تفرقہ ڈال رکھا ھے ۔ میں نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو ، اس پر وہ نہایت غضب ناک ہو کر پوچھنے لگا کون سے گھر کی ؟ میں اپنے مسلمان ساتھیوں کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس صورت حال میں مجھے کچھ نہ سوجھا۔ میں نے کہ دیا اپنی بہن اور بہنویئ کی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاچکے ہیں ، یہ سنتے ہی اسکے تن بدن میں آگ لگ گیئ ، اسنے مجھے جھنجھوڑ کے پرے کیا اور اپنی بہن کے گھر کی طرف مڑ گیا ، شدید اشتعال کے عالم میں چیختا چلاتا اور اپنی بہن کے قتل کی دھمکیاں دیتا ، اللہ ان دونوں میاں بیوی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ! ”
    اس نوجوان کے اسی اشتعال کا مظاہرہ حضرت بلال نے دور سے دیکھا تھا ، نعیم کی روداد سن کر سب مسلمان اپنے ساتھیوں کی خیریت کی دعایئں مانگ رھے تھے کہ اتنے میں بلال نے کھڑکی سے دیکھا کہ وہ نوجوان دوبارہ چلا آرھا ھے ۔ کھنچی ہوی تلوار اب بھی اسکے ہاتھ میں تھی ، حضرت بلال نے بھاگ کر دروازہ بند کر دیا اور چٹخنی لگا دی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا صورت حال کا اندازہ لگا لیا ، وہ فورا اٹھ کھڑے ہوۓ اور بلال کو کہنے لگے :
    “دروازہ کیوں بند کر دیا بلال ؟
    بلال نے کہا :
    “وہ پھر آ رہا ھے تلوار لہراتا ہوا ”
    حضور صلی اللہ علیہ نے ایک لمھے کےلیئے بلال کو خاموش نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا :
    “پیغمبر کا دروازہ کسی کے لیئے بند نہیں ہوتا ، اللہ سے ڈرو بلال اور دروازہ کھول دو ‘۔
    یہ کہ کر وہ کمرے کے وسط میں جا کر کھڑے ہو گئے ، سارے صحابی بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوۓ ، حسب حکم بلال دروازہ کھولنے کے لیئے پہنچے ہی تھے کہ باہر سے دستک سنایئ دی ۔ نوجوان تلوار کے دستے سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا، حضرت بلال نے فورا دروازہ کھول دیا ۔ اب جو مسلمانوں نےدیکھا اس پر آج تک یقین نہ آیا ، وہ جھک کر دروازے سے داخل ہوا ۔ اسکے اندر قدم رکھتے ہی رسول اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور اسکا دامن جھٹک کر اس سے پوچھا :
    ، کس ارادے سے آۓ ہو ؟
    ساری کایئنات کی قوت سمٹ آیئ تھی اس مختصر سے سوال میں ، نوجوان سر سے لے کر پاؤں تک لرز گیا ، اسنے رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہا۔ پھر پیچھے کھڑے حاضرین کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہا ، اس کے بعد اس نے نظریں نیچے کر لیں اور اپنی تلوار کو دیکھتا ریا ، اسکے اندر ایک ہیجان پرپا تھا ، ایک لاوا تھا جو پھٹ پڑنے کے لیئے تیار تھا ، سب صحابہ کی نظریں اس پر جمی تھیں ، یکایک اسنے تلوار ہاتھ سے گرا دی اور کہنے لگا :
    “میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کویئ معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول ہیں ”
    یہ سنتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور انکے ساتھ مل کر سب صحابہ نے اتنے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ ابو قبیس کی چٹانیں گونج اٹھیں ۔
    جانتے ہیں یہ نوجوان کون تھا یہ نوجوان وہ تھا جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے مانگا تھا ، یہ مراد رسول تھے
    جن کے نام سے آج بھی کفر کو لرزہ چڑھ جاتا ہے یہ حضرت عمر فاروق بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہہ تھے جہنوں نے چالیس ویں نمبر پر اسلام قبول کیا

    (ماخوذ ، حیات الصحابہ )
    ایڈمن قاضی حارث

  • گوگل، فیس بک اور امریکہ کا مظلوموں کے خلاف اتحاد – غلام نبی مدنی

    گوگل، فیس بک اور امریکہ کا مظلوموں کے خلاف اتحاد – غلام نبی مدنی

    غلام نبی مدنی ’’میرا گھر میری روح ہے۔ اسرائیل نے مجھ سے میرا گھر چھین لیا۔ میں اپنے بچوں کو لے کر کہاں جاؤں گا؟ کیسے سانس لوں گا؟ میں تنہا ان سے کیسے لڑوں؟ آج میں اس قدر کمزور ہوگیا کہ میں اپنی روح کو بچانے کے لیے بس فریاد کر رہا ہوں‘‘۔
    یہ الفاظ50 سالہ ایک مظلوم فلسطینی مسلمان کے ہیں، جنہوں نے اپنے آبائی گھر کے اسرائیلی غاصبوں کے قبضے کے خلاف ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے مسلمان بھائیوں سے اپنے دکھوں کی دوا کے لیے فریاد کی۔

    المیہ ہے کہ امت مسلمہ پچھلے سترسالوں سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کچھ نہ کرسکی۔ 1946ء میں بحر احمر سے لے کر شمال میں بحر متوسط تک کی ساری پٹی، مصر سے لے کر اردن اور شام کی حدود تک سارا علاقہ فلسطینی مسلمانوں کے پاس تھا۔ اسرائیلی یہودی شمال تک محدود تھے جبکہ اِس وقت صرف غزہ کی چھوٹی سی پٹی، اور مغربی کنارہ جس کا رقبہ 5655 سکوائر کلومیٹر ہے، اس میں بھی صرف 18 فیصد زمین فلسطینیوں کے پاس ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے توفلسطین پر اسرائیل کے قبضے کی عملا ابتدا 1855ء میں اس وقت شروع ہوئی جب عثمانی فرمانروا نے فلسطین بالخصوص ’’قدس‘‘ کی زمین فروخت کرنے کے لیے پابندی اٹھائی، اور مشہور برطانوی یہودی بینکار ’’موسی مونٹیفوری‘‘ نے امریکی یہودی سے مل کر، قدس میں غیر مسلم شخص سے ایک باغ اور پھر ایک بہت بڑا پلاٹ خریدا۔ یہ جگہ آج بھی یہودیوں کے ہاں ’’دیوار مقدس‘‘ کے قریب دوسری مقدس جگہ ہے۔ پھر رفتہ رفتہ یہودیوں کی آبادی فلسطین میں بڑھتی گئی اور 1948ء میں برطانیہ کے آشیرباد سے یہودیوں نے ’’ریاست در ریاست‘‘ کے تحت اسرائیل نام سے فلسطینی ریاست میں اپنی ’’غاصب ریاست‘‘ کا اعلان کردیا، جس کے ساتھ ہی فلسطین میں انسانیت کی تذلیل کا بھیانک کھیل شروع ہوگیا۔

    افسوس کہ اُس وقت امت مسلمہ باہمی رسہ کشیوں میں مصروف رہی اور اسلامی ممالک کے حکمران محض اپنی کرسیاں بچانے کے لیے رسمی مذمتی بیانات سے زیادہ کچھ نہ کرسکے۔بجا کہ پاکستان سمیت اقوام متحدہ کے ممبر 31 ممالک نے اسرائیل کو اب تک تسلیم نہیں کیا۔ لیکن ایک طرف اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا اور دوسری طرف اسرائیل کے اتحادی امریکہ اور برطانیہ سے قریبی دوستی، ( اسرائیل کو امریکہ کی طرف سے حالیہ دنوں دی جانے والی 38 بلین امریکی ڈالرز کی فوجی امداد جو لامحالہ اسرائیل فلسطینی مظلوموں پر گولہ بارود گرانے میں استعمال کرے گا) اس پر خاموشی سے، یقینا اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ممالک کی اصل حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ سفارتی تعلقات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر اپنے نظریے، سوچ، عقیدے حتی کہ اپنے مسلمان بھائیوں کو قربان کرکے تعلقات بنانا پست اور کمزور قوموں کی علامت ہے۔ اسرائیل کو دی جانے والی حالیہ امریکی امداد پر او آئی سی ایسی اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیموں کی خاموشی بھی بے بسی کی علامت ہے، جس سے اسرائیلی جارحیت کو مزید پھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔

