Author: زبیر منصوری

  • یارب تیرے بندے ان ”شریف حکمرانوں“ سے کیسے نجات پائیں؟ زبیر منصوری

    یارب تیرے بندے ان ”شریف حکمرانوں“ سے کیسے نجات پائیں؟ زبیر منصوری

    زبیر منصوری

    اے اللہ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا تو اپنے رحم سے ہماری سزا معاف نہیں کر سکتا؟
    اے اللہ کیا ہماری جان ان ”شریفوں“ سے کسی طرح چھوٹ نہیں سکتی؟
    اے اللہ ہم کن ظالموں کے اقتدار میں رہ رہے ہیں جو ہماری عورتوں کو سر بازار رسوا کرتے ہیں.
    اے اللہ جو سیاسی مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں.
    اے اللہ جن کے لیے انسان کی حثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں.
    ظالم شہباز شریف اور مستقبل کے بےرحم حاکم حمزہ شہباز! یہ عورت کیا تمہاری رعایا نہیں؟ کیا یہ تمہیں کہیں سے کلثوم اور مریم نواز نہیں لگتی؟ کیا اس کی بار بار سر سے اترتی چادر تمہاری حمیت کو کوئی کچوکا نہیں لگاتی؟
    تمہارے تنخواہ دار بوٹ پالشیے اور مالشیے کہیں گے کہ اس نے قانوں ہاتھ میں لیا ہے، قانون کو پتھر مارا ہے مگر مجھے بتاؤ کہ کیا یہ قانون واقعی سنگسار کر دیے جانے کے قابل نہیں؟ معاشرے کی بےبس عورت کیا کرے؟ کیا تم نے اپنے دہائیوں کے اقتدار میں اس کے لیے سستے اور آسان انصاف کا کوئی دروازہ بنایا ہے؟
    تم جمہوری حاکموں سے تو وہ بادشاہ اچھے تھے جنہوں نے اپنے دروازوں پر زنجیر عدل لٹکا رکھی تھی، تم نے تو وہ کتے باندھ رکھے ہیں جو کسی کو تمہارے قریب نہیں پھٹکنے دیتے، اسی لیے تم موت کے خوف سے سات پہروں میں بھی سکون سے محروم ہو۔
    کوئی بتائے کہ آخر معاشرے کی مظلوم بے بس عورت جائے کہاں؟
    ظالمو! ایسے لوگوں کو تو قرآن بھی تلخ نوائی کا حق دیتا ہے تم وہ بھی چھین لینا چاہتے ہو؟
    فرض کرو اس عورت کا رویہ غلط تھا، فرض کرو یہ جھوٹ بول رہی تھی۔
    تو کیا پھر یہ اس سلوک کی حق دار تھی؟
    کیا اس کا ”حق“ اسے گھر کی دہلیز پر دیا گیا تھا کہ اس سے اس کے ”فرض“ پورا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا؟
    کیا اگر یہ غصہ میں شاہدرہ چوکی آن پہنچی تھی تو کوئی اسے نرمی سے سمجھانے والا نہیں تھا؟
    کوئی اس کی بات سن کر اس کے دکھ کا مداوا کرنے والا نہیں تھا؟
    سڑکیں اور پل تعمیر کرنے کو ترقی سمجھنے والو انسانوں کے رویوں کی تعمیر اصل ترقی ہے۔
    خدا کے لیے بھارت اور چین کے اسٹریٹجک ایجنڈوں میں رنگ بھرنے سے پہلے اپنے پیارے لوگوں کے کردار میں رنگ بھرنے کے منصوبے بناؤ ورنہ سڑکیں اور راستے بھی بن جائیں گے، ٹرینیں اور پٹڑیاں بھی آباد ہو جائیں گی مگر انسانوں کے کردار اور اخلاق برباد ہو چکے ہوں گے۔
    خاتون پر پولیس تشدد کی ویڈیو

    https://www.youtube.com/watch?v=2nCHuATFY1k

  • یہ سراج الحق اب اور کیا کرے؟ زبیر منصوری

    یہ سراج الحق اب اور کیا کرے؟ زبیر منصوری

    زبیر منصوری ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
    ان کے ہونٹوں کی خاموشی بھی سند ہوتی ہے

    سراج الحق کرپشن کو ہدف بنائے،
    اس کے لیے اس وقت منصوبہ بندی کرے جب کسی کے وہم و گمان میں نہ ہو،
    اپنے سالانہ تنظیمی منصوبہ عمل میں کرپشن پر مہم کو شامل کرے، سال بھر کیا، کرپشن کے خاتمے تک کےلیے تحریک کی جزئیات طے کرے اور پھر اپنی پوری تنظیم کو اس کے حصول پر لگا دے،
    سراج الحق کرپشن فری پاکستان کےلیے ٹرین مارچ کرے، جلسے جلوس اور سیمینار کرے،
    سراج الحق کرپشن مکاؤ پاکستان بچاؤ کا اعلان کرے، سڑکوں پر اس کےلیے مارچ کرے،
    سراج الحق خود امانت و دیانت کا نمونہ ہو، اسے بہترین فنانشل مینجمنٹ اور ایمانداری کے ایوارڈ ملیں،
    اس کے کارکن وزراء کرپشن سے دور رہیں، دوسری جماعت کے سربراہوں سے ستائش اور شاباش پائیں،
    وہ کرک میں کرپشن پر ضرب لگائے یا کراچی میں اس کے خلاف اعلان جہاد کرے،
    وہ کرپشن کے ناسور کے خلاف دھرنے دے یا بار رومز میں جا کر چیخے اور چلائے،
    وہ کرپشن کے خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ جائے یا کالی پٹیاں باندھے،
    اس کی ساری دلیلیں رد ہوں اور کوئی ابھی ہونٹ بھی نہ کھولے تو خبر پہلے بن جائے؟
    کوئی اپنے دائیں بائیں کرپٹ لوگوں اور ضمیر فروشوں کو لے کر کھڑا ہو جائے تو کوئی اسے متوجہ کرنے کو بھی گناہ سمجھے،
    تمہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
    میڈیا اپنا اعتبار کھو رہا ہے، ڈیٹا بتا رہا ہے کہ آنے والی نسل ٹی وی سے سوشل میڈیا کی طرف منتقل ہو رہی ہے، الیکٹرونک سے ڈیجیٹل کی طرف رجوع بڑھتا جا رہا ہے،
    پھر تیرا کیا بنے گا میڈیا؟
    یاد رکھنا میڈیا گرد کا طوفان اٹھا کر زیادہ لوگوں کو کچھ دیر تک دھوکہ تو دے سکتا ہے اور کچھ لوگوں کو زیادہ دیر تک بھی دھوکہ میں رکھ سکتا ہے مگر وہ زیادہ لوگوں کو زیادہ عرصہ تک دھوکے میں نہیں رکھ سکتا.
    حال کا لکھنے والا چاہے جو بھی لکھے، وقت کا بے رحم مورخ جب سچ لکھے گا تو وہ سراج الحق کو دیانتداری کا پیمانہ قرار دے گا، وہ سراج الحق کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں.
    وہ لکھے گا کہ جب سراج الحق اور ایک سراج صاحب پر ہی کیا موقوف ہزاروں دیانتداروں پر مشتمل ایک گروہ موجود تھا، اس وقت اس بد نصیب قوم نے اپنے لیے شریفوں زرداریوں اور ترینوں کا انتخاب کیا تھا.
    مؤرخ کے ہاتھ اس وقت کپکپا جائیں گے اور اس کی آنکھیں بھیگ جائیں گی، جب وہ دریافت کرے گا کہ سراج الحق کی ٹیم میں وہ نعمت اللہ خان بھی موجود تھا جس نے ساری نظامت کے اختتام پر ایک چیک کاٹ کر ساری تنخواہ صدقہ کر دی تھی اور ایسے دامن جھاڑ کر گھر چلا گیا تھا جیسے منصب و اختیار اور مال و اسباب نہ ہوں کوئی بلا ہو،
    مؤرخ اس عنایت اللہ خان کو بھلا کیسے بھولے گا جسے اس کی ایمانداری پر اس کا وزیراعلی ہر اہم اصلاحاتی کمیٹی کا سربراہ بنا کر مطمئن ہو جاتا تھا، جس کی سربراہی میں پولیس، احتساب، بلدیات اور اس جیسے دیگر کئی اصلاحات تجویز اور عمل سے ہمکنار ہوتی تھیں، اور اس کا نام کیا لینا، اس کے کام پر دوسرے اپنی مہر لگا دیتے تھے مگر وہ پھر بھی خدمت کےلیے ہر دم مستعد رہتا تھا.
    میری دعا ہے کہ سراج الحق میرا امیر میرا قائد میرا ہمدرد و غمخوار قائد اپنی بے نیازی پر قائم رہتے ہوئے اپنی پارٹی کے غیر معمولی کردار کا پرچارک کر سکے۔
    کیونکہ سب کو اپنا ڈھول خود پیٹنا ہوگا کوئی کسی کا ڈھول نہیں پیٹے گا.

