Category: پاکستانیات

  • تحریک انصاف کا ناکام جلسہ، محمد نعیم طاہر

    تحریک انصاف کا ناکام جلسہ، محمد نعیم طاہر

    pti-jalsa-kaarchi تحریک انصاف نے کراچی کی تاریخی جلسہ گاہ نشترپارک میں پاکستان زندہ باد کے عنوان سے جلسہ کرکے ”طاقت“ کا مظاہرہ کردیا، یہ مظاہرہ البتہ کتنی طاقت کا تھا، اس پر آرا مختلف ہیں، اور ہونی بھی چاہییں کیونکہ یہ ہر ایک کا حق ہے. خود عمران خان نے تسلیم کرلیا کہ یہ جلسہ بغیر تیاری کے عجلت میں کیاگیا ہے مگر سارے پاکستان کی جانب سے کراچی کے ساتھ اظہاریکجہتی کےلیے ایسا کرنا ضروری تھا۔

    کراچی میں صحافت سے طویل عرصے منسلک ایک ساتھی، جو سینئر سیاسی تجزیہ کاربھی ہیں، کے سامنے تحریک انصاف کے نشترپارک شو کا سوال رکھا تو انہوں نے بتایا کہ نشترپارک کراچی میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے اور ایک عرصے تک سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا پیمانہ بھی رہا ہے. پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے مخالف پاکستان قومی اتحاد نے یہاں بڑے جلسے کیے. ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد سیاسی سرگرمیوں پر سے پابندی جنوری 1986ء میں اٹھائی گئی تو یہاں پہلا جلسہ خود
    مسلم لیگ کی حکومت نے کیا اور اس وقت کے وزیراعظم محمدخان جونیجو نے اس سے خطاب کیا. 14 فروری 1986ء کو ہونے والے اس جلسے میں محمد خان جونیجو نے شہر کی تمام کچی آبادیوں کو لیز کرنے اور کھوکھرا پار کی سرحد کھولنے کے اعلانات کیے، لیز پر تو عملدرآمد ہوا مگر سرحد نہیں کھولی جاسکی. ان کے جلسے کے بعد 21 فروری 1986ء کو جماعت اسلامی نے جلسہ کیا، تعداد کے لحاظ سے یہ جلسہ بھی بڑا تھا مگر اگلے دنوں میں جمعیت علمائے پاکستان کےسربراہ شاہ احمد نورانی نے جو جلسہ کیا، اس کے بارے میں ان کا دعوی تھاکہ یہ جماعت اسلامی کے جلسے سے بھی بڑا ہے.

    نشتر پارک کے جلسوں کی تاریخ کا دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ تحریک استقلال کے سربراہ ائیرمارشل اصغرخان جنہوں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفی میں شہر کی تاریخ کے طویل ترین جلوس کی قیادت کی تھی، 18 اپریل 1986ء کو جلسے سے خطاب کرنے پہنچے توجمعہ کی نماز کے بعد شارجہ میں ہونے والا آسٹریلشیا کپ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ دلچسپ صورت اختیار کر گیا. یہ وہ میچ تھا جس میں جاوید میانداد نے آخری بال پر چھکا مار کر اسے پاکستان کے حق میں موڑ دیا تھا. اگلے دن کے اخبارات کو خبریں بھی مل گئیں اور تصویریں بھی۔ ریٹائرڈ ائیرمارشل نشتر پارک میں کراچی کے عوام کا انتظار کرتے رہ گئے، یہ ناکام جلسہ اس جماعت کے زوال کا نقطہ آغاز بنا۔

    سینئر تجزیہ کار کے مطابق نشتر پارک میں ایم آر ڈی اور جے یو آئی نے بھی جلسے کیے مگر طویل پابندیوں کے بعد سیاسی آزادی کے اس پہلے سال کا سب سے کامیاب شو آٹھ اگست کو مہاجر قومی موومنٹ نے کیا جس کے جلسے میں شریک عوام کے سامنے نشتر پارک چھوٹا پڑگیا. اس کے بعد سیاسی جلسوں کےلیے نشترپارک کے بجائے دیگر مقامات کا انتخاب کیا جانے لگا، خاص طور پر شاہراہ قائدین اہم جلسہ گاہ بن گئی جہاں 26 جنوری 1990ء کو کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز نے شہر کی تاریخ کے بڑا جلسہ منعقد کیا. اس دور میں شرکا کے لیے کرسیاں لگانے کا فیشن آیاتھا، نہ سکیورٹی کے ایشوز تھے، لوگ اطمینان سے دری پر یا براہ راست زمین پر بیٹھ جایاکرتے تھے، کم جگہ میں زیادہ لوگ آتے تھے. اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا پاکستان زندہ باد جلسہ کرسیوں کے باوجود نشترپارک کیا خود کرسیوں کو بھی نہیں بھرسکا. ایسے موقع پر جب عمران خان حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں لانے کے اعلانات کر رہے ہوں، یہ ناکام جلسہ معنی خیز ہے. شاید یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کے سربراہ ڈاکٹرفاروق ستار نے اسے جلسی کہہ دیا۔ اور وزیراعظم نے اسے عوام کا جواب قرار دیا. موجودہ حالات کے لحاظ سے تو یہ ایک مثبت پیش رفت کہی جاسکتی ہے مگر یہ جلسہ کراچی میں کوئی ایسی چنگاری نہیں ثابت نہیں ہوگا جو کچھ عرصے بعد شعلہ جوالا بن جائے. پاکستان زندہ باد جلسہ یقینا حکومت مخالف تحریک کا ہی تسلسل تھا کیونکہ عمران خان نے اس جلسے میں بھی کوئی مختلف بات نہیں کی، ان کا پہلا اور آخری ہدف وزیراعظم نوازشریف تھے، ہیں اور جب تک ایوان وزیراعظم میں ہیں، وہی رہیں گے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مختلف شہروں میں طاقت کے مظاہرے کر کے حکومت مخالف تحریک کو بتدریج عروج پر لے جا رہے ہیں. مگر اس تحریک سے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ یہ کامیابی سے ہمکنار ہوگی یا ناکامی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر اب انہوں نے حتمی طور پر 24 ستمبر کو رائے ونڈ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا، جس کا انتباہ وہ تقریبا ایک سال سے دے رہے تھے، اب بالآخر اس کی تاریخ بھی دے دی۔

    اب اسے حکومت کا حربہ قرار دیا جائے یا پھر تحریک انصاف کی حقیقی کمزوری کہ ایسے وقت میں اس کے داخلی اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں. پارٹی کے ایک ناراض گروپ نے حکومت کے احتساب کا مطالبہ کرنے والے کپتان سے اپنے احتساب کا تقاضا کیا ہے. اس ناراض گروپ کے سربراہ نے دعوی کیا ہے کہ عید الاضحی کے بعد پشاور میں پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کا اجلاس طلب کیاہے، ان کا مطالبہ ہے کہ عمران خان اور پرویزخٹک دونوں مستعفی ہوجائیں اور تسنیم نورانی کی بطورچیف الیکشن کمشنر اور جسٹس وجیہ الدین کی معطل رکنیت کی بحالی ضروری ہے.

    عمران خان کو یہ بھی دیکھناچاہیے کہ کراچی میں ان کی پارٹی خود کئی گروپس میں تقسیم ہے. سابق صدر علی زیدی کا رخ کسی اور طرف ہے اور ڈاکٹر علوی کا کسی اور طرف. عمران اسماعیل کا دھڑا ان دونوں سے الگ ہے اور دیگر رہنما ان سب سے الگ. کراچی اور ملک میں انتہائی قابل احترام شخصیت جسٹس وجیہہ الدین بھی تحریک انصاف کے انتظام پر شدید اعتراضات اٹھاچکے ہیں اور اس میں وہ تنہا نہیں ہیں، ناراض اور نظریاتی کارکنوں کا ایک گروپ ان کی پشت پر ہے سابق صدر اشرف قریشی بھی مقامی قیادت کے خلاف شدید تحفظات رکھتے ہیں. غالبا یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو کراچی سے وہ سپورٹ ملتی نظر نہیں آتی کہ جس کی اسے ضرورت ہے۔

  • ایمانی جراتوں اور جہادی جذبوں کی لازوال داستان کا دن – محمد عبداللہ

    ایمانی جراتوں اور جہادی جذبوں کی لازوال داستان کا دن – محمد عبداللہ

    محمد عبداللہ میرے عزیزہم وطنو!
    دس کروڑ پاکستانی شہریوں کے لیے آزمائش کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ آج صبح لاہور کے محاذ پربھارتی فوجوں نے حملہ کر دیا ہے۔ انہوں نے نہایت ہی بزدلانہ طریقے سے وزیرآباد میں کھڑی مسافر ٹرین پرگولیاں برسائی ہیں۔ پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دل لاالٰہ الااللہ محمدرسول اللہ کی آواز پر دھڑکتے ہیں، اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک بھارت کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں ہوجاتیں۔ بھارتی حکمرانوں کو یہ پتہ نہیں کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ تیار ہوجاؤ ضرب لگانے کے لیے کیونکہ جس بلا نے تمہاری سرحدوں پرسایہ ڈالا ہے، اس کی تباہی یقینی ہے۔ باضابطہ جنگ شروع ہونے پر مردانہ وار آگے بڑھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ اللہ تمہارا حامی وناصر ہو۔

    یہ الفاظ 6ستمبر 1965ء کو صدر پاکستان ایوب خان نے اس وقت اداکیے تھے، جب بھارتی فوج نے چوروں کی طرح پاکستان پر تین اطراف سے حملہ کر کے غیراعلانیہ جنگ مسلط کی تھی۔

    لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والا پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے، تب سے یہ دل کفر میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے اور یہود و ہنود اور صلیبی اسے اپنا صف اول کا دشمن سمجھتے ہوئے اس کومٹانے کے درپے رہے ہیں اور ان کے اذہان فاسقہ اول دن سے اس کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے جب دیکھا کہ یہ کٹا پھٹا پاکستان جس نے1947ء میں بے سروسامانی کی کیفیت اور مسائل کے انبار میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ آج یہ بھرپور طاقت بن کر ابھر رہا ہے تو ان کے قلوب و اذہان میں طرح طرح کے منصوبے پنپنے لگے۔ 6ستمبر1965ء کی جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ بھارت نے بغیر کوئی اطلاع دیے ایک ہی وقت میں واہگہ سیکٹر، کھیم کرن سیکٹر، راجھستان سیکٹر، سیالکوٹ، جموں سیکٹر، قصور سیکٹر اور فاضلکا اکھنور سیکٹر پر ٹینکوں، ہوائی جہازوں اور توپوں سے یلغار کردی۔ بھارتی جنرل چودھری نے باٹاپور میں اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ بڑھک ماری کہ ہم لاہور کے جم خانہ میں ناشتہ کریں گے، شراب پیئیں گے اورشغل وطرب کی محفل سجائیں گے۔

    پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کے ردعمل اور جوابی کارروائی سے پہلے ذرا ہم دشمن کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ دشمن یقیناً ہم سے پانچ گنا بڑا تھا اور اس نے اپنی ساری قوت میدان جنگ میں جھونک دی تھی۔ سیالکوٹ، چونڈہ سیکٹر پر جو ٹینکوں کے ساتھ حملہ کیا گیا، وہ BBC کے مطابق جنگ عظیم دوم کے بعد تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ تھی جو اس خطے میں لڑی گئی۔ BBC کے ہی فوجی امورکے ماہر چارلس ڈگلس نے لکھا کہ اگرچہ بھارت کے مقابلے پر پاکستانی فوج کی تعداد بہت ہی کم ہے لیکن وہ بھارت سے بہت بہترہے۔ بھارت نے پچاس ہزار پیدل فوج اور بکتر بندگاڑیوں اور 600 ٹینکوں کی مدد سے خوفناک حملہ کیا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک عالمی مبصر نے کہا کہ لگتا ہے کہ دشمن ہتھیار ڈالنے سے پہلے پوری طاقت آزما لیناچاہتا ہے۔ چنانچہ ایسی ہی ایک اور جنگ میں اس کی شکست اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
    دشمن اتنی بڑی قوت اور طاقت کے ساتھ حملہ کرتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ پاکستانی افواج اور عوام بےخبری کے عالم میں مارے جائیں گے اور ہم پاکستان پرقبضہ کرلیں گے لیکن اس کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ وہ قوم ہے جو لاالٰہ الااللہ پر اپنا تن من دھن قربان کرنا جانتی ہے اور یہ اپنے اسلاف کی جانشین ہے جن کا نعرہ ہے :
    [pullquote]نحن الذین بایعوا محمد
    علی الجہاد مابقیناابدا[/pullquote]

    اور یہ آج بھی انہی روایات کی امین اور پاسباں ہے۔ افواج پاکستان تو ایک طرف پاکستانی عوام کو جب پتا چلا کہ بھارتی افواج نے حملہ کر دیا ہے تو وہ بندوقیں، کلہاڑیاں، برچھیاں اور ڈنڈے لے کرمیدان میں آ گئے۔ ریڈیو پر جب اعلان ہوا کہ انڈیا اپنی چھاتہ بردار فورس پاکستان کےگنجان علاقوں میں اتار رہا ہے تو انہوں نے ڈنڈوں اور برچھیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور کئی انڈین فوجیوں کو گرفتار کرلیا اور افواج پاکستان تو اقبال کے اس شعرکی عملی تصویر بنی ہوئی تھیں؂
    ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے
    ہم جو مرتے تھے تو تیرے نام کی عظمت کے لیے

    پاکستان آرمی کے جذبہ جہاد سے سرشار نوجوانوں نے سروں پہ کفن باندھ کر سیسہ پلائی دیوار بنتے ہوئے کچھ اس انداز سے دشمن کامقابلہ کیا کہ پہلے ہی ہلے میں جنگ کاپانسہ پلٹ کر رکھ دیا اور دشمن کو سرپٹ بھاگنے پر مجبور کر دیا اور وہ جنرل چودھری جو جمخانہ کلب میں شراب پینے کی خواہش لے کر آیا تھا، وہ بی آر بی نہر کا پل بھی عبور نہ کر سکا اور اپنی جھنڈے والی جیپ باٹاپور میں چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ہڈیارہ نالے کے کنارے میجر شفقت اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ جنرل چودھری لاہور جمخانہ میں شراب پینا چاہتا تھا، میں نے 3 دن اس کو ہڈیارہ نالے کے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں پینے دیا۔

    بری فوج کے جوان آخری جوان اور آخری گولی تک لڑو کے نعرے لگاتے ہوئے دیوانہ وار دشمن کی صفوں پرٹوٹ پڑتے اور ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے اور آگے بڑھتے ہوئے اپنے مقبوضہ علاقوں کا قبضہ چھڑا کر دشمن کی سرحد کے اندر دور تک گھستے چلے گئے۔

    ان حالات میں پاکستان کی فضائیہ بھی جھپٹنا، پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا کی مصداق اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے تھی۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ کر انبالہ، سرینگر اور پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈوں پرحملہ کرکے دشمن کے بیسیوں جہاز تباہ کردیے اور فضائی لڑائی میں بھی برتری حاصل کر لی۔ اسی اثناء میں پاک دھرتی کے عظیم سپوت ایم ایم عالم نے مختصر ترین وقت میں بھارت کے 5جنگی جہاز تباہ کرکے دشمن پر ہیبت طاری کردی۔

