Author: نجم الحسن

  • جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے – نجم الحسن

    جہیز کے ڈاکو، مہر کےرکھوالے – نجم الحسن

    نجم الحسن ”مہر“ یہ لفظ اسلامی دنیا اور پاکستان میں بالخصوص ایک بہت عام نام ہے، مثلا ”مہر بانو“ جو کہ جگن کاظم کے نام سے جانی جاتی ہیں، شاید بہت ساروں کو نہیں پتہ ہوگا۔ بہر کیف میں یہاں مہر لڑکی کی بات نہیں کر رہا ہوں، میں اس مہر کی بات کر رہا ہوں جسے مہرفاطمی، حق مہر بھی کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! اس رقم کی بات کر رہا ہوں جو مسلمانوں میں دولہا نکاح ہونے پر اپنی دلہن کو دیتا ہے۔ یہ رقم یا تو نکاح کے فورا بعد دی جاتی ہے یعنی ”مہر معجل یا مہر غیر مؤجل“ یا جب لڑکی چاہے تب لے سکتی ہے جو کہ ”مہر غیر معجل یا مؤجل“ کہلاتا ہے۔ اسلامی شریعت نے حق مہر ادا کرنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں لگائی ہے، مرد اپنی زندگی میں کسی بھی وقت جب چاہے اسے ادا کرسکتا ہے اور اگر وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی اس قابل نہ ہو پائے کہ ادا کرسکے تو اس کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ میں سے حق مہر ادا کیا جائے گا اور یہ قرض ہوگا۔ اگرچہ میری نظر میں چونکہ بندہ اس قابل ہی نہیں کہ حق مہر ادا کر سکے تو اس کو شادی کرنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے، تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے، شریعت میں ایسی کوئی قدعن نہیں۔ مگر ہاں جو امر ضروری ہے وہ یہ ہےکہ مہر طے ہوتی نکاح سے پہلے ہے اور یہ طے ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا آسانی سے میں نے لکھ دیا۔

    تو تو میں میں ہوتی ہے۔ دلیلیں دی جاتی ہیں۔شریعت کی بات ہوتی ہے۔حیثیت کی بات ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ لڑکے کی اتنی حیثیت نہیں تو مہر اتنا کیوں، اور اسی دوران دو نوں خاندانوں میں نفرتیں، ناپسندیدگیاں اور ناچاقیاں اپنی جڑیں جمانا شروع کردیتی ہیں۔ دوریاں بڑھ جاتی ہیں اگر چہ قربتوں نے ابھی پنپنا شروع بھی نہیں کیا ہوتا۔ مطلب شادی تو ہوجاتی ہے لیکن مہر کے جھگڑے کی کھٹاس لے کر۔ اور یہ کھٹاس لڑکی کے لئے طعنوں کی وجہ بن جاتی ہے کہ اس کے گھر والوں نے مہر کے لیے کتنا ہنگامہ کیا تھا۔ مہر طے ہوتے وقت لڑکی والوں کو بدگمان بتایا جاتا ہے۔انہیں جال میں پھنسایا جاتا ہے کہ یہ تو بدظن ہیں جو مہر کی رقم کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ارے جس نے بیٹی دے دی تو پھر مہر کا کیا۔
    مگرحیرانی اس وقت ہوتی ہے جب لڑکے والوں کو کسی بات میں شریعت یاد نہیں آتی۔ بس یاد آتی ہے تو مہر کی رقم لکھواتے وقت۔ ایسے ہو جاتے ہیں جیسے ان سے بڑا کوئی مولوی یا پاک و پاکیزہ نہیں۔اگر یہ نہ ہوتے تو اسلام کی جڑیں ہل گئی ہوتیں۔ ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں جیسے اسلام صرف ان کو کندھوں پر ہی ٹکا ہے۔ اور ایسا دباؤ بنایا جاتا ہے کہ چند روپیوں کا مہر ہی لڑکی والوں کو لکھواناپڑتا ہے۔تاہم اگر دیکھا جائے تو مہر کی رقم لڑکی کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتی ہے۔ مکمل زندگی گزارنے کے لئے بس ایک سہارا ہوتی ہے، ایک آس ہوتی ایک ڈھارس ہوتی ہے۔جو لڑکے والے کم سے کم لکھوانا چاہتے ہیں۔

    جب لڑکی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے۔تو لڑکے کی پسند اور نا پسند کا پٹارا بھی کھل جاتا ہے۔ یہ پسند والی فہرست اتنی تگڑی ہوتی ہے کہ بیٹی کا ہونا لوگ بوجھ سمجھ بیٹھتے ہیں۔اور یہ پسند بتانے والے لڑکے وہ ہوتے ہیں جو کبھی گھر میں پسند کی سبزی بھی پكوا کر نہیں کھا پاتے۔ اور گھر سے باہر یہ ہی بتاتے ہیں کہ آج قورما کھایا، اور آج بریانی کھائی۔ اور ہاں، بیٹے نے اگر کچھ اپنی مرضی کی ڈیمانڈ گھر میں کر دی تو ماں باپ کے ڈائیلاگ ایسے ہوتے ہیں، نالائق کرتا کچھ نہیں، اور مطالبہ ایسے کرتا ہے جیسے سب کچھ کما کے گھر میں اس نے ہی رکھا ہے۔

    اتنا ہی نہیں اگر بیٹا جواب دے دے تو کہتے ہیں، کر نہ کرتوت لڑنے کو مضبوط۔ ‘ مگر یہی ماں باپ جب بیٹے کے لئے دلہن لینے جاتے ہیں تو ان کا منہ لڑکی کے گھر والوں کے سامنے اسی نالائق بیٹے کے لئے ایسے پھٹتا ہے کہ پوچھو مت۔ اگر ان ماں باپ کا بس چلے تو لڑکی کا پورا گھر ہی سر پر اٹھا لائیں۔ اس وقت انہیں شریعت یاد نہیں آتی۔

    بارات کی بات ہوتی ہے توبول دیا جاتا ہے ہمارے اتنے سو باراتي آئیں گے۔ اگر لڑکی والے کہیں کہ تھوڑے کم باراتی لے آنا تو وہی شان بگھارتے ہوئے کہیں گے۔ اجی ماشا اللہ سے کنبہ ہی اتنا بڑا ہے، اور پھر ہمارا لوگوں سے اتنا ملنا جلنا ہے۔لڑکے کے دوست ہیں، احباب ہیں، جان پہچان کے لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو اب آپ ہی بتایئں کم باراتی کیسے لائیں، کسے انکار کریں۔انکار کریں گے تو ہمارے رشتہ دار ناراض ہو جائیں گے۔ اس وقت لڑکے والوں کو لڑکی والوں کی حیثیت نظر نہیں آتی۔ ہاں اس وقت اپنی حیثیت ضرور یاد آ جاتی ہے جب مہر کی باری آتی ہے۔ پھر ممياتے ہیں، جی ہماری تو اتنی حیثیت ہی نہیں۔

    کوئی ناراض نہ ہو جائے اس وجہ سے بارات میں کسی کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔لیکن نیا نیا رشتہ ہونے کے باوجود لڑکی والوں کی ناراضگی کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ طویل چوڑی بارات لے کر جائیں گے۔ چاہے لڑکی والوں کی حیثیت ہو یا نہ ہو۔ اور اگر پھر لڑکی والوں کی طرف سے خاطر داری میں نمک بھی کم رہ جائے تو لڑکے کا پھوپھا مختلف ننگا ناچ کرے گا۔ پھپھو (پھوپھی) کی زبان الگ لمبی راگ الاپے گی، خالو (مسے) الگ بڑبڑائےگا۔ تب لڑکے والوں کو نہیں لگے گا کہ وہ کتنی بے غیرتی دکھا رہے ہیں۔ کھانے کو برا بتاتے وقت نہ شریعت یاد آئے گی اور نہ سنت۔ ہاں اگر لڑکی والے مہر کی بات کریں گے تو ضرور لگے گا۔ دیکھو تو صحیح پوری لڑکی دے دی اور مہر کے چند پیسوں کے لئے جھگڑ رہے ہیں۔ مطلب اگر وہ مہر کی بات بھی کریں تو ان کا وہ بات کرنا جھگڑنا نظر آتا ہے۔ جہیز مانگنا، ہر بات میں اپنی چلانا، آپ نئے نئے رسم و رواج بتا کر لڑکی والوں سے وصولی کرنا، لڑکے والوں کو داداگيري یا رنگداری مانگنے جیسا نظر نہیں آتا۔

    شریعت کے مطابق مہر ”مہرفاطمی“ ہوتا ہے جس کے تحت موجودہ دور میں تقریبا 150 تولا چاندی یا اس کی رقم بنتی ہے۔ مہرفاطمی مطلب جب نبی محمد ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے ہوا تو مہر کی رقم اس دور کے حساب سے طے کی گئی۔یہ رقم موجودہ دور میں انتہائی کم ہے، اس لیے ہی لڑکے والوں کو مہر کے وقت شریعت یاد آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمی باندھ لو۔لیکن انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ جہیز کا لین دین نہیں ہوا تھا۔ جہیز مانگنا تو لڑکے والوں کا پیدائشی حق جیسا لگتا ہے۔ جہیز لیتے وقت ان کی شریعت جہیز میں کسی صندوق میں بند ہو جاتی ہے۔ اور صندوق کی چابی پتہ نہیں کہاں کھو جاتی ہے۔حقیقت میں ہم شریعت کو ایک لبادہ سمجھ بیٹھے ہیں، جب ٹھنڈک محسوس ہوئی اوڑھ لیا اور جب گرمی لگے تو اتار پھینکا۔