  • طیب اردگان سے قوم کیوں چیونٹیوں کی طرح چمٹ گئی؟ زبیر منصوری

    طیب اردگان سے قوم کیوں چیونٹیوں کی طرح چمٹ گئی؟ زبیر منصوری

    11 راز کی باتیں، جو کوئی ایسے راز بھی نہیں ہیں۔

    (1) ٹھوس عملی کام، اور اس کو پارٹی کے لیے استعمال کا کرنے کا ٹھیک، خوب سوچا سمجھا مؤثر طریقہ، انتخابی نظام کی تفصیلی تفہیم، اور اس کے گرد دوسروں سے بہتر پلان۔
    (2) مسلسل پلان اے، بی، سی موجود اور عملدرآمد کے لیے تیار (جب پابندی لگی، نئے نام سے کام کے آغاز کا منصوبہ پہلے موجود تھا)۔
    (3) کیموفلاج کام، نعرے نہیں بلکہ کام (بدترین دشمن فوج، خدا بیزار عدلیہ، سکولر عوام، منکر خدا آئین کی موجودگی میں اپنے اصل اہداف کو تا دیر کیمو فلاج کر کے وقت آنے پر بتدریج حکیمانہ اظہار)۔
    (4) قوت بن جانے تک دوسری جماعتون کو چیلنج کیے بغیر اپنا پازیٹو کام، غیر ضروری محاذ کھولنے اور چیلنج کرنے سےگریز، اپنے کام، ماضی، اور خدمت پر فوکس اور برداشت۔
    (5) نوجوانوں کے لیے نعرے نہیں ٹھوس کام اور منصوبے، مثلا دیہات سے نئے آنے والے نوجوانوں کو ٹھکانہ، تربیت، زبان ، آداب ، اسکلز سکھانے کے سینٹرز کا قیام۔
    (6) معاشرے کے سارے طبقات کو کشادہ دلی سے ساتھ لے کر چلنا (اردگان کی فتح پر ساحل کے ایک کونے پر جینز اور اسکرٹ پہنے لڑکے لڑکیاں اکسٹرا پر میوزک بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ ہمارا اردگان جیت گیا اور دوسری طرف نماز شکرانہ پڑھنے والے نوجوان بھی تھے اور اردگان ان کے ساتھ تھا)۔
    (7) مقامی لیڈر شپ (دوکاندار کی طرح کے لوگ جو ہر وقت آبادی کے درمیان موجود اور منظم خدمت کے لیے دستیاب)۔
    (8) ایشوز کی سیاست (اگر علاج، تعلیم، اور روزگار چاہیے تو یہ ہمارا ماضی ہے، ہمیں ووٹ دیجیے، باقی آپ جو بھی ہیں، ہمیں اس سے غرض نہیں، یعنی قوم کی اکثریت کو نظریاتی بنانے کے بجائے بس اپنی پشت پر لانے کی پلاننگ)۔
    (9) ایک ایک کر کے دشمنوں کو سنگل آؤٹ کرنا، تب تک ان کا ظلم برداشت کرن، (گویا ہوم گراؤنڈ پر لا کر ان سے چھٹکارا پانا یا ان کو غیر مؤثر کرنا)۔
    (10) مقصد نظریہ ہے، حکمت عملی کوئی بھی ہو سکتی ہے، (جب سمجھا کہ نظریہ کی راہ میں اپنی پرانی قیادت رکاوٹ ہے، بولڈ فیصلہ کیا اور ایک مخالفانہ جملہ کہے، گندگی اچھالے بغیر اللہ کے لیے استاد کو چھوڑ دیا، (اردگان کے کسی بھی فیصلے سے اختلاف ممکن ہے۔)
    (11) اہم ساتھیوں نے اردگان کی خامیون سے صرف نظر کیا، تلخ مزاجی، سخت گیری، بیٹوں پر کرپشن کے الزام، سب کے باوجود ساتھ چلے، ساتھ رہے۔

    گویا ایک لمبے، سوچے سمجھے، منصوبے پر مستقل مزاجی سے نتیجہ خیز ہونے تک عملدرآمد۔
    کوئی چاہے تو سیکھنے کو بہت کچھ ہے مگر اس کے کے لیے وقت چاہیے۔ ہے نا؟
    بات سمجھ میں آئے تو آگے بڑھائیں، ورنہ آگے بڑھ جائیں۔

  • عمران خان آج بھی امید بن سکتا ہے – زبیر منصوری

    عمران خان آج بھی امید بن سکتا ہے – زبیر منصوری

    زبیر منصوری عمران خان آج بھی ویسا ہی جی دار ہے،
    آج بھی امید بن سکتا ہے!
    اگر
    وہ سخت گیری، جلد بازی اور ذاتی انا کی بنیاد پر فیصلے کرنا چھوڑ دے،
    وہ جان لے کہ سیاست ساتھ لے کر چلنے کے فن کا نام ہے،
    بند گلی کے سفر کا نام نہیں،
    وہ اپنے اردگرد نظر ڈالے اور ایسے لوگ جمع کرے جو اس کی طرح ایماندار ہوں،
    وہ اپنے قیمتی اثاثے اپنی ٹیم کو سیلابی پانی کی طرح ”برباد“ نہیں دریائی پانی کی طرح ”آباد“ کرنے والا بنانے کے لیے تربیت اور ٹریننگ کا سسٹم بنائے،
    وہ پلاننگ اور دور رس منصوبہ بنائے،
    وہ محض حکمران بننے کے بجائے قائد بننے کے راستے پر چلے،
    وہ خیبرپختونخوا کو خوابوں کا نگر بنا کر دکھا دے،
    وہ عوامی قوت کو اسٹیبلشمنٹ سے نجات کے لیے استعمال کرے نہ کہ انگلی کے اشاروں کا منتظر رہے۔