    عالم اسلام کی مشترکہ بےحسی اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ دوماہ پہلے دنیا کے مشہور سرچ انجن گوگل، جو دنیامیں نقشہ جات کے حوالے سے گوگل میپس کے ذریعے منفرد اور آسان سہولت فراہم کرتا ہے، اور جسے پوری دنیا میں استعمال کیا جا رہا ہے، نے فلسطین کو دنیا کے نقشے سے غائب کرکے سارا علاقہ اسرائیل میں شامل دکھایا۔گوگل کا یہ دوہرا سلوک ہنوز برقرار ہے۔ اسی طرح چند دن پہلے سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ فیس بک سے اسرائیل نے ایک معاہدہ کیا، جس میں اسرائیلی وزیرداخلہ گلڈ اردن اور وزیر انصاف آئیلٹ شیکڈ نے فیس بک انتظامیہ سے میٹنگ کی، اور انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ فیس بک پر اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی مواد اپلوڈ کیا جائے یا فلسطین کی حمایت میں کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کا ڈیٹا اپلوڈ کرے تو اسے فورا ڈیلیٹ کردیا جائے۔ فیس بک انتظامیہ نے اسرائیل کو مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ آئیلٹ شیکڈ نے کہا کہ پچھلے چارہ ماہ میں اسرائیل مخالف مواد ہٹا نے کے لیے 158 درخواستیں فیس بک کو اور 13 درخواستیں یوٹیوب کو بھیجیں، جن کا 90 فیصد مثبت جواب ملا۔

    مذکورہ تین واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کس قدر بےحسی اور غفلت کا شکار ہے۔ امریکہ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بھی ملک کو 38 بلین ڈالرز کی فوجی امداد دی ہے، اس پر کسی اسلامی ملک کی طرف سے کوئی مذمت سامنے نہیں آئی۔ جب ہمارا یہ حال ہے تو دیگر غیرمسلم ممالک کیوں کر فلسطینی ایشو پر مسلمانوں کے حمایت کریں گے؟ اسرائیلی جنگی جرائم پوری دنیا کے سامنے ہیں کہ کیسے فلسطینیوں کو آئے روز گولیاں مارکر شہید کیا جاتاہے، کیسے ان کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کے منہ پر اسرائیل کو مزیددی جانے والی یہ امریکی امداد ایک طمانچہ ہے۔ پھر گوگل اور فیس بک انتظامیہ کا باوجود مساوات اور آزادی اظہار رائے کا نعرہ لگانے کے، اسرائیل کی حمایت میں فلسطینوں کے ساتھ دوہرا سلوک بدترین خیانت اور بھونڈے انداز میں تاریخ مسخ کرنے کا بھیانک حربہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

    فلسطین یعنی قبلہ اول کی حفاظت امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ تبھی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے لے کر صلاح الدین ایوبی ؒ تک مسلمانوں نے مل کر قبلہ اول کی سربلندی اور حفاظت کے لیے جان لڑائی۔ آج اگر ستر سالوں میں ہمارے سامنے فلسطین کے اکثر حصے پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا، تو شاید کل تک گریٹر اسرائیل کی حدود حرمین شریفین تک وسیع ہوجائیں، جو اسرائیل سے تقریبا پندرہ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یاد رہے کہ گریٹر اسرائیل کا یہ ہدف شام، عراق اور یمن کے راستے پھیلایا جا رہا ہے۔اس لیے بروقت جاگنا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کر بین الاقوامی میڈیا اور امریکہ تک سارے ذرائع اسرائیل استعمال کررہاہے، تو پھر کیوں عالم اسلام بالخصوص او آئی سی دنیا کے دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر امریکہ اور اسرائیل کے حالیہ گٹھ جوڑ کے خلاف اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آواز بلند نہیں کرتا؟ بحیثیت مسلمان یہ ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں اور قبلہ اول کی حفاظت و مدد کرے ،ان پر کیے جانے والے مظالم دنیا کے سامنے آشکار کرے، اور گوگل، فیس بک، یوٹیوب سمیت امریکہ اور اقوام متحدہ کے فلسطینی مظلوموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے دوہرے سلوک کو واضح کرے۔

  • سات لاکھ کا جانور۔ قاضی حارث

    سات لاکھ کا جانور۔ قاضی حارث

    خیرو چاچا سندھ کے ایک دور افتادہ گاؤں میں ایک زمیندار کے پاس مزارع کے طور پر کام کیا کرتے تھے، انکی تنخواہ بہت تھوڑی تھی اور خیر سے اللہ نے یکے بعد دیگرے پانچ سال میں انکو چار بیٹیوں سے بھی نواز دیا تھا، بیٹیوں کی فکر نے انکو وقت سے پہلے بوڑھا اور انکے بڑھاپے نے بچیوں کو وقت سے پہلے جوان کردیا۔ تنخواہ میں مشکل سے گزارا ہوتا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح وہ تھوڑے بہت پیسے روزانہ کی دہاڑی سے نکال کر اپنے اس پیارے بچھڑے کی خوراک میں ضرور خرچ کرتے جو دو سال پہلے انہوں نے سائیں اکرم سے خریدا تھا جو سب کچھ اونے پونے داموں بیچ کر شہر چلا گیا تھا۔ دو سال میں یہ بچھڑا پورے گاؤں میں مشہور ہوگیا تھا۔ اسکی صحت قابل رشک تھی جسکا راز وہ خوراک تھی جو خیرو چاچا اور انکے گھر والے خود نہ کھا کر اسے دیتے۔
    برابر والے گاؤں میں خیرو چاچا کے دو بھائی رہتے تھے۔ اچانک ہی دونوں ادھر آدھمکے۔ کہ رہے تھے عرصہ ہوا ملاقات کو، دل کیا تو چلے آئے۔
    بچیوں کا بھی دل بہل گیا۔ رہے تو وہ پندرہ دن لیکن یہ دن اتنی تیزی سے گزرے کہ احساس ہی نہ ہوا۔ چاچا خیرو کی بچیوں کے سگھڑپن سے دونوں بھائی اور انکی بیویاں اتنی متاثر ہوئیں کہ جاتے سمے دونوں نے اپنے دو دو بیٹوں کیلیئے چاروں کا رشتہ مانگ لیا، بلکہ اگلے سال کے دوسرے مہینے میں بیاہ کا عندیہ بھی دے دیا۔
    چاچا کیلیئے یہ ایک بہت بڑی خوشی کی خبر تھی لیکن دیکھنے میں آیا کہ چاچا کی کمر مزید جھک گئی ، بیگم نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ جہیز اور شادی کے اخراجات کیلیئے دمڑی بھی پاس نہیں ہے، بات ہی ایسی تھی کہ بیگم بھی افسردہ ہوگئی۔
    خیر سے عید کے کچھ روز پہلے چاچا کے دماغ میں یہی خیال آیا کہ اب انکو اپنی بچیوں کیلیئے اپنے بچھڑے کی قربانی دینی ہوگی۔ لیکن کیا یہ قربانی سودمند ہوگی بھی یا نہیں؟ یہ دھڑکا دل میں لیئے چاچا اپنا بچھڑا لیکر شہر کی منڈی آئے۔ گاہک آتے جانور دیکھتے لیکن اتنا مہنگا جانور کون خریدتا بھلا؟ منڈی خالی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ چاند رات آگئی۔ چاچا کے چہرے پر مایوسی کے ڈیرے تھے۔ اتنے میں چند لوگ ایک قیمتی گاڑی میں منڈی کے اندر تک چلے آئے، چاچا کے جانور کے سامنے گاڑی رُکی، شیشہ اُترا۔ پوچھا گیا، کتنے کا دو گے؟
    چاچا نے کہا سات لاکھ! شیشہ بند ہوگیا۔ چاچا نے سوچا کہ کاش پانچ ہی بول دیتا، اتنے میں شیشہ پھر اترا۔ ایک ہاتھ باہر آیا اس میں ایک بیگ تھا۔
    “گن لو! پورے ہیں! عمران! جانور کیلیئے ٹرک کا بند و بست کرلو۔ تین دن بعد بہت مشکل سے جانور پسند آیا ہے، اور میں اللہ کی راہ میں پسندیدہ چیز قربان کرنا چاہتا ہوں۔”
    پھر کیا ہوا؟؟؟
    پھر اگلے مہینے چاچا کی بیٹیاں دمکتے چہروں کے ساتھ پیا دیس سدھار گئیں۔
    چاچا کی محنت وصول ہوگئی
    ڈاکٹر صاحب کی قربانی بھی ہوگئی
    اور دیسی لبرل ہاتھ ملتے رہ گئے۔
    از
    قاضی حارث