  • ہاکی کی حالت زار اور ایشین چیمپئنز ٹرافی – نجم الحسن

    ہاکی کی حالت زار اور ایشین چیمپئنز ٹرافی – نجم الحسن

    نجم الحسنکچھ عرصہ پہلے دلیل پر میرے ایک دوست نے پاکستان میں کھیلوں کی زبوں حالی کا ذکر کیا تھا اور اس میں خصوصا ہاکی کے کھیل کی بربادی پر اپنا فوکس مرکوز کیا تھا۔ پڑھ کر بہت دکھ ہوا تھا، کہ “نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ پاکستان جو کبھی ورلڈ چیمپئن اور اولمپک چیمپئن تھا، 2016 کے ریواولمپکس میں شامل ہی نہیں”۔ لیکن معمول کے مطابق یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا رہتا ہے ہر کھیل میں ٹیم پر برا وقت چل رہا ہوتا ہے، اور امید ہے کہ اگلے مہینے کے ایشئین چمپئینز ٹرافی میں پاکستانی ٹیم جیت کر ہی آئیگی۔ لیکن کل کا میچ دیکھ کر بچی کچھی تسلی کیلئے بھی جگہ نہیں رہی، پاکستانی ٹیم میچ ہارے تو ہاری لیکن وہ بھی فائنل۔ اب فائنل ہارنے کا دکھ تو ہوتا ہی ہے، لیکن بہ مثل جلتی پہ تیل چھڑکنے کے، فائنل ہارے بھی تو بھارت سے۔ بھارت نے پاکستان کو ایک سنسنی خیز میچ میں 3-2 سے شکست دے کر 5 سال بعد دوبارہ ایشین چیمپئنز ٹرافی جیت لی ۔ خوب دل میں برا بھلا کہا اور ایک برا خواب سمجھ کر، معمول کے مطابق، بھولنے کی کوشش میں لگ گیا۔ ویسے بھی آجکل ہم بحیثیت قوم بھولنے کے عادی ہو چکے ہیں، کوئی بھی واقعہ ناگوار گزرے تو جھٹ سے کوئی نیا ڈرامہ دیکھنا شروع کردیتے ہیں، سو میں بھی عمران خان اور نواز شریف کےحالیہ چالو ڈرامے میں مشغول ہو گیا۔لگتا ہے جلدی ہم سب شارٹ ٹرم میموری لاس کے بیماری میں مبتلا ہو جائینگے اور پوری قوم خوش وخرم زندگی گزارینگے۔
    لیکن ابھی اس بیماری میں پوری طرح غرق ہوئے نہیں ہیں، لہذہ اس میچ کے کچھ جھلکیاں ابھی بھی ذہن میں تازہ ہیں۔ اب ظاہری بات ہے پاکستان کا فائنل میچ ہو اور وہ بھی بھارت کے ساتھ کہاں اتنی جلدی بھلایا جا سکتا، بھلے جیت ہار کسی کی بھی ہو لیکن ایسا میچ دیکھنے کیلئے پوری دنیا کے ناظرین اوتاولے بیٹھے رہتے ہیں۔ بھارت پاکستان میچ کی ایک شان ہوتی ہے اور ملائیشیا کے شہر کوانٹن کے میدان میں یہ میچ بھی اس شان میں کھیلا گیا۔ پہلے 15 منٹ میں برابر، دوسرے 15 منٹ میں بھارت، تیسرے 15 منٹ میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا۔ میچ کا سب سے پہلا حملہ ہندوستان نے ہی کیا جسجيت کے شاٹ سے ایک عذب کا کارنر بیکار جانے کے بعد روپندر پال سنگھ نے پنالٹی کارنر سے ایسی گولی داغی کہ کسی کے پاس ہلنے تک کا موقع نہیں ملا. میچ میں بھارت کی جانب سے 18 ویں منٹ میں روپندرپال سنگھ نے گول کرکے برتری دلادی جبکہ 5 منٹ بعد رمندیپ کے پاس کو یوسف عفان نے گول کرکے برتری کو دوگنا کرتے ہوئے 23 ویں منٹ میں 2-0 کر دیا ۔ اور ٹھیک 3 منٹ بعد پاکستان کی جانب سے محمدعلیم بلال نے اسکور کر معاملہ 2-1 پر لا کر کھڑا کر دیا جبکہ شان علی نے 38 ویں منٹ میں گول کرکے مقابلہ کو 2-2 سے برابر کردیا۔لگ رہا تھا کہ میچ شوٹ آؤٹ میں جائے گا، کیونکہ بھارت اور پاکستان میچ کسی بھی وقت تبدیل کرنے کے لئے مشہور ہیں اور چاہیں دونوں ٹیموں کو ایک دوسرے سے مسلسل کھیلنے کا موقع نہ ملے لیکن آپس میں کس طرح کھیلنے یہ نہیں بھولتیں، سو دھڑکنیں تیز اور امقبلہ سخت ہوا جا رہا تھا۔ آخری 8 منٹ میں پاکستان نے زوردار حملے کئے، ایک پنالٹی کارنر بھی ملا لیکن پاکستان کے کھلاڑی گیند کو پنالٹی کارنر کے لئے سٹاپ ہی نہ کر پائے۔ تب میچ میں 6 منٹ باقی تھے،سکور 2-2 تھا فائنل هوٹر سے کوئی 6منٹ پہلے اكاشديپ کو 25 گز کے پاس گیند ملی، گیند کو پاکستان کے دائرے میں کھڑےکھلاڑی تھیماما کو تھمایا جسکے سامنے کوئی نہیں تھا اور اس طرح اس نے چوتھے کوارٹرمیں فیلڈگول کرکے اپنی ٹیم کو برتری دلائی،پاکستانی ٹیم نے آخری وقت تک خوب مقابلہ کیا لیکن میچ برابر کرنے یا جیتنے میں ناکام رہے، پاکستان اپنے اعزاز کا دفاع کرنے میں ناکام رہا ہےاسطرح بھارت نے برتری برقرار رکھی اور پانچ سال بعددوسری دفعہ ٹرافی کے حقدار بن گئے۔ یاد رہے کہ 2011 میں بھی بھارت نے پاکستان کو شوٹ آؤٹ میں شکست دے کر ایشین چیمپینز کا خطاب جیتا تھا جس کے بعد پاکستان گزشتہ 2 بار سے مسلسل یہ ٹرافی جیت رہا تھا۔ پاکستان انڈیا کا آپس میں لگا رہتا ہے کہ جو لیگ راؤنڈ میں جیت جاتی ہے وہ ناک آؤٹ میں ہارنے والی سے ہار جاتی ہے۔ بھارت نے اب کی بار اس روایت کو توڑ کر لیگ اور ناک آوٹ دونوں میچ 3-2 سے جیتے۔ویسے پاک بھارت میچ میں 1-2 رف ٹےكل ضرور ہوتے ہیں لیکن اس میچ میں دونوں ٹیمیں کھیل سمجھ بھوج کےساتھ کھیلی۔ میچ دیکھ کر اپنے دوست کے گوش گزار کرتا جاوں کہ انکا تجزیہ ہرگز غلط نہیں اور ہماری ٹیم مینیجمنٹ جتنی بھی بری کارکردگی دے، لیکن جسطرح پاکستانی کھلاڑیوں نے ڈٹ کر ہندوستانی کھلاڑیوں کا مقابلہ کیا وہ بھہ قابل ستائش ہے۔ گر چہ میچ پاکستان نہیں جیت سکا اور ٹرافی بھی ہاتھ سے گئی لیکن ایک اچھا کھیل دیکھنے کو ملا، جس سے دل کو آیندہ میچز دیکھنے کو تسلی ہے، بقول غالب کے
    ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
    دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

  • پش اپس نہیں، نوافل پڑھیں – نجم الحسن

    پش اپس نہیں، نوافل پڑھیں – نجم الحسن

    نجم الحسن پاکستان کرکٹ ٹیم نے پش اپس کیے انگلینڈ میں لارڈز کے میدان پر اور وبال پہنچ گیا پارلیمنٹ تک۔ پاکستانی سیاستدان آجکل کب کیا قدم اٹھا لیں، یہ تو ان کو بھی نہیں معلوم۔ پچھلے جملے میں ان کو کی جگہ لکھتا تو کچھ اور ہی، مگر کیا فائدہ، بلا وجہ کسی کو فتوی جاری کرنے کی زحمت کیوں دوں۔ ایسے کچھ لوگ کیا ہیں، کیا کرتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں، ہم کوسمجھ میں نہیں آتا، اگر ان کا نام احمق رکھ دیا جائے، تو شاید لوگ جلدی سمجھ جائیں گے۔ اب یہ ہی دیکھ لیں، پاکستان انگلینڈ کے درمیان جولائی میں لارڈز میں ٹیسٹ میچ کھیلا گیا، مطلب پورے تین مہینے پہلے۔ میچ میں 16 جولائی کو مصباح الحق نے شاندار سنچری مکمل کی اور کرکٹ کا گھر مانے جانے والے گراؤنڈ پر 10 پش اپس کیے تھے۔ لارڈز کےمیدان میں، ایک بہترین کارکردگی کے باعث جب پاکستان نے میچ جیتا تو پوری ٹیم نے ایک ساتھ پانچ پش اپس لگائے۔ اور وہ ایسے ہی نہیں تھا، بلکہ وہاں باقاعدہ آرمی کی طرز پریونس خان کی قیادت میں ہوشیار باش کیی اواز لگائی گئی ، پش اپس لگائے گئے اور پھر پرچم کو سلامی دی۔ میچ ختم ہونے کے بعد مصباح نے بتایا تھا کہ میں نے ایبٹ آباد میں آرمی کے لوگوں کو وعدہ کیا تھا کہ جب بھی میں انگلینڈ میں سنچری بناؤں گا تو پورے 10 پش اپس کروں گا۔

