Category: پاکستانیات

  • پاکستان: ریاست، تنازعات اور سی پیک  –  وقار علی، فن لینڈ

    پاکستان: ریاست، تنازعات اور سی پیک – وقار علی، فن لینڈ

    بدقسمتی سے پاکستان کچھ عرصے سے پیس اینڈ کانفلیکٹ سٹڈیز کے سکالرز اور طالب علموں کے لیے ایک پُرکشش موضوع بن گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انسانی معاشرے سے متعلق شاید ہی کوئی تنازع ہو جس کی بہترین مثال پاکستان میں موجود نہ ہو بلکہ ہر مثال اپنی گہرائی، تنوع، لمبی تاریخ، پیچیدگی اور ہمہ جہت مثالیت کے ساتھ موجود ہے۔

    عام طور پر ملک کے شمال مغربی علاقوں (فاٹا اور خیبر پختونخوا) میں جاری تنازعے کو مذہبی، وسط مغربی (بلوچستان) اور جنوبی (کراچی) علاقوں میں جاری شورش اور ابتری کو نسلی و لسانی جبکہ وسطی (پنجاب) علاقے میں جاری بدامنی کو فرقہ وارانہ تنازع سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ درآں حالیکہ یہ سب تنازعات کسی نہ کسی طور پر ایک دوسرے سے پیوستہ و منسلک ہیں۔

    بعینہٖ ان تنازعات کے لیے جتنے بھی حل اب تک تجویز کیے گئے ہیں وہ تین موضوعات یعنی جیوپولیٹیکل، مذہب اور ریاست سے متعلق ہیں۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ ان میں بیشتر تنازعات کا حل ریاست کی خارجہ پالیسی کی درستگی اور توازن میں مضمر ہے۔ یعنی ریاست پاکستان کے خاص طو ر پر اپنے پڑوسیوں اور بین الاقوامی مراکز طاقت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے حوالے سے پالیسی میں اگر تبدیلی کی جائے تو یہ مسائل بتدریج حل ہوسکتے ہیں۔

    دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ مذہب (یا اس کی ایک مخصوص تعبیر) ان مسائل یا تنازعات میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے مذہب (یا اس مخصوص تعبیر) کی اصلاح سے ان تنازعات (خصوصاً شمال مغربی اور وسطی علاقوں میں موجود مسائل) کا دیرپا حل ممکن ہوسکتا ہے۔ جبکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ریاست کو اپنے اندرونی بنیادی پالیسیوں کی اصلاح پر توجہ دینی ہوگی جس میں سماجی اور سیاسی اصلاحات، جمہوری عمل کا تسلسل، عسکری تسلط کا خاتمہ، علاقائی خودمختاری اور ملک کے تمام طبقات اور اقوام میں اعتماد کی بتدریج بحالی جیسے اہم امور شامل ہیں۔

    تاہم سب سے ضروری نکتہ جس کو کسی بھی حل میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، وہ حل کی عملیت ہے۔ اس حوالے سے جب ہم جیوپولیٹیکل حل یعنی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حل کے پیش کرنے والے پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے علاقائی اور بین الاقوامی مراکز طاقت کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔ ظاہر ہے ریاست کے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں۔ ایک ریاست پولیٹیکل گیم میں خود کو آسانی سے ملوث کرسکتی ہے اور خود اس کے شروعات میں کردار بھی ادا کرسکتی ہے لیکن بعد میں ایسے کسی تنازعے سے خود کو یک طرفہ طور پر نکال لینا یا اس کا خاتمہ اس کے بس میں نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ممکن بھی ہو تو اس کے لیے عوام میں مضبوط جڑیں رکھنی والی اور طاقتور اعصاب کی مالک قیادت ایک بنیادی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جاری قیادت کے فقدان کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب اس کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ مزید براں اس خطے (خصوصاً افغانستان) میں جاری پراکسی وار کچھ زیادہ ہی پیچیدہ اور کثیرالجہت ہوگیا ہے اور فی الوقت اس کا خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ اس میں علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑی شامل ہوچکے ہیں اور سب اپنے مفادات کو انفرادی سطح پر محفوظ تر بنانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ کھیل میں شامل سب کھلاڑیوں کے مفادات ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔

    اسی طرح مذہب (یا اس مخصوص روایتی تعبیر) کی اصلاح سننے میں تو ایک دلپذیر خیال اور دلکش عنوان ہوسکتا ہے لیکن شاید ہی کسی کو اس کے ناممکن ہونے میں کلام ہو۔ یعنی ایں خیال است و محال است و جنوں! اس خیال کے موکلین ہزاروں میں ہوسکتے ہیں اور اس کے حامی لاکھوں میں لیکن پاکستان میں آپ کو 20 کروڑ مختلف النوع انسانوں سے سابقہ ہے جن کی زبانیں مختلف ، مسالک مختلف ، تاریخ اور جغرافیہ مختلف، سماج، سوچ اور کلچر مختلف ہے۔ اس لیے جتنا یہ خیال دلکش و دلپذیر ہے اتنا ہی غیر عملی بھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس خیال کے پیش کرنے والے شاید پاکستان کے سب سے زیادہ جمہوری سوچ رکھنے والے ہیں اور وہ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی تعبیر دین عوام پر کسی بھی طریقے سے تھوپی جائے۔

    اس لیے سب سے زیادہ عملی اور بہترین ممکن راستہ یہی ہے کہ ریاست اپنے اندرونی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ ان تنازعات میں تمام ریاست مخالف دھڑوں کے درمیان بُعد المشرقین ہے لیکن سب ایک نکتے پر متفق ہیں اور وہ یہ ان کا ایک ہی مشترکہ دشمن ہے جس کا نام ”اسٹبلشمنٹ“ ہے ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ریاست کے اندرونی سطح کے اصلاحات میں اس بات کو کلیدی اہمیت حاصل ہو کہ اس نام نہاد اسٹبلشمنٹ کی شکل و ہئیت کو بالکل بدل کر رکھ دیا جائے۔ اسٹبلشمنٹ کی نوآبادیاتی دور کے تصور کو ختم کیا جائے اور اس کے ظہورپذیر ہونے کے تمام راستوں کو بند کرکے ریاست اور ملک میں جدید دنیا کے تصور اسٹبلشمنٹ سے ہم آہنگ تصور کو فروع دیا جائے۔ دیگر اصلاحات میں پاکستان کے تمام طبقات اور اقوام اور ان کی علاقائی شناخت کو حقیقی طور پر تسلیم کرنا، انتظامی یونٹس کی ازسرنو تشکیل یعنی تمام اقوام کی حقیقی نمایندہ یونٹس کا قیام، فیڈریشن کی جانب پیش قدمی، مقامی ذرائع آمدن پر مقامی حقوق کو یقینی بنانا، وسیع تر قومی معاشرے میں ہم آہنگی اور اعتماد کو فروغ دینے کے لیے مطلوبہ اقدامات، ہر سطح پر جمہوری کلچر اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا، جاگیرداری کا مکمل خاتمہ اور زمین سے متعلقہ اصلاحات، ہتھیاروں کی بجائے علم اور تعلیم پر مرتکز پالیسی، ریاستی اور حکومتی امور میں عسکری تسلط اور غلبے کا خاتمہ اور تمام شہریوں کے (بلاتفریق مذہب ، مسلک ، قومیت ، زبان ، نسل اور جنس) بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا بنیادی امور ہیں ۔