    دوسری طرف پاکستان کی بری فوج بھی کسی سے پیچھے نہیں تھی۔ بحریہ کے جوان اس وقت ناشتے میں مصروف تھے۔ جب ان کو پتا چلا کہ بزدل دشمن نے ایک غیرت مند قوم پر حملہ کرکے اس کی غیرت کو للکارا ہے تو وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر کھلے پانیوں میں اترگئے اور اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جذبہ جہاد اور دینی حمیت سے سرشار ہو کر دوارکا کے قلعے تک جاپہنچے اور اس کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ بقول شاعر:
    دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
    بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

    قارئین کرام! یہ وہ جہادی جذبے اور ایمانی غیرت تھی کہ اللہ کی خاص تائید اورنصرت کے ساتھ ایک کمزور سازوسامان سے عاری قوم اپنے سے کئی گنابڑی طاقت سے ٹکراگئی اور اسے شکست دے کراس کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرلیا اور اس کو ایک ایسا زخم دیا کہ صدیوں تک بلبلاتا رہے گا۔ پاکستانی قوم نے اللہ کے اس فرمان کو سچا کر دکھایا کہ:
    ”اللہ کے حکم کے ساتھ چھوٹی اورکمزور جماعتیں بڑی اورطاقتورجماعتوں پرغالب آجاتی ہیں۔“
    17دن کی اس لڑائی میں اگر ہم فریقین کے نقصانات کاجائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ معجزانہ طور پر اس جنگ میں پاکستان کا نقصان بھارت کی نسبت بہت کم ہوا۔
    نقصان
    پاکستان
    بھارت
    ہلاک شدگان
    1033
    9500
    زخمی
    2171
    11000
    لاپتہ
    630
    1700
    تباہ شدہ ٹینک
    165
    516
    تباہ شدہ طیارے
    14
    110
    مقبوضہ علاقے
    450مربع میل
    1617مربع میل

    دوسری طرف اس لڑائی میں سامراجی قوتوں اور ان کے تباہ شدہ ذرائع ابلاغ کے علاوہ عالمی رائے عامہ اور مسلم دنیا پاکستان کے ہمنوا نظر آئی۔ انڈونیشیا، ترکی، ایران، سعودی عرب، چین اور دیگر ممالک کے سربراہان نے اس جنگ کو انڈیا کی کھلی جارحیت قرار دیا اور پاکستان کی حمایت میں قراردادیں پیش کیں۔ ان ممالک کی عوام نے بھی پاکستان کے حق میں مظاہرے کیے۔

    BBC اور اس جیسے ذرائع ابلاغ کے ادارے گمراہ کن خبریں شائع کررہے تھے ۔تاکہ افواج پاکستان اورپاکستانی قوم کاحوصلہ ٹوٹ جائے اور جب ان عالمی سامراجی قوتوں نے دیکھا کہ جنگ کے میدان میں انڈیا کو شکست ہوگئی ہے توانہوں نے جنگ بندی کے لیے پاکستان پرزور دیناشروع کر دیا۔مگراس وقت کے پاکستانی وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹونے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی قوم کی امنگوں کے عین مطابق قوم کے جذبوں کی ترجمانی کی اور کہاکہ ”یہ جنگ کشمیرکے مسئلے پر لڑی جا رہی ہے اور ہم اس کے لیے ہزار سال تک لڑیں گے۔“

    قصہ مختصر کہ 17دن کی اس جنگ کے بعد وہ جو چند گھنٹوں میں پاکستان کوفتح کرلینے کے ناپاک ارادے سے آئے تھے۔17دن کے بعدان کی کیفیت یہ تھی کہ وہ اپنا بہت زیادہ نقصان کروا کر، لاتعداد سازوسامان اور بہت سے علاقے پاکستانی فوج سے مقبوضہ کرواکر جنگ بندی کی بھیک مانگ رہے تھے اور عالمی اداروں کے ترلے اورمنتیں کررہے تھے کہ ہمیں پاکستان سے بچایاجائے۔

    قارئین کرام! آج جب ہم 6ستمبر1965ء کی جنگ کے ساتھ اپنے آج کے حالات کاتجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے بہت سی راہیں کھلتی ہیں۔ آج امت مسلمہ کا بالعموم اور پاکستان کا بالخصوص سب سے بڑا مسئلہ بیرونی جارحیت اور اندرونی طور پر باہمی انتشار و افتراق کا ہے۔ مسلمان ممالک عدم استحکام کا شکار ہیں توسامراجی قوتیں آج بھی ان کو مٹانے کے درپے ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کاگھیراؤ اور ان پر ظلم و ستم جاری ہے۔ ہمارے کشمیر و فلسطین، عراق وشام لہولہو ہیں اور ہم اپنے نام نہاد انقلابات اور سیاسی مفادات کی خاطرباہم دست وگریبان ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے یہ سارے مسئلے حل ہوں اور عالم کفر کی جارحیت ہمارے اوپر سے ختم ہو تو ہمیں سارے جھگڑے ختم کرکے قرآن کی اس آیت پر آنا ہوگا۔
    [pullquote]وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ۔ (آل عمران:139)[/pullquote]

    ”کہ تم ہی غالب رہوگے اگرتم مومن ہوتو“

    آج ضرورت ہے اس امر کی کہ ہم پھر سے اسی دینی حمیت اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیں کیونکہ قومیں بھوک و افلاس اور مسائل کے انبار کے ساتھ بھی زندہ رہ سکتی ہیں مگر غیرت و حمیت کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس لیے ہم اپنے اندر مومنانہ اوصاف پیدا کر کے جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر عالم کفر کے مقابلے میں کھڑے ہو جائیں تو اللہ کی نصرت بھی ملے گی، دنیا میں بھی ہم سرخرو ہوں گے اور آخرت میں جنت ہمارا مقدر بنے گی۔ ان شاء اللہ
    فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
    اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

  • 6ستمبر، یوم احتساب – نصیر ناصر

    6ستمبر، یوم احتساب – نصیر ناصر

    نصیر ناصر 6ستمبر کا تاریخ ساز دن ہے۔ 42 سال پہلے اس دن بھارت کی جارحیت کے مقابلے میں بےسروسامان اور دنیاوی اعتبار سے انتہائی کمزور دفاعی صلاحیت کی حامل پاکستانی افواج نے قوم کے اتحاد، یکجہتی، اخلاص اور اللہ رب العزت پر یقین کی بدولت شاندار کامیابی حاصل کر کے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر چھوڑا تھا۔
    6ستمبر کی یاد پورے تزک واحتشام سے ہر سال منائی جاتی ہے۔ مختلف تقاریب منعقد کرکے 1965ء کی جنگ کے ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی یاد میں ملی نغمے نشر کیے جاتے ہیں اور آج کل الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر اس دن کے حوالے سے خصوصی پروگرام نشر و پوسٹ کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔
    لیکن کیا کوئی بھی دوست یہ بتانا گوارا کرے گا کہ کیا 6ستمبر منانے کے لیے بس یہی کافی ہے؟
    کیا 1965ء کی اس تاریخی یادگار اور مجاھدین وطن کی لازوال قربانی کو چند کھوکھلے الفاظ اور بے روح نعروں کا خراج مناسب ہے؟
    کیا آج کے اس عظمتوں کے امین دن کی یاد منانے والے سرکاری غیرسرکاری، سول وفوجی، سیاسی و مذہبی، مردوخواتین زندگی کے سارے شعبہ ہائے کار سے وابستہ امرا و غرباء، علماء و جہلا دل کی گہرائیوں سے اس بات پر مطمئن ہیں کہ
    ان کی زندگی کا ہر لمحہ ملک وقوم کی سلامتی و ترقی کے لیے خرچ ہو رہا ہے۔
    وہ جذبہ جس نے پوری قوم کو ایک لڑی میں پرو کر کامیابیوں سے ہمکنار کیاتھا. کیا اس کی بحالی و برقراری ہماری ترجیحات میں شامل ہے؟
    کیا اپنے مفاد، اپنی ذات اور اپنی انائوں کی قربانی دے کر ہم کسی ایک قیادت پر متفق ہو کر ملک و قوم کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے مقابل کھڑے ہونے کا عملی مظاہرہ کرسکتے ہیں؟
    کیا دشمن کی سازشوں کے مقابلہ کے لیے درکار تحمل، سمجھداری، معاملہ فہمی اور قوت فیصلہ سے ہم سرشار ہیں؟
    کیا ہم بلاتفریق فرقہ ومذہب، زبان ونسل، سیاسی وابستگی وگروہ بندی اپنی صفوں میں گھسے دانستہ یا غیردانستہ دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے والے عناصر کی نشان دہی و سرکوبی کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کرنے کاحوصلہ رکھتے ہیں؟
    اگر تو یہ سب کچھ میرے اور آپ کے پاس ہے تو پھر آپ سب کومبارک ہو کہ 6ستمبر کے شہدا کا خون رائیگاں نہیں گیا ہے۔ اور اس قوم و ملک کا مستقبل عددی و دفاعی و قوت کی کمی کے باوجود بھی محفوظ، مامون اور روشن ہے۔
    لیکن اگر خدانخواستہ یہ صفات ہماری زندگی سے نکل چکی ہیں۔ انفرادی مفاد کی سوچ نے اجتماعیت کو مغلوب کرلیا ہے۔ قومی وقار کے بجائے اقتدار کی ہوس کے پجاریوں کو ملک و قوم کی قیادت و سیادت سونپنے پر ہم شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اور ابھی تک بھی ایسے افراد و عناصر ہمارے کندھے استعمال کرکے وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔ تو پھر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہناضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم شہدائے 6 ستمبر سے وابستگی کے نعرے بلند کریں کیونکہ قوموں کی بقا اپنے ہیروز کے کارناموں پر بھنگڑے ڈالنے سے نہیں بلکہ ان کی پیروی کرنے، ان جیسا جذبہ اور اخلاص اختیار کرنے اور قربانی کی ہر حد عبور کرجانے کی عملی تعبیر پیش کرنے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اور جو قوم اخلاص و وفا، اجتماعیت و اتحاد، تحمل و قوت فیصلہ اور دوست دشمن کی پہچان جیسی بنیادی صفات سے محروم ہوجائے، اس کوبڑے سے بڑا دفاعی حصار و ہتھیار یا عددی طاقت محفوظ رکھ سکتی ہے اور نہ ہی ایسی قوم کے زوال کو روکنے کے لیے کوئی دعا و دوا کارگر ہو سکتی ہے۔

  • معرکہ ستمبر، فتح ہوئی تھی یا شکست – آصف محمود

    معرکہ ستمبر، فتح ہوئی تھی یا شکست – آصف محمود

    آصف محمود یوم دفاع کے موقع پر دو گروہ آمنے سامنے ہیں۔ ایک کا دعوی ہے کہ چھ ستمبر کی جنگ میں شکست ہوئی تھی اور دوسرا گروہ اس دعوے کے ابطال کے ساتھ ساتھ اس موقف کے حاملین کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھا رہا ہے۔ پہلے گروہ نے اپنے موقف کے حق میں ائیر مارشل اصغر خان کا مئوقف پیش کیا تو یاروں نے اصغر خان کو بھی مجسمہ شیطانیت قرار دے دیا۔ سوال اب یہ ہے کہ معرکہ ستمبر میں فتح ہوئی تھی یا شکست؟
    چاند ماری، تعصب اور پوائنٹ سکورنگ سے ہٹ کر اگر معاملے کو دیانت اور تحمل کے ساتھ دیکھا جائے تو دونوں گروہوں کی بات میں وزن ہے۔

    اس جنگ کے دو مراحل تھے۔ ایک طرف فیصلہ ساز طبقہ تھا اور دوسری جانب جنگ لڑنے والے سرفروش تھے۔ دونوں پہلوئوں کو الگ الگ دیکھنے کی ضروت ہے۔ یہ جنگ فیصلہ سازوں کی فکری کم مائیگی کا شاہکار تھی۔ ابھی کل ہی جنرل خالد نعیم کہنے لگے کہ اس جنگ کا ایک ہی سبق ہے اور وہ یہ کہ : ’’جنگ کب اور کیسے نہیں لڑنی چاہیے‘‘۔ اصغر خان اور خالد نعیم ہی نہیں نصف درجن سے زائد جرنیلوں کو جانتا ہوں جن کا یہی موقف ہے کہ یہ جنگ ہمارے فکری افلاس کا شاہکار تھی۔ فیصلہ سازوں نے آزادی کشمیر کے لیے آپریشن جبرالٹر شروع کیا جو فنی اعتبار سے مجموعہ نقائص تھا۔ بغیر تیاری کے کمانڈوز کو رزم گاہ میں اتار دیا گیا، انجام سب کے سامنے ہے۔ فیصلہ سازوں کے ویژن اور صلاحیتوں کا عالم یہ تھا کہ کشمیر میں لڑائی شروع کرکے وہ اطمینان سے بیٹھے تھے کہ جواب میں بھارت بین الاقوامی سرحد پر حملہ آور نہیں ہوگا اور یہ معرکہ صرف کشمیر تک محدود رہے گا۔ یہ اندازے غلط نکلے اور بھارت نے لاہور وغیرہ پر حملہ کر دیا۔ اور ہم آج تک شور مچا رہے ہیں کہ بزدل دشمن نے رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح حملہ کر دیا۔ اندازے ہمارے غلط ثابت ہوئے اور بجائے غلطی تسلیم کرنے کے ہم آج تک بھارت کو گالیاں دیتے ہیں کہ سالا چوروں کی طرح حملہ آور ہو گیا۔ اگر ہم خود کو فیلڈ مارشل بقلم خود بنا سکتے ہیں تو ہمیں دشمن کی جوابی چال کا اندازہ تو ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہم اگر فیلڈ مارشل ہو کر بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکے تو اس کا الزام کبھی بھٹو پر لگا دینا کہ اس نے کہا تھا کہ بھارت بین الاقوامی سرحد پر حملہ نہیں کرے گا یا بھارت کو طعنہ دینا کہ وہ چوروں کی طرح حملہ آور ہو گیا کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔ جنگ تو ہوتی ہے چال کا نام ہے اور ویسے بھی ہم نے خود جبرالٹر آپریشن کون سا بھارت کو ایس ایم ایس کرنے کے بعد کیا تھا کہ پیارے پڑوسی تیار ہو جائو، ہم آپریشن جبرالٹر شروع کرنے والے ہیں۔

    ہمیں کچھ سوالات پر غور کرنا چاہیے تھا جو ہم نے نہیں کیا ۔
    1۔ جب ہم نے کشمیر میں جبرالٹر شروع کر دیا تو کیا وجہ ہے کہ لاہور سیکٹر میں فوج تعینات نہیں کی تھی۔ کیا یہ نااہلی نہیں تھی؟
    2۔ کیا وجہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ہمیں بتا ہی نہ سکی کہ بھارتی دستے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ کم از کم ایک ڈویژن فوج کے ساتھ بھارت نے حملہ کیا اور ہماری انٹیلی جنس کے پاس اتنی بھاری موومنٹ کی کوئی اطلاع ہی نہ تھی اور ہم آج تک یہی کہہ رہے ہیں کہ کم بخت نے چوروں کی طرح حملہ کر دیا؟

