Category: مباحث

  • جاوید غامدی، سلاست اور علمی مباحث – محمد دین جوہر

    جاوید غامدی، سلاست اور علمی مباحث – محمد دین جوہر

    محمد دین جوہرگزشتہ کچھ عرصے سے ورقی اور برقی میڈیا میں محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیہ“ پر بحث چلی آتی ہے۔ سہ ماہی ”جی“ نے بھی اپنی ایک اشاعت میں بساط بھر اس بیانیے کے مذہبی اور نظری پہلوؤں پر گفتگو کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ ابھی حال ہی میں جناب نادر عقیل انصاری صاحب نے محترم غامدی صاحب کے دلالتِ لسان اور تکفیر کے موقف پر نقد کی نظری اور علمی کاوش کی ہے۔ غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کی طرف سے انصاری صاحب کی تحریروں کا جواب بھی سامنے آیا۔ اس میں دلالتِ لسان اصلاً کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ خالص نظری مسئلہ ہے، لیکن دین میں متون کی بنیادی اہمیت کی وجہ سے یہ بحث آگے چل کر مذہبی مضمرات حاصل کر لیتی ہے۔ تکفیر کا مسئلہ ٹھیٹھ مذہبی مسئلہ ہے اور اس کے نظری پہلو نہایت ضمنی نوعیت کے ہیں۔ انصاری صاحب اور فکر غامدی کے حاملین کے مابین جو بحث چلی، میں بضاعت بھر اسے دیکھتا رہا ہوں۔ فی الوقت اس بحث کے ایک ایسے پہلو کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو آہستہ آہستہ ہر بحث میں اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔

    انصاری صاحب کو جواب دینے والے کئی حضرات نے خاص طور پر دلالتِ لسان کی بحث میں اس کے مشکل ہونے کا گلہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی بات کا سادہ خلاصہ بنا کر پیش کریں۔ بعض اوقات تو ایسا لگا کہ وہ موضوع کی مشکل کو بھی انصاری صاحب ہی کا کوئی ذاتی عیب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ ”مفکر“ کا اصل کام بات کو سادہ بنا کر پیش کرنا ہے۔ بہرحال یہ تعریف بھی لاجواب رہی، کیونکہ ایسے مفکر اب ان کے تخیلاتی جغرافیہ میں ہی پائے جاتے ہیں۔ جب بحث آگے بڑھی تو یہی ”سادگی“ اور ”سلاست“ کی دہائی خود ایک دلیل بن گئی، اور کہا گیا کہ دیکھو اصل بات تو سادگی ہے، اور ہم بہت سادہ بات کرتے ہیں، جبکہ ہمارے مخالفین بہت پیچیدہ بات کرتے ہیں اور اکثر فلسفیانہ دلچسپیوں کے ”مرتکب“ بھی پائے گئے ہیں۔ جلد ہی یہ الزام صحیح اور غلط کا معیار بھی بن گیا۔ گزارش ہے کہ ان بحثوں کا یہ پہلو غور طلب ہے۔

    سوال یہ ہے کہ بات کی سادگی اور اظہار کی سادگی سے کیا مراد ہے؟ گزارش ہے کہ روزمرہ، غیر رسمی زندگی میں اظہار اور ابلاغ کا بڑا ذریعہ زبان ہے، جو اپنے استعمال میں سلیس، سادہ اور سیدھی ہوتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں زبان کا بنیادی مقصد معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے جو افراد، اشیا یا واقعات کے بارے میں ہوتی ہیں، یا ان کی صورت اطلاعات وغیرہ کی ہوتی ہے۔ معلومات کے تبادلے میں زبان کا مشکل پن یا پیچیدگی رکاوٹ بن جاتی ہے، اور عموماً مسائل اور غلط فہمی کا باعث ہوتی ہے۔ عام زندگی میں زبان کا استعمال فہم عامہ کی سب سے کم سطح کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے، تاکہ اطلاعات کے ابلاغ اور کاموں کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ یا مسئلہ پیدا نہ ہو۔ روزمرہ سماجی زندگی اور کاروباری، انتظامی اور سیاسی امور میں اس بات کا ازحد خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی بات فہم عامہ سے اوپر اٹھ کر مسائل کا باعث نہ بنے اور نظام زندگی میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔

    دینی ہدایت اور نصائح کی حیثیت بھی معلومات کی ہے کیونکہ ان کا تعلق متداول یا مطلوبہ اقدار و اعمال سے ہوتا ہے۔ ہدایت کا مخاطب ہر انسان ہے اس لیے اس کا اظہار ”بیّن“ ہوتا ہے، جس کا ایک پہلو سادگی ہے، اور یہ سادگی ابلاغ عامہ کے لیے ضروری ہے۔ ہدایت اپنے بیان اور ابلاغ میں بہت سادہ ہے اور ہر انسان کی رسائی میں ہے اور ہر انسان اس کو جان لیتا ہے۔ لیکن یہ جان لینا، مان لینے کے ہم معنی نہیں ہے۔ پھر جان لینا، سمجھ لینے کا ہم معنی بھی نہیں ہے۔ اس میں اہم تر یہ کہ وہ فہم انسانی جو ہدایت کے اقرار یا انکار کی بنیاد ہے، وہ اقداری نوعیت کا ہے یعنی وجودی ہے، اور اس کا ذہنی فہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اقدار، حق کا اظہار ہیں، منزّل ہیں، ہر انسان ان کا مخاطب ہے، اس لیے ان کا بیان سادہ ہوتا ہے۔

    معلومات اور ان کا ابلاغ سادہ ہے، ہدایت اور اس کا ابلاغ بھی سادہ ہے، اور انسانی شعور بھی سادگی پسند ہے، تو سوال یہ ہے کہ پیچیدگی اور مشکل کہاں سے آتی ہے؟ ہر ایسا بیان جو بیک وقت شعور و وجود کو محیط ہو، یا جس کا موضوع شعور و وجود بیک وقت ہو، وہ ازحد سادہ ہوتا ہے اور ایسا بیان صرف اقداری ہو سکتا ہے۔ یہ اقدار کا اسلوب بیان ہے، یہ ہدایت کا اسلوب اظہار ہے۔ اگر کسی بیان کا موضوع صرف وجود ہو، تو وہ سادہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ کسی طور ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر کسی بیان کا موضوع صرف شعور ہو، وہ سادہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اور نظری علوم کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ ایک وقت میں شعور کو زیر بحث لا سکتا ہے یا وجود کو۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ انسان ایسا بیان تشکیل دینے پر قادر ہی نہیں ہے جو بیک وقت شعور و وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہو، اس لیے اس کا کوئی بیان محکم نہیں ہو سکتا کیونکہ آخرالامر یہ علم، نظری علم ہی ہو گا، کبھی ہدایت نہیں ہو سکتا۔ اور نظری علم انبار وجود میں گھرے ہوئے عقلی شعور کی وقتی کارگزاری ہے۔ نظری علم ہمیشہ پیچیدہ ہی ہوگا، ادق ہی ہو گا، اور کبھی سادہ نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی علم الکلام اور اس کی روایت انتہائی ادق ہے۔ عرفان اور اس کی روایت تو علم الکلام سے بھی ادق ہے۔ فقہ سادہ ہے لیکن اس کی اصولی ابحاث بہت پیچیدہ ہیں۔ علم بیان اور علم بلاغت کے مباحث بھی بہت پیچیدہ ہیں۔ فلسفے کی پوری روایت اپنے اظہار میں بہت مشکل ہے۔ جدید نفسیاتی، سماجی، سیاسی اور معاشی علوم نہایت مشکل ہیں۔ سائنسی علوم بھی نہایت ادق اور مشکل ہیں اور ان کی اعلیٰ ابحاث اب عام لوگوں کے فہم و شعور سے بہت اوپر جا چکی ہیں۔ اور یہ ادق، مشکل اور پیچیدہ علوم سب نظری ہیں۔ علم میں مشکل پن اور پیچیدگی تہذیب کی ضرورت بھی ہے اور اس کا مظہر بھی۔

    سائنسی علوم سے ہٹ کر، سوال یہ ہے کہ نظری علم کی کیا اور کیوں ضرورت پڑتی ہے جبکہ ہدایت کا بہت سادہ بیان موجود ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہدایت یا دینی اقدار مان لیے جانے کے فوراً بعد اپنے مصداقات از خود پیدا نہیں کرتیں۔ اس کی وجہ بھی بہت سادہ ہے کہ کوئی رکاوٹ موجود ہوتی ہے۔ انسان کے داخل میں یہ رکاوٹ نفس ہے اور انسان کے خارج میں یہ رکاوٹ تاریخ ہے۔ ”عبد“ بننا مشکل ہے کہ قدر کے تحقق میں نفس اور ذہن حائل ہیں، اور اسلامی معاشرہ بنانا مشکل ہے کہ اجتماعی ارادے میں تاریخ حائل ہے۔ اگر قدر اور اس کے مصداق کے درمیان نفسی اور تاریخی فاصلہ بڑھتا چلا جائے تو آخری مرحلہ تاریخ کا مکمل غلبہ اور قدر کی موت کا ہوتا ہے۔ اقدار اور ان کے مصداقات میں بڑھتے ہوئے فاصلے کو پاٹنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اول، محکم ارادہ جو قدر اور تاریخ کے درمیان فاصلے کو پاٹ دے، اور نظری علم جو اس فاصلے کی نوعیت کو واضح کر دے اور ارادے کا معاون ہو۔ سادہ بات یہ ہے کہ قدر اور تاریخ میں فاصلہ کرداری نمونوں اور نظری علم کو لازم کر دیتا ہے۔

    دینی متن کی تشریح مخاطب انسان کا جائز مفاد ہے، جبکہ دینی متون اور تاریخی صورت حال کے متعلقات کی تلاش، تعبیر کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں متجددانہ ”تعبیرات“ یہ کام وعظ کی پست توسیع سے کرتی ہیں، کیونکہ وہ روایت سے ارادی انقطاع، عقل اور عقلی طریقۂ کار سے دستکشی اور نظری علوم کے انکار سے پیدا ہوئی ہیں، اس لیے سادگی کی تجلیل کے بغیر کھڑی بھی نہیں ہو سکتیں۔ سادگی ایک ظاہری چیز ہے، اس لیے پرفریب، دلفریب اور ذہن فریب ہو سکتی ہے۔ سادگی کی معنویت کا سوال فوراً پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ علمی تحریر میں سادگی شعور اور وجود کی باہمی ضروری اور نظری نسبتوں کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہوتی ہے، اور یہ پستی ہے کوئی خوبی نہیں ہے۔ انسان کے اعمال و افعال میں سادگی ایک اعلیٰ اخلاقی قدر ہے اور زہد و ورع کا اظہار ہے۔ علمی تحریر کا معیار اس کا ثقہ ہونا ہے، اور اس پر سادگی کے اخلاقی معیارات وارد نہیں کیے جا سکتے۔ نظری علم پیچیدہ اور دینی عمل سادہ ہوتا ہے۔ ان دونوں میں التباس پیدا کرنا متجددین کی خاص مہارت ہے۔ فکر میں سادگی کا التباس علم، ذہن اور اقدار کے لیے خطرناک ہے، اور گزشتہ چند صدیوں میں اس نے ہماری تہذیبی فکری روایت کو غیرمعمولی نقصان پہنچایا ہے۔ اب وقت ہے کہ ”سادہ مفکری“ کی عمومی پستی کا علمی جائزہ لے کر اس سے نجات حاصل کی جائے۔

  • قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ یا واضح الدلالہ اور خفی الدلالہ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ یا واضح الدلالہ اور خفی الدلالہ – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق عزت مآب جناب عزیز ابن الحسن صاحب نے ایک صاحبِ علم کی تحریر پر میری رائے مانگی ہے۔ چند نکات پیش ِخدمت ہیں:

    1۔ یہ کہ قرآن کے قطعی الدلالہ ہونے کے لیے قرآن ہی کی آیات سے استدلال مصادرہ مطلوب کا مغالطہ ہے۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ جن آیات سے آپ قطعیت ثابت کررہے ہیں، کیا وہ بذات خود اس مفہوم میں قطعی ہیں کہ ان کا ایک ہی مفہوم ہو، وہی جو آپ لے رہے ہیں؟ امام رازی جب الفاظ کے بجائے عقلی برہان کی قطعیت کا دعوی کرتے ہیں تو وہ اسی پہلو سے بات کر رہے ہیں لیکن مولانا اصلاحی اور جناب غامدی نے قرآن کے الفاظ کے ساتھ امت کی ”جذباتی وابستگی“ کو بنیاد بنا کر، نہ کہ کسی عقلی دلیل پر، امام رازی کے مؤقف کو کمزور قرار دیا ہے اور بعد کے اصحابِ علم نے بھی ان کی پیروی میں امام رازی کی بات کو بہت ہلکا لیا ہے۔ بےشک امام رازی کی بات مسترد ہی کر دیں لیکن ایک دفعہ اسے توجہ کا مستحق ضرور جانیں۔

    2۔ رضاعتِ کبیر کے جس مسئلے کے متعلق صاحبِ تحریر فرماتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل میں خبرِ واحد کی وجہ سے قرآن کے الفاظ کی قطعیت کو ظنی بنادیا جاتا ہے، کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اس مسئلے میں عصر حاضر میں قرآن کی قطعیت کے سب سے بڑے علم بردار جناب غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ رضاعتِ کبیر کی یہ روایات صحیح اور قابلِ قبول ہیں اور یہ کہ ان سے قرآن کی قطعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟ (کم ازکم 1982ء کے شائع شدہ ”میزان، حصۂ اول“ میں تو جناب غامدی کا یہی موقف تھا۔ بعدمیں موقف تبدیل ہوا تو معذرت) بہ الفاظِ دیگر، کم از کم یہ مسئلہ تو قرآن کے قطعی الدلالہ ہونے کے مؤقف کا محرک نہیں ہے ۔

    3 ۔ سب سے دل چسپ بات یہ ملی کہ دینی و شرعی مصطلحات ، جیسے الصلاۃ ، الزکاۃ اور الربا ، ظنی الدلالہ نہیں بلکہ ”مجمَل“ ہیں اور سنت نے ان کی تبیین کردی ہے۔ یہاں کئی امور قابلِ غور ہیں :
    اولاً یہ کہ غامدی صاحب، جن کے موقف پر یہ مباحثہ چل رہاہے، سنت اور حدیث میں فرق کرتے ہیں اور چاہے الصلاۃ اور الزکاۃ کے مفاہیم وہ ”امت کے متوارث عمل“ سے ہی، جسے وہ سنت کا نام دیتے ہیں، اخذ کریں ، کم از کم الربا کا مفہوم وہ حدیث سے متعین نہیں کرتے۔ اسی طرح کئی دیگر مصطلحات، یا مجمل الفاظ، کا مفہوم وہ حدیث کے بجائے لغت سے متعین کرتے ہیں اور اسی کو قرآن کے قطعی الدلالہ ہونے کا لازمی تقاضا گردانتے ہیں، اور یہی تو اصل محلِ نزاع ہے۔
    ثانیاً یہ کہ ”ظنی الدلالہ“ اور ”مجمل“ میں فرق کیا ہے ؟ کیا غامدی صاحب جس طرح الفاظ کو قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ (بلیک اینڈ وہائٹ) میں تقسیم کرتے ہیں اس کا لازمی مطلب یہ نہیں مجمل کو ظنی الدلالہ ہی سمجھیں کیوں کہ اس کا مفہوم تبیین سے قبل واضح نہیں ہوتا؟ مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح غامدی صاحب کے مکتب میں قطعی الدلالہ کا مفہوم ہی ابہام کا شکار ہے (اور جناب زاہد مغل صاحب اس کی خوب وضاحت کرچکے ہیں ) اسی طرح ان کے ہاں ظنی الدلالہ بھی ایک نہایت مبہم تصور ہے اور ان دونوں تصورات کے core سے ذرا penumbra کی طرف جائیں ، ”grey area“ میں جائیں، تو قطعی اور ظنی دونوں ہی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
    ثالثاً ( اور یہ سب سے اہم مسئلہ ہے ) یہ کہ فقہائے کرام لفظ کو قطعی الدلالہ اور ظنی الدلالہ کے بجائے ”واضح الدلالہ“ اور ”خفی الدلالہ“ میں اور پھر ان میں سے ہر ایک کو ذیلی چار قسموں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اس spectrum کی ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جائیں تو خفاء کی انتہائی شکل (متشابہ) سے وضوح کی انتہائی قسم (محکم) پر پہنچ جاتے ہیں۔ درمیان میں خفاء اور وضوح کے بیچ کئی شیڈز آتے ہیں۔ واضح الدلالہ کی آخری دو قسموں، محکم اور، مفسرمیں تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی (محکم میں نسخ کی بھی گنجائش نہیں ہوتی)؛ اس لیے یہی دو قسمیں اس مفہوم میں “قطعی الدلالہ“ ہوسکتی ہیں جو مفہوم غامدی صاحب قطعی الدلالہ کا لے رہے ہیں ۔ مفسر سے نیچے واضح الدلالہ کی دو قسمیں (نص اور ظاہر) بھی فقہائے کرام کے نزدیک ”قطعی الدلالہ“ نہیں ہیں، خواہ وہ نسبتاً واضح الدلالہ ہوں۔ پھر ظاہر سے نیچے تو خفی الدلالہ کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں سب سے پہلے خفی اور پھر مشکل کے مدارج آتے ہیں جن کا خفاء لغوی تحقیق سے دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ہی مجمل کی باری آتی ہے جس کا خفاء لغت سے دور نہیں کیا جاسکتا بلکہ شارع کی تبیین سے ہی دور ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اندازہ لگائیں تو فقہائے کرام جسے مجمل کہتے ہیں وہ غامدی صاحب کے ”ظنی الدلالہ“ کی بھی آخری حدود میں ہے کیوں کہ اس کا ”واحد مفہوم“ لغوی تحقیق سے معلوم ہی نہیں کیا جاسکتا۔

    4۔ صاحبِ تحریر مزید فرماتے ہیں کہ ”اجتہادی دلالات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا حکم منصوص کی طرح نہیں ہوتا بلکہ ظنی ہوتا ہے۔“ عرض یہ ہے کہ اس عبارت میں لفظ ”منصوص“ ظنی الدلالہ ہے کیوں کہ یہ ”محتمل الوجوہ“ ہے ۔ تبیین اس اجمال کی یہ ہے کہ غامدی صاحب کے حلقے کے ہمارے کرم فرما ہر حکم کو جو قرآن کے الفاظ میں موجود ہو ”منصوص“ مان لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جب قرآن کی آیت کو ”نص“ کہا جاتا ہے تو اس کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے اور جب”ظاہر“، ”نص“، ”مفسر“ اور ”محکم“ کی تقسیم کی جاتی ہے تو وہاں ”نص“ سے مراد کچھ اور ہوتی ہے۔ جب قرآن کی آیت یا کسی حدیث کو ”نص“ کہا جاتا ہے تو یہاں نص انگریزی لفظ text کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ اس کے برعکس لیکن وضوح اور خفاء کے لحاظ سے جب ظاہر اور نص میں فرق کیا جاتا ہے تو ظاہر لفظ کے apparent مفہوم کے لیے بولا جاتا ہے جو وضوح کا پہلا درجہ ہے لیکن اسے قطعیت نہیں کہا جاسکتا؛ نص اس کے بعد کا درجہ ہے جب اس ظاہری مفہوم کے ساتھ ”سیاق“ کی دلالت بھی شامل ہوجائے۔ (سیاق میں کیا کچھ داخل ہے، یہ ایک الگ تفصیلی بحث ہے )۔
    مثال عام طور پر یہ دی جاتی ہے کہ احل اللہ البیع و حرم الربوٰ والی آیت بیع کی حلت اور ربا کی حرمت میں ظاہر ہے لیکن بیع اور ربا کے درمیان فرق میں نص ہے۔ ایک اور مثال یہ دی جاتی ہے کہ سورۃ النسآء میں ان عورتوں کی تفصیل دینے کے بعد جن سے نکاح حرام ہے، فرمایا گیا:[pullquote] و احل لکم ما ورآء ذلکم۔[/pullquote]

    دوسری طرف سورۃ الاحزاب میں امہات المؤمنین کے ساتھ نکاح کی حرمت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: [pullquote]و لا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا۔[/pullquote]

    اب سورۃ النسآء کی آیت کو ظاہر اور سورۃ الاحزاب کی آیت کو نص کہا جاتا ہے۔ نیز چوں کہ یہاں ابداً کا لفظ آیا ہے جس سے تابید ثابت ہوتی ہے تو یہ نص محکم بھی بن گئی اور قطعیت کے آخری درجےمیں پہنچ گئی۔

    اب مسئلہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کے حلقے میں یہ تمام احکام ”قطعی الدلالہ“ ہیں اور ہمارے یہ کرم فرما ان کے درمیان مدارج میں فرق نہیں کرتے اور ان سب کو ”منصوص“ مانتے ہیں، حال آں کہ جب تفصیلی بحث میں جاتے ہیں تو مانتے ہیں کہ یہاں کوئی تعارض نہیں ہے اور اس حکم کا محل یہ ہے اور اس کا یہ ہے ۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ تناقض میں مبتلا ہو رہے ہیں کیوں کہ اگر دونوں احکام قطعی ہیں تو پھر ان کے درمیان تعارض سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر سورۃ النسآء کی آیت میں مذکور خواتین کےسوا سبھی خواتین سے نکاح قطعی طور پر جائز ہے اور امہات المؤمنین کے ساتھ نکاح قطعی طور پر حرام ہے تو ان دو احکام میں تعارض تو واقع ہوا۔ اب یا تو سورۃ الاحزاب کی آیت کو سورۃ النسآء کی آیت کا ”ناسخ“ ماننا پڑے گا، یا یہ ماننا پڑے گا کہ سورۃ النسآء کی آیت ”بظاہر“ عام (general) ہے لیکن درحقیقت عام نہیں ہے۔ فقہائے کرام نے یہ آخری صورت مانی ہے اور یہ ماننے کی صورت میں لازماً یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ سورۃ النسآء کی مذکورہ آیت کا ”ظاہری مفہوم“ تو یہی ہے کہ ان مذکورہ خواتین کے سوا کسی بھی خاتون کے ساتھ نکاح جائز ہے لیکن یہ ظاہری مفہوم قطعی نہیں ہے۔ اس کے مفہوم کی صحیح نوعیت معلوم کرنے کے لیے دوسری نصوص، آیات و احادیث، اور اسلامی قانون کے اصول و قواعد کی طرف جانا پڑے گا۔ یہی مفہوم ہے اس آیت کے ظنی الدلالہ قرار دینے کا!

