Category: مباحث

  • مباحثہ کے دس سنہرے اصول – فرہاد علی

    مباحثہ کے دس سنہرے اصول – فرہاد علی

    بحث ومباحثہ ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے ۔اپنی سوچ اور نظریہ دوسروں تک پہنچانے کے لئے اور ان کو قائل کرنے کے لئے ہم بحث کرتے ہیں۔ مگر بحث ومباحثہ کے اصولوں سے ناواقفیت کی بنا ہم اکثر و بیشتر دوسروں کو قائل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں ۔ یہاں بحث ومباحثہ کے دس ایسے اصول ذکر کئے جاتے ہیں جن کو اپنانے سے ہم اپنی بات آسانی سے دوسروں کو ذہن نشین کر واسکتے ہیں۔

    ۱: اہم اور ضروری نکات مکمل طور پر ذہن نشین ہونے چاہئے۔ جو حقائق آپ مخاطب سے منوانا چاہتےہیں ان کی مکمل تحقیق کرنی چاہئے۔ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آپ مباحثہ کیوں کر رہے ہیں اور آپ اس مباحثہ کے نتیجے میں کیا چاہتے ہیں۔ اگر چہ یہ ایک عام سی بات معلوم ہوتی ہے مگر یہ انتہائی اہم ہے کیونکہ آپ اپنا نقطہ نظر سمجھانا ہی نہیں چاہتے بلکہ ایک مفید نتیجہ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے آپ کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ یہ نتیجہ قابل حصول ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو زبانی جھگڑا اچھے تعلقات کو ختم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    ۲:وقت کو پہچاننا۔ یقینا آپ نے کئی مباحثوں کے بعد محسوس کیا ہوگا کہ یہ وقت مناسب نہیں تھا۔ اس لئے بحث ومباحثہ کرتے ہوئے وقت کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ وقت مباحثہ کے لئے مناسب ہے یا نہیں؟؟

    ۳:کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے۔ بحث ومباحثہ سے پہلے کچھ وقت اس پر صرف کریں کہ آپ اپنا نقطہ نظر کیسے پیش کریں گے۔ بدن بولی {باڈی لینگویج} ، الفاظ کا چناو اور لہجے کا اتار چڑھاو آپ کے دلائل کو مضبوط اور موثر بنانے میں آپ کی مدد کریں گے۔

    ۴: بولنے سے زیادہ سننا چاہئے۔ اپنے مخاطب کو غور سے سنو اور اس کے الفاظ کے پیچھے معانی پر غور کرو۔ایک چوتھائی وقت سننا چاہئے مگر سننے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ مخاطب کو سننے کے دوران یہ سوچتے رہے کہ آپ نے اگلی بات کیا کرنی ہے ۔ اس طرح آپ ایک ہی بات کو بار بار گھماتے رہیں گے اور مخاطب آپ سے اتفاق نہیں کر سکے گا۔ اس کے برعکس غور سے سننا بسا اوقات بحث ومباحثہ کا پانسا پلٹ دیتا ہے۔

    ۵:اپنے دلائل کے ان تمام پہلووں کا احاطہ کرو جس پر مخاطب اعتراض کر سکتا ہے۔ اس طرح ان سوالات کے جوابات پہلے ہی آپ کے پاس موجود ہوں گے چنانچہ پیش آمدہ مسائل کی پیش بندی ہوجائے گی۔ مخاطب کے متوقع حقائق اور ان حقائق کے برآمد ہونے والے نتائج کو چیلیج کرو۔ مخاطب کے نقطہ نظر سے اتفاق کرو مگر اس کی کمزوری بیان کرو۔

    ۶: چالاکی کا مظاہرہ ۔ بحث ومباحثہ ویسے ہی پر سکون نہیں رہتا جیسا کہ شروع میں ہوتا ہے۔ چنانچہ فریق مخالف کے وار کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ نیز بوقت ضرورت ذاتی حملوں اور سوال پر سے توجہ ہٹانے کے لئے مختلف حربوں کا استعمال بھی مفید ہوگا۔

    ۷:عام مجمع میں بحث و مباجثہ کی مشق ۔ ابہام سے پرہیز کریں اور اپنی بات بالکل واضح انداز میں کریں۔ وضاحت کریں اور بھڑکنے سے اجتناب کریں۔

    ۸:واضح اور دو ٹوک انداز کو ترجیح دیں۔ مسجع اور مقفع الفاظ کے بجائے آسان، دوٹوک اور چھبتے الفاظ کا انتخاب کریں نیز آسان زبان استعمال کریں۔

    ۹:تعطل کو حل کرنے والے بنیں۔ دوران مباحثہ نئے راستوں کو تلاش کریں۔ مثلا کہاں اپنے نقطہ نظر کو دوسرے زاویہ سے بیان کرنا ہے ۔ کہاں مخالف کو آمادہ کرنے کے لئے پریشر ڈالنا چاہئے اور کہاں سمجھوتہ کرنا چاہئے۔

    ۱۰:دوستی برقرار رکھو۔ اس مباحثہ سے آپ کا مقصد کیا ہے؟؟ مخالف کی ذلت، اس کو پھنسانا اور نیچا دکھانا یا اس کو بھڑکانا؟؟ ہوسکتا یہ چیزیں وقتی طور پر آپ کو اچھی لگیں یا آپ کی تسکین کا ذریعہ بنیں مگر آپ کئی دن تک اپنے رویہ پر پشیمان رہیں گے۔ ایسا راستہ اپنائے جو دونوں کے لئے قابل قبول ہو۔ تعلق کی ڈوری توٹنے مت دین کیا پتہ کل کو پھر بحث ومباحثہ کی ضرورت پڑجائے

  • میں کیوں دہریہ ہوجائوں؟ منکر دوست کو جواب : مجیب الحق حقـی

    میں کیوں دہریہ ہوجائوں؟ منکر دوست کو جواب : مجیب الحق حقـی

    مجیب الحق حقی

    امید ہے تم خیریت سے ہوگے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں بڑا حیران ہوا جب تم نے مجھے دعوت دہریت دی۔ بقول تمہارے گویامجھے بھی دقیانوسیت سے کنارہ کش ہوک تمہارا ہم آہنگ ہوجانا چاہیئے۔ یہ میرے لیئے ایک دلچسپ چیلنج ثابت ہوا کیونکہ پھر میں نے دل جمعئی سے تمہارے افکارات کا جائزہ لیااور اپنے نظریات کی عقلی بنیادوںکو بھی ٹٹولا۔

    مجھے تمہارے اس طرز فکر پر اعتراض ہے کہ تم مجھے غیر سائنسی خیالات کا حامل سمجھتے ہو۔ میری استدعا یہ ہے کہ تم برتری کی غیر حقیقی کیفیت سے نکلو اور میری باتوں کی عقل اور سائنس کی بنیاد پر تردید کرو۔ دیکھو یار ہمارے اطراف بے شمار لوگ ادھورے نظریات کے ساتھ زندہ ہیں۔ وہ بہت سے تشنہ سوالات کو پس پشت ڈال کر بھی اپنے حال میں مست اور شاداں ہیں۔ لیکن حقیقت آشنائی کی تمنّا ہی انسان کے شرف کی تکمیل کی کنجی ہے اور وہی ہم دونوں کو دوست رکھے ہوئے ہے۔ میں تمہاری دوستی کی قدر کرتا ہوں کہ تم مجھے سوچنے پر مجبور کرتے رہتے ہو۔

    میں نے تمہارے اٹھائے سوالوں پر غور کیا تو مناسب سمجھا کہ ہم خط کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرکے دوبدو تکرار سے بچ جائیں گے اور ہمیں کافی وقت ملے گا کہ ایک دوسرے کے خیالات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے سکیں۔ تمہاری سائنس کی معلومات بہت اچھی ہیں اور یہی وہ عقلی، منطقی اور فلسفیانہ بنیاد ہے جس پر ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

    پچھلی دفعہ جب میں نے تمہاری توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اگر تم درست ہوئے یعنی تمہارے نظریات برحق ہوئے تو مرنے کے بعدمیرا کچھ بھی نقصان نہیں جبکہ اگر میں درست ثابت ہوا تو تم تلخ معاملات کا کیسے سامنا کروگے تو تمہاری آنکھوں میں لمحے بھر کے لیئے ابھرنے والی ویرانی کسی خوف کی نشاندہی کر رہی تھی حالانکہ تم بظاہر ہنس پڑے تھے۔ اسی لیئے میں چاہتا ہوں کہ ہم کھلے دل سے ہر پہلو پر غور کریں۔

    تمہاری یہ بات کہ مذہب اور سائنس الگ الگ ہیں درست نہیں ہے کیونکہ انسان ایک اکائی ہے اور اس سے منسلک ہر عمل اور خیال اسی اکائی کا حصہ ہے۔ مذہب، سائنس، فنون ِ لطیفہ، معیشت، معاشرت اور انسانی زندگی کے تمام عوامل آپس میں گندھے ہوئے ہیں انکو الگ الگ لا تعلّق خانوں میں بند کرنا غیر فطری ہے۔ مختلف شعبوں کو الگ قرار دینا ایک فرار ہے کیونکہ جب کوئی گروہ غیر فطری مادّی نقطۂ نظر سے بہت سی باتوں کی مربوط تشریح نہیں کرپاتا تو خفّت سے بچنے کے لیئے ایسے نظریات کا سہارا لیتا ہے۔

    حقائق کی تلاش میں میرے اور تمہارے درمیان کائنات ، زندگی اور انسان کی تخلیق ہی بنیادی طور پر زیر بحث رہی ہے کہ یہ سب کیونکر ممکن ہوا ہوگا۔ تم نے جتنے بھی سائنسی دریافتوں اور مفروضات کے حوالے دیئے میں نے ان سب پر بہت غور کیا اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ تقریباً تمام بنیادی اور اہم ترین نظریات اور تھیوریز پر تو تمام سائنسدانوں کا ہی آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ یعنی کوئی بھی متفق اور مکمل perfect سائنسی نظریہ نہ کائنات کی تخلیق پر اور نہ ہی مادّے سے زندگی کے بننے پر ہے۔

    مثلاً بگ بینگ جو کائنات کی اچانک ابتدا کا مقبول سائنسی مفروضہ یا نظریہ ہے ابھی بھی سائنسی قانون کی حیثیت حاصل نہیں کرپایا جسکا مطلب یہ ہوا کہ بگ بینگ کائنات کے درجہ بدرجہ ترقی اور آج تک کی شکل اختیار کرنے کے مشاہدے کی سائنسی تشریح تو ہے لیکن کائنات کے عدم سے وجود میں آنے کی کوئی متفقہ تشریح پورا انٹرنیٹ کھنگال کر بھی میںڈھونڈھ نہیں پایا۔ یعنی یہ پتہ تو چلا کی کائنات بگ بینگ سے نکلی یا بنی لیکن یہ نہیں پتہ چلتا کہ کن سائنسی قوانین اور شواہد کی بنیاد پر کائنات بگ بینگ میں وارد ہوئی؟ اگر تمہارے پاس کوئی لنک ہے تو مجھے ضرور بھیجنا۔ بگ بینگ کی جو وضاحت سب سے قابل سائنسدان اسٹیون ہاکنگ نے کی ہے وہ بذات خود بہت عجیب ہے ۔ تمہاری معلومات کے لیئے میں یہاں لکھ بھی دیتا ہوں۔ اپنی کتاب گرینڈ ڈیزائن کے صفحہ ۱۸۱ پر وہ لکھتے ہیںکہ::

    کیونکہ ایک قانون ، قانونِ ثقل موجود ہے اس لیئے کائنات نہ صرف نیست nothingسے خود کو بناسکتی ہے بلکہ بنائے گی:::

    اب دیکھو یار نیست Nothing کا مطلب تو ہوتا ہی کچھ بھی نہ ہونا تو اس میں قانون کہاں سے وارد ہوگیا؟ اور قانون بذات خود بھی صرف تشریح کرتا ہے کہ کن حالات میں کیا ہوگا۔ اب اس قانون نے کائنات کیسے بنائی یہ تم مجھے ضرور سمجھانا۔

    یہی سائنسدان ایک لیکچر میں یہ وضاحت کرتا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے ایک سنگو لیریٹی singularity یعنی اکائیت تھی جہاں سے یا جس سے بگ بینگ کی ابتدا ہوئی، یہ بات پیچیدہ لگتی ہے اور وضاحت مانگتی ہے کیونکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ کائنات بننے کے بعد اس اکائیت سے سارے رابطے ختم ہوگئے اور وہ گویا معدوم ہوگئی! گویا اب اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اس کا ایک تخیّل ہی ہے جس کی کوئی سائنسی تشریح نہیں۔ اس کی اس بات کی کوئی منطق تو ہوگی لیکن اس میں میری نظریاتی مدد کا سامان بھی تو ہے ذرا غور کرنا! تمہارے مطالعے کے لیئے میں لیکچر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔ لیکن پہلے اس کی ایک جھلک دیکھ لو کہ وہ کیسے بگ بینگ سے پہلے ایک کائنات یا ماحول کا تذکرہ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
    ……….. …………………………………………………

    “At this time, the Big Bang, all the matter in the universe, would have been on top of itself. The density would have been infinite. It would have been what is called, a singularity. At a singularity, all the laws of physics would have broken down. This means that the state of the universe, after the Big Bang, will not depend on anything that may have happened before, because the deterministic laws that govern the universe will break down in the Big Bang. The universe will evolve from the Big Bang, completely independently of what it was like before. Even the amount of matter in the universe, can be different to what it was before the Big Bang, as the Law of Conservation of Matter, will break down at the Big Bang.
    Since events before the Big Bang have no observational consequences, one may as well cut them out of the theory, and say that time began at the Big Bang. Events before the Big Bang, are simply not defined, because there’s no way one could measure what happened at them.”
    “بگ بینگ کے وقت تمام مادّہ تلے اوپر ہوگا۔ کمیّت لامحدود ہوگی، اسے ایک اکائیت singularityکہا جاسکتا ہے ۔ اس اکائیت میں تمام طبعئی قوانین ٹوٹ گئے ہونگے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کی شکل بگ بینگ کے بعدایسی کسی بات پر منحصر نہیں ہوگی جو اس سے پہلے ہو ئی ہو! اس لیئے کہ کائنات کو چلانے والے تمام طبعئی قوانین بگ بینگ میں ٹوٹ گئے ہونگے ۔ کائنات بگ بینگ میں سے ظاہر ہوگی اُس حالت سے مکمّل طور پر آزاد کہ پہلے جیسے رہی ہو! یہاں تک کہ مادّے کی مقدار بھی اس سے مختلف ہوگی کہ جو بگ بینگ سے پہلے تھی کیونکہ مادے کی بقاء کا قانون بگ بینگ میں ٹوٹ گیا۔ اب بگ بینگ سے قبل کے معاملات سے کوئی نتیجہ بررابطہ مشاہدے میںنہیں اس لیئے اسے تھیوری سے نکال دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ وقت بگ بینگ سے شروع ہوا۔ بگ بینگ سے پہلے کے واقعات کی کوئی تشریح نہیں ہے کیونکہ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہم پیمائش کرسکیں کہ اس میں کیا ہوا تھا۔”

    http://www.hawking.org.uk/the-beginning-of-time.html
    ………………………………………………

    دوست ذرا غور کرو کہ:

    بگ بینگ سے پہلے کسی ماحول میں موجود نامعلوم اکائیت کی بات کرکے سائنسدان انکار خدا کے حوالے سے اپنا کیس کمزور تو نہیں کر رہے؟

    یا کہیں ایسا تو نہیں کہ جدید تحقیقات نے انکو خدا کے حوالے سے علمی اور نظریاتی طور پر محصور کرنا شروع کردیا ہے؟

    میں ایک اور حوالہ دے رہا ہوں جہاں پر بتیس چوٹی کے سائنسدانوں نے بگ بینگ کو ناقابل عمل قرار دیا اور کہا کہ مختلف مفروضے لاکر اس کو قابل عمل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسکو ضرور دیکھنا۔
    http://rense.com/general53/bbng.htm

    میرا مقصد یہ بتانا ہے کہ کائنات کی ابتداء کے حوالے سے بھی سائنس ابھی تک کوئی مستند اور متّفقہ نظریہ نہیں دے سکی ہے۔ اگر کوئی ہے تو بتائو۔ میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جدید سائنس کی پیش رفت کے حوالے سے تشنہ اور متنازعہ نکات کو عام لوگوں سے چھپایا جاتا ہے اور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ بڑا بریک تھرو ہو گیا ہے لیکن در حقیقت تحقیق میں یہ حصولِ علم کے سنگ میل تو ہوسکتے ہیں مگر کسی ضمن میں علم ِکامل کے حصول کا ڈھنڈورا پیٹنا غلط ہی ہے۔

    دیکھو کوئی بھی عام انسان کامن سینس سے ہی معاملات کو دیکھے گا۔ اب جدید دریافت جسے ہگز پارٹیکل کا نام دیا گیا ہے اس کے متعلق سائنس کہتی ہے ،( اگر میں غلط ہوں تو اصلاح کردینا)کہ یہ فیلڈ پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر ایٹم کو کمیت اس سے چھو کر ملتی ہے۔ اب دوسرا سائنسی نظریہ کہتا ہے کہ کائنات روشنی کی رفتارسے بھی شائدزائد رفتار سے غبارے کی طرح پھیل رہی ہے۔ اگر دونوں باتیں درست ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ ہوںگی تو یہ بتائو کہ اس پھیلتی کائنات میں مزید ہگز پارٹیکل کہاں سے آرہے ہیں؟ غبارہ تو پھولتا ہی بیرونی ہوا کے اندر آنے سے تو یہاں پر کیا کوئی نیا اور اچھوتاطبعئی قانون ہے کہ کائنات بغیر بیرونی عامل کے پھیل بھی رہی ہے اور پارٹیکل سے بھری بھی ہوئی ہے۔ تو یہ انتہائی اہم نکتہ ،جس پر تحقیق ہورہی ہوگی، ہم کو آپ کو نہیں بتایا گیا ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی سائنسی جواز بھی تلاش کر لیا گیا ہو جس کا ہمیں ابھی علم نہیں۔ ایک بات اور کہ ہگز فیلڈ نہ نظر آتی ہے اور نہ وزن رکھتی ہے مگر ہر ایٹم کو کمیت دیتی ہے! ہے نہ یہ ایک طلسم! مگر اس کے پیچھے کیا کوئی کنٹرولر نہیں؟

    اسی لیئے میں سائنسی تھیوریز اور نظریات کو ادھورے علوم کہتا ہوں، کیونکہ مسلسل ریسرچ کا مطلب یہی ہے کہ ہمارا کائناتی علم ابھی مکمل نہیں ہوا۔ تمہارا خیال کیا ہے؟

    اب ایک دوسرے اہم موضوع پر کچھ بات مناسب ہوگی کہ مادّے میں زندگی کیسے آئی۔ اس بارے میں جو تم نے بتایا تو میں نے غور بھی کیا اور تحقیق بھی کی تاکہ تم سے سائنسی حوالے سے ہی بات کروں۔ یہاں بھی سائنسدانوں میں ہی اتفاق نہیں گویایہاں بھی سائنسداں یک سو نہیں۔ یہ نظریہ ارتقاء بھی قانون نہیں ہے بلکہ اس پر تحقیق ہورہی ہے۔ میں تمہارے لیئے ایک دلچسپ سائٹ کا ایڈریس نیچے دے رہا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ ارتقاء میںایک بڑے سائنسدان Hoyle کی نظر میں مادّے سے زندگی کے خود بخود ظہور کے کتنے امکانات ہیں۔ یہ متعلقہ اقتباس تم کو سوچ میں ضرور ڈالے گا۔

    …………………………………..
    Here is the relevant part of that quote by Hoyle:
    “If you stir up simple nonorganic molecules like water, ammonia, methane, carbon dioxide and hydrogen cyanide with almost any form of intense energy … some of the molecules reassemble themselves into amino acids … demonstrated … by Stanley Miller and Harold Urey. The … building blocks of proteins can therefore be produced by natural means. But this is far from proving that life could have evolved in this way. No one has shown that the correct arrangements of amino acids, like the orderings in enzymes, can be produced by this method
    ۔۔۔۔۔۔۔۔

    The first instance that I am aware of Hoyle’s use of that metaphor was reported in the science journal Nature in 1981:
    “Hoyle said last week that … the origin of life … the information content of the higher forms of life is represented by the number 10 to the power 40 000 – representing the specificity with which some 2,000 genes, each of which might be chosen from 10 to the power 20 nucleotide sequences of the appropriate length …. The chance that higher life forms might have emerged in this way is comparable with the chance that `a tornado sweeping through a junk-yard might assemble a Boeing 747 from the materials therein’. ” (Hoyle, F., in “Hoyle on evolution,” Nature, Vol. 294, 12 November 1981, p.105).

    http://creationevolutiondesign.blogspot.com/2008/10/re-fred-hoyle-about-747-tornado-and.html

    خود ہی پڑھ لو کہ ایک بڑا سائنسدان کیا کہہ رہا ہے کہ سادے غیر نامیاتی مولیکیول جیسے پانی، امونیا، میتھین، کاربن ڈائی آکسائڈ اور ہائیڈروجن سایانائیڈ سے امینو ایسڈ اور پروٹین کے بلڈنگ بلاکس تو بن سکتے ہیں لیکن زندگی کی تخلیق دور از کار ہے اور جس کا کوئی تجرباتی مظاہرہ بھی نہیں ہوا!

    اسی طرح یہ سائنسدان یہ بھی بتاتا ہے( شاید میرا ترجمہ تشنہ ہو) کہ کس طرح ایک برتر زندگی میں موجود معلومات گویا دس کو چالیس ہزار دفعہ ضرب در ضرب دینے سے حاصل ایک معین مقدار ہوتی ہے جو دو ہزار خاص جین کی ترتیب کے تئیں ترتیب پاتے ہیں اور یہ بھی ان جین میں سے چنے جاتے ہیں جن کی تعداد دس کو بیس دفعہ ضرب در ضرب دینے سے حاصل ہو۔ ان کروڑہاکروڑ معیّن تعداد اور لمبائی کے جین کی نیوکلائیڈ کی ایک خاص ترتیب میں ابھرکر زندگی تخلیق کرنے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنا کہ ایک بڑے گودام یا کسی یارڈ میں پڑے لاکھوں پرزوں کا کسی طوفان کے گزرنے سے بوئنگ جمبو طیّارہ بننے کے ہیں۔

    اسی حیاتی ارتقاء کے حوالے سے اب ایک اور اہم عنوان کی بھی بات کرلیں۔ میرے ایک استفسار پر تم نے شاید ایسا ہی کچھ بتایا تھا کہ ڈارون نے ایک تھیوری دی ہے کہ ایک چیز ہوتی ہے نیچرل سلیکشن Natural-Selection،قدرت کا خودکار چنائو جس کی وجہ سے زندگی میں ارتقاء اور بہتری آتی رہتی ہے۔ اور کوئی بھی زندگی اس بارے میں خود فیصلہ کرتی ہے کہ کیا بہتر ہے، اور جس جس حیات میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی وہ فنا ہوتی رہتی ہیں۔ اگر میں غلط سمجھا تو میری اصلاح کر دینا۔ لیکن اسکی منشاء میں جان گیا کہ ہر حیات اپنی بہتری اور بقاء کے لیئے ماحول سے مطابقت کرتی رہتی ہے جو نہیں کرتی فنا ہوتی رہتی ہے۔

    مجھے تو یہ اصطلاح ارتقاء کے بے مثال اور انتہائی ترقی یافتہ نظم highly-advanced-systemکے اندر کسی نہ سمجھ میں آنے والے میکینزم کے مشاہدے obsevationکی تشریح لگی، صرف تشریح جس میں اسکے وقوع پذیر ہونے کاکوئی سائنسی جواز نہیں بتایا گیا ہے۔ اگر دقیق مشاہدے سے کسی میکینزم کو ادھورا یا بہت حد تک سمجھ بھی لیا جائے تو بھی یہ دریافت اس بات کی دلیل کیسے بنے گی کہ یہ سب خود ہورہا ہے؟ یہ عقدہ میری ناقص عقل میں نہیں آرہا تم ہی وضاحت کرنا۔ یعنی میرا سوال یہ ہے کہ خلیاتی حیات میں ایسا کیا ہے اور کیوں ہے کہ قدرتی چنا ئو natural-selection کا عمل ہوتا رہتا ہے ؟ یہ عمل جو آفاقی نظم لیئے ہوئے ہے کیا آزاد ہے اور کہیں سے کنٹرول نہیں ہوتا ؟

    دیکھیں کسی فطری میکینزم کے مشاہدے اور کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ کرنے سے سے وہ علمی دریافت ایک آفاقی سچّائی بن سکتی ہے لیکن دریافت کرنے والے کی پراپرٹی نہیں بنتی اورنہ ہی اس بنیاد پر کہ کسی سائنسداں نے اسکی کھوج لگائی ہے تو اسکی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہنا لازمی ہو جاتا ہے، بلکہ ایسی کاوش آپ کے لیئے مزید مصیبت زدہ سوالات لیکر آسکتی ہے جیسا کہ میں نے پوچھا کہ یہ آٹو میٹک سسٹم ہے تو اسکا کنٹرول کہاں ہے؟ ہاں تم بھی مجھ سے یہ پوچھ سکتے ہو کہ خدا کو کس نے بنایا جس کا مدلّل جواب مناسب وقت پر دونگا۔

    یہاں صرف تم پر یہ واضح کرنا تھا کہ جیسا کہ تمہارا خیال تھا سائنس دہریت کا علم ہے وہ غلط ہے بلکہ یہ انسان کی مشاہدات اور تحقیق کا علم ہے جو فطرت کا راز جاننے کے لیئے کی جاتی ہے اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ سائنسی علوم کو دہریت کا نقیب کہنا بد دیانتی ہے۔ سائنس صرف معلومات ہے اس سے جتنے دلائل تم لے سکتے ہو اتنے ہی میں لے سکتا ہوں۔ وہ سائنسدان جو اپنی ذاتی حیثیت کے بجائے علمی حیثیت میں خدا کا انکار کرتا ہے وہ دراصل حصول علم کی اخلاقی حد کو پامال کرتا ہے۔ سائنس دان اگر ریسرچ کا نتیجہ دیکر خاموش ہوجائے اور لاتعلق رہ کر ریسرچ کرے تو کسی کو کوئی اعتراض کیوں ہوگا مسئلہ مگر وہاں شروع ہوتا ہے جب سائنسدان اپنی علمی حیثیت میں اس علم کے حوالے سے خدا کا انکار کرتا ہے جیسے اسٹیون ہاکنگ، اس طرح یہ کسی شعبۂ علم پر قابض ہوکر ایک پارٹی بن جانا ہے۔

    اب میری گزارش بھی سنو۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم ایک سوچتا ہوا ذہن رکھتے ہو جو بہت اچھی بات ہے۔ تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم ہر عقدے کو عقل سے حل کرنا چاہتے ہو یہ بھی مثبت بات ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو بات عقل میں نہیں آئے وہیں پر تمہارے لیئے رکاوٹ آجاتی ہے۔ دیکھو ایک ہوتاہے کہ انسان عقل پر خودکو حاوی رکھے اور دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ اور عقل کو علم میں مقیّد کرلے۔ اگر تم غور کرو تو تم وہی کچھ کہہ رہے ہوتے ہو جو میں کہہ رہا ہوتا ہوں۔فرق صرف یہ ہے کہ تم علم کی بنیاد پر ایک حد سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ کائنات اللہ نے بنائی خود نہیں بنی، تم سائنس کی بنیاد یعنی علم کی بنیاد پر کہتے ہو کہ خود بنی لیکن دوسری طرف یہی سائنس کہتی ہے کہ ایک اکائی یعنی singularityسے بگ بینگ عیاں ہوا اور بگ بینگ سے پہلے کی اس اکائیت کا سائنس کو علم نہیں! ایک دوسری جگہ یہی سائنس کہتی ہے کہ قانون ثقل کی وجہ سے تخلیق ہوئی مگر قانون کیسے بنا اسکا پتہ نہیں۔ تو بات ایک ہی ہے بس تم ایک قدم پیچھے یعنی حاصل شدہ علم کی بنائی فصیل میںہو اور انہی پیرامیٹر میں اپنی عقل کو استعمال کرتے ہو۔ جبکہ میں ایک برتر علم پر یقین بھی اپنی عقل کے تئیں رکھتا ہوں۔

