ہم بھی خنجراب پر کھڑے کھڑے اکتا گئے تھے۔ تو سوچا جب چل ہی پڑے ہیں تو چین تک تو جانا چاہیے۔ بس پھر کیا تھا، ہم نے اپنے باوردی میزبانوں کو اپنی ننھی سے خواہش بتادی اور انھیں یاد بھی دلایا۔
۔
سمندروں سے گہری، آسمانوں سے بلند، شہد سے میٹھی، وغیرہ وغیرہ
۔
بس پھر ہمارے میزبانوں نے سامنے کھڑے باوردی چینیوں کو سمجھایا، چنگپنگبنگینگڈنگ۔
مطلب وہی، گہری، بلند، میٹھی وغیرہ۔
۔
انھیں بھی سمجھ آگئی اور انھوں نے بیرئیر ہٹا دیا۔ اس میں کمال صرف دونوں جانب کی وردیوں اور مونوگرام والی ڈبل کیبن گاڑیوں کا تھا۔
۔
چینی حدود میں داخل ہوئے ہی تھے کہ بتایا گیا کہ صرف پہلے پڑائو تک جا سکتے ہیں۔ بغیر پاسپورٹ و ویزہ اتنا بھی غنیمت تھا۔ یہ اعزاز کیا کم تھا کہ قدم سنکیانگ کی جانب اٹھ چکے تھے۔ راستے میں لگے سائن بورڈز آویزاں تھے جن پر تحریر کے نام پر ننھے بچوں سے شرارتیں کروائی گئی تھیں۔
۔
چینی حدود میں داخل ہوتے ہی ننھی منی سول سسٹم گاڑیاں نظر آئی۔ جو چینی جوان سرحد پر گشت کے لیے استعمال کررہے تھے۔ چین کی سرحد پار کرتے ہی چینی چینی محسوس کرنے لگے۔ آکسیجن ویسے ہی نہیں تھی، سب کچھ چپٹا چپٹا نظر آرہا تھا۔ اچانک احساس ہوا کہ شاید ڈرائیور نیند میں ہے۔ اسے بتایا بھائی تم رانگ سائیڈ جارہے ہو تو اس نے تصحیح کی کہ جناب یہاں یہ رائٹ سائیڈ ہے۔ اطراف میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ وہی برف سے ڈھکے پہاڑ، برف کی تہہ میں ٹھہرا پانی۔
۔
چیک پوسٹ پر نظر پڑی تو حیران رہ گئے، جدید چیک پوسٹ، سردی سے بچائو اور آکسیجن کی کمی پوری کرنے کے لیے بہترین مشینری کا استعمال۔ ہر طرح کے لوازمات سے مزین بہترین کچن، طبی سامان، موبائل سروس پرفیکٹ، سرحد کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگ بذریعہ سیٹلائٹ بیجنگ میں دیکھی جارہی تھی۔
۔
مجھے پیچھے رہ جانے والی پاکستانی پوسٹ یاد آگئی۔ پوسٹ پر چار کاکے سپاہی کھڑے تھے۔ کنٹینر کے بنے دو کمرے اور کمروں میں چارپائیاں اور کمبل۔ ایک کمرے میں کوئلے پڑے تھے جو چوکی کے رہائشیوں نے بتایا کہ چینی برادرز انھیں دیتے ہیں۔ کوئلے پکانے کے کام بھی آتے تھے اور یخ پانی استعمال کرنے کے بعد سیکنے کے بھی۔
۔
انھی الجھنوں کے دوران پہلا پڑائو آگیا۔ باوردی چینیوں سے ملاقات کی۔ ان کے افسران بالا سے بات چیت ہوئی۔ اقتصادی راہداری کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ ہماری پنجابی انگریجی اور ان کی چینی انگریجی۔ ایک دوسرے کو جتنا سمجھ سکتے تھے سمجھے۔ پاکستانی مہمانوں کو قہوہ پیش کیا گیا اور چائے مین 9 چمچ چینی پینے والے کو نہ صرف پھیکا قہوہ پینا پڑا۔ بلکہ تعریف بھی کرنی پڑی کہ قہوہ بہت زبردست تھا۔
۔
کچھ لوگوں سے ملاقات رہی، اچھی بات چیت، مسکراہٹوں کے تبادلے، اور برادر برادر کرکے مخاطب کرنا، یہ سب چلتا رہا اور اور پھر پاکستان واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔
Author: طارق حبیب
-
چلتے ہو تو چین کو چلیے – طارق حبیب
-
جمعیت نے مجھ پر بہت تشدد کیا – طارق حبیب
میں نے سوال کیا کہ آخر تم بتا کیوں نہیں دیتے کہ جمعیت نے تم پر کیا ”مظالم“ ڈھائے ہیں تو وہ بولا:
”میں اپنے اوپر کیے گئے اسلامی جمعیت طلبہ کے مظالم کبھی بھول نہیں سکتا۔ جمعیت کے دیے گئے ”زخم“ آج بھی رستے ہیں۔ مجھے جب موقع ملتا ہے میں جمعیت اور جمعیت والوں سے اس کا ”بدلہ“ لیتا رہتا ہوں اور لیتا رہوں گا۔ مجھے اسی طرح کچھ سکون ملتا ہے.“
پھر اس نے تفصیل بتانی شروع کی ۔
۔
میں کراچی کے علاقے لانڈھی کورنگی کے ماحول میں بڑا ہوا۔ کالج تک پہنچتے ہوئے ہمارے علاقے میں متحدہ قومی موومنٹ اور مہاجر قومی موومنٹ کی جنگ عروج پر تھی۔دونوں جانب سے ایک دوسرے کے نوجوانوں کا قتل عام جاری تھا۔ میرے اسکول کے زمانے کے دوستوں کی اکثریت مہاجر قومی موومنٹ میں شامل ہوچکی تھی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ”مرغے“ مارنے کے کارنامے بڑے فخر سے بتاتے تھے۔ میں اگرچہ اردو بولنے والا نہیں تھا مگر ماحول کے عطاکردہ دوستوں کے ساتھ ان کے رنگ میں ڈھلتا جارہا تھا۔ ان کی یونٹ آفس پر حاضری ہوتی تو میں ساتھ ہوتا جہاں گزرے دن کی کارروائیوں کی تفصیل پوچھی جاتی اور آنے والے دن کی منصوبہ بندی کی جاتی۔ رات کو خوب شراب و شباب کی محفلیں، دن رات اسی طرح گزرتے جارہے تھے، اور میں زمانے کی رنگینیوں سے خوب لطف اندوز ہو رہا تھا۔
۔
ایک دن یونٹ آفس سے حکم نامہ جاری ہوا کہ لانڈھی ڈگری کالج میں متحدہ قومی موومنٹ کا قبضہ ہے، وہ چھڑانا ہے۔ سخت مزاحمت ہوگی اس لیے مکمل تیاری سے جانا۔ قبضہ چھڑانے والی ٹیم میں شہباز (کشمیری)، یاسر (کشمیری)، دانیال (پٹھان)اور مجھ سمیت مختلف قومیتوں کے 22 لڑکے تھے۔ سب کے سب مفت کی عیاشی، بدمعاشی اور فحاشی کے ساتھ ساتھ معاشی فائدے کے عوض مہاجر نظریے کا ساتھ دے رہے تھے۔ خیر لانڈھی ڈگری کالج جو ایک گرائونڈ میں قائم ہے۔ اس کے سامنے کے علاقے پر متحدہ اور عقبی علاقے پر مہاجر قومی موومنٹ کا قبضہ تھا۔ کالج کے اطراف میں ہو کا عالم ہوتا تھا۔ کالج کا گرائونڈ نامعلوم تشدد زدہ لاشیں ملنے کے حوالے سے مشہور تھا، (اسلم مجاہد شہید کی لاش بھی اسی علاقے سے ملی تھی)۔ اس کالج کے سامنے تقریبا دو کلومیٹر کے فاصلے پر گرلز کالج تھا۔ ان لڑکیوں کو کالج جانے اور واپسی کے لیے بوائز کالج کے سامنے والا بس اسٹاپ ہی استعمال کرنا ہوتا تھا۔ وہاں سے ”کال مارکسی“ نظریات کے فروغ میں مصروف درویش کی بہنیں، جو سچی محبتوں کی متلاشی ہوتی تھیں، انھیں رکشہ، ٹیکسی اور نجی گاڑی کے ذریعے کالج کے عقب میں رہائش کے لیے فراہم کردہ تنظیمی کمروں میں لے جا کر خوب محبت فراہم کی جاتی تھی۔
۔
کالج پر قبضہ کی لڑائی ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ فائرنگ سے پورا علاقہ گونج رہا تھا۔ مہاجر قومی موومنٹ کو علاقے کا فائدہ تھا جس کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ کے لڑکوں نے کالج چھوڑنے میں ہی عافیت جانی۔ کالج کے اسٹاف کے کمرے صرف دو کاموں کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسلحہ ڈمپ کرنے، مفروروں اور قاتلوں کو روپوش اور ”سہولیات“ فراہم کرنے کے لیے۔ ویسے تو مہاجر قومی موومنٹ نے اس کالج پر چار سال قبضہ بنائے رکھا، اور جب مشرف حکومت آئی، متحدہ کو اقتدار ملا تو بیت الحمزہ کو مسمار کیے جانے کے ساتھ ہی کالج کا قبضہ بھی متحدہ کے پاس چلا گیا۔ اس دوران ایک سال تک ہمارا ٹولہ مسلسل کالج آتا رہا۔
۔