    اگرچہ یہ اقدامات اور اصلاحات پاکستان کو غیریقینی کیفیت سے نکال لینے اور اس کے مستقبل کی ضمانت کے لیے ناگزیر ہیں لیکن بدقسمتی سے ریاست اور حکومت اس کے مخالف سمت میں برابر لگی ہوئی ہے اور مجھے ان پالیسیوں کے ناکامی اور ریاست پاکستان پر اس کے دوررس اور انتہائی منفی اثرات کے مرتب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ اس حوالے سے سی پیک کا منصوبہ ایک نہایت اہم، واضح اور اہمیت کا حامل ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا۔ اپنے افادیت کے لحاظ سے یہ نہ صرف پاکستان کی معاشی حالت کے سدھار بلکہ ریاست پاکستان کے حدود کے اندر ایک قوم کی تشکیل کے لیے ایک گراں قدر موقع ہے ۔ تاہم اس کے روٹ میں بنیادی تبدیلی (جس کا تقریباً فیصلہ ہوچکا ہے) اس کو پاکستان میں انتشار اور تقسیم کے لیے ایک عمل انگیز ثابت کرسکتی ہے۔

    لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کےاذہان کبیر نے شاید درست سوچا کہ مغربی روٹ کو علاقے میں بدامنی اور ریاست مخالف انتشار کی وجہ سے اپنایا نہیں جاسکتا حالانکہ یہی تو ریاست کے لیے اصل اور کڑا امتحان ہے کیونکہ اسی امتحان سے گزر کر ریاست اپنے شہریوں کو یہ باور کراسکتی ہے کہ ان کا آنے والا کل روشن اور محفوظ ہے ۔ روٹ تبدیل کرنے کا مطلب ریاست مخالف عناصر کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہے؛ اپنی بے بسی کا اظہار ہے اور یہ پیغام دینا ہے کہ ریاست کو چند علاقوں اور چند قومیتوں کے علاوہ باقی علاقوں اور قومیتوں میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ پاکستان کے شمال مغربی اور وسط مغربی علاقوں میں ریاست اور ریاست کے اندر اپنے مستقبل کے حوالے سے متعلق شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ ریاست پاکستان عام طور پر ان شکوک کو ”ملک دشمنی“ اور ”غداری“ کے لیبلز چسپاں کرکے دبانا چاہتی ہے جبکہ یہ شکوک ریاست مخالف گروہوں میں نہیں بلکہ پاکستان کے لیے محبت رکھنے والے لوگوں میں پیدا ہورہے ہیں اور میرے اندازے کے مطابق نوجوان نسل میں اس طرح کے جذبات عام ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کے شکوک کا اظہار عام نہیں؛ بالکل تسلیم لیکن وجوہ سب کے علم میں ہیں کہ ایسے شکوک کا کھلے عام اظہار کیوں نہیں کیا جاتا؟

    حال ہی میں القاعدہ اور طالبان کی قید سے رہائی پانے والے حیدر گیلانی نے بھی بہت بروقت ریاست کو اس پر متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ تحریک طالبان اپنا بیانیہ مذہب سے ہٹاکر قومیت کے بنیاد پر پیش کرنے کی طرف جارہی ہے۔ یعنی ان کے دلائل میں اب واضح تبدیلی نظر آتی ہے جہاں مذہب کی بجائے قومیت اور قومی حقوق یا محرومی کا ذکر غالب آرہا ہے ۔ سی پیک روٹ کی تبدیلی ان حالات میں نہ صرف طالبان بلکہ تمام ریاست مخالف گروہوں کو ایک مضبوط ، دیرپا اور مستحکم دلیل فراہم کرسکتا ہے ۔

    حکومت کی طرف سے روٹ کی مبینہ تبدیلی کے بعد ایک خاص قومیت سے تعلق رکھنے والے نام نہاد دانشوروں نے بھی ایک خاموش اور بلاواسطہ پروپگنڈہ مہم شروع کردی ہے جو مغربی روٹ کی خرابیاں اور مشرقی روٹ کی اچھائیاں ”اجاگر“ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مخالف قوتوں کو منفی تنقید کا نشانہ بنارہی ہے۔ یہ سب کچھ ایک غیرمحسوس طریقہ کیا جارہا ہے ۔ اس طرح کی حرکات پاکستان کے مختلف النوع قومیتوں کے درمیان دراڑ کو مزید مضبوط اور گہرا کرسکتی ہیں ۔

  • پاناما لیکس یا پاجامہ!  –  ظفر عمران

    پاناما لیکس یا پاجامہ! – ظفر عمران

    zafar imranمحترم عامر ہاشم خاکوانی فرماتے ہیں کہ ‘در اصل فوج کے حوالے سے آپ ایک خاص موقف طے کرچکے ہیں، تو اس سے ہٹ کر آپ کو کوئی بھی بات نا گوار لگتی ہے۔’ میں نے ان کی بات کو تسلیم کرتے کہا کہ فوجی بھی اتنا ہی بد عنوان ہوسکتا ہے، جتنا کہ سیاست دان۔ یہ مضمون اسی بحث کی کڑی ہے۔

    آج کل پاناما لِیکس کا شوروغوغا ہے۔ سیاست دانوں بالخصوص شریف فیملی کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ کوئی بات نہیں، یہ جمہوریت کا حسن ہے، کہ کوئی آپ سے سوال کرے، آپ تسلی بھرا جواب دیں؛ لیکن یہ نہ کیجیے، کہ سوال کرنے والے کو ‘مِسنگ پرسن’ بناکر رکھ دیا جاے۔ پاناما لِیکس میں جو الزامات لگاے گئے، ان کی تحقیق ہو، کوئی مجرم ثابت ہو جاے، تو سزا دی جاے۔ ماضی دیکھیے، اسی ملک میں ایک منتخب وزیر اعظم پہ قتل ‘ثابت’ ہوا، انھیں پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ دوسرے منتخب وزیر اعظم طیارہ اغوا کرتے ‘رنگے ہاتھوں’ دھر لیے گئے؛ ملک بدر کیے گئے۔ تیسرے وزیر اعظم توہین عدالت کے مرتکب ہوے، عہدے سے برخاست کیے گئے۔

    کسی سیاست دان میں اتنا دم خم ہی نہیں، کہ کسی فوجی کا احتساب کر سکے؛ جب کہ سیاست دانوں کا احتساب ہر فوجی آمر نے کیا، نتیجہ یہی نکلا کہ کچھ پاک ہو کر فوجی اقتدار کا حصہ بنے؛ کچھ کے خلاف عدالت میں ثبوت ہی نہ فراہم کیے جاسکے؛ چند لمحوں کے لیے مان لیتے ہیں، کہ جن کے خلاف ثبوت میسر نہ ہوے، وہ گھاگ تھے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کہ ایسے سیاست دان عدالتوں سے بے گناہی کا فیصلہ لیتے دس سال جیل میں گزار دیتے ہیں۔

