Category: دنیائے اسلام

  • خلافت بمقابلہ جمہوریت. فاروق الخطاب

    خلافت بمقابلہ جمہوریت. فاروق الخطاب

    آج بات کرتے ہیں خلفاء اور ان کے عجز و انکساری پر، انکی کفایت شعاری پر، ان کی خدا خوفی پر، انکے مخلوق کے لیئے سوچ رکھنے والی ذہنیت پر

    بات شروع ہوتی ہے خلیفہ اول امام وقت خلیفتہ الرسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے… آپ رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت اڑھائی سالوں پر محیط تھا. اس دوران آپ رضی اللہ عنہ کے زیر کمان خطہ عرب سے ارتداد کے فتنوں کو کچل دیا گیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ کی بھیجی ہوئی فوجوں نے جزیرۃ العرب سے کذابوں کا خاتمہ کر دیا تھا اور زکوٰۃ کے منکرین کے بھی ہوش ٹھکانے آگئے تھے، اسلام واپس اپنی آب و تاب کے ساتھ ویسے کا ویسے ہی عرب میں دوبارہ نافذ ہو گیا تھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں تھا، ناصرف عرب بلکہ آپ نے اپنی افواج یمن، عراق اور شام میں بھی بھیجیں جن کو دن دوگنی رات چونگی فتح و کامرانی نصیب آئی

    خلیفتہ الرسول رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو یہ حکم دیا کہ ان کو نئے کپڑوں کو دفن نا کیا جائے کیونکہ نئے کپڑوں پر زندہ مسلمانوں کا حق ہے، اس کی بجائے خلیفتہ الرسول رضی اللہ عنہ کو پرانے کپڑوں میں ہی دفن کیا جائے، آپ رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل کی گئی اور آپ کو پرانے کپڑوں میں ہی دفن کیا گیا

    وفات سے قبل خلیفتہ الرسول نے اپنی بیٹی ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا کہ “میری بیٹی میں خدا کے حضور اس حال میں نہیں پہنچنا چاہتا کہ میرے ذمے مسلمانوں کا مال ہو، میری موت کے بعد میری اونٹنی کو بیچ کر ملنے والی رقم خلیفہ کو بھجوا دینا تاکہ ان دو سالوں میں میں نے بیت المال سے تنخواہ کی مد میں جو رقم لی اسکو لوٹایا جا سکے” ام المومنین نے ایسا ہی کیا. جب رقم امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی تو آپ اتنا روئے کہ داڑھی تر ہوگئی اور بار بار یہ کہتے رہے “ائے ابوبکر اللہ آپ پر رحم کرے، آپ نے اپنے بعد آنے والے خلفاء کے لیئے کوئی گنجائش نا چھوڑی”

    خلیفہ ثانی، امام وقت امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب عراق کے بعد ایران اور شام کے علاقے فتح ہوتے گئے تو مال غنیمت کی مد میں مسلمانوں کے پاس دولتوں کے انبار لگنے لگے، مدینہ میں دولت کی ریل پیل ہونے لگی لیکن امیر المومنین تنگ دستی کی زندگی ہی گزارتے، وہ نمود و نمائش اور ظاہری دیکھ رکھ پر یقین نہیں رکھتے تھے اور ہر چیز کا حساب اللہ کے حضور دینے سے ڈرتے تھے

    دورِ خلافت عمر تھا، جمعہ کا دن تھا، لوگ مسجد میں جمع ہونا شروع ہوئے لیکن امیر المومنین جنہوں نے خطبہ دینا تھا، جماعت کروانی تھی وہ کہیں نظر نہیں آرہے تھے، انکو آنے میں دیر ہوگئی، کچھ دیر میں وہ تشریف لے آئے، لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ میں خدا کا خوف نہیں؟ دیر کیوں لگائی؟

    امیر المومنین بولے “خدا کی قسم میرے پاس اور کُرتا ہوتا تو وہ پہن کر آجاتا، یہی تھا، اسکو دھو کر سوکھنے کے لیئے ڈالا اور پھر پہن کر آیا اس لیئے دیر ہوگئی” اور لوگوں نے دیکھا کہ اس کُرتے پر بھی آٹھ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے

    جب اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو بیت القدس میں فتح نصیب فرمائی تو وعدے کے مطابق امیر المومنین شہر کی چابیاں لینے کے لیئے خود قدس تشریف لے گئے، اور وقت اس بات کا شاہد ہے کہ وہ امیر المومنین جن کے رعب و دبدبے سے عرب و عجم کانپتے تھے کوئی سرکاری وفد لے کر نا گئے بلکہ اپنے ساتھ اپنے غلام حضرت اسلم کو ساتھ رکھا، آپ کی سواری بھی بس ایک خچر تھی جس پر کبھی غلام سوار ہوتا تو کبھی امیر المومنین

    قدس کی سرحد پر پہنچے تو مسلمان وفد امیر المومنین کو لینے کے لیئے پہلے سے موجود تھا، جب وفد نے دیکھا کہ امیر المومنین کی سواری بھی عام سی ہے اور کپڑے کی عام سے ہیں تو تجویز پیش کی کہ سواری اور کپڑے تبدیل کر لیئے جائیں تاکہ کفار پر رعب و دبدبہ قائم کیا جا سکے، امیر المومنین نے تاریخی جملہ کہا کہ “ہم پہلے ذلیل و خوار تھے پھر اللہ نے ہمیں اسلام سے نوازہ، اسلام کی بدولت ہمیں عزت نصیب ہوئی، اب اگر ہم کسی اور چیز کے ذریعے عزت تلاش کریں گے تو ذلیل ہو جائیں گے”

    ہماری کتب احادیث سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ، سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدنا حسن المجتبی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں بھی ایسی ہی روایات سے بھری پڑیں ہیں

    امام وقت اور چھٹے خلیفہ راشد امیرالمومنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ منسب خلافت ملنے سے پہلے شہزادوں کی سی زندگی گزارنے کے عادی تھے، وہ جو خوبشو لگا کر کہیں سے گزرتے تو کئی پہروں بعد بھی لوگوں کو معلوم ہوتا کہ یہاں سے عمر بن عبدالعزیز گزرے، کپڑے خریدنے کے لیئے جب خادم کو بھیجتے تو حکم کرتے کہ دکان پر موجود سب سے مہنگا کپڑا لے کر آنا… ایسا شہزادہ جب منسب خلافت پر بیٹھتا ہے تو زندگی میں بلکل بدلاو آجاتا ہے

    اپنی اور اپنے رشتہ داروں کے نام سبھی جاگیریں بیت المال میں جمع کروا دی جاتی ہیں، بنو امیہ کے پاس جس دولت کے انبار لگ گئے تھے وہ لے کر واپس بیت المال میں دے دیتے ہیں، آپ بھی سنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی تنخواہ اتنی ہی رکھواتے ہیں جتنی ایک مزدور کی ہوتی ہے، آپ ذاتی استعمال کے لیے ایک جوڑا رکھ لیتے ہیں باقی سب بیت المال کے سپرد کر دیتے ہیں

    ایک مرتبہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ آپ کی بیٹیاں آپ سے بات کرتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیتیں، جب اس مد میں آپ نے سوال کیا تو بیٹیوں نے کہا “ابا آپ جو خرچہ لیتے ہیں اس سے ہم صرف پیاز کے ساتھ ہی روٹی کھا سکتے ہیں” امیر المومنین یہ سن کر رو دیئے اور کہا کہ بچو ادھر صبر کر جاو تاکہ اگلی دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے مجھے رسوا نا ہونا پڑے

    عید قریب آئی تو امیر المومنین نے بچوں نے نئے کپڑوں کی ضد کی، آپ کے پاس اتنی رقم نا تھی کہ نئے کپڑے خریدے جا سکتے، آپ نے بیت المال کے خزانچی کو کہا کہ اگر وہ آپ کو ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دیں تاکہ بچوں کے کپڑے سل سکیں تو خزانچی نے کہا رقم مل جائے گی اگر آپ لکھ دیں کہ اگلے ماہ آپ زندہ رہیں گے اور کارِ خلافت انجام دیتے رہیں گے

    یہ تو تھی خلافت راشدہ جو کہ بلکل نبوت کے طریق پر تھی اور جس کو ہم سب دوبارہ واپس چاہتے ہیں، اب بات کرتے ہیں وڈے دانشوروں کی ممدوح جمہوریت کے بارے میں

    یہاں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والا نواز شریف اپنی تقریب حلف برداری کے لیئے کروڑوں کی شیروانی سلواتا ہے، یہاں کا صدر جس کو پہننے کا ڈھنگ نہیں لاکھوں کے ملبوس زیب تن کرتا ہے، یہاں وزیر اعظم اپنا کھانا منگوانے کے لیئے خصوصی طور پر ہیلی کاپٹر روانہ کرتا ہے، یہاں کا وزیر فرماتا ہے کہ کرپشن پر ہمارا حق ہے، یہاں کرپشن کرنے والوں سے حساب مانگنا جرم ہے، باعث تذلیل ہے، یہاں زرداری جیسا کرپشن کا بے تاج بادشاہ جب وعدہ کر کہ مکر جاتا ہے تو کہتا ہے قرآن حدیث تو نہیں تھا جو پورا نہیں ہوا، یہاں مخالفوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کر کہ ووٹ لینے والے انہی کے ساتھ ظہرانے اڑاتے ہیں

    میاں… آپ کی ہمت کیسے ہوئی ان دو نظاموں کا آپس میں موازنہ کرنے کی اور پھر موازنے کے بعد جمہوریت کو بہتر کہنے کی، افیم کی ڈلی چوس لی آپ نے یا پکوڑوں میں بھنگ ڈال کر کھانا آپ کا مشغلہ ہے، یا پھر آپ سڑک کنارے بھنگ والی سردائی پی کر لکھتے لکھاتے ہیں؟ مشورہ یہی ہے کہ سستے نشے یا کسی بھی قسم کے نشے کو فلفور ترک کریں، تاریخ کی مسخ شدہ روایات پڑھنے کی بجائے کتب حدیث پر آئیں، آپ کو اصلی خلافت وہیں سے مل جائے گی