    لگ گئی ہمارے کچھ سیاسی شعبدہ بازوں کو مرچیں، اس لیے نہیں کہ پش اپس لگا دیے، بلکہ اس لیے کہ کسی کی نقل کیوں کی یا شاید کسی کو خوش کرنے کے لیے ہی کیوں پش اپس جیسے عمل کو اپنایا۔ بات دل میں ہی رہ گئی کیونکہ کوئی مناسب موقع نہیں ملا اور عین وقت پر چپکی سادھ لی۔ تاہم ایک ایسے موقع پر معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، جب کرکٹ کے بجائے کوئی اور میدان گرم ہوگیا ہے۔ معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، کیونکہ امن سے کچھ ہو جائے، ایسا بھلا یہ نوٹنکی سیاسی لوگ کیسے ہونے دیں گے۔ بدھ کے روز پارلیمنٹ میں اس بات پہ جرح ہوئی، جس میں ایسی باتیں ہوئیں کہ پاگل کو بھی ہنسی آ جائے۔ پاکستان مسلم ليگ نواز کے ممبر اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے رکن رانا محمد افضل نے کھلاڑیوں کے پش اپس کرنے پر اعتراض کیا۔ کہا کہ آخر مصباح الحق اور ٹیم پش اپس کرکے کس کو پیغام دینا چاہتے تھے۔ کھلاڑی جیت کر تو پش اپس کرتے ہیں، لیکن ہارنے پر خاموش کیوں ہو جاتے ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کے چوہدری محمد عاصم نذیر کچھ اس طرح گویا ہوئے کہ جیت پراچھلنا کودنا اچھا ہے، لیکن پش اپس کرنے کے بجائے کھلاڑی کامیابی پر نوافل ادا کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ نوافل بھی ایک طرح کی نماز ہی ہوتی ہے، جس کو پڑھنا واجب مطلب ضروری تو نہیں، لیکن اگر پڑھا جائے تو ثواب ملتا ہے۔ یہ عجیب و غریب باتیں دماغ میں گھس ہی نہیں رہی ہیں۔ یہ ہی نہیں، بلکہ پی سی بی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کو اس معاملے پر جواب دہ قرار دیا گیا جنہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ مصباح الحق نے آرمی کو خراج تحسین پیش کرنے کے طور پر پش اپس کیے تھے۔ وہ اپنی فٹنس دکھانا چاہتے تھے، کیونکہ كاكول میں آرمی کے تربیتی کیمپ نے پاکستانی ٹیم کو فٹنس کی ٹریننگ دی تھی۔ تبھی مصباح نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ انگلینڈ کے خلاف سنچری لگائیں گے تو پش اپس ماریں گے۔

    بقول چوہدری صاحب کے، ہارنے پر یہ کھلاڑی خاموش ہوتے ہیں اور جیت پر پش اپس جیسی حرکتیں؟ اب ہارنے پر کھلاڑی خاموش نہ رہیں، تو کیا کریں؟ جشن منائیں؟ پھر تو انہیں غدار قرار دے دیا جائے گا، پھر اور فتوے جاری ہوں گے۔ جیتنے پر جشن منائیں تو بھی دقت، نفل کیوں نہیں پڑھا؟ رانا جی معاف کرنا، رہنما بن گئے مگر عقل بیچ کر۔ واہ کیا خوبصورت الفاظ کہے چوہدری صاحب نے، دل کر رہا ہے ایک مسجد بنوا کرچوہدری عاصم نذیر کو پارلیمنٹ سے نکال کر اس مسجد کا امام بنا دوں۔ اور پھر چوہدری صاحب اپنی کرکٹ ٹیم کو میدان پر کھیلنے دیکھنے یا پارلیمنٹ میں ایسی بھاڑ بجائے نماز ہی پڑھاتے رہیں، کیونکہ یہ زیادہ بہتر رہے گا۔ پہلے خبر آئی کہ نجم سیٹھی نے معاملے کو طول پکڑتے دیکھ کر دو ٹوک کہہ دیا کہ پی سی بی نے کھلاڑیوں پر پش اپس کرنے پر روک لگا دی ہے، اب کوئی بھی کھلاڑی میدان پر پش اپس نہیں کرے گا۔ واہ! اور اللہ ان تمام باتوں سے خوش ہوں گے؟ ایک ملک کو نمائندگی کرنے والا کھلاڑی اپنے ہی ملک کی آرمی سے ایک وعدہ کر کے آتا ہے۔ سنچری مارنے پر پش اپس مارنے کا وعدہ، وہ سنچری مار دیتاہے تو وعدہ پورا بھی کرتا ہے، ٹیم میچ جیتتی ہے تو پش اپس کرتی ہے۔ اور آپ نے ایسے وعدہ پورے کرنے والوں پر پابندی لگا دیا؟ یہ مذہب کے خلاف ہے یا ملک کے خلاف ہے؟ لیکن، بہر حال بعد میں خبر آئی کہ نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور کھلاڑی سنچری پوری کرنے پر 100 پش اپس مارے۔

    سوچنے والی بات یہ ہے کہ میدان پر ایک کھلاڑی سے نوافل پڑھوانا اتنا ضروری کیوں لگ رہا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر دفعہ کچھ اچھا کرنے پر دنیا کو دکھائے کہ اپنے خدا کو شکریہ کہا جائے؟ یا اس کی عبادت جائے؟ کل کو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ کھلاڑی وکٹ لینے کے بعد ایک دوسرے کو ہائی فائیو کیوں دیتے ہیں؟ نوافل کیوں نہیں پڑھتے؟بیٹسمین سنچری بنانے کے بعد ہیلمیٹ نکال کر بلا اٹھا کر میدان میں چاروں طرف کیوں دیکھتا ہے؟ نوافل کیوں نہیں پڑھتا؟ یا یہی کیوں نہ کہا جانے لگے کہ کوئی اللہ کا بندہ کھلاڑی کیوں بنتا ہے؟ مولوی کیوں نہیں بن جاتا؟ گھر میں رہے اور تا عمر نوافل پڑھے۔ اس جہاں کی زندگی بھی سکون سے جی لے گا اور آخرت کی بھی کامیابی۔ لیکن آپ سیاستدان تو وہ بھی نہیں ہونے دیتے، کسی کو طالبان بنا دیا تو کسی کی زندگی ایسی اجیرن کردی کہ وہ ایک پیشہ ور ملا بن گیا، کسی کو مسلکیت پہ لگا دیا تو کسی کو سیاست میں ہی کھینچ لے آئے۔ خیرمٹی پاؤ، میرے حساب سے پاکستان ٹیم کے پش اپس لگانے پر پابندی لگانے والوں کو سیاستدان بننے کے بجائے عمر بھر نوافل پڑھنا چاہیے تھا۔ اللہ کرم فرماتا، انسانیت دعائیں دیتی، کرکٹ میں چک چک نہ ہوتی، پاکستان کا یوں مذاق نہ اڑایا جاتا۔ افسوس صد افسوس چوہدری صاحب آپ بھی ہمارے غریب عوام کے ووٹوں سے جیتے ہوئے نمائندے ہیں، آپ پر، آپ کی سوچ پر افسوس کریں یا اپنے لوگوں پر جنہوں نے آپ کو اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے۔ پتہ نہیں کب عوام کو بھی عقل آئی گی اور وہ بھی چوہدری صاحب سے پوچھیں کہ چوہدری صاحب آپ نے بھی تو اپنے حلقے میں وعدے کیے تھے، کیا کام کیا؟ عوام کو روٹی، کپڑا، مکان دینے کے لیے کیا عملی اقدام اٹھائیں؟ دیگرمسائل سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ یا پانی اوربجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کتنے نوافل پڑھیں؟ پہلے آپ ان وعدوں سے انخراف کی پاداش میں پش اپس لگانا شروع کردیں، پھر دوسروں پہ اعتراض کریں۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ “میں خوش آمدید – نجم الحسن

    ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ “میں خوش آمدید – نجم الحسن

    نجم الحسن امریکہ دنیا کی جانی مانی سب سے بڑی طاقت ہے، جسکا اظہار اس نے زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں دنیا پرسبقت لیکر کیا ہے۔ تاہم یہ سبقت خود امریکیوں کیلئے بھی کبھی کبھی وبال جان بن جاتی ہے، کیونکہ دنیا پر حکومت کرنے کیلئے صرف معاشی، سیاسی و ٹیکنالوجیکل برتری ہی کافی نہیں ہوتی۔ کچھ معاشرتی اقدار کا بھی لحاظ رکھنا ہوتا ہے جس سے اپنی شناخت پر سوال اٹھنا نا گزیر نہ بنے۔ لیکن امریکہ نے دنیا کو گلوبل ویلج کا تصور دیکر دنیا میں ایک طرف اپنی تصوراتی اقدار کا پرچار کیا تو دوسری طرف اپنے ہی اصلی ا نسل امریکی یعنی “ریڈ انڈین” کو زچ کر دیا۔دنیا میں امریکہ جہاں ہر کسی کیلئے باہیں پھیلائے خوش آمدیدی کا ڈنڈورا پیٹ رہا ہے وہیں امریکیوں کو اپنے ہی ملک میں اپنی شناخت کے کھو جانے کا ڈر بھی ستاتا ہے۔اسکا برملا اظہار تو ایک عرصہ تک بیرونی دنیا نے کبھی محسوس نہیں کیا لیکن جو لوگ امریکہ یاترا کر کے آئے ہیں انکو معلوم ہے کہ یہ آزاد خیال امریکی اپنے ملک میں غیر امریکیوں کو کس تنگ نظری کا نشانہ بناتے ہیں۔ اور اب تو انکا یہ عامیانہ رویہ آہست آہستہ پوری دنیا کے سامنے انکے بڑے بڑے بیورو کریٹ و سیاسی لیڈر بہ بانگ دہل آشکارا کرتے نظر آتے ہیں۔

    امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست اور نظریات کا اثر ابھی سے نہیں بلکہ ایک عرصے سےکیمرے کے آنکھ سے نظر آنے لگے ہیں۔امریکیوں میں نسلی عصبیت تو ایک عام بات ہے، گو کہ یہ بات انکی الیکٹرانک میڈیا میں اس طرح سے منظر عام پر نہیں آتی ۔
    تا ہم اسکی موجودگی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے، جس کے شواہد دنیا کو گاہے بہ گاہے ملتے رہتے ہیں۔مگر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے آنے سے اس مضمون کو گرمانے والی جو ہوا ملی ہے وہ شائد پہلے کبھی نہیں ہوا کہ صدر کے عہدے کیلئے سیاست کرنے والا رکن عصبیت پسندی کا برملا اظہار کر رہا ہو۔ اب انتخابات کے نتائج آئے بھی نہیں ہیں اور لوگوں کی حرکتوں سے ایسا لگنے لگا ہے کہ شاید 2017 سے ٹرمپ دور کا آغاز ہو نےلگا ہے، وہ “سیاسی دور “جسکے آثار حقیقتا موجود نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو دنیا بالعموم اور مسلمان بالخصوص ٹرمپ دور میں بہت خطرناک نتائج کا نشانہ ہونگے۔ کیونکہ ٹرمپ کے مسلم مخالف نظریے کے بازی گری کی شروعات ابھی سے ہی ہونے لگی ہے۔

    ویسے میرے سامنے تو کئی ایسی مثالیں ہیں، جو کہ درحقیقت میرے جاننے والوں کی اپنی ذاتی تجربات کے باتیں ہیں۔ میری ایک دوست جو کہ حال ہی میں امریکہ سے اپنی پی ایچ ڈی کیلئے ایک تحقیقی کام کے غرض سے کچھ مہینوں کیلئے رہ کر آئی ہیں انکے مطابق کچھ امریکی آپکو زچ کرنے کیلئے ایسے غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں جو کسی بھی صورت میں ہمارے لئے ناگوار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ بلا وجہ آپکا نام پکارنا، زبردستی ہاتھ ملانا اور یہاں تک کہ گلے ملنے کی مسلسل کوشش کرنا۔میرے ایک دوست کے مطابق وہ کسی بھی بات کا بہانہ بنا کرآپکو شرمندہ کرنے کی کوشش کرینگے کہ آپ ایک غریب ، کم تر، کم فہم اور ایک دہشت گردانہ ماحول کے رہنے والے لوگ امریکہ جیسے ملک میں کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ اور اس طرح کی اور کئی معاملات ہوتے رہتے ہیں، تا ہم یہاں جس واقعے کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ حال ہی میں ایک حادثے کے طور پر منظر عام پر آیا اور اس نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک رسائی حاصل کی ۔جس میں ایک پاکستانی نژاد سات سال کے اسکول طالب علم عبد العزیز عثمانی کی ‘مسلم’ ہونے کی وجہ سے مبینہ طور پر پٹائی کا معاملے کو طور پر سامنے آیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس واقعہ کو امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
    واضح رہے کہ نارتھ كیرالينا میں ویدر اسٹون ایليمنٹری اسکول سے جب بچہ گھر واپس آ رہا تھا تو اس کے كلاسمیٹس کی طرف سے اسے کافی بری طرح سے مارا پیٹا گیا۔ مبینہ طور پروہ لوگ اس بچے کو حرام جانور کاگوشت کھانے پر مجبور کر رہے تھے۔ جب عبد العزیز نے اس گوشت کو کھانے سے انکار کر دیا، تو اس کے كلاسمیٹس نے اس کے چہرے پر گھونسو سے وار کرنا شروع کر دیئے۔اتنا ہی نہیں، اسے مسلم، مسلم پکارتے ہوئے بس میں کافی مذاق بھی اڑایا، جیسے مسلمان ہونا کوئی عیب ہو، کوئی جرم ہو کوئی ایسا عمل ہو جو عام انسان کو معاشرے بدنام کرنے کا سبب بنتا ہو، یعنی مذہب نہیں کوئی چوری کا عمل ہوا۔

    بچے کےوالد ذیشان نے فیس بک پر اپنے بیٹے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا، “ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ میں خوش آمدید”۔ اس تصویر میں اس زخمی بائیں ہاتھ دکھائی دے رہا ہے۔ انہوں نے لکھا، “وہ ابھی صرف سات سال کا بچہ ہے اورپہلی کلاس میں ہے اور مسلم ہونے کے ناطے اسکول بس میں اس کی کلاس کے بچوں نے پٹائی کی”۔والد ذیشان کے مطابق، عبد العزیز کی پیدائش امریکہ میں ہوئی ہے. وہ بڑا بھی یہیں فلوریڈا میں ہوا ہے. وہ بھی کیپٹن امریکہ کو پسند کرتا ہے، وہ بھی امریکہ کا صدر بننا چاہتا ہے۔ تو پھر آپ امریکی ہونے کے ناطے کیسے سوچ سکتے ہیں کہ ہم امریکہ سے مختلف ہیں۔ یہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ واقعہ ہے۔

    آپکو جان کر حیرانی ہوگی کہ عبد العزیز کے والد ذیشان الحسن عثمانی دو دفعہ کا ایوارڈ یافتہ کمپیوٹر سائنسدان ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اعداد و شمار کے ذریعے سے بہت سوں کی زندگی بچائی ہے۔ لیکن اب حال یہ ہے کہ ان کے بچے کے ساتھ امریکہ میں اس طرح کے سفاکانہ سلوک کیا گیا۔ذیشان کے مطابق، ‘میرے 7 سال کے بیٹے کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کیونکہ میرے چہرے پر داڑھی ہے، جسے امریکہ میں دہشت گردی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ میرے ایک بیٹے کو دہشت گرد تک کہا جا چکا ہے۔فی الحال، اس واقعہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ تاہم، اس واقعے نے ایک بات ضرور واضح کر دی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت ہوتی ہے، تو امریکہ میں مسلمانوں کا رہنا دشوار ہو جائے گا۔ذیشان کے مطابق یہ وہ امریکہ نہیں ہے جس کے لئے اس نے سب کچھ چھوڑ دیا تھا، یہ وہ امریکہ نہیں ہے جس میں اس نے اعلی تعلیم حاصل کی تھی، یہ امریکہ وہ امریکہ نہیں ہے جہاں اس نے اپنے خاندانکی زندگیوں کو بلن مقام پر پہنچانے کے خواب دیکھے تھے۔ اس حادثے کے بعد سے ذیشان کے اہل خانہ نے “ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ”کے خوف کی وجہ سے اپنے ملک واپس جانے کا فیصلہ کیا ۔اس واقعے کے پاداش میں ذیشان کی بیوی بینش بھاگوانی تین بچوں سمیت اسلام آباد واپس آچکی ہے۔ اور ارادہ کرچکی ہے کہ اب وہ امریکہ نہیں جاینگے انہوں نے وہ ملک ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا ہے، کیونکہ اب امریکہ ایک محفوظ ملک نہیں رہا۔

