ہوم << ہم نے پاکستان کیسے بنایا؟ عمیر محمود صدیقی

ہم نے پاکستان کیسے بنایا؟ عمیر محمود صدیقی

ہندوستان زمین کا وہ حصہ ہے جہاں ابو البشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم رکھا ۔ ہندوستان میں اسلام کا پیغام نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں پہنچ چکا تھا ۔اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے ۔نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: "مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ الّذِينَ كَأَنّهُمْ رِجَالُ الْهِنْدِ"[i] یہ کون لوگ ہیں جو ہند وستان کے مرد معلوم ہوتے ہیں۔ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ‘‘مالابار’’ کے بادشاہ’‘ چکر ورتی فرماس’’ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا۔حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :
أهدى ملك الهند إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم جرة فيها زنجبيل فأطعم أصحابه قطعة قطعة وأطعمني منها قطعة[ii] ‘‘ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا اس میں ادرک تھی ۔نبی کریم ﷺ نے اس کواپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا۔’’
ممکن ہے کہ یہ وہی صحابی بادشاہ ہوں جن کا ذکر امام حاکم نے اپنی کتاب حدیث میں کیا ہے۔ نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمدحمید اللہ رحمہ اللہ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
‘‘ اس نے ہادیٔ کون ومکاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ ﷺکے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا ۔راستے میں یمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوا۔یہاں آج بھی اس ‘‘ہندوستانی بادشاہ’’ کے مزار پر لوگ فاتحہ کے لیے آتے ہیں۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے ۔زین الدین المعبری کی تصنیف ‘‘تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین’’ میں بھی اس کا تذکرہ ہے ۔’’[iii] ہند کے بارے میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ‘‘ أطيب ريح في الأرض الهند[iv]’’ یعنی زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے۔سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: "میر آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں کئی صفحے ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی (ﷺ)حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ابتدائی ظہور اسی سر زمین پر ہوا۔اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے۔"[v] ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس پر جاری ہوا ۔اٹھارویں صدی کے مؤرخ آزاد غلام علی حسینی بلگرامی نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ‘‘سبحة المرجان في آثار هندستان’’ اور ‘‘شمامة العنبر فيما ورد من الهند من سيد البشرﷺ’’تحریر فرمائی ہیں جن کا ذکر معجم المؤلفین میں بھی کیا گیا ہے ۔مؤخر الذکر کتاب یقینا اس موضوع پر مزید تحقیق کے حوالہ سے فائدہ مند ثابت ہو گی ۔
احادیث شریفہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔بلاذری کی تحقیق کے مطالق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا ۔اس کے بعد امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔آپ قیقان کے مقام پر جو سند کا حصہ تھا شہید ہو گئے۔[vi] امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے ۔[vii] حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔تا ریخ فرشتہ میں ہے:
‘‘۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا۔[viii] اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی۔عباسی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر بن ضعیفہ نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ کی اجازت سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا ۔انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا۔پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادا لدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا ،جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا۔[ix] حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمۃ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔امام ذہبی فرماتے ہیں:
وفرض على نفسه كل عام غزو الهند، فافتتح منها بلاداً واسعة، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّه يحيي ويميت، ويقصدونه من البلاد، وافتتن به أمم لا يحصيهم إلاّ الله. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب له قرباناً من نفيس ماله،[x].
‘‘اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا۔اور وہ(اہل ہند)یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کے لیے آتے تھے۔اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہو ئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو۔’’
سومنات کی فتح کے سال سلطان محمود غزنوی حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی علیہ الرحمۃکی خدمت میں حاضر ہوا ۔شیخ نے سلطان کو اپنا خرقہ عطا فرمایا۔شیخ صاحب سے رخصت ہو کر سلطان محمود غزنوی واپس آیا اور اس نے ان کے عطا کردہ خرقہ کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا۔جس زمانے میں محمود نے سومنات پر حملہ کیا تھا اور پرم اور دشیلم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوؤں کا لشکر غالب نہ آجائے ۔اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ صاحب کے خرقہ کو ہاتھ میں لے کر سجدہ میں گر گیا اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی ‘‘اے اللہ! اس خرقے کے مالک کے طفیل میں مجھے ان ہندوؤں کے مقابلے میں فتح دے۔میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت یہاں سے حاصل کروں گا اسے یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا۔’’مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے۔بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوؤں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ہندوؤں کی اس باہمی جنگ کی وجہ سے پریم دیو کی فوج میدان جنگ سے بھاگ نکلی اور یوں مسلمانوں نے ہندوؤں پر فتح پائی۔([xi])
محمود غزنوی کے بعد شہاب الدین غوری نے اسلام کے جھنڈے کو ہندوستان میں بلند فرمایا۔اسی زمانے میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمۃ اور دیگر صوفیاء کرام نے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں کی تسخیر فرماتے ہوئے لاکھوں مشرکوں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کا کار عظیم سر انجام دیا۔مسلمانوں نے ہندوستان میں تقریبا آٹھ سو سال حکومت کی جس کا اختتام مغلیہ سلطنت کے زوال اورانگریزوں کے قبضے کی صورت میں ہوا۔اللہ رب العزت کا قوموں کے عروج و زوال کا قانون کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔بنی اسرائیل کو اللہ رب العزت نے تین آسمانی کتابیں توریت ،انجیل اور زبور عطا فرمائیں۔گیارہ انبیاء کرام کے علاوہ تمام انبیاء بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں علم اور حکمت کے ساتھ حکومت بھی عطا فرمائی لیکن جب انہوں نے حد سے تجاوز کیا ،اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی تو اللہ رب العالمین نے ان پر ذلت،رسوائی،محتاجی اور مسکنت کو مسلط فرما دیا۔ہندو ستان میں بھی مسلمانوں کی عظیم الشان حکومت کا زوال یکدم نہیں ہوا۔صلیبی جنگوں،یورش تا تار،سقوطِ بغداد اور اسپین کے تاخت و تاراج ہو نے سے انہوں نے سبق نہ سیکھا نتیجتاً ترک جہاد اور شراب و شباب میں غفلت کی زندگی نے انہیں فطرت کے قانون کے تحت اسی تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا جس کا ہر وہ گروہ حقدار ہوتا ہے جو خلاف فطرت زندگی گزارنے کا عادی ہو جائے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ رنگیلا بادشاہ کے باورچی خانے کا ماہانہ خرچ تین کروڑ تھا اور ہر روز تین سو برہنہ عورتیں اپنے سامنے نچوایا کرتا تھا۔1707ء میں اورنگزیب کے انتقال کے بعد سلطنت اسلامیہ میں ایسا ضعف پیدا ہوا کہ پھر اسے استحکام نصیب نہیں ہوا۔جب مرکز کمزور ہو جائے تو بغاوتیں سر اٹھانے لگتی ہیں اور اگر بر وقت اس کمزوری کا تدارک نہ کیا جائے تو پھر تمام علاقوں کو مرکز کے ساتھ جوڑے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔جب سلطنت ہندکا مرکز ی وجود کمزور پڑ گیا تو مرہٹوں،روہیلوں ،سکھوں اور دیگر غاصبوں نے حملے شروع کر دیئے۔پندرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں پر تگیزی پہلے ہی وارد ہو چکے تھے ۔ان کے بعد فرانس اور برطانیہ سے بھی لوگوں نے آنا شروع کیا لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کی صدیوں پر محیط عظیم الشان سلطنت برطانوی قوم کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔

            جہانگیر کے دور میں انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے تجارت کی غرض سے آنا شروع ہوگئے تھے۔ان کی آمد کا قصہ یوں ہے کہ انگلستان میں جیمس اول نے سر ٹامس رو کو 1615ء میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا ۔اس کے ساتھ ایک مسیحی پادری بھی وارد ہوا تھا ۔سر ٹامس رو نے اپنی زبان دانی، جاذب توجہ شخصیت اور کثیر جہتی صلاحیتوں سے جہانگیر کے ہاں مقام حاصل کر لیا۔([xii])ایک مرتبہ شاہی محل کی ایک عورت بیمار پڑ گئی۔بادشاہ نے ہر قسم کا علاج کروایا مگر وہ عورت تندرست نہ ہو سکی۔ بادشاہ اس کی صحت کی طرف سے مایوس ہو چکا تھااور اس کی گری ہوئی صحت و حسن نے بادشاہ کو بھی پریشان کر دیا تھا۔سر ٹامس رو نے اپنے ذاتی معالج سے اس عورت کا علاج کروا یا جس سے وہ بالکل صحتیاب ہو گئی ۔بادشاہ نے سر ٹامس رو کو بلوایا اور انعام و اکرام سے نوازنا چاہا مگر اس نے سونے اور چاندی کے بجائے بادشاہ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا جس کے لیے اسے بھیجا گیا تھا۔اس نے بادشاہ سے عرض کی:

‘‘آپ کی عنایات اس سے قبل بھی بہت ہیں ایک اور عنایت کا محتاج ہوں۔اگر وہ پوری ہو جائے تو صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میری پوری قوم کو مستفید ہو نے کا موقع میسر آئے گا۔’’اس طرح اسے انعام و اکرام کی بجائے انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کا پروانۂ تجارت حاصل ہو گیا۔’’([xiii])اس کا اثر یہ ہوا کہ دو سال کے اندر ہی مغلیہ سلطنت میں انگریزوں کی پانچ کوٹھیاں آگرہ، احمد آبا،برہان پور،بہروج اور سورت میں قائم ہو گئیں سر ٹامس رو نے جہانگیر سے فرمان حاصل کر لیے جن کی رو سے پرتگیزوں سے اور ہالینڈ کی کمپنی سے انگریز کمپنی کو زیادہ سہولیتیں مہیا ہو گئیں۔([xiv])اس کمپنی کی بدولت انگریزوں نے بعد میں تقریبا دو سو سال کے اندر ہندوستان پر برطانوی حکومت کو قائم کر دیا۔ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے آخری چٹان ٹیپو سلطان تھا جس نے اپنی تلوار سے جوانمردی کے جوہر دکھاتے ہوئے انگریزوں کا مقابلہ کیا مگر بالاخر غداروں کی ابلہ فریبی اور خیانت کی وجہ سے سر نگا پٹم پر بھی انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور سلطان شہید ہو گیا۔ تا ریخ بتاتی ہے کہ تلوار کا جواب تلوار سے ہی ہوتا ہے۔ جس قوم کی تلوار گم ہو جائے وہ باتوں اور خیالوں سے غاصب کا مقابلہ اور اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ٹیپو سلطان ہندوستان میں امت مسلمہ کی آخری تلوار تھا جس کی شہادت سے یہ طے ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں اسلام کا دفاع کرنے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قبضے کے ساتھ ہی نظریاتی محاذ پر بھی مسلمانوں کو زیر کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی گئیں۔اس نظریاتی تخریب کاری کے لیے مسلمانوں کو ہی آلہ تخریب بنایا گیا ۔احادیث کا انکار کیا جانے لگا تا کہ قرآن حکیم کا تعلق صاحب قرآنﷺ سے توڑ کر اس کی من مانی تشریح خاص مقاصد کے تحت کی جا سکے۔مسلمانوں کو انگریزوں کی حکومت کوتسلیم کرتے ہوئے ان کی غلامی کے آداب سیکھنے کی ترغیب دی جانے لگی۔لا تعداد مسیحی مبلغین نے ہندوستان کا رخ کیا جنہوں نے ارتداد کی تحریک کو گرم کیے رکھا تاکہ مسلمانوں کو مرتد بنا کر مسلمانوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے جس کی بڑی مثال پادری برکت اللہ کی کتب کی صورت میں موجود ہے۔قرآن اور نبی کریم ﷺ کی شان میں توہین کی جانے لگی۔ منکرین جہاد کے ایک گروہ کی تربیت کی گئی تا کہ مسلمانوں میں سے روح جہاد کو ختم کر دیا جائے اور مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انگریزوں کی غلامی کو قبول کر لیں نیز ان میں کبھی اپنے مفقود کمال کو پانے کی حرص پیدا نہ ہو۔جھوٹے نبی اور جعلی ‘‘امام مہدی’’ کے ذریعے اسلام کے اندر ایک نیا نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی تا کہ اسلام کی شکل کو مکمل طور پر مسخ ہو کر رہ جائے۔مسلمانوں کے اپنے اندر طرح طرح کی فروعی ابحاث کو فروغ دیا گیا تا کہ مسلمان با ہم دست و گریبان رہیں اور کبھی دشمن کے خلاف متحد ہو کر مقابلہ نہ کر سکیں۔اللہ کے فضل و احسان سے اس نظریاتی محاذ پر علماء ،صوفیاء اور مسلمان دانشوروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر کیونکہ مسلمان سیاسی غلامی کی زنجیر یں پہنے ہوئے تھے اسی لیے ان کا جہاد بالقلم اور جہاد باللسان انہیں ذلت اور رسوائی کے عمیق گڑھوں سے نہ بچا سکا۔23 مارچ 1924ء بمطابق 23 رجب 1342ھ میں مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت عثمانیہ بھی اپنے اختتام کو پہنچی جس کے نتیجے میں مسلمان مجموعی طور پر انتہائی پستی کا شکار ہو گئے۔ ۳ مارچ کی صبح یہ اعلان کیا گیا:
‘‘عظیم قومی اسمبلی نے خلافت کے خاتمہ اور دین اور سیاست سے علیحدگی کے قانون کی منظوری دے دی ہے۔’’([xv])
جنگ عظیم دوم کے بعد بر طانیہ نے ہندوستان کو آزادی دینے کا ارادہ کیا ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے خیال کے مطابق دانشوروں کی ایک ایسی نسل تیار کر چکے تھے کہ جس پر انگریزی تہذیب کا رنگ چڑھا ہوا تھا اور وہ نام کے مسلمان تھے جبکہ ذہنی طور پر انگریزوں کے غلام۔ ہندوستان میں صدیوں سے مسلمان اور ہندو آباد تھے۔جب انگریزوں نے جمہوریت کی بنیاد پر ہندوستان کا فیصلہ کرنا چاہا تو مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں کانگریس کی خیانت سے آگاہ ہونے کے بعد متحدہ ہندوستان کے بجائے ایک علیٰحدہ ریاست کی تحریک کا مطالبہ کیا کیونکہ اگر ہندوستان کا فیصلہ مغربی طرز جمہوریت کی بنیاد پر کیا جاتا تو مسلمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقلیت بن کر ہندوؤں کی غلامی میں چلے جاتے۔ ہندو اپنی تمام تر عیاری کے ساتھ انگریزوں کی حاشیہ برداری کے ذریعے پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک ہندوؤں نے تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جبکہ ان کے رہنما عظیم ترین ہندوستان بنانے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں جس میں مسلمانوں کے مقدس مقامات بھی شامل ہیں۔وہ مسلمان جو آج بھی متحدہ ہندوستان کے حامی ہیں اور وجود پاکستان کے مخالف ہیں انہیں کم از کم اس بات پر غور کرلینا چاہیے کہ وہ اپنے اس طرز فکر سے مشرکین کے گروہ کی تائید کر رہے ہیں جو قرآن حکیم کے مطابق مسلمانوں کے سب سے شدید ترین دشمن ہیں۔اللہ رب العزت نے فرمایا:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ([xvi])
‘‘آپ یقینا ایمان والوں کے حق میں بلحاظ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔’’
البیرونی اور ہندو
ہندوجو 35 کروڑ دیوتاؤں پر ایمان رکھتے ہیں جن میں 40 ہزار ذاتیں ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا بھگوان ہے وہ اپنے دین،زبان، رہن سہن ،عادات و اطوار اور طرز معاشرت میں مسلمانوں سے کلی طور پر مغایر ہیں۔مسلمانوں کے عظیم ریاضی دان،ماہر فلکیات ،جغرافیہ دان،مؤرخ، معدنیات،طبقات الارض ،خواص الادویہ کے ماہر اور آثار قدیمہ کے عالم جلیل ابو ریحان البیرونی ۹۷۳ء میں خوارزم میں پیدا ہوئے ۔سلطان محمود غزنوی کی فتح خوارزم کے بعد آپ سلطان کے ساتھ غزنی تشریف لے آئے ۔غزنی سے آپ نے ہندوستان کا سفر کیا اور دس برس کا طویل عرصہ یہاں کی زبان سیکھ کر ہندو مذہب و تمدن اور طرز معاشرت کا مطالعہ کیا۔آپ نے اپنے تجربات و مشاہدات کو ‘‘ماللہند’’کے نام سے جمع فرمایا ہے۔اس کتاب کے باب اول میں آپ نے ہندوؤں کی مسلمانوں سے بے تعلقی کے کئی ایک اسباب بیان فرمائے ہیں ۔ان اسباب کا مطالعہ بالخصوص ان لوگوں کے لیے انتہائی ضروری ہے جو ہندو اور مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے ہیں یا ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں:
پہلا سبب، زبان کا اختلاف
منجملہ ان کے ایک سبب یہ ہے کہ ہندو قوم ہم لوگوں سے ان تمام چیزوں میں جو قوموں کے درمیان مشترک ہوتی ہیں ،مغایر ہیں اور مغایرت کے اسباب میں سب سے پہلی چیز زبان ہے۔گو زبان کی مغایرت میں دوسری قومیں بھی اسی طرح باہم مغایر ہیں۔کوئی شخص جو مغایرت رفع کرنے کے کے لیے یہ زبان حاصل کرنا چاہے ،آسانی سے نہیں کر سکتا۔
دوسرا سبب، دین کا اختلاف
بے تعلقی کا دوسرا سبب یہ ہے کہ ہندو دین میں ہم سے کلی مغایرت رکھتے ہیں۔نہ ہم کسی ایسی چیز کا اقرار کرتے ہیں جو ان کے یہاں مانی جاتی ہے اور نہ وہ ہمارے یہاں کی کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔اگر چہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی نزاع کم کرتے ہیں اور بحث و مناظرہ کے سوا جان ،بدن اور مال کو نقصان نہیں پہنچاتے ،لیکن غیروں کے ساتھ ان کی یہ روش نہیں ہے۔غیروں کو یہ لوگ ملیچھ یعنی ناپاک کہتے ہیں اور ان کو ناپاک سمجھنے کی وجہ سے ان سے ملنا جلنا،شادی بیاہ کرنا،ان کے قریب جانا یا ساتھ بیٹھنا اور ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے۔اور جس چیز میں غیر قوم کی آگ یا پانی سے کام لیا گیا ہو جن دو چیزوں پرضروریات زندگی کا مدار ہے۔اس چیز کو ناپاک سمجھتے ہیں۔ (مزید برآں)کسی طریقے سے اصلاح (حال)کی صورت ہی نہیں ہے ،اس لیے کہ گو نجس چیز طاہر سے مل کر طاہر ہو سکتی ہے لیکن ہندوؤں میں کسی شخص کو جو ان کی قوم سے نہیں ہے اور ان میں داخل ہونے کی رغبت یا ان کے دین کی طرف میلان رکھتا ہے،اپنے اندر داخل کرنے کی مطلق اجازت نہیں ہےاور یہ ایسی حالت ہے جو ہر رشتے کو توڑ دیتی ہے اور کامل طرح پر منقطع کر دیتی ہے۔
تیسرا سبب، رسم و عادات اور طرز معاشرت کا اختلاف
قطع تعلقی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ رسم و عادت میں ہم سے اس درجہ اختلاف رکھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ہم سے اور ہماری ہیئت و لباس وغیرہ سے تقریباً ڈراتے ہیں اور ہم لوگوں کو شیطان کی طرف منسوب کرتے اور شیطان کو خدا کا مخالف یا دشمن قرار دیتے ہیں۔اگر چہ اس نسبت کا استعمال عام طرح پر ہم لوگوں کے حق میں کیا جاتا ہے،لیکن وہ ہمارے اور کل دوسری قوموں کے درمیان مشترک ہے۔ہم کو یاد ہے کہ ان میں سے ایک(ہندو)نے ہم سے اس لیے انتقام لیا کہ ایک ہندو راجہ اپنے ایک دشمن کے ہاتھ سے جس نے ہم لوگوں کے ملک سے آکر حملہ کیا تھا ،مارا گیا۔اس کا وارث اور اس کے بعد ملک کا راجہ اس کا لڑکا ہوا جو اس کے مارے جانے کے وقت ماں کے پیٹ میں تھا۔بچہ کا نام سگر رکھا گیا تھا۔جوان ہو کر لڑکے نے ماں سے باپ کا حال دریافت کیا اور ماں نے جو حالت گزری تھی ،بیان کر دی۔جوان راجہ جوش میں آکر اپنے ملک سے باہر نکلا اور دشمن کے ملک میں جاکر ان قوموں سے پورا انتقام لیا یہاں تک کہ قتل اور خون ریزی سے تنگ آگیا اور جو لوگ بچ گئے ،ان کو ذلیل کرنے اور سزا دینے کے لیے ہمارا ہی لباس پہننے پر مجبور کیا۔ہم نے یہ قصہ سن کر راجہ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ہم کو ہندو بننے اور اپنی رسمیں اختیار کرنے کی سزا نہیں دی۔
ان کے بعد کچھ اسباب ایسے ہیں جن کو بیان کرنا گویا ہندوؤں کی ہجو کرنا ہے لیکن وہ ان کے اخلاق میں سمائے ہوئے ہیں اور کسی سے مخفی نہیں ہیں اور حماقت ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ان لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ ملک ہے تو ان کا ملک،انسان ہیں تو ان کی قوم،بادشاہ ہیں تو ان کے بادشاہ،دین ہے تو وہی جو ان کا مذہب ہے اور علم تو وہ جو ان کے پاس ہے۔اس لیے یہ لوگ بہت تعلی کرتے ہیں اور جو تھوڑا سا علم ان کے پاس ہے ،اس کو بہت سمجھتے ہیں اور خود پسندی میں مبتلا ہو کر جاہل رہ جاتے ہیں۔جو کچھ یہ جانتے ہیں،اس کو بتلانے میں بخل کرنا اور غیر قوم والے درکنار،خود اپنی قوم کے نا اہل لوگوں سے بھی شدت کے ساتھ چھپانا ان کی سرشت میں داخل ہے۔اس کے علاوہ ان کے گمان میں بھی نہیں ہے کہ دنیا میں ان کے شہروں کے سوا دوسرے شہر اور ان شہروں کے باشندوں کے سوا دوسری جگہ بھی انسان ہیں اور ان کے ماسوا دوسرے لوگوں کے پاس بھی علم ہے۔یہ حالت یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ اگر ان سے خراسان و فارس کے علم اور اہل علم کا ذکر کیا جائے تو مخبر کو جاہل سمجھیں گے اور مذکورہ بالا عیب کی وجہ سے ہر گز اس کو سچا نہیں مانیں گے۔حالانکہ اگر یہ لوگ سفر کریں اور دوسرے لوگوں سے ملیں جلیں تو اپنی رائے سے باز آجائیں۔باایں ہمہ ان کے اسلاف اس درجہ بے خبر نہیں تھے۔([xvii])
چوتھا اختلاف،طبقاتی نظام
ہم میں اور ہندوؤں میں بڑا اختلاف یہ ہے کہ ہم آپس میں سب کو برابر سمجھتے ہیں اور ایک کو دوسرے پر فضیلت صرف تقویٰ کی بنا پر دیتے ہیں۔یہ اختلاف ہندوؤں اور اسلام کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔([xviii])البیرونی کے مطابق ہندوؤں میں چار ابتدائی طبقات برہمن،کشتر،بیش اور شدر کے نیچے ادنیٰ درجہ کے ذلیل لوگ ہیں جن کا شمار کسی طبقہ میں نہیں ہے۔مختلف پیشوں جیسے دھوبی،موچی،ملاح،جلاہا وغیرہ کے اعتبار سے ان کی تقسیم کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ان سب کو چاروں ذات والے اپنی آبادی میں سکونت پذیر ہونے نہیں دیتے۔ہادی،ڈوم،چنڈال اور بدھتو یہ لوگ کسی فرقہ میں بھی داخل نہیں ہیں ۔ان کی حالت اولاد الزنا کی طرح ہے کہ وہ سب ایک ہی طبقہ میں شمار ہوتے ہیں۔ان میں سب سے بدتر بد ھتو ہیں ،یہ صرف معمولی مردہ جانور کھا لینے پر ہی قناعت نہیں کرتے بلکہ کتا وغیرہ تک چٹ کر جاتے ہیں۔([xix])
لنگ پوجا