    میرے عزیز عمران!
    دیکھو! لاکھوں لوگ اب مایوسی کے سیلاب میں ڈوبے تو تمہاری دنیا اور آخرت کو بھی لے ڈوبیں گے۔
    خدا کے لیے ان کی معصوم امیدوں کو اپنی غیر ضروری جرات اور بڑھک بازی سے ضائع نہ کرو،
    خوب سمجھ لو کہ بہادری اور بےوقوفی میں باریک سی لائن ہوتی ہے۔
    دیکھو! برسوں بعد پٹواریوں اور زرداریوں کے علمبرداروں سے مایوس قوم کا عام آدمی تمہاری طرف متوجہ ہوا ہے اور تم؟
    کریز چھوڑ کر ایمپائر کلب کی طرف دیکھنے لگ گئے؟
    کاش تمہیں کوئی قاضی بابا جیسا شفیق اور مخلص سرپرست میسر رہتا،
    کاش تم کسی کی سنتے اور مانتے،
    یا پھر کاش کچھ بھلے لوگوں کے پاس تمہیں پارٹی وسائل فراہم کرنے اور ہیلی کاپٹر پر سفر کرانے کے اسباب ہوتے۔
    عمران لوٹ آؤ!
    یہ آخری اوور ہے!
    کہتے ہیں کہ عقلمند وہ ہے جو دوسروں کے تجربے سے سیکھ لے،
    تم اپنے تجربوں سے ہی سیکھ لو تو عقلمند تو کہلاؤ گے، کامیابی بھی تمھارے قدم چومے گی۔

  • سوشل میڈیا گروپس کے چھتے اور بلاگز کے پتھر – زبیر منصوری

    سوشل میڈیا گروپس کے چھتے اور بلاگز کے پتھر – زبیر منصوری

    زبیر منصوری
    یاد رکھیے!
    اکثر زندگی میں آپ مجموعی طور پر اسی نوے فیصد درست ہوتے ہیں مگر لوگ یا آپ خود اپنی دس بیس فیصد خامیوں کو اتنا بڑھا چڑھا کر، ان کی گارنشنگ Garnishing کر کےان کو اتنا بڑا بنا دیتے ہیں کہ آپ کو لگتا ہے آپ بس برائیوں ہی کا مجموعہ ہیں۔ یہ خامی انسان سے کچھ کر گزرنے کا حوصلہ، ہمت، جذبہ چھین لیتی ہے اور اسے ایک بےمصرف چیز بنا دیتی ہے۔

    توازن میرے پیارو توازن!
    اللہ نے ہمیں بڑے کاموں کے لیے پیدا کیا ہے اور اس میں خود احتسابی نہایت ضروری ہے مگر اتنی ہی کہ جتنی سالن میں نمک۔
    اور ہاں!
    ضروری نہیں آپ کا کڑا احتساب کرنے والا آپ کا مخلص اور خیر خواہ ہی ہو، بس آپ کی اصلاح ہی چاہتا ہو، وہ کسی ویب سائٹ کا مالک بھی ہو سکتا ہے، لائیکس اور ویوز سے اس کی روزی روٹی بھی وابستہ ہو سکتی ہے، بےچارے کو اپنی نئی نویلی ویب سائٹ کے ”تقاضے“ بھی پورے کرنے ہوتے ہیں اور یہ تو آپ کو پتہ ہی ہے سوشل میڈیا پر عمران خان، جماعت اسلامی، متحدہ، نون لیگ یا کچھ چھوٹے موٹے دین دار گروپ ایکٹو ہیں، اس لیے آپ ان میں سے کسی کے ”چھتے“ میں بلاگ کا ”پتھر“ مار دیں اور جی بھر کے ویوز سمیٹ لیں وہ کیا کہتے ہیں کہ
    ”ہینگ لگے نہ پھٹکری۔“
    اور ہاں اللہ نے ہر ایک کے حصہ کے بےوقوف پیدا جو کیے ہیں ،
    اب آپ اور میں سوچ لیں کہ ہم کس کے حصے کے ہیں؟
    کیا کہا نہیں بننا بے وقوف؟
    تو بس پھر ایسوں ویسوں کو توجہ دینا ذراچھوڑ دو پھر دیکھو۔
    ہاں مگر مخلص، معتدل، دیانتداراور اللہ و رسول کے وفادار لکھاریوں کوضرور پڑھو۔
    کہتے ہیں دشمن پر نہیں، اس کی نفسیات پر حملہ کرو۔
    تھوڑے لکھے کو بہت جانو۔

  • خوش آمدید طلبہ مدارس : زبیر منصوری

    خوش آمدید طلبہ مدارس : زبیر منصوری

    زبیر منصوری خوش آمدید ۔ مگرذرا سنبھل کر!

    صاف ستھرا روشن سا چہرہ
    اس پر سجی داڑھی
    سر پر جالی کی سادہ سی ٹوپی یا کوئی عمامہ
    عموما سفید کرتہ اور ٹخنوں سے آوپر تک کی شلوار
    کندھے پر ایک بڑا سا رمال رکھے
    پاوں میں چپل یا سینڈل پہنے
    کسی نوجوان کو دیکھتے ہی پہلا خیال کیا آتا ہے؟
    مدرسہ کا طالب علم ہے
    درست!
    اور دوسرا ،تیسرا ،چوتھا اور پانچواں خیال؟
    سچ بتائیں؟
    پرانے زمانہ کا نوجوان
    دقیا نوسی خیالات
    سخت مزاج
    ہر بات پر کفر اور اسلام کے فتوے دیتا
    اپنے علاوہ باقی سب کو کمتر مسلمان سمجھنے والا
    زمانہ سے دور
    وغیرہ وغیرہ
    ممکن ہے آپ کی باتوں میں وزن بھی ہو مگر خاطر جمع رکھیں اب جلد صورتحال بدلنے جا رہی ہے
    ٹی وی تو نہیں مگر موبائل اور انٹر نیٹ نے آس “پرانے زمانے کےنوجوان” کو تیزی سے وقت کے قریب کر دیا ہے اور اس میں ایک بڑا کردار جامعہ الرشید، دار العلوم کورنگی،جامعہ منصورہ سندہ ،جامعہ امجدیہ ،جامعہ بنوریہ اور ایسے ہی دیگر اداروں نے بھی انجام دیا ہے
    اب مدارس میں تیزی سے ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو آنے والے کل میں سے اپنا پورا حصہ وصول کرنا چاہتی ہے یہ لوگ جان گئے ہیں کہ مقابلہ کی اس دنیا میں خود کو انگریزی اور دیگرزبانوں سے مسلح کرنا کتنا ضروری ہے ؟یہ اب نیٹ استعمال کرتے اور واٹس ایپ کے گروپ بناتے ہیں، فیس بک پر ایکٹو ہیں اور ٹوئیٹر کو جاننے لگے ہیں یہ اب نعمان علی خان کی انگریزی تقریریں سنتے ہیں اور ویسا بننے کے ڈرے ڈرے سہی مگر خواب دیکھنے لگے ہیں
    یہ ذاکر نائک کو سنتے اور پسند کرتے ہیں یو ٹیوب اور دیگر سائیٹس نے دنیا کو ان کی انگلیوں کے اشاروں پر کیا پہنچایا یہ اب ان میدانوں میں جیتنے کے جذبوں سے سرشار ہوتے جاتے ہیں۔
    ان کے ذہن کھل رہے ہیں اساتذہ کا احترام اب بھی لازم مگر اب یہ سوال بھی کرنے لگے ہیں اور اختلاف بھی
    کئی تو آپ کو پرائویٹ یونی ورسٹیون مین ایم فل اور پی ایچ ڈی کرتے ملیں گے
    ان کی وضع قطع پر نہ جائیں یہ اندر سے تبدیلی قبول کر رہے ہیں اور کریں بھی کیا؟ تبدیلی کائنات کی بڑی بڑی حقیقتوں میں سے ایک ہے اسے قبول کئے بغیر چارہ بھی تو نہیں ہے نا!
    یہ اب وژن اور ٹائم منیجمنٹ کی ورکشاپس بھی اٹینڈ کرتے ہیں اورمسقبل کے خواب بھی دیکھتے ہیں