  • کیا تمام انسان خسارے میں ہیں؟… فرخ سعید

    کیا تمام انسان خسارے میں ہیں؟… فرخ سعید

    بے شک انسان خسارے میں ہے. سورہ عصر
    اللہ رب العزت نے جب تخلیق آدم کا تذکرہ فرشتوں سے کیا تو انہوں نے سوال کیا کہ اے ہمارے رب کیا تو ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو تیری نافرمانی اور زمین میں فساد کرے گی؟
    تو خالق کائنات نے جواب دے کہ اے فرشتوں جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے!
    تخلیق آدم ہوئی اور اسکی افزائش کا سلسلہ جاری و ساری رہا اور بالاخر پیغمبر آخر زماں جناب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور اللہ پاک نے آپ علیہ سلام پر قرآن مجید کا نزول شروع فرمایا اور زمانے کی قسم کھا کر سورہ عصر میں اعلان فرمادیا کہ تمام انسان خسارے میں ہیں۔ یہ اعلان سنتے ہی انسانوں کہ دماغ میں سوال پیدا ہوا کہ اے ہمارے پالنے والے! تمام انسانوں میں تو سیدنا آدم علیہ سلام سے نبی آخرزماں سیدنا محمد رسول اللہ بھی آتے ہیں۔ ان میں تیرے عبادت گزار ، صالحین، شہداء اور تجھ سے ڈرنے والے بھی آتے ہیں، کیا سب خسارے میں ہیں؟
    تو اللہ رب العزت نے کامیاب انسانوں کی چار صفات بیان فرمائیں اور قانون بنا دیا۔
    چناچہ اعلان ہوا کہ سب انسان خسارے مے ہیں سوائے ان لوگوں کہ جو ایمان لائے۔ گویا کہ اس اعلان نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ایک وہ جو اپنے خالق و مالک پر ایمان لائے اور اسکی توحید کا اقرار کیا، اور اسکے رسولوں اور انکی تعلیمات، فرشتوں، کتابوں، یوم جزا و سزا اور مرنے کے بعد دوبارا ذندہ ہونے پر ایمان لائے اور دوسرا وہ جنہوں نے سب کا انکار کیا اور اللہ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کیا اور نا فرمان کہلائے۔
    جو ایمان لائے انکے ذہن میں سوال آیا کہ کیا اب ہم کامیاب ہوگئے؟ تو خالق کائنات نے ارشاد فرمایا: تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔
    یہاں دوسرا قانون بتلایا گیا کہ مجھ پر ایمان لاکر میرے احکامات جو میرے رسولوں کے ذریعہ تم تک پہنچے ہیں ان پر عمل کرنا لازم ہے۔ رسول اللہ جس چیز کا حکم دیں اس پر عمل کرنا اور جس سے روک دیں اسے چھوڑ دینا لازم ہے۔ دین کے معاملے میں اگر و مگر، بدعات و رسومات کو چھوڑنا اوراللہ اور اسکے رسول کی اطاعت ضروری ہے۔
    سوال کا دائرہ وسیع ہوا کہ جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کرتے رہے کیا وہ کامیاب ہوگئے، تو ارشاد ربانی نے تیسرا اور چوتھا قانون بیان کیا کہ تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔
    گویا ایمان لاکر نیک اعمال کرنے والوں کو ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کی، کہ جو ایمان تمہارے دل میں اترا ہے اور جن اعمال سے تم نے اللہ کی رضا پائی ہے وہ اپنے تک محدود نہیں رکھنا، یہ پیغام و تبلیغ ان لوگوں تک پہنچانی ہے جو ایمان لائے پر اعمال صالح نہ کر پائے یا سرے سے ایمان کی نعمت ہی سے محروم رہے ان کو ایمان اور اعمال دونوں کی طرف لانا امت کے ہر اس فرد کی ذمہ داری ہے جو پہلے دونوں قانون اپنا چکا ہے۔
    یہاں اللہ رب العزت نے ایمان لاکر، اس پر عمل کرکے، حق بات کی تلقین کرنے والوں کو کامیابی کا چوتھا قانون سمجھا کر صبر جیسی عظیم صفت کو اپنانے کی تلقین کی، کہ جب تم ایمان لا کراعمال کرنے لگ جاؤ گے اور پھر اللہ اور اسکے رسول کا پیغام دنیا بھر میں پھیلاؤ گے توعالم کفر اور طاغوتی قووتیں تمہاری دشمن ہو جائینگی، تم شدت پسند بھی کہلاؤ گے اور غیر تہذیب یافتہ بھی۔ تم پر زمین تنگ کردی جائے گی۔
    جب تم اللہ اور اسکے رسول کے احکامات کو مضبوطی سے تھامو گے تو تمھارے اپنے بھی مولوی، صوفی اور طرح طرح کے القابات دے کر تمھارا مزاق اڑائیں گے اور تمہیں آج کی چالاک دنیا کا جاہل انسان قرار دینگے۔
    تو گویا پچھلے تین قوانین پر ثابت قدم رہنے کے لئے ضروری ہوگا کہ تم صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا اور بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
    بے شک جو ان چار قوانین کو اپنی زندگی و وجود پر لاگو کرگیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اللہ پاک ہمیں بھی ان پر عمل کرنے اور اپنے فضل سے کامیاب انسانوں کی فہرست میں شامل فرمائے۔ آمین

