Category: پاکستانیات

  • اپنا اپنا پاکستان. ڈاکٹر منصور احمد باجوہ

    اپنا اپنا پاکستان. ڈاکٹر منصور احمد باجوہ

    میں شہر کے ایک کنارے پر، محلہ دھونس پورہ کے ، ایک کچے مکان میں رہتا ہوں۔بڑی سڑک سے کوئی چار کلومیٹر دور،دائیں بائیں بیس ، آڑی ترچھی ، بل کھاتی ، گلیاں مڑ کر اپنے گھر تک پہنچتا ہوں۔جوں جوں آگے بڑھتا ہوں راستہ تنگ ہوتا جاتا ہے ، حتیٰ کہ میرے مکان تک پہنچتے پہنچتے،سرنگ نما سا رہ جاتا ہے، جس میں سے بمشکل ایک سائیکل گزر سکتا ہے۔ اسی راستے پر ، ارد گرد کے تمام گھروں کا گندا پانی نکل کر، ندی کی طرح، راستے کے عین درمیان میں بہتا ہوا، ایسے ہی کسی دوسرے محلے کی طرف جاتا ہے۔محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے ، سارا دن اس میں کشتیاں چلا چلا کر خوش ہوتے ہیں ۔ یہی ان کی واحد تفریح ہے۔کہیں اس کی چوڑائی دو فٹ، کہیں چار فٹ اور کہیں چھ فٹ ہو جاتی ہے، جہاں ہم نے قدم قدم اینٹیں رکھ کر راستہ بنایا ہوا ہے۔سائیکل سر پر اٹھا لیتے ہیںاور اینٹوں پر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے،گندگی کا یہ پل صراط عبور کرتے ہیں۔ بارش ہو جائے تو عورتیں اور بچے تو محصور ہو جاتے ہیںمگر میں مزدوری کی تلاش میں، جوتے سر پر رکھے،، پائنچے رانوں تک اٹھائے، کچھ چلتا ، کچھ اٹکتا،کچھ گرتا ، کچھ سنبھلتا،کسی نہ کسی طرح یہ بحرِ گند عبور کر ہی لیتا ہوں۔ دھونس پورہ اسے اس لئے کہتے ہیں کہ سارا ناجائز تجاوزات پر مبنی ہے اور ہم لوگوں نے اپنی غربت کی دھونس پر، دو دو چار مرلوں پر، دائیں بائیں مٹھیاں گرم کرکے، قبضہ کرکے ، کچے پکے، ٹیڑھے میڑھے، مکان بنائے ہوئے ہیں۔ اصل دھونسئیے، یعنی کمیٹی اور پولیس والے بھی، و قتاً فوقتاًاِ دھر کا چکر لگا کر ہماری خبر لیتے رہتے ہیں۔ اس خبر گیری کے عوض ہم سب پچاس پچاس، سو سو اکٹھے کرکے ان کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔
    میرا لیڈر اسلام آباد میں دس ایکڑ کے فارم ہائوس میں رہتا ہے۔چہار طرف پانچ پانچ سو فٹ کھلی شاہرائیںاس کے گھر پر آ کر گلے ملتی ہیں۔پھلوں پھولوں اور مہکتی فضائوں میںیہ گھر جنت کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ بیسیوں مالی اور بیلدار ہر وقت گھر کو سجانے اور سنوارنے میں لگے رہتے ہیں۔ گھنٹوں بارش ہو تب بھی پانی کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ در پر باوردی ، چست و چالاک دربان نظر آتے ہیں جو مجھ جیسے لوگوں پر نظر رکھتے ہیں کہ کہیں اس محل کے گرد و نواح میں ، اپنے گندے قدموں سے ، اس کی پاک صاف فضا کو بھی آلودہ نہ کر دیں۔کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی مجال نہیں کہ اس محل کے نزدیک پھٹک سکے ۔محل کے اندر خونخوار کتے بھی بھی بھونکتے رہتے ہیں کہ خبردار ادھر کا رُخ نہ کرنا ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہو گا۔یہ اس کے بہت سے محلوں میںسے ایک ہے۔سنا ہے اس کے ایسے ہی محل لاہور اور کراچی میں بھی ہیں۔شنید یہ بھی ہے کہ لندن اور نیویارک میں بھی اس کے عالیشان بنگلے اور فلیٹ اس کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔
    میں تیس سال کا ہوں مگر لگتا پچاس کا ہوں۔میری بیوی پچیس کی ہے مگر لگتی وہ بھی پچاس کی ہے۔ اس لئے جس گھر میں کام کرتی ہے ، سبھی اسے مائی ہی کہتے ہیں۔ میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں۔ میرے آٹھ بچے ہیں۔ لوگ مجھ سے مذاق کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں یہ دو سال کا وقفہ کیسے آ گیا۔ میں بھی ہنس دیتا ہوں ۔ ان کو بتا نہیں سکتا کہ میری ساری جائداد یہی بچے ہیں۔بڑے دو بچے ایک ورکشاپ میںکام سیکھ رہے ہیں۔ دو سال کے عرصے میں ماشاءﷲ کافی ماہر ہو گئے ہیں۔
    استاد کا تھپڑ کون سے گال پر کھانا ہے،کس وقت کون سا اوزار پکڑ کر کھڑے رہنا ہے تا کہ استاد، انجن میں منہ گھسیڑے ہوئے بھی مانگے ، تو ایک لمحے کی تاخیر نہ ہو،چائے کہاں سے لانی ہے، برتن کیسے دھونے ہیں ، گاڑی پر کپڑا کیسے مارنا ہے، استاد کے کھانے سے مکھیاں کیسے اڑانی ہیں، اس کے پائوں کیسے دبانے ہیں۔ استاد بہت اچھا ہے۔ ہر ہفتے ، ہر ایک کو پورے پچاس روپے دیتا ہے(اگر کوئی گلاس وغیرہ نہ توڑا ہو تو) کہ جائو عیش کرو۔محلے کی ایک گلی میں ہی ، محلے کی ایک میٹرک پاس لڑکی نے انگلش میڈیم سکول کھولا ہوا ہے۔ چار بچے ، باری باری وہاں پڑھنے جاتے ہیں، کیا پڑھتے ہیں، مجھے علم نہیں کیونکہ میں اور میری بیوی دونوں ان پڑھ ہیںلیکن جب کبھی اے بی سی کی رٹ لگاتے ہیں، پانی کو واٹر کہتے ہیں، ون ٹو تھری کرتے ہیں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ کسی دن بابو بن کر، کرسی پر بیٹھ کر کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلائیں گے۔استانی سے، جسے وہ میڈم کہتے ہیں،روز ڈانٹ پڑتی ہے، کبھی یونیفارم نہ ہونے پر، کبھی فیس نہ دینے پر،کبھی پلاسٹک کی ہوائی چپل پہننے پر۔ پہلے پہل اس پر رویا کرتے تھے، شکایت کرتے تھے، مطالبے رکھتے تھے مگر اب انہیں عادت پڑ گئی ہے ۔ کوئی دو چار لگا بھی دے تو دو چار آنسو بہا کر خود ہی چپ ہو جاتے ہیں۔میرا باپ کہتا ہے یہ بڑی اچھی عادت ہے اور زندگی میں بڑا کام دے گی۔دو بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ سارا دن گھر
    کے اندر رینگتے اور ہر الٹی سیدھی چیز کو منہ میں دبا کر چباتے رہتے ہیں۔ بیوی کہتی ہے اس وجہ سے کھانے کی کافی بچت ہو جاتی ہے۔

     میرا لیڈر ساٹھ سال سے اوپر ہے۔ لگتا اب بھی تیس پینتیس سال کا ہے،خوبصورت جوان۔ میں تو جب سے دیکھ رہا ہوں ایسا ہی ہے۔ اس کا ہیر سٹائیل تو میرے سارے بچوں کو پسند ہے۔نائی سے ہمیشہ اصرار کرتے ہیںکہ اس جیسے بال بنا دو۔جواباً نائی دو تھپڑ لگا کر، ان کے سر دونوں گھٹنوں میں دبا کر ، اپنی مرضی سے مشین چلا دیتا ہے۔میرے لیڈر کے دو بچے ہیں۔ دونوں انگلینڈ میں پڑھتے ہیں۔ بالکل انگریز لگتے ہیں۔ کبھی کبھی ٹی وی پر آتے ہیںتو فر فر انگریزی بولتے ہیں۔مجھے تو ابھی سے اپنے لیڈر لگنے لگے ہیں۔ کبھی کبھار پاکستان کا بھی چکر لگاتے ہیں، آخر کل جوان ہو کر انہوں نے یہیں حکومت کرنی ہے ۔میرا لیڈر ہر مہینے ، انہیں ملنے انگلینڈ جاتا ہے۔ زیادہ دیر وہاں نہیں ٹھہرتا۔ بس پندرہ بیس روز بعد واپس آ جاتا ہے کہ یہاں کبھی لانگ، کبھی شارٹ مارچ اس کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس کی بیوی بھی ہماری لیڈر ہے۔ تقریریں کرتی ہے، ٹی وی پر بحث کرتی ہے۔ بحث کرتے ہوئے جب ، سر کے ایک جھٹکے سے ، بالوں کی آوارہ لٹ، ماتھے سے ہٹاتی ہے تو اس کی دلیلوں میں اور وزن آ جاتا ہے۔میری بیوی پوچھتی ہے کہ تمہارا لیڈر اور اس کی بیوی سارا وقت تو گھومتے پھرتے ،تقریریں کرتے،ٹی وی پر بحث کرتے، لندن اور امریکہ کی سیریں کرنے میں گزارتے ہیں، یہ کام کیا کرتے ہیں، کھاتے کہاں سے ہیں۔اس جاہل کو یہ بھی نہیں پتہ کہ لیڈروں کے یہی تو کام ہیں، اسی کی تو یہ کھٹی کھاتے ہیں۔ باپ دادا جاگیردار تھے، ملیں ہیںکارخانے ہیں، ہم جیسے لاکھوں ان کے ملازم ہیں، انہیں اور کام کرنے کی کیا  ضرورت ہے۔ ملک اور قوم کی خدمت کر رہے ہیں اور کیا کریں؟
    

    میرا یک پڑوسی کچھ پڑھ لکھ گیا ہے اور دن بھر ٹی وی پر تبصرے سنتا رہتا ہے۔کہتا ہے کہ ہمارا پاکستان اور ہمارے لیڈر کا پاکستان جدا جدا ہیں۔ وہ ہمارے پاکستان میں نہیں آتا اور ہم اس کے پاکستان میں نہیں جا سکتے۔میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارا پاکستان ایک نہیں ہو سکتا؟وہ کہتا ہے ’ہو تو سکتا ہے مگر اس کے لئے تمہیں اپنی گردن سے ایسے لیڈر کی اطاعت اور فرمانبرداری کا جوااتار پھینکنا ہو گا‘ ۔ میں اسے کہتا ہوں’یہ اگر مگر کیا لگا رکھی ہے؟ سیدھی طرح کیوں نہیںکہتے کہ ہم ہمیشہ اپنے اپنے پاکستان میں ہی رہیں گے۔‘

  • سیاسی سرگرمیاں  افشاں فیصل شیوانی

    سیاسی سرگرمیاں افشاں فیصل شیوانی

    funn ملک میں سیاسی درجہ حرارت تیزی سے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔تمام سیاسی پارٹیاں اور سیاسی کارکن سرگرم نظر آ رہے ہیں اور چونکہ ملک میں جمہوریت قائم ہے سو ہر ایک کو اپنی آزادی رائے کا پورا حق حاصل ہے مگر مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب اس آزادی کا بےجا استعمال کیا جائے اور ناجائز فائدہ اٹھایا جاۓ۔

    ہمارے ملک میں دن بدن ڈنڈا کلچر عام ہوتا جا رہا ہے ۔زبان و بیان کے استعمال میں کسی طرح کے لحاظ کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ٹاک شوز میں بیٹھے سیاستدان باتوں کے ذریعے ایک دوسرے کی عزت اچھالتے نظر آتے ہیں تو ان ہی کے کارکن ڈنڈوں اور لاتوں کے استعمال کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔سیاسی پارٹیاں ایک جنگ لڑتی نظر آتی ہیں اور یہ جنگ عوام کے حقوق کی نہیں بلکہ ان کے اختیارات کی جنگ ہے۔ان سیاسی پارٹیوں کے جلسے کہیں سے بھی کسی تہذیب یافتہ معاشرے کے عوام کے جلسے سے میل نہیں کھاتے بلکہ محض ایک بے ہنگم تماشہ محسوس ہوتے ہیں۔

    ان سیاسی پارٹیوں کے اختلافات اپنی جگہ مگر جلسوں اور احتجاج کے دوران دوسری پارٹیوں پر کۓ جانے والے زبانی وار ان حکمرانوں کا اچھا تاثر نہیں چھوڑتے اور جھنڈوں اور ڈنڈوں سے لیس ان کے کارکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ کسی جلسے میں شرکت کے لئے نہیں بلکہ کسی جنگ میں طبع آزمائی کرنے جا رہے ہیں۔اصل میں تو لوگوں نے ڈنڈوں کی زبان بولنی شروع کر دی ہے ۔لوگ ایک دوسرے کو یہ دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر ہمارے علاقے کا رخ کیا تو ڈنڈوں سے استقبال کیا جائے گا۔فکر انگیز بات یہ ہے کہ عوام اپنے حقوق بھول کر ان سیاسی پارٹیوں کی جنگ لڑتی نظر آتی ہے۔سیاستدانوں کے خطابات میں عوامی مسائل اور ان کے حل کے متعلق کسی اقدام کا ذکر تو گریز عوام کے لۓ کسی اتحاد یا محبت کا سبق تک نہیں ہوتا بس مخالف پارٹی پر کیچڑ اچھالنے کا کام انتہائی جذبے سے سرانجام دیا جاتا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے تو اشتعال انگیز بیانات سے حتی الامکان گریز کیا جائے اور عوام کو بھی اپنی عقل و فہم کا استعمال کر کے کم از کم تہذیب کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہیے کچھ اس طرح کہ ان میں آپس میں محض سیاسی اختلاف نظر آۓ نا کہ آپسی دشمنی۔

  • ہم نے پاکستان کیسے بنایا؟ عمیر محمود صدیقی

    ہم نے پاکستان کیسے بنایا؟ عمیر محمود صدیقی

    ہندوستان زمین کا وہ حصہ ہے جہاں ابو البشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم رکھا ۔ ہندوستان میں اسلام کا پیغام نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں پہنچ چکا تھا ۔اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے ۔نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: “مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ الّذِينَ كَأَنّهُمْ رِجَالُ الْهِنْدِ”[i] یہ کون لوگ ہیں جو ہند وستان کے مرد معلوم ہوتے ہیں۔ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ‘‘مالابار’’ کے بادشاہ’‘ چکر ورتی فرماس’’ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا۔حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

    أهدى ملك الهند إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم جرة فيها زنجبيل فأطعم أصحابه قطعة قطعة وأطعمني منها قطعة[ii]

    ‘‘ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا اس میں ادرک تھی ۔نبی کریم ﷺ نے اس کواپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا۔’’

    ممکن ہے کہ یہ وہی صحابی بادشاہ ہوں جن کا ذکر امام حاکم نے اپنی کتاب حدیث میں کیا ہے۔ نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمدحمید اللہ رحمہ اللہ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

    ‘‘ اس نے ہادیٔ کون ومکاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ ﷺکے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا ۔راستے میں یمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوا۔یہاں آج بھی اس ‘‘ہندوستانی بادشاہ’’ کے مزار پر لوگ فاتحہ کے لیے آتے ہیں۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے ۔زین الدین المعبری کی تصنیف ‘‘تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین’’ میں بھی اس کا تذکرہ ہے ۔’’[iii]

    ہند کے بارے میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ‘‘ أطيب ريح في الأرض الهند[iv]’’ یعنی زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے۔سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: “میر آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں کئی صفحے ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی (ﷺ)حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ابتدائی ظہور اسی سر زمین پر ہوا۔اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے۔”[v]

    ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس پر جاری ہوا ۔اٹھارویں صدی کے مؤرخ آزاد غلام علی حسینی بلگرامی نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ‘‘سبحة المرجان في آثار هندستان’’ اور ‘‘شمامة العنبر فيما ورد من الهند من سيد البشرﷺ’’تحریر فرمائی ہیں جن کا ذکر معجم المؤلفین میں بھی کیا گیا ہے ۔مؤخر الذکر کتاب یقینا اس موضوع پر مزید تحقیق کے حوالہ سے فائدہ مند ثابت ہو گی ۔

    احادیث شریفہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔بلاذری کی تحقیق کے مطالق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا ۔اس کے بعد امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔آپ قیقان کے مقام پر جو سند کا حصہ تھا شہید ہو گئے۔[vi] امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے ۔[vii]

    حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔تا ریخ فرشتہ میں ہے:

    ‘‘۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا۔[viii] اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی۔عباسی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر بن ضعیفہ نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ کی اجازت سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا ۔انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا۔پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادا لدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا ،جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا۔[ix]

    حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمۃ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔امام ذہبی فرماتے ہیں:

    وفرض على نفسه كل عام غزو الهند، فافتتح منها بلاداً واسعة، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّه يحيي ويميت، ويقصدونه من البلاد، وافتتن به أمم لا يحصيهم إلاّ الله. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب له قرباناً من نفيس ماله،[x].
    ‘‘اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا۔اور وہ(اہل ہند)یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کے لیے آتے تھے۔اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہو ئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو۔’’
    سومنات کی فتح کے سال سلطان محمود غزنوی حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی علیہ الرحمۃکی خدمت میں حاضر ہوا ۔شیخ نے سلطان کو اپنا خرقہ عطا فرمایا۔شیخ صاحب سے رخصت ہو کر سلطان محمود غزنوی واپس آیا اور اس نے ان کے عطا کردہ خرقہ کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا۔جس زمانے میں محمود نے سومنات پر حملہ کیا تھا اور پرم اور دشیلم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوؤں کا لشکر غالب نہ آجائے ۔اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ صاحب کے خرقہ کو ہاتھ میں لے کر سجدہ میں گر گیا اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی ‘‘اے اللہ! اس خرقے کے مالک کے طفیل میں مجھے ان ہندوؤں کے مقابلے میں فتح دے۔میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت یہاں سے حاصل کروں گا اسے یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا۔’’مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے۔بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوؤں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ہندوؤں کی اس باہمی جنگ کی وجہ سے پریم دیو کی فوج میدان جنگ سے بھاگ نکلی اور یوں مسلمانوں نے ہندوؤں پر فتح پائی۔([xi])

    محمود غزنوی کے بعد شہاب الدین غوری نے اسلام کے جھنڈے کو ہندوستان میں بلند فرمایا۔اسی زمانے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ اور دیگر صوفیاء کرام نے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں کی تسخیر فرماتے ہوئے لاکھوں مشرکوں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کا کار عظیم سر انجام دیا۔مسلمانوں نے ہندوستان میں تقریبا آٹھ سو سال حکومت کی جس کا اختتام مغلیہ سلطنت کے زوال اورانگریزوں کے قبضے کی صورت میں ہوا۔اللہ رب العزت کا قوموں کے عروج و زوال کا قانون کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔بنی اسرائیل کو اللہ رب العزت نے تین آسمانی کتابیں توریت ،انجیل اور زبور عطا فرمائیں۔گیارہ انبیاء کرام کے علاوہ تمام انبیاء بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں علم اور حکمت کے ساتھ حکومت بھی عطا فرمائی لیکن جب انہوں نے حد سے تجاوز کیا ،اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی تو اللہ رب العالمین نے ان پر ذلت،رسوائی،محتاجی اور مسکنت کو مسلط فرما دیا۔ہندو ستان میں بھی مسلمانوں کی عظیم الشان حکومت کا زوال یکدم نہیں ہوا۔صلیبی جنگوں،یورش تا تار،سقوطِ بغداد اور اسپین کے تاخت و تاراج ہو نے سے انہوں نے سبق نہ سیکھا نتیجتاً ترک جہاد اور شراب و شباب میں غفلت کی زندگی نے انہیں فطرت کے قانون کے تحت اسی تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا جس کا ہر وہ گروہ حقدار ہوتا ہے جو خلاف فطرت زندگی گزارنے کا عادی ہو جائے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ رنگیلا بادشاہ کے باورچی خانے کا ماہانہ خرچ تین کروڑ تھا اور ہر روز تین سو برہنہ عورتیں اپنے سامنے نچوایا کرتا تھا۔1707ء میں اورنگزیب کے انتقال کے بعد سلطنت اسلامیہ میں ایسا ضعف پیدا ہوا کہ پھر اسے استحکام نصیب نہیں ہوا۔جب مرکز کمزور ہو جائے تو بغاوتیں سر اٹھانے لگتی ہیں اور اگر بر وقت اس کمزوری کا تدارک نہ کیا جائے تو پھر تمام علاقوں کو مرکز کے ساتھ جوڑے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔جب سلطنت ہندکا مرکز ی وجود کمزور پڑ گیا تو مرہٹوں،روہیلوں ،سکھوں اور دیگر غاصبوں نے حملے شروع کر دیئے۔پندرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں پر تگیزی پہلے ہی وارد ہو چکے تھے ۔ان کے بعد فرانس اور برطانیہ سے بھی لوگوں نے آنا شروع کیا لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی صدیوں پر محیط عظیم الشان سلطنت برطانوی قوم کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔

                جہانگیر کے دور میں انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تجارت کی غرض سے آنا شروع ہوگئے تھے۔ان کی آمد کا قصہ یوں ہے کہ انگلستان میں جیمس اول نے سر ٹامس رو کو 1615ء میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا ۔اس کے ساتھ ایک مسیحی پادری بھی وارد ہوا تھا ۔سر ٹامس رو نے اپنی زبان دانی، جاذب توجہ شخصیت اور کثیر جہتی صلاحیتوں سے جہانگیر کے ہاں مقام حاصل کر لیا۔([xii])ایک مرتبہ شاہی محل کی ایک عورت بیمار پڑ گئی۔بادشاہ نے ہر قسم کا علاج کروایا مگر وہ عورت تندرست نہ ہو سکی۔ بادشاہ اس کی صحت کی طرف سے مایوس ہو چکا تھااور اس کی گری ہوئی صحت و حسن نے بادشاہ کو بھی پریشان کر دیا تھا۔سر ٹامس رو نے اپنے ذاتی معالج سے اس عورت کا علاج کروا یا جس سے وہ بالکل صحتیاب ہو گئی ۔بادشاہ نے سر ٹامس رو کو بلوایا اور انعام و اکرام سے نوازنا چاہا مگر اس نے سونے اور چاندی کے بجائے بادشاہ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا جس کے لیے اسے بھیجا گیا تھا۔اس نے بادشاہ سے عرض کی:
    

    ‘‘آپ کی عنایات اس سے قبل بھی بہت ہیں ایک اور عنایت کا محتاج ہوں۔اگر وہ پوری ہو جائے تو صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میری پوری قوم کو مستفید ہو نے کا موقع میسر آئے گا۔’’اس طرح اسے انعام و اکرام کی بجائے انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کا پروانۂ تجارت حاصل ہو گیا۔’’([xiii])اس کا اثر یہ ہوا کہ دو سال کے اندر ہی مغلیہ سلطنت میں انگریزوں کی پانچ کوٹھیاں آگرہ، احمد آبا،برہان پور،بہروج اور سورت میں قائم ہو گئیں سر ٹامس رو نے جہانگیر سے فرمان حاصل کر لیے جن کی رو سے پرتگیزوں سے اور ہالینڈ کی کمپنی سے انگریز کمپنی کو زیادہ سہولیتیں مہیا ہو گئیں۔([xiv])اس کمپنی کی بدولت انگریزوں نے بعد میں تقریبا دو سو سال کے اندر ہندوستان پر برطانوی حکومت کو قائم کر دیا۔ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے آخری چٹان ٹیپو سلطان تھا جس نے اپنی تلوار سے جوانمردی کے جوہر دکھاتے ہوئے انگریزوں کا مقابلہ کیا مگر بالاخر غداروں کی ابلہ فریبی اور خیانت کی وجہ سے سر نگا پٹم پر بھی انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور سلطان شہید ہو گیا۔ تا ریخ بتاتی ہے کہ تلوار کا جواب تلوار سے ہی ہوتا ہے۔ جس قوم کی تلوار گم ہو جائے وہ باتوں اور خیالوں سے غاصب کا مقابلہ اور اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ٹیپو سلطان ہندوستان میں امت مسلمہ کی آخری تلوار تھا جس کی شہادت سے یہ طے ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں اسلام کا دفاع کرنے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قبضے کے ساتھ ہی نظریاتی محاذ پر بھی مسلمانوں کو زیر کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی گئیں۔اس نظریاتی تخریب کاری کے لیے مسلمانوں کو ہی آلہ تخریب بنایا گیا ۔احادیث کا انکار کیا جانے لگا تا کہ قرآن حکیم کا تعلق صاحب قرآنﷺ سے توڑ کر اس کی من مانی تشریح خاص مقاصد کے تحت کی جا سکے۔مسلمانوں کو انگریزوں کی حکومت کوتسلیم کرتے ہوئے ان کی غلامی کے آداب سیکھنے کی ترغیب دی جانے لگی۔لا تعداد مسیحی مبلغین نے ہندوستان کا رخ کیا جنہوں نے ارتداد کی تحریک کو گرم کیے رکھا تاکہ مسلمانوں کو مرتد بنا کر مسلمانوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے جس کی بڑی مثال پادری برکت اللہ کی کتب کی صورت میں موجود ہے۔قرآن اور نبی کریم ﷺ کی شان میں توہین کی جانے لگی۔ منکرین جہاد کے ایک گروہ کی تربیت کی گئی تا کہ مسلمانوں میں سے روح جہاد کو ختم کر دیا جائے اور مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انگریزوں کی غلامی کو قبول کر لیں نیز ان میں کبھی اپنے مفقود کمال کو پانے کی حرص پیدا نہ ہو۔جھوٹے نبی اور جعلی ‘‘امام مہدی’’ کے ذریعے اسلام کے اندر ایک نیا نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی تا کہ اسلام کی شکل کو مکمل طور پر مسخ ہو کر رہ جائے۔مسلمانوں کے اپنے اندر طرح طرح کی فروعی ابحاث کو فروغ دیا گیا تا کہ مسلمان با ہم دست و گریبان رہیں اور کبھی دشمن کے خلاف متحد ہو کر مقابلہ نہ کر سکیں۔اللہ کے فضل و احسان سے اس نظریاتی محاذ پر علماء ،صوفیاء اور مسلمان دانشوروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر کیونکہ مسلمان سیاسی غلامی کی زنجیر یں پہنے ہوئے تھے اسی لیے ان کا جہاد بالقلم اور جہاد باللسان انہیں ذلت اور رسوائی کے عمیق گڑھوں سے نہ بچا سکا۔23 مارچ 1924ء بمطابق 23 رجب 1342ھ میں مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت عثمانیہ بھی اپنے اختتام کو پہنچی جس کے نتیجے میں مسلمان مجموعی طور پر انتہائی پستی کا شکار ہو گئے۔ ۳ مارچ کی صبح یہ اعلان کیا گیا:

    ‘‘عظیم قومی اسمبلی نے خلافت کے خاتمہ اور دین اور سیاست سے علیحدگی کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔’’([xv])

    جنگ عظیم دوم کے بعد بر طانیہ نے ہندوستان کو آزادی دینے کا ارادہ کیا ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے خیال کے مطابق دانشوروں کی ایک ایسی نسل تیار کر چکے تھے کہ جس پر انگریزی تہذیب کا رنگ چڑھا ہوا تھا اور وہ نام کے مسلمان تھے جبکہ ذہنی طور پر انگریزوں کے غلام۔ ہندوستان میں صدیوں سے مسلمان اور ہندو آباد تھے۔جب انگریزوں نے جمہوریت کی بنیاد پر ہندوستان کا فیصلہ کرنا چاہا تو مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں کانگریس کی خیانت سے آگاہ ہونے کے بعد متحدہ ہندوستان کے بجائے ایک علیٰحدہ ریاست کی تحریک کا مطالبہ کیا کیونکہ اگر ہندوستان کا فیصلہ مغربی طرز جمہوریت کی بنیاد پر کیا جاتا تو مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقلیت بن کر ہندوؤں کی غلامی میں چلے جاتے۔ ہندو اپنی تمام تر عیاری کے ساتھ انگریزوں کی حاشیہ برداری کے ذریعے پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک ہندوؤں نے تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جبکہ ان کے رہنما عظیم ترین ہندوستان بنانے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں جس میں مسلمانوں کے مقدس مقامات بھی شامل ہیں۔وہ مسلمان جو آج بھی متحدہ ہندوستان کے حامی ہیں اور وجود پاکستان کے مخالف ہیں انہیں کم از کم اس بات پر غور کرلینا چاہیے کہ وہ اپنے اس طرز فکر سے مشرکین کے گروہ کی تائید کر رہے ہیں جو قرآن حکیم کے مطابق مسلمانوں کے سب سے شدید ترین دشمن ہیں۔اللہ رب العزت نے فرمایا:

    لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ([xvi])

    ‘‘آپ یقینا ایمان والوں کے حق میں بلحاظ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔’’

    البیرونی اور ہندو

    ہندوجو 35 کروڑ دیوتاؤں پر ایمان رکھتے ہیں جن میں 40 ہزار ذاتیں ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا بھگوان ہے وہ اپنے دین،زبان، رہن سہن ،عادات و اطوار اور طرز معاشرت میں مسلمانوں سے کلی طور پر مغایر ہیں۔مسلمانوں کے عظیم ریاضی دان،ماہر فلکیات ،جغرافیہ دان،مؤرخ، معدنیات،طبقات الارض ،خواص الادویہ کے ماہر اور آثار قدیمہ کے عالم جلیل ابو ریحان البیرونی ۹۷۳ء میں خوارزم میں پیدا ہوئے ۔سلطان محمود غزنوی کی فتح خوارزم کے بعد آپ سلطان کے ساتھ غزنی تشریف لے آئے ۔غزنی سے آپ نے ہندوستان کا سفر کیا اور دس برس کا طویل عرصہ یہاں کی زبان سیکھ کر ہندو مذہب و تمدن اور طرز معاشرت کا مطالعہ کیا۔آپ نے اپنے تجربات و مشاہدات کو ‘‘ماللہند’’کے نام سے جمع فرمایا ہے۔اس کتاب کے باب اول میں آپ نے ہندوؤں کی مسلمانوں سے بے تعلقی کے کئی ایک اسباب بیان فرمائے ہیں ۔ان اسباب کا مطالعہ بالخصوص ان لوگوں کے لیے انتہائی ضروری ہے جو ہندو اور مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے ہیں یا ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں:

    پہلا سبب، زبان کا اختلاف

    منجملہ ان کے ایک سبب یہ ہے کہ ہندو قوم ہم لوگوں سے ان تمام چیزوں میں جو قوموں کے درمیان مشترک ہوتی ہیں ،مغایر ہیں اور مغایرت کے اسباب میں سب سے پہلی چیز زبان ہے۔گو زبان کی مغایرت میں دوسری قومیں بھی اسی طرح باہم مغایر ہیں۔کوئی شخص جو مغایرت رفع کرنے کے کے لیے یہ زبان حاصل کرنا چاہے ،آسانی سے نہیں کر سکتا۔

    دوسرا سبب، دین کا اختلاف

    بے تعلقی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہندو دین میں ہم سے کلی مغایرت رکھتے ہیں۔نہ ہم کسی ایسی چیز کا اقرار کرتے ہیں جو ان کے یہاں مانی جاتی ہے اور نہ وہ ہمارے یہاں کی کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔اگر چہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی نزاع کم کرتے ہیں اور بحث و مناظرہ کے سوا جان ،بدن اور مال کو نقصان نہیں پہنچاتے ،لیکن غیروں کے ساتھ ان کی یہ روش نہیں ہے۔غیروں کو یہ لوگ ملیچھ یعنی ناپاک کہتے ہیں اور ان کو ناپاک سمجھنے کی وجہ سے ان سے ملنا جلنا،شادی بیاہ کرنا،ان کے قریب جانا یا ساتھ بیٹھنا اور ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے۔اور جس چیز میں غیر قوم کی آگ یا پانی سے کام لیا گیا ہو جن دو چیزوں پرضروریات زندگی کا مدار ہے۔اس چیز کو ناپاک سمجھتے ہیں۔ (مزید برآں)کسی طریقے سے اصلاح (حال)کی صورت ہی نہیں ہے ،اس لیے کہ گو نجس چیز طاہر سے مل کر طاہر ہو سکتی ہے لیکن ہندوؤں میں کسی شخص کو جو ان کی قوم سے نہیں ہے اور ان میں داخل ہونے کی رغبت یا ان کے دین کی طرف میلان رکھتا ہے،اپنے اندر داخل کرنے کی مطلق اجازت نہیں ہےاور یہ ایسی حالت ہے جو ہر رشتے کو توڑ دیتی ہے اور کامل طرح پر منقطع کر دیتی ہے۔

    تیسرا سبب، رسم و عادات اور طرز معاشرت کا اختلاف

    قطع تعلقی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ رسم و عادت میں ہم سے اس درجہ اختلاف رکھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ہم سے اور ہماری ہیئت و لباس وغیرہ سے تقریباً ڈراتے ہیں اور ہم لوگوں کو شیطان کی طرف منسوب کرتے اور شیطان کو خدا کا مخالف یا دشمن قرار دیتے ہیں۔اگر چہ اس نسبت کا استعمال عام طرح پر ہم لوگوں کے حق میں کیا جاتا ہے،لیکن وہ ہمارے اور کل دوسری قوموں کے درمیان مشترک ہے۔ہم کو یاد ہے کہ ان میں سے ایک(ہندو)نے ہم سے اس لیے انتقام لیا کہ ایک ہندو راجہ اپنے ایک دشمن کے ہاتھ سے جس نے ہم لوگوں کے ملک سے آکر حملہ کیا تھا ،مارا گیا۔اس کا وارث اور اس کے بعد ملک کا راجہ اس کا لڑکا ہوا جو اس کے مارے جانے کے وقت ماں کے پیٹ میں تھا۔بچہ کا نام سگر رکھا گیا تھا۔جوان ہو کر لڑکے نے ماں سے باپ کا حال دریافت کیا اور ماں نے جو حالت گزری تھی ،بیان کر دی۔جوان راجہ جوش میں آکر اپنے ملک سے باہر نکلا اور دشمن کے ملک میں جاکر ان قوموں سے پورا انتقام لیا یہاں تک کہ قتل اور خون ریزی سے تنگ آگیا اور جو لوگ بچ گئے ،ان کو ذلیل کرنے اور سزا دینے کے لیے ہمارا ہی لباس پہننے پر مجبور کیا۔ہم نے یہ قصہ سن کر راجہ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ہم کو ہندو بننے اور اپنی رسمیں اختیار کرنے کی سزا نہیں دی۔

    ان کے بعد کچھ اسباب ایسے ہیں جن کو بیان کرنا گویا ہندوؤں کی ہجو کرنا ہے لیکن وہ ان کے اخلاق میں سمائے ہوئے ہیں اور کسی سے مخفی نہیں ہیں اور حماقت ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ان لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ ملک ہے تو ان کا ملک،انسان ہیں تو ان کی قوم،بادشاہ ہیں تو ان کے بادشاہ،دین ہے تو وہی جو ان کا مذہب ہے اور علم تو وہ جو ان کے پاس ہے۔اس لیے یہ لوگ بہت تعلی کرتے ہیں اور جو تھوڑا سا علم ان کے پاس ہے ،اس کو بہت سمجھتے ہیں اور خود پسندی میں مبتلا ہو کر جاہل رہ جاتے ہیں۔جو کچھ یہ جانتے ہیں،اس کو بتلانے میں بخل کرنا اور غیر قوم والے درکنار،خود اپنی قوم کے نا اہل لوگوں سے بھی شدت کے ساتھ چھپانا ان کی سرشت میں داخل ہے۔اس کے علاوہ ان کے گمان میں بھی نہیں ہے کہ دنیا میں ان کے شہروں کے سوا دوسرے شہر اور ان شہروں کے باشندوں کے سوا دوسری جگہ بھی انسان ہیں اور ان کے ماسوا دوسرے لوگوں کے پاس بھی علم ہے۔یہ حالت یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ اگر ان سے خراسان و فارس کے علم اور اہل علم کا ذکر کیا جائے تو مخبر کو جاہل سمجھیں گے اور مذکورہ بالا عیب کی وجہ سے ہر گز اس کو سچا نہیں مانیں گے۔حالانکہ اگر یہ لوگ سفر کریں اور دوسرے لوگوں سے ملیں جلیں تو اپنی رائے سے باز آجائیں۔باایں ہمہ ان کے اسلاف اس درجہ بے خبر نہیں تھے۔([xvii])

    چوتھا اختلاف،طبقاتی نظام

    ہم میں اور ہندوؤں میں بڑا اختلاف یہ ہے کہ ہم آپس میں سب کو برابر سمجھتے ہیں اور ایک کو دوسرے پر فضیلت صرف تقویٰ کی بنا پر دیتے ہیں۔یہ اختلاف ہندوؤں اور اسلام کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔([xviii])البیرونی کے مطابق ہندوؤں میں چار ابتدائی طبقات برہمن،کشتر،بیش اور شدر کے نیچے ادنیٰ درجہ کے ذلیل لوگ ہیں جن کا شمار کسی طبقہ میں نہیں ہے۔مختلف پیشوں جیسے دھوبی،موچی،ملاح،جلاہا وغیرہ کے اعتبار سے ان کی تقسیم کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ان سب کو چاروں ذات والے اپنی آبادی میں سکونت پذیر ہونے نہیں دیتے۔ہادی،ڈوم،چنڈال اور بدھتو یہ لوگ کسی فرقہ میں بھی داخل نہیں ہیں ۔ان کی حالت اولاد الزنا کی طرح ہے کہ وہ سب ایک ہی طبقہ میں شمار ہوتے ہیں۔ان میں سب سے بدتر بد ھتو ہیں ،یہ صرف معمولی مردہ جانور کھا لینے پر ہی قناعت نہیں کرتے بلکہ کتا وغیرہ تک چٹ کر جاتے ہیں۔([xix])

    لنگ پوجا

    البیرونی نے جہاں ہندوؤ ں کے بتوں کا ذکر کیا ہے وہاں مہادیو کے لنگ (عضو تناسل)کی پوجا کا تذکرہ بھی کیا ہے اور اس کی مورتی بنانے کا طریقہ بھی بیان کیا ہے۔البیرونی کے مطابق ہندوؤں کا عقیدہ یہ ہے کہ لنگ کی صورت غلط بنانے کے سبب ملک میں خرابی ہوتی ہے ۔ گول حصے کو چھوٹا یا پتلا بنانے سے ملک میں خرابی ہوتی ہے اور جن اطراف کے لوگوں نے اس کو بنایا ہے،ان میں برائی ظاہر ہوتی ہے۔اس میں گہرائی اور بلندی کم ہونے سے لوگ بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔اگر بناتے وقت اس پر کسی کانٹے وغیرہ کی چوٹ لگے گی،راجہ اور اس کے گھر والے ہلاک ہوں گے۔اگر اس کے اٹھا کر چلنے میں راہ میں ٹکر لگے اور اس ٹکر سے نشان پڑ جائے ،بنانے والا ہلاک ہو گا اور ملک میں خرابی اور بیماریاں پھیلیں گی۔البیرونی کے مطابق سومنات لنگ کی عبادت کا سب سے بڑا اور مقدس حصہ تھا جسے سلطان محمود غزنوی نے اکھڑوا کر ٹکڑے کر دیا تھااور اوپر کے حصے کو توڑ کر مع اس کے سونے کے جڑاؤ اور چمکیلے غلاف کے،اپنے دارالسلطنت غزنی لے گئے۔ اس کا ایک جز غزنی کے میدان میں چکر سوام،ایک پیتل کے بت کے ساتھ،جو تھانیسر سے لایا گیا تھا ،پڑا ہے اور ایک جز وہاں کی جامع مسجد کے دروازے پر ہے جس پر پاؤں کی مٹی اور نمی پونچھی جاتی ہے۔([xx])

    ہماری نئی نسل جس کا واسطہ کبھی ہندو قوم کے مذہب ،معاشرت اور اسلام دشمنی سے نہیں پڑا انہیں چاہیے کہ وہ ثریا حفیظ الرحمن کا سفر نامہ ‘‘جس دیش میں گنگا بہتی ہے’’کا ضرور مطالعہ فرمائیں ۔اس کتاب کے پیش لفظ میں غلام ربانی صاحب لکھتے ہیں:

    ‘‘سندھ میں سکھر کے قریب ‘‘سادھ بیلو’’نام سے دریا کا ایک جزیرہ ہے جس میں ایک تاریخی مندر ہے۔قیام پاکستان کے بعد ایک بار میں نے اس کو دیکھا۔اس کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی جیسے کوئی Neglected جگہ ہو۔تاہم سنگ مر مر کے بنے ہوئے کمرے موجود تھے۔ایک کمرے میں دلچسپ منظر نظر آیا۔فرش پر مردانہ عضو تناسل کے ہم شکل مر مر کے چھوٹے بڑے کئی اعضاء بنے ہوئے تھے۔ترجمان نے بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلے سکھر سے بڑے بڑے ہندو تاجروں کی بہو بیٹیاں کشتیوں پر سوار ہو کر مندر میں تشریف لاتی تھیں،بار ی باری ہر ایک اس کمرے میں تشریف لے جاتی ۔دروازاہ بند کرتیں۔پتھر کے بنے ہوئے شو لنگ سے کچھ رسومات ادا کرتیں تا کہ شادی کے بعد برکت حاصل ہو۔میں نے ترجمان سے رسومات کی تفصیل نہیں پوچھی’’۔([xxi])

    ثریا حفیظ الرحمن ان کی عبادت اور مندروں کے بارے میں تفصیلا ً تحریر فرماتے ہوئے لکھتی ہیں:

    ‘‘ مہارشٹر اور کرناٹکا میں رینوکا دیوی کے آگے لڑکیاں اور عورتیں عریاں ہو کر پوجا کرتی ہیں۔۔مدھیہ پردیس کے کئی مندوروں میں انسان کی بلی(قربانی)دی جاتی ہے۔ویسے بھی ہندوؤں میں دولت حاصل کرنے کے لیے جو کئی قسم کے تنترک(جادو)کیے جاتے ہیں ان کے لیے انسانی خون ضروری سمجھا جاتا ہے۔عمارات کی مضبوطی کے لیے سنگ دل ہندو کم سن بچوں کا خون اور ننھے منے اجسام بنیادوں میں چنتے ہیں اڑیسہ کے مندروں میں بھگوانوں اور دیویوں کے مجسمے دیکھنے میں نہایت شرمناک ہیں۔’’([xxii])

