Author: نیر تاباں

  • نماز میں دھیان نہ لگنا سب کا مسئلہ، حل کیا ہے؟ نیر تاباں

    نماز میں دھیان نہ لگنا سب کا مسئلہ، حل کیا ہے؟ نیر تاباں

    نماز میں دھیان نہ لگنا ہم میں سے اکثریت کا مسئلہ ہے۔ نماز دین کا اہم ترین رکن ہے، باقی تمام ارکان سے زیادہ دہرایا جانے والا رکن، اور مؤمن اور کافر کے مابین فرق کرنے والی چیز بھی ہے لیکن ایسا کیا کیا جائے کہ نماز کا خشوع و خضوع بن سکے اور برقرار رہ سکے۔ اس میں مختلف آزمودہ نسخے آپ کے ساتھ شیئر کروں گی۔ انہی پر ایک ایک کر کے عمل کرنا ہے۔

    1- سب سے پہلی بات تو یہ کہ عربی ہماری اپنی زبان نہیں۔ اگر ہم اللہ سے ہم کلام ہیں لیکن کیا بات کہہ رہے ہیں، یہی معلوم نہ ہو تو بڑی قباحت ہے۔ سب سے پہلی اور سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ نماز کا لفظی ترجمہ پڑھیں تا کہ جب آپ عربی الفاظ ادا کریں تو آپ کے ذہن میں ان کے معنی ہوں۔ اس سے ان شاء اللہ نماز میں دھیان بنانے میں بہت مدد ملے گی۔

    2- ہم لوگ روز ایک کھانا نہیں کھا سکتے، ایک ہی کپڑے ہر وقت زیب تن نہیں کر سکتے، اپنے پسندیدہ ڈرامے کا پسندیدہ سین بھی کچھ دفعہ دیکھنے کے بعد اکتا جاتے ہیں لیکن بچپن کی یاد کی ہوئی نماز، وہی سورتیں وہی دعائیں پڑھ پڑھ کر ہم آج تک بیزار نہیں ہوئے۔ تو نماز میں دھیان برقرار رکھنے کے لیے نت نئی چھوٹی چھوٹی سورتیں اور مسنون دعائیں یاد کرنا شروع کریں۔ سورۃ الفاتحہ سے پہلے بھی، بعد میں بھی، رکوع و سجود میں بھی آپ بدل بدل کر مسنون طریقے پر دعائیں نماز میں شامل کر سکتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بچپن سے جو رٹا لگایا، آج تک اس میں کوئی نئی سورت اور دعا شامل نہیں کی۔ اب حالت یہ ہے کہ رٹا اتنا پکا ہو گیا ہے کہ شاید نیم بےہوشی میں بھی نہ بھولیں 🙂 جب آپ الفاتحہ کے بعد قل ھو اللہ احد کا رٹا رٹایا سبق شروع کرنے کے بجائے انا اعطینک الکوثر بولیں گے، اگلی نماز میں الھکم التکاثر، اس سے اگلی میں والعصر پڑھیں گے اور اسی طرح رکوع میں سبحان ربی العظیم کا رٹا بولنے کے بجائے رکوع کی کوئی اور مسنون دعا پڑھیں گے تو دھیان نماز میں ہی رہے کہ اچھا اب اس بار کون سی دعا پڑھنی ہے۔

    3- اس حوالے سے ایک صحیح حدیث بہت اہم ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ آپ تصور کریں کہ آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو اتنا تو ضرور ہی تصور کر لیں کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ یقین کریں کہ یہ احساس آتے ہی تنے ہوئے تمام اعصاب ڈھیلے ہو جاتے ہیں، تیز تیز پڑھنے کے بجائے بندہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہے، بھاگم بھاگ سجدے کرنے کے بجائے آرام سے سجود کو انجوائے کرتا ہے کیونکہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالی مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں بھی ان کو عین حاضر ناظر جان کر سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر نہ تو بار بار گلہ کھنکھارتے ہیں، نہ بار بار ناک کھجاتے ہیں۔ صرف میرا رب اور میں! سبحان اللہ!

    عمل کی بات کے اسباق چھوٹے رکھنے کی نیت تھی، لیکن یہ ٹاپک ایسا ہے کہ اس کو تھوڑا تفصیل سے بتانا پڑا۔ تو آج سے عمل میں نماز کے حوالے سے جو چیزیں ایک ایک کر کے شامل کرنی ہیں، وہ ہیں:
    1۔ نماز کا ترجمہ دھیان سے پڑھنا ہے۔
    2- چھوٹی چھوٹی سورتیں اور رکوع و سجود کی مختلف مسنون دعائیں یاد کرنی اور پھر بدل بدل کر پڑھنی ہیں۔
    3- تصور میں لانا ہے کہ میں اللہ تعالی کے عین سامنے یہ نماز ادا کر رہی/رہا ہوں اور اللہ تعالی مجھے اس وقت نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

  • من گھڑت احادیث، 9 اعتراضات کا جواب – نیر تاباں

    من گھڑت احادیث، 9 اعتراضات کا جواب – نیر تاباں

    کچھ دن پہلے ہم نے اپنے فیس بک پیج پر من گھڑت ”احادیث“ کا سلسلہ شروع کیا، جس میں ان خود ساختہ احادیث کے امیج تھے جن پر کراس کا نشان لگایا تھا۔ اس پر لوگوں کی طرف سے آنے والے ریسپانس پر یہ پوسٹ لکھی۔ موضوع چونکہ اہم ہے اس لیے آپ کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہتی ہوں۔

    فرض کیجیے کہ میں ایک ایسی بات کہوں جو آپ نے کہی نہ ہو تو آپ کو کیسا لگے گا؟ یا آپ نے کہا ہو کہ گھر جاتے وقت نان لیتے جانا، اور میں جا کر پھیلاؤں کہ آپ نے کہا کہ اگر میں نان نہ لے کر گیا تو مجھے مار مار کر گھر سے نکال دیا جائے گا۔ آپ کے کہے گئے چھوٹے سے سچ میں ڈھیر ساری جھوٹ کی آمیزش کر کے پھیلانا درست ہے؟ کیا آپ کو اچھا لگے گا؟ کوئی آپ سے پوچھے تو آپ کہیں گے کہ بھائی صاحب، میں نے یہ بات کہی ہی نہیں، یا میں نے یوں کہی تھی لیکن انہوں نے غلط بات آگے پھیلائی۔

    میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ کو اپنی ذات سے منسوب ہوتا جھوٹ ناپسند ہے تو کس طرح آپ کا ایمان یہ گوارا کر لیتا ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے لے کر لوگ جھوٹ‌ گھڑیں اور آپ بغیر تصدیق کے سبحان اللہ کہہ کہہ کر فارورڈ کریں۔ نہ صرف اتنا، بلکہ اگر کوئی آپ کو سمجھائے تو آپ مزید خفا ہو جائیں۔ ایک دو بار من گھڑت ”احادیث“ کے متعلق پوسٹ کیا تو اس قدر دل دکھانے والا رویہ سامنے آیا کہ بندہ اپنا سر پیٹ لے۔ ایسی ایک پوسٹ حال ہی میں شیئر کی گئی۔ اس پر جو سوال/اعتراضات بار بار ہوئے، ان کا تذکرہ یہاں کریں گے اور ساتھ میں اللہ کی توفیق سے جواب بھی دیں گے۔

    1- ”لیکن ان میں کچھ حصہ تو صحیح ہے، آدھی تو ٹھیک ہے۔“
    آپ نے کئی بار وہ قول پڑھا ہو گا کہ آدھا جھوٹ جس میں سچ کی آمیزش ہو، وہ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جیسے یہ تو صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے دوران بات کرنے حتی کہ قرآن کی تلاوت سے بھی منع فرمایا ہے، لیکن خود ساختہ حدیث والوں نے ساتھ یہ بھی گھڑ لیا کہ جو ایسا نہیں کرے گا اسے مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہوگا۔ جو قبرستان میں ہنسا، سمجھو اس نے زنا کیا۔ چاہے اصلاح کی نیت سے ہی کیا ہو، ہے تو جھوٹ ناں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسا کچھ نہیں فرمایا۔