  • اندھا اعتماد…. ناد علی

    اندھا اعتماد…. ناد علی

    تحریر ناد علی
    یہ داستانِ عروج و زوال’ تخلیق کائنات یعنی ابتدائے آفرینش سے لے کر حیات بشر تک آتی ہے .
    پھر اشرف المخلوقات کا اعزاز سے پانے سے لے کر حیات انسانی میں پائی گئی نشانیوں کو’ اس داستانِ عروج و زوال کو بارہاں کلام پاک میں دہرایا جاتا ہے ..
    مگر کس لیے ؟
    لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہوتی یہ داستان تخلیق کچھ مزید پیچیدہ دکھائی دیتی ہے جیسے کہ کسی مٹیالن کے گہرے گھنے بال کہ جب انکی میڈھیاں بنائی جاتی ہیں تو سانس کچھ پل رکتی نظر آتی ہے …
    اشرف المخلوقات کو جو کہ اپنی پیدائش پہ نازاں نظر آتی ہے اسے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ
    هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ
    ھل استفہامیہ کے ساتھ جهنجوڑ کر یہ بات پوچھی جاتی ہیکہ کیا انسان پر وہ وقت وہ زمانہ نہیں گزرا ؟
    لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا
    کہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھا .
    پھر آخر ایسی کیا تغیر پزیری ہوئی حیات انسانی میں کہ وہ اپنے خالق یعنی مالک کن فیکون کا ہی انکار کر بیٹھا اور ظلم و بربریت کے وہ بازار گرم کیے کہ انسانیت سسکتی بلبلاتی اور پھر دم توڑتی نظر ائی .
    بازارِ نمائش حسن سے لے کر بازارِ قتل و غارت تک اس انسان نے جو صدیوں پہ محیط زمانے میں کوئی قابل ذکر شے نہ تها اس حیوان ناطق نے ایک لمحے کو بهی اس بازارِ نمود و نمائش کو سرد نہ پڑنے دیا ..
    اس داستان بے کراں میں عقل کو کبھی تو بیڑیاں ڈال کر زندان کی سیر کرائی گئی تو کبھی یونان میں سقراط کے ہاتھوں زہر کا پیالہ پینے پہ مجبور کیا گیا
    لاشعور سے شعور کا یہ سفر اس قدر اذیت ناک ہے کہ حیات انسانی خود ہی بلبلا اٹھتی ہے شعور انسانی کو کبھی تو بیچ بازار میں گھنگرو ڈال کے نچوایا گیا تو کبھی
    پیروں تلے روندا گیا …
    مگر کیا انسان نے پیدا ہونا چھوڑ دیا ؟
    یا عقل و شعور کو پابند سلاسل کرنے کے بعد عقل نے جنم نہ لیا ؟
    اگر ایسا نہیں تھا تو کوئی ایسا ذی حیات پیدا ہوا جو عقل کی بنیاد پہ سچ اور جھوٹ کی پرکھ کر سکے ؟
    کسی عقل نے کسی متجسس روح نے کسی خود شناس نے اس صنم خانے میں خدا کی ذات کو تلاش کیوں نہیں کیا ؟
    کوئی ایک شخص جس نے اپنی اور حیات انسانی کی ترجیح اول کو اس مسافر کی طرح ڈھونڈا جو صحرائے گوبی میں زندگی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے یا پھر کسی عقل نے توحید کی مئے غوروفکر سے چکھی ہو ؟
    یہ وہ سوالات ہیں جو مذہب پر بصورت الزام دھرے جاتے ہیں اور مذہب کو blind faith تصور کیا جاتا ہے
    مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا ایسا ہی ہے ؟
    تقریباً 2ہزار تین سو سال قبل از مسیح ابراہیم بن تارخ بن ناخور نے جس زمانے میں آنکھ کھولی وہ دور اپنے آباء و اجداد کے عقیدوں کی بقا کا دور تھا ہر شخص نے اپنا خدا بصورت بت خود تخلیق کیا ہوا تھا یہاں تک کے ابراہیم علیہ السلام جس خاندان میں پروان چڑھے وہ خاندان بذات خود بت فروش تھا ..
    ابراہیم نے اپنے ارد گرد بت فروشی سے لے کر بت پرستی تک کو دیکها مگر ایک دفعہ بھی کسی بت کے آگے نہیں جھکے..
    اسلام کو blind faith کہنے والے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ نو عمر ابراہیم اپنے بت فروش چچا کو یہ کہتے ہیں کہ
    لِمَ تَعْبُدُ مَا لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا..
    آپ کیوں معبود بناتے ہیں انکو جو نہ تو سنتے ہیں اور نہ ہی دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپکی کوئی مدد کرتے ہیں ..
    ابراہیم اپنی قوم سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں اور دلائل کی بنیاد پہ غوروفکر سے کام لیتے ہوئے انکی بت پرستی کو رد کرتے ہیں
    اس قوم میں صرف بت پرست ہی نہیں پائے جاتے بلکہ ایک کثیر تعداد ستارہ پرست’ چاند کو خدا ماننے والوں اور آگ برساتے سورج کو سجدہ کرنے والوں کی ہے .
    ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ لوگ بھی آتے ہیں اور اپنے مذہب کی دعوت دیتے ہیں ابراہیم مشاہدہ کرتے ہیں ستاروں اور چاند کا’ غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں
    بے شک میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا پھر سورج کی طرف نگاہ التفات کرتے ہیں شام تک کا مشاہدہ جب سورج کو ڈوبتا ہوا دکھاتا ہے تو پکار اٹھتے ہیں کہ میں بیزار ہوں تمہارے ان خداؤں سے …
    پهر نوبت بت شکنی تک پہنچتی ہے مگر وہ بهی ناصحانہ انداز میں بڑے بت کے علاوہ سبهی کو توڑتے ہیں اور قوم جب اپنے خداؤں کی حالت دیکهتی ہے تو ابراہیم سے پوچهتی ہے تو کس قدر تفکر میں ڈوبا ہوا جملہ ادا کرتے ہیں کہ پوچهو اپنے بڑے سے اسی نے توڑا ہوگا …
    قوم اپنے منہ سے خود کہتی ہے ابراہیم..! یہ تو بولنے والے نہیں بھلا یہ کہاں بتائیں گے ؟ ابراہیم کہتے ہیں تو کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو اپنی مدد آپ نہیں کر سکتے ؟
    اسلام کو blind faith کہنے والوں سے یہ سوال کرنا مناسب ہوگا کہ کیا اپ نے کبھی اپنے حریف سے اسکی شکت کا اعتراف اسی کی زبان سے کروایا ؟
    کیا ابراہیم کی یہ باتیں صرف جذبات ہیں محبوبانہ عقل کے سامنے ؟
    کیا یہ باتیں تفکر و تدبر پہ مبنی نہیں ہیں ؟
    یا پھر ناقدین اسلام بھی ایک اندھی تقلید میں پڑے ہیں جو ابراہیم کا نہیں ابراہیم کی قوم کا وطیرہ ہے …
    ہم پھر آگے دیکھتے ہیں ابراہیم کو دربار جاہ و جلال میں اس نمرود کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو جبر و قہر کا منبع نظر آتا ہے اور اپنے زعم میں خود ہی خدا بنا بیٹھا ہے
    تمام درباری سر جھکائے کھڑے ہیں دل دھک دھک کرنا بھول جاتے ہیں کہ جب عقیدوں کے پیمانے ٹوٹتے ہیں تو انسان پہلے ہی مر چکا ہوتا ہے
    مناظرہ شروع ہوتا ہے
    نمرود ابراہیم علیہ السلام سے سوال کرتا ہے
    کون ہے تمہارا رب ؟
    قال ابراہیم ربی الذی یحیی و یمیت
    ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ،
    اجسام میں موت و حیات کو پیدا کرتا ہے ، ایک بے جان نطفے سے ایک رقیق سیال مادے سے عدم سے وجود میں لاتا ہے، لا سے الا کرتا ہے نیست سے ہست میں بدلتا ہے..
    قال انا احی و امیت ..
    نمرود نے کہا میں زندہ کرتا اور مارتا ہوں .
    پھر بطور دلیل دو شخصوں کو بلاتا ہے ان میں سے جسے آزادی کا پروانہ تھمایا جا چکا تھا اسے قتل کرتا ہے اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہے..
    عقلمندوں پر ظاہر ہو چکا تھا کہ جواب ممکن نہیں مگر نمرود احمقانہ دلیل پیش کرتے ہوئے خود کو بچانے کی سعی کرتا ہے ..
    ابراہیم بولے اچھا ؟
    بےشک میرا اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے آپ اسکو مغرب سے لے آئیے ..
    فبھت الذی کفر ..
    کافر مبہوت ہو کہ رہ جاتا ہے ہوش اڑ جاتے ہیں
    آپ بس ایک لمحے کو خود کو دربار نمرود میں تصور کیجئے اور دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ ابراہیم کے دلائل’ ابراہیم کا دین اندھوں کا دین ہے ؟
    کیا ابراہیم کا دین بغیر سوچے سمجھے مفروضے قائم کرنے اور پھر ان پر ایمان لانے کا دین ہے ؟
    آپ کی شکست خوردہ نظر واپس لوٹ آئے گی
    مگر نشانیاں تو سوچنے والوں کے لیے ہیں ..
    اس ذی حیات کے لیے ہیں جو دی گئی عقل کو استعمال کرتا ہے سوچتا ہے سمجھتا ہے …
    نیٹشے کا یہ قول سنانے والے کہ
    ‘ if u wish to strive for peace of soul and happiness,
    Then Believe ,
    If u wish to to be disciple of truth ,
    Then inquire ‘
    ہمیں blind faith کا طعنہ دیتے ہیں
    مگر مصیبت در مصیبت یہ ہیکہ قرآن اٹھا کر نہیں دیکهتے
    کیا قرآن غوروفکر اور تحقیق سے منع کرتا ہے ؟
    قرآن کیا کہتا ہے
    ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت هذا باطلاً
    اور وہ جو زمین و آسمان کی خلقت کے رازوں کے بارے میں غوروفکر کرتے ہیں( اور کہتے ہیں) اے پالنے والے تونے انھیں بیکار خلق نہیں کیا ہے۔
    قرآن بھی تو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے تفکر و تدبر پہ آمادہ کرتا ہے اوندهے منہ آیتوں پہ پڑنے والوں کو چوپایوں سے بدتر کہتا ہے ..
    مگر یہ کہ اسے کوئی کھولے تو سہی سمجھے تو سہی
    یہاں تک تو تھا غیروں کا مسئلہ اور غیروں کی باتیں ..!
    مگر اس سب میں امت مسلمہ کا زوال کیوں ہے ؟
    زوال یوں ہیکہ
    یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
    صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
    ( علامہ اقبال علیہ الرحمہ)
    اور بقول پروفیسر احمد رفیق عقل جہاں رکتی ہے وہاں بت خانہ تخلیق کرتی ہے ہم نے اس تحفہ خداوندی عقل و شعور کو پس پشت ڈالا، ہم نے اپنے زعم میں فرقہ پرستی سے لے کر شخصیت پرستی تک چھوٹے چھوٹے بت خانے تخلیق کیے اور پھر اسی پہ ڈٹ گئے …
    واعظ نے ہمیں معجزوں اور تقدس کی دنیا میں گھمانے پہ اکتفا کیا
    نخیل و اعناب کے قصے اور حوروں کی جلوہ گری ہی دکھائی بس’
    فرقوں میں بانٹا اور خود مسند تقدس پہ براجمان ہو گئے اور ہم نے سہمے ہوئے یہ سب قبول کر لیا ..
    مگر کیا ابراہیم علیہ السلام کا دین صرف معجزوں کا دین تھا ؟
    ابراہیم علیہ السلام کا دین تو غوروفکر کا دین تھا ‘سوچ و بچار کر کے فیصلہ کرنے کا دین تھا
    تحقیق کا دین تھا’ اپنے اعتقاد کو مضبوط دلائل پہ قائم کرنے والوں کا دین تھا .
    ابراہیم علیہ السلام کا دین آیتوں پر اوندھے منہ پڑنے والوں کا دین نہی تھا blind faith والوں کا دین نہی تھا چمتکار و فریب روزگار کا دین نہی تھا ابراہیم کا دین اسلام تھا صرف اسلام ..
    مگر ہم نے کیا ظلم کیا اپنی جانوں پہ آج ہمارا دین کیا ہے ..؟
    آج ہمارا دین سنی ہے شیعہ ہے وہابی ہے دیوبندی ہے اہل حدیث ہے نہی ہے تو اسلام نہیں
    اب یہ ہیکہ
    یہ زوال ختم نہیں ہونا یہاں تک کہ فرقوں سے آگے نکل کر ہم دین ابراہیمی پہ اپنی دلیلوں کو استوار نہ کر لیں عقل و شعور کا ادراک کر کے اسے جانچ نہ لیں .
    ہم جس دن اسلام کی اصل کو لوٹے وہ امت مسلمہ کے زوال کا آخری دن ہوگا
    کہ
    اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغِ زندگی
    تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن.