                درج بالا حوالہ جات سے ہندو تہذیب و تمدن اور ان کے مذہب کامسلمانوں سے مکمل طور پر الگ ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔وہ قوم جو اپنے سوا کسی کو انسان سمجھنا گوارا نہ کرے بلکہ ان کے ساتھ جانوروں سے بد تر رویہ رکھنا جائز سمجھے،کروڑوں معبودانِ باطلہ کے آگے سجدہ ریز ہو،ہزاروں طبقات اور ذاتوں پر ایمان رکھتی ہو،گائے،بندر،چوہے یہاں تک کہ عضو تناسل کی عبادت کرتی ہو۔مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتی ہو اور ان سے مس ہوئی چیزوں کو ناقابل استعمال خیال کرتی ہو، کیا ایسی قوم کے ساتھ مل کر مسلمان جو اسلام کو ایک ایسامکمل ضابطۂ حیات سمجھتے ہیں جودنیا میں آنے سے پہلے سے لے کر قبر کی آغوش تک ہدایات فراہم کرتا ہے ،اپنا نظام عدالت،سیاست،معیشت،دفاع وغیرہ کو بحسن خوبی چلانے پر قادر ہو سکتے تھے؟ برطانوی حکومت کے دور میں پورے ہندوستان کے ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارموں پر پانی بھی مذہب کی تقسیم کے ساتھ ہی ملتا تھا یہاں تک کہ دو مٹکے الگ رکھے جاتے تھے ایک پر ہندو پانی اور دوسرے پر مسلم پانی لکھا جاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی ابلہ فریبی اور خیانت کی وجہ سے مسلمان قائدین نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں اور اسلام کا ہندوستان میں دفاع کرنے کا واحد حل ہندو مسلم دوستی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ ریاست کا حصول ہے جہاں ان کا قومی تشخص قائم رہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق قرآن و سنت کے نظام کو قائم کر سکیں۔
    
                پاکستان ۱۴ اگست 1947ء کو وجود میں آیا تو رمضان المبارک کی 27 تاریخ یعنی شب قدر تھی۔اس مملکت کے شب ِ قدر میں عطا کیے جانے میں یہ راز ہے کہ یہ تحفہ تمہیں قدر والی رات میں عطا کیا گیا ہے لہٰذا اس کی قدر کرو۔پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آٹھ صدیوں پر محیط سلطنت کے اختتام اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد یہ پہلی ریاست تھی جو اسلام کے نام پر قائم کی جا رہی تھی۔قدرت نے جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ارضی ہمیں آزادی کی نعمت کے طور پر عطا فرمایا جس کی بنیا د   ‘‘لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ’’ پر ہے۔نظریۂ پاکستان کے حوالہ سے ہماری کتاب ‘‘محمد رسول اللہ ﷺ کا پاکستان’’انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس میں ہم نے بانیان پاکستان کی تحریر و تقریر کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ بانیان پاکستان کے نزدیک پاکستان کے حصول کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہے جہاں دین سیاست سے الگ نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہماری ہدایت کا مرکز ہو گا۔نظریہ پاکستان کے بارے میں تو پرویز نے بھی یہی لکھا ہے۔پرویز لکھتے ہیں:
    

    ‘‘انہوں نے ٹیکنیک یہ اختیار کر رکھی ہے کہ اسلام یا نظریہ پاکستان جیسی اصطلاحات کا مفہوم متعین نہ کیا جائے ،انہیں مبہم رکھا جائے۔ہمارے ہاں یہ شعر جو زبان زد ِ خلائق ہے کہ:پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ!معلوم نہیں کہنے والے کے سامنے اس کا وہ مفہوم تھا یا نہیں جو قرآن کریم کی رو سے اوپر بیان کیا گیا ہے ۔لیکن بات اس نے پتے کی کہی تھی۔حقیقت یہی ہے کہ پاکستان (یا اسلامی مملکت)کی اسا س ‘‘لا الہ الا اللہ’’ہے۔([xxiii])

    یہاں ہم وہ سوال اٹھانا چاہتے ہیں جو علامہ محمد اسد نے قیام ِپاکستان سے چند ماہ قبل اپنی تحریر What do we mean by Pakistan? میں اٹھایا تھا اور وہ یہ کہ کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟([xxiv])یہ سوال آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا قیام پاکستان کے وقت تھا۔ہمارا عمل اور طرز فکر اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہم اسلام نہیں چاہتے جبکہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ ہماری نجات صرف اسلام ہی میں ہے اور پاکستان اسلام کے نام پر ہی قائم ہوا ہے اور رشتۂ ایمان کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔جب ہم نے ایمان کے بجائے قوم و زبان کے اختلافات کی بنیاد پر اس کی بنیاد رکھنا چاہی تو ہمارا ایک بازو ٹوٹ کر ہم سے الگ ہو گیا،یہی وہ بات ہے جسے علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے اپنے خطبہ الہ آباد میں بیان فرمایا:

    One lesson I have learnt from the history of Muslims. At critical moments in their history it is Islam that has saved Muslims and not vice versa. If today you focus your vision on Islam and seek inspiration from the ever-vitalising idea embodied in it, you will be only reassembling your scattered forces, regaining your lost integrity, and thereby saving yourself from total destruction. One of the profoundest verses in the Holy Quran teaches us that the birth and rebirth of the whole of humanity is like the birth and rebirth of a single individual. Why cannot you who, as a people, can well claim to be the first practical exponents of this superb conception of humanity, live and move and have your being as a single individual? I do not wish to mystify anybody when I say that things in India are not what they appear to be. The meaning of this, however, will dawn upon you only when you have achieved a real collective ego to look at them. In the words of the Quran, “Hold fast to yourself; no one who erreth can hurt you, provided you are well guided” (5:104). ([xxv])

    ایک سبق میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھا ہے۔اپنی تاریخ کے نازک ترین مواقع پر یہ اسلام ہی ہے جس نے مسلمانوں کو نجات عطا کی ہے ، نہ اس کے بر عکس۔

    اگر آج آپ اپنی نظر اسلام پر مرکوز رکھیں اور اس میں موجود ہمیشہ تواں بخش تصور سے فیض حاصل کریں گے تو آپ اپنی منتشر قوتوں کو باہم اکٹھا کر لیں گے اور اس ذریعے سے آپ خود کومکمل تباہی سے بچالیں گے۔قرآن کریم کی دقیق ترین آیات میں سے ایک آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ پوری انسانیت کی ولادت اور ولادت نو ایک فرد واحد کی ولادت اور ولادت نو کی طرح ہے ۔آپ جو بحیثیت ایک قوم زیادہ بہتر دعویٰ کر سکتے ہیں انسانیت کے اس غیر معمولی تصور کے سب سے اول عملی شارح ہونے کے، کیوں نہیں زندگی گزار سکتے اور تحریک دے سکتے اور اپنے وجود کو ایک فرد واحد کے طور پر قائم کر سکتے ۔جب میں یہ کہتا ہوں کہ انڈیا میں اشیاء ایسی نہیں ہیں جیسی بظاہر نظر آتی ہیں تو میں کسی کو اچنبھے میں نہیں ڈالنا چاہتا اس کا مطلب البتہ آپ پر صرف اس وقت منکشف ہو گا جب آپ ایک حقیقی مجموعی خودی کوان کو دیکھنے کے لیے حاصل کر لیں گے۔قرآن کریم کے الفاظ میں:

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ﴿المائدة: ١٠٥﴾

    ‘‘اے ایمان والو!تم اپنی جانوں کی فکر کرو،تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو۔’’

    پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد دنیا میں ایک اور نظریاتی ریاست وجود میں آئی جس کا نام ‘‘اسرائیل’’ ہے۔وہ لوگ جو متحدہ ہندوستان کا راگ الاپتے رہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اسرائیل سے سبق سیکھیں۔بائبل کی عہد نامہ قدیم کی پہلی کتاب پیدائش Genisis))کے مطابق خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی اولاد کو ایک مخصوص خطہ زمین عطا فرمائے گا۔

    پیدا ئش میں ہے:

    18 In the same day the Lord made a covenant with Abram, saying, Unto thy seed have I given this land, from the river of Egypt unto the great river, the river Euphrates:19 The Kenites, and the Kenizzites, and the Kadmonites,20 And the Hittites, and the Perizzites, and the Rephaims,21 And the Amorites, and the Canaanites, and the Girgashites, and the Jebusites([xxvi] )۔

    ‘‘اُسی روز خُداوند نے ابرام سے عہد کِیا اور فرمایا کی یہ مُلک دریائے مصر سے لے کر اُس بڑے دریا یعنی دریا یعنی دریائے فرات تک۔ قینیوں اور قینزیوں اور قدمُونیوں۔ اور حِتَیوں اور فِرزَیوں اور رفائیم۔ اور اموریوں اور کنعانیوں اور جرجا سیوں اور یبوسیوں سمیت میں نے تیری اُولاد کو دِیا ہے۔’’

    یہودی اس خطے کو The Promised Land یا Greater Israel کے نام سے یاد کرتے ہیں اپنی ذلت و رسوائی کے مختلف ادوار اور Diasporaسے گزرنے کے بعد مردہ قوم یہود کو Russian Poland کے ایک یہودی مفکر Judah Leib (Leon)Pinsker (1821ء۔1891ء)نے زندہ کیا اور اپنے مضمون (1882ء)Auto-Emancipation کے ذریعے ان میں آزادی اور قومیت کا شعور پیدا کیا اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تمہاری کامیابی ایک Fatherland حاصل کرنے میں ہے۔([xxvii] )پنسکر نے اس مضمون میں یہودیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے پرانے آبائی علاقے یروشلم یا کسی دوسرے علاقے کے بارے میں جلد از جلد فیصلہ کریں کہ اب وہی ان کا آبائی ملک ہو گا جہاں سے کوئی ان کو نہیں نکالے گا اور وہ اپنی مرضی کے مطابق وہاں زندگی گزار سکیں گے۔اسی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے Theodor Herzl نے ایک مضمون The Jewish State(1896) تحریر کیا جس میں اس نے Jewish Question کو زیر بحث لاتے ہوئے Palestine یا Argentine میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا مشورہ دیا۔مگر ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ اگر ہم فلسطین کا انتخاب کر لیں تو فلسطین کا نام ہماری قوم میں ایک جوش و ولولہ کو پیدا کر دے گا اور اس طرح ہم لوگوں کو با آسانی اس طرف متوجہ کر دیں گے۔([xxviii] )

    بالآخر اپنی عالمی سازشوں کے نتیجے میں یہودیوں کی صہیونی تنظیم نے لا تعداد انسانوں کا خون بہا کر اسرائیل حاصل کر لیا۔ان دونوں حضرات کی خدمات کے صلہ میں ان کی باقیات کو قیام اسرائیل کے بعد اسرائیل میں دفن کیا گیا۔اسرائیل نے جس خطۂ زمین کے حصول پر ابتداء میں اکتفاء کیا وہ ان کا مطلوبہ حصہ نہ تھا تا ہم وہ اپنے عالمی منصوبے کے تحت نیل سے فرات تک The Promised Land کی تکمیل کے لیے شب و روز اپنی جان و مال اور عزت کی قربانی دے رہے ہیں تا کہ اس مختصر سے خطے میں توسیع کے بعد اصل مقاصد کوحاصل کیا جاسکے۔جس میں مسلمانوں کے مقدس مقامات بھی شامل ہیں اور حالیہ ہونے والی تمام جنگوں اور مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے جغرافیہ کا اس سے بہت گہرا تعلق ہے۔جب یہودی اپنے عالمی منصوبے کے تحت اس قدر جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں تو کیا مسلمان عالمی سطح پر United States of Islam یا ایسا متحدہ ہندوستان بنانے کا خواب نہیں دیکھ سکتے جس کا نام پاکستان ہو؟جو کبھی حقیقت میں ان کے زیر حکومت رہا ہے۔لیکن ہماری نئی نسل ایسا خواب نہیں دیکھ سکتی کیونکہ نظریہ پاکستان اس کی نظر سے اوجھل کر دیا گیا ہے۔وہ ہندو مشرکانہ اور مغربی تہذیب میں اس قدر رنگ چکی ہے کہ اب بظاہر ایک مسلمان اور کافر میں فرق نظر نہیں آتا۔جس کا سب سے بڑاذمہ دار پاکستانی آورہ میڈیاہے۔پاکستانی مسلمانوں کو بوسنیا کے ان مسلمانوں سے درس عبرت حاصل کرنا چاہیے جن کو محض مسلمان ہونے کے جرم میں بد ترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا اور اہل مغرب نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ وہ مسلمان ان کی اپنی اختراع کردہ اصطلاح میں بنیاد پرست و متشدد نہیں تھے۔

    آزادی ایک نعمت ہے مگر یہ نعمت آگ و خون کا دریا عبور کرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ہجرت آزادی کے وقت لاکھوں مسلمان مردوں،بوڑھوں ،بچوں اور عورتوں نے جس طرح اپنی جان ،مال ،عزت و آبرو کی قربانی دی اس کی مثال تا ریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ہماری نئی نسل سے ہجرت آزادی کے واقعات اور دشمن کے چہرے کو چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تا کہ ان میں دوست و دشمن کی تمیز ختم ہو جائے اور جنگ سے قبل ہی مسلمان اپنی اسلامی تہذیب و تمدن کو بھول کر ہندو تہذیب میں ایسے گم ہو جائیں کہ ان کو با آسانی غلام بنا لیا جائے۔مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے اور باہمی اختلافات کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انہیں دشمن کا اصل چہرہ دکھا دیا جائے تا کہ وہ اپنے اختلافات بھول کر ہمہ جہتی جنگ میں اپنے قلم،زبان،دماغ ،تلوار اور وسائل کا انسان دشمن لوگوں کے خلاف استعمال کریں۔اللہ رب العزت نے اپنی راہ میں ہجرت کرنے والوں کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

    فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ﴿آل‌عمران: ١٩٥﴾

    ‘‘جن لوگوں نے وطن چھوڑ دیئے اور اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان سے مٹا دوں گا اور انہیں یقینا ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے اور اللہ ہی کے پاس بہتر اجر ہے۔’’

    مشرکین مکہ نے جب مسلمانوں کو تکالیف پہنچا نے میں انتہا کر دی تو اللہ رب العزت نے انہیں ہجرت کا حکم دیا اور انہوں نے اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ منورہ کا رخ کیا۔مشرکین اور مسلمان اپنے رنگ و نسل اور قبائل کے اعتبار سے بظاہر ایک ہی تھے مگر ‘‘کلمہ طیبہ’’نے انہیں دو علیٰحدہ قوموں میں تقسیم کر دیا تھا۔مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے اس کا سبب وحید ان کا مسلمان ہونا تھا۔تقسیم ہند کے بعدسے آج تک ہندوستان میں مسلمانوں کے کشت وخون کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے ضابطۂ حیات ہونے پر ایمان لاتے ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پربرما،فلسطین،کشمیر، افغانستان،شام،عراق اوردنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔جبکہ مسلمانوں نے جن علاقوں پر بھی سینکڑوں سال حکومت کی وہاں کافروں کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں نے نہ تو جبراً ان کو اپنے مذہب میں داخل کیا اور نہ ہی ان کی نسل کشی کی۔

    تقسیم ہند سے پہلے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین اہانت رسولﷺ کی وجہ سے یا مذہبی رسومات و ایام کے مواقع پر بعض اوقات فساد کی آگ بھڑک ہی جایا کرتی تھی مگر تقسیم ہند کے وقت مختلف شہروں میں اور بالخصوص مشرقی پنجاب میں جہاں کی ریاستوں سے 52 لاکھ مہاجرین پاکستان آئے([xxix]) جس طرح سے حکومت کی فوج،پولیس اور ہندوؤں و سکھوں نے بندوقوں ،رائفلوں،برین گنوں،اسٹین گنوں، بموں،توپوں، برچھیوں،نیزوں،تلواروں، کلہاڑیوں،کرپانوں اور دیگر ہتھیاروں سے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی وہ فقید المثال ہے۔نبی کریم ﷺ کی شان میں توہین کی گئی ۔مسلمانوں کو زبردستی ہندواور سکھ بنایا گیا۔مساجد میں سور اور جانور چھوڑ دیئے گئے۔قرآن حکیم کے اوراق میں سودا لپیٹ کر دیا جانے لگا۔مسلمان مردوں ،عورتوں اور بچوں کو نذر آتش کیا گیا۔ایک شقی القلب شخص نے سو بچوں کو اپنے ہاتھ سے زندہ آگ میں بھون ڈالا۔لاشوں کے ٹکڑے کر کے ان کو سلاخوں میں پرو کر آگ پر پکایا گیا۔بچوں کو ذبح کر کے ان کے اعضاء کاٹ کر ان کا گوشت ان کی ماوؤں کے مونہوں میں زبردستی ڈال کر چبانے پر مجبور کیا۔مردوں کے عضو تناسل کاٹ دیئے گئے ۔والدین کو ان کی اولاد کا خون پینے پر مجبور کیا گیا۔لاشوں کو درختوں پر لٹکا یا گیا۔بچوں کو اچھال کر نیزوں میں پرویا گیا۔معصوم بچوں کو فوجی بوٹوں سے کچلا گیا۔کم سن کلیوں کی نازک ٹانگیں پکڑ کر انہیں چیر کر دو ٹکڑے کر دیا گیا اورٹانگ پر ٹانگ رکھ کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ماں باپ کے سامنے بچوں کے مونہوں میں نیزہ مار کر حلق کے پار کر دیا گیا۔ ان کے کان،ناک،ہونٹ کاٹ کر والدین کی جھولی میں ڈال دیئے گئے اور کہیں دودھ پیتے بچوں کو کیلوں سے ٹھونک کر دیوار میں ٹانگ دیا گیا۔سب سے برا حال مسلمان عورتوں کا تھا۔کئی لڑکیوں کو ان کے والدین اور بھائیوں نے عصمت کی حفاظت کی خاطر خود اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر دیا یا لڑکیوں نے خود کشی کر لی۔لاتعداد لڑکیاں اغواء کر لی گئیں۔جن میں سے بے شمار آج بھی اپنی کوک سے کافربچوں کو جنم دے رہی ہیں اور ان کی آنکھیں کسی محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کا انتظار کرتے کرتے پتھرا چکی ہیں۔ جو زندہ ہاتھ لگیں ان کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں۔والدین اور بھائیوں کے سامنے جوان لڑکیوں کو برہنہ کر کے انتہائی بے دردری کے ساتھ ان کی عصمت دری کی گئی۔جنہیں آسمان نے بھی کبھی برہنہ سر نہ دیکھا تھاان کے کپڑے اتار کر برہنہ جلوس نکالے گئے۔سر عام مسلمانوں کی عصمت کا جنازہ نکال دیا گیا۔بوڑھوں کے ہاتھ پیر کاٹ کر انہیں سب کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔وہ مسلمان جو کسی طرح جان بچا کر اپنے گھر بار اور جائیداد کو چھوڑ کر کیمپ میں پہنچتے وہ وہاں لا یموت فیھا و لا یحیی (نہ مرتے تھے نہ جیتے تھے)کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے۔کئی کئی دن کھانا اور پینے کا پانی نہیں ملتا۔وہ خواتین جو ہمیشہ باپردہ رہتیں ان کیمپس میں بغیر دوپٹے تھیں۔اگر کھانا دیا جاتا تو اس میں غلاظت اور کانچ پیس کر ملا دیا جاتا۔کئی مسلمان زہر ملا ہوا پانی ہی پینے کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے۔کیمپس میں طرح طرح کے وبائی امراض پھیل گئے۔بچے، بوڑھے ،مرد اور عورتیں سسک سسک کر مرنے لگے۔رہی سہی کسر حفاظت پر مامور فوجیوں اور پولیس نے مسلمانوں کو گولیاں مار کر،ان کی بیٹیاں اغواء کر کے پوری کر دی۔ان کیمپس میں یہ منظر بھی آسمان نے دیکھاکہ بعض موقع پرست مسلمان اس حال میں صاف پانی کا ایک گلاس تین سو روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔یوں دریا عبور کرنے،کھانا یا پانی خریدنے اور جان و آبرو کی حفاظت میں مسلمانوں کی سونے، چاندی اور روپے کی صورت میں جمع پونجی بھی اونے پونے داموں صرف ہوگئی۔ وہ مسلمان قافلے جو ٹرکوں،بسوں اوربیل گاڑیوں پر یا پیدل ہی پاکستان کی طرف ہجرت کے لیے روانہ ہوئے راستے میں ان کے قافلوں پر حملے کیے گئے۔لڑکیوں کو اغواء کر لیا گیا اور لاکھوں کا قافلہ ہزاروں میں اور ہزاروں کا قافلہ چند سو میں اور سینکڑوں کا قافلہ چند نفوس میں لٹا کٹا پاکستان پہنچتا۔بے شمار افرادسفر کی صعوبتوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے داغ مفارقت دے جاتے اور کئی منزل پر پہنچ کر دم توڑ دیتے۔ان قافلوں کے بارے میں کیمبل جانسن لکھتا ہے:

    ‘‘جب ہمارا طیارہ ہندوستان کی طرف مڑا تو ہم نے مسلمانوں کے اترے ہوئے اور افکار سے بوجھل چہرے دیکھے۔یہ مہاجرین آہستہ آہستہ لائل پور لاہور کی جانب بڑھ رہے تھے ان کا سب کچھ لٹ چکا تھا۔آسائش،سکون،مال و متاع،گھربار،وہ خالی ہاتھ تھے۔وہ دریائے بیاس کی طرف آئے۔مہاجرین کا کارواں اتنا لمبا پھیلا ہوا تھا کہ اس کے ایک سمت سے دوسری سمت تک گذرنے کے لیے ہمارے طیارے کو سوا گھنٹہ لگااور وہ بھی اس صورت میں کہ طیارہ ایک سو اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر رہا تھا ،۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس قافلہ کا سلسلہ ۵۴ میل تک چلا گیا تھا۔’’([xxx])

    وہ اسپیشل ٹرین جو پاکستان روانہ ہوتی اس کے ڈبوں میں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیئے جاتے ۔سینکڑوں مرد ٹرین کے اوپر سفر کرتے جن میں سے کئی ایک راستے میں ہی نیچے گر کر فنا ہو جاتے۔ان ٹرینوں پر منظم انداز میں حملے کیے جاتے اور پوری ٹرین راستے میں ہی کاٹ دی جاتی ۔مال و اسباب لوٹ لیا جاتا اور خواتین کو اغواء کر لیا جاتا۔اس طرح جب یہ ٹرینیں پاکستان پہنچتیں جہاں مسافروں کے اہل خانہ ہار اور پھول لیے دیدہ و دل بچھائے منتظر ہوتے تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑتی۔ٹرینیں انسانی کٹے ہوئے اعضاء سے بھری ہوتیں ۔ٹرینوں سے خون بہہ رہا ہوتا۔کئی چشم دید افراد کا بیان ہے کہ کئی ڈبوں میں صرف گوشت کی گٹھریاں ملتی تھیں کوئی ایک نفس بھی زندہ پاکستان نہ پہنچ پاتا۔ممتاز مفتی لکھتے ہیں:

    ‘‘پھر شور بلند ہوا۔امرتسر سے گاڑی آگئی۔امرتسر سے گاڑی آگئی۔سب لوگ پلیٹ فارم کی طرف بھاگے،لیکن مہاجر جوں کے توں بیٹھے رہے۔جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔میں نے سائیکل کو تا لہ لگایا اور ان جانے میں اندر کی طرف چل پڑا۔پلیٹ فارم پر پہنچا تو بو کا ایک ریلا آیا۔میں رک گیا۔لوگ ناک پر رومال رکھے گاڑی کے ڈبوں میں داخل ہو رہے تھے۔جب وہ باہر نکلتے تو چہروں پر کراہت کے آثار نمایاں ہوتے۔میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ گاڑی میں داخل ہوا جائے ۔اس کے باوجود میں ادھر کھنچا جا رہا تھا۔یوں جیسے خوف نے ہپناٹائیز کر رکھا ہو۔بادل ناخواستہ میں ڈبے کی طرف بڑھا۔دروازے میں رک گیا۔وہاں خون کا چھپڑ لگا ہوا تھا۔سامنے ایک بوڑھی عورت گٹھڑی کی طرح پڑی تھی۔آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں دونوں ہاتھ پیٹ پر تھے۔سامنے پیٹ سے نکلی ہوئی آنتوں کا ڈھیر لگا تھا۔دیر تک میں اس بڑھیا کو گھورتا رہا۔خون کی بو سے طبیعت مالش کر رہی تھی۔سر چکرا رہا تھا ۔نظر دھندلی پڑتی جا رہی تھی۔گاڑی کے اندر داخل ہونے کی ہمت نہ پڑی دروازے میں کھڑے کھڑے ڈبے کا جائزہ لیا سارے ڈبے میں کٹے ہوئے گوشت کی ڈھیریاں لگی ہوئی تھیں۔ دو بازو اوپر تختے سے لٹک رہے تھے،دو کٹے ہوئے سر فرش پر لڑھک رہے تھے۔ایک بچہ ہک سے لٹک رہا تھا۔’’([xxxi])

    متعدد مقامات پر ایسے دلخراش مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ لا تعداد لاشیں سڑکوں اورمیدانوں میں پڑی سڑ رہی ہیں۔کہیں ان لاشوں کو اکٹھا کر کے جلا دیا گیا اور کہیں گدھ ،چیل،کوے اور کتے مسلمانوں کی لاشوں کو نوچ نوچ کر کھاتے رہے۔یہ ایسا دردناک منظر تھا کہ دیکھنے والا سکتے میں آجائے اور انسانیت پر سے اس کا اعتبار ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے۔جن علاقوں میں مسلمانوں کو قتل کر کے ان کا مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔مساجد کو تاخت و تاراج کر دیا گیا اور مسلمانوں کو وہاں سے ہجرت پر مجبور کیا گیا ان میں سے قابل ذکر نام درج ذیل ہیں:

    ۱۔دہلی

    ۲۔پانی پت

    ۳۔پالم

    ۴۔گڈھ مکیتشر

    ۵۔میرٹھ

    ۶۔آگرہ

    ۷۔سہارنپور

    ۸۔دہرہ دون

    ۹۔پیلی بھیت

    10۔روہیلکھنڈ

    ۱۱۔بریلی

    12۔شاہجہاں پور

    13۔مراد آباد

    14۔حسن پور

    15۔بنارس

    16۔جوالا پور

    17۔مسوری

    18۔متھرا

    19۔علیگڑھ

    20۔اترولی

    21۔ہاتھرس

    ۲۲۔چندوسی

    23۔خورجہ

    24۔ہاپوڑ

    25۔کانپور

    26۔ہروارا

    27۔بدایوں

    28۔الہ آباد

    29۔پٹیالہ

    30۔امرتسر

    31۔فرید کوٹ

    32۔نارنول

    ۳۳۔جالندھر

    34۔لدھیانہ

    35۔انبالہ

    36۔فیروزپور

    37۔الور

    38۔بھرتپور

    39۔ڈیگ

    40۔باندی کوئی

    41۔بیانہ

    42۔جبلپور

    43۔ساگر

    44۔رانچی

    45۔احمد آباد

    46۔بھوپال

    47۔پٹنہ

    48۔گیا

    49۔مونگھیر

    50۔چھپرا

    51۔آسنسول

    52۔کلکتہ

    53۔ہاوڑہ

    54۔سیالدہ

    55۔حیدرآباد

    56۔بیدر

    57۔جالنا

    58۔نانذیر

    59۔اورنگ آباد

    60۔عثمان آباد

    61۔گلبرگہ([xxxii])

    فسادات کا آغاز کلکتہ سے اگست 1946ء میں کیا گیا ۔ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور ان کے ما ل و اسباب کو لوٹ لیا گیا۔آئن اسٹیفن نے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا :

    ‘‘پولیس کے مردہ خانے میں داخل ہونے کے لیے آلہ ٔ تنفس کی ضرورت تھی کیونکہ وہاں سڑی ہوئی لاشوں کے چھت تک انبار لگے ہوئے تھے۔ملٹری پولیس کے انگریز نان کمیشنڈ افسروں کے ساتھ میں نے تین گھنٹے ایک جیپ میں شہر کی سڑکوں پر گشت کیا ہم نے جو کچھ دیکھا وہ موجودہ دنیا کے فوجی میدان کارزار میں بھی نہیں دیکھ سکتے۔’’([xxxiii])

    سر فرانسس ٹکر اس بارے میں لکھتا ہے:

    ‘‘باگ بازار اسٹریٹ کے علاقہ میں ایک چھوٹی سی مسلم بستی میں ہمارے آدمیوں نے دیکھا کہ سب کچھ جل چکا تھا۔کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔یہاں تک کہ رہنے والے یا تو بھاگ گئے تھے یا بیدردی سے قتل کر دیئے گئے تھے۔تین ننھے ننھے معصوم بچوں کی لاشیں اس جرم کی شہادت دے رہی تھیں۔

    اس حادثہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہمیں تین مختلف ذرائع سے ایک ہی اطلاع ملی وہ یہ تھی کہ اس مسلم بستی کو جلا کر خاک سیاہ کرنے والے نو غنڈے تھے جنہیں ایک مشہور شخص نے جرات دے کر اس کام پر مامور کیا تھا۔

    اس علاقہ میں لاشوں کو زیادہ قریب سے دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کس بہیمت اور شقاوت کے ساتھ لوگ ہلاک کئے گئے تھے۔بہت سی لاشیں مسخ کر دی گئی تھیں۔ایک لاش تو ہم نے ایسی دیکھی کہ ایک آدمی کو ٹخنوں سے باندھ کر ٹریموے الیکٹرک جنکشن سے لٹکا دیا تھا۔اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ رکھے گئے تھے۔پیشانی پر سوراخ کر دیا گیا تھا تا کہ دماغ سے اتنا جریان خون ہو کہ فوراً مر جائے اور ایسا ہی ہوا ۔یہ منظر اتنا دلخراش اور جگر فگار تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔جن سپاہیوں کو یہ لاشیں اتارنے کا اور قریب پڑے ہوئے ایک بورے میں لپیٹنے کا حکم دیا گیا تھا یہ منظر دیکھ کر موقع واردات پر اپنے ہوش و حواس وہ کس طرح سلامت رکھ سکے۔

    اس تفتیش نے ایک اور اہم حقیقت واضح کر دی جو اب تک نظر سے اوجھل تھی۔بہت سی لاشیں بوریوں اور کوڑے دان میں بند پڑی سڑ رہی تھیں اور اب اس وجہ سے نمایاں ہونے لگی تھیں۔لیکن سوہا بازار میں تووسیع پیمانہ پر قتل عام کے واقعات کے نشانات ملے۔کوئی گلی لاشوں سے خالی نہ تھی۔ ایک کمرے میں پندرہ ،دوسرے میں بارہ لاشیں ملیں۔بازار کے مغربی حصہ میں ایک رکشا اسٹینڈ تھا۔تمام رکشا ٹوٹے پھوٹے پڑے تھے اور ظاہر تھا کہ رکشا کھینچنے والے سب کے سب مجموعی طور پر قتل کر دیئے گئے تھے۔اس قتل گاہ میں ہم نے دو زندہ بچے برآمد کئے دونوں بری طرح زخمی تھے اور ایک کے زخم تو سڑ گئے تھے ۔جیسا کہ سمجھا جاسکتا ہے۔یہ دونوں بچے حد درجہ بد حواس اور سراسیمہ تھے بلکہ تقریباً پاگل ہو چکے تھے۔ان کے ذہنی اعصاب بالکل مفلوج ہو چکے تھے اور جس چیز نے انہیں دیوانہ بنا دیا تھا اور اب کبھی یہ نارمل حالت میں واپس نہیں آسکیں گے۔’’([xxxiv])

    اس کے بعد اکتوبر میں بہار کو شہادت گاہ بنایا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ جب قیامت کے دن تحریک پاکستان کے شہداء اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اس قافلے کی قیادت شہدائے بہار کریں گے۔نواکھلی کے فرقہ وارانہ فساد کو بنیادبنا کر یہاں کے مسلمانوں پر ایسا ظلم کیا گیا جو کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ۲۵اکتوبر سے ۱۰ نومبر تک بہار کے پانچ اضلاع میں مسلمانوں کو شدید قتل عام جاری رہا۔ ۵ نومبر تک بہار کے صرف دو اضلاع میں تیس ہزار مسلمان فنا کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔([xxxv])

    آئن اسٹیفن بہار کے قتل عام کے بارے میں لکھتا ہے:

    ‘‘مؤرخ یہ تسلیم کریں گے کہ بہار کا سانحہ تقسیم کے نزاعی موضوع پر فیصلہ کن اثرات ثبت کر گیا۔اتنے زبردست قتل عام کے بعدجو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہوا ایک حکومت کے تحت ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے امن و صلح کے ساتھ مل جل کے رہنے کا امکان ختم ہو گیا۔’’([xxxvi])

    لیفٹینٹ جنرل ٹکر نے ان معلومات کی بنیاد پر جو اسے جنرل آفیسر کمانڈنگ مشرقی کمان کی حیثیت سے ملی تھیں ،لکھا ہے:

    ‘‘1946ءکی بہیمانہ وارداتوں میں سانحہ بہار عظیم ترین سانحہ تھا۔ہندوؤں کے زبردست ہجوم پوری طرح تیار ہو کر نکلتے اور گنتی کے ان مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے جن کے آباو اجداد اور خود ان ہندوؤں کے آباو اجداد دوستی،محبت اور خلوص کے ساتھ ہمسایوں کے طور پر رہتے آئے تھے۔آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ نسل کشی کا یہ بھیانک منصوبہ کس کے ذہن کی پیداوار تھا۔ہمیں تو بس اتنا علم ہے کہ اس منصوبے کے تحت زبردست مسلح ہجوم وقت پر جمع ہوتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جاتا ۔تھوڑی ہی دیر میں سات آٹھ ہزار مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا ،ماں کے سامنے ان کے سینے سے لپٹے ہوئے بچوں کو قتل کرنے کے بعد ماؤں کو بھی تہ تیغ کر دیا گیا’’۔([xxxvii])

    ہیکٹر بولتھو لکھتا ہے:

    ‘‘جون کے آخر اور جولائی کے آغاز میں کشت و خون شروع ہو گیا۔ایک انگریز نے جو ایک کھڑکی کے پاس کھڑا تھا اس نے اپنے مکان کی کھڑکی سے دیکھا کہ سمندر کے ساحل پر کام کرنے والا ایک تنو مند مزدور ایک جہازی سامان اٹھانے والا آنکڑا لیے کھڑا ہے۔اس کو اپنی قوت کا اندازہ ہوا اور پھر اس نے ایک عورت پر زور آزمائی شروع کر دی جو قریب ہی کھڑی تھی۔اس نے عورت کے کپڑے پھاڑ کر اس کا جسم چیر ڈالا ۔پھر وہ سڑک پر آگے بڑھا اور اس نے یہی سفاکی کا عمل دیگر پانچ عورتوں کے ساتھ کیا’’۔([xxxviii])

    پاکستان کا قیام رمضان المبارک میں عمل میں آیا ۔اُس سال مسلمانوں کی پہلی عید الفطر کیسی گزری اور اس دن جس ظلم و بربریت کا اظہار کیا گیا اس کا اندازہ وقار انبالوی صاحب کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے:

    ‘‘لیکن ۱۸ اگست 1947ء کے روز عید الفطر تھی۔اس روز خوف و خطر کی فضاؤں میں جالندھر کے مسلمان ہزاروں کی تعداد میں عید کی نماز ادا کر نے کے لیے عید گاہ میں جمع تھے اور ابھی پہلی رکعت میں سجدہ ریز ہوئے ہی تھے کہ ہندوؤں سکھوں نے تلواروں ،کنڈاسوں،برچھیوں اور بندوقوں سے مسلح ہو کر ان پر حملہ کر دیا اور آن واحد میں سینکڑ وں مسلمانوں کے سر تن سے جدا کر دیئے گئے جو اس وحشیانہ حملے سے جان بچا کر عید گاہ سے باہر بھاگے انہیں بھالوں کی نوک پر دھر لیا گیا۔اس طرح جالندھر کی عید گاہ لاشوں سے پت گئی۔اس کے بعد سکھا نن ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں فرقہ پرست ہندو سکھ طے شدہ پروگرام کے مطابق جالندھر کے آسودہ حال اورذی اثر مسلمانوں کے گھروں سے زبردستی پردہ نشیں عورتوں کو گھیر کر عید گاہ تک لائے یہاں ان کے برقعے اور ان کی چادریں ہی سروں سے نہ اتاریں بلکہ ان کے لباس اتار کر انہیں ننگا کر دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے مردوں کو عید مبارک کہیں اور قیام پاکستان کی خوشی میں ان کی لاشوں کے آس پاس رقص کریں۔یہ وحشیانہ سلوک اور سنگدلانہ کاروائی ایسی تھی کہ جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔شوہروں ،بھائیوں اور بیٹوں کی لاشوں پر ان کو رونے بھی نہ دیا گیا ۔برہنہ حالت میں حیا کی ماری عورتیں جب سکڑ نے سمٹنے اور ایک دوسرے کیساتھ لپٹنے لگتیں تو ان کو بھالوں کی نوک چبھو چبھو کر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ کیا جاتا بلکہ چرکے اور کچوکے اس طرح دیئے جاتے کہ وہ تڑپنے لگتیں اور قاتل قہقہے لگاتے’’۔([xxxix])

    عید کے دن مسلمانوں کو جو تحفہ ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے بھیجا گیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے خواجہ افتخار لکھتے ہیں:

    ‘‘انہوں نے عید کے موقعہ پر ہندوستان سے لاہور آنے والی ایک مال گاڑی کے ڈبے میں مسلمان عورتوں کی کٹی ہوئی چھاتیاں، معصوم بچوں کی گردنیں اور کٹے ہوئے ہاتھ عید کے تحفے کے طور پر اسلامیان ِ پاکستان کو ارسال کئے۔جب وہ ڈبہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر پہنچا تو اس پر’‘ پاکستانی مسلمانوں کے لیے تحفہ’’کے اشتعال انگیز الفاظ لکھے ہوئے تھے’’۔([xl])

    تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت تقریبا ۲۰ لاکھ سے زائد مسلمان شہید اور ا س سے زیادہ زخمی ہوئے۔تقریبا ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد افراد نے اپنے گھروں کو خیر آباد کہا۔([xli])سکھ اکالی دل،اکالی سینا،راشٹریہ سیوک اور دیگر سکھ و ہندو جتھے حکومت ہند کی فوج اور پولیس کی سرپرستی میں مسلمانوں کے اس قتل عام میں شریک رہے کیونکہ حکومت ہند نے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا جبکہ سکھوں نے مشرقی پنجاب سے مسلمانوں اور ان کے آثار کے نشانات تک مٹا ڈالے تا کہ وہاں ایک علیحدہ سکھ ریاست کی بنیا د رکھی جا سکے۔وہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان قائم ہی نہ ہو اور اگر قائم ہو ہی جائے تو قیام کے ساتھ ہی یہ عمارت فوراً منہدم ہو جائے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے مسلمانوں کوخارج کر کے ان سے اسلحہ واپس لے لیا گیا۔متعدد مقامات پر گھر گھر تلاشی کے بعد اطمینان کر لیا گیا کہ مسلمانوں کے پاس اب مزاحمت کے لیے ایک چھری اور چاقو بھی باقی نہیں رہا۔ جب مسلمان احتجاج کے لیے نکلتے تو صرف مسلمانوں کے لیے کرفیو لگا دیا جاتا اور ہندو و سکھ با آسانی دندناتے پھرتے ۔ ہزاروں ہندو و سکھ جتھوں کی صورت میں مسلمان آبادیوں میں داخل ہوتے اور ان نہتے ،بے بس اور تنہا مسلمانوں کو با آسانی اپنی ہوس کا اس طرح نشانہ بناتے کہ تاتاری بھی ان کی شاگردی پر نازاں ہوں۔اس کیفیت میں مسلمان فوج اور بالخصوص بلوچ رجمنٹ کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا جنہوں نے کئی ایک عصمتوں کو لٹنے اورلا تعداد جانوں کو تلف ہونے سے بچایا تاہم اگر ہماری اس وقت کی قیادت دور بینی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کو اس عذاب کے آنے سے پیشتر تیار رہنے کی تربیت دیتی یا بروقت غیر معمولی اقدامات کیے جاتے تو شاید اس قدر بڑی تباہی سے ایک نوزائیدہ ملک دوچار نہ ہوتا۔ اس کے باوجود جب کافروں کی طرف سے نعرے لگتے :

    جو مانگے گا پاکستان اس کو دیں گے قبرستان

    مسلمان جوش و ولوے کے ساتھ نعرے لگاتے :

    بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے رہیں گے پاکستان

    پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ

    ہندوستان کی طرف سے 1947ء سے لے کر تاحال مسلمانوں پر اسی طرح ظلم و جبر جاری ہے۔مسلمانوں کی اس نسل کشی کو محض فرقہ وارانہ فسادات کا نام دے کر دبا دیا جاتا ہے ۔کشمیر میں ہونے والا ظلم و ستم اور دیگر ہندوستان کے شہروں میں مسلمانوں کا ریاست کی زیر نگرانی منظم قتل عام اس بات کی واضح دلیل ہے حکومت ہند ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹا دینا چاہتی ہے۔راشد شاز ہندوستان میں 1947ء سے 1997ء تک فساد زدہ علاقوں کی ایک اجمالی فہرست اس طرح بیان کرتے ہیں:

    آندھرا پردیش:عادل آباد،حیدرآباد،کریم نگر،کرنول،میڈک،نلگنڈا،نظام آباد،رنگا ریڈی۔

    آسام:کچھار،درانگ،گول پارہ،کام روپ،نوگونگ۔

    بہار:بھاگل،بھوج پور،چمپارن،(مغربی و مشرقی)در بھنگہ،گیا،گر یڈیہ،گوپال گنج،ہزاری باغ،مدھو بنی ،مونگیر،نالندہ،پٹنہ،پورینہ،رانچی،سنتھال پرگنہ،سیوان،سنگھ بھور اور سیتھا مڑھی۔

    دہلی: سنٹرل دہلی،مشرقی دہلی اور شمالی دہلی ۔

    گجرات:احمد آباد،بڑودا،بانس کنٹا،بھوچ،جام نگر،جونا گڑھ،کھیدا،پانچ محل،سابر کنتھا اور سورت۔

    کیرالہ:کنانور،ملام پورم،ٹریجوی،تریوندرم۔

    کرناٹک:بنگلور،بیدر،دھارواڑ،گلبرگہ،کولار،میسور،ساؤتھ کنرا۔

    مدھ پر دیش:بھوپال،چھندواڑہ،داموہ،جبل پور،کھٹمنڈو،کھارگون،منڈ سور،رائے گڑھ،رائے سن،رتلام،ساگر،سیہور،سیونی،شا جاپور،اجین اور ویدشا۔