    5۔ اس لیے مسئلہ محض چند ”الفاظ“ ہی کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ کئی آیات کے صحیح اور قطعی مفہوم کا تعین محض ان آیات کے الفاظ سے نہیں کیا جاسکتا۔
    ھذا ما عندی ، و العلم عند اللہ ۔

  • غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ اور مسئلہ تکفیر: چند اعتراضات – طارق محمود ہاشمی

    غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ اور مسئلہ تکفیر: چند اعتراضات – طارق محمود ہاشمی

    %d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c راقم کا ایک مضمون ”دلیل“ پر شائع ہوا تھا۔ اس کا عنوان تھا ”جاوید غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ: تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار۔“ ہماری خوش نصیبی ہے کہ المورد کے صفِ اول کے سکالر، ہمارے محترم آصف افتخار صاحب نے جاوید غامدی صاحب کے دفاع کے لیے قلم اُٹھایا ہے (۱)۔ المورد کے کسی بھی اہم فرد کی جانب سے ہماری تنقیدوں پر یہ پہلا باقاعدہ جواب تصور کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ جاوید احمد غامدی صاحب کوئی جواب دینے سے تحریری معذرت کر چکے ہیں۔ بہتر تو یہی تھا کہ غامدی صاحب خود بات کرتے، کیونکہ جب یہ بحث ذرا آگے بڑھے گی، تو سابقہ تجربے کی روشنی میں یہ خدشہ ہے کہ غامدی صاحب اپنے کسی بھی شاگرد کی تحریروں سے اظہارِ برأت کرنے میں لمحہ بھر دیر نہیں لگائیں گے، اور یوں یہ تمام مکالمہ بےسُود رہےگا۔ تاہم، ہم اس کو بھی غنیمت جانتے ہیں کہ المورد کے اصحابِ علم نے علمی و فکری مکالمے میں شرکت کا فیصلہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کے نتیجے میں کچھ باتیں واضح ہو سکیں گی۔ محترم آصف افتخار صاحب نے ہمارے مضمون پر چند سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے اخلاقی مواعظ سے قطع نظر کرتے ہوئے، ان کے اعتراضات کے جوابات حاضر ہیں۔

    آصف افتخار صاحب نے پوچھا ہے کہ قرآن مجید میں سورہ اعراف میں جس عہد الست کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے، اس سے یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ ہم دہریوں وغیرہ کو دنیا میں بھی ”کافر“ کہہ سکتے ہیں؟ آصف افتخار صاحب کے اس سوال کا جواب مضمون میں موجود ہے۔ غامدی صاحب کے بقول: ”تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہوگیا ہے اور اب ہم اس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔“ پھر فرماتے ہیں کہ جو ”کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے.“ ان کی تکفیر بھی نہیں کی جا سکتی (بحوالہ مضمون مسلم اور غیر مسلم)۔ اس دعوے پر ہم نے عرض کیا کہ یہ تو قرآن مجید ہی کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دینا کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے. (سورہ اعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۳)۔

    اِن آیاتِ مقدسہ سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بات بتا دی ہے کہ ہر انسان پر صبح ازل اتمام حجت ہوگیا تھا کہ اللہ ہی سب کا رب ہے۔ اور یہ بات رہتی دنیا تک ہر انسان کے بارے میں حق ہے۔ چنانچہ، اب دہریے ”کافر“ ہی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ اس معاملے میں ہر ہر انسان پر اتمام حجت ہو چکی ہے، اور جب بھی کوئی انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے انکار کرتا ہے، وہ اتمامِ حجت کے بعد یہ انکار کرتا ہے، لہذا کافر ہے۔ چنانچہ، دہریوں کی تکفیر کے خلاف غامدی صاحب کا یہ مزعومہ اعتراض کہ ”خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اس کو کافر کہہ سکتے ہیں.“ دہریوں کے بارے میں بےبنیاد ہے، اور قرآن مجید سے متصادم ہے، کیونکہ خدا نے ہمیں قرآن مجید میں یہ بتا دیا ہے۔ آصف افتخار صاحب ضرور تنقید فرمائیں، لیکن ہمارے مضمون کو غور سے پڑھ کر سمجھنے کے بعد۔ محض حصولِ ثواب کی خاطر بلانہایت تنقید کرنا اہل علم کا شیوہ نہیں۔

    آصف افتخار صاحب نے دوسرا سوال یہ پوچھا ہے کہ راقم نے ”قانون اتمام حجت“ پر تنقید کی ہے، لیکن اس کے جو دلائل جاوید غامدی صاحب نے جگہ جگہ پیش کیے ہیں، ان سے تعرض نہیں کیا۔ اس پر عرض ہے کہ ”قانون رسالت“ اور ”قانون اتمام حجت“ کے نام سے جو دعویٰ جاوید غامدی صاحب نے کیا ہے، ہمارے نزدیک اس کی کوئی بنیاد قرآن مجید و حدیث شریف میں نہیں پائی جاتی۔ نہ اس بات کے حق میں کوئی دلیل نصوص میں ہے کہ ”اتمام حجت“ فقط رسل علیہم السلام ہی کی موجودگی میں ہو سکتا ہے، نہ اس کی کوئی دلیل غامدی صاحب نے پیش کی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ غامدی صاحب کا محض دعویٰ ہے جس کی قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں کوئی بنیاد نہیں پائی جاتی۔ اگر کوئی دلیل ہے، تو آصف افتخار صاحب پیش کریں، ہم اس پر اپنی طالبعلمانہ رائے بھی دے دیں گے۔

    تیسرا سوال: آصف صاحب فرماتے ہیں کہ جو لوگ جاوید غامدی صاحب سے متفق ہیں کہ فقط اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ و السلام ہی کسی کو کافر قرار دے سکتے ہیں، اُن کے نقطۂ نظر سے اب کسی کی تکفیر نہیں کی جاسکتی۔ آصف افتخار صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ تو وہی دعویٰ ہے جس پر تنقید ہو رہی ہے۔ جو دعویٰ زیر تنقید ہو، اُسی کو دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ دلیل تو یہ ہوتی اگر آصف افتخار صاحب قرآن مجید کی آیات سے ”کافر“ اور ”غیر مسلم“ کا وہ فرق ثابت کرتے جو جاوید غامدی صاحب کر رہے ہیں۔ بلکہ اگر وہ صرف یہی بتا دیتے کہ ”غیر مسلم“ کی اصطلاح قرآن مجید کی کس آیت میں استعمال ہوئی ہے؟ آخر ”حاکمیتِ قرآن“ کا نظریہ بھی تو اہل المورد کی فکر میں کوئی اہمیت رکھتا ہے.

    آصف افتخار صاحب کا چوتھا سوال یہ ہے کہ ”جاوید غامدی صاحب نے صوفیائے کرام کی تکفیر نہیں کی۔“ ہماری تنقید کا یہ نتیجہ خیر بہرحال ہوا ہے، کہ آصف افتخار صاحب نے اس موقع پر جاوید غامدی صاحب کے وہ بدنام الفاظ دُہرانے سے اجتناب کیا ہے جو غامدی صاحب نے تصوف کے بارے میں استعمال کیے ہیں، یعنی یہ کہ تصوف ”اسلام سے مختلف، مقابل، اور متوازی دین ہے“، اہل تصوف نے ”قرآن کے مقابل ایک اور کتاب“ لکھی ہے، اسلام کے مقابل ”ایک پوری شریعت تصنیف“ کی ہے، اور یہ دینِ تصوف دراصل”اسلام کے مقابل ایک عالمگیر ضلالت ہے“، وغیرہ وغیرہ۔ ہماری رائے میں غامدی صاحب نے صوفیائے کرام پر، اور ان کے معتقدین پر، یعنی امت ِمسلمہ کی اکثریت پر، نہ صرف تکفیر کا حکم لگایا ہے، بلکہ جو معاملہ انہوں نے صوفیائے کرام اور عامۃ المسلمین کے ساتھ کیا ہے، وہ تکفیر سے کہیں اشدّ ہے۔ اور عامۃ المسلمین کی تکفیر کے معاملے میں جاوید غامدی صاحب کی رائے میں، اور دوسری جانب خوارج، قادیانیوں، اور داعش کے نظریہ سازوں کی آراء میں جو مماثلت پائی جاتی ہے، وہ بھی اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس معاملے کو وضاحت سے سمجھنے کے لیے، آصف افتخار صاحب کو ہمارا مشورہ ہے، کہ نادر عقیل انصاری صاحب کا مضمون ”مسئلہ تکفیر: غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ“ پڑھنا ضروری ہے، جو ”حرف نیم گفتہ“ پر ۴/ستمبر، سنہ ۲۰۱۶ء کو شائع ہوا تھا۔ واضح رہے کہ ”دلیل“ میں اس مضمون کا ایک خلاصہ شائع ہوا تھا۔ بہتر ہوگا اگر نادر عقیل انصاری صاحب کا موقف سمجھنے کے لیے ان کا مفصل مقالہ پیش نظررہے۔ عرض ہے کہ اس بحث کا ایک پس منظر ہے اور یہ ایک جاری مکالمے کا حصہ ہے۔ اس مکالمے کے سیاق و سباق کو جانے بغیر، تنقیدی مضامین لکھنے بیٹھ جانا، نہ علم کی خدمت ہے، نہ اس سے ناقد کے وقار میں کوئی اضافہ ہی ہوتا ہے۔

    آصف افتخار صاحب کا پانچواں سوال موضوع سے غیر متعلق ہے۔ پوچھتے ہیں کہ ”اسلام میں مرتد کی کیا سزا ہے؟“ ظاہر ہے کہ ہماری کیا اوقات ہے کہ ہم اس کا فیصلہ کریں؟ اس معاملے میں تو دین کی ابدی شریعت کا بیان خود نبی ﷺ فرما چکے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے: من بدّل دینہ فاقتلوہ (صحیح بخاری، و غیرہ)۔ یعنی جو اپنا دین تبدیل کرے، اسے قتل کر دو۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کس مسلمان کو اِس میں شک ہو سکتا ہے؟ و اَنا اوّلُ المؤمنین!

    آصف افتخار صاحب نے اپنی تنقید میں جگہ جگہ راقم کی تحریر کے بارے میں اخلاقی نصیحتیں کی ہیں۔ فکرِ فراہی پر راقم کی تنقیدی تحریروں کا جو علمی، شائستہ اور مہذب اسلوب ہے، اس میں اس کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ تاہم، ناچیز کسی جوابی وعظ سے احتراز کرتے ہوئے، فقط یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے کہ آصف افتخار صاحب کو چاہیے کہ وہ کم از کم علمی تنقید کے اصولوں کی پاسداری تو کریں، اور کسی تحریر پر تنقید کرنے سے پہلے اسے اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لیا کریں۔ پھر جس قدر چاہیں شوقِ تنقید پورا کریں۔ اس طرح اُن کے اور قارئین کے قیمتی وقت کا بہتر استعمال ہو سکے گا۔ ھذا ما عندی و اللہ اعلم بالصواب۔


    حوالہ:
    (۱):دیکھیے:
    Muslim and Non-Muslim-A response to critique by Tariq Mehmood Hashmi:
    http://www.al-mawrid.org/index.php/blog/view/muslim-and-non-muslim-a-response-to-critique-by-tariq-mehmood-hashmi***

  • جعلی سیکولر پرچہ اور اصلی مطالعہ پاکستان – محمد بلال

    جعلی سیکولر پرچہ اور اصلی مطالعہ پاکستان – محمد بلال

    کچھ دن پہلے ایک صاحب نے مطالعہ پاکستان کو بےہودہ ثابت کرنے کے لیے ایسے سوالات کیے ہیں جن کا فہم و دانش سے کوئی تعلق نہیں بلکہ زمینی حقائق سے دور چونکہ چنانچہ اور اگر مگر جیسے فرضی سوالات ہیں۔ اپنے نظریہ کی ترویج کے لیے لکھنا اور دوسرے کی فکر کا رد کرنا اہل علم کا اسلوب ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ٹھہرا کہ دوسرے کے نظریے کو ”بےہودہ“ قرار دیا جائے۔ کیا سوسائٹی کی کثیر تعداد کے نظریے کو جو آئینی اور ہر لحاظ سے ہر شہری کے لیے معتبر ہے، اس کو یوں اپنی دانشوری کے زعم میں ”بےہودہ“ کہنا کیا بدتہذیبی نہیں۔ لیکن کیا کہیے کہ سیکولرزم و جمہوریت کی بنیادی اقدار آزادی اظہار رائے پر عمل پیرا ہونے کے دعویداروں میں تہذیب کا کچھ زیادہ لینا دینا نہیں رہا۔ سوالات کا پلندہ تیار کرنے والے صاحب نے شاید اندرا گاندھی کے بعد خود کو دوسرا شخص سمجھا جس نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا سہرا اپنے سر لیا، لیکن کوئی بتائے ان کو کہ نظریات کو ڈبویا نہیں جا سکتا۔ خود بنگال والے بھی ایک قومی نظریے کے تحت ہندوستان میں ضم نہیں ہوئے بلکہ الگ ملک ہی ہیں. کوشش کی ہے کہ ان سوالات کا معتدل انداز میں جواب دیا جائے، انسانی فطرت کی وجہ سے کہیں زیادتی بھی ہوسکتی ہے اس لیے کسی کی دل آزاری ہو تو معافی کی درخواست ہے ۔

    سوال نمبر1: اگر علامہ ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال نے واقعی خطبہ الہ آباد میں مسلمانان ہند کے لیے الگ آزاد مملکت کا مطالبہ پیش کیا تھا تو کس کی سازش کے تحت ان کے یہ الفاظ خطبے کے اصل متن سے غائب کیےگئے جبکہ مملکت خداداد کی تیسری جماعت سے لے کر ایم اے تک کے نصاب میں ان کا حوالہ موجود ہے؟
    جواب: علامہ اقبال کی شاعری ان کے نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔ باقی آپ خطبے کا متن دیں تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے کہ خالی سنی سنائی ہے یا کہیں کوئی حقیقت کا عنصر بھی ہے۔ یہاں کا نصاب صحیح نہ لگے تو کیمبرج یونیورسٹی کی تجویز کنندہ کتاب، ”نیگل کیلی“ کی مطالعہ پاکستان بھی اس بیان کی تائید کرتی ہے کہ اقبال سرحد ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ اپنے اسی خطبے میں ہی کر چکے تھے۔ شاید انگریز مصنفین کی دیانت داری پر اعتراض نہ ہو۔

    سوال نمبر 2: نظریہ پاکستان کب اور کس نے لکھا تھا؟ قائداعظم محمد علی جناح کی تمام تقاریر میں نظریہ پاکستان نامی کسی ترکیب کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ جنرل شیر علی خان پٹوڈی کون تھے اور کیا یہ ممکن ہے کہ ملک پہلے بن جائے اور نظریہ بعد میں جنم لے؟
    جواب: دنیا میں کوئی بھی نظریہ کئی ارتقائی مراحل سے گزر کر اپنی منطقی شکل پاتا ہے۔ یہی حال نظریہ پاکستان کا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی مساعی سے لے کر سرسید کی کوششوں تک، مولانا عبدالحلیم شرر کے مسلمانوں کے علیحدہ ملک کے علاقوں کی حدود کا بیان، شملہ وفد کی شکل میں مسلمانوں کے حقوق کی بات اور ان کے لیے علیحدہ انتخابات کا مطالبہ، مسلم لیگ کا قیام ، خلافت کی بقا کے لیے مساعی، قائداعظم کے چودہ نکات، علامہ اقبال کی علیحدہ ریاست کے لیے تجویز، ہندو ذہنیت کی حقیقت دیکھ کر چوہدری رحمت علی کا مطالبہ پاکستان، قرارداد پاکستان، قائداعظم کی اسلامی نظریے اور اسلامی نظام کےلیے سینکڑوں تقریریں، پاکستان کے قیام پر اسلامی فلاحی نظام اور اسلامی رواداری کے نظام کو اپنانے کا قائد کا عزم، یہ سب کچھ نظریہ پاکستان نہیں تو کیا ہے۔ نظریہ پاکستان کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان برطانیہ کی غلامی سے نکل کر ہندؤوں کی غلامی میں نہیں آنا چاہتے، ان کی شناخت الگ ہے اور اس کے لیے علیحدہ ریاست ضروری ہے۔ اس نظریہ کی عملی شکل مملکت خداداد پاکستان ہے۔ یہ لفظی جنگ ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی یہ کہے کہ مارکسزم کی اصطلاح مارکس نے کیوں نہ استعمال کی۔ عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں نہیں، عمارت بننے کے بعد ہی لکھا جاتا ہے، اس لیے عمارت کا نام اس کی بنیادوں میں ڈھونڈنا آپ جیسے دانشوروں کی قسمت میں ہی آیا ہے ۔

    سوال نمبر 3: اگر دو قومی نظریے کے تحت مسلمانان ہند اور ہندوئوں کا تشخص اتنا جداگانہ تھا تو ہزار سال یہ اکٹھے کیسے رہتے رہے؟ اور اگر یہ دو قومی نظریہ جمہوریت کے خطرے سے عبارت تھا تو اس پر عملدرآمد کے بعد یہ کیونکر ممکن تھا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پھر بھی ہندوستان ہی میں رہتی اور ایک الگ مملکت بننے سے جنم لینے والی نفرت کا کفارہ ہمیشہ کے لیے ادا کرتی؟ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو دو قومی نظریے کی رو سے فائدہ ہوا یا نقصان؟
    جواب: اس سطحی سوال کا جواب اتنا ہے کہ نظریہ پاکستان میں یہ کہیں نہیں تھا کہ آپس میں اکٹھے رہنا غلط ہے بلکہ یہ تھا کہ ہمارا اس صورت میں مسلم تشخص برقرار نہیں رہ سکتا. جب برطانیہ کی ”ہیجمنی“ کے بعد مہا بھارت کا تسلط آئےگا جس کے نیچے رہنا مشکل ہو جائے گا. یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ ایک صدی پہلے بھی گائے کی قربانی پر ویسے ہی قتل کیا جاتا تھا جیسے آج مہا بھارت کیا جا رہا ہے، اصل مسئلہ اپنے بنیادی آئینی حق کا مطالبہ تھا. عجیب المیہ ہے کہ بعض سیکولر اور قوم پرست دانشوروں کو ہم مختلف قومیتوں کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے دیکھتے ہیں مگر انھیں برصغیر کے مسلمانوں کا آئینی حق اور نظریہ چبھتا ہے۔ بنگال سے بلوچستان، خیبر سے سندھ تک، اور پنجاب سے بلتستان تک، یہ قومیت کے ساتھ کھڑے ہیں مگر حیرانی ہے کہ ہندو اکثریت میں انھیں یہ قومیتیں یا ان کی شناخت گم ہوتی محسوس نہیں ہوتی، اس لیے آج تک ہندوستان اور ہندو کی محبت ختم ہونے میں نہیں آ رہی. مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت صدیوں پرانی ہے، البیرونی کی کتاب الہند میں اس کی تفصیل موجود ہے اور بتایا گیا کہ ان کو ”ملیچھ“ سمجھا جاتا تھا۔ جمہوریت کے نظام کی حقیقت کے لیے صرف اتنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں 25 کروڑ مسلمانوں کے شاید پچیس نمائندے بھی بھارتی پارلیمنٹ میں نہیں ہیں تو جمہوریت کے نظام کا یہی طرز عمل پاکستان کے لیے خطرہ تھا جس کے لیے پہلے جداگانہ انتخابات اور پھر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ جہاں تک ہندوستان کے مسلمانوں کے فائدہ یا نقصان کی بات ہے تو اس میں کئی عوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ حائل کی، بائونڈری کمیشن کی نا انصافی، سرحدوں کی غیرمنصفانہ تقسیم اور متعصب کانگریسی سیاستدان، ان 25 کروڑ کا سوال آپ ان سے کریں جن کے کہنے پر وہ وہاں رہے۔ یہی سوال ہمارا بھی ہے کہ جمہوریت کو پاکر وہاں کے 25 کروڑ مسلمانوں کو کیا ملا ہے؟ اس کا جو جواب آپ دیں گے وہی میرا جواب سمجھیے گا۔