    ہم بھارتی حملے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ صرف ہماری فضائیہ اس جنگ کے لیے تیار تھی۔ مجھے ایک ائیرمارشل نے بتایا کہ فیلڈ مارشل صاحب نے فوجی قیادت کو کہا تھا کہ جنگ کا کوئی خطرہ نہیں لیکن ائیرچیف نے میٹنگ سے واپسی پر فضائیہ کو جنگ کے لیے تیار ہونے کا حکم دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت لازمی طور پر حملہ کرے گا۔ چنانچہ جب بھارتی فوج نے حملہ کیا تو فضائیہ نے اسے ناکوں چنے چبوا دیے۔ برگیڈئیر انعام الحق جو ستمبر 65ء کے معرکے میں لاہور سیکٹر میں آرمی آپریشنز کے انچارج تھے، بتاتے ہیں کہ انہیں رینجرز نے فون کر کے بتایا کہ بھارتی ٹینک آ رہے ہیں ورنہ ہمیں کوئی انٹیلی جنس اطلاع نہیں تھی۔ برگیڈئیر یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہائی کمان نے نہ صرف بارڈر پر اضافی نفری نہ لگائی بلکہ جب کہا گیا کہ یہاں کم از کم بارودی سرنگیں ہی نصب کر دی جائیں تو اس کی اجازت بھی نہ دی گئی کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بیس فیصد فوجی معمول کی چھٹیوں پر تھے، انہیں بھی واپس نہ بلایا گیا۔ چھمب چوڑیاں سیکٹر میں ہم نے یکم ستمبر کو کارروائی کی اور ابتدائی کامیابی کے بعد پینتیس گھنٹے کے لیے کارروائی معطل کر دی، چنانچہ میجر جنرل جوگندر سنگھ جو اس وقت ویسٹرن کمانڈ کے چیف آف سٹاف تھے، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں’’دشمن نے ہمیں بچا لیا‘‘۔ تو یہ تھا ہمارے اعلی سطح پر بیٹھے فیصلہ سازوں کی فکری صلاحیتوں کا عالم۔

    سابق سیکرٹری خارجہ جناب اکرم ذکی نے ایک روز مجھے بتایا کہ 66ء میں بیرون ملک ایک بھارتی ہم منصب سے ان کی نوک جھونک ہوگئی تو انہوں نے کہا کہ کبھی لاہور آئیں آپ کو ناشتہ کرائیں۔ ذکی صاحب بتاتے ہیں کہ اس کے جواب میں اس نے رک کر کہا کہ مسٹر ذکی 65ء کی لڑائی سے قبل ہم آپ سے واقعی خوفزدہ تھے لیکن اب ایسا نہیں۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے فیصلہ سازوں کی صلاحیت کا عالم کیا ہے، اس لیے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ اب ہم سے نہ لڑنا، نقصان اٹھائوگے۔ ذکی صاحب انگلیوں پرگن کے بتاتے ہیں کہ صرف پانچ سال بعد ہمیں مشرقی پاکستان میں شکست کا سامنا تھا۔ تو جناب ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ستمبر پینسٹھ کی جنگ فیصلہ سازوں کے فکری افلاس کا شاہکار تھی۔

    تاہم یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بھارت پوری قوت سے حملہ کرتا ہے۔ ہماری کوئی تیاری نہیں۔ ہمیں بارڈر پر دستے تک تعینات نہیں کرنے دیے گئے۔بارودی سرنگیں بھی نصب نہیں کرنے دی گئیں لیکن جب دشمن نے پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ جیسے جی داروں نے اپنے ساتھیوں سمیت قیادت کی نااہلی کا کفارہ اس شان سے ادا کر دیا کہ کمال ہی کر دیا۔ شفقت بلوچ کا کہنا ہے کہ 5 ستمبر کو انہیں باقاعدہ بتایا گیا کہ دشمن کے حملے کا کوئی خطرہ نہیں لیکن انہیں لگ رہا تھا کہ جنگ ہوگی اور میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ جان پہ کھیل جانا ہے۔ قیادت کی نااہلی کے باوجود ہمارا سپاہی اس شان سے لڑا کہ اس کا بانکپن لوک داستان بن گیا۔ فیصلہ ساز ہار گئے لیکن ہمارے جوانوں نے ملک کے دفاع کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ نور جہاں نے ٹھیک ہی کہا تھا :’’اے وطن کے سجیلے جوانو !میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘‘۔ میرا ایمان ہے ہمارا یہ نغمہ بعد از شہادت کاتب تقدیر نے مجسم کر دیا ہو گا کہ:
    ’’ گئے جو ہوگے شہادت کا جام پی کر تم
    رسول پاک ﷺ نے بانہوں میں لے لیا ہوگا
    علی تمہاری شہادت پہ جھومتے ہوں گے
    حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا
    تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں‘‘
    اس لیے ہم اپنے فیصلہ سازوں کی غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم اپنے ان پاک وجودوں کو سلام بھی ضرور پیش کریں گے جنہوں نے جان جیسی متاع عزیز قربان کر کے ہمارا مستقبل محفوظ کیا۔
    غازیوں اور شہیدوں کو ہمارا سلام
    افق کے اس پار جانے والو سلام تم پر!

  • قصہ چہار درویش. قاضی حارث

    قصہ چہار درویش. قاضی حارث

    ﻗﺼﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ :
    ﺑﮭﻮﮎ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺲ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ،
    ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺭﮈ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ، ﺟﺲ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ :
    ” ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮ ﻭﯾﻠﻔﯿﺌﺮ ﭨﺮﺳﭧ ” ) ﺑﮭﻮﮐﻮﮞ ﮐو ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮨﮯ (
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﻖ ﺁﮔﺌﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﻠﮯ ﮨﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﻖ ﭘﮭﺮ ﮔﮩﺮﯼ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭨﺮﺳﭧ ﺗﻮ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺩﯾﻨﮕﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺳﺒﺰ ﻋﻤﺎﻣﮧ ﺳﺠﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺭﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺴﻤﺖ ﺁﺯﻣﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﺮﺳﭧ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻧﮧ ﺭﮨﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮٖﻑ ﺑﮍﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﺑﭩﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﮐﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ۔
    ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﻭ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮐﮯ ﮈﯾﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﮯ ﺣﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ﻗﺼﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ :
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﮐﻠﻮﺗﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮨﻮﺍ،
    ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮔﺎ بھاگا ﮔﻠﯽ ﮐﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ، ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺍﺋﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﻗﺘﯽ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭘﮩﺮ ﺩﺭﺩ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ شدید ﺍﻧﮕﮍﺍﺋﯿﺎﮞ ﻟﯿﮟ، ﺩﺭﺩ ﺍﺗﻨﺎ ﺷﺪﯾﺪ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﭽﮧ ﺗﮍﭘﻨﮯ ﻟﮕﺎ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﮯ باقی ﺧﺮﭼﮯ ﮐﯽ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ، ﭨﯿﮑﺴﯽ ﮐﯽ، ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﺁﮔﯿﺎ۔
    ﺑﮍﮮ ﺍﺳﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﺧﺮﭼﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮮ، ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﯽ ﻓﯿﺲ، ﭘﮭﺮ ﺗﯿﻦ ﻋﺪﺩ ﭨﯿﺴﭧ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺌﮯ، ﮈﮬﺎﺋﯽ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺭﭘﻮﺭﭦ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﮔﺮﺩﮦ ﻣﯿﮟ ﭘﺘﮭﺮﯼ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﻮﺯﺵ ﮨﮯ، ﺟﻠﺪ ﺍﺯ ﺟﻠﺪ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮔﺮﺩﮦ ﻧﺎﮐﺎﺭﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﺪﺷﮧ ﮨﮯ،
    ﺑﮭﺎﮔﺎ ﮨﻮﺍ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﯽ ﻓﯿﺲ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﺎ ﺟﻮ ﻣﺒﻠﻎ 80،000 ﺭﻭﭘﯿﮧ ﺗﮭﯽ۔ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ، ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﭘﯿﮧ ﻭﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻻﺗﺎ؟ ﺩﻭ ﺁﻧﺴﻮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮ ﭼﮑﻨﮯ ﻣﺎﺭﺑﻞ ﻣﯿﮟ پھیلﮔﺌﮯ۔ ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺼﯿﺒﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﻧﮧ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ SIUT ﮐﺎ ﺑﺘﺎﯾﺎ، ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﮔﺮﺩﮮ ﮐﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﮐﺎ ﻣﻔﺖ ﻋﻼﺝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ ﻧﮯ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﮯ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﺳﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﺍﺋﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪﯼ ﺗﮭﺎ۔
    ﻟﯿﮑﻦ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ اور ﺍﻓﻼﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﺐ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺣﯿﺮﺍﻧﮕﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﮨﮑﺎ ﺑﮑﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﻣﺴﻠﮏ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺗﻤﺎﻡ ﮈﺍﮐﭩﺮﺯ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭼﮭﺎ ﺭﻭﯾﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﻣﻔﺖ ﻋﻼﺝ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ﻗﺼﮧ ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ :
    ﺗﯿﺰﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﻠﯽ ﺳﮯ ﻣﮍﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺁﻣﺪ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﺪﺣﻮﺍﺱ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺋﯿﮏ ﮐﮯ ﺑﺮﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻟﮕﺎ ﺳﮑﺎ۔ ﮐﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺋﯿﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﮯ، ﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺟﺰﻭﯼ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﭼﮭﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﮔﺮﺍ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﯽ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﮔﮩﺮﺍ ﺯﺧﻢ ﺁﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺧﻮﻥ ﺑﮭﻞ ﺑﮭﻞ ﺑﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﻤﺒﻮﻟﯿﻨﺲ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ” ﭼﮭﯿﭙﺎ ” ﺍﯾﻤﺒﻮﻟﯿﻨﺲ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﺧﻮﻥ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮧ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ” ﺍﮨﻞ ﺣﺪﯾﺚ ” ﻣﺴﻠﮏ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﭼﮭﯿﭙﺎ ﺗﻮ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮯ ﻟﻮﺙ ﻣﺪﺩ کیسے کی؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ﻗﺼﮧ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﮐﺎ :
    ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﻌﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﻨﺪﮪ ﻣﯿﮟ ﺁﺑﺎﺅ ﺍﺟﺪﺍﺩ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺯﻣﯿﻨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ، ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﻮﺳﻂ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﭼﮭﺎ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﯿﻼﺏ ﻧﮯ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺍﺟﺎﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔
    ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﮩﮧ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ” ﺟﻤﺎﻋۃ ﺍﻟﺪﻋﻮﮦ ” ﻭﺍﻟﮯ ﺁﺋﮯ۔ ﺑﮩﺖ ﺳﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻟﯿﮑﺮ۔
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﺍﺗﺮ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺷﯿﻌﮧ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﺑﮭﻼ؟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﻭﺭﻃﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﻭﯾﮧ ﺭﮐﮭﺎ جیسے ﻭﮦ ﺍﻧﮑﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﻮﮞ، ﮐﺎﻓﯽ ﺳﺎﺭﺍ ﺭﺍﺷﻦ ﺩﯾﺎ۔
    ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺑﮯ ﻟﮕﺎﻡ ہوچکے ﺗﮭﮯ۔
    سبق: عقل والوں کیلیئے ان چار قصوں میں ایک نشانی ہے.

  • الیکٹرانک میڈیا تفریح کے نام پر کیا دے رہا ہے؟ ملک محمد سلمان

    الیکٹرانک میڈیا تفریح کے نام پر کیا دے رہا ہے؟ ملک محمد سلمان

    ملک سلمان ذرائع ابلاغ کی اہمیت اور آفادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے. ٹی وی چینلز کی حیثیت ابلاغ میں ریڑھ کی ہڈی سی ہے، نیوزچینلز خبر کا بہترین اور مئوثر ذریعہ ہیں جو معلومات کی بروقت فراہمی کے لیے ہر کسی کی بنیادی ضرورت ہے۔ تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ ہر خبر فوراً سے پہلے کے مصداق ٹی وی سکرین پر موجود ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کام عوام کو باخبر رکھنا ہے، پرنٹ میڈیا کو اس میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پرنٹ میڈیا نہ صرف ہر خبر کی تفصیل فراہم کرتا ہے بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی خبر کو مکمل تحقیق اور ذمہ داری سے پہنچاتا ہے۔ اسی لیے بےشمار نیوزچینلز کی تمام تر تیزیوں اور چکاچوند کے باوجود پرنٹ میڈیا نے اپنی شناخت کو نہ صرف قائم ودائم رکھا ہے بلکہ آج بھی آگاہی کے لیے ہر کسی کی ضرورت اور خاص طور پر مڈل کلاس طبقہ کی آواز سمجھا جاتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی بات کریں تو خبروں کے ساتھ مثبت تفریح بھی لازم ہے۔طنز و مزاح پر مشتمل مزاحیہ سیاسی پروگرامات اچھی کاوش ہیں لیکن جب سے صحافتی میدان میں کامیڈین آنا شروع ہوئے ہیں، نیوزچینلز کی صحافتی اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے۔ جب صحافت میں بھانڈ اور مراثی آجائیں گے تو پھ رخیر کی امید کیونکر رکھی جاسکتی ہے۔

    لمحہ فکریہ ہے کہ مختلف نجی چینلز پر تفریح کے نام پر پیش کیے جانے والے مزاحیہ پروگرامات میں لوگوں کی عزت ِ نفس مجروح کرکے معززین کا مذاق اڑا یا جا رہا ہے۔ الٹے سیدھے ناموں اور برے القابات سے پکارا جاتا ہے اور مختلف رشتوں پر مبنی کرداروں میں پیش کی جانے والی اخلاق باختہ گفتگو بھی خونی رشتوں کی عظمت و احترام اور ہماری اسلامی و مشرقی روایات کے منافی ہے۔

    دوسروں کو ملکی قوانین کی پاسداری اور اخلاقیات کے لمبے چوڑے لیکچر دینے والے میزبان اینکرز خود اخلاقیات کی تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں، پیمرا قوانین اور صحافتی اقدار کو بری طرح پامال کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ تفریح کے نام پر عام آدمی سے لے کر سیاستدانوں تک سب کو ’’ڈی گریڈ‘‘ کرنا اور بےحیائی کو ترویج دینا مقصود ہے۔ مستقل کرداروں میں پروفیسر جیسے قابل احترام اور اعلیٰ منصب پر فائز شخصیت کو انتہائی تضحیک آمیز رویے کے ساتھ شرمناک جملے کسے جاتے ہیں، جو کہ اینکرز کی تعلیمی استعداد، تخریبی سوچ اور ناقص تربیت کی عکاسی کرتا ہے کہ قوم کو بےجا، بےمقصد اور بےلگام تفریح کے بخار میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ سب ریٹنگ کی دوڑ میں ہواس باختہ ہوگئے ہیں اور خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ بسا اوقات مزاحیہ تفریحی پروگرامات لائیو بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کامیڈین سالہا سال سے سٹیج ڈراموں میں لازوال پرفارمنس (جن پر پولیس کے چھاپے بھی پڑتے رہے ہیں) دینے کے بعد لائیو ٹی وی شو میں ایسے بےحیائی اور بےشرمی والے فقرے بھی بول جاتے ہیں کہ جسے لکھتے ہوئے قلم شرما رہا ہے جبکہ وہ تمام اخلاق باختہ فقرے معروف ٹی وی شوکی زینت بن کر نیوز چینل سے آن ائیر ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس بین الاقوامی چینلز کے تقریباً 70فیصد پروگرامات ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں اور آن ائیر ہونے سے قبل تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ پروگرام ملک کی سرحدوں کے خلاف تو نہیں، مذہبی ومسلکی منافرت پر مبنی تو نہیں، کسی کمیونٹی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں۔

    یہاں آوے کاآوا ہی بگڑا ہوا ہے، آخر یہ سب کیا ہے؟ الیکٹرانک میڈیا تفریح کے نام پر کیا دے رہا ہے؟ اور اس سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آخر الیکٹرانک میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو کب سمجھے گا اور معاشرے کے لیے مثبت سوچ کب اپنائے گا۔