    کالجز اور یونی ورسٹیز کے نوجوانو ہوشیار!
    مد مقابل محنتی بھی ہے اور فوکسڈ بھی مستقل مزاج بھی ہے اور سیدھے دماغ کا بھی اور ہر طرح کے حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، اگلے برسوں میں مقابلہ سخت بھی ہو سکتا ہے اور مشکل بھی ۔۔۔

    خوش آمدید طلبہ مدارس عربیہ
    خوش امدید۔۔
    بس یہ سوچ لیجئیے گا تنگ ذہنی کو وہیں اپنے دار الاقامہ کی کسی کھونٹی سے ٹانگ کر آئیے گا،سخت تلخ اور دین کے خلاف کسی کھلی بات کو برداشت کرنے کا حوصلہ ،سننے اور سامنے والے کی سمجھ، اصطلاحات ،سوچ اور زبان میں جواب دینے کا سلیقہ سیکھ کر آئیے گا اور ہاں یہ سلیقہ شاید درسگاہ سے نہ ملے شاید کسی ذاکر نائیک سے مل جائے۔۔۔۔
    اساتذہ کا احترام اپنے دل میں ضرور رکھئیے گا مگر اسے دوسروں کے دل و دماغ میں بالجبر اتارنے کی کوشش میں مت لگ جائیے گا
    اپنے مسلک کو ہرگز مت چھوڑئیے گا مگر دوسرے کے مسلک کو بھی ہرگز مت چھیڑئیے گا
    مطالعہ کفر کا بھی کھلے ذہن سےکرنا سیکھیں اور متاثر اپنے مسلک کی غلط بات سے بھی نہ ہوں
    دیکھئیے گا یہ دنیا آپ کا “مدرسہ ” تو ہے نہیں یہاں تو کفر غالب ہے اور مقابلہ “برف کے دماغ “سے دیر تک اور دووووور تک منصوبہ بندی کر کے کرنا ہے ۔۔
    آخر ی بات!
    دل ،دماغ اور بازو کشادہ کر کے آئے تو چھا جاؤ گے
    ورنہ جہاں سے آئے ہو وہیں لوٹا دیے جاؤ گے۔

  • تیرے حسین نے خون کی سرخ پوشاک پہن لی ہے – زبیر منصوری

    تیرے حسین نے خون کی سرخ پوشاک پہن لی ہے – زبیر منصوری

    زبیر منصوری ’’پیارے نانا.
    آپ پر اللہ اور اس کے فرشتوں نے درود بھیجا، دیکھوتو ذرا یہ کیا ہوگیا ہے؟
    ذرا اپنے حسینؓ کو دیکھو جس کا سر کٹ چکا ہے۔
    اے میرے پیارے ناناﷺ
    حسینؓ کے لاشے پر گھوڑے دوڑائے گئے ہیں، پوراجسم خون کی سرخ پوشاک پہن چکا ہے.
    معصوم بچوں کی لاشیں کٹی پڑی ہیں۔
    اے میرے پیارے ناناﷺ
    آج تیری بیٹیاں قیدی بنالی گئی ہیں.‘‘

    حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے الفاظ آسمان کو چیر کر عرش الہی تک پہنچ رہے تھے، کائنات کا ذرہ ذرہ رو رہا تھا یہاں تک کہ یہ سن کر خودسنگ دل قاتلان حسین رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے ،کربلا کی زمین شہیدوں کے خون سے سیراب کرکے ظالموں کا لشکر سروں کو نیزوں پر چڑھائے اور پاک بیبیوںؓ کو قیدی بنائے روانہ ہوچکا تھا۔

    ابھی کچھ ہی دیر قبل جمعہ کے بابرکت دن ان پاک باز ہستیوںؓ نے اس زمین کو اپنے لہو سے سینچا تھا، 32 گھڑ سوار اور 40 پیادوں کا یہ لشکر جن میں 23 اہل بیت اور ان میں سے بھی 16 آل رسول (باختلاف روایت) یہاں اپنے نانا ﷺ کے دین کی شہادت دے چکے تھے۔ اسلامی سال کے آغاز پر اس دن کا انتخاب بھی اللہ کی غیرمعمولی مشیت کے سبب ہی تو تھا، تا کہ اسلامی سال کا آغاز آل رسولﷺ کی مظلومانہ قربانی سے ہو اور پھر قیامت تک کے لیے یہ ہر سال کا آغاز کا عنوان بن جائے، حسین رضی اللہ عنہ کے چاہنے والوں کے لیے انھی کے نام سے منسوب ہو کر رہ جائے۔

    وہ حسین کہ جن کی پیدائش کے وقت جب ان کی امی جان حضرت فاطمتہ الزہراؓ نے ان کا نام حرب (بہادر، جنگجو) رکھنا چاہا تو نبی مہربان ﷺ نے خود بدل کر حسین رکھا اور فرمایا کہ یہ نام آج تک تاریخ میں کبھی نہیں رکھا گیا، اللہ نے یہ نام چھپا کر رکھا تھا اور اب حسین کے لیے تجویز کیا ہے، یہی نہیں بلکہ فرمایا فرشتہ آیا تھا، اس نے بشارت دی ہے کہ یہ نوجوانؓ اور اس کا بھائیؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔گویا پیدا ہوتے ہی محض جنتی نہیں جنتیوں کے سردارؓ ہونے کی بشارت۔

    وہ حسینؓ کہ جو میرے نبی مہربان ﷺ کے ایسے پیارے تھے کہ آپ ﷺ نے ان کے لیے خطبہ روک دیا، ان کے لیے شفقت سے سواری بن گئے، ان کے لیے نماز لمبی کی، ان کو کندھوں پر لیے لیے پھرے، ان کا منہ چوما، ان کے ہونٹوں پر بوسے دیے، ان کے پورے وجود کو نبی مہربانﷺ کے لبوں کا لمس ملا، اس لیے کہ یہ اس پورے وجود کے ہر ہر حصے سے اپنے ناناﷺ کے دین کی شہادت دینے والے تھے، اس لیے کہ ان ہونٹوں سے ناناﷺ کے دین کی کبریائی بیان ہونے والی تھی، اس لیے کہ انہوں نے ساری دنیا کے سامنے قیامت تک کے لیے خلافت اور بادشاہت کے درمیان حد فاصل کھینچنی تھی اور پھر 10محرم الحرام کو وہ لمحہ آن پہنچا۔

    امام حسین رضی اللہ عنہ 9 محرم کو کربلا کے میدان میں، تلوار سے ٹیک لگائے اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے ہیں، ہلکی سی اونگھ آتی ہے، بیدار ہوتے ہیں تو چہرے پر مسکراہٹ ہے، فرماتے ہیں نانا خواب میں آئے تھے، بولے حسین مجھ سے ملنے کی تیاری کر لو۔ اور پھر کربلا کے سارے ہی خیمہ نشین رات بھرا پنے رب کو منانے اور اس کے دربار میں آہ و زاری کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اگلے دن ان مطمئن اور جنتی روحوں کوامام عالی مقام رضی اللہ عنہ خود صف آراء کرتے ہیں، امام حسین کے بھائی، ابو بکر، عثمان، عباس، جعفر اور محمد سب ہی موجود ہیں، ان کے بیٹے بھی موجود ہیں، آپ کے حمایتی دیگر لوگ بھی جرات و بہادری کا پیکر بنے کھڑے ہیں، اور تین ہزار یزیدیوں کا لشکر بھی سامنے موجود ہے۔ معرکے کا آغاز ہوتا ہے اور پے در پے شہادتیں اہل بیت کے حصے میں آتی چلی جاتی ہیں، سب کو اپنے سے زیادہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی جان عزیز ہے، حمایتی بھائی بھتیجے یکے بعد دیگرے داد شجاعت دیتے شہید ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ظہر کا وقت آن پہنچا ہے امام حسین رضی اللہ عنہ نماز کی مہلت طلب کرتے ہیں، نہیں ملتی، آپ کے اطراف اپنے پیاروں کی لاشیں ہیں، خون سے لباس مبارک رنگین ہے، تھکن سے چور، ایسے میں ذرا دیر کو خیمے کے باہر بیٹھ کر ننھے عبداللہ کو خیمے سے باہر بلا کر گود میں لیتے ہیں کہ جہنمی حرملہ کا تیر سنسناتا ہوا آتا ہے اور معصوم عبداللہ کا حلق چھلنی کر دیتا ہے، بے بسی اور مظلومیت شاید آج سے زیادہ کسی انتہا کو کبھی نہ پہنچی ہوگی، آپ عبداللہ کے معصوم خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور خدا کی قسم اگر یہ دنیا دارالعمل نہیں دارلجزا ہوتی تو اللہ کا قہر اس لمحے یزید کے لشکر کو زمین میں دھنسا مارتا، آسمان پھٹ پڑتا۔