    سوال نمبر 4: کیا دو قومی نظریے کے تحت پاکستان آج تمام ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی شہریت دینے کا پابند ہے؟
    جواب: کیا ایک ہندوستانی قوم کے نظریے کے تحت بھارت آج پاکستانیوں کو وہاں کی شہریت دینے کا پابند ہے۔ پاکستان نے تو اس وقت تنگ دستی کے باوجود آنے والوں کو خوش آمدید کہا، جو وہاں مرضی سے رک گئے، آج وہ روتے ہیں کہیں گجرات میں، کہیں مظفر نگر میں اور کہیں مہاراشٹر میں۔ اس کے باوجود پاکستان نے وہاں سے آنے والوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے، مہاجرین کے قافلے سالوں بعد تک آتے اور یہاں بستے رہے. 90ء کی دہائی میں آنے والے کشمیری بھائیوں کو بھی پاکستان نے خوش آمدید کہا تھا۔ افغانستان کے 3 ملین مہاجرین تو اب تک یہاں ہیں جن کا ایک یا دو قومی نظریہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بطور مسلم ریاست ہماری بانہیں مسلمانوں کےلیے کھلی ہیں. جو اس وقت اپنے پیروں میں بیڑیاں پہن کر بیٹھ گئے، ان کی اپنی مرضی ہے۔

    سوال نمبر 5: کیا بنگلہ دیش میں پناہ گزین بہاری بنگالی کہلائیں گے یا پاکستانی؟ اور اگر انہیں پاکستان بلایا گیا تو کون سا صوبہ کون سے نظریے کے تحت ان کا استقبال کرے گا؟
    اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے ۔

    سوال نمبر 6: اگر دو قومی نظریہ ایک آفاقی سچائی ہے تو کیا پاکستان کو برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لیے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہیے؟
    جواب : میں جناب کی دانشوری پر حیران ہوں کیونکہ یہ سوال اور ابہام صرف اس لیے ہیں کہ جناب کو نظریہ پاکستان کی بنیاد اسلام سے ہی چڑ ہے جس کی ایک شکل یہ ہے کہ نظریہ پاکستان کا نام لے کر مسلمانوں کی اسلامی سوچ کا رد کیا جائے۔ پاکستان کا آئین موجود ہے، اس میں کیا یہ چیز لکھی ہے۔ یہ آئین نظریہ پاکستان کی عملی شکل ہی ہے۔ کیا مطالعہ پاکستان میں یہ بات کہیں ہے۔ تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ تنقید کا اصل ہدف آفاقی نظریہ اسلام ہے۔ مسلمان غیر مسلم ملک میں رہ سکتے ہیں، اس کی ممانعت نہیں ہے، جب نجاشی مسلمان نہیں ہواتھا تو اس کے پاس مسلمان ہجرت کرکے گئے، وہاں رہے اور علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، جب مکہ میں تھے تب بھی علیحدہ ریاست کا مطالبہ نہیں کیا، مگر جب مدینہ میں گئے اور کثرت ان کے پاس تھی تو اپنی حکومت قائم کی اور اپنے اور دوسروں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ فقہ میں دارالاسلام، دارالکفر اور دارالحرب میں رہائش کے حوالے سے ہدایات موجود ہیں. اب دنیا کے قانون بھی دیکھیں ذرا، کوئی بھی قوم اگر اس حد تک آبادی رکھتی ہے اور علاقہ بھی کہ اس کو ریاست تسلیم کیا جائے، پھر اگر وہ جمہوری یا عسکری طریقے سے اس علاقے پر قبضہ کرلیتی ہے تو وہ بین الاقوامی فورم میں ایک ملک کی حیثیت سے آ سکتی ہے جس کی مثالیں سنگاپور، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان وغیرہ ہیں۔ اب برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ کا بقیہ حصہ الگ ہونا چاہتا ہے، سپین اور دیگر ممالک میں علیحدگی کی تحریکیں ہیں، ایک قومی نظریہ یا علاقہ کوئی چیز ہے تو یہ سب ایک ساتھ کیوں نہ رہے یا کیوں نہیں رہنا چاہتے؟ یا برق صرف مسلمانوں‌ پر گرانی ہے. ویسے اب اگر جمہوریت ایک بہترین نظریہ ہے تو کیا برطانیہ، فرانس اور چین میں مسلمان آبادی کے لیے الگ ملک بنانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کرنی چاہیے؟

    سوال نمبر 7: دو قومی نظریے کی رو سے پاکستانیوں کو سعودی عرب، ایران، ترکی یا متحدہ عرب امارات کی اعزازی شہریت کا حق حاصل کرنے کے لیے کیا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنی چاہیے؟
    جواب: دو قومی نظریہ اور آو آئی سی کا مقصد کیا ہے. سرحدات اور ویزے جیسے ماڈرن ریاست کے جمہوری تصورات کے ہوتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے ایسے سوالات اٹھانا تجاہل عارفانہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے. اگر مسلم امہ جس کا نام سنتے ہی آپ جیسے دانشوروں کو چڑ ہوتی ہے، عملی شکل پہنے تو یہ مشکل دور ہو جائے گی. ریاستی یا جمہوری دور حکومت سے پہلے ایسا ہی تھا، کوئی بھی کہیں بھی جا کر رہ سکتا تھا، کاروبار کر سکتا تھا. اسلامی نقطہ نظر سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے. او آئی سی کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کےلیے آواز اٹھانا ہے، یہ اس وقت قائم ہوئی جب بیت المقدس میں آگ لگانے کی کوشش کی گئی، اس سے دوقومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ثابت ہورہا ہے کہ نہیں اور اس کی سمت کا بھی صحیح تعین ہو رہا ہے، کہ مسلمان دوسری اقوام سے الگ اور متحد ہیں۔ ہمارے خیال میں تو پاکستان کو آگے بڑھ کر کوشش کرنی چاہیے کہ او آئی سی کو یورپی یونین جیسا بنانا چاہیے. شہریت کا سوال ہی ختم ہو جائے گا.

    سوال نمبر 8: بنگلہ دیش کون سے نظریے کے تحت بنا؟ کیا ہمیں انہیں اب بھی مسلم برادر سمجھنا چاہیے؟
    جواب: بنگلہ دیش جس نظریے کے تحت بنا اس کو قوم پرستی کہتے ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت اب کیا کررہی ہے اور کیسے بنی اور کس نے بنائی سب کے سامنے ہے۔ شاید اندرا گاندھی کا جملہ آپ کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے کہ آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ یا پھر مودی جی کا اعتراف حق کہ بنگلہ دیش ہم نے بنایا۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ کیا کیا کسی کی غداری اور کسی سازش سے نظریہ پر کوئی حرف آئے گا مگر پھر بھی یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان سے الگ ہو کر بنگال ہندوستان میں ضم ہو گیا، اس نے ایک قومی نظریہ قبول کر لیا؟ بنگلہ اب بھی اسلامی ریاست ہے، الگ ہے، منموہن سنگھ کے بقول 25 فیصد بنگالی اس سے سخت نفرت کرتے ہیں، پاکستان ہندوستان بنگلہ دیش میں کھیلیں تو اسٹیڈیم پاکستان کے ساتھ ہوتا ہے، اور آج بلوچستان میں مداخلت کے اشارے کے بعد ہندوستانی دانشور اور اخبارات اسے سمجھا رہے ہیں کہ بنگلہ دیش بنوا کر دیکھ لیا، وہاں اب بھی ویسی نفرت ہے، اور کئی تنازعات ہیں. بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلق کی بحالی او آئی سی کے سر ہے، 1974ء میں لاہور کانفرنس میں مجیب کی شرکت اس کی دلیل ہے اور یہ آپ کی او آئی سی کی ذمہ داریوں کے بارے میں غلط فہمی کا بھی جواب ہے ۔ تنازعات اور حسینہ واجد کے ظلم کے باوجود بھی بنگلہ دیشی ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ان کی نسبت سے بنگلہ دیش برادر اسلامی ملک ہے۔

    سوال نمبر 9: کیا مسلمانوں کی اکثریت پاکستان بننے کے لیے تحریک کے دوران قتل ہوئی یا پاکستان بننے کےاعلان کے بعد فسادات کے دوران؟ کیا ان کی قربانیوں کی وجہ سے ملک بنا یا ملک بننے کی وجہ سے وہ قربان ہوئے۔ یہی سوال لاکھوں عورتوں اور بچیوں کی عصمت دری کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک ملک بننے کی قیمت میں کتنی لاشوں اور عزتوں کا سودا منافع بخش کہلائے گا؟
    جواب: تحریک پاکستان قیام پاکستان بننے کے اعلان تک تو نہیں تھی، ظاہر ہے کہ ریاست نے عملی طور پر وجود میں آنا تھا. یہاں ایک بات تو یہ ہے کہ ہجرت نہ کرتے تو پھر آپ نے زیادہ شدت سے سوال کرنا تھا کہ دو قومی نظریہ تھا تو ہجرت کی نہ کی گئی دوسرے علاقوں سے، ہجرت تو بذات خود اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اپنی الگ ریاست کےلیے دل و جان سے پرعزم اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے. دوسرا یہ کہ یہ سوال تو قاتلوں سے ہونا چاہیے، جن کی محبت آپ کو ستائے جا رہی ہے. مسلمانوں کا اپنے وطن میں آنا اسی تحریک کا حصہ ہی تھا اور قتل عام تحریک کے بعد نہیں بلکہ تحریک کے دوران بھی ہوا۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ یہ اعتراض صرف برصغیر کے مسلمانوں تک محدود کیوں؟ آزادی کی تحریک جہاں بھی چلی ہے، ایسے ہی قربانیاں دینی پڑی ہیں، امریکہ و سوویت یونین تک اور مشرقی تیمور سے جنوبی سوڈان تک، کوئی بھی خانہ جنگی سے پاک نہیں رہا. آج کی طاقتوں نے عراق سے افغانستان تک جمہوریت لانے کے نام پر لاکھوں لوگ قتل کر دیے تو اس جمہوریت اور جمہوری نظام کے بارے میں کیا کہیے گا۔ یہ تعین کرلیں ظالم کون ہے؟ ظالم تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ٹھہری اور مظلوم کو یہ کہا جارہا ہے کہ تمھیں کس نے کہا تھا کہ جمہوریت کی خلاف دو قومی نظریہ کا راگ الاپو، اب بھگتو جمہوری ظلم۔ کیا انصاف اور کیا جمہوریت ہے۔ ایک اور بات کہ کشمیر میں دو لاکھ شہید ہوئے، کیا وہ بھی اس نئے ملک میں آنے کے دوران شہید ہوئے۔ افسوس کہ مظلوم کو کوسا جاتا ہے اورظالم کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔

    سوال نمبر 10: ” خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی“ سے کون سی قوم مراد ہے؟ اور یہ کہاں قیام پذیر ہے؟
    جواب: یہ وہی قوم ہے جس کی فکر سے سیکولرزم کو خطرہ ہے ۔ اور وہ دن رات اسی تگ و دو میں ہے کہ اس فکر کو فضول سوالات کرکے مشتبہ بنایا جائے۔

    سوال نمبر 11: قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی اعلی قیادت میں جاگیرداروں، نوابزادوں، وڈیروں اور اشرافیہ کا کیا تناسب تھا؟ کیا یہ سب واقعی عوام کے غم میں گھلنے کے سبب ایک الگ مملکت کے قیام کے حامی تھے؟
    جواب: یہ سوال تو انھیں کرنا چاہیے جو خود جاگیردار کے حامی نہ ہوں. ہم نے دیکھا ہے کہ یہاں کی کمیونسٹ اور لبرل لابی بھٹو جیسے جاگیردار کی فدائی رہی ہے اور اس سے ان کی انقلابیت پر کوئی حرف نہیں آیا. پھر اگر برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت الگ وطن چاہتی تھی تو یہ خود جمہوری اصولوں کے عین مطابق تھا، اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ لیڈر بھٹو ہے یا نوازشریف. جہاں تک تناسب کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت مطالبہ پاکستان کی حامی تھی، اور پاکستان بننے کے بعد اپنی جاگیریں چھوڑ کر یہاں منتقل ہو گئی. کسی کے جاگیردار یا وڈیرہ ہونے سے اس کی کریڈیبیلیٹی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ آج کسی بھی ملک کا لیڈر آپ کو غریب طبقے سے نظر نہیں آئے گا۔ اس کی سوچ کیا ہے اصل بات یہ ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اس طبقے نے وعدے پورے نہیں کیے اور ملک کی جڑیں کھوکھلا کرنے میں مصروف رہے. مگر آپ تو آج انھی جاگیرداروں اور جمہوری نظام کے حامی ہیں جس میں صرف وہی آسکتا ہے جس کی جیب میں کچھ ہے۔ جمہوریت کے جتنے نام لیوا آج آپ کو نظر آتے ہیں، کیا یہ عوام کے غم میں گھلے جا رہے ہیں۔ آج پاکستان میں جمہوریت سے مخلص دو چار ہی ہوں شاید لیکن جمہوریت کے غم میں گھلنے کےلیے ہر کوئی تیار بیٹھا ہے۔

    سوال نمبر 12: مسلم لیگ کے اولین اجلاس منعقدہ 1906ء میں تاج برطانیہ سے وفاداری کے بارے میں موقف کیا تھا؟
    جواب : سوال نمبر 2 کے جواب میں اس کا جواب موجود ہے اور بتایا گیا ہے کن کن ارتقائی مراحل سے گزر کر مسلم لیگ ایک منطقی حل ”قیام پاکستان“ تک پہنچی۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلم لیگ کے قیام سے لے کر قیام پاکستان تک جو سب سے بڑا مقصد نظر آیا، وہ یہ تھا”مسلم قوم“ کا تحفظ۔ جو دو قومی نظریہ کی بنیاد ہی تھا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تحریک آزادی مختلف ارتقائی مراحل سے گزر کر حتمی نتیجے تک پہنچی. جب تاج برطانیہ سے ہی آزادی حاصل کر لی گئی تو یہ سوال ویسے ہی بےمعنی ہو جاتا ہے.

    سوال نمبر 13: اگر جواہر لال نہرو عوام کی فلاح کے لیے لینڈ ریفارمز ایکٹ انڈیا میں نافذ کر سکتا تھا تو ہماری حکومت کے ہاتھ کس نے باندھے تھے بلکہ کس نے آج تک باندھے ہوئے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ انڈیا میں جاگیرداریاں ختم ہو گئیں لیکن ہم آج بھی ایک جاگیردارانہ معاشرہ ہیں؟
    جواب: پاکستان میں یہ کام نہیں ہوسکا، اس کا افسوس ہے، یہ کام ہونا چاہیے تھا۔

    سوال نمبر 14: اگر 1919ء میں جلیانوالہ باغ میں 380 نہتوں کا قتل جنرل ڈائر، وائسرائے ہند اور ملکہ برطانیہ کے سر ہے تو اگست 1948ء میں بابڑہ میں حکومتی گولیوں سے مرنے والے 1300 نہتوں اور پھر مرنے والوں کے خاندانوں سے گولیوں کی قیمت تک وصول کرنے کا الزام خان عبدالقیوم اور گورنر جنرل پر رکھنا جائز ہو گا؟ یاد رہے کہ اس سانحے سے ایک ماہ قبل قائداعظم کی خواہش پر ڈاکٹر خان کی حکومت ختم کر کے خان عبدالقیوم کو اقتدار سونپا گیا تھا۔ کیا ایسے واقعات مثلا ڈھاکہ بنگلہ بھاشا فائرنگ 1952ء، لالو کھیت فائرنگ 1965ء، مشرقی پاکستان ملٹری ایکشن 1971ء، لیاقت باغ فائرنگ 1973ء، ٹیکسٹائل کالونی فائرنگ 1978ء، پکا قلعہ حیدر آباد فائرنگ 1989ء، 12 مئی کراچی فائرنگ 2007ء وغیرہ کو مطالعہ پاکستان کی کتب میں شامل کرنا چاہیے یا جلیانوالہ باغ ہر سینہ کوبی ہی کافی ہوگی؟

    جواب: تحریک پاکستان کی تاریخ میں تو وہی پڑھایا جائے گا جو اس وقت وقوع پذیر ہوا. حیرانی ہے کہ انگریز سرکار اور ہندو بنیے سے تو محبت ہے مگر اسلام اور پاکستان کے حوالے سے بس سوال ہی ہیں. سیدھا جواب تو یہ ہے کہ جب اس ملک میں آپ سیکولرزم نافذ کرلیں تب سیکولر مطالعہ پاکستان لکھ کر ان واقعات پر ماتم کیجیےگا، لیکن فی زمانہ جمہوریت کی اماں اور ابا کے دنیا پر ظلم و ستم ہی لکھ دیں۔ دنیا کی کوئی حکومت اپنے دفاع کے لیے کسی حد تک جاتی ہے، اس میں اکثر اوقات وہ انصاف کا دامن چھوڑ دیتی ہے۔ بغاوت کو کچلنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بغاوت کو کچلنے اور قتل و غارت میں فرق ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ جالیانوالہ باغ حملے سے پہلے ایک ایکٹ متعارف کرایا گیا، روولٹ ایکٹ، جس کا مقصد یہی تھا کہ آزادی کی لہر کا انجام دکھایا جائے، اور اصل مسئلہ ہے پری پلان قتل و غارت کی منصوبہ سازی، یہی ڈائر نے کیا تھا۔ چونکہ اس کو آئینی شکل دی گئی تھی اس لیے اس کی اتنی زیادہ مذمت کی گئی ورنہ اس سے پہلے برطانیہ نے لاکھوں مارے لیکن ایک آئینی شکل میں غنڈہ گردی کو متعارف کرانا ”جمہوریت کی بڑی اماں“ کے سر ہے۔ باقی جتنے واقعات نقل کیے گئے ہیں، ان میں سے ایک کا جواب کافی ہوگا۔ 48ء میں کس نے ”جہاد پاکستان“ برائے ”افغانستان و کانگریس“ کے لیے لوگوں کو اکسایا۔ جب آپ کی حدود میں غیروں کے دیے ہوئے مال سے جہاد کا نام لے کر فساد پھیلایا جائے اور اس کی سرکوبی میں آپ لڑیں تو کیا یہ غلط ہوگا، ہرگز نہیں۔ آج کے دہشت گردوں سے پاکستان کی لڑائی دیکھ لیں، کیا یہ صحیح ہے یا نہیں۔ 30 سال بعد کوئی دانشور اس پر سوال اٹھائے گا؟

    سوال نمبر 15: 1947ء سے لے کر اب تک فسادات، دنگوں اور بم دھماکوں میں انڈیا میں کتنے مسلمان مرے ہیں او پاکستان میں کتنے؟ آپ چاہیں تو 1971ء کے مقتولوں کو جواب سے خارج کر سکتے ہیں؟ کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اگر ایک ملک میں مرنے والے مسلمان دوسرے ملک میں مرنے والوں سے کئی گنا کم ہوں تو اس ملک کو مسلمانوں کے لیے زیادہ محفوظ سمجھا جائے؟
    جواب: آپ انصاف چاہتے ہیں لیکن اپنے بنائے ہوئے خودساختہ قوانین کی روشنی میں جبکہ انصاف غیر جانبدارانہ ہی ہوتا ہے۔ آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے تھا کہ جتنے غیر حربی لوگ انڈیا میں مارے گئے، ان کی تعداد اور پاکستان میں مارے جانے والوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے کیونکہ انسانی جان کسی کی بھی ہو وہ قیمتی ہے لیکن آپ نے صرف مسلمان کی قید لگائی جس سے خاص ذہن کی عکاسی ہوتی ہے۔ دوسری بات اگر مسلمان کی قید لگائی تو ٹھیک ہے پھر ہجرت کے دوران اور کشمیر میں مارے جانے والوں کو بھی شمال کریں اور پھر موازنہ کرلیں۔ اصل سوال تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ انڈیا میں اقلیتی افراد کے قتل عام اور پاکستان میں ہونے والے قتل عام کا موازنہ کیا جائے؟ جویقینا آپ نہیں کریں گے۔