    2- ”آپ جو کہہ رہے ہیں اس کا ریفرینس دیں۔“
    ارے بھئی! ہم تو کہہ رہے ہیں کہ یہ بات جھوٹ گھڑی گئی ہے اور صحیح احادیث میں شامل ہی نہیں۔ جب کتابوں میں ہے ہی نہیں تو ثبوت ہم کہاں سے لائیں؟ لوگوں کی طرح خود کوئی کتاب بنائیں جھوٹ سچ ملا کے؟

    3- ”آپ کی ایسی پوسٹ سے فتنہ پھیل رہا ہے۔“
    کمال ہے! جھوٹ‌ بکنا اور اس کو پھیلانا فتنہ ہے۔ ہم تو اللہ کی راہ میں اس فتنے کا سد باب کرنے کی اپنی حقیر سی کوشش کر رہے ہیں۔

    4- ”آپ کو کراس نہیں لگانا چاہیے۔ کچھ بھی ہو، ہے تو حدیث ہی ناں.“
    پہلی بات کہ وہ حدیث نہیں ہے، یہی تو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
    دوسری بات: اکثریت صرف امیج دیکھ کے سبحان اللہ کہہ کر شیئر کر دیتی ہے، کیپشن نہیں پڑھتی۔ ایسے میں کراس نہ ہو تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ ہم نے حدیث ہی شیئر کی ہے۔

    5- ”لیکن فلاں مولانا اس حدیث کو کوٹ‌ کرتے ہیں اس لیے یہ صحیح ہے۔“
    کوئی بھی مولانا خطا کر سکتے ہیں۔ ہمارے لیے دین میں حجت قرآن و حدیث ہونی چاہیے، مولانا صاحب نہیں۔ یہاں یہ بتاتے چلیں کہ علماء کے لیے، دین کی بات پھیلانے والوں کے لیے ہم دل میں انتہائی نیک جذبات اور بہت احترام رکھتے ہیں، لیکن بہرحال دین میں حجت وہ نہیں۔

    6- ”آپ کنفیوژن پھیلا رہے ہیں۔“
    دیکھیں، دین سوشل میڈیا اور فارورڈڈ میسجز سے نہیں سیکھا جاتا۔ آپ خود کتابیں پڑھیں تا کہ علم الیقین حاصل ہو۔ جب تک سنی سنائی پر یقین کریں گے، یونہی ڈانواڈول رہیں گے۔ آج کے دور میں تو کتابیں پڑھنا انتہائی آسان ہے۔ صحاح ستہ پوری کی پوری ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔

    7۔ ”بات تو اچھی ہی ہے ناں؟ ماں کا، اذان کا احترام ہی سکھایا جا رہا ہے ناں، پانی پینے کا ادب ہی بتایا جا رہا ہے ناں“
    ماں کے احترام، اذان کی فضیلت، روز مرہ زندگی کے آداب کے لئے ڈھیروں صحیح احادیث کا ذخیرہ موجود ہے، آپ وہ پڑھیں اور شیئر کریں۔ اصلاح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت پر جھوٹ‌ باندھنا کسی کا ایمان کیسے گوارا کر سکتا ہے؟

    8- ”ہم پیج ان لائک کرنے لگے ہیں۔ ہم نے تو اصلاح کے لیے لائک کیا تھا۔“
    یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے لے کر لوگ جھوٹ گھڑتے رہیں، وہ خیر ہے۔ ہم جب بتائیں کہ میرے پیارے نبی نے ایسی کوئی بات نہیں کی تو آپ کو لگتا ہے کہ یہ اصلاح کے خلاف کوئی کام ہوا۔

    9- ”عقیدت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔“
    تو یعنی میں کل سے عقیدت اور محبت کے نام پر دو کے بجائے تین سجدے کر لوں تو جائز ہے؟ کوئی حق بتائے تو کہوں کہ عقیدت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ عقیدت اور نبی کی محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ ان کے نام سے جھوٹ پھیلائے۔ یہ نرالی عقیدت ہے کہ دین کو موم کی ناک بنا لیا ہے۔

    اپنی بات کا اختتام پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر کروں گی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا،
    ”جس نے جان بوجھ کر مجھ سے منسوب جھوٹی بات بیان کی تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔“ مسلم

  • چُھوٹے ہوئے روزے اور سردیوں کا موسم – نیر تاباں

    چُھوٹے ہوئے روزے اور سردیوں کا موسم – نیر تاباں

    ہماری سردیاں گرم علاقوں میں رہنے والوں کی سردیوں سے کافی الگ ہوتی ہیں۔ انہیں انجوئے کرنے کا طریقہ بھی فرق ہے۔ ہم یہاں دھوپ میں بیٹھ کے کینو اور مونگ پھلیاں نہیں کھا پاتے لیکن کبھی موسم بہتر ہو تو سنو مین بنا لیتے ہیں۔ گھر کے اندر کی ساری زندگی انگیٹھی کے آگے سمٹ آتی ہے۔ وہیں کمپیوٹر، کتابیں، جائے نماز۔۔ اکثر کھانا بھی وہیں فلور کشن پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ صبح سویرے frothy milk coffee کے مگ سے دونوں ہاتھ سینکتے ہوئے کھڑکی سے باہر نرم روئی جیسی برف زمین کی آغوش میں جاتے دیکھنا بھی کافی مسحور کن ہے۔

    سردیوں کو انجوائے کرنے کے لیے میری وجہ بہرحال کچھ اور ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ نومبر، دسمبر، جنوری اور فروری کے مہینوں میں دن بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ جیسے آج کل فجر اور مغرب میں صرف بارہ گھنٹے کا فرق ہے اور آنے والے دنوں میں وہ مزید کم ہو کر ساڑھے دس گھنٹے تک جائے گا۔ فجر کا ٹائم آجکل 6:15 ہے۔ ایسے میں دو کام کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔

    1- تہجد پڑھنا
    2- روزے رکھنا

    اس پوسٹ کا مقصد سب کو ترغیب دلانا بھی ہے اور یاددہانی کروانا بھی۔ جو نفلی روزے رکھنا چاہیں انکے لئے بھی آسانی ہے لیکن ہم خواتین کے لیے تو یہ تمام روزوں کی قضا پوری کرنے کا بہترین وقت ہے۔ ایک خاتون جنکی عمر کوئی 40 سال کے لگ بھگ ہے، انہوں نے روزے فرض ہونے کے بعد سے ہر سال اور پریگنینسی اور رضاعت کے دوران چُھوٹنے والے روزوں کا حساب لگایا، تو تعداد 400 سے بھی اوپر نکلی۔ اب وہ سر پکڑ کر بیٹھی ہیں کہ میں تو پورا سال لگاتار بھی روزے رکھوں تو ختم نہ ہوں گے۔ ایسے میں انہیں کہتی ہوں کہ Take one day at a time!

    بس نیت کر لیں اور ایک ٹائم ٹیبل بنا لیں جسکے مطابق روزے رکھتی رہیں۔ ایک دن آن، ایک دن آف۔ یا پھر پیر سے جمعرات تک چار روزے رکھیں اور جمعہ، ہفتہ، اتوار نہ رکھیں لیکن بہرحال اس کام کو priority پر رکھیں اور جب آپ نیت کر لیتے ہیں تو آسانی خود ہی ہونے لگتی ہے۔ اس چار ماہ میں لگ کے روزے رکھیں، اور باقی سال میں جب بھی ہمت کر سکیں.