    پھر آپ میدان کارزار میں جا پہنچتے ہیں، معرکہ گرم ہے، اکیلے حسین اور ہزاروں کا لشکر، مگر حسین بھلا پہلے کبھی کسی سے ڈرا تھا جو اب دبے گا؟ جرات سے دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں، ایسے میں ایک بدبخت مالک بن بشیر کی تلوار امام کے سر پر پڑتی ہے اور سر سے خون جاری ہوجاتا ہے، آپ رضی اللہ عنہ خود مبارک اتار کر عمامہ باندھ لیتے ہیں مگر اب نیزے کا وار اور پھر تلوار کے وار سے وہ شہ سوار زمین پر آ رہتا ہے، ڈاڑھی مبارک خون سے تر ہوجاتی ہے اور ایک شقی القلب آگے بڑھ کر سرمبارک کو تن سے جدا کردیتا ہے. کربلا کی سرزمین نے آج سے زیادہ دکھ اور تکلیف کامرحلہ نہیں دیکھا تھا۔ شہدا کی لاشوں کے کٹے پھٹے ڈھیر وہیں چھوڑ کر اور پاک بیبیوں کو قیدی بناکر بد نصیب لشکر روانہ ہوجاتاہے۔
    افق کی سرخ قبا سے سراغ ملتا ہے
    تمہارا خون ستاروں میں جگمگائے گا
    تمہارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے
    کوئی کہاں سے تمہارا جواب لائے گا

    امام عالی مقام اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی اور موت دونوں کے ذریعے شہادت حق کادرس دے کر اپنے ناناﷺ سے جا ملے اور آج جنتوں کی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے، مگر ان کے خون کا ہر قطرہ اپنے چاہنے والوں کے لیے کچھ سبق چھوڑ گیا ہے۔ آئیے ان پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    معزز قارئین! امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اپنی بصیرت سے دراصل یزید کی خلافت کی شکل میں اسلامی ریاست کے دستور، مزاج اور نظام میں ایک بڑی تبدیلی کو سامنے دیکھ رہے تھے جس کو روکنا اور اس کے لیے جان و مال اور خاندان سب لٹادینے کو انہوں نے فرض عین سمجھا اور سب قربان کر دیا. وہ تبدیلی کیا تھی؟ ملک کا قانون پہلے کی طرح اسلامی تھا، چور کا ہاتھ کاٹا جاتا تھا، زانی کو سنگسار کیا جاتا تھا، لوگ نمازیں پڑھ رہے تھے، عبادات، اخلاق، معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی، نکاح، طلاق، وراثت کے طریقے بھی وہی تھے، لوگ اللہ رسول آخرت اور دیگر تمام ایمانیات پر بھی قائم تھے، پھر آخر تبدیلی کیا آرہی تھی جو امام عالی مقام کو قبول نہ تھی؟

    دراصل یزید اسلامی ریاست کا دستور اور مقصد تبدیل کرنے جا رہا تھا، ریاست کی گاڑی خلفائے راشدین کے دور میں جس سمت بڑھ رہی تھی، اب اس کے الٹی طرف بڑھنا شرو ع ہو رہی تھی۔ اب اللہ کے بجائے انسانی بادشاہت کا آغاز ہو رہا تھا، بندے اور زمین اللہ کی تھی مگر مرضی اور حکم یزید کا چل رہا تھا، اللہ کی حکمرانی کا زبانی اعتراف تووہ بھی کر رہا تھا، مگر عملاََ اس کی مرضی ہی لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کر رہی تھی، یہی وجہ تھی کہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اس زورآور گاڑی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننے کو تیار ہوگئے، انہیں نانا کے دین میں تحریف کسی قیمت پر قبول نہ تھی۔

    دوسری بات حکمرانون نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم تقریبا معطل کر دیا تھا اور حکومت کا مقصد اپنی بادشاہی کو پھیلانا، اللہ کے بندوں کو اپنا بندہ بنانا بن گیا تھا، بنوامیہ نے تو نومسلموں سے جزیہ لینا شروع کر دیا تھا، وہی بادشاہوں کے ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے تھے، حلال و حرام کا فرق ختم ہوتا جا رہا تھا، سیاست اخلاق سے عاری ہو رہی تھی، حکمران خود خدا سے ڈرنے کے بجائے خدا کے بندوں کو خود سے ڈرانے لگے تھے، ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے انعام و رشوتوں کے ذریعے لوگوں کو خریدنا شروع کر دیا تھا، قیصر و کسرٰی کے رنگ ڈھنگ اختیار کیے جا رہے تھا، اسلامی دستور میں بنیادی انحراف آچکا تھا جس نے اسلامی ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا تھا۔

    آئیے اسلامی دستور کو سامنے رکھتے ہیں اور اس کے7 بنیادی اصولوں کے حوالے سے خلفائے راشدین اور بادشاہی ادوار کا موازنہ کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کیا آج بھی کہیں یہ انحراف تو جاری نہیں ہے؟

    (1) حکمران، لوگوں کا پسندیدہ
    خلفائے راشدین کا دور
    (الف) صحابہ کرامؓ میں سے سب سے بہتر ہستی کا انتخاب.
    (ب) بیعت کے ذریعے اقتدار نہ کہ اقتدار کے بعد بیعت.
    (ج) سازش اور کوشش سے اقتدار کے حصول کی کوشش تو دور کی بات، اقتدار کی طلب اور خواہش کا ہی وجود نہیں.
    (د) اگر لوگوں کا اعتماد ختم تو اقتدار ختم.
    (الحمد للہ کبھی ان پاکباز ہستیوں کے بارے میں کسی ذہن میں ایسا خیال ہی نہیں آیا)

    شاہی دور
    (الف) امیر معاویہؓ کی پوزیشن متنازعہ ( اسی لیے خلافت راشدہ میں شامل نہیں کیا گیا اور یزید نے تو اس کو بالکل الٹ پلٹ دیا)
    (ب) بیعت میں لوگ آزاد نہیں رہے۔
    (ج)مجبور کر کے بیعت لی گئی۔
    (د) لوگوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں۔
    (س) نہ ماننے پر سخت سزا (قتل کیا گیا، کوڑے مارے گئے، اذیتیں دی گئیں)

    (2)شورائیت
    خلفائے راشدین کا دور
    (الف) حکومت مشورے سے.
    (ب) مشورہ علم ، تقویٰ اور درست رائے رکھنے والوں سے.
    (ج) خلافت راشدہ کے مشیر اختلاف کی ہمت رکھنے والے صحابہ کرامؓ
    شاہی دور
    (الف) مشورے کا طریقہ تبدیل.
    (ب) شہزادے اور خوشامدی یا پھرگورنر اور فوجی مشیر (وہ مشیر جن کواعتماد کے ایک ووٹ کے بجائے لعنت کے ہزار ووٹ ملتے)
    (ج) حق پرست مشیر معتوب