    خود کو عقل کُل ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے نام نہاد ٹی وی اسکالرز علم کے عین سے بھی واقف نہیں ہیں کہ علم کا سب سے بنیادی تقاضا اہل ِعلم افراد کی عزت و تکریم اور اخلاقیات ہے۔ لاکھ سیاسی اختلافات کے باوجود سیاستدان ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں، اسی طرح اسپورٹس سے وابستہ افراد ملک کے سفیر اور قوم کے ہیرو ہیں۔ ان کی غلطیوں اور ناکامیوں پر مثبت تنقید اور اصلاح کرنے کے بجائے تضحیک کرنا، اخلاقیات سے گرے ہوئے الفاظ کے ساتھ مذاق اڑانا کہاں کی صحافت ہے۔ صحافتی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دوسروں کی آزادی سلب کرلیں اور آزادی ِ صحافت کی آڑمیں معززین کو بدنام کرنے کے درپے ہوجائیں۔ ہر روز نئی مخبری کرنے والوں کے بارے میں کسی مخبری کی ضرورت نہیں، بس گذشتہ پروگرامات دیکھ لیں آپ کو آئینہ ہوجائے گا کہ ہر کسی کو لتاڑنا اور مخصوص افراد کو نوازنا یقینی طور پر کسی لفافے کی کرامت ہی ہوسکتا ہے۔

    پیمرا کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور ایسے افراد کے خلاف پیمرا ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے۔ ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس 2015‘‘ کے سیکشن 17اور 18 کے مطابق سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ، تجزیہ میں تضحیک کرنا قابل گرفت جرم ہے جس پر قید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے، اس ایکٹ کے تحت کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص یا ادرے کو بغیر وارنٹ فوری گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ قانون نافظ کرنے والے ادروں کو چاہیے کہ کسی بھی امتیاز اور تعصب کے بغیر ’’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس‘‘ کے تحت جرم کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا ہائوسز مالکان اپنا احتساب کریں اور ریٹنگ کی ڈور میں سرپٹ بھاگنے کے بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور آزادی صحافت کے نام ہونے والے اس کھلواڑ کا حصہ نہ بنیں، بےلگام تفریح اور جانبداری یہی وجوہات ہیں کہ لوگوں کا الیکٹرانک میڈیا سے اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے. یہ مکافات عمل ہے کہ نیوزچینلز پر دوسروں کی شکلیں اور نام بگاڑ کر تضحیک کرنے والے اینکرز آج سوشل میڈیا جو کہ کروڑوں پاکستانیوں کی آواز بن چکا ہے، پر انہی اینکرز کی بگڑی ہوئی شکلیں، طنزیہ نام اور بےشمار لعن طعن نظر آتی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ باقی ماندہ عزت کو سمیٹ لیا جائے، تضحیکی اور تخریبی ہتھکنڈوں کے بجائے مثبت اور تعمیری صحافت کو فروغ دے کر الیکٹرانک میڈیا کا وقار بحال کیا جائے۔

  • چانکیہ، اور کراچی کا ارتھ شاستر! ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    چانکیہ، اور کراچی کا ارتھ شاستر! ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

    عاصم اللہ بخش کراچی میں کیا ہو رہا ہے؟ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ غالباً ان کے پاس بھی نہیں جن کے ارد گرد سب ہو رہا ہے اور جو اس سب کی وجہ و بنیاد بھی ہیں.

    اس گھمبیر صورتحال میں جب مدد کے لیے ایک دوست کو پکارا جو تھڑے باز سیاست کے ماسٹر ہیں تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا، یار کوئی جوڑ توڑ کا مسئلہ ہے یا کونسلر لیول کی سیٹ جیتنی ہے یا جتوانی ہے تو بات کرو ورنہ وقت برباد مت کرو۔ یہ گیم اونچی سطح کی ہے۔ اس کے لیے چانکیہ جیسا دماغ درکار ہے ہما شما کے بس کی بات نہیں۔ کچھ حیرانی ہوئی کہ اس میں ایسا بھی کیا ہے جو سیدھا چانکیہ پر ہی جا پہنچا، اور بھی لوگ ہیں جہاں میں اچھے۔

    بہرحال!
    لہجہ کی تلخی کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پوچھا، تو کہاں ملے گا یہ چانکیہ؟ یہ ہندو لوگ تو اس قدر محتاط ہیں کہ جلانے کے بعد راکھ بھی دفن نہیں کرتے، بہا دیتے ہیں۔ اور بات بھی کل کی نہیں، چندر گپت موریہ کے دور کی ہے۔ ابھی اسے کچھ سخت سست کہنے کا ارادہ پختہ کر ہی رہا تھا کہ شاید اس نے بھی بھانپ لیا، کہنے لگا، بھائی! جب یہ بڑے بڑے لوگ مر جاتے ہیں تو یہ اپنی اور دوسروں کی کتابوں میں زندہ سلامت رہتے ہیں۔ آئندہ آنے والے ان سے پھر وہیں ملاقات کرتے ہیں، سوالات پوچھتے ہیں اور علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے کتاب پڑھنے کا شوق ہونا چاہیے۔ اچھا، اب کون سی کتاب پڑھوں؟ میں نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے دریافت کیا۔ یار میں سیاسی کارکن ہوں پروفیسر نہیں۔ تم کسی پڑھے لکھے سے معلوم کرو نا۔ اب ان دنوں گوگل بابا سے بڑا پروفیسر کون ہے بھلا۔ بس میں گھر پہنچا اور کمپیوٹر آن کر کے سرچ کا بٹن دبا دیا. معلوم ہؤا کہ ”ارتھ شاستر“ چانکیہ صاحب کی ایک معرکۃ الآرا کتاب ہے جس میں انہوں نے ریاست اور سیاست کے سب ہی داؤ پیچ لکھ ڈالے ہیں۔

    ارتھ شاستر کے سرورق کی ایک تصویر ساتھ ہی بنی ہوئی تھی۔ اس کو کلک کیا تو اچانک ایک چٹیا بردارصاحب کی تصویر سامنے آ گئی۔ نیچے لکھا تھا چانکیہ مہاراج۔ مجھے ایک دھچکا سا لگا کیونکہ تصویر میں چانکیہ صاحب کے عین عقب میں مزارِ قائد نمایاں تھا۔ یہ کیا جعلسازی ہے، میرے منہ سے نکلا۔ جعلسازی، کیا مطلب برخوردار؟ آواز کی سمت متعین کرنے کے لیے میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ ادھر ادھر مت دیکھو، میری طرف دیکھو، میں یہاں ہوں، اِدھر، کتاب میں۔ لیکن آپ تو کراچی میں ہیں؟ میں نے استفسار کیا۔ بس کیا بتائیں؟ آدیش ہوا کہ ریفریشر کورس پر فوراً کراچی پہنچوں، یہاں پر راجنیتی (سیاست) کا ایک رومانچک (سنسنی خیز) کھیل چل رہا ہے۔ اسے دیکھوں اور اس پر اپنی رپورٹ تیار کروں۔

    کھیل؟ یہ کیا بات ہوئی۔ آپ کی شہرت ایک سنجیدہ انسان کی ہے، کھیل کود سے آپ کو کیا نسبت؟ اب جزبز ہونے کی باری چانکیہ صاحب کی تھی۔ سیاست کی بساط بھی شطرنج کی طرح ہی ہوتی ہے، اس میں پیادے اور گھوڑے بھی ہوتے ہیں، کھلاڑی بھی اور ان کھلاڑیوں کی چالیں بھی۔ یہاں بساط بچھائی بھی جاتی ہے اور پھر لپیٹی بھی جاتی ہے۔ اس میں فتح وشکست بھی ہوتی ہے، البتہ اس میں ایک رخ اور بھی ہے، یہاں فتح و شکست کے نام پر دھوکہ بھی ہو جاتا ہے، لیکن یہ دھوکہ تماشائیوں کے ساتھ ہوتا ہے، کھلاڑی تو اپنا کھیل جاتے ہیں. اس لیے تماشائیوں کو زیادہ چوکنا رہنا چاہیے۔

    کراچی میں یہ بساط آپ سے کیا کہتی ہے مہاراج! میں نے براہ راست مقصد کی بات پر آتے ہوئے پوچھا۔
    اس نے ایک اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈالی اور بولا، میاں میں چانکیہ ہوں، چارلی چیپلن نہیں. میرا کام منصوبہ اور اسٹریٹجی ترتیب دینا ہے، فرمائشی پروگرام پورے کرنا نہیں. میں نے جو کہنا ہے وہ اپنی اس رپورٹ میں لکھ چکا ہوں، اس نے اپنے بریف کیس کی طرف اشارہ کیا. نہیں مہاراج! آپ گرو ہیں میں تو محض ایک ودھیارتی (طالب علم)، کچھ تو بتائیے آپ نے کیا اندازہ لگایا؟ میں نے ضد کرنے کے سے انداز میں کہا.
    ہمممم… چانکیہ نے ہنکارہ بھرا، ویسے تو شاگردی کے لیے میرا معیار خاصا بلند ہے جس پر تم پورا نہیں اترتے، پھر بھی چلو کچھ باتیں کہتا ہوں. یہ امکانات ہیں، اس سے آگے کی کہانی خود دیکھ سمجھ لینا.

    کراچی آپریشن کے حوالے سے ایم کیو ایم کا مئوقف یہ ہے کہ اس آپریشن نے اسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے. کسی بھی اور جماعت یا گروہ کے برعکس، ایم کیو ایم کی افرادی قوت اور وسائل چونکہ سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی میں مرتکز ہیں اس لیے وہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے. اب تو یہ آپریشن اس کو اور بھی زیادہ زک پہنچانے لگا ہے جس کی بڑی وجہ اس سے متعلق افراد کی ایک بڑی تعداد میں گرفتاریاں اور ان کے گھروں پر چھاپے وغیرہ ہیں. دوسرا یہ کہ ماضی قریب میں ایم کیو ایم پر الزام رہا کہ اس کا عسکری ونگ اب درون خانہ بھی دانت تیز کرنے لگا ہے، جس کی وجہ سے اندرونی طور پر بےچینی میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا. بہت سے حلقوں کا خیال تھا کہ یہ ونگ براہ راست قائد تحریک کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنا کام کرتا ہے. ان حالات میں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی جیسے لوگوں کا الگ سے دھڑا بنانے کا نتیجہ یہ ہو سکتا تھا کہ کراچی کے لیے ایک متبادل قیادت سامنے آ جائے. رینجرز آپریشن کے دوران ایک دو مواقع پر جب کراچی کو بند کروانے کی کوشش کی گئی تو ماضی کی نسبت یہ کام نہایت مشکل ثابت ہوا اور ناکامی ہوئی. اب جو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے یہ قدم اٹھایا کہ الطاف حسین صاحب سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، اس سے انہوں نے ایک عمدہ سیاسی چال چلی ہے. اپنے اور اپنی سیاست کے لیے گنجائش کا دعوی سامنے رکھا ہے. اس گنجائش کا مطلب اپنے محصور کارکنوں اور ان کے مقدمات کے لیے کچھ آسانی کی بات کرنا ہے. پھر یہ کہ الطاف صاحب کے برعکس پاکستان زندہ باد کہہ کر عوام کے دلوں میں بھی اپنے لیے جگہ پیدا کر لی. ایک کام اور ہوا کہ اس اعلان لاتعلقی سے انہوں نے مصطفی کمال کو اس بنیادی مقدمہ سے فارغ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ الطاف حسین صاحب کے خلاف گفتگو کو اپنی جماعت کے حق میں استعمال کر رہے تھے. اب جبکہ الطاف صاحب منظر عام سے ہٹ گئے ہیں تو اب ان کی پارٹی کا کیا جواز؟ اب تو ایم کیو ایم بھی ویسی ہی ہے، الطاف صاحب کے بغیر، بلکہ ان کے خلاف.

    اچھا، پھر؟ یہ تو اچھی بات نہ ہوئی ؟ میں نے پوچھا. ہاں ہوئی، بالکل ہوئی، لیکن یہ سیاست ہے. یہاں جو نظر آتا ہے بالکل ویسا نہیں ہوتا. اس صورتحال کی ایک نہایت خطرناک شکل بھی ہے. ایم کیو ایم جس طرح بالالتزام حب الوطنی کے مظاہرے کر رہی ہے اور ساتھ میں شکایات بھی جاری ہیں، جیے الطاف کے بجائے جیے بھٹو اور جیےعمران کے نعرے لگ رہے ہیں، اسمبلی میں الطاف بھائی کے خلاف قرارداد لائے جانے کی بات ہو رہی ہے، پارٹی آئین تک تبدیل ہو رہا ہے، اس سے یہ امکان بھی ابھرتا ہے کہ یہ ایک چارج شیٹ بھی تیار ہو رہی ہے. اگر سچ میں ایسا ہی ہے تو شکایات کا لہجہ آہستہ آہستہ تلخ ہوتا چلا جائے گا اور پھر ایک ایسا بریکنگ پوائنٹ آ سکتا ہے کہ یہی فاروق ستار یا کوئی اور لیڈر پکار پکار کر کہہ رہا ہو کہ الطاف بھائی آپ سچے تھے، آپ صحیح تھے، ہم سے ہی بھول ہوئی. ہم نے تو یہ کیا، یہ کیا اور یہ بھی کیا لیکن ہمیں ریاست اور اسٹیبلشمنٹ سے کوئی گنجائش نہ مل سکی. آپ خدارا ہمیں معاف کر دیجیے اور ہمیں گلے سے لگا لیجیے. یہ ایک ڈرامائی لمحہ ہوگا اور ظاہر ہے قائد معاف کرتے ہوئے انہیں گلے سے لگا لیں گے اور اس وقت قائد کی طاقت اپنی بلندی پر ہوگی. آج اگر کچھ لوگ ان کے رویہ سے شاکی ہیں تو وہ مخالفت بھی دم توڑ جائے گی. یہ منظرنامہ اصل چیلنج ہے.

    تو اب کیا ہوگا مہاراج! آواز میرے گلے میں پھنسنے لگی.
    تم تو گھبرا گئے. یہ صرف ایک امکان ہے، پیشین گوئی نہیں. اور اس کی بنیاد بھی چند انہونیوں پر ہے. مثلاً، وہ مثالی اور مکمل اتفاق رائے جو اس وقت ایم کیو ایم میں نظر آ رہا ہے. اتنا پرسکون بٹوارہ تو گھر کا نہیں ہوتا، یہ تو ایم کیو ایم ہے بھایا، ایم کیو ایم. علیحدگی نہ ہوئی ڈاکڑ طاہر القادری صاحب کا دھرنا ہوگیا، ایک گملا بھی نہ ٹوٹا.

    بہرحال! اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت آگے کیا کرتی ہے. ابھی تک تو دونوں اطراف نے اچھے پتے پھینکے ہیں.
    حکومت نے فوراً ہی ایم کیو ایم کا وہ فیصلہ مان لیا جو 23 اگست کی پریس کانفرنس میں سامنے آیا. نہ ماننے کی کوئی وجہ بھی نہیں. لیکن آپریشن نہیں روکا، بس اتنا کیا کہ اب جو لوگ پکڑے جا رہے ہیں وہ ایم کیو ایم لندن کے ہیں. یعنی نہ یہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے لوگ ہیں اور نہ ہی وہ ان کے لیے بات کرے. ایم کیو ایم کے میئر کو جیل سے منتخب بھی کروایا، حلف بھی دلوایا اور اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی. شاید میئر وسیم اختر کو جلد پیرول پر رہا بھی کر دیا جائے. گئے روز ایپکس کمیٹی میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی بازگشت بھی سنائی دی. یہ بھی سندھ کے شہری علاقوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے. تاہم یہ نظر آتا ہے کہ اب جو ریلیف دیا جائے گا، وہ حکومت اور گورنر سندھ کی وساطت سے ہوگا تاکہ واضح نظر آئے کہ یہ کون کر رہا ہے. ساتھ ہی مصطفی کمال کے ہاتھ بھی مضبوط کیے جائیں گے تاکہ الطاف حسین کوئی ایسی لہر نہ اٹھا سکیں جو سب کچھ ہی بہا کر لے جائے.