    تم علم کو اگر صرف انسان کی پراپرٹی سمجھتے ہو تو یہ غلط ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ تم کس جواز پر ایسی ہستی کو مسترد کرسکتے ہو جو انسان سے زیادہ علم رکھے جبکہ سائنسدان خود کہتے ہیں کہ کائنات میں انسان سے زیادہ قابل ، علم والی اور بہت زیادہ ترقی یافتہ مخلوق ہوسکتی ہے۔ یہ رہا لنک: http://www.space.com/29999-stephen-hawking-intelligent-alien-life-danger.html تو بھئی اگرکائنات میں انسان سے سو ہزار یا لاکھ گنا قابل مخلوق ہوسکتی ہے تو کائنات سے باہر،میرا مطلب ہے کہ اسی اکائیت singularityمیں جو سائنس کی رو سے معدوم ہوچکی ہے( لیکن کیا پتہ یہ ماحول موجود ہو!) لامحدود گنا علم والی ہستی کیوں نہیں ہوسکتی؟ دیکھو میں یہاں سائنسدان مسٹر ہاکنگ کا حوالہ دے رہا ہوں قرآن کا نہیں اس لیئے اس کی وضاحت ضرور کرنا۔ اگر خلائی مخلوق کے حوالے سے تم کو اور معلومات درکار ہو تو گوگل میں تو سب دھرا ہے۔

    دیکھو دوست بہ حیثیت انسان تمہارے پاس عقل ہے جس کی وجہ سے ہی علم ہے تو تم علم سے برتر ہو۔ جہاں انسان کا علم معطّل ہوجائے تو پھر عقل اور شعور ہی آگے لیجاتے ہیں۔ تم خدا کو علم سے سمجھنا چاہتے ہو جبکہ میں نے اسے عقل سے بے دلیل مانا کیونکہ علم تو اپنی انتہا پر جاکر ہی اس قابل ہوگا کہ تمام پردے گرادے لیکن ہمارا علم تو ابھی نامکمل ہے۔ یہ بات تو تم بھی جانتے ہو کہ کائنات اور زندگی کی تشریح خدا کے بغیر جدید سائنس ابھی تک نہیں کرسکی ہے کیونکہ بے شمار نئے نکات سامنے آتے رہتے ہیں۔

    چلو ایک اور نکتے پر بھی غور کرو کہ اگر بالفرض کائنات خود ہی بن گئی تب بھی اس میں موجود ہر چیز اور ہر خیال اپنا ایک منطقی جواز رکھ کر ہی عیاں ہوگا، غیر متعلق خیال آنے کی تشریح سائنسدان کیسے کریں گے جبکہ وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ خیالات کیمیائی عمل سے پیدا ہوتے ہیں، تو دوست اگر خدا ہے ہی نہیں تو کو ئی کیمیکل فارمولہ خدا کا خیاللے کرظاہر ہوا ہی کیوں؟ اس خیال کو بھی تو نہیں ابھرنا تھا کیونکہ اس ضمن میںاگر میںتم کو صحیح مانوں توتصور خدا کا کوئی سائنسی اور منطقی جواز ہی نہیں بنتا لیکن یہ تو نہ صرف ہے بلکہ بڑی شدّت سے موجود ہے، تبھی تو ہم اس پر بات کر رہے ہیں۔ تم ہی اسکی وضا حت کروایسا کیوں ہوتا ہے؟

    میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ تمہارا مسئلہ صرف خدا کو سمجھنا ہے۔ اگر ایک دفعہ تمہاری سمجھ میں یہ آگیا تو تمام ابہام ختم ہو سکتے ہیں۔ تمہاری ایک سخت ذہنی ساخت ہی اس میں رکاوٹ ہے۔ تم نے یہ سختی سے اخذ کیا ہواہے کہ مذہب ایک دقیانوسی طرز فکر ہے ، جب تک تم اس تنگ نظری سے نہیں نکلوگے اور کشادہ دل ہوکر غور نہیں کروگے تم اپنے نامکمل اور غیر عقلی نظریات کے ساتھ زندگی تو گزارتے رہو گے جیسا کہ کثیر تعداد ہمارے اطراف کر رہی ہے بلکہ بڑے دانشور بھی حال میں مگن ہیں لیکن اپنے حال میں مست تو حیوانات ہی رہتے ہیں انسان کا شرف یہی ہے کہ عقل کے طابع فول پروف نظریات کا خوگر ہو۔ دیکھو پرندے صرف غذا کی تلاش اور گھونسلہ بنانے میں ہی مصروف رہتے ہیں کیا انسان بھی یہی کرتا رہے؟

    دیکھو دوست کائنات کی جبلّت یہی ہے کہ ہر چیز کو کوئی نہ کوئی بناتا ہے۔ انسان خود تخلیقات میں مصروف رہتا ہے۔ اب اگر انسانی تخلیق انسان کو نہیں پہچانتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی کسی تخلیق میں اپنے جیسا شعور ڈالنے کا علم اور طاقت نہیں رکھتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب انسان مصنوعی عقل بنانے اور اسکو مصنوعی انسان یعنی روبوٹ میں انسٹال کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ جدید روبوٹ مصنوعی ذہانت سے بڑے کام کرجاتے ہیں لیکن انسان کو اتنا ہی جان پاتے ہیں جتنا علم انکے پروگرام میں طے کردیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اللہ نے انسان میں اپنی صفات کا عکس ڈال کر اسے سب سے برتر مخلوق قرار دیا اور اس میں یہ صلاحیت منتقل کی کہ انسان اپنے رب کو پہچانے۔ آج ہم بھی اسی عقل کے تئیں کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔

    میرے دوست کیا مجھے انسان کے کی کاوش کے بغیر روبوٹ بنتا دکھا سکتے ہو؟ نہیں نا!

    اگر انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنی طرح روبوٹ کو عقل دیدے مگر خودکو اوجھل رکھے تو کیا روبوٹ انسان کو اپنا خالق تسلیم کرے گا اور کیا اس کے انسان کو تسلیم نہ کرنے سے انسان بے وجود ہو جائے گا؟

    سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ علم کے دائرے ہیں جس میں حیات مقیّد ہیں۔ ہر حیات اپنے دائرہ علم اور ایک قوّت کے ساتھ ہے، خواہ حشرات الارض ہوں یا چرند، پرند ، درند اور نباتات ہوں۔ اور یا انسان ہو!

    انسان اس دائرے سے باہر اپنی عقل ، غور اور فکرسے ہی جاسکتا ہے ایک عظیم تر دائرہ علم میں۔ جہاں وہ عظیم قوّت ہے جس کی کائنات کے ہر ہر پارٹیکل اورہر ہر عامل پر ہمہ وقت گرفت ہے۔

    کیا تم ایسی قوّت کا ادراک کر سکتے ہو؟

    دوست ذرا سوچو۔۔

    تمہارا خیر اندیش

  • اہل کتاب کے ساتھ دوستانہ روابط کے لیے نکاح کی حلت سے استدلال – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    اہل کتاب کے ساتھ دوستانہ روابط کے لیے نکاح کی حلت سے استدلال – ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

    محمد مشتاق جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں نے اہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ دوستانہ روابط رکھے جاسکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اہل کتاب خواتین کے ساتھ نکاح کی اجازت کا اصل مقصد اہل کتاب کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کی خواتین کو اسلام کی قبولیت کا موقع دینا تھا ۔ اگر مقصد محض دوستانہ روابط بنانا تھا تو پھر اہل کتاب مردوں سے مسلمان عورتوں کے نکاح کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟

    اس مکتب فکر کے بعض لوگوں نے اس سے آگے بڑھ کر قرار دیا ہے کہ جن غیر مسلموں سے نکاح کی حرمت کا حکم تھا وہ صرف وہی تھے جن پر رسول اللہ ﷺ نے اتمام حجت کیا تھا۔ باقی رہے آج کل کے غیر مسلم تو یہ حکم ان کے لیے نہیں ہے۔ یہ رائے فقہائے اسلام کے اجماعی موقف کے خلاف تو ہے ہی لیکن یہاں اس رائے پر مولانا اصلاحی کے اصولوں کے تحت تنقید کی جاتی ہے:

    پہلے اس آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کریں جس میں یہ اجازت دی گئی ہے:
    [pullquote]الْیَوْمَ أحلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ إذَا آتَیْْتُمُوہُنَّ أجُورَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أخْدَانٍ وَمَن یَکْفُرْ بِالایْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (سورۃ المائدۃ، آیت ۵)[/pullquote]

    ”آج تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں، اور جن کو کتاب دی گئی ہے ان کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔ اور (حلال ہیں تمہارے لیے) پاک دامن عورتیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامن عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی، بشرطیکہ ان کو قید نکاح میں لاکر ان کا مہر ادا کردو، نہ کہ بدکاری کرتے ہوئے یا آشنائی گانٹھتے ہوئے۔ اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے گا تو اس کا عمل ڈھے جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔“

    پہلے تو لفظ الیوم پر غور کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پچھلی آیات کی طرح یہ آیت بھی اس وقت نازل ہوئی جب اہل کتاب پر حجت تمام ہوچکی تھی۔ اس کے بعد الذین أوتوا الکتٰب کی ترکیب پر بھی غور کریں۔ جیسا کہ مولانا اصلاحی نے واضح کیا ہے، قرآن مجید میں یہ ترکیب بالعموم شرار اہل کتاب کے متعلق استعمال ہوئی ہے جبکہ خیار اہل کتاب کے لیے بالعموم الذین آتینٰھم الکتٰب کی ترکیب آئی ہے۔ اس کے بعد لفظ المحصنٰت پر غور کریں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان شرار اہل کتاب کے زیر تسلط بعض پاکباز خواتین پائی جاتی تھیں۔پھر نکاح کے مقصد پر بھی نظر ڈالیں۔ کہا گیا کہ تمہارا مقصد شہوت رانی یا خفیہ آشنائی قائم کرنا نہ ہو، بلکہ پاکبازی اختیار کرنا ہو۔ اس کے بعد آیت کے آخری حصے پر نظر ڈالیں جس میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کہیں وہ ایمان کو چھوڑ کر کفر کی روش نہ اختیار کرلیں۔

    پس آیت کا مجموعی پیغام یہ ہوا کہ جس وقت شرار اہل کتاب پر حجت تمام کی گئی اس وقت بھی ان کے ہاں چند پاکباز خواتین پائی جاتی تھیں جن سے نکاح کی اجازت مسلمانوں کی دی گئی تاکہ وہ انہیں شرار اہل کتاب کے قبضے سے نکالیں اور انہیں کھلے ماحول میں اسلام کو سمجھنے کا موقع ملے تو شاید وہ اسلام قبول کرلیں۔ ماحول کا اثر مردوں پر بھی ہوتا ہے لیکن خواتین کی انفعالی طبیعت کی وجہ سے ان پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ملکہئ سبا کے متعلق بھی گواہی دی ہے کہ وہ ایک سلیم فطرت کی مالک اور سوچنے سمجھنے والی خاتون تھیں لیکن جب تک وہ اپنے قوم کے اندر رہیں ان کے اثر سے شرک پر قائم رہیں۔ جب انہیں اس ماحول سے نکلنے کا موقع ملا تو فوراً ہی انہوں نے اسلام قبول کرلیا:
    [pullquote]وَصَدَّہَا مَا کَانَتْ تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللّٰہِ إنَّہَا کَانَتْ مِن قَوْمٍ کَافِرِیْنَ (سورۃ النمل، آیت ۳۴)[/pullquote]

    ”اور اس کو روک رکھا تھا ان چیزوں نے جن کو وہ اللہ کے ماسوا پوجتی رہی تھی۔ وہ ایک کافر قوم میں سے تھی۔“
    تاہم اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ہی مسلمانوں کو خبردار کیا گیا کہ کہیں الٹا وہی اسلام چھوڑ کر کفر کے مرتکب نہ ہوجائیں۔ یہیں سے یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ کیوں مسلمان خواتین کو اہل کتاب مردوں سے شادی کی اجازت نہیں دی گئی؟

    یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر مولانا اصلاحی کی رائے خود ان کے اپنے الفاظ میں نقل کی جائے:
    ”ہمارے سلف صالحین میں سے ایک گروہ نے دار الحرب اور دار الکفر میں کتابیات سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کے جواز کے لیے دار الاسلام ہونا بھی ایک شرط ہے۔ مجھے یہ قول بہت ہی قوی معلوم ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات انہوں نے فحوائے کلام سے مستنبط کی ہے۔ میں اس کے ماخذ کے لیے لفظ ’الیوم‘ کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی دخل ہے۔ اوپر ’الیوم یئس الذین کفروا‘ اور ’الیوم أکملت لکم‘ والی آیات بھی گزر چکی ہیں، اور ’فلاتخشوھم و اخشون‘ بھی ارشاد ہوچکا ہے، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس دور میں کفار کا دبدبہ ختم ہوچکا تھا اور مسلمان ایک ناقابل شکست طاقت بن چکے تھے۔ یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی تو وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا ہو کر تہذیب اور معاشرت اور اعمال و اخلاق میں ان سے متاثر ہوں گے، بلکہ توقع تھی کہ مسلمان ان سے نکاح کریں گے تو ان کو متاثر کریں گے اور اس راہ سے ان کتابیات کے عقائد و اعمال میں خوشگوار تبدیلی ہوگی اور عجب نہیں کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ علاوہ ازیں یہ پہلو بھی قابل لحاظ ہے کہ کتابیات سے نکاح کی اجازت بہر حال علی سبیل التنزل دی گئی ہے۔ اس میں آدمی کے خود اپنے اور اس کے آل و اولاد اور خاندان کے دین و ایمان کے لیے جو خطرہ ہے، وہ مخفی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مسلمان مردوں کو تو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی لیکن مسلمان عورت کو کسی صورت میں بھی کسی غیر مسلم سے نکاح کی اجازت نہیں دی گئی، خواہ کتابی ہو یا غیر کتابی۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اجازت صرف ایک اجازت ہے۔ یہ کوئی مستحسن چیز نہیں ہے۔“

    تقریباً اسی رائے کا اظہار جناب غامدی نے اپنی کتاب میزان کے باب ”قانون معاشرت“ میں کیا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں:
    ”آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اس وقت دی گئی، جب توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا اور مشرکانہ تہذیب پر اس کا غلبہ ہر لحاظ سے قائم ہوگیا۔ اس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ’الیوم‘ کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں وقت کے حالات کو بھی یقینا دخل تھا۔ لہٰذا اس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان ان عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ ان سے متاثر ہوں گی اور اس طرح شرک و توحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوگا، بلکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہوجائیں۔“

    تاہم افغانستان پر امریکی حملے کے تناظر میں جب غامدی صاحب سے انٹرویو لیا گیا تو اس میں انہوں نے اس کے برعکس یہ موقف اختیار کیا کہ اگر اہل کتاب سے دوستی ناجائز ہوتی تو ان کی خواتین سے نکاح کی اجازت کیوں دی گئی؟ انہوں نے مزید قرار دیا کہ دوستی کی ممانعت تو ان اہل کتاب کے لیے ہے جن پر رسول اللہ ﷺ نے حجت تمام کردی تھی:
    ”یہ بات جزیرہ نماے عرب کے ان یہود و نصاری کے بارے میں کہی گئی ہے جن پر رسالت مآب ﷺ نے اتمام حجت کیا تھا۔ یہ بات قومی حیثیت میں یہود و نصاری کے بارے میں نہیں کہی گئی۔ اگر اس کو اس کی قومی حیثیت سے متعلق کیا جائے تو پھر اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت کے کیا معنی ہیں؟ یہ نکاح کیا دوستی اور محبت کے جذبات کے بغیر ہوجائے گا؟“

    یہاں غامدی صاحب اپنے موقف کے اس تضاد کو محسوس نہیں کر پائے کہ اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کی اجازت اس موقع پر دی گئی جب اہل کتاب پر حجت تمام کی جاچکی تھی۔ اگر نکاح کی اجازت سے مراد دوستانہ روابط کی اجازت تھی تو پھر اسی موقع پر اور اسی سورۃ المائدۃ میں اہل کتاب سے دوستی کی ممانعت کیوں کی گئی؟ پس مولانا اصلاحی کے اصولوں کی روشنی میں صحیح موقف یہ ہے کہ اہل کتاب پر حجت تمام کئے جانے کے بعد ان سے دوستانہ روابط کی ممانعت کی گئی اور ساتھ ہی ان کی پاکباز خواتین کو اسلام کی قبولیت کا موقع دینے کے لیے مسلمانوں کو ان سے نکاح کی اجازت دی گئی۔ واللہ تعالیٰ أعلم!

  • satanism کیا ہے؟ عبدالسلام فیصل

    satanism کیا ہے؟ عبدالسلام فیصل

    tstlogoheadertext 1958ء میں ایک یہودی Anton Lavey نامی شخص نے Atheism کو اختیار کر لیا۔ یہ شخص Black magic کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ اور خواب رکھتا تھا کہ دنیا میں جادو کے ذریعے ایک ایسا مذہب قائم کر دیاجائے جس کے ذریعے دنیا میں Sex اور wealth یعنی جنس اور وسائل کو قابو میں کر لیا جائے۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے اس نے 1969ء میں ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام Satanic bible تھا۔ اس کے بعد یہ ایک مسلسل مذہب کی شکل اختیار کرگیا، جس کو اب Satanism کہا جاتا ہے۔ یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ دہریت Atheism کی آڑ میں یہ ایک مستقل مذہب کی شکل اختیار کرتے ہوئے چلنے لگا ہے۔ Satanism کے ماننے والے یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ ان کے مذہب کی پوجا پاٹ کے لیے Satanic Church بنائے گئے ہیں لیکن ان عبادت گاہوں کی کوئی بلڈنگ ہے نہ کوئی منظم نظام۔ free masons کی طرح ان کے Satanic church پوری دنیا میں underground کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ Black magic سکھانے کی آڑ میں سب سے پہلے babylonian Astro theology کے ذریعے اپنے ممبران کو اس کی سحر انگیزیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ یاد رہے اردو لغوی اصطلاحات کے مطابق Star worship ستارہ پرستی سکھاتے ہوئے’’صابی‘‘ بناتے ہیں، اس کے بعد شیطانی علوم سکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے ممبران اکثر خواتین اور کھسروں یعنی Shemale جنس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے Social Networking کے ذریعے پوری دنیا میں اپنے ممبران کو کام کرنے کے لیے چھوڑ رکھا ہے جس کا سب سے بڑا مقصد اسلام کے خلاف کام کرنا ہے۔ اسلام سے لوگوں کو بد ظن کرنا اور غلط معلومات پھیلانا ہے۔

    آج پوری دنیا کے بڑے بڑے سیاستدان، اداکار، عیسائی پوپ، اس مذہب کا Satanic Gesture بناتے نظر آتے ہیں۔ اس Satanic symbol کو 6 کونوں والےستارے کے اندر ایک لمبے سینگھ والا بکرا بنایا گیا ہے، امریکہ، یورپ اور افریقہ کے نامور سیاستدان، اداکار، ماڈل، اور عیسائی پادری وغیرہ اس کا نشان اپنے ہاتھوں پر بناتے نظر آتے ہیں۔
    ۱:انگوٹھا اور پہلی انگلی کو ملا کر باقی ہاتھ کو کھلا چھوڑنا۔
    ۲: پہلی دو انگلیوں کو V کی شکل بنا کر پوری مٹھی کو بند کرنا۔
    ۳: سب سے مشہور پہلی اور آخری انگلی کو کھولنا اور درمیان والی انگلیوں کو فولڈ کرتے ہوئے انگوٹھے سے بند کرنا ہے۔

    یہاں پر ایک بات قابل ذکر ہے کہ بہت مشہور قسم کےدہریے یا Atheist یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس طرح تو رسول اللہ ﷺ نے بھی پہلی اور دوسری انگلی کو لہرایا ہے، اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یا تو قیامت کی قربت کی مثال دینے کے لیے 2 انگلیوں کو اٹھایا یا پھر انہوں نے اپنے اور متبع رسول ﷺ کے جنت میں ساتھ ہونے کی بشارت یا اس جیسے معاملات میں دو انگلیوں کو د کھایا۔ کسی صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا جیت کے نشان کے لیے Victory کا نشان بناناثابت نہیں، بلکہ انگلیوں کوجوڑ کر دیکھانا ثابت ہے.

    ان لوگوں کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے underground satanic church کی ممبر شپ کے لیے 200$ سے لے کر 1000$ تک فیس رکھی ہے جو life time fee مانی جاتی ہے۔ اس کے بعد ممبران sex societies میں مفت آ جا سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ Destruction پھیلانے کے کام آتی ہے اور مقبوضہ علاقوں کی دولت لوٹ کر ان کے ممبران میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ ان کے ممبران زیادہ تر government body کی اعلی Authorities ہی ہیں۔ جارج بش، پیوٹن ، کلنٹن، پوپ فرانسس، اسرائیلی وزیر اعظم، بڑے بڑے گلوکار جیسے ’’مائیکل جیکسن‘‘، لیڈی ڈیانا، پرنس ویلیم، ملکہ الزبتھ سب کے سب وکٹری کا نشان بلند کرنے کے لیے مذکورہ بالا ہاتھ کا سائن بنا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ آج اوباما، مودی اور دیگر لوگوں نے بھی فتح کے نشان کے لیے اس نشان کو بنانا پسند کیا ہے۔

    آج کا نوجوان Pop Musicians کے اشاروں کو فالو کرتا ہے لیکن اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ انجانے میں وہ کن شیطانی طاقتوں کی حمایتی سائن بنا رہا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے ملحد بظاہر ’’دینی رسومات‘‘میں حصہ لیتے نظر آتے ہیں لیکن ان کا کسی بھی دین یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں نے ان کو ’’الومیناٹی‘‘ کہا، کچھ نے Zoinists، کچھ نے free masons اور کچھ نے Sanatist لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام دشمن ہیں۔ اسلامی ممالک میں sex پھیلا، اور ان کی دولت اور Natural Resources پر قبضہ کر رہے ہیں۔ پوپ فرانسس نے جب یہ اعلان کیا کہ فرانس پر حملہ World war 3 کا حصہ ہے تو اس تقریر کے اختتام پر Sanatic sign بنایا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس دنیا کو لادین بنانے کے لیے Secular اور libral طاقتیں متحرک ہو چکی ہیں۔ یہ قیامت کے قریب ہونے کا پیش خیمہ ہے لیکن اللہ کا وعدہ بھی سچا ہے کہ ’’دین اسلام غالب ہو کر رہےگا‘‘ ان شاء اللہ۔

  • اوریا مقبول جان اور خورشید ندیم کا مباحثہ، درست کون ہے؟ رضوان اسد خان

    اوریا مقبول جان اور خورشید ندیم کا مباحثہ، درست کون ہے؟ رضوان اسد خان

    رضوان اسد خان دو بہت بڑے کالم نگاروں کا ”دلیل“ پر دلیل کے ساتھ مباحثہ چل رہا ہے. دلی وابستگی محترم اوریا مقبول جان صاحب کے ساتھ ہونے کے باوجود خورشید ندیم صاحب کے دلائل مضبوط معلوم ہوتے ہیں.

    یہ بات ان کی (خورشید ندیم صاحب کی) درست ہے کہ قیام پاکستان کو ”الہی منصوبہ“ قرار دینا قدرے جذباتی اور دلیل سے عاری مؤقف ہے. مجھ ناچیز کی رائے میں ایسا سمجھنا گویا یہ باور کروانا ہے کہ اس ”الہی منصوبے“ میں بہت سے نہایت بنیادی نوعیت کے ”جھول“ رہ گئے تھے، جو کہ یقیناً شان کریمی سے بہت ماورا ہے.

    دوسری بات بھی خورشید ندیم صاحب کی بالکل درست ہے کہ دور فتن کی احادیث کی موجودہ دور کے کسی بھی واقعے پر یقینی تطبیق بہت خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے. تقریباً تمام کبار علماء نے اس روش سے سختی سے منع فرمایا ہے. اس طرز عمل کی ہولناکی کا ایک مظہر ہم 70ء کی دہائی میں ظہور مہدی اور کعبۃ اللہ پر قبضہ کی کوشش میں دیکھ چکے ہیں.

    اور یہ بات بھی خورشید ندیم صاحب کی درست ہے کہ غزوہ ہند سے متعلق روایات صحت کے حوالے سےکمزور ہیں،ان سے استدلال کرنا درست نہیں. مزید یہ کہ جیسا کہ ابھی عرض کیا کہ جو ایک دو ”حسن“ یا ”صحیح“ روایات اس حوالے سے ملتی بھی ہیں، ان کی تطبیق اور کیفیت کا تعین بھی ایک نازک معاملہ ہے.

    دراصل یہ ایک ”رومانوی سوچ“ ہے کہ بس ہمارا نجات دہندہ آیا ہی چاہتا ہے اور پھر ہم اس کی قیادت میں پوری دنیا فتح کر لیں گے. اور یہ کہ بس ہند کی طرف لشکر کشی ہوا ہی چاہتی ہے، پھر ہم اپنے ازلی دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیں گے. نقصان اس کا یہ ہوتا ہے کہ بندہ بس اس ”دور موعود“ کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہتا ہے اور اس دور کو (بجا طور پر) دور فتن سمجھتے ہوئے، محض ”برائیوں“ سے بچنے کو ہی (غلط طور پر) کافی سمجھ لیتا ہے اور ان کے تدارک اور خاتمے کی کسی عملی جدوجہد کو ملتوی کر دیتا ہے؛ اور یہ طرز عمل دین کی روح کے خلاف ہے.

    اب اس سے یہ بھی مراد نہیں کہ ہم غامدی مکتبہ فکر کی طرح ظہور مہدی اور نزول عیسٰی (علیہ السلام) کی روایات کا سرے سے ہی انکار کر دیں. ہرگز نہیں. ہم ان کا انتظار بھی کریں گے اور حتی المقدور اس کی تیاری بھی، لیکن اس انتظار کے دوران جو کرنے کے کام ہیں، انہیں ترک نہیں کریں گے. غامدیت سمیت ہر قسم کے ”فکری فتنے“ سے اسلام کا دفاع اور ان فتن کے تدارک کی ہر ممکن کوشش ہمارا ”ہوم ورک“ ہے جو ہمیں ظہور مہدی سے پہلے ہی مکمل کرنا ہے.

    نوٹ: اوریا مقبول جان صاحب کو اس قسم کے ”معرکہ نما مکالموں“ میں ہر ہر لفظ کو تحقیق کے بعد لکھنا چاہیے. شعر کی نسبت اور حسن بصری رح کی عمر کے حوالے سے خورشید ندیم صاحب نے جو پکڑ کی ہے، وہ خواہ صحت مضمون کے حوالے سے اتنی اہم نہ بھی ہو، مگر قاری کے ذہن پر ”امپیکٹ“ کے حوالے سے نہایت منفی تاثر چھوڑتی ہے.

  • غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان – خورشید احمد ندیم

    غزوہ ہند کی روایات اور پاکستان – خورشید احمد ندیم

    (اوریا مقبول جان کے شائع نہ ہونےو الے کالم کے جواب میں خورشید احمد ندیم کا شائع نہ ہونے والا کالم، دلیل کے پلیٹ فارم سے پیش کیا جا رہا ہے۔)

    خورشید ندیم مشکل یہ ہے کہ دنیا کا ہر کام محض خلوصِ نیت سے نہیں ہو سکتا۔ کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں جو دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں پورے خلوصِ نیت سے چاہوں، تو بھی علامہ اقبال کے پورے کلام میں یہ شعر تلاش نہیں کر سکتا :
    فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
    اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
    اب جو شعر مولانا ظفر علی خان نے لکھا ہو، کلیاتِ اقبال میں کیسے مل سکتا ہے؟ میرا تمام تر اخلاص اور میری بےکنار خواہش مل کر بھی، یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے۔ میں لوگوں کو اسی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہر کام خلوص نیت ہی سے ہو جائے۔ انسان محض جذبات کا نام نہیں، اﷲ نے اسے عقل بھی عطا کی ہے۔ اﷲ کی یہی نعمت اسے شرفِ انسانیت سے نوازتی ہے۔ اسی کی وجہ سے وہ ایک اور بڑی اور غیر معمولی نعمت، وحی الٰہی کا مخاطب بنتا ہے۔ اسی کی مدد سے وہ اﷲ کے رسول کو پہچان سکتا ہے، جن کی بعثت کو اﷲ نے اپنا احسان قرار دیا ہے۔ قرآن مجید نے آپﷺ سے کہلوایا ’’میں تمہارے درمیان ایک عمر بسر کر چکا، کیا تمہیں عقل نہیں۔‘‘ عقل والوں کے لیے آپﷺ کی عمرِ مبارک کو دلیلِ نبوت بنا دیا گیا۔ عقل اگر خلوص نیت کے ہم رکاب نہ ہو تو فرد ہی نہیں قومیں بھی برباد ہو جاتی ہیں۔ یوں بھی خلوص ایک دلی کیفیت ہے۔ کوئی میرے اخلاص کو جاننے پر قادر ہے نہ میں کسی کے اخلاص کو جان سکتا ہوں۔ دلیل ہی واحد راستہ ہے جو مکالمے کو ممکن بناتا ہے۔

    گزشتہ کالم میں اپنے پڑھنے والوں کو اسی جانب متوجہ کرنے کی کوشش میں دو باتیں لکھی گئیں: ایک یہ کہ پاکستان کا قیام کوئی الٰہی منصوبہ نہیں۔ اس کی بنیادیں اسباب و علل میں ہیں۔ اس کے لیے دینی بنیادیں تلاش کرنا ایک غیر ضروری مشقت ہے۔ پھر یہ بھی عرض کیا کہ اسلام اﷲ کی نعمت ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ اسے اہل پاکستان تک محدود کرنا درست نہیں۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ اس طرح کے تاریخی واقعات کو دینی استدلال فراہم کرنے کی کوشش میں، جب حدیث کی کتب میں موجود روایات کو عصری واقعات پر منطبق کیا جاتا ہے تو اس سے خود دین کی صحت کے بارے میں سوال اٹھتے ہیں۔ اس لیے، یہ ایک جسارت ہے جس سے گریز کیا جاناچاہیے۔ بطور مثال، دو روایات کا ذکر بھی کیا گیا کہ کیسے ماضی کے واقعات پر ان کا انطباق کیا گیا اور کیسے آج پھر ان کی بنیاد پر لوگوں کو قتل و غارت گری کے لیے ابھارا جا رہا ہے۔ یہ بات کہنے کی پاداش میں، ایک محترم ناقدکا خیال ہے کہ مجھ جیسے لوگوں سے’’ملحدین ہزار درجہ بہتر ہیں‘‘۔ میراحسنِ ظن یہ ہے کہ یہ فتویٰ بھی خلوص نیت سے دیا گیا ہوگا۔ اس لیے اس اخلاص پر، میں ان کے لیے اجر کی دعا کرتے ہوئے، ان کے اعتراضات اور ان کے موقف کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اسے دلیل کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یوں بھی بابِ الفتن اور ملاحم کی روایات اور ان کا اطلاق ہمارے عہد کی اہم ترین دینی بحث ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلم معاشرے میں اس حوالے سے ابہام کا خاتمہ ہو۔

    میں نے ان روایات کے باب میں امام احمد بن حنبل کا یہ قول نقل کیا کہ ان کی کوئی اصل نہیں تو کہا گیا۔ ’’نہیں معلوم کہ امام احمد بن حنبل کا قول انہوں نے کہاں سے لیا۔‘‘عرض ہے کہ اسے امام جلال الدین سیوطی نے اصولِ تفسیر پر اپنی مشہور کتاب ’’ الاتقاق فی علوم القرآن‘‘ کی دوسری جلد میں نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
    [pullquote]’’قال احمد :ثلاث کتب لااصل لھا: المغازی والملاحم والتفسیر‘‘[/pullquote]

    تین قسم کی کتابیں ایسی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں: مغازی، ملاحم، اور تفسیر۔ آج مسلمانوں کو یہی ملاحم کی روایات سنا کر، انہیں جنگ پر ابھارا جاتا ہے۔

    میں نے مسند احمد کی روایت کا حوالہ دیا تھا جس میں ’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ کے قیام کا ذکر ہے اور اس ضمن میں حسن بصری کا ایک قول نقل کیا تھا۔ میں نے بتایا کہ اس کا مصداق بھی ماضی میں متعین ہو چکا۔ ناقد نے اسے بھی مشکوک بنانے کی کوشش کی کہ ’’حسن بصری کی عمر بن عبدالعزیز کے دور میں موجودگی کی مستند تاریخی شہادت نہیں ملتی‘‘۔ مکرر عرض ہے کہ یہاں بھی صرف خلوص نیت سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔ حسن بصری کا سالِ وفات۱۱۰ھجری ہے۔ ان کا انتقال عمر بن عبدالعزیز کی وفات کے نو سال بعد ہوا۔ اس وقت مولانا علی میاں کی ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ اور عبدالرحمٰن رافت پاشا کی’’سیرتِ تابعین‘‘ میرے سامنے ہیں۔ دونوں نے حسن بصری کا سال وفات ۱۱۰ ھجری بتایا ہے۔ اب رجال الغیب نے ان کی تاریخِ وفات کچھ اور بتائی ہو تو اس کا جواب دینے سے یہ لکھنے والا عاجز ہے۔’’حضور‘‘ کی بات کرنے والوں کو امور غیب کی کیا خبر۔ میرے ناقد کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ دراصل حسن بصری نے عمر بن عبدالعزیز کو مہدی قرار دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کا بھی انکار کریں، عرض ہے کہ حوالے کے لیے پہلے سیوطی ہی کی ’’ تاریخ الخلفاء‘‘ سے رجوع فرمائیں۔ اس باب میں مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی روایت کے ایک راوی حبیب بن سالم یہ کہتے ہیں کہ جب عمر بن عبد العزیز کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے یہ حدیث انہیں لکھ بھیجی اور ساتھ ہی اپنے اس احساس کا ذکر بھی کیا کہ آپ ہی وہ خلیفہ ہیں، جن کا اس روایت میں ذکر ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس تعبیر کو سن کر عمر بن عبد العزیز بہت خوش ہوئے۔ ( مشکوۃ، چہارم، حدیث 1309)

    مجھے اس پر اصرار نہیں کہ ماضی میں لوگوں نے ان روایات کاجو مصداق طے کیا، وہ درست تھا۔ کل بھی یہ قیاس تھا، آج بھی قیاس ہے۔ دین قیاس پر نہیں محکم بات اور یقین پر کھڑا ہے۔ جب لوگ غیر مصدقہ باتوں کو ’’رسول اللہ نے فرمایا‘‘ کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو دراصل انہیں دینی سند دے دیتے ہیں۔ جب یہ باتیں غلط ثابت ہوتی ہیں تو ہماری یہ غلطی دین کی غلطی سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے دین کے مسائل صرف خلوصِ نیت سے بیان نہیں ہو سکتے، اس کے لیے محکم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔

    میں نے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ جب لوگ یقین کے ساتھ ان روایات کا مصداق طے کرتے ہیں تو کیسے لاکھوں لوگوں کے جان و مال اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں بارہا یہ ہوا کہ چند واقعات پر ان روایات کو منطبق کیا گیا۔ لوگوں نے جان و مال کی قربانی دی مگر روایات میں کہی گئی کسی بات اور واقعے کا مصداق نہ بن سکے۔ مثال کے طور پر جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف معرکہ آرائی جاری تھی یا جب طالبان آئے تو پھر ان رویات کا مصداق طے کیا گیا۔ میرے سامنے اس وقت ایک کتابچہ ’’جہادِ پاکستان سے ظہورِ مہدی تک‘‘ رکھا ہے۔ یہ کتابچہ ۲۰۰۲ء میں لکھاگیا۔ اس میں باب الفتن کی روایات کا اطلاق افغانستان پر کیسے کیا گیا ہے اور اس کے بعد کے ماہ و سال نے کیسے انہیں غلط ثابت کیا، اس بات کو میں اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
    اس کے ساتھ مجھے یہ بھی بتانا ہے کہ الہی منصوبہ کیا ہوتا ہے اور کیا پاکستان الہی منصوبہ تھا؟ پھر یہ کہ غزوہ ہند کی روایات کی حقیقت، روایت اور درایت کے پہلو سے کیا ہے۔ماضی میں کس طرح اس روایات کا اطلاق کیا گیا؟ اﷲ نے چاہا تو یہ سب آنے والے کالموں کے موضوعات ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہائے مضامین کا ایک نیا سلسلہ میرا منتظر ہے:
    اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
    میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

    اوریا مقبول جان کا کالم یہاں ملاحظہ کریں

  • کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے؟ افسانہ ہے یا حقیقت؟ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

    کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے؟ افسانہ ہے یا حقیقت؟ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی

    عمیر محمود صدیقی ہندوستان زمین کا وہ حصہ ہے جہاں ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم رکھا۔ ہندوستان میں اسلام کا پیغام نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں پہنچ چکا تھا۔ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا:
    [pullquote]مَنْ ھٰؤُلَاءِ الْقَوْمُ الّذِينَ كَاَنھُمْ رِجَالُ الْھِنْدِ (سیرت ابن ہشام، ج:2/ ص:593)[/pullquote]

    یہ کون لوگ ہیں جو ہند وستان کے مرد معلوم ہوتے ہیں۔

    ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ’’مالابار‘‘ کے بادشاہ ’’چکر ورتی فرماس‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
    [pullquote]أھدى ملك الھند إلى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم جرۃ فيھا زنجبيل فاطعم أصحابہ قطعۃ قطعۃ وأطعمني منھا قطعۃ (المستدرك على الصحيحين للحاكم،رقم الحدیث :۷۲۷۹)[/pullquote]

    ’’ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا، اس میں ادرک تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اس کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا۔‘‘

    ’’ممکن ہے کہ یہ وہی صحابی بادشاہ ہوں جن کا ذکر امام حاکم نے اپنی کتاب حدیث میں کیا ہے۔ نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمدحمید اللہ رحمہ اللہ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
    اس نے ہادی کون و مکاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ ﷺ کے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا۔ راستے میں یمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوا۔ یہاں آج بھی اس ’ہندوستانی بادشاہ‘ کے مزار پر لوگ فاتحہ کے لیے آتے ہیں۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے۔ زین الدین المعبری کی تصنیف ’تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین‘ میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔‘‘(محمد رسول اللہ ﷺ ،ص:۱۹۹)

    ہند کے بارے میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
    [pullquote] أطيب ريح في الارض الھند (المستدرک للحاکم: رقم الحدیث:3954)[/pullquote]

    یعنی زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے۔

    سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ”میر آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں کئی صفحے ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی (ﷺ)حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا ابتدائی ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے۔“(عرب و ہند کے تعلقات :ص:28)

    ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس پر جاری ہوا۔اٹھارویں صدی کے مؤرخ آزاد غلام علی حسینی بلگرامی نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ”سبحۃ المرجان في آثار ہندستان“ اور ”شمامۃ العنبر فيما ورد من الھند من سيد البشرﷺ“ تحریر فرمائی ہیں جن کا ذکر معجم المؤلفین میں بھی کیا گیا ہے۔ مؤخر الذکر کتاب یقینا اس موضوع پر مزید تحقیق کے حوالہ سے فائدہ مند ثابت ہوگی۔

    احادیث شریفہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔ آپ قیقان کے مقام پر جو سندھ کا حصہ تھا، شہید ہو گئے۔ (فتوح البلدان ،ج:3/ص:531) امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے۔(مشارع الاشواق:ص:۹۱۸۔۹۱۹)

    حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تاریخ فرشتہ میں ہے:
    ”۴۴ھ میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا۔(تاریخ فرشتہ،محمد قاسم فرشتہ،ج:۱/ص:46) اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا۔ انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا۔پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی، 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا، جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا۔“ (تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:655 تا 659)

    حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمۃ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ امام ذہبی فرماتے ہیں:
    [pullquote]وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّہ يحيي ويميت، ويقصدونہ من البلاد، وافتتن بہ أمم لا يحصيھم إلاّ اللہ. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب لہ قرباناً من نفيس مالہ. (تاریخ الاسلام:ج:۶/ص:۳۶) [/pullquote]

    ”اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا۔ اور وہ (اہل ہند) یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔ وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کے لیے آتے تھے۔ اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہوئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو۔“

    سومنات کی فتح کے سال سلطان محمود غزنوی حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے سلطان کو اپنا خرقہ عطا فرمایا۔ شیخ صاحب سے رخصت ہو کر سلطان محمود غزنوی واپس آئے اور عطا کردہ خرقہ کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا۔ جس زمانے میں محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا تھا اور پرم اور دشیلم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوؤں کا لشکر غالب نہ آجائے۔ اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ صاحب کے خرقہ کو ہاتھ میں لے کر سجدہ میں گر گیا اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی ”اے اللہ! اس خرقے کے مالک کے طفیل میں مجھے ان ہندوؤں کے مقابلے میں فتح دے۔ میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت یہاں سے حاصل کروں گا اسے یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا۔“ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے۔ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوؤں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ہندوؤں کی اس باہمی جنگ کی وجہ سے پریم دیو کی فوج میدان جنگ سے بھاگ نکلی اور یوں مسلمانوں نے ہندوؤں پر فتح پائی۔ (تاریخ فرشتہ:ج:۴/ص:91)

    غزوہ ہند

    حضرت امام نسائی علیہ الرحمۃ نے غزوہ ہند سے متعلقہ احادیث پر ایک باب رقم کیا ہے۔ جس میں آپ نے تین احادیث روایت کی ہیں۔ ان میں دو احادیث کے راوی حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ایک حدیث کے راوی حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ ہیں۔
    حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں:
    [pullquote]وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ غَزْوَۃ الْھِنْدِ فَانْ أدْرَكْتُھَا أنْفِقْ فِيھَا نَفْسِي وَمَالِي فَانْ أقْتَلْ كُنْتُ مِنْ أفْضَلِ الشُّھَدَاءِ وَإنْ أرْجِعْ فَانَا أبُوھُرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ(سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)[/pullquote]

    رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس اگر میں نے اس غزوہ کو پایا تو میں اس میں اپنی جان اور اپنا مال خرچ کردوں گا۔ اگر مجھے قتل کردیاجائےگا تو میں سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آؤں گا تو میں (آگ سے) آزاد کیا ہوا ابوہریرہ ہوں گا۔

    ایک دوسری سند سے بھی بعینہ یہی الفاظ مروی ہیں
    [pullquote] وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ غَزْوَۃ الْھِنْدِ فَانْ أدْرَكْتُھَا أنْفِقْ فِيھَا نَفْسِي وَمَالِي وَإنْ قُتِلْتُ كُنْتُ أفْضَلَ الشُّھَدَاءِ وَإنْ رَجَعْتُ فَانَا أبُوھُرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ (سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)[/pullquote]

    رسول اللہ ﷺنے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس اگر میں نے اس کو پایا تو میں اس میں اپنی جان اور اپنا مال خرچ کر دوں گا اور اگر میں اس میں قتل کر دیا گیا تو سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو میں (جہنم کی آگ سے) آزاد کیا ہوا ابوہریرہ ہوں گا۔

    [pullquote]عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ عِصَابَتَانِ مِنْ أمَّتِي أحْرَزَھُمَا اللہ مِنْ النَّارِ عِصَابَۃ تَغْزُو الْھِنْدَ وَعِصَابَۃ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْھِمَا السَّلَام (سنن النسائی،باب غزوۃ الھند)[/pullquote]

    رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ نے (جہنم کی) آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور دوسرا وہ گروہ ہےجو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہو گا۔
    ان احادیث کو امام نسائی نے اپنی کتاب السنن الکبریٰ میں بھی نقل کیا ہے۔ ( السنن الکبریٰ: رقم الحدیث: 4382،4383،4384)

    حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ نے غزوہ ہند کے بارے میں اپنی اسناد سے تین احادیث نقل کی ہیں، جن میں سے دو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

    [pullquote]عَنْ أبِي ھُرَيْرَۃ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَۃِ الْھِنْدِ فَانْ اسْتُشْھِدْتُ كُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّھَدَاءِ وَإنْ رَجَعْتُ فَانَا أبُوھرَيْرَۃ الْمُحَرَّرُ (مسند امام احمد بن حنبل:رقم الحدیث:6831) [/pullquote]

    رسول اللہ ﷺ نے ہم سے غزوۂ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے۔ اگر میں اس میں شہید ہو گیا تو سب سے بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو آگ سے آزاد کیا ہوا ابو ہریرہ ہوں گا۔

    [pullquote]عَنْ أبِي ھُرَيْرَۃ قَالَ حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيہ وَسَلَّمَ أنَّہُ قَالَ يَكُونُ فِي ھٰذِہِ الْامَّۃِ بَعْثٌ إلَى السِّنْدِ وَالْھِنْدِ فَانْ أنَا أدْرَكْتُہ فَاسْتُشْھِدْتُ فَذَلِكَ وَإنْ أنَا فَذَكَرَ كَلِمَۃ رَجَعْتُ وَأنَا أبُوھُرَيْرَةۃ الْمُحَرَّرُ قَدْ أعْتَقَنِي مِنْ النَّارِ (مسند امام احمد بن حنبل:رقم الحدیث:۸۴۶۷) [/pullquote]

    میری امت میں سے ایک لشکر کو سندھ اور ہند کی طرف بھیجا جائے گا۔ پس اگر میں نے اس کو پایا اور اس میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ہے اور اگر، پھر آپ نے ایک کلمہ ذکر کیا،(پھر فرمایا) میں لوٹ آیا تو میں ابوہریرہ ہوں جس کو اللہ آگ سے آزاد فرمادے گا۔

    [pullquote]عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أمَّتِي أحْرَزَھُمْ اللہ مِنْ النَّارِ عِصَابَۃ تَغْزُو الْھِنْدَ وَعِصَابَۃ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْہِ السَّلَام (مسند امام احمد بن حنبل) [/pullquote]

    نبی کریم ﷺکے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے دو گروہ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ سے محفوظ فرمایا ہے۔ ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ آور ہوگا اور ایک وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ ہوگا۔

    امام بخاری نے التاریخ الکبیر، امام بیہقی نے اپنی دو کتابوں سنن کبریٰ اور دلائل النبوۃ، امام حاکم نے المستدرک، امام طبرانی نے المعجم الاوسط، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، امام جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع، امام مناوی نے فیض القدیر، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام، امام خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد، اور امام ابن کثیر نے البدایۃ و النہایۃ، النھایۃ فی الفتن و الملاحم میں غزوہ ہند سے متعلق ان احادیث کو روایت کیا ہے.

    رسول اللہ ﷺ کا وعدہ
    غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ ہند کا اس امت سے وعدہ کیا ہے۔ ان کلمات سے اس غزوہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اسی وجہ سے علمائے اسلام نے اپنی کتب میں غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو بیان کیا ہے اور اس امانت و بشارت کو ہر دور میں آئندہ آنے والی نسلوں تک منتقل کیا ہے۔ اہل ایمان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اپنے وعدے کو وفا کرتے ہیں، اس لیے غزوۂ ہند کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔

    غزوۂ ہند میں شرکت اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ
    ان احادیث کےمطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس غزوہ میں شریک ہونے کی تمنا کیا کرتے تھے، جس کا اظہار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایمانی کلمات سے بخوبی ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا بھرپور طور پر اظہار کیا کہ اگر مجھے وہ دور نصیب ہوا جب غزوہ ہند ہوگا تو میں اپنی جان، مال، میراث اور اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا۔
    تقسیم ہند کے بعد مشرکین ہند نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور تا حال اہل پاکستان ان کے ساتھ ہمہ جہتی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ مجاہدین جن کو اللہ نے مشرکین ہند کے ساتھ جہاد کی توفیق عطا فرمائی ہے، ان کو چاہیے کہ وہ اپنا سب کچھ اسلام اور پاکستان کی سر بلندی کے لیے قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندربیدار رکھیں جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا اظہار کیا۔

    افضل الشہداء
    غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے شہادت کی تمنا کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس غزوہ میں جو لوگ شہادت کی عظیم نعمت سے ہمکنار ہوں گے وہ اللہ کے نزدیک افضل الشہداء میں سے ہوں گے۔ امام ابن قیم علیہ الرحمۃ افضل الشہداء کے بارے میں حدیث روایت کرتے ہیں:
    [pullquote]أفْضَلُ الشّھدَاءِ الّذِينَ إنْ يَلْقَوْا فِي الصّفّ لَا يَلْفِتُونَ وُجُوھَھُمْ حَتّى يَقْتُلُوا أولَئِكَ يَتَلَبّطُونَ فِي الْغُرَفِ الْعُلَى مِنْ الْجَنّۃ وَيَضْحَكُ الَيْھِمْ رَبّك وَإذَا ضَحِكَ رَبّكَ إلَى عَبْدٍ فِي الدّنْيَا فَلَا حِسَابَ عَلَيْہِ (زاد المعاد:ج:۳/ص:۳۳) [/pullquote]

    سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء وہ ہیں جب وہ صف میں (دشمن سے) آمنے سامنے ہوتے ہیں تو اپنے چہروں کو نہیں موڑتے یہاں تک کہ وہ قتال کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو جنت کے بلند ترین کمروں میں اپنے پیر ماریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو (اپنی شان کے مطابق) مسکرا کر دیکھے گااور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی طرف دنیا میں مسکرا کر دیکھتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا۔

    گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے آزادی
    اس غزوہ میں شریک ہونے والوں کے لیے ایک بشارت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا اور اگر کوئی شخص اس غزوہ میں شہادت حاصل نہ کر سکا اور غازی بن کو لوٹا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون فرمادے گا۔

    سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت اور علم غیب
    ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے وعدے کو پورا فرمایا اور سندھ اور ہند کے دروازے اہل اسلام کے لیے وا فرما دیے۔ یہ احادیث رسول اللہ ﷺ کی نبوت اور اللہ کی جانب سے علم غیب کے عطا کیے جانے پر دلالت کرتی ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اگر چہ اس جنگ میں امام مہدی اور عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کے ساتھ شریک ہونے کی تمنا کا اظہار کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺنے آپ سے مسکراتے ہوئے اس بات کو بیان فرمادیا کہ ابوہریرہ اس میں شریک نہ ہو پائیں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی نیت کے موافق غزوہ ہند میں شرکت کا اجر عطا فرمائے گا۔

    حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بیان
    حضرت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ اسلام کے عقیدے کے مطابق آپ کو یہودی نہ تو شہید کر سکے اور نہ ہی آپ کو مصلوب کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اور قیامت سے قبل آپ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق عدل فرمائیں گے۔ آپ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق احادیث متواتر ہیں۔ غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں آپ علیہ السلام کی معیت میں جہاد کرنے والے گروہ کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ یہ احادیث بھی آپ علیہ السلام کی آمد ثانی پر دلالت کرتی ہیں۔

    حضرت امام حماد بن نعیم علیہ الرحمۃ (متوفی:۲۲۹ھ) روایت فرماتے ہیں:
    [pullquote] عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الھند فيفتحھا فيطئوا أرض الھند وياخذوا كنوزھا فيصيرہ ذلك الملك حليۃ لبيت المقدس ويقدم عليہ ذلك الجيش بملوك الھند مغللين ويفتح لہ ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامھم في الھند إلى خروج الدجال. (الفتن:رقم الحدیث:۱۱۴۹) [/pullquote]

    حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں ایک بادشاہ ایک لشکر ہند کی طرف بھیجے گا، وہ اسے فتح کریں گے۔ پس وہ ہند کی زمین کو روندیں گے اور اس کا خزانہ حاصل کریں گے۔ وہ بادشاہ اس خزانے کو بیت المقدس کا زیور بنا دے گا اور لشکر اس بادشاہ کے پاس ہند کے بادشاہوں کو جکڑ کر لائیں گے اور اس کے لیے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے، فتح کر دیا جائے گا۔ اور ان کا قیام دجال کے نکلنے تک ہند میں ہوگا۔

    عن أبي ھريرۃ رضى اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم و ذكر الھند فقال ليغزون الھند لكم جيش يفتح اللہ عليھم حتى ياتوا بملوكھم مغللين بالسلاسل يغفر اللہ ذنوبھم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام.
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہند کا ذکر کیا، اور فرمایا: تمہارے لیے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا۔ اللہ ان کو فتح عطا فرمائےگا، یہاں تک کہ وہ ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا، پھر وہ لوٹیں گے جب ان کو لوٹنا ہوگا تو وہ ابن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے۔

    نبی کریم ﷺنے فرمایا: ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی، اللہ اس کو فتح عطا فرمائےگا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، پس اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائےگا، پھر وہ لوٹیں گے شام کی طرف تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے۔ (الفتن:رقم الحدیث:۱۱۵3)

    ہند سے قبل بیت المقدس کی فتح اورغزوۂ ہند کی تکمیل
    بیت المقدس اس وقت یہود کے قبضے میں ہے۔ مذکورہ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس غزوہ ہند کی تکمیل سے پہلے آزاد ہو جائے گا اور وہاں سے ہی ہندوستان کی فتح کے لیے لشکر اسلام کو روانہ کیا جائے گا۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک لشکر کو ہند فتح کرنے کے لیے ارسال فرمائیں گے اور وہ جب واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول ہو چکا ہوگا۔ پس غزوہ ہند کی بشارت کو حاصل کرنے کے لیے اہل اسلام مشرکین ہند سے جہاد کرتے رہے ہیں لیکن اس کی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلم دنیا کی افواج اور بالخصوص افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان ہدایات کی بنیاد پر اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی کو ازسرنو مرتب کریں کیونکہ جب تک بیت المقدس فتح نہیں ہوگا، اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں برپا جنگ جاری رہے گی اور مشرکین کی طرف سے ہونے والے مظالم بھی بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ فتح خیبر کی طرح یہودیوں کی شکست کے بعد ہی مشرکین کو مکمل شکست دینا ممکن ہوگا۔

    امام مہدی ؑکے ساتھ غزوہ ہند کرنے والوں کے لیے آٹھ بشارتیں
    جس لشکر کو امام مہدی علیہ السلام ہند فتح کرنے کے لیے بھیجیں گے، احادیث میں ان کے لیے آٹھ عظیم بشارتیں ہیں:
    ۱۔ ہند مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے فتح ہو جائے گا اور وہ اس سرزمین کو اپنے قدموں تلے روندیں گے۔
    ۲۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کی مغفرت فرما دے گا۔
    ۳۔ ان کو مال غنیمت وافر مقدار میں ملے گا جس سے وہ بیت المقدس کو مزین کریں گے۔
    ۴۔ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر وہ لشکر امام مہدی علیہ السلام کے سامنے پیش کرے گا۔
    ۵۔ وہ لشکر جس قدر اللہ چاہےگا ہندوستان میں رہےگا اور پھر شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شامل ہونے کی فضیلت حاصل کرے گا۔
    ۶۔اس لشکر کو دجال اور اس کے گروہ سے لڑنے کی فضیلت حاصل ہوگی۔
    ۷۔مشرق و مغرب کے مابین جو کچھ ہے، وہ فتح ہوگا اور لیظھرہ علی الدین کلہ کا وعدہ پورا ہوگا۔
    ۸۔اس کے شہداء افضل ترین شہید ہوں گے اور اس کے غازیوں کو جہنم سے خلاصی کی بشارت ہے۔
    ۹۔غزوہ ہند سے قبل بیت المقدس فتح ہو جائے گا۔

    کیا غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت ہیں؟
    راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ تاریخ اسلام میں جن ائمہ و محدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے، ان کو اس مضمون میں اپنی معلومات کے مطابق جمع کر دیا جائے۔ تقریبا بیس کتب حدیث و تاریخ میں اکابر محدثین اور مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث و بشارتوں کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نعوذ باللہ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں بلکہ علمائے امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انھیں نقل کیا ہے۔ پس وہ افراد جو غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو جھوٹا اور موضوع قرار دیتے ہیں، انہیں اس قبیح عمل سے سخت اجتناب کرنا چاہیے۔

    کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے؟
    رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو غزوہ ہندکی بشارت عطا فرمائی ہے۔ بعض افراد کی یہ رائے ہے کہ غزوہ ہند کی بشارت مکمل ہو چکی ہے اور اب غزوہ ہند پیش نہیں آئےگا۔ بعض حضرات یہ بات اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ امن کی آشا کو بچانے کے لیے اس کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کا پسندیدہ ترین ملک جس کی تہذیب و ثقافت میں وہ رنگتے جا رہے ہیں، ناراض نہ ہو جائے۔ اگر ہم غزوہ ہند سے متعلق وارد ہونے والی تمام احادیث اور اس سے متعلق محدثین و مؤرخین کے اقوال اور امت کا عمل دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہلب بن صفرہ سے لے کر آج تک اہل اسلام کی مشرکین ہند سے جتنی بار جنگ ہوئی ہے، وہ اسی بشارت میں شامل ہے اور احادیث کے مطابق غزوہ ہندکی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک پر ہوگی جس کے نتیجے میں ہند ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ماتحت ہو جائے گا۔ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
    [pullquote]وقد غزا المسلمون الھند في سنۃ أربع وأربعين في إمارۃ معاويۃ بن أبي سفيان رضي اللہ عنہ فجرت ھناك أمور فذكرناھا مبسوطۃ، وقد غزاھا الملك الكبير السعيد المحمود بن سبکتکین صاحب بلاد غزنۃ وما والاھا في حدود أربع مائۃ ففعل ھنالك أفعالاً مشھورة وأموراً مشكورۃ وكسر الصنم الاعظم المسمى بسومنات وأخذ قلائدہ وسيوفہ ورجع إلى بلادہ سالماً غانماً (النہایۃ فی الفتن:ص:۱۲۔۱۳) [/pullquote]