    چند دن میں نومبر شروع ہونے کو ہے۔ سب کمر کس لیں۔ افطار کے وقت کی دعا میں یاد رہے تو میرا بھی نام لے لیجیے گا۔

    وضاحتی نوٹ : کچھ schools of thought کے مطابق روزہ رکھنا ضروری نہیں، صرف فدیہ دے دینا کافی ہے۔ ایسے میں آپ اپنے حالات کی مناسبت سے کسی مفتی صاحب سے فتوی لے لیجیے یا اپنے سکول آف تھاٹ کے مطابق عمل کر لیجیے۔ پوسٹ کا مقصد صرف ترغیب دینا ہے، بحث کرنا نہیں۔

  • شوہر بیوی کو خوش کیسے کرے؟ نیر تاباں

    شوہر بیوی کو خوش کیسے کرے؟ نیر تاباں

    شادی شدہ زندگی کے مسائل کیسے کم کریں، اس پر بہنوں سے سیر حاصل گفتگو پہلے ہوئی۔ آج باری ہے بھائیوں کی۔ سب خاموشی سے بیٹھ جائیں، فون سائلنٹ کر دیں اور سیکھنے اور عمل کرنے کی نیت سے بات سنیں۔ ان شاء اللہ!

    آپ سارا دن گھر سے باہر ہوتے ہیں۔ رستے میں، آفس میں، فیس بک پر، ہر جگہ مسکراتی لڑکیاں لیکن گھر کے اندر آتے ہی بیوی پر نظر پڑتی ہے جو کام میں مشغول دور سے ہی سلام کر دیتی ہے۔ ایسے میں اس کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی پاس جا کے مسکرا کے حال چال پوچھیں۔ گھر کے کاموں اور بچوں کی مصروفیت میں آپ کا واپس آتے ہی پیار سے حال پوچھنا ہی اس کی آدھی تھکن دور کر دے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی گھر لوٹتے، اپنی زوجہ کو پیار سے بوسہ دیتے تھے۔

    پھر نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر لیجیے۔ بہت ہلکا سا پرفیوم بھی لگا لیجیے تاکہ آس پاس سے گزرنے والوں کو ایک خوشگوار احساس ہوتا رہے۔ پان/سموکنگ کرنے والے oral hygeine کا خصوصی خیال رکھیں۔ سوچیں کہ لہسن اور پیاز جیسی چیزیں کھا کر اللہ تعالی نے مسجد میں آنا ناپسند فرمایا ہے تاکہ ان کی بو باقی نمازیوں کو ناگوار نہ گزرے تو سگریٹ کی بدبو بیوی کو کس قدر ناگوار گزرتی ہوگی۔ اول تو اس عادت کو چھوڑنے کی کوشش کریں، دوسرا یہ کہ منہ کی صفائی کا خیال رکھیں۔

    محبت کو اظہار اور تجدیدِ اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھر آتے ہوئے کبھی پھول یا اس کی پسندیدہ چاکلیٹ یا اس کی پسند کی کوئی چیز لیتے آئیے۔ دن بھر اپنی بیوی کو ہلکا پھلکا ٹیکسٹ‌ میسج بھیج دیں جیسے:
    Are you busy? I had something important I forgot to tell you: I love you!
    I havent told you in long time how much you mean to me. Thank you for everything that you do.
    اسی طرح چپکے سے سرہانے کے نیچے اس کے لیے کوئی پیار بھرا میسج رکھ دیں۔ صفائی کرتے ہوئے اسے سرپرائز مل جائے گا۔ بیگم کا نام ساتھ ضرور لکھ دیجیے گا، ورنہ نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔
    یہ تو تھے فوری کرنے والے آسان کام۔ اب آئیں کچھ ایسی عادتوں کی طرف جن سے بیویاں سخت نالاں ہوتی ہیں اور شوہر بالکل توجہ نہیں کرتے۔ کسی نے کہا ہے کہ
    The most important thing a father can do for his children is to love their mother.

    بچوں کی بہترین تربیت کا پہلا سٹیپ یہ ہے کہ ان کی ماں کو عزت اور محبت دیں۔ جہاں غلطی کرے، پیار سے سمجھا دیں۔ اس کی غلطی پر اس کے گھر والوں کو برا بھلا نہ کہیں۔ بچوں کے سامنے اگر آپ اپنی بیوی کی بےعزتی کریں گے، بچے لاشعوری طور پر یا آپ کی سائیڈ پر ہو جائیں گے اور ماں کی بات سننا ماننا چھوڑ دیں گے، یا ان کی مکمل ہمدردی ماں کی طرف ہوگی (جس کے چانسز زیادہ ہیں) اور آپ اپنا وہ مقام کھو دیں گے جو ایک بچے کے دل میں آپ کا ہونا چاہیے۔ آپ اپنی اولاد کے سپر ہیرو سے ولن کے مقام پر آ جائیں گے۔ بچے سہم جائیں گے، دوستوں میں اپنا اعتماد کم کر بیٹھیں گے، پڑھائی بھی متاثر ہو گی۔ اس کا ایک اور بہت بڑا نقصان بھی ہے۔ یہی بچے کل کو عورت خصوصاً اپنی بیوی کی عزت نہیں کر سکیں گے۔ انہیں یہی معلوم ہو گا کہ عورت کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ تحقیق کہتی ہے کہ قریباً %78 مرد جو اپنی بیویوں کو ہراساں کرتے ہیں، انہوں نے اپنے بچپن میں اپنے باپ کو اپنی ماں سے یہی سلوک کرتے دیکھا ہوتا ہے۔ آپ غور کریں کہ آپ کے آج کے عمل سے کس طرح آپ کی نسلیں متاثر ہوں گی۔

    میں یہ بات دل سے مانتی ہوں کہ جو رزق اور جتنی محبت اللہ نے میرے نصیب میں لکھی ہے، اتنی ہی ملے گی، کم نہ زیادہ۔ یہی بات میں اپنی بہنوں کو سمجھاتی ہوں جو شکایت کرتی ہیں کہ شوہر اپنے گھر والوں پر سارا پیسہ لٹا دیتا ہے اور ہمارے وقت پر بچت کرنا یاد آ جاتا ہے۔ لیکن یہاں آپ یاد رکھیں کہ آپ اپنی بیوی کے کفیل ہیں۔ اس کو ہر مہینے کچھ رقم پاکٹ منی کے طور پر دیں جس کے بارے میں اس سے کوئی سوال نہ کریں۔ وہ چاہے تو اپنے گھر والوں کے لیے کچھ لے، چاہے تو صدقہ کرے، چاہے تو اپنے پاس جمع کر لے۔ اگر وہ خود کماتی ہے تو پھر پاکٹ منی کے بجائے کبھی کھانا کھلانے لے جائیں، یا کہیں گھمانے لے جائیں۔

    اسی طرح جب بہنیں بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کے شوہر کی ساری توجہ اور محبت کا سارا مرکز اس کے اپنے گھر والے ہوتے ہیں اور اس کا کام بس گھر سنبھالنا ہے تو بہت دل دکھتا ہے۔ بےشک میں انہیں کہوں کہ محبت اور خلوص سے تم ایک دن اپنے شوہر کا دل جیت لو گی، آپ سے مجھے یہی کہنا ہے کہ یہ عورت اپنا گھر، اپنے پیارے رشتے، اپنے دوست احباب، حتی کہ اپنی پسند ناپسند بھی چھوڑ کر آپ کے پاس آئی ہے۔ وہ اپنے تمام رشتوں کا پیار آپ میں ڈھونڈتی ہے۔ کبھی ابو کی طرح سینے سے لگا لیں، کبھی امی کی طرح محبت بھری ڈانٹ، کبھی دوستوں کی طرح چھوٹی سی بات پر بے تحاشا ہنسنا۔ یہ سب آپ کی ذمہ داری ہے۔ اپنی جسمانی، جذباتی، معاشی، معاشرتی ضروریات کے لیے وہ آپ کی محتاج ہے۔ کچھ شوہر مالی ضروریات تو پوری کرتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے ایک جیتا جاگتا انسان ہے جس کی پیسے کے علاوہ بھی کچھ ضروریات ہیں۔ شوہر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دوست بنیں۔