    تحریر: فاروق الخطاب

  • اسلام ایک دائمی دین ہے – علی احسن

    اسلام ایک دائمی دین ہے – علی احسن

    اسلام ایک دائمی دین ہے یہ ایک مزہب اور انسانی زندگی کے لیے مکمل سرو سامان اور ضابطہ حیات ہے۔ اسلام میں فرقہ پرستی، شخصیت پرستی،وطن پرستی،قبر پرستی نیز ہر قسم کی پرستش حرام ہے۔ پرستش صرف اللہ کی ہے اور پیروی نبی کریمﷺ اور صالحین کی ہے۔ صالحین کے لفظ پہ تنقید کے لیے یہ بات رکھیں کہ اِنسانی فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے کہ جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کی توفیق حاصل ہو جائے تو اس کی شخصیت اور کردار سے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسا پیار و محبت اور عقیدت و اِحترام شخصیت پرستی کے زُمرے میں نہیں آتا۔ بلکہ ایسے انسان سے عقیدت و محبت درحقیقت اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ اُنہی کے پیغام ہی کی برکت ہے کہ جس نے ایک عاجز اِنسان کو اِس قابل بنا ڈالا کہ دنیا کے لاکھوں لوگ اس سے محبت و عقیدت کا دم بھرتے ہیں۔ جماعتی و تحریکی محبتوں اور اِن جذبوں کے پیچھے درحقیقت اِسلام سے محبت ہی چھپی ہے۔ جو اللہ اور اللہ کا رسول دے وہ لے لینا چاہیے، کسی کو یہ مجال نہیں ہے کہ انکار کر
    سکیں اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جانا چاہئیے یہاں بھی تنقید اور وجوہات کے لیے چوچڑاں نہیں کرنی چاہیے۔

    ہمارے معاشرے میں جب بھی کسی بات سے رکے رہنے کا حکم آتا ہے تو تو علماء اور مولوی حضرات لوگوں کو رکنے مصلحت سمجھاتے ہوئے اتنا سمجھا دیتے ہیں کہہ جب لوگوں کو کوئی دلیل ملتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اچھائی ہے اس لئے تو پھر اسکو جائز ہونا چاہیے اس کے لیے میں صرف ایک واقع بیگم شہاب کا بیان کرتا ہوں کہ ایک دفعہ آپ لندن ائیرپورٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں آپکے پاس ایک فوجی بیٹھا تھا اس نے پوچھا کہ کیا آپ مسلمان ہیں. آپ نے کہا جی! تو اس نے کہا کہ: اسلام میں سور کا گوشت کھانا کیوں حرام ہے؟
    بیگم؛ کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے نہ کھانے کا حکم دیا ہے۔ فوجی بولا: اس حکم کے پیچھے دلیل کیا ہے؟ عفت نے کہا: آپ فوجی ہوکے حکم کا مفہوم نہیں جانتے؟حکم کی عظمت کو نہیں جانتے ؟ حکم مصلحت اور دلیل سے پاک ہوتا ہے۔

  • خلافت بمقابلہ جمہوریت. فاروق الخطاب

    خلافت بمقابلہ جمہوریت. فاروق الخطاب

    جی تو آج بات کرتے ہیں امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب الفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پڑنے والے قحط کے بارے میں:

    جزیرۃ العرب میں اسلام سے پہلے یعنی دور جاہلیت میں جب کبھی قحط پڑتا تو قبائل اپنے پاس جمع شدہ مال پر گزارہ کیا کرتے تھے اور جب ایک قبیلے کا ذخیرہ ختم ہو جاتا، گھروں میں بھوک ناچنے لگتی اور اپنی جانوں کے لالے پڑ جاتے تو لوگ اسلحہ سے لیس ہو کر دوسرے قبائل کو لوٹنے نکل پڑتے، تلواریں خون سے لال ہوجاتیں، بندے کٹ مر جاتے، مائیں بے اولاد ہوجاتیں، عورتیں بیوہ ہو جاتیں، بچے یتیم ہو جاتے پھر کہیں جا کر کچھ دن کا لوٹا ہوا راشن نصیب ہوتا، وہ راشن بھی بس اتنا ہی ہوتا کہ کچھ دن بعد پھر بات لوٹنے پر جا پہنچتی

    اس سب میں منافع خوروں کا کردار بھی نمایاں ہوتا، اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ کر دیا جاتا، خوراک تک رسائی صرف امیروں کو ہی ہوتی، غریب بیچارہ یا دوسرے قبائل کو لوٹتے ہوئے جان گنوا دیتا یا پھر گھر میں بیٹھے بلک بلک کر جان دے دیتا

    ایسے میں عرب میں طیبہ کا چاند صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چمکا، ہر طرف نور ہی کی برسات ہونے لگی، ایسی پرافروز ساعت پر لاکھوں سلام اور ایسے خوشنصیبوں پر سلام جنہوں نے ایسی ساعت سے اپنی آنکھوں کو منور کیا… دیکھتے ہی دیکھتے یہ نور پورے خطہ عرب میں پھیل گیا اور پوری آب و تاب سے قائم ہو گیا

    اسلام کے قیام کے بعد سب سے پہلا قحط سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پڑا، الحمدللہ ثمہ الحمدللہ امام وقت اور خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ نے ایسی کسی بھی گھڑی سے نمٹنے کے لیئے پہلے سے ہی انتظامات کر رکھے تھے، بیت المال میں اتنا کچھ موجود تھا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے پریشانی لاحق نا ہو سکے، کچھ عرصہ تو ایسے ہی گزر گیا لیکن قحط طول پکڑنے لگا امیر المومنین اور انکی شوری میں اضطراب بڑھنے لگا

    اس بار قحط پڑا تو اطمینان کا باعث یہ بات بنی کہ عرب قبائل ایک دوسرے سے نبردآزما ہونے کی بجائے مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اطراف پہنچنے لگے اور خیمہ زن ہوگئے، اہل حل و عقد کے لیئے یہ بات کسی کامیابی سے کم نا تھی اور ساتھ ہی یہ پریشانی بھی لاحق تھی کہ اگر خدانخواستہ قحط طول پکڑ گیا اور بیت المال ختم ہونے لگا تو کیا کیا جائے گا، خود امیر المومنین کا یہ عالم تھا کہ گوشت و دیگر “پرتکلف” کھانے بلکل چھوڑ کر سوکھی روٹی اور تیل کھا کر گزارا کیا کرتے تھے تاکہ ان کی وجہ سے کوئی بھوکا نا سو جائے، راتوں کو خیمہ بستیوں میں جاتے، اشیاء خورد و نوش پہنچاتے، لوگوں کے ساتھ کھانا پکاتے اور خود لوگوں کو کھلاتے

    اسی طرح امیر المومنین دوپہر کے وقت تپتی دھوپ میں آرام کرنے کی بجائے مسلمانوں کے معاملات دیکھنے کے لیئے گلیوں اور بازاروں میں پھرتے رہتے، حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرتے، ایک دن دوپہر کو امیر المومنین میدان میں پہنچے جہاں مسلمانوں کے اونٹ بندھے تھے، دیکھا کہ باقی اونٹ تو دبلے پتلے ہیں یعنی قحط کے آثار ان پر نمایاں ہیں لیکن ایک اونٹ موٹا تازہ ہے، حیرانگی کے عالم میں انہوں نے پتہ کروایا کہ یہ اونٹ امیر المومنین کے بیٹے سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ہے، آپ فوراً ابن عمر کے پاس پہنچے اور کہا کہ اونٹوں کے رکھوالوں نے تمہارے اونٹ کو میری حیثیت کا خیال رکھ کر کھلایا پلایا ہے اس لیئے مسلمانوں کا حق غصب ہوا ہے، ساتھ ہی نصیحت کی کہ اونٹ کو بیچ کر صرف قیمت خرید واپس لیں باقی کی رقم بیت المال میں جمع کروا دیں

    ایک بار امیر المومنین کے غلام حضرت اسلم نے گوشت بھون کر امیر المومنین کو پیش کیا تو امیر المومنین نے کھانے سے انکار کر دیا اور حکم دیا کہ اس گوشت کو مدینہ میں آ کر بسنے والوں کو دے دیا جائے، کافی عرصہ صرف سوکھی روٹی اور تیل پر گزارا کرنے کی وجہ سے امیر المومنین کے چہرے کی رنگت بھی زرد پڑنے لگی، انکی صحت بھی پہلے جیسی نا رہی، وہ راتوں کو اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے، رو رو کر داڑھی تر ہو جاتی، وہ کہتے کہ اگر مسلمانوں پر وبال عمر کے گناہوں کی وجہ سے آرہا ہے تو ائے اللہ عمر کو اٹھا لے تاکہ مسلمانوں کے اوپر سے یہ وبال جاتا رہے

    سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس تب وافر مقدار میں دولت موجود تھی، انہوں نے شام سے سینکڑوں اونٹ سامان سے لدے ہوئے منگوائے، جب اونٹ مدینہ کی سرحد پر پہنچنے لگے تو چند سرمایہ داروں اور منافع خوروں کی اس کی خبر جا پہنچی، سب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا پہنچے، کسی نے کہا عثمان یہ سب مجھے بیچ دو میں اس سب کا دوگناہ منافع دوں گا، کسی نے کہا مجھے دے دو میں تین گناہ منافع دوں گا یہاں تک کے بات سو گناہ منافع تک پہنچ گئی لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بضد رہے کہ انکو اس سے بھی زیادہ منافع مل رہا ہے، سب منافع خود مایوس ہو کر چلے گئے، اگلی صبح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کے حضور پہنچ کر اعلان کیا کہ مدینہ میں جس کسی کو بھی جتنا مال اپنی ضرورت کے لیئے درکار ہے وہ آکر حسب ضرورت بغیر کوئی رقم ادا کئے لے جائے، جب منافع خوروں نے کہا کہ آپ تو ایک سو گناہ منافع ٹھکرا کر کہتے تھے آپ کو زیادہ منافع مل رہا ہے اور اب یہ سب مال بغیر کسی منافع کے دے رہے ہیں تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اللہ تعالٰی سات سو گناہ منافع دے رہا ہے، اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی

    یہ تو تھا دور خلافت راشدہ کا جہاں سب مسلمان برابر کے حقوق کے تحت جی رہے تھے اب بات کرتے ہیں آج کے دور کے چند دانشوروں کی ممدوح جمہوریت کا… ہاں جی اسی جمہوریت کا جس کے بغیر سیاست دانوں اور بھولے بھالے مسلمانوں کے مطابق ملک چل نہیں سکتا اس جمہوریت میں ملک خداداد پاکستان پر آنے والی مصیبتوں کے وقت سیاست دانوں اور ان سے چمٹے منافع خوروں اور علماء کا کردار آپکے سامنے ہی ہے

    یہاں زلزلہ آئے، لاکھوں لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھیں تو سیاست دان زلزلے پر اپنی سیاست چمکانے لگتے ہیں، زلزے کو سیاسی طور پر استعمال کر کہ ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ڈزاسٹر مینجمنٹ نام کی کوئی بھی شے نظر نہیں آتی، منافع خور قیمتیں بڑھا دیتے ہیں لیکن میں زلزلے پر زیادہ بات اس لیئے نہیں کروں گا کیونکہ چند لوگوں کے مطابق بوقت زلزلہ پاکستان کا حکمران جمہوری نہیں تھا

    آپ پاکستان کے جمہوری ادوار میں آنے والی مصیبتوں کو دیکھ لیں، یہاں سیلاب آئے، یہاں تھر میں قحط سالی ہوئی، یہاں کراچی بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آگ سیاست دانوں نے اپنے گندے مقاصد کے حصول کے لیئے لگوائی، یہاں دہشتگردی ہزاروں بے قصوروں کو نگل گئی، یہاں انسانی زندگی کی ضروریات سیاست دان پوری نہیں کر پاتے اور پھر الیکشن میں سیاست بھی انہی چیزوں کے نام لے کر کرتے ہیں یعنی جلتی پر تیل ڈالتے ہیں، سیاست دان جب مسند حکومت پر بیٹھتا ہے تو امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے، ان سے حساب مانگنے والوں کو ذلیل کروایا جاتا ہے، سیاست دانوں کے پالتو علماء ایسے لوگوں کا مذاق اپنی محفلوں میں اڑاتے ہیں جو عوام ہی کے مال کا حساب عوام کے سیاست دانوں سے نانگتے ہیں

    میاں… لکھنے پر کتابیں لکھی جائیں لیکن عرض یہ کرنی تھی کہ کہاں نبوت کر طریق پر ادا ہونے والی خلافت راشدہ… اور کہاں… کہاں فرعونیت کو بھی شرمسار کر دینے والی جمہوریت… موازنہ کرنے والوں کو بھی کوئی شرم ہونی چاہیے کوئی حیا ہونی چاہیے

    تحریر: فاروق الخطاب

  • جانوروں کے حقوق اور اسلامی تعلیمات: حسنین معاویہ

    جانوروں کے حقوق اور اسلامی تعلیمات: حسنین معاویہ

    حسنین معاویہ
    زمانہ قدیم سے جانوروں کو باربرداری اور سفری ضروریات کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ پرانے زمانہ میں بادشاہوں اور عوام نے جانوروں کی سواری کی ۔ تب جہاں جانوروں سے فائدہ لیا جاتا تھا وہاں ان کے حقوق کا بھی خیال کیا جاتا تھا ۔آج کے دور میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی سرپٹ دوڑ رہے ہیں وہاں جانوروں پر سفر اور باربرداری کا طریقہ بھی ختم ہو گیا ۔ باربرداری کیلئے جانور کی جگہ ٹرین اور ٹرک نے لے لی ہے لیکن اب بھی چھوٹے پیمانے پر جانوروں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔

    دیہی علاقوں اور قصبوں میں جانوروں کو مختلف کاموں میں آج بھی استعمال کیا جاتا ہے ، انتہائی افسوس امریہ ہے کہ آج کے دور کا انسان جانور کو برقی مشین سمجھ بیٹھا ہے جو کہ نہ تھکتی ہے اور نہ ہی آرام چاہتی ہے ۔ سبزی فروش اور پھل بیچنے والے آج کل ریڑھی کے ساتھ گدھا یا گھوڑا لگا لیتے ہیں جسے سارا دن بغیر کسی آرام کے ایک جگہ کھڑا رکھتے ہیں ، جہاں مناسب چھائوں ہوتی ہے نہ ہی کھانا اور پانی کا انتظام ہوتا ہے ۔ بعض مقامات پر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض حضرات نے ریڑھی پر گنا کا جوس نکالنے والی مشین لگوا رکھی ہے اور سارا دن جانور سے مشقت لیتے ہیں ۔

    دنیا کا کوئی مذہب ہو وہ انسان کے ساتھ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھتا ہے ۔ صحابہ کرامؓ جس طرح انسانوں کے درد دکھ کو نہیں دیکھ سکتے تھے اسی طرح ان کو جانوروں کی اذیت و تکلیف بھی گوارہ نہ تھی۔ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ “جب ہم منزل پر اترتے تھے تو پہلے اونٹوں کا کجاوہ کھول لیتے تھے،پھر نماز پڑہتے تھے”۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے دیکھا کہ ایک چراوہا ایک جگہ اپنی بکریاں چرا رہا ہے ان کو دوسری جگہ اس سے بہتر نظر آئی تو اس سے کہا کہ “وہاں لے جائوکیونکہ میں نے رسول ﷺ سے سنا کہـ قیامت کے دن ہر راعی سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا ـ”۔ ایک دن ایک صحابی نے فرمایا ”یا رسول اللہ ﷺ مجھے بکری ذبح کر نے پر رحم آتا ہے فرمایا ،اگر اس پر رحم کرو گے تو خدا تم پر رحم کرے گا ـ”۔

    ایک دن کچھ لوگ حضرت عبیداللہ ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ کی خدمت میں آئے اور پوچھا کہ ”ایک شخص گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور اس کو کوڑا مارتا ہے اس کے متعلق آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی روایت سنی ہے، بولے نہیں ، اندر سے خاتون بولیں خدا خود کہتا ہے ، “زمین کے جانور اور ہوا کی چڑیاں بھی تمہاری طرح ایک امت ہے “، یعنی قابل رحم ہے ۔ دونوں نے کہا یہ ہماری بڑی بہن ہیں ۔

    جملہ احادیث اور روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام کس طرح جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے پر زور دیتا ہے۔ جس طرح باہر کے ممالک میں جانوروں کے حقوق کیلئے قوانین موجود ہیں اسی طرز پر پاکستان میں بھی مئوثر قانون سازی ہونی چاہئے تاکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے بھی محفوظ ہو سکیں ۔