    (3) اظہار رائے کی آزادی
    خلفائے راشدین کا دور
    (الف) ضمیر اور زبانیں آزاد
    (ب) امر بالمعروف اور نہی عن المنکرحق نہیں فرض
    (ج) احتساب پر انعام، ڈانٹ نہیں تعریف
    (د) آزادی اظہار، عوام پراحسان نہیں دستوری حق
    (س) فرائض خلافت کا اہم جزو
    (ص) معاشرے اور ریاست کی فضا کو اس اہم حق کے لیے خود خلفاء راشدین نے سازگار بنایا۔
    شاہی دور
    (الف) ضمیروں پر تالے ڈال دیے گئے
    (ب) منہ بند کروادیے گئے
    (ج) زبان کھولو تو تعریف میں ورنہ خاموش رہو
    (د) ضمیر زیادہ مجبور کرے تو پھر قید اورقتل کے لیے تیار ہو جاؤ
    (س) آہستہ آہستہ مسلمانوں کو بے ہمت، بزدل اور مصلحت پسند بنا دیا گیا۔
    (ط) خوشامد اور چاپلوسی کی مارکیٹ ویلیو زیادہ اور حق گوئی کی کم ہوتی چلی گئی
    (ظ) اعلیٰ قابلیت کے ایماندار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے لاتعلق ہوتے گئے
    (ع) عوام کا کسی حکمران سے دلی تعلق نہیں رہا، (کوئی کسی کی حمایت میں نہیں نکلا، لوگ تماشائی بن کر حکومتوں کو آتا جاتا دیکھتے رہتے)۔

    (4)خدا اور خلق کے سامنے جوابدہی کا احساس
    خلفائے راشدین کا دور
    (الف) دن رات جواب دہی کی شدید فکر، ہر وقت ہر جگہ جوابدہ،
    (ب) صرف شوری میں نہیں دن میں پانچ نمازوں میں جوابدہی کے لیے موجود، ہر جمعہ کو خطبہ، اپنی کہتے، ان کی سنتے،
    (ج) شب و روز بازاروں میں اکیلے پھرتے، ان کے صدارتی محل (کچے مکان) کا دروازہ سب کے لیے کھلا رہتا
    (د) نمائندوں کے واسطے سے نہیں بلکہ براہ راست جواب دہی
    (س) عوام سے کوئی خطرہ نہیں (اس لیے کہ اقتدار کی خواہش سے پاک ہستیاں تھیں)
    شاہی دور
    (الف) جوابدہی کا تصور عملا ختم، بس زبانی کلامی، (کوئی مائی کا لال سوال نہیں کر سکتا تھا)
    (ب) اپنی قوم کے فاتح، مفتوح، عوام بھلا کیا پوچھ سکتے تھے؟ ان کا نعرہ تھا جس میں ہمت ہے اقتدار چھین لے،
    (ج) نماز اپنے محلوں میں اور باہر مسلح دستوں کے ساتھ، کوئی قریب نہ پھٹک سکتا تھا

    (5)بیت المال ایک امانت
    خلفائے راشدین کا دور
    ّ(الف) خدا کامال اور مسلمانوں کی امانت
    (ب) ناحق، کوئی چیز اس میں آسکتی تھی نہ جا سکتی تھی
    (ج) خلیفہ کے لیے قرآنی حکم کہ اگر ضرورت مند ہوتو اتنا لو جس سے بس ضرورت پوری ہوجائے۔
    (د) ایک ایک پائی کا حساب کتاب
    (س) مسلمانوں کو حساب پوچھنے کا پورا حق (حضرت عمرؓ سے کرتہ کے بارے میں سرعام سوال)
    شاہی دور
    (الف) خزانہ، خدا اور خلق کا نہیں خلیفہ کا مال
    (ب) ہر جائز و ناجائز راستے سے مال آتا اور جاتا
    (ج) خلیفہ ہی نہیں اس کے عام ہرکارے بھی کرپشن سے بیت المال کو لوٹتے تھے
    (د) ذہنوں سے جوابدہی کا تصور تک ختم

    (6)قانون کی حکمرانی
    خلفائے راشدین کا دور
    (الف) خود خلفائے راشدین اس کا بہترین نمونہ
    (ب) دوستی اور رشتہ داری قانون سے ہٹ کر کوئی فائدہ نہ پہنچا سکتی تھی۔
    (ج) ناراضگی کسی کو قانون سے ہٹ کر کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی تھی۔
    (د) خود بھی عام آدمی کی طرح عدالت میں مقدمے لے جاتے اور کوئی دوسرا بھی انہیں عدالت میں کھڑا کر سکتا تھا۔
    (س) گورنر، سپہ سالار سب قانون کی گرفت میں کسے ہوئے تھے۔
    (ص) کوئی قاضی پر اثرانداز ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا
    شاہی دور
    (الف) خلیفہ تو کیا ان کی لونڈیاں اور غلام بھی قانون سے بالاتر
    (ب) انصاف کے دو پیمانے ایک کمزور کے لیے دوسرا طاقتور کے لیے
    (ج) عدالتوں میں فیصلوں کے لیے دباؤ اور قاضیوں کی شامت (یہاں تک کہ ایماندار قانون دانوں نے کوڑے کھانے کو قاضی بننے پر ترجیح دی تاکہ غلط فیصلے نہ کرنے پڑیں۔)

    (7)حقوق میں مساوات
    خلفائے راشدین کا دور
    (الف) کامل مساوات پوری قوت سے نافذ
    (ب)نسل، وطن، زبان کا کوئی امتیاز نہیں
    (د) خدا اور رسول کے ماننے والے سب برابر
    (س) ترجیح صرف تقوی کی بنیاد پر
    شاہی دور
    (الف) عصبیت کے شیطانوں کا قبضہ
    (ب) شاہی خاندان اوران کے حامی سب سے اعلیٰ اور آگے
    (ج) عربی و عجمی کی واضح تفریق
    (د) عام قبیلوں کا ایک دوسرے پر فخر جتانا

    امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا کردار
    امام ذی وقارؓنے اپنی بصیرت سے دیکھ لیا تھا کہ خلافت بادشاہت میں تبدیل ہونے کے بعد کیا ہونے جا رہا ہے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ناناﷺ کے دین کے ساتھ اس سلوک کو برداشت کر لیتے؟ اس لیے وہ نتائج سے بے پرواہ ہوکر ایک جمی جمائی مضبوط حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے. امام نے اس خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو برداشت کر کے جو بات ثابت کی، وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کےلیے ایک مؤمن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچے بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں اسلامی دستور اور ریاست میں آنے والی مذکورہ منفی تبدیلیاں وہ آفتیں ہیں جنہیں روکنے کے لیے ایک مؤمن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کرنا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ اب کسی کا دل چاہے تو اسے حقارت سے سیاسی کام کہہ دے ورنہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی نظرمیں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اس لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھا۔

    (اس مضمون کی تیاری میں مرحوم مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی تحاریر، حضرت مولانا طارق جمیل کی تقاریر اور تاریخ اسلام از صولت مرزاسے راہنمائی اوراستفادہ کیا گیا)