    کسی بھی انسان کو آگے بڑھنے کے لیے تعریف اور حوصلہ افزائی چاہیے ہوتی ہے۔ بیوی کو بھی! وہ تیار ہو تو اس کی تعریف کر دیں، اچھا کھانا بنائے تو بھی کھلے دل سے کہہ دیں، اور چھوٹے چھوٹے آپ کے جو کام وہ سارا دن کرتی ہے، ان پر اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ آپ کا ایک جملہ ”تم سارا دن کرتی ہی کیا ہو؟“ اس کی جان جلا دیتا ہے۔ کسی دن صبح سے رات تک اس کی روٹین دیکھیں، خصوصاً جو خواتیں بچوں والی ہیں، یا سسرال کے ساتھ رہتی ہیں، ان کو تو یہ کبھی نہ کہیں۔

    آپ کو اپنی بیوی کی جو بات پسند نہیں، اس کو محبت سے بتا دیں لیکن دوسری عورتوں کی مثالیں نہ دیں۔ کسی کے حسن، سگھڑاپے، عقل مندی کی زیادہ تعریفیں بیگم کے سامنے کریں۔ اس کا موازنہ نہ تو خود کسی اور کے ساتھ کریں، نہ ہی اس کو جتائیں۔

    سب باتوں کی ایک بات: بیوی کو انسان سمجھیں۔ ضروریات کے حوالے سے، احساسات کے حوالے سے، عادات و اطوار کے حوالے سے۔

    میری دعا ہے کہ ہر گھر میں میاں بیوی کے دل میں ایک دوسرے کے لیے اتنی محبت اور عزت ہو اور یہ تعلق اسقدر مضبوط ہو کہ شیطان کا ہر ضرب خالی جائے۔ آمین!

    بیوی کے لیے مفید مشورے اس لنک پر ملاحظہ کریں

    شادی شدہ زندگی اور خواتین کا کردار

  • شادی شدہ زندگی اور خواتین کا کردار – نیر تاباں

    شادی شدہ زندگی اور خواتین کا کردار – نیر تاباں

    جیسے کسی ندی میں پتھر پھینکا جائے تو ارتعاش پیدا ہوتا ہے، اسی طرح گھریلو زندگی میں جب مسائل پیدا ہوں تو ان کا ripple effect بہت دور تک جاتا ہے۔ خوشگوار گھریلو زندگی کے لیے سبھی کو اپنی اپنی جگہ کوشش کرنی ہوگی لیکن چونکہ دوسرے کو بدلنا آسان نہیں تو آئیے خود میں کچھ ایسی تبدیلیاں لائیں جن سے گھر میں سکون اور خوشیاں پیدا ہوں۔ میری مخاطب اس سلسلے میں آج بہنیں ہیں، بھائیوں کی شامت کسی اور دن پر رکھتے ہیں۔ 🙂

    شوہر جب گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو رستے میں billboards پر مسکراتی لڑکیوں پر نظر پڑتی ہے۔ آفس داخل ہوتے ہی ریسیپشن سے ایک مسکراتا ہوا سلام استقبال کرتا ہے۔ سارا دن سجی سنوری خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتی کولیگز کے ساتھ گزرتا ہے، فیس بک آن کریں تو وہاں بھی مسکراہٹیں لیکن گھر کر اندر آتے ہی بیوی پر نظر پڑتی ہے جو کسی اور کام میں مشغول دور سے ہی سلام کر دیتی ہے، مسکراہٹ تو دور کی بات، پاس بھی کم ہی آتی ہے۔ تو سب سے پہلی تبدیلی تو یہ لے کر آنی ہے کہ میاں کو اچھے طریقے سے ویلکم کریں۔ نہیں بھی دل کر رہا تو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر مسکرا دیں، صدقہ سمجھ کر مسکرا دیں۔

    دوسری چیز یہ کہ شوہر کے آنے سے دس منٹ پہلے خود کو freshen up کر لیں۔ شاور کا ٹائم نہیں تو کپڑے بدل لیں تاکہ بھنے مصالحے اور لہسن کے تڑکے کی بو آپ سے نہ آ رہی ہو۔ نیچرل سی لپ سٹک، کاجل، ہلکا سا پرفیوم، بس اتنا ہی! دوسرے سے زیادہ آپ کو خود اپنا آپ اتنا اچھا لگے گا کہ مسکرانا مزید آسان ہو جائے گا۔

    بہت پہلے کسی نے کہا تھا کہ بیوی کو محبت اور شوہر کو عزت چاہیے ہوتی ہے، یہ ملتی رہے تو شادی شدہ زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ دونوں کو دونوں ہی چیزیں چاہییں۔ بیوی کو بھی عزت ملنی چاہیے، اور شوہر سے بھی محبت کا اظہار ہونا چاہیے۔ دوسرے کو بدلنا چونکہ ہمارے اختیار میں نہیں، فی الحال سارا فوکس ہم اپنی ذات پر کریں۔ شوہر کو عزت بھی دیں اور محبت بھی۔ اس کو کھانا دے دینا، کپڑے استری کر دینا ہی کافی نہیں، آگے بڑھ کر اور کھل کر محبت کا اظہار کریں کیونکہ competition بہت ہے۔ کیسے کیسے محبت کا اظہار کیا جائے؟

    ایک تو یہ کہ بغیر وجہ کے
    ”yes, I love you. Always will!“
    ”Nothing. Just thought to remind I love you.“
    کی طرح کے میسج کر دیا کریں۔ ہلکے پھلکے سے۔ اور کبھی بھی ”love you too“ کی توقع نہ رکھیں۔ جواب آ جائے تو اچھی بات، نہ بھی آئے تو گمان رکھیں کہ دل پر کہیں نہ کہیں اثر کر دیا ہوگا۔

    دوسرا کام یہ کریں کہ لنچ باکس کے اندر ایک چھوٹا سا نوٹ لکھ کے رکھ دیا کریں۔ چند الفاظ، جو آپ کی غیر موجودگی میں بھی آپ کے ہونے کا احساس دلا دیں۔ اگر خود لکھنا نہ سمجھ آئے تو lunch notes for husband سرچ کر کے آئیڈیاز لے لیں۔ شوہر کے acknowledge کرنے کی توقع نہ کریں۔

    یہ تو تھے فوری کرنے والے آسان کام۔ اب آئیں کچھ ایسی عادتوں کی طرف جس سے شوہر سخت کوفت کھاتے ہیں اور عورتیں بالکل باز نہیں آتیں۔

    سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہر وقت کے طعنے دینا۔ Pick your battles! چھوٹی موٹی باتوں کو جانے دیا کریں۔ ہر بات پر محاذ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں جو ضروری ہو، اس پر بےتکان بولنے سے پہلے دماغ میں سوچ لیں کہ اب مسئلے پر مجھے میاں سے بات کرنی ہے، کیا کہنا ہے، الفاظ بھی سوچ لیں۔ پھر بات کرنے سے پہلے رب اشرح لی والی دعا پڑھ کر ان سے بات کر لیں۔ کوشش پوری کریں کہ سسرال کو زیادہ ڈسکس نہ کریں۔ جیسے آپ کو آپ کے ماں باپ بہن بھائی عزیز ہیں، اسی طرح اسے اس کے پیارے عزیز ہیں۔ سسرال کو لے کر خواتین کو عموماً دو ہی مسائل ہوتے ہیں؛ پیسہ ادھر لٹاتے ہیں یا محبتیں وہاں لٹاتے ہیں۔ اپنے آپ کو یہ سمجھائیں کہ رزق اللہ کی دین ہے۔ وہ انھی لوگوں کے نصیب کا اللہ نے میرے شوہر کو دیا ہوگا۔ اگر آپ اس بات پر جھگڑیں گی، دے گا تو وہ پھر بھی لیکن آپ کو پتہ نہیں لگنے دے گا۔ سسرال میں بھی بری مشہور، شوہر کے دل سے عزت بھی گئی، حالانکہ جو آپ کے نصیب کا ہے وہ تو اللہ تعالی آپ کو دو پہاڑوں کے درمیاں سے بھی عطا کر دیں گے، پھر جھگڑا کاہے کا؟ اور رہی بات محبتوں کی، یاد رکھیں، اگر شوہر کے دل میں جگہ بنانی ہے تو اسے اس کے پیاروں سے محبت کرنے پر نہ ٹوکیں۔ محبت بھی اللہ تعالی ہی دل میں ڈالتے ہیں۔ آپ کے زور زبردستی سے تو آپ اپنا رہا سہا مقام بھی کھو دیں گی۔ ہاں شوہر سے ہر طریقے سے محبت کا اظہار کرتی رہیں تو وہ سب پلٹ کر واپس آئے گا. ان شاء اللہ!