البیرونی نے جہاں ہندوؤ ں کے بتوں کا ذکر کیا ہے وہاں مہادیو کے لنگ (عضو تناسل)کی پوجا کا تذکرہ بھی کیا ہے اور اس کی مورتی بنانے کا طریقہ بھی بیان کیا ہے۔البیرونی کے مطابق ہندوؤں کا عقیدہ یہ ہے کہ لنگ کی صورت غلط بنانے کے سبب ملک میں خرابی ہوتی ہے ۔ گول حصے کو چھوٹا یا پتلا بنانے سے ملک میں خرابی ہوتی ہے اور جن اطراف کے لوگوں نے اس کو بنایا ہے،ان میں برائی ظاہر ہوتی ہے۔اس میں گہرائی اور بلندی کم ہونے سے لوگ بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔اگر بناتے وقت اس پر کسی کانٹے وغیرہ کی چوٹ لگے گی،راجہ اور اس کے گھر والے ہلاک ہوں گے۔اگر اس کے اٹھا کر چلنے میں راہ میں ٹکر لگے اور اس ٹکر سے نشان پڑ جائے ،بنانے والا ہلاک ہو گا اور ملک میں خرابی اور بیماریاں پھیلیں گی۔البیرونی کے مطابق سومنات لنگ کی عبادت کا سب سے بڑا اور مقدس حصہ تھا جسے سلطان محمود غزنوی نے اکھڑوا کر ٹکڑے کر دیا تھااور اوپر کے حصے کو توڑ کر مع اس کے سونے کے جڑاؤ اور چمکیلے غلاف کے،اپنے دارالسلطنت غزنی لے گئے۔ اس کا ایک جز غزنی کے میدان میں چکر سوام،ایک پیتل کے بت کے ساتھ،جو تھانیسر سے لایا گیا تھا ،پڑا ہے اور ایک جز وہاں کی جامع مسجد کے دروازے پر ہے جس پر پاؤں کی مٹی اور نمی پونچھی جاتی ہے۔([xx])
ہماری نئی نسل جس کا واسطہ کبھی ہندو قوم کے مذہب ،معاشرت اور اسلام دشمنی سے نہیں پڑا انہیں چاہیے کہ وہ ثریا حفیظ الرحمن کا سفر نامہ ‘‘جس دیش میں گنگا بہتی ہے’’کا ضرور مطالعہ فرمائیں ۔اس کتاب کے پیش لفظ میں غلام ربانی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘سندھ میں سکھر کے قریب ‘‘سادھ بیلو’’نام سے دریا کا ایک جزیرہ ہے جس میں ایک تاریخی مندر ہے۔قیام پاکستان کے بعد ایک بار میں نے اس کو دیکھا۔اس کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی جیسے کوئی Neglected جگہ ہو۔تاہم سنگ مر مر کے بنے ہوئے کمرے موجود تھے۔ایک کمرے میں دلچسپ منظر نظر آیا۔فرش پر مردانہ عضو تناسل کے ہم شکل مر مر کے چھوٹے بڑے کئی اعضاء بنے ہوئے تھے۔ترجمان نے بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلے سکھر سے بڑے بڑے ہندو تاجروں کی بہو بیٹیاں کشتیوں پر سوار ہو کر مندر میں تشریف لاتی تھیں،بار ی باری ہر ایک اس کمرے میں تشریف لے جاتی ۔دروازاہ بند کرتیں۔پتھر کے بنے ہوئے شو لنگ سے کچھ رسومات ادا کرتیں تا کہ شادی کے بعد برکت حاصل ہو۔میں نے ترجمان سے رسومات کی تفصیل نہیں پوچھی’’۔([xxi])
ثریا حفیظ الرحمن ان کی عبادت اور مندروں کے بارے میں تفصیلا ً تحریر فرماتے ہوئے لکھتی ہیں:
‘‘ مہارشٹر اور کرناٹکا میں رینوکا دیوی کے آگے لڑکیاں اور عورتیں عریاں ہو کر پوجا کرتی ہیں۔۔مدھیہ پردیس کے کئی مندوروں میں انسان کی بلی(قربانی)دی جاتی ہے۔ویسے بھی ہندوؤں میں دولت حاصل کرنے کے لیے جو کئی قسم کے تنترک(جادو)کیے جاتے ہیں ان کے لیے انسانی خون ضروری سمجھا جاتا ہے۔عمارات کی مضبوطی کے لیے سنگ دل ہندو کم سن بچوں کا خون اور ننھے منے اجسام بنیادوں میں چنتے ہیں اڑیسہ کے مندروں میں بھگوانوں اور دیویوں کے مجسمے دیکھنے میں نہایت شرمناک ہیں۔’’([xxii])

            درج بالا حوالہ جات سے ہندو تہذیب و تمدن اور ان کے مذہب کامسلمانوں سے مکمل طور پر الگ ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔وہ قوم جو اپنے سوا کسی کو انسان سمجھنا گوارا نہ کرے بلکہ ان کے ساتھ جانوروں سے بد تر رویہ رکھنا جائز سمجھے،کروڑوں معبودانِ باطلہ کے آگے سجدہ ریز ہو،ہزاروں طبقات اور ذاتوں پر ایمان رکھتی ہو،گائے،بندر،چوہے یہاں تک کہ عضو تناسل کی عبادت کرتی ہو۔مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتی ہو اور ان سے مس ہوئی چیزوں کو ناقابل استعمال خیال کرتی ہو، کیا ایسی قوم کے ساتھ مل کر مسلمان جو اسلام کو ایک ایسامکمل ضابطۂ حیات سمجھتے ہیں جودنیا میں آنے سے پہلے سے لے کر قبر کی آغوش تک ہدایات فراہم کرتا ہے ،اپنا نظام عدالت،سیاست،معیشت،دفاع وغیرہ کو بحسن خوبی چلانے پر قادر ہو سکتے تھے؟ برطانوی حکومت کے دور میں پورے ہندوستان کے ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارموں پر پانی بھی مذہب کی تقسیم کے ساتھ ہی ملتا تھا یہاں تک کہ دو مٹکے الگ رکھے جاتے تھے ایک پر ہندو پانی اور دوسرے پر مسلم پانی لکھا جاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی ابلہ فریبی اور خیانت کی وجہ سے مسلمان قائدین نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں اور اسلام کا ہندوستان میں دفاع کرنے کا واحد حل ہندو مسلم دوستی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک علیٰحدہ ریاست کا حصول ہے جہاں ان کا قومی تشخص قائم رہے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق قرآن و سنت کے نظام کو قائم کر سکیں۔
            پاکستان ۱۴ اگست 1947ء کو وجود میں آیا تو رمضان المبارک کی 27 تاریخ یعنی شب قدر تھی۔اس مملکت کے شب ِ قدر میں عطا کیے جانے میں یہ راز ہے کہ یہ تحفہ تمہیں قدر والی رات میں عطا کیا گیا ہے لہٰذا اس کی قدر کرو۔پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آٹھ صدیوں پر محیط سلطنت کے اختتام اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد یہ پہلی ریاست تھی جو اسلام کے نام پر قائم کی جا رہی تھی۔قدرت نے جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ارضی ہمیں آزادی کی نعمت کے طور پر عطا فرمایا جس کی بنیا د   ‘‘لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ’’ پر ہے۔نظریۂ پاکستان کے حوالہ سے ہماری کتاب ‘‘محمد رسول اللہ ﷺ کا پاکستان’’انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس میں ہم نے بانیان پاکستان کی تحریر و تقریر کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ بانیان پاکستان کے نزدیک پاکستان کے حصول کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام ہے جہاں دین سیاست سے الگ نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہماری ہدایت کا مرکز ہو گا۔نظریہ پاکستان کے بارے میں تو پرویز نے بھی یہی لکھا ہے۔پرویز لکھتے ہیں:

‘‘انہوں نے ٹیکنیک یہ اختیار کر رکھی ہے کہ اسلام یا نظریہ پاکستان جیسی اصطلاحات کا مفہوم متعین نہ کیا جائے ،انہیں مبہم رکھا جائے۔ہمارے ہاں یہ شعر جو زبان زد ِ خلائق ہے کہ:پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ!معلوم نہیں کہنے والے کے سامنے اس کا وہ مفہوم تھا یا نہیں جو قرآن کریم کی رو سے اوپر بیان کیا گیا ہے ۔لیکن بات اس نے پتے کی کہی تھی۔حقیقت یہی ہے کہ پاکستان (یا اسلامی مملکت)کی اسا س ‘‘لا الہ الا اللہ’’ہے۔([xxiii])
یہاں ہم وہ سوال اٹھانا چاہتے ہیں جو علامہ محمد اسد نے قیام ِپاکستان سے چند ماہ قبل اپنی تحریر What do we mean by Pakistan? میں اٹھایا تھا اور وہ یہ کہ کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟([xxiv])یہ سوال آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا قیام پاکستان کے وقت تھا۔ہمارا عمل اور طرز فکر اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہم اسلام نہیں چاہتے جبکہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ ہماری نجات صرف اسلام ہی میں ہے اور پاکستان اسلام کے نام پر ہی قائم ہوا ہے اور رشتۂ ایمان کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔جب ہم نے ایمان کے بجائے قوم و زبان کے اختلافات کی بنیاد پر اس کی بنیاد رکھنا چاہی تو ہمارا ایک بازو ٹوٹ کر ہم سے الگ ہو گیا،یہی وہ بات ہے جسے علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے اپنے خطبہ الہ آباد میں بیان فرمایا:
One lesson I have learnt from the history of Muslims. At critical moments in their history it is Islam that has saved Muslims and not vice versa. If today you focus your vision on Islam and seek inspiration from the ever-vitalising idea embodied in it, you will be only reassembling your scattered forces, regaining your lost integrity, and thereby saving yourself from total destruction. One of the profoundest verses in the Holy Quran teaches us that the birth and rebirth of the whole of humanity is like the birth and rebirth of a single individual. Why cannot you who, as a people, can well claim to be the first practical exponents of this superb conception of humanity, live and move and have your being as a single individual? I do not wish to mystify anybody when I say that things in India are not what they appear to be. The meaning of this, however, will dawn upon you only when you have achieved a real collective ego to look at them. In the words of the Quran, "Hold fast to yourself; no one who erreth can hurt you, provided you are well guided" (5:104). ([xxv])
ایک سبق میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھا ہے۔اپنی تاریخ کے نازک ترین مواقع پر یہ اسلام ہی ہے جس نے مسلمانوں کو نجات عطا کی ہے ، نہ اس کے بر عکس۔
اگر آج آپ اپنی نظر اسلام پر مرکوز رکھیں اور اس میں موجود ہمیشہ تواں بخش تصور سے فیض حاصل کریں گے تو آپ اپنی منتشر قوتوں کو باہم اکٹھا کر لیں گے اور اس ذریعے سے آپ خود کومکمل تباہی سے بچالیں گے۔قرآن کریم کی دقیق ترین آیات میں سے ایک آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ پوری انسانیت کی ولادت اور ولادت نو ایک فرد واحد کی ولادت اور ولادت نو کی طرح ہے ۔آپ جو بحیثیت ایک قوم زیادہ بہتر دعویٰ کر سکتے ہیں انسانیت کے اس غیر معمولی تصور کے سب سے اول عملی شارح ہونے کے، کیوں نہیں زندگی گزار سکتے اور تحریک دے سکتے اور اپنے وجود کو ایک فرد واحد کے طور پر قائم کر سکتے ۔جب میں یہ کہتا ہوں کہ انڈیا میں اشیاء ایسی نہیں ہیں جیسی بظاہر نظر آتی ہیں تو میں کسی کو اچنبھے میں نہیں ڈالنا چاہتا اس کا مطلب البتہ آپ پر صرف اس وقت منکشف ہو گا جب آپ ایک حقیقی مجموعی خودی کوان کو دیکھنے کے لیے حاصل کر لیں گے۔قرآن کریم کے الفاظ میں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ﴿المائدة: ١٠٥﴾
‘‘اے ایمان والو!تم اپنی جانوں کی فکر کرو،تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو۔’’
پاکستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد دنیا میں ایک اور نظریاتی ریاست وجود میں آئی جس کا نام ‘‘اسرائیل’’ ہے۔وہ لوگ جو متحدہ ہندوستان کا راگ الاپتے رہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اسرائیل سے سبق سیکھیں۔بائبل کی عہد نامہ قدیم کی پہلی کتاب پیدائش Genisis))کے مطابق خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی اولاد کو ایک مخصوص خطہ زمین عطا فرمائے گا۔
پیدا ئش میں ہے:
18 In the same day the Lord made a covenant with Abram, saying, Unto thy seed have I given this land, from the river of Egypt unto the great river, the river Euphrates:19 The Kenites, and the Kenizzites, and the Kadmonites,20 And the Hittites, and the Perizzites, and the Rephaims,21 And the Amorites, and the Canaanites, and the Girgashites, and the Jebusites([xxvi] )۔