    واقعہ کی ویڈیو
    https://www.facebook.com/ajplusenglish/videos/818097651665077

  • شاہد آفریدی نے کس کی دھمکی پر جاوید میانداد سے صلح کی؟ نجم الحسن

    شاہد آفریدی نے کس کی دھمکی پر جاوید میانداد سے صلح کی؟ نجم الحسن

    پچھلے دنوں پاکستانی کرکٹ کے سب سے چہیتے آل راؤنڈر شاہد آفریدی اور ماضی میں پاکستان کے بہت بڑے بلے باز جاوید میانداد کی آپس میں نوک جھونک ہوئی تھی۔ ٹی وی چینلز نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا، دونوں طرف سے جو تیر چل رہے تھے، ان کی سطح گرتی جا رہی تھی۔ میانداد ذاتی تبصرہ تک کرنے لگے تھے۔ پھر خبر آئی کہ کچھ سینئر پاکستانی کرکٹرز کے بیچ بچاؤ کے بعد معاملہ نمٹ گیا۔ لیکن اب پتہ چلا ہے کہ یہ معاملہ بیچ بچاؤ سے نہیں، دھمکی سے سےٹالا گیا ہے، اور یہ دھمکی آفریدی کو دی تھی دنیائے انڈر ورلڈ کے جانے پہچانے ڈان داؤد ابراہیم نے جو میانداد کے قریبی رشتہ دار بھی بتائے جاتے ہیں۔ معروف بھارتی ویب سائٹ سیاست ڈاٹ کام، کے مطابق 12 اکتوبر کو داؤد ابراہیم نے شاہد آفریدی کو دھمکی دے کر معاملہ رفع دفع کرنےاور بدلے میں کچھ مراعات کا تقاضا کیا۔ اب آپ اسے بھتہ سمجھ لیں یا دوستی کی ضمانت، یہ آپ پر ہے۔

    پاکستان کےان دو نامی گرامی ہستیوں کے درمیان کافی عرصے سے چكچك مچی ہوئی تھی۔ کیونکہ جاوید میانداد نے پوچھ لیا تھا کہ آفریدی ریٹائرمنٹ کب لوگے۔ ان دونوں کی یہ جنگ بہت خطرناک موڑ پر اس وقت پہنچ گئی تھی جب میانداد نے آفریدی پربہت بڑا الزام لگایا تھا کہ آفریدی ایسا پیسہ کمانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اور اس وجہ سے وہ اس عمر میں بھی کرکٹ کھیلنا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ میانداد نے آفریدی پر میچ فکسنگ کا الزام بھی لگایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایسے کئی معاملات کی معلومات رکھتے ہیں۔ میانداد نے ایک پاکستانی نیوز چینل سے بات چیت میں کہا تھا کہ شاہد آفریدی اپنے بچوں کی قسم کھا کر کہیں کہ انہوں نے پاکستان کے میچ فکس نہیں کیے ہیں اور پاکستان کی عزت کو نیلام نہیں کیا ہے۔ اور یہ کہ میں گواہ ہوں، میں نے انہیں پکڑا ہے، میں نے پوری ٹیم کو پکڑا تھا۔ یہ لوگ میچ فکس کرنے والے تھے، اس لیے پیسوں کے بارے میں بات کرتے تھے۔

    اس کے بعد آفریدی میانداد کے خلاف قانونی ایکشن لینے والے تھے۔ سارے الزامات کے بعد شاہد نے میڈیا سے کہا تھا کہ میانداد کا پیسوں کو لے کر ہمیشہ ہی لالچ رہا ہے اور ان کو وہ ثبوت چاہییں جن کے لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ کھلاڑی میچ فکسنگ میں پھنسے ہوئے ہیں. اگرچہ بہت سے سینئر پاکستانی کھلاڑیوں نے اس مڈ بھیڑ کو بند کروانے کے لیے دونوں کے درمیان دخل دیا تھا، جن میں عمران خان اور وسیم اکرم بھی شامل تھے۔ ہفتہ کو دونوں رنجشیں دور کرنے کے لیے ایک دوست کے گھر پر ملے۔ اس میٹنگ کی ویڈیو میں دونوں ایک دوسرے کو مٹھائیاں پیش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ شاہد آفریدی نے کہا کہ جب سے میانداد نے اپنے کہے الفاظ واپس لیے ہیں، سب ٹھیک ہے۔ شاہد کے میانداد کے لیے لفظ تھے، میں آپ سے مل کر خوش ہوں، میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ آپ مجھے سوری بولیں کیونکہ آپ مجھ سے بڑے ہیں۔آپ نے اپنی کہی بات واپس لے لی ہے یہی میرے لیے کافی ہے۔ میں نے بھی ان ساری چیزوں کے لیے دکھی ہوں جو میں نے کہیں، انہوں نے شاید آپ کو دکھ پہنچایا ہو۔

    مگر اس دو ہفتہ کے اتار چڑھاؤ سے پاکستان کی جو جگ ہنسائی ہوئی، پاکستان کے بارے میں باہر کے میڈیا نے جو زہر اگلا اور اس سے پاکستان کے تشخص پر جو منفی اثر پڑا اس کی ذمہ داری کون لے گا؟۔ کیا یہ دونوں بڑے لیجنڈ اس مثبت امیج، جو ان دونوں نے کئی سالوں کی محنت سے بنایا تھا، کو نقصان پہنچانے کا مداوا کرسکیں گے؟ ان کی آپسی رنجشیں جو بھی تھیں لیکن انھیں بیچ چوراہے لانے کی کیا ضرورت تھی، اس کے بعد پاکستان کرکٹ پر باہر کے لوگوں نے جو انگلیاں اٹھائیں اس کا جواب کون دے گا؟

    میڈیا نے بھی اس معاملے میں منفی کردار ادا کیا. میڈیا ہر چھوٹی بڑی بات کو خبر کی زینت بناتا دیتا ہے، وہ ایسے معاملات کو دنیا کے سامنے لانے سے پہلے ایک منٹ کے لیے کیوں نہیں سوچتے کہ اس خبر سے پاکستان اور پاکستانیوں کو بحیثیت قوم کس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ گا؟ آخر کب ہم بحیثیت قوم ایک اجتماعی سوچ کو لے کر چلنے والے بنیں گے، جہاں ہم کوئی بھی بات کسی بھی مسئلے پر بولنے اور اس کی بےجا تشہیر کرنے سے پہلے اپنی قومی کردار ، قومی تشخص اور اور اپنی قومی عزت و آبرو کو اپنے ذاتی سوچ اور فائدے سے بڑھ کر مانیں گے۔

  • ہندوستان کا اتنا جگرنہیں – نجم الحسن

    ہندوستان کا اتنا جگرنہیں – نجم الحسن

    نجم الحسن اگرچہ ہندوستان دنیا میں اسلحہ کی درآمدات کی دوڑ میں سب سے آگے رہنے والے ملکوں میں سرفہرست ہے، اسلحے کی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان نے اسرائیلی میزائل، روسی جنگی جہاز، امریکن ٹرانسپورٹ ائیرکرافٹ اور فرانسیسی سب میرین تک کا سودا کر لیا ہے۔ پھر بھی اس میں پاکستان یا کسی اور ملک سے جنگ کا خطرہ مول لینے کا جگر نہیں۔ کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار برطانوی جریدے دی اکانومسٹ میں شایع شدہ ایک مضمون میں کیا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کیوں جنگ چھیڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان فوجی لحاظ سے برتری کے باوجود کچھ ایسے تیکنیکی مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے اس کی فوج ایک مخصوص ڈر اور خوف کا شکار ہے۔ انڈیا کی زمینی، ہوائی اور سمندری فوج میں سب سے بڑی دراڑ ان کی مواصلاتی کمی ہے، جس کی بنا پر یہ فوج صرف کاغذی بنیادوں پر ہی بڑی گردانی جاتی ہے۔ اس وقت چین کے بعد انڈین آرمی دوسری بڑی فوج ہے جو محاذ پر کھڑی ہے، جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔

    آئی ایچ ایس کے جنوری 2014ء کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو آشکار کیا گیا ہے کہ اگرچہ بھارتی ائیرفورس دنیا کی چوتھی بڑی ہوائی فوج ہے جو تقریبا 2000 ائیر کرافٹ پر مشتمل ہے تاہم اس پوری فوج کا دارومدار صرف 60٪ جیٹ طیاروں پر ہے کیونکہ باقی ماندہ 40٪ طیارے اڑنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ اس سال کے شروع میں مرتب شدہ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے سب سے زیادہ مشہور اور ان کی سمندری فوج کی ہوائی حصے کی آن سمجھنےجانےوالی مگ 29، جن کی تعداد 45 بتائی جاتی ہے، ان میں بھی صرف 16٪ سے 38٪ ہی کام کرنے کی اہلیت کے معیار پر پورا اترتے ہیں۔ ان جہازوں کو جس سمندری کیرئر سے اڑان بھرنی تھی، وہ ابھی تک اپنے تعمیری مراحل سےگزر رہے ہیں، جبکہ ان کی تعمیری سلسلہ 2010ء تک اختتام پذیر ہونا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ ایک سرکاری آڈٹ رپورٹ میں یہ تک بتایا گیا ہے کہ یہ کرافٹ کیرئر کچھ 1150 تغیرات کے بعد 2023ء سے پہلے سمندر میں کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔

    مزید برآں انڈین ملٹری سکینڈلز کے ضد میں بھی آتی رہی ہے، جس میں رشوت ستانی سر فہرست ہے۔ مشاہدین اس بات پر ابھی تک انگشت بہ دنداں ہیں کہ آخر کیسے غیر ملکی دہشت گرد مسلسل سرکاری اور فوجی اڈوں تک رسائی حاصل کرکے سرکار کو اپنے سامنےگھٹنے ٹھیکنے پر مجبور کردیتی ہے، اس ضمن میں حالیہ اوڑی حملہ بہترین مثال ہے۔

    ہندوستانی فوج بالعموم رشوت ستانی میں اس قدر مشکوک ہوئے جا رہی ہے کہ کئی جرنیلوں کی پروموشن کی عدالتی مقدمے ابھی تک زور و شور سے جاری ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ زیادہ آمدن، اور اپنے افسروں کے بھاری وزن رکھنے جیسے معاملات بھی زیر بحث ہیں۔ ابھی پچھلے مہینے ایک خبر میں فرانس سےخریدے ہوئے سب میرین کا معاملہ منظر عام پر سامنے آیا چاہتا ہے۔

    ان تمام اور دیگر امور پر اگر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالی جائے تو یہ بات صاف سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ انڈیا اپنی جنگی جنونیت کی بیماری اور فوجی برتری کے باوجود، کسی بھی طرح کے جنگ کا طبل بجانے سے پہلے کئی دفعہ تاریخ میں کیے گئے اپنی خامیوں پہ نظر ضرور دوڑائے گا، جہاں ہمیشہ پاکستان کی طرف سے نہ صرف سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ کئی دفعہ اسے منہ کی کھانی پڑی ہے۔ امید ہے دونوں ممالک کی عوام اور قائدین اس ممکنہ جنگ یا محض جنگی جنونیت کے لاحاصل مقاصد کا ادراک کرتے ہوئے کسی غلطی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔

  • ماں کے بغیر بچے کی پیدائش – نجم الحسن

    ماں کے بغیر بچے کی پیدائش – نجم الحسن

    نجم الحسن سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج کے مطابق مستقبل بعید میں عورتوں کو بچہ پیدا کرنے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا کرنا ممکن ہو جائے گا، مطلب ماں کے بغیر بچہ پیدا کرنا ممکن ہو سکے گا۔ ……………………………………………………….

    کسی بھی شخص کی زندگی میں کوئی تعلق اتنا مضبوط اور بےلوث نہیں ہو سکتا، جتنا ماں کا رشتہ بےلوث اور اٹوٹ ہوتا ہے۔ وہ اس نئے تخلیق شدہ بچے کا پہلا تعلق آفرین ہوتا ہے۔ مگر جس طرح انسان نے ایک ایک کرکے تمام تعلقات کو کسی نہ کسی انداز میں ہدف بنا کر اسے توڑنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اب اس کی نظر میں ماں اور اس سے جنم لینے والے بچے کے فطری تعلق کو بھی توڑنے کے لیے کوشاں ہے اور اس مد میں سائنس کو ایک بہترین آلہ کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ویسے تو عام انسان بالعموم اور سائنسدان بالخصوص کئی فطری عوامل کو غیر فطری انداز میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور یہ خصلت بھی انسان کی اپنی فطری جبلت کی مرہون منت ہے۔ مگر جہاں تعلق انسان کا اپنی ماں، اپنی جنم دینی والی ہستی سے ہو تو وہاں لامحالہ فطری تعلق، جذبات و احساسات کا سوال اٹھتا ہے۔ ماں کا اپنے بچے کے ساتھ تعلق صرف پیدائش کے بعد کا نہیں ہوتا، بلکہ اس کی داغ بیل اس وقت پڑ جاتی ہے جب بچہ اپنی ماں کی رحم میں پرورش پاتا ہے، اور یہی وہ اصل ماخذ ہے جہاں سے ایک اٹوٹ رشتے کی ابتدا ہوتی ہے، جہاں سے احساسات کی ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ لیکن اب سائنسدان اس اس انوکھے بندھن کو توڑنے کے درپے ہیں، اور ایسے طریقے ایجاد کرنے میں لگے ہیں جس سے ماں اور جنم لینے والے بچے کا یہ انمول تعلق ختم کرکے محض ایک جسمانی تعلق کے طور پر سامنے آ جائے۔ اس ضمن میں یونیورسٹی آف باتھ کے سائنسدانوں نے سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں اپنی ایک تحقیق مقالے میں اس امر کا دعوی کیا ہے کہ اب وہ وقت دور نہیں کہ بن ماں کے بچے جنم لینے لگیں گے۔ ان کی سائنسی تحقیق کی کامیابی اپنی جگہ پر ایک بڑی بات ہے مگر اس سے چند ایسے آسان اور عام فہم سوالات جنم لیں گے جن کا جواب شاید ان کی انتہائی گھمبیرتا رکھنے والی سائنس شاید ہی دے سکے۔
    ماں کے بغیر بچہ تو پیدا ہو ہی جائے گا، مگر،
    ماں کی ممتا کہاں سے لاؤگے؟
    وہ دل کہاں سے لاؤگے جو بچے کے دھڑکن کے ساتھ دھڑکتا ہے؟
    اس کی تکلیف سے دہک جاتا ہے؟
    اس کی خوشی سے مہک جاتا ہے؟
    اس کی مسکان کے ساتھ چہک جاتا ہے؟
    وہ احساس کہاں سے لاؤگے؟ جس سے بچے کو دنیا وما فیہا کی تمام آسائشیں ایک آغوش میں ہی مل جاتی ہیں۔
    وہ گود کہاں سے لاؤگے، جہاں سر رکھ کر بندہ ہر غم و تکلیف سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
    وہ آنچل کہاں سے لاؤگے جس میں بچہ تپتے آسماں کے نیچے بھی ٹھنڈک محسوس کرتا ہے۔
    وہ نظر کہاں سے لاؤگے؟ جس میں انسان کبھی بوڑھا ہوتا نہیں، کبھی مرتا نہیں۔

    کتنے بدنصیب ہوں گے وہ بچے جن کے نصیب میں ماں نہیں ہوگی، اور وہ کبھی یہ نہ کہہ سکیں گے کہ

    چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
    میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

  • خودی سے خودپرستی و سیاسی نرگسیت تک – نجم الحسن

    خودی سے خودپرستی و سیاسی نرگسیت تک – نجم الحسن

    نجم الحسن خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

    علامہ اقبال کا یہ شعر بچپن سے سنتا آرہا ہوں. اس وقت خودی کو خود کی رضامندی اور فیصلہ سازی سے تشبیہ دی تھا۔ مڈل سکول کے ایک مضمون میں خودی اور خودسری کے دونوں الفاظ کو ایک ساتھ پا کر مخمصے کا شکار ہوئے مگر اردو کے استاد کی رہنمائی میں یہ مسئلہ حل ہو گیا۔ بعد میں خود سری اور خود پرستی میں بھی فرق سمجھ میں آیا لیکن ایک دن گل نرگس کےمعنی سمجھنےکی کوشش میں لغت میں اس سے جڑے الفاظ کا بھی مطالعہ کیا تو نرگسیت کا پہلو ذہن میں رہ گیا۔ نتیجتا ایک باجی، جن کا نام بھی نرگس تھا، پر واشگاف الفاظ میں یہ بات باور کرانے کی کشش کی کہ آپ کے نام کا مفہوم ایک خاص قسم کی بیماری ہے، جس کی پاداش میں سر پر چپل کے کچھ نشانات آج بھی باقی ہیں۔ تاہم چپل کھانے سے ذہن کے کچھ دریچے ایسے کھلے کہ کم ازکم یہ بات واضح ہوئی کہ آئندہ کسی بھی لفظ کو لغت میں تلاش کرکے صرف اس کی لغوی معنی پر ہی ذہن مرکوز رکھنا چاہیے ورنہ بات سر پر چپل پڑنے تک پہنچ سکتی ہے۔

    میڈیکل سائنس اور سائیکالوجی کے ماہر و طالبعلم بہتر جانتے ہیں کہ نرگسیت ایک نفسیاتی مرض ہے جس میں مبتلا شخص خود فریبی و خود پسندی کا اسیر ہو کر اپنے آپ سے اس قدر محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے علاوہ کوئی اور نہ بہتر لگتا ہے اور نہ ہی اپنے خلاف کچھ سننے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اپنے آپ کو عظیم سے عظیم تر بنانے، دکھنے اور دکھانے کے لیے کسی بھی جائز و ناجائز طریق کار کو بروئے کار لانے سے دریغ نہیں کرتا۔ ایسے میں جب وہ اپنے ذاتی اثاثوں کے علاوہ دیگر ادارتی اور ریاستی و قومی اثاثے بھی استعمال کرنا شروع کردے، تو یہ عمل ایک مرض سے بڑھ کر جرم بن جاتا ہے، جوعوام کے استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بیماری نما جرم کواگر ”سیاسی نرگسیت“ کے نام سے گردانا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ عوام کا پیسہ ذاتی اشتہار بازی کے لیے استعمال کرنا صرف غیراخلاقی و غیرقانونی ہی نہیں بلکہ غیرمذہبی بھی ہے۔ سیاسی نرگسیت ان ممالک میں زیادہ وسیع پذیر اور رائج ہے جہاں اخلاق اور احتساب کو کبھی سنجیدگی سے لینے کی مخلصانہ طور پر کوشش نہیں کی گئی۔ اس ضمن میں کی گئی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب زیادہ تر وہی لوگ کرتے ہیں جو اختیارات کے مالک ہوتے ہیں چاہے وہ کسی ملک کا صدر ہو، وزیر ہو، کسی بڑے عہدے کا قلمدان رکھنے والا جج، وکیل یا کوئی سرکاری افسر ہو، سب ایک ہی جیسا رویہ رکھتے ہیں۔ خودپرستی اور سیاسی نرگسیت کی تاریخ بہت پرانی ہے جو فرعونوں سے لے کر یونانی حکومتوں تک اور مسلمان بادشاہوں سے لے کر نئے دور کے صدور اور مقتدر حلقوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک سب اس مرض میں مبتلا ہیں، اور پاکستان بھی اس فہرست سے ہرگز باہر نہیں۔

    متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے کئی بڑے بڑے نام اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ Lyndon B. Johnson, Theodore Roosevelt, Andrew Jackson, Franklin D. Roosevelt, and John F. Kennedy جن میں ماضی کے بھی قابل ذکر ہیں ۔Donald Trump کے ساتھ ساتھ آج کل کے پاکستان کے ماضی قریب پر نظر ڈالی جائے تو کئی بڑے نام اس زمرے میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پاکستان میں ایٹمی توانائی کو فروغ دینے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، بہت کم لوگ ہیں جو انہیں سائنس میں سیاسی نرگسیت کے بانی کے طور پر جانتے ہیں۔ کئی درجن لیبارٹریاں جیسے کہ خان لیبارٹریز، سکول، ہسپتال، اور پلے گراونڈ ان کے نام کیے گئے۔ غلام اسحاق خان یونیورسٹی، چوہدری پرویز الہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان، شریف ہسپتال لاہور، شریف میڈیکل سٹی لاہور، شریف ٹرسٹ میڈیکل سٹی ہسپتال رائیونڈ، نواز شریف کڈنی ہاسپٹل سوات اور سونے پہ سہاگہ گورنمنٹ نواز شریف ٹیچنگ ہسپتال لاہور اس کی صرف چند مثالیں ہیں. وزیراعظم (نوازشریف) یوتھ لون اسکیم اور اسی بےنظر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام جیسی سکیمیں، عمارات اور فلاحی کاموں کے نام پر جو پیسہ خرچ اور وصول کیا جاتا ہے، وہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

    کراچی کے سائٹ ایریا میں واقع فلائی اوور جسے سندھ حکومت نے 547 ملین روپے کی خطیر رقم سے بنا کر ”حبیب بینک فلائی اوور“ کے نام سے منسوب کرنا تھا، مگر لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب گورنر صاحب نے اس کا افتتاح کیا تو دفعتا سامنے ”افضا الطاف فلائی اوور“ جگمگا رہا تھا۔ فلائی اوور کو الطاف حسین کی بیٹی کے نام سے منسوب کرنے کا واحد مقصد الطاف حسین کے لیے لوگوں کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنا اور اس سے اپنی وفاداری ثابت کرنا تھا۔ اس طرح کے منصوبے اور نام سیاسی کاسہ لیسی، خوشامد خوری اور تماشائی عوام کی خاموشی کی ایک مثال ہے۔ ”باچاخان فلائی اوور“ پارٹیوں کی خود پرستی کی ایک اور مثال ہے، جس کا اصل نام ”بنارس فلائی اوور“ بھی بتایا جاتا ہے۔ بےنظیر بھٹو بین الاقوامی ائیرپورٹ ایک اور مثال ہے جس کا پرانا نام اسلام آباد بین الاقوامی ائیرپورٹ تھا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ موجودہ حکومت نے اس کا نام ”عبدالستار ایدھی“ رکھ چکی ہے۔ بیگم نصرت بھٹو ائیرپورٹ پیپلز پارٹی کا ایک اور شاہکار ہے۔ خیبرپختونخواہ میں اے این پی حکومت نے کئی ایسے منصوبے شروع کیے اور انھیں بلا کسی عذر کے پارٹی کی بقا کے لیے استعمال کیا گیا جیسا کہ باچا خان ائیرپورٹ جس کا پرانا نام پشاور ائیرپورٹ تھا۔ جامعہ باچاخان یا باچاخان یونیورسٹی، بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی اور الطاف حسین یونیورسٹی جیسے کئی تعلیمی مراکز بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پشاور میں مفتی محمود فلائی اوور کی بد قسمتی دیکھیں کہ اس کی تعمیر کا حکم نامہ دو حکومتوں نے جاری کیا، پہلی دفعہ ایم ایم اے (2002-2007) اور دوسری دفعہ عوامی نیشنل پارٹی (2008-2003)، تیسرے دور حکومت (2015ء) میں تکمیل کو پہنچا۔

    سوال یہ ہے کہ کیوں اس طرح عمارات، تعلیمی و سماجی اور معاشرتی مراکز کو ان لوگوں کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے جنہوں نے ذاتی طور پر اس پر ایک پیسہ بھی خرچ نہ کیا ہو؟ حکمران جب چاہیں سستی شہرت کے حصول کےلیے، مختلف پراجیکٹس کو اپنے نام کی پروجیکشن کےلیے قومی دولت کے ضیاع میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اخبارات اٹھا لیجیے، صفحات ان کے اور ان کے خاندان کے افراد کی نرگسی تصاویر سے بھرے پڑے ہیں۔ ٹی وی اشتہارات کی بھی یہی کیفیت ہے. ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جہاں عوام کے وسائل کو ذاتی نمود و نمائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مال تمہارا مگر وسائل معاشرے کی ملکیت ہوا کرتے ہیں۔ اس ملک میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جو بڑے بڑے کارنامے کیے بیٹھے ہیں لیکن ان کا کوئی نام لیوا نہیں، کوئی جانتا تک نہیں۔ حکمرانوں، سیاسی رہنمائوں اور ان کے کارندوں کا کوئی حق نہیں بنتا کہ بنا کسی محنت کے قوم کے وسائل کو اپنے نام سے منسوب کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کےخود پسندانہ، خوشامدانہ اور خود غرضانہ مقاصد کے لیے عوام کے پیسے سے بنائی گئی عمارات اور پراجیکٹس کو کسی بھی سیاسی شخصیت یا سرکاری ملازم کے نام سے منسوب کرنے پر قانونی و آئینی طور پر پابندی عائد کی جائے۔

  • شام اور فساد کی جڑ – نجم الحسن

    شام اور فساد کی جڑ – نجم الحسن

    نجم الحسن ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘ (القران ؛ 2:11)
    قرآن مجید فرقان حمید نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی اندیشہ ظاہر کیا تھا اور ہمیں کھول کھول کر بتلایا کہ اس زمین پر ہمیشہ سےایسے لوگ سامنے آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے جو دعوہ تو کریں گے کہ وہ اصلاح کنندگان ہیں لیکن دراصل وہی اصل فساد کی جڑ ہوں گے۔

    زیر نظر تصویر کی طرح آج سے قریبا ایک سال پہلے بھی ایسے ہی ایک معصوم بچے تین سالہ ’’ایلان کردی‘‘ کی تصویر نے پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کرکے رکھ دیا تھا اور آج ایک اور بچے ’’عمران‘‘ کی تصویر انسانیت کے ضمیر کو بیدار کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کر رہی ہے۔ لیکن یہ کیسا ضمیر ہے جو صرف چند ساعتوں کے لیے تو جاگ جاتا ہے، آنکھیں کھولتا اور خواب غفلت سے بیدار ہو جاتا ہے لیکن کچھ وقت کے بعد پھر سو جاتا ہے، آنکھیں موند لیتا ہے، اور اپنے عالم مدہوشی میں غرق ہو جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ ضمیر بھی اچھا خاصا سمجھدار ہو چلا ہے، کہ جہاں بس نہ چلے تو خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے، یا شاید وہ اس سب کا عادی ہو گیا ہے۔

    ایلان کی طرح عمران کی تصویر بھی جنگل میں آگ کی طرح پھیلی. اور اس نے خبر دی کہ جو قوتیں ہمارے مستقبل کو بچانے کےلیے کے نام پر دن رات ایک کر کے بڑی محنت و جانفشانی سے دن رات مسلسل شام میں بمباری کر رہے ہیں، وہی اصل میں ہمارے قاتل اور ہماری بربادی کے ذمہ دار ہیں، مستقبل بچانے کے نام پر وہ ہمارا مستقبل چھین رہے ہیں۔ ہر ذی شعور سوال کر رہا ہے کہ وہ کون سا مستقبل ہے جس کو بچایا جا رہا ہے۔ مستقبل تو یہی بچے ہیں جنہوں نے ایک جنگ زدہ ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں اور اسی میں گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں، کبھی امریکہ اور کبھی روس کی بمباری سے۔ اگر شام کو بچا رہے ہو تو یہ بچے کون ہیں جو نشانہ بن رہے ہیں؟ زمین پر انسانوں کو مار کر کون سی دنیا آباد کر رہے ہو؟ چلیں مان لیں کہ روس و امریکہ تو دونوں ہی اسلام مخالف قوتیں ہیں اور کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کی تباہی کا سامان کرتی ہیں، لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اسلام کے نام لیوا بھی اس کار خیر میں مقدور بھر حصہ لے کر ثواب دارین حاصل کرتے نظر آتےہیں۔ ابھی 16 اگست ہی کو روسی جنگی جہازوں نے ایران کے ہمدان ائیربیس سےاڑان بھر کر حلب میں بمباری کی اور ’’عمران‘‘ جیسے ’’شام اور انسانیت دشمنوں‘‘ کو زندہ درگور کرکے شام کے مستقبل کو بچایا۔