    اسی طرح ایک ہی بات کی بار بار تکرار بھی مناسب نہیں۔ نہ ہی کئی سال پہلے کی باتوں کا بار بار تذکرہ کیا جائے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ communication gap ہو اور کبھی اس سے اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار ہی نہ کریں لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ زیادہ چیزوں کو قبول کر لیں، کچھ باتوں پر سٹینڈ لیں جو واقعی اس قابل ہوں، الفاظ بھی مناسب ہوں، لہجہ بھی بےعزتی کرنے والا نہ ہو، اور دونوں اس بات کو ڈسکس کر لیں۔ شوہر کا آپ کی بات سے متفق ہونا ضروری نہیں لیکن آپ کہہ دیجیے کیونکہ کہے بغیر دل کا حال صرف اللہ تعالی ہی جانتے ہیں۔ شوہر کے مزاج کی وجہ سے اگر بات کرنا مشکل لگے تو مختصر مگر جامع الفاظ میں بات لکھ کر کہہ دیجیے۔ ای میل یا ٹیکسٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔

    ہر ہر بات اپنے گھر والوں تک فوری پہنچانے کی ضرورت نہیں، ہاں اگر یہ لگے کہ حالات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں تو ایسے میں اپنے بڑوں کو ساتھ شامل کیجیے۔ ان کی دعا بعض اوقات وہ کرشمے کرتی ہے جو ہماری ہر کوشش مل کر نہیں کر پاتی۔

    ایک بہت اہم بات: فیس بک پر دیکھ دیکھ کر، یا خواتین کے بتانے پر یہ فیصلہ نہ کر لیں کہ فلاں کا شوہر بہت اچھا ہے، اس کو گھماتا پھراتا ہے، مہنگے تحائف لے کر دیتا ہے۔ اس کے گھر کی پریشانیاں آپ کو نہیں معلوم۔ اپنے شوہر کا دوسروں کے شوہر کے ساتھ موازنہ کر کے اپنی اور شوہر کی زندگی مشکل نہ بنائیں۔ عین ممکن ہے کہ اس کا شوہر گھر میں کام میں کوئی مدد کرتا ہو نہ اس کو میکے والوں سے ملنے دیتا ہو، چھوٹی چھوٹی بات پر بےعزتی کر دیتا ہو لیکن آپ سے یہ سب باتیں مخفی ہوں۔ خود موازنہ کریں نہ شوہر کو ایسی کوئی بات جتائیں۔

    اس کے علاوہ یہ کہ کھلے دل سے صدقہ کیا کریں، دعاؤں کی قبولیت کے اوقات میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں، اور چونکہ میاں بیوی کے درمیان جھگڑا کروانا شیطان کا پسندیدہ کام ہے تو شیطان کو بھگانے کے لیے سورۃ البقرۃ کی تلاوت کو روٹین بنا لیں کیونکہ حدیث میں آتا ہے جس گھر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔

    میری دعا ہے کہ ہر گھر میں میاں بیوی کے دل میں ایک دوسرے کے لیے اتنی محبت اور عزت ہو اور یہ تعلق اس قدر مضبوط ہو کہ شیطان کا ہر وار اور ہر ضرب خالی جائے۔ آمین!

    شوہر کےلیے مفید مشورے اس لنک پر ملاحظہ کریں
    شوہر بیوی کو خوش کیسے کرے؟

  • دل کی چابی اس کے مالک کو تھمائیں – نیر تاباں

    دل کی چابی اس کے مالک کو تھمائیں – نیر تاباں

    یاسمین مجاہد کی کتاب Reclaim your heart آج کل زیرِ مطالعہ ہے۔ مرکزی موضوع یہ ہے کہ تمام تر مصنوعی وابستگیوں (false attachments) سے جان چھڑا کر کس طرح دل کی چابی اس کو تھمائیں جو دل کا مالک ہے۔ اللہ۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا میں مگن نہیں ہونا، یعنی کشتی پانی میں رہے لیکن پانی کشتی میں نہ جانے پائے کیونکہ اس میں ہلاکت ہے۔ اگر غور کریں تو تمام عبادات کا محور یہی ہے کہ اپنی دنیاوی محبتوں میں مگن نہ ہوں۔ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا میں غرق ہونے سے بچانے کی کوشش انتہائی مشکل ہے، اور یہی کوشش جہاد بالنفس ہے، یہی کوشش توحید کا نچوڑ ہے۔
    اسلام کے پانچ ستون کلمہ شہادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، تمام کا بنیادی مقصد انسان کو بار بار دنیا کی محبتوں سے کاٹ کر اللہ کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ آئیں تھوڑا سا تفصیل میں دیکھتے ہیں۔

    شہادت:‌ لا الہ الا اللہ! یعنی نہ صرف یہ اقرار کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں، بلکہ ہر ایک سے اپنی امید توڑ کر اپنی تمام تر امیدوں اور محبتوں کا محور و منبع صرف اللہ کو سمجھنا۔

    نماز: روزانہ دن میں پانچ بار ہر کام چھوڑ کر اللہ کے حضور حاضر ہونا۔ یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ دن میں ایک بار، یا ہفتے میں ایک بار نماز ادا کرنا فرض ہوتا، یا پانچوں نمازیں ایک ہی وقت پر ادا کرنے کا حکم ہوتا۔ لیکن دن میں پانچ بار نماز کی بھی شاید یہی حکمت ہو کہ نیند کو چھوڑ کر، یا اپنا کام، اپنے بچے کو چاہے وہ اتنی دیر میں شرارت شروع کر دیں، یا اپنے چاہنے والوں سے بات ادھوری چھوڑ کر، اپنا کوئی پسندیدہ شو، کرکٹ میچ، چاہے جو بھی کام کر رہے ہیں، اس کو چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھ جانا ہے۔ دن میں پانچ بار، یعنی ادھر دنیا میں دل لگنے لگا تھا، ادھر اللہ نے بلا لیا اور سب کچھ چھوڑ کر نماز ادا کرنے لگے۔

    روزہ: کھانے پینے کا پرہیز، میاں بیوی کے تعلقات، غیر ضروری اور فضول گفتگو، تمام سے بچنا۔ جسمانی ضروریات یا جذباتی، دونوں کو ہی روکنا۔ یعنی ہر طرح کی نفسانی خواہشات سے علیحدہ ہونا۔ پورا سال نماز میں اسکی ٹریننگ تھوڑے سے وقت کے لئے ہوتی ہے، اور پھر سال میں ایک بار پورے مہینے کے لیے دورانیہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ تا کہ مومن دنیا میں غرق نہ ہونے پائے۔

    زکوٰۃ: دولت کی محبت انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ زکوٰۃ دینا دولت سے detach ہونے کی تربیت ہے۔

    حج: fasle attachments کو توڑنے کے لیے حج ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اپنا گھر، خاندان، اپنی جاب، اپنی تنخواہ، گرم بستر، نرم جوتے، برانڈڈ کپڑے، اپنی گاڑی، اپنا status، یہ سب چھوڑ کر سادہ سا احرام پہن کر، زمین پر کھلے آسمان کے نیچے سونا بھی پڑے گا، حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے دھکم پیل بھی برداشت کرنی پڑے گی، پیدل سعی بھی کرنی پڑے گی۔
    اللہ نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ دنیا چھوڑ دو، لیکن دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا میں مگن نہ ہو جاؤ۔ پورا دین اسی ٹریننگ کے گرد گھومتا ہے۔ لڑکی نے باہر جانا ہے، جانتی ہے کہ حجاب اوڑھوں گی تو بال خراب ہو جائیں گے، بھنویں بنانا چھوڑوں گی تو اتنی حسین نہیں لگوں گی، لیکن پھر بھی کرتی ہے۔ لڑکا سوٹ بوٹ پہن لے لیکن داڑھی کی سنت بھی ادا کرے، لڑکی دعوتِ نظارہ دے تو بھی نظریں جھکا لے۔