    اور مسلمانوں نے ہند پر سن ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی امارت میں حملہ کیا، پس وہاں بہت سے امور وارد ہوئے جن کا ذکر ہم نے تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے۔ اور ہند پر اور ان علاقوں پر جو اس کے ساتھ ملحق تھے، سن چار سو کی حدود میں بڑے سعید بادشاہ محمود بن سبکتکین غزنی والے نے حملہ کیا۔ وہاں آپ نے بہت مشہور اور مشکور کام کیے اور سب سے بڑے بت کو توڑ دیا جس کو سومنات کہا جاتا تھا اور اس کے قلائد اور تلواریں حاصل کیں اور اپنے زہروں کی طرف سلامتی اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے۔
    اسی بات کا ذکر غزوہ ہند کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے اپنی تاریخ کی کتاب البدایۃ و النھایۃ میں بھی کیا ہے۔ (البدایۃ و النہایۃ:ج:۶/ص:۲۴۹)
    امام ابن کثیر علیہ الرحمۃ کا غزوہ ہند کی احادیث نقل کرنے کے فورا بعد اپنی تایخ کی کتاب اور فتن پر لکھی جانے والی علیحدہ کتاب میں اہل اسلام کے ہند پر مختلف ادوار میں کیے جانے والے حملوں کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ تمام اس بشارت میں شامل ہیں۔ یاد رہے کہ علماء نے غزوہ ہند کو قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت کے طور پر ذکر کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس بشارت کی تکمیل ابھی باقی ہے۔

    سند ھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی چین سے
    حضرت امام قرطبی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    [pullquote]و خراب السند من الھند و خراب الھند من الصين۔ (التذکرۃ:ص:۶۴۸)[/pullquote]

    اور سندھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی خرابی چین سے ہے۔
    اس روایت کو امام ابن کثیر (النہایۃ فی الفتن و الملاحم:ص:۵۷) اور امام ابوعمرو دانی (السنن الواردۃ فی الفتن:ج:۲/ص:۳۶) نے بھی روایت کیا ہے۔

    اس حدیث مبارکہ کے درست معنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں۔ تاہم اگر ہم حالات حاضرہ پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سندھ میں فتنہ و فساد، قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کا سبب ہندوستان ہے۔ بالخصوص سندھ کا وہ جغرافیہ جو نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں تھا، وہاں کے حالات اسی پر دلالت کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ چین حسب سابق پاکستان کی معاونت کرے اور اللہ تعالیٰ چین کو پاکستان کی نصرت اور ہندوستان کی تباہی کا سبب بنا دے۔ دفاعی اداروں کو اس حدیث کے پیش نظر سندھ پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔

    واللہ و رسولہ ﷺ اعلم بالصواب

  • ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد – سید خالد جامعی

    ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد – سید خالد جامعی

    غامدی صاحب اس امت کے پہلے محقق مجتہد اور مفکر ہیں جو ایمان بالغیب کی ایک ایسی توجیہہ پیش کرتے ہیں جو اس امت کی تاریخ تہذیب قرآن و سنت اور اسلامی علمیت کے لیے بالکل اجنبی غلط اور ناقابل قبول ہے غیب پر اور تقدیر پر ایمان کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل ہی نہیںہوتااور غیب وہ ہے جو کسی وسیلے اور ذریعے کے بغیر قابل ادراک ہو ظاہر ہے انسان غیب کابراہِ راست ادراک کرنے سے قاصر ہے لہٰذا اس پر ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

    مثلاً خدا کے وجود پر اس کی ہستی پر ایمان اسے بن دیکھے لانا ہے اس کی ہستی کا ادراک ذہن انسانی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ لا محدود ہے اور انسان محدود وہ خالق ہے یہ مخلوق ہے وہ عقل کلی ہے اور انسان کی عقل محض خالق کی مخلوق جو محسوسات کے بغیر کار آمد ہی نہیں ہوسکتی۔اسی لیے اللہ اور دیگر امور میں ایمان بالغیب لازم ہے خود غامدی صاحب لکھتے ہیں اللہ کی ذات کسی طرح انسان کے حیطہ ادراک میں نہیں آسکتی [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۲] ادراک کے ذرائع ذات الہٰ کا احاطہ نہیں کرسکتے کسی شے سے روشنی منعکس نہ ہو تو آنکھ کی بصارت دیکھنے سے قاصر رہ جاتی ہے اللہ کے پیغمبر موسیٰ کے لیے اللہ کو دیکھنا ممکن نہ ہوا [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۲] ذات باری تعالیٰ سے متعلق انسان تشبیہہ تمثیل کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرسکتا لہٰذا تشبیہہ و تمثیل کے طریقے کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہے۔[میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۴] لہٰذا خدا کی ذات پر ایمان بالغیب لائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے یہی صورت حال وحی اور نزول و حی کی کیفیات کے ساتھ درپیش ہے ان پر ایمان بالغیب ضر وری ہے خود غامدی صاحب لکھتے ہیں نزول و حی کی کیفیات کو سمجھنا انسان کے حدو د علمی سے باہر ہے [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۱۲۷] ۔

    بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان Phenomenon مظہر کے بارے میں تو مشاہدے تجربے محسوسات سے جان سکتا ہے لیکن Noumenon معقول بالذات کماہیہ کے بارے میں نہیں جان سکتا۔کانٹ جیسے فلسفی نے اپنی کتاب تنقید عقل محض میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسانی علم کا دائرہ مظاہر تک محدود ہے اورمشاہدات، تجربات، محسوسات سے ماوراء کا علم انسانی عقل کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔انسان کو وہ ذرائع میسر ہی نہیں ہیں جو مظاہر کی دنیا سے ماورا دوسری دنیا کی حقیقتوں کا ادراک کرسکیں لہٰذا جو چیز ہمارے حیطہ ادراک میں دائرہ عقلیات اور تجربات میں نہیں آسکتی وہ اگر وجود بھی رکھتی ہے تو اس کا وجود ہمارے لیے کوئی معانی نہیں رکھتا کانٹ نے عقل کی محدودیت کا اعتراف کرنے کے باوجود عقل کے ذریعے ہی ما بعد الطبیعیات کا انکار کردیا ۔ مگر غامدی صاحب کانٹ سے بڑے مفکر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ محسوسات و تجربات سے ماوراء حقائق و مظاہر کاعلم عقل اور فطرت ،تدبر و تفکر سے ممکن ہے۔

    واضح رہے کہ [Noumenon] معقول بالذات کے بارے میں فلسفی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا تصور انسانی علم کی آخری حد ہے مثبت معنوں میں وہ جو عقل بتائے کہ ’ہے‘ مگر یہ نہ بتاسکے کہ ’کیا ہے‘؟ عقل سے کسی برتر ہستی خالق کے وجود کا ادراک ایک سطح پرتو ہوسکتاہے مگر اس کی ذات صفات تجلیات اس کی شریعت اس کی رضا اس کے رسولوں اس کی کائنا ت کے مقاصد اس کو مطلوب زندگی اس کی پیدا کردہ آخرت کا تصور ممکن نہیں اسی لیے ایمان بالغیب ۔ ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ایمان بالغیب یہی ہے کہ وہ حقائق صداقتیں جو آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے محدودعقل کے پیمانے میں نہیں سما سکتے ان پر انسان نبیوں اور رسولوں کی اطلاع پر ایمان لے آئے صرف عقل [Pure Reason] کی بنیاد پر لایا ہوا ایمان کفایت نہیں کرتا اور تشکیک کا خاتمہ بھی نہیں کرتا لہٰذا یونانی عقلیت کانٹ کے عہد میں ما بعد الطبیعیات کے انکار کے ساتھ ہی مسترد ہوگئی اور ایک نئی عقلیت نے جنم لیا ایک نئی ما بعد الطبیعیات وجود میں آئی جسے ہائیڈیگر حاضر و موجود کی ما بعد الطبیعیات [Metaphysics of Presence] کہتا ہے اس ما بعد الطبیعیات کی بنیاد پر جو تہذیب تاریخ نظام زندگی وجود میں آیا اس میں خیر و شر کی بحث بے معنی ہے اصل چیز رچرڈ رارٹی کے الفاظ میں صرف یہ ہے کہ What is usefull کون سی شے فائدہ مند ہے انسان اسی ایک اصول کے محور پر گردش کررہا ہے۔
    نامنا، فنامنا کی بحث میں ایک بنیادی بات جو نظر انداز کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ موجود کا دائرہ ہمیشہ معلوم سے بڑا ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو نظر نہیں آرہا جو معلوم نہیں ہے وہ وجود ہی نہیں رکھتا آپ اس کے وجود [Existence] سے لا علم ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے وجود کا مسئلہ نہیں لہٰذا کسی کی شہادت پر مان لیجیے
    مگر غامدی صاحب اسے تسلیم نہیں کرتے ۔مقامات میں لکھتے ہیں:
    ایمان بالغیب کے معنی یہ ہیں کہ وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے، اُنھیں انسان محض عقلی دلائل کی بنا پر مان لےذات خدا وندینبی ﷺ کی طرف جبرل امین کو وحی کرتے ہم نے نہیں دیکھا، لیکن اس کے باوجود ہم ان سب باتوں کو مانتے ہیںان حقائق کو ماننے کے لیے قرآن اور کائنات میں ایسے قوی دلائل موجود ہیں جن کا انکار کوئی صاحبِ عقل نہیں کرسکتاچنانچہ ہم انھیں بے سوچے سمجھے نہیں مانتےوہ چیز جو دیکھی نہیں جاسکتی، لیکن عقل کے ذریعے سے سمجھی جاسکتی ہے اسے دیکھنے کا تقاضا ہی سب سے بڑی بے عقلی ہےقرآن نے جو حقائق پیش کیے ہیں ان پر ہمارے ایمان کی بنیاد بھی یہی ہے۔ وہ بے شک حواس سے ماورا ہیں، لیکن عقل سے ماورا نہیں ہیں۔ ہم نے انھیں عقل کی میزان میں تولا ہے اور ان میں رتی بھر کمی نہیں پائیچنانچہ ہم ان پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم انھیں عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنا پر مانتے ہیں[غامدی، مقامات،۲۰۱۴ء، ص ۱۱۴]

    یہاں غامدی صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنیاد پر غیب پر ایمان لے آتا ہے یعنی عقل و فطرت علم قطعی کے ماخذ ہیں ان پر تدبر و تفکر سے یقینی علم اور ایمان حاصل ہوجاتا ہے لیکن یہی غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے جو علم حاصل ہوتا ہے (وہ قطعی نہیں ہوتا) کیوں کہ وہ درجہ یقین کو نہیں پہنچتا اسے زیادہ سے زیادہ ظن غالب قرار دیا جاسکتا ہے [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء،ص ۱۶۴]

    حیرت ہے کہ انسان اپنے تدبر و تفکر اور قرآن و کائنات میں غور و فکر سے تو غیب پر ایمان قطعی اور علم یقینی خود حاصل کرسکتا ہے لیکن حدیث پر غور و فکر اور تدبر سے قطعی علم یقینی علم حاصل نہیں ہوسکتا کیا عقل اور فطرت حدیث نبوی سے زیادہ معتبر ہیں؟غامدی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ حدیث سے قطعی علم اس لیے حاصل نہیں ہوسکتا کیوں کہ حدیثوں کو صرف گنتی کے لوگو ں نے بیان کیا یہ اجماع و تواتر سے منتقل نہیں ہوتیں [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء، ص ۱۶۴] حدیثو ں سے یقینی علم اس لیے بھی حاصل نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ نے ان کی حفاظت و تبلیغ کا کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ لوگوں پر چھوڑ دیا کہ چاہیں تو حدیثو ں کو آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں[میزان ۲۰۱۵ء،ص۱۵]حدیثوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی و قطعی نہیں ہوتا مگر کلام جاہلیت سے لغت و ادب کا حاصل ہونے والا علم یقینی ہوتا ہے اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ کلام جاہلیت اجماع و تواتر سے منتقل ہوتا ہے باللفظ ہوتا ہے اور اس میں داخل منحول کلام کی شناخت آسان ہوتی ہے مگر حدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے یہ غامدی صاحب کی تحقیقات کا عطر خلاصہ اور جوہر ہے جو میزان کے پہلے باب میں موجود ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے (کلام عرب؍ کلام جاہلیت) جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی بنیادپر سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے تم لوگ اہل جاہلیت کے اشعار کی حفاظت کرتے رہوکہ ان میں تمہاری کتاب کی تفسیر بھی ہے اور تمہارے کلام (قرآن) کے معنی بھی ہیں[میزان ۲۰۱۵ء،ص ۱۹] یعنی قرآن کی تفسیر اور معانی کے لیے کلام جاہلیت حجت سند قطعی اور یقینی ہے یعنی قرآن کلام جاہلیت کا محتاج ہے مگر کلام اللہ کلام رسول اللہ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ مگر قرآن کے معانی سمجھنے کے لیے حدیث قطعی اور یقینی نہیں ہے اس سے بڑی جہالت اور جاہلیت کیا ہوسکتی ہے؟اسی کو جدید اصطلاح میں جدیدیت (ماڈرن ازم) کہا جاتا ہے جدیدیت کی خاص صفت یہ ہے کہ یہ تاریخ کا انکار کرتی ہے عقل کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتی اور عقلیت کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ تخلیق کرتی ہے لہٰذاجدیدیت اٹھارہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو نہایت ناقدانہ طریقے سے دیکھتی ہے۔

    بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عقل حواس کے بغیر کام کرسکتی ہے؟ اگر حواس معطل ہوں توکیا عقل متحرک رہ سکتی ہے؟ کسی زمانے میں فلسفے میں افضل علم وہ کہلاتا تھا جو قبل تجربی [a priori] یعنی کسی تجربے کے بغیر صرف عقل کے ذریعے حاصل کیا گیااورسب سے کم تر علم وہ سمجھا جاتاتھا جو تجربے کے ذریعے [a postriori]حاصل ہو اسی لیے روایتی تہذیبوں میں ما بعد الطبیعیات کے عالم فلسفی کو عزت دی جاتی تھی سائنسی علوم کے ماہرین کو کوئی عزت نہیں ملتی تھی کیونکہ وہ علم کی تلچھٹ رکھتے تھے کانٹ کے بعد سائنسی یعنی تجربی علم کو سب سے افضل علم سمجھ لیا گیا۔ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ عقلیت و تجربیت اور پوسٹ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ تخلیقی تخیل Creative imagination اور جمالیاتAesthetics ہے۔جدیدیت نے کانٹ کے فلسفے کے ذریعے عقلیت و تجربیت کو علم کا ماخذ تسلیم کیا لہٰذا جدید سائنس نے زبردست ترقی کی لہٰذا افضل علم اب قبل تجربی نہیں بعد تجربی a Posteriorie یعنی سائنس ہی اصل العلوم ہے اسی لیے ہر علم کو عہد حاضر میں سائنس کے پیمانے یعنی عقلیت و تجربیت پر پرکھا جارہا ہے ۔ان معنوں میں غامدی صاحب ایک اسلامی نہیں جدیدیت پسند مفکر ہیں جو عقل کو مغرب کے اتباع میں ماخذ علم سمجھتے ہیں۔جبکہ مغرب میں عقلیت کی آفاقیت کے دعوے پس جدیدیت کے مفکرین کی جانب سے عقلیت کی بنیاد پر رد کردیے گئے ہیں ۔ غامدی صاحب نے دین کو فلسفے کا اصول بنادیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ خود عقل صرف حواس کے ہی نہیں جذبات کے بھی تابع ہے Reason is the slave of Passions]صرف دین انسان کو عقل، جذبات، حواس سے ماوراء کرکے ایمان کی دعوت دیتا ہے عقل ذریعہ[Mean] علم ہے ماخذ [Source]علم نہیں ہے وہ محض ایک آلہ، وسیلہ، ہتھیار [Tool] ہے جس سے ایمان کے تابع کام لیا جاسکتا ہے ۔ خود غامدی صاحب اپنے مضمون عقل و وحی میں لکھتے ہیں عقل خدا کی نعمت ہے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنی غیر معمولی اہلیت کے باوجود اس کے بعض حدودہیں اور ان کے ساتھ بعض آفات بھی لگی ہوئی ہیں عقل کا ذریعہ معلومات اگر کچھ ہے تو ہمارے حواس اور ہمارا وجدان ہی ہے عقل مجبور ہے کہ اپنے فیصلوں کے لیے انھی دو ذرائع حواس اور وجدان پر اعتماد کرے یہ دونوں ذرائع اپنا ایک محدود دائرہ عمل رکھتے ہیں عقل جب تک انھی پر منحصر ہے وہ اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی [غامدی، مقامات سہ لسانی عربی اردو انگریزی ایڈیشن طبع دوم ،لاہور، المورد ۔۲۰۰۶ء، ص ۶۷، عقل اور وحی ۔یہ ایڈیشن بازار سے غائب کرادیا گیا تھا اب بازار میں مقامات کا صرف اردو ایڈیشن دستیاب ہے غامدی صاحب کی انگریزی شاعری اور عربی مضمون شواہد الفراہی اس میں سے غائب کردیا گیا ہے کیونکہ اس عربی مضمون میں چھ سو سے زیادہ غلطیاں تھیں اور انگریزی شاعری بڑے انگریزی شعراء کے مصرعوں کا سرقہ تھی ۔ ماہنامہ ساحل نے ۲۰۰۷ء کے اپریل ،مئی جون ،جولائی، اگست کے شماروں میں اس کتاب پر قیمتی تبصرے شائع کیے تھے]
    عقل وحی کی رہنمائی کے بغیر باؤلی ہو جاتی ہے:غامدی

    عقل پر جذبات تعصبات غالب آجاتے ہیں اور حالات اسے متاثر کرلیتے ہیں عقل کے یہی حدود اور آفات ہیں جن کی بناء پر وہ مجبور ہے کہ اپنے لیے کوئی ایسا رہنما تلاش کرے جو اسے ان حقائق تک پہنچائے جواس کی پہنچ سے باہر ہیں عقل کے اندر اس تلاش کے لیے ابتداء ہی سے بڑا قوی تقاضہ رہا ہے اللہ نے اپنی وحی اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ناز ل کی ہے جس طرح انسان کی رہنما عقل ہے اسی طرح عقل کی رہنمائی وحی الہی ہے انسان اگر عقل کی رہنمائی سے محروم ہوجائے تو ہم اسے پاگل کہتے ہیں اگر وحی کی رہنمائی سے محروم ہوجائے تو وہ بھی بالکل باؤلی ہو جاتی ہے۔ [غامدی، مقامات، ۲۰۰۶ء ،ص ۶۸]

    غامدی صاحب نے ۲۰۰۸ء کے بعد دین کو صرف اور صرف عقلیت کے پیمانے تک محدود کردیا ہے لہٰذا اب وہ دین کی ہر بات عقل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی ان سے یہ سوال کرے کہ ایک آدمی جب مباشرت یا احتلام کے بعد غسل کے لیے دریا یا سمندر میں غوطے لگالیتا ہے اس کے باوجود اسے پاک تسلیم نہیں کیا جاتا اس کی کیا عقلی دلیل ہے؟ توغامدی صاحب اس کی کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔ اس کی دلیل صرف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے تم سات سمندر میں غسل کرکے آجاؤ عقلاً شاید پاک ہوجاؤ لیکن دین میں تمہیں ناپاک ہی تصور کیا جائے گا۔جب تک پاکی حاصل کرنے کا وہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو رسالت مآب نے بتایا ہزاروں گیلن پانی بہانے سے پاکی حاصل نہیں ہوسکتی اصل پاکی شریعت کی تقلید میں ہے ۔نماز دین کا ستون ہے لیکن عورت کو ایام حیض کی نمازوں کو ادا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا مگر قضا روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی عقلی دلیل کیا ہے؟ ظاہر ہے دین کی ہر بات عقل سے ثابت نہیں کی جاسکتی نہ ہر بات عقل کے معیار پر اترتی ہے کیوں کہ عقل مخلوق ہے کلام اللہ مخلوق نہیں خالق کا کلام ہے لہٰذا کمتر برتر کے کلام کے تمام اسرار معارف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔اسی لیے رسالت مآبؐ کی اتباع فرض ہے ان کے بغیر دین پر عمل ممکن ہی نہیں۔

    ہمارے شاگرد رشید جناب ظفر اقبال نے اپنی کتاب اسلام اور جدیدیت کی کشمکش کے تیسرے باب جدید منہاج علم ماخذ و منابع: عقل محض عقل سلیم فرق اور امتیاز میں عقلیت کی نارسائی بے بسی بے کسی پرہمارے اشارات و تحقیقات کو نہایت عمدہ طریقے سے جمع کیا ہے جدید ذہن کے لیے ظفر اقبال صاحب کی یہ سادہ مختصر اور نہایت مدلل و موثر تحریر ہے علماء کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

    ہمارے عزیز شاگرد ظفر اقبال نے جب فلسفے اور سائنس کے مباحث ہماری نگرانی میں پڑھنے شروع کیے تو شروع میں ایک سال تک عقل کی فوقیت کے بارے میں وہ بہت اونچی رائے رکھتے تھے مباحثہ مذاکرہ ہوتا تو وہ عقل کی حمایت میں بہت سے دلائل اور جوابات پیش کرتے عموماً ان کے دلائل معتزلہ یا جدید معتزلیوں سے مستعار ہوتے جیسے سرسید، عبدہ، افغانی، شبلی ،خدا بخش، امیر علی، فیضی ،اصغر علی، انجینئر، وحید الدین خان، یوسف قرضاوی، مصر کی جماعت وسطانیہ، ملیشیا کی سسٹر آف اسلام، ایران کے عبدالکریم سروش، علی شریعتی ، آیت اللہ مطہری،غامدی وغیرہ وغیرہ ایک دن راقم نے انھیں ہدایت کی کہ المعجم المفہرس للفاظ القرآن میں قلب ،عقل ،فواد اور اس کے مترادفات سے متعلق تمام آیات پر وہ پورا دن تدبر و تفکر فرمائیں پورا دن گزر گیا دن کے اختتام پر راقم نے عقل کی محدودیت کا فلسفہ اس فلسفے کے دلائل، عقلیت پرستی پر تنقید کے دلائل اور عقلیت پرستی کے حوالے سے نصوص قرآنی اور اسلامی تاریخ سے چند واقعات ان کی خدمت میں پیش کیے اور ان کے عقلی استدلالات کا تجزیہ پیش کیا، تب ظفر اقبال صاحب کو عقلیت کی حقیقت ماہیت اور حیثیت کا بخوبی اندازہ ہوا ہمارا وہ خطبہ اور اس میں پیش کردہ واقعات اب ان کی کتاب میں ’’عقلی موشگافیوں اور دینی مزاج ‘‘کے عنوان سے جمع کردیے گئے ہیں وہ باب غامدی صاحب کی خدمت میں بھی پیش کیا جارہا ہے امید ہے وہ توجہ فرمائیں گے:

    یہ خیال کہ روشنی اور اندھیرے میں فرق صرف عقل کی بنیاد پر ممکن ہے۔ عقل سلیم اور نقل صحیح میں کوئی تضاد ممکن نہیں۔ عقل اگر خالص ہو تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جس نتیجے پرانسان نقل کے ذریعے پہنچتا ہے، پیغمبر ظاہر[انبیاومرسلین] جس منزل پر لے جاتے ہیں پیغمبر باطن[ عقل] بھی اسی منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے ــــ درست نہیں۔ اگر عقل ہی خیر و شر کو جانچنے کا پیمانہ ہے ، تو کیا عقل کو بھی جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے ؟ یا عقل کو جانچنے کا پیمانہ محض عقل ہے، اگر عقل کو جانچنے کا پیما نہ خود عقل ہی ہے تو پھر عقل کو جانچنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ با لفاظ د یگر اگر عقل کو جانچنے کا پیمانہ اس کے اندر، یعنی عقل، سے ہی نکلتا ہے، اگر وہ خود ہی پیمانہ ہے تو اسے پرکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ خیال کہ حسیات سے ورا عقل کچھ نہیں کرسکتی ،یعنی وہ عقل کا دائرہ نہیں تو پھر حسیات سے متعلق امور میں اگر اختلاف ہو تو فیصلہ کون کرے گا؟ عقل یا وہ مابعد الطبیعیات جو عقل سے ماورا ہے۔

    عقلیت کی تحریک ان خطوں سے اٹھی جہاں انبیا کی تعلیمات بالکل معدوم ہوگئیں، عقل کے طالب عقل کی حدود کو نظر انداز کر کے category mistake کرتے ہیں ۔ عقل مقاصد کا تعین نہیں کرسکتی لہٰذا قرآن و سنت کے طے شدہ مقاصد کے لیے عقل جب کام کرتی ہے تو یہ سرگرمی اجماع و اجتہاد کی صورت میں ظہور کرتی ہے ۔عقل کے استعمال سے پیدا ہونے والے فطری اختلافات کا حل اجماع اور مسلک جمہور ہے۔ جس طرح بائبل اور قرآن میں تقابل بہ ظاہر عقل کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن عملاً یہ تقابل نقل کے منہاج میں ہوگا ، عقل یہاں ایک ذریعہ وسیلہ ہوگی جس طرح زبان بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ قرآن و بابئل کا تقابل کرنے کے لیے پہلے قرآن پر ایمان لانا ہوگا پھر اس ایمان کی دلیل عقل کے ذریعے بیان ہوگی،یعنی پہلے ایمان ہے پھر عقل۔ عقل ایمان کے تابع ہے، ایمان عقل سے ماوراہے اس کا تابع نہیں۔ جو چیز یا تصور انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے تو وہ شے خلاف عقل نہیں ماورائے عقل ہوتی ہے۔ خلاف عقل ہونا اور ماورائے عقل ہونا دو مختلف نقطۂ ہائے نظر ہیں جن کے نتائج یک سر مختلف ہوتے ہیں ، کسی شے اور وجود کا عقل سے ماورا ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ شے وجودہی نہیں رکھتی اسی لیے اصول یہ ہے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ قرآن ہمیں عقل کے ذریعے نہیں، مشاہدے اور تجربے کے ذریعے نہیں، بلکہ نقل کے ذریعے ملا ہے، رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرآن کتاب اللہ ہے تو ہم نے تسلیم کیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کے بارے میں براہ راست کچھ نہیں بتایا اس ایمان کو بلا شبہہ عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن یہ نقل کا اثبات ہے بہ ذریعۂ عقل۔ عقل ہمارے ایمان کی دلیل مہیا کرتی ہے صرف دلیل سے ایمان مہیا نہیں ہوتا، دلیل عقل کی رہنمائی کر دیتی ہے لیکن قلب کی ہدایت یا قبولیت کے بغیر عقل کی رہنمائی کار آمد نہیں رہتی۔ عقل مان لیتی ہے دل نہیں مانتا، دلیل قلبی کے بغیر دلیل عقلی بے معنی ہے اسی لیے ایمان تعقل قلبی کا نام ہے۔ قرآن نے عالم وعاقل اوراہل فکر اس کو قرار دیا جو الحق اور الکتاب کو قبول کرے، جو اس کو رد کر دے وہ کم عقل، جاہل، ظالم اور شر الدواب ہے لہٰذا عقل کو پرکھنے کا پیمانہ قبولیتِ ایمان ہے جو عقل ایمان قبول نہ کرے وہ عقل نہیں جہل ہے۔ عقل کے استعمال کا لازمی نتیجہ ایمان ہے، عقل کا واحد نتیجہ عبدیت کا اقرار یعنی سجدہ ہے ،عقل کی اصل شکل بندگی اور حالت سجدہ ہے۔ اسی لیے قیامت کے دن وہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے جو دنیا میں نعمتِ سجدہ سے محروم ہے:
    [pullquote]یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِِلَی السُّجُوْدِ فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ O خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِِلَی السُّجُودِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ [۶۸:۴۲،۴۳] [/pullquote]