    مہاراشٹر:احمد نگر،آکولا،امراوتی،گریٹر بمبئی،بلڈانہ،ناسک،پر بھنی،پونے اور تھانے۔

    اڑیسہ:بالاسور اور کٹک۔

    راجستھان: بھلواڑہ،چتور گڑھ، جودھ پور، کوٹہ، ناگپور،پالی،اودے پور۔

    تامل ناڈو: آرکوٹ(شمال و جنوب)کوئمبٹور،دھرما پور،مدورائی،رمنتا پورم،تیرو نلویلی، ٹریچی۔

    یوپی: آگرہ ،علی گڑھ،الٰہ آباد،اعظم گرھ،بدایوں،بہرائچ،باندہ،بارہ بنکی،بریلی،بستی،بجنور،بلندشہر،دیوریا،فیض آباد،فتح پور،غازیپور،گونڈہ،گورکھپور،جونپور،کان پور،لکھنو،متھرا،میرٹھ،مراد آبد،مظفر نگر،نینی تال،پیلی بھیت،پرتاب گڑھ،رائے بریلی،رام پور،سہارنپور،شاہ جہاں آبد،سیتا پور،وارانسی۔

    مغربی بنگال: کلکتہ، مرشد آبد،ندیا، پر گنہ۔([xlii])

    رئیس احمد جعفری جبل پور بھارت میں 1961ء میں ہونے والے مسلمانوں کے کشت و خون کا ذکر کرنے کے بعد ہندو اخبارات کا تجزیہ اس طرح نقل فرماتے ہیں:

    ‘‘نئی دہلی 26 مئی۔بھارت میں ہر بارہ دن کے بعد ایک مسلمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔گزشتہ دس برس کے فسادات سے متعلقہ اعدادو شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارتی اخبارات نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے کسی نہ کسی علاقہ میں سات روز کے بعد مسلمانوں کے خلاف فساد برپا ہوتا ہے۔فی الحقیقت بھارت میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی مسلمان کو فرقہ وارانہ فسادات میں مجروح نہ کیا جاتا ہو۔اخبارات نے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمان اقلیت کو جن مظالم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے فی الحقیقت وہ وسیع پیمانہ پر نسل کشی ہے جس کی تاریخ عالم میں مثال نہیں ملتی۔’’([xliii])

    یہ مظالم قیام پاکستان سے تا حال جاری ہیں اور خاص مقاصد کے تحت ان کی تفصیلات میڈیا پر نشر نہیں کی جاتی۔ان فسادات کی تصاویر اور ویڈیوز باآسانی انٹر نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔اندرا گاندھی کے دور میں 1981ء میں جب بہار کے فسادات میں مسلمانوں کوانتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تو اندرا گاندھی(امن کی دیوی)مسلمانوں کی لاشوں سے اٹھنے والے تعفن سے ناک اور منہ پر کپڑا رکھ کر دورے پر آئیں انہوں نے لاشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور رپورٹر کے بقول ‘‘تو وہ بھی اپنے آنسو نہیں روک سکیں۔’’([xliv])([xlv])چند سال قبل آسام ،گجرات اور احمد آباد وغیرہ میں ہونے والے فسادات کے مناظر دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔کاش کہ وہ نئی مسلمان نسل جو اپنے دشمن کو دوست سمجھ بیٹھی ہے اور ان کو خود سے بہتر سمجھتی ہے وہ ان حقائق کو جاننے کی کوشش کریں تا کہ ان کی آنکھوں سے بے وقوفی اور معصومیت کی پٹی اترے اور وہ اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوسکیں۔ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے منتری ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ مل کر دنیا کے مختلف ممالک سے ضروری معلومات حاصل کر نے کے لیے بے شمار سیل قائم کیے ۔ان میں ہسپانیہ کے سیل کو انتہائی اہمیت تھی ۔اس سیل کی زیر نگرانی ایک وفد اسپین بھیجا گیا تا کہ ان تمام اسباب و علل کو جمع کیا جا سکے جن کی وجہ سے اسپین میں مسلمانوں کی سات سو سالہ حکومت زوال کا شکا ر ہوئی ۔پھر ان تمام معلومات کو جمع کرنے کے بعد ان میں جدیداضافے کیے گئے اور ان تمام تجربات کی روشنی میں بر صغیر کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور نسیا ً منسیاًبنانے کی پالیسی تشکیل کی گئی۔تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان شراب و شباب میں غفلت کی زندگی گزارنے لگیں اور ان میں جہاد ختم ہو جائے تو پھر تباہی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔شکیب ارسلان نے زوال امت کے درج ذیل اسباب بیان فرمائے ہیں:

    ۱۔جانی اور مالی جہاد سے پہلو تہی

    ۲۔اپنے دین اور قوم سے غداری اور دشمنوں سے وفاداری۔

    ۳۔جہالت اورکم علمی

    ۴۔اخلاق کا زوال

    ۵۔علماء اور حکمرانوں کا زوال

    ۶۔دردناک بزدلی اور مایوسی

    ۷۔الحاد پروری اور قدامت پسندی

    ۸۔اسلامی تہذیب اور اسلام سے بد گمانی([xlvi])

    یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے مکمل طور پر پہلے دن سے ہی ایک نظریاتی جنگ اہل پاکستان پر مسلط کر رکھی ہے۔اسی لیے جب 1971ء میں پاکستان بھارتی و بین الاقوامی سازشوں اور اپنوں کی خیانت سے دو لخت ہوا تو اندرا گاندھی نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کا بدلہ لینے اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ کیا۔آج بھی آپ تمام پاکستانی چینلز کو ایک ایک کرکے دیکھتے چلے جائیں آپ پر یہ بات بخوبی واضح ہو جائے گی کہ اسلامی نظریات کو ختم کر کے مسلمانوں میں الحاد و ذہنی ارتداد کو پروان چڑھانے کے لیے ۲۴ گھنٹے صرف کیے جارہے ہیں۔مسلمانوں کی اس قدر ذہنی تخریب کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے ذریعہ نجات یعنی اسلام ہی کو اپنے زوال کا سبب سمجھ کر غیر وں کی تہذیب کو اپناتے چلے جا رہے ہیں۔ ماسٹر تارا سنگھ نے جنھوں نے سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر ابھارا تھا 24ستمبر کے اپنے بیان میں اعترا ف کیا:

    ‘‘ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ہمارے سکھ اور ہندو بھائی اس فرقہ وارانہ جنگ میں مسلمانوں عورتوں اور بچوں پر شرمناک حملوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔’’([xlvii])

    ڈیلی میل لندن نے ۹ ستمبر 1947ء کو لکھا کہ جب سکھوں نے پچاس مسلمانوں کو بے دردی سے دہلی کے پرانے اسٹیشن پر ذبح کیاتوپولیس وہاں کھڑی دیکھتی رہی اور کسی ایک دہشت گرد پر بھی فائر نہیں کھولا گیا۔([xlviii])اللہ تعالیٰ نے سکھوں کو ان کے ہندو بھائیوں کے ہاتھوں ہی جس طرح ذلت و رسوائی سے دوچار کیا وہ دنیا میں ان کے لیے اخروی عذاب کی ایک جھلک بن کر ان کے سامنے آگیا۔جب سکھوں کی جانب سے خالصتان کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور ان میں علیحدگی پسند تنظیموں نے جنم لیا تو بھارتی حکومت نے قوت کے ساتھ ان کے اس مطالبہ کو کچل دیا۔۳ جون 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا جسے بھارتی فوجی تاریخ میں آپریشن بلیو اسٹار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس آپریشن میں ۵۰۰ سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا اور ان کی مذہبی عبادت گاہ کے کئی حصے منہدم کر دیئے گئے۔اس کے بعد Operation Wood roseکا آغاز کیا گیا جس میں ہزاروں سکھوں کے گھروں میں گھس کر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔([xlix])

    اس آپریشن میں اپنے لوگوں کے قتل عام اور مذہبی مقامات کی توہین کی وجہ سے سکھوں نے اپنا بدلہ اس صورت میں لیا کہ 31 اکتوبر 1984ء کوپرائم منسٹر اندرا گاندھی کو اس کے دو سکھ محافظوں نے اس کے اپنے ہی گھر میں گولیوں سے چھلنی کر دیا۔اس واقعہ کے بعد سکھوں کو گھروں سے نکال نکال کر ہندوؤں نے خالصتان مانگنے اور اندرا گاندھی کو قتل کرنے کی پاداش میں اتنی بے دردی سے قتل کیا کہ اس کیفیت کو قلم سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔یہاں ثریا حفیظ الرحمٰن جو ان تمام حالات کی چشم دید گواہ ہیں ان کی کتاب سے چند اقتباسات ذکر کرنا مناسب ہو گا:

    ‘‘دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب میرے شوہر باہر جانے کے لیے تیار ہو ئے تو دونوں مہمانوں نے بتایا کہ انہوں نے صدر بازار کے ایک گھر سے اپنا کچھ سامان لینا ہے۔انہوں نے ٹیلی فون کر کے ادھر کے حالات پوچھے تو جواب ملا کہ صدر بازار کے سارے علاقہ میں آتش زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے،سڑکیں سرداروں کی لاشوں سے پٹی پڑی ہیں۔ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہے۔اس وقت تو سرداروں کو گھروں سے نکال نکال کر بجلی کے کھمبوں سے باندھ کر زندہ جلایا جا رہا ہے۔’’

    ‘‘خیر جب گھر سے نکلے تو ہر طرف گہرے کالے دھوئیں کے بادل چھا رہے تھے۔سڑکوں پر جا بجا موٹروں کی شیشوں کی کرچیاں بکھری پڑی تھیں۔جلی ہوئی کاریں ،بسیں،ٹرک،سکوٹر اور آئل ٹینکر راستہ روکے ہوئے تھے۔سرداروں کی املاک شعلوں کی نذر ہو رہی تھیں ،دوکانیں لوٹی جا رہی تھیں اور جگہ جگہ سرداروں کو کھمبوں سے باندھ کر پیڑول چھڑک کر زندہ جلایا جارہا تھا۔کوئلہ ہوئے ٹیکسی سٹینڈز اور ٹیکسیاں شمشان بھومیوں کے مناظر پیش کر رہے تھے۔سکھوں کو زندہ جلانے کے لیے پٹرول ،مٹی کا تیل اور گن پوڈر،بے تحاشہ استعمال ہو رہا تھا۔’’

    ‘‘جمعہ دو نومبر کی رات بہت ہولناک تھی۔پرانے شہر میں پوری طرح کرفیو لگا ہوا تھا۔نئی دہلی میں بھی کئی جگہوں پر کرفیو نافذ تھا۔لیکن ٹرانس یمنا کی حالت تو حشر کے میدان میں یوم حساب کا منظر پیش کر رہی تھی۔سکھ چنڈال پوریاں یعنی نو آباد سکھ کالونیاں صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی تھیں۔گلیوں بازاروں میں سکھ خاندانوں کی متعفن لاشیں کتے اور سور بھنبھوڑ رہے تھے۔بچی کچھی سردارنیاں چیتھڑے لٹکائے پاگل ہو کر سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی تھیں۔نئی نویلی دلہنوں کے سہاگ لٹ چکے تھے اور غنڈے ان کے جسموں کو نوچ نوچ کر اور کاٹ کاٹ کر کتوں کے آگے ڈال رہے تھے۔ایسی قتل و غارت گری ہوئی کہ ہر بستی مذبح خانہ بن گئی۔ٹخنوں تک انسانی خون میں لتھڑے ہوئے ہندو درندے، غول بیابان بن چکے تھے۔یہ کہانی نہیں حقیقت ہے۔میں صرف ایک عمارت کے مکینوں کو اس جہان سے رخصت کرنے کی چھوٹی سی خبر لکھ رہی ہوں ۔ایک ہی کنبے کے لوگ جو ایک بلڈنگ کے (احاطے)میں اکٹھے ہنستے بستے رہ رہے تھے۔اس احاطے کے اکیس آدمیوں میں سے صرف ایک اسی سالہ بوڑھے کو دانستہ زندہ رکھا گیا۔باقی سب کو مو ت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔جوان لڑکیوں کو چماروں کے سپرد کر دیا گیا اور باقی بچوں عورتوں کو کلہاڑیوں ٹوکوں سے ٹکڑے کر کے سوروں اور کتوں کے آگے ڈھیر لگا دیئے گئے’’۔([l])

    ہندوستان کے مظالم کی فہرست بہت طویل ہے۔سری لنکا میں بھارت کا منافقانہ کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔بغاوت کو ہوا دینے اور حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کرنے میں بھارت کا کردار بہت منفی رہا ہے۔سری لنکا میں بھارت کی ایک لاکھ فوج نے تین سے چار ہزار تامل شہریوں کا قتل عام کیا اور لا تعداد تامل عورتوں کی عصمت دری کی۔بھارتی فوجیوں نے اس بر بریت کا اظہار کیا کہ خود تامل متشددین نے اعتراف کیا کہ Indian Peace keeping Force, IPKF امن کے بجائے ملک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہے۔([li])یہی وجہ ہے کہ جب وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سری لنکا میں بھارتی فوج دوبارہ بھیجنے پر اپنے الیکشن کی بنیاد ڈالی تو Dhanu نامی ایک تامل کم سن لڑکی نے جس کو کئی بھارتی فوجیوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اس کے خاندان کو قتل کر دیا تھا ،ایک خود کش حملے میں راجیو گاندھی کو قتل کر دیا۔([lii])

    برما میں مسلمانوں کے حالیہ قتل عام کے پیچھے بھی ہندو ذہنیت ہی کار فرما ہے۔نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق:

    میانمار میں ۴۰ لاکھ مسلمانوں کو شہید کرنے کا منصوبہ ،بھارت کے ملوث ہونے کا انکشاف:

    منموہن کے 2012ء کے دورہ کے بعد فسادات شروع ہوئے ۔بھارت کے لیے صوبہ ارکان کی عالمی تجارت کے لیے وہی اہمیت ہے جو پاکستان کی گودار پورٹ کے لیے ہے۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی میانمار میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فراہمی، اب تک ۲ لاکھ مسلمان ،330 مساجد شہید،1200 بستیاں نذر آتش کی گئیں۔

    ‘‘لاہور(نیوز ڈیسک)بھارت میانمار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اس مقصد کے لئے جون 2012ءمیں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے میانمار کا دورہ کیا ان کے ساتھ انتہا پسند ہندو تاجر وں کا ایک وفد بھی شامل تھا۔میانمار کے صوبہ ارکان کی اکثریت کی آبادی 40لاکھ پر مشتمل ہے۔یہ علاقہ سمندر سے لگتا ہے۔عالمی تجارت کے لیے جو اہمیت گوادر پورٹ کی پاکستان کے لیے وہی بھارت کے لیے صوبہ ارکان کی ہے۔ارکان کا منموہن سنگھ ،بھارتی خفیہ ایجنسیوں را،رام اور انتہا پسند ہندو تاجروں نے جائزہ لیا تو انہوں نے بودھ مت حکومت کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو اس صوبہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔چنانچہ منموہن کے 2012ء میں دورے کے ایک ہفتے بعد فسادات میں ۲۰ ہزار مسلمانوں کو پلاننگ کے ذریعے شہید کر دیا گیا۔ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔شراب اور سور کا گوشت انہیں زبردستی کھلایا جا رہا ہے۔ان کے پیٹ چاک کر کے انتڑیاں درختوں پر لٹکا دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ بودھ مذہب قبول کرو یا علاقہ چھوڑ دو۔بودھ جہاں مسلمان لڑکیا ں دیکھتے ہیں ان کی عزت کا جنازہ نکال دیتے ہیں کئی خواتین عزت کی خاطر دریا میں ڈوب کر اپنی جان گنوا چکی ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر انتہا پسند ہندوؤں ،انتہا پسند بودھ پر مشتمل ماگھ نامی دہشت گرد تنظیم قائم کی گئی ہے جس نے منموہن کے دورے کے بعد علاقے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھ کر مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا گھناؤنا منصوبہ تیار کر رکھا ہے جس پر تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے،میانمار کے صوبہ ارکان میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں بودھ مت کے پیروکاروں کو ہتھیار فراہم کر رہی ہیں جن سے نہتے بے گناہ معصوم جانوں کا قتل عام جاری ہے۔گذشتہ دو برس کے دوران دو لاکھ مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔منصوبے کے مطابق یہ پروگرام ۴۰ لاکھ کلمہ گو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے تک جاری رہے گا۔۱۲۰۰ بستیاں نذر آتش، ۳۰۰ سے زائد مساجد شہید ،قرآن پاک کی بے حرمتی، خواتین کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔پناہ کے لیے جنگلوں میں جانے والوں کو راستے میں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا۔سینکڑوں خواتین سے پوجاریوں کی زیادتی،حاملہ خواتین کے پیٹ چاک،زندہ بچے نکال کر آگ میں پھینک دیئے گئے’’۔([liii])

    اس وقت پوری اسلامی دنیا حالت جنگ میں ہے۔ان کی جان، مال،عزت اور دین کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔اس حالت میں روئے زمین کے مسلمانوں کوقوم پرستی،لسانیت اور رنگ و نسل کے اختلافات کی بنیا د پر جمع نہیں کیا جا سکتا ۔ تاریخ اور حال سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہنود ویہود مسلمانوں کے خلاف ایک ملت ہیں۔ ہجرت آزادی میں مشرکین اور سکھوں نے بلا تفریق فرق و مسالک مسلمانوں کا قتل عام صرف اس لیے کیا کہ وہ مسلمان تھے ۔آج بھی ان کا قتل عام اسی علت کی بنا پر مختلف ممالک میں کیا جا رہا ہے۔دشمن کی تلوار مسلمان کو قتل کرنے سے قبل اس کا مسلک و مذہب یا فرقہ نہیں پوچھتی ان کے لیے قابل گردن زنی ہونے کے لیے کلمہ گو ہونا ہی کافی ہے۔اگر مسلمان آج بھی اپنی بقا چاہتے ہیں تو انہیں کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پر جمع ہونا پڑے گا تا کہ اس رشتہ ایمان میں منسلک ہونے کے بعد یہ ایک دوسرے کے درد و تکلیف کو محسوس کرتے ہوئےکم از کم اپنے دفاع اور معیشت کو ایک کر لیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

    وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ﴿النساء: ٧٥﴾

    ‘‘اور(مسلمانو!)تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (غلبۂ دین کے لیے) اور ان بے بس (مظلوم و مقہور)مردوں ،عورتوں اور بچوں (کی آزادی)کے لیے جنگ نہیں کرتے جو(ظلم و ستم سے تنگ ہو کر)پکارتے ہیں:اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے لوگ ظالم ہیں اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے،اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے۔’’

    اگر ہم نے اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کیا تو نتیجتاً ایک ایک کر کے تمام اسلامی ممالک کفر کے قدموں تلے روند دیئے جائیں گے اور ہمارا اپنا حال بھی ان سے مختلف نہ ہو گا۔تمام عالم اسلام کو ایک کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کو دشمن کا اصل چہرہ دکھا دیا جائے تاکہ مسلمان ایک دوسرے کے حالات سے بھی آگاہ ہوں۔یہ عمل مسلمانوں کی صفوںمیں اتحاد پیدا کرنے اور ان کو بنیان مرصوص بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ہم پاکستانی میڈیا کے مجموعی رویہ سے مایوس ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلمانانِ عالم کا ایک دوسرے کے احوال سے آگاہ ہو نا بہت ضروری ہے۔ہجرت آزادی کے حقائق و واقعات میں مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا ایک دور ان کے عروج سے شروع ہوا اور مغلیہ سلطنت کے اختتام پر ختم ہوا۔دوسرا دور جنگ آزادی سے شروع ہو کر تحریک پاکستان اور قیام پاکستان پر ختم ہوتا ہے۔ہجرت آزادی میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام اور ان کا بے گھر و بے آبرو ہونا ہندوستان میں مسلما ن حکمرانوں کی غفلت اور عیاشی کا ثمرہ ہے۔مسلمانوں نے دعوت و تبلیغ پر بھی خاص توجہ نہیں دی کہ اپنی حکومت کی مدت مدید میں ہی ان کے دماغوں کو اسلام کی عظمت کا قائل اور ان کے دلوں کو اس پیغام کی طرف مائل کر لیا جاتا۔اوراق میں بکھری مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی داستانیں یہ سبق سکھاتی ہیں کہ مسلمان ہمیشہ اپنے مردوں،عورتوں،بوڑھوں اور بچوں کو فوجی تربیت دیں اور انہیں تیار رکھیں تا کہ بوقت ضرورت کم از کم اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوں سکیں۔تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب ترتیب دیا جائے کہ نئی مسلمان نسل میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی محبت پیدا ہو اور وہ کسی مشرک یا یہودی کو اپنا آئیڈیل بنانے کے بجائے اپنے قومی اور اسلامی ہیروز کی اتباع کرنے میں فخر محسوس کریں۔شہدائے پاکستان کے خون کا تقاضا ہے کہ ان کے پاکیزہ خون سے محمد بن قاسم،محمود غزنوی اورسلطان ٹیپو کی داستان رقم کرنے والی نئی نسل تیار کی جائے۔ہندو قوم کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر طاقتور شے کی عبادت کرتی ہے اور کمزور و نحیف کو ملیچھ سمجھ کر کچل دیتی ہے۔بغل میں چھڑی اور منہ میں رام رام اس کا طرہ ٔ امتیاز ہے۔اس لیے اس دشمن سے کبھی بھی خود کو غافل نہ رکھیں جس کا گٹھ جوڑ یہود کے ساتھ ہے۔

    نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی وہ تمام تر واقعات بیان فرمادیئے تھے جو قیامت تک واقع ہونے والے ہیں تاکہ اہل ایمان آئندہ وقوع پذیر ہونے والے فتنوں سے اپنے ایمان کو محفوظ رکھ سکیں اور آزمائشوں اور مصائب میں ثابت قدم رہتے ہوئے دیگر اہل اسلام کی حفاظت بھی کر سکیں۔حضرت امام مسلم علیہ الرحمۃ روایت فرماتے ہیں:

    و حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ جَمِيعًا عَنْ أَبِي عَاصِمٍ قَالَ حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ أَخْبَرَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ حَدَّثَنِي أَبُو زَيْدٍ يَعْنِي عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتْ الظُّهْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتْ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ فَأَخْبَرَنَا بِمَا كَانَ وَبِمَا هُوَ كَائِنٌ فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا[liv]
    حضرت عمرو بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :’‘ رسول اللہ ﷺنے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر ہم سے خطاب فرمایایہاں تک کہ ظہر کی نمازکا وقت ہو گیا ۔پھر نیچے تشریف لائے نماز ادا کی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے ہم سے خطاب فرمایا یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا۔پھر نیچے تشریف لائے نماز ادا کی،پھر منبر پر تشریف فر ما ہوئے،پھر ہم سے خطاب فرمایا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔پس آپ ﷺ نے ہمیں خبر دے دی اس کی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہونے والا ہے۔۔پس ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جس نے اسکو زیادہ یاد رکھا۔’’
    رسول اللہ ﷺ کی ان اخبار و احادیث میں کئی ایک مقامات پر امت کو اپناایمان بچانے کی نصیحت کی گئی ہےاور اس کے ساتھ عظیم فتوحات کی وہ بشارتیں بھی دی گئی ہیں جو مایوسی کے عالم میں یقین کی کیفیت کو پیدا کر دیتی ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كِلَاهُمَا عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيَّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ يَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ وَلَوْ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا أَوْ قَالَ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا[lv]
    حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہا:’‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو سمیٹ دیا اور میں نے اس کے تمام مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا۔اور جو زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی تھی عنقریب میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی اورمجھے سرخ اور سفید دو خزانے دئیے گئے اور میں نے اپنی امت کے لیے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ وہ اس کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور ان کے علاوہ ان پر کوئی دشمن نہ مسلط کیا جائے،جو ان سب کی جانوں کو مباح کرے،اور بے شک میرے رب نے فرمایا: اے محمد!ﷺ جب میں کوئی فیصلہ کر دوں تو وہ رد نہیں ہوتا ،اور بے شک میں نے تمہاری امت کے لیے فیصلہ کر دیا ہے کہ ان کو عام قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا اور ان کے علاوہ ان کے اوپر کوئی ایسا دشمن مسلط نہیں کروں گا جو ان کی جانوں کو مباح کر ےخواہ ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہو جائیں ،ہاں اس امت کے بعض لوگ بعض دوسروں کو ہلاک کر دیں گے اور بعض بعض کو قید کریں گے۔’’
    اہل اسلام ہند پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں تاکہ اللہ رب العزت ان کو اس بشارت سے سرفراز فرمادے جو غزوۂ ہند میں شریک ہونے والے مجاہدین کے لیے ہے کہ اگر وہ اس میں شہید ہو جائیں تو وہ افضل الشہداء ہیں اوراگر غازی بن کر لوٹیں تو اللہ ان کے تمام گناہوں کومعاف فرما دے گا۔حدیث شریف کے مطابق غزوہ ٔ ہند کی تکمیل حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک کے ذریعے ہوگی ۔جس میں ہندوستان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر ان کے سامنے پیش کیا جائے گا اور ہندوستان مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے اہل اسلام کے تحت آجائے گا۔

    پاکستان وہ مبارک اور پاک سر زمین ہے جسے اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو نعمت عظمیٰ کے طور پر شب قدر کو رمضان المبارک میں عطافرمایا ہے۔اہل اسلام اور اہل پاکستان کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مشرکین اور یہودیوں کو اللہ رب العزت نے مسلمانوں کا سب سے شدید ترین دشمن قرار دیاہے۔اللہ رب العزت نے فرمایا:

    لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا [lvi]
    آپ یقیناً ایمان والوں کے حق میں بلحاظِ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔
    آج بھی یہودوہنود عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ہماری نوجوان نسل اس بات کو ذہن نشین کر لے کہ پاکستان وہ عظیم مملکت ہے جسے ہمارے آباواجداد نے اپنی جان،مال،عزت و آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے۔اس ملک کی تعمیر میں ان بہنوں کی قربانی بھی شامل ہے جن کے برہنہ جلوس بازاروں میں نکالے گئے۔یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اور نظریاتی طور پر ایک اسلامی ملک ہے۔اسلام اور پاکستان کا باہمی گہرا تعلق ہے۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی کسی خارجی حملے کا خطرہ ہوتا ہے تو قوم کو سیکولرازم کے نام پر جمع نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے بلکہ اس قوم کو اس کلمہ کی بنیاد پر جمع کیا جاتا ہے جو اس کا مطلب و مقصد ہے یعنی

    لا اله الا الله محمد رسول الله ﷺ

    پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام کے نام پر ہی پر امن،قائم اور شاد بادرہ سکتاہے۔پاکستان رہے یا نہ رہے اسلام تو رہے گا لیکن جس خطۂ زمین کو اللہ رب العزت نے اس دور میں اسلام کی سربلندی،حرم کی پاسبانی اورعالم اسلام کی قیادت کے لیے منتخب کیا ہے، وہ پاکستان ہے۔پاکستان امت کی آبرو اور حرم کی نگہبانی کا امین ہے۔مسلمانوں کا آخری قلعہ اور آخری چٹان ہے۔اس لیے اس کی حفاظت کریں اور اس سے محبت کریں۔وہ لوگ جو اپنا مستقبل یورپی ممالک سے جوڑے ہوئے ہیں وہ اس بات کو قلب و ذہن پر نقش کر لیں کہ اگراللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کشور حسین میں رہتے ہوئے امت مسلمہ کی قیادت و خدمت کا کام سر انجام دیں ۔ اس وقت بالخصوص اطراف و اکناف سےعالم کفرجمع ہو کرپاکستان کے حصے بخرے کرنے کی کوشش کر رہا ہےکیونکہ اس پاک سر زمین کو روند نے کے بعد ان کے لیے کوئی اور اسلامی قوت ایسی باقی نہیں بچے گی جو ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں سد ذوالقرنین ثابت ہو سکے۔ہم ہندوستان کا کئی بارمیدان کارزار میں سامنا کر چکے ہیں جس میں ہم نے دشمن کو مسکت اور دندان شکن جواب دیا ہے البتہ ہماری بد اعمالیوں اورصفوں میں موجود غداروں کی وجہ سے ہمیں بعض مواقع پرتکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ہندوستان کے مشرکین کے ساتھ ہونے والی ہر جنگ غزوۂ ہند کا ہی حصہ ہے جس کی تکمیل احادیث کے مطابق حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی۔

    [i] سیرت ابن ہشام،ج:2/ص:593
    [ii] المستدرك على الصحيحين للحاكم،رقم الحدیث :۷۲۷۹
    [iii] محمدرسول اللہ ﷺ ،ص:۱۹۹
    [iv] المستدرک للحاکم:رقم الحدیث:3954
    [v] عرب و ہند کے تعلقات :ص:28
    [vi] فتوح البلدان ،ج:3/ص:531
    [vii] مشارع الاشواق:ص:۹۱۸۔۹۱۹
    [viii] تاریخ فرشتہ،محمد قاسم فرشتہ،ج:۱/ص:46
    [ix] تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:655 تا 659
    [x] تاریخ الاسلام:ج:۶/ص:۳۶
    [xi] تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:91
    [xii] تاریخ کلیسیائے ہندو پاک ،ج:۴/ص 306
    [xiii] تاریخ کلیسائے پاکستان،ص:67
    [xiv] تاریخ کلیسیائے ہند و پاک:ج:۴/ص 301
    [xv] حجاز ریلوے، نسیم احمد، ص:221
    [xvi] المائدۃ:82
    [xvii] کتاب الہند، ص:20 تا23
    [xviii] کتاب الہند:ص:108
    [xix] کتاب الہند:ص:109-110
    [xx] کتاب الہند:ص:477۔478
    [xxi] جس دیش میں گنگا بہتی ہے،ص:25
    [xxii] جس دیش میں گنگا بہتی ہے:ص:101
    [xxiii] قائد اعظم کے تصور کا پاکستان، ص:239
    [xxiv] Muhammad Asad, This Law of Ours, What do we mean by Pakistan, Page 71
    [xxv] Speeches and Statements of Iqbal, page 35, 36
    [xxvi] Genesis 15:18-21
    [xxvii] http://www.jewishvirtuallibrary.org/jsource/Zionism/pinsker.html
    If we would have a secure home, give up our endless life of wandering and rise to the dignity of a nation in our own eyes and in the eyes of theworld, we must, above all, not dream of restoring ancient Judaea. We must not attach ourselves to the place where our political life was once violently interrupted and destroyed. The goal of our present endeavors must be not the “Holy Land,” but a land of our own. We need nothing but a large tract of land for our poor brothers, which shall remain our property and from which no foreign power can expel us. There we shall take with us the most sacred possessions which we have saved from the ship-wreck of our former country, the God-idea and the Bible . It is these alone which have made our old fatherland the Holy Land, and not Jerusalem or the Jordan. Perhaps the Holy Land will again become ours.
    [xxviii] http://www.jewishvirtuallibrary.org/jsource/Zionism/herzl2b.html
    [xxix] پاکستان ناگزیر تھا،ص:547
    [xxx] عہد لارڈ ماؤنٹ بیٹن، ص:230
    [xxxi] الکھ نگری،ممتاز مفتی،ص:19
    [xxxii] 1947ء کے آنسو،ص: 19 تا 35
    [xxxiii] 1947ء کے آنسو، ص: 285
    [xxxiv] خون کی ہولی، ص:226۔227
    [xxxv] اخراج اسلام از ہند، ص:78
    [xxxvi] قائد اعظم جناح، جی الانہ، ص:۵۰۵
    [xxxvii] قائد اعظم جناح، جی الانہ،ص:۵۰۵۔506
    [xxxviii] Hector Bolitho , Jinnah, Creator of Pakistan, page:189
    [xxxix]جب امرتسر جل رہا تھا،ص:265
    [xl] جب امرتسر جل رہا تھا، ص:266
    [xli] ظہورپاکستان، ص۳۱۳
    [xlii] ہندوسستانی مسلمان، ص:67۔68
    [xliii] خون کی ہولی،ص28
    [xliv] ۱۹۴۷ءکے آنسو:ص:275
    [xlv] عظیم قائد عظیم تحریک،جلدنمبر :۱،ص:۵۵۳
    [xlvi] اسباب زوال امت،مترجم:ڈاکٹر احسان بک سامی حقی، ملخصاً
    [xlvii] جناح پیپرز:ج:۵/ص:50
    [xlviii] The Tragedy of Delhi(Through the Neutral Eye), page 11
    [xlix] Robert A.Pape, Dying to Win, Page: 156
    [l] جس دیش میں گنگا بہتی ہے:ص:138۔142۔145
    [li] Robert A.Pape, Dying to Win, Page: 152
    [lii] Robert A.Pape, Dying to Win, Page: 226
    [liii] نوائے وقت۔بروز ہفتہ،یکم جون 2013ء ،ص:۶
    [liv] صحیح مسلم: 5149
    [lv] صحیح مسلم: 5144
    [lvi] المائدۃ:۸۲

  • کشمیر توجہ چاہتا ہے – کامران امین

    کشمیر توجہ چاہتا ہے – کامران امین

    کشمیر میں جاری حالیہ تحریک آزادی کے حوالے سے کشمیری اور پاکستانی نوجوانوں کے نام کچھ گزارشات

    پچھلے 64 دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ آئے دن کشمیر کے نوجوان نہ صرف اپنی جانوں کے نظرانے پیش کر رہے ہیں بلکہ بھارتی فوج کی فائرنگ سے اپنی بینائی سے بھی محروم ہو رہے ہیں لیکن تمام تر ریاستی جبر کشمیریوں کو تحریک آزادی سے دستبردار کرنے سے قاصر ہے اور کشمیری پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے تحریک آزادی کی شمع کو فروزاں کر رہے ہیں۔ ایسے میں تحریک آزادی کشمیر کے حمایتیوں اور آزاد سرزمین پر رہنے والے کشمیریوں پر بھی کچھ زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور مجھے امید ہے ہمارے جوان ان زمہ داریوں کو سمجھتے ہیں۔
    ہم اگر وہاں جانے سے قاصر ہیں لیکن ہم یہاں سے ہو کر بھارت کے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر سکتے ہیں چنانچہ قلم کاغذ تھام لی جئے اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں لکھنا شروع کی جئے دنیا کو بتائے کہ ایک خطہ کشمیر بھی ہے جہاں انسان رہتے ہیں جنہیں اپنی مرضی سے جینے کا حق بھی حاصل نہیں۔ جو اپنا حق مانگتے ہیں تو انہیں موت ملتی ہے ۔ ہمیں اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی دنیا کی نظروں سے اوجھل نہ ہو اور نہ ہی سے کوئی کسی سرد کانے میں ڈال سکے۔
    اٹوٹ انگ اور شہ رگ کے نعروں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عالمی دنیا کو یہ باور کروایا جائے کہ کشمیری حق خود ارادیت مانگ رہے ہیں کشمیری اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔
    دنیا کے جس خطے میں بھی آپ موجود ہیں وہاں کے عوام کو اپنے دوستوں کو بھارت کے مظالم سے آگاہ کی جئے اس سلسلے میں تصویری نمائشوں کا سہارا بھی لیا جا سکتا ہے۔
    نوجوانوں سے گزارش ہے کہ مسئلہ کشمیر سے واقفیت حاصل کریں۔ یہاں بیجنگ میں انڈیا کے طالب علم بھی ہیں اور پاکستان کے بھی۔ اکثر پاکستانی طالب علموں کو مسئلہ کشمیر کا سرے سے اندازہ ہی نہیں ہوتا لیکن انڈیا کے طالب علموں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا متن بھی یاد ہوتا ہے۔
    فیس بک ٹوئیٹر اور اس کے علاوہ سوشل میڈیا کا جو بھی پلیٹ فارم آپ استعمال کر رہے ہیں اس پہ ہر روز کم از کم ایک تحریر کشمیر کے لئے بھی لازمی لکھیں۔ اگر آپ خود تحریر لکھنے سے قاصر ہیں تو کسی دوسرے کی تحریر کو شئیر کر دیں۔
    اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو تحریک آزادی کشمیر کے نام پر چندے مانگنے والوں کی بجائے آپ براہ راست کسی کشمیری خاندان کے زریعے کشمیر کے شہدا کے وارثین تک مالی امداد پہنچائیں ۔ کشمیریوں کی کافی بڑی تعداد دوسرے ممالک میں آباد ہے آپ ان لوگوں کی مدد لے سکتے ہیں۔
    اگر آپ اور کچھ نہیں کر سکتے تو فیس بک پر Kashmir Global اور Greater Kashmir نامی دو پیج ہیں انہیں لائک کی جئے اور ان کی پوسٹ کو آگے شئیر کریں

  • میاں نوازشریف کا المیہ – فیض اللہ خان

    میاں نوازشریف کا المیہ – فیض اللہ خان

    فیض اللہ خان میاں نوازشریف اور اتحادیوں کا المیہ یہ ہے وہ آتے ہی فوج سے پنگے شروع کردیتے ہیں اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بجلی کی تاروں اور اسٹیبلشمنٹ کے کاموں میں انگلی کرنے کا انجام زوردار جھٹکے کی صورت میں نکلتا ہے. خیر سے میاں صیب اس میں خود کفیل ہیں ۔

    نصیب اچھے ہوں تو ہمیں اردگان جیسا مدبر ملتا جس نے اقتدار پر قبضہ کرنے میں مشہور طاقتور ترین فوج کو فقط کارکردگی کی بنیاد پر پیچھے کیا۔ عوامی طاقت اور رائے عامہ تب ساتھ ہوتی ہے جب آپ روٹی کپڑا مکان فراہم اور تھانہ کچہری، پولیس، تعلیم، روزگار اور صحت کے معاملات نمٹا چکے ہوتے ہیں ۔

    موٹی عقل والوں کو کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کے بقول داخلہ، دفاع اور خارجہ میں ہی مرضی چاہتی ہے، باقی ملک اور وزارتیں آپ کی ہیں، کام کریں، کارکردگی دکھائیں اور عوامی اعتماد سے نہ صرف وہ تینوں وزارتیں عملا واپس لے لیں بلکہ طاقتور اداروں کو آئین کا پابند اور بیرکوں تک محدود کر دیں۔ ورنہ جو گھٹیا طریقے اختیار کر رہے ہیں، وہ آپ ہی کی گردن کا پھندا بنیں گے. ن لیگ کے شیروں میں کتنا دم خم ہے سب جانتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ایک گلو بٹ بھی باہر نہیں نکلے گا، پہلے بھی نہیں نکلا تھا، اور میاں فیملی کی بادشاہت کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہو کل کو دانیال عزیز اور طلال چوھدری وغیرہ پھر سے کسی آمر کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہے ہوں اور آپ جدہ میں بیٹھے ان کے منہ کے ساتھ اپنی عقل کو تک رہے ہوں۔

    فیصلے جرات کے ساتھ ضرور کریں، مگر تدبر کا ہونا بہت ضروری ہے. اجلاس کی کارروائی میڈیا کو لیک کرنے سے وفاقی حکومت، میاں برادران اور ن لیگی قیادت کا اعتماد مجروح ہوا ہے، خبر کے درست یا صحیح ہونے کا معاملہ نہیں، بات اقدار کی ہے جسے پامال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

    مقتدر اداروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں سویلینز پر اعتماد کی شرح کو بلند کرنا ہوگا، تلخیوں کے ساتھ گھر نہیں چل سکتے، ملک تو دور کی بات ہے، کروڑوں لوگوں کے نمائندے پر اعتماد کرنا پڑے گا، ان کی خامیوں کو اچھے انداز میں حل کرکے ملک کو صراط مستقیم پرگامزن کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں مشکل فیصلوں نے ملک کو جہنم بنا دیا تھا۔

    اصولوں کی پاسداری سول و ملٹری تعلقات کو بہتر بنا سکتی ہے، میڈیا پر بیانات سے کسی کا بھلا نہیں جگ ہنسائی ہی ہو رہی ہے.