    یہ تو صرف چند تصاویر ہیں جو ہماری نظروں سے گزر کر ہمارے خوابیدہ ضمیروں کو تھوڑی دیر کے لیے جگا دیتی ہیں، ورنہ تقریبا 3 لاکھ انسان جو اس جنگ میں لقمہ اجل بن گئے ہیں، اور جو تقریبا لاکھوں لوگ بےگھر اور غذائی قلت کا شکار ہیں، ان کی حالت زار دیکھنے کے لیے تو کوئی شقیق القلب انسان کا دل چاہیے جو یہ سب دیکھ کر بھی رات کو آرام سے چین کی نیند سو سکے۔ اس پانچ سالہ جنگ نے تک لاکھوں انسانوں کی جان لی ہے اور کروڑ سے زائد کو بےگھر کیا ہے مگر بڑی قوتوں نے جو جنگ انسانی مستقبل کو بچانے کے لیے جابجا شروع کی ہے، نہیں معلوم کہ وہ آخر کب کامیاب ہوں گی؟ کہیں مقتدر قوتیں انسانیت کو بچانے کے نام پر انسانوں اور انسانیت کو قتل تو نہیں کر رہیں، بقول قرآن مجید کے کہ اصل میں یہی قوتیں اور ان کی حواری زمین پر فساد کی جڑ ہیں۔

  • محمود اچکزئی کا فائدہ یا نقصان؟ نجم الحسن

    محمود اچکزئی کا فائدہ یا نقصان؟ نجم الحسن

    نجم الحسن دلیل پر بہت ہی محترم جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی تحریر’’محمود اچکزئی کا فائدہ‘‘ پڑھنے کو ملی جس میں انہوں نے بڑے مثبت انداز میں جناب محمود خان اچکزئی صاحب کے پچھلے دنوں کی کچھ ’’غیر ارادی‘‘ یا شاید ارادی طور پر دیےگئے پاکستان مخالف بیانات کا دفاع کیا ہے یا شاید ایک مثبت پہلو اجاگر کیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کے تجربے اور تجزیے کا اعتراف ہے لیکن ان کے کچھ افکار بلکہ کچھ مکالمات سے اختلاف ہے۔ اس کی وجہ میری کم علمی بھی ہو سکتی ہے مگر اپنے خیالات کو ان تک پہنچائے اور اپنی اصلاح کیے بغیر ان کی کسی بات کو رد کرنا میری نظر میں گستاخی کے مترادف ہے۔ لہذا اس تحریر کا مقصد صرف ان کی تحریر کے چند کلمات پر اپنا نقطہ نظرپیش کرنا اور ان کے بیش بہا تجربے سے کچھ سیکھنے اور اپنے علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ سیاست و ریاست کے رموز و اوقاف سے آشنائی حاصل کرنے کی ایک جسارت ہے۔

    جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے موقف کے مطابق محمود خان اچکزئی کے ادا کردہ الفاظ و کلمات یا ان کا دیا گیا بیان قابل محاصرہ نہیں بلکہ اس سے پاکستان، پاکستانیت اور پاکستانیوں کو تقویت ملے گی۔ مگر میرا کہنا ہے کہ اس سے فائدہ کے بجائے نقصان ہوگا کیونکہ اچکزئی صاحب جیسے دیرینہ سیاستدان کی زبان سے نکلے الفاظ ان کے کارکنان کو متاثر کریں گے، یاد رہے کہ وہ پارٹی سربراہ بھی ہیں اور ایک حلقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں. عوام کی سیاسی بصیرت کتنی ہے، یہ سب کو معلوم ہے. جن کووہ مخاطب کر رہے ہیں، وہ اتنے تعلیم یافتہ نہیں کہ اچکزئی صاحب کی دوراندیشی یا ان الفاظ کے درپردہ حقائق کو سمجھ سکیں؟ ان کے حلقہ ارادت میں تو اس حوالے سے نفرت ہی پھیلے گی. ماضی اس کا گواہ ہے.

    یہ بات صد فیصد درست ہے کہ نیشنلزم کے نام پر ووٹ لینے والوں کو اپنی قومیت سے محبت اور وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے، مگر سوال تب اٹھتا ہے جب قومیت سے وفاداری ریاست اور آئین پر مقدم ہو جاتی ہے. ایسے میں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آیا وہ ریاست کے وفادار ہیں یا اس کے خلاف۔ قومیت کوئی بھی ہو، ریاست اسے کبھی بھی اپنے راستے میں روڑے اٹکانے کا موقع نہیں دے گی، ماڈرن ریاست کا یہ بنیادی اصول ہے۔ جہاں تک معاملہ اپنے ووٹرز کو کارکردگی دکھانے کا ہے تو وہ تو اپنے حلقے میں عوام کی خدمت سے دکھائی جانی چاہیے. حلقوں اور عوام کی جو صورتحال ہے، وہ بھی سب کے علم میں ہے. جو نمائندے اپنے ووٹرز کو زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا نہ کرا سکیں، وہ منفی ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں. زندگی کا تحفظ ریاست کے ساتھ ان نمائندوں کی بھی ذمہ داری ہے مگر یہ نمائندے زخموں پر مرہم پٹی کے بجائے اشتعال انگیزی میں اپنی ناکامی کو چھپاتے ہیں.

    آپ کا مثبت رویہ سر آنکھوں پر مگر یہ بھی بتلا دیجیے کہ یہ مثبت رویہ کتنے لوگوں میں پایا جاتا ہے؟ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جو جذباتیت اور عدم برداشت کا نمونہ ہے۔ مثبت رویے کے ساتھ حقیقت پسندی کا بھی مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ اچکزئی صاحب کی باتوں اور مخصوص الفاظ کے استعمال سے، خاص طور پر اس وقت جب جذبات بھڑکے ہوئے ہوں، خرابی پیدا نہیں ہوگی؟ ایسے وقت میں جب انسان اپنوں کے غم سے نڈھال ہوں، ان سے ہوش میں رہنے کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ ان کے اندر کے غبار اور ناامیدی کو کم کیا جائے، نہ کہ ان کے زخموں پہ نمک چھڑک کر اور آگ لگا دی جائے اور ان کے جذبات سے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا راستہ ہموار کیا جائے.

    پارلیمنٹ میں بات کرنا یقینا ان کا حق ہے مگر کیا بات کرنی ہے؟ کون سے الفاظ استعمال کرنے ہیں؟ اور کس کے خلاف اور کس کے نمائندے کے طور پر بات کرنی ہے؟ یہ نقطہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ کے ووٹ تو پاکستانیوں کے ہوں، آپ نمائندے تو پاکستانی عوام کے ہوں لیکن بات آپ پاکستانی سرزمین اور حدود کے خلاف کر رہے ہوں، جیسا کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں ہی کہا کہ میں’’پاکستان زندہ باد نہیں کہوں گا‘‘. اس جملے کا سیاق وسباق تو شاید آپ یا ان لوگوں کے علم میں ہوجو ایسے موضوعات پر دسترس رکھتے ہوں۔ لیکن میڈیا میں صرف یہی نعرہ مشہور کیا جائے، جو کہ ملک دشمن عناصر کا ایک بہترین طریقہ ہے تو سادہ لوح عوام کو آسانی سے گمراہ کر کے ملک دشمن جذباتیت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، ایسے میں قصور وار تو اچکزئی صاحب جیسے سیاستدان ہی ہوں گے۔ اس سے عام عوام میں ملک کے خلاف نفرت کا زہر بڑھےگا کم نہیں ہوگا۔ اور اس میں اچکزئی صاحب ہی مورد الزام ٹھہرائے جائیں‌گے. اگر اس نظر سے دیکھا جائے تو بندوق سے زیادہ الفاظ کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ بندوق سےنکلی گولی تو صرف چند افراد کی زندگیاں گل کرتی ہے لیکن منہ سے نکلے الفاظ کا زہر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور بڑھتا ہی رہتا ہے۔

    ’’بند مٹھی لاکھ کی، اسے بند ہی رکھیے‘‘ جیسے مشورے پر میرا خیال ہے کہ بند مٹھی بھلے کروڑوں کی ہو، جب تک کھلے گی نہیں، اس کا پتہ کیسے چلےگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ خالی ہی نکلے، لاکھوں کے خاطر ہاتھ بندھے ہی رہ جائیں اور جو کچھ ہاتھ لگنے کا امکان ہو وہ بھی جاتا رہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ اچکزئی صاحب جیسے تجربہ کار، آئین کے ماہر اور ریاستی امور میں لاثانی واقفیت کار سیاستدان کو بھی دیکھ بھال کے چلنا چاہیے۔