  • مسلمان اور دہشت گردی : در صدف ایمان

    مسلمان اور دہشت گردی : در صدف ایمان

    دہشت گردی ایک ایسا لفظ جسے نہ جانے کیوں ہمیشہ سے مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے… دنیا میں کہیں کسی بھی جگہ اگر کوئی ننھا سا پٹاخہ بھی پھٹ جائے تو اس میں بھی کسی کلمہ گو کا ہاتھ ہوگا. یہ الگ بات ہے کہ مجھے اس بات کا یقین نہیں کہ سچے مسلمان کبھی دہشت گرد نہیں ہوتے. یہ وہ عالمگیر صداقت ہے جس سے پوری دنیا میں موجود دشمنانِ اسلام واقف ہیں….
    اسلام وہ مذہب جو پھیلا اس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی کی ذات مبارک سے جنھوں نے دشمنانِ اسلام کو اس وقت بھی معاف فرمایا جب ان پر گرفت تھی، جب ان سے ان کے ان مظالم کا بدلہ آرام سے لیا جا سکتا تھا.. لیکن آپ نے کوئی سزا نہیں دی، سوائے معافی کے، تو پھر یہ بیان کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ اسلام وہ دلنشیں مذہب ہے جو جس کے سورج کی تابناکی پھیلی ہی امن سے، اسلام وہ مذہب جس کے دشمن بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ اسلام امن و سلامتی کا، سکون و امان کا درس دیتا ہے.
    مگر میرا مقصد اسلام کی تعریف کرنا نہیں، جو لوگ لفظ اسلام کو جانتے ہیں وہ لفظ اسلام کی عطا، وفا، جفا، نکھار، تابندگی، تابناکی، طاقت، قوت، عزت، اور حقوق کی پاسداری سے بھی خوب آشنا ہیں. میرا مقصد تو صرف اتنا سا ہے کہ آخر دہشت گردی کو مسلمانوں سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟
    تو بات مختصر ہے، صرف اتنی سی کہ جو اسلام کے دشمن ہیں، اسلام سے خوفزدہ ہیں وہ ہی دشمنِ اسلام، دشمنوں کو دشمنی نبھانے کے لیے اسلام کے لبادے میں ملبوس کر کے بھیجتے ہیں..
    ہر جگہ خوف مسلم ہے اور یہی خوف انہیں مسلمان کو پست سے پست دیکھنے پر مجبور کر رہا ہے. یہی وہ خوف جس کا شکار وہ تمام مسلمان ممالک کے مظلوم برداشت کر رہے ہیں، فلسطین، غزہ، شام، برما میں صرف مسلمانوں پر ظلم کیوں؟
    کیوں اتنی نفرت مسلمانوں سے؟ اس لیے کیونکہ ڈر ہے کہ اسلام ان کا تختہ الٹ سکتا ہے.
    اس بات میں کسی بھی طرح کا شک نہیں کہ حقیقی مسلمان اور دہشت گردی دو متضاد باتیں ہیں جو کبھی ایک نہیں ہوسکتی، جو مسلمان تعلیمات اسلامی پر عمل کرتے ہوئے پانی نہیں بہاتا، وہ خون کیسے بہا سکتا ہے؟
    جس سچے مذہب نے خود کی جان لینے پر وعیدیں بیان کیں، وہ مذہب کسی دوسرے کی جان لینے کو کیسے معاف کرسکتا ہے یا اجازت دے سکتا ہے؟
    مسلمان قرآن کی تعلیمات پر چلتے ہیں اور قرآن فرماتا ہے کہ وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء)_
    اسلام وہ مذہب جو گالی دینے کی، عزت خراب کرنے کی اجازت نہیں دیتا.
    رہی بات ان تنظیموں کی جو کہنے کو تو مسلمان ہیں مگر کام اسلام کو بدنام کرنے والے کرتے ہیں چاہے ٹی ٹی پی ہو داعش، یا کوئی اور ، تو ان کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ دشمنانِ اسلام سے ہوتا ہے.
    جو صرف اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ مسلمان بھی ہوں.
    یہ دشمنوں کو خوشی سے ہمکنار کر رہے ہیں.
    اسلام خودکشی کو حرام قرار دیتا ہے اور یہ خود کش حملوں کو جائز…. عجیب ہے نا
    اسلام وہ مذہب ہے جو عورت کو عزت و احترام دینے کا حکم دیتا ہے، خواہ کسی بھی مذہب کی ہو اور یہ مسلمان عورتوں کو بھی کھلونا سمجھتے ہیں.
    ان کے نزدیک جو جہاد دراصل وہ دہشت گردی اور ان کے پسِ پشت جو ہیں وہی حقیقتاً دشمنان اسلام ہیں.
    اسلام صرف جان لینے دینے میں امن کا درس نہیں دیتا، اسلام وہ خوبصورت مذہب ہے جو اسلام کے دامن میں رہنے والوں کو ہی نہیں نوازتا بلکہ اسلام سے کسی بھی طرح کا حق نکلتا ہو تو اسے ملتا ہے.
    تاریخ گواہ ہے.
    اس لیے صرف اتنا سمجھنا کافی ہوگا کہ جو دہشت گرد ہیں وہ مسلمان نہیں.
    جو دہشت گرد ہیں حقیقت میں ان کا کوئی مذہب نہیں.
    کیونکہ دنیا کا کوئی مذہب برائی کا حکم نہیں دیتا.
    خون ریزی کو پسند نہیں کرتا…
    مگر یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ اسلام جیسا خوبصورت پر امن، حقوق کی پاسداری کروانے والا اور کوئی مذہب نہیں.

  • ملت اسلامیہ اور اقوام متحدہ – محمد رضوان طاہر

    ملت اسلامیہ اور اقوام متحدہ – محمد رضوان طاہر

    رضوان طاہر پہلی اور دوسری جنگ عظیم پر ہلاک ہونے والے انسانوں کی تعداد کڑوڑوں تک پہنچتی ہے جبکہ معاشی و مالی اور دیگر نقصانات اس پر متزاد ہیں دوسری جنگ عظیم کے پیش نظریہ فیصلہ کیا گیا کہ عالمی سطح پرایک ایسا ادارہ ہو جو آنے والی نسلوں کوان جنگی تباہ کاریوں سے بچائے اور یہ فیصلہ کرنے والے افراد وہ ہی تھے جن کی وجہ سے دنیا دو عظیم جنگوں کے نتائج بھگت چکی تھی چناچہ با تفاق رائے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور ایک ادارے کے لیے ایک چارٹر پر دستخط کیے گئے یہ کانفرنس۲۵ اور۲۶،اکتوبر۱۹۴۵ء کو منعقد ہوئی جس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور سان فرانسکو میں لیگ آف نیشنز کے کھنڈر پر باقاعدہ اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کیا گیا۔
    اس بین الاقوامی تنظیم کے ابتدائی ۵۰ارکان تھے جن کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی گئی۔اس کے بنیادی اصولوں میں بعض درج ذیل ہیں۔
    ۱۔بنی نوع انسان کی آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔
    ۲۔قوموں کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر موثر قانون سازی کرنا تاکہ امن کو لاحق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے۔
    ۳۔انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے عالمی سطح پر بلا امتیاز رنگ و نسل مثبت اقدامات کرنا۔
    ۴۔انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا۔
    ۵۔ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے درمیان دوستی کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے روکنا۔
    حالات نے ثابت کیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنے قیام مقاصد میں بری طرح ناکام ہے اس کے اصول اور حقوق انسانی کے لیے مرتب کروہ اعلامیہ صرف کاغذوں تک محدود ہے عمل سے اس کا کچھ تعلق نہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بعض سامراجی طاقتوں نے اس پلیٹ فارم کو اپنے ذاتی مفادات و مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے جن میں امریکہ سر فہرست ہے اس اُبھرتی ہوئی سامراجی طاقت و سیکو لر اسٹیٹ کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جہاں سے وہ دنیا بھر میں اپنی حکمرانی قائم کر سکے تو اس کے لیے بظاہر حقوق انسانی کے لیے جبکہ در پردہ امریکی مفادات کے لیے اقوام متحدہ وجود میں لایا گیا اس کا اعتراف ایک یہودی صحافی اسرائیل شہاک نے اپنی کتاب’’اسرائیل میں بنیاد پرستی‘‘ (مترجم)میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ’’عالمی عدالت اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرح اقوام متحدہ وہ ہی کرتا ہے جو امریکہ چاہتا ہے ورنہ اقوام متحدہ کو بھی فارغ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
    اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں امریکہ،برطانیہ،فرانس،روس اور چین یہ پانچ ممالک نہ صرف مستقل نشست رکھتے ہیں بلکہ ویٹو پاور کا بھی انہیں حق حاصل ہے ویٹو پاور کا حامل ہر ملک اقوام متحدہ کے منمبران کی غالب اکثریت کے کسی بھی فیصلہ کو مسترد کرنے کا حق رکھتا ہے اور یہ پانچوں ممالک اپنے اپنے مفادات کے لیے متعدد بار ویٹو پاور کا حق استعمال کرچکے ہیں ان میں سے ایک ملک بھی اسلامی نہیں ہے جو امت مسلمہ کے دفاع کے لیے ویٹو پاور سے فائدہ اٹھا سکے۔ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں یہ آوازاُٹھائی گئی تھی کہ سلامتی کو نسل کی ایک مستقل نشست مسلمانوں کے پاس بھی ہونی چاہیے مگر ان کی وفات کے ساتھ ہی یہ معاملہ دب گیا اور یوں۵۷اسلامی ممالک اور کم و بیش۲۰۰کڑوڑمسلمانوں کو اب تک اس سے محروم رکھا گیا ہے اگر آج امت مسلمہ کے پاس ویٹو پاور کا حق ہوتا تو بہت سے نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔
    کہنے کو تو اقوام متحدہ انسانی حقوق دنیا بھرمیںبحال کروانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے اس ادارے کے نزدیک انسانوں کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہوتا اپنے قیام ابتداء سے لے کراب تک مسلم امہ کے لیے اس نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا مسلمانوں کے لیے اس کی کارکردگی صفر ہے مسلمان جب بھی مصائب کا شکار ہوئے تو سوائے کاغذی خانہ پری اور لفظی مذمت کے اور کچھ نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل عرب جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی بھی چھین لی تو غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیلی یہودیوں کی جانب سے ہونے والے مظالم پر اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے محقق’’رینے فیلبر‘‘(Felber)نے ایک رپورٹ پیش کی یہ رپورٹ پیش کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد فیلبر نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ ایسی رپورٹیں پیش کرنے کا کیا فائدہ جن کی آخری آرام گاہ ردی کی ٹوکری ہو۔
    امریکہ نے اپنے نام نہاد عالمی اصولوں اور خود ساختہ شائستگی کی مروجہ اقدار کی پاسداری میں اقوام متحدہ کے ذریعے لیبیا،عراق،ایران اور افغانستان متعدد اسلامی ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگائی ہیں جو کسی ایٹم بم سے کم نہیںعراق پر اقتصادی پابندیوں کے دوران موت کی آغوش میں جانے والے صرف بچوں کی تعداد۵لاکھ سے تجاوز ہے۔مسلم ممالک پر نہ صرف اقتصادی پابندیاں لگائی بلکہ افغانستان ،عراق،لیبیا،چچنیا،بوسنیا اور سوڈان وغیرہ پر جوجنگیں مسلط کی گئیں وہ سب کی سب اقوام متحدہ کی رضا مندی اور زیر نگرانی مسلط کی گئیں۔
    امت مسلمہ کے حوالہ سے اقوام متحدہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے مشرقی تیمور،جنوبی سوڈان اور انڈونیشیا کے ایک اکثریتی عیسائی آبادی والے جزیرے کو اسلامی ریاستوں سے محض اس لیے جدا کرکے الگ ممالک بنایا ہے کہ ان علاقوں میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی اس کام کے لیے حق خود ارادیت کا راگ الاپہ جبکہ کشمیر،فلسطین اور برما کے مسلمانوں کو کئی دوائیوں سے ان کے جائز مطالبات اور حق خود ارادیت سے محروم رکھا ہوا ہے بلکہ حقیقت میں کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کو یہود و ہنود کے ظلم و ستم اور غلامی کی دلدل میں دھکیلنے والا اقوام متحدہ ہی ہے۔
    دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں یہ کہہ کر آباد کیا گیا کہ یہ ان کی عارضی سکونت ہوگئی بعد میں کہیں اور انتظام کر دیا جائے گا مگر دنیا نے دیکھا کہ اقوام متحدہ کے یہ جملے دھوکے پر مشتمل تھے اور آج عرب کے قلب فلسطین میں یہودی اسرائیل نامی نہ صرف اپنی الگ ریاست بنانے میں کامیاب ہیں بلکہ فلسطینی مسلمانوں کو انہی کی سر زمین سے مار کر نکالا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی بناء پر ہو ا ہے اور ستم بالائے ستم کہ اقوام متحدہ نے آج تک فلسطین کو رکنیت نہیں دی یعنی اقوام متحدہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرتا ہی نہیں ہے تو ان کا حق خود ارادیت کیسے دے؟
    اسی سے ملتا جلتا معاملہ کشمیر کا ہے آزادی پا کستان کے بعد کشمیر کے محاذ پر جب جنگ چھڑی تو مجاہدین اسلام نے تائید خدا وندی سے دشمن کے دانت تو ڑتے ہوئے نصف کشمیر بھارتی افواج کے قبضہ سے آزاد کر وا لیا۔اقوام متحدہ نے جب کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھا تو پا کستانی حکومت سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر صلح وصفائی،افہام و تفہیم اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کا خواب دیکھایا جسے اقوام متحدہ نے اپنی ہی قرار دادوں اور قول و قرار کے مطابق کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور کشمیری مسلمانوں کو ہندئوں کے رحم و کرم(ظلم و ستم) پر چھوڑا ہوا ہے۔
    جب اقوام متحدہ کو وجود میں لانے کا مقصد لوگوں کو جنگی تباہ کاریوں سے بچانا اور بین الاقوامی بغض و عناد ختم کر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور باہمی تنازعات کو ایک دوسرے کے افہام و تفہیم سے حل کرنا تھا تو پھر اقوام متحدہ نے اس کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں اٹھائے،عراق و شام میں یو میہ لاشیں گرنے والا سلسلہ کیوں جاری ہے برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اور زندہ جلائے جانے والا معاملہ کیوں ہے،الجزائر،چچنیا اور بوسنیا کے مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہوا،کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں پر پچھلی کئی دہائیوں سے ہنود و یہود کے ظلم و ستم کا سلسلہ پچھلی کئی دہائیوں سے کیوں جا ری ہے،فقط امت مسلمہ ہی بحثیت مجمو عی قتل و غارت گری کا شکار کیوں ہے امت مسلمہ ہی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کرنے پر مجبور کیوں ہے،کہاں ہے اقوام متحدہ کا حقوق انسانی پر مشتمل چارٹر اور اس کی قانون سازی،کیا انسانوں کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہوتا؟
    مجھے کہنے دیجیے اور یہ بات صد فیصد درست ہے کہ امت مسلمہ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی حالت اور مسلم ممالک میں خون مسلم سے بہتی ندیوں کا سلسلہ اگر یو نہی جاری رہا تو آئندہ تیس سالوں بعد اکثر ممالک اسلامیہ کشمیر،فلسطین،برما،عراق وشام کا نقشہ پیش کریں گئے جبکہ بعض میں تو ابھی یہ صورت حال نظر آنے لگی ہے مسلم امہ کو اس حالت تک پہنچانے میں اقوام متحدہ کے پُر کشش و پُر فریب وعدوں کابنیادی دخل ہے اپنے خود ساختہ اصولوں کے تحت اس نے پوری امت کو جکڑا ہوا ہے لہذا امت مسلمہ پر اس ادارہ کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف دنیا بھر میں ہر میسر محاذ پر جہد مسلسل کے ساتھ آواز بلند کی جائے یہاں تک کہ مستقبل قریب میں ملت اسلامیہ کو سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت دی جائے یا پھر مسلم ممالک کے حکمران اس ادارے کا مکمل بائیکاٹ کر دیں۔
    اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
    کاخ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو

  • قدیم اور معاصر تناظر میں شائقین علوم کا حال : عمر خالد

    قدیم اور معاصر تناظر میں شائقین علوم کا حال : عمر خالد

    %d8%b9%d9%85%d8%b1-%d8%ae%d8%a7%d9%84%d8%af

    اسلام کے چار سو پھیلتے ہی علم و فن سے پھوٹنے والی کرنوں نے اپنے شائقین کو ایسا گھائل کرلیا تھا کہ طلب علم ہی ان کی زندگی کا اوڑھنا پچھونا بن گیا۔ صفحات تاریخ پر بےشمار ایسے قصے نقش ہیں جن کے معمولی تتبع سے قرون ثلاثہ کی علمی فضا کا ادراک کیا جاسکتا ہے، پھر قرآن مجید کی اثرانگیزی اجتماعی رو کا مخصوص سمت میں بہاؤ، اور سیاسی معاونت وغیرہ جیسے عوامل نے حصول علم کی راہ میں حائل جس مضبوط ترین چٹان کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا وہ دراصل “ذہنی انتشار” تھا، صدر اول میں علماء کی زندگی کے محوری گردش کا جائزہ لیا جائے تو حصول علم میں ان کی یکسوئی قابل دید و شنید ہے، یکسوئی کی ایسی ایسی داستانیں مرقوم ہیں جنہیں معاصر تناظر میں دیکھنے سے دل و دماغ شذدر رہ جاتے ہیں، حٰیرانگی و تعجب کی بات ہے کہ بعض اصحاب کے معاشی حالات کم و بیش ناگفتہ بہ ہوگئے ، جنہیں وسائل مہیا تھے ان کی علمی سرگرمیوں میں دریا دلی کے باعث روز بروز تنگی نے جنم لیا ، لیکن حصول علم کے اشتیاق میں سب داؤ پر لگادیا، جہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی فضا میں جن خارجی عوامل نے تعلیمی یکسوئی میں اضافہ اور معاشی تنگی کےغیر اہم ہونے پر معاونت کی ہے ان میں بنیادی کردار “احساس بلندی” کا ہے، احساس بلندی سے مراد وہ خاص ذہنی بالیدگی، اور شعور برتری ہے جو کسی قوم کو نظریاتی و جغرافیائی فتح کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے، جس کا لازمی تقاضا اپنے نتائج کے اعتبار سے سیاسی قائدین میں غرور و تکبر اور رعایا میں حلم و تواضع کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، مزید یہ کہ معاشی حالات اور معیار زندگی میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے جو دھیرے دھیرے بہتر سے بہتر ہونے کی جانب کھینچتا ہے پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرون ثلاثہ میں میں علمی سرگرمیوں کا دائرہ قرآن و سنت کی تشریح و تبیین و تحیقیق و تدوین میں بنیادی حیثیت کا حامل تھا جسے امت کے عمومی مزاج نے تقدس و احترام کے ایسے والہانہ جذبہ کے ساتھ اپنایا جس کی نظیر دیگر تاریخوں میں ملنا محال ہے۔

    اسی مجمل سے خاکے کا معاصر علمی تناظر کا جائزہ لیا جائے تو ہر لحاظ سے اس کے برعکس نتیجہ درآمد ہوگا، (استثنائی حالات الگ ہیں) جدید دور میں جبکہ پیمانے تبدیل ہوچکے ہیں (علم جستجوئے حقائق کے بجائے معاشی دوڑ کا حصہ بن چکا ہے) حصول علم کا محرک جذبہ “جاہ پروری” ہے، ذہن کی جدید تشکیل “مال و جاہ” کے سانچوں میں ڈھلنے کے بعد علم “اقدار” سے لاتعلق ہوکر “عالمی معاشی” پٹھری پر رواں دواں ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں اس کے بھاینک اثرات دھیرے دھیرے واضح ہوتے جارہے ہیں، پہلے پہل “اخلاص” کا جنازہ نکلا، کیونکہ علم نامی گاڑی کا انجن اقدار کے بجائے سسٹم سے تبدیل ہوچکا ہے، اور بدقسمتی سے جب روایتی طریقہ سے یہ گاڑی نہیں چلی تو دھکے دے کر کام چلایا گیا۔ یوں پیہم کوشش کے باوجود عموما مطلوبہ نتائج حسرت و مایوسی میں بدلتے گئے، لہذا قرن اول میں جس “یکسوئی” کا حصول آسان ترین کام تھا، معاصر زمانہ میں اس کے تمام عوامل تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں،اسی طرح اقدار کی کسوٹی پر طلب علم فقط ماضی کی خوشگوار یاد بن چکی ہے ۔
    آج سسٹم سے بغاوت چار و ناچار بھی ناممکن ہے، جس کے نتیجہ میں علمی فضا کا لالچ و حرص، جاہ و مال جیسی آلودگیوں سے بھرجانا بین الاقوامی تناظر میں اب آنکھوں دیکھا حال ہے۔ ہمدردان ملت اس موذی مرض کی کسک کا مکمل ادراک کررہے ہیں۔ وسائل سے تہی دستی اس پر مستزاد، بہرکیف علماء مدرکین اور واقفین ملت ہی اس مرض کی دوا و تدبیر کرسکتے ہیں، جن کے ساتھ اللہ تعالی کی خاص غیبی تائید و نصرت شامل حال ہوتی ہے۔