  • سرجیکل اسٹرائیک، پاکستانی مؤقف اور جاری تحریک انتفاضہ کا حاصل – ایس احمد پیرزادہ

    سرجیکل اسٹرائیک، پاکستانی مؤقف اور جاری تحریک انتفاضہ کا حاصل – ایس احمد پیرزادہ

    29 ستمبر2016ء کو دلی میں موجود بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او رنبیریر سنگھ نے وزارت خارجہ کے ترجمان وکاسوروپ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر28 اور29ستمبر کی درمیانی رات کو پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں گھس کر سات مقامات پر سرجیکل اسٹرائیک کرکے عسکریت پسندوں کے لانچنگ پیڈ کو تباہ کرنے کے علاوہ وہاں موجود جنگجوؤں کا کافی جانی نقصان بھی کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی فوجی کمانڈوز نے پاکستانی علاقے کے تین کلو میٹر اندر جاکر کارروائی کی ہے۔ بقول ڈی جی ایم او کے اِن سرجیکل اسٹرائیکس کی اطلاع پہلے ہی پاکستانی ڈی جی ایم او کو دی گئی تھی۔ بعد میں بھارتی ٹی وی چینلوں نے فوج میں موجود ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی نشر کرنی شروع کردی کہ ان کارروائیوں کی نگرانی دلی میں براہ راست وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے دفاعی صلاح کار اجیت دُول کر رہے تھے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس پوری کارروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی ہے۔ پورے آپریشن میں چالیس کے قریب عسکریت پسندوں کو مارنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ 29 ستمبر کو ہی دن کے چار بجے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے آل پارٹی میٹنگ طلب کرکے تمام پارٹیوں کو پاکستان میں بھارتی فوجیوں کے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس میٹنگ میں فوج کے ڈی جی ایم او نے ہی مختلف جماعتوں کے نمائندوں کو بریف کرتے ہوئے پوری کارروائی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ آپریشن میں 70 کمانڈوز نے شرکت کی جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے سرحد پر اُتارا گیا، بعد میں وہ رینگتے ہوئے سرحد کے اندر تین کلومیٹر تک چلے گئے۔ ہیلی کاپٹر سے کمانڈوز اُتارنے کی بات کا بعد میں بھارتی فوج نے انکار کر دیا۔ اس بات کا بھی خلاصہ کیا گیا کہ یہ70 کمانڈوز پاکستانی حدود میں 6 گھنٹے تک رہے۔

    پاکستانی وزیردفاع خواجہ آصف اور آئی ایس پی آر کے ترجمان عاصم باجوہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بھارت کے اس دعویٰ کی نفی کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستانی حدود میں ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے، البتہ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج نے پاکستانی چوکیوں پر گولہ باری کی ہے جس کا بھرپور جواب دیا گیا۔ پاکستان نے کہا کہ 27 اور 28 ستمبر کی درمیانی رات کو ہونے والی اس گولہ باری میں پاکستان کے دو فوجی جاں بحق ہوگئے اور دیگر نو زخمی ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کی جوابی کارروائی سے ہندوستان کے چودہ فوجی ہلاک ہوگئے اور ایک بھارتی فوجی کو ہتھیار سمیت زندہ پکڑ لیا گیا۔ یکم اکتوبر کو پاکستانی فوج نے ملکی و غیر ملکی میڈیا ہاؤسز سے وابستہ نمائندوں کو کنٹرول لائن پر اس جگہ کا دورہ کروایا جہاں سرجیکل اسٹرائیک کیے جانے کا بھارت نے دعویٰ کیا تھا۔ یہاں پاکستانی فوج کے ترجمان نے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہ ہم دنیا بھر کے اخباری نمائندوں اور اقوام متحدہ کے مبصروں کو یہاں آکر تحقیقات کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

    بھارت کے اس دعوے کا بین الاقوامی سطح پر کوئی خریدار نہیں ملا ہے. یو این او نے پاکستان میں تعینات اپنے مبصروں کے حوالے سے کہا کہ زمینی سطح پر ایسی کوئی اسٹرائیک نہیں ہوئی ہے۔ معروف جاپانی اخبار ’’ڈپلومیٹ‘‘ میں اپنے ایک مضمون میں ایک دفاعی ماہر نے لکھا کہ ہندوستانی فوج کے پاس نہ ہی ایسی صلاحیت ہے اور نہ ہی ایسی ٹیکنالوجی جس کی بنیاد پر سرجیکل اسٹرائیک کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے بھارت کا یہ دعویٰ کمزور لگ رہا ہے۔

    سرجیکل اسٹرائیک مخصوص ٹارگٹ پر حملہ آور ہوکر مقصد حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔ پوری طرح جنگ چھیڑنے کے بجائے فوج دوسرے ملک میں انٹلیجنس اطلاعات کی بنیاد پر مخصوص جگہ پر آپریشن کرکے ٹارگٹ کو تباہ کرکے واپس آجاتی ہے۔ اس طرح کے آپریشن میں ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، نشانہ پہلے سے ہی سیٹ کیا جاتا ہے، سو فیصد صحیح اطلاعات کی ہی بنیاد پر حملہ کیا جاتا ہے اور ہوائی فوج کے علاوہ جنگی جہازوں کا بھی ایسی کارروائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرے ملک میں جاکر اس طرح کے آپریشن میں زیادہ تر کمانڈوز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کا آپریشن امریکہ نے ایبٹ آباد پاکستان میں القاعدہ سپریمو اسامہ بن لادن کے خلاف کیا تھا۔ ایبٹ آباد حملے کے بعد سے ہی بھارت میں بھی یہ آوازیں اُبھرنے شروع ہوگئی تھیں کہ پاکستان میں لشکر طیبہ اور دیگر عسکریت پسندوں کے کیمپوں پر ایبٹ آباد طرز کا آپریشن کیا جائے۔ رواں سال کی ابتداء میں 2 جنوری کو پٹھان کوٹ میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ائیرفورس بیس پر حملہ کے بعد بھارت میں چند حکومتی حلقوں نے بھی پاکستان کے اندر سرجیکل اسٹرائیکس کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ہزار دھمکیوں کے باوجود ہندوستان ایسا نہ کرسکا۔

    ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے 70ویں اجلاس کے موقعے پر جموں و کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف 70دنوں سے عوامی انتفادہ جاری تھا۔ اس دوران فورسز اہلکاروں کی گولیوں سے 90 افراد شہید ہوچکے تھے اور 13 ہزار کے قریب زخمی تھے۔ ایک ہزار نوجوان، خواتین، بچے اور بزرگ ایسے ہیں جن کی آنکھیں پیلٹ گن کے قہر کا شکار ہوکر بصارت سے ہی محروم ہوچکی تھیں۔ کشمیر کی اس عوامی جدوجہد کی پاکستان نے عالمی سطح پر بھرپور وکالت کی اور دنیا بھر میں پاکستانی سفراء اور نمائندوں نے یہاں ہو رہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالم انسانیت کو آگاہ کرنے کے لیے رات دن زوردار مہم چلائی۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں جاکر مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے، جو کہ اُنہوں نے پھر کیا بھی۔ ایسے میں 18 ستمبر کو اُوڑی میں آرمی بریگیڈ ہیڈ کواٹر پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ ہوتا ہے جس میں 19 کے قریب فوجی ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملہ کو پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کے حق میں چلائی جانے والی عالمی مہم کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے کی خاطر اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لیے ہندوستان نے اقوام عالم سے اپیل کرنی شروع کردی۔ اس حملے کی دنیا کے بہت سارے ممالک نے مذمت ضرور کی البتہ کسی بھی ملک نے حتیٰ کے بھارت کے قریبی دوست امریکہ نے بھی حملے کے لیے پاکستان کی جانب اُنگلی نہیں اُٹھائی، جس پر بھارت تلملا اُٹھا اور اس ملک میں میڈیا کے ذریعے سے پاکستان سے بدلہ لینے کے عوامی سطح پر جنگی جنون پیدا کیا گیا۔ وزیر اعظم نریندرمودی سے لے کر حکومت میں شامل ہر منسٹر نے پاکستان سے بدلہ لینے کا کھلے عام اعلان کردیا۔ ایک دم سے جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ فوج کو سرحدوں پر جمع کیا گیا اور پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کر دی گئیں۔ اس پر پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں جب یہ بات کہی کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان اپنے دفاع کے لیے نیو کلیئر بم کا استعمال کرے گا اور جب پاکستان نے موٹرویز پر جنگی جنازوں کے اُترنے اور پرواز کرنے کی مشقیں کیں تو یہ سب بھارت کے لیے واضح پیغام تھا کہ پاکستان کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت سے فوجی قیادت نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بڑی جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان سے زیادہ ہندوستان کا نقصان ہوجائے گا۔ اس کے بعد بھارتی وزیراعظم نے اپنی ایک تقریر میں اپنا پورا لہجہ ہی تبدیل کرکے کہا کہ اگر پاکستان کو جنگ کرنا ہی ہے تو آئیں غریبی کے خلاف جنگ کریں، پھر دیکھتے ہیں کون پہلے غریبی کا خاتمہ کرتا ہے۔ اس تقریر کے موضوع سے ہی عیاں ہوگیا کہ بھارت کا جنگی جنون ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ البتہ اپنے تیز اور دھمکیانہ بیان بازیوں میں بھارتی لیڈر شب خود ہی پھنس گئی۔ ہر سو جنگی جنون میں مبتلا بھارتی عوام نے اپنی حکومت سے اُوڑی حملے میں مارے جانے والے فوجیوں کا بدلہ لینے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا، جس پر فوج، میڈیا اور حکمران جماعت بی جے پی نے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کے اس ڈرامہ کا پورا پلاٹ تیار کرلیا۔

    سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے سے بھارتی پالیسی ساز اداروں نے ایک تیر سے کئی شکار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایک بھارتی عوام میں یہ احساس پیدا کرنا کہ پاکستان سے اُوڑی کا بدلہ لیا ہے، اس با ت کو اس لیے بھی تقویت حاصل ہوجاتی ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرتے وقت بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او نے یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں بھارت کا ایسی کارروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ گویا وہ بھارت عوام کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ دبے لفظوں میں پاکستان کو پیغام دے رہے تھے کہ آپ اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیں۔ دوسرا اہم فائدہ اس سے یہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ کشمیر میں جاری عوامی انتفادہ سے دنیا کی نظریں ہٹ جائیں اور بھارت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں بڑھتے دباؤ کو کم کیا جائے۔ سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے سے بی جے پی نے یہ فائدہ بھی سمیٹنے کی کوشش کی کہ اُنہیں آنے والے یوپی اور پنجاب کے انتخابات میں اس سے عوام کو گمراہ کرنے کا موقع نصیب ہوجائے۔ کامیابی کے لیے اس جماعت کے پاس کچھ نہیں اس لیے حسب معمول پاکستان اور مسلم دشمنی سے ایک مرتبہ پھر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔

    حکومت ہند اور بی جے پی کو اپنے اس دعوے سے مندرجہ بالا فائدے حاصل ہوتے ہیں یا نہیں، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ اس دعوے کے نتیجے میں جو کچھ بھارت کو آنے والے وقت میں بھگتنا پڑے گا، اُس کے آثار بھارت کے فوجی ماہرین کو بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ (ر) جنرل عطا محمد حسنین نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان اس کا بدلہ ضرور لے گا، بدلے کے لیے وہ وقت اور جگہ کا تعین خود کریں گے۔ شاید اسی لیے خفیہ چینلوں کے ذریعے سے بھارت نے پاکستان سے رابطہ کرکے اُنہیں دونوں ممالک کے درمیان ٹینشن کم کرنے کی بات کی ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنا بھارت کی سب سے بڑی غلطی ہے، کیونکہ اس طرح اگرچہ حکومت ہند نے وقتی طور پر اپنے عوام کو تھوڑے دنوں تک دل بہلائی کا سامان فراہم کیا ہے لیکن اِس طرح پاکستان کے اندر کس طرح کے جذبات جنم لیں گے، اس کا شاید ہندوستانی پالیسی ساز اداروں کو اندازہ نہیں ہے۔ جتنی بھی عسکری تنظیمیں بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں، اُنہیں یہ جواز حاصل ہوگیا کہ وہ بھارتی حدود میں داخل ہوکر کہیں بھی کارروائی کرسکتے ہیں۔ وہ اب بآسانی پاکستانی فوجی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو قائل کرسکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ فوج اور خفیہ اداروں میں شامل لوگ بھی اب خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ وہ ضرور چاہیں گے کہ بھارت کو سمجھایا جاسکے کہ پاکستانی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔گویا اس طرح کی کارروائی کا دعویٰ کرکے بھارت نے اپنے ملک میں کسی بھی جگہ عسکری کارروائیوں کا جواز فراہم کیا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے اندر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے آوازیں اُبھر رہی ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی پاکستان میں بھارتی حکومت کے دوست ہونے کا طعنہ سننا پڑ رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے کے بعد یہ طبقہ بھی اب یہ سمجھنے لگا ہے کہ اس ملک کے ساتھ دوستی کی تمام تر کوششیں لاحاصل ہی ثابت ہوں گی، اس لیے قوم کی مجموعی سوچ کے ساتھ چلنے میں ہی عافیت ہے۔ امریکہ اور دیگر دوسرے ممالک نے پاکستانی وزیراعظم پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اُوڑی حملے کی مذمت کریں، یہ پہلا موقع ہے جب پاکستانی وزیر اعظم نے امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں اُوڑی حملے کی مذمت کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ کشمیر میں بھارتی فورسز اہلکاروں کی جانب سے ہورہے قتل عام کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔

    ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیریوں کی رواں ایجی ٹیشن کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اصل حقیقت کے منافی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ رواں عوامی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں جو کچھ کشمیری قوم نے حاصل کیا ہے،گزشتہ تین دہائیوں کی جدوجہد میں کسی اور موقع پر ایسا نہیں ہوا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کشمیریوں کی عوامی ایجی ٹیشن سے دلی کے پالیسی ساز پوری طرح سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور اُنہوں نے پے در پے سرجیکل اسٹرائیک طرز کی ایسی حماقتیں کی ہیں جن کے ذریعے سے نہ صرف اندرون کشمیر بلکہ باہری دنیا میں بھی بھارتی جمہوری دعوؤں کی اصلیت ظاہر و باہر ہونے لگی ہے۔ ہماری جدوجہد نے کشمیر کے تئیں تبدیل ہونے والی پاکستانی پالیسی کو نہ صرف پرانی ڈگر پر لایا ہے بلکہ اُس میں اور شدت پیدا کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر جتنی طاقت آج پاکستان صرف کر رہا ہے، ایسا پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ عسکری جدوجہد یہاں گزشتہ 28 برسوں سے جاری ہے۔ آج تک کسی بھی عالمی فورم پر پاکستان نے عسکریت کی دوٹوک الفاظ میں حمایت کرنے کی جرأت نہیں کی، یہ پہلا موقع ہے جب اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس میں پوری دنیا کے سامنے پاکستان نے ایک عسکریت پسند برہان مظفر وانی کو نہ صرف کشمیریوں کا لیڈر قرار دیا بلکہ اُسے ہیرو بھی کہا۔ یہ گزشتہ تین ماہ کی جدوجہد کا ثمر ہے اور ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ جدوجہد سے جو کچھ تحریک حق خودارادیت جموں وکشمیر کو حاصل کرنا تھا، وہ ہوگیا ہے اور ہمیں قومی جدوجہد کی اس کامیابی کا ہر سو چرچہ کرنا چاہیے اور دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی اُن بڑی تبدیلوں کا انتظار کرنا چاہیے جن کے نتیجے میں اس قوم کی دہائیوں پر مبنی جدوجہد اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی اور آزادی کا سورج طلوع ہوگا.

  • گلگت بلتستان میں مقامی زبانیں – فہیم اختر

    گلگت بلتستان میں مقامی زبانیں – فہیم اختر

    فہیم اختر ثقافت شعوری طرز زندگی کا نام ہے، اس میں وہ تمام عقائد شامل ہوتے ہیں جو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا حصہ ہیں. ماہرین مذہب کو بھی ثقافت کا جز قرار دیتے ہیں۔ ثقافت سے سے کسی بھی قوم کی ترقی اور کامیابی، فن اور ہنر، اور علم و دانش کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جدید دور کو دنیا میں ثقافتوں کی جنگ بھی کہا جارہا ہے. مستقبل قریب میں دنیا میں انہی قوموں کا نام رہے گا جنہوں نے اپنی ثقافت کو محفوظ کیا ہو اور ان قوموں کا نام تاریخ بھول جائے گی جن کی ثقافت مغلوب ہوگئی ہو۔گلوبل ویلیج کے تصور کے بعد دنیا صرف ایک کلک کے فاصلے پر رہ گئی ہے. اب تمام عادات، رہن سہن کے طریقے، گھر بنانے کا انداز، اور ثقافت کے معاشرے پر اثرات و دیگر چیزیں لوگوں سے دور نہیں رہی ہیں، اسی وجہ سے ایک ثقافت کے دوسری ثقافت پر نمایاں اثرات مرتب ہونے لگے ہیں. چیلنج یہی ہے کہ لوگ کیسے اپنی ثقافت دوسری ثقافتوں کی یلغار سے محفوظ رکھیں۔

    گلگت بلتستان کی ثقافت دنیا بھر میں ایک منفرد ثقافت ہے، اس علاقے کی پہچان کرانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہاں کی ثقافت میں تنوع پایا جاتا ہے۔ چند گھنٹوں کے سفر میں نئی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ تاہم مجموعی طور پرگلگت بلتستان کی ثقافت بھی عالمی گائوں کی یلغار سے محفوظ نہیں ہے، خصوصی طور پر سی پیک کے منصوبے سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ثقافت کو اس سے شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ چیزیں رفتہ رفتہ تبدیل ہو رہی ہیں۔ پرانے الفاظ کی جگہ نئے الفاظ لے رہے ہیں. شانٹی کا تصور آج کے دور میں کم ہوگیا ہے کیونکہ اب کیپ، ہیٹ اور ہیلمٹ جیسی چیزیں آ گئی ہیں۔ اس تناظر صوبائی حکومت کی جانب سےگلگت بلتستان کے ثقافت کو محفوظ کرنے اور اس کی ترویج کے لیے شانٹی کا دن منانا ایک مثبت اور لائق تحسین قدم ہے۔

    ثقافت کے اہم پہلوئوں اور اس کے اہم اجزا میں ایک ’زبان ‘ہے۔ شانٹی کو محفوظ کرنے کے لیے جس طرح سے ایک دن مختص کیا گیا ہے، اسی انداز میں زبان کو محفوظ کرنے کے لیے بھی ایک دن کی ضرورت ہے یا اسی دن میں زبان کو شامل کرکے متفقہ دن منایا جائے۔ فورم فار لینگویج انیشیٹیوز (FLI) ایک ایسا ادارہ ہے جس میں چھوٹی زبانوں کی شاعری، لوک کہانیاں، اقوال زریں، اور ثقافتی ورثہ کو محفوظ کرتی ہے اور ان کے لغت کو مرتب کرنے، حروف تہجی تشکیل دینے سمیت ان زبانوں کو لکھائی پڑھائی کے لیے استعمال میں لانے کے لیے اقدامات کرتی ہے۔ اس ادارے نے ملک بھر میں 30 کے قریب ایسی زبانوں کی نشان دہی کی ہے جن کے وجود کو مستقبل میں بڑی زبانوں سے خطرہ ہے۔ اور ان زبانوں میں گلگت بلتستان میں بولی جانے والی 6 زبانیں بھی شامل ہیں جن میں شینا، بلتی، بروشسکی، ڈوماکی، وخی اور کھوار شامل ہیں (ڈوما زبان گلگت بلتستان کے ایک قبیلے کی زبان تھی، جسے موجودہ دور میں صرف چند لوگ ہی جانتے ہیں، اس کے الفاظ تک معدوم ہوگئے ہیں) چند ماہ قبل اس ادارے نے گلگت بلتستان میں 7روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا جس میں سیمپل کے طور پر شینازبان کو لیا گیا اور اس کے ریسرچ ایریا کے طور پر دنیور کا علاقہ منتخب کیا گیا۔ اس ورکشاپ میں راقم بھی شریک تھا اور مطلوب سوالات کی بنیاد پر درجنوں لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے سامنے یہی سوالات رکھے۔ اول تو لوگوں نے شینا زبان کو محفوظ کرنے کا مقصد ظاہر کرنے پر جس محبت کااظہار کیا، وہ الفاظ میں ناقابل بیان ہے۔ سوالنامے کے جوابات کی بنیاد پر یہ محسوس کیا گیا کہ اسے اردو اور انگریزی زبان سے خطرہ ہے، نوجوان نسل شینا کے کئی الفاظ سے ناآشنا ہے، مستقبل کے نوجوان شینا کے کئی الفاظ سے ناآشنا ہوں گے، ضروری ہے کہ شینا زبان کو ذریعہ تعلیم بنادیا جائے اور فوری طور پر نصاب، لٹریچر، اور مخصوص آوازوں کی نشان دہی کرکے مستقل دستاویزات تیار کی جائیں۔ جو لوگ شینا کی ترویج پر محنت کررہے ہیں، انھوں نے خطرے کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے مختلف فورمز پر بتایا کہ شینا زبان نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ کشمیر، انڈیا اور افغانستان میں بھی بولی جاتی ہے لہٰذا اس کے مستقبل کو کوئی خطرہ نہیں ہے. یہ بات سوچنے کی ہے کہ خطرے سے مراد یہ نہیں کہ یہ زبان یکدم معدوم ہوجائے گی یاکوئی انقلاب آئے گا۔ ہم جس علاقے میں سوالنامہ لے کر گئے وہاں پر دیگر اضلاع کے لوگوں کی بڑی تعداد کی رہائش پذیری کی وجہ سے شینا کم اور دیگر زبانیں زیادہ بولی جاتی تھیں۔ یہی حال گلگت شہر کا بھی ہے جس میں دیگر زبانیں بولنے والے زیادہ نظر آئیں گے۔ دیکھنا پڑے گا کہ کاروبار کی زبان، دفاتر کی زبان، سکول اور کالج کی زبان، ذریعہ تعلیم، روزمرہ کے معاملات میں کون سی زبان بولی جاتی ہے۔ بعد ازاں FLI نے پریس کلبگلگت میں بھی صحافیوں کے لیے ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کرکے مقامی زبانوں کی ترویج اور مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

    اسلامی تحریک پاکستان کی رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ریحانہ عبادی نے تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے قانون ساز اسمبلی میں قرار داد پیش کی جس میں انہوں نے کہا کہ ”میں فخر کے ساتھ قرارداد پیش کر رہی ہوں کہ گلگت بلتستان کے طلبہ میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جدید تعلیم کے ساتھ اپنی نئی نسل کو علاقائی زبانوں سے بھی متعارف کرائیں. اس قرارداد کے ذریعے یہ مقتدر ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ جس طرح سندھ میں سندھی، پنجاب میں پنجابی اور بلوچستان میں بلوچی اور کے پی کے میں پشتوزبان (کے پی کے میں پشتو کے علاوہ دیگر مقامی زبانیں بھی ہیں) ان کے تعلیمی نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے، اسی طرح گلگت بلتستان میں علاقائی زبانوں کو باقاعدہ تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے، آئین پاکستان کے آرٹیکل 28 میں ادب ، ثقافت اور زبانوں کے ترویج اور اشاعت کی ضمانت موجود ہے۔“

    اس بکھرے ہوئے موضوع کا مقصد یہی ہے کہ جب آئین پاکستان کا آرٹیکل 28 ادب، ثقافت اور زبانوں کے ترویج اور اشاعت کی ضمانت دیتا ہے تو صوبائی حکومت گلگت بلتستان کو بھی شانٹی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ گلگت بلتستان کے مقامی زبانوں کے ترویج اور اشاعت کے لیے اقدامات کریں۔

  • جناب راحیل شریف صاحب! انہیں سمجھائیں‌ – زبیرمنصوری

    جناب راحیل شریف صاحب! انہیں سمجھائیں‌ – زبیرمنصوری

    زبیر منصوری جناب راحیل شریف صاحب!
    انہیں سمجھائیں، نرمی سے نرم مزاجی ان میں ڈالیں۔
    یہ آپ کی سال بھر کی امیج بلڈنگ ایک ہی ہلے میں اٹک کے پل پر بہا آتے ہیں۔