  • کیا کافر نیک اعمال کرکے بھی جہنم کے حقدار ہیں؟… قاضی محمد حارث

    کیا کافر نیک اعمال کرکے بھی جہنم کے حقدار ہیں؟… قاضی محمد حارث

    کیا کافر نیک اعمال کرکے بھی جہنم کے حقدار ہیں؟ … از قاضی حارث
    ……
    سوال کیا: “کفار نیک اعمال کرکے بھی جہنم میں کیوں جائینگے؟؟
    کفار نے انسانوں کیلیئے اتنی ایجادات کی ہیں کیا آخرت میں انکو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا؟
    جواب: پہلے چند باتوں کو سمجھئے پھر جواب کی طرف آجائینگے۔.
    پہلی بات: خلود الگ شے ہے دخول الگ شے ہے. دخول مطلب داخل ہونا اور خلود مطلب ہمیشہ رہنا۔
    دوسری بات: ایمان پر موت سے خلود فی النار ممکن نہیں رہتا لیکن دخول ممکن ہوتا ہے۔.
    تیسری بات: کفر پر موت (معاذ اللہ) سے دخول کے ساتھ ساتھ خلود لازم ہوجاتا ہے.
    چوتھی بات: معلوم ہوا کہ صرف ایمان لانے سے عذاب سے بچا نہیں جاسکتا اگر اعمال خراب ہوں تب بھی عذاب سے گزرا جاسکتا ہے.
    پانچوی بات: کفر پر عذاب الگ ہے اور اعمال شنیعہ پر عذاب الگ.
    اب جواب سمجھیئے:
    دیکھیئے! مسلمان اگر برے اعمال کرے تو برے اعمال کی سزا بھگت کر جنت میں چلا جائے گا یعنی دخول تو ہوسکتا ہے لیکن خلود نہ ہوگا۔
    کافر اگر غلط اعمال نہ کرے تو جہنم میں کفر کا عذاب تو اس کو دیا جائے گا لیکن غلط اعمال کا نہ دیا جائے گا۔
    بلکہ اگر اچھے اعمال کرے تو بھی جنت میں اس وجہ سے نہ جا پائے گا کیونکہ جنت کی چابی یعنی ایمان نہیں تھا۔ یہی قران کی آیۃ
    “لن تغنی عنھم اموالھم ولا اولادھم”
    کا مفھوم ہے کہ کافروں کو انکے مال اور اولاد کام نہ آئینگے۔
    البتہ اگر کافر اچھے اعمال کرے تو عین ممکن ہے کہ کسی قدر عذاب میں تخفیف کردی جائے، اب دیکھا جائے گا کہ ایجادات اپنی آسانی یا معاش کیلیئے کی تھیں یا واقعی انسانیت کی خدمت کیلیئے کی تھیں؟ بالفرض اگر انسانیت کی خدمت کیلیئے کی تھیں تو عذاب میں کمی ممکن ہے لیکن اللہ کی مرضی سے مشروط ہے جیسا کہ احادیث میں آپ علیہ السلام کے چچا ابو طالب کے بارے میں آیا کہ حضور علیہ السلام کی مدد کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی اور آگ کا ایک جوتا پہنایا جائے گا۔
    الغرض ایمان جنت کی چابی ہے۔ یہ ہوگا تو جنت میں دخول ممکن ہے ورنہ نہیں، اب چاہے عذاب کم ہو یا زیادہ!!!

  • پرائیویٹ نمبر سے کال – قاضی محمد حارث

    پرائیویٹ نمبر سے کال – قاضی محمد حارث

    کل رات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کال موصول ہوئی
    اکثر کالز آتی ہیں
    لیکن بسا اوقات نیند کے غلبے کی وجہ سے پتا ہی نہیں لگ پاتیں
    یا پھر سستی کی وجہ سے ہم خود اٹینڈ نہیں کرتے۔
    کل والی کال بہت اہم تھی۔
    رات پونے چار بجے کا وقت تھا۔
    سوچا اس کال کو بھی”مسڈ“ کردوں
    صبح اٹھ کر “خود” کال کرلوں گا
    لیکن کال کرنے والے نے ہی ہمت دی اور اہمیت کا ایک خاص اندازہ دلایا۔
    اٹھا، تیاری پکڑی، مصلیٰ بچھایا۔ تہجد کی نیت کی۔
    سورہ فاتحہ پڑھتے ہوئے ایسا مزہ آیا کہ بیان سے باہر ہے۔
    پھر خود بخود سورہ ضحی پر ہونٹ چلنے لگے۔
    وَالضُّحَى
    قسم ہے وقت چاشت کی،
    [pullquote]وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى[/pullquote]

    قسم ہے رات کی جب پرسکون ہوجائے
    (مجھے ایسا لگا جیسے اللہ اسی وقت کی قسم کھا رہے ہوں، میرے ارد گرد رات کی تاریکی انتہائی پرسکون تھی)
    [pullquote]مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى [/pullquote]

    تیرے پروردگار نے نہ تجھے چھوڑا اور نہ تجھ سے بیزار ہوا
    (یہ آیت نازل تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلیئے ہوئی تھی لیکن مجھے ایسا لگا اس وقت اللہ مجھ سے مخاطب ہوں، میں گذشتہ کچھ دنوں سے بہت فرسٹریشن کا شکار تھا، ایسا لگتا تھا جیسے اللہ میری دعائیں نہیں سُن رہا، وہ مجھ سے ناراض ہے، اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ آیۃ پڑھتے ہوئے میں پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔)
    [pullquote]وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَى [/pullquote]

    تحقیق بعد کا دور تیرے لیئے بہتر ہے پہلے والے دور سے۔
    (یہاں اللہ نے مجھے تسلی دی کہ دنیاوی معاملات میں بظاہر بہتری نظر نہ آنا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ آنے والا دور اچھا ہے۔)
    [pullquote]وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَی[/pullquote]

    عنقریب تیرا پروردگار تجھے عطا کریگا پھر تو خوش ہوجائے گا۔
    (میں ابھی ہی سے خوش ہوگیا کہ میرے رب کا وعدہ ہوگیا تو سمجھو بس مِل گیا)
    [pullquote]أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى[/pullquote]

    کیا اس نے تجھے یتیم پایا تو ٹھکانہ نہ دیا؟
    (بلا شبہ دیا، میں دس سال کا تھا جب میرے والد کا انتقال کینسر کے مرض میں ہوا۔ آج چودہ سال گزر گئے ہیں ، الحمد للہ میرے اللہ نے مجھے بہترین حال میں رکھا ہوا ہے۔)
    [pullquote]وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى[/pullquote]

    اور تجھے پایا تھا متلاشی تو تجھے راہ نہ دکھائی؟
    (بلاشبہ دکھائی ،والد کے انتقال کے بعد ہمارے پورے گھرانے میں مذہب کی طرف رجحان پیدا ہوا، جس پر میں کہتا ہوں کہ یہ مہنگا سودا نہیں ہے )
    [pullquote]وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى[/pullquote]

    اور تجھے پایا تھا محتاج تو تجھے غنی نہ کیا؟
    (ضرور کیا، والد کے انتقال کے بعد ہمارے مالی حالات بہتر نہ تھے لیکن پھر اللہ نے بہتری دی، اب اللہ کا کرم بہت سوں سے بہتر ہیں)
    [pullquote]فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ[/pullquote]

    تو جو یتیم ہو اُسے دبانا مت!
    (یعنی اللہ مجھ سے یتیموں کی کفالت کا کام لینگے ان شاء اللہ)
    [pullquote]وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ[/pullquote]

    اور سوالی کو جِھڑکنا مت!
    (ایسا لگا جیسے اللہ کہہ رہے ہوں ، سوالی کو جِھڑکنے سے پہلے سوچ لینا کہ اگر ہم نے تمہیں جھڑک دیا تو کیا ہوگا؟)
    [pullquote]وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ[/pullquote]

    اور اپنے رب کی نعمت بیان کرو!
    (یہاں ایسا لگا جیسے اللہ کہہ رہے ہوں اس کیفیت کو لوگوں کو بتاؤ، کہ اللہ باتیں کرنے کیلیئے منتظر بیٹھا ہے۔
    وہ تو کال بھی کرتا ہے۔ ہم لوگ ریسیو نہیں کرتے۔
    یہ باتیں وہ ہم سب سے بیک وقت کرسکتا ہے، اور بہت سوں سے کرتا بھی ہے۔
    جو رات میں اللہ کے سامنے جھولی پھیلاتے ہیں تو دن میں وہ ان کو سب سے غنی کردیتا ہے۔
    اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ تو نے مجھے اتنے قیمتی مکالمے کیلیئے چُنا۔
    ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
    راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

  • اے امت کے جسم کے حصو! کامیابیاں مبارک ہوں- اسری غوری

    اے امت کے جسم کے حصو! کامیابیاں مبارک ہوں- اسری غوری

    اسری غوری خبر یہ تھی کہ الحمدللہ ثم الحمد للہ شام کے شہر حلب میں شامی مجاہدین نے بشاری اور روسی فوج کا گزشتہ دو سال سے کیا گیا محاصرہ توڑ دیا۔ داعش حسب روایت بشار اور روس کے خلاف لڑنے کے بجائے پیچھے سے حملے کرتی رہی. درد اور غم کی اس بستی میں یہ خبر اک امید کی کرن بن کر نمودار ہوئی اور غمزدہ چہروں پر خوشیاں بکھیر دیں.
    اللہ کا شکر بھی ادا کیا اور یہ احساس بھی ہوا کہ میرے آقائے دوجہاں نے اپنی امت کو جو اک جسم کی مانند کہا تو بےشک سچ کہا. ایسے مواقع پر اس کا احساس شدت سے ہوتا ہے. چاہے ہم کوسوں میل دور ہوں مگر اپنے مسلمان بہن بھائیوں پر ڈھائے گئے ظلم کو دل کی گہرائی سے محسوس کرتے ہیں.