    شاید یہ سب کچھ نہ ہو، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا تو مجھے ایک خوشگوار حیرت ضرور ہوگی. غالباً یہی سب معلوم کرنے مجھے اس اسٹڈی ٹور پر بھیجا گیا ہے. اور، آخری بات! خرابی سے بچنے کے لیے چال کا درست ہونا ہی اہم نہیں، اس کا بروقت ہونا اور سامنے والے کھلاڑی کے ذہن کو پڑھنا بھی ضروری ہے.
    اچھا اب میں چلتا ہوں. کہاں؟ میں نے ہڑبڑا کر پوچھا…. اور …. الطاف بھائی کا اس میں کیا فائدہ ہے، اگر یہ معاملہ یوں ہی ہے تو؟

    لیکن چانکیہ غائب ہو چکا تھا.

  • پاکستان بطورِ اسلامی فلاحی ریاست اور نمایاں اعتراضات – سنگین زادران

    پاکستان بطورِ اسلامی فلاحی ریاست اور نمایاں اعتراضات – سنگین زادران

    13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں طلبہ سے خطاب کے دوران قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔“ ریاست پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ ایک ملک حاصل کر کے وہاں اسلامی اصولوں کے عین مطابق اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جائے بلکل اسی طرح جیسے 14 سو سال قبل مدینہ نام کی ایک ریاست وجود میں آئی اور اسلامی معاشرے کو فروغ ملا۔ جب ہم اسلامی معاشرہ کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد مذہبی بحث و مباحثے والا معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ اس معاشرے کا قیام ہوتا ہے جہاں اسلامی قوانین کی حد میں رہتے ہوئے شخصی آزادی حاصل ہو اور فرد کو مجموعی و انفرادی حیثیت میں ایسا ماحول میسر ہو جس میں بتدریج وہ بالیدگی اختیار کرتے ہوئے اپنی روح کو عرفان کی بلندیوں پر لے جا سکے۔

    یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی قوانین کی موجودگی میں یا ان کے اندر رہتے ہوئے کون سی شخصی آزادی ہے۔ جس کا سادہ اور حقیقت پر مبنی جواب یہ ہے کہ دنیا کا کون سا معاشرہ یا ملک ہے جو قوانین سے آزاد ہو؟ آزادی کی اپنی اپنی تعریف ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف انداز میں رائج ہے۔ کہیں پر انسان کی آزادی کا مطلب ہے جنسی آزادی، کہیں پر انسان کی آزادی کا مطلب ہے کہ افعال و اعمال میں کوئی شخص کسی دوسرے پر اثر انداز ہوئے بغیر جو مرضی کرنا چاہے کر لے۔ ایسے آزاد معاشروں کے اندر بھی قوانین ہیں جن کی پابندی لازم ہے۔ تو کیا وہ اقوام جو قوانین کی پابندی کرتی ہیں غیر آزاد کہلاتی ہیں؟ یقینا اس کا جواب ہر انسان نہیں میں ہی دے گا۔ کیونکہ فلاحِ انسانیت کےلیے بنائے گئے قوانین کی پاسداری اور ان کا احترام کرنا غلامی نہیں کہلاتا ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کے اندر معاشرے اور فرد کی انفرادی و اجتماعی فلاح اور بہتر عقلی و فکری نشو و نما کے اپنے الگ قوانین ہیں جیسے دیگر ریاستوں کے اپنے قوانین۔ فرق محض یہ ہے کہ دیگر اقوام فرد کےلیے فرد کے بنائے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں اور ہم مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کے بنائے افراد کےلیے قوانین بہتر ہیں بہ نسبت ان قوانین کے جو افراد افراد کےلیے بناتے ہیں۔ بطورِ انسان اگر میں کسی شخص کو یہ اختیار دیتا ہوں کہ میرے جینے کے ضابطے مقرر کرے تو وہ کس حیثیت سے وہ ضابطے طے کرے گا کیونکہ ہے تو وہ بھی ایک انسان ہی؟ اور اگر مجھے کہا جائے کہ کسی انسان کے میرے لیے مقرر کردہ ضابطے اور قوانین کی پیروی کروں تو میں کس حیثیت سے ان کی پیروی کرنے کا پابند ہوں؟

    ایک آفاقی حقیقت یہ بھی ہے کہ طاقت کے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور طاقت کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ کون ہے جو جھٹلا سکے کہ کمزور اور طاقتور انسان کے بنائے قانون میں سے نفاذ اسی کے قانون کا ہوتا ہے جو طاقتور ہے۔ 11/09 کے بعد چند سو افراد کے مرنے پر جو امریکہ نے افغانستان میں کیا، وہ طاقت کا قانون تھا۔ جو عراق میں امریکہ نے ویپین آف ماس ڈسٹرکشن کے نام پر کیا، وہ طاقت کی اخلاقیات تھیں۔ اوپینیئن ریسرچ بزنس سروے کے مطابق دس لاکھ سے زائد افراد امریکہ عراق جنگ میں مرے مگر طاقت کا قانون آج بھی اسے ایک تنازعہ قرار دیتا ہے۔ میڈیا میں امریکہ عراق جنگ کے بجائے امریکہ عراق تنازعے کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ 5 لاکھ کے لگ بھگ لوگ افغانستان میں مرے الگ ہیں۔ اقوامِ متحدہ کو دنیا کا سب سے بااثر ادارہ سمجھا جاتا ہے، کیا وہ بااثر ادارہ ان 15 لاکھ افراد میں سے کسی ایک کو بھی بچا سکا؟ چلیں امریکہ کے خلاف کوئی ایک عمل ثابت کر دیں جو اقوامِ متحدہ نے ان اموات کے بدلے کیا ہو۔ اتنی بڑی زمینی حقیقت کے باوجود کون ہے جو یہ تسلیم نہ کرے کہ طاقتور کا قانون کمزور کے قانون سے بالاتر ہوتا ہے۔ اس پر یہ کہنا کہ انسان کے انسان کےلیے بنائے قانون انسان کےلیے موزوں ہوتے ہیں، دراصل انسان کو انسان کا غلام بنانے کے مترداف ہے اور اس عیاری یا پھر سادگی پر محض مسکرایا ہی جا سکتا ہے۔

    تھیوری بھلے جتنی بھی کارآمد ہو تب تک محض تھیوری ہی قرار پاتی ہے جب تک اسے پریکٹیکل کی کسوٹی پر پرکھ نہ لیا جائے۔ کہنے کی حد تک ہم جتنا بھی کہہ لیں کہ ایک اسلامی معاشرہ فلاحِ انسانیت پر مبنی ہوتا ہے جب تک ہم اسے عملی طور پر جانچ نہ لیں، دوسروں کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ تو اسلامی فلاحی ریاست کو 14 سو سال قبل دنیا کے سامنے بطور ماڈل پیش کیا جا چکا ہے۔ جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مدینے کی گلیوں میں لوگ خیرات و زکوٰۃ جھولیوں میں ڈال کر پھرا کرتے تھے مگر خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں پر ایک اعتراض یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست کا وہ نظریہ 14 سو سال پرانا ہے جو آج نافذالعمل نہیں ہو سکتا۔ میرے بھولے دانشور یہ بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس جمہوریت کو آج جدید نظام کہا جاتا ہے، یہ جمہوریت کا نظریہ بذاتِ خود 508 قبلِ مسیح متعارف ہوا۔ اس حساب سے جمہوریت کی عمر 2524 سال بنتی ہے جبکہ اسلامی نظریہ ریاست کی عمر محض 1437 برس ہے۔ تو ڈھائی ہزار سال قبل کے ایک نظریہ کو جدید قرار دے کر 14 سو برس قبل کے نظریہ کو زیادہ پرانا آخر کس بنیاد پر قرار دیا جا سکتا ہے؟ دوسرا اور مقبول ترین اعتراض جو اسلامی نظریاتی ریاست پر کیا جاتا ہے وہ جنگیں ہیں جو مختلف مسلمان حکمرانوں کے ادوار میں ہوئیں۔ اسلامی ادوار میں جنگ و جدل کا اعتراض یوں کیا جاتا ہے جیسے اسلامی فلاحی ریاست سے قبل تو تاریخ میں کوئی جنگ کبھی ہوئی ہی نہیں۔ پتھر کے زمانے سے لے کر اسلامی فلاحی ریاست کے قیام تک کوئی ایک بھی دور ایسا نہیں گزرا جس میں انسان نہ لڑا تو کیا وہ جنگیں بھی اسلامی ریاست کی وجہ سے تھیں؟ دوسرا اہم نکتہ جسے میرا آج کا معزز دانشور درخورِ اعتنا نہیں جانتا، وہ دنیا میں ہونے والی وہ جنگیں ہیں جو جمہوری ادوار میں جمہوریت پسند انسانوں نے لڑیں۔ اگر تقابلی انداز میں اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو ہم اس نتیجے پر بلا تامل پہنچ جائیں گے کہ جمہوریت اور دیگر نظاموں میں ہونے والی جنگیں اور انسانی جانوں کا ضیاع اس سے کئی گناہ زیادہ ہے جو اسلامی ادوار میں ہوا۔ جب ہم اس نکتے پر آتے ہیں تو ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ جمہوری ادوار میں لڑی جانے والی جنگیں جمہوریت کی وجہ سے نہیں تھیں بلکہ جنگ لڑنے والوں کی”اپنی مرضی“ تھی جبکہ اسلام جہاد کا حکم دیتا ہے۔

    اچھا جہاد آپ کا مسئلہ ہے بہت خوب۔ ٹھیک ہے جن جمہوری و غیر جمہوری جنگوں کے متعلق آپ یہ رائے قائم کیے بیٹھے ہیں کہ وہ لڑنے والوں کی”اپنی مرضی“ سے لڑی گئیں تھیں تو ان کی ”مرضی“ کو ڈیفائن کر دیں زرا۔ یہ جو ”ان کی مرضی“ تھی، وہ کیا تھی؟ کیا یہ محض جنگ و جدل کی خواہش تھی؟ کیا اقتدار کی خواہش تھی؟ کیا زمین اور وسائل کے قبضے کی خواہش تھی؟ کیا یہ طاقت کا نشہ تھا جو اس مرضی کا پسِ منظر تھا؟ ذرا وضاحت کر دیں اس مرضی کی۔ عقلی اعتبار سے جمہوریت اور قبلِ جمہوریت لڑی جانے والے تمام جنگوں کے اسباب و علت کا موازنہ جہاد کے اسباب و علت سے کریں اور پھر فیصلہ خود کر لیں کہ جہاد ممتاز ہے یا نہیں ہے۔ اس درخواست کے ساتھ کہ ذہنی کج روی کا جو مظاہرہ مغرب کی اقوام اسلامی نظریہ ریاست کے متعلق اپناتی ہیں اس سے اجتناب برت کر کوئی فیصلہ کیجیے گا۔

    یہ چند نمایاں اعتراضات تھے جو اسلامی فلاحی ریاست کے نام پر اکثر ان لوگوں کی طرف سے سننے میں آتے ہیں جن کی تعداد پہاڑ کے مقابلے میں رائی جیسی ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہی اس قوم کا نصب العین تھا جس کےلیے اس نے قربانیاں دیں۔ اور جلد یا بدیر یہ قوم اس نصب العین کو حاصل کر کے رہے گی۔ کسی کو گراں گزرتا ہے تو ضرور گزرے مگر اس زمانی حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا نا کہ قوم کے 80 فیصد سے زائد افراد اس ملک کو بطورِ اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کے ڈنکے بجانے والے افراد کو پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے جب اس 80 فیصد کی بات کی جاتی ہے۔ حضور ان کی رائے کا بھی تو کوئی احترام ہونا چاہیے نا۔

  • کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے؟ عمران احسن نیازی

    کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے؟ عمران احسن نیازی

    وفاقی حکومت نے ایک ممتاز عالم دین سے فتوی حاصل کیا ہے جس کی رو سے ہمارا دستور مکمل طور پر اسلامی ہے کیونکہ اس میں وہ 22 ”اسلامی“ دفعات شامل ہیں جو اس ملک کے ممتاز علماے کرام نے متفقہ طور پر تجویز کیے تھے۔ (ایکسپریس ٹریبیون، 9 فروری2015ء ) پچھلے مضمون (عدلیہ کی شریعت، جناب والا) میں ہم نے تجویز کیا تھا کہ محض قوانین وضع کرنے سے وہ اسلامی نہیں ہوجاتے؛ بلکہ یہ تبھی اسلامی ہوں گے جب عدالتیں ان کی اسلامی تعبیر کریں گی۔ زیر نظر مضمون میں یہ واضح کیا جارہا ہے کہ ان 22 نکات کی شمولیت سے دستور اسلامی نہیں ہوجاتا؛ دستور تبھی اسلامی ہوگا جب عدالتیں صرف ان 22 نکات کی ہی نہیں بلکہ دستور کی ہر ہر دفعہ کی اسلامی تعبیر کریں گی۔

    سوال یہ ہے کہ عدالتیں کیوں دستور کی اسلامی تعبیر نہیں کر رہیں؟ ہمارے علماے کرام اور صحافی حضرات کو، جو اس موضوع پر لکھ رہے ہیں، معلوم ہونا چاہیے کہ اگر عدالتیں دستور کی ہر شق کی اسلامی تعبیر نہیں کر پا رہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب عدالت ِ عظمی نے حاکم خان بنام حکومت ِپاکستان میں دیا ہے۔ ( PLD 1992 SC 559) اس مقدمے میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ قصاص کے مقدمات میں قاتل کی معافی کا اختیار صرف مقتول کے ورثا کے پاس ہے یا ورثا کی مرضی کے بغیر بھی صدر قاتل کو معاف کرسکتا ہے؟ دستوری اصطلاح میں بظاہر دفعہ 2– الف ، جو دستور کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتی ہے، اور دفعہ 45، جو صدر کو ہر سزا کی معافی کا اختیار دیتی ہے، کے درمیان تصادم تھا۔

    اگر یہ فرض کرتے ہوئے کہ دستور اسلامی ہے، دفعہ 45 کی بھی اسلامی تعبیر کی گئی ہوتی تو معزز عدالت نے قرار دیا ہوتا کہ دفعہ 45 کا اطلاق قصاص کی سزا پر نہیں ہوتا۔ تاہم عدالت نے یہ نہیں کہا۔ اس کے برعکس اس نے قرار دیا کہ دفعہ 2– الف ”دستور پر حاوی“ نہیں ہے اور دفعہ 2– الف دستور کی کسی دوسری شق کی تخصیص یا تقیید نہیں کر سکتی۔ بالفاظ دیگر، صرف وہ ”22 نکات“ ہی اسلامی ہیں؛ باقی ہر شق اپنا انفرادی مفہوم رکھتی ہے۔
    پورے دستور کو اسلامی بنانے کا طریقہ پھر کیا ہے؟ معزز عدالت نے اس کے لیے یہ طریقہ سجھایا ہے:
    پس اگر دستور کی موجودہ شقوں میں سے کسی کے متعلق یہ سوال اٹھایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ جن حدود کے اندر لوگوں کو قانون سازی کا اختیار ہے، یہ شق ان حدود سے تجاوز کی بنا پر ناجائز ہے، تو اس مسئلے کا حل صرف مجلس شوری ( پارلیمنٹ ) کے پاس ہے جو اگر اس راے سے متفق ہو تو متعلقہ شق کو ٹھیک کرکے اسے واپس اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر لانے کے لیے مناسب ترمیم کرسکتی ہے۔ ( PLD 1992 SC 559, 621, emphasis added)
    یہ موقف دستوری لحاظ سے انتہائی دور رس نتائج کا حامل ہے اور اس کا تفصیلی تجزیہ ضروری ہے۔