    دین میں قیاس اور اجتہاد اصلاً تدبر اور تفکر فی القلب ہے، عقل کلی، بصیرت تامہ کا نام ہے، محض خیال آرائی کا نام نہیں ۔یہ محض کوئی تخلیقی، علمی، تحقیقی اور عقلی سرگرمی نہیں بلکہ روحانی عمل ہے جس کا مقصد ہر عہد میں روح کی حفاظت ہے۔ یونانی عقلیت اپنے دورِ زوال میں ارسطو کے ذریعے ابدیت دنیا کے نتیجے پر پہنچی لہٰذا یونان میں حقیقت کے علم کی سرگرمی نے آخر کار صرف اس دنیا کے علم کو ہی اصل علم قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ، ارسطو کے زیر اثر مغربی فلسفہ آخر کار حقیقت کے سوال سے ہی دستبردار ہوگیا ۔ ایک ہی عقل مختلف لوگ استعمال کرتے ہیں تو نتیجہ ایک نہیں نکلتا مختلف ہوجاتا ہے کیونکہ ہیوم کے مطا بق عقل جذبات کی غلام ہے: Reason is the slave of Passionبا لفاظ دیگر عقل نفس امارہ کی غلام ہے۔ عقل اگر کبھی کسی درست نتیجے پر پہنچ بھی جاتی ہے تب بھی اس درست نتیجے کو تسلیم کرنے سے قاصر رہتی ہے کیونکہ اس درست نتیجے کی تصدیق کا پیمانہ بھی عقل خود ہی ہے،یعنی عقل خود نتیجہ قائم کر کے اس نتیجے کو عقلی یا جذباتی بنیاد پر قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے اہلکاروں کا مکالمہ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی دلیل سے مطمئن ہوگئے کہ اگر یہ بت بول سکتے دیکھ نہیں سکتے تو تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ مگر اگلے ہی لمحے وہ بولے کہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقے سے ہٹانا چاہتا ہے اگر عقل خود ہی مقصد ہے، مقاصد کا تعین خود ہی کرسکتی ہے تو پھر عقلی کوشش کے نتیجے میں جو بھی عمل سرزد ہوگا وہ عقلی ہی ہوگا۔مسلّمہ اصول ہے کہ پیمانہ ہمیشہ باہر ہوتا ہے لیکن عقلیت کو پرکھنے کا پیمانہ عقلیت ہی ہے، یعنی انسان کے نفس میں پنہاں ہے لہٰذا نفس ہی حقیقت مطلق ہے۔ عقلیت کو دوام نہیں وہ ہر لحظہ بدلتی ہے جب کہ پیمانہ مستقل ہوتا ہے ۔ اگر کسی فیصلہ کی بنیاد صرف عقل ہے تو فرقان، منہاج، کسوٹی، عقل ہی ٹھہری لہٰذا عقل کبھی بھی ایمان سے دستبردار ہوسکتی ،کہ عقل تو ارتقا کا نام ہے، یہ تغیر اور تنوع ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ [Believe in Reason] عقل اور دلیل پر ایمان لائو ، لیکن سوال یہ ہے کہ خودعقل پر ایمان لانے کی کیا دلیل ہے؟ کانٹ کے مطا بق دلیل یہ ہے کہ یہ آفاقی سچ ہے، مگر اس کا ثبوت کیا ہے؟ ظاہر ہے ایمان کی دلیل نہیں ہوتی عقل پر ایمان لائو کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اپنے نفس اوراپنے آپ پر ایمان لائو، کیونکہ علم کا ماخذ تو عقل ہے جو انسان کے پاس ہے لہٰذا انسان خود اپنے آپ کی پرستش کرے، اپنی ہی عبادت کرے کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے۔ کیوں کہ عبادت اس کی کی جاتی ہے جس کے پاس علم ہوتا ہے اور علم صرف انسان کے پاس ہے اسی لیے کانٹ کہتا ہے کہ انسان اپنے سوا ہر مقتدرہ [authority]کا انکار کر دے۔ روایتی، الہامی اور دینی تہذیبوں میں اسی لیے ایمان عقل کے تابع نہیں عقل ایمان کے تابع ہے، مغرب میں عقل ماخذ علم [Source of knowledge] ہے۔ اسلام میں عقل محض ذریعۂ علم، ہتھیار اوراوزار ہے۔ عقل مقصد کا تعین نہیں کرسکتی، کسی متعین مقصد کے لیے وسیلے اور آلے، کا کام انجام دے سکتی ہے۔ عقل اپنے منہاج میں نتائج اخذ کرتی ہے اسی لیے اگر آپ جدیدیت کے منہاج میں کھڑے ہوں گے تو اس کے دعوے آپ کو عقلی لگیں گے لیکن اگر آپ مذہبی منہاج میں آجائیں تو مذہب کے عقائد، اعمال عقلی لگیں گے عقل محض زماں و مکاں سے ماورا نہیں ہوسکتی ، عقل محض معروضی [Objective] نہیں ہوسکتی وہ موضوعی [Subjective] رہتی ہے۔ عقل زمان و مکان سے اٹھا سکتی ہے مگر اس ماورائیت پر دوام عطا نہیں کر سکتی ،صرف عقل سے علم، الحق اور الکتاب نہیں ملتے بلکہ اس میں جذبات، وجدان، طلب، ہدایت، حواس، کوشش سب مل کر کوئی نتیجہ پیدا کرتے ہیں یہ مغرب کا المیہ ہے کہ اس نے ارسطو سے متاثر ہو کر انسان کو صرف عقلیت کے دائرے میں محصور ومقید اور محدود کر دیا۔ اگر محض عقل اور فطرت ،ہدایت، فلاح، کامیابی کے لیے کافی ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد کہ شجر ممنوعہ کے پاس مت جانا، حضرت آدمؑ کبھی تشریف نہ لے جاتے ان کی فطرت بالکل محفوظ اور عقل ہر داغ سے خالی تھی وہ شر اور گناہ کے تصور سے ماورا،مصفّٰی و منزہ عقل و فطرت تھی، مگر جب ہدایت ربانی [نقل] کی موجودگی میں فطرت و عقل کو ذریعۂ علم تصور کرنے اور اس پر اعتماد کرنے کی خطا سرزد ہوئی تو عقل دستگیری نہیں کرسکی صرف توبہ کام آئی اورحضرت آدمؑ نے اللہ رب العزت سے کلمات توبہ سیکھ کر عقل و نفس کی غلطی کی معافی طلب کی:
    [pullquote]وَ قُلْنَا یٰاٰ دَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ O فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَاَخْرَجَھُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَ قُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌ وَ لَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلیٰ حِیْنٍ O فَتَلَقَّیٰ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّہ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ [۲:۳۵ تا ۳۷][/pullquote]

    شیطان نے عقلی استدلال پیش کیا تھا لافانی زندگی اور لافانی سلطنت ایک فانی انسان کے لیے۔

    قرآن میں جہاں جہاں ایسے بیانات ہیں جو ذہن انسانی کی دسترس سے باہر ہیں ان کا مقصد سائنسی تحقیق و ترقی نہیں بلکہ اہل ایمان کے ایمان میںاور اہل کفرکے کفر میںاضافے کے لیے ہیں، ان بیانات کو سائنسی تحقیقات سے جوڑ کر خواہ مخواہ غلط سلط سائنسی نتائج کی میزان پر کسَنا معذرت خواہانہ جدیدیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

    جدیدیت پسند مسلم مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عقلی دلائل سے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں لیکن محدود عقل قدم قدم پر ٹھوکر یں کھاتی ہے۔ عہد حاضر کے جدید ذہن کو، جو علمی موشگافیوں کا ماہر ہے، نت نئے سوالات سوجھتے ہیں یہ سوالات تحصیلِ علم، حصولِ معلومات، راہِ ہدایت کی طلب، علم میں اضافے اور استفسار کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اعتراض، ہجو، تضحیک، تنقید محض اور وہ بھی بلا علم، اس کا مقصد دینی تعلیمات و افکار پر کسی نہ کسی طرح کوئی عقلی اعتراض وارد کرنا ہوتا ہے۔ عہد حاضر کے جہلا کے سوالات کا جواب دینے کا طریقہ وہ نہیں ہے جو عالم آن لائن ِکے معروف فنکار اور ان کے منتخب کردہ نو آموز جدید علماء اختیار کرتے ہیں اور دین کو رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر سوال کا جواب دینا پاگل پن ہے جہلا کے سوالات کے جواب میں ہمہ وقت تیاررہنا اور جواب دینا خود جہالت ہے، وہ شخص عالم کہلانے کا مستحق ہی نہیں جو لا ادری کہنا نہیں جانتا یا کہتے ہوئے ہچکچاتا ہے علم بحر بے کراں ہے جو شخص ہر سوال کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہے بلا شک و شبہہ جید جاہل ہے اور تمام ٹی وی پروگرام ان جید جہلاء کی جہالت سے منور ہیں اس’’ منور اندھیرے ‘‘سے نکلنے کے کئی طریقے ہیں مثلاً :
    [۱] اگر عالم دین کو سوال کا جواب معلوم نہیں ہے تو واضح طور پر لا ادری کہہ دے یا کہہ دے کہ میں نہیں جانتا اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے الفاظ میں ایسا کہنا نصف علم ہے ،ایک شخص نے حضرت مالکؒ بن انس سے ایک مسئلہ پوچھا اور کہا کہ ان کی قوم نے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے مجھے ایک ایسی جگہ سے بھیجا ہے جس کی مسافت یہاں سے چھ ماہ کی ہے آپ نے کہا جس نے بھیجا ہے اس سے جا کر کہہ دینا کہ میں نہیںجانتا ،اس شخص نے شکوہ کیا کہ اگر آپ نہیں جانتے تو پھر اس مسئلے کو کون جانے گا فرمایا اسے وہ جانے گا؟فرمایا اسے وہ جانے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا علم دیا ہے، ملائکہ کہتے ہیں: [pullquote]لا عِلمَ لَنا اِلَّا مَا علَّمتَنا[/pullquote]

    ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔علم کے کوہِ گراں کی عاجزی کا اندازہ کیجیے۔

    امام مالکؒ سے اڑتالیس مسئلے پوچھے گئے جن میں سے تیس کے جواب میں آپ نے فرمایا:لا ادری [میں نہیںجانتا]۔ خالد بن خداش سے روایت ہے کہ انھوں نے بتایا میں چالیس مسائل پوچھنے کے لیے عراق سے امام مالک کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو صرف پانچ کے جوابات آپ نے دیے۔ امام مالکؒ اس راز کو جانتے تھے کہ جب عالم لا ادری نہ کہنے کی غلطی کرے تو وہ ہلاکت کی جگہ پہنچ جاتا ہے ۔ امام مالکؒ سے روایت ہے ان سے عبداللہ بن یزید بن ہر مزؒ نے روایت کی کہ عالم کو چاہیے کہ اپنے ہم نشینوں کو لا ادری سکھائے تاکہ ان کے ہاتھ میں ایک ایسی اصل اور ٹھکا نہ ہو جہاں وہ پناہ لیں، اور ان سے جب کوئی ایسی بات پوچھی جائے ، جسے وہ نہیںجانتے تو لاادری کہہ دیں۔ حضرت ابو درداء ؓسے صحیح روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا لاادری [میں نہیں جانتا] کہنا نصف علم ہے۔اسی لیے امام غزالیؒ نے مناظرے کی مذمت کی ہے اوراس کے لیے کڑی شرائط رکھی ہیں کیونکہ مناظرے کا مر وّ جہ ماحول اور اسلوب، الا ماشا ء اللہ ، لا ادری کہنے کی صلاحیت سلب کرلیتا ہے یہ حق کے دروازے بند کرنے کا راستہ ہے۔

    عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ اس مسجد [مسجدِ نبوی] میں ایک سو بیس صحابہ کو میں نے پایا کہ ان سے کسی حدیث یا فتوے کے بارے میں پوچھا جاتا تو ان کی خواہش و کوشش ہوتی کہ کوئی دوسرا بھائی ہی اسے بتائے اور بالفاظ دیگر کسی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ دوسرے کے پاس بھیجتے اور وہ کسی دوسرے کے پاس۔ اس طرح سائل گھومتے ہوئے پھر اس شخص کے پاسں پہنچ جاتا جس سے پہلی مرتبہ اس نے سوال کیا تھا ۔ ۱ ؎ ۱؎ [اتحاف السادّۃ المتقین ،جلد ۱ صفحات۲۷۹-۲۸۰ ۔]

    [۲] اگر سائل صرف تنقید کے لیے بغیر علم کے سوال کررہا ہے یا مقصود دین یا دینی روایت کی تحقیر، تضحیک اور توہین ہے یا اپنے علم کا غرّہ ،تو ایسے سائل کا براہ راست جواب دینے کے بجائے اس سے پوچھا جائے کہ آپ سائل ہیں یا ناقد ؟ آپ استفسار کرنے آئے ہیں یا اعتراض وارد کرنے؟ مقصود حصول علم ہے یا مباحثہ؟ اگر سائل ہو تو سوال کے آداب سیکھ لو اور اس کے بعد سوال کرو، اگر معترض اور ناقد ہو تو تمھیں علوم دینیہ پرعبور ہونا چاہیے تاکہ اصولوں کی بنیاد پر اعتراض وارد کرسکو اور ہمارے سوالات کے جواب دے سکو۔ مثلاً ایک ناقد نے سوال کیا کہ قرآن میں شرابی کے لیے کوڑوں کی سزا بیان نہیں ہوئی لہٰذا میں فقہا کی سزا کو نہیںمانتا کیونکہ اصل ماخذ تو قرآن ہے؟ایسے ناقد سے پوچھا جائے کہ آپ قرآن کو عربی میں سمجھ سکتے ہیں؟ چند آیات پڑھ کر اس کا امتحان لے لیا جائے کیا آپ نے تمام قرآن پڑھ لیا ہے؟ علم تفسیر حاصل کرلیا ہے؟ قرآن سے اخذ احکام کے اصول پڑھے ہیں؟ کن کن تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ اور عربی، انگریزی اور اردو میں کون سی تفاسیر اور احادیث کے مجموعے پڑھے ہیں؟اس سے عربی قواعد کے کچھ اصول ماضی اور مضارع کی گردان وغیرہ پوچھ لی جائے۔ پھر پوچھاجائے کہ ایمان آپ نے کس ذریعے سے حاصل کیا کہ اصل ماخذ قرآن ہے سنت نہیں؟ اس ماخذ پر نقدو جرح کیجیے پھر اس سے اصول بحث طے کرلیجیے کہ احکامات و قوانین کا ماخذ محض قرآن ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا ماخذ نہیں تاکہ اسے ایک ہی موقف پر رکھ کر گفتگو کی جائے، اس سے پوچھا جائے کہ قرآن کو ماخذ کس کی سند پر مانا گیا ہے؟ کیا قرآن کے کلام اللہ ہونے کی شہادت خود اللہ نے تمھیں دی ہے یا یہ تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچی ہے؟ تو پہلے تم رسول اللہ پر ایمان لائے تھے یا قرآن پر؟ تو رسول پر ایمان مقدم ہے یا قرآن پر؟ اس تقدیم و تاخیر کا حکم کس نے دیاہے اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ؟ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے تو اختلاف میں حکم کون ہوگا رسول اللہ یا کلام اللہ ؟یا دونوں؟ یا کلام اللہ بذریعہ رسول اللہ ؟اس کے بعد وہ تمام احکامات پوچھ لیے جائیں جو قرآن میں درج نہیں ہیں لیکن پوری امت کا جن پر اجماع ہے مثلاً اذان، نماز جنازہ، عورت کے ایام حیض میں روزوں کی قضاء وغیرہ وغیرہ۔

    ایک سائل نہایت بد تمیزی سے ایک عالم پر حملہ آور ہوا، عالم نے اس کے اعتراضات،ہجو، بد تمیزی کے جواب میں کمال تحمل سے پوچھا آپ سائل ہیں یا واعظ یا ناقد؟ کہنے لگا اس کا کیا مطلب؟ انھوںنے کہا آپ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں ؟یا مجھے کچھ بتانا چاہتے ہیں یا سنانا چاہتے ہیں یا تنقید کرنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا پوچھنا چاہتا ہوں، فرمایا اگر سائل ہو توپہلے سوال کرنے کا ادب سیکھو! اس نے کہا میں ناقد ہوں کہا تو اعتراض کرنے کے لیے علم چاہیے ، آپ کے اعتراض اسلام پر ہیں لہٰذا یہ بتائیے کہ کیا آپ نے دینی علوم سیکھے ہیں؟کیونکہ اعتراض کے لیے علم ضروری ہے اور تقلید کے لیے جذبۂ اطاعت اور اپنے جہل کاادراک اور اعتراف کہنے لگا میں دینی علوم سے واقف ہوں عالم نے چند سوال پوچھے جواب نہ دے سکا، انھوں نے کہا اچھاآپ اردو تو یقیناً جانتے ہوں گے، کہنے لگا ظاہر ہے میں اردو بول رہا ہوں، ویسے میں بہت عمدہ اردو جانتا ہوں، کہا اگر تم اردو میں مہارت رکھتے ہو تو ہم تم سے بات کریں گے اور تمھارے اعتراضات ضرور سنیں گے کیونکہ زبان کا علم اہم ہوتاہے اور زبان اظہار علم کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے، کہنے لگا میرے ہمیشہ اردو میں اسّی نمبر آئے ہیں، عالم نے کہا اردو الفاظ میں زیر زبر کا فرق بتاسکتے ہو؟ کہنے لگا ہاں! اسے شعر لکھ کر دیا کہ زیر زبر لگادو یا صحیح تلفظ سے شعر پڑھ دو:
    کئی گزرے سَن، تیرا کم تھا سِن، کہ لیے تھے سُن تیرے گھونگرو
    کبھی باجے چَھن، کبھی باجے چِھن، کبھی باجے چُھن تیرے گھونگرو

    وہ زیر زبر کا فرق تلفّظ سے ادا نہ کرسکا، عالم نے کہا اچھا لفظ تلفظ کو صحیح مخارج سے ادا کرو، وہ اس پر بھی قادر نہ تھا اس نے تل الگ کہا اور فظ الگ تشدید بھول گیا۔

    عالم نے کہا بیٹے نہ علوم اسلامی جانتے ہو، نہ اردو جانتے ہو، نہ علم سے تعلق ہے اور تنقید ایسے کرتے ہو جیسے سب علوم سے واقف ہو یعنی بحر العلوم ہو۔ تم سے کیا بات کی جائے. سائل نے کہا آپ کچھ اور پوچھ لیں ان شاء اللہ صحیح جواب دوں گا، انھوں نے کہا اچھا مختلف الفاظ کا فرق بتاؤ جو بہ ظاہر ایک جیسے لگتے ہیں آواز میں بھی تلفظ میں بھی اور ایسے الفاظ جن کی آواز یکساں ہے یعنی سننے میں ایک جیسے لیکن تحریر میں الگ ہیں مثلاً بَر، بِر، بُرکا فرق بتاسکتے ہو؟ باز اور بعض، باد اور بعد، معاش اور ماش، خال اور خال، جال اور جعل، لعل اورل ال، ابر اور عبر، مہر اور مُہر، بحر اور بہر، سحر اور سحّر، سطر اور ستر، خطرہ اور قطرہ، آج آنا اور آجانا، آم اور عام، بام اور بام، دام اور دام، نام اور نعم، حمل اور حمل، طَور اور طُور، بیر اور بَیر، پیِر پَیر اور پیر، سِیر سیَر اور سَیر اور سیر، تیر اور تَیر، دراور دُر، گَرگُر اور گِر، چَر چُر اور چِر، سَر سِر اور سُر، تہہ اور طے، ماہ اور ماہ، بار اور بار، نال اور نعل، زیر زبر پیش کے ساتھ بال بعل اور بال، رم اور رَم، مرثیہ اور ہرسیہ، حال اور ہال، ڈال اور ڈال، دِل دَل، مِل مَل، مت و مت، لُعاب اور لعَب، بَن بِن بُن اور بن، دھن اور دُھن، گھِن، گھُن اور گھن، بھِن اور بُھن، بِین، بَین، بیّن اور بین، خط اور قط، قِسط اور خِسّت، منشور اور منثور، جُوں اور جوں، جون اور جُون، گو اور گُو، کَل، کَل، کِل، کُل، کلی، کُلی، کُلی، دَم دُم، بم بم، تار اور تار محَل اور محِل، لو اور لَو، لُو، کے اور کَے، آر اور عار، ظن اور زن، بیِت بیت اور بیعَت۔ میت، معیت اور مَیّت ، سَت اور سُت، بَد اور بِد، بس بِس، تاخت اور تخت، غَل اور غُل ، رجس اور رَجز، گِن اور گُن، تن اور تُند، تان اور طعن، کِن اور کُن، لعان اور لعن ، جام اور جام، مطلع اور مُطلّع ، مقطّع اور مُقطع، جہل اور جُہل، عاصم اور آثم، ٹال اور ٹال، گُل گِل اور گَل، تَل تِل، اور تُل ، بَل اور بل، بلا، بِلا، بلاّ، بَلاّ، گھوٹ اور گھونٹ، اوٹ اور اونٹ، کَش اور کُش، جَل اور جُل، دم اور دُم، کِل کَُل اور، دَیر اور دیر، ٹھٖر اور ٹھر، مَیل مِیل اور میل ، ہول ہول، اَب اور اب ،بیل بَیل ، بانٹ، باٹ، ڈاٹ اور ڈانٹ، کَٹ اور کِٹ اور کُٹ، شِیر، اور شیر ،ذم اور ضم ،چین اور چَین، انس اور اُنس ، چخ اور چق، شکر اور شُکر، قسم اور خصم، صرف اور سرف ، بست اور بسط، ملت او رملط، ملک مُلک اور مَلک، تَلک اور تلّک، کِشت اور کُشت ، حَسین اور حسین ، خلا اور خلع، عین اور عین، طلاء، تلا، تلا، تُلا اور تِلاّ، مِل اور مَل، قاصر اور خاسر ، بسر اور بصر، نصر اور نثر ، نخل اور نقل ، قصر اور خسر ، بطر اور بتر ، عقل اور اقل، بَط اور بت، شور اور شور، صَر اور سَر، عصر اور اثر، چُہل اور چَہل، صم، سُم، سِم، کانچ اور کانچ، اُتر اور عطر، بھیڑ اور بھیڑ، بھِڑ اور بھڑ ،

    عالم نے اپنی گفتگو کا لب و لہجہ بالکل دھیما رکھتے ہوئے ناقد کی علمیت کی حقیقت چند سوالات میں واضح کردی اس کی جہالت کو واضح کرنے کے بعد دلائل کی ضرورت ہی نہیں رہی، پھر اسے ہدایت کی چونکہ تمھیں ان امور کا علم نہیں لہٰذا تم ناقد نہیں بن سکتے، البتہ مقلد بن سکتے ہو کیونکہ جو نہیں جانتے وہ کسی جاننے والے سے پوچھ لیں اور پوچھ کر اہل علم کی تقلید کریں، دنیا میں یہی طریقہ ہے. اگر نقد کرنے کا شوق و ذوق ہے تو اس کے لیے دینی علوم کی تحصیل کیجیے، پھر مباحثے کے لیے تشریف لائیے۔

    [۴]اسی طرح ایک ناقد اور معترض نے سوال کیا کہ کیا خدا کوئی ایسا پتھر بنا سکتا ہے جسے خود نہ اٹھا سکے؟ اگر سوال کا جواب ہاں میں ہو تب اگر نفی میں ہو تب خدا کی شان ان اللہ علی کل شئی قدیر کو زک پہنچانا مقصود تھا، عالم نے سائل سے پوچھا کیا تم خدا کو مانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں؟ پوچھا خدا کو تم نے کس ذریعے سے پہچانا؟ اور کس ذریعے سے مانا؟ اس نے کہا دین اسلام کے ذریعے؟ پوچھا تم دین اسلام کو مانتے ہو؟ اس نے کہا ہاں، پوچھا کتنے فی صد مانتے ہو؟ اور کیوں مانتے ہو؟ اور کس کے کہنے سے مانتے ہو؟ کہنے لگا سو فی صد مانتا ہوں، انھوں نے پوچھا اگر سو فی صد مانتے ہو تو یہ بتاؤ کہ ذات و صفات خدا وندی میں تدبر و تفکر کی حدود تمھارے دین نے کیا متعین کی ہیں؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا تو کہا پہلے ان حدود کو جان لو پھر سوال کرنا۔ چند روز کے وقفے کے بعد اس نے رابطہ کیا اور عرض کیا کہ میں خدا کو نہیں مانتا سوال کے لیے سنجیدگی، لگن اور تڑپ شرط لازم ہے، عالم نے جواب دیا جب تم خدا کو ہی نہیں مانتے تو تمھارا سوال محض ذہنی مشق ہے اور دین ذہنی ورزش کے لیے نہیں آیا لہٰذا سوال کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ اس قسم کے سوال عموماً منطق اور ذہنی مشقت کے ذریعےگھڑ لیے جاتے ہیں۔ جو لوگ بہ ظاہر خدا کا انکار کرتے ہیں اصلاً خدا کے منکر نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں سے بحث و مباحثے کے بجائے محبت کا رویہ اختیار کیا جانا چاہیے، ایسے افراد کے ساتھ دلائل کے بجائے اخلاق کے اعلیٰ ترین رویے سے پیش آنا ضروری ہے، ان کے اندر موجود خیر کو ابھارنا ضروری ہے، نہ کہ بحث  حجت کرکے ان کے قلب میں موجود کفر کی کونپل کو تناور درخت میں تبدیل کردیا جائے۔ ایسے لوگوں سے دلیل، حجت بازی  اورقیل و قال میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے، ممکن ہے وہ اپنے کفر میں اتنا آگے بڑھ جائیں کہ دین سے منحرف ہونے کا اعلان کردیں ایسے لوگوں کی خاطر داری اور تالیف قلب کے لیے کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھنا چاہیے، یہ وہ لوگ ہیں جو دلائل کی تلوار سے نہیں محبت کی یلغار سے گھائل ہوتے ہیں۔ انھیں خبر کی نہیں نظر کی ضرورت ہے، ان کے ذہن اور دماغ کو نہیں قلب کو پکار نے اور ان کے دروازۂ دل پر دستک دینے کی ضرور ت ہے۔ایسے افراد کو نہایت تعظیم ،اکرام اور خاطر تواضع کے بعد کبھی رات کے وقت سیر کراتے ہوئے  قبرستان تک لے جایئے اس وادیٔ خاموش میں پہنچ کر بڑے بڑوں کا دل دہل کر نرم ہو جاتا ہے اور خدا یاد آجاتا ہے :
    

    کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
    کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آگیا

    ملحدین اور دین بے زار لوگوں سے بحث و مباحثے کے بجائے یہ رویہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کسی بات کو کسی پر مسلط کرنا یا مرعوب و مغلوب کرنا یا عاجز و قاصر کر دینا کمال نہیں ہے، فرد کو لاجواب کرنے اور اس کے ذہن کو معطل کرنے کے بجائے اس کے قلب کو فتح کرنے کی حکمت ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے، مناظرانہ دلیل سے فرد خاموش اور مغلوب ہو سکتا ہے مگر متاثر و مفتوح نہیں ۔ دلیل کا مقصد شکست دینا نہیں قلب میں جذبۂ قبولیت پیدا کرنا ہے، قلب کو بدلنا اصل ہدف ہونا چاہیے۔ اس کے لیے امام مالکؒ جیسے تحمل ،صبر، حوصلے اور عمل کی ضرورت ہے۔ امام مالک نے حدیث و افتاء کی بیش بہا خدمت کی اور مؤطا جیسی گرانقدر کتاب تالیف فرمائی ،جس میں اہل حجاز کی قوی احادیث اور مستند اقوال صحابہ و فتاویٰ تابعین جمع کردیے اور اس کے بہترین فقہی ابواب قائم کیے۔ مؤطا آپ کی چالیس سالہ جاں فشانیوں کا ثمرہ ہے۔اسلام میں حدیث و فقہ کی یہ سب سے پہلی کتاب ہے۔ستر معاصر علمائے حجاز نے بھی اس کی تائید و موافقت فرمائی۔اس کے باوجود خلیفہ منصور نے جب اس کے چند نسخے کرا کے دوسروں شہروں اور ملکوں میں بھیجنے کا ارادہ کیا تاکہ لوگ اس فقہ پر عمل کریں اور پیدا شدہ اختلافات ختم ہو جائیں تو سب سے پہلے آپ نے اس خیال کی مخالفت کی اور فرمایا امیر المومنین! آپ ایسا نہ کریں۔ لوگوں تک بہت سی باتیں اور احادیث و روایات پہنچ چکی ہیں اور ہر جگہ کے لوگ ان میں سے کچھ کو اپنا چکے ہیں جس سے خود ہی اختلاف رونما ہو چکا ہے اور اب اس اقدام سے مزید اختلافات پیدا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے اپنے لیے جو اختیار کرلیا ہے اسی پر انھیں آپ چھوڑ دیں  خلیفہ منصور نے یہ سن کر کہا: ابو عبد اللہ آپ کو اللہ اور توفیق بخشے۔