  • اسلام اور پسند کی شادی : فرہاد علی

    اسلام اور پسند کی شادی : فرہاد علی

    مشہور قصہ ہے کہ کسی گاوں میں چار دوست رہتے تھے مگر سب کے سب اندھے تھے ۔ انہوں نے
    کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا ایک دن انہوں نے شہر جا کر چڑیا گھر میں ہاتھی دیکھنے کا
    پروگرام بنایا ۔ چڑیا گھر جا کر ہاتھی کے قریب گئے ۔ چونکہ دیکھ نہیں سکتے تھے اس لئے
    ٹھٹول ٹھٹول کر ہاتھی کا جائزہ لینے لگے ۔ ہر ایک ہاتھی کے مختلف حصوں پر ہاتھ پھیرنے
    لگا ۔ ایک نے ہاتھی کے پیر چھو کر اعلان کیا کہ یہ تو ستون کی طرح ہے ۔ دوسرے نے سونڈ
    ہاتھ میں لے کر کہا کہ یہ تو اژدہے کی طرح کا جانور ہے ۔ تیسرے کے ہاتھ دم آئی تو وہ اس
    کو رسی جیسا سمجھنے لگا جبکہ چوتھا اس کے کان کو چھو کر اس کو ہاتھ کے پنکھے جیسا ثابت
    کرنے لگا ۔

    ظاہر ہے ان میں سے ہر ایک کا اندازہ غلط تھا کیونکہ ہاتھی کا ہر حصہ ان کی نظروں کے
    سامنے نہیں تھا ۔ یہی حال ہم نے آج اسلام کا بنا رکھا ہے کسی کو اس صرف خلافت نظر آتی
    ہے تو کسی کو صرف جمہوریت ، کوئی اس کو صرف اخلاقیات کا دین سمجھ رہا ہے تو کوئی صرف
    مسجد تک محدود کرنے پر مصر ہے ۔ غرض جس کو اسلام کا جو پہلو راس آتا ہے اس کو لے کر
    بیٹھ جاتا ہے اور دوسرے پر طنز و تشنیع اور گالم گلوچ کی گولہ باری شروع کردیتا ہے ۔

    یہی طرزِ عمل پسند کی شادی کے معاملہ میں اختیار کیا گیا ہے ۔ جن حضرات کو عالمی میڈیا
    کے زیر اثر اسلام کا صرف یہ پہلو پسند آیا کہ اسلام پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے
    انہوں نے باقی تمام پہلووں اور اسلام کے معاشرتی احکام و مزاج اور معاشرے پر اس کے
    اثرات کو یکسر نظر انداز کردیا ۔

        اسلام کے ہر حکم میں معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کا خصوصی طور پر خیال رکھا
    

    جاتا ہے چنانچہ حدیث کی تمام مشہور کتابوں میں یہ واقعہ منقول ہے کہ مشرکین نے جب خانہ
    کعبہ کو ازسرنو تعمیر کیا تو انہوں نے آپس میں یہ عہد وپیمان کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر
    میں حرام پیسہ نہیں لگائیں گے چنانچہ حلال کی کمائی ختم ہوگئی اور ایک حصہ باقی رہ گیا
    جس کو خانہ کعبہ کے چوکور کمرے کے باہر چھوڑ دیا گیا ۔ اس کے ارد گرد چھوٹی سی دیوار
    کھینچی گئی اور اس کو ہم حطیم کہتے ہیں جو کہ خانہ کعبہ کا حصہ ہے مگر عمارت سے باہر ہے
    ۔ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ میرا دل
    کرتا ہے کہ خانہ کعبہ کو ان بنیادوں پر تعمیر کروں جن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
    تعمیر کیا تھا (حطیم کو تعمیر میں شامل کرنے کی طرف اشارہ تھا ) لیکن تمہاری قوم کا نیا
    ایمان اس ارادہ کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ ہے ۔

    حضور ﷺ خود موجود ہیں ۔ جان نچھاور کرنے والے صحابہ کرام ایک اشارہ آبرو کے منتظر ہوتے
    ہیں ۔ حضور ﷺ کے عمل پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا مگر پھر بھی ضعیف الایمان لوگوں
    کا خاص خیال رکھا گیا ۔ اس لمحے حضورﷺ نے اپنی دیرینہ خواہش کو معاشرے کی رعایت پر
    قربان کردیا ۔

    اب پسند کی شادی کا معاملہ لیجئے اس معاملہ میں ہمارے دور کے حضرات حدیث سے مثالیں پیش
    کرتے ہیں لیکن یہاں وہ صرف ان احادیث کو دیکھتے ہیں اسلام کے عمومی مزاج کو پس پشت ڈال
    دیتے ہیں اگر صرف ان احادیث کو لے کر پسند کی شادی کو ثابت کریں گے تو یہ حضرات ان
    احادیث کے بارے میں کیا کہیں گے جو ولی کے اختیار کے بارے میں ہیں ؟ انہیں احادیث کی
    روشنی میں بعض ائمہ کرام تو ولی کے بغیر نکاح کے انعقاد ہی کے قائل نہیں ہیں ۔چونکہ
    لڑکی کے اولیاء نے اسی معاشرے میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے اسی لئے ان کی رعایت کا خاص
    اہتمام کیا گیا ہے تاکہ نادان اور نسبتا کم تجربہ رکھنے والی جذباتی لڑکی کی وجہ سے یہ
    لوگ معاشرے میں رسوا نہ ہوں ۔ اس لئے اسلام نے بالغ لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ان کے اولیاء
    کو ظلم سے بچایا ہے ۔آخر ایسا کیوں فرض کیا گیا ہے کہ ہر لڑکی کا فیصلہ صحیح اور اس کے
    اولیاء کا فیصلہ غلط ہوتا ہے ۔

    جب اولیاء کو نظر انداز کرکے کوئی لڑکی شادی کرے گی اور آپ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے
    تو اس سے معاشرے پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ شادیاں عموما ناکام ہوتی ہیں
    کیونکہ جذباتی جوڑے کے درمیان لڑائی جھگڑے کی صورت میں صلح صفائی کرنے والا کوئی نہیں
    ہوتا ۔ اگر لڑکا ظالم ہو یا اس کے گھر کے افراد لڑکی کو بےجا تنگ کر رہے ہوں تو ان پر
    لڑکی کے اولیاء کی طرف کوئی دباو نہیں ہوتا چنانچہ لڑکی خاموشی سے ظلم سہتی رہتی ہے نیز
    ہمارے معاشرے میں عام طور پر ایسی لڑکی کو وہ عزت نہیں ملتی جو والدین کی مرضی سے شادی
    کرنے والی لڑکی کو ملتی ہے ۔ علاوہ ازیں ایسی صورتوں میں بات غیرت کے نام پر قتل تک
    پہنچ جاتی ہے ۔ اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو ان تمام خرابیوں کی جڑ معاشرے پر مرتب
    ہونے والے اثرات کو دانستہ یا نادانستہ طور پر نظر انداز کرنا ہے ۔

    پسند کی شادی کے معاملہ میں اسلام سے دلائل دینے والے اس وقت کے عرب معاشرے اور ہمارے
    موجودہ معاشرے کی نفسیات میں پائے جانے والے فرق کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جس سے غلط
    فہمیاں جنم لیتی ہیں ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام سے پہلے اور بعد میں وہاں عورتیں
    نکاح کا پیغام خود بھیجتی اور قبول یا رد کردیتی تھیں ۔ یہ اس معاشرے کی عام سی بات تھی
    اور اس کے محرکات آج کے محرکات سے یکسر مختلف ہوتے تھے ۔ ایسے میں حضرت خدیجہؓ کے عمل
    سے یہ تاثر دینا کہ یہی عمل ہر معاشرے میں اختیار کیا جاسکتا ہے ناانصافی اور لاعلمی پر
    مبنی ہے ۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ایسی عورتوں کو اس معاشرے میں کبھی غلط نہیں سمجھا
    گیا جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسی لڑکیوں کے بارے میں جو سوچ عام ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔
    چنانچہ جب معاشرے میں رائج اس سوچ کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا اور گھر سے نکل کر شادی
    کرنے والی لڑکیوں کے لئے اسلام کی تعلیمات سے دلیل ڈھونڈا جائے گا تو اس صورت میں یہ ان
    لڑکیوں کے ساتھ ظلم بھی ہے اور ان کی زندگیوں سے کھلواڑ بھی ۔

    خدارا ! اسلامی تعلیمات کو یوں اپنے نظریات کے لئے کتر و بیونت کی بھینٹ نہ چڑھائے اور
    نہ من پسند پہلو کو لےکر دوسرے پہلووں کونظر انداز کریں ورنہ اس کے نقصانات معاشرے میں
    بے چینی ،انتشار اور پریشانی کی صورت میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ اس کے نتائج ہم روز
    دیکھتے ہیں ۔