    برطانیہ میں دستور عام قوانین کی صورت میں بکھرا پڑا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہاں (یکجا صورت میں) تحریری دستور موجود نہیں ہے۔ دستور کی جگہ وہاں پارلیمنٹ کا فیصلہ بالادست حیثیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر وہاں جج کہا کرتے تھے کہ: ”ہم ملکۂ عظمیٰ اور پارلیمنٹ کے معزز اراکین کے خادم ہیں۔“ چنانچہ کسی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہوتی تھی تو جج اسے واپس پارلیمنٹ بھیجا کرتے تھے۔ تعبیر قانون کے لیے وہ لفظ کے ظاہری مفہوم پر اصرار کرتے تھے اور قانون میں اپنی جانب سے کسی مفہوم یا پہلو کا اضافہ نہیں کرتےتھے۔ تمام فیصلے پارلیمنٹ سادہ اکثریت کے ذریعے کرتی تھی۔ جہاں تحریری دستور ہو، جیسا کہ امریکا میں ہے، وہاں ایسا نہیں کیا جاتا۔ برطانیہ میں بھی اب یہ موقف بتدریج تبدیل ہوتا جارہا ہے اور وہاں بھی جج بعض اوقات مدون دستور کے مفروضے پر عمل کرتے ہیں۔

    غیر مدون دستور کے برعکس تحریری طور پر مدون دستور قانون کے مآخذ کے درمیان ترتیب مقرر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں تحریری دستور کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ دستور کو عام قانون پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی بالادستی کے مفروضے کی بنا پر عدالتوں کے لیے یہ اختیار تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ دستور سے تصادم کی بنیاد پر قوانین کو کالعدم قرار دیں۔ پاکستان میں بھی ماضیِ قریب میں عدالت ِ عظمیٰ نے اس قاعدے کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ چونکہ برطانیہ میں قوانین کے درمیان اس نوعیت کی ترتیب کا عنصر مفقود ہے، اس لیے وہاں عدالتوں کے پاس اس طرح کا اختیار موجود نہیں جس طرح امریکا میں ماربری بنام میڈی سن کے مشہور مقدمے سے عدالت ِ عظمیٰ نے حاصل کیا۔ برطانیہ میں یہ عدالتی اختیار صرف انتظامی فیصلوں کے جائزے تک ہی محدود ہے۔ اگر ہم اپنے دستور کی شقوں کے مفہوم کے تعین اور اسلام کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کا فیصلہ کرنے کے لیے اسی طرح پارلیمنٹ کی طرف بھیجیں گے تو اس سے قوانین کے درمیان اس ترتیب اور عدالتوں کے اس اختیار کی نفی ہوتی ہے جسے ہمارے دستور نے تسلیم کیا ہے۔

    یہ امر قابل ذکر ہے کہ حاکم خان کیس میں معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیجنے کے بجاے اگر عدالتِ عظمیٰ نے اپنے اس اختیار کا استعمال کیا ہوتا تو وہ یہ فیصلہ بھی سنا سکتی تھی کہ مقتول کے ورثا کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق دستور کی دفعہ 45 سے متصادم ہے! عدالت نے ایسا نہیں کیا اور پورا معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیج دیا۔ پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کرنے کے بجاے مجموعۂ تعزیرات ِ پاکستان میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا۔ چنانچہ 1997ء میں اس مجموعے کی دفعہ 54 میں، جو سزائوں کی معافی کے بارے میں حکومت کے اختیار کے بارے میں ہے، حسب ِ ذیل ترمیم کی گئی: ”البتہ اگر مجرم کو قتل کے کسی جرم میں سزاے موت سنائی جاتی، تو مقتول کے ورثا کی مرضی کے بغیر ایسی سزا میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کام عدالت نہیں کرسکی، وہ عدالت نے ایک عام قانون کے ذریعے کردیا کہ اس نے دستور کی دفعہ 45 کی تخصیص ایک عام قانون کے ذریعے کی۔ گویا دستور میں ترمیم سادہ اکثریت کے ذریعے کی گئی!

    دفعہ 45 کی تخصیص اس طریقے سے، یعنی ایک عام قانون کے ذریعے حالانکہ اس کے الفاظ عام ہیں اور اس میں”قانون کے تحت“ جیسی کوئی ترکیب بھی استعمال نہیں کی گئی۔ اگر اس کے باوجود پارلیمنٹ یہاں یہ کرسکتی ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ بنیادی حقوق سے متعلق دفعات کے ساتھ وہ کیا کچھ کرسکے گی کیونکہ ان دفعات میں تو یہ ترکیب بھی استعمال کی گئی ہے! مثال کے طور پر ”مفاد عامہ کی خاطر قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قید کے اندر“ ؛( دفعہ 15) ”نظم اجتماعی کے مفاد کی خاطر قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قیود کے اندر“ ؛( دفعہ 16) ”قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قیود کے اندر“۔ ( دفعہ 17) چنانچہ پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے بنیادی حقوق پر کئی قیود عائد کرسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دفعات میں پنکچر لگے ہوئے ہیں۔ ( پنکچر میں کسی اور بات کی طرف تلمیح نہ سمجھی جائے۔)

    یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر صدارتی اور دیگر نوعیتوں کی استثنی سے متعلق دفعہ 248 کا جائزہ اسلامی قانون کی روشنی میں لیا گیا تو اس کی تعبیر کیسی ہوگی؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی ِ قریب میں جب عدالت میں اس دفعہ پر بحث ہو رہی تھی تو اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا۔ تاہم دفعہ 6 تو اس وقت بھی عدالتوں میں زیر غور ہے۔ ہمارے دستور کی اسلامیت جانچنے کا یہ ایک اور موقع ہے۔ ہمیں انتظار ہے اس بات کا کہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں عدالت ”غداری“ کا کیا مفہوم متعین کرتی ہے؟

    پس بنیادی نکتہ یہ ہے کہ محض قانون سازی کافی نہیں ہے؛ نہ ہی قوانین میں محض یہ تصریح کرنے سے کہ یہ اسلامی ہیں، کام چل سکتا ہے۔ دستور یا قانون میں اسلامی دفعات کی شمولیت سے صرف آدھا کام ہی ہوا ہے۔ اصل میں اہمیت اس امر کی ہے کہ عدالتیں دستور اور قوانین کی تعبیر کس طرح کرتی ہیں۔ شاید حاکم خان کیس کا فیصلہ اب بھی نافذ ہے۔ تاہم اسلامی قانون کی روشنی میں دستور کی عدالتی تعبیر کی راہ میں یہ فیصلہ رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

    1898ء کے ایک فیصلے کی بنا پر 1966ء تک انگلستان میں برطانوی دار الامراء پر خود اس کے اپنے فیصلوں کی پابندی لازم تھی۔ یہ اصول پہلی دفعہ لندن سٹریٹ ٹرام ویز بنام لندن سٹی کونسل کے مقدمے میں طے کیا گیا۔ دار الامراء نے قرار دیا کہ ”کسی قانونی امر کے متعلق اس ایوان کا فیصلہ حتمی ہے اور پارلیمنٹ کے قانون کے سوا کوئی چیز بھی اس ایوان کے فیصلے میں موجود کسی مزعومہ غلطی کی تصحیح نہیں کرسکتی۔“ 1966ء میں دار الامراء نےایک ”تعامل کی دستاویز“ کے ذریعے یہ موقف تبدیل کرلیا اور قرار دیا کہ ”ایوان کے سابقہ فیصلوں کو عام طور پر لازمی ماننے کے باوجود ایوان ان سے انحراف کرسکتا ہے اگر اسے یہ انحراف صحیح معلوم ہو۔“ پس اس وقت زیادہ سے زیادہ جو کچھ چاہیے وہ صرف عدالت ِ عظمیٰ کی جانب سے جاری کردی ایک ”تعامل کی دستاویز“ ہے جس میں یہ قرار دیا جائے کہ آج سے پاکستان کے دستور اور قوانین کی تعبیر اسلامی قانون کی روشنی میں کی جائے گی۔ اس کے بعد کوئی یہ سوال نہیں کرسکے گا کہ کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے ؟

    (تحریر : عمران احسن خان نیازی مترجم : محمد مشتاق احمد)

  • مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان – حامد کمال الدین

    مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان – حامد کمال الدین

    حامد کمال پیش ازیں ہمارے شائع ہو چکے ایک مضمون ’’نیشنلزم اور انسان کے اندر کچھ طبعی جذبے‘‘ کے تسلسل میں۔

    ہمارے فقہاء بہت پہلے کہہ چکے، اصطلاحات میں کوئی تنگی نہیں۔ ایک ہی لفظ مختلف ادوار یا مختلف طبقوں میں مختلف معنیٰ دے، عین ممکن ہے اور اس میں چنداں مضائقہ نہیں۔ یہ بات بحث و جدل کا سبب نہیں بننی چاہیے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ کہاں ایک لفظ کا کیا مطلب لیا جاتا ہے۔ اصرار کریں تو حقائق پر نہ کہ لفظوں اور پیرائیوں پر۔ [pullquote]العِبْرَہُ بالمَعَانِي، لَا بِالالفَاظِ وَالمَبَانِي.[/pullquote]

    ایک علمی گفتگو کی حد تک تو بالکل ایسا ہے۔ رہ گیا الفاظ کا عوامی استعمال تو اصطلاحات ایک پھسلن بھی ہو سکتی ہے، یعنی یہ اندیشہ کہ ایک دَور یا ایک طبقے میں مستعمل ایک لفظ کا مفہوم آپ کسی دوسرے دَور یا دوسرے طبقے میں مستعمل اُسی لفظ کے مفہوم کے ساتھ خلط کر جائیں۔ یہاں سے؛ کچھ فکری وارداتیں ہو جانے کا امکان رہتا ہے۔ لہٰذا اصطلاحات کے مسئلہ کو اتنا سادہ لینا بھی درست نہیں۔
    اب مثلاً ’’قوم‘‘ کا لفظ حدیث میں کیا اُسی معنیٰ کے اندر استعمال ہوا ہے جو ’’نیشن‘‘ کے تحت ہمارے سیاسی استعمال میں آج ہے؟
    [pullquote]قُلْتُ يَا رَسُولَ اللّہ امِنَ الْعَصَبِيَّۃ انْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَہ قَالَ لَا وَلَكِنْ مِنْ الْعَصَبِيَّۃ انْ يَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَہ عَلَى الظُّلْم [/pullquote]

    میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا یہ عصبیت شمار ہوگا کہ آدمی کو اپنی قوم سے محبت ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ عصبیت شمار ہوگی یہ بات کہ آدمی اپنی قوم کا ظلم میں ساتھ دے‘‘۔’’

    یہاں ظاہر ہے قوم سے مراد پورے چار عناصر (آبادی، رقبہ، حکومت اور حاکمیتِ اعلیٰ) کے اجتماع سے سامنے آنے والی وہ ایک مخصوص انسانی وحدت نہیں جو ’’نیشن‘‘ کے زیرعنوان دورِحاضر میں معروف ہے، بلکہ ’’قوم‘‘ سے مراد یہاں وہی ہے جو آج سے ڈیڑھ دو صدی پہلے تک خاصے طبعی سے انداز میں آدمی کے ذہن میں آ جایا کرتی تھی۔ حدیث میں اس سے مراد اسی طرح کی اشیاء ہیں جیسے اُس زمانہ میں بنو تغلب، بنو بکر یا قحطان، ربیعہ اور مُضر وغیرہ۔ پس ضروری ہے کہ ’’قوم سے محبت‘‘ کا وہ حوالہ جو حدیث سے سمجھ آتا ہے، اپنے اُس طبعی معنیٰ پر رہے۔ اس کو فی زمانہ ’’نیشن‘‘ کا وہ مخصوص معنیٰ پہنانا جولفظ ’’قوم‘‘ کے اُس طبعی معنیٰ سے ہٹ کر ایک چیز ہے، درست نہ ہو گا۔ (اس نقطہ کو ذرا آگے چل کر ہم مزید کھولیں گے)۔ حدیث میں مذکورہ ’’قوم‘‘ سے مراد آدمی کی برادری یا ہم زبان یا ہم علاقہ لوگ رہیں گے۔ اب جہاں تک برادری، زبان یا علاقہ ایسی اشیاء کا تعلق ہے تو ان کو دیکھنے کا حوالہ بڑے قریب کا بھی ہو سکتا ہے اور خاصے دُور کا بھی۔ اپنی اپنی نسبت سے ایسا ہر دائرہ آدمی کی ’قوم‘ ہو گا۔ مثلاً ایک ہاشمی کےلیے قریش کے بقیہ خانوادوں کے مقابلے پر تو بنوہاشم ہی اس کی قوم ہوں گے لیکن کنانہ کے بقیہ گوتوں کے مقابلے پر پورا قریش اس کی قوم کہلائے گا۔ جبکہ عدنانی شاخوں کے مقابلے پر صرف قریش نہیں تمام کنانہ اور اس سے اوپر کی سطح پر تمام عدنان اس ’’ہاشمی‘‘ کی قوم ہو گا۔ علیٰ ھٰذالقیاس۔ (بڑے دائرے کے مقابلے پر چھوٹا دائرہ آدمی کی ’قوم‘ کہلائے گا)۔ یہ ہے حدیث میں آنے والے اِس لفظ کا مفہوم۔

    یہاں سے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے، اور میں معذرت خواہ ہوں اگر کچھ لوگوں کے ’نیشنلسٹ‘ جذبات اس سے مجروح ہوں۔ وہ سوال یہ ہے کہ حدیث کا ذکر کردہ یہ طبعی ’محبت اور لگاؤ‘ جو آدمی کو اپنی ’قوم‘ سے ہو جاتا ہے، اس کا رخ اور ترتیب کیا ہے: آیا یہ لگاؤ ’وسیع‘ دائرہ سے جنم پا کر ’تنگ‘ کی طرف آئے گا یا ’تنگ‘ سے جنم پا کر ’وسیع‘ کی طرف جائے گا؟ دوسرے لفظوں میں، آدمی کی یہ ’طبعی محبت‘ اپنے قریب کے خونی رشتوں یا خاص اپنے محلے اور گاؤں کے لوگوں سے شروع ہو کر اپنے شہر اور اپنے صوبے وغیرہ سے ہوتی ہوئی اپنے ملک تک جائے گی؟ یا اپنے ملک سے شروع ہو کر اپنے صوبے اور اپنے شہر سے ہوتی ہوئی اپنے محلے اور گاؤں تک پہنچے گی؟ ظاہر ہے، محبت کا حوالہ اگر طبعی ہے (نظریاتی نہیں ہے) تو اس کا آغاز چھوٹے دائرہ سے ہو گا۔ یعنی سب سے پہلے آپ کو اپنا محلہ یا گاؤں پیارا ہوگا، پھر اپنا شہر، پھر اپنا صوبہ اور پھر اپنا ملک، پھر اس سے کوئی بڑا دائرہ (اگر ہو، جیسے مثلاً ’یورپی یونین‘ یا ’عرب لیگ‘ وغیرہ)۔ ’’طبعی محبت‘‘ کا رخ اس سے الٹ کبھی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس طبعی محبت کے برعکس، ہم سب کے نزدیک یہ واجب اور ضروری ہے کہ لوگوں کو اپنے وسیع تر دائرہ ہی سے زیادہ محبت کی تاکید کرائی جائے۔