    امام مالکؒ کتنے جلیل القدر تھے جو بغیر رضا مندی کے اس کتاب پر دعوتِ عمل کا اقدام بھی نہیں کرنے دیتے جس میں انھوں نے اپنی سنی ہوئی سب سے اچھی احادیث اور اپنا محفوظ و قوی علم منتقل و محفوظ کردیا تھا جس پر اہل مدینہ اور بہت سے معاصر علماء کا بھی اتفاق تھا۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے موطا کو ریاستی سطح پر ریاست کے ذریعے رائج نہیں کیا اسی طرح گفتگو اور مناظرے میں اپنی رائے مسلط کرنے کی ضرورت نہیں۔

    [۵]ایک سائل نے ایک عالم سے پوچھا ’’جو شخص بحالت احرام شکار کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ‘‘ [شرعاً حج ادا کرنے والے شخص کے لیے شکار کھیلنا منع ہے] اس نیک سیرت اور صاحب عمل عالم نے جواب دیا: ’’آپ کا سوال مبہم اور گمراہ کن ہے، آپ کو بالصراحت بتانا چاہیے تھا کہ آیا اس شخص نے خانہ کعبہ کی حدود میں شکار کیا یا اس سے باہر کیا؟ آیا وہ پڑھا لکھا تھا یا اَن پڑھ تھا؟آیا وہ غلام تھا یا آزاد تھا؟ آیا وہ بالغ تھا یا نا بالغ تھا؟ آیا اس نے یہ فعل پہلی دفعہ کیا یا پہلے بھی اس کا ارتکاب کرچکا تھا؟ آیااس نے کسی پرندے کا یا کسی اور جاندار کا شکار کیا؟ آیا جس جاندار کا شکار کیا گیا وہ بڑا تھا یا چھوٹا تھا؟ آیا اس شخص نے دن میں شکار کیا یا رات میں کیا؟ آیا اس نے اپنے فعل سے توبہ کرلی یا اس کے ارتکاب پر بضد رہا؟ آیا اس نے چھپ چھپا کر شکار کیایا کھلم کھلا کیا؟ اور آیااس نے احرام عمرے کے لیے باندھا تھا یا حج کے لیے باندھا تھا؟ جب تک ان تمام امور کی وضاحت نہ کی جائے اس سوال کا کوئی جواب دینا ممکن نہیں ‘‘۔ہر سوال کا جواب دینے کے بجائے علماء کرام سائل سے سوالات کا سلسلہ شروع کردیں تو بہت سے جہلاء سوال کی جرات سے محروم ہو جائیں گے اور ان کا جہل واضح ہو جائیگا، جو اپنی چرب زبانی اور طلاقت لسانی سے علماء کوجاہل ثابت کرناچاہتے ہیں۔دینی سوالات کا جواب دینے اور پرچون کی پڑیا باندھنے میں بہت فرق ہے، عالم آن لائن [ALIM on Line]جیسے پروگرام میں’’ علماء ‘‘کی عجلت بتاتی ہے کہ وہ گاہک کو اپنی دکان سے خالی ہاتھ نہ جانے دیں گے اس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی پڑیا تھمادیں گے یہی حال عصر حاضر میں ہونے والے ہمارے مکالموں، مناظروں مباحثوں اور ٹاک شو زکا ہے۔

    عقلی بنیادوں پر موشگافیاں اور سوالات اٹھاتے رہنا کوئی کمال نہیں قرآن حکیم میں کفار کے ایسے سوالات موجود ہیں جو سننے والے کو پہلی مرتبہ متاثر کرتے ہیں مگر غور کرنے پر سوال کرنے والے کی خباثت نفس اور دنائت واضح ہو جاتی ہے مثلاً کفار مشرکین اور یہود کا قرآن کے اس اصرار پر کہ بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور اگر نہ کھلاؤ تو کم از کم دوسروں کو کھانا کھلانے کی ترغیب تو دو۔ ان کا مشترکہ جواب، دوسرے معنوں میں استفہامیہ جواب، یہ تھا کہ اگر خدا چاہتا تو بھوکوں کو خود کھلادیتا:
    [pullquote]لَقَدْ سَمِعَ اللہ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوا اِنَّ اللہ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُم٭ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَھُمُ الْاَنْبِیَآء بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْق[۳:۱۸۱][/pullquote]

    کہتے ہیں اللہ فقیر ہے ہم غنی ہیں۔ جن کو خدا خود دنیا میں بھوکا رکھنا چاہے ان کو کھانا کھلانے کے لیے ہم سے اصرار کیوں؟ کیا خدا کے خزانے میں کسی شے کی کمی ہے؟ اس طرح کفار مردار کھانا چاہتے تھے انھیں دکھ ہوتا تھا کہ جانور مرگیا اور مال ضائع ہوگیا اس مرے ہوئے کو کیوں نہ کھایا جائے اس خواہش کے لیے انھوں نے عقلی سوال تراشا جسے انسان ذبح اور قتل کردے مار دے وہ حلال اور جسے خدا خود ماردے وہ حرام یہ تو بڑی عجیب بات ہے! ارسطو کہتا ہے کہ میں اس طرف جاؤں گا جدھر مجھے دلیل لے جائے گی لیکن یہ احمقانہ بات ہے ایک بندۂ مومن اس طرف جاتا ہے جدھر اس کا خدالے جانا چاہتا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ میری عقل کی کیا مرضی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ خداکی مرضی کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے؟ اس کی منشاء کیا ہے ؟ اس کی رضا کیا ہے ؟وہ جو چاہے گا وہ ہوگا جدھر وہ لے جائے گا ادھر ہم جائیں گے یعنی اگر عقل اللہ تعالیٰ کی رضا کو عقلی طور پر تسلیم نہ کرے یا رضائے الہٰی کی پیروی سے انکار کردے تو وہ عقل نہیںجہل ہے۔ تقلید رضائے الہٰی کے بغیر عقل بے کار ہے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ عقل پیمانہ ہے یا عقل کو پرکھنے جانچنے اور دیکھنے کا بھی کوئی پیمانہ ہے؟ یہ پیمانہ نفس کے اندر یعنی عقل ہی سے نکلتا ہے یا باہر ، خارجی دنیا سے آتا ہے؟ یہ ہے مسئلے کی اصل کنجی۔ دنیا کی سترہ تہذیبوں میں پیمانہ ہمیشہ باہر سے آتا تھا۔ ہر قدر، معیار اور اصول کسی بیرونی پیمانے پر جانچا جاتا تھا اور یہ پیمانہ یا روایت تھی، یا وحی الٰہی، یا دیومالا یا اساطیر ،ہر تہذیب میں عقل بھی ہوتی تھی، عدل بھی ہوتا تھا، مگر عقل اور عدل خود پیمانہ نہیں ہوتے تھے انھیں کسی اور پیمانے پر جانچا اور پرکھا جاتا تھا۔ عقل اور عدل بذاتہ حق، معیار اور اصول نہیں ہیں ان کو دیکھنے، پرکھنے جانچنے کا پیمانہ ان کے اندر نہیں ان کے باہر ہوتا ہے۔ یہ پیمانہ اس تہذیب یا مذہب کی علمیات، ایمانیات اور مابعد الطبیعیات سے نکلتا ہے۔

    اسلامی تہذیب کے خوارج، اہل تشیع، معتزلہ، اہل قرآن، اور عقلئین سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ وہ عقل اور عدل کی اصطلاحات کو ہی پیمانۂ حق و صداقت سمجھ بیٹھے اور اس بنیاد پر عہد حاضر میں اہل قرآن نے سورۃ بنی اسرائیل کے احکام عشرہ کی روشنی میں عالمی متفقہ اخلاقیات کا منشور خود تخلیق فرمالیا اور یہ تصور کرلیا کہ پوری دنیا احکام عشرہ سے متفق ہے۔ انھیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ دنیا احکام عشرہ پر نہیں بنیادی حقوق کے منشور [Human Right Declaration] پر جبراً متفق کی گئی ہے۔ حق خیر اور سچائی کی واحد مسلط کردہ دستاویز صرف اور صرف یہی منشور ہے۔ اس منشور کے ہوتے ہوئے احکام عشرہ کی اخلاقیات کا روبہ عمل ہونا محال ہوجاتا ہے۔ تین سو سال کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ عقل مند کون ہے؟ یہ بات عقل بتائے گی یا کوئی خارجی بیرونی ذریعۂ علم [external knowledge] ،مثلاً ارسطو کو دنیا نے معلم اول تسلیم کیا ہے۔ تو ارسطو کے عقل مند ہونے کا فیصلہ عقل انسانی کرے گی یا کوئی الہامی متن کرے گا؟یہ ممکن ہے کہ عقل اگر تاریخ ، تہذیب ،خواہشات، خدشات اور زمان و مکان سے ماورا ہو کر معروضی طور پر کام کرے تو وہ کسی صداقت، خیر اورحق کو پالے لیکن اس بات کی تصدیق کون کرے گا کہ عقل نے جس صداقت ، خیر اور حق کو پالیا ہے وہ ٹھیک ہے، اگر اس معروضی عقل کو انسان کی عقل یا اس کے نفس کے سپرد کردیا گیا تو یہ عقل پھر معروضی نہیں موضوعی ہو جائے گی اور اس کے پرکھنے جانچنے کا پیمانہ خود عقل و نفس ہی ہوں گے لہٰذا غلط ہی ہوں گے مشرکین مکہ اور اہل کتاب نے عقل مشاہدے اور تجربے کے ذریعے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں مگر ان کا اعتراض صرف یہ تھا کہ قرآن مکہ کے دو بڑے آدمیوں پر کیوں نازل نہ ہوا، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا نزول کیوں ہوا؟ اہل کتاب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں قبلۂ اول کعبہ کو بھی کفار اپنے بیٹے کی طرح پہچانتے تھے لیکن ان کے قلب نے عقل کے فیصلے کو قبول نہ کیا، تعقل قلبی سے وہ محروم رہے ۔ عقل ہر تاریخ، تہذیب، مذہب، معاشرت میں ہوتی ہے لیکن وہ اپنے منہاج کے مطابق عمل کرتی ہے اور اس منہاج علم میں اس عقل کا ہر فیصلہ عقلی معلوم ہوتا ہے، منہاج علم بدل جانے سے وہی عقلی فیصلہ دوسرے منہاج علم میں جہالت قرار پاتا ہے۔ یورپ و امریکہ میں اگر کوئی عورت بے لباس یا برائے نام لباس میں مردوں کی محفل میں آجائے تو وہاں کی عقلیت کے لیے یہ معمول کی بات ہوگی، عقل کا تقاضا ہوگی کیونکہ مغرب کی عقل اپنی علمیت ،آزادی اور مساوات کے عطر سے کشید کرتی ہے لہٰذا مساوات و آزادی کا عقلی تقاضہ یہی ہے ۔اس کے برعکس عالم اسلام یا روایتی دینی تہذیبوں میں کوئی عورت اس لباس میں آجائے تو وہ ذلت و رسوائی اورلعنت و ملامت کی حق دار ٹھہرے گی، اس کا معاشرتی مقاطعہ ہوگا ان تہذیبوں کا خبیث سے خبیث آدمی بھی اس رویے کی حمایت نہیں کرے گا کیونکہ ان روایتی معاشروں اور مذہبی تہذیبوں میں آزادی اور مساوات قدر بذاتہٖ معیار نہیں ہیں معیار اور قدر وحی الٰہی یا تاریخی روایات، اساطیراور دیومالا ہیں لہٰذا اس خارجی ذریعۂ علم اور منہاج کی روشنی میں یہ رویہ خدا کی مرضی کے خلاف ہے لہٰذا خالص غیر عقلی رویہ ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا ۔انسان کو آزادی اس بات کی دی گئی ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کرے ان تہذیبوں میں کپڑے پہننے کی آزادی ہے کپڑے اتارنے کی آزادی نہیں ہے۔ کپڑا کتنا پہنا جائے؟ ستر کہاں سے کہاں تک ہو؟ یہ تہذیبیں اپنی علمیت سے اصول اخذ کر کے ستر کا تعین کرتی، ہیں جب بھی اخلاقیات کی سرحدیں شروع ہوں گی آزادی کی حدود متعین ہوجائے گی ،وہ ایک خاص پیمانے، جامے اور حصار میں سمٹ جائے گی، اسے بے کراں، بے پناہ، اصول، قدر، حق کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ کسی اصول حق قدر سے متعین ہوگی اس کے تابع ہوگی اس کی روشنی میں قبول اور رد کی جائے گی۔ مغرب کی عقلیت اور منہاج علم میں لذت کا تصور آزادی میں مسلسل اضافے سے مشروط ہے جس کا انحصار زیادہ سے زیادہ سرمایے کی فراہمی پر ہے۔ جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہے وہ زیادہ آزاد ہے کیونکہ وہ زیادہ مادی لذت حاصل کرسکتا ہے ، انسان مغربی معاشیات اور فلسفے میں ایک لذت پرست جانور ہے، اس کا مقصد مسلسل اور مستقل لذتوں میں اضافہ کرتے رہنا ہے لہٰذا لذتوں کی خاطر مرد عورت جنسی اعمال میں مصروف ہوتے ہیں مگر نکاح نہیں کرتے خاندان نہیں بناتے، بچے نہیں پیدا کرتے، اولاد اور ماں باپ کو ساتھ نہیں رکھتے کہ یہ سب چیزیں انسانی لذتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیتیں، کمی کر دیتی ہیں اور مسلسل ذمہ داریوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ عورت اگر بچہ پیدا کرے تو درد زہ برداشت کرنا پڑے گا، بوائے فرینڈز، آوارگی، سیاحت سب ترک کرنا ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے لہٰذا مغرب میں عدل اور عقل کا تقاضا لذت کا یہی تصور ہے ان کا تصور عدل و عقل لذت پرستی سے نکلتا ہے، اس کے برعکس روایتی تہذیبوں اور مذہبی معاشروں میں عدل اور عقل کا تقاضہ لذت سے نہیں حقیقت [Reality] سے متعین ہوتا ہے، یعنی علمیت مابعد الطبیعیات اور تصورات حقیقت سے برآمد ہوتی ہے، یہ تصورات ہی عقل اور عدل کا دائرہ طے کرتے ہیں، ان تہذیبوں میں زندگی اطاعت و عبادت رب سے عبارت تھی اسے روحانی لذت نفس مطمئنہ کہا جاسکتا ہے۔ ماں باپ کی خدمت اولاد کو پالنا، بچے پیدا کرنا، بچوں کی پرورش و نگہداشت عورت کے لیے آزار، مصیبت، آفت، شامت اعمال، ہلاکت اور بربادی نہیں ایک دینی فریضہ ایک غیر معمولی ذمہ داری، ایک روحانی اور نورانی کام اور نفس مطمئنہ کے حصول کے مختلف ذرائع ہیں۔ یہ مغرب اور روایتی مذہبی تہذیبوں کی عقلیت اور عدل کے تصورات کا وہ نتیجہ ہے جو دو مختلف مابعد الطبیعیات سے برآمد ہوتی ہیں۔

    اسلامی تہذیب و تاریخ کے تصور عقل و تصور عدل کے تحت مرد کا ایک سے زیادہ شادی کرنا، جائز کام ہے لیکن عیسائیت اور امریکہ اور یورپ کے تصور عدل و تصور عقل میں ایسا کرنا درست نہیں ہے۔مغرب میں عورت عورت سے مرد مرد سے شادی کرسکتے ہیں کیونکہ حقوق انسانی کے منشور [Human Right Declaration] کے تحت دونوں انسان [Human] آزاد[Free]برابر[Equal] ہیں اور اس منشور کی ایک شق [Right of Association] کے تحت کوئی جنس کسی بھی ہم جنس سے تعلق رکھ سکتاہے لہٰذامغرب کی عدالتوں میں ہم جنسوں کی شادیوں کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے، جو اس فیصلے کو نہ مانے وہ غیر روادار [non tolerant] انسان تصور کیا جاتا ہے ۔ عیسائیت چار شادیوں کی اجازت نہیں دیتی مغرب چار سود اشتائوں سے بالرضا تعلقات رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں کرتا زنا بالرضا مغرب میں حلال ہے۔ مذہبی تہذیبوں میں حرام ہے کیونکہ زنا شرف انسانیت یعنی عبودیت کے خلاف کام ہے اور خدا کی رضا کے برعکس رویّہ ہے لہٰذا عدل و عقل کا تقاضا یہ ہے کہ زانی کو سزا دی جائے ،روایتی اور مذہبی تہذیبوں میں نکاح نہ کرنے پر کوئی سزا نہیں ہے اور کسی کی شادی جبراً نہیں کرائی جاتی ،لیکن کسی کو زنا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ہو، ان تہذیبوں کے تصور عدل و عقل کے مطابق شادی کرنے کی اجازت ہے زنا کرنے کی اجازت کسی حالت میں نہیں ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بالرضا زنا کی اجازت ہے اگر جبراً کوئی زنا کرے تو زانی کے خلاف کارروائی صرف اس وقت ہوگی جب مقدمہ درج ہوگا۔ یہ مقدمہ بھی فریقین میں قابل صلح ہے اگر فریقین راضی ہوں تو سزا نہیں ملے گی، مذہبی تہذیبوں میں خدا کی رضا کے خلاف جرم کا ارتکاب یعنی گناہ کبیرہ ناقابل معافی جرم تھا خدا کی سزا کوئی انسان معاف نہیں کرسکتا ،لیکن مغرب میں ریاست اس مقدمے میں فریق نہیں ہوگی یہ دو افراد کا ذاتی معاملہ ہے جب کہ مذہبی و روایتی معاشروں میں یہ مذہبی جرم ہے اورخدا کی رضا کے خلاف ہے۔ یہ تذلیل عبدیت ہے اور مالک الملک کی ناراضگی کو دعوت دینے کا عمل ہے لہٰذا ریاست خود اس میں مدعی ہوگی، مغرب میں تو اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے نہ چاہنے کے باوجود اس سے مواصلت کر لے تو اسے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے اور اس جرم [marital rape] کے مجرم یعنی عورت کے قانونی شوہر کو پانچ سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے، لیکن بالرضا زنا کوئی جرم نہیں یہ عمل مغرب کی تہذیب تاریخ و علمیت میں آزادی کی وسعتوں کو چھولینے والا آسمان کا ایک نورانی ٹکڑا ہے۔ یہ مغرب کی رواداری [tolerance] ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے اس کی رضا کے خلاف اپنے نفس کے تقاضے کو پورا کر لے تو وہ مجرم ہے وہاں رواداری کا یہی مطلب ہے کیونکہ شوہر اور بیوی دو الگ وجود [separate entities] ہیں یہ فاعل خود مختار [self autonomus] ہیں لہٰذا دوسرے کی آزادی [Freedom] میں مداخلت جرم ہے کیونکہ مغرب میں آزادی اصل قدر اور حق [Real Value & Truth] ہے تمام اقدار [Values] اسی ایک قدر پر جانچی پرکھی، ناپی، تولی اور برتی جاتی ہے لہٰذا آزادی کی قدر [Value of Freedom] کو پامال کرنا مغرب میں سنگین جرم ہے ۔اسلامی تہذیب میں اصل قدر [Real Value] خدا کی رضا ہے [Will of the God]۔ خدا کی رضا، اس کی معرفت اوراس کی محبت کا حصول کیسے ممکن ہے؟ یہ علمیت اسلامی علمیات [Epistemology] بتاتی ہے جو سنت رسالت مآبؐ کے ذریعے امت تک منتقل ہوئی اور تعامل امت اور اجماع امت اس سنت کی حفاظت کرتا ہے لہٰذا اسلامی تہذیب اور مذہبی تہذیبوں میں انسان اپنی آزادی کو خدا کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس سے دستبردار ہو کر ارادئہ خداوندی کو اپنا ارادہ بنا لیتا ہے۔اب قدر ،پیمانہ اور منہاج قرآن و سنت ہوجاتے ہیں اس قدر [Value] کے خلاف جہاں جہاں کوئی کام ہوگا وہاں وہاں آپ کو ہدایت اور سزا دی جاسکتی ہے۔ آپ کے نفس کے مطالبے آپ کی خواہشات خدا کی مرضی کے تابع ہوں گے اللہ تعالیٰ کی غلامی شرف انسانیت ہے۔ مغرب میں یہ تصور تذلیل انسانی ہے کہ اصل خدا انسان [Human] کسی اور خدا کے لیے دستبردار ہو جائے اور کسی خارجی ذریعے [external authority] کو علم، حق، خیر،ہدایت، روشنی اور رہنمائی کا ذریعہ تصور کرے۔ کانٹ کا اہم ترین مضمون What is Enlightenment? اس اجمال کی فلسفیانہ تفصیل مہیا کرتا ہے۔

    اسلامی تصور عدل و عقل کے مطابق سات سال سے پہلے بچے پر نماز فرض نہیں، سات سال کے بعد نماز نہ پڑھنے پر بچے کو سزا دی جاسکتی ہے لیکن مغرب میں بچے کے لیے سکیولر تعلیم فرض ہے اگر ماں باپ بچے کو اسکول نہ بھیجیں تو وہ جیل بھیجے جاسکتے ہیں۔ اسلام میں نشوز پر آمادہ عورت کو شوہر سزا دے سکتا ہے۔ مغرب میں اگر آپ نے اس اسلامی حکم پر عمل کیا تو جیل میں ہوں گے۔ شوہر سے سرکشی،بغاوت، گھر کے سکون اور نظم و نسق میں خلل پیدا کرنا مغرب کے فلسفے میں کوئی جرم نہیں ۔اگر آپ نے اپنے بچے پر نماز پڑھنے کے لیے سختی کی تو دوسرے کی آزادی میں مداخلت کے جرم میں آپ کو سزا بھگتنا ہوگی ،اگر آپ نے اپنی بیٹی کے کسی نامحرم لڑکے کے ساتھ جانے اورگھومنے کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی تو آپ کی آزادی اسی لمحے سلب کر لی جائے گی۔ اگر بچے پر آپ نے غلطی سے ہاتھ اٹھا لیا تو آپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ یہ مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ ہمارے اہل قرآن دوست جان لیں کہ عقل اور عدل خود معیار[Standard] ، حق[Truth] ، اصول [Principle] ، منہاج[Paradigm] پیمانہ[Parameter] قدر[Value] خیر [good] کسوٹی اور، میزان نہیں ہیں یہ کسی اور معیار پر پرکھے جاتے ہیں ،مغرب میں اس کا معیار بنیادی انسانی حقوق کا منشور، عیسائیت میں انجیل اور عالم اسلام میں قرآن حکیم و سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے ان تین مختلف مابعد الطبیعیات اور علوم ذرائع علم سے تین مختلف قسم کے تصور عدل و عقل برآمد ہوتے ہیں اور تینوں کے نتائج، طریقے، ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

    جدیدیت ماڈرن ازم کا فیصلہ ہے کہ جدیدیت پسند، ماڈرن مین، Enlightened آدمی وہ ہے جو کسی خارجی ذریعۂ علم پر بھروسا نہیں کرتا اپنے نفس اور عقل کو ذریعہ علم سمجھتا ہے اپنے سے باہر ہر ذریعۂ علم کا انکار کرتا ہے خواہ وہ وحی ہو، روایت ہو، اساطیر یا تاریخی آثار ہوں، یہ جدیدیت پسند انسان کی خاص علامات ہیں۔ اسی لیے جدیدیت کا خاص وصف ماضی کا انکار تاریخ کا استرداد، ایک نئی دنیا اور نئے انسان کی تخلیق کا دعویٰ ہے جو سترہویں صدی سے پہلے دنیا کے کسی معاشرے کسی تاریخ، کسی تہذیب اور کسی مذہب میں وجود نہیں رکھتا تھا۔ یعنی انسان [Self Autonomus Human Being] خلق جدید [Modern Man] اور جدیدیت [Modernity] تو اصلاً سترہویں صدی میں پیدا ہوئے ہیں۔ کانٹ کے الفاظ میں :
    

    Enlightenment is man’s emergence from his self imposed immaturity. Immaturity is the inability to use one’s understanding without guidance from another. This immaturity is self imposed lack of understanding.

    اس مختصر عبارت میں کانٹ نے علم کے ہر خارجی ذریعے کا انکار کر کے علم کا سرچشمہ انسان کے اندرون کو قرار دیا ہے کہ پیمانۂ علم باہر نہیں انسان کے اندر ہے یعنی نفس ،عقل، ذہن، وجدان، طبیعت اورحواس خمسہ وغیرہ وغیرہ۔

    دین کے احکامات عقل، لغت، وجدان، علم حسی، Hermeneutics جدید علم تشریح و توجیہہ و توضیح و تعبیرسے طے اور حل نہیں ہوتے ،وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہوتے اور صحابہ کرام کے ذریعے علمیت اسلامی کا حصہ بنتے اور امت کے تواتراجماع اور تعامل سے طے پاتے ہیں، مثلاً سورہ نساء میں کلالہ کی میراث کا دو جگہ ذکر ہے ایک سورہ نساء کی ۱۲ ویں آیت میں اور دوسری جگہ سورہ نساء کی ۱۷۶ ویں آیت میں ،پہلی جگہ ذکر ہے کہ اگر کلالہ کا بھائی یا بہن ہو تو ہر ایک کا حصہ چھٹا ہے اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔

    جب کہ سورہ نساء کی آخری آیت میں ذکر ہے کہ اگر کلالہ کی بہن ہو تو اس کو نصف ملے گا، اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اور اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو مرد کو عورت کے مقابلے میں دگنا ملے گا۔
    ان دونوں آیات میں پہلی جگہ بہن بھائی کا حصہ چھٹا، جب کہ دوسری جگہ بہن کا حصہ نصف ذکر کیا گیا ہے،اس میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت کوئی تعارض نہیں، کیونکہ پہلی جگہ اخیافی بہن بھائیوں کا ذکر ہے اور دوسری جگہ حقیقی بہن بھائیوں کا ذکر ہے۔ پہلی جگہ اخیافی کے بجائے حقیقی بہن بھائی مراد نہیں لیے سکتے ورنہ دونوں آیات میں تعارض لازم آئے گا۔

    اور پہلی جگہ اخیافی [یعنی ماں شریک بہن بھائی] کے مراد ہونے کی دلیل صحابہ کرام کے اقوال اور اجماع امت ہے۔ صحابہ کرام کو یہ توضیح و تشریح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ملی ہے کیونکہ صاحب قرآن نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد فرمائی کہ وہ قرآن کی تعلیم ، تشریح، توضیح باور تبیین فرما دیں:
    [pullquote]بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ [۱۶:۴۴] [/pullquote]

    صحابہ کرام اس علم کے وارث تھے جو سنت رسول سے انھیں منتقل ہوا تھا اور یہی علم اجماع اور تعامل امت سے صبح محشر تک امت کو تواتر سے منتقل ہوتا رہے گا۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے مروی ہے کہ ’’ولہ اخ‘‘ سے مراد ماں شریک بھائی ہے۔ بلکہ بعض حضرات نے نقل کیا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکی قرأت ہی ’’ولہ اخ من امہ‘‘ تھی۔ تاہم یہ قرأت شاذہ ہے، قرأت متواترہ نہیں ہے، اور ہمارے پاس جو قرآن مجید موجود ہے یہ قرأت متواترہ پر مشتمل ہے، اس لیے شاذ قرأت کے الفاظ کو قرآن نہیں کہا جاسکتا البتہ وہ قرأت بطور تفسیر کے معتبر ہوتی ہے۔
    ’’واضح رہے کہ اس آیت میں اخیافی [ماں شریک] بہن بھائی کا حصہ بتایا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ قید مذکور نہیں ہے لیکن یہ قید بالا جماع معتبر ہے۔
    قرآن کریم کے احکام میں کوئی تعارض نہیں۔ پہلی جگہ اخیافی بہن بھائی مراد ہیں اور دوسری جگہ اخیافی کے علاوہ بہن بھائی مراد ہے، اور اس میں کوئی تعارض نہیں، ہاں اگر کوئی شخص یہ پہلی جگہ بھی غیر اخیافی عینی علاتی مراد لے تو تعارض لازم آئے گا۔
    کلالہ کی تفسیر یہ کرنا کہ کلالہ وہ شخص ہے جس کی صرف اولاد نہ ہو اگرچہ باپ زندہ ہو، شاذ تفسیر ہے اور شاذ تفسیر پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اگر اس تفسیر کو لیا جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ باپ کی موجودگی میں میت کی بہن یا بھائی کو بھی حصہ ملے، حالانکہ یہ بات اجماع کے خلاف ہے، باپ کی موجودگی میں میت کے بہن بھائیوں کو بالاجماع حصہ نہیں ملتا، تفسیر البحر المحیط میں ہے:
    [pullquote]’’واجمعت الامۃ علی ان الاخوۃ لایرثون مع ابن ولااب و علی ہذا مضت الاعصار و الامصار‘‘۔ [/pullquote]