    اب آتے ہیں، اس کیس کی طرف جو سولہ سال فیصلے کا منتظر رہا؛ اصغر خان کیس۔ ملاحظہ ہوں اس فیصلے کی جھلکیاں۔

    ‘چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں، جسٹس جواد ایس خواجہ اور عارف حسین خلجی پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 1990ءکے انتخابات میں آئی جےآئی بنانے سےمتعلق سولہ سال پرانے اصغر خان کے مقدمے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے، کہ نوے کے انتخابات میں اِسٹیبلش منٹ کے بناے گئےسیاسی سیل کے ذریعے دھاندلی ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، اور عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ جو سیاست دان اس سے مستفید ہوئے ان کی تحقیقات کی جائیں۔ اس کے علاوہ فیصلے میں سب سے اہم حکم کہ اگر ایوان صدر میں سیاسی سیل موجود ہے تو ختم کیا جاے، صدر حلف وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔’

    آخر کیا وجہ ہے، کہ ان ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی؟ کچھ نہیں، تو فوج ان افسران کو بہ حال کر کے ناراضی کی سزا ہی سنا دے! اب آپ کوئی یہ کہے، کہ میں نے پاناما لِیکس کے ‘مجرموں’ کو بچانے کے لیے آئیں بائیں شائیں شروع کر دی ہے، تو ان کے لیے مقدمے کے فیصلے سے یہ حوالہ پیش کرتا ہوں۔

    ‘ایف آئی اے کی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی انکوائری رپورٹ کہتی ہے کہ یونس حبیب نے الیکشن میں دھاندلی وغیرہ کے لیے آئی ایس آئی کے ذریعے دیئے گئے پینتیس لاکھ روپے کے علاوہ نواز شریف کو بیس کروڑ روپے کی رشوت دی تھی۔’

    لیجیے جناب، حاکم وقت جناب میاں نواز شریف کا نام بھی شامل ہے، گنہ گاروں میں۔۔۔ میری راے ہے، کہ کسی نئی تحقیق میں پڑنے سے بہ تر ہے، پہلے سے ہوے عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جاے؛ سولہ سال لٹکنے والے اس مقدمے پہ قوم کا کتنا پیسا ضائع ہوا، اس کا حساب تو ہو۔۔۔ سنیے! ایسا ہوگا نہیں۔۔۔ فوج کے خلاف چاہے جتنے فیصلے آ جائیں وہ ردی کی ٹوکری کے لیے ہیں؛ واقع یہ ہے، کہ سیاست دان کم زور مقدموں میں بھی جیل کی ہوا کھاتے آے۔

    جناب خاکوانی، کیا آپ سمجھتے ہیں، کہ پاناما لِیکس، اور پاجامہ لِیکس کی اصطلاحیں کوئی معنی رکھتی ہیں؟

  • تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پُرنور – ہمایوں مجاہد تارڑ

    تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پُرنور – ہمایوں مجاہد تارڑ

    12510238_992882284129170_8202808987580135765_nجس طرح خونی رشتوں کی محبت ایک فطری امر ہے، اسی طرح وطن سے محبت بھی بلاتکلّف ہوا کرتی ہے۔ کہتے ہیں جسے وطن سے محبّت نہ ہو، وہ دنیا کی کسی شے سے محبّت نہیں کر سکتا۔ نیز یہ کہ وطن کی محبّت اپنے گھر کی محبّت سے بھی سوا، اس پر حاوی ہوا کرتی ہے۔ کیوں نہ ہو، کہ آپ فکری اور ثقافتی اعتبار سے اس خطہِ زمیں سے جڑے ہوتے ہیں جہاں آپ پیدا ہوئے۔ جس مٹّی کے سینے پر اٹھتے بیٹھتے، مسائل سے نمٹتےآپ کے شب و روز گزرے ہوں، جس دھرتی کی گود میں پروان چڑھتے آپ نے زندگی کی بیسیوں بہاریں دیکھی ہوں، اور جس کی خزاں رُت کی اداسیوں سے ہم رابطہ رہے ہوں، اس کی چاہ، اس کی لگن کا رگوں میں لہو بن کر سدا رواں رہنا، گاہے ابل ابل پڑنا ایک طبعی امر ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ یوں، وطن سے محبت میں جذبات کا چھلک چھلک سا جانا، اس خاطر مضطرب ہونا اور دگرگوں حالات میں جان تک نثار کرڈالنا فطری باتیں متصوّر ہوتی ہیں۔
    حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے جس کا اظہار ہر خطّے کے باسی اپنے اپنے انداز میں کرتے، اور اس میں آئے دن رنگ بھرتے رہتے ہیں۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کا مشہور جملہ ہے: “ہم وطنو، یہ مت کہو کہ آپ کا ملک آپ کو کیا کچھ دے سکتا ہے،، بلکہ یہ کہو کہ آپ اپنے ملک کوکیا کچھ دے سکتے ہو۔”
    ذرا یہ لائنیں ملاحظہ ہوں:
    تجھ سے ہے میری تمناؤں کی دنیا پرنور
    عزم میرا ہےقوی، میرے ارادے غیّور
    میری ہستی میں انا ہے، میری مستی میں شعور
    جاں فزا میرا تخیل ہے تو شیریں ہے سخن
    اے مرے پیارے وطن!
    میرا دل تیری محبت کا ہے جاں بخش دیار
    میرا سینا تیری حرمت کا ہے سنگین حصار
    میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار
    میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہ تن
    اے میرے پیارے وطن!
    رگ و پے میں برق سی دوڑ جاتی ہے۔ ہے نا؟ جیسے آسمانی بجلی اچانک ہمارے آنگن میں گر پڑے۔
    حبّ وطن کے تقاضے پورا کرنے کو اگر ایک صنعت کار اچھی صنعت کے ذریعے خدمت بجا لاتا ہے، ایک معلّم بذریعہ عمدہ تدریس، اور ایک فوجی سرحد کی حفاظت میں فرض شناسی کی صورت تو ایک شاعر اپنے اور اپنے ہم وطنوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے کھرے اورلطیف جذبات کا نذرانہ پیش کرتا ہے، کہ حرف و خیال کو سلیقے سے برتنے کا ہنر ہی وہ سوغات ہے جسے وہ ماں دھرتی کے حضور پیش کر سکتا ہے۔ خلوص کی حدّت لیے ایسا کلام اپنے وطن کے حضور پیش کرنا ہی اس کا ‘عمل’ کہلائے گا، کہ یہی اس کا کل اثاثہ ہے۔ بلا شبہ ایسا کلام ہزارہا دلوں کا ترجمان ہوتا ہے جو سب لوگوں کا خون برابرگرما دیتا، ان کی کیفیات بدل دیتا ہے۔
    کون بھول سکتا ہے سن 65 کی جنگ ستمبر کو۔ اُن ہوش ربا ، روح فرسا ساعتوں میں قوم کا، اور بالخصوص فوجی بھائیوں کا مورال بلند رکھنے میں حمایت علی شاعر کی شاعری اور خلیل احمد کی موسیقی سے سجے’’ساتھیو! مجاہدو! جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ ایسے ملّی نغموں نے پاکستانی قوم میں گویا ایک نئی روح پھونک دی تھی جس کی بنا پر یہ دشمن کے روبرو ایک فولادی قوت بن کر کھڑی ہو گئی۔ یوں، ہمیں ناقابلِ تسخیر بنا ڈالنے میں اس شاعرانہ کلام نے بھی خوب حصّہ ڈالا۔۔ وہ کلام، وہ نغمے آج بھی سامعین اور فوجی بھائیوں کے جذبات کو گرما دیتے ہیں۔
    سرفروشی ہے ایماں تمھارا
    جراتوں کے پرستار ہو تم
    جو حفاظت کریں سرحدوں کی
    وہ فلک بوس دیوار ہو تم
    چاند تاروں کے اے راز دانو
    میرے نغمے تمہارے لیے ہیں
    الحمد للہ، اردو زبان اپنے ہاں حبّ الوطنی پر مبنی شاعری کا قابلِ قدر خزینہ رکھتی ہے۔ہمارے قابلِ صد افتخارشعرا، خواہ وہ بائیں بازو سے ہوں یا دائیں بازو سے، سب اس عظیم دھرتی سے اپنی والہانہ محبتوں کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ہم ایسی تمام ادبی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور انھیں اس دھرتی کا بیش قیمت سرمایہ خیال کرتے ہیں۔ آخر میں ذوقِ طبع کے لیے پیشِ خدمت ہیں پروین شاکر مرحومہ کے خوبصورت اشعار۔دُعا ہے کہ اللہ کریم انہیں اور ہمارے دیگر شعرا و ادبا کو بھی ایسے شہپارے تخلیق کرنے کے عوض آسانیاں عطافرمائے، اور غریقِ رحمت کرے۔
    بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
    یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
    خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
    وہ رویّہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
    یہ شعر دیکھیں:
    بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
    اور مری ساری فضیلت اِسی پوشاک سے ہے