    دنیا میں پائے جانے والے تمام قومی و مِلّی فلسفے اس پر متفق ہیں کہ معاشرے میں ایک وسیع تر دائرہ کی محبت پر ایک تنگ تر دائرہ کی محبت کو قربان کر دینے ہی کی مسلسل تلقین کی جائے، اِسی سے انسان ’’بڑا‘‘ ہوتا ہے، باوجود اس حقیقت کے کہ ’’طبعی محبت‘‘ کا رخ اس سے برعکس ہے. بالفاظِ دیگر، کوئی محبت یہاں ضرور ایسی ہونی چاہیے جو آپ کی ’طبعی محبت‘ پر غالب ہو۔ اس کے بغیر انسانی اجتماعیتوں کا گزارا نہیں۔ نیز اس کے بغیر انسان کا خودغرضی سے چھٹکارا پانا متصور نہیں۔ خودغرضی یعنی خاص اپنی ذات یا اپنی جنس ہی کو بقیہ انسانوں پر ترجیح دینا۔ پس کوئی نہ کوئی دائرہ انسان کو ایسا رکھنا ہو گا جس پر اپنی ذات یا اپنی جنس کو ترجیح دینا اس کے حق میں عیب کہلائے اور وہ بار بار اس سے بلند ہو کر اپنے آپ کو ایک اعلیٰ مخلوق ثابت کرنے کی ’آزمائش‘ سے گزارا جائے۔ یہ ایک فارِق divider ہے جو اس کی ’’انسانیت‘‘ کو اس کی ’’حیوانیت‘‘ سے ممیّز کرتا ہے۔ وابستگی کے اِس بالا و برگزیدہ دائرہ کی گو اپنی ایک حد ہونی چاہیے، یہ بھی سبھی کا ماننا ہے۔ اس چیز کا نام ہماری تاریخی اصطلاح میں ’’ملت‘‘ ہے۔ انسان کی انسانیت کا ظہور کروانے کےلیے یہ ناگزیر ہے۔ سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ اِس خانہ کو اپنی حیاتِ اجتماعی میں آپ کس اعلیٰ چیز سے پُر کرتے ہیں؟ واضح رہے، اِس خانہ کو ختم کرنا آپ کے بس میں نہیں۔ اِس کو آپ نے پُر ہی کرنا ہے۔

    اب ایک بات تو یہ طے ہوئی کہ طبعی (جبلِّی) محبت بالکل اور چیز ہے جبکہ ہمارا اور ’جدید انسان‘ کا ما بہ النزاع ایک بالکل اور چیز۔ دوسرا، یہ طے ہوا کہ طبعی (جبلِّی) محبت کو قربان ہونا ہی ہونا ہے، اس سے مفر نہ ہم ’قدامت پسندوں‘ کو ہے اور نہ داعیانِ جدت کو۔ سوال بس یہ ہے کہ وہ محبت کیا ہو جس کا آدمی کی جبلِّی محبت پر غالب ہونا فرض رکھا جائے؟ وہ کیا حوالہ ہو جس پر آدمی کو اپنے خون، نسل، اقلیم اور زبان ایسے عزیز رشتے خوشی خوشی قربان کر دینے چاہییں، اور ا س کی دلیل کیا ہو؟ بھرنے کو تو میڈیا اور تعلیم آج جس چیز میں بھی رنگ بھر دے اور اسے ’یہی دستورِ دنیا ہے‘ (وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ) کا ایک ’ناقابلِ رد‘ سٹیٹس دلوا دے، یہاں تک کہ ایک ذہن سازی کے نتیجے میں پہلی و دوسری عالمی جنگ میں ہندوستانی ماؤں کے بچے تاجِ برطانیہ کی عظمت پر قربان ہونے کےلیے جاپان اور سنگاپور کی خاک چھاننے پہنچ جاتے ہیں، لیکن اس بات کی دلیل کیا ہو کہ کسی چیز کی عظمت پر لوگ اپنے طبعی رشتے اور وابستگیاں فخر سے وار دیا کریں؟

    ہم دیکھ آئے، لفظ ’’قوم‘‘ کا وہ جبلِّی مفہوم بالکل اور ہے جس میں اپنائیت اور لگاؤ کا حوالہ نیچے سے شروع ہو کر اوپر جاتا ہے، جبکہ اِسی لفظ کا یہ ’’نیشن‘‘ والا نظریاتی مفہوم جس میں اپنائیت اور لگاؤ کا حوالہ اوپر سے شروع ہو کر نیچے آتا ہے، بالکل اور ہے۔ بقیہ گفتگو میں اب ہم ان دونوں کو الگ الگ رکھیں گے۔ آسانیِ مبحث کی خاطر، پہلے کےلیے ہم بولتے ہیں: جبلِّی محبت، یا جبلِّی قوم جبکہ دوسرے کےلیے: نظریاتی محبت، یا نظریاتی قوم۔

    انسان کی زندگی میں ان دونوں چیزوں کی فی الحقیقت اپنی اپنی جگہ اور گنجائش ہے۔ حیاتِ اجتماعی کے اِن دو الگ الگ خانوں کو آپ نے الگ الگ ہی پُر کرنا ہوتا ہے۔ لفظ ’’قوم‘‘ کا ماڈرن استعمال ذرا دیر نظرانداز کر دیں تو انہی دو مفہومات کو الگ الگ ادا کرنے کےلیے ہمارے تاریخی استعمال میں دو لفظ رہے ہیں: ایک قوم، دوسرا ملت۔ قوم کا حوالہ جبلِّی اور ملت کا حوالہ نظریاتی۔ (’نظریاتی‘ یا ’نظریہ‘ کےلیے ہمارے ہاں ’عقیدہ‘ کا لفظ مستعمل رہا ہے)۔ حق یہ ہے کہ اِن دو لفظوں ’’قوم‘‘ اور ’’ملت‘‘ کو آج بھی آپ ان کے الگ الگ معانی میں استعمال کریں تو یہ اشکال ختم ہو جاتا ہے۔

    1) اول الذکر یعنی ’’قوم‘‘ آپ کو بہت عزیز ہوتی ہے، خود شریعت آپ کے اِس (طبعی و جبلِّی) جذبے کا بھرپور لحاظ کرتی ہے۔ بس اس کےلیے قید اتنی سی رکھتی ہے کہ اس کی محبت میں بہہ کر آپ دوسرے پر ظلم کرنے تک نہ چلے جائیں۔ خود اپنی قوم کو آپ حق اور انصاف کے اصولوں کا پابند رکھنے کا مکلَّف رہتے ہیں۔ مگر یہ (جبلِّی معنیٰ کی) ’’قوم‘‘ ایک لحاظ سے انسان کے حیوانی خصائص میں آتی ہے۔ یعنی اپنی جنس سے آدمی کا ایک تعلق اور اس کے مقابلے پر دوسری اجناس سے اس کا ایک بُعد، خودبخود، طبعی طور پر۔ یہ بھی ایک درجہ میں انسان کی ضرورت یقیناً ہے۔ جس طرح اپنے نفس کی محبت انسان میں سب سے زیادہ رکھی گئی ہے کیونکہ اسی سے زندگی کو تمام تر مہمیز ملتی ہے، اسی طرح اپنی اپنی جنس کے ساتھ لگاؤ انسانی زندگی کو ایک رنگا رنگ سرگرمی عطا کرتا ہے۔

    2) البتہ ’’ملت‘‘ اس کے مقابلے پر انسان کے خالص انسانی خصائص میں سے ہے۔ عقل و شعور ملا ہونے کے باعث انسان کو دراصل ’’اجتماع‘‘ اور ’’تعاونِ باہمی‘‘ کا ایک اعلیٰ تر تصور بھی عطا ہوا ہے۔ ایسے ایک ’’اجتماع‘‘ اور ’’تعاون‘‘ کا حوالہ انسان کے ’’نظریات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ ہوتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر ’’ملتیں‘‘ وجود میں آتی ہیں۔ جس قسم کے ’’نظریات‘‘ اور ’’مقاصد‘‘ انسان کی اختیارکردہ ’’اجتماعیت‘‘ میں کارفرما ہوں گے اسی درجہ کی ’’ملت‘‘ پر وہ پایا جائے گا۔ چونکہ لازم ہے کہ انسان کے انسانی خصائص اس کے بہیمی خصائص پر حاوی ہو کر رہیں، اس لیے واجب ہوا کہ انسان کی ’’ملت‘‘ اس کی ’’قوم‘‘ پر مقدم ہو۔ اصولاً اس پر نہ اہل مشرق کو اعتراض ہے نہ اہل مغرب کو۔ قدیم انسان کو اور نہ جدید انسان کو۔ فرق صرف یہاں سے آتا ہے کہ ’’ملت‘‘ کا خانہ آپ کس چیز سے پُر کرتے ہیں۔

    ایک خلط ہمارے ہاں پیدا ہوتا ہے جب ہم ’’نیشن‘‘ کا مطلب ایک روایتی (و جبلِّی) معنیٰ کی ’’قوم‘‘ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہماری روایتی لغت میں ’’نیشن‘‘ کا معنیٰ ادا کرنے کےلیے ایک اور لفظ قدرے مناسب تر پایا گیا ہے اور وہ ہے ’’ملت‘‘۔ اس ’’ملت‘‘ کی بنیاد آج ’’ریاست‘‘ ہے تو وہ اس لیے کہ ’’ریاست‘‘ اِس جدید انسان کا دین ہے نہ کہ محض ایک انتظامی اکائی۔ یہ ’’ریاست‘‘ چرچ کو انسان کی زندگی میں مرکزی ترین حیثیت رکھنے کے اُس پرانے منصب سے معزول کر کے اور ’’چرچ‘‘ کی جگہ یہاں پر خود کو رونق افروز کروا کر سامنے آئی ہے۔ اب ’’ریاست‘‘ محض کسی حکومتی انتظامِ کار کا نام نہیں؛ اب یہ انسان کی نظریاتی وفاداری اور جہان میں اس کا باقاعدہ تشخص ہے۔ یوں ’’ملت‘‘ اب بھی انسان کے قوم، قبیلہ، رنگ اور نسل وغیرہ ایسی جبلِّی اشیاء پر غالب رہی۔ فرق یہ آیا کہ ’’ملت‘‘ اپنے وجود کےلیے اب ’’چرچ‘‘ نہیں بلکہ ’’ریاست‘‘ سے رجوع کرنے لگی ہے۔ غرض جدید انسان کا دین بدلا، خدا بدلا، تو کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کی ملت نہ بدلتی؟ اِس کا خدا چونکہ دھرتی پر ہی آ بیٹھا ہے اور اِس کا دین اِس دھرتی والے خدا ہی کو زیادہ سے زیادہ آسودہ کرنا، لہٰذا اِس کی ’’ملت‘‘ بھی اِسی دھرتی سے وابستہ ٹھہری۔ پس ملت بدل گئی، یہ درست ہے۔ ملت کا حوالہ اب آسمان نہیں رہا بلکہ دھرتی ہو گئی، یہ سچ ہے۔ لیکن ملت انسان کی جبلِّی وابستگیوں پر غالب رہے گی، یہ چیز ویسے کی ویسے برقرار ہے۔ اور یہ چیز کبھی نہیں بدلے گی۔ انسان کی نظریاتی وابستگی اس کے ہر رشتے اور تعلق پر بالاتر رہے گی، یہ بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے۔ ’’معاشرے‘‘ نام کی چیز اس کے بغیر پائی ہی نہیں جا سکتی؛ کیونکہ ’’معاشرہ‘‘ خالصتاً ایک انسانی عمل ہے اور ’ریوڑ‘ سے خاصی منفرد ایک چیز۔

    عالم اسلام میں آئیں تو سب کشمکش آج اس پر ہے، اور ہوگی، کہ ہم اپنی اُسی ملت پر اصرار کریں جو چودہ سو سال سے ہماری نظریاتی تشکیل کرتی آئی؛ اور اُن کے دیے ہوئے اِس نئے تصورِ ملت کو اپنے لیے قبول نہ کریں۔ ’اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کرنے‘ کا اپنا وہ کھلم کھلا اعلان نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کے عملی اطلاقات کی طرف پورے اعتماد، جرأت، اور بےپروائی سے بڑھیں اور اسی کی بنیاد پر یہاں اپنی اجتماعی زندگی کی بلند و بالا تعمیرات اٹھائیں، خواہ اسلام کی اِس (مِلّی) حیثیت کو ناپید کروانے کے خواہشمند جہان میں ہماری اس سرگرمی کو کتنا ہی ناپسند کریں. ہاں یہ ایک بڑا میدانِ جنگ ہے جو دو نظریوں کے مابین ابھی مزید سجے گا، عالمی طور پر بھی اور کسی حد تک مقامی طور پر بھی۔ بقیہ مضمون میں اب ہم اس پر کچھ بات کریں گے۔

    لوگوں کا خیال ہے کہ ’’نیشن‘‘ (ملت) کےلیے صحیح حوالہ تجویز کرنے پر دنیائے اسلام نے اتباعِ مغرب کا طوق برضا و رغبت پہن لیا ہے، اور یہ کہ عالمِ اسلام میں یہ معاملہ حتمی طور پر سرے لگ چکا مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایک بڑی خلقت یہاں اپنے ملک سے محبت کرتی ہے۔ بہ برحق ہے۔ اپنی سب جبلِّی وابستگیوں (مانند قوم، نسل، زبان اور اقلیم وغیرہ) کو اس ملک پر ہم ہزار بار قربان کرتے ہیں، بلکہ جتنا ہم اپنے ملک کو چاہتے ہیں اتنا کوئی قوم اپنے ملک کو چاہ ہی نہیں سکتی، کیونکہ اُن کی چاہت کا کُل حوالہ یہی دنیا کی فانی محبتیں ہیں جبکہ ہماری محبت کا حوالہ اِس دنیاو ما فیہا سے بڑا۔ (ایک ایسی چیز جو خدا و آخرت پر ایمان نہ رکھنے والی قوم کو کبھی عطا نہیں ہو سکتی)۔ مگر یہ خلقتِ حق اپنےاِس لازوال رشتے کو جو نام اور حوالہ دیتی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ یہ ان تمام حوالوں سے منفرد ہے جو مغرب کی چربہ قوموں کے ہاں چلتا ہے، اور یہ ہے لاالٰہ الا اللہ۔