    ہر ہر جگہ ہمیں یہ مثالیں نظر آئیں گی۔ یہی مومن کی زندگی ہے۔ دنیا میں ایک مسافر کی طرح! تمام کام کرنے ہیں، جوگ نہیں لینا لیکن بس دنیا کی زندگی میں گم نہیں ہو جانا۔ بار بار اپنا احتساب کرنا ہے۔

  • بچوں کا جنسی استحصال اور والدین کا کردار – نیرتاباں

    بچوں کا جنسی استحصال اور والدین کا کردار – نیرتاباں

    ”ہم لوگ جوائنٹ فیملی میں رہتے تھے، دادی جان، چاچو کی فیملی اور ہم۔ چاچو کی شادی ابو سے کچھ سال پہلے ہوئی تھی۔ ان کا سب سے بڑا بیٹا مجھ سے قریب 15 سال بڑا ہے۔ امی نے ہمیشہ یہی بتایا کہ یہ بڑے بھائی ہیں۔ وہ ہم کزنز میں سب سے بڑا تھا اور ہم سبھی اسے بھیا کہہ کر بلاتے تھے۔ امی اور چچی کی آپس میں اچھی دوستی تھی، اس لیے کبھی شاپنگ پر جانا ہوتا، یا خاندان میں کسی کی فوتگی پر جانا ہو، یا کبھی شادی میں صرف بڑوں کا بلاوا ہوتا تو وہ لوگ ساتھ چلے جاتے اور ہم سب کزنز بھیا کے زیرِ نگرانی ہوتے۔ امی جاتے جاتے کہہ جاتیں کہ وہ جلدی لوٹ آئیں گی، اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں کیونکہ بھیا گھر پر ہیں۔ میں امی کو کیسے سمجھاتی کہ یہی تو فکر کی بات ہے کہ بھیا گھر پر ہیں۔ سب بچوں کو ٹی وی لگا کر دے دیا جاتا اور اس کے بعد میرے لیے بتانا ممکن نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوتا۔ وہ اٹھارہ بیس سال کے ہوں گے اور میں چار پانچ سال کی بچی۔ اسے روکتی بھی تو کیسے؟ لگ بھگ پانچ سال یہی سلسلہ چلتا رہا۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جو میرے ساتھ ہو رہا ہے غلط ہے۔ ڈر سے میں کسی کو بتا بھی نہ پائی۔ اب اس بات کو کئی سال گزر چکے ہیں لیکن میرے دل سے بھیا کی نفرت نہیں جاتی۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا بھی قصور تھا کہ میں یہ سب کچھ روک نہ پائی۔ ہر بار جب امی کو جانا ہوتا، میں رو رو کر انہیں کہتی کہ مجھے ساتھ جانا ہے۔ امی ہر بار مجھے کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر چپ کروا دیتیں کہ جب بڑا بھائی گھر پر ہے تو ڈرنے کی کیا بات ہے، آپ اکیلی تھوڑی ہیں؟ میں انہیں کیسے سمجھاتی کہ آپ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی جائیں تو شاید میں محفوظ رہوں۔ بھیڑوں کی حفاظت کے لیے امی نے بھیڑیے کا انتخاب کیا تھا، اور انہیں خود بھی معلوم نہیں تھا۔“
    یہ سب بتاتے ہوئے اس کی کیا حالت تھی، میں نہیں جانتی لیکن کمپیوٹر کے اس جانب میرے ہاتھ ٹھنڈے پڑ چکے تھے، میں کانپ رہی تھی، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا سوچوں، کیا کہوں، کیا مشورہ دوں؟

    اس حوالے سے بعد میں مزید ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ %70 کے قریب ایسا کرنے والے قریبی خاندان، دوست، نوکر چاکر، ڈرائیور اور وہ لوگ جن پر ہم اعتماد کرتے ہیں۔ اتنا اعتماد کہ اپنی اولاد ان کے حوالے کرتے ہمیں ایک بار خیال بھی نہیں آتا کہ کہیں کچھ ایسا ویسا نہ ہو جائے۔ جس گفتگو کا ذکر میں نے اوپر کیا، اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ جب میرا کوئی بچہ ہو گا تو اس کو میں ضرور بتاؤں گی کہ پرائیویٹ پارٹس کسی کو دیکھنے/چھونے کی اجازت نہیں، اور نہ ہی ہمیں اجازت ہے کسی کے پرائیویٹ پارٹس کو دیکھنا/چھونا۔ اور میں نے ایسا ہی کیا۔ شاید آپ میں سے بھی بہت سوں نے اپنے بچوں کو یہ بنیادی تعلیم دے رکھی ہو گی اور پھر میری طرح بےفکر ہو گئے ہوں گے کہ فرض پورا ہوا۔ لیکن کچھ دن پہلے ایک کتاب پڑھی جس کو پڑھ کر احساس ہوا کہ یہ بتا دینا ہی کافی نہیں۔ اگر آپ نے اپنے بچے کو یہ بنیادی تعلیم دے رکھی ہے لیکن اگر کوئی اسے اپروچ کرے اور دھمکی دے کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تم سے دوستی ختم کر دوں گا، یا سب کو بتا دوں گا، یا نیٹ پر لگا دوں گا، یا لالچ دے کہ اگر تم میری بات مان لو تو میں تمہارا پسندیدہ کھلونا تمہیں دلواؤں گا، ایسے میں بچہ کیا کرے؟
    ………………………………………………………….
    فلموں ڈراموں سے، کسی کتاب سے، کسی سنی سنائی بات سے بہرحال آج کے والدین پر یہ حقیقت تو اچھی طرح واضح ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اس گھٹن زدہ معاشرے میں عام ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا شعور ہی کافی ہے یا آگے بڑھ کر کوئی قدم اٹھانا ہو گا۔ کیا والدین واقعی اپنے بچوں کو اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے تیار کر رہے ہیں؟ اور جو والدین بچوں کو بتاتے ہیں، وہ کیا بتا رہے ہیں؟ پرائیویٹ پارٹس کون سے ہیں اور کسی کو اجازت نہیں کہ آپ کو ہاتھ لگائے۔ کوئی ایسی کوشش کرے تو مجھے بتا دینا۔ بس؟ کیا اتنا بتا دینا کافی ہے؟ ایک بار کا بتا دینا بہت ہے؟ ہرگز نہیں! بچوں کو مختلف زاویوں سے، مثالیں اور scenarios سامنے رکھ کر سمجھانا ہوگا، انہیں problem solving skills سمجھانے ہوں گے۔

    یاد رکھیے کہ دشمن میری اور آپ کی طرح کا ایک نارمل دکھنے والا انسان ہے، ہنستا بولتا ہے، گھلتا ملتا ہے۔ وہ کوئی الگ دنیا کی مخلوق نہیں کہ چہرے سے دیکھ کر ہم پہچان جائیں بلکہ عموماً تو اتنے بہترین عادات و اطوار کا مالک ہوگا کہ آپ کو اپنی اولاد کے لیے اس انسان پر بھروسہ کرتے وقت ایک لمحہ کوئی منفی خیال بھی نہ گزرے۔ بچے کی عمر کے لحاظ سے دشمن مختلف طریقوں سے اس کو گھیرتا ہے اور انہی طریقوں سے ہم نے بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں، دونوں کو) کو باخبر کرنا ہے۔