    سوال نمبر 16: اگر آپ کو پتہ ہو کہ آپ کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں لیکن پھر بھی آپ خریداری کے لیے بازار جا پہنچیں اور خریداری کی کوشش بھی کریں تو کیا یہ طرز عمل دانش مندانہ کہلائے گا؟
    جواب: اگر جمہوریت کی جیب میں موجود کھوٹے سکوں کے باوجود ہمارے احباب جمہوری اقدار کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں اور پھر بھی جمہوریت کی خریداری کے لیے کوشاں ہے توکیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا۔ کبھی بھی کسی کے پاس سارے سکے کھوٹے نہیں ہوتے جیسے جمہوریت کے حامیوں کے پاس کچھ نظریاتی جمہوریت پسند موجود ہیں جو اپنے نظریہ سے مخلص ہیں اور وہ دن رات اس کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ تو کیا اس کو دانش مندی کہا جائے گا؟

  • غیر مسلم اور کافر کی بحث – انجینئر فیاض الدین

    غیر مسلم اور کافر کی بحث – انجینئر فیاض الدین

    %d9%81%db%8c%d8%a7%d8%b6-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86 چند مہینوں سے اہل علم کے ہاں ”غیرمسلم“ کی اصطلاح پر کافی کچھ دیکھنے اور پڑھنے کو ملا۔ بعض اہل علم کے ہاں کافر اس دنیا سے مکمل ختم ہوگئے ہیں۔‌ ‌ان کے خیال میں کافر صرف وہ لوگ تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطبین تھے، ان لوگوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حجت تمام ہوئی، اس لیے ان کو کافر کہا گیا اب چونکہ نبوت ختم ہو چکی ہے، کسی نبی نے نہیں آنا، اس لیے آج کی دنیا میں کافر کوئی نہیں ہے اور جو اسلام کو نہیں مانتے ان کے لیے ایک اصطلاح ”غیرمسلم“ استعمال کی جاسکتی ہے۔ ان اہل علم کے مطابق اگر کوئی کفر کرتا ہے تب بھی وہ کافر نہیں ہے جب تک وہ خود اقرار نہ کر لے کہ ہاں میں کفر کر رہا ہوں، اب میں کافر ہوگیا ہوں۔

    یہ مان لینے سے بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نظریے کا ماخذ کیا ہے؟ اس کے برعکس قرآن کا مدعا تو یہ ہے کہ دو گروہ ہیں جو اللہ کے بارے میں لڑتے رہیں گے۔اگر یہ دو گروہ مومن اور کافر ہیں تو یہ ”غیر مسلم“ کون ہیں؟ اللہ نے غیر مسلم کی اصطلاح قرآن میں کہیں استعمال نہیں کی، اور نہ ہمیں اتنا بڑا حق دیا ہے کہ ہم خود سے تیسرا گروہ نکال کر بیٹھ جائیں۔
    [pullquote]ھٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّھمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِھمُ الْحَمِيمُ [٢٢:١٩] [/pullquote]

    یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے ربّ کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ اِن میں سے وہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا اُن کے لیے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں، اُن کے سروں پر کھَولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔
    قرآن ہمیں کچھ اصول دیتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ اللہ نے اہل کتاب کے بعض عقائد کو کفر کہا۔
    [pullquote]لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّہ ھُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّہ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إنَّہ مَن يُشْرِكْ بِاللَّہ فَقَدْ حَرَّمَ اللہ عَلَيْہ الْجَنَّہ وَمَاوَاہ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أنصَارٍ [٥:٧٢][/pullquote]
    یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابنِ مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح ؑ نے کہا تھا کہ ”اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی“۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنّت حرام کردی اور اُس کا ٹھکانا جہنّم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔

    لَقَد کَفَرَ الَّذِین قَالُوا اِنَّ اللہ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَ مَا مِن اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنۡ لَّم یَنتَہُوا عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنھم عَذَابٌ اَلِیمٌ [٥:٧٣]
    یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتون سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اُس کو درد ناک سزا دی جائے گی۔

    اس میں سارے اہل علم متفق ہیں کہ قرآن قیامت تک ایک ہدایت کی کتاب ہے، احکامات اسی کتاب سے اخذ کیے جائیں گے۔ آج کی دنیا میں کوئی کہے کہ فلاں اللہ کا بیٹا ہے، یہ گائے ہی بھگوان ہے وغیرہ، ان جیسے لوگوں کے لیے قرآن کی مندرجہ بالا آیات میں کیا رہنمائی ہے؟ کیا ان آیات کا مقصد ختم ہو چکا؟ آج کی دنیا میں ان آیات میں کیا سبق پوشید ہ ہے؟ یا انہیں سیاق وسباق کے لبادے میں پیش کر کے اس زمانے کے لیے خاص کیا جائے گا؟ یا یوں کہا جائے گا کہ دراصل ان آیات میں مخاطب اہل کتاب تھے لہذا ان میں ہمارے لیے کوئی رہنمائی نہیں ہے؟

    میرے نزدیک بات یہ ہے کہ جیسے اس زمانے کے اہل کتاب کے متعلق اللہ کہتے ہیں کہ وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، ٹھیک اسی طرح اگر آج کے اہل کتاب کہیں کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں تو یہ بھی کفر ہی ہوگا، یہ غیرمسلم نہیں ہوں گے بلکہ کافر ہی ہوں گے۔ بالفرض وہ کافر نہیں ہیں تو پھر قرآن کی مندرجہ بالا آیت کا مقصد کیا ہے؟ جیسے کہ میں نے پہلے ہی یہ سوال اٹھایا۔

    اہل کتاب تو دور کی بات ہے، کوئی خود کو مسلم کہنے کے بعد بھی ایسا کہے تو یہ بھی ویسا ہی کفر ہے جیسا کہ اہل کتاب کرتے تھے یا کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارا ایمان غلط سمت میں تو نہیں جا رہا؟ جس طرح کپڑا خریدتے وقت ہم دکاندار کا دماغ کھا جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اچھے سے اچھا قیمتی کپڑا مل جائے، یعنی ہم دنیا کی چیزوں کا جتنا احترام اور اس کی تحقیق کرتے ہیں، اتنی کوشش دین اور اپنے ایمان کے حوالے سے بھی ہونی چاہیے۔
    [pullquote]ھُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَاللہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [٦٤:٢] [/pullquote]

    وہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھتا ہے.

    یہاں اللہ تعالی دو ناموں کا ذکر کر ہے ہیں مومن اور کافر۔ اللہ پاک کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں پیدا کیا، پس تم میں سے کوئی مومن ہے اور کوئی کافر۔ یہاں سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے غیر مسلم نامی مخلوق پیدا کیوں نہیں کی؟ یہ تیسری کیٹیگری ”غیرمسلم“ کی کہاں سے آئی؟ شریعت سازی کا حق ہم میں سے کسی کو نہیں ہے، دین مکمل ہوچکا ہے، اس کوئی کمی نہیں رہ گئی ہے، لہذا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ دین میں ایک تیسری کیٹیگری ایجاد کر لیں۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآن کے مطابق نظریات اپنائیں۔ آمین

  • مسئلۂ تکفیر: نادر عقیل انصاری کے مضمون پر اعتراضات کا جائزہ – کاشف علی خان شیروانی

    مسئلۂ تکفیر: نادر عقیل انصاری کے مضمون پر اعتراضات کا جائزہ – کاشف علی خان شیروانی

    جاوید غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ پر نادر عقیل انصاری صاحب کا ایک تنقیدی مضمون بعنوان ”مسئلہ تکفیر: غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ“، دلیل میں شائع ہوا تھا۔ تاحال غامدی صاحب کے متنازعہ ”جوابی بیانیے“ پر جو تحریریں سامنے آئی ہیں، ان میں یہ سب سے زیادہ محققانہ مضمون ہے،جس نے غامدی صاحب کے استدلال کی کمزوری محکم دلائل سے واضح کر دی ہے۔ غامدی صاحب نے ”جوابی بیانیے“ میں تکفیر کے جواز کا انکار کیا ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب کا موقف ہے کہ علماء اور امت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ مبتدعہ اور گمراہ افراد اور گروہوں کی تکفیر کر سکیں۔ ان کا استدلال ہے کہ قرآن مجید میں تکفیر کی ممانعت نہیں آئی، احادیث میں اس کا جواز ثابت ہے، اور عدالتی اور معاشرتی امور میں کئی شرائع اس پر موقوف ہیں۔ اور جس شے پر شرائع کا نفاذ موقوف ہو، وہ کیسے ممنوع ہو سکتی ہے؟ نیز یہ بتایا ہے کہ امین احسن اصلاحی تکفیر کے جواز کے قائل ہیں، اور خود غامدی صاحب صوفیائے کرام اور امت کی اکثریت کے ساتھ جو معاملہ کرتے ہیں، وہ تکفیر سے بھی اشدّ ہے۔ اہل علم نے بالعموم یہ رائے دی ہے کہ غامدی صاحب کی یہ مہم درحقیقت قادیانیوں کی تکفیر کو معرض شک میں ڈالنے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔ غامدی صاحب کے دفاع میں لکھنے والوں نے اس مضمون پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا ایک مختصر جائزہ مطلوب ہے۔ ہم اپنی بحث کا دائرہ پست اور غیر علمی نکات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف انہی باتوں تک محدود رکھیں گے، جن کے واضح نہ ہونے سے مسلمانوں میں کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

    نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کی اشاعت کے بعد خود غامدی صاحب کا حلقہ دو واضح گروہوں میں بٹ گیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر کی ہے؟ ایک گروہ کا موقف تھا کہ غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر کی ہے، اور بالکل درست کی ہے۔ مثلاً غامدی صاحب کے ایک متبع نے مضمون پر بحث کے دوران ایک فیس بک فورم پر لکھا: ”قادیانی اور صوفیاء ایک برابر ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کی عبارت کا جو مطلب عامۃ المسلمین لے رہے ہیں، یعنی یہ کہ غامدی صاحب نے صوفیاء اور اکثر امت مسلمہ کی تکفیر کی ہے، وہی ان کے بہت سے متبعین بھی لے رہے ہیں۔ خود جاوید احمد غامدی صاحب کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کا تیسرا پیرا اس گروہ کے اندیشے کی تصدیق کر رہا ہے۔ دوسرا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ غامدی صاحب نے صوفیاء کی تکفیر نہیں کی ہے، نہ انہیں غیر مسلم کہا ہے۔ ہماری نظر میں پہلےگروہ نے اپنے علم اور ذہانت کی بدولت غامدی صاحب کے موقف کو درست طریقے پر سمجھا ہے۔ تاہم دوسرےگروہ نے، جس میں محمد حسن صاحب شامل ہیں، اس کا انکار کیا ہے۔ ہمارے خیال میں محمد حسن صاحب کا استدلال بے بنیاد ہے، بلکہ ان کی اس مدافعانہ کوشش سے جاوید غامدی صاحب کا موقف مزید کمزور پڑ گیا ہے۔

    محمد حسن صاحب کے مضمون کو غامدی صاحب کے متبعین نادر صاحب کے مضمون کا جواب قرار دے رہے ہیں۔ ہم بہرحال اس مضمون کو نادر صاحب کے مضمون کا حقیقی جواب نہیں سمجھتے۔ ایک تو اس مضمون میں اس کا کوئی ذکر نہیں کہ یہ نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کا جواب ہے۔ دوسرے اس مضمون میں نادر عقیل انصاری صاحب کے دلائل سے کم ہی تعرض کیا گیا ہے۔ تیسرے، ہمارا سابقہ تجربہ ہے کہ خود غامدی صاحب بھی اپنے ساتھیوں کی تحریروں سے برأت کا اعلان کرنے میں ذرہ برابر دیر نہیں کرتے۔ ماضی میں جب بھی المورد کے کسی اسکالر نے غامدی صاحب کے نظریات کا دفاع کیا ہے، اور اس پر علمی تنقیدوں میں اس کا ضعف واضح کیا گیا، تو اس پر غامدی صاحب نے صاف کہہ دیا کہ میں المورد کے دیگر مصنفین کی کمزوریوں کا ذمہ دار نہیں ہوں، نہ ہی میں انہیں اپنا ترجمان سمجھتا ہوں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں غامدی صاحب نے فرمایا کہ اگر کوئی ان کا موقف جاننا چاہتا ہے تو وہ ان کی کتابوں کی طرف مراجعت کرے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا امکان ہی ختم کر دیا کہ کوئی اور ان کی فکر کی ترجمانی یا دفاع کرے۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ تکفیر پر بامقصد مکالمے کو آگے بڑھانے کا طریقہ یہ ہوگا کہ جاوید غامدی صاحب اپنے ناقدین کو براہ راست جواب دیں۔ غامدی صاحب کی خاموشی کا تو یہی مطلب ہوگا کہ ناقدین کی بات درست تسلیم کر لی گئی ہے۔

    ان تمہیدی کلمات کے بعد ہم ”دلیل“ میں غامدی صاحب کے مطبوعہ مضمون پر نظر ڈالتے ہیں۔ غامدی صاحب کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے بارے میں ہماری تنقید تین نکات پر مشتمل ہے۔ پہلا نکتہ ان کی تحریرات میں واضح تضاد کی نشاندہی ہے۔ غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”برہان“ میں لکھا ہے کہ اہل تصوف اسلام سے متوازی دین پر کاربند ہیں۔ ان کے لیے کتاب ہدایت بھی قرآن مجید نہیں بلکہ گیتا، اپنشد، برہم سوتر اور فصوص الحکم ہیں۔ اس عبارات کو اگر ان کے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے مقابل رکھ کر دیکھا جائےتو ان کا فکری انتشار واضح ہو جاتا ہے کیونکہ وہ یہ واضح ہی نہیں کر پاتے کہ وہ صوفیائے کرام کو کس درجے میں رکھتے ہیں۔

    غامدی صاحب پیدائشی مسلمانوں کو، جو گمراہ ہو چکے ہیں، دو گروہوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق پہلا گروہ تو ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ”اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیں“، ان کے بارے میں غامدی صاحب کے مطابق بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ”غیر مسلم“ ہیں۔ جبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی گمراہی میں مبتلا ہیں، لیکن مسلمان ہونے کے مدعی ہیں، اور اپنی گمراہی کے حق میں قرآن و حدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں۔ اس مضمون میں، غامدی صاحب کے نزدیک صوفیاء دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

    مسئلہ یہ ہے کہ ”برہان“ میں تو صوفیاء کو اسلام کے متوازی، مختلف اور مقابل دین کا پیروکار بتایا ہے، جس کا مطلب ہے کہ صوفیاء کو پہلے گروہ میں شمار کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ ”دینِ تصوف“ کو اختیار کر چکے ہیں، جو عیسائیت اور یہودیت کی طرح اسلام کے ”متوازی، مختلف، اور مقابل“ دین ہے۔ لہذا صوفیاء کو اور اکثر امت کو ان پیدائشی مسلمانوں میں شامل ہونا چاہیے جو غیر مسلم (مرتد؟) ہوگئے، یعنی یہودی، ہندو یا صوفی ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاوید غامدی صاحب کے نزدیک یہودیت اور ہندومت بھی اسلام کے متوازی اور مختلف دین ہیں، اور تصوف بھی۔ دوسری جانب، چونکہ صوفیاء قرآن و حدیث ہی سے استدلا ل کرتے ہیں، لہذا انہیں دوسرے گروہ میں، یعنی گمراہ مسلمانوں میں شامل ہونا چاہییے۔ اس تضاد کو کون حل کرے گا؟ یہ کیسی درجہ بندی ہے جس میں ایک فرد بیک وقت دو گروہوں میں شمار ہو سکتا ہے؟ عام طور پر یہ تضاد و انتشار اس صورت میں ہوتا ہے جب درجہ بندی کے مقاصد علمی کے بجائے سیاسی ہوں۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ یہ درجہ بندی ایک سیاسی مقصد کو سامنے رکھ کر گھڑی گئی تھی یعنی قادیانیوں کی تکفیر پر نظر ثانی کی راہ نکالی جائے لیکن اس سیاسی مقصد کو پورا کرتے کرتے غامدی صاحب کی تحریرات داخلی تضاد کا شکار ہو گئی ہیں۔

    دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے اپنے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ میں دین میں نئی اصطلاحات کا اضافہ کیا ہے اور لگتا ہے کہ جو سیاسی مقاصد نئی درجہ بندی کی تخلیق میں پیش نظر تھے وہی مقاصد نئی اصطلاحات وضع کرنے کا سبب بھی بنے ہیں۔ غامدی صاحب نے دینی روایت میں غیرمسلم کی ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی ہے۔ ان کے نزدیک ”کافر“ اور ”غیرمسلم“ میں فرق ہے۔ اس پر دو سوالات ہیں: اول: ”غیر مسلم“ کی اصطلاح قرآن مجید میں کہاں استعمال ہوئی ہے؟ دوم: ”غیر مسلم“ اور ”کافر“ کا یہ فرق قرآن مجید کی کس آیت میں بیان کیا گیا ہے؟ دیکھ لیجیے دعوے کیے ہیں، لیکن قرآن مجید کی ایک آیت بھی نقل نہ کر سکے۔ اس کا مقصد بھی واضح طور پر علمی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ جاوید غامدی صاحب کے کام کا لازمی نتیجہ ہے کہ اسلام ”جدید قومی ریاست“ کے مفادات کے تابع رہے۔ کسی کو کافر قرار دینے کے واضح دینی، سیاسی اور معاشرتی نتائج ہیں جو ”جدید ریاست“ اورحقوق انسانی کے نام نہاد مغربی تصورات سے ہم آہنگ نہیں۔ غامدی صاحب کی غیر مسلم جیسی نئی اصطلاح وضع کرنے کا مقصد کافر وں سے متعلق دینی احکامات کو معطل کرنا ہے تاکہ جدید قومی ریاست کے غلبہ و استیلا کے لیے آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔

    تیسرا نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کے بقول لامذہب اور دہریوں کو بھی کافر نہیں کہا جا سکتا۔ ”مسلم اور غیر مسلم“ میں غامدی صاحب فرماتے ہیں:
    اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے ماننے والوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے۔ یہی تعبیر اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ کوئی تحقیر کا لفظ نہیں ہے، بلکہ محض اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اِنھیں بالعموم کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کتابوں میں بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے. (جاوید احمد غامدی، مسلم اور غیر مسلم)۔
    غامدی صاحب کا یہ موقف قرآن مجید کے صریح خلاف ہے۔ سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے:
    اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتےہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہ دینا کہ ہم تو اس سے باخبر تھے۔ یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟ (سورہ اعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۳)۔

    آیات کریمہ سے واضح ہے کہ دہریے اور لا مذہب کا یہ عذر ناقابل قبول ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا علم نہیں رکھتے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے تمام بنی نوع انسان کو یہ بات بتا دی تھی کہ ان کا رب اللہ ہے، اور یہ بات ان کے لیے قاطع اعذار ہو گئی۔ اب ان کے پاس کوئی عذر نہیں کہ وہ اللہ کا انکار کریں۔ اس پہلو سے قرآن مجید کے مطابق لامذہب اور دہریے پر اتمام حجت ہو چکا ہے۔ خود غامدی صاحب بھی ماضی قریب تک اسی موقف کے حامی رہے ہیں (البیان، جلد ۲، صفحہ ۲۴۲)۔ غامدی صاحب ویسے تو حاکمیت قرآن پر یقین رکھتے ہیں مگر جب قرآن مجید کی واضح آیتیں جدیدیت کے خلاف پڑتی ہیں تو وہ قرآنی موقف چھوڑنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کا اصل الاصول حاکمیت قرآن نہیں بلکہ جدید دور میں کسی بھی شرط اور قیمت پر survive کرنا ہے۔ چنانچہ دینی ہدایت یا شرعی حکم اگر جدید عقلیت کے خلاف پڑے تو survivalism کا تقاضا ہے کہ اس دینی حکم کی تاویل یا انکار کر دیا جائے۔ تحریک تنویر اور انسان پرستی سے وجود میں آنے والی دُنیا دراصل انکارِ مذہب اور انکار خدا پر کھڑی تھی۔ انکار ِخدا شروع میں معاشرے کی سطح پر اتنا نمایاں نہیں تھا لیکن اب یورپ اور امریکا کے معاشروں میں بھی نمایاں ہو چکا ہے۔ دہریت ایک بڑھتا ہوا فکری رجحان ہے بلکہ اس کے سامنے یہودیت اور عیسائیت اب ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ مغربی معاشروں میں ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ وہاں دہریت روز بروز فروغ پا رہی ہے۔ پچھلی دہائی میں ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ ۲۵ /فیصد آسٹریلیائی، ۳۰ /فیصد کینیڈین، ۹/ فیصد امریکی، ۳۹ /فیصد برطانوی، ۴۸ /فیصد فرانسیسی، ۴۸ /فیصد ڈنمارک کے باشندے، ۴۲ /فیصد ولندیزی، ۵۰ /فیصد سے زائد جرمن اور ۶۱ /فیصد چیکوسلواکیائی باشندے خدا پر یقین نہیں رکھتے (۱)۔ ظاہر ہے کہ غامدی صاحب کی survivalist اور minimalist فکر کے لئے یہ لازم تھا کہ وہ دینی شرائع کی قیمت پر دہریت کے لئے بھی کچھ ”گنجائشیں“ نکالے۔ جوابی بیانیہ اسی فکری رجحان کی ایک مثال ہے۔