  • قرآن معجزہ کیسے ہے؟ : ساحر فاروقی

    قرآن معجزہ کیسے ہے؟ : ساحر فاروقی

    قرآن مجید ، عربی مبین میں نازل ہوا اور اس کے اولین مخاطب حجاز کے عرب تھے جنہیں اپنی زبان دانی ، فصاحت و بلاغت اور خطابت پر بہت ناز تھا۔ قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا اور جس پیرائے میں اپنی ہدایات واضح کیںاس کے سامنے تمام عرب اس کے شعراء اور فصحاء شرمندہ ہو گئے، وہ اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور تھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔اور یہی اس ’’کلام ‘‘ کا اعجاز ہے۔
    اعجاز باب افعال سے مصدر ہے اس کے معنی دوسرے کو عاجزکر دینے یا عاجز پانے کے ہیں۔ معجزہ اس کام کو کہتے ہیں جس کے زریعے مخالف کو عاجز کردیا جائے۔اعجاز کے اصطلاحی معنی ہیں وہ خارق عادت امرجو اللہ نے کسی پیغمبر کی صداقت کے لئے دنیا پرظاہرکیا ہو۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی وہ کیا اعجازی خصوصیات تھیں جن کے آگے عرب خاموش ہوگئے؟یا ہم قرآن کو معجزہ کیوں کہیں جب کہ یہ لفظ نہ خود کتاب میں مذکور ہے اور نہ صحابہؓ اور تابعینؒ نے بیان کیا۔
    دراصل معجزہ اسلامی ادبیات میں ایک دینی یا مذہبی اصطلاح کے طور پر مروج ہے۔قرآن مجید نے اس مفہوم کو بیان کرنے کے لئے(نشانی، دلیل،اور علامت) کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلا حضرت صالح ؑ کی اونٹی اور حضرت موسی ؑ کے معجزات کے لئے قرآن میں آیت کا لفظ آتا ہے۔اس کے مفہوم کو زیادہ قابل فہم بنانے کے لئے علماء نے ’معجزہ‘ کی اصطلاح استعمال کی جو اپنی جامعیت کی وجہ سے جلد عام ہو گیایعنی وہ نشانی جو عاجز کردے۔
    معجزے کی دو قسمیں ہیں ایک حسی دوسری عقلی، بنی اسرائیل کے اکثر معجزات حسی تھی کیونکہ وہ بڑی کند ذہین قوم تھی جبکہ امت محمدیہ ؐ کے معجزات عقلی ہیں۔یہاں ہمیں اللہ کی سنت بھی کارفرما ن نظر آتی ہے کہ جس پیغمبر کو جو معجزہ عطاء کیا وہ اس علاقے کے حالات، ماحول اور اس خطے کے لوگوں کی ذہنی و عقلی، علمی و تمدنی سطح کے مطابق تھا۔جو قوم جس فن میں بے مثل تھی اسکو اسی میداں میں معجزہ دکھا کر عاجز کیا گیا۔
    عرب قانون ،فلسفے، ریاضی سے واقف نہیں تھے۔زبان دانی یعنی فصاحت اور بلاغت ہی ان کا میدان تھی وہ خود کو فصیح اللسان اور باقی تمام دنیا کو عجم (گونگا)سمجھتے تھے۔عربوں کو جو چیز متاثر کر سکتی تھی وہ’’ کلام اللہ کے لفظی معنی،اسکی فصاحت و بلاغت، اس کے اسلوب کی بلندی،اس کے صنائع بدائع اوراندرونی نظم تھا‘‘
    قرآن کی ان اعجازی خصوصیات سے عرب گنگ رہ گئے اور باوجودکئی بار مجادلے اور چیلنج کے اس کے مثل ایک آیت بھی پیش کرنے سے قاصر رہے۔
    نظم:
    القاموس الجدید میں نظم کاکا مطلب درج ہے’’ منتطم کرنا،ایڈجسٹ کرنا،انتظام کرنا‘‘

    المنجد عربی اردو لغت کے مطابق مادہ نظم کا مطلب’’ موتی پرونا، آراستہ کرنا،موزون کرنا،کسی چیز کو کسی چیز سے جوڑنا‘‘
    لسان العرب میں نظم کی تعریف’’ نظم کے معنی ہیں ملانااور جوڑنانظمت اللوللو،یعنی میں نے موتی کو لڑی میں پرو دیا،نظام کے معنی ہیں دھاگہ یا اس قسم کی کوئی چیز جس میں کسی چیز کو پروتے ہیں‘‘
    نظم کی اس لغوی تشریح کے تناظر میں نظم قرآن کامطلب یہ ہواکہ قرآن مجید ایک مربوط کلام ہے،منظم کلام ہے ۔غیر مربوط بیانات کا مجموعہ ہرگز نہیں جیسا کہ مخالفین الزامات لگاتے ہیں۔
    نظم قرآن:
    مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر تدبر القرآن میں قرآن فہمی کے داخلی وسائل زیر بحث لاتے ہوئے قرآن کے نظم کو بھی ایک اہم زریعہ سمجھتے ہیں’’ نظم کلام کا ایسا جز لاینفک ہوتا ہے جس کے بغیر کسی عمدہ کلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا‘‘
    ایک عام قاری کو قرآن پڑھتے وقت بے ربط معلومات کا خزانہ لگتا ہے جہاں سماج،معاشرت،اخلاقیات و عقائد کے درس ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، چناچہ اکثر قارئین یہ سوچتے ہیں کہ شاید قرآن میں کوئی خاص ترتیب یا نظام نہیں ہے۔ لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قرآن جس کو فصاحت و بلاغت کا معجزہ قرار دیا جائے اور وہ نظم سے خالی ہو؟؟؟
    جرجانی نے اپنی کتاب دلائل الاعجازکی ابتدائی فصلوں میں لکھا ہے’’ فصاحت ولاغت میں اصل اعتبارنظم کا ہے،نہ کہ الفاظ کااسلئے کہ الفاظ معنی کے خادم ہوتے ہیں‘‘
    عرب ان ہی امتیازات و خصوصیات کی وجہ سے عاجز رہ گئے جو انہیں قرآن کے نظم میں دکھائی دیں،اور ان کی نگاہیں خیرہ ہوگیئں جب انہوں نے ایک ایک سورت ایک ایک آیت پر غور کیا مگر ایک جگہ بھی کوئی کلمہ ایسا نہ ملا جو بے محل ہو، یا سکی جگہ دوسرا لفظ لایا جا سکے۔ بلکہ انہوں نے کلمات کے درمیان بھی ایسا نسق پایا کہ ششد رہ گئے اور اس کا مثل لانے سے عاجز رہے۔بڑے بڑے بلغا ء کی بھی قرآن کے نظام، یکسانیت،اتفاق اور پختگی دیکھ کر زبانیں گنگ ہو گئیں۔ لیکن یہ نظم کیسا نظم ہے؟
    خلیل الرحمن چشتی لکھتے ہیں’’ قرآنی سورتوں کا ٓپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے،جس طرح کسی عالیشان عمارت میں کمرے سے کمرہ جڑا ہوتا ہے۔سورہ بقرہ سورہ آل عمران سے جڑہی ہے ،ایک مغضوب کی تفسیر ہے دوسری ضالین کی۔ اسی طرح سورہ انفال و سورہ توبہ کا موضوع جہاد ہے‘‘ بالکل اسی طرح ہر سورت بھی ایک وحدت ہے جس کا مرکزی مضمون یا عمود ہوتا ہے۔بار بار مطالعے سے ہم پر وہ عمود واضح ہوجاتا ہے تو پوری سورت متفرق آیات کے بجائے ایک نہایت حسین وحدت بن جاتی ہے۔
    تلاشِ نظم کے اصول:
    سب سے پہلی چیزجس کے سبب لوگ عموما نظم قرآن سے مانوس نہیں ہوتے وہ قدیم عربی ادب کی خصوصیت سے نا آشنائی ہے، عربی زبان میں اطناب و ایجازا ور طول و اختصار کے جو قائدے ہیںجن کو عرب کے فصحاء نہایت آزادی سے برتتے ہیںہم اپنی زبان میںعام طور پر ان چیزوں سے اچھی طرح مانوس نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب قرآن میں ان سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہ ہماری گرفت میں نہیں آتیں۔
    اعلی عربی ادب سے جن لوگوں کو واسطہ رہا ہے وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ بات ایک خاص نقطہ سے شروع ہو تی ہے اورپھر بات سے بات پیدا ہوتی چلی جاتی یہاں تک کہ ایک حد تک پہنچ کرکلام پھر اپنے اصل مرکز کی طرف لوٹ آتا ہے،ایک دعویٰ آتا ہے اور معاٌ اسکی دلیل مزکور ہوتی ہے۔لیکن یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ یہ اسکی دلیل ہے بلکہ یہ چیز محض موقع کلام کی دلالت پر اعتماد کرکے چھوڑ دی جاتی ہے۔
    قرآن سے اندرونی نظم و ربط کی امثال
    سورہ بقرہ رکوع نمبر پانچ،آیت نمبر چالیس
    ’’اے بنی اسرائیل ذرا خیال کرو میری اس نعمت کاجو میں نے تم کو عطا کی تھی،میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا اسے تم پورا کرا تو میرا جو عہد تمھارے ساتھ تھا اسے میں پورا کروں اور مجھ ہی سے ڈرو‘‘
    صاحبِ تفھیم القرآن مودودیؒ لکھتے ہیںکہ ابتدائے چار رکوع تمھیدی تقریر تھی جس کے مخاطب تمام انسان تھے،اب یہاں سے مخاطب بنی اسرائیل ہیں۔آگے آیات میںبنی اسرائیل پر ثابت کیا گیا ہے کہ جو ہدایات تمھیں دی گئیں اسکی پیروی کرنے میںاورجو رہنمائی کامنصب دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں ناکام ہو گئے۔اللہ نے اپنے احسانات یاد لائے کہ اقوام عالم پر فضیلت دیا جانا،فرعونیوں کی غلامی سے نجات،سمندر چیر کر راستہ نکالنا،بچھٹرے کا معبود بنانے کے باوجود معافی ملنا، من وسلوی کا نزول اور پانی کے بارہ چشمے کا نکلنا۔
    سورہ بقرہ آیت نمبر ۶۳۔۶۴
    ان آیات میں وہی مضمون لوٹ رہا ہے
    ’’یاد کرو وہ وقت ،جب ہم نے طور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھااور کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمھیں دے رہے ہیںاسے مضبوطی کے ساتھ تھامنااور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیںانہیں یاد رکھنااسی کے زریعے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم تقوی کی روش پر چل سکو گے مگر اس کت بعدتم اپنے عہد سے پھر گئے۔اس پر بھی اللہ کے فضل اور رحمت نے تمھارا ساتھ نہ چھوڑاورنہ تم کبھی کے تباہ ہو چکے ہوتے‘‘
    نظم کے متذکرہ اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو دونوں رکوعات کے آغاز میں عہدکی پاسداری سے متعلق کلام کا آغاز کیاگیا اور دلائل دینے کے بعدوہی نقطہ پھر دہرایا گیا۔کہ اللہ نے جو عہدکیا تھا وہ پورا کیا مگر بنی اسرائیل اپنے عہد سے پھر گئے۔
    سورہ کہف اندرونی نظم و مناسبت کی ایک مثال
    سورہ کہف کے موضوعات پر اجمالی نظر ڈالیں تو وہ بھی مختلف واقعات کی تفصیل بیان کرنے کے باوجود ایک مربوط جز ہے۔سورت کی ابتداء میں جس آزمائش کا ذکر ہے بقیہ سورت اسکی تفصیل ہے