اس کالج میں پہلی دفعہ اسلامی جمعیت طلبہ سے واسطہ پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ متحدہ نے دوبارہ انٹری کی کوشش نہیں کی، مگر پھر بھی منصوبہ بندی کے تحت 8 لڑکوں کو کلاشنکوفوں اور ٹی ٹی پسٹل کے ساتھ کالج کی عمارت کی عقبی دیوار کے ساتھ بیٹھنا ہوتا تھا، جبکہ دو لڑکے فرنٹ سائیڈ پر متحدہ کے لڑکوں پر نظر رکھنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔ متحدہ کی جانب سے خاموشی کے بعد توجہ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب ہوئی۔ اس وقت لانڈھی کالج میں جمعیت کے 20 سے 25 نوجوان آتے تھے، پڑھتے تھے، آپس میں بیٹھتے تھے، اساتذہ سے نشستیں کرتے تھے اور آپسی نشستیں کرکے واپس چلے جاتے تھے۔ ایک دن فیصلہ کیا گیا کہ کالج میں مہاجر قومی موومنٹ کے علاوہ کوئی تنظیم نہیں ہوگی۔جمعیت والوں کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ کل سے کالج مت آنا۔ اس دوران تین لڑکوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ لڑکے چلے گئے مگر اگلے روز وہ پھر کالج میں موجود تھے۔ انھیں بلا کر گالیاں دی گئی۔ اس حوالے سے یاسر اور ابراہیم نے انھیں دیواروں کے ساتھ کھڑا کرکے ان کے دائیں بائیں نشانہ بازی بھی کی۔ ایک کو کہا کہ کلمہ پڑھو۔ وہ بس ایک بات کہہ رہے تھے کہ ہمارا تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ یہ حربے آزمانے کے بعد انھیں گھر جانے کی اجازت دیدی۔ مگر اگلے روز زخمیوں سمیت یہ لڑکے پھر کالج میں تھے۔ اپنی کلاسوں میں، اساتذہ کے ساتھ، پرنسپل کے ساتھ۔ ہمیں پتہ تھا یہ ظہر کی نماز کے لیے اکٹھے جاتے ہیں۔ ہم تیاری سے بیٹھ گئے اور جب یہ لوگ مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے راستے میں حملہ کردیا۔ تمام لڑکے ہی بری طرح زخمی ہوچکے تھے اور چلنے کے بھی قابل بھی نہیں تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ اب یہ لوگ کالج نہیں آئیں گے۔ اور واقعی وہ اگلے دن کالج نہیں آئے۔ مگر تین چار دن بعد ان لڑکوں میں سے بیشتر واپس کالج میں موجود تھے۔ ہم ان لڑکوں سے چھٹی میں نمٹنے کی منصوبہ بندی کر ہی رہے تھے کہ متحدہ کے لڑکوں نے پوری قوت سے کالج کا قبضہ واپس لینے کے لیے حملہ کردیا۔ وہ قبضہ تو واپس نہیں لے سکے مگر انھیں نے ہر دوسرے دن قبضے کے لیے ہم پر حملے شروع کردیے۔ جس کی وجہ سے ہماری توجہ جمعیت کی جانب سے ہٹ گئی۔
۔
جمعیت کے کچھ لوگ میرے محلے میں بھی رہتے تھے، انھوں نے ہم پانچ دوستوں کو تشدد کا بدلہ لینے کے لیے ”ہدف“ بنا لیا۔ وہ جس جگہ ٹکراتے، مجھے اور میرے دیگر چار دوستوں کو زبردستی پکڑ لیتے۔ اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔ انھیں پتا تھا کہ ہمیں کرکٹ کا جنون ہے۔ جب بھی کوئی میچ ہوتا زبردستی ساتھ لے جاتے۔ یہ تعلقات آہستہ آہستہ بڑھتے چلے گئے۔ پھر کھیل کے بعد مغرب کی نماز میں بھی شمولیت ہونے لگی اور نماز کے بعد مسجد کے لان میں ہلکی پھلکی گفتگو۔ انھی دنوں میں متحدہ نے انٹری کی کوشش کے دوران حملہ کیا تو ہمارے ٹولے کے دو کشمیری لڑکے یاسر اور دانیال مارے گئے۔ جس کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کے ذمہ دار فیروز حیدر (اے پی ایم ایس او حقیقی کا سربراہ تھا جو بعد میں متحدہ میں شامل ہوا) نے گروپ توڑ دیا اور لانڈھی کالج جانے سے منع کردیا۔ پھر ایک لڑکا لانڈھی بابر مارکیٹ کا رہائشی ”ابراہیم“ فیروز حیدر سے اختلاف کرنے کے بعد گھر جاتے ہوئے نامعلوم حملہ آوروں کے ہاتھوں مارا گیا۔ لڑکوں کے مارے جانے اور گروپ توڑنے سے ہمارا جمعیت کے لڑکوں کے ساتھ میل ملاپ بڑھ گیا۔ اب معاملات کرکٹ، نمازوں سے بڑھتے جارہے تھے۔ اس جانب ایک عجیب سا سکون محسوس ہونے لگا مگر پھر جمعیت نے اپنے تشدد کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ پہلا تشدد یہ کیا کہ ہمارا تعلیمی سلسلہ بحال کرایا جو ایک عرصہ سے چھوٹ چکا تھا مگر ہماری جگہ کوئی ”ماہر“ بیٹھ کر پرچے دیتے تھے اور جو مارک شیٹ ہم گھروں پر دکھاتے تھے وہ اے ون گریڈ کی ہوتی تھیں۔ جمعیت کے لڑکوں نے میرے اور میرے دوستوں کے تعلیمی اخراجات ادا کیے۔ تعلیمی سلسلہ بحال ہوا تو ”فرینڈز اکیڈمی“ کے نام سے کورنگی جے ایریا میں ایک ٹیوشن سینٹر ہوتا تھا جس میں دو لڑکے بطور اساتذہ پڑھاتے تھے۔ اس سینٹر میں انھوں نے بلامعاوضہ ہمیں ٹیوشن پڑھانی شروع کی۔گھر والے بھی جمعیت کے اس تشدد سے ہمارے اندر ہونے والی تبدیلیوں سے خوش تھے۔ جمعیت کے تشدد سے مجھ میں اور میرے دوست میں آنے والی تبدیلیوں کو محلے والوں نے بھی محسوس کیا کیونکہ اب محلے والے ہمارے شر سے خود کو محفوظ محسوس کرتے تھے۔
۔
اسی دوران گھر والوں نے علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میں پریشان ہوگیا کہ نئے علاقے میں نئے لوگ پتا نہیں کیسے ہوں گے۔ اور اگر متحدہ کے ہوئے اور انھیں میرے مہاجر قومی موومنٹ سے تعلق کا علم ہوگیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ مگر اس کا حل بھی جمعیت والوں نے نکال دیا اور جس میں علاقے میں شفٹنگ ہوئی، وہاں جمعیت اور شباب ملی کے لوگوں کو پہلے سے آگاہ کردیا گیا اور ساتھ ہی مجھے ان سے ملوا بھی دیا گیا۔ جب علاقہ تبدیل کرکے نئے علاقے میں پہنچا تو مجھے نئے علاقے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی۔ تعلیمی سلسلہ چل نکلا۔ جمعیت کا تشدد انٹر تک ہی محدود نہیں رہا۔ جمعیت کا یہی تشدد ہمیں گریجویشن اور پھر ماسٹر میں بھی برداشت کرنا پڑتا۔ یہ جمعیت کا تشدد ہی تھا کہ ہم نے تعلیمی سلسلہ بحال کیا ورنہ لانڈھی کالج کے گرائونڈ سے ملنے والی نامعلوم لاشوں میں چند نامعلوم لاشوں اضافہ ہی ہوتا۔
۔
نئے علاقے کے لوگوں میں جماعت کے لوگوں سے واقفیت ہوئی۔ تشدد کرنے میں وہ اپنے بچوں سے زیادہ تیز تھے۔ تشدد کا باقاعدہ سلسلہ باقاعدہ طور پر میرے ہاتھ میں ”شہادت حق“ نامی کتابچہ تھما کر شروع کیا گیا اور ساتھ ہی یہ الفاظ کہے گئے کہ اس کا مطالعہ کرنا ایک دو دن میں اس پر بات کریں گے۔ تشدد سخت ہوتا گیا اور صفحات کی بڑھتی تعداد کتابچے سے کتب میں بدل گئی۔
۔
اور ہاں سنو۔ جب عملی زندگی کا آغاز ہوا تو بھی نہیں چھوڑا۔ ”نمک کی کان میں نمک مت ہوجانا“ ان الفاظ کی گردان مسلسل خود احتسابی کا شکار رکھتی ہے۔ یہ الفاظ ہتھوڑے کی طرح برس رہے ہوتے ہیں، ہتھوڑے کے وار سہنا آسان کام ہے، اس سے بھیانک تشدد ہوسکتا ہے؟
۔
یہ لوگ بدترین تشدد کے عادی ہیں۔ وحشیانہ تشدد کے ذریعے ہمارے اندر کے جانور کو مار دیا۔ ہمیں تعلیم کی جانب راغب کردیا۔ ہمارتے بہکتے جگ راتوں کو درسی شب بیداریوں سے بدل دیا، نفس کے غلاموں کو آزاد کرایا، دوستی، دشمنی اللہ کے لیے کرنا بتایا،گولی سے جھکانے کی خصلت رکھنے والوں کو محبت سے اسیر کرنے کے گر سمجھائے، درس قرآن سے دل نرم بنائے، اب اس سے بڑھ کر تشدد کیا ہوگا کہ ترکی، افغانستان، چیچنیا، بوسنیا، عراق، شام سمیت کہیں امت کے کسی فرد کو تکلیف میں دیکھیں تو آنسو نکل پڑیں، راتیں رب سے دعائیں کرتے گزر جائیں۔ جمعیت کے ”تشدد“ کے ان بھیانک ”طریقوں“ نے کیا حال بنا دیا ہے ہمارا، ہم جمعیت کے ”مظالم” کبھی نہیں بھول سکتے۔ آج ہمارے ٹولےکا ایک فرد دفاعی ادارے میں، ایک سول ایوی ایشن میں اور ایک کسٹم میں ہے، ایک لڑکا سعید جسے مہاجر قومی موومنٹ سے تعلق توڑنے پر اس کے دہشت گرد ناصر چنگاری نے فائرنگ کرکے زخمی کردیا تھا مگر وہ بچ گیا تھا، دائود انجینئرنگ سے پڑھنے کے بعد اب دبئی میں جاب کر رہا ہے۔ یہ سب لوگ اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ جمعیت کے تشدد کا ہی نتیجہ ہے، ورنہ آج کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہو کر چہرہ پر کپڑا ڈلوا کر کسی عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہوتے اور پٹھانوں، پنجابیوں سمیت سو سو قتل کا اعتراف کر رہے ہوتے۔
۔
چلو اب ان کی تنقید پر بات کرلیتے ہیں:
سنا ہے آج کل سخت تنقید ہو رہی ہے جمعیت پر۔ لاہور کے کسی کونے کھدرے میں کیے جانے والے کسی فرد کے انفرادی فعل کو جواز بنا کر ایک عالمی سطح کی تنظیم کی اجتماعیت پر تنقید۔ ان کے مقابلے میں جب نام و نشان سے محروم ہو جانے والے لوگ اپنے نظریات کو عالمی کہتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ کراچی کے مشاہدات، لاہور کے کسی مشاہدے کا جواب نہیں ہوسکتے مگر یہ ضرور بتاتے ہیں کہ مختلف صوبوں، شہروں، علاقوں میں کام کرنے والی تنظیم پر تنقید کے لیے کم از کم کہانیاں بھی تو اسی سطح کی لائو۔ اس پر بات کیوں نہیں کرتے کہ کراچی کے تعلیمی اداروں میں جب متحدہ قومی موومنٹ داخل ہوئی اور طلبہ کی لاشیں ملنا معمول بن گیا تو ان تعلیمی اداروں سے نیشنلزم، سوشلزم، کمیونزم دبا کر بھاگ گئے تھے۔ کراچی کے تعلیمی اداروں میں اگر کسی نے لسانیت و فسطائیت کا مقابلہ کیا اور ہر قسم کے حالات میں ان کے سامنے موجود رہی تو وہ تھی اسلامی جمعیت طلبہ۔کوئی کہتا ہے کہ اس کا شجرہ نسب کارل مارکس سے ملتا ہے۔ ہے نا حیرت کی بات۔ کارل مارکس جو کہ نسب کے شجر پر یقین ہی نہیں رکھا۔ ولدیت کا خانہ ہی نہیں ہوتا۔ اس کے نسب کا شجر؟۔ ارے ان کے ”نسب“ کا شجر نہیں بلکہ خودرو جھاڑیاں ہوتی ہیں، خود ہی پیدا ہوتی ہیں، ایک دوسرے میں پیوست، پتا ہی نہیں چلتا کہ کون سے جھاڑی ”کہاں سے نکلی“، بات کرتے ہیں نسب کے شجر کی۔
۔
چلو سنو امریتا پریتم کہتی ہے کہ میرے بڑے بیٹے کی شکل ساحر لدھیانوی سے ملتی ہے۔ ایک دن بیٹا پوچھنے لگا کہ امی مجھے بتائیں اگر میں ساحر ”انکل“ کا بیٹا ہوں تو مجھے کوئی شرمندگی نہیں بلکہ فخر ہے۔ تو امریتا نے کہا کہ نہیں تم ساحر کے بیٹے نہیں ہو، بس جب تم پیدا ہونے والے تھے تو ساحر میرے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ درویشوں کے بچے اپنی ولدیت سے مشکوک اور بات کریں شجرہ نسب کی۔ طوائف کہے میری بھی کوئی عزت ہے۔
۔
کہتے ہیں مارکسی تعلیمات کے فروغ کو جمعیت روکتی ہے۔ جمعیت مزاحمت برداشت نہیں کرتی۔ ارے تاریخ تو پڑھو! مزاحمت تو برداشت ہی جمعیت نے کی ہے۔ جمعیت اپنا موقف پیش کرتی ہے، پھر جو چاہے اپنا لے۔ جامعہ پنجاب میں چار چھ کا ٹولہ اور جمعیت کی اکثریت، پھر تم لوگوں نے تعلیم مکمل کرلی اور کہتے ہو کہ جمعیت مزاحمت قبول نہیں کرتی۔ اگر تمہارا وہ حال جمعیت نے کیا ہوتا جو لانڈھی ڈگری کالج میں جمعیت والوں کا ہوا تھا تو تم امی کی گود سے ہی باہر نہ نکلتے۔ارے ہاں! ان کے اعتراض دیکھو، 100 اعتراض کرنے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ملےگا جس کی تحریر میں لڑکا لڑکی کے تعلق پر جمعیت کے مشتعل ہونے کا ذکر نہ ہو۔ اصل میں مارکسی پیروکاروں کے دماغ ازار بند میں مقید ہوتے ہیں۔ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ جمعیت تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتی اور اپنے نظریات مسلط کرتی ہے۔ یہ کون سی تعلیم ہے جس آغاز اور اختتام اپنی”کارل مارکسی“ ہم خیال سے چمٹ کر ہی ہوتا ہے، اس لیے سوچ اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ یہ جو تشدد کا رونا روتے ہیں نا۔ انھیں بتائوں کہ تشدد کیا ہوتا ہے۔تشدد وہ ہوتا ہے جو یونٹ آفسز میں سکھایا جاتا تھا۔ جسم میں قدرتی سوراخ یونٹ والوں کو کم لگتے تھے، اس لیے ڈرل مشین کے ذریعے جسم کو چھلنی بنا دیا جاتا تھا۔ یہ ہوتا ہے تشدد، جو جمعیت نے تیس سال تک سہا ہے، پامال لاشوں کی تصاویر گواہ ہیں۔ اور تم غلطی سے جلتی سگریٹ پر بیٹھ گئے تو اس کا نشان لے کر گھوم رہے ہو اور الزام جمعیت کے سر تھوپ دیتے ہو۔
۔
اور ہاں ہمیں معلوم ہے کہ تمھارا غم کیا ہے، این ایس ایف تاریخ کا حصہ ہوئی، ترقی پسندی امریکی تیل میں تلی جا رہی ہے، سرخ سویرے نے یہاں کیا آنا تھا، ماسکو میں ہی اسے جگہ نہ ملی اور سب کو بےیارومددگار چھوڑ گیا، اور تم میں ایک بھی صاحب کردار نہ نکلا، سب نے رنگ بدلنے میں گرگٹ کو بھی مات دے دی، اسی امریکہ کو مائی باپ بنا لیا، جس کے خلاف صبح شام انقلاب کی نوید سناتے تھے. جمعیت اس کے مقابلے میں اب تک ملک کے کونے کونے میں موجود ہے، پہلے سے زیادہ توانا ہے. اور تمھارے لیے سستی ریٹنگ کے حصول کا ذریعہ بھی، اور نہ سہی یہی احسان مان لو جمعیت کا کہ تمھاری بھی روٹی روزی کا ذریعہ ہے. ماسکو سے واشنگٹن تک.اچھا چھوڑو ان کو! بس میں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ جمعیت سے بدلہ لیتا رہوں گا۔ اس کے تشددکا۔ تو اب میں اپنے جیسے کسی کو بھی پکڑتا ہوں اور اس پر یہی تشدد کرتا ہوں جو جمعیت نے مجھ پر کیا۔ جمعیت کا کوئی فرد ہاتھ لگے تو اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسا کر ہی تشدد کرتا ہوں۔ یہ سلسلہ جاری رہےگا کیونکہ اس سے مجھے تسکین ملتی ہے۔
(طارق حبیب آج نیوز میں سینئر پروڈیوسر ہیں)
-
پاکستان، مستقبل کا میدان جنگ – طارق حبیب
پائوں کسی شے پر آیا تو ایک عجیب سا احساس ہوا، قدم آگے بڑھایا اور جوتے کو سڑک پر رگڑا مگر جوتے کے نیچے سے چپچپاہٹ ختم نہیں ہورہی تھی۔ اندھیرے کے باعث سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا شے جوتے سے چمٹ گئی ہے۔ کچھ فاصلے پر کھڑی موبائل کے پاس پہنچا اور اس کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں جوتے کا جائزہ لیا تو ایک سنسناہٹ ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ جوتے کے تلوے سے انسانی گوشت کا لوتھڑا پچکا ہوا تھا۔ اس وقت کی کیفیات اور احساسات میں آج تک نہیں بھول پایا۔ ایم اے جناح روڈ پر بم دھماکے اور انسانی اعضاء، لاشیں، زخمی اوردھماکے کے خوفناک مناظر کو تاریکی کسی حد تک ڈھانپ رہی تھی، مگر کچھ تھا جسےتاریکی چھپانے سے قاصر تھی، دلدوز چینخیں، دھاڑیں، آہیں، کراہیں، سسکیاں۔
۔
سانحات کی بہتات نے قوم پر ایسی بے حسی طاری کی کہ پھر خون لاشیں اور لوتھڑے بھی اثر نہیں کرتے۔ بس اتنا شکر ادا کرنا کافی ہوتا کہ مرنے والا ”ہمارا نہیں“ اور پھر معمولات شروع ہوجاتے ہیں۔ بےحسی کی حد بےغیرتی سے مل جائے تو پھر وقت بھی رحم نہیں کھاتا۔ آج بھی یہ حالت ہے کہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ حالات و واقعات شاہد ہیں، مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جن کا کام اس صورتحال سے نمٹنا ہے، وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اطراف حفاظتی حصار بنا کر عیاشی کرتے ہیں۔
۔
پاکستان مستقبل میں ایک بار پھر خوفناک جنگ کا میدان بننے جا رہا ہے۔ لشکر جھنگوی کے افراد کا شام کی جانب کوچ کرنا آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے تو مودی کے بیان میں گلگت بلتستان کے عوام سے محبت کے اظہار کے بعد فوج کی طرف سے پارہ چنار میں تین تربیتی کیمپ تباہ کرنے کے واقعات مستقبل کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ پارہ چنار میں کیمپوں کی تباہی اور دہشت گردوں کی گرفتاری ہمارا ”غیرجانبدار“ میڈیا بتانے سے قاصر ہے۔ ”اتحاد امت“ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ان سب معاملات سے صرف نظر ”مصلحت“ کا تقاضا ہے۔ پارہ چنار، ڈیرہ اسماعیل خان، گلگت، ہری پور اور دیگر علاقوں میں شام سے آنے والی ”معصومین“ کی لاشوں پر بھی ہر طرف خاموشی ہے۔ مگر جب یہ خاموشی پاکستان میں شور میں بدلی اور دونوں جانب سے اپنے نظریات مسلط کرنے کی جنگ شروع ہوئی تو سب الٹ کر رہ جائے گا۔ پارہ چنار میں ان تربیتی کیمپوں کی تباہی اور دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد ”مسلم پڑوسی نواز“ ایک ٹولہ ملک بھر کی چورنگیوں پر احتجاجی دھرنے دینے لگ گیا۔ مقصد ان گرفتار دہشت گردوں کو رہا کرانا تھا۔ اور میڈیا پھر ایک بار ان معصومین کی ”معصومیت“ فروخت کرنے میں مصروف نظر آیا۔