    غامدی صاحب کا مضمون نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون کے جواب میں پیش کیا گیا، لیکن اس میں نادر عقیل انصاری صاحب کی کسی دلیل کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ تاہم محمد حسن صاحب کے مضمون کے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ شاید اس میں نادر عقیل انصاری صاحب کے چند ایک دلائل سے تعرض کیا گیا ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے اپنے مضمون میں پہلا نکتہ یہ اٹھایا تھا کہ جس چیز کی قرآن مجید و احادیث شریفہ میں ممانعت نہیں آئی وہ مباح ہے۔ اگرقرآن و حدیث میں کوئی ایسا حکم نہیں جس کی رو سے تکفیر ممنوع ٹھہرتی ہو تو آخر غامدی صاحب کس دلیل کی بنا پر اسے ممنوع قرار دے رہےہیں؟ ایسی کوئی دلیل محمد حسن صاحب نے پیش نہیں کی۔ اسی طرح، دینی متون میں تکفیر کی ممانعت کہیں نہیں آئی۔ اور دینی اصول تو یہ ہے کہ جس چیز کی ممانعت نہ ہوئی ہو وہ مباح ہوتی ہے۔ دلیل حرمت کی چاہیے، اباحت کے لیے کوئی دلیل درکار نہیں ہوتی۔ رہا غامدی صاحب کا مزعومہ ”قانون رسالت“، جس کے ذریعے انہوں نے نبی ﷺ کے بعض احادیث کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے، تو معلوم ہے کہ اس کی کوئی بنیاد نصوص میں نہیں پائی جاتی۔

    پھر ایک مزعومہ ”قانون اتمام حجت“ کی آڑ میں محمد حسن صاحب نے احادیث کی جو تاویلات کرنے کی کوشش فرمائی ہے، اس میں ہر قاری کے لیے عبرت کا وافر سامان ہے۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے تکفیر کے جواز کے حق میں پانچ احادیث مبارکہ پیش کی تھیں۔ ان میں سے دو کو محمدحسن صاحب نے موضوع بحث ہی نہیں بنایا۔ تین احادیث مبارکہ ان کے ہاں زیر بحث آئی ہیں، اور تینوں کو انہوں نے ”قانون اتمام حجت“ سے ڈھیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ ”قانون اتمام حجت“ خود کیا چیز ہے؟ اور یہ قرآن مجید کی کس آیت میں بیان ہوا ہے؟ اس کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا۔

    پہلی حدیث شریف: غامدی صاحب کے نزدیک کسی کی تکفیر صرف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔ جبکہ حدیث شریف میں ارشاد ہے: اگر کسی نے دوسرے کو کافر کہا، تو ان میں سے ایک نے کفر کیا۔ اگر دوسرا شخص کافر ہے تو اس کے ساتھی نے درست بات کہی، اور اگر وہ ایسا نہ تھا جیسا اس نے کہا (یعنی اگر وہ کافر نہ تھا) تو کافر کہنے والا کفر کے ساتھ لوٹا (امام بخاری، الادب المفرد)۔ اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے محمد حسن صاحب نے حدیث کے متن پر اپنی طرف سے ایک اضافہ کر دیا: اگر دوسرا شخص ”جانتے بوجھتے“ کافر ہے۔ حدیث کے الفاظ میں یہ ٹکڑا موجود ہی نہیں۔ یہ حدیث کے الفاظ میں صریح تصرف ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ حضورﷺ دراصل اپنے مخاطبین کو یہ تلقین کر رہے ہیں کہ کسی کے کفر کا فیصلہ کرتے ہوئے انتہائی احتیاط برتو ورنہ یہ نہ ہو کہ ”تم کسی کے بارے میں فیصلہ کرو“ اور وہ غلط ثابت ہوجائے۔ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ حدیث شریف کے الفاظ میں ایسا کوئی قرینہ نہیں کہ اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص کیا جائے۔ محمد حسن صاحب کسی قانون اتمام حجت کی جانب اشارے تو فرما رہے ہیں جس کی رو سے کسی کو کافر قرار دینے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، لیکن اسلام کی دینی روایت ایسے کسی ”قانون“ کو نہیں جانتی۔ اگر یہ فی الواقع قرآن مجید کی کسی آیت مبارکہ میں بیان ہوا ہے تو انہیں وہ آیت کریمہ پیش کرنی چاہیے تھی۔

    دوسری حدیث شریف مسلمانوں کو حکمرانوں کی اس وقت تک اطاعت کرنے کا حکم دیتی ہے جب تک کہ ان سے کھلے کفر کا ارتکاب نہ ہو۔ محمد حسن صاحب کا دعویٰ ہے کہ اس حدیث میں حکمران کی تکفیر کا ذکر نہیں ہے بلکہ حکمران کے بارے میں”فعل کفر“ کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ معلوم نہیں محمد حسن صاحب قرآن مجید کی آیت مبارکہ (۴:۵۹) کی کیا شرح فرمائیں گے جس میں حکم ہے کہ مسلمان ان حکمرانوں کی اطاعت کے پابند ہیں جو تم میں سے (منکم) ہوں، یعنی مسلمان ہوں۔ اگر ہم کسی حکمران کی تکفیر کا فیصلہ ہی نہیں کر سکتے تو کسی حکمران کے”کفر“ کی وجہ سے اس کی اطاعت سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ قرآن مجید میں اس کی کیا دلیل ہے؟ ارتداد سے متعلق حدیث شریف پر بھی انہوں نے جو معارضہ کیا ہے، اس کے حق میں کوئی نصوص پیش نہیں کیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قرآن مجید سے ثابت کرتے کہ یہ آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ارتداد کی سزا آپ ﷺ کے عہد تک، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور تک نافذ رہے گی، بعد میں منسوخ ہو جائے گی۔ دعویٰ کیا ہے، دلیل نہیں دی۔

    احادیث کی رکیک تاویلات کرتے ہوئے محمد حسن صاحب نے ہم سے یہ فرمائش بھی کی ہے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو کسی کو کافر قرار دینے کی دلیل کے طور پر کوئی ایسی روایت پیش کرو ”جس میں رسول اللہ قیامت تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیں کہ تمھیں حق ہے کہ تم لوگوں کو ان کے کفر کی وجہ سے کافر قرار دیتے رہنا۔“ عرض ہے کہ اگر دین کے احکام کے لیے یہ شرط عائد کر دی جائے کہ ان سب میں یہ الفاظ ہونے چاہییں کہ یہ حکم ”قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے ہے“، تو روزہ و حج سمیت ایک فیصدی احکامات بھی سلامت نہیں بچیں گے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے تمام احکام ابدی ہوتے ہیں، الا یہ کہ اس کے خلاف کوئی دلیل قرآن و حدیث میں موجود ہو۔ محمد حسن صاحب نے یہ اصول الٹا دیا ہے، تاکہ جب چاہیں شرائع میں سے کسی کو بھی ”عارضی“ قرار دے دیں، اور اس طرح دین کو تحکم کی بنا پر سکیڑنے کی گنجائش پیدا ہو جائے۔ یہ وہی ”Minimalism“ ہے جو تمام استعماری فرقوں کا امتیازی وصف ہے۔

    قرآن و حدیث میں تکفیر کی حلت کے اتنے واضح دلائل ہیں کہ فکر فراہی کے ”۲/ عدد اکابرین“ میں سے ایک، یعنی امین احسن اصلاحی بھی تکفیر کے جواز کے قائل ہیں۔ نادر عقیل انصاری صاحب نے سورہ الکافرون کی ذیل میں تدبر قرآن سے اصلاحی صاحب کا ایک اقتباس نقل کیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ اس سے ”ہمارے لیے یہ تعلیم نکلتی ہے“ کہ تکفیر جائز ہے۔ امین احسن اصلاحی جدید دور میں تکفیر کا اختیار سیکولر قومی ریاست کے بجائے علماء کو دیتے ہیں، بلکہ اسے علماء کی ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔ وہ خود بھی قادیانیوں اور منکرینِ حدیث کی تکفیر کے قائل ہیں۔ تاہم محمد حسن صاحب نے امین احسن اصلاحی کا تذکرہ بہت سمجھداری سے نظرانداز کر دیا ہے، اس پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ”اسلام اور ریاست۔ ایک جوابی بیانیہ“ میں غامدی صاحب کا ارشاد ہے: ”جو صورتحال انتہاپسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے“۔ تکفیر کا جواز بھی اسی انتہا پسند فکر کا حصہ ہے۔ اب کیا کیجیے کہ اس انتہا پسند فکر کے فروغ میں المورد کے ”دو عدد اکابرین“ میں سے ایک، یعنی مولانا امین احسن اصلاحی بھی شامل ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی اجتہادی شان اور ”امامت ثانیہ“ کا صور اتنے عرصے سے پھونکا جا رہا ہے کہ محمد حسن صاحب کے لیے یہ بات شاید پریشانی کا باعث تھی، کہ امین احسن اصلاحی کو انتہا پسندی کے مولود فسانے کا مصنف قرار دیں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اعتراف کر لیں کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے والا مولود فسانہ لکھنے میں خود فکر فراہی کے اکابرین بھی شامل ہیں!
    محمد حسن صاحب کی اس تحریر میں فقط اصلاحی صاحب سے احتراز نہیں برتا گیا، بلکہ نادر صاحب کی طرف سے پیش کی گئی دو روایتوں کو بھی موضوع بحث نہیں بنایا گیا۔ وجہ یہ ہے کہ ان احادیث شریفہ کی ویسی ٹوٹی پھوٹی تاویلات بھی کرنا ممکن نہ تھا، جیسی بقیہ تین احادیث کے حصے میں آئی ہیں۔ ان احادیث مبارکہ میں ایک صحابی کے الفاظ ہیں: ”فصاروا کفاراً“ یعنی یہ گروہ کافر ہو گیا ہے۔ اسی طرح دوسری روایت میں نبیﷺ نے امت کو کچھ ایسےگروہوں کی خبر دی ہے جو اسلام لانے کے بعد کافر ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ خبر دینے کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان انہیں ”کافر“ قرار دیں، اور ان سے کافروں والا معاملہ ہی کریں۔ ان سے بھی تکفیر کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ان روایات پر بھی ہم محمد حسن صاحب کے قیمتی تبصرے سے محروم رہے ہیں۔

    جہاں تک صوفیاء اور عامۃ المسلمین کی تکفیر کا تعلق ہے تو اس پر جاوید غامدی صاحب کی عبارتیں بالکل واضح ہیں، کہ وہ تمام یا اکثر امت کو دائرہ دین سے خارج سمجھتے ہیں، اور ان کے ساتھ جو معاملہ کرتے ہیں وہ دراصل تکفیر سے شدید تر ہے، جس کے چار دلائل نادر عقیل انصاری صاحب نے پیش کیے ہیں۔ اس سلسلے میں جو تاویلات یہ لوگ پیش کر رہے ہیں وہ رکاکت کے سبب لائق التفات نہیں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محمد حسن صاحب کچھ بھی کہیں، سب دیکھ رہے ہیں کہ اس فرقے کے متبعین میں سے اکثر لوگ جاوید غامدی صاحب کے فتوے کا وہی مطلب لے رہے ہیں جو نادر عقیل انصاری صاحب نے بیان کیا ہے، یعنی یہ کہ صوفیائے کرام دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ معلوم ہے کہ تمام صوفیاء کی تکفیر سے اکثر امت مسلمہ دین کے دائرے سے نکل جاتی ہے، کیونکہ امت کی اکثریت کسی نہ کسی صاحب دل صوفی سے وابستہ ہے۔ اور جو انتہاپسند ساری امت کی تکفیر کرے، اس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس اعتبار سے خوارج، قادیانیوں، اور داعش سے فکری اشتراک رکھتا ہے، اور اُن جیسے انتہا پسندانہ اور متشددانہ نظریات کا پرچار کر رہا ہے۔

    محمد حسن صاحب اور غامدی صاحب کے مضامین میں البتہ بہتری اور اصلاح کا ایک پہلو قارئین کو دیکھنا چاہیے۔ اور وہ یہ کہ دونوں حضرات اصل نزاع کے معاملے میں پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اپنے مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ میں غامدی صاحب نے صوفیاء کی گمراہی بیان کرتے ہوئے ”متوازی دین“ کی اصطلاح استعمال کرنے سے سختی سے پرہیز کیا ہے۔ اور محمد حسن صاحب بھی، اب نزول فرما کر ”متوازی دین“ کے بجائے ”متوازی فکر“ کی ترکیب پر آ گئے ہیں۔ یہ نادر عقیل انصاری صاحب کی تنقید کے اولین ثمرات ہیں۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ ہماری رائے میں ان حضرات کو اپنے کلمات تکفیریہ سے علانیہ رجوع کرنا ہوگا، اور عامۃ المسلمین سے معذرت کرنی ہوگی۔ اُسی صورت میں امتِ مسلمہ کی تکفیر کا داغ ان کے دامن سے دُھل سکتا ہے۔

    ہم نے اس مضمون میں نادر عقیل انصاری صاحب کے مضمون پر لائے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ جاوید غامدی صاحب اور محمد حسن صاحب نے نادر عقیل انصاری صاحب کے اٹھائے گئے زیادہ تر نکات سے تعارض نہیں کیا، بلکہ مسئلہ تکفیر پر اپنے اکابرین (امین احسن اصلاحی) کے موقف کا ارادتاً اخفا کیا ہے۔ محمد حسن صاحب نے قرآن مجید سے تکفیر کی ممانعت کے حق میں کوئی نص پیش نہیں کی، نہ اصل الاشیاء الاباحۃ پر کلام فرمایا ہے۔ جن احادیث مبارکہ کی انہوں نے تاویل کی ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن مجید یا احادیث مبارکہ سے پیش نہیں کی۔ کیا یہی وہ مبلغِ علم ہے جس کی بنا پر امت کی محکم روایات سے خروج کی جسارت کی جا رہی ہے؟

    حوالہ:
    (۱): دیکھیے:
    Phil Zuckerman, “Atheism: Contemporary Numbers and Patterns,” in The Cambridge Companion to Atheism, ed. Michael Martin (New York: Cambridge University Press, 2007), 47-68


  • غیرمسلم کو کافر کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ محمد تہامی بشر علوی

    غیرمسلم کو کافر کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ محمد تہامی بشر علوی

    %d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d8%aa%db%81%d8%a7%d9%85%db%8c-%d8%a8%d8%b4%d8%b1-%d8%b9%d9%84%d9%88%db%8c سوال اٹھایا گیا کہ قرآن مجید میں ابتداء میں نازل ہونے والی سورہ ”المدثر“ میں اتمام حجت سے قبل ہی اسلام نہ لانے والوں کو کافر قرار دیا جا چکا تھا، تو یہ کہنا کیسے درست ہے کہ کافر کہنے کے لیے اتمام حجت ضروری ہے؟ اس سوال میں کن امور کو خلط کر دیا گیا اس کا جائزہ جواب میں لیا جاتا ہے۔

    جواب:
    چند بنیادی نکات کو پیش نظر رکھنا تفہیم مدعا کے لیے ضروری ہے۔
    اتمام حجت:
    کا مفہوم یہ ہے کہ کسی فرد پر حق پوری طرح واضح ہو جائے۔ حق کے پوری طرح واضح ہونے کے مختلف داخلی اور خارجی ذرائع ہو سکتے ہیں، جس پر کسی بھی طریقہ سے حق واضح ہوگیا اس پر اتمام حجت ہوگیا۔
    مسلم، کافر:
    اتمام حجت کے بعد جو حق قبول کر گیا وہ مسلم جو انکار کر گیا وہ کافر۔
    جزاء و سزا:
    اتمام حجت کے بعد کفر و اسلام کی سزا و جزاء اصلاً تو آخرت میں ملنی ہے، مگر اتمام حجت اگر رسول کے ذریعہ سے ہوا ہو تو ان منکرین پر اخروی سزا کی ایک جھلک دنیا میں بهی ظاہر کر دی جاتی ہے۔
    سورہ المدثر:
    ان آیات میں کسی گروہ کو ”کافر قراردے کر“ اس کاحکم نہیں بیان کیا جا رہا بلکہ ”کفر اختیار کرنے کی صورت میں“ یہ انذاز عام کیا جا رہا ہے کہ ایک دن آنے والا ہے جو کافروں کے لیے سخت ثابت ہو گا۔ اس عموی انذار کے وقت کہے گئے ”کافرین“ کے مصداق کا اس وقت مفقود ہونا گو کلام کی صحت کو مانع نہ تھا، مگر واقعہ یہ ہے کہ خارج میں مصداق بھی موجود تھا۔
    مثال اس کی ایسے ہے جیسے کلاس میں استاد طلبہ سے یہ کہے کہ
    ”امتحان آنے والا ہے، نہ پڑھنے والے اس دن ناکام ہو جائیں گے.“
    اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ کلاس کے کچھ طلبہ کو ”نہ پڑھنے والا“ ثابت کیا جا رہا ہے۔ ”نہ پڑھنے والوں“ کا مصداق مفقود ہو اور ساری کلاس ہی پڑھنے والی ہو، پھر بھی یہ جملہ اپنے مقصد کے پیش نظر برمحل اور درست قرار پائے گا۔ مگر مصداق کا موجود ہونا بھی اس طرح کلام کرنے سے مانع نہیں۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ کلاس میں ”نہ پڑھنے“ والے بھی موجود ہوں۔ یوں ایک عمومی طور پر کہی گئی بات ان ”نہ پڑھنے والوں“ کے لیے خصوصی بھی بن جائے گی۔ لیکن کلام کا محل یہ نہیں ہو گا کہ “استاذ نے ناکام ہونے والےچار لڑکوں کو ”نہ پڑھنے والا قرار دیا“، بلکہ درست محل یہ ہو گا کہ
    ”استاد نے نہ پڑھنے والوں کو ناکام قرار دیا، اور چار لڑکے نہ پڑھنے والے نکلے.“
    پہلی صورت میں کلام کے برمحل ہونے کے لیے ”نہ پڑھنے والوں کا خارج میں موجود“ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں ”نہ پڑھنے والوں کا موجود ہوناضروری نہیں۔“
    ”المدثر“ میں کلام کا محل یہی دوسری صورت ہے کہ جو منکر ہوں گے قیامت کو ناکام ہوں گے۔ سورہ کے ترجمہ پر ہی نظر ڈالنے سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے۔ ان عمومی آیات کے بعد اس سے اگلی آیات میں بعض مفسرین بطور خاص ولید بن مغیرہ کو مراد لیتے ہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ عمومی انذار کی خاطر کہے گئے جملے کا ایک خصوصی مصداق بھی میسر آگیا۔ اور اس مصداق سے باخبر ذات نے بتا دیا کہ ”کافرین“ کو جس انجام سے ڈرایا گیا اس کا مصداق ولید بھی ہے۔ جب ”ولید کا کافر ہونا“ اور ”اس کے کافر ہونے کا علم ہو جانا“ ثابت ہو گیا تو اسے ”کافر کا مصداق کہناکسی طرح غلط نہیں“۔ اب رہا ولید کا معاملہ سو وہ ”تفسیر عثمانی“ کے نقل کردہ خصائل کی روسے اس کا جانتے بوجھتے حق کا انکار کرنا پوری طرح ثابت ہو چکا تھا۔ خدا نے اسے کفر اختیار کیے بغیر ہرگز کافر قرار نہیں دیا۔ ولید کے احوال جان لینے کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ مدعا کی مزید تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ تکفیر، اتمام حجت اور کفر کی دنیوی سزا کے مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔

    توضیح:
    جس پر جب بھی کسی بھی طریقے سےحق واضح ہو گیا پھر وہ انکار کر جائے تو کافر ہو جاتا ہے۔ کافر ہو جانے کے لیے، جانتے بوجھتے حق کا انکارکر دینا کافی ہے۔ البتہ کس نے جانتے بوجھتے انکار کیا اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لیے علم کے بغیر کافر کہنے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ خدا کو چوں کہ علم ہے سو وہ جب بھی کوئی جانتے بوجھتے انکار کرے اسے کافر کہہ سکتا ہے۔ گویا ”کسی کا کافر ہوجانا“ اور بات ہے اور”کسی کے کافر ہو جانے کا علم ہو جانا“ اور بات ہے۔ جس کے کافر ہو جانے کا جسے علم ہو جائے، وہ کافر کہہ بھی سکتا ہے۔ اٹھائے گئے سوال میں ”کافر ہو جانے“ کی سطح کے ”اتمام حجت“ کو اور ”دنیا میں خدائی سزا“ کے مستحق بن جانے کے درجے کے ”اتمام حجت“ کو ایک سمجھ لیا گیا ہے۔ جبکہ اول عام اور ثانی رسولوں کے ساتھ خاص ہے۔

    المختصر:
    اتمام حجت کے بغیر کوئی کافر نہیں ہوتا۔
    اتمام حجت کے مختلف ذرائع ہیں، کسی بھی ذریعے سے حق واضح ہو جائے تو اتمام حجت ہو جاتا ہے، اس کے بعد حق کا انکار کفر ہے۔
    کافر ہونے کے لیے حق کا جانتے بوجھتے انکار کرلینا کافی ہے۔رسول کا براہ راست مخاطب ہونا ضروری نہیں۔
    کافر کہنے کے لیے کافر ہو جانے کا علم ہو جانا ضروری ہے۔
    اتمام حجت رسولوں کے ذریعہ ہو جائے تو خدا کفر کی اخروی سزا کی ایک جھلک دنیا میں بھی ظاہر کر دیتا ہے۔
    کافر کا وجود اب بھی نایاب یا ناپید نہیں، بس اتنا ہے کہ اب پیغمبر کے بعد حتمی طور پر اس کے وجود کی خبر انسانوں کو ہو جانے کی خود اس کافر کے اقرار کے سواکوئی صورت نہیں۔ کوئی خود یہ اقرار کر دے کہ میں جانتے بوجھتے حق کا انکار کر رہا ہوں تو اسے آج بھی بلا تردد کافر کہا جا سکتا ہے۔
    کافر کہنے سے اجتناب اس لیے برتا جاتا ہے کہ جسے کافر کہا جا رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ جانتے بوجھتے حق کا انکار نہیں کر رہا، بلکہ جس چیز کو حق سمجھ رہا ہے، اسی سے وابستہ ہے۔ اور وہ خود کے لیے کافر کا لقب پسند بھی نہیں کرتا۔ دنیا میں کافر کا اطلاق محض دنیوی احکام میں فرق کی مصلحت کی خاطرکیا جاتا ہے۔ یہ مقصد اور موزوں تعبیر سے حاصل ہو پائے تو دین میں ممنوع نہیں۔ ہمارے نزدیک دیگر مذاہب والوں کو ان کے مذاہب کی نسبت مسیحی، ہندو وغیرہ تعبیر کرنا یا عمومی تقسیم میں مسلمانوں کے علاوہ کو ”غیر مسلم“ کا عنوان دے دینا زیادہ موزوں ہے۔

  • غامدی صاحب کاجوابی بیانیہ، تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار – طارق محمود ہاشمی

    غامدی صاحب کاجوابی بیانیہ، تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار – طارق محمود ہاشمی

    %d8%b7%d8%a7%d8%b1%d9%82-%d9%85%d8%ad%d9%85%d9%88%d8%af-%db%81%d8%a7%d8%b4%d9%85%db%8c تکفیر کے جواز کے بارے میں بعض متجددین نے ایک خلطِ مبحث پیدا کر دیا ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی جاوید غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ بھی ہے، جس میں تکفیر کے مسئلے میں متشددانہ نقطہ اختیار کیا گیا ہے۔ ایک تو تکفیر کو سرے سے ممنوع قرار دیا ہے جس کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ قادیانیوں کی تکفیر کا فیصلہ معرض شک میں ڈال دیا جائے۔ دوسری طرف وہ تمام صوفیائے کرام کے ساتھ یہ معاملہ کرتے ہیں کہ انہیں اسلام سے مختلف، مقابل اور متوازی دین کا پیروکار قرار دیتے ہیں، جس کی کتاب بھی قرآن مجید کے مقابل کوئی اور ہے، اور شریعت بھی اسلامی شریعت سے مختلف ہے۔ یہ ان کی اور ان کی معتقد اکثر امتِ مسلمہ کی تکفیر سے بھی اشد حکم ہے۔ گزشتہ دنوں نادر عقیل انصاری صاحب نے، جاوید غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ کے ضعفِ استدلال پر ایک تنقید لکھی، جس پر کچھ اور صاحبانِ قلم نے ان کی تائید کی۔ نادر صاحب کے مضمون کے جواب میں جاوید غامدی صاحب کا ایک مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ کے عنوان سے دلیل میں شائع ہوا۔ ان کے داماد محمد حسن نے بھی اس کا جواب دیا. غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ اور ان کی تحریر ”مسلم اور غیر مسلم“ پر اپنے تحفظات کے بیان کے لیے، کچھ معروضات پیش خدمت ہیں۔

    قرآن مجید فرقان حمید کی تعلیمات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات، صحابہ کرامؓ کے اجماع اور تعامل، تابعین کے فرمودات اور روایات، اور فقہاء امت کی تنقیح کے مطابق، اسلام کے ابلاغ کے بعد اتمامِ حجت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد لوگ دو گروہوں میں منقسم ہو جاتے ہیں: مسلم اور کافر۔ آخرت میں اسلام اور کفر کی جزا و سزا کے بہت سے درجات ہیں۔ لیکن دُنیا میں شریعت کے معاملات کو نمٹانے کے لیے فقط دو ہی درجے ہیں – اسلام یا کفر – تیسرا کوئی درجہ نہیں۔ استعماری فقہ تصنیف کرنے والے بعض متجددین نے اپنی طرف سے ایک تیسرا درجہ بنایا ہے – یعنی ”غیر مسلم“، جو مومن تو نہیں ہے، لیکن کافر بھی نہیں ہے! اِن لوگوں کے پاس قرآن مجید یا احادیث مقدسہ کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ انہوں نے پیش کی ہے۔ در حقیقت اس معنی میں یہ اصطلاح، عہد جدید ہی میں ایجاد ہوئی ہے، اور قرآن مجید میں کہیں استعمال نہیں ہوئی۔

    اب سوال یہ ہے کہ چونکہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں کسی شخص معیّن کے معاملے میں کیا فیصلہ فرمائے گا، تو کیا اس وجہ سے، ہم کسی کی تکفیر ہی نہیں کر سکتے؟ بعض جدید مبتدعہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ ہم کسی کی تکفیر نہیں کر سکتے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ کافر قرار دینے کا مطلب ہے اسے دوزخی قرار دینا، اور تکفیر کا مطلب ہے کسی کو دوزخ کی وعید سنانا۔ اور چونکہ ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون دوزخ میں جائے گا، لہذا کسی کی تکفیر کرنا جائز نہیں۔ ان حضرات کا یہ مقدمہ فاسد ہے، اور استدلال خام ہے، بالخصوص ان لوگوں کے قلم سے، جو خود تقریباً تمام امتِ مسلمہ کے ساتھ تکفیر سے بھی اشد معاملہ کر چکے ہوں، اور انہیں ”اسلام سے مختلف اور اس کے مقابل“ ایک ”متوازی دین“ کا پیروکار بتاتے ہوں۔ اُن کے استدلال کی غلطی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

    دنیا میں فیصلہ ظاہر کے مطابق، شہادتوں کی بنا پر ہوتا ہے، جیسے قتل و زنا کے مقدمات میں قضاۃ فیصلہ دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی رُو سے، مسلمان کو قتل کرنے کا بدلہ دوزخ ہے۔ لیکن جب ایک قاضی، کسی کو قتل کے جرم میں شہادتیں ملنے پر قصاص کے تحت سزائے موت دیتا ہے، تو سزا یافتہ شخص کی آخرت پر کوئی حکم نہیں لگاتا۔ فیصلے میں یہ نہیں لکھتا کہ یہ دوزخی ہے، بس یہ کہتا ہے کہ شہادتوں سے جرم ثابت ہو گیا، یہ قاتل ہے، اور دنیا میں اس کے لیے شریعت نے سزائے موت کا حکم دیا ہے، لہذا اسے یہ سزا دی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، دِلوں کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ یہی معاملہ تکفیر کا بھی ہے۔ کفر کا فیصلہ بھی شہادتوں پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ضروریاتِ دین کا انکار کر دے، تو اس کی تکفیر قضا و افتاء کا معاملہ ہے، جس میں تمام تر انحصار شہادتوں پر ہے۔ تکفیر کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شخص ضروریاتِ دین کا انکار کرنے کی وجہ سے، کافر ہو گیا، امتِ محمد ﷺ سے خارج ہوگیا۔ اب اس پر اتداد کی وہی سزا نافذ ہوگی جو اسلام کی ابدی شریعت میں بتائی گئی ہے۔ اگر ارتداد کا قانون اس ملک میں نہ ہو، یا وہ کسی اور وجہ سے اس سزا سے بچ جائے، تو اس کی شادی بیاہ، وراثت، اور تدفین وغیرہ پر، وُہی احکام عائد ہوں گے جو کفار پر عائد ہوتے ہیں۔

    رہا یہ سوال کہ یہ شخص دوزخی ہے یا نہیں، تو واضح رہے کہ تکفیر کے حکم کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں۔ جو لوگ تکفیر کے مسئلے میں یہ خلط مبحث پیدا کر رہے ہیں وہ معاملے سے واقف ہی نہیں ہیں۔ معاملہ یوں نہیں ہے کہ جب مفتی و قاضی کسی کی تکفیر کرتے ہیں تو گویا اس کے دوزخی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کسی معین شخص کے معاملے میں یہ بات تو علم غیب کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دوزخی ہے، البتہ اسے کافر قرار دیا جا سکتا ہے۔

    اس کے لیے اب ہم مشہور حنفی متکلم و محقق، امام ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے پیش کرتے ہیں۔ اس کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ امت کے جہانِ علم و معرفت کے دو درخشاں ستاروں، حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگرد حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان بڑے عرصے تک بحث رہی کہ آیا وہ شخص جو قرآن مجید کو مخلوق کہتا ہے، کافر ہے یا نہیں؟ ابتدا میں حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس طرف تھا کہ اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعض روایات کے مطابق چھ ماہ اور بعض روایات کے مطابق فاضل استاذ اورشاگرد کے درمیان یہ بحث ایک سال تک چلی۔ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بالآخر ہمارا اتفاق اس پر ہوا کہ قران مجید کو مخلوق کہنے والا کافر ہے۔ شرح العقیدۃ الطحاویہ، کے مصنف، علامہ صدر الدين محمد بن علاء الدين علی بن محمد ابن أبی العز الحنفی رحمۃ اللہ علیہ اس واقع کو ذکر کرنے کے بعد، مسلمان کی تکفیر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ”جب کسی شخصِ معین کے بارے میں پوچھا جائے کہ کیا تم اسے اہل وعید (یعنی جہنمیوں) میں شمار کرتے ہو؟ کیا تم اسے کافر قرار دیتے ہو؟ تو ہم یہ بات نہیں کہتے، الا یہ کہ کوئی ایسی بنیاد ہو جس پر یہ حکم لگایا جا سکے (مثلاً، کسی شخص کے بارے میں کوئی نص ہی موجود ہو، جیسے ابولہب!)۔ اللہ کے مقابل سرکشی کی سب سے بری شکل یہ ہے کہ آپ ایک شخص ِمعین کے بارے میں یہ حکم لگائیں کہ اللہ اُسے نہیں بخشیں گے، اور اُس پر رحم نہیں فرمائیں گے، بلکہ اسے ابدی جہنم میں ڈال دیں گے۔ (کسی شخص معین کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے، حالانکہ ہم اصول میں جانتے ہیں کہ) کافر کے ساتھ موت کے بعد یہی تو ہو گا! [۔۔۔] ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی اجتہادی غلطی کا مرتکب ہوا ہو، جس پر اللہ کی طرف سے معافی کا اعلان ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمام متعلقہ نصوص اُس شخص تک نہ پہنچ سکی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس شخص کا ایمان اتنا قوی ہو اور اس کی نیکیاں اتنی عظیم ہوں کہ وہ لازما ًاللہ تعالی کی رحمت کا حقدار قرار پائے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالی نے اس شخص کی مغفرت فرما دی جس نے خوف احتساب کی وجہ سے کہا تھا: ”جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور میری راکھ بکھیر دینا۔“ اللہ تعالی نے اس کے کمالِ خوف کی وجہ سے اس کی مغفرت کر دی (کیونکہ آخرت کی سزا کا خوف اس کے گہرے ایمان کو ظاہر کرتا تھا)۔ حالانکہ (اس کی بات سے یہ بھی مترشح ہو رہا تھا کہ) وہ سمجھتا تھا کہ (اگر اسے جلا کر اس کی راکھ بکھیر دی جائے تو) اللہ تعالیٰ اس کی راکھ کو جمع کر کے اس کو پھر سے جمع کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، یا اسے اس میں کم از کم شک ضرور تھا (اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ عذاب سے بچ جائے گا، یہ بات بظاہر کفریہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی اسے معاف کر دیا)۔
    (چنانچہ کسی کے ساتھ آخرت میں کیا ہوگا، اس پر ہمیں توقف کرنا چاہیے) لیکن، آخرت کے معاملے میں یہ توقف اس بات سے مانع نہیں ہے کہ ہم دنیا میں اس کا مؤاخذہ کریں، اُس کی بدعت کو پھیلنے سے روکیں، اور اس سے توبہ کا مطالبہ کریں، اگر وہ توبہ کرلے تو درست، ورنہ اسے قتل کر دیں!“ (حضرت علامہ صدر الدین محمد بن علاء الدین بن محمد ابن العز الحنفی رحمۃ اللہ علیہ، شرح العقیدہ الطحاویہ، صفحہ، ۲۹۹)۔

    اس کے بعد ایک ہی مسئلہ رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جس کو اسلام کی دعوت ہی نہیں پہنچی اس کا کیا حکم ہو گا؟ اس طرح کا شخص کبھی دارالاسلام میں تو ہو نہیں سکتا، کیونکہ اگر مل بھی گیا تو اتمامِ حجت کے لیے اسے اسلام کی دعوت دی جائے گی، اور ابلاغ کے بعد اگر اس نے اسلام قبول کر لیا تو درست، ورنہ کافر ہی سمجھا جائے گا۔ اسی طرح یہ بات بھی بہت بعید از قیاس ہے کہ دنیا میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کو کسی نبی کی یا آپ ﷺ کی نبوت کی خبر ہی نہیں پہنچی۔ تاہم، بالفرض، اگر کہیں دُور کسی علاقے میں ایسا کوئی شخص موجود بھی ہو، تو مسلمان اس پر مفتیانہ، یا عدالتی حکم لگانے کے پابند نہیں ہیں۔ ایمان و کفر کا حکم تو کسی شرعی حکم کے نفاذ ہی کے لیے لگایا جاتا ہے، کیونکہ بہت سے شرائع اس پر موقوف ہیں کہ کوئی شخص مسلمان ہے یا کافر۔ چونکہ اس شخص کا کوئی معاملہ کسی مسلمان سے ہو نہیں رہا، لہذا یہ ایک فرضی سا سوال ہے۔ بس یہ معلوم ہونا چاہیے، کہ قرآن مجید کے مطابق ہر شخص پر ایمان باللہ واجب ہے، خواہ اسے کسی نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو، کیونکہ عہد الست (سورہ اعراف: آیت ۱۷۲) کے ذریعے انسان کو بتا دیا گیا تھا کہ تمہارا رب کون ہے، اور یہ بھی کہ اب تمہارا کوئی عذر آخرت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے لیے کسی نبی کی دعوت پہنچنی ضروری نہیں۔ انسان ہر حال میں ایمان باللہ پر ماخوذ ہوگا، البتہ اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ اشراق کی نماز پڑھتا تھا یا نہیں، کیونکہ اسے اس کا ابلاغ ہی نہیں ہُوا، نہ وہ اس کا مکلّف تھا۔

    اس کے برعکس دور جدید میں متجددین نے یہ متشددانہ رائے قائم کی ہے کہ لا مذہب (irreligious)، دہریوں (atheist)، اور لاادریت (agnostic) کے قائلین کے اوپر بھی اتمام حجت نہیں ہوا۔ لہذا انہیں” کافر“ کے بجائے ”غیر مسلم“ ہی کہا جائے گا۔ جاوید احمد غامدی صاحب لکھتے ہیں:
    ”اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے ماننے والوں کو غیر مسلم کہا جاتا ہے۔ یہی تعبیر اُن لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی دین یا مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ کوئی تحقیر کا لفظ نہیں ہے، بلکہ محض اِس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اِنھیں بالعموم کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کتابوں میں بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ تکفیر کے لیے اتمام حجت ضروری ہے اور یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے (جاوید احمد غامدی، مسلم اور غیر مسلم)۔“
    یہ تمام تقریر دینی اعتبار سے نہ صرف بےبنیاد ہے، بلکہ قرآن مجید کے صریح بیان کے بھی خلاف ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

    [pullquote]وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آَدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ۔ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آَدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ (172) أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آَبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (اعراف:۱۷۲ تا ۱۷۳)۔[/pullquote]

    اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا، اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتےہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہ دینا کہ ہم تو اس سے باخبر تھے۔ یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟ (سورہ اعراف: ۱۷۲ تا ۱۷۳)۔

    امت کا اجماع ہے کہ اس عہد الست کی وجہ سے منکرین خدا (لامذہب، دہریے، اور لاادریت کے قائلین) پر اتمام حجت ہو چکا ہے، انہیں اور کسی مزید دعوت و تبلیغ کی حاجت نہیں ہے۔ جاوید غامدی صاحب یہ ”روشن خیال اعتدال“ (Enlightened Moderation) پیش کرتے ہوئے یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ وہ اس سے قبل یہی بات لکھ چکے ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کے معاملے میں تمام بنی نوع انسان پر اتمام حجت ہو چکی ہے۔ لکھتے ہیں کہ جہاں تک توحید کا تعلق ہے، اس کے بارے میں ”مجرد اس اقرار کی بنا پر بنی آدم کا مواخذہ کیا جائے گا“ اور عہد الست میں کیے گئے وعدے سے ”انحراف کے لیے کسی کا یہ عذر خدا کے ہاں مسموع نہیں ہو گا کہ اسے کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی“ (البیان، جلد ۲، صفحہ ۲۴۲)۔ جاوید غامدی صاحب اب یہ لکھ رہے ہیں کہ ”صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اب ہم اُس کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے۔“ غامدی صاحب کی یہ بات دہریوں کے بارے میں اس لیے غلط ہے، کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بات قرآن مجید میں بتا چکا ہے کہ منکرین خدا پر اتمام حجت ہو چکا ہے، اور اللہ کا یہ فرمان تمام رہتی دنیا تک تمام بنی نوع انسان کے بارے میں ہے، کہ ان میں جو اللہ کا انکار کرے وہ اتمام حجت کے بعد ایسا کرتا ہے، لہذا کافر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی رُو سے منکرینِ خدا غیر مسلم نہیں، کافر ہیں۔ اور یہاں پر بھی غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ قرآن مجید سے متصادم ہے۔

    یہی نہیں، حجت الاسلام ابوحامد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”الاقتصاد فی الاعتقاد“ میں واضح کیا ہے کہ منکرین خدا (لامذہب، دہریے، اور لا ادریت کے قائلین) کے کفر کی شناعت مشرکین، یہود، نصاری اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے اشد ہے۔ امام صاحب دہریوں اور منکرینِ خدا (الدھریۃ المنکرین لصانع العالم) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ نصاریٰ اور یہود کے مقابل، تکفیر کے زیادہ سزاوار ہیں۔ (فکانوا بالتکفیر اولیٰ من النصاریٰ و اليھود، و الدھریة اولیٰ بالتکفیر من البراھمۃ، امام غزالی، الاقتصاد فی الاعتقاد، صفحہ ۱۳۴)۔