    1- لالچ دینا:
    چونکہ دشمن کا گھر میں ہر وقت کا آنا جانا ہے اور وہ آپ کی اولاد کی پسند ناپسند سے اچھی طرح واقف ہے، اس لیے وہ اس کو چھوٹے موٹے تحائف دیتا ہے۔ کبھی ٹافی، کبھی آئس کریم، کبھی اپنے ٹیبلٹ پر اس کو کارٹون اور گیمز کی اجازت دینا۔ اور ساتھ میں اس کو لالچ بھی دیتا ہے کہ میں آپ کو وہ والی گڑیا لا کر دوں گا جو آپ کو بہت پسند تھی اور ماما نے نہیں دلوائی، یا ہم پارک میں جھولوں پر جائیں گے اگر آپ۔۔۔!
    2۔ جھوٹ بولنا:
    اگر آپ امی ابو کو بتائیں گے، آپ کو ہی ڈانٹ پڑے گی۔ یا یہ کہ کوئی آپ کی بات کا یقین نہیں کرے گا۔ یا یہ کہنا کہ All cool kids do that یا ایسے ٹچ کرنے میں کوئی غلط بات نہیں۔
    3- دھمکی دینا:
    اگر آپ نے میری بات نہیں مانی، میں کبھی آپ کا دوست نہیں بنوں گا۔
    4- بلیک میل کرنا:
    میں آنٹی کو بتا دوں گا کہ اس دن سکول میں آپ کی فلاں سے لڑائی ہوئی تھی۔ اگر آپ بات نہیں مانو گے تو میں انکل سے کہوں گا یہ ہمارے گھر میں ٹی وی دیکھتا ہے جو آپ نے اپنے گھر میں منع کیا ہوا۔
    5- چیلنج کرنا:
    اگر آپ اتنے سمارٹ ہو تو 5 سیکنڈز میں اپنا انڈرویئر اتار کر دکھائیں۔ مجھے پتہ ہے آپ نہیں کر سکیں گے۔ بچوں کو dare کیا جائے تو وہ فوراً اپنے آپ کو پروو کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

    یہ پانچوں طریقے مزید مثالوں سے آپ بچوں کو سمجھائیں۔ ہر مثال پر ان سے پوچھیں اگر ایسا ہو تو آپ کیا کریں گے یا ایسا کبھی ہوا تو نہیں؟ ۔ اب آئیں حکمتِ عملی کی طرف:
    1- سب سے پہلا کام بچے کو یہ کرنا ہے کہ بآوازِ بلند، واضح الفاظ میں ”نہیں، میں ایسا نہیں کروں گا“ کہے۔ (بچے سے کہلوائیں تا کہ اس کی پریکٹس ہو)
    2- وہاں سے بھاگ کر فوراً محفوظ جگہ پر قابلِ اعتبار لوگوں میں پہنچے۔
    3- پہلی فرصت میں امی ابو کو سب کچھ بتائے۔ سکول میں ہیں تو ٹیچر کو بتائیں، کسی کے گھر میں ہیں تو جو قابلِ اعتبار بندہ ہو اس کو بتائیں، اور موقع ملتے ہی امی ابو کو بتائیں۔

    یہاں یاد دہانی کرواتی چلوں کہ بچے آپ کو تبھی اپنے دل کی بات بتائیں گے جب آپ ان کو اعتماد دیں گے۔ ان کے ساتھ اپنی چھوٹی موٹی باتیں شیئر کیا کریں تا کہ وہ بھی آپ کو اپنی باتیں بتانے میں جھجک محسوس نہ کریں۔ ان کو بتائیں کہ امی ابو کے ساتھ کوئی راز نہیں رکھنے ہوتے، ہر بات بتانی ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کو بتائیں کہ ہمارے آس پاس ہر طرح کے لوگ ہیں، اچھے بھی اور برے بھی۔ ہمیں اچھا بننا ہے، لیکن کسی کو اپنے ساتھ برا کرنے کی اجازت بالکل نہیں دینی۔ انہیں سکھائیں کہ کوئی برا کرے یا کوئی ایسی بات کرے کہ آپ کو لگے کہ گندی بات ہے تو firmly انہیں کہیں کہ ”نہیں، میں ایسا نہیں کروں گا“ اور فوراً وہاں سے بھاگ جائیں۔

    اب فرض کیجیے کہ کمرے میں اس وقت کوئی اور نہیں، بچہ اسی ”سرپرست“ کے ساتھ اکیلا ہے۔ بچے کو اپروچ کرے تو اور کچھ ممکن نہ ہو تو بچے کو کہیں کہ پیٹ کے درد کا بہانہ کر کے باتھ روم چلا جائے اور تب تک وہاں رہے جب تک دشمن نا امید ہو کے چلا جائے یا باقی گھر والے کمرے میں آ جائیں۔

    بچوں کے ساتھ رویہ دوستانہ رکھیں تا کہ وہ آپ کے ساتھ اپنی ہر بات شیئر کر سکیں۔ یہ بہت ہی ضروری ہے۔ بچوں کے ذہن میں سوال پیدا ہونا فطری ہے۔ اگر آپ انہیں سوال کرنے پر ڈانٹ دیں گے تو ان کا تجسس ختم نہیں ہو گا۔ وہ کسی اور سے اس کے بارے میں پوچھیں گے۔ وہ کس سے پوچھیں، اگلا بندہ کیا جواب دے، یہ آپ کو معلوم نہیں۔ کچھ والدین شرم کے مارے ان ٹاپکس پر بچوں سے بات نہیں کرتے۔ ہوتے ہوتے والدین اور بچوں کے درمیان جھجک کا ایسا پردہ حائل ہو جاتا ہے جس کو پاٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے لیے اپنے بچے کے ساتھ یہ باتیں کرنا ممکن نہیں تو لاوارث چھوڑنے کے بجائے کسی خالہ، پھوپھو، کوئی بڑا بہن بھائی، کزن، کوئی ایسا بندہ جو بچے سے نزدیک ہے، اس کو اس طرف لگائیں اور ان سے بچے کے بارے میں ان ٹچ رہیں۔ بہتر بہرحال یہی ہے کہ خود بات کی جائے۔ انہیں آپ سے اتنا اعتماد ملنا چاہیے کہ وہ جھجھکے بغیر آپ سے جو دل میں آئے پوچھ لیں۔ جواب سچائی اور حکمت پر مبنی ہونا چاہیے۔

    بچوں کے بدلتے رویوں پر نظر رکھیں۔ ان کی کوئی بات، کوئی عمل، کوئی غیر متوقع ری ایکشن، ڈراؤنے خواب، ہنستے کھیلتے بچے کا ایک دم چپ چپ سا ہو جانا، غصہ کرنا، یا کسی سے نفرت یا ناپسندیدگی کا اظہار کرنا جو آپ کی نظر میں بہت اچھا انسان ہو؛ ایسی کسی بھی صورت میں غیر محسوس طریقے سے کریدنے کی کوشش کریں۔ بچہ کہیں جانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرے تو اس کو ڈانٹنے کے بجائے کھوج لگانے کی کوشش کریں کہ آخر یہ بچہ صرف اسی گھر میں جانے سے کیوں گبھراتا یا کتراتا ہے۔ بچے کی رائے کو مقدم رکھیں۔

    عام حالات میں بھی ہمیں معلوم ہے کہ بچوں کو بار بار یاد دہانی کروانی پڑتی ہے۔ ہم مائیں تو آدھا دن یہی بولتی ملتی ہیں ”بیٹا، یہ بات میں آپ کو اتنی بار پہلے بھی سمجھا چکی ہوں۔ تھوڑی دیر پہلے میں نے فلاں بات سے منع کیا تھا“ تو اسی حوالے سے اوپر دیا گیا مکالمہ ایک بار کر لینا کافی نہیں بلکہ ہر کچھ عرصے بعد drill کی جائے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے ہم اپنے بچوں کو ذہنی طور پر تیار کر سکتے ہیں۔ اور اس سب کے ساتھ بچوں کو دعاؤں کے حصار میں رکھیں۔ اللہ تعالی ان ننھے پھولوں کو اپنی امان مین رکھیں اور کبھی کسی کی میلی نظر بھی نہ پڑے۔
    ………………………………………………………….
    – جب اس موضوع پر بات ہو تو بعض لوگ جوائنٹ فیملی سسٹم ہی کو بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں:
    اس سے جزوی اتفاق ہے۔ کلی اس لیے نہیں کیونکہ فرض کیجیے کہ میرے دادا دادی میرے والد کے ساتھ رہتے ہیں۔ جوائینٹ فیملی نہیں ہے لیکن میرے چچا، پھوپھو وغیرہ اپنے والدین سے ملنے ہمارے گھر آئیں گے۔ ساتھ میں بچوں کو بھی لائیں گے۔ دور سے آئے تو شاید کچھ دن رکیں گے بھی۔ ایسے میں کیا کیا جائے؟