۔
قطع نظر اس کے کہ دونوں گروہوں لشکر جھنگوی اور پارہ چناریوں کے تربیت یافتہ ”معصومین“ چھ ماہ شام میں لگانے کے بعد تین ماہ کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ جب یہ مکمل تربیت یافتہ افراد پاکستان کو اپنی ”نظریاتی جنگ“ کے لیے میدان بنائیں گے تو پاکستانی قوم کا مقدر پھر لاشیں، زخمی، لوتھڑے اور انسانی اعضا ہوں گے، اور ٹی وی بیانات ہوں گے کہ ”دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔“
۔
”ہدایت“ آتی ہے کہ یہ حساس موضوع ہے اس پر بات نہ کرو۔ کیا کروں کبھی کسی انسانی عضو پر آپ کا پائوں آئے تو اس کے بعد کی کیفیات رات کو سونے نہیں دیتی، اور اس کے بعد کوئی موضوع حساس نہیں رہتا۔ بس انسانوں کو لاشوں اور اعضاء میں تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے جو ہوسکتا ہے وہ کرنا ہوگا۔(طارق حبیب آج نیوز کے معروف پروگرام اسلام آباد ٹونائٹ سے بطور سینئر پروڈیوسر وابستہ ہیں)
-
ڈاکٹر پرویز محمود کی یاد میں – طارق حبیب
مرے گا سالا ! جماعتیوں کی بھی سمجھ نہیں آتی ، کیوں اس کو چارہ بنا رہے ہیں، اس کو کسی دوسرے علاقے میں شفٹ کیوں نہیں کرا دیتے، اب تک تین بار کنفرم اس کے لیے فیلڈنگ لگی ہوئی تھی جس کی اس کو ایڈوانس اطلاع دی۔
۔
پولیس افسر مسلسل بولے جارہا تھا اور میں اور شاہد انجم بھائی اس کی باتیں سن کر مسکرا رہے تھے۔ وہ غصے میں آتے ہوئے بولا۔
اس ڈھیٹ کو دیکھو۔ ایک دفعہ میں نے اسے فون کیا اور کہا کہ تو نے ایک گھنٹے بعد سرجانی جانا ہے۔ تو وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ مجھے کیسے پتا لگا۔ میں نے کہا کہ تیرے لیے وہاں پکٹ لگی ہوئی ہے، اور لگانے والے مختلف سیکٹرز کے لوگ ہیں۔
جانتے ہو اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کے بعد اس نے سرجانی سیکٹر کہ ذمہ داروں کو فون کرکے کہا کہ پکٹ مضبوط لگانا، میں آرہا ہوں۔ جس کے بعد میرے مخبر نے مجھے کال کی اور بتایا کہ اس کی فون کال کے بعد وہاں سے پکٹ ہٹا لی گئی ہے۔
تم لوگ کسی کو کہتے کیوں نہیں کہ اسے سمجھائے، اسے اگر مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو مرے، ساتھ دوسرے جماعتی بچوں کو کیوں لے کر گھومتا ہے مروانے کے لیے۔
۔
ایس ایس پی چوہدری اسلم مسلسل اپنے دل کا غبار نکالے جارہے تھے اور اپنے دوست ڈاکٹر پرویز محمود کی سکیورٹی کے حوالے سے فکرمند تھے۔ میں اور شاہد بھائی کیا کہتے اسلم بھائی سے کہ یہ سمجھ میں نہ آنے والی باتیں ہیں۔
۔
پھر جب ڈاکٹر پرویز محمود کا لاشہ ایدھی سرد خانے میں رکھا تھا تو ایس ایس پی چوہدری اسلم اور ایس ایس پی عرفان بہادر اپنے یار کے آخری دیدار کے لیے آئے۔ چوہدری اسلم نے واپس جاتے ہوئے کہا کہ میں اسے کہتا تھا کہ تو خود بھی مرے گا اور جماعتی بچوں کو بھی اپنے ساتھ مروائے گا تو یہ جواب دیتا تھا کہ میرے ساتھ کوئی جماعتی بچہ نہیں مرے گا۔ آج اس نے اپنی بات پوری کردی. پھر چوہدری اسلم نے کہا کہ جماعتیو! جو نقصان تمہیں آج ہوا ہے اس کا تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے۔
……………………………………
اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی آپریشن کے اہم کرداروں یعنی پولیس افسران کو ٹھکانے لگانے کی مہم جاری تھی اور قائد تحریک کو چند ماہ بعد ایک پولیس افسر کی لاش کا تحفہ دیا جاتا تھا۔ 1992ء آپریشن کے اہم کردار پولیس افسران لاوارث اور تنہا کرکے قائد کے حواریوں کے لیے آسان ہدف بنا دیے گئے تھے۔ یہ پولیس افسران 14 اکتوبر 2003ء کو اپنے ایک ساتھی اور آپریشن کے معروف کردار انسپکٹر ذیشان کاظمی کی فیروز آباد سے ملنے والی گولیوں سے چھلنی تشدد زدہ لاش بھولے نہیں تھے کہ 13 اپریل 2004ء کو فیڈرل بی ایریا کی گودھرا سوسائٹی کی محمدی مسجد میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے دوران کراچی آپریشن کے ایک اور اہم کردار انسپکٹر توفیق زاہد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ اور ”نامعلومے“ مجرم سب نمازیوں کے سامنے آسانی سے روانہ ہوگیا۔ (بعد ازاں جامعہ کراچی کے دو ملازمین اور متحدہ کے کارکنان ذیشان اور ریحان کو عینی شاہدین نے شناخت کرلیا تھا، مگر مشرف دور میں انھیں رہا کردیا گیا)۔
۔
کراچی آپریشن میں شامل افسران میں یہ خبر پھہنچ گئی تھی۔ اس موقع پر ایس ایس پی چوہدری اسلم نے ڈاکٹر پرویز محمود کو فون کیا اور کہا کہ ہم انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش لینے کے لیے عباسی شہید اسپتال آرہے تھے مگر آئی جی سندھ نے ہمیں منع کردیا ہے کہ توفیق زاہد کی ڈیڈ باڈی آپ لوگ نہیں اٹھائیں گے۔ ایس ایس پی چوہدری اسلم نے ڈاکٹر پرویز محمود سے کہا کہ ہماری اطلاع کے مطابق متحدہ کے رہنما ڈیڈ باڈی دیکھنے آرہے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ متحدہ والے انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش کو ہاتھ نہ لگانے پائیں۔ یہ ہماری انا اور عزت کا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر پرویز محمود نے ایس ایس پی چوہدری اسلم کو یقین دہانی کرائی کہ ایسا ہی ہوگا۔
۔
ڈاکٹر پرویز محمود عباسی اسپتال پہنچے تو متحدہ رہنما آفتاب شیخ اپنے لوگوں کے ساتھ لاش دیکھنے کے لیے اسپتال آیا۔ ڈاکٹر پرویز محمود نے متحدہ رہنمائوں کو باہر ہی روکا اور کہا کہ توفیق زاہد کی تصدیق کرنے آئے ہو کہ مرگیا ہے کہ زندہ ہے۔ اس موقع پر سخت تلخ کلامی، گالم گلوچ بھی ہوئی۔
۔
بہرحال ڈاکٹر پرویز محمود اور ان کے ساتھ موجود دیگر نوجوانوں نے متحدہ رہنمائوں کو انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش کے قریب نہ جانے دیا۔ اور لاش عباسی شہید اسپتال سے ایدھی سرد خانے منتقل کرا دی۔ جہاں کراچی آپریشن میں شامل دیگر افسران پہنچے اور انھوں نے انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش وصول کی۔
۔
ایدھی سرد خانے پہنچنے والوں میں انسپکٹر حیدر بیگ بھی شامل تھا جو کراچی آپریشن کا ایک اور اہم کردار تھا۔ اسے پولیس کی نوکری سے برطرف کردیا گیا تھا اور وہ ٹیکسی چلانے لگ گیا تھا۔ انسپکٹر توفیق زاہد کی لاش وصول کرنے کے ٹھیک 2 ماہ بعد 16 جون 2004ء کو اسے اس کےگھر واقع سارہ اپارٹمنٹ گلشن اقبال کے سامنے گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ابھی کل ہی ڈاکٹر پرویز محمود کا یوم وفات گزرا ہے اور کل ہی ہم نے خواجہ اظہار الحسن کے ساتھ رونما ہونے واقعے اور اس پر مچنے والی ہاہاکار دیکھی ہے. اس کے بعد یہ چند لائنیں صفحہ قرطاس پر منتقل ہوئی ہیں. گزشتہ چار دہائیوں میں کراچی کس کرب سے گزرا ہے، اس کا کچھ اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے.