    یعنی (میرے ناقص فہم کے مطابق) بلندیوں کے سفر میں، تحسین و ستائش سے معمور برکھا رُت میں نہال، چاہے جانے کی کیف آگیں ساعتوں میں بھی کہ جب خود کو کچھ خاص سمجھ بیٹھنے، خود فراموش رہ کر عرصہِ حیات کی شیرینی سے گھونٹ گھونٹ حظ اٹھائے چلے جانے کا آپشن موجود تھا، میں down to earth رہا۔ میں نے یہ جانا اور مانا کہ یہ مشتِ خاک تو بس خاک کا پیوند ہونے، مٹی میں مل کر مٹی ہو جانے تک کی ہے۔ رہ جانے والی بات، سدا مہکنے والا پھول تو یہ احساس ہے کہ اپنی ماں دھرتی پر بسنے والی کم نصیب جنتا کا خیال کیا جائے، ان سے قریب رہا جائے، اور حسبِ مقدوراُن کی دلجوئی کی جائے ۔
    پروین شاکر کا ہی ایک اور شعر ہے:
    اتنی روشن ہے تری صبح کہ دل کہتا ہے
    یہ اُجالا تو کسی دیدہِ نمناک سے ہے
    آخر میں دعا گو ہوں کہ عامر خاکوانی صاحب کا ‘دلیل’ کے آغاز کا فیصلہ بارآوار ہو اور یہ اقدام پوری طرح ثمر بار ثابت ہو۔ اس کی فیض رسانی تبھی یقینی اور مستحکم ہوگی جب نئے لکھنے والے ایک ایک شعبہ سنبھال کر تلاش وتحقیق کے حوالے سے محنت کا حق ادا کریں گے اور اپنی تحاریر کو زبان و بیان کی خوبیوں سے آراستہ کرنے کی خاطر سینیئر اور کہنہ مشق لکھاریوں کے چشمہِ خضر سے سیراب ہونے کو انھیں زیادہ تر انہماک سے مطالعہ کرنے کی عادت اپنائیں گے کہ:
    جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
    سمجھا جائے تو یہ ایک اہم قومی ذمّہ داری ہے۔