    ہم بے بس ہوتے ہیں مگر
    بخدا تمھارے بہتے لہو کے ساتھ ہمارے بھی اشک بہتے ہیں
    ہماری دعائوں اور آہ و زاریوں میں تمھارا بھی حصہ رہتا ہے
    تم پر ڈھایا جانے والا ہر ظلم ہم اپنے دل پر محسوس کرتے ہیں
    تمھاری ہر چوٹ پر ہم بھی سسک سسک جاتے ہیں
    تمھارے بچوں کی اک اک سسکی ہمارے کانوں میں گونجتی اور نیندیں اڑا دیتی ہے

    شام میں ایٹمی و کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنتے ہزاروں تڑپتے دم توڑتے بچے ہمارے دن کا سکون اور رات کی نیندیں چھین لیتے ہیں
    تمھارے بچوں کی سمندری پانیوں پر پر تیرتی لاشیں ہمارے دلوں کو زخم زخم کردیتی ہیں.
    تمھارا جلتا ہوا ’حلب‘ ہمیں بے چین بے سکون کر دیتا ہے
    تمھیں فلسطین میں زخم لگتا ہے، ہم پاکستان میں تڑپ اٹھتے ہیں
    تم پر مصر میں ٹینک چڑھائے جاتے ہیں، ہمارے پاکستان میں صف ماتم بچھ جاتی ہے
    تمھاری اسماء بلتاجی شہید ہوتی ہے، یہاں ہماری مائیں اپنی بیٹی کو اسماء بنانے کی خواہش کرلیتی ہیں
    تمہھں برما میں زندہ جلایا جاتا ہے، اس آگ کی تپش ہمیں یہاں اپنے دل پر محسوس ہوتی ہے
    تم بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر لٹکائے جاتے ہو، ہم پاکستان میں بہتے اشکوں کے ساتھ تمھارے جنازے پڑھتے ہیں
    تم پر استنبول میں شب خون مارنے کی سازش ہوتی ہے، ہماری رات مصلے پر اس کی ناکامی کی دعائیں کرتے گزرتی ہے
    تمھارے لاشے کشمیر میں اٹھتے ہیں مگر کاندھے ہمارے بوجھ سے ٹوٹنے لگتے ہیں

    تمھارے دکھ جہاں ہمیں رلاتے ہیں، وہیں تمھاری تمہاری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوں یا بڑی فتح، ہمیں بھی خوشی سے نہال کر دیتی ہیں
    تمھاری فاطمہ مصر کے کالجوں میں اول آتی ہے اور اپنے اسیر والد کے ساتھ جیل میں اپنی خوشیاں شیئر کرنے جاتی ہے تو ہم بھی یہاں اس خوشی کا سرور محسوس کرتے ہیں
    تمھاری باغیوں کو کچل کر سازش کو ناکام بنانے کی فتح کی خوشی میں تم استنبول میں جشن مناتے ہو، ہم یہاں کراچی میں اس کا ساتھ دیتے ہیں
    تمھارے حلب میں ٹوٹتا محاصرہ ہمارے دلوں کو باغ باغ کر دیتا ہے

    پھر کون کہتا ہے کہ ہم تم سے الگ ہیں؟
    بخدا ہم تم سے ہرگز دور نہیں
    ہم ویسے ہی تمھارے درد پر تڑپتے ہیں جیسے ہاتھ کے درد میں آنکھ بہنے لگتی ہے
    جیسے کٹی ہوئی ٹانگ ہو تو جسم کا کوئی عضو نہیں سو پاتا، ہر اک ساتھ جاگتا، اور تکلیف میں اس کا ساتھ دیتا ہے۔
    ہم بھی تمھارے ساتھ ہیں
    ہمارے دل تمھارے لیے دعا گو ہیں
    اور ہمارے کان تمہاری فتح کے ہر دم منتظر
    ہماری آنکھیں تمھیں فتح یاب دیکھنے کی خواہش مند

    اے امت کے جسم کے حصو!
    تمہیں یہ کامیابیاں مبارک ہوں
    خدا تمھیں ہر قدم پر کامیاب و کامران ٹھہرائے. آمین

  • اُمت پر مسلط سیکولر قیادت کی تباہ کاریاں..  مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

    اُمت پر مسلط سیکولر قیادت کی تباہ کاریاں.. مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

    UMMAH1LogowithSlogan
    ۱۹۶۷ء میں اسرائیل سے عربوں کی شکست کے بعد مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے عالمِ عرب کے مختلف شہروں میں اہم تقریبات سے خطاب کیا، مولانا نے ان تقاریر میں عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے حقیقی المیہ اور اس کے اسباب کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو فرمائی، مولانا کی یہ تقاریر ’’عالمِ عربی کا المیہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں موجود ہے۔

    مولانا کی یہ تقاریر آج بھی سیکولر اور روشن خیال حکمرانوں کی نفسیات کے مطالعہ و تجزیہ اور اُمت کی بیداری کے سلسلہ میں اہم نوعیت کی حامل ہیں۔ ہم مولانا کی صرف دو تقاریر کی تلخیص پیش کر رہے ہیں۔

    واقعات سے سبق حاصل کرنے کی نفسیات

    حالیہ واقعات جو کسی توضیح و تشریح یا کسی حاشیہ آرائی کے محتاج نہیں، ہم میں سے ہر ایک اس کو اچھی طرح جانتا ہے، اس کی تلخی کو محسوس کرتا ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے میں بھی آپ لوگوں کے تمام مصائب و تکالیف میں شریک ہوں، ان حادثات کی اگر کوئی قیمت ہو سکتی ہے تو یہی کہ ہم ان سے سبق حاصل کریں اور ان سے صحیح، یقینی، صاف اور بے غبار نتائج اخذ کریں۔ یہ المناک حادثہ جس کی ہم نے اپنی عزت و وقار اور اپنے علاقہ سے بڑی سے بڑی قیمت ادا کی ہے، اس کا کوئی فائدہ اگر ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی روشن پہلو نکل سکتا ہے تو یہی کہ ہم اس سے عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کریں، میں اس کے اسباب کی تفصیل نہیں بیان کرنا چاہتا، نہ اس موضوع پر کوئی لمبی بات کرنا چاہتا ہوں، یہ بہت پامال اور مشہور و معروف موضوع ہے، ممکن ہے اس سے اُکتاہٹ پیدا ہو جائے۔

    ان المناک حادثات کا سب سے پہلا نتیجہ جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا ضروری ہے، یہ ہے کہ لادینی اور ملحدانہ قیادتیں ناکام ہو چکی ہیں۔

    لادینی اور ملحدانہ قیادتوں کی ناکامی

    ان حادثات نے روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ لادینی قیادتیں جو عربوں و مسلم اقوام پر مسلط ہو گئی تھیں، اپنے تجربہ میں ناکام ہو گئیں۔ اگرچہ میں اس کو تجربہ نہیں سمجھتا بلکہ یہ طے شدہ پروگرام، سوچے سمجھے منصوبے، دانستہ اور ارادی کارستانیوں اور سازشوں کا نتیجہ ہے۔

    یہ قیادت صرف فلسطین کا مسئلہ حل کرنے ہی میں ناکام نہیں ہوئی ہے بلکہ اپنی قوم کی سلامتی، اس کی حفاظت اور ملک کی عزت و وقار اور ان کے حدود کی حفاظت میں بھی ناکام رہی۔