(طارق حبیب آج نیوز میں سینئر پروڈیوسر ہیں)
-
سن اے میرے کشمیر سن – طارق حبیب
میرے کشمیر! ہم شرمندہ ہیں کہ ہم تیرے خلوص کا قرض نہیں چکا سکتے، ہمارے ارباب اختیار تو تجھ سے دامن چھڑانے کا ہر اوچھا ہتھکنڈہ آزما چکے، مگر سلام ہے تیری استقامت کو، کہ نہ ہم نے بےوفائی کی روش بدلی اور نہ تو نے رسم وفا چھوڑی۔
میرے کشمیر! تیری وادیاں مثل جنت ہیں اور ہم نے کبھی جنت کمانے کا سوچا ہی نہیں۔ تم نے ہم سے امید لگا لی تھی اور ہم ٹھہرے تاجر، ہوس زر ہمارے قلوب و اذہان پر سوار ہے۔
سن اے میرے کشمیر سن! یہاں سب ارباب اختیار تاجر ہیں، بہنوں کے تاجر، بھائیوں کے تاجر، خام مال کے تاجر، اور تو اور اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیرے بھی کوڑیوں کے مول فروخت کردیتے ہیں۔میرے کشمیر تو نہ سمجھ سکا، یہ تیری نہیں ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم جنت کے خواہشمند نہیں۔ جن دو دھڑوں کے درمیان تم پھنس گئے ہو، انھوں نے تجھے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ تجھے شہ رگ اور اٹوٹ انگ قرار دینے کا نعرہ صرف بجٹ بڑھانے کا حیلہ ہے۔ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں یہ کم ظرف۔
ہاں یاد ہے جب تیری آزادی کے لیے لڑنے والوں کو بےیار و مددگار چھوڑ کر سمجھا گیا کہ اب ختم ہوجائیں گےمگر ماں کے مجروں کا قصہ گو آٹھ سال تک یہ نہ سمجھ سکا کہ جہاد تو بس اللہ کے لیے ہے اور تاقیامت ہے۔ پھر ساتھ کٹھ پتلیوں کو ملا کر تجھے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بنایا گیاتھا۔ عادت جو ہوگئی تھی لڑے بغیر ٹکڑے کرانے کی، مگر اللہ سایہ سلامت رکھے بزرگ شیر گیلانی کا، جو اللہ کی مدد سے اس چال کو بھانپ گیا اور رب کی عطا کردہ فراست سے یہ چال واپس انھی پر پلٹ دی۔
میرے کشمیر تو ہم سے امید لگائے بیٹھا تھا، ہم کہ جنھوں نے تیری وادیوں کو تصویروں کی صورت بیچا، تیرے حسین مناظر کو سپنوں کا رنگ دے کر ان خوابوں کی تجارت کی، تیرے سینے پر تیری بیٹیوں کی لٹتی عصمتیں، بزرگوں کے ناتواں و لاغر تشدد زدہ جسم اور تیرے نوجوانوں کے لاشے، ہم نے انھیں عالمی منڈی میں رکھ کر بھائو خوب بڑھایا۔ جب ضرورت پڑی جہاد کشمیر کا نعرہ لگایا اور جب دل چاہا جہاد روک دیا اور سیاست کا نعرہ لگا دیا۔ کشمیر کمیٹی کے مال سے پیٹ کو دوزخ بناتے یہ حالت ہوگئی کہ شدید بارش میں نہ پائوں کی انگلیاں گیلی ہوتی ہیں اور نہ ایڑیاں۔
ہم نے تیری سسکیاں بیچیں، تیری آہیں بیچیں، تیری فریادیں بیچیں، اور پھر تو جاگ اٹھا. میرے کشمیر! تو جاگ اٹھا، تجھے جاگنا تھا۔ تیری ایک نسل ہماری بےوفائی کی بھینٹ چڑھ گئی، مگر اب تیری اگلی نسل تیار ہے۔ بنیے کے سروں کی پکی فصل کاٹنے کے لیے تیار ہے، اپنے بزرگ کمانڈر سید علی گیلانی کے زیر سایہ تیار ہے۔
60 دنوں کی کامیاب ہڑتال کے ساتھ ایک ایک گھر کی خبر گیری کرکے تیرے بیٹوں نے نئے سرے سے منظم ہونے کا ثبوت دے دیا، دنیا کو حیران کردیا۔ ان ساٹھ دنوں میں جدوجہد عروج پر رہی، بنیا سٹپٹا گیا اور اناپ شناپ بکنے لگا۔ سخت کرفیو، مواصلاتی نظام منقطع، بیرونی رابطے ختم، مگر تحریک جاری، پورے زوروشور سے جاری، بغیر کسی ”حمایت و سپورٹ“ کے جاری۔ تنظیم کی شکل تو تمہارے بیٹوں نے دوسری ”تنظیموں“ کو سمجھائی۔ اسی ہنگامی صورتحال میں اشیائے خوردونوش مہنگی ہونے کے بجائے سستی ہوگئیں، ضروریات زندگی گھر گھر پہنچانے کا انتظام انتہائی منظم طریقے سے کیا گیا، مواصلاتی نظام نہ ہونے کے باوجود آپسی رابطے انتہائی مضبوط کرلیے گئے۔ کسی گھر میں چولہا بجھنے دیا نہ امیدکی لو ۔ تم نے پسپائی کے خوف کو پسپا کردیا۔
میرے کشمیر بس تیرے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا گو ہیں، تیری تحریک کے لیے تیری آزادی کے لیے دعا گو ہیں، تیری تحریک بغیر ”سہارے“ کے منزل کی جانب گامزن ہے۔ بس اب جو تیری ان کامیابیوں کو پھر سے اپنے کندھوں پر سجا کر فروخت کرنے کے خواہشمند ہیں، ان سے بچنا ہے۔ ان شاء اللہ اب تیرے ہزاروں برہان وانی تیار اور عملی جدوجہد میں مصروف ہیں، تجھے کرائے کے پیشہ وروں کی ضرورت نہیں۔
اللہ تیرا حامی و ناصر ہو۔ آمین -
خیر چھوڑیے اسے! آگے بڑھتے ہیں – طارق حبیب
سول اسپتال کے وارڈ میں کوئلہ ہوئے جسم پر وہ خاتون اور مرد آپس میں بحث کررہے تھے، خاتون اسے اپنے بیٹے کی لاش قرار دے رہی تھی جبکہ مرد اسے اپنا بیٹا بتا رہا تھا۔ مگر تھی وہ ایک لاش، کوئلہ بنی لاش، ناقابل شناخت۔ اور وہ دونوں اسے اپنا اپنا لخت جگر کہہ رہے تھے۔ ایک دوسرے کے درد کو سمجھ بھی رہے تھے اور تکلیف کا اندازہ بھی تھا۔ ان دونوں کے درمیان ہونے والی بحث تند و تیز جملوں پر مشتمل نہیں تھی بلکہ منت سماجت، بے بسی، فریاد اور درخواست پر مبنی تھی۔ کوئلہ بنے 250 سے زیادہ انسانی اجسام میں سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو ڈھونڈنا ہمت اور حوصلے کا کام تھا۔ اسپتال کا وارڈ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں زندہ جلائے گئے مزدوروں کے لواحقین سے بھرا ہوا تھا۔ اسپتال کے ہر بستر پر پڑے کوئلے کی ایک گھٹڑی کے پاس ایسی ہی ایک کہانی تھی۔ مجھ سے دیکھا نہ گیا اور وہاں سے باہر آگیا جہاں دیگر صحافی بھی ایک دوسرے سے منہ پھیر کر اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کررہے تھے۔ چلو خیر چھوڑو، آگے بڑھتے ہیں۔
12مئی 2004ء کو شہر میں ضمنی انتخابات ہوئے تو 11 افراد کو موت کی نیند سلا کر کراچی پر اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ داد تو صبر و استقامت کا مظاہر ہ کرنے والی اس ماں کو دینی پڑتی ہے جس نےاکلوتے نوجوان بیٹے عبدالرحمان کو آخری سفر پر روانہ کیا۔ عبدالرحمان کے ساتھ 10 افراد کے جنازے اور بھی تھے۔ خیر چھوڑیے اسے، آگے بڑھتے ہیں۔
ہاں مجھے 12مئی کو چیف جسٹس کو خوش آمدید کہنے والوں کی لاشیں بھی یاد ہیں۔ زخمی بیٹے کے پاس کھڑے ایک پٹھان غیور باپ سے جب میں نے کہا کہ حکومت نے شہداء کے لیے ایک کروڑ اور زخمیوں کے لیے پچاس لاکھ کا اعلان کیا ہے تو اس بزرگ کا چہرہ غصہ سے لال ہوگیا۔ اس نے کہا کہ میرا ایک بیٹا شہید ہوا ہے اور ایک یہ زخمی پڑا ہے۔ میں حکومت کو دس کروڑ روپے دیتا ہوں مجھے ان کے قاتل دے دے۔ ہم پٹھان لاشوں کے سودے نہیں کرتے۔ خیر چھوڑیے اس واقعے کو، آگے بڑھتے ہیں۔