  • اسلامی نظریاتی کونسل، اُمّید کی آخری کرن – ادریس آزاد

    اسلامی نظریاتی کونسل، اُمّید کی آخری کرن – ادریس آزاد

    12983425_10206383337009150_3234894972904837408_oمیں آج بھی’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ کو مسلم نشاۃِ ثانیہ کے لیے اُمّید کی کرن تصور کرتاہوں۔کیونکہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں یہ واحد ایسا ادارہ ہے جو فقط اپنی آئینی ساخت کی وجہ سے آج بھی فی الواقعہ اجتہاد کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے۔ایران میں اگرچہ روحانی پیشوأ موجود ہیں جو ظاہر ہے اپنی کسی خاص مجلسِ شوریٰ سے رائے بھی لیتے ہونگے اور حکومت کو سفارشات بھی بھیجتے ہونگے لیکن ایران کی رُوحانی پیشوائیت میں ، جو کہ فقط فقہ جعفریہ کو منبعِ شریعت سمجھتی ہے، پوری مسلم اُمہ کو اجتہاد کے ذریعے ظلمت کی گہرائیوں سے نکالنے کی صلاحیت ہرگزنظر نہیں آتی۔لیکن پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل سے یہ کام بآسانی لیا جاسکتاہےکیونکہ آئین کے مطابق یہ کونسل تمام مسالک کی یکساں نمائندہ ہے۔
    جب 73 کا آئین منظور ہوا تو اس میں ایک شق( نمبر 227) تھی کہ، ’’پاکستان میں کوئی قانون، قران وسنت کے مخالف نہیں بنایا جائےگا‘‘ تب یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ آیا کوئی قانون قران و سنت کے خلاف ہے یا نہیں۔اس سوال کا جواب ماسوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ ایک کونسل بنائی جائے جو ’’اسلامی نظریات وافکار‘‘ پر نظر رکھے۔چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔پھر 73 کے آئین کی شق نمبر 228, 229, 230 بنائی گئیں جن کے مطابق نظریاتی کونسل ملک کے ’’بیس‘‘ بڑے علمائے کرام پر مشتمل ہوگی۔ یہ بیس لوگ نہایت احتیاط سے منتخب کیے جائینگے۔ شق نمبر 228 میں بتایا گیا کہ کونسل کے ممبران کے چناؤ کے وقت تمام مسالک کو مساوی نمائندگی دی جائے گی۔یہ بھی طے ہوا کہ ان بیس علمأ میں کم ازکم چار علمأ ایسے ہونگے جنہوں نے اسلامی شریعت کی تحقیق و تعلیم میں کم سے کم پندرہ سال صرف کیے ہوں اور انہیں جمہورِ پاکستان کا اعتماد حاصل ہو‘‘۔ جب سے پاکستان بنا تھا یہ پہلا ادارہ تھا جو اُن مقاصد کو مدنظر رکھنے کا اہل تھا جو تقسیم کے وقت پاکستان کے حامی مسلمانوں کے پیش ِ نظر تھے اور جن کا علامہ اقبال نے باقاعدہ خطبہ الہ آباد میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تھا۔پاکستان وجود میں آیا تو بعض لوگوں کو محسوس ہوا کہ ایک خالصتاً جمہوری ملک چند ہی سالوں میں خودبخود سیکولزم کے راستے پر چل پڑے گا جوکہ کسی بھی جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہے، چنانچہ ان لوگوں نے کراچی میں ایک جگہ جمع ہوکر’’قرارِ مقاصد‘‘ کے نام سے ایک دستاویز تیار کی اور چونکہ وہ سب تحریک پاکستان کے بااعتماد لوگ تھے اس لیے قراردادِ مقاصد کو دستور کا حصہ بنادیاگیا۔قراردادِ مقاصد پر ہمیشہ یہی اعتراض سب سے پہلے کیا جاتاہے کہ یہ دستاویز بنیادی طور پر غیر جمہوری طریقے سے تیار کی گئی تھی اور اس نے ہی ملک میں اصل جمہوریت کو پنپنے سے روکے رکھا ہے۔یوں گویا اسلامی نظریاتی کونسل کا کام، کونسل کے قیام سے پہلے قراردادِ مقاصد سے پورا کیا جاتارہا۔ لیکن جب اسلامی نظریاتی کونسل وجود میں آگئی تو گویا ایک ایسا مستقل ادارہ وجود میں آگیا جو قانون ساز اداروں کو قران و سنت کے خلاف قانون سازی سے باز رکھ سکتا تھا اور اس وجہ سے قراردادِ مقاصد کی معنوی اور عملی طور پر ضرورت نہ رہ گئی تھی۔لیکن افسوس کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے روزِ اوّل سے ہی اپنا کام ٹھیک سے انجام نہ دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک بدنام ادارہ بنتی چلی گئی۔
    اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس کا مقصد اسلام کے فقہی مسائل پرغوروفکرکرنااور ریاست و حکومت کو وقتاً فوقتاً تجاویز و سفارشات سے نوازتےرہناہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ کونسل کی مشاورت سے، مُلک کا دستورقران و سنت کے زیادہ سے زیادہ قریب رہے اور کوئی بھی حکومت ، عین اسلامی قوانین کی روشنی میں کسی بھی قسم کی رہنمائی، کسی بھی وقت حاصل کرسکے۔ اگر دیکھا جائے تو اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان جیسے ملک میں اہم ترین ادارہ ہے۔پاکستان ایسے لوگوں کا مُلک ہے جو روزِ اوّل سے نسبتاً زیادہ مذہبی طبیعت کے مالک ہیں۔ایسے مُلک میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ۔یہ واحد ادارہ ہے جو فی الحقیقت حکومتی سطح پر شرعی فتوے کی سب سے بڑی اتھارٹی ہے۔اگر کونسل فقط مسلسل کام ہی کرتی رہتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اب تک عام مولوی کی جانب سے جاری ہونے والے فتویٰ کی حیثیت خود بخود ختم ہوچکی ہوتی۔اگر کونسل تمام فرقوں کا اعتماد حاصل کرکے ’’مشترکہ فتوے‘‘ جاری کرتی رہتی تو ہرڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے کبھی’’کافرکافر‘‘ کے نعرے کامیابی کے ساتھ بلند نہ ہوپاتے۔
    دراصل اسلامی نظریاتی کونسل کو کبھی بھی غیرجانبداری کے ساتھ کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ ہی کبھی تمام فرقوں کی مساوی نمائندگی ممکن ہوسکی۔گزشتہ دنوں جاوید احمد غامدی صاحب نے ایک انٹرویو میں اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہاکہ،
    ’’ اب سوال یہ ہے کہ کیا ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘اُن ضرورتوں کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے تو میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایسے جید علما تیار کرنے سے قاصر ہے جو دور جدید کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے اہل ہوں۔ یہ نظام تعلیم تقلیدِ جامدکے اصول پر قائم ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے قدیم علما کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ ان کے کام کی تفہیم اورشرح و وضاحت تو ہو سکتی ہے، مگر اس پر نظر ثانی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دور اول کے فقہا نے جو اصول و قوانین مرتب کیے ہیں، وہ تغیرات زمانہ کے باوجود قابل عمل ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق و اجتہاد کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس بات کا اب کوئی امکان کہ کوئی شخص مجتہد کے منصب پر فائز ہو سکے۔ ہمارے علما اسی نظام تعلیم کی پیداوار ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ہوں یا کسی ادارے کی صورت میں مجتمع ہو کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہوں، وہ اس کی اہلیت ہی سے محروم ہیں کہ اسلامی شریعت کی شرح ووضاحت کر سکیں یا جن معاملات میں شریعت خاموش ہے، ان کے بارے میں اپنی آرا پیش کر سکیں۔ یہی علما ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا حصہ ہیں، لہٰذا اس ادارے یا ایسے کسی دوسرے ادارے سے اس طرح کی توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے بارے میں ان سوالات کا جواب دے سکے جو مسلمانوں کے ذہین عناصر کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں اور ان شکوک وشبہات کو رفع کر سکے جن کا اسلام کو عالمی سطح پر سامنا ہے‘‘۔