‘‘اُسی روز خُداوند نے ابرام سے عہد کِیا اور فرمایا کی یہ مُلک دریائے مصر سے لے کر اُس بڑے دریا یعنی دریا یعنی دریائے فرات تک۔ قینیوں اور قینزیوں اور قدمُونیوں۔ اور حِتَیوں اور فِرزَیوں اور رفائیم۔ اور اموریوں اور کنعانیوں اور جرجا سیوں اور یبوسیوں سمیت میں نے تیری اُولاد کو دِیا ہے۔’’
یہودی اس خطے کو The Promised Land یا Greater Israel کے نام سے یاد کرتے ہیں اپنی ذلت و رسوائی کے مختلف ادوار اور Diasporaسے گزرنے کے بعد مردہ قوم یہود کو Russian Poland کے ایک یہودی مفکر Judah Leib (Leon)Pinsker (1821ء۔1891ء)نے زندہ کیا اور اپنے مضمون (1882ء)Auto-Emancipation کے ذریعے ان میں آزادی اور قومیت کا شعور پیدا کیا اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تمہاری کامیابی ایک Fatherland حاصل کرنے میں ہے۔([xxvii] )پنسکر نے اس مضمون میں یہودیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے پرانے آبائی علاقے یروشلم یا کسی دوسرے علاقے کے بارے میں جلد از جلد فیصلہ کریں کہ اب وہی ان کا آبائی ملک ہو گا جہاں سے کوئی ان کو نہیں نکالے گا اور وہ اپنی مرضی کے مطابق وہاں زندگی گزار سکیں گے۔اسی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے Theodor Herzl نے ایک مضمون The Jewish State(1896) تحریر کیا جس میں اس نے Jewish Question کو زیر بحث لاتے ہوئے Palestine یا Argentine میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا مشورہ دیا۔مگر ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ اگر ہم فلسطین کا انتخاب کر لیں تو فلسطین کا نام ہماری قوم میں ایک جوش و ولولہ کو پیدا کر دے گا اور اس طرح ہم لوگوں کو با آسانی اس طرف متوجہ کر دیں گے۔([xxviii] )
بالآخر اپنی عالمی سازشوں کے نتیجے میں یہودیوں کی صہیونی تنظیم نے لا تعداد انسانوں کا خون بہا کر اسرائیل حاصل کر لیا۔ان دونوں حضرات کی خدمات کے صلہ میں ان کی باقیات کو قیام اسرائیل کے بعد اسرائیل میں دفن کیا گیا۔اسرائیل نے جس خطۂ زمین کے حصول پر ابتداء میں اکتفاء کیا وہ ان کا مطلوبہ حصہ نہ تھا تا ہم وہ اپنے عالمی منصوبے کے تحت نیل سے فرات تک The Promised Land کی تکمیل کے لیے شب و روز اپنی جان و مال اور عزت کی قربانی دے رہے ہیں تا کہ اس مختصر سے خطے میں توسیع کے بعد اصل مقاصد کوحاصل کیا جاسکے۔جس میں مسلمانوں کے مقدس مقامات بھی شامل ہیں اور حالیہ ہونے والی تمام جنگوں اور مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے جغرافیہ کا اس سے بہت گہرا تعلق ہے۔جب یہودی اپنے عالمی منصوبے کے تحت اس قدر جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں تو کیا مسلمان عالمی سطح پر United States of Islam یا ایسا متحدہ ہندوستان بنانے کا خواب نہیں دیکھ سکتے جس کا نام پاکستان ہو؟جو کبھی حقیقت میں ان کے زیر حکومت رہا ہے۔لیکن ہماری نئی نسل ایسا خواب نہیں دیکھ سکتی کیونکہ نظریہ پاکستان اس کی نظر سے اوجھل کر دیا گیا ہے۔وہ ہندو مشرکانہ اور مغربی تہذیب میں اس قدر رنگ چکی ہے کہ اب بظاہر ایک مسلمان اور کافر میں فرق نظر نہیں آتا۔جس کا سب سے بڑاذمہ دار پاکستانی آورہ میڈیاہے۔پاکستانی مسلمانوں کو بوسنیا کے ان مسلمانوں سے درس عبرت حاصل کرنا چاہیے جن کو محض مسلمان ہونے کے جرم میں بد ترین مظالم کا نشانہ بنایا گیا اور اہل مغرب نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جبکہ وہ مسلمان ان کی اپنی اختراع کردہ اصطلاح میں بنیاد پرست و متشدد نہیں تھے۔
آزادی ایک نعمت ہے مگر یہ نعمت آگ و خون کا دریا عبور کرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ہجرت آزادی کے وقت لاکھوں مسلمان مردوں،بوڑھوں ،بچوں اور عورتوں نے جس طرح اپنی جان ،مال ،عزت و آبرو کی قربانی دی اس کی مثال تا ریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ہماری نئی نسل سے ہجرت آزادی کے واقعات اور دشمن کے چہرے کو چھپانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تا کہ ان میں دوست و دشمن کی تمیز ختم ہو جائے اور جنگ سے قبل ہی مسلمان اپنی اسلامی تہذیب و تمدن کو بھول کر ہندو تہذیب میں ایسے گم ہو جائیں کہ ان کو با آسانی غلام بنا لیا جائے۔مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنے اور باہمی اختلافات کو کم کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انہیں دشمن کا اصل چہرہ دکھا دیا جائے تا کہ وہ اپنے اختلافات بھول کر ہمہ جہتی جنگ میں اپنے قلم،زبان،دماغ ،تلوار اور وسائل کا انسان دشمن لوگوں کے خلاف استعمال کریں۔اللہ رب العزت نے اپنی راہ میں ہجرت کرنے والوں کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ﴿آل‌عمران: ١٩٥﴾
‘‘جن لوگوں نے وطن چھوڑ دیئے اور اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان سے مٹا دوں گا اور انہیں یقینا ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے اور اللہ ہی کے پاس بہتر اجر ہے۔’’
مشرکین مکہ نے جب مسلمانوں کو تکالیف پہنچا نے میں انتہا کر دی تو اللہ رب العزت نے انہیں ہجرت کا حکم دیا اور انہوں نے اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ منورہ کا رخ کیا۔مشرکین اور مسلمان اپنے رنگ و نسل اور قبائل کے اعتبار سے بظاہر ایک ہی تھے مگر ‘‘کلمہ طیبہ’’نے انہیں دو علیٰحدہ قوموں میں تقسیم کر دیا تھا۔مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے اس کا سبب وحید ان کا مسلمان ہونا تھا۔تقسیم ہند کے بعدسے آج تک ہندوستان میں مسلمانوں کے کشت وخون کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے ضابطۂ حیات ہونے پر ایمان لاتے ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں۔یہی وہ سبب ہے جس کی بنا پربرما،فلسطین،کشمیر، افغانستان،شام،عراق اوردنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔جبکہ مسلمانوں نے جن علاقوں پر بھی سینکڑوں سال حکومت کی وہاں کافروں کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں نے نہ تو جبراً ان کو اپنے مذہب میں داخل کیا اور نہ ہی ان کی نسل کشی کی۔
تقسیم ہند سے پہلے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین اہانت رسولﷺ کی وجہ سے یا مذہبی رسومات و ایام کے مواقع پر بعض اوقات فساد کی آگ بھڑک ہی جایا کرتی تھی مگر تقسیم ہند کے وقت مختلف شہروں میں اور بالخصوص مشرقی پنجاب میں جہاں کی ریاستوں سے 52 لاکھ مہاجرین پاکستان آئے([xxix]) جس طرح سے حکومت کی فوج،پولیس اور ہندوؤں و سکھوں نے بندوقوں ،رائفلوں،برین گنوں،اسٹین گنوں، بموں،توپوں، برچھیوں،نیزوں،تلواروں، کلہاڑیوں،کرپانوں اور دیگر ہتھیاروں سے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی کی وہ فقید المثال ہے۔نبی کریم ﷺ کی شان میں توہین کی گئی ۔مسلمانوں کو زبردستی ہندواور سکھ بنایا گیا۔مساجد میں سور اور جانور چھوڑ دیئے گئے۔قرآن حکیم کے اوراق میں سودا لپیٹ کر دیا جانے لگا۔مسلمان مردوں ،عورتوں اور بچوں کو نذر آتش کیا گیا۔ایک شقی القلب شخص نے سو بچوں کو اپنے ہاتھ سے زندہ آگ میں بھون ڈالا۔لاشوں کے ٹکڑے کر کے ان کو سلاخوں میں پرو کر آگ پر پکایا گیا۔بچوں کو ذبح کر کے ان کے اعضاء کاٹ کر ان کا گوشت ان کی ماوؤں کے مونہوں میں زبردستی ڈال کر چبانے پر مجبور کیا۔مردوں کے عضو تناسل کاٹ دیئے گئے ۔والدین کو ان کی اولاد کا خون پینے پر مجبور کیا گیا۔لاشوں کو درختوں پر لٹکا یا گیا۔بچوں کو اچھال کر نیزوں میں پرویا گیا۔معصوم بچوں کو فوجی بوٹوں سے کچلا گیا۔کم سن کلیوں کی نازک ٹانگیں پکڑ کر انہیں چیر کر دو ٹکڑے کر دیا گیا اورٹانگ پر ٹانگ رکھ کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ماں باپ کے سامنے بچوں کے مونہوں میں نیزہ مار کر حلق کے پار کر دیا گیا۔ ان کے کان،ناک،ہونٹ کاٹ کر والدین کی جھولی میں ڈال دیئے گئے اور کہیں دودھ پیتے بچوں کو کیلوں سے ٹھونک کر دیوار میں ٹانگ دیا گیا۔سب سے برا حال مسلمان عورتوں کا تھا۔کئی لڑکیوں کو ان کے والدین اور بھائیوں نے عصمت کی حفاظت کی خاطر خود اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر دیا یا لڑکیوں نے خود کشی کر لی۔لاتعداد لڑکیاں اغواء کر لی گئیں۔جن میں سے بے شمار آج بھی اپنی کوک سے کافربچوں کو جنم دے رہی ہیں اور ان کی آنکھیں کسی محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کا انتظار کرتے کرتے پتھرا چکی ہیں۔ جو زندہ ہاتھ لگیں ان کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں۔والدین اور بھائیوں کے سامنے جوان لڑکیوں کو برہنہ کر کے انتہائی بے دردری کے ساتھ ان کی عصمت دری کی گئی۔جنہیں آسمان نے بھی کبھی برہنہ سر نہ دیکھا تھاان کے کپڑے اتار کر برہنہ جلوس نکالے گئے۔سر عام مسلمانوں کی عصمت کا جنازہ نکال دیا گیا۔بوڑھوں کے ہاتھ پیر کاٹ کر انہیں سب کے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔وہ مسلمان جو کسی طرح جان بچا کر اپنے گھر بار اور جائیداد کو چھوڑ کر کیمپ میں پہنچتے وہ وہاں لا یموت فیھا و لا یحیی (نہ مرتے تھے نہ جیتے تھے)کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے۔کئی کئی دن کھانا اور پینے کا پانی نہیں ملتا۔وہ خواتین جو ہمیشہ باپردہ رہتیں ان کیمپس میں بغیر دوپٹے تھیں۔اگر کھانا دیا جاتا تو اس میں غلاظت اور کانچ پیس کر ملا دیا جاتا۔کئی مسلمان زہر ملا ہوا پانی ہی پینے کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے۔کیمپس میں طرح طرح کے وبائی امراض پھیل گئے۔بچے، بوڑھے ،مرد اور عورتیں سسک سسک کر مرنے لگے۔رہی سہی کسر حفاظت پر مامور فوجیوں اور پولیس نے مسلمانوں کو گولیاں مار کر،ان کی بیٹیاں اغواء کر کے پوری کر دی۔ان کیمپس میں یہ منظر بھی آسمان نے دیکھاکہ بعض موقع پرست مسلمان اس حال میں صاف پانی کا ایک گلاس تین سو روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔یوں دریا عبور کرنے،کھانا یا پانی خریدنے اور جان و آبرو کی حفاظت میں مسلمانوں کی سونے، چاندی اور روپے کی صورت میں جمع پونجی بھی اونے پونے داموں صرف ہوگئی۔ وہ مسلمان قافلے جو ٹرکوں،بسوں اوربیل گاڑیوں پر یا پیدل ہی پاکستان کی طرف ہجرت کے لیے روانہ ہوئے راستے میں ان کے قافلوں پر حملے کیے گئے۔لڑکیوں کو اغواء کر لیا گیا اور لاکھوں کا قافلہ ہزاروں میں اور ہزاروں کا قافلہ چند سو میں اور سینکڑوں کا قافلہ چند نفوس میں لٹا کٹا پاکستان پہنچتا۔بے شمار افرادسفر کی صعوبتوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے داغ مفارقت دے جاتے اور کئی منزل پر پہنچ کر دم توڑ دیتے۔ان قافلوں کے بارے میں کیمبل جانسن لکھتا ہے:
‘‘جب ہمارا طیارہ ہندوستان کی طرف مڑا تو ہم نے مسلمانوں کے اترے ہوئے اور افکار سے بوجھل چہرے دیکھے۔یہ مہاجرین آہستہ آہستہ لائل پور لاہور کی جانب بڑھ رہے تھے ان کا سب کچھ لٹ چکا تھا۔آسائش،سکون،مال و متاع،گھربار،وہ خالی ہاتھ تھے۔وہ دریائے بیاس کی طرف آئے۔مہاجرین کا کارواں اتنا لمبا پھیلا ہوا تھا کہ اس کے ایک سمت سے دوسری سمت تک گذرنے کے لیے ہمارے طیارے کو سوا گھنٹہ لگااور وہ بھی اس صورت میں کہ طیارہ ایک سو اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر رہا تھا ،۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس قافلہ کا سلسلہ ۵۴ میل تک چلا گیا تھا۔’’([xxx])