پھر سلطان آباد کی وہ رکشہ ڈرائیور کی بیوی جو خود کو اس رکشہ ڈرائیور کی قاتل سمجھتی ہے۔ اس نے کہا کہ تین دن کی خونی ہڑتال نے گھر پر فاقے کرادیے تھے۔ بچوں کی بھوک دیکھ کر رہا نہ گیا تو میں نے اپنے شوہر کو مزدوری پر جانے کے لیے مجبور کیا۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد خبر آئی کہ اسے نامعلوم دہشت گردوں نے روزگار کی تلاش کے جھنجھٹ سے نجات دلا دی۔ وہ عورت آج بھی خود کو اپنے شوہر کا قاتل سمجھتی ہے۔ خیر چھوڑیے اسے، آگے بڑھتے ہیں۔
9 اپریل 2008ء کو وکلاء کے دفاتر پر مشتمل پلازہ طاہر پلازہ کو گن پائوڈر استعمال کرکے آگ لگا دی گئی۔ مرکزی دروازہ بند کردیا گیا تاکہ وکلاء باہر نہ آسکیں۔ کئی وکیل زندہ جلا دیے گئے۔ انصاف کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ خیر چھوڑیے اسے بھی، آگے بڑھتے ہیں۔
12ربیع الاول کو نشتر پارک میں بم دھماکہ ہوا ور سنی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی مختلف جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو ایک ساتھ اڑا دیا گیا، مخالفین کا یہ حشر دیکھ کر شہر میں حق گوئی کو سانپ سونگھ گیا۔ مگر یہ تو ماضی ہے، چھوڑو آگے چلو۔ عاشورہ بم بلاسٹ کے ذریعے زائرین لاشوں میں بدل دیے گئے اور منظم انداز میں پروپیگنڈہ کرکے اسے فرقہ وارانہ تصادم میں بدلنے کی کوشش کی گئی. بعد ازاں سب سے پہلے اجمل پہاڑی نے اپنی جے آئی ٹی میں بھانڈا پھوڑا، پھرگرفتار ہونے والے دوسرے دہشت گردوں نے حقائق کھول کر رکھ دیے۔ خیر پرانی بات ہوگئی آگے چلو۔
غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کے 1988ء سے لے کر آج تک 2 لاکھ نوجوان کراچی کی لسانیت کی نذر ہوچکے ہیں جبکہ 2008ء سے 13 تک 22 ہزار نوجوان کراچی کی سڑکوں پر لاشوں میں بدل دیے گئے۔ مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ آج جو یہ انکشاف کررہے ہیں یا کروا رہے ہیں کہ یہ دہشت گرد را کے ایجنٹ ہیں، وہی ان را کے ایجنٹوں کی پیدائش کے ذمہ دار ہیں اور جب یہ را کے ایجنٹس 90ء کی دہائی کے اختتام پر اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے تو انھوں نے ہی ان دہشت گردوں کواپنا اتحادی بنا کر شہر میں قتل و غارت گری کا لائسنس دیا۔
دنیا کا کوئی ملک ایسا ہے جہاں ایک شہر میں تین دہائیوں میں لسانیت کو پروان چڑھانے کے لیے اڑھائی لاکھ مائوں کی گود اجاڑ دی گئی ہو اور عوام کو تحفظ دینے والے خاموش تماشائی ہوں۔ اور اب، اب بات یہاں تک پہنچی ہے کہ پاکستان مردہ باد بھی کہہ دیا گیا ہے، بیرونی مدد ملنے پر پاکستانیوں کو مارنے کا اعلان بھی کردیا گیا مگرارباب اختیار کی صرف آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہیں۔ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھتے ہیں، فاروق ستار اور وسیم اختر سمیت دیگر کراچی کے رہنما مسلسل اس جملے کی گردان کرتے نظر آرہے ہیں۔ حضور کہنا یہ ہے کہ کراچی دہشت گردی کا ایسا کنواں ہے کہ جس سے گندے پانی کے چند ڈول نکال کر اسے پاک کرنے کے بجائے اس کنویں سے کتا نکالنا ہوگا، ورنہ اس شہر پر دہشت گردی کا عفریت یوں ہی مسلط رہے گا۔
-
خاموش متحدہ اور آخری رائونڈ، چشم کشا چشم دید واقعات – طارق حبیب
کراچی کے حالات کس طرف جا رہے ہیں، اس کا اندازہ آپ ان چند چشم دید واقعات سے لگا سکتے ہیں۔
۔
۔پہلا واقعہ
۔یہ اکتوبر 2009ء کی بات ہے جب میں وہاں پہنچا تو اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اس سے سوالات جاری تھے۔ مجھے ساتھ لے جانے والے پولیس افسر نے کہا کہ اب اس کی انویسٹی گیشن سنو مگر یہ تمہاری آواز نہ سنے، بہت حرامی ہوتے ہیں یہ۔ میں ایک جانب بیٹھ کر سوال جواب سننے لگا۔ تحقیقات کرنے والے تینوں افسران معروف پولیس افسران تھے، اور کراچی کے دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہونے کا خصوصی ریکارڈ رکھتے تھے۔ اور محکمہ پولیس بھی ان افسران سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرانے کے بعد انھیں دہشت گردوں کا ہدف بننے سے بچانے کے لیے بلوچوں یا پٹھانوں کے علاقے میں تعینات کردیتا تھا۔ تفتیش کرنے والے یہ تینوں افسران ملزم کو ڈائیورٹ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو میجرصاب، کرنل صاب اور کیپٹن صاب کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔
یہ 9 اپریل 2008ء کو طاہر پلازہ میں وکلا کو زندہ جلانے کے سانحے میں گرفتار ہونے والے ملزم کی تحقیقات تھیں، جو عام طور لوگوں کے لیے ’’نامعلوم‘‘ ہوتے تھے۔ تفتیش کے دوران ملزم نے تفصیل بتائی۔
’’طاہر پلازہ کو کیمیکل کے ذریعے جلایا گیا ہے۔ کراچی میں یہ کیمیکل وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ منصوبے کے تحت کراچی کو سیکٹرز کی سطح پر تقسیم کیا گیا ہے اور ہر سیکٹر کی حدود میں موجود سرکاری اور نجی املاک کو مد نظر رکھتے ہوئے کیمیکل فراہم کیا گیا ہے۔ اس کیمیکل کو اسٹاک کرنے کے لیے مخصوص اسپاٹ بنائے گئے ہیں جہاں یہ کیمیکل ڈمپ کیا گیا ہے۔ میں صرف اپنے ایریا میں ڈمپ کیے گئے کیمکل اسپاٹ کے متعلق جانتا ہوں۔ (پولیس افسر نے بتایا کہ اس کی نشاندہی پر کیمیکل برآمد کرلیا گیا ہے)۔لڑکوں کو مختلف گروپس میں تقسیم کرکے کمانڈ بھی دی گئی ہے۔ ہمارے گروپ کو صرف عمارات کو راکھ کرنے کی ہدایات ہے۔ جب تحریک چلے گی تو سرکاری اور بڑی نجی عمارات ہمارا ہدف ہوں گی، اور عمارات کو نشانہ بنانے والی ہر سیکٹر کی ٹیم الگ ہوگی جو اپنے سیکٹر کی حدود میں کارروائی کرے گی، جبکہ شہر کی گلیوں میں سکیورٹی اداروں سے لڑنے والے گروپس الگ ہوں گے، اور ٹارگٹ کرکے مختلف اہم شخصیات کو ہدف بنانے والے گروپس الگ ہوںگے۔‘‘
میں نے روزنامہ جسارت، کراچی میں اس حوالے سے تفصیلی خبر فائل کردی ۔ کچھ دن بعد اس کی جے آئی ٹی بھی آگئی مگر حکومت کے دبائو پر میڈیا میں جاری نہیں ہونے دی گئی، جبکہ میڈیا بھی ان دنوں یرغمالی میڈیا تھا۔
۔
دوسرا واقعہ:
جامعہ کراچی کے سامنے بس پر کریکر حملے اور فائرنگ کرکے کئی طالب علموں کو شہید و زخمی کردیا گیا تھا۔ میں اس کیس کو مسلسل فالو کر رہا تھا۔ ایک دن ڈاکٹر پرویز محمود شہید جو ایسے معاملات پر خصوصی نظر رکھتے تھے، کی فون کال آئی اور کہا کہ فوری میرے پاس آئو۔ میں گیا تو انھوں نے کہا کہ ایک سرکاری افسر نے رابطہ کرکے بتایا ہے کہ جامعہ کراچی سانحہ کے حوالے سے ایک ملزم کو گرفتار کیا ہے، کچھ اہم انکشافات ہوئے ہیں، ان سے ملنے جانا ہے۔ پھر ہم ان افسر صاحب سے ملنے چلے گئے تو انھوں نے اس ملزم کی گرفتاری کی تفصیل کچھ یوں بتائی۔