    غامدی صاحب کا سارا زور اس بات پر رہا کہ ہمارے پاس دراصل ایسے علمائے دین ہی موجود نہیں ہیں جن کے سپرد’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ جیسا ادارہ کیا جاسکے۔ اُن کے بقول ہمارے علمأ چونکہ اجتہاد کو عملاً تسلیم نہیں کرتے، اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل ہمیشہ ایک ناکام ادارہ رہے گی۔ میرا خیال ہے غامدی صاحب علمأ سے چونکہ بہت زیادہ نالاں ہیں اس لیے انہوں نے ایسا بیان جاری کیا۔ غامدی صاحب نے اس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ جب ۱۹۷۳ میں یہ کونسل بنائی گئی تو اس وقت بھی علمأ یہی تھے یعنی اجتہاد کے بارے میں ایسے ہی خیالات کے مالک تھے جن کا ذکر غامدی صاحب نے فرمایا۔لیکن پھر بھی کونسل وجود میں آگئی۔ گویا اُس وقت کےعلمأ کونسل کے وجود پر متفق ہوگئے۔ اگر ہم ذرا ذہن پر زور دیں تو ۷۳ کے آئین کو ملک بھر کے طبقۂ علمأ سے جو تائید حاصل تھی، وہ دراصل پہلا اجتہاد تھا۔ ۷۳ کے آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود میں آنا میری نظر میں اتنا بڑا اقدام ہے کہ بذاتِ خود ۷۳ کا آئین اتنا بڑا اقدام نہیں ہے۔یہی موقع تھا جب سب سے پہلے قراردادِ مقاصد پر نظرثانی کی جاتی اور قراردادِ مقاصد کے ماتھے سے ’’غیر جمہوری‘‘ ہونے کا داغ ہمیشہ کے لیے مٹایا جاتا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ قراردادِ مقاصد کی بیشتر اصطلاحات قطعی طور پر مبہم ہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس ابہام کو ختم کرسکتی تھی۔ یہ کونسل اپنی نیچر میں ہی ایسا ادارہ تھی کہ اگر مسلسل کام کرتی رہتی تو ایک وقت آتا کہ ملک کے ہرشہری کو پتہ چل جاتا کہ انہوں نے دراصل کس کی بات کا یقین کرناہے۔ انہوں نے مسجد کے سپیکروں سے بلند ہونے والے فتووں پر کان دھرنے ہیں یا کونسل کی طرف اُمید کی نظروں سے دیکھنا ہے۔ بس شرط یہی تھی کہ کونسل مسلسل اور متواتر کام کرتی۔
    ایک نہایت قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ پاکستان مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا جبکہ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ہمیشہ ’’وطنی قومیت‘‘ کے طریقے پر حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملک کبھی ٹھیک سے نہ جمہوری بن پایا اور نہ اسلامی۔ جب ملک بن رہا تھا تو کہاگیا کہ کوئی بنگالی، سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی نہیں ، سب مسلمان ہیں لیکن اسمبلی میں نمائندگی کے وقت سندھی، بنگالی، پٹھان ، پنجابی اور بلوچ کی بنیاد پر کال دی گئی۔ایک عجیب سی بات کرتاہوں جو فی الاصل میرا مقصود نہیں، صرف کونسل سے متعلق اپنی رائے سمجھانے کے لیے عرض کررہاہوں کہ اگر ملک کو مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا تھا تو نمائندگی بھی مسالک کی بنا پر دی جاتی۔یعنی سندھ، پنجاب، پختونخوا اور بلوچستان سے نمائندے لینے کی بجائے، شیعہ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث کی بنیاد پر الیکشنز کروائے جاتے تو ایسی صورت میں اسمبلی اُن اہداف کو ضرور حاصل کرپاتی جو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہوئے اقبال کے پیش نظر تھے۔ لیکن چونکہ یہ ایک احمقانہ فعل ہوتا اور پوری دنیا اس بنیاد پر قائم شدہ جمہوریت کو کبھی تسلیم نہ کرتی، اس لیے ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔
    فرض کریں اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کا انتخاب جمہوری طریقے سے کیا جاتا تو منظر نامہ کیا ہوتا؟ سب سے پہلے ہرمسلک کی جماعت یہ کوشش کرتی کہ وہ کونسل میں آنے کے لیے اپنے علمأ کو اس قابل بنائے کہ وہ آئینی شقوں پر پورا اُترسکیں۔ پھر ہر مسلک کے علمأ اپنے اپنے معتقدین کو اپنے اپنے منشور سے آگاہ کرتے کہ وہ کونسل میں پہنچ کر کون کون سے اہم مسائل کو اُٹھائینگے۔ بالکل ویسے جیسے ایک جمہوری ادارے میں، سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں اور اپنا منشور عوام کے سامنے رکھتی ہیں۔ یوں مختلف مسالک کے علمأ کی طرف سے عوام کو ’’پیکج‘‘ ملتا۔ عوام اپنے مذہبی مسائل اپنے علمأ کے سامنے رکھتی اور علمأ ان کو انفرادی طور پر حل کرنے کی بجائے، اپنے پیکج کا حصہ مان کر اُن پر غوروفکر اور تدبر کرتے اور کونسل میں پہنچنے سے پہلے ہی بیشتر مسائل پر علمأ کے درمیان لازمی طور پر اتفاق پیدا ہوجاتا۔یوں چھوٹی چھوٹی لیکن بہت سی نظریاتی کونسلز خود بخود وجود میں آجاتیں۔ جلدی ہی چھوٹے چھوٹے مسالک ، بڑے مسالک میں مدغم ہونا شروع ہوجاتے۔ مثلاً اگر بریلویوں کے کئی گروہ ہیں یا دیوبندیوں کے کئی گروہ ہیں تو وہ کونسل میں پہنچنے کی غرض سے آپس میں ایکا کرلیتے اور یوں چھوٹے چھوٹے اختلافات خود بخود ختم ہونا شروع ہوجاتے۔اور سیاستدانوں کی طرح علمأ کا بنیادی مقصد بھی لوگوں کو ریلیف دینا ہوتا جوکہ ویسے بھی شریعتِ اسلامی کا بنیادی مقصد ہے۔
    مسلسل غور و فکر اور شریعت کی مسلسل تدوین کے عمل سے یہ کونسل اپنی عزت اور وقار خود بناسکتی تھی۔ اجتہاد، جسے ہمیشہ اجنبی نظروں سے دیکھا گیاہے، بہت جلد ٹھیک طریقے سے ممکن ہوجاتا۔ اقبالؒ کی تشکیل ِ جدید سے کتنے ہی مسائل میں اجتہاد کرتے وقت مدد لی جاتی۔ کتنے ہی مسائل کے لیے کونسل دوسرے اسلامی ممالک کے علمأ سے مشاورت کرتی تاکہ کوئی بھی شرعی مسئلہ باریک بینی سے رہ نہ جائے۔پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے فتووں کو نہ صرف پاکستان میں اہمیت حاصل ہوتی بلکہ پوری دنیا کے اسلامی ممالک یہاں سے رہنمائی لیتے۔
    آج بھی اگر اسلامی نظریاتی کونسل کو تھوڑے سے اجتہا د کے ساتھ ازسرنَو کام کا موقع دیاجائے تو مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں۔تھوڑے سے اجتہاد سے میری مراد ہے کہ،
    ۱۔ کونسل میں اراکین کی تعداد بڑھادی جائے۔
    ۲۔ کونسل کا عرصہ مختصر کردیا جائے۔
    ۳۔ کونسل کے اراکین کو جمہوری طریقے سے منتخب کیا جائے۔
    ۴۔ انتخاب میں نمائندگی متناسب ہو۔
    اس طرح کسی کی اجارہ داری قائم نہ رہ سکے گی۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ اُمیدیں جو اس کونسل سے وابستہ تھیں کسی حد پوری ہونا شروع ہوجائیں۔ ایک بار قوم کے علمأ اجتہاد کے راستے پر چل پڑے تو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا اقبالی خواب بہت جلد پورا ہوسکتاہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس قوم میں اجتہاد کا عمل رُک جائے، وہاں ’’افترأ‘‘ کا عمل کئی گنا تیزی کے ساتھ شروع ہوجاتاہے کیونکہ تبدیلی کو روکنا ممکن ہی نہیں ۔ سو جب علمأ کی کونسل مل کر اجتہاد نہیں کرتی تو عوام خود افترأ پردازی سے کام لیتے ہیں اور نت نئے مسائل پر عجیب و غریب قسم کی جاہلانہ رسموں کا اجرأ ہوجاتاہے اور مسلسل ہوتا رہتاہے ۔ یہاں تک مذہب اپنے ہی لوگوں میں اپنی اہمیت کھودیتا اور عملاً فنا ہوجاتاہے۔

  • کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان

    کیا کابل میں پنجابی بستے ہیں؟ فیض اللہ خان

    10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nمسئلہ یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف اچکزئی صاحب جیسے لوگ صرف اٹک و بولان تک کے علاقے کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ افغان سلاطین ہند تک حکمراں رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مودی سے کہا جائے کہ بھیا ذرا دلی ہمیں پکڑانا۔
    ظاھر ہے کہ یہ لوگ نہیں بولیں گے ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے غیر سنجیدہ مطالبات کی حقیقت کیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ سکندر یونانی نے بھی یہاں اقتدار قائم کیا تھا لیکن یونان کے نام پہ پوشیدہ امراض کے دواخانے تو خوب کھلے پر کسی حکیم نے ان علاقوں کو سکندراعظم کے دیس کی علمداری میں دینے کا مطالبہ نہیں کیا
    تاریخی طور پہ یہ بات بالکل درست ہے کہ افغانوں یا پشتونوں کا علاقہ اٹک تک رہا لیکن وہ ماضی تھا۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پشتون کی بطور قوم شناخت افغان ہی ہے لیکن جس طرح عراقی یا کویتی عرب قومی ریاستوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے، بعینہ دونوں ممالک میں بسنے والے پختون اب افغانی و پاکستانی پشتونوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ گزرے برسوں میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور تبدیلی کے اس فطری عمل کو پاکستانی پشتونوں کی اکثریت وفاق و اسٹیبلشمنٹ سے بہت سے معاملات میں اختلافات کے رکھتے ہوئے بھی خوش دلی سے تسلیم کرچکی ہے۔
    باوجود اس کے کہ مسلسل آپریشنز ہوئے، دربدری مقدر بنی لیکن آپ کل اس معاملے پہ ریفرنڈم کرالیں تو پشتونوں کا فیصلہ پاکستان کے ساتھ ہی رہنے کا ہوگا، اس حوالے سے ماضی میں قوم پرستوں کی جانب سے دکھائے گئے تمام خواب سراب نکلے۔
    ایک چھوٹی سی مثال خیبر و بلوچستان کے پشتون قوم پرستوں کی انتخابی کامیابی ہے۔ جب انھیں حکومتیں ملیں تو انھوں نے اقربا پروری و کرپشن کے ریکارڈز توڑ ڈالے، اور یہ بھی بتا دیا کہ قوم پرستی سے انھیں کتنا شغف ہے۔ اچکزئی صاحب جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں ، نے اپنے پورے خاندان کو اعلی ترین عہدے دلا کر بتا دیا کہ کہ وہ کتنے اصول پسند ہیں اور پشتون قوم کو حقوق دلانے یا ڈیورنڈ لائن مٹانے کےلیے کس قدر پرعزم ہیں۔
    کام شام کرنا نہیں ہے جو ان کے اختیار میں ہے ، ہاں اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دے کر اپنے کارکنوں کو مطمئن ضرور رکھنا ہے۔
    ویسے پشتونوں کی اکثریت اب ان کے چکروں سے نکل چکی ہے اور قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنے جارہی ہے، البتہ قبائلیوں کے ساتھ ابھی تک غیر انسانی و غیر قانونی رویوں کی وجہ سے اندر ہی اندر اشتعال پیدا ہو رہا ہے جس کا بروقت تدارک بہت زیادہ ضروری ہے۔ اسی طرح مکمل کوائف رکھنے کے باوجود طویل عرصے سے شناختی کارڈ کے حصول میں بہت سی مشکلات ہیں جنھیں رفع کرنا سرکار و متعلقہ اداروں کا کام ہے کیونکہ قوم پرست اس جیسے دیگر معاملات پر سیاست کرکے اپنی دکانیں چمکا سکتے ہیں۔
    آخری بات یہ کہ افغانستان اگر پشتونوں کا اتنا ہی بڑا گھر ہے تو یہ قوم پرست عناصر اسلام آباد، کراچی، لندن، دبئی، نیویارک اور کوالالمپور وغیرہ میں ہی کاروبار و رہائش کا انتظام کیوں کرتے ہیں ؟
    ننگرہار، لغمان، پکتیا، لوگر، فراہ، قندھار و کابل پہ نظر کرم کیوں نہیں، کیا وہاں پنجابی بستے ہیں ؟ ؟ ؟

  • کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد واضح‌ تبدیلیاں

    کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد واضح‌ تبدیلیاں

    564549_3009762303274_1489617525_nکے الیکڑک کی نجکاری کے بعد اگر کہیں کوئی واضع تبدیلی دیکھنی ہو تو ایک اس کے اعلی افسران کا روز بروز بڑھتا ہوا شاہانہ انداز ہے اور دوسرا نام کی تبدیلی. دوسری طرف پچھلے ماہ رمضان میں شدید گرمی ہو یا رواں ماہ مبارک 33 ملی لیٹر بارش، کے الیکڑک عام صارفین کے لیے بدستور اسی طرح درد سر ہے جیسے دس سال قبل بطور سرکاری ادارہ تھی. آج بارش کو اب پانچواں دن ہے لیکن کئی علاقے بدستور متاثر ہیں، کہیں بجلی غائب ہے تو کہیں والٹیج 180 پر دھرا ہے اور کہیں سڑک کے بیچ و بیچ ننگے تار اہلیان کراچی کی بے بسی کا مذاق اڑارہے ہیں. فیڈر ٹرپ ہونے کا معاملہ بھی کم باعث تشویش نہیں ہے، سال میں کئی بار پورا پورا شہر ان نازک اندام فیڈرز کی بدولت اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے.

    ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات سے لیکر مختلف سیمینارز تک، ایک طرف تو کنڈا سسٹم کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف ہیلپ لائنز پر لاتعداد شکایتوں کے باوجود عملے کی ملی بھگت سے بجلی چوری کا کاروبار جاری و ساری ہے. یعنی ایماندار صارفین تو زیادہ بل کے خوف سے اپنے اضافی پنکھے بھی نہ کھولیں اور چور مزے سے ائیر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہوائوں میں خواب خرگوش کے مزے لیں. اس سے بھی بڑھ کر کے الیکٹرک خود چائنہ کٹنگ، کچی آبادیوں، تجاوزات اور بغیر لیز کے مکانات کو “کنڈا کنیکشن” فراہم کررہی ہے. اس طرح یہ صارف ایک مقرر رقم ادا کرکے جتنی مرضی چاہیں بجلی استعمال کرسکتے ہیں.

    ایک دوسری ناانصافی لوڈ شیڈنگ کے غیرمساویانہ اوقات کار ہیں. ادارہ کہتا ہے کہ جس علاقے میں انکی وصولی زیادہ ہے وہاں لوڈشیڈن کم ہوگی، جہاں وصولی کم ہے وہاں لوڈ شیڈنگ زیادہ ہوگی اور جہاں وصولی برابر ہے اس علاقے کو لوڈ شیڈنگ سے استشناء حاصل ہوگا. اس طرح آپ ان صارفین کو خوامخوا نشانہ بنارہے جو خود تو ایمانداری سے بجلی استعمال کررہے ہیں لیکن انکے محلے یا علاقے کے کچھ لوگ چوری میں ملوث ہیں. اگر کسی علاقے میں بجلی چوری ہورہی ہے یا وصولی کم ہے تو اسکے ذمہ دار اس علاقے کے تمام صارف کیسے ہوگئے؟ ذمہ داری تو بہرحال کے الیکڑیک پر بحثیت ادارہ، اس کے ناہل اور بدعنوان عملے پر بحثیت معاون اور ملوث صارفین پر بحثیت چور عائد ہوتی ہے. اسی طرح ایک ایماندار صارف کا کیا قصور ہے کہ اس کے علاقے یا محلے کے ساتھ کچھ چائنہ کٹنگ اور کچی آبادیاں ملحق ہیں، جنھیں خود کے الیکڑک نے کنڈا کنیکشن فراہم کر رکھا ہے یا یہ کہ اس کے علاقے میں کچھ میٹر خراب اور پرانے ہیں.

    لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں پیپلزپارٹی دور یوں کسی حد تک بہتر تھا کہ حکومت نے اتوار اور چھٹی کے دن کو لوڈ شیڈنگ سے مبرا قرار دے رکھا تھا لیکن اب لوڈ شیڈنگ کے اس نئے ڈھنگ کے بعد چھٹی کے دن بھی عام دنوں کی طرح ہی بجلی بند کی جاتی ہے. اس سے بھی بڑھ کر پچھلے چند ماہ سے رات بارہ بجے کے بعد بھی لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی حالانکہ چند سال قبل گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے حکم پر رات بارہ بجے سے صبح آٹھ بجے تک لوڈ شیڈنگ پر مکمل پابندی تھی.

    کے الیکڑک کا اہم مسئلہ اس کے میٹرز بھی ہیں. ہونا تو یہ چاہیے کہ جس طرح تمام شہر میں بجلی کے نرخ یکساں ہیں اسی طرح میٹرز بھی یکساں ہوں. لیکن آپ کو جابجا مختلف قسم کے میٹرز نظر آئیں گے. کہیں چالیس سال پرانے میٹر ہیں تو کہیں انالوگ، کہیں جدید ڈیجیٹل میٹر ہیں تو کہیں دوسرے. یہ مختلف قسم کے میٹرز ایک ہی قسم کی ریڈنگ نہیں دیتے بلکہ بعض اوقات کو ایک ہی قسم کے میٹر بھی مختلف ریڈنگ دیتے نظر آتے ہیں. سونے پر سہاگہ کے الیکڑک کا انتظامی طریقہ کار ہے. ہر زون کے ایم دیز کو زیادہ سے زیادہ وصولی پر اضافی بونس اور مراعات دی جارہی ہی، جن کے حصول کے لیے یہ ایم ڈیز انسان سے درندے بن چکے ہیں. جو صارف ان کے ہاتھ چڑھتا ہے، یہ اس کو بلی کا بکرا بنا کر پورے محلے کی چوری اس کے خاطے میں ڈال دیتے ہیں. مثال کے طور پر کسی صارف کے یہاں پرانا میٹر لگا ہوا ہے یا اس کا میٹر خراب ہوجاتا ہے، اب کے الیکڑک اس صارف کو ہر دوسرے تیسرے مہینے “اے ایس ایس ڈی” کے عنوان سے من مانا بل جاری کردیتا ہے. بے چارہ صارف جب شکایت لے کر پہنچتا ہے تو اسے اضافی بل کی تفصیل اور بریک اپ دینے کے بجائے، قسطیں تھما دی جاتی ہیں.

    کے الیکڑک میں بدعنوانی بھی اپنے جوبن پر ہے، بااثر افراد کو رشوت دیکر یا سفارش حاصل کرکے تو آپ بل کم کرواسکتے ہیں لیکن فیکٹ اینڈ فیگرز کی بنیاد پر ادارے کو چیلنج کرکے اضافی بل سے خلاصی حاصل نہیں کرسکتے. لائن مین سے لیکر میٹر ٹیکنیشن اور ایم ڈی ذون سے لیکر سینٹر بلنگ آفس تک، ہر جگہ نوٹ اور سفارش عام ہے. دوسری طرف نہ حکومت نے کوئی ایسا سہل نظام ترتیب دیا ہے جہاں صارفین کے الیکڑک کے خلاف ناجائز بلنگ کے کیسز لے جاسکیں اور نہ کے الیکڑک ایسے کسی مسئلے پر خود کو جوابدہ سمجھتی ہے. خاص طور پر “اے ایس ایس ڈی” بلز کے معاملے میں آپ ان سے سوال و جواب نہیں کرسکتے. جو بل بن گیا، خاموشی سے ادا کریں. چند سال قبل جب میں خود زائد بلنگ کا شکار ہوا تو کے الیکڑک کے رویے سے تنگ اکر میں نے قانونی کاروائی کی کوشس کی. صوبائی اور وفاقی محتسب نے یہ کہ کر واپس بھیج دیا کہ وہ کسی نجی ادارے کی شکایت نہیں سن سکتے، پھر کئی روز سندھ سیکیٹریٹ کا چکر لگانے کے بعد کا کہا گیا کہ وفاقی ادارے کی شکایت کے لئے پاکستان سیکیڑیٹ کا رخ کریں. بڑی مشکل سے پاکستان سیکڑیٹ تلاش کرکے انسپیکٹر جنرل الیکٹرک کے دفتر پہنچا تو انہوں نے جس قدر طویل اور مشکل راستہ تجویز کیا، اسکا خلاصہ یہ ہے کہ صاحب متاثرہ صارف نوکری چھوڑ کر اسی کام پر لگ جائے.

    معمول کی شکایتوں کے نظام کا بھی حال یہ ہے کہ کہنے کو تو جناب کال سینٹر اور سوشل میڈیا پر بڑے نرم گفتار پروفیشنل نوجوان بٹھائے ہوئے ہیں لیکن برسرزمین کوئی والی وارث نظر نہیں آتا. اگر کسی صارف کا مین لائن سے جمپر ڈھیلا ہے، والٹیج کا مسئلہ ہے، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہے یا کہیں کوئی تار توٹ گیا ہے، تو وہ کمپلین لائنز پر شکایتیں کرتا رہ جائے گا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوگا. یہاں تک وہ کسی نجی الیکٹریشن سے پیسے دے کر اپنا مسئلہ حل کروائے. جس طرح ہم پی ٹی سی ایل میں کمپلین لائنز کی خود کار فالونگ کا نظام دیکھتے ہیں، کے الیکٹریک اس سے کوسوں دور ہے.

    کے الیکڑک کا مسئلہ اس کا سرکاری یا نجی شعبے مین ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل مسئلہ اس کے اعلی افسران اور دیگر عملے کی نااہلی اور بددیانتی کا ہے. صوبائی اور وفاقی حکومت کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ نجکاری کے معاہدے کی روح کے عین مطابق، ادارے کے معاملات پر نظر رکھیں اور ملازمین کے حقوق کے ساتھ کچھ توجہ صارفین کے حقوق پر بھی دیں. ادارے کے خلاف کم از کم اپنے نظام کو اپڈیٹ نہ کرنے، صارفین کے درمیان عدم مساوات، ناجائز بلنگ اور ظالمان لوڈشیڈنگ کے باب میں کوئی کاروائی عمل میں لائی جائے. اس کے علاوہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے والے اداروں کے خلاف عوامی شکایت کے ازالے کے لیے ایک موثر، آسان اور متحرک ادارے کا قیام بھی وقت کی اشد ضرورت ہے.