    بےشک آپ چند (لبرل) لوگ اس لڑی کو جو پٹھان، پنجابی، سندھی اور بلوچی کو ایک وحدت میں پروتی ہے، کوئی بھی حوالہ دیں، حتیٰ کہ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اِس ملک کو بناتے وقت چند لوگوں کا حوالہ لا الٰہ الا اللہ کے ماسوا کوئی چیز رہا تھا، اور بےشک وہ چند لوگ یہاں ڈھیروں اختیارات کے مالک بھی چلے آئے ہوں یہاں تک کہ تعلیم و ابلاغ کی بہت سی تاریں آج بھی انہی کی ہلائی ہلتی ہوں. اس کے باوجود ایک خلقتِ عظیم اِس ملک کو بنانے سے لے کر آج تک اس کی روح لاالٰہ الا اللہ میں دیکھتی ہے۔ یہاں کے ایک فرد کو دوسرے سے اور یہاں کی ایک نسلی یا لسانی یا اقلیمی اکائی کو دوسری سے جوڑنے کا حوالہ وہ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی چیز میں نہیں پاتی۔ اور اسی لاالٰہ الا اللہ پر ان کے اعتقاد کو پختہ کرانے میں اس لڑی کے پختہ سے پختہ تر ہونے کا راز چھپا ہے۔ یہاں کی مختلف اجناس کو ایک ’’نیشن‘‘ ٹھہرا دینے والی چیز اس خلقت کی نظر میں سوائے اِن کے دین کے کچھ نہیں ہے۔ خود یہ دین اِن کو ایک ہونے اور ایک رہنے کا حکم دیتا ہے اور اِن کا ٹکڑیوں میں بٹا ہونے کو اِن پر شیطان کا وار چل جانے سے تعبیر کرتا ہے۔ پس یہاں کی رنگارنگ اجناس کی اِس باہمی محبت، مودت اور وابستگی کا حوالہ یہاں بدستور ’’خدا اور رسولؐ‘‘ رہتا ہے اور یہی اِس قوم کو متحد اور اٹوٹ اکائی بنا رکھنے والے عناصر میں مضبوط ترین۔ اِس کے سوا بہت کچھ ہو گا مگر سب اِس ایک حوالہ کے بعد اور اِس کے تابع۔

    ’جدید انسان‘ کے نقطۂ نگاہ سے ظاہر ہے یہ ایک بڑا خلطِ مبحث ہے، بلکہ تڑپ اٹھنے کی بات! اس کے نزدیک ’’نیشن‘‘ نام ہے ایک ایسی انسانی اجتماعی اکائی کا جو اپنا کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے تو بالکل نہ لے (جبکہ ’نسل‘، ’لسان‘ اور ’اقلیم‘ سے وہ پہلے ہی نہیں لے سکتی، کیونکہ ’’نیشن‘‘ اس کی نظر میں ان وابستگیوں سے بلند تر ایک چیز ہے، جیساکہ پیچھے گزر چکا۔ پھر وہ اپنا حوالہ کس چیز سے لے؟ ’مادی مفادات کا حصول ممکن بنا رکھنے والی ایک جداگانہ اکائی‘ کے سوا اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ کہ جس کی محبت اور اپنائیت ownership میں ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی، سکھ، یہودی اور ملحد یکساں رہیں اور یہاں اپنی تعداد و نفوذ سے قطعی بےلحاظ، خالص قومی جذبے و اجتماعی اسپرٹ سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے قدم سے قدم ملا دل سے دل جوڑ چلتے جائیں اور ایک دوسرے پر فدا ہونے کی اعلیٰ سے اعلیٰ داستانیں رقم کریں)۔ یعنی ایک چیز کےلیے ان کو جینا اور مرنا تو ہے، اور جہان میں اسی کو اپنا اجتماعی وجود اور تشخص بھی ٹھہرانا ہے، لیکن اس کا کوئی تعلق ہرگز ہرگز آسمان سے نہیں جوڑنا (نیز کسی جبلِّی رشتے سے بھی نہیں جوڑنا، جوکہ اِس ماڈرن نیشنلزم کی تشخیص میں نہایت نوٹ کرنے کی چیز ہے، اور جس پر کچھ گفتگو پیچھے ہو چکی)۔

    یہ جتھہ بندی جدید انسان (اور خود ہمارے اسلامی جدت پسند) کے نزدیک فرض تو ہے اور اس پر اپنی ذات، برادری، نسل، لسان اور علاقے سمیت اپنے عزیز سے عزیز رشتے کو قربان کر دینا یہاں بسنے والے انسانوں پر واجب (بلکہ اَوجبُ الواجبات)۔ لیکن ایسی کسی الفت اور یگانگت کا قوی ترین حوالہ خدا اور رسولؐ کو مانا گیا ہو اور اس ’’پاکستان‘‘ کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ کا وِرد ان کے یہاں تھمنے کا نام نہ لیتا ہو؟ یہ اگر کسی بات کی دلیل ہے تو وہ یہ کہ ’عجم ہنوز نہ داند رموزِ نیشنلزم‘! اتنا پڑھا سکھا لینا گویا اِس قوم پر بےاثر ہی رہا، یہ برابر اپنے اجتماعی رشتوں میں ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ کے ماسوا حوالے گھسیٹ لاتی ہے (جنہیں یہ ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ پر مقدم جاننے کا پاپ بھی کثرت سے کرتی ہے۔ یوں عالمی معیاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے اسلامی جدت پسندوں کےلیے باعثِ آزار چلی آتی ہے)! اِس کو اتنا پڑھا سکھا لیا کہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو یہ اپنے اِس ’مقدس‘ رشتے سے یکسر باہر کر دے اور محض ایک مادی دائرے کو ہی اپنی اجتماعی زندگی کی کُل کائنات جانے اور اسی پر فدا ہو ہو کر بےحال ہو… مگر یہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو چھوڑ کر ’ملت‘ میں گم ہونے پر آتی ہی نہیں! ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو اپنی اجتماعی زندگی میں ایک نہایت ’پرائیویٹ مسئلہ‘ ٹھہرا دینے پر یہ ابھی تک آمادہ نہیں! اندازہ کر لیجئے، دو سو سال کی شبانہ روز تعلیم، اور تاحال یہ پسماندگی اور ہٹ دھرمی! کتنا اور پڑھایا جائے اِس کو اور کس دن کی آس رکھی جائے!

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جدید انسان ’’نیشن‘‘ والے اِس مسئلہ پر کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے نہ لینے میں کم از کم کسی تضاد کا شکار نہیں ہے۔ البتہ ہمارا اسلامی جدت پسند ’’نیشن‘‘ کے اِس تصور پر جسے مذہب سے کوئی حوالہ نہیں لینا، احادیث میں وارد ’’الجماعۃ‘‘ کا اطلاق کرنا نہیں بھولتا!

    غرض پاکستان سے محبت میں ایک کثیر خلقت یہاں جو بنیاد رکھتی ہے وہ اپنی نہاد میں ملت کے اُس تصور پر کھڑی ہے جو اِس کے دین اور اِس کی تاریخ سے چلا آتا ہے اور جوکہ مغرب کے دیے ہوئے اصولِ اجتماع کے ساتھ ایک جوہری تصادم رکھتا ہے۔ ہاں اس بات سے ہمیں انکار نہیں کہ مناسب اسلامی تعلیم نہ ہونے کے باعث، نیز خارجی تعلیمی اثرات کے تحت، اِس معاملہ کی تفصیلات میں یہ اپنی اشیاء کو مغرب کی اشیاء کے ساتھ کہیں کہیں گڈمڈ بھی کر بیٹھی ہے۔ نتیجتاً اسلام اور نیشنلزم کا کچھ خلط بعض نیک طبقوں کے یہاں نظر آ جانا مستبعَد نہیں۔ مگر یہ کچھ جزئیات یا تعبیرات کی حد تک ہو سکتا ہے۔ بنیاد خاصی سلامت ہے۔ یہاں کا کوئی بھی نمازی اللہ کا شکر ہے ایسا نہیں جو نری دھرتی پر مرتا ہو۔ وہ اِن وادیوں اور کہساروں کو اور اِن دریاؤں سے سیراب ہونے والے کھیتوں اور کھلیانوں کو پہلے اپنی نماز اور سجدہ گاہ سے جوڑتا ہےاور یہاں گونجتی اذانوں اور بلند ہوتی تکبیرات پر فدا ہوتا ہے اور پھر اِس ’’اسلام کے دیس‘‘ کو ہر میلی آنکھ سے تحفظ دلانے کے لیے بےچین ہوتا اور اس مقصد کی خاطر اپنا جان مال اور جگرگوشے پیش کر دینے نیز اِس کی تعمیر و ترقی کےلیے سرگرم ہونے کو اپنے حق میں باعثِ سعادت جانتا ہے۔ بتائیے اس میں نیشنلزم کہاں ہے؟ کچھ مسائل آئے ہوں گے تفصیلات یا تطبیقات میں۔ ان اشیاء کی تنقیح اب جتنی بھی ضروری ہو، مگر میرے نزدیک یہ وقت ہے کہ اُس اصولی بنیاد ہی کو پختہ کرایا جائےجو دو سو سال کا ’تعلیمی تیزاب‘ سہہ لینے کے بعد بھی اذہان سے محو نہ ہو سکی (گو ایک حد تک متاثر ہوئی ہے) مگر اب تو اِس پر کلہاڑے برسائے جانے لگے ہیں۔ خصوصاً جبکہ تفصیلات میں ایک بڑا دائرہ فقہی آراء کا بھی رہے گا جن میں عام خلقت کو الجھانا درست ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس دائرہ میں تو فی الحال جس بھی علمی گروہ کی راہنمائی اِس قوم کو میسر ہو، عوامی سطح پر اسی پر اکتفاء کروانا چاہئے خواہ آپ کی اپنی رائے اس سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو۔ ہاں وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بھی پختگی اور بہتری لائی جا سکتی ہے؛ جس کےلیے علمی رویوں کو پروان چڑھانا اور صبر و حوصلہ سےکام لینا ہو گا۔ داعیوں کی اصل توجہ فی الوقت جس چیز پر مرکوز ہونی چاہیے، وہ ہے اصولِ اجتماع میں مغرب کی دی ہوئی بنیادوں کا اِبطال اور اسلام کی دی ہوئی بنیادوں کا اِحیاء۔ نیز ان رجحانات کی حوصلہ شکنی جو اِن دو متضاد عقیدوں کو گانٹھنے اور ایک بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں ۔

    رہی اس کی تفصیلات تو ان کے بہت سے ایریاز areas ایسے رہیں گے جن میں جانا یا تو اِس وقت ہماری ضرورت نہیں، یا ہماری انتہائی محدود توانائی ان بحثوں کی متحمل نہیں، یا پھر وہ فقہی آراء کا محل ہے جس میں قبولِ اختلاف ہمارا پرانا دستور چلا آتا ہے۔ پس تفصیلات میں بھی انہی ایریاز areas تک رہنا ہو گا جو اِس حالتِ اژدہام کو ختم کرانے اور لوگوں کو ایک بڑی شاہراہ پر چڑھا لانے کےلیے فی الوقت ناگزیر ہیں اور جن میں ہماری ابلاغی محنت عوام کو دلجمعی اور یکسوئی دے نہ کہ پہلے سے بڑھ کر الجھنیں اور بحثیں۔ دینی طبقے کی چونچیں آپس میں الجھتی دیکھنے سے بڑھ کر کوئی چیز اس وقت لبرل کو خوش کرنے والی نہیں۔ کلیرٹی clarity اِس موقع پر ہمارا بہت بڑا ہتھیار ہو گا۔ عملاً یہ اسی صورت ممکن ہے کہ دعوت کو اندریں حالات اصولی اشیاء پر ہی زیادہ سے زیادہ فوکس رکھوایا جائے، خواہ نصابیات کے شائقین یا یہاں کے جذباتی طبقے ہماری اِس سٹرٹیجی سے کتنی ہی بےچینی و عدم تشفی محسوس کریں۔ ہمیں ایک جنگ درپیش ہے، جس میں سبھی طبقوں کو اینٹرٹین entertain کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک مغربی مفکر کا کہنا ’ابھی میں صرف جنگ کروں گا، اس امکان کو پیدا کرانے کےلیے کہ کل میرا بیٹا یونیورسٹی میں پڑھے‘۔

    ہمارا کُل سامنا encounter یہاں کے لبرل بیانیہ سے ہے۔ تاہم دو ’مذہبی‘ رجحانات ایسے ہیں جو ہمارے اسلامی مواقف کو یا تو تفریط اور یا پھر اِفراط کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ یوں عملاً ہمارا راستہ بند کر دیتے اور نادانستہ ہمارے مدمقابل کا راستہ وسیع اور آسان کر دیتے ہیں:

    1) پہلا گروہ ہمیں آگے بڑھانا چاہتا ہے مگر مغرب کے راستے میں۔ یہ ہمارے ریاست کےلیے ’اسلامی‘ کا لفظ ہی بول دینے پر چیخ اٹھتا اور یہاں کی قراردادِ مقاصد تک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ نیشن اور اجتماع کے تصور کو دین سے برآمد کرنے پر ہی بنیاد سے معترض ہے۔ (حق تو یہ ہے کہ اعتراضات کے معاملہ میں یہ طبقہ ہمارے دورِسلف و صحابہؓ تک پیچھے جاتا اور پورے دین کی ایک نئی تعبیر دینے کےلیے کوشاں ہے)۔ سقوطِ بنگال کو یہاں پائے جانے والے دو قومی نظریے کے بطلان پر ایک قوی دلیل یا اس کی ناکامی و بےبسی پر ایک حوصلہ شکن مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اصولِ اجتماع کے موضوع پر اس کے کھڑے کیے ہوئے کچھ اشکالات ، جو تاحال ہمارے زیربحث نہیں آئے، ان پر ابھی ہمیں کچھ بات کرنی ہے۔

    2) دوسری جانب ایک گروہ ’خلافت‘ وغیرہ کے زیرعنوان ہمیں کچھ ایسے راستوں پر چلانے میں دلچسپی رکھتا ہے جو دنیا میں کہیں موجود ہی نہیں ہیں اور ایک غیر معینہ مدت تک ان کا نشان ملنا بھی مشکل ہے۔ خلافت سر آنکھوں پر۔ لیکن پچھلے کئی عشروں پر محیط بند کمروں کی محنت سے اس طبقہ نے یہ موضوع کچھ ایسا الجھا دیا ہے کہ ہمارے مخلص و باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد ایک حسین یوٹوپیا میں بسنے لگی ہے۔ یہ طبقہ ’’امکان‘‘ اور ’’مثالیت‘‘ کو بری طرح خلط کرتا ہے۔ جب بھی ہم یہاں کے پنجابی، بلوچی، سندھی اور پختونی کے رشتے کو خالص اسلام اور لاالٰہ الا اللہ پر کھڑا کرنے کی بات کرتے ہیں، اور جوکہ اندریں حالات ہمارے لیے امکان کا ایک حقیقی دائرہ اور محنت کا ایک باقاعدہ میدان فراہم کرتا ہے، یہ نیک طبقہ فوراً معترض ہوتا ہے کہ مراکش کا صوبہ طنجہ اور فلپائن کا جزیرہ منڈاناؤ ساتھ کیوں نہیں! اس کے خیال میں ان ناممکنات اور ممکنات کا اکٹھا ذکر نہ کرنا ہی ’’نیشنلزم‘‘ ہے! یہی نہیں بلکہ اس کی اٹھائی ہوئی الجھنوں نے ہمارے مدمقابل فریق کو ہمارے کیس پر طعن کے کچھ تُند و تیز فقرے بھی عطا کر دیے ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہم پنجابی اور بلوچی کے مابین رشتۂ لا الٰہ الا اللہ کی بات کرتے ہیں یہاں کا لبرل بھی ہمیں یہاں سے نکال کر ’مراکش‘ اور ’انڈونیشیا‘ کی طرف بھیج دینے کی کوشش کرتا ہے۔

    پہلا رجحان تفریط تو دوسرا اِفراط۔ اپنے اِن دونوں قابل احترام طبقوں کے ساتھ بھی اِس موقع پر ہمارا کوئی بحث کرنا نہیں بنتا۔ بس جس حد تک یہ دونوں ہمارے فریقِ مقابل کا راستہ آسان کرتے ہیں اس حد تک اِن کا رد کرنا ہماری مجبوری ہے۔ اِن دونوں رجحانات پر الگ الگ مضمون میں ہم کچھ بات کریں گے۔ ان شاء اللہ