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمارے دین میں انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ”مسلم“ اور ” کافر“۔ غامدی صاحب کی اختیار کردہ اصطلاح ”غیر مسلم“ قرآن مجید میں کہیں استعمال نہیں ہوئی۔ قرآن و حدیث اور علماء و مجتہدین و صوفیائے عظام کے مطابق دوسرے مذاہب کے لوگ، بشمول لا مذہب، دہریے اور لاادریت کے قائلین بھی، اصول میں، کافر ہی سمجھے جائیں گے، بلکہ لا مذہب لوگوں کا کفر و انکار کسی غیر اسلامی مذہب کو ماننے والوں سے اشدّ ہے۔ اس اعتبار سے، جاوید غامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ اور ان کا مضمون ”مسلم اور غیر مسلم“ علمی و دینی اعتبار سے انتہائی کمزور استدلال پر مبنی ہے، اور قرآن مجید کے خلاف ہے۔
    ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

  • ملحد کے دس اعتراض اور ان کے جوابات – خزیمہ رشید

    ملحد کے دس اعتراض اور ان کے جوابات – خزیمہ رشید

    پاکستانی فری تھنکرز کے پاپائے ملحدین میں سے ایک پاپی امجد حسین نے امام الانبیاء کو سید المرسلین محبوب رب ماننے سے انکار کی طرف ایک قدم بڑھایا۔اور تمام انبیاء کی حالات زندگی میں سے ایک ایک پہلو لے کر یہ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی کہ محمد رسول اللہ نہ امام الانبیاء ہیں اور نہ ہی محبوب خدا۔

    سب سے پہلے تو امجد کی توجہ اس بات کی کی طرف مبذول کروانے کی جسارت کروں گا کہ جب تم لوگ کتب سماوی کو مانتے نہیں، رب تعالی کے تم منکر ہو، مذہب سے تم باغی ہو، مذاہب خصوصا اسلام کا احترام تمہاری بری تربیت میں شامل ہی نہیں، کتب تواریخ تمہاری ثقاہت پر اترتی نہیں، علم حدیث و رجال تمہارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مذہب کے تم باغی ہو تو توریت، زبور و انجیل اور قرآن مجید، گرنتھ، ویداس و اپنشد تمہارے لیے کسی کھاتے کی کتابیں نہیں، اور نہ تمہارے معیار پر اترتی ہیں۔ تم انھیں تو شاید مان لیتے، مگر اصل نفرت کا منبع تمہارے لیے دین اسلام ہے اور اسی کی نفی کے لیے تمہیں مجبورا دین اسلام کے ساتھ باقی مذاہب کی جزوی نفی کرنا پڑتی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ جن چیزوں کا تم جیسے ملحد انکار کرتے ہیں، انھی چیزوں میں سے عبارتیں منتخب کرکے سادہ لوح عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ دہرا معیار! مگر کیوں؟

    1، 2۔ پہلا اور دوسرا اعتراض تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 63 سال تھی جبکہ نوح علیہ السلام کی 950 سال، آدم علیہ السلام کا قد 30 میٹر لمبا تھا جبکہ نبی کریم ﷺ کا قد 6 فٹ، اور جبکہ باسکٹ بال کے اکثر کھلاڑیوں کا قد 7 فٹ ہوتا ہے؟ (العیاذ باللہ)

    ارے امجد! اپنی فطرت سے مجبور اعتراض کرنے کے لیے سہارا تو تمہیں انھی مذہبی کتب کا لینا پڑتا ہے۔ اور یہ تو ایک انتہائی جاہل، عامیانہ سوچ رکھنے والا شخص اور علم سے کورا انسان بھی جانتا ہے کہ انسان کے مقام و مرتبہ کا معیار عمر ہے نہ قد۔ یہ معیار کسی مذہب کی کتابوں میں ہے نہ دنیا کے کسی اور قانون میں۔ ہوسکتا ہے الحادی نظریہ میں یہ ہوتا ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انسانوں کی عمریں اور قد ابتدائے آدم علیہ السلام تا ہنوز مسلسل گھٹتے گئے ہیں۔ اور چونکہ تم نے مذہبی کتب کا سہارا لیا اس لیے میں بھی مذہبی کتاب کا سہارا لیتا ہوں. نبی محترم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی عمر کی حد 60 سے 70 سال ہے اور بہت کم لوگ اس سے زیادہ عمر پائیں گے. (ابن ماجہ:4236)۔ تم چونکہ خدا کے بھی منکر ہو تو پھر یہ بات تو پکی ہے کہ جب اس نے خود کسی کو پیدا نہیں کیا تو وہ خدا کسی کو مارتا بھی نہیں ہوگا۔ ہر چیز اپنی مرضی سے بنی ہے اور ظاہر ہے ختم بھی اپنی مرضی سے ہی ہوگی۔ لہذا ہر انسان کی بھی اپنی مرضی ہے وہ جب مرضی مولود ہو، جب مرضی مرے اس سے تمہیں کیا لگے۔ یہ ان کی زندگی کا معاملہ تھا۔ تم ہی وہ تھے جس نے کہا کہ انسان کوئی بھی کام کرے تمہیں اعتراض نہیں، اور اگر تھوپا جائے تو اعتراض۔ اسی طرح تم چاہے 500 سال جیو تو تمہیں اپنے پر اعتراض نہیں مگر کوئی ’’اپنی مرضی‘‘ سے 63 سال جیا تو تمہیں تکلیف ہونے لگی۔ رہا ان کے قد کا معاملہ تو قد بھی کسی کی فضیلت اور مقام و مرتبہ کا معیار نہیں۔ چونکہ تم بھی اسی زمانے کی پیداوار ہو لہذا تمہیں جواب بھی اسی زمانے کی پیداوار سے دیا جائے گا۔ اور سونے پہ سہاگہ مثال بھی ان لوگوں کی جو تمہاری طرح منکر خدا ہیں۔ چین کی لڑکی ’’زنگ جن لیان‘‘ عالمی سطح پر لڑکیوں میں سب سے زیادہ لمبی تھی، اورعمرصرف سترہ سال۔ مگر کون اسے جانتا تھا بقول تمہارے کہ اگر مقام و مرتبہ کی معراج یہی ہے تو اسے چین کی صدر، وزیراعظم یا کسی شعبے کا وزیر ہونا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ پوری دنیا سینکڑوں قدآور لوگوں سے بھری پڑی ہے، کچھ اپنی ’’مرضی‘‘ سے مرگئے اور کچھ اپنی ’’مرضی‘‘ سے مرضی سے جب جی چاہا مرجائیں گے۔ لہذا تمہارے پہلے دونوں اعتراض باطل ہیں۔ تم نے کہا کہ ابن افک 120 سال کا تھا، وہ آپ سے بڑا تھا لہذا اسےمروادیا۔ ارے کیا حجاز میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ عمر کا اور کوئی نہیں تھا۔ وہاں کتنے لوگ تھے فتح مکہ کے موقع پر جنہیں رسول اللہ ﷺ نے معاف فرما دیا کہ جو ابوسفیان (حالت کفر میں تھے) کے گھر پناہ لے گا، اس کےلیے امان ہے۔ اور تمہارے علم میں تو ہو گا ہی کہ رسول کریمﷺ کے چچا عباس اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اور ایک کافر کے کہنے پر ایک کافر کے گھر کو دارالامان بنا دیا۔ اور ابوسفیان تو حالت کفر میں رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کاحق ادا کرتے رہے۔ لہذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کےلیے بھی شفیق تھے کجا کہ کسی بزرگ کو قتل کرواتے.

    ۳۔ تیسرا اعتراض کیا کہ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کی خوبصرتی کے پیچھے بھاگی جبکہ رسول اللہ عورتوں کے پیچھے بھاگتے (العیاذ باللہ)۔ اور ایک معزز گھرانے کی عورت نے رسول اللہ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا، کتنی بے عزتی کی بات ہے؟ (نعوذباللہ، نقل کفر کفر نباشد)
    تمہیں یہ اعتراض عزیز مصر کے واقعے کی پڑتال کر کے اس وقت کرنا چاہیےتھا جب تم اس کو سمجھ لیتے کہ جس طرح زوجہ عزیز مصر یوسف علیہ السلام کے پیچھے برے ارادے سے بھاگی اورگناہ کی دعوت دی۔ کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کے پیچھے (نعوذباللہ ثم نعوذ باللہ) اس طرح برے ارادے سے بھاگتے تھے۔ چونکہ اس اعتراض کا پہلا حصہ شاید قرآن سے نہیں تو کسی الہامی کتاب سے ہی لیا ہوگا۔ اور دوسرا حدیث سے لیا ہوگا گرنتھ اور اپنشد میں تو انکار والا واقعہ ملنےسے رہا۔ لہذا اگر تمہاری عقل وخرد کچھ تمہارا ساتھ دے تو تمہیں یاد ہوگا کہ رسول کریم ﷺ ایک مرتبہ اپنی زوجہ کے ساتھ راستے میں تھے تو سامنے سے کوئی آدمی آیا تو فرمانے لگے یہ میری بیوی ہے۔ اور پھر فرمانے لگے کہ انسان میں شیطان اس طرح دوڑتا ہے جس طرح خون، لہذا تم جیسوں کا اعتراض ختم کرنے اور منہ بند کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے پہلے ہی انتظام فرما لیا۔ رہا اس اعتراض کا دوسرا حصہ کہ اس نے انکار کیا تو کیا یہ بے عزتی نہیں۔ یہ تو یاد رہ گیا کہ رسول عورتوں کے پیچھے بھاگتے تھے (نعوذباللہ)، بخاری کی وہ روایت یاد نہیں جس میں ایک عورت آئی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکاح کی خواہش ظاہر کی مگر رسول اللہﷺ نے انکار کر دیا، اور پھر کسی اور مرد سےنکاح کردیا (۵۰۸۷)۔ رہی بے عزتی والی بات تو جب نبی ﷺ نے ہر لڑکی کو حق دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرے یا نہ کرے تو جب اس نے انکار کیا تو نبیﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ اور اس سے تو تمہاری خود اپنی باتوں کی نفی ہوتی ہے جو تم کہتے ہو کہ ان کا نبی شہوت پرست تھا۔ اگر نبی شہوت پرست ہوتا تو زبردستی نکاح کرکے لڑکی لے آتا۔ نبی ﷺ کے لیے یہ چنداں مشکل نہ تھا۔ ہاں مگر نبی کریم ﷺ نے ہر لڑکی کو اپنے وعدے، زبان اور شرع کے مطابق حق دے کر ایسے لوگوں کی زبان بندی کردی جو انہیں شہوت پرستی کا الزام دیتے نہیں تھکتے۔

    ۴۔ اگلا اعتراض یہ تھا کہ اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا کہ ان کے حکم پر جن سمندر کی تہوں سے خزانہ لے آئے اور نبی کریم ﷺ کی قسمت میں اللہ نے چوروں ڈاکوؤں کی طرح مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا۔

    تمہارا یہ اعتراض ہی غلط ہے کیونکہ اللہ نے جو سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا، وہ نبوت ملتے ہی نہیں عطا کیا بلکہ سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالی سے ایسی شاہانہ زندگی طلب کی تھی کہ مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی بادشاہی نہ ملے۔ اور رسول اکرم ﷺ چاہتے تو اللہ انہیں بھی ایسی بادشاہی دے دیتے مگر نبی کریم ﷺ کو مال و دولت اور بادشاہت سے بالکل سروکار نہیں تھا۔ تمہیں وہ حدیث تو یاد ہوگی کیونکہ تم حدیث کا حوالہ دے رہے ہو، اس لیے مجھے مجبورا احادیث کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے کہ جس میں رسول اکرمﷺ کے ہاتھ ایک جن آیا مگر آپﷺ نے چھوڑ دیا کہ مجھے میرے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی، اگر میں اسے پکڑ لیتا تو صبح مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ یہ معاملہ تھا بادشاہت کا لہذا رسول اکرم اگر چاہتے تو بادشاہت مانگ لیتے مگر اپنے بھائی کے الفاظ کی لاج رکھ لی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے لیے غربت کو ہی پسند فرمایا، چاہتے تو احد کے پہاڑ کو سونے سے بدل دیاجاتا. رہا پیسے کا معاملہ کہ اللہ نے لوٹ مار کرکے مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا تو جناب لفظ اللہ تمہارے لیے اجنبی ہونا چاہیے کہ تم تو اسے مانتے ہی نہیں، چونکہ اب تم نے نام لیا ہے تو جس اللہ کی تم بات کر رہے ہو اسی مال غنیمت میں جو رسول کا حصہ تھا وہ دراصل جس اللہ نے نبی کی قسمت میں لکھا تھا یہ دراصل اسی کا حصہ ہوتا تھا۔ جس میں اللہ کے نبی کو حصہ ملتا، غریبوں مسکینوں کو حصہ ملتا اور بیت المال کی ضروریات پوری کی جاتیں۔ اور پہلی جنگوں میں تو کیا، آج بھی جنگوں میں یہی رواج ہے کہ دشمن فوج جب شکست کھائے یا فوجی مرجائیں تو مقابل فوج ان کا اسلحہ سامان، پیسہ، کام کی چیزیں اٹھا لے جاتی ہے۔ وہ انھی کا تصور ہوتا ہے۔ اسلام نے اسے مال غنیمت کا نام دیا ہے، اور باقی اقوام جو مرضی نام دیں وہ ان کی مرضی۔ اور اگر تم غزوہ بدر سے پہلے ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی بات کرتے ہو تو اللہ نے تم سے پہلے ہی اس کی مذمت فرما دی تھی۔ لہذا اسے چوری ڈاکے کا مال کہنا ہی مذہبی اور حربی اصولوں کےاعتبار سے بالکل غلط ہے۔

    ۵۔ آگے کہتے ہو کہ اسماعیل کو اللہ نے خنجر کے نیچے سے بچا لیا اور محمد کے نوزائیدہ بچے کو چھین کر باپ کو بلکتا ہوا چھوڑ دیا۔
    حضرت اسماعیل کا واقعہ اگر تم نے پورا پڑھا ہو تو تمہیں معلوم ہو کہ حضرت ابراہیم کو متواتر خواب آتا رہا کہ میں بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ سو بیٹے سے رائے پوچھی تو بیٹا سمجھ گیا کہ باپ چونکہ نبی ہے لہذا وحی سمجھ کر سرتسلیم خم کردیا۔ اللہ نے دنیا کو یہی دکھانا تھا کہ اسماعیل کو آگے نبوت سے سرفراز کرنا ہے تو اس کا اپنے رب پر کتنا یقین تھا۔ تمہاری طرح ننھا اسماعیل ملحد تھوڑی تھا، اور ابراہیم علیہ السلام کو ایک مثال کے طور پر پیش کرنا بھی مقصود تھا کہ ایک باپ اپنے مالک کے کہنے پر کس طرح اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ اوراسماعیل و ابراہیم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی یہ سنت ابراہیمی آج تک جاری ہے جو تم لوگوں کو کسی صورت ہضم نہیں ہوتی۔سارا سارا سال غریبوں کا احساس نہیں ہوتا، اپنے پاس سے دھکے دے دے کر نکلواتے ہو، ہوٹلوں میں مہنگے کھانے کھاتے ہو، مہنگی گاڑیاں، موبائل خریدتے ہو مگر قربانی کے موسم میں غریبوں کا احساس تمہیں دن رات چین کی نیند نہیں سونے دیتا۔ رہا نوزائیدہ بچے کی وفات کا معاملہ تو جواب حاضر ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ کے آخری نبی تھے۔ اور نبوت کو یہیں ختم کرنا مقصود تھا، چونکہ عورتوں میں نبوت منتقل نہیں ہوتی لہذا لڑکیاں زندہ رکھیں۔ اور نبی کی ساری نرینہ اولاد اٹھا لی گئی کیونکہ آگے نبوت کا سلسلہ ختم کرنا مقصود تھا۔ جس طرح دائود کے بعد سلیمان۔ ابراہیم کے ساتھ اسماعیل، لوط، یحی، زکریا اور عیسی، اور اسحاق، یعقوب، یوسف علیہم السلام کو نبوت ملی۔ اگر نرینہ اولاد زندہ ہو تو عموما نبوت منتقل ہوتی ہے لہذا محمدﷺ پر نبوت کوختم کرنے کے لیے ساری نرینہ اولاد اللہ نے اپنے پاس بلا لی۔ اس لیے تمہیں محمد ﷺ کے لیے اتنا دکھ اور درد محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔

    ۶۔ آگے معترض ہو کہ یونس کو مچھلی کے پیٹ سے تو بچا لیا مگر عائشہ کی گود میں سر رکھے محمد ﷺ کی دعا نہ سنی اور وہ فوت ہوگئے۔
    قارئین کو کس غلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہتے ہو کہ کیا محمد ﷺ اپنی طویل عمری کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ نہیں بالکل نہیں، سیرت کی کتابیں لو، مطالعہ کرو، پھر بتاؤ کہ رسول پاک ﷺ نے کس دن اپنے رب سے گڑگڑا کر دعا کی کہ میری موت مؤخر کردے۔ اور جب موت قریب آئی تو لبوں پر دعا تھی اللھم بالرفیق الأعلی اللھم بالرفیق الأعل ی۔ترجمہ تو تم مجھ سے بہتر جانتے ہو گے کیونکہ قرآن پر بھی اعتراض تمھی نے کیا تھا کہ قرآن میں گرائمر کی غلطیاں ہیں، لہذا اس کا ترجمہ تم بھی کرلو گے۔ اور رہی دوسری بات کہ محمد ﷺ کی دعاؤں میں اکثر یہ دعا شامل رہتی تھی کہ اے اللہ میں تجھ سے بڑھاپے اور لمبی عمر سے پناہ مانگتا ہوں، لہذا تمہارے اعتراضات صرف عامی لوگوں کو دین اسلام سے بدظن کرنے کے لیے ہیں۔ اکثریت اپنی نبی ﷺ کی زندگی اور دعائوں سے واقف ہے.

    ۷۔ پھر اعتراض کیا کہ دائود و یعقوب کی اولاد کی عمریں اتنی زیادہ تھیں اور محمد ﷺ کی اولاد کی عمریں تھوڑی سی تھیں۔ اور فاطمہ بھی بیس سال سے کم عمر میں وفات پاگئیں۔
    میرے خیال میں اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے۔ پہلے خدا کے وجود کو مانو اور پھر بات کرو وگرنہ چونکہ تمہارے نزدیک خدا کا وجود نہیں ہے، لہذا چونکہ دنیا خود بنی ہے، انسان خود بنا ہے تو منطقی طور پر انسان کو مرنا بھی خود ہی چاہیے اور اپنی مرضی کرنی چاہیے اور تمہیں معترض بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اور جو خدا کے منکر نہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اس اللہ کے ہی فیصلے ہیں جسے چاہے ہزار سال یا 950 سال سے نوازے اور چاہے تو 63 سال سے نوازے یا جتنی مرضی عمر دے. اس نے پیدا کیا ہے تو مارے گا بھی وہی اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔ تم کون ہوتے ہو اس ذات پر معترض جس کے وجود کے تم ویسے ہی انکاری ہو۔ رہا سیدہ فاطمہ کی عمر کا مسئلہ تو جب تمہیں اسلام سے کوئی انسیت نہیں تو تم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درد میں اتنا ہلکان کیوں ہوئے جا رہے ہو۔ تم صرف اپنی فکر کرو۔

    ۸۔ آگے اعتراض ابھرتا ہے کہ موسی سے ملاقات کے لیے اللہ بنفس نفیس زمین پر چلے آئے اور رسول اللہ کی کے لیےاتنے لمبے سفر کے لیے خچر بھیج دیا۔ توبتاؤ رسول اللہ کی کیا حالت ہوگی اللہ کو ترس نہیں آیا اتنا تھکا کر؟
    امجد! اگر تم نے تاریخ پڑھی ہو، یقینا پڑھی ہوگی مگر نہیں نہیں، تاریخ کو چھوڑو، حدیث کی طرف آؤ تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ تم بھلے حدیث کا انکار کرو، تاریخ کا انکار کرو مگر دال تھوڑی سی کالی نہیں بلکہ پوری ہی کالی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب نبی کریمﷺ پر تم جیسے لوگ ایمان نہیں لائے تھے۔ انھین سرداریاں چاہیے تھیں، ایمان لانے پر پیسہ ڈوبتا نظر آتا تھا، سو ایسے لوگوں کی چھان پھٹک کرنے کے لیے ہی اللہ نے اہل ایمان اور غیر مسلموں کا امتحان لینا چاہا کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جو نبی کو نبوت سے پہلے صادق و امین کہا کرتے تھے مگر نبوت کے بعد دشمن ہوگئے۔ اب ان کا مزید ایمان ٹٹولنے کے لیے اور دنیا کو دکھانے کے لیےاللہ نے اس سفر کا انتظام فرمایا۔ اس میں دو چیزیں پوشیدہ تھیں۔ایک تو نبی کو مقام اعلی عطا کرنا، نبی کو جنت، جہنم، سدرۃ المنتھی، اور انبیاء سے ملاقات کروانا مقصود تھا۔ اور دوسرا باقی تمام انبیاء کو محمدﷺکے پیچھے بطور مقتدی کھڑا کرکے محمدﷺکی شان میں اضافہ کرنا بھی مقصود تھا۔ حضرت موسی کو یہ نصیب نہیں ہوا. اور اللہ کبھی زمین پر نہیں آئے، طور پر بس تجلی ہی کی جس کی وہ تاب لایا نہ حضرت موسی، اور رب جب چاہے نبی سے ہم کلام ہو سکتا تھا، کہ وہ تو ہماری شہ رگ سے زیادہ ہم سے قریب ہے. لہذا امجد حسین تم خود ہی بتاؤ ایک شخص کے ساتھ صرف اس کا مالک ہم کلام ہو بس۔ اور دوسرے شخص کو اپنے خاص بندوں کا امام بنادے، پھر اسے وہ سواری دے جس کا اگلا قدم اس کی نظروں تک جائے، اسے سدرۃ المنتھی کی طرف لے جایا جائے، جنت جہنم دکھائی جائے اور پھر آگے اس مقام پر بھی لے جایا جائے جہاں نوری مخلوق کے پر جلتے ہوں اور فرشتے مرحبا کہہ کر استقبال کریں۔ انبیاء سے ملاقات ہو، اللہ سے ہمکلام ہو، پھر راتوں رات واپس آجائے۔ اگرچہ محمدﷺ نے اپنے آپ کو دوسرے انبیاء پر فوقیت دینے سے منع فرمایا ہے مگر تمہارے اعترض کا جواب ایسے ہی بنتا ہے۔ تو تم خود ہی بتاؤ امام الانبیاء اور محبوب خدا کون ہوا؟