’’تحقیقات اور انٹیلی جنس نیٹ ورک سے ہمیں اس حملے کو لیڈ کرنے والے اور ٹیم اراکین کا پتا نہیں لگ رہا تھا۔ بڑی مشکل سے اس سانحے میں ملوث ایک ٹیم کے ایک لڑکے کی تصویر ملی۔ (اس افسر نے وہ تصویر دکھائی تو وہ ایک لڑکے کی دور سے لی گئی تصویر تھی جس میں اس کا سائیڈ پوز تھا مگر واضح تھا اور وہ برگر ٹائپ لڑکا لگ رہا تھا)۔ کوئی اور لنک ہمیں نہیں مل رہا تھا۔ ہم مسلسل اس پر کام کرتے رہے تو ہمیں کڑیاں ملنی شروع ہوگئی۔ یہ لڑکا دائود انجینئرنگ یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور یونیورسٹی سمیت محلے یا کسی بھی دوسری جگہ اس کی کوئی منفی سرگرم نہیں تھی۔ یہ چیز ہمیں زیادہ پریشان کر رہی تھی کہ یہ ایک عام سا اسٹوڈنٹ ہے، شاید ہم غلط ٹپ پر کام کر رہے ہیں۔ اس لڑکے کے حوالے سے ہر اینگل سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ لڑکے نے ڈی جے کالج سے انٹر کرنے کے بعد دائود میں داخلہ لیا مگر اس دوران تین سال کا گیپ تھا اور لڑکے کا داخلہ بھی قواعد کے خلاف ہوا تھا۔ شاید ہم اس لڑکے کی فائل بند کر دیتے مگر یہ تین سال کا غائب ہونا ہمیں کھٹک رہا تھا۔ لڑکے کا باقی تمام ریکارڈ موجود تھا، بس کالج اور دائود کالج کے درمیان کا جو تین سال کا گیپ تھا وہ ہماری تحقیقات میں پورا نہیں ہو پارہا تھا۔ پھر بالآخر اسےگرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران لڑکے کی مسلسل مانیٹرنگ کی گئی مگر وہ کسی طرح کی منفی سرگرمی میں نظر نہ آیا۔ فون کالز بھی ریکارڈ کی گئی مگر کچھ نہ ملا۔ گرفتاری کے بعد جب بظاہر برگرٹائپ نظر آنے والے لڑکے سے تحقیقات آگے بڑھیں اور وہ مشکوک ہوا تو اس سے معلومات حاصل کرنےکے حربے استعمال کیے گئے مگر ایک بار ہمارے ’ماہرین‘ کو بھی دانتوں پسینہ آگیا۔ تحقیقات کے دوران اس نے انکشاف کیا کہ یہ کارروائی خصوصی تربیت یافتہ لڑکوں نے کی تھی۔ ایسے لڑکوں کی پوری ٹیم موجود ہے جو صرف لندن سیکرٹریٹ کے مخصوص افراد سے رابطے میں ہیں اور کراچی قیادت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس ٹیم کے افراد ایک دوسرے کو بھی نہیں جانتے۔ یہ لڑکے چھوٹے چھوٹے پیکٹس کی صورت میں کام کرتے ہیں اور ایک پیکٹ کا دوسرے پیکٹ سے رابطہ نہیں ہوتا۔ بہرحال اس لڑکے نے بتایا کہ انھیں خصوصی اہداف پر ہی کام کرنا ہوتا ہے، باقی کارروائیوں سے ان کا تعلق نہیں ہوتا۔ اس کی نشاندہی پر اس لڑکے کے پیکٹ کے دو مزید افراد گرفتار کیے گئے ہیں مگر ان کا سانحہ کراچی سے تعلق نہیں ہے۔ اور یہ لڑکا سانحہ ملوث ہونے کا اعتراف کر رہا ہے، مگر اسے دیگر لڑکوں کے حوالےسے علم نہیں ہے۔ ان لڑکوں کے ذمے ہائی پروفائل ٹارگٹس لگائے جاتے ہیں۔‘‘
۔
تیسرا واقعہ
2015ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے جنگجو کمانڈروں نے شہر میں اپنی نقل و حرکت چیک کرنے کی ایک ڈرل کی تھی۔ لندن میں الطاف حسین کی حراست کے معاملے پر اچانک احتجاج کی کال دی گئی اور ہر سیکٹر میں لڑکوں کو نکالنے کی ہدایت کی گئی۔ اس ڈرل کے حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیز کے اعداد و شمار کے مطابق 9 منٹ میں 7 ہزار مسلح لڑکے شہر کے مختلف اہم چوراہوں اور شاہراہوں پر نکلے تھے مگر کچھ دیر پر مبنی اس ڈرل کو ختم کردیا گیا تھا۔ ایک جانب تو متحدہ جنگجو اپنی پریکٹس کر رہے تھے اور دوسری جانب انٹیلی جنس ایجنسیز اعداد و شمار جمع کر رہیں تھیں۔
۔
دہشت گردوں کو کھلے میدانوں اور شہروں میں جنگ کی الگ الگ تربیت دی جاتی ہے۔ متحدہ جنگجو شہروں میں لڑائی اور خونریزی، اہم اہداف کو نشانے بنانا اور سرکاری املاک اور حساس تنصیبات کو ہدف بنانے کی خصوصی تربیت رکھتے ہیں۔ دیگر دہشت گردوں کے معاون بن کر سکیورٹی اداروں کے خلاف کارروائی میں مدد دینا، افرادی قوت کے بجائے صرف معلومات دیگر دہشت گردوں کو فراہم کرکے ان سے کارروائیاں کرانا (جس کی مثال متحدہ کے گرفتار دہشت گردوں کی جانب سے شیعہ اور سنی علماء کو شہید کرکے شیعہ سنی فساد کرانے کی صورت میں سامنے آچکی ہے)۔ یہ اس ان کی غیر ملکی تربیت کا نتیجہ ہے۔
۔
اب معاملہ یہ ہے کہ متحدہ جنگجو ابھی تک خاموش ہیں اور فائننل رائونڈ کی تیاری کررہی ہیں۔ یہ بات عسکری ادارے بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ الطاف حسین اپنی ملک مخالف تقریروں سے نفرت ابھارتے ہیں، پھر معافی مانگ کر عوام کو بتاتے ہیں کہ دیکھو یہ میری معافی بھی قبول نہیں کرتے، اور پھر اگلے دن ملک کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔ الطاف گرائونڈ تیار کر رہا ہے اور موجودہ صورتحال میں فاروق ستار کو کراچی میں سازگار ماحول فراہم کرنے کی ڈیوٹی دی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو متحدہ کے دفتر گرنا، تصویریں اترنا اور خواتین کا گرفتار ہونا، متحدہ کی منصوبہ بندی کے مطابق بالکل درست سمت میں جارہا ہے۔
۔
میرے خیال میں متحدہ بڑی چالاکی سے آخری رائونڈ کی تیاری کر رہی ہے۔ -
ترکی میں فوجی بغاوت کیوں ناکام ہوئی؟ طارق حبیب
ترکی میں صدر اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ترک عوام نے ناکام بنا کر دنیا کو حیران کردیا ہے۔ حیرانی تجزیوں میں ڈھل کر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی. ناکام فوجی بغاوت کے حوالے سے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر بحث شروع جاری ہے اور اس حوالےسے جتنے منہ اتنی باتیں سامنے آ رہی ہیں. اس بات پر بحث ہونے لگی ہے کہ اگر پاکستان میں ایسی کوشش ہوتی ہے تو عوامی ردعمل کیا ہوگا؟ حالانکہ پاکستان سے موازنہ کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جنھوں نے ترک عوام کو رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر آکر فوجی بغاوت کو کچلنے پر آمادہ کیا۔ آئیے ذرا چند نکات میں ان وجوہات پر غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سینئر صحافی عارف الحق عارف صاحب نے فیس بک پر اپنے ایک اسٹیٹس میں ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہونے کی وجوہات کا ذکر کیا۔ چند وجوہات پر غور کرلیا جائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ترک قوم اپنے لیڈر کے لیے دیوانہ وار باغیوں کے ٹینکوں سے سامنے دیوار کیوں بن گئے تھے۔
ترکی میں جب طیب اردگان نے حکومت سنبھالی تو 2002 سے 2012 کے درمیان ترکی کےجی ڈی پی میں 64 فیصد اضافہ ہوا. انفرادی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح میں 43 فیصد اضافہ ہوا. اس ترقی نے نہ صرف ترک عوام بلکہ عالمی سطح پر اردگان کی پسندیدگی میں اضافہ کیا۔