    انہیں سمجھائیں کہ اب زمانہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے کمزور دل مالکان کا نہیں، اب ڈیجیٹل میڈیا کے جن کا چراغ ملک اور بیرون ملک ہر نوجوان کے پاس ہے.
    انہیں سمجھائیں کہ عوام تو خیر ان کی نظر میں ہیں ہی”کمی کمین“ مگر یہ تو ان کے پیٹی بند بھائی ہیں، ذرا اس سپاہی کا ہیئرکٹ ان کو قریب سے دکھائیں، اس کے بازو پر لگی پٹی کی انہیں پہچان کروائیں، اس کی وردی انہیں دکھائیں اور سمجھائیں کہ وردیوں کا احترام ختم ہوتا اور ضبط کے بندھن ٹوٹتے ہیں تو پھر بات بہت دور تک نکل جاتی ہے۔
    انہیں سمجھائیں کہ میجر صاحبو! خفیہ اداروں کے جوانو! سامنے دشمن نہیں، اپنی ہی (دودھ دینے والی گائے ) قوم کے لوگ ہیں۔

    دیکھو! یہ گردے بیچ کر اپنا گزارا کر رہے ہیں مگر صبح تمہارے ناشتہ کا جیم اور بریڈ پورا کرتے ہیں.
    ان کے سرکاری اسپتال دیکھو اور اپنے سی ایم ایچ دیکھو.
    ان کے بچے ٹاٹ پر سوتے مگر تمہیں کھاٹ پر سلاتے ہیں.
    ان کے بچے درختوں کے نیچے بیٹھ کر پڑھ لیتے ہیں مگر تمہارے بچوں کے آباد رہنے کی دعائیں کرتے ہیں.
    تم سے محبت کرتے ہیں، اس لیے تمہاری چھائونیوں کے پاس سے تکلیف دہ بیرئیرز سے گزرتے ہوئے بھی اپنے بچوں سے ”فوجی انکل“ کو سلام کرواتے ہیں.
    ان سویلینز کے اسکول فوجی یونی فارم میں بچوں کو پریڈ کرواتے ہیں، ان کی مائیں خوشی سے دیوانی ہو کر اپنے ”فوجی بچے“ کا منہ چومتیں اور خیالوں میں اسے افسر بنا دیکھنے لگتی ہیں۔
    اور یہ ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟
    یہ ان کے باپوں کو اس طرح لاتوں گھونسوں اور مکوں سے سڑک پر رسوا کر دیتے ہیں۔

    محترم راحیل شریف صاحب! انہیں اچھا بولنا سکھائیں، انہیں دھیما لہجہ بتائیں، اور یہ بھی کہ بارڈر پر غصہ، نفرت اور انتقام اور اپنوں کے درمیان درگزر، محبت اور انعام کی پالیسی اختیار کریں.
    انہیں بتائیں کہ سی او ڈی کراچی کے گیٹ کے سامنے تین تین اسپیڈ بریکرز سے لاکھوں لوگ کس طرح طویل قطاروں میں ذہنی اذیت سے گزر کر گزرتے ہیں.
    کس طرح ان کی آبادی کے اندر سے نکلنے والی ایک گدھا گاڑی کے احترام میں ساری ٹریفک روک دی جاتی ہے اور لوگ ذلت کا کڑوا گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں.
    انہیں سکھائیں کہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود ہزاروں صحافیوں کے استاد ہیں، انھیں ان کے مہمان کے سامنے ملیر کینٹ کے گیٹ پر رسوا نہیں کیا جاتا، ان سے تعارف لے کر عزت کی جاتی ہے.

    جناب راحیل شریف صاحب! یہ ہماری فوج ہے، ہمیں اس سے محبت ہے، ہم اسے اون کرتے ہیں، اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے مگر اگر اس کے اپنے افراد ہی اس کے دشمن بن جائیں، ان کی زبان اور ہاتھ سے ان کی اپنی قوم ہی محفوظ نہ رہے تو پھر ڈنڈا تو بس ڈنڈا ہی ہے.
    چلے تو سو برس
    نہ چلے تو دو برس۔
    بہرحال ہمیں ابھی بھی اپنے محافظ پیارے ہیں۔

  • قادیانی فتنہ اور تحفظ عقیدہ ختم نبوت کی جدوجہد – محمد قاسم چیمہ

    قادیانی فتنہ اور تحفظ عقیدہ ختم نبوت کی جدوجہد – محمد قاسم چیمہ

    %d9%82%d8%a7%d8%b3%d9%85-%da%86%db%8c%d9%85%db%81 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز ہندوستان پر مکمل طور پر قابض ہو چکا تھا، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی جانب سے مزاحمت کا خدشہ موجود تھا، چنانچہ برطانوی سامراج نے مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کی پشت پناہی کے ذریعے مسلمانوں کے نظم اجتماعی میں تفریق پیدا کرنے کی سازش کی۔ مشہور و معروف فلسفی اور مفکر علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ ’’سلطان ٹیپو کے جہاد ِحریت سے انگریز وں نے اندازہ کیا کہ مسئلہ جہاد ان کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ جب تک شریعت اسلام سے اس مسئلہ کو خارج نہ کیا جائے، ان کا مستقبل محفوظ نہیں۔ چنانچہ (انگریزنے) مختلف ممالک کے علماء کو آلہ کار بنانا شروع کیا۔ اسی طرح ہندوستانی علماء سے بھی فتاویٰ حاصل کیے۔ لیکن تنسیخ جہاد کے لیے ان علماء کو ناکافی سمجھ کر ایک جدید نبوت کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا بنیادی مؤقف ہی یہ ہو کہ ایک اقوام اسلامیہ میں تنسیخ جہاد کی تبلیغ کی جائے۔ احمدیت کا حقیقی سبب اسی ضرورت کا احساس تھا۔ قرآن کے بعد نبوت اور وحی کا دعویٰ تمام انبیائے کرام کی توہین ہے، یہ ایک ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ’’ختمیت‘‘ کی دیوار میں سوراخ کرنا تمام نظام دینیات کو درہم برہم کر دینے کے مترادف ہے۔ قادیانی فرقہ کا وجود عالم اسلام، عقائد اسلام، شرافت انبیاء، خاتمیت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور کاملیت قرآن کے لیے قطعاً مضر و منافی ہے۔‘‘ (فیضان افضال صفحہ 295)

    مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت اور احمد ی عقائد کی روشنی میں سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ اسی دوران مناظرے ہوئے، بحث و مباحثہ ہوا اور کتابیں لکھی گئیں۔ مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور علامہ محمد انور شاہ کاشمیری نے علمی میدان میں قادیانی مذہب کا مدلل انداز میں جواب دیا۔ لیکن ان سب باتوں کا تعلق علمی مباحث سے تھا۔ عوام کے اندر اس فتنے کے سدباب کی اشد ضرورت تھی، چنانچہ تحریک خلافت کے اختتام پر برصغیر کے حریت پسند رہنمائوں نے مل کر 1929ء میں آزاد خیا ل مسلمانوں کی جماعت ’’مجلس احرار‘‘ کی بنیا د رکھی ، جس نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ 1930ء میں انجمن خدام الدین لاہورکے سالانہ جلسے میں علامہ انور شاہ کاشمیری نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو’’امیرشریعت‘‘منتخب کیا اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے تعاقب کی کمان سونپ دی، اس موقع پر پانچ سو جید علماء نے شاہ جی کی بیعت کی۔ مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے حریت پسند رہنمائوں نے فتنہ قادیانیت کے خلاف مسلمانوں میں شعوربیدار کیا۔ 23-22-21 اکتوبر 1934ء کو قادیان میں’’احرار تبلیغ کا نفرنس‘‘منعقد کی جس میں ہندوستان بھر سے علمائے کرام اور عوام نے شرکت کی۔ اس عظیم الشان کانفرنس کے ذریعے قادیانی مذہب مکمل طور پر بے نقاب ہوا۔

    دراصل قادیانی مذہب کا معاملہ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی نوعیت رکھتا ہے. یہ لوگ سیاسی طور پر مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت سے انکاری ہیں۔ چنانچہ علامہ اقبال ان کا تجزیہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ’’ہمیں قادیانیوں کے رویہ اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کی حکمت عملیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیارکرتے ہیں، تو پھر سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے کیوں مضطرب ہیں؟‘‘ اسی طرح مفکر احرار چوہدری افضل حق لکھتے ہیں کہ ’’قادیانی برٹش امپیریلزم (برطانوی استعمار) کے کھلے ایجنٹ ہیں اور مسلمانوں میں ففتھ کالم کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ علامہ اقبال، پنڈت جواہر لال نہرو کے مضامین مطبوعہ ماڈرن ریویو کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راہیں ہیں یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور الگ ہوجائیں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑکر اصل اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقۂ اسلا م میں ہو، تا کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘

    قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیرالدین کی ہدایت پر مذہبی و سیاسی طور پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی نے پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈوں میں تبدیل کردیا۔ علماء ان حالات سے واقف تھے اور حکومت کو قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کر رہے تھے۔ 1952ء میں وزیرخارجہ ظفراللہ خاں قادیانی نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے احمدیت کو زندہ اور اسلام کو مردہ مذہب قرار دیا اور بلو چستان کے علاقے کو احمدی ریاست بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس سب صورتحال سے دینی طبقات واقف تھے چنانچہ قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سازشوں کو بھانپتے ہوئے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں مجلس احرار نے تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے جلسے شروع کردیے اور مسلمانوں کے تمام طبقات دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کو مجلس احرار کی میزبانی میں ’’ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور حکومت کے سامنے تین مطالبات رکھے۔
    1. ظفراللہ خان کو وزارت خارجہ سے برطرف کیا جائے.
    2. قادیانیوں کو اہم کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے.
    3. قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
    مطالبات نہ ماننے کی صورت میں پرامن احتجاجی تحریک چلائی گئی۔ تحریک کے قائد مولانا ابوالحسنات قادری تھے۔ اس تحریک کے سرکردہ رہنمائوں میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالستار خان نیازی، سید مظفر علی شمسی، ماسٹرتاج الدین انصاری، صاحبزادہ فیض الحسن، شیخ حسام الدین، سید ابوزر بخاری، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا محمد علی جالندھری، قاضی احسان احمد شجاع آبادی اہم ہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست نے ختم نبوت کا دفاع کرنے والے سرفروشوں پر گولی چلا دی اور دس ہزار سے زائد لوگوں کومال روڈ لاہور، کراچی، گوجرنوالہ، ساہیوال اور دیگر شہروں میں شہید کیاگیا۔ تحریک کے رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ مجلس احرار کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ اس موقع پر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا تھا کہ’’ میں اس تحریک کے ذریعے ایک ٹائم بم فٹ کر کے جارہا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا اور فتنہ قادیانیت اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔‘‘ پھر تاریخ نے دیکھا کہ جب 29 مئی کونشتر میڈیکل کالج کے سیاحتی دورے سے واپس آنے والے طلبہ کو ربوہ ( چناب نگر) ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں نے ظلم و بربر یت کا نشانہ بنایا تو ایک بار پھر تحریک ختم نبوت نے زور پکڑا اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی قیادت میں مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، سید محمود احمدرضوی، پروفیسر غفور احمد، آغا شورش کاشمیری، مولاناسید ابوذر بخاری، چوہدری ثناء اللہ بھٹہ، نوابزادہ نصراللہ خان، سید مظفر علی شمسی، مولانا عطاء المحسن بخاری نے تحریک کو ملکی سطح پر منظم کیا، جلسے کیے، جلوس نکالے اور بالآخر بات پارلیمنٹ کے فلور تک پہنچی۔ ایک طویل بحث کہ جس میں قادیانی جماعت کے سربراہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا، کے بعد 7ستمبر1974ء کو شہدائے ختم نبوت کا خون بےگناہی رنگ لایا اور لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر غیر مسلم ا قلیت قرار دیا، اس قراردادِ اقلیت کی متفقہ منظوری کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
    ’’ جناب اسپیکر ! میں آپ کو یہ بتانا مناسب نہیں سمجھتا کہ اس مسئلہ کے باعث اکثر میں پریشان رہا اور راتوں کو مجھے نیند نہیں آئی. اس مسئلہ پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں. مجھے اس فیصلہ کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچیدگیوں کا علم ہے جس کا اثر مملکت کے تحفظ پر ہوسکتا ہے، یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے ہیں، اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، میں اس فیصلہ کو جمہوری طریقہ سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کر رہا. پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے، اسلام کی خدمت ہماری پارٹی کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی ہے‘‘۔ (ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قومی اسمبلی میں 27 منٹ کی تقریر سے اقتباس)

    اڈیالہ جیل میں بھٹو جب پابند سلاسل تھے تو انہوں نے اپنے ڈیوٹی آفیسر کرنل رفیع الدین سے کہا: احمدیہ مسئلہ! یہ ایک مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا. ایک دفعہ کہنے لگے :رفیع ! یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے یعنی ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے. ایک بار انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع الدین! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑی میں پڑ اہوں؟ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیرمسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں، پھر کہنے لگے کہ میں تو بڑا گناہگار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کرجائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔ بھٹوصاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘‘ (بھٹو کے آخری ۳۲۳دن ،از کرنل رفیع الدین )

    اب صورت حال یہ ہے کہ 7ستمبر 1974ء کی قرارداد اقلیت اور 26اپریل 1984ء کے امتناع قادیانیت ایکٹ کو قادیانی جماعت تسلیم کرنے سے انکاری ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان قوانین کے خلاف مہم چلا رہی ہے اور پاکستان کی سلامتی کے حوالہ سے قادیانی جماعت کا کردار ایک سوالیہ نشان ہے. قادیانی اپنا متعین قانونی و عدالتی اسٹیٹس تسلیم نہیں کرتے اور چناب نگر (ربوہ) کی صورت حال ریاست در ریاست کی ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحفظ ناموس رسالتﷺ اور تحفظ ختم نبوتﷺ جیسے قوانین عالمی ایجنڈے کی زد میں ہیں، ایسے میں تمام مکاتب فکر اس مسئلہ پر پہلے کی طرح یکسو ہوجائیں خصوصاً تحریک ختم نبوتﷺ کی جماعتوں کو بدلتی صورت حال پر اندر کی آنکھ سے نظر رکھنی چاہیے. روایتی طریق کار اپنی جگہ، میڈیا، تعلیم وتربیت، ذہن سازی اور لابنگ جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر دھیمی اندزمیں اقوام متحدہ اور عالمی اداروں میں بین الاقوامی سطح پر تحریک ختم نبوت کے لیے لابنگ کی اشد ضرورت ہے ورنہ فاصلہ زیادہ ہوتا جائے گا۔

  • میاں صاحب کی فیکٹری اور غریب مصری-  غلام نبی مدنی، مدینہ

    میاں صاحب کی فیکٹری اور غریب مصری- غلام نبی مدنی، مدینہ

    گاڑی کا ایک پرزہ لینے کے لیے گاڑیوں کی اسکریپ مارکیٹ میں جانا ہوا۔ مدینہ منورہ سے تھوڑا باہر ”اسکریپ گاڑیوں“ کی یہ بہت بڑی مارکیٹ ہے، جہاں ایک سے ایک گاڑی ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں چوںکہ حادثات کی شرح کچھ زیادہ ہے، اس لیے عموماً اچھی خاصی نئی گاڑیاں تک لوگ حادثے کے بعد اسکریپ میں بیچ دیتے ہیں۔

    ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک گودام میں مطلوبہ پارٹ مل گیا۔ گودام کاملازم مصری تھا جو عرصہ دس سال سے یہاں مدینہ میں اسکریپ کے کام سے جڑا تھا۔ راقم نے پوچھا اتنی گاڑیوں کا اسکریپ آخر کون خریدتا ہے؟ یا یوں ہی گاڑیاں گل سڑ جاتی ہیں؟ کیوں کہ پاکستان کی طرح نہ یہاں ریڑھی بان گھر گھر جاکر پرانا لوہا، لیلون، پلاسٹک خریدتے ہیں اور نہ وافر مقدار میں اسکریپ کی دکانیں ملتی ہیں۔ بارہا پرانی اور حادثے کا شکار گاڑیوں کے گلنے سڑنے کا مشاہدہ ہوا۔

    مصری ملازم نے فوراً کہا کہ وہ جو پاکستان کے وزیراعظم ہیں، ان کی فیکٹری جدہ میں ہے جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی اسکریپ فیکٹری ہے۔ سارا سکریپ وہی خریدتے ہیں۔ مصری کو نام یاد نہیں تھا پوچھا کیا نام ہے پاکستان کے وزیر اعظم کا؟ کہا کہ میاں محمد نواز شریف۔

    کہنے لگے بہت مالدار ہیں؟ عرض کیا اتنے مالدار نہیں، کیوں کہ نہ ان کے پاس ذاتی گھر ہے، نہ ذاتی گاڑی نہ ذاتی کوئی جائیداد بس وہ تو مانگی تانگی اور تحفہ میں ملنے والی چیزوں پر گزارا کرتے ہیں۔

    مصری کہنے لگا: ”سب جھوٹ اور فراڈ ہے”۔

    اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ ”مالدارفقیروں“ بالخصوص جووزیر اعظم بھی ہوں ان کے فقر سے پردہ اٹھانا اچھا نہیں ہے۔ کیوں کہ دنیا ایسے ”فقیروں“کو خوب جانتی ہے۔

    آج کل پانامہ لیکس اور میاں برادران کی فیکٹریوں کاخوب چرچا ہورہا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آخر کیوں میاں برادران اپنی ذاتی فیکٹریوں اور جائیدادوں کو تسلیم نہیں کرتے اور اگر کبھی حقائق آنے کے بعد کچھ تسلیم بھی کرتے ہیں تو گفٹ شدہ کہہ کر خود کو غریب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ یہ ساری فیکٹریاں اور جائیدادیں غلط طریقے سے بنائی گئی ہیں۔

    بزنس کرنے میں کوئی برائی نہیں، معیوب آپ تب ٹھہرتے ہیں جب بزنس مروجہ جائز اور قانونی طریقوں سے بالا ہوکر کریں۔ حال میں طاہر القادری نے وزیراعظم پر الزام لگایا کہ ان کی شوگر ملوں میں انڈین لوگ کام کررہے ہیں، جو انجینئرنگ کی آڑ میں ملکی جاسوسی کرتے ہیں۔ کسی حدتک یہ الزام درست بھی ہے کیوں کہ انڈین جاسوس کلبھوشن کے کال ریکارڈز میاں صاحبان کی فیکٹری ہی سے برآمد ہونے کے دعوے ہیں۔ پھر بھارتی سرکار کے ساتھ میاں صاحب کی نرم گوشی بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

    غور طلب بات یہ ہے کہ انگلینڈ، سعودی عرب، پاکستان اور انڈیا میں کاروباری کمپنیاں ہونے کے باوجود میاں صاحب اپنے اثاثے چند لاکھ بھی ظاہر نہیں کرتے۔ اور کہتے ہیں کہ رائیونڈ کا محل اور تمام کمپنیوں میں ان کا کچھ بھی نہیں، یاتو ان کے بیٹوں کا ہے یا پھر لوگوں نے ہدیتاً دیا ہے۔ دن کی روشنی میں اس سفید جھوٹ پر لوگ تبھی اعتماد نہیں کرتے کہ آج چھوٹے سے گھر چلانے کے لیے ایک غریب آدمی کو اتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور میاں صاحب ہیں جن کی نہ صرف دنیا میں بڑی بڑی کمپنیاں چل رہی ہیں بلکہ وہ پاکستان کی بہت بڑی پارٹی اور ملک کی گاڑی بھی، بغیر کسی جائیداد اور ذاتی پیسوں کے چلارہے ہیں۔

    اس ضمن میں اپوزیشن، بالخصوص عمران خان اور طاہر القادری کا احتجاج بالکل بجا ہے۔ جو کم ازکم لوگوں کے سامنے اصل حقیقت بیان کرکے لوگوں کو آگاہی دے رہے ہیں۔ آپ عمران خان اور طاہر القادری کو جتنا چاہے برابھلا کہہ لیں لیکن یہ لوگ کم ازکم دیگر اپوزیشن یا حکومتی اتحادی جماعتوں سے بہت بہتر ہیں۔ کیوں کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں سب کچھ جاننے کے باوجود محض مفاہمت اور ذاتی مفادات کی آڑ میں ملکی سالمیت داؤ پر لگنے کے باوجود اپنا منہ بند رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بھارتی ایجنٹوں کی دہشت گردی سے عام لوگوں کا خون بہہ رہا ہے۔

    اس سارے قضیے کے سامنے آجانے کے بعد عوام کو خواب غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے اور اپنے نمایندوں کو منتخب کرنے کے لیے یہ عزم کرنا چاہیے کہ وہ جھوٹے اور مفاد پرست لوگوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ چاہے ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ عوام کی رائے ہموار کرنے کے لیے سنجیدہ لوگوں کو بھی بغیر کسی تعصب اور لالچ کے کوششیں کرنا ہوں گی۔ علماءے کرام کو مساجد کے منبر ومحراب سے لوگوں کو سچ کا ساتھ دینے کی ترغیب دینی ہوگی۔ تاکہ کوئی مصری ملک کے وزیراعظم کو جھوٹا کہہ سکے، نہ کوئی گورا ہمارے ملک پر بددیانتی کا لیبل لگاسکے۔