    ۹۔ نواں اعتراض یہ کہ اللہ نے اپنے تمام انبیا کو ایک سے بڑھ کر ایک معجزے دیے۔ مثلاًحضرت ابراہیم کو آگ کو گلزار بنانے کا معجزہ دیا، حضرت موسیٰ کے عصا کو سانپ میں تبدیل ہونے اور سمندر میں راستہ نکالنے کا معجزہ عنایت کیا، حضرت عیسیٰ کو لوگوں کو مسیحا بنایا جو بیماروں کو شفا، مردوں کو زندہ، اندھوں کو آنکھیں عطا کرتے تھے، حضرت نوح کو ایک ایسی کشتی بنانے کا معجزہ دیا جس میں تمام جن و انس اور جانور و پرندے اور حشرات الارض وغیرہ سما سکیں، حضرت سلیمان کو جنوں اور جانوروں سے رابطہ پیدا کرنے کا معجزہ بخشا۔ لیکن جب امام الانبیا نے معجزہ طلب کیا تو اللہ نے جواب دیا کہ ’’قرآن آپ کا معجزہ ہے‘‘۔ ایک ایسی کتاب جس کے تضادات اور بچگانہ سائنسی توجیہات پر اب تو لونڈے لپاڑے بھی ہنستے ہیں۔
    ارے امجد! علمی بددیانتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے مگر تم لوگوں کو بددیانتی کی ایسی لت پڑی ہے کہ چھوڑے چھوٹتی نہیں۔ ویسے ان تمام معجزات کا ذکر انھی مذہبی کتابوں میں ہے نا جنھیں تم مانتے ہی نہیں. تم نے سارے انبیاء کے معجزات تو ایک ایک کرکے گنوادیے مگر محمدﷺ کی باری آئی تو صرف ایک قرآن مجید کا ذکر کرکے اپنا منہ بند کرلیا اور قلم کو جنبش دیتے ہوئے شاید کچھ شرم سی آنے لگی۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ رسول اللہ کو چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ بھی عطا ہوا۔ چند بندوں کا کھانا سینکڑوں لوگوں کو کفایت کرتا، پانی میں برکت پڑ جاتی، ہاتھوں سے چشمے پھوٹ پڑتے۔ اور سلیمان کی جانوروں کی بولی کا ذکر کیا تو اس اونٹ کا واقعہ بھی بتلاؤ کہ جس نے آ کر رسول اکرمﷺ کو مالک کی شکایت کی، اور آپ نے مالک کو بلایا اور بتایا کہ تمہارا اونٹ تمہاری شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے تھکاتے زیادہ ہو، خوراک کم دیتے ہو. (ابو دائود:2549)۔ وہ معجزہ بھی بتاؤ جب رسول اللہ قضائے حاجت کے لیے علیحدہ جگہ گئے تو دو درخت آپس میں مل گئے اور اوٹ بنادی، آپ کی فراغت پر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے۔ باقی رہا قرآن کے تضادات کا مسئلہ اور سائنسی توجیہات کا تو شنید نہیں کہ وہ لونڈا لپڑا تم خود ہو یا تمہارے مکتبۂ فکر کے لوگ ہی ہوں۔ جا کر پوچھو ان سائنسدانوں سے جو تمہاری طرح قرآن کی توجیہات کو غلط کہنے تو نکلے مگر بعض میں سچائی کی جستجو ہوتی ہے تو وہ خود مسلمان ہوجاتے ہیں یا حیران رہ جاتے ہیں اور سچائی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ مگر تمہارے جیسے لونڈے لپڑے کسی کھاتے کے نہیں رہتے۔ بلکہ ’’کالانعام بل ھم اضل‘‘ تم تو جانوروں سے بھی گئے گزرے ہو۔ تمہاری وہی حالت ہے’’نہ کھیڈنا اے نا کھیڈن دینااے‘‘یعنی اپنے لیےتو ہدایت مقصود نہیں تو دوسروں کے لیے بھی نہیں.

    ۱۰۔ آخری اعتراض ہے کہ سلیمان کو جانوروں کی بولی سکھا دی مگر رسول اللہﷺ کو مادری زبان میں بھی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نہیں دی، تو کیا اب بھی رسول اللہ ﷺ امام الانبیاء اور خدا کے محبوب ہیں؟

    بجا کہا کہ محمدﷺ کو مادری زبان لکھنی آتی تھی نہ پڑھنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نبی کو اس کے زمانے اور لوگوں کے ذہن، ان کے رجحانات کے مطابق بھیجا جاتا ہے، انہیں ایسی صفات سے متصف کیا جاتا ہے جو دوسروں سے ممتاز ہوں۔ جیسے حضرت عیسی، موسی علیہما السلام وغیرہ کا معاملہ ہے۔ قرآن کو معجزہ اسی لیے ہی نہیں کہا گیا۔ اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما تھا کہ اس وقت کے لوگ ادب ونثر، شاعری اور پڑھنے لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اگر محمدﷺ کو پڑھنا لکھنا سیکھنا ہوتا تو چنداں مشکل نہ تھا۔مگر نہ خود رسول اکرمﷺ نے سیکھا نہ اللہ نے حکم دیا کیونکہ اگر پڑھنا سیکھ لیتے تو تمہاری جنس کے لوگوں کا پہلا الزام ہی یہ ہوتا کہ چونکہ پڑھا لکھا ہے لہذا یہ کلام الہی نہیں بلکہ یہ اسی کا گھڑا ہوا کلام ہے۔ لہذا آپ کے پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود بھی لوگوں نے نہ بخشا اور الزام لگایا کہ یہ ایک لوہار کے پاس آتا جاتا ہے، لہذا اس سے سیکھا ہے اور آگے ہمیں بتاتا ہے۔ مگر وہ بھی ایسے عقل کے اندھے رہے کہ جس کے پاس سے رسول اکرم ﷺ کو آتے جاتے دیکھا، جھٹ یہ تو کہہ دیا کہ اس سے سیکھا ہے مگر یہ نہ سوچا کہ وہ لوہار خود علم و ادب و نثر اور شاعری میں مہارت رکھتا ہے بھی یا نہیں؟ اس لیے تم جیسوں کا یہ اعتراض بھی بالکل باطل ہے۔ اور تم نے کوئی حوالہ بھی تو نہیں دیا کہ سلیمان علیہ السلام بھی اپنی مادری زبان میں لکھت پڑھت کر سکتے تھے۔ جس طرح سلیمان جانوروں کی بولی سمجھتے تھے تو کیا نبیﷺنے اونٹ کی بولی نہیں سمجھی تھی۔منطقی طور پر بھی ایک مالک کے تحت کئی لوگ کام کرتے ہوں۔ ان میں تمام لوگ اپنی اپنی صفات کی وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتے ہوں، اور ان ہی میں سے ایک ایسا شخص بھی ہو، جو ہو تو ان پڑھ مگر مالک اسے اس کی ممتاز حیثیت کی بنا پر ایک اعلی مقام دے دے تو تمھیں کیا اعتراض ہے۔ یہ اس کا اور اس کے مالک کا معاملہ ہے. مالک جسے چاہے اپنے پاس بلند مرتبہ سے نوازے اور جسے چاہے کم مرتبہ دے۔ یہ مالک پر منحصر ہے کہ وہ جسے چاہے اپنا پسندیدہ قرار دے۔

  • قادیانی فتنہ اور تحفظ عقیدہ ختم نبوت کی جدوجہد – محمد قاسم چیمہ

    قادیانی فتنہ اور تحفظ عقیدہ ختم نبوت کی جدوجہد – محمد قاسم چیمہ

    %d9%82%d8%a7%d8%b3%d9%85-%da%86%db%8c%d9%85%db%81 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز ہندوستان پر مکمل طور پر قابض ہو چکا تھا، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی جانب سے مزاحمت کا خدشہ موجود تھا، چنانچہ برطانوی سامراج نے مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کی پشت پناہی کے ذریعے مسلمانوں کے نظم اجتماعی میں تفریق پیدا کرنے کی سازش کی۔ مشہور و معروف فلسفی اور مفکر علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ ’’سلطان ٹیپو کے جہاد ِحریت سے انگریز وں نے اندازہ کیا کہ مسئلہ جہاد ان کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ جب تک شریعت اسلام سے اس مسئلہ کو خارج نہ کیا جائے، ان کا مستقبل محفوظ نہیں۔ چنانچہ (انگریزنے) مختلف ممالک کے علماء کو آلہ کار بنانا شروع کیا۔ اسی طرح ہندوستانی علماء سے بھی فتاویٰ حاصل کیے۔ لیکن تنسیخ جہاد کے لیے ان علماء کو ناکافی سمجھ کر ایک جدید نبوت کی ضرورت محسوس ہوئی، جس کا بنیادی مؤقف ہی یہ ہو کہ ایک اقوام اسلامیہ میں تنسیخ جہاد کی تبلیغ کی جائے۔ احمدیت کا حقیقی سبب اسی ضرورت کا احساس تھا۔ قرآن کے بعد نبوت اور وحی کا دعویٰ تمام انبیائے کرام کی توہین ہے، یہ ایک ایسا جرم ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ’’ختمیت‘‘ کی دیوار میں سوراخ کرنا تمام نظام دینیات کو درہم برہم کر دینے کے مترادف ہے۔ قادیانی فرقہ کا وجود عالم اسلام، عقائد اسلام، شرافت انبیاء، خاتمیت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور کاملیت قرآن کے لیے قطعاً مضر و منافی ہے۔‘‘ (فیضان افضال صفحہ 295)

    مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت اور احمد ی عقائد کی روشنی میں سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ اسی دوران مناظرے ہوئے، بحث و مباحثہ ہوا اور کتابیں لکھی گئیں۔ مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور علامہ محمد انور شاہ کاشمیری نے علمی میدان میں قادیانی مذہب کا مدلل انداز میں جواب دیا۔ لیکن ان سب باتوں کا تعلق علمی مباحث سے تھا۔ عوام کے اندر اس فتنے کے سدباب کی اشد ضرورت تھی، چنانچہ تحریک خلافت کے اختتام پر برصغیر کے حریت پسند رہنمائوں نے مل کر 1929ء میں آزاد خیا ل مسلمانوں کی جماعت ’’مجلس احرار‘‘ کی بنیا د رکھی ، جس نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ 1930ء میں انجمن خدام الدین لاہورکے سالانہ جلسے میں علامہ انور شاہ کاشمیری نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو’’امیرشریعت‘‘منتخب کیا اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے تعاقب کی کمان سونپ دی، اس موقع پر پانچ سو جید علماء نے شاہ جی کی بیعت کی۔ مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے حریت پسند رہنمائوں نے فتنہ قادیانیت کے خلاف مسلمانوں میں شعوربیدار کیا۔ 23-22-21 اکتوبر 1934ء کو قادیان میں’’احرار تبلیغ کا نفرنس‘‘منعقد کی جس میں ہندوستان بھر سے علمائے کرام اور عوام نے شرکت کی۔ اس عظیم الشان کانفرنس کے ذریعے قادیانی مذہب مکمل طور پر بے نقاب ہوا۔

    دراصل قادیانی مذہب کا معاملہ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی نوعیت رکھتا ہے. یہ لوگ سیاسی طور پر مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت سے انکاری ہیں۔ چنانچہ علامہ اقبال ان کا تجزیہ کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ’’ہمیں قادیانیوں کے رویہ اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کی حکمت عملیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ جب قادیانی مذہبی اور معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیارکرتے ہیں، تو پھر سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے کیوں مضطرب ہیں؟‘‘ اسی طرح مفکر احرار چوہدری افضل حق لکھتے ہیں کہ ’’قادیانی برٹش امپیریلزم (برطانوی استعمار) کے کھلے ایجنٹ ہیں اور مسلمانوں میں ففتھ کالم کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ علامہ اقبال، پنڈت جواہر لال نہرو کے مضامین مطبوعہ ماڈرن ریویو کے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’قادیانیوں کے لیے صرف دو ہی راہیں ہیں یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں اور الگ ہوجائیں یا ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑکر اصل اصول کو اس کے پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقۂ اسلا م میں ہو، تا کہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘

    قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیرالدین کی ہدایت پر مذہبی و سیاسی طور پر مسلمانوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان قادیانی نے پاکستانی سفارت خانوں کو قادیانی تبلیغ کے اڈوں میں تبدیل کردیا۔ علماء ان حالات سے واقف تھے اور حکومت کو قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کر رہے تھے۔ 1952ء میں وزیرخارجہ ظفراللہ خاں قادیانی نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے احمدیت کو زندہ اور اسلام کو مردہ مذہب قرار دیا اور بلو چستان کے علاقے کو احمدی ریاست بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس سب صورتحال سے دینی طبقات واقف تھے چنانچہ قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سازشوں کو بھانپتے ہوئے سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں مجلس احرار نے تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے جلسے شروع کردیے اور مسلمانوں کے تمام طبقات دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کو مجلس احرار کی میزبانی میں ’’ کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت‘‘ کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور حکومت کے سامنے تین مطالبات رکھے۔
    1. ظفراللہ خان کو وزارت خارجہ سے برطرف کیا جائے.
    2. قادیانیوں کو اہم کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے.
    3. قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
    مطالبات نہ ماننے کی صورت میں پرامن احتجاجی تحریک چلائی گئی۔ تحریک کے قائد مولانا ابوالحسنات قادری تھے۔ اس تحریک کے سرکردہ رہنمائوں میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالستار خان نیازی، سید مظفر علی شمسی، ماسٹرتاج الدین انصاری، صاحبزادہ فیض الحسن، شیخ حسام الدین، سید ابوزر بخاری، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا محمد علی جالندھری، قاضی احسان احمد شجاع آبادی اہم ہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست نے ختم نبوت کا دفاع کرنے والے سرفروشوں پر گولی چلا دی اور دس ہزار سے زائد لوگوں کومال روڈ لاہور، کراچی، گوجرنوالہ، ساہیوال اور دیگر شہروں میں شہید کیاگیا۔ تحریک کے رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ مجلس احرار کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ اس موقع پر امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا تھا کہ’’ میں اس تحریک کے ذریعے ایک ٹائم بم فٹ کر کے جارہا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا اور فتنہ قادیانیت اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔‘‘ پھر تاریخ نے دیکھا کہ جب 29 مئی کونشتر میڈیکل کالج کے سیاحتی دورے سے واپس آنے والے طلبہ کو ربوہ ( چناب نگر) ریلوے اسٹیشن پر قادیانی غنڈوں نے ظلم و بربر یت کا نشانہ بنایا تو ایک بار پھر تحریک ختم نبوت نے زور پکڑا اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی قیادت میں مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، سید محمود احمدرضوی، پروفیسر غفور احمد، آغا شورش کاشمیری، مولاناسید ابوذر بخاری، چوہدری ثناء اللہ بھٹہ، نوابزادہ نصراللہ خان، سید مظفر علی شمسی، مولانا عطاء المحسن بخاری نے تحریک کو ملکی سطح پر منظم کیا، جلسے کیے، جلوس نکالے اور بالآخر بات پارلیمنٹ کے فلور تک پہنچی۔ ایک طویل بحث کہ جس میں قادیانی جماعت کے سربراہ کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا، کے بعد 7ستمبر1974ء کو شہدائے ختم نبوت کا خون بےگناہی رنگ لایا اور لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر غیر مسلم ا قلیت قرار دیا، اس قراردادِ اقلیت کی متفقہ منظوری کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
    ’’ جناب اسپیکر ! میں آپ کو یہ بتانا مناسب نہیں سمجھتا کہ اس مسئلہ کے باعث اکثر میں پریشان رہا اور راتوں کو مجھے نیند نہیں آئی. اس مسئلہ پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں. مجھے اس فیصلہ کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچیدگیوں کا علم ہے جس کا اثر مملکت کے تحفظ پر ہوسکتا ہے، یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے ہیں، اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے، میں اس فیصلہ کو جمہوری طریقہ سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کر رہا. پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے، اسلام کی خدمت ہماری پارٹی کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی ہے‘‘۔ (ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قومی اسمبلی میں 27 منٹ کی تقریر سے اقتباس)

    اڈیالہ جیل میں بھٹو جب پابند سلاسل تھے تو انہوں نے اپنے ڈیوٹی آفیسر کرنل رفیع الدین سے کہا: احمدیہ مسئلہ! یہ ایک مسئلہ تھا جس پر بھٹو صاحب نے کئی بار کچھ نہ کچھ کہا. ایک دفعہ کہنے لگے :رفیع ! یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے یعنی ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے. ایک بار انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے ان کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے، اس میں میرا کیا قصور ہے؟ ایک دن اچانک مجھ سے پوچھا کہ کرنل رفیع الدین! کیا احمدی آج کل یہ کہہ رہے ہیں کہ میری موجودہ مصیبتیں ان کے خلیفہ کی بد دعا کا نتیجہ ہیں کہ میں کال کوٹھڑی میں پڑ اہوں؟ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بھئی اگر ان کے اعتقاد کو دیکھا جائے تو وہ حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی ہی نہیں مانتے اور اگر وہ مجھے اپنے آپ کو غیرمسلم قرار دینے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو کوئی بات نہیں، پھر کہنے لگے کہ میں تو بڑا گناہگار ہوں اور کیا معلوم کہ میرا یہ عمل ہی میرے گناہوں کی تلافی کرجائے اور اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ اس نیک عمل کی بدولت معاف کردے۔ بھٹوصاحب کی باتوں سے میں اندازہ لگایا کرتا تھا کہ شاید انہیں گناہ وغیرہ کا کوئی خاص احساس نہ تھا لیکن اس دن مجھے محسوس ہوا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔‘‘ (بھٹو کے آخری ۳۲۳دن ،از کرنل رفیع الدین )

    اب صورت حال یہ ہے کہ 7ستمبر 1974ء کی قرارداد اقلیت اور 26اپریل 1984ء کے امتناع قادیانیت ایکٹ کو قادیانی جماعت تسلیم کرنے سے انکاری ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان قوانین کے خلاف مہم چلا رہی ہے اور پاکستان کی سلامتی کے حوالہ سے قادیانی جماعت کا کردار ایک سوالیہ نشان ہے. قادیانی اپنا متعین قانونی و عدالتی اسٹیٹس تسلیم نہیں کرتے اور چناب نگر (ربوہ) کی صورت حال ریاست در ریاست کی ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحفظ ناموس رسالتﷺ اور تحفظ ختم نبوتﷺ جیسے قوانین عالمی ایجنڈے کی زد میں ہیں، ایسے میں تمام مکاتب فکر اس مسئلہ پر پہلے کی طرح یکسو ہوجائیں خصوصاً تحریک ختم نبوتﷺ کی جماعتوں کو بدلتی صورت حال پر اندر کی آنکھ سے نظر رکھنی چاہیے. روایتی طریق کار اپنی جگہ، میڈیا، تعلیم وتربیت، ذہن سازی اور لابنگ جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر دھیمی اندزمیں اقوام متحدہ اور عالمی اداروں میں بین الاقوامی سطح پر تحریک ختم نبوت کے لیے لابنگ کی اشد ضرورت ہے ورنہ فاصلہ زیادہ ہوتا جائے گا۔