  • میں الیاس گھمن کو نہیں جانتا، مگر؟ زبیر منصوری

    میں الیاس گھمن کو نہیں جانتا، مگر؟ زبیر منصوری

    زبیر منصوری میں الیاس گھمن کو نہیں جانتا
    مگر
    میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ اس دنیا میں جو بڑے سے بڑا پارسا ہے، وہ بھی اللہ کو چیلنج نہیں کر سکتا کہ وہ پاک صاف ہے، اس لیے بے شک اس پر پڑی ستاری کی چادر ہٹا دی جائے
    تو پھر پارسائی اور گناہ گاری میں بس اتنا ہی فرق ہوا ناں کہ میرے رب نے ایک کی چادر ڈھکی ہوئی ہے اور دوسرے کی ہٹا دی۔
    یہ نیک نام، وہ بدنام؟
    یہ تقی اللہ متقی، وہ بے حیا؟
    بھائیو!
    افراد کی ذاتی خامیاں اچھالنا دراصل غلیظ کیچڑ میں پتھر مارنا ہے، اس کے نتیجے میں بس گندگی ہی پھیلتی ہے، بدبو ہی بڑھتی ہے، خرابی ہی جگہ پاتی ہے جبکہ ایسے افراد جو اجتماعی معاملات کے ذمہ دار ہیں، ان کی وہ خرابیاں جن کا تعق اجتماعی خرابی سے ہے، انہیں پوری احتیاط سے بیان کرنا اور یہ نیت رکھنا کہ اس سے آپ کا مقصد محض اصلاح ہے، دین تو ہمیں بس یہی اصول سکھاتا ہے۔
    ایسے حالات میں کہ جب دین داروں کو سامنے رکھ کر دین کی فضیلت و شرف کی پگڑی کو سر بازار رسوا کیا جا رہا ہو، اس کا حصہ بننا، اس پر مزے لے لے کر تبصرے کرنا، اسے فروغ دینا، اس سے لطف اٹھانا باوجود اس کے کہ سامنے والے فریق نے آپ کے معاملے میں ظلم کی انتہا ہی کیوں نہ کی ہو بہرحال درست نہیں۔
    بد قسمتی سے طبقہ علماء نے جس طرح دین کی آڑ میں بدترین دنیا داری کرنے والوں کو کھلا چھوڑا ہوا ہے، اس کی وجہ سے صورتحال یہاں آن پہنچی ہے کہ دین سے محبت رکھنے والے بھی خود کی بورڈ اور ماؤس تھام کر چڑھ دوڑے ہیں اور میرے نبی ﷺ کا دین بیک وقت اندر اور باہر سے شدید تیر اندازی کی زد میں ہے۔
    ایسے میں
    وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
    دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
    اور ہاں یاد رکھنا انسان اپنے ہر لفظ اور خیال پر آزمایا جائے گا، اسے ثابت کرنا ہوگا، انسان بھول، غلطی، گناہ اور نزغہ، شیطان کا آسان شکار ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا کہ زندگی پہیے کی طرح گھومتی ہے، اگر آج کسی کی ”لوز بال“ تمہارے بیٹ کی زد میں ہے تو کل ترتیب تبدیل بھی ہو سکتی ہے، کوئی دوسرا اوپر اور میں اور آپ نیچے ہو سکتے ہیں، اس لیے لفظوں کے تیر برساتے اور حظ اٹھاتے ہوئے ایک لمحہ کو سوچ لیجیے کہ وہ کیا جذبہ ہے جو آپ کو اس پر اکسا رہا ہے، اصلاح یا لطف اندوزی اور ذہنی عیاشی؟
    عزیزو!
    اللہ کو پردہ پوشی پسند ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں پردہ ڈالنے والوں کے عیب ڈھک دوں گا۔
    ہے کوئی جسے اللہ کی طرف سے پردہ ڈھکے جانے کی ضرورت ہو؟
    اے اللہ مجھے ضرورت سب سے زیادہ ہے۔
    اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں۔
    اے اللہ میں تیری ستاری کا واسطہ دیتا ہوں۔
    اے اللہ میں الیاس گھمن پر کچھ آگے نہیں بڑھاؤں گا، بس تو میرے پردے ڈھکے رکھنا۔
    تو نے پردہ اٹھایا تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔
    اے اللہ معافی
    میری معافی
    میری ہاتھ جوڑ کر معافی۔

  • آنے والے دن عورت کے ہیں – زبیرمنصوری

    آنے والے دن عورت کے ہیں – زبیرمنصوری

    زبیر منصوری آنے والے دن خواتین کے ہیں۔
    ہمیں اچھا لگے یا برا معاشرہ بہر حال ماڈرنائز Modernise ہونے جا رہا ہے۔
    عورت کو مغرب کا پروردہ میڈیا گھر کے قلعہ سے باہر لا چکا ہے۔
    اسے سبز باغ دکھا کر بے باک بنایا جا چکا ہے۔
    وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا چکے ہیں۔
    نہایت خاموشی سے ایسے قوانین بن چکے ہیں جن کے بعد گھر سے بھاگنے والی لڑکی عدالت کے ذریعہ باپ کو جیل بھجوا کرآشنا کے ساتھ اس کے گھر جا سکتی ہے۔ (آہ)
    حیا، حجاب، وفا، پاکیزگی، شرافت اور اخلاق جیسی روایات و اقدار منہ چھپاتی پھرتی ہیں، انہیں کوئی جائے پناہ نہیں ملتی۔
    این جی اوز اور امریکن سفارتخانہ ہاتھ دکھا چکے۔
    آنے والے کل میں معاشرے عورتیں چلا رہی ہوں گی، فیصلے ان کی مرضی سے ہو رہے ہوں گے، اہم ادارے ان کے پاس ہوں گے۔
    میرے لفظ اگر کچھ آنکھوں کو ناخوشگوار لگ رہے ہیں تو یقین کیجیے لکھتے ہوئے میں بھی آنکھوں کی پتلیاں دھو رہا ہوں مگر آنے والے کل کا یہ منظر بدلنا؟
    کاش میرے بس میں ہوتا۔
    اس سونامی طوفان سے کچھ بیٹیوں کو بچانے کی ایک ہی صورت ہے۔
    جزوی، ضمنی، ذیلی چیزوں کی اصلاح ان پر مسلط کرنے کے بجائے نرمی، محبت اور دلیل کے ساتھ بیٹیوں کو معاشرتی روایات سے نہیں بس اسلام کی بنیادی ہدایات سے جوڑنے کی کوشش کریں۔
    1) اس نسل کو ”تحمل“ سے سمجھنے کے بجائے ”تحکم“ سے سیدھا کرنا ممکن نہیں۔
    2) قران، رسول حدیث، آخرت کو اس نسل کی نظر سے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کی نظر میں بد قسمتی سے یہ اپنا اثر کھو بیٹھے ہیں اور اس کا آغاز اس روز ہوا تھا جب شرفا نے اپنے گھر کیبل کا کنکشن لگوایا تھا اور اپنے بچوں کو مہنگے سیکولر اسکول میں داخل کروایا تھا یا پھر نیا فون لے کر تنہائی فراہم کی تھی اور پیار سے دعوی کیا تھا کہ ”مجھے اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے“
    3) طوفان دروازوں سے ٹکرا رہا ہے، محبت اور لہجہ کی نرمی کے” کہف“ بنائیں
    4) شیطان کے گھر میں داخلے کے دروازے بند کریں۔
    5) متبادل تیار کرنے پر ریسرچ اور ڈیولپمنٹ کے ادارے بنائیں۔
    6) گھر کے ڈرائنگ رومز کو ”فری کائونسلنگ سینٹرز“ میں بدل لیں۔
    7) چھوٹی چھوٹی چیزوں میں آزادی دیں، سمجھ لیں کہ زمانہ بدل گیا۔
    8) جنریشن گیپ کا اعتراف کریں، بچیوں کو سمیٹیں، ان کی صلاحیتوں کو دیکھیں اور راستہ دیں، اس سے پہلے کہ وہ چھین کر لے لیں کیونکہ صرف بند باندھیں گے تو طوفان انہیں بہا لے جائیں گے۔
    9) یہ نسل ایموشنل بلیک میلنگ کو سمجھنے لگی ہے، آپ کے آنسو اس کی نظر میں اکثر بس پانی کے چند قطرے ہوتے ہیں، آپ بھی اب سمجھ لیں اور انہیں یوں مٹی میں نہ رولیں۔
    10) روایتی اسلام اور محمدﷺ کے اصل اسلام کا فرق سمجھیں۔
    سمجھیں اس سے پہلے کہ وقت اور حالات کے تھپڑ ہمیں سمجھائیں۔