    ابتدائی رکوع،آیت نمبر (۶۔۷)
    ’’ واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمایئں ان میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں ‘‘
    آیئندہ سورت ان آزمایشوںکی تفصیل ہے
    ۱صحاب ِ کہف کا قصہ۔۔۔(ایمان کی آزمائش)
    دو زمیں داروں کا قصہ۔۔۔(مال و دولت کہ کمی بیشی کی آزمائش)
    قصہ موسی ؑ و خضر ؑ۔۔۔۔۔(علم کی آزمائش)
    قصہ ذولقرنین۔۔۔۔۔۔(اقتدار کی آزمائش)
    اور آخر میں پھر بات آزمائش کی ناکامی وکامیابی کے دارومدار کا ذکر کیا گیا
    ٓآخری رکوع آیت نمبر (۱۰۴۔۱۰۳)
    ’’اے نبی ﷺ ان سے کہو کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں ‘‘
    ایک خاص حسن ترتیب و نظم و مناسبت سے سلسلہ کلام جہاں سے شروع کیا گیا وہیں بات لوٹ ائی۔ اب کوئی کیسے کہہ سکتا ہے ہے قرآن ایک بے ترتیب کتاب ہے؟؟ اور یہ تو انتہائی موٹی اور واضح مثالیں ہیں قرآنی نظم کی، مفسرین نے نظم خفیف کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جو آیات کے درمیان پایا جاتا ہے۔مولانا امیں احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر القرآن میں نظم پر خاص روشنی ڈالی ہے۔۔۔
    قرآن کا اعجاز ہر زمانے میں قائم ہے لیل و نہار گزرنے کے ساتھ باقی ۔۔زمانے کا ساتھ ثابت اور ماہ و سال گزرنے کے ساتھ قائم و دائم۔

                      تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
                       گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
    
  • کاش میں اس دور میں ہوتی….. آن علی

    کاش میں اس دور میں ہوتی….. آن علی

    تشنگی قلب کا شعلہ پھر
    بجھ جائے جوترا دیدار ہو

    حرمت کا مہینہ محرم، اسلامی سال کا پہلا دن، یار محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی نماز کے لیے صفیں درست کروا رہے ہوں نماز کے دوران ایک مجوسی خنجر سے حملہ کر دے، زخم ٹھیک نہ ہو رہے ہوں، اس حالت میں آنکھیں دیدار یار کی طلب میں برس رہی ہوں، چہرہ اقدس آسمان کی طرف اٹھتا ہو، بارگاہ الہی میں رقت آمیز دعا جاری ہو، یار کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت مل گئی ہو، چشم تصور سے محبوب کو دیکھتے ہوں ، زبان پر کلمہ جاری ہو، قید خانے سے رہائی ملے، یاروں کے پہلو میں تدفین ہو، روح کو جنت میں پہنچایا جا رہا ہو، وصل کی لذت اور قرب کے لمحات جدائی کے سال بھلا ڈالیں، روح مالک حقیقی تک جا پہنچے، امت مسلمہ اپنے عظیم خلیفہ کی جدائی میں نڈھال، فراق سے دل پھٹنے کو ہوں،

    اور

    اسلام…. ایک عادل حکمران، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ سے محروم ہو چکا ہو

    میرے پیارے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم میری محبوب ترین ہستی، پسندیدہ ترین شخصیت جن کا نام لبوں پر آتے ہی عقیدت سے نگاہیں جھک جاتی ہیں، دل مرعوب ہو جاتا ہے، آنکھیں چھلک پڑتی ہیں، دیدار کی طلب بڑھنے لگتی ہے، حاضری کی حسرت جاگ اٹھتی ہے، زندگی بے معنی سی لگتی ہے، دل چاہتا ہے وقت چودہ سو سال پیچھے چلا جائے اور چند لمحات ہی سہی، دیدار رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آنکھیں سیراب کر لوں، بے تابی قرار میں بدل جائے، وقت رک جائے،

    سرشاری کا عالم ہو، لذت دیدار سے لطف اٹھاؤں ، زندگی کو معنی مل جائیں، سر سجدے کی حالت میں ہو، روح پرواز کر جائے، اس قفس سے جان چھوٹ جائے،

    لیکن
    وہ حسرت ہی کیا جو پوری ہو جائے

    سوچتی ہوں کاش اس وقت پیدا ہوئی ہوتی تو
    صحن مسجد کے کسی کونے کو مسکن بنا لیتی، اسلام کے جگ مگ کرتے موتیوں میں بیٹھے محبوب خدا کو دیکھتی، چہرہ اقدس پر پھیلا تبسم، موتی کی صورت چمکتا پسینہ، آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر دل میں اتر جاتا، صدیق اکبر کو دیکھتی، ان کی جانثاری کا عالم دیکھتی، فاروق اعظم کو دیکھتی، عدل فاروقی دیکھتی، عثمان غنی کو دیکھتی، سخاوت کا عالم دیکھتی، علی کو دیکھتی، بہادری کا عالم دیکھتی،

    نظر رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آ کے ٹھہر جاتی، دوستوں، جانثاروں اور علم وحکمت کے موتیوں میں علم بانٹتے، اس شخص کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا دیکھتی

    وقت گزر رہا ہے، چہرہ آسمان کی طرف، لبوں پر کلمہ اور….

    ان کی دنیا سے رخصتی میرے دل کو چیر رہی ہے، صبر کی انتہاؤں سے گزر رہی ہوں، آنسو میرے حلق میں اتر رہے ہیں، ساکت کھڑی دیکھتی ہوں، جلیل القدر اصحاب کو دیکھتی ہوں، یار غار کو دیکھتی ہوں جو غم سے نڈھال ہیں، عمر کو دیکھتی ہوں جو تلوار نکالے کھڑے ہیں، کوئی ایسا بولے تو سہی گردن اڑا دوں گا، تکلیف کی شدت دیکھتی ہوں، جدائی کا غم دیکھتی ہوں،

    آنسوؤں سے بھری آنکھیں کھول کر دیکھتی ہوں تو خود کو یہیں پاتی ہوں، کہاں گئے وہ سب؟ حیرت سے دیکھتی ہوں، دوبارہ اس منظر میں جانے کی کوشش کرتی ہوں تو تکلیف سے آنکھیں بھر آتی ہیں،

    منبر پر وہ ہستی اب نہیں ہے، صبر کا پتھر دل پہ رکھ کر نظر جو دوڑاؤں تو ابوبکر کو
    خلیفہ بنتا دیکھوں، ان کی تحمل مزاجی دیکھوں، سادگی سے گزرتی زندگی دیکھوں،

    اور پھر…….

    ایک اور غم سے نڈھال ہوتے عمر کو دیکھوں

    وہ عمر، جسے میرے پیارے نے رب سے مانگا تھا
    وہ عمر، جس سے مکہ کے سردار تک ڈرتے تھے
    وہ عمر، جس کے بارے میں میرے پیارے نے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو وہ عمر ہوتا
    وہ عمر، جس کو دیکھ کر شیطان بھی اپنا راستہ بدل دے
    وہ عمر، جو عدل کا ایسا نظام قائم کر گیا جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی

    وہ عمر، جو میرے پیارے کا سُسر ہے

    اس عمر کو خلیفہ بنتا دیکھوں، خلافت کا عروج دیکھوں، اسلام کا عروج دیکھوں،

    آنکھ کھلتی ہے تو منظر تحلیل ہو جاتا ہے
    آنکھیں مل مل کر دیکھتی ہوں خواب میں دوبارہ جانا چاہتی ہوں وہاں جہاں عرب وعجم کی قسمت بدل رہی ہے، جہاں فتوحات کا سلسلہ جاری ہے، اسلام اپنی اصل شکل میں، پوری آب وتاب کے ساتھ، دنیا کے کونے کونے میں اپنی روشنی پھیلا رہا ہے،

    چشم تصور سے وہاں جھانکتی ہوں، عمر پر نظر پڑتی ہے تو چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا ہے، اپنے اسلاف پر فخر محسوس کرتی ہوں،
    عمر کو دیکھتی ہوں

    وہ عمر، جو صحن مسجد میں فرش خاک کو بستر بنا کے سو جاتا

    وہ عمر، جو بیماری کی حالت میں لوگوں کو جمع کر کے کہتا ہے اجازت ہو تو بیت المال سے تھوڑا شہد لے لوں

    وہ عمر، جو روم اور ایران جیسی بڑی سلطنتوں کا فاتح تھا

    وہ عمر، جو قیصر و کسری کے سفیروں سے اس حال میں ملتا کہ سر پر عمامہ اور پاؤں میں پیوند لگا جوتا ہوتا

    وہ عمر، جو مدینہ میں اس حالت میں داخل ہوتا ہے کہ غلام سواری پر اور وہ پیدل چلے آ رہے ہیں

    تہجد کا وقت ہے آنکھ کھل گئی ہے اور اب وہ منظر دھندلا رہا ہے نوافل پڑھتی ہوں دعا کے لیے ہاتھ بلند ہوتے ہیں

    سلام اس پر، جو میرے پیارے کی مقبول دعا ہے

    سلام اس پر، جو صدیق اکبر کا انتخاب ہے

    سلام اس پر، جو راتوں کو جاگ کر رعایا کی خبر گیری کرتا رہا

    سلام اس پر، جو کہتا تھا دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاس سے مر گیا تو میں جواب دہ ہوں

    سلام اس پر، جس کا قول اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے

    انکی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا، تمہیں کس نے اختیار دیا کہ انہیں غلام بناؤ

    سلام اس پر، جو دنیا کے لیے حکمرانی کی اعلی مثال قائم کر گیا

    از قلم :آن علی