    اس دلیل کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آیات قرآنی کی ایسی تفسیر پیش کرنا جو خیرالقرون، عہد صحابہ، تابعین، تبع تابعین، تواتر و تعامل امت ، اجماع اور صلحائے امت کی بیان کردہ تفسیر اور طریقے سے صریحاً متصادم ہو تو ایسے تفرد کو امت کی علمیت معتبر تسلیم نہیں کرتی خواہ یہ تفرد کرنے والا کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا قرآن کی تفسیر صرف عقل، وجدان اور کشف کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی اس کی تفسیر نقل سے ہی ممکن ہے تفسیر جدید کے سلسلے میں مغربی علم تعبیر و تشریح سے مدد لینا اسلامی علمیت کے لیے ممکن ہی نہیں کیونکہ اسلامی علمیت اور اس سے متعلق تمام متون ایک خاص تاریخ وتہذیب اس علمیت کی شارح ہستی ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے تربیت یافتہ صحابہ کے فیضان، روایت ،تواتر، تعامل اور اجماع کے ذریعے منتقل ہوئے ہیں، لہٰذا جدید فلسفیانہ علم تفسیر، تشریح و تعبیر کے اصول یہاں ہر گز قابل عمل نہیں ہیں۔Hermenutic کا ترجمہ علم تفسیر کرنا غیر عاقلانہ رویہ ہے، علم تفسیر ایک خاص مابعد الطبیعیات اور خاص تاریخ و تہذیب سے نکلا ہے اس کو جانے بغیرمغرب کے ایجاد کردہ فلسفیانہ علم تشریح و تعبیر کی فنکاری کو اسلامی علمیت کے روایتی علم تفسیر کا مترادف سمجھنا نادانی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی جیسے سنجیدہ نقاد اپنی کتاب ’’تعبیر کی شرح‘‘ کے اہم ترین مضمون میں جو اسی نام سے کتاب کے آخر میں موجود ہے اسلامی علم تفسیر اور مغربی فن تشریح و تعبیر Hermeneutic میں یہ فرق ملحوظ رکھنے سے قاصر رہے کیونکہ وہ دینی و شرعی علوم اور مغربی علوم فلسفہ کی گہرائی سے واقف نہ تھے لہٰذا اسلامی علم تفسیر کا پورا ذخیرہ ان کے خیال میں تفردات کا شاہکار ہے جو بالکل غلط استدلال ہے۔

    اگر عقلی بنیادوں پر ہر حکم خدا وندی کا استدلال ہو توپھر سوال یہ ہے کہ فجر کی نماز طلوع سحر سے پہلے کیوں بعد میں کیوں نہیں کہ اس وقت تک سب اٹھ جاتے ہیں، سب ہی نماز پڑھ لیں گے لہٰذا نماز کا وقت بدل دیا جائے۔ جو شخص اب نمازفجر نہیں پڑھ رہا کیا وہ نماز کا وقت آگے بڑھ جانے سے نماز پڑھ لے گا؟ جسے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل مقصود ہے وہ ہر حال میں تعمیل کرے گا احکامات کی مشروط تعمیل کرنے والا عبد نہیں معبود ہے۔ معبود کسی دوسرے معبود کی عبادت کیسے کرسکتا ہے؟ وہ سوال اٹھاسکتا ہے احرام میں سفید غیر سلے کپڑے کیوں کالے ،ہرے اور سلے ہوئے کپڑے کیوں نہیں صاف بھی رہیں گے اور گندگی بھی نظر نہیں آئے گی ،لیکن بات یہ ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے ہمیں اسی طرح عمل کرکے دکھایا ہے عقلی اعتراضات کی تو کوئی حد ہی نہیں مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے آسمان اپنے ہاتھ سے بنایا ہے [۵۱:۴۷]بعض اور آیات میں یہی بات مختلف چیزوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائیں اب معترض یہ سوال اٹھا دے کہ کیا اللہ تعالیٰ مادی وجود رکھتاہے اس کے ہاتھ بھی ہیں اس نے آسمان اپنے ہاتھ سے خود کیوں بنایا؟ پوری کائنات اس کے اشارے پر چلتی ہے تو اس نے یہ شے بنانے کے لیے کسی کو حکم کیوں نہیں دیا؟

    ایسے من گھڑت سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نہایت دانائی اور باریک بینی کی ضرورت ہے، عصر حاضر میں نوجوان اس قسم کی علمی موشگافیاں کرنے میں بہت جری ہوگئے ہیں جس کا سبب ٹی وی کے ٹاک شو ز ہیںجہاں جہلاء ایک منظم منصوبے کے تحت احمقانہ موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے ہیںاور نوجوانوں کے ذہنوں کو دانستہ مسموم کرکے ان میں عقلی موشگافیوں کا مزاج پیدا کرتے ہیں ،ایسے نوجوانوں کو عمدہ مثالوں سے لا جواب کیا جاسکتا ہے۔ فتنۂ خلق قرآن کے سلسلے میں مامون کے دربار میں عبدالعزیزؒ الکنائی اور بشر المریسی کا مناظرہ ایک عمدہ مثال ہے۔ بشر نے پوچھا قرآن نے صدہا مقام پر اللہ تعالیٰ کو خالق کل شی ئٍ کہا ہے یا نہیں ؟یعنی خدا ہر چیز کا خالق ہے کنانی نے جواب دیا وہی ہر شے کا خالق ہے۔ بشر نے پوچھا قرآن بھی شے ہے یا نہیں؟ شیخ کنائی نے کہا پہلے شے کی حقیقت سن لو پھر جواب مانگو۔ بشر نے کہا میں اور کچھ سننا نہیں چاہتا میرے سوال کا جواب دو۔ مامون نے بھی غصے سے کہا سوال کا جواب ہاں یا ناں میں دو۔ شیخ نے کہا اچھا میں تسلیم کرتا ہوں قرآن بھی اشیاء میں داخل ہے۔ مامون اور بشر نے کہا تو پھر قرآن مخلوق ہوا۔ نہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا شیخ کنائی نے جواب دیا۔ قرآن کہتا ہے ویحذر کم اللّٰہ نفسہٗ یعنی اللہ تم کو اپنے نفس سے ڈراتا ہے اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بھی نفس ہے پھر قرآن کہتا ہے کل نفس ذائقہ الموت [ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے] پس اگر اشیاء میں قرآن داخل ہو کر مخلوق ہوگیا تو کیا خدا بھی کل نفس میں داخل ہو کر اور نفس ہو کر موت کا مزا چکھے گا؟ معتزلہ کو مناظرے میں شکست ہوگئی۔ عباسی دربار کے مسخرے نے خلیفہ کو مسئلہ خلق قرآن کے سلسلے میں صرف ایک دلیل سے قائل کر کے معتزلہ کے حلقے سے الگ کر دیا تھا۔ اس نے پوچھا کہ یا خلیفۃ المسلمین اگلے سال تراویح میں مسلمان کیا پڑھیں گے؟ خلیفہ نے جواب دیا قرآن۔ مسخر ئے نے نہایت تعجب سے پوچھا کہ قرآن تو مخلوق ہے اگر اگلے برس سے پہلے انتقال کر گیا تو رمضان میں کیا پڑھا جائے گا؟ خلیفہ قائل ہوگیا اس نے معتزلہ کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیا۔

    ایسی دو اور مثالیں پیش خدمت ہیں عقل اور منطق کے ذریعے دین کو ثابت کرنے کی ہمہ وقت کوشش لا یعنی ہے، مثلاً ایک شخص ایک حلوائی کی دکان میں داخل ہوا اوراس سے ایک سیر لڈو طلب کیے، حلوائی نے اسے ایک سیر لڈو دے دیے تو اس نے لڈوواپس کردیے اور کہا کہ یہ مٹھائی بدل دو اور اس کے بدلے میں ایک سیر گلا ب جامن دے دو، حلوائی نے مٹھائی تبدیل کرکے ایک سیر گلاب جامن اس کے سپرد کیے تو وہ شخص مٹھائی لے کر دکان سے باہر جانے لگا، حلوائی نے آواز دے کر روکا اوراس سے کہا کہ بھائی ایک سیر مٹھائی کے پیسے دینا آپ بھول گئے ہیں وہ دیتے جائیے ،خریدار نے نہایت حیرت سے پوچھاکس بات کے پیسے ؟حلوائی نے کہا جناب ایک سیر گلاب جامن کے، خریدار نے جواب دیا یہ ایک سیر گلاب جامن تو میں نے ایک سیر لڈو کے بدلے میںلیے ہیں ،اس لیے اس کی قیمت کا کیا سوال؟ حلوائی نے عرض کیا حضور تو چلیے ایک سیر لڈو کے پیسے عنایت کیجیے، حلوائی کی پسپائی دیکھ کر خریدار تنک کر بولا بھائی ایک سیر لڈو تو میں آپ کو واپس کرچکاہوں، اس کے پیسے آپ مجھ سے کیسے طلب کرسکتے ہیں؟واقعہ دلچسپ ،پرلطف ہے اور خریدار کی ذہانت اور حاضر جوابی کی داد دینا پڑتی ہے لیکن اس منطقی حاضر جوابی سے آپ لوگوں کو مسکرانے پر مجبور کرسکتے ہیں حلوائی سے مفت میں مٹھائی نہیں لے سکتے، اگر آپ اصرار کریں کہ حلوائی صاحب میں نے آپ کو دلیل دی ہے آپ دلیل سے اس کا جواب دیں تو یہاں دلیل کا کام ختم ہوجائے گا اور علامہ اقبال کے مصرع کا کام شرو ع ہو جائے گا :
    عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
    ایسے مشکل مقامات عصائے کلیمی سے حل ہوتے ہیں عقلی دلیل اور منطق یہاں جواب دے جاتی ہے۔

    اسی طرح ریاضیاتی اصول سے عقلی طور پرآپ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اگر ایک کمرہ سو مزدور دس دن میں بنا سکتے ہیںتو دو سو مزدور یہ کمرہ پانچ دن میں بنالیں گے۔ چار سو مزدور ڈھائی دن میں، آٹھ سو مزدور سوا دن میں، سولہ سو مزدور ۱۴ گھنٹے میں، بتیس سو مزدور سات گھنٹے میں بتیس ہزار مزدور سات سکنڈ میں لیکن کیا عملاً کوئی کمرہ سات سیکنڈ میں بن سکتا ہے ؟ریاضیاتی طور عقلی منطقی خیالی طورپر ایسا کمرہ ضروربن سکتا ہے لیکن صرف اعداد و شمار کے ذریعے، عملا ً نہیں۔ لہٰذا بہت سی باتیں جو عقلی، منطقی اورریاضیاتی طریقوں سے ثابت کردی جائیں تب بھی عملی زندگی میں ناقابل عمل ہو جاتی ہیں۔خود ذاکر نائیک صاحب نے عقلی استدلال کی مخالفت میں ایک عمدہ مثال اسلام دہشت گردی یا عالمی بھائی چارے والے خطبے میں دی ہے: اس مناظرے میں گوشت خوری کے مخالفین کی دلیل یہ تھی کہ ٹھیک ہے پودے بھی جاندار ہیںلیکن ان کے اندر صرف تین حواس ہوتے ہیں جبکہ گائے بکری بکرے میں پانچ حواس ہوتے ہیں لہٰذا جانوروں کومارنا بڑا جرم ہے اور پودوں کو مارنااس کے مقابلے میں نسبتاً چھوٹا جرم ہے، ذاکر نائیک نے جواب دیا کہ اچھا چلو یہ فرض کرو کہ تمھارا ایک چھوٹا بھائی ہے جو پیدائشی گونگا بہرا ہے اس میں عام انسانو ںکے مقابلے میں دو حسیات کم ہیں اب فرض کیجیے کہ کوئی آپ کے بھائی کو مار دیتا ہے کیا اس وقت آپ جج کے سامنے جا کر یہ کہنے کے لیے تیار ہوں گے کہ مائی لارڈ چوں کہ میرے بھائی میں دو حواس کم تھے لہٰذا مجرم کو کم سزا دی جائے نہیں بلکہ آپ کہیں گے کہ مجرم کو دگنی سزا دی جائے کیوں کہ اس نے ایک معصوم اور مجبور شخص پر ظلم کیا لہٰذا اسلام میں بھی یہ منطق نہیں چلتی ۱؎ [ ذاکر نائیک،’’اسلام :دہشت گردی یا عالمی بھائی چارہ‘‘ مشمولہ خطباتِ ذاکر نائیک، صفحہ ۶۲]۔] ہمیں خوشی ہے کہ ذاکر نائیک صاحب نے خود تسلیم کرلیا کہ اسلام میں عقلی منطق نہیں چلتی ،کبھی کبھی چل بھی جاتی ہے لیکن صرف اس منطق اورعقلیت پر دین کے فہم کو منحصر رکھنا یا مقید کرنا عقل کا تقاضا نہیں ہے۔

    ایک عالم کا عقلی دلیل کی فضیلت، اہمیت اور برتری کے سلسلے میں ایک شخص سے مباحثہ ہوا۔ موقف یہ تھا کہ عقلی دلیل ہی ترجمان ساطع، برہان قاطع اور تفسیر واضح ہوتی ہے۔ اس سے عالم نے کہا کیا احنف بن قیس اور ایک چھوٹا بچہ دونوں کو شہید کردیا جائے تو دونوں کا قصاص یکساں ہوگا؟ یا احنف بن قیس کی عقل و حلم کی وجہ سے ان کا کچھ زیادہ ہوگا؟ اس نے کہا نہیں دونوں کا برابر ہوگا۔ عالم نے فرمایا:پھرصرف عقلی ومنطقی دلیل کوئی چیز نہیں۔

    سب سے پہلے ابلیس نے منطقی و عقلی دلیل کا آغاز کیا۔ اسے جب حکم ملا کہ حکم الہٰ پر عمل کرو اور آدم کو سجدہ کرو تو اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ ابلیس نے صرف عقل محض [Pure reason] پر دلیل کی بنیاد رکھی جو صرف طبیعی مسائل [Physical Domain]میں تجزیہ کی صلاحیت رکھتی ہے،اس جزوی عقل [Partial rationality]نے اسے دھوکا دیا لہٰذا خیر، الحق اور سچ کامعیار [Standard of Good & Truth] عقل نہیں ہوسکتی۔عقل جزئی حقیقت تک رسائی نہیں کرسکتی ہے۔ بہترین عقل وہ ہے جو مالک الملک کے حکم کودرست سمجھے یہ وہ عقل ہے جس کو پرکھنے کا پیمانہ عقل سے نہیں نکلتا باہر سے آتا ہے، وہ پیمانہ وحی الہی ہے یعنی وحی بتائے گی کہ انسان عاقل ہے یا نہیں اور عقلیت کا پیمانہ یہ ہے کہ انسان مقام عبدیت کو قبول کرلے اور حقیقت مطلق کی اطاعت و اتباع میں خوشی محسوس کرے قرآن بتاتاہے:
    [pullquote] اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْن[۸:۲۲]، اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ [۸:۵۵]، اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ اِِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوا الْاَلْبَاب [۳۹:۹]، اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰاولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِِلَیْکُمْ ذِکْرًا [۶۵:۱۰][/pullquote]

    ان آیات کا لب لباب یہی ہے کہ عقل سے کام نہ لینے والے خدا کے نزدیک بد ترین جانور اور بہرے و گونگے لوگ ہیں، الحق کا انکار کرنے والے بد ترین مخلوق ہیں، نصیحت عقل والے قبول کرتے ہیں، معیار عقل قبولیت نصیحت ہے جو القرآن ،الکتاب اورالحق کو قبول نہ کرے وہ صاحب عقل ہی نہیں ایمان لانے والے لوگ ہی صاحبِ عقل ہیں اور اللہ سے انھیں ڈرناچاہیے۔عقل جب وحی الہٰی کی تقلید قبول کرتی ہے تو وہ صرف عقل نہیں رہتی وہ ایمان کے زمرے میں آتی ہے جو علم کا اصل سر چشمہ ہے۔ایک راسخ العقیدہ عالم نے ایک عقلیت پسند عالم سے پوچھا مجھے ایسا کلمہ بتلائیے جس کا اوّل شرک اور آخر ایمان ہو؟ عالم نے کہا میں نہیں جانتا پہلے عالم نے جواب دیا یہ لا الہٰ الا اللہ ہے۔ اگر کوئی لا الہٰ کہہ کر رک گیا تو کافر ہو جائے گا۔ اسی کلمہ کا اول شرک اور آخر ایمان ہے۔ دوسرا سوال پوچھا کہ اچھا بتائیے کہ قتل جو اللہ تعالیٰ کے یہاں حرام ہے زیادہ بڑا گناہ ہے یا زنا؟ انھوں نے کہا قتل۔ انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قتل کے لیے دو شہادتیں قبول فرمائی ہیں لیکن زنا کے لیے چار ضروری ہیں۔ عقل و منطق یہاں آپ کے لیے کہاں فائدہ مند رہی؟ اور پھر پوچھا بتایئے خدا کے یہاں روزہ بڑا ہے یا نماز؟ عقلیت پسند مفتی نے کہا نماز، انھوں نے فرمایا عورت حیض سے فراغت کے بعد روزوں کی قضا کرتی ہے لیکن نماز کی نہیں ،معلوم ہوا کہ صرف عقل کی بنیاد پر مذہبی امور کے فیصلے اور ان کی حکمت معلوم کرنا ممکن نہیں۔

    حضرت عباسؓ نے خارجیوں سے گفتگو کی تو ان کے عقلی دلائل کا اس خوبصورتی سے ایمانی و عرفانی جواب دیا کہ وہ دنگ رہ گئے۔ حضرت عباسؓ بتاتے ہیں کہ خارجیوں نے ان سے کہا کہ ہمیں حضرت علیؓ کی تین باتیں بہت بری لگیں۔ وہ یہ کہ حَکمَ انھوں نے آدمیوں کوبنایا جب کہ حکمِ خدا وندی ہے:
    [pullquote]اِنِ الْحُکْمُ اِلَّالِلّٰہِ[/pullquote]
    [حکم تو اللہ ہی کاہے]

    میں نے کہا کہ خرگوش کے سلسلے میں چوتھائی درہم کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی نے بندوں کے سپرد کیا اور انھیں حَکَم بنادیا ہے۔ جواب میں اس آیت کریم کی طرف اشارہ ہے:
    [pullquote] فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ۔[پارہ ۷، المائدہ][/pullquote]

    تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ جیسا اس نے قتل کیا ویساہی جانور دے اور تم میں کے دو ثقہ اس کا فیصلہ کریں۔ احرام پہنے ہوئے حاجی کے شکار سے متعلق یہ حکم ہے یعنی اگر خرگوش کو حالت احرام میں شکار کیا تو بدلے میں خرگوش ہی دینا ہوگا۔اور زوجین کے بارے میں قرآن حکیم میں ہے: فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا[پ۵، النساء] [ایک حکم مرد والوں کی طرف سے اور ایک عورت والوں کی طرف سے بھیجو]

    خرگوش، زوجین اور بندے کے معاملات میں حَکمَ بنانا افضل ہے اور امت کے معاملات میںجس سے خوں ریزی بند ہو کر اختلاف اتحاد و اتفاق میں تبدیل ہو جائے ؟ کیا وہاں حَکمَ نہ بنانا افضل ہوسکتا ہے؟ انھوں نے کہا ہاں صحیح ہے!
    دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انھوں نے امیر المومنین بننے سے توقف کیا اور علیحدہ رہے وہ امیر الکافرین ہیں [معاذ اللہ] میں نے کہا اگر قرآن و سنت سے میں سے دلیل دوں تو مان لو گے؟ انھوں نے کہا ہاں! میں نے کہا میں نے سنا ہے اور میرا خیال ہے کہ تمھیں بھی معلوم ہو گا کہ صلح حدیبیہ کے روز سہیل بن عمرو کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو ہوئی تو آپ نے حضرت علی سے کہا لکھیے:
    [pullquote]’’ھذا ما صالح علیہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘[/pullquote]

    ان سبھوں نے کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مان لیں تو جنگ ہی نہ کریں۔ آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: علیؓ! اسے مٹا دو   ابن عباسؓ نے کہا کیا میں تمھاری اس بات کا جواب دے دیا ان سبھوں نے کہا ہاں!
    

    اب رہا جنگِ جمل و صفین کے بارے میں تمھارا یہ کہنا کہ انھوں نے قتال کیا لیکن قیدی نہ بنائے اور نہ مال غنیمت حاصل کیا۔ کیا تم اپنی ماؤں کو قیدی بنا کر دوسری عورتوں کی طرح انھیں بھی اپنے لیے حلال سمجھو گے؟ اگر ہاں کہو گے تو انکار کتاب اللہ کرو گے اور اسلام سے نکل جاؤ گے۔ اب تم دو گمراہیوں کے درمیان گھر گئے ہو۔

    کوئی بھی چیز پیش کرکے میں کہتاکیا اس سے نکل گیا؟ وہ کہتے ہاں! اس طرح ان میں سے دو ہزار خارجی ہمارے ساتھ واپس آگئے اور صرف چھ سو باقی رہ گئے۔ تفصیل کے لیے اعلام الموقعین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔خارجی قتل و غارت گری اور اپنے مخالفین کی خونریزی میں مشہور تھے لیکن جب حق و صواب اور حکمت و موعظت کے ساتھ ان سے گفتگو کی گئی تو ان میں سے اکثر قبول حق پر آمادہ ہوگئے اور جب انھیں قرآن حکیم پڑھ کر سنایا گیا تو انھوں نے اس سے عبرت و نصیحت حاصل کی۔ انھیں مناسب طریقہ سے گفتگو کی دعوت دی گئی تو کھلے دل کے ساتھ انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی۔ جب متشدد لوگوں کو دعوت ونصیحت اورنرمی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے تو عہد حاضر کے ملحد، بے دین، دین بے زار اور متشکک لوگوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔

    عصر حاضر کا مسئلہ یہ ہے کہ فقہا، متکلمین واعظین علماء نے لا ادری کہنا ترک کردیاہے لہٰذا وہ ہر مسئلے کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کی درست رہنمائی سے قاصر رہتے ہیں۔ نائیک صاحب نہایت اخلاص کے ساتھ ادھورے علم کے ذریعے امت کی اصلاح کے لیے نکلے ہیں کاش وہ کہہ سکتے کہ لا ادری تو اس بڑی ذمہ داری سے بچ جاتے جسے انھوں نے رضا کارانہ طور پر خود قبول کرلیا ہے ایک ایسی ذمہ داری جو امت کے لیے مصائب کے نئے دریچے کھول رہی ہے۔

    اعتراضات کرنے والے قسم قسم کے اعتراض کرسکتے ہیں مثلاً سورۂ نحل کی آیت:
    [pullquote]وَ اللہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَتِ اللہ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ [۱۶:۷۲][/pullquote]

    میں اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور پوتوں کا ذکر کیوں کیا ہے؟ بیٹی اور نواسوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟اور نواسوں کا ذکر بھی کیوں نواسیوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ یہ تو صریحاً صنفی امتیاز محسوس ہوتا ہے [نعوذ باللہ]، جب آپ عہد حاضر کے غالب تعقل کی روشنی میں چیزوں کو ایک خاص زاویے، خاص نقطۂ نظراور خاص ما بعد الطبیعیات کے ذریعے پرکھتے ہیں تو اسی قسم کے کمالات، تحقیقات ،ایجادات اور اکتشافات کادریچہ وا ہوتا ہے اور سائنسی، منطقی، تجربی، حسی اور طبعی ذہن قرآنی دلیل کو سمجھنے سے قاصر رہتاہے۔ معترض یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں کہا ہے کہ یہ پہاڑ میخیں ہیں جو زمین کو ڈھلکنے سے روکے ہوئے ہے:
    [pullquote] ضَرَبَ اللہ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْکًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْئٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَھُوَ یُنْفِقُ مِنْہُ سِرًّا وَّ جَھْرًا ھَلْ یَسْتَونَ اَلْحَمْدُ لِلہ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ ضَرَبَ اللہ مَثَلًا رَّجُلَیْنِ اَحَدُھُمَآ اَبْکَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْئٍ وَّ ھُوَ کَلٌّ عَلٰی مَوْلٰہُ اَیْنَمَا یُوَجِّھْہُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ ھَلْ یَسْتَوِیْ ھُوَ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ ھُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ [۱۶:۷۵،۷۶][/pullquote]

    لیکن دیکھیے دنیا میں ہزاروں پہاڑ کاٹ دیے گئے اگر پہاڑوں کو کاٹا نہ جائے تو اس میں سے معدنیات کے ذخائر یعنی پتھروں کی انواع و اقسام سے کیسے فیض اٹھایا جائے ؟ظاہر ہے نائیک صاحب یہاں کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔وہ یہ اعتراض بھی اٹھا سکتا ہے کہ سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے گھوڑے اور خچر پیداکیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمھاری زندگی کی رونق بنیں [۱۶:۸]لیکن عہد حاضر میں تو جدید تہذیب و تمدن کے ظہور کے بعد گھوڑے اور خچر تو زینت حیات دنیا ہی نہیں رہے، دنیا کے اکثر حصوں میں علمائے دین بھی گدھے اور گھوڑے پر سواری کو قابل عزت شے نہیں سمجھتے کیا آپ ’’شیخ الاسلام ‘‘کا اکرام اس طرح کریں گے کہ انھیں گھوڑے یا گدھے پر بٹھا کر لے جائیں ؟بہ ظاہر یہ اعتراض درست لگتا ہے کیونکہ عصر حاضر کے تعقل نے عیش و عشرت اور سہولت کی جو سواریاں پیدا کی ہیں ان کے سامنے گھوڑے اور گدھے واقعی حیات دنیاکی زینت نظر نہیں آتے اور کسی عالم کو خچریا گدھے پر سواری کی دعوت دینا جدید حسی ذہن کو فی الواقع توہین نظر آئے گا، کیونکہ یہ طرز عمل عہد حاضر کے غالب طرز تعقل کے خلاف ہے، مگر یہ نظر کا قصور ہے، برطانیہ کی ملکہ سعودی عرب کے شاہ کے خصوصی استقبال کے لیے شاہی بگھی میں لے کر انھیں بکنگھم پیلس جاتی ہے تو پوری دنیا اور خود شہنشاہ اسے خصوصی اکرام و اعزاز سمجھتے ہیں کیونکہ یہ تعظیم عہد حاضر کے تعقل سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے، قرآن بتاتا ہے کہ جانوروں میں تمھارے لیے جمال ہے جب کہ تم صبح انھیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جب کہ شام انھیں واپس لاتے ہو [۱۶:۶] لیکن عہد حاضر کے فلسفۂ جمال میں جانور وں کے اس حسن، کمال اور جمال کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے فلیٹ شہر اور جانور ایک ساتھ نہیں رہ سکتے جدید طرز زندگی فطری حقیقی اصل طرز زندگی کو باقی ہی نہیں رہنے دیتا نہ شہروں میں باغات میں نہ کھیت نہ چراگاہیں تو جانور کیسے رہیں گے اور اس کا حسن و جمال کون دیکھے گا؟ لہٰذا جمالیات کے نئے نظریات میں اس فطری حسن و جمال کا کوئی ذکر نہیں ہوتا لیکن عید قربان کے موقعے پر پوری امت اور اس کے امراء عالیشان محلوں میں رہنے والے متکبرین کے بچے جانوروں کے جمال سے جس طرح لطف اٹھاتے ہیں اور ان کے ساتھ جس طرح وقت گزارتے ہیں وہ اس آیت کی سچائی کی محکم دلیل ہے مگر سائنسی ذہن اس دلیل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