وہ اسپیشل ٹرین جو پاکستان روانہ ہوتی اس کے ڈبوں میں انسان بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیئے جاتے ۔سینکڑوں مرد ٹرین کے اوپر سفر کرتے جن میں سے کئی ایک راستے میں ہی نیچے گر کر فنا ہو جاتے۔ان ٹرینوں پر منظم انداز میں حملے کیے جاتے اور پوری ٹرین راستے میں ہی کاٹ دی جاتی ۔مال و اسباب لوٹ لیا جاتا اور خواتین کو اغواء کر لیا جاتا۔اس طرح جب یہ ٹرینیں پاکستان پہنچتیں جہاں مسافروں کے اہل خانہ ہار اور پھول لیے دیدہ و دل بچھائے منتظر ہوتے تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑتی۔ٹرینیں انسانی کٹے ہوئے اعضاء سے بھری ہوتیں ۔ٹرینوں سے خون بہہ رہا ہوتا۔کئی چشم دید افراد کا بیان ہے کہ کئی ڈبوں میں صرف گوشت کی گٹھریاں ملتی تھیں کوئی ایک نفس بھی زندہ پاکستان نہ پہنچ پاتا۔ممتاز مفتی لکھتے ہیں:
‘‘پھر شور بلند ہوا۔امرتسر سے گاڑی آگئی۔امرتسر سے گاڑی آگئی۔سب لوگ پلیٹ فارم کی طرف بھاگے،لیکن مہاجر جوں کے توں بیٹھے رہے۔جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔میں نے سائیکل کو تا لہ لگایا اور ان جانے میں اندر کی طرف چل پڑا۔پلیٹ فارم پر پہنچا تو بو کا ایک ریلا آیا۔میں رک گیا۔لوگ ناک پر رومال رکھے گاڑی کے ڈبوں میں داخل ہو رہے تھے۔جب وہ باہر نکلتے تو چہروں پر کراہت کے آثار نمایاں ہوتے۔میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ گاڑی میں داخل ہوا جائے ۔اس کے باوجود میں ادھر کھنچا جا رہا تھا۔یوں جیسے خوف نے ہپناٹائیز کر رکھا ہو۔بادل ناخواستہ میں ڈبے کی طرف بڑھا۔دروازے میں رک گیا۔وہاں خون کا چھپڑ لگا ہوا تھا۔سامنے ایک بوڑھی عورت گٹھڑی کی طرح پڑی تھی۔آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں دونوں ہاتھ پیٹ پر تھے۔سامنے پیٹ سے نکلی ہوئی آنتوں کا ڈھیر لگا تھا۔دیر تک میں اس بڑھیا کو گھورتا رہا۔خون کی بو سے طبیعت مالش کر رہی تھی۔سر چکرا رہا تھا ۔نظر دھندلی پڑتی جا رہی تھی۔گاڑی کے اندر داخل ہونے کی ہمت نہ پڑی دروازے میں کھڑے کھڑے ڈبے کا جائزہ لیا سارے ڈبے میں کٹے ہوئے گوشت کی ڈھیریاں لگی ہوئی تھیں۔ دو بازو اوپر تختے سے لٹک رہے تھے،دو کٹے ہوئے سر فرش پر لڑھک رہے تھے۔ایک بچہ ہک سے لٹک رہا تھا۔’’([xxxi])
متعدد مقامات پر ایسے دلخراش مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ لا تعداد لاشیں سڑکوں اورمیدانوں میں پڑی سڑ رہی ہیں۔کہیں ان لاشوں کو اکٹھا کر کے جلا دیا گیا اور کہیں گدھ ،چیل،کوے اور کتے مسلمانوں کی لاشوں کو نوچ نوچ کر کھاتے رہے۔یہ ایسا دردناک منظر تھا کہ دیکھنے والا سکتے میں آجائے اور انسانیت پر سے اس کا اعتبار ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے۔جن علاقوں میں مسلمانوں کو قتل کر کے ان کا مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔مساجد کو تاخت و تاراج کر دیا گیا اور مسلمانوں کو وہاں سے ہجرت پر مجبور کیا گیا ان میں سے قابل ذکر نام درج ذیل ہیں:
۱۔دہلی
۲۔پانی پت
۳۔پالم
۴۔گڈھ مکیتشر
۵۔میرٹھ
۶۔آگرہ
۷۔سہارنپور
۸۔دہرہ دون
۹۔پیلی بھیت
10۔روہیلکھنڈ
۱۱۔بریلی
12۔شاہجہاں پور
13۔مراد آباد
14۔حسن پور
15۔بنارس
16۔جوالا پور
17۔مسوری
18۔متھرا
19۔علیگڑھ
20۔اترولی
21۔ہاتھرس
۲۲۔چندوسی
23۔خورجہ
24۔ہاپوڑ
25۔کانپور
26۔ہروارا
27۔بدایوں
28۔الہ آباد
29۔پٹیالہ
30۔امرتسر
31۔فرید کوٹ
32۔نارنول
۳۳۔جالندھر
34۔لدھیانہ
35۔انبالہ
36۔فیروزپور
37۔الور
38۔بھرتپور
39۔ڈیگ
40۔باندی کوئی
41۔بیانہ
42۔جبلپور
43۔ساگر
44۔رانچی
45۔احمد آباد
46۔بھوپال
47۔پٹنہ
48۔گیا
49۔مونگھیر
50۔چھپرا
51۔آسنسول
52۔کلکتہ
53۔ہاوڑہ
54۔سیالدہ
55۔حیدرآباد
56۔بیدر
57۔جالنا
58۔نانذیر
59۔اورنگ آباد
60۔عثمان آباد
61۔گلبرگہ([xxxii])
فسادات کا آغاز کلکتہ سے اگست 1946ء میں کیا گیا ۔ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور ان کے ما ل و اسباب کو لوٹ لیا گیا۔آئن اسٹیفن نے فسادات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا :
‘‘پولیس کے مردہ خانے میں داخل ہونے کے لیے آلہ ٔ تنفس کی ضرورت تھی کیونکہ وہاں سڑی ہوئی لاشوں کے چھت تک انبار لگے ہوئے تھے۔ملٹری پولیس کے انگریز نان کمیشنڈ افسروں کے ساتھ میں نے تین گھنٹے ایک جیپ میں شہر کی سڑکوں پر گشت کیا ہم نے جو کچھ دیکھا وہ موجودہ دنیا کے فوجی میدان کارزار میں بھی نہیں دیکھ سکتے۔’’([xxxiii])
سر فرانسس ٹکر اس بارے میں لکھتا ہے:
‘‘باگ بازار اسٹریٹ کے علاقہ میں ایک چھوٹی سی مسلم بستی میں ہمارے آدمیوں نے دیکھا کہ سب کچھ جل چکا تھا۔کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔یہاں تک کہ رہنے والے یا تو بھاگ گئے تھے یا بیدردی سے قتل کر دیئے گئے تھے۔تین ننھے ننھے معصوم بچوں کی لاشیں اس جرم کی شہادت دے رہی تھیں۔
اس حادثہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہمیں تین مختلف ذرائع سے ایک ہی اطلاع ملی وہ یہ تھی کہ اس مسلم بستی کو جلا کر خاک سیاہ کرنے والے نو غنڈے تھے جنہیں ایک مشہور شخص نے جرات دے کر اس کام پر مامور کیا تھا۔
اس علاقہ میں لاشوں کو زیادہ قریب سے دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کس بہیمت اور شقاوت کے ساتھ لوگ ہلاک کئے گئے تھے۔بہت سی لاشیں مسخ کر دی گئی تھیں۔ایک لاش تو ہم نے ایسی دیکھی کہ ایک آدمی کو ٹخنوں سے باندھ کر ٹریموے الیکٹرک جنکشن سے لٹکا دیا تھا۔اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ رکھے گئے تھے۔پیشانی پر سوراخ کر دیا گیا تھا تا کہ دماغ سے اتنا جریان خون ہو کہ فوراً مر جائے اور ایسا ہی ہوا ۔یہ منظر اتنا دلخراش اور جگر فگار تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔جن سپاہیوں کو یہ لاشیں اتارنے کا اور قریب پڑے ہوئے ایک بورے میں لپیٹنے کا حکم دیا گیا تھا یہ منظر دیکھ کر موقع واردات پر اپنے ہوش و حواس وہ کس طرح سلامت رکھ سکے۔
اس تفتیش نے ایک اور اہم حقیقت واضح کر دی جو اب تک نظر سے اوجھل تھی۔بہت سی لاشیں بوریوں اور کوڑے دان میں بند پڑی سڑ رہی تھیں اور اب اس وجہ سے نمایاں ہونے لگی تھیں۔لیکن سوہا بازار میں تووسیع پیمانہ پر قتل عام کے واقعات کے نشانات ملے۔کوئی گلی لاشوں سے خالی نہ تھی۔ ایک کمرے میں پندرہ ،دوسرے میں بارہ لاشیں ملیں۔بازار کے مغربی حصہ میں ایک رکشا اسٹینڈ تھا۔تمام رکشا ٹوٹے پھوٹے پڑے تھے اور ظاہر تھا کہ رکشا کھینچنے والے سب کے سب مجموعی طور پر قتل کر دیئے گئے تھے۔اس قتل گاہ میں ہم نے دو زندہ بچے برآمد کئے دونوں بری طرح زخمی تھے اور ایک کے زخم تو سڑ گئے تھے ۔جیسا کہ سمجھا جاسکتا ہے۔یہ دونوں بچے حد درجہ بد حواس اور سراسیمہ تھے بلکہ تقریباً پاگل ہو چکے تھے۔ان کے ذہنی اعصاب بالکل مفلوج ہو چکے تھے اور جس چیز نے انہیں دیوانہ بنا دیا تھا اور اب کبھی یہ نارمل حالت میں واپس نہیں آسکیں گے۔’’([xxxiv])
اس کے بعد اکتوبر میں بہار کو شہادت گاہ بنایا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ جب قیامت کے دن تحریک پاکستان کے شہداء اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اس قافلے کی قیادت شہدائے بہار کریں گے۔نواکھلی کے فرقہ وارانہ فساد کو بنیادبنا کر یہاں کے مسلمانوں پر ایسا ظلم کیا گیا جو کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ۲۵اکتوبر سے ۱۰ نومبر تک بہار کے پانچ اضلاع میں مسلمانوں کو شدید قتل عام جاری رہا۔ ۵ نومبر تک بہار کے صرف دو اضلاع میں تیس ہزار مسلمان فنا کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔([xxxv])
آئن اسٹیفن بہار کے قتل عام کے بارے میں لکھتا ہے:
‘‘مؤرخ یہ تسلیم کریں گے کہ بہار کا سانحہ تقسیم کے نزاعی موضوع پر فیصلہ کن اثرات ثبت کر گیا۔اتنے زبردست قتل عام کے بعدجو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہوا ایک حکومت کے تحت ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے امن و صلح کے ساتھ مل جل کے رہنے کا امکان ختم ہو گیا۔’’([xxxvi])
لیفٹینٹ جنرل ٹکر نے ان معلومات کی بنیاد پر جو اسے جنرل آفیسر کمانڈنگ مشرقی کمان کی حیثیت سے ملی تھیں ،لکھا ہے:
‘‘1946ءکی بہیمانہ وارداتوں میں سانحہ بہار عظیم ترین سانحہ تھا۔ہندوؤں کے زبردست ہجوم پوری طرح تیار ہو کر نکلتے اور گنتی کے ان مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے جن کے آباو اجداد اور خود ان ہندوؤں کے آباو اجداد دوستی،محبت اور خلوص کے ساتھ ہمسایوں کے طور پر رہتے آئے تھے۔آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ نسل کشی کا یہ بھیانک منصوبہ کس کے ذہن کی پیداوار تھا۔ہمیں تو بس اتنا علم ہے کہ اس منصوبے کے تحت زبردست مسلح ہجوم وقت پر جمع ہوتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جاتا ۔تھوڑی ہی دیر میں سات آٹھ ہزار مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا گیا ،ماں کے سامنے ان کے سینے سے لپٹے ہوئے بچوں کو قتل کرنے کے بعد ماؤں کو بھی تہ تیغ کر دیا گیا’’۔([xxxvii])
ہیکٹر بولتھو لکھتا ہے:
‘‘جون کے آخر اور جولائی کے آغاز میں کشت و خون شروع ہو گیا۔ایک انگریز نے جو ایک کھڑکی کے پاس کھڑا تھا اس نے اپنے مکان کی کھڑکی سے دیکھا کہ سمندر کے ساحل پر کام کرنے والا ایک تنو مند مزدور ایک جہازی سامان اٹھانے والا آنکڑا لیے کھڑا ہے۔اس کو اپنی قوت کا اندازہ ہوا اور پھر اس نے ایک عورت پر زور آزمائی شروع کر دی جو قریب ہی کھڑی تھی۔اس نے عورت کے کپڑے پھاڑ کر اس کا جسم چیر ڈالا ۔پھر وہ سڑک پر آگے بڑھا اور اس نے یہی سفاکی کا عمل دیگر پانچ عورتوں کے ساتھ کیا’’۔([xxxviii])
پاکستان کا قیام رمضان المبارک میں عمل میں آیا ۔اُس سال مسلمانوں کی پہلی عید الفطر کیسی گزری اور اس دن جس ظلم و بربریت کا اظہار کیا گیا اس کا اندازہ وقار انبالوی صاحب کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے:
‘‘لیکن ۱۸ اگست 1947ء کے روز عید الفطر تھی۔اس روز خوف و خطر کی فضاؤں میں جالندھر کے مسلمان ہزاروں کی تعداد میں عید کی نماز ادا کر نے کے لیے عید گاہ میں جمع تھے اور ابھی پہلی رکعت میں سجدہ ریز ہوئے ہی تھے کہ ہندوؤں سکھوں نے تلواروں ،کنڈاسوں،برچھیوں اور بندوقوں سے مسلح ہو کر ان پر حملہ کر دیا اور آن واحد میں سینکڑ وں مسلمانوں کے سر تن سے جدا کر دیئے گئے جو اس وحشیانہ حملے سے جان بچا کر عید گاہ سے باہر بھاگے انہیں بھالوں کی نوک پر دھر لیا گیا۔اس طرح جالندھر کی عید گاہ لاشوں سے پت گئی۔اس کے بعد سکھا نن ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں فرقہ پرست ہندو سکھ طے شدہ پروگرام کے مطابق جالندھر کے آسودہ حال اورذی اثر مسلمانوں کے گھروں سے زبردستی پردہ نشیں عورتوں کو گھیر کر عید گاہ تک لائے یہاں ان کے برقعے اور ان کی چادریں ہی سروں سے نہ اتاریں بلکہ ان کے لباس اتار کر انہیں ننگا کر دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے مردوں کو عید مبارک کہیں اور قیام پاکستان کی خوشی میں ان کی لاشوں کے آس پاس رقص کریں۔یہ وحشیانہ سلوک اور سنگدلانہ کاروائی ایسی تھی کہ جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔شوہروں ،بھائیوں اور بیٹوں کی لاشوں پر ان کو رونے بھی نہ دیا گیا ۔برہنہ حالت میں حیا کی ماری عورتیں جب سکڑ نے سمٹنے اور ایک دوسرے کیساتھ لپٹنے لگتیں تو ان کو بھالوں کی نوک چبھو چبھو کر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ کیا جاتا بلکہ چرکے اور کچوکے اس طرح دیئے جاتے کہ وہ تڑپنے لگتیں اور قاتل قہقہے لگاتے’’۔([xxxix])