  • دانشور، ظالم جمعیت اور شہد کی مکھی – زبیر منصوری

    دانشور، ظالم جمعیت اور شہد کی مکھی – زبیر منصوری

    زبیر منصوری محترم دانشور صاحب!
    آپ اور آپ ہی کے جیسے اساتذہ سے غیر جانبداری کے لیکچر سنے تھے تو ذرا سا جمعیت کے بارے میں بھی اپنے گلاسز کا کلر چیک کیجیے، کافی دھندلا دکھا رہے ہیں یہ شیشے آپ کو، (یا شاید آپ ایسا ہی دیکھنا چاہ رہے ہیں)
    ویسے خیر آپ فرشتوں اور صحابہ کو تو کم ہی مانتے اور ان کی کم ہی سنتے ہیں، ما بعدالطبعیات پر بھی آپ کا یقین نہیں، اکثر مگر کتنی عجیب بات ہے نا کہ جمعیت کو ناپنے کے لیے آپ نے بدترین حالات میں بھی فرشتوں جیسے اونچے ترین معیار سیٹ کر رکھے ہیں۔

    جناب! وہ جو ایک چیز ہوتی ہے ناں فکری دیانت، وہی وہی جس کا ڈھنڈورا پیٹتے آپ کا قبیلہ نہیں تھکتا، اسی کا تقاضا ہے کہ جب رائے دیں تو توازن پیدا کریں، مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے لیں اور پھر کوئی بات کریں.

    اب بھلا بتائیے! آپ کو معلوم ہے کہ جمعیت معاشرے میں کتاب کی محبت پیدا کرنے کے لیے ہر سال کتنے کروڑ روپے کے فنڈ جمع کرتی ہے اور پھر بک فیئرز پر خرچ کر دیتی ہے،
    بھلا آپ کو معلوم ہے کہ جمعیت کتنے نوجوانوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتی ہے، اور انھیں معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کےلیے تیار کر رہے ہیں،
    بھلا آپ کو معلوم ہے کہ آج بھی کسی طلبہ تنظیم میں مطالعہ کتب، اسٹڈی سرکل کی رویت باقی ہو، ایجوکیشن ایکسپو، ٹیلنٹ گالا، کیرئیر کونسلنگ جیسے امور انجام پاتے ہوں،
    بھلا کسی ایک طلبہ تنظیم کا نام تو لیجیے جو ہر سال اپنے ایک ایک روپے کا حساب رکھتی اور اس کا آڈٹ کرواتی ہو اور یہ عمل ساٹھ برس سے مسلسل جاری ہو،
    کسی ایک طلبہ تنظیم کا نام تو لیجیے جس میں جمعیت کے نصف جتنی بھی جمہوریت ہو، جی جی وہی جمہوریت جس کا علم آپ کا قلم قبیلہ اونچا تھامے ہوئے ہے، زیادہ دور نہیں، یہ رہا اچھرہ کچھ وقت نکالیے اور جا کر اسی جمعیت کا مرکز دیکھ آئیے، ذرا زیارت کا کا صاحب کے دوردراز گاؤں سے قیادت کے منصب تک پہنچنے والے ناظم اعلی صہیب کاکاخیل سے مل آئیے، ان کے کانفرنس روم دیکھ آئیے، ان کے دفاتر میں چائے کی ایک چسکی لیجیے اور ان سے پوچھیے کہ معاشرے میں جہاں لیڈرشپ ڈیویلپمنٹ کے سارے راستے سختی سی بند کر دیے گئے ہیں، وہاں یہ آپ کی ”ظالم جمعیت“ کس طرح چیچوں کی ملیاں سے گوادر اور پسنی تک اپنے سینکڑوں حلقوں میں انتخاب کے صاف ستھرے پراسس کو عمل میں لاتی ہے اور معاشرے کو قیادت تیار کر کے دیتی ہے،
    پورا سال جمعیت کے لیڈرشپ کیمپس میں سے کسی میں شریک ہو جائیں، یہ لوگ کیسے کام کر رہے ہیں،
    یہ بے چارے اپنی بنیاد پر خود دس اور بیس روپے جمع کر کے کروڑوں روپے سالانہ اپنی سرگرمیوں پر صرف کرتے ہیں،
    آپ امریکن المنائی نیٹ ورک کے سوا کوئی ایک ایسی تنظیم تو بتائیں جو اتنا بڑا فنڈنگ نیٹ ورک چلاتی ہو اور کرپشن کی شرح ۰0000001 فیصد بھی نہ ہو بلکہ خرچ کرنے والے خود پہلے جیب سے دیتے ہوں، بلکہ مزدوری کر کے فنڈ دیتے ہوں،
    اور یہ جو جماعت اسلامی، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف و دیگر کو لیڈر شپ فراہم کی، یہ کیا چھوٹا کام ہے؟
    ملک کا ایک ادارہ بتائیں جہاں جمعیت کے ٹریننگ یافتہ افراد ایمانداری سے کام نہ کر رہے ہوں،
    دینی اور اخلاقی بہتری کے لیے جمعیت نے کیا کیا ہے، یہ اگرچہ آپ کی دلچسپی کا موضوع نہیں مگر آپ کی اطلاع کے لیےعرض ہے کہ سال بھر میں ہزاروں درس قران جمعیت کرتی ہے، ایک ایک کلاس اور ہر ہر طالبعلم کو اس کے رب سے جوڑتی ہے، ان میں محبت نرمی اور ملک و قوم سے وفاداری پیدا کرتی ہے، حیا اور ساتھ پڑھنے والی طالبات کو بہن سمجھنا اور ان کی حفاظت کرنا سکھاتی ہے اور یہ جمعیت کا فخر ہے.

    اگر ایمانداری وغیرہ جیسی کسی قدر کو آپ لوگ اہمیت دیتے ہیں تو ایک لمحے کو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ جمعیت کے کارکنان کی عمر کے نوجوان آج بائیک اور موبائل چھین رہے ہیں اور لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کا ریپ کر رہے ہیں، ان میں جمعیت کے نوجوان غنیمت نہیں، دس بیس پچیس پچاس نہیں لاکھوں لوگوں کا ڈیٹا ہے جو گواہ ہے کہ جمعیت سوسائٹی کی محسن ہے.

    دیکھیں قلم آپ کے ہاتھ میں ہے اور ویب سائٹ کی ریٹنگ کا مسئلہ ہو یا نظریاتی میدان میں دیس نکالا کھانے، این ایس ایف کے خاتمے سے ذرا آگے بڑھ کر سوویت یونین کے ہی بکھر جانے کا غم، کہ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے، آپ کے قبیلہ کا اصل مسئلہ جمعیت سے نفرت ہے جو وراثت میں ملی ہے اور اس نے آپ کو وہ مکھی بنا دیا ہے جو سارا صاف اور صحت مند جسم چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھتی ہے. کاش یہ شہد کی مکھی ہوتی جس سے کوئی خیر برآمد ہو سکتا۔ کاش!