    واقعہ یہ ہے کہ صرف عقل کی بنیاد پر کسی کو دین و ایمان کی توفیق نہیں ملتی یہ توفیق انھیں ملتی ہے جو عقل کے ذریعے کسی حقیقت کو پالینے کے بعد قلب میں تبدیلی محسوس کرتے ہیں تو انھیں ایمان کی توفیق نصیب ہو جاتی ہے، عقل صرف سوچنے کا ذریعہ ہے وہ حقیقت کو پانے والے ، ڈھونڈنے والے آلات [Instruments] میں سے ایک آلہ ہے یہ آلہ خود مطلوب و مقصود نہیں ہے۔ کفار مکہ نے علم،عقل اور فطرت کے آلات کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصل بیت اللہ کو پہچان لیا تھا قرآن کے الفاظ میں مشرکین مکہ اور اہل کتاب ذات رسالت مآبؐ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے اسی طرح وہ بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کی اصلیت سے بھی واقف تھے لیکن ان کے قلب نے انکا رکردیا ان کے نفس نے تعقل قلبی سے استفادہ نہیں کیا وہ خواہش نفس کے اِلہٰ کی پرستش میں مبتلا رہے۔ قلب اس تفکر کو گہرائیوں کے ساتھ ایمان کے قالب میں ڈھالنے کا وسیلہ ہے، اس لیے پیغمبر جب بھی آتے ہیں لوگوں کے قلوب کو بدلتے ہیں ،ان کے فواد کو مخاطب کرتے ہیں، ان کے دروازۂ دل پر دستک دیتے ہیں، ان کے دل کی دنیا بدلنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ قرآن کے الفاظ میں ’’ایک شخص کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے‘‘ لہٰذا اس ایک دل کو خالق حقیقی کے لیے خالِص کردینا پیغمبروں کی کوشش ہوتی ہے۔ منافقین بہ ظاہرایمان لے آئے تھے مگر ان کے ایمان کو اللہ نے تسلیم نہیں کیا انھوں نے رسالت مآبؐ کا انکار نہیں کیا لیکن دل سے آپ کی تصدیق نہیں کی، اسی لیے قرآن نے ارشاد کیا کہ یہ منہ سے کہتے ہیں مگر دل سے ایمان نہیں لاتے:
    [pullquote] یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَ یُمَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہ یَقُولُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْ تَوْہُ فَاحْذَرُوْا وَمَنْ یُّرِدِ اللہ فِتْنَتَہ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہ مِنَ اللہ شَیْئًا اُولٰئکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللہ اَنْ یُّطَھِّرَ قُلُوْبَھُمْ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ [۵:۴۱][/pullquote]

    اگر ایمان عقلی دلائل پر منحصر ہوتا تو اہل کتاب ایمان لے آتے، قرآن کے الفاظ میںوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جس طر ح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں وہ عقلی طور پر آپ کی بعثت سے متفق تھے لیکن ان کا دل اسے تسلیم نہیں کرتا تھا ،ان کی خواہش نفس اور تکبر ضد اور اپنی قوم کی عظمت اس عقلی دلیل کو قلبی دلیل میں تبدیل کرنے پر آمادہ نہ تھی، لہٰذا عقلی یقین کے باوجود وہ آخر تک قلبی یقین سے محروم رہے اور دنیا وآخرت دونوں برباد کرلی۔ اسی لیے قرآن نے واضح کردیا کہ جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلیا اس پر اللہ کا غضب ہے:
    [pullquote]مَنْ کَفَرَ بِاللہ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہ وَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ [۱۶:۱۰۶]۔[/pullquote]

    ابو جہل کعبہ کے پردوںمیں چھپ کر قرآن سنتا تھا اس کا دل پگھل جاتا تھا لیکن اس کا تکبر آڑے آتاتھا کہ یہ قرآن اس شہر کے دو بڑے آدمیوں پر کیوں نہیں اترا؟

    سورۃ انبیاء میں حضرت ابراہیم اور اس عبادت گاہ کے مقتدیوں کا مکالمہ آیت ۵۹ تا ۶۷ میں تفصیل سے آیا ہے، جب حضرت ابراہیمؑ نے تمام بتوں کو ریزہ ریزہ کردیااور کفار مندر میں عبادت کے لیے گئے تو بڑے ناراض ہو ئے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ ظلم کس نے کیا، انھیںبتایا گیاکہ ایک نوجوان ابراہیم ہے جو بتوں کو برا بھلا کہتا ہے انھیں لوگوں کی موجودگی میں طلب کیا گیا اور سوال حضرت ابراہیمؑ سے یہ پوچھا گیا کہ: 
    

    قَا[pullquote]لُوْا ئَ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا یٰاِبْرٰھِیْمُ [سورۂ الانبیاء:۶۲] [/pullquote]

    ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام تم نے کیا؟
    [pullquote] قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْئَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ [سورۂ الانبیاء:۶۳] [/pullquote]

    آپ نے فرمایا ’’ان کے بڑے بت سے معلوم کرو اگر یہ بولتے ہوں‘‘۔
    کفار اس عقلی دلیل پر ششدر ہوگئے:
    [pullquote] فَرَجَعوْا اِلٰی اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْا اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ[الانبیاء:۶۴][/pullquote]

    اور آپس میں کہنے لگے بیشک ہم ہی ظالم ہیں
    [pullquote]: ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئوْسِھِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ھٰولَآء یَنْطِقُوْنَ [الانبیاء:۶۵][/pullquote]

    پھر شرمندہ ہو کر سر نیچا کرلیا او رکہنے لگے تم جانتے تو ہو کہ یہ بولتے نہیں اس پرحضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ پھر تم اللہ کو چھوڑ کر کیوں ایسے بتوں کو پوجتے ہو جونہ تمھیں کوئی فائدہ دے سکیں نہ نقصان پہنچا سکیں ؟کفار عقلی طور پر مطمئن تھے لیکن قلبی طور پرمطمئن نہ تھے۔قلب اور فواد جب تک عقل کا ساتھ نہ دیں ایمان کی توفیق نہیں ملتی اس لیے انبیاء لوگوں کے قلوب کو تسخیر کرتے ہیں۔ دلوں کو فتح کرنا ہی اصل فتح ہے عقل تو آسانی سے مغلوب ہوجاتی ہے لیکن عقل سے قلب تک کا فاصلہ جو بہت مختصر ہے دنیا کا طویل ترین راستہ ہے، مشرکین مکہ کو نبوت اور رسالت سے انکار نہیں تھا وہ تو پیغمبر کے منتظر تھے لیکن ان کا اعتراض یہ تھا کہ یہ نبوت بنی ہاشم کو کیوںعطا کی گئی؟ ان کا اعتراض صرف یہ تھا کہ ’’کہتے ہیں یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ اترا کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں‘‘[الزخرف آیت ۳۱] وہ قرآن اور نبوت کا نزول طائف اور مکہ کے کسی رجل رشید پر چاہتے تھے لیکن رحمت الٰہی کفار مشرکین کی خواہش سے تقسیم نہیں ہوتی۔ انبیاء اور ان کے صحابہ کی اپنی امتوں سے ٹوٹ کر محبت اس راستے کو طے کرتی ہے یہ محبت ہی کفار کے قلوب بدلنے کا ذریعہ بنتی ہے یہ محبت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسالت مآبؐ اور صحابہ کرام کو ہدایت فرماتے ہیں کہ :
    [pullquote]ھانتم اولاء تُحبونھُم ولا یحبونکم مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ [سورۂ ال عمران:۱۱۹][/pullquote]

    تم ان سے محبت رکھتے ہو لیکن وہ تم سے محبت نہیں رکھتے، رسالت مآبؐ یعنی رحمت اللعالمین کو اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ اے نبی کفار اور منافقین کے ساتھ سختی سے پیش آئیے: [pullquote]یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ [سورۂ التوبہ: ۷۳][/pullquote]

    (ظفر اقبال،باب ۱۱، عقلی موشگافیاں اور دینی مزاج،ص۳۴۹ تا ۳۷)

  • کیا کفر و ضلالت مبنی بر ”دلالت“ ہے؟ محمد تہامی بشر علوی

    کیا کفر و ضلالت مبنی بر ”دلالت“ ہے؟ محمد تہامی بشر علوی

    محمد تہامی علوی بشر احباب گمرہی کا رشتہ ”دلالت“ سے جوڑ بیٹھے. کہا گیا کہ جہاں دلالت قطعی ہوگی اس کا انکار کفر ہوگا، اور جہاں ظنی ہوگی وہاں حکم بتدریج کم ہوتا جائےگا. مکتب فراہی چوں کہ دلالت کو قطعی مانتا ہے، اب یا تو اس قطعی مفہوم کے منکرین کو کافر کہے یا مان جائے کہ کلام کی دلالت ہر جگہ قطعی نہیں ہے. پھر مثال چپکائی گئی کہ
    [pullquote]”لا مطاع و لا معبود الااللہ“ [/pullquote]

    کا مفہوم قطعی مدلول کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا ماننا لازم اور انکار کفر ہے. جبکہ
    [pullquote]”لا موجود الا اللہ[/pullquote]

    “ کا مفہوم ظنی مدلول کی حیثیت کا حامل ہے، اس کا انکار کفر نہیں.
    دیکھیے،
    یہ عرض کیا گیا تھا کہ دلالت کی یہ تقسیم اصلا اسی تناظرمیں کی گئی ہے، سردست اس پر کلام مقصود نہیں، اتنا ذہن میں رہے کہ یہاں ”نفس کلام“ کا مقام و مرتبہ کا تعین اصلا موضوع بحث نہیں. اس نکتہ پر دماغ کھپانا مستحب جانتے ہوئے آگے بڑھیے کہ
    قرآن مجید میں الشمس، القمر، الخمر، وغیرہ الفاظ اپنا قطعی مدلول رکھتے ہیں، ان کے قطعی مدلول تک فہم انسانی کی رسائی اجتماعی طور پر ہو چکی.
    اب بالفرض کوئی کہے کہ
    ”میں سرے سے سورج کو ہی نہیں مانتا، میرے نزدیک خمر اپنا وجود ہی نہیں رکھتی، یا میں القمر کے مدلول کو تسلیم نہیں کرتا.“
    تو اس کی تکفیر کا حوصلہ شاید ہی کوئی کر پائے.

    قرآنی الفاظ کے قطعی مدلولات سے ہٹ جائیے، قرآنی آیات کا انتخاب کیجیے، میں مثال کے طور پر یہ آیت آپ کے تدبر کی خاطر پیش کیے دیتا ہوں، آپ چاہیں تو مثالیں بڑھا بھی سکتے ہیں.
    [pullquote]”لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر“[/pullquote]

    یعنی سورج و چاند اپنی گردش میں ایک دوسرے سے ٹکرا نہیں سکتے.
    اس قطعی مدلول کا کوئی شخص فرض کیجیے انکار کر ڈالے اور کہہ اٹھے کہ سورج چاند سے ٹکرا سکتا ہے تو کہیے کون اس کو کافر کہنے کی جسارت کر پائے گا؟

    برمحل یاد آیا، سنتے جائیے کہ ”امی“ کا قطعی معنی اب بھی ظاہر و باہر ہے. اہل عشق اس لفظ میں معاذاللہ تنقیص رسالت کی بو پا کر اس قطعی معنی کو قبول کرنے کو قطعی طور پر آمادہ نہ ہوئے. ان کا عشق رسالت رسول سے ”لکھنا پڑھنا“ جاننا منوا کر رہا. ”عشاق“ آج بھی رسول کو ”لکھنا پڑھنا“ جانتا مانتے اور ”امی“ کی ”عشق چاہی“ تاویل کر کے رہتے ہیں. یہی نہیں رسول سے ”لکھنے پڑھنے“ کی نفی کو گستاخی جانتے ہیں. گزرے زمانوں میں جب یہ کہا گیا کہ رسول خدا لکھنا پڑھنا جانتے تھے، امت کے ایک فقیہ سے رہا نہ گیا، ان کا یہ فتوی صادر ہو کر رہا کہ ”رسول اللہ کو پڑھا لکھا ماننا، نص قطعی (النبی الامی) کا انکار اور کفر ہے.“ حوالہ اطمینان مزید کے لیے پھر تلاش کرکے سامنے رکھنے کی کوشش کی جائے گی. آگاہ رہیے کہ کفرو ضلالت کا ناتا محض دلالت سے جوڑنا ہمارے نزدیک کسی طرح درست نہیں.

    دل چاہتا ہے کہ ہم پہلے ہدایت پانے کا ڈھب خود سیکھ کر خدا کے بندوں کو سکھا لیں، کہ ہم مکلف اسی کے ہیں. پھر جو جو اس ہدایت کو نہ جان یا مان سکے ان پر حکم لگانے کی بھی ٹھانتے ہیں. یقینا ہدایت و ضلالت کے پیمانے ہم اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں بوقت ضرورت احباب کو آشنا کر کے رہیں گے، ابھی اتنا جانیے کہ وہ پیمانے محض ”دلالت“ کے سوا ہیں.

    مکرر عرض ہے کہ دلالت کی بحث کا اصل سیاق دریافت کرنے پر ذہنی مشقت گوارا کی جائے. ورنہ دماغوں کو مسائل نظری میں الجھ جانے سے کوئی مائی کا لعل روک سکا نہ روک سکے گا.

  • خلافت و ملوکیت اور مولانا مودودی (رح) کی سیاسی فکر، اصل مسئلہ – محمد زاہد صدیق

    خلافت و ملوکیت اور مولانا مودودی (رح) کی سیاسی فکر، اصل مسئلہ – محمد زاہد صدیق

    زاہد مغل مولانا مودودی (رح) کی ”خلافت و ملوکیت“ پر گرما گرم بحث کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ یہ موضوع جس قدر احتیاط کا متقاضی ہے، بدقسمتی سے اس کتاب میں مولانا کا انداز بیان اور تجزیہ اس احتیاط کو ملحوظ نہ رکھ سکا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب میں اختیار کردہ طریق تجزیہ کی بنیادی خامیوں کی طرف اشارہ کردیا جائے۔

    تجدد پسندانہ تجزیے کی روش
    تجدد پسندانہ رویہ فہم حقیقت میں تاریخی تسلسل کا انکار کرکے اس سے ماوراء اصولوں کو اختیار کر لینے کا دعوی و دعوت ہوتی ہے۔ یہ لازم نہیں کہ ایک شخص کی فکر کا ہر ہر پہلو ہی تجدد پسندانہ ہو، بعض پہلوئوں میں وہ روایت پسند اور بعض میں تجدد پسند رویہ اختیار کرسکتا ہے، مگر عمومی حکم اس کے مجموعی نظام فکر اور اس کے اصولوں کی بنا پر لگایا جاتا ہے۔ مولانا مودودی (رح) کی فکر کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ اگر اسلامی تعلیمات کو عقائد، عبادات، معاشرتی، معاشی و سیاسی احکامات میں تقسیم کرلیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا مودودی (رح) سرسید کی طرح عقائد کی تشریح نوع کے قائل نہیں، نہ ہی وہ عبادات کی اہمیت کو کسی طور کم کرتے ہیں۔ معاشرتی و معاشی احکامات سے متعلق ان کی نمائندہ کتب ”پردہ“ و ”سود“ کو دیکھا جائے تو یہاں بھی مولانا ایک ٹھیٹ عالم کی طرز پر روایتی تعبیر اسلام کی حمایت کرتے دکھائی دیں گے۔ ان کتب میں اپنے مؤقف کے حق میں مولانا جا بجا فقہاء کے حوالے پیش کرتے دکھائی دیں گے۔ اس کے برعکس اگر آپ مولانا کی سیاسی فکر کا مطالعہ کریں تو حیران کن طور پر اس کی حمایت میں مولانا کسی مسلم سیاسی مفکر کا قول پیش نہیں کرپاتے بلکہ براہ راست قرآن و حدیث سے استدلال کرکے اصول وضع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ مولانا کی سیاسی فکر مسلم سیاسی مفکرین کی فکر کا تسلسل نہیں، اس معاملے میں وہ اسلامی تاریخ کو رد کرتے ہیں۔

    جب آپ تاریخ کو رد کرتے ہیں تو خود کو معروضی طرز تجزیہ اختیار کرنے پر مجبور پاتے ہیں اور معروضیت صرف اور صرف آپ کی حاضر و موجود واقعیت (facticity) کا نام ہوتا ہے۔ چنانچہ مولانا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، سیاسی فکر میں تاریخی مسلم مفکرین کو رد کرنے کے بعد ان کے سامنے اپنے دور ہی کے سیاسی آئیڈئیلز تھے جن میں سے بعض کو انہوں نے معروضیت کے نام پر قبول کرکے پوری اسلامی تاریخ پر حکم لگانا شروع کردیا۔ یہی ان کی فکر کی بنیادی غلطی تھی اور یہ بعینہہ وہی غلطی ہے جس کا شکار ہر وہ جدید مسلم مفکر ہوتا ہے جو تاریخ سے اوپر اٹھ کر اسلام کے معروضی تجزیے کی اس طرح کوشش کرتا ہے، گویا آج وہ پہلا انسان ہے جو اسلام کو سمجھنے بیٹھا ہے۔

    بنیادی تصورات کی عدم تنقیح
    ملوکیت جسے ”شرعا مذموم“ کہا جاتا ہے وہ کسی انتظامی ڈھانچے کا نام نہیں بلکہ کسی فرد واحد یا خاندان یا تاریخی روایت سے جنم لینے والے ارادے کے ماخذ قانون ہونے کا نام ہے۔ جب ایک فرد کی جگہ لوگوں کا اجتماعی ارادہ یہی پوزیشن اختیار کرلے تو اسے دنیا جمہوریت کہتی ہے اور یہ بھی شرعا اتنی ہی مذموم شے ہے جتنی ملوکیت۔ قرآن و حدیث میں جہاں بھی ملوکیت کی مذمت آئی ہے، انھی معنی میں آئی ہے ورنہ انتظامی سٹرکچر کے معنی میں تو بہتیرے انبیاء بھی ازروئے قرآن ملوک گزرے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں دکھایا جاسکتا جب بادشاہ کے حکم کو ماخذ قانون مان لیا گیا ہو اور عدالتوں نے اسی بنیاد پر فصل نزاع شروع کردیا ہو۔ اموی دور سے لے کر سلطنت عثمانیہ و مغل تک میں قانون کا ماخذ بلا کسی تعطل شرع ہی رہا۔ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی بادشاہ نے امام ابو یوسف و امام مالک کی آراء کے بجائے ارسطو کی ریپبلک، کسی دوسرے یونانی و رومی ماخذ یا ہیومن رائٹس نامی کسی مقدس صحیفے کو اخذ احکام کا درجہ دینے کی خواہش کی ہو (صرف اکبر کے یہاں ایسی محدود کوشش دکھائی دیتی ہے جو ناکام ہوئی)۔

    اسلامی تاریخ میں اگر اس امر کی کچھ مثالیں ملتی ہیں جہاں بادشاہ یا حکمران طبقے نے شرعی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اپنی بات منوالی ہو یا اپنے مفاد کے لیے کوئی خلاف شرع فیصلہ نافذ کردیا ہو تو ان کے ایسے فیصلوں اور اعمال کو ”ایک جرم“ کے طور پر دیکھا گیا اور آج بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس قسم کی مثالیں تو مولانا مودودی (رح) کے ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں بھی شب و روز دیکھنے کو ملتی ہیں تو کیا یہ کہنا جائز ہوگا کہ یہاں اسی جاہلیت قدیمہ کا راج ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل تھا؟

    مولانا کی کتاب میں ملوکیت کے معنی کی یہ بنیادی تنقیح موجود نہیں اور وہ اسے ایک انتظامی شے فرض کرکے تجزیہ کرتے چلے گئے۔ یہی وہ بنیادی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے مولانا اس غلط نتیجے تک پہنچے کہ خلافت راشدہ کے بعد خلافت ختم ہوکر جاہلیت لوٹ آئی (لاحول ولا قوۃ)۔ خلافت راشدہ اسلام کا مثالی تصور ہے لیکن مثالی تصور معدوم ہوجانے کے بعد جاہلیت غالب نہیں آگئی تھی۔ خلافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی نیابت کا نام ہے اور اس میں مثالی سے لے کر بہتر و کم تر کے درجات کا تفاوت موجود ہے (جنہیں علماء نے سلطنت عادلہ، ضالہ وغیرہ جیسے مختلف درجات میں بیان کیا ہے)۔ مولانا نے اس معاملے کو بلیک اینڈ وائٹ میں تقسیم کرکے خلافت راشدہ کے بعد یکدم جاہلیت کے پلٹ آنے پر محمول کرلیا۔ اگر مولانا مسلم سیاسی مفکرین کو رد کرنے کے بجائے ان کی آراء کو لائق التفات سمجھتے تو اس سنگین غلطی سے بچ جاتے۔

    خلافت و ملوکیت کی بحث میں ایک بنیادی خلط مبحث یہی ہے کہ خلافت ان معنی میں ملوکیت میں تبدیل ہوگئی تھی کہ خلافت سرے سے معدوم ہوگئی۔ مگر یہ دعوی غلط ہے کیونکہ جو چیز خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہوئی وہ خلافت راشدہ تھی نہ کہ خلافت۔ خلافت سیاسی اقتدار کی ایسی تشکیل کا نام ہے جس میں فیصلوں کا صدور و نفاذ (معاشرتی پالیسی سازی) شرع کی بنیاد پر قائم ہو اور اسلامی تاریخ میں یہ نظم خلافت راشدہ سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک قائم رہا۔ اب کوئی اسے خلافت کا نام دے یا سلطنت کا، نفس امر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو کچھ امریکہ میں قائم ہے اسے بھی جمہوریت کہتے ہیں اور ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں قائم نظم کو بھی جمہوریت ہی کہا جاتا ہے۔ جس طرح جمہوریت کا لیول فکسڈ نہیں ہوتا اور نہ ہی وقت گزرنے کے ساتھ ایک ہی جہت (ترقی یا زوال) میں سفر کرتا ہے، یہی حال خلافت کا بھی ہوتا ہے جس کا اظہار اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں کم و زیادہ ہوتا رہا۔ عین اسی ”ملوکیت“ میں عبد اللہ بن زبیر (رح) جیسے معیاری خلفاء بھی آتے رہے۔

    خلافت راشدہ کا زوال خلافت کے اعلی ترین سطح کا زوال تھا، جہاں خلیفہ کا چناؤ ارباب حل و عقد کے پاس محفوظ ہوتا، جہاں کسی خلیفہ نے ادنی درجے میں بھی سیاسی اختیارات کو اپنے ذاتی مفادات، یہاں تک کہ جائز، کے لیے بھی استعمال نہ کیا۔ تین خلفاء شہید کردیے گئے مگر کسی نے سرکاری اموال سے اپنی سیکیورٹی رکھنا روا نہ رکھا اور اسی طرح جائز معیار زندگی کے لیے بھی بیت المال سے التفات نہ کیا۔ الغرض خلافت راشدہ امور ریاست کے تمام فیصلوں میں اسی طرز کی اعلی ترین خدا خوفی و تقوے کے اظہار کا نام تھا جہاں سیاست کا مقصد صرف اور صرف رسول اللہﷺ کی سیاسی نیابت تھا اور بس۔ تقوے کا یہ معیاری لیول صحابہ کو رسول اللہﷺ کی معیت کی وجہ سے دستیاب ہوا تھا، جوں جوں اسلام میں نئے آنے والوں کی آمد کا سلسلہ تیز ہوا معاشرے میں تقوے کا وہ معیاری لیول کم ہوتا چلا گیا۔ خلافت راشدہ (معیاری ریاستی تشکیل) کا زوال اسی معیاری انفرادیت و معاشرت کے زوال کا اظہار تھا کہ کوئی نظم ریاست اسی قدر ممکن و مضبوط ہوتا ہے جس قدر اسے سپورٹ کرنے والی معاشرت و انفرادیت عام ہو۔ یہ اسی طرح ہے کہ صحابہ کا ایمان اگر مثالی تھا تو صحابہ سے کمتر ایمان والے اور ہم جیسے گنہاگار بھی قانونا ایمان والے ہی ہیں نہ کہ جاھلیت قدیمہ کے پیروکار۔

    ”خلافت و ملوکیت“ کی مبہم میتھاڈولوجی
    ”نظام“ مولانا مودودی (رح) کی فکر کا ایک بنیادی تصور ہے۔ اس تصور کو استعمال کرتے ہوئے مولانا خلافت سے ملوکیت کے سفر کی سیاسی و معاشرتی توجیہہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے مولانا معروف سوشل سائنس کے ماہرین کی طرح کوئی سوشیالوجسٹ نہ تھے بلکہ اس معاشرتی توجیہہ میں وہ نصوص میں وارد ہونے والے حقائق کا بھی لحاظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ”سیاست شرعیہ“ کے باب میں مولانا اور قدیم مسلم مفکرین کے قائم کردہ سوال و طریقہ تجزیہ میں بنیادی فرق کیا تھا اس پر بعد میں گفتگو کریں گے، فی الوقت یہ کہنا مقصود ہے کہ مولانا اپنے طریقہ تجزیہ میں اپنے انداز فکر کے منطقی مضمرات کو ھم آھنگی سے اپلائی نہیں کرپائے۔

    چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا ملوکیت کی ابتداء حضرت عثمان غنی (رض) کے ”دور حکومت“ میں لیے جانے والے ان فیصلوں سے دکھاتے ہیں جو آپ نے بطور ”حکمران“ کیے اور ان کے خیال میں تبدیلی کا یہ سیاسی سفر حضرت امیر معاویہ (رض) کے ”دور حکومت“ میں ہونے والے ان فیصلوں میں مکمل ہوگیا جو انہوں نے بطور ”حکمران“ کیے۔ یہاں ”دور حکومت“ اور ”حکمران“ پر توجہ رہے۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ ان دو حضرات کے ”دور حکومت“ کے درمیان حضرت علی کرم اللہ وجہ (رض) کا دور حکومت بھی تھا۔ اگر مولانا کے معاشرتی تبدیلی کے نظاماتی ماڈل کی بنیادوں کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت علی (رض) کے ”دور حکومت“ کا مطالعہ کیا جائے تو جن بنیادوں پر وہ تبدیلی کے اس عمل کا آغاز حضرت عثمان (رض) کے ”دور حکومت“ میں دکھاتے ہیں حضرت علی (رض) کا ”دور حکومت“ بھی انہی کا تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا سیاسی تبدیلی کے اپنے نظاماتی ماڈل کو ایک طرف رکھ کر نصوص کی پناہ اختیار کرکے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے بارے میں نصوص میں جو فضائل بیان ہوئے ہیں ان کے پیش نظر وہ ایسی توجہیات کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے ان کی طرف کسی قسم کی بدنیتی کی نسبت پیدا ہوتی ہو، حالانکہ تاریخی روایات کے مطابق وہ تمام فیصلے حضرت علی (رض) کی طرف بطور ”حکمران“ ہی منسوب ہیں۔ اب یہ بات تو عجیب تر ہوگی کہ حضرت عثمان و امیر معاویہ کے دور حکومت کے فیصلوں کے لیے ”حکمران پارٹی“ کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے مگر حضرت علی کے دور حکومت کے ایسے ہی فیصلوں کو گویا ”حزب اختلاف“ کے سر ڈال دیا جائے۔ ظاہر ہے اسے سیاسی چالاکی توکہا جاسکتا ہے مگر کوئی علمی معاشرتی توجیہہ نہیں۔

    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک معاشرتی تبدیلی کے ماڈل کی ایسی توجیہ آپ کے لیے اس لیے قابل قبول نہیں کہ وہ حضرت علی (رض) کے شایان شان نہیں تو بعینہ وہی توجیہ آپ حضرت عثمان (رض) و دیگر بہت سے صحابہ کے لیے کس طرح قبول کرلیتے ہیں؟ اگر ایک جگہ آپ نصوص کو معاشرتی تبدیلی کے عمل کے اپنے قائم کردہ اصولوں پر ترجیح دیتے ہیں تو دوسری جگہ یہ اصول کس دلیل کی بنا پر چھوڑ دیتے ہیں؟ اس بارے میں مولانا کوئی واضح جواب نہیں دیتے۔ مولانا کی ”خلافت و ملوکیت“ کی میتھاڈولوجی میں یہ بنیادی عدم ہم آہنگی اور ابہام غلط نتائج کا باعث بنے۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ تاریخ محض واقعات کو بیان کردینے کا نام نہیں ہوتا بلکہ تاریخ کا معنی مخصوص انداز فکر کے اندر واقعات کو معنی دینے کا نام ہوتا ہے۔ معنی دینے کے اس عمل میں چند اصولوں کا ہم آھنگی سے لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے مگر مولانا اس کتاب میں یہ نہ کرسکے۔

    ان سب گزارشات سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے ہم مولانا کی علمی حیثیت اور دینی خدمات کے قائل نہیں۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ جب کبھی بیسویں صدی کے نامور متکلمین اسلام کی فہرست مرتب کی جائے گی تو فہرست میں مولانا کا نام بیسویں صدے کے متکلمین اسلام کے امام کے طور پر سب سے اوپر لکھا جائے گا۔ لیکن ان کا یہ مقام اس بات کا مستلزم نہیں کہ ان کی غلطی کی نشاندہی نہ کی جائے۔