    لادین قیادتوں کی طرف سے اپنے ترکش کے آخری تیر کا استعمال

    کہا جاسکتا ہے کہ ان ترقی پسندانہ نظریات پر مبنی قیادتوں کو کچھ رعایت ملنی چاہیے جو ترقی یافتہ، متمدن اور انقلابی عہد کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی کی کوشش کر رہی ہیں اور غیرمرئی اور غیبی عوامل کو تسلیم نہیں کرتیں بلکہ صرف موجود اور مرئی حقائق پر یقین و اعتماد رکھتی ہیں، ان کو اس کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ درپیش مسائل اور عرب قوم کی قیادت کے میدان میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ تو یہ بھی ہو چکا، اﷲ نے ان کو میدان میں آنے اور اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا پورا پورا موقع دیا، دانا و بینا پروردگار کی اس میں بھی ایک حکمت ہے کہ یہ قیادتیں اپنے ترکش کا آخری بہترین، تیز ترین اور قوی ترین تیر بھی استعمال کر کے دیکھ لیں، اﷲ کی مشیت یہ رہی کہ یہ قیادتیں ان تمام بہتر سے بہتر وسائل سے مستفید ہوں جن کا ذکر تاریخ کے کسی زمانہ میں بھی ملتا ہے یا جن تک فکرِ انسانی کی رسائی ہو سکتی ہے اور جن کا وجود روئے زمین پر ممکن ہے اور ان تمام اسلحہ سے لیس ہوں جن سے روئے زمین کی کوئی بھی طاقت بہرہ ور ہو رہی ہے، قدرت نے کسی چیز میں بخل نہیں کیا، ان کی آرزوئوں میں رکاوٹ نہیں ڈالی، رائے عامہ کی تشکیل، ادب و صحافت کے استعمال، اداروں کی تنظیم اور نظریات و خیالات کی ترویج و اشاعت کے لیے ان کو جدید، بہتر اور موثر ذرائع و وسائل مہیا کیے گئے، اﷲ کی حکمت بالغہ جس کی گہرائی اور گیرائی کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، کا تقاضا یہی تھا کہ وہ طاقتیں جو اپنے کو اس عہد کی قیادت کا اہل سمجھتی تھیں اور قوم کی رہنمائی کی دعوے دار تھیں، اس زمانہ کی بہترین ایجادات و اختراعات ان کی دسترس میں ہوں اور وہ ان کو استعمال کر کے بھی دیکھ لیں، قیادت کا میدان ان کے لیے خالی ہو اور بغیر کسی خطرہ یا رکاوٹ کے پورے ساز و سامان، ذہن و دماغ اور اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ ان کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملے لیکن اس کے باوجود ان کو انتہائی شرمناک شکست ہو۔ یہ مثال اگر انسانی تاریخ نہ کہا جائے تو بھی، کم از کم مسلم تاریخ میں نہیں ملتی۔

    امت پر جبراً غلبہ حاصل کرنے اور اپنے سردارﷺ سے رشتہ توڑنے والوں کا حشر

    محمدﷺ کے پیغام کی مخالفت کرنے والوں، آپ کی عالمی اور ابدی قیادت کو چیلنج کرنے والوں اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کا ہمیشہ یہی انجام ہوا ہے، قرآنِ کریم میں ہے کہ:

    ان شانئک ھو الابتر ’’بیشک آپؐ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہونے والا ہے‘‘۔

    اس آیت کو میں رسول اﷲﷺ سے بغض و حسد رکھنے والے اور آپ کی قیادت سے اختلاف کرنے والے قریش کے کسی اُجڈ اور اکھڑ شخص کے لیے مخصوص نہیں مانتا، اسی طرح ’’ابتر‘‘ میرے خیال میں صرف نسلی اور نسبی انقطاع ہی کا نام نہیں بلکہ اس کا مفہوم اس سے بہت وسیع ہے، اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ:

    ’’اے محمد(ﷺ) جو بھی آپ کا مخالف ہو، آپ سے دشمنی رکھے، آپ کی عالم گیر قیادت کو چیلنج کرے، آپ کی قیادت سے قوم کا تعلق منقطع کر کے ان کی گردنوں پر خود مسلط ہو جائے اور قوم کے ذہن و دماغ سے روحانیت کے مبارک عنصر کو خارج کرنا چاہے، اس کا انجام ہے بدتوفیقی ناکامی، ذلت، گمنامی اور بے نشانی‘‘۔

    یہی انجام ہوا مسلیمہ کذاب کا، اسود عنسی کا، طلیحہ اسدی کا، سجاح کا، ابو طاہر جنابی کا، عبید بن میمون کا، حسن بن صباح کا، بہاء اﷲ ایرانی اور غلام احمد قادیانی کا اور اسلام سے بغض و عداوت رکھنے والے انتہا پسند قوم پرست لیڈروں کا بھی ہر زمانہ میں یہی انجام ہوا ہے اور جو شخص بھی اس اُمت پر ناجائز طور سے اور زبردستی غلبہ حاصل کرے گا اور اُمت کو محمدﷺ کی ابدی قیادت سے الگ کرنے کی کوشش کرے گا، اس کا انجام بھی وہی ہو گا، قرآن نے جس کی خبر دی ہے اور تاریخ سے جس کی ابدیت ثابت ہے۔

    مفسرین کو اﷲ تعالیٰ جزاے خیر دے، انھوں نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے، اس کے اعتراف و احترام کے ساتھ میں اس آیت کے مفہوم کو اس قدر محدود نہیں سمجھتا، میرے نزدیک اس کا مفہوم وسیع ہے اور یہ آیت اعلان کرتی ہے کہ ’’محمدﷺ کے ہر حریف و رقیب اور آپ کی قیادت کو چیلنج کرنے والے ہر بدنصیب کا یہی انجام ہو گا‘‘۔

    تاریخ، عقلِ سلیم اور حوادث سے صحیح نتائج اخذ کرنے والا باشعور ذہن ان رہنمائوں کو اس ناکام تجربہ کو دوبارہ دہرانے کی اجازت اور اس کا موقع ہرگز نہیں دے سکتا، انسان کی انفرادی زندگی میں بھی ناکام تجربات کا دہرانا خطرناک ثابت ہوا کرتا ہے اور قوم کے قائدین کی غلطیوں کا اعادہ تو قوم کے مستقبل اور اس کے انجام کے لیے انفرادی زندگی کے محدود نقصان سے کہیں زیادہ مضرت رساں اور تکلیف دہ ہو گا۔

    چکنی چپڑی باتیں کرنے والے سیکولر حکمران اور ان کی سرگرمیوں کا نتیجہ

    خود غرض اور مفاد پرست رہنمائوں کا یہ طریقہ جو اپنے نفس کی پرستش اور اقتدار کی اونچی کرسیوں کے سامنے سجدہ ریزی کو اپنا شعور بنائے ہوئے ہیں جو اپنے اغراض اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں کسی بھی چیز کو معیوب نہیں سمجھتے، جنھیں نہ دین و مذہب کا خیال ہے، نہ انسانیت کا پاس، نہ افراد کی آزادی کا لحاظ، نہ آخرت پر یقین، نہ اپنے ذاتی فوائد کے سامنے کسی قومی و ملکی مصلحت کی فکر، نہ دوسروں کے خیالات و نظریات اور اصول و ضوابط پر اعتماد، نہ ان کا لحاظ جو خود ’’اعلیٰ اقتدار‘‘ اور افکار و نظریات کے بت تراشتے ہیں، پھر انہی کے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں اور ان کے سامنے رائے، کسی نظریہ کو خاطر میں نہیں لاتے، اس قسم کے رہنما اور سربراہ اپنی قوم کے گناہوں کا نتیجہ ہیں اور اس کی پاداش میں ان پر مسلط کر دیے گئے ہیں، قرآن ان کی صحیح اور سچی تصویر کشی کرتا ہے:

    ترجمہ: ’’بعض انسان ایسے ہیں جن کی بات دنیا کی زندگی میں بڑی بھلی لگتی ہے، وہ اپنے دل کی باتوں پر اﷲ کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہیں اور جب وہ قابو پاتے ہیں تو زمین میں ان کی سرگرمیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ اس میں فساد پھیلائیں اور جانوں اور کھیتوں کو برباد کریں اور اﷲ فساد پسند نہیں کرتا اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اﷲ سے ڈرو تو غرور ان کو گناہ پر آمادہ کرتا ہے، ان کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے‘‘۔ (البقرۃ:۲۰۴۔۲۰۶)

    ان لیڈروں کی اس سے بہتر اور سچی تصویر اور کیا ہو سکتی ہے؟ اس کا ایک ایک جزو ان پر منطبق ہو رہا ہے، ان کی چکنی چپڑی باتیں سنیے، انسانیت، آزادی، جمہوریت، اشتراکیت، انسانی حقوق اور معاشرتی انصاف جیسے موضوعات پر ان کی، ان کے حواریوں اور ان کے گرگوں کی رواں اور فصیح و بلیغ عبارتیں پڑھیے، عرب ممالک کے کسی بھی مرکز سے بہترین اور دل نواز نشریات سنیے، اخبارات میں شائع ہونے والی ان کی وجیہہ و شکیل تصویریں دیکھیے، آپ تعجب کریں گے کہ یہ وجیہہ اور بارعب سورما کیا اسرائیل سے شکست کھا سکتے ہیں؟

    اگر آپ قرآن کی تصدیق اور اس کی عملی تفسیر چاہتے ہیں تو ذرا اخبارات میں گذشتہ واقعات کی تفصیل پر ایک نظر ڈال لیجیے اور ان حادثات سے ان رہنمائوں کے دل و دماغ پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، اُن پر غور کیجیے اور اسی طرح قرآن کی یہ آیت پڑھیے:

    ترجمہ: ’’اگر تم ان کو دیکھو تو ان کے جسم تم کو بھلے لگیں گے اور وہ کچھ کہیں تو تم ان کی باتیں سنو گے جیسے وہ ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہر آواز ان ہی کے خلاف ہے، وہی دشمن ہیں، ان سے محتاط رہو‘‘۔ (المنافقون:۴)

    قرآن کی اس آیت میں ان کی صحیح اور حقیقی تصویر پوری طرح اور مجسم شکل میں آجاتی ہے، یہ قرآن کا ابدی معجزہ ہے۔

    حالیہ واقعات سے ملنے والا یہ دوسرا سبق ہے۔

    قرآن کہتا ہے کہ ’’جب یہ قابو پاتے ہیں تو ان کی ساری سرگرمیاں زمین میں فساد پھیلانے اور جان و مال برباد کرنے کے لیے ہوتی ہیں‘‘۔ ذرا ان ملکوں میں جان و مال کی بربادی پر نظر ڈالیے جہاں یہ خود سر اور خوفِ خدا سے آزاد حکمرں مسلط ہو گئے ہیں جو جدید فلسفوں اور شیطانی نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، انھوں نے اپنے ملکوں کو بالکل خالی کر دیا ہے جیسے موسمِ خزاں میں سرسبز و شاداب درخت پھولوں اور پتیوں سے بالکل خالی ہو جاتے ہیں، مصیبت کے مارے یہ ممالک بالکل ویران ہو گئے ہیں، تمام دینی و دنیاوی نعمتوں سے خالی ان میں نہ بڑے بڑے علما رہ گئے ہیں، نہ وہ ماہرین جن پر علاقہ فخر کرتا تھا۔ ان ممالک میں نہ آزادی ہے، نہ خود اعتمادی۔

    روشن خیال قیادت کا کارنامہ، قوم کو اس کی خوداعتمادی سے محروم کرنا

    خوداعتمادی جو انسان کی بہترین دولت ہے اور ہر زمانہ میں انسان اس سے متمتع ہوتا رہا ہے، یہاں تک کہ قدیم فرمانروائوں اور ظالموں نے بھی ان سے یہ دولت نہیں چھینی لیکن نام نہاد ’’جمہوریتوں‘‘ اور ’’ترقی پسند قیادتوں‘‘ نے مسلم اور عرب اقوام کو اس دولت سے بھی محروم کر دیا، ان کی خوداعتمادی جاتی رہی، ان کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے، نہ اپنی عقل پر، نہ اپنی کارگزاریوں پر۔ طالب علم میں اگر خوداعتمادی نہ ہو تو کتنا ہی ذہین ہو، امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکتا، فوج کا ایک سپاہی اگر تلوار نہ رکھتا ہو تو کوئی زیادہ فکر کی بات نہیں، بندوق نہ ہو، کوئی حرج نہیں، گولیاں ختم ہو جائیں، جب بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں لیکن اگر اسے اپنے اوپر اعتماد نہ ہو، اپنے اصول و نظریات پر اعتماد نہ ہو، اپنے دین پر اعتماد نہ ہو تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔

    اس قوم کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان یہی ہے جس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔

    اقوام و ملل کی مثال رواں دواں نہروں جیسی ہے، اس میں جھاگ اٹھتا ہے، پتھر آتے رہتے ہیں، لکڑیاں بھی بہتی رہتی ہیں اور نہر کی روانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔

    ترجمہ: ’’جھاگ خشک ہو کر اڑ جاتا ہے اور جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین پر ٹھہر جاتا ہے‘‘۔ (الرعد:۱۷)

    زندگی میں نہ مصائب و آلام کی چنداں اہمیت ہے، نہ شکست و ناکامی کی۔ اہمیت ہے قوم کی خودشناسی اور خوداعتمادی کی، ضمیر کی بیداری کی اور گرد و پیش کے صحیح شعور و ادراک کی۔

    لیکن جب قوم کا احساس اتنا مردہ ہو جائے کہ اسے فتح و شکست کا فرق ہی نہ محسوس ہو، اس کا شعور اتنا خام ہو کہ دوست و دشمن میں تمیز نہ کر سکے، اسے نہ دشمن سے عداوت ہو، نہ دوست سے محبت تو ایسی قوم خود ہی اپنے لیے خطرہ اور اپنے آپ کی دشمن بن جاتی ہے۔

    ہماری موجودہ قیادت نے ہم کو اس صلاحیت اور اس قوت کے خزانہ سے عاری اور بے بہرہ کر دیا ہے حالانکہ اسی کی بدولت ہم نے تاریخ کے ہر دور میں ایسے حملوں اور مصیبتوں کا سامنا کیا ہے کہ کسی دوسری قوم کو ان سے سابقہ پڑتا تو وہ صرف تاریخ کے صفحات کی زینت بن کر رہ جاتی لیکن اس امت نے پختہ ایمان، زندہ شعور اور اسی خوداعتمادی ہی کی وجہ سے تاریخ کے ہر موڑ پر بڑے بڑے مہیب اور مہلک حملوں کا مقابلہ کیا ہے، ایک شکست خوردہ فوج بھی اگر ایمان اور ایمانی و نبوی تربیت کے پیدا کردہ اسلحہ سے عاری نہ ہو تو اس کی اہمیت پست نہیں ہو سکتی اور بالآخر کامیابی اس کے قدم چومے گی، کیا آپ نے غزوۂ حمراء الاسد کا واقعہ نہیں پڑھا؟ رسول اﷲﷺ اور آپ کے اصحاب (رضوان اﷲ اجمعین) زخموں سے چور غزوۂ احد سے واپس ہوتے ہیں، انھوں نے ابھی میدانِ جنگ کی گرد بھی نہیں جھاڑی ہے، اسی کٹھن موقع پر رسول اﷲﷺ آگے بڑھ کر قریش سے دوبدو ہونے کا حکم دیتے ہیں، کامیابی کے نشہ میں جن کے دماغ آسمان پر پہنچ رہے تھے۔

    دنیا کی کسی بھی فوج کو اتنے زخم لگے ہوئے ہوں تو وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتی تھی لیکن وہ لوگ دوبارہ مقابلہ کے لیے بڑھے، اگرچہ مقابلہ نہیں ہوا کیونکہ قریشی الٹے پیروں واپس ہو گئے۔

    کشتی کے سوراخ کی صورت میں بچائو کی واحد صورت

    ان حوادث سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری زندگی غلط پٹری پر پڑ گئی ہے اور ضروت اس امر کی ہے کہ پہلی فرصت میں اس غلطی کو تلاش کر کے اس کی تلافی کریں۔ جب تک یہ غلطی باقی ہے، جب تک کشتی میں کوئی سوراخ ہے جس سے پانی اُبل رہا ہے، زندگی کی کشتی خطرہ سے باہر نہیں آ سکتی۔ آج عرب اقوام اور ان قیادتوں کی مثال اسی
    کشتی کے سواروں جیسی ہے جس کے پیندے میں سوراخ تھا اور پانی آرہا تھا لیکن کشتی کے سوار خیالی بحری قزاقوں سے بچنے کی فکر میں تو پریشان رہے لیکن اس سوراخ سے غافل رہے، ایسی کشتی اور ایسے سواروں کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟

    حکومتوں اور انسانی معاشرہ کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے، ایک قوم اٹھتی ہے اور ایک طاقتور اور شان و شوکت کی حکومت قائم کرتی ہے۔ ابتدا میں اُن کی طبائع پر جرأت، بہادری، استقلال اور متانت کا اثر غالب رہتا ہے، وہ دھن کے پکے اور محنت و مشقت کے عادی ہوتے ہیں، پھر ان میں کمزوری پیدا ہونے لگتی ہے، ان کی ہمتوں اور ان کے عزائم میں گھن لگ جاتا ہے، رفتہ رفتہ یہ روگ رگ رگ میں سرایت کر جاتا ہے، یہ قومیں ہوا و ہوس اور خواہشاتِ نفسانی کو چھوٹ دے دیتی ہیں، عیش و تنعم اور تفریحات کے وسائل و اسباب بہت زیادہ ہو جاتے ہیں، موسیقی، رقص و سرود، تصویریں و جنسی جذبات کو تسکین دینے والی دوسری اشیا کی کثرت ہو جاتی ہے، یہ انکی حکومت اور قومی عزت و شرف کا آخری وقت ہوتا ہے۔ اقبال نے اسی تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے:

    آ تجھ کو بتائوں میں تقدیرِ اُمم کیا ہے

    شمشیر و سناں اوّل، طائوس و رباب آخر

    جب پورا معاشرہ، پوری قوم اور حاکم طبقہ اس فساد کا شکار ہو جائے، وہ لہو و لعب، رقص و سرود اور عیش و عشرت میں ڈوبا رہے، ہنسی مذاق کو سنجیدگی اور متانت اور دل بہلانے والے کاموں کو بہادری، مردانگی، عزیمت اور استقلال پر ترجیح دینے لگے تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کیا ہو سکتا ہے۔