اردگان کے 2002 میں اقتدار سنبھالتے وقت ترکی کو بھی آئی ایم ایف نے اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا اور ترکی 5۔23 بلین ڈالر کا مقروض تھا۔ اردگان نے حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کی سازشوں میں نہ آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مزید قرضہ لینے سے انکار کر دیا اور پرانا قرضہ ادا کرنا شروع کردیا۔ 2012 میں یہ قرضہ صرف 9۔0 بلین ڈالر رہ گیا تھا، جس کی ادائیگی کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے ترکی کے قرضہ ادا کردینے کا اعلان کردیا گیا۔ اور اسی سال طیب اردوغان نے اعلان کیا کہ اگر آئی ایم ایف کو قرضہ درکار ہو تو وہ ترکی سے رجوع کرسکتا ہے۔
2002 میں ترکش سینٹرل بینک کے پاس زرمبادلہ کے زخائر 5۔26 ملین ڈالر تھے جو 2011 میں بڑھ کر 2۔92 بلین ڈالر ہوچکے تھے اور ان میں کامیاب اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
طیب اردگان کے حکومت سنبھالنے کے بعد صرف ایک سال میں ہی مہنگائی میں 23 فیصد کمی ہوئی جس سے ترک عوام کو براہ راست فائدہ ہوا۔
2002 میں ترکی میں ہوائی اڈوں کی تعداد میں 26 تھی جو اب بڑھ کر 50 ہوچکی ہے۔
2002 سے 2011 کے درمیان ترکی میں 13500 کلومیٹر طویل ایکسپریس وے تعمیر کی گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر کے ٹھیکے اپنے رشتہ داروں یا پارٹی رہنمائوں کو دینے کے بجائے میرٹ پر بین الاقوامی سطح کے اچھی شہرت کے حامل اداروں کو دیے گئے۔
ترکی کی تاریخ میں پہلی بار تیز ترین ریلوے ٹریک بچھایا گیا اور 2009 میں تیز ترین ٹرین ترکی میں متعارف کرائی گئی۔ عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے ان 8 سالوں کے دوران تیز رفتار ٹرین کے لیے 1076 کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا گیا جبکہ 5449 کلومیٹر طویل ٹریک کی مرمت کر کے اسے تیز ترین ٹرین کے معیار کے مطابق بنایا گیا۔
اردگان نے عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے شعبہ صحت میں بڑے پیمانے پر کام کیا۔ گرین کارڈ پروگرام متعارف کرایا گیا جس کے تحت غریب افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کی گئیں۔
صحت کی طرح تعلیم کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور تعلیم کا بجٹ 2002 میں 5۔7 بلین لیرا سے بڑھانا شروع کیا اور 2011 میں 34 بلین لیرا تک پہنچا دیا۔ قومی بجٹ کا بڑا حصہ وزارت تعلیم کو دیا گیا اور قومی جامعات کا بجٹ ڈبل کردیا گیا۔ اسی طرح 2002 میں ترکی میں جامعات کی تعداد 86 تھیں۔ اردگان حکومت نے ملک میں جامعات کا جال بچھایا اور 2012 تک ترکی میں 186 معیاری جامعات تدریس کا عمل جاری رکھے ہوئے تھیں۔
ترکی معیشت میں بہتری و ترقی کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1996 میں ایک ڈالر ، 222 لیرا کا تھا جبکہ اردگان حکومت کی کامیاب اقتصادی پالیسیوں کے بعد آج ایک ڈالر 94۔2 لیرا کا ہے -
ترکی میں ناکام بغاوت، مغربی میڈیا میں صف ماتم – طارق حبیب
ترکی میں فوجی بغاوت کے آغاز پر خوشیوں کے شادیانے بجانے والے مغربی میڈیا پر اس وقت صف ماتم بچھی ہوئی ہے
۔
جیسے ہی فوجی بغاوت شروع ہوئی تو مغربی میڈیا کی باچھیں پھٹی جارہی تھیں. فاکس نیوز کے نیوز اینکر نے اقوام متحدہ کے لیے امریکی سابق سفیرجان بولٹن سے سوال کیا کہ فوجی بغاوت کے کیا اثرات ہوں گے تو موصوف نے اس بغاوت کے فوائد گنوائے اور کہا کہ اگر بغاوت ناکام ہوگئی تو بہت خون ریزی ہوگی. فاکس نیوز کو بغاوت کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ امریکی و ترکی کی فوج کے درمیان “مثالی تعاون” پر ایک ڈیبیٹ بھی کرادی. فاکس نیوز کے فوجی ماہر چیک نیش نے تبصرے میں ترک فوج کی مہارت کو بیان کرتے ہوئے زمین آسمان ایک کردیے.
۔
اس موقع پر سی این این، بی بی سی، اسکائی نیوز ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے چکر میں تھے. ترک باغی فوجیوں کی ہمت بڑھائی جارہی تھی. ترک صدر ادرگان کو دہشت گردوں کا ہمدرد و مددگار ثابت کیا جارہا تھا. اسکائی نیوز کا رپورٹر کہتا ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم کو دہشت گردوں کی حمایت پر مبنی پالیسی پر ردعمل کا سامنا ہے اور امید ہے کہ فوجی اس حکومت کو نکال باہر کریں گے.
۔
جان کیری کو بھی امید تھی کہ فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں امن استحکام کا تسلسل ہوگا.
۔
پھر منظر بدلتا ہے ۔۔۔ سڑکوں پر عوام کا ہجوم ۔۔۔ مغربی میڈیا کی امیدوں کا مرکز ۔۔۔ فوجی بغاوت ناکام ہونا شروع ہوئی ۔۔۔ ترک عوام نے تاریخ رقم کی ۔۔۔ فضا یااللہ بسم اللہ ، اللہ اکبر کی صدائوں سے گونجنے لگی ۔۔۔ دیوانوں نے ایسی تاریخ رقم کی جس کی ماضی میں مثال کم ہی ملتی ہے ۔۔۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے آثار نظر آئے تو مغربی میڈیا کے اینکرز کی باچھیں اپنی جگہ واپس آتے آتے مزید سکڑ گئیں جبکہ ترک عوام کی مزاحمت دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔۔ امریکہ بھی پہلے بیان کے بعد پلٹی مار کر ترک جمہوری حکومت کے ساتھ ہوگیا ۔۔۔ پھر سارا دن ترکی کی جمہوری حکومت کو مبارکباد دیتے گزرا
۔
بظاہر تو بغض نکالنے کا ذریعہ نہ رہا ۔۔۔ مگر ۔۔۔ پھر جب باغی ترک فوجی پناہ کے لیے اپنے آقائوں کے پاس پہنچنا شروع ہوئے تو ۔۔۔ پھر مغربی میڈیا کی “انسانی حقوق” کی رگ پھڑکی ۔۔۔ اور سینکڑوں عام شہریوں کو شہید کرنے والے ان باغی فوجیوں کو مظلوم ظاہر کرنا شروع کردیا ۔۔۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہوکر ترکی سے یونان پہنچنے والے بغاوت کے ذمہ دار 8 فوجی افسران کے حقوق یاد آگئے ۔۔۔ ترک عوام کی جانب سے فوجیوں کو جوتے، بیلٹ یا تھپڑ مارنا اسی میڈیا کے نزدیک عوام پر فائرنگ ، ٹینک چڑھانے اور شیلنگ کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ٹھہرا ۔۔۔ مفرور فوجی افسران کی مظلومیت کا رونا رویا ہی جارہا تھا کہ اچانک وہی آواز گونجی جس سے اب ۔۔۔ باغیوں اور ان کے آقائوں کی گھگھی بندھ جاتی ہے ۔۔۔ طیب اردگان نے کہا کہ
یونان فوری طور پر بغاوت کے ذمہ داران 8 فوجی افسران کو ہمارے حوالے کرے. یہ ترکی کے مجرم ہیں.
۔
اس وقت سے اب تک مغربی میڈیا پر صف ماتم بچھی ہوئی ہے