    – کچھ احباب کہتے ہیں کہ بچوں کو ہر وقت اپنی نگرانی میں رکھا جائے:
    کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے؟ آپ کو بچوں کو سکول بھی بھیجنا ہے، کوئی فیلڈ ٹرپ ہو گا تو بچے وہاں بھی جائیں گے، رشتہ داروں سے بھی ملنا ہے۔ کبھی آپ کو خود کہیں جانا پڑ سکتا ہے جہاں بچے کو لے کر جانا ممکن نہ ہو۔ 10، 12 سال تک کے بچے victim بن سکتے ہیں۔ 12 سال تک یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ بچے کو ہمہ وقت اپنی نگرانی میں رکھیں؟

    – بعض کے نزدیک اسلام سے دوری وجہ ہے:
    یقیناً ایسا ہے لیکن مدارس بھی اس غلاظت سے پاک نہیں۔ اور یوں بھی اسلام کو ہم راتوں رات ہر جگہ، ہر ایک پر نافذ نہیں کر سکتے۔ کوئی ایسا حل ہونا چاہیے جس پر ابھی فوری عمل درآمد شروع کیا جائے۔

    – کچھ کے مطابق ٹی وی، فون، انٹرنیٹ اصل وجہ ہے:
    جو واقعہ میں نے لکھا وہ اب سے کوئی 15 سال پرانا ہے۔ انباکس میں بھی دو واقعات ایسے پتہ چلے جو اتنے ہی پرانے ہیں۔ اس وقت تو یہ خرافات نہ ہونے کے برابر تھیں۔

    واحد حل یہی ہے کہ بچوں کو مضبوط بنایا جائے، انہیں اعتماد دیا جائے، انہیں problem solving skills سکھائے جائیں۔ بحیثیت والدین آپ پر بھاری ذمہ داری ہے۔ آپ کو یہ لگتا ہے کہ ایسی باتیں کر کے آپ ان سے ان کا بچپن چھین رہے ہیں تو تصور کی آنکھ سے ان بچوں کو دیکھیں جن کے ساتھ یہ زیادتی ہو چکی ہے۔ ان کی ساری زندگی ایک کرب میں گزرتی ہے۔ ایک ناکردہ گناہ کا مجرم بن کر، بنا کسی قصور کے خود کو کوستے ہوئے، بچوں کو اس اذیت میں مت جھونکیں۔ ان کو ایک مضبوط اور پراعتماد انسان بنائیں۔

  • قندیل بلوچ کی موت میں سبق – نیر تاباں

    قندیل بلوچ کی موت میں سبق – نیر تاباں

    قندیل بلوچ کے آفیشل پیج کا چکر لگایا۔ پہلی دو تین پوسٹس دیکھ کر واپسی میں ہی عافیت جانی۔ یہ سوچ کر بھی لرز گئی ہوں کہ جس طرح صدقہ جاریہ ہوتا ہے، یہ سب گناہ جاریہ بن رہا ہے۔ سب سے پہلے تو پلیز ایک فیور یہ دیں کہ اس پیج کو رپورٹ کریں۔ جی، پورے انٹرنیٹ سے تو ہم سب کچھ ڈیلیٹ نہیں کروا سکتے لیکن آفیشل پیج تو بند ہو سکتا ہے۔

    ہم سب کے لیے کتنے سبق ہیں اس موت میں۔ کوئی بھی ٹیکسٹ، کوئی گانا، کوئی ایسی تصویر، کوئی ایسی بات جو ہم نے شیئر کی اور اس کے بعد ہماری تو موت واقع ہو جائے مگر وہ لوگوں میں circulate ہوتی رہے۔ ہر بار post/send/share کا بٹن دبانے سے پہلے ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ اعمال توبہ کے بغیر ڈیلیٹ نہیں کیے جا سکتے اور موت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔

    دوسری بات یہ کہ گناہ تو گناہ ہی ہے لیکن اس کو چھپ کر کرنا ایک بات ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کرنا اور اس پر اترانا اور فخر کرنا الگ بات۔ اگر کچھ غلطی کر بھی بیٹھیں تو اس کی تشہیر نہ کریں۔ آپ تو شاید تائب ہو جائیں لیکن لوگ اس کا حوالہ دینا آخری دم تک یاد رکھیں گے۔

    برائی اور ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو پکڑ ہو ہی جاتی ہے۔ اللہ کی مقرر کردہ حدود جب انسان پھلانگتا ہے تو عبرت ناک انجام کو پہنچتا ہے. کبھی اپنی دینی قابلیت پر اکڑ کر دوسرے کو کم تر نہ سمجھیں۔ مفتی قوی صاحب کی ساری عمر کی ریاضت اور مقام ایک جھٹکے میں اس جگہ آن کھڑا ہوا ہے کہ اس قتل کے پیچھے بھی ان کا نام لیا جا رہا ہے۔ اپنے لیے ہم سب اللہ سے خاتمہ بالخیر کی دعا اور ایمان پر زندگی اور ایمان پر موت مانگیں۔ قدم لڑکھڑانے میں بس ایک لمحہ لگتا ہے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جو دعوی کر سکے کہ وہ کبھی نہیں پھسلا یا آئندہ بھی ہمیشہ ثابت قدم رہے گا۔

    قندیل بلوچ کی شادی شدہ زندگی میں بہت بڑا سبق والدین کے لیے بھی پوشیدہ ہے۔ بچوں کی شادی میں ان کی پسند کو بھی ملحوظ رکھیں۔ زبردستی کے نکاح خوشیاں کم ہی لے کر آتے ہیں۔

    ایک بات اس کے پیج پر یہ نوٹ کی کہ لگ بھگ 750K لوگ اس کو فالو کر رہے تھے۔ میں بھی ایک پیج کے لیے کام کرتی ہوں. اس پر تین سال کی مسلسل محنت کے بعد بھی ہم پانچ لوگ قریب 176K ممبرز جوڑ پائے ہیں جبکہ وہ اکیلی ہی اس سے کم عرصے میں اتنے سارے فالوورز جمع کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ شاید وہ وہی دکھاتی تھی جو لوگ دیکھنا چاہتے تھے. اس کی موت پر ہم سب جو متقی پرہیز گار بنے بیٹھے ہیں، ایک بار ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیں۔ وہ تو ایک ویڈیو پوسٹ کرتی تھی، مگر اس کو لاکھوں کے حساب سے views دینے والے ہم ہی تھے جو اب استغفراللہ پڑھ کر سائیڈ سے نکل رہے ہیں۔

    آخری بات پھر وہی جو امجد صابری کی موت پر بھی ہوئی، ایدھی صاحب کی وفات پر بھی اور اب قندیل بلوچ کے قتل پر بھی. وہ لوگ اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہوئے۔ ان کا معاملہ اب اپنے رب کے ساتھ ہے، آپ اور میں بس اللہ سے یہی گمان رکھیں کہ ہمارے رب کی رحمت اس کے غضب پر بھاری ہے۔ وہ ان کے کھلے چھپے گناہ بخش دے اور ان کی نیکیاں قبول فرما کر انہیں جنت میں بلند مقام عطا فرمائے۔
    میری دعا ہے کہ اللہ تعالی! تو نے ہمارے جو گناہ ڈھانپ رکھے ہیں، انھں ڈھانپ کر ہی رکھنا، ہمیں بخش دینا، ہمارا خاتمہ بالخیر کرنا اور ہمارے پیچھے ایسے لوگ ہوں جو ہماری جنت جہنم کے فیصلے کرنے کے بجائے ہماری مغفرت کی دعا کریں کیونکہ اب تو دل بہت ڈر گیا ہے۔ آمین