عید کے دن مسلمانوں کو جو تحفہ ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے بھیجا گیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے خواجہ افتخار لکھتے ہیں:
‘‘انہوں نے عید کے موقعہ پر ہندوستان سے لاہور آنے والی ایک مال گاڑی کے ڈبے میں مسلمان عورتوں کی کٹی ہوئی چھاتیاں، معصوم بچوں کی گردنیں اور کٹے ہوئے ہاتھ عید کے تحفے کے طور پر اسلامیان ِ پاکستان کو ارسال کئے۔جب وہ ڈبہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر پہنچا تو اس پر’‘ پاکستانی مسلمانوں کے لیے تحفہ’’کے اشتعال انگیز الفاظ لکھے ہوئے تھے’’۔([xl])
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے وقت تقریبا ۲۰ لاکھ سے زائد مسلمان شہید اور ا س سے زیادہ زخمی ہوئے۔تقریبا ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد افراد نے اپنے گھروں کو خیر آباد کہا۔([xli])سکھ اکالی دل،اکالی سینا،راشٹریہ سیوک اور دیگر سکھ و ہندو جتھے حکومت ہند کی فوج اور پولیس کی سرپرستی میں مسلمانوں کے اس قتل عام میں شریک رہے کیونکہ حکومت ہند نے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا جبکہ سکھوں نے مشرقی پنجاب سے مسلمانوں اور ان کے آثار کے نشانات تک مٹا ڈالے تا کہ وہاں ایک علیحدہ سکھ ریاست کی بنیا د رکھی جا سکے۔وہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان قائم ہی نہ ہو اور اگر قائم ہو ہی جائے تو قیام کے ساتھ ہی یہ عمارت فوراً منہدم ہو جائے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں میں سے مسلمانوں کوخارج کر کے ان سے اسلحہ واپس لے لیا گیا۔متعدد مقامات پر گھر گھر تلاشی کے بعد اطمینان کر لیا گیا کہ مسلمانوں کے پاس اب مزاحمت کے لیے ایک چھری اور چاقو بھی باقی نہیں رہا۔ جب مسلمان احتجاج کے لیے نکلتے تو صرف مسلمانوں کے لیے کرفیو لگا دیا جاتا اور ہندو و سکھ با آسانی دندناتے پھرتے ۔ ہزاروں ہندو و سکھ جتھوں کی صورت میں مسلمان آبادیوں میں داخل ہوتے اور ان نہتے ،بے بس اور تنہا مسلمانوں کو با آسانی اپنی ہوس کا اس طرح نشانہ بناتے کہ تاتاری بھی ان کی شاگردی پر نازاں ہوں۔اس کیفیت میں مسلمان فوج اور بالخصوص بلوچ رجمنٹ کا نام تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا جنہوں نے کئی ایک عصمتوں کو لٹنے اورلا تعداد جانوں کو تلف ہونے سے بچایا تاہم اگر ہماری اس وقت کی قیادت دور بینی سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کو اس عذاب کے آنے سے پیشتر تیار رہنے کی تربیت دیتی یا بروقت غیر معمولی اقدامات کیے جاتے تو شاید اس قدر بڑی تباہی سے ایک نوزائیدہ ملک دوچار نہ ہوتا۔ اس کے باوجود جب کافروں کی طرف سے نعرے لگتے :
جو مانگے گا پاکستان اس کو دیں گے قبرستان
مسلمان جوش و ولوے کے ساتھ نعرے لگاتے :
بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے رہیں گے پاکستان
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ
ہندوستان کی طرف سے 1947ء سے لے کر تاحال مسلمانوں پر اسی طرح ظلم و جبر جاری ہے۔مسلمانوں کی اس نسل کشی کو محض فرقہ وارانہ فسادات کا نام دے کر دبا دیا جاتا ہے ۔کشمیر میں ہونے والا ظلم و ستم اور دیگر ہندوستان کے شہروں میں مسلمانوں کا ریاست کی زیر نگرانی منظم قتل عام اس بات کی واضح دلیل ہے حکومت ہند ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹا دینا چاہتی ہے۔راشد شاز ہندوستان میں 1947ء سے 1997ء تک فساد زدہ علاقوں کی ایک اجمالی فہرست اس طرح بیان کرتے ہیں:
آندھرا پردیش:عادل آباد،حیدرآباد،کریم نگر،کرنول،میڈک،نلگنڈا،نظام آباد،رنگا ریڈی۔
آسام:کچھار،درانگ،گول پارہ،کام روپ،نوگونگ۔
بہار:بھاگل،بھوج پور،چمپارن،(مغربی و مشرقی)در بھنگہ،گیا،گر یڈیہ،گوپال گنج،ہزاری باغ،مدھو بنی ،مونگیر،نالندہ،پٹنہ،پورینہ،رانچی،سنتھال پرگنہ،سیوان،سنگھ بھور اور سیتھا مڑھی۔
دہلی: سنٹرل دہلی،مشرقی دہلی اور شمالی دہلی ۔
گجرات:احمد آباد،بڑودا،بانس کنٹا،بھوچ،جام نگر،جونا گڑھ،کھیدا،پانچ محل،سابر کنتھا اور سورت۔
کیرالہ:کنانور،ملام پورم،ٹریجوی،تریوندرم۔
کرناٹک:بنگلور،بیدر،دھارواڑ،گلبرگہ،کولار،میسور،ساؤتھ کنرا۔
مدھ پر دیش:بھوپال،چھندواڑہ،داموہ،جبل پور،کھٹمنڈو،کھارگون،منڈ سور،رائے گڑھ،رائے سن،رتلام،ساگر،سیہور،سیونی،شا جاپور،اجین اور ویدشا۔
مہاراشٹر:احمد نگر،آکولا،امراوتی،گریٹر بمبئی،بلڈانہ،ناسک،پر بھنی،پونے اور تھانے۔
اڑیسہ:بالاسور اور کٹک۔
راجستھان: بھلواڑہ،چتور گڑھ، جودھ پور، کوٹہ، ناگپور،پالی،اودے پور۔
تامل ناڈو: آرکوٹ(شمال و جنوب)کوئمبٹور،دھرما پور،مدورائی،رمنتا پورم،تیرو نلویلی، ٹریچی۔
یوپی: آگرہ ،علی گڑھ،الٰہ آباد،اعظم گرھ،بدایوں،بہرائچ،باندہ،بارہ بنکی،بریلی،بستی،بجنور،بلندشہر،دیوریا،فیض آباد،فتح پور،غازیپور،گونڈہ،گورکھپور،جونپور،کان پور،لکھنو،متھرا،میرٹھ،مراد آبد،مظفر نگر،نینی تال،پیلی بھیت،پرتاب گڑھ،رائے بریلی،رام پور،سہارنپور،شاہ جہاں آبد،سیتا پور،وارانسی۔
مغربی بنگال: کلکتہ، مرشد آبد،ندیا، پر گنہ۔([xlii])
رئیس احمد جعفری جبل پور بھارت میں 1961ء میں ہونے والے مسلمانوں کے کشت و خون کا ذکر کرنے کے بعد ہندو اخبارات کا تجزیہ اس طرح نقل فرماتے ہیں:
‘‘نئی دہلی 26 مئی۔بھارت میں ہر بارہ دن کے بعد ایک مسلمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔گزشتہ دس برس کے فسادات سے متعلقہ اعدادو شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارتی اخبارات نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے کسی نہ کسی علاقہ میں سات روز کے بعد مسلمانوں کے خلاف فساد برپا ہوتا ہے۔فی الحقیقت بھارت میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی مسلمان کو فرقہ وارانہ فسادات میں مجروح نہ کیا جاتا ہو۔اخبارات نے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمان اقلیت کو جن مظالم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے فی الحقیقت وہ وسیع پیمانہ پر نسل کشی ہے جس کی تاریخ عالم میں مثال نہیں ملتی۔’’([xliii])
یہ مظالم قیام پاکستان سے تا حال جاری ہیں اور خاص مقاصد کے تحت ان کی تفصیلات میڈیا پر نشر نہیں کی جاتی۔ان فسادات کی تصاویر اور ویڈیوز باآسانی انٹر نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔اندرا گاندھی کے دور میں 1981ء میں جب بہار کے فسادات میں مسلمانوں کوانتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تو اندرا گاندھی(امن کی دیوی)مسلمانوں کی لاشوں سے اٹھنے والے تعفن سے ناک اور منہ پر کپڑا رکھ کر دورے پر آئیں انہوں نے لاشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور رپورٹر کے بقول ‘‘تو وہ بھی اپنے آنسو نہیں روک سکیں۔’’([xliv])([xlv])چند سال قبل آسام ،گجرات اور احمد آباد وغیرہ میں ہونے والے فسادات کے مناظر دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔کاش کہ وہ نئی مسلمان نسل جو اپنے دشمن کو دوست سمجھ بیٹھی ہے اور ان کو خود سے بہتر سمجھتی ہے وہ ان حقائق کو جاننے کی کوشش کریں تا کہ ان کی آنکھوں سے بے وقوفی اور معصومیت کی پٹی اترے اور وہ اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوسکیں۔ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے منتری ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ مل کر دنیا کے مختلف ممالک سے ضروری معلومات حاصل کر نے کے لیے بے شمار سیل قائم کیے ۔ان میں ہسپانیہ کے سیل کو انتہائی اہمیت تھی ۔اس سیل کی زیر نگرانی ایک وفد اسپین بھیجا گیا تا کہ ان تمام اسباب و علل کو جمع کیا جا سکے جن کی وجہ سے اسپین میں مسلمانوں کی سات سو سالہ حکومت زوال کا شکا ر ہوئی ۔پھر ان تمام معلومات کو جمع کرنے کے بعد ان میں جدیداضافے کیے گئے اور ان تمام تجربات کی روشنی میں بر صغیر کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور نسیا ً منسیاًبنانے کی پالیسی تشکیل کی گئی۔تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان شراب و شباب میں غفلت کی زندگی گزارنے لگیں اور ان میں جہاد ختم ہو جائے تو پھر تباہی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔شکیب ارسلان نے زوال امت کے درج ذیل اسباب بیان فرمائے ہیں:
۱۔جانی اور مالی جہاد سے پہلو تہی
۲۔اپنے دین اور قوم سے غداری اور دشمنوں سے وفاداری۔
۳۔جہالت اورکم علمی
۴۔اخلاق کا زوال
۵۔علماء اور حکمرانوں کا زوال
۶۔دردناک بزدلی اور مایوسی
۷۔الحاد پروری اور قدامت پسندی
۸۔اسلامی تہذیب اور اسلام سے بد گمانی([xlvi])
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے مکمل طور پر پہلے دن سے ہی ایک نظریاتی جنگ اہل پاکستان پر مسلط کر رکھی ہے۔اسی لیے جب 1971ء میں پاکستان بھارتی و بین الاقوامی سازشوں اور اپنوں کی خیانت سے دو لخت ہوا تو اندرا گاندھی نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کا بدلہ لینے اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ کیا۔آج بھی آپ تمام پاکستانی چینلز کو ایک ایک کرکے دیکھتے چلے جائیں آپ پر یہ بات بخوبی واضح ہو جائے گی کہ اسلامی نظریات کو ختم کر کے مسلمانوں میں الحاد و ذہنی ارتداد کو پروان چڑھانے کے لیے ۲۴ گھنٹے صرف کیے جارہے ہیں۔مسلمانوں کی اس قدر ذہنی تخریب کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے ذریعہ نجات یعنی اسلام ہی کو اپنے زوال کا سبب سمجھ کر غیر وں کی تہذیب کو اپناتے چلے جا رہے ہیں۔ ماسٹر تارا سنگھ نے جنھوں نے سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر ابھارا تھا 24ستمبر کے اپنے بیان میں اعترا ف کیا:
‘‘ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ہمارے سکھ اور ہندو بھائی اس فرقہ وارانہ جنگ میں مسلمانوں عورتوں اور بچوں پر شرمناک حملوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔’’([xlvii])
ڈیلی میل لندن نے ۹ ستمبر 1947ء کو لکھا کہ جب سکھوں نے پچاس مسلمانوں کو بے دردی سے دہلی کے پرانے اسٹیشن پر ذبح کیاتوپولیس وہاں کھڑی دیکھتی رہی اور کسی ایک دہشت گرد پر بھی فائر نہیں کھولا گیا۔([xlviii])اللہ تعالیٰ نے سکھوں کو ان کے ہندو بھائیوں کے ہاتھوں ہی جس طرح ذلت و رسوائی سے دوچار کیا وہ دنیا میں ان کے لیے اخروی عذاب کی ایک جھلک بن کر ان کے سامنے آگیا۔جب سکھوں کی جانب سے خالصتان کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور ان میں علیحدگی پسند تنظیموں نے جنم لیا تو بھارتی حکومت نے قوت کے ساتھ ان کے اس مطالبہ کو کچل دیا۔۳ جون 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا جسے بھارتی فوجی تاریخ میں آپریشن بلیو اسٹار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس آپریشن میں ۵۰۰ سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا اور ان کی مذہبی عبادت گاہ کے کئی حصے منہدم کر دیئے گئے۔اس کے بعد Operation Wood roseکا آغاز کیا گیا جس میں ہزاروں سکھوں کے گھروں میں گھس کر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔([xlix])
اس آپریشن میں اپنے لوگوں کے قتل عام اور مذہبی مقامات کی توہین کی وجہ سے سکھوں نے اپنا بدلہ اس صورت میں لیا کہ 31 اکتوبر 1984ء کوپرائم منسٹر اندرا گاندھی کو اس کے دو سکھ محافظوں نے اس کے اپنے ہی گھر میں گولیوں سے چھلنی کر دیا۔اس واقعہ کے بعد سکھوں کو گھروں سے نکال نکال کر ہندوؤں نے خالصتان مانگنے اور اندرا گاندھی کو قتل کرنے کی پاداش میں اتنی بے دردی سے قتل کیا کہ اس کیفیت کو قلم سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔یہاں ثریا حفیظ الرحمٰن جو ان تمام حالات کی چشم دید گواہ ہیں ان کی کتاب سے چند اقتباسات ذکر کرنا مناسب ہو گا:
‘‘دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب میرے شوہر باہر جانے کے لیے تیار ہو ئے تو دونوں مہمانوں نے بتایا کہ انہوں نے صدر بازار کے ایک گھر سے اپنا کچھ سامان لینا ہے۔انہوں نے ٹیلی فون کر کے ادھر کے حالات پوچھے تو جواب ملا کہ صدر بازار کے سارے علاقہ میں آتش زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے،سڑکیں سرداروں کی لاشوں سے پٹی پڑی ہیں۔ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہے۔اس وقت تو سرداروں کو گھروں سے نکال نکال کر بجلی کے کھمبوں سے باندھ کر زندہ جلایا جا رہا ہے۔’’
‘‘خیر جب گھر سے نکلے تو ہر طرف گہرے کالے دھوئیں کے بادل چھا رہے تھے۔سڑکوں پر جا بجا موٹروں کی شیشوں کی کرچیاں بکھری پڑی تھیں۔جلی ہوئی کاریں ،بسیں،ٹرک،سکوٹر اور آئل ٹینکر راستہ روکے ہوئے تھے۔سرداروں کی املاک شعلوں کی نذر ہو رہی تھیں ،دوکانیں لوٹی جا رہی تھیں اور جگہ جگہ سرداروں کو کھمبوں سے باندھ کر پیڑول چھڑک کر زندہ جلایا جارہا تھا۔کوئلہ ہوئے ٹیکسی سٹینڈز اور ٹیکسیاں شمشان بھومیوں کے مناظر پیش کر رہے تھے۔سکھوں کو زندہ جلانے کے لیے پٹرول ،مٹی کا تیل اور گن پوڈر،بے تحاشہ استعمال ہو رہا تھا۔’’
‘‘جمعہ دو نومبر کی رات بہت ہولناک تھی۔پرانے شہر میں پوری طرح کرفیو لگا ہوا تھا۔نئی دہلی میں بھی کئی جگہوں پر کرفیو نافذ تھا۔لیکن ٹرانس یمنا کی حالت تو حشر کے میدان میں یوم حساب کا منظر پیش کر رہی تھی۔سکھ چنڈال پوریاں یعنی نو آباد سکھ کالونیاں صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی تھیں۔گلیوں بازاروں میں سکھ خاندانوں کی متعفن لاشیں کتے اور سور بھنبھوڑ رہے تھے۔بچی کچھی سردارنیاں چیتھڑے لٹکائے پاگل ہو کر سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی تھیں۔نئی نویلی دلہنوں کے سہاگ لٹ چکے تھے اور غنڈے ان کے جسموں کو نوچ نوچ کر اور کاٹ کاٹ کر کتوں کے آگے ڈال رہے تھے۔ایسی قتل و غارت گری ہوئی کہ ہر بستی مذبح خانہ بن گئی۔ٹخنوں تک انسانی خون میں لتھڑے ہوئے ہندو درندے، غول بیابان بن چکے تھے۔یہ کہانی نہیں حقیقت ہے۔میں صرف ایک عمارت کے مکینوں کو اس جہان سے رخصت کرنے کی چھوٹی سی خبر لکھ رہی ہوں ۔ایک ہی کنبے کے لوگ جو ایک بلڈنگ کے (احاطے)میں اکٹھے ہنستے بستے رہ رہے تھے۔اس احاطے کے اکیس آدمیوں میں سے صرف ایک اسی سالہ بوڑھے کو دانستہ زندہ رکھا گیا۔باقی سب کو مو ت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔جوان لڑکیوں کو چماروں کے سپرد کر دیا گیا اور باقی بچوں عورتوں کو کلہاڑیوں ٹوکوں سے ٹکڑے کر کے سوروں اور کتوں کے آگے ڈھیر لگا دیئے گئے’’۔([l])
ہندوستان کے مظالم کی فہرست بہت طویل ہے۔سری لنکا میں بھارت کا منافقانہ کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔بغاوت کو ہوا دینے اور حکومت کے خلاف باغیوں کی مدد کرنے میں بھارت کا کردار بہت منفی رہا ہے۔سری لنکا میں بھارت کی ایک لاکھ فوج نے تین سے چار ہزار تامل شہریوں کا قتل عام کیا اور لا تعداد تامل عورتوں کی عصمت دری کی۔بھارتی فوجیوں نے اس بر بریت کا اظہار کیا کہ خود تامل متشددین نے اعتراف کیا کہ Indian Peace keeping Force, IPKF امن کے بجائے ملک میں دہشت گردی پھیلا رہی ہے۔([li])یہی وجہ ہے کہ جب وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سری لنکا میں بھارتی فوج دوبارہ بھیجنے پر اپنے الیکشن کی بنیاد ڈالی تو Dhanu نامی ایک تامل کم سن لڑکی نے جس کو کئی بھارتی فوجیوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر اس کے خاندان کو قتل کر دیا تھا ،ایک خود کش حملے میں راجیو گاندھی کو قتل کر دیا۔([lii])
برما میں مسلمانوں کے حالیہ قتل عام کے پیچھے بھی ہندو ذہنیت ہی کار فرما ہے۔نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق:
میانمار میں ۴۰ لاکھ مسلمانوں کو شہید کرنے کا منصوبہ ،بھارت کے ملوث ہونے کا انکشاف:
منموہن کے 2012ء کے دورہ کے بعد فسادات شروع ہوئے ۔بھارت کے لیے صوبہ ارکان کی عالمی تجارت کے لیے وہی اہمیت ہے جو پاکستان کی گودار پورٹ کے لیے ہے۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی میانمار میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فراہمی، اب تک ۲ لاکھ مسلمان ،330 مساجد شہید،1200 بستیاں نذر آتش کی گئیں۔
‘‘لاہور(نیوز ڈیسک)بھارت میانمار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اس مقصد کے لئے جون 2012ءمیں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے میانمار کا دورہ کیا ان کے ساتھ انتہا پسند ہندو تاجر وں کا ایک وفد بھی شامل تھا۔میانمار کے صوبہ ارکان کی اکثریت کی آبادی 40لاکھ پر مشتمل ہے۔یہ علاقہ سمندر سے لگتا ہے۔عالمی تجارت کے لیے جو اہمیت گوادر پورٹ کی پاکستان کے لیے وہی بھارت کے لیے صوبہ ارکان کی ہے۔ارکان کا منموہن سنگھ ،بھارتی خفیہ ایجنسیوں را،رام اور انتہا پسند ہندو تاجروں نے جائزہ لیا تو انہوں نے بودھ مت حکومت کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو اس صوبہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔چنانچہ منموہن کے 2012ء میں دورے کے ایک ہفتے بعد فسادات میں ۲۰ ہزار مسلمانوں کو پلاننگ کے ذریعے شہید کر دیا گیا۔ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔شراب اور سور کا گوشت انہیں زبردستی کھلایا جا رہا ہے۔ان کے پیٹ چاک کر کے انتڑیاں درختوں پر لٹکا دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ بودھ مذہب قبول کرو یا علاقہ چھوڑ دو۔بودھ جہاں مسلمان لڑکیا ں دیکھتے ہیں ان کی عزت کا جنازہ نکال دیتے ہیں کئی خواتین عزت کی خاطر دریا میں ڈوب کر اپنی جان گنوا چکی ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر انتہا پسند ہندوؤں ،انتہا پسند بودھ پر مشتمل ماگھ نامی دہشت گرد تنظیم قائم کی گئی ہے جس نے منموہن کے دورے کے بعد علاقے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھ کر مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا گھناؤنا منصوبہ تیار کر رکھا ہے جس پر تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے،میانمار کے صوبہ ارکان میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں بودھ مت کے پیروکاروں کو ہتھیار فراہم کر رہی ہیں جن سے نہتے بے گناہ معصوم جانوں کا قتل عام جاری ہے۔گذشتہ دو برس کے دوران دو لاکھ مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔منصوبے کے مطابق یہ پروگرام ۴۰ لاکھ کلمہ گو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے تک جاری رہے گا۔۱۲۰۰ بستیاں نذر آتش، ۳۰۰ سے زائد مساجد شہید ،قرآن پاک کی بے حرمتی، خواتین کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔پناہ کے لیے جنگلوں میں جانے والوں کو راستے میں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا۔سینکڑوں خواتین سے پوجاریوں کی زیادتی،حاملہ خواتین کے پیٹ چاک،زندہ بچے نکال کر آگ میں پھینک دیئے گئے’’۔([liii])
اس وقت پوری اسلامی دنیا حالت جنگ میں ہے۔ان کی جان، مال،عزت اور دین کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔اس حالت میں روئے زمین کے مسلمانوں کوقوم پرستی،لسانیت اور رنگ و نسل کے اختلافات کی بنیا د پر جمع نہیں کیا جا سکتا ۔ تاریخ اور حال سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ہنود ویہود مسلمانوں کے خلاف ایک ملت ہیں۔ ہجرت آزادی میں مشرکین اور سکھوں نے بلا تفریق فرق و مسالک مسلمانوں کا قتل عام صرف اس لیے کیا کہ وہ مسلمان تھے ۔آج بھی ان کا قتل عام اسی علت کی بنا پر مختلف ممالک میں کیا جا رہا ہے۔دشمن کی تلوار مسلمان کو قتل کرنے سے قبل اس کا مسلک و مذہب یا فرقہ نہیں پوچھتی ان کے لیے قابل گردن زنی ہونے کے لیے کلمہ گو ہونا ہی کافی ہے۔اگر مسلمان آج بھی اپنی بقا چاہتے ہیں تو انہیں کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ پر جمع ہونا پڑے گا تا کہ اس رشتہ ایمان میں منسلک ہونے کے بعد یہ ایک دوسرے کے درد و تکلیف کو محسوس کرتے ہوئےکم از کم اپنے دفاع اور معیشت کو ایک کر لیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ﴿النساء: ٧٥﴾
‘‘اور(مسلمانو!)تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (غلبۂ دین کے لیے) اور ان بے بس (مظلوم و مقہور)مردوں ،عورتوں اور بچوں (کی آزادی)کے لیے جنگ نہیں کرتے جو(ظلم و ستم سے تنگ ہو کر)پکارتے ہیں:اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے لوگ ظالم ہیں اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے،اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے۔’’
اگر ہم نے اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کیا تو نتیجتاً ایک ایک کر کے تمام اسلامی ممالک کفر کے قدموں تلے روند دیئے جائیں گے اور ہمارا اپنا حال بھی ان سے مختلف نہ ہو گا۔تمام عالم اسلام کو ایک کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کو دشمن کا اصل چہرہ دکھا دیا جائے تاکہ مسلمان ایک دوسرے کے حالات سے بھی آگاہ ہوں۔یہ عمل مسلمانوں کی صفوںمیں اتحاد پیدا کرنے اور ان کو بنیان مرصوص بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ہم پاکستانی میڈیا کے مجموعی رویہ سے مایوس ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلمانانِ عالم کا ایک دوسرے کے احوال سے آگاہ ہو نا بہت ضروری ہے۔ہجرت آزادی کے حقائق و واقعات میں مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا ایک دور ان کے عروج سے شروع ہوا اور مغلیہ سلطنت کے اختتام پر ختم ہوا۔دوسرا دور جنگ آزادی سے شروع ہو کر تحریک پاکستان اور قیام پاکستان پر ختم ہوتا ہے۔ہجرت آزادی میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام اور ان کا بے گھر و بے آبرو ہونا ہندوستان میں مسلما ن حکمرانوں کی غفلت اور عیاشی کا ثمرہ ہے۔مسلمانوں نے دعوت و تبلیغ پر بھی خاص توجہ نہیں دی کہ اپنی حکومت کی مدت مدید میں ہی ان کے دماغوں کو اسلام کی عظمت کا قائل اور ان کے دلوں کو اس پیغام کی طرف مائل کر لیا جاتا۔اوراق میں بکھری مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی داستانیں یہ سبق سکھاتی ہیں کہ مسلمان ہمیشہ اپنے مردوں،عورتوں،بوڑھوں اور بچوں کو فوجی تربیت دیں اور انہیں تیار رکھیں تا کہ بوقت ضرورت کم از کم اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوں سکیں۔تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب ترتیب دیا جائے کہ نئی مسلمان نسل میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی محبت پیدا ہو اور وہ کسی مشرک یا یہودی کو اپنا آئیڈیل بنانے کے بجائے اپنے قومی اور اسلامی ہیروز کی اتباع کرنے میں فخر محسوس کریں۔شہدائے پاکستان کے خون کا تقاضا ہے کہ ان کے پاکیزہ خون سے محمد بن قاسم،محمود غزنوی اورسلطان ٹیپو کی داستان رقم کرنے والی نئی نسل تیار کی جائے۔ہندو قوم کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر طاقتور شے کی عبادت کرتی ہے اور کمزور و نحیف کو ملیچھ سمجھ کر کچل دیتی ہے۔بغل میں چھڑی اور منہ میں رام رام اس کا طرہ ٔ امتیاز ہے۔اس لیے اس دشمن سے کبھی بھی خود کو غافل نہ رکھیں جس کا گٹھ جوڑ یہود کے ساتھ ہے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی وہ تمام تر واقعات بیان فرمادیئے تھے جو قیامت تک واقع ہونے والے ہیں تاکہ اہل ایمان آئندہ وقوع پذیر ہونے والے فتنوں سے اپنے ایمان کو محفوظ رکھ سکیں اور آزمائشوں اور مصائب میں ثابت قدم رہتے ہوئے دیگر اہل اسلام کی حفاظت بھی کر سکیں۔حضرت امام مسلم علیہ الرحمۃ روایت فرماتے ہیں:
و حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ جَمِيعًا عَنْ أَبِي عَاصِمٍ قَالَ حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ أَخْبَرَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ حَدَّثَنِي أَبُو زَيْدٍ يَعْنِي عَمْرَو بْنَ أَخْطَبَ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتْ الظُّهْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتْ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ فَأَخْبَرَنَا بِمَا كَانَ وَبِمَا هُوَ كَائِنٌ فَأَعْلَمُنَا أَحْفَظُنَا[liv] حضرت عمرو بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :’‘ رسول اللہ ﷺنے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر ہم سے خطاب فرمایایہاں تک کہ ظہر کی نمازکا وقت ہو گیا ۔پھر نیچے تشریف لائے نماز ادا کی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے ہم سے خطاب فرمایا یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا۔پھر نیچے تشریف لائے نماز ادا کی،پھر منبر پر تشریف فر ما ہوئے،پھر ہم سے خطاب فرمایا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔پس آپ ﷺ نے ہمیں خبر دے دی اس کی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہونے والا ہے۔۔پس ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جس نے اسکو زیادہ یاد رکھا۔’’
رسول اللہ ﷺ کی ان اخبار و احادیث میں کئی ایک مقامات پر امت کو اپناایمان بچانے کی نصیحت کی گئی ہےاور اس کے ساتھ عظیم فتوحات کی وہ بشارتیں بھی دی گئی ہیں جو مایوسی کے عالم میں یقین کی کیفیت کو پیدا کر دیتی ہیں۔حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كِلَاهُمَا عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيَّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ يَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ وَلَوْ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا أَوْ قَالَ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا[lv] حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہا:’‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو سمیٹ دیا اور میں نے اس کے تمام مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا۔اور جو زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی تھی عنقریب میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی اورمجھے سرخ اور سفید دو خزانے دئیے گئے اور میں نے اپنی امت کے لیے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ وہ اس کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور ان کے علاوہ ان پر کوئی دشمن نہ مسلط کیا جائے،جو ان سب کی جانوں کو مباح کرے،اور بے شک میرے رب نے فرمایا: اے محمد!ﷺ جب میں کوئی فیصلہ کر دوں تو وہ رد نہیں ہوتا ،اور بے شک میں نے تمہاری امت کے لیے فیصلہ کر دیا ہے کہ ان کو عام قحط سالی سے ہلاک نہیں کروں گا اور ان کے علاوہ ان کے اوپر کوئی ایسا دشمن مسلط نہیں کروں گا جو ان کی جانوں کو مباح کر ےخواہ ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہو جائیں ،ہاں اس امت کے بعض لوگ بعض دوسروں کو ہلاک کر دیں گے اور بعض بعض کو قید کریں گے۔’’
اہل اسلام ہند پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں تاکہ اللہ رب العزت ان کو اس بشارت سے سرفراز فرمادے جو غزوۂ ہند میں شریک ہونے والے مجاہدین کے لیے ہے کہ اگر وہ اس میں شہید ہو جائیں تو وہ افضل الشہداء ہیں اوراگر غازی بن کر لوٹیں تو اللہ ان کے تمام گناہوں کومعاف فرما دے گا۔حدیث شریف کے مطابق غزوہ ٔ ہند کی تکمیل حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک کے ذریعے ہوگی ۔جس میں ہندوستان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر ان کے سامنے پیش کیا جائے گا اور ہندوستان مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے اہل اسلام کے تحت آجائے گا۔
پاکستان وہ مبارک اور پاک سر زمین ہے جسے اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو نعمت عظمیٰ کے طور پر شب قدر کو رمضان المبارک میں عطافرمایا ہے۔اہل اسلام اور اہل پاکستان کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مشرکین اور یہودیوں کو اللہ رب العزت نے مسلمانوں کا سب سے شدید ترین دشمن قرار دیاہے۔اللہ رب العزت نے فرمایا:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا [lvi] آپ یقیناً ایمان والوں کے حق میں بلحاظِ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔
آج بھی یہودوہنود عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ہماری نوجوان نسل اس بات کو ذہن نشین کر لے کہ پاکستان وہ عظیم مملکت ہے جسے ہمارے آباواجداد نے اپنی جان،مال،عزت و آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا ہے۔اس ملک کی تعمیر میں ان بہنوں کی قربانی بھی شامل ہے جن کے برہنہ جلوس بازاروں میں نکالے گئے۔یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے اور نظریاتی طور پر ایک اسلامی ملک ہے۔اسلام اور پاکستان کا باہمی گہرا تعلق ہے۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی کسی خارجی حملے کا خطرہ ہوتا ہے تو قوم کو سیکولرازم کے نام پر جمع نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے بلکہ اس قوم کو اس کلمہ کی بنیاد پر جمع کیا جاتا ہے جو اس کا مطلب و مقصد ہے یعنی
لا اله الا الله محمد رسول الله ﷺ
پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اسلام کے نام پر ہی پر امن،قائم اور شاد بادرہ سکتاہے۔پاکستان رہے یا نہ رہے اسلام تو رہے گا لیکن جس خطۂ زمین کو اللہ رب العزت نے اس دور میں اسلام کی سربلندی،حرم کی پاسبانی اورعالم اسلام کی قیادت کے لیے منتخب کیا ہے، وہ پاکستان ہے۔پاکستان امت کی آبرو اور حرم کی نگہبانی کا امین ہے۔مسلمانوں کا آخری قلعہ اور آخری چٹان ہے۔اس لیے اس کی حفاظت کریں اور اس سے محبت کریں۔وہ لوگ جو اپنا مستقبل یورپی ممالک سے جوڑے ہوئے ہیں وہ اس بات کو قلب و ذہن پر نقش کر لیں کہ اگراللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کشور حسین میں رہتے ہوئے امت مسلمہ کی قیادت و خدمت کا کام سر انجام دیں ۔ اس وقت بالخصوص اطراف و اکناف سےعالم کفرجمع ہو کرپاکستان کے حصے بخرے کرنے کی کوشش کر رہا ہےکیونکہ اس پاک سر زمین کو روند نے کے بعد ان کے لیے کوئی اور اسلامی قوت ایسی باقی نہیں بچے گی جو ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں سد ذوالقرنین ثابت ہو سکے۔ہم ہندوستان کا کئی بارمیدان کارزار میں سامنا کر چکے ہیں جس میں ہم نے دشمن کو مسکت اور دندان شکن جواب دیا ہے البتہ ہماری بد اعمالیوں اورصفوں میں موجود غداروں کی وجہ سے ہمیں بعض مواقع پرتکلیف کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ہندوستان کے مشرکین کے ساتھ ہونے والی ہر جنگ غزوۂ ہند کا ہی حصہ ہے جس کی تکمیل احادیث کے مطابق حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی۔
[i] سیرت ابن ہشام،ج:2/ص:593
[ii] المستدرك على الصحيحين للحاكم،رقم الحدیث :۷۲۷۹
[iii] محمدرسول اللہ ﷺ ،ص:۱۹۹
[iv] المستدرک للحاکم:رقم الحدیث:3954
[v] عرب و ہند کے تعلقات :ص:28
[vi] فتوح البلدان ،ج:3/ص:531
[vii] مشارع الاشواق:ص:۹۱۸۔۹۱۹
[viii] تاریخ فرشتہ،محمد قاسم فرشتہ،ج:۱/ص:46
[ix] تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:655 تا 659
[x] تاریخ الاسلام:ج:۶/ص:۳۶
[xi] تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:91
[xii] تاریخ کلیسیائے ہندو پاک ،ج:۴/ص 306
[xiii] تاریخ کلیسائے پاکستان،ص:67
[xiv] تاریخ کلیسیائے ہند و پاک:ج:۴/ص 301
[xv] حجاز ریلوے، نسیم احمد، ص:221
[xvi] المائدۃ:82
[xvii] کتاب الہند، ص:20 تا23
[xviii] کتاب الہند:ص:108
[xix] کتاب الہند:ص:109-110
[xx] کتاب الہند:ص:477۔478
[xxi] جس دیش میں گنگا بہتی ہے،ص:25
[xxii] جس دیش میں گنگا بہتی ہے:ص:101
[xxiii] قائد اعظم کے تصور کا پاکستان، ص:239
[xxiv] Muhammad Asad, This Law of Ours, What do we mean by Pakistan, Page 71
[xxv] Speeches and Statements of Iqbal, page 35, 36
[xxvi] Genesis 15:18-21
[xxvii] http://www.jewishvirtuallibrary.org/jsource/Zionism/pinsker.html
If we would have a secure home, give up our endless life of wandering and rise to the dignity of a nation in our own eyes and in the eyes of theworld, we must, above all, not dream of restoring ancient Judaea. We must not attach ourselves to the place where our political life was once violently interrupted and destroyed. The goal of our present endeavors must be not the "Holy Land," but a land of our own. We need nothing but a large tract of land for our poor brothers, which shall remain our property and from which no foreign power can expel us. There we shall take with us the most sacred possessions which we have saved from the ship-wreck of our former country, the God-idea and the Bible . It is these alone which have made our old fatherland the Holy Land, and not Jerusalem or the Jordan. Perhaps the Holy Land will again become ours.
[xxviii] http://www.jewishvirtuallibrary.org/jsource/Zionism/herzl2b.html
[xxix] پاکستان ناگزیر تھا،ص:547
[xxx] عہد لارڈ ماؤنٹ بیٹن، ص:230
[xxxi] الکھ نگری،ممتاز مفتی،ص:19
[xxxii] 1947ء کے آنسو،ص: 19 تا 35
[xxxiii] 1947ء کے آنسو، ص: 285
[xxxiv] خون کی ہولی، ص:226۔227
[xxxv] اخراج اسلام از ہند، ص:78
[xxxvi] قائد اعظم جناح، جی الانہ، ص:۵۰۵
[xxxvii] قائد اعظم جناح، جی الانہ،ص:۵۰۵۔506
[xxxviii] Hector Bolitho , Jinnah, Creator of Pakistan, page:189
[xxxix]جب امرتسر جل رہا تھا،ص:265
[xl] جب امرتسر جل رہا تھا، ص:266
[xli] ظہورپاکستان، ص۳۱۳
[xlii] ہندوسستانی مسلمان، ص:67۔68
[xliii] خون کی ہولی،ص28
[xliv] ۱۹۴۷ءکے آنسو:ص:275
[xlv] عظیم قائد عظیم تحریک،جلدنمبر :۱،ص:۵۵۳
[xlvi] اسباب زوال امت،مترجم:ڈاکٹر احسان بک سامی حقی، ملخصاً
[xlvii] جناح پیپرز:ج:۵/ص:50
[xlviii] The Tragedy of Delhi(Through the Neutral Eye), page 11
[xlix] Robert A.Pape, Dying to Win, Page: 156
[l] جس دیش میں گنگا بہتی ہے:ص:138۔142۔145
[li] Robert A.Pape, Dying to Win, Page: 152
[lii] Robert A.Pape, Dying to Win, Page: 226
[liii] نوائے وقت۔بروز ہفتہ،یکم جون 2013ء ،ص:۶
[liv] صحیح مسلم: 5149
[lv] صحیح مسلم: 5144
[lvi] المائدۃ:۸۲

Comments

Click here to post a comment