Author: اوریا مقبول جان

  • شاید ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے…اوریا مقبول جان

    شاید ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے…اوریا مقبول جان

    omj-harfaraz-1466700536-530-640x480

    میڈیا کسی کی زندگی اس قدر مشکل اور خوفزدہ بھی بنا سکتا ہے، اس کا اندازہ دنیا میں بسنے والے شاید ہر سمجھ دار انسان کو ہو لیکن اس میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہو کر مقبول ہونے والی قندیل بلوچ کو شاید نہیں تھا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ میڈیا کا یہ منہ زور گھوڑا پہلے تو اسے اپنے اوپر بٹھا کر سرپٹ دوڑتا رہا اور جہاں اس پر سوار قندیل بلوچ کو دن دوگنی رات چوگنی شہرت ملی‘ وہیں گھوڑے کو بھی اس کی تیز رفتاری کی داد ’’ریٹنگ‘‘ کی صورت میں مسلسل ملتی رہی۔ لیکن سوار کو اس کا اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ منہ زور گھوڑا ایک ایسی چال چلتا ہے کہ اس پر بیٹھی قندیل توازن کھو بیٹھی، گھوڑے نے نہ چال ہلکی کی اور نہ ہی اسے سنبھلنے کا موقع دیا۔

    زمین پر پٹخا، اسے سموں تلے روندا، طاقت کے نشے میں ہنہنایا، ریٹنگ کی صورت داد وصول کی اور پھر کسی اور سوار کو اٹھائے ویسے ہی سرپٹ بھاگنے لگا۔ زخمی قندیل کو ابھی بھی امید تھی کہ میڈیا اسے دوبارہ سہارا دے کر بٹھا لے گا۔ لیکن میڈیا کو تو اس کی موت کا انتظار تھا۔ اس لیے کہ زندہ قندیل اب ایک چلا ہوا کارتوس تھی، اس سے جتنی ریٹنگ کمائی جا سکتی تھی وہ کما لی گئی۔

    اب اس کے مزید سیکنڈلز میں جان ڈالنا آسان نہ تھا۔ لوگ ایسے سیکنڈلز میں پہلے سے بڑھ کر کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں اور جس حد تک میڈیا اسے لے جا چکا تھا اب اس سے زیادہ بڑھنا اس کے بس میں نہ تھا۔ کسی کو یقین تک نہ تھا کہ انھیں اچانک اتنی بڑی خبر مل جائے گی، ’’واؤ‘‘، قندیل کی موت۔ تیز رفتار ڈی ایس این جیز، برق رفتار کیمرہ مین اور عالی دماغ رپورٹر جمع تھے۔ دن بھر تماشا لگا رہا۔ رات کو میک اپ روم سے چہروں پر غمازہ تھوپے، آرائش گیسو اور لباس کی بانکپن سے آراستہ مرد اور خواتین اینکر پرسن اپنے اپنے مخصوص انداز اداکاری میں جلوہ گر ہوئے۔

    کسی کی آنکھ میں تیرتے آنسو تھے تو کوئی اس بے حس معاشرے کے ظلم پر سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ کوئی اس کے بھائی کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا تو کسی کو حکومت پر غصہ آ رہا تھا۔ ریٹنگ، ریٹنگ، ریٹنگ۔۔۔۔ ہر کوئی ریس کورس کے گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگے جا رہا تھا۔ میڈیا کے اس سرپٹ بھاگتے گھوڑے کو اپنی توانائی کے لیے ایک پارٹنر ہمیشہ مل جاتا ہے۔ یہ ہوتی ہیں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار این جی اوز۔ انھیں بھی کسی بڑی خبر کا انتظار ہوتا ہے۔ اس دفعہ تو کمال ہی ہو گیا۔ قندیل کی موت پر جب میڈیا کا بازار سجا تو جس کسی نے اس کے قتل پر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی تو یہ ایک دم بیک آواز ہو کر کود پڑیں۔ ان کے فقرے کمال کے تھے۔ آپ میڈیا پر الزام لگا کر معاملے کی سنگینی کو کم کر رہے ہیں۔ آپ اصل ایشو سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سفاک قتل کے بارے میں بات کرنا چاہیے۔

    انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار ان این جی اوز کی نمایندہ مرد و خواتین اس سارے عرصہ میں چپ رہیں جب میڈیا کے شوز میں اس خاتون کو سستی شہرت دلانے کے لیے گھٹیا قسم کی فقرے بازی کی جاتی رہی۔ اس کے مخصوص انداز کو کیمروں کے ذریعے جاذب نظر بنایا جاتا رہا۔ تحقیق و تفتیش کے عالمی ریکارڈ اس وقت ٹوٹے جب سوشل میڈیا پر کروڑوں لوگوں تک پہلے سے پہنچی ہوئی مفتی قوی کے ساتھ اس کی ویڈیو ان کے ہاتھ لگی۔ اسے ایک اہم ترین بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا۔ پھر رات کو ایک اور تماشہ لگا، اینکر پرسنز اسے انتہائی نامناسب لباس میں اپنے پروگرام میں لائے، جسے وہ مسلسل اپنے ہاتھ سے مزید نامناسب کرتی چلی جا رہی تھی۔ مفتی قوی کو ساتھ بلایا گیا اور پھر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ کا تماشہ لگا۔ اینکرزحضرات استہزائی ہنسی ہنستے رہے۔ جملے پھینکتے اور جملوں پر مضحکہ خیز تبصرے کرتے رہے۔

    اس کی موت کے بعد اسے قوم کی بیٹی یا بہن کہنے والے یہ لوگ کیا بہن یا بیٹی کو اس طرح ’’ایکسپوز‘‘ کرنے اور اسے خاصے کی چیز بنا کر پیش کرنے کا جواز دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہانی مرنجا مرنج اور خوش کن چل رہی تھی۔ قندیل کو سستی شہرت چاہیے تھی اور میڈیا کو ریٹنگ لیکن شاید این جی اوز کو کسی بڑے سانحے کا انتظار تھا۔ ڈرامے میں ٹریجڈی بھی تو ڈالنا تھی۔ صحافیانہ تفتیش و تحقیق شروع ہوئی۔ وہ بیچاری اپنے اس لائف اسٹائل میں گزشتہ کئی سالوں سے زندگی گزار رہی تھی۔ اپنی کمائی سے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کا خرچہ بھی اٹھاتی رہی۔ اس مکروہ اور کریہہ معاشرے سے بچنے کے لیے اس نے اپنا نام فوزیہ سے بدل کر قندیل بلوچ رکھ لیا تھا۔ رپورٹر پہنچے، اس کے گھر کا کھوج لگایا، شناختی کارڈ ھونڈ نکالا۔ اس کی دو ناکام شادیوں کی داستانیں پتہ چلیں، ایک بچہ بھی آ گیا۔ اب کہانی اپنے دردناک انجام کی جانب بڑھنے لگی۔

    یہ میڈیا کے لوگ پیرس یا لندن میں نہیں رہتے کہ انھیں علم نہ ہو کہ بات چھپی رہے تو لوگوں کی زندگیاں پرسکون رہتی ہیں۔ اکا دکا لوگ طعنے دیتے ہیں لیکن جب میڈیا اور وہ بھی الیکٹرونک میڈیا پر تماشہ لگتا ہے تو پھر لوگ اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتے ہیں۔ زندگی اجیران کر دیتے ہیں۔ میں وہ الفاظ درج نہیں کر سکتا جو لوگ طعنوں کے طور پر منہ سے نکالتے ہیں۔ قتل کی نفسیاتی تحقیق یہ کہتی ہے کہ اس کی اکثر وجوہات ایک ہیجانی کیفیت سے جنم لیتی ہے جو لوگوں کے طعنے، معاشرے میں عدم قبولیت، کسی سانحے کی ڈپریشن یا کسی رویے سے جنم لینے والے غصہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی شخص کو اندھا کر دیتی ہے اور میڈیا کی روشنیاں یہ اندھا پن بہترین طریقے سے پیدا کرتی ہیں۔ کس قدر مزے کی بات ہے، زندہ قندیل بلوچ بھی ایک خبر ہے بیچنے کے لیے اور مردہ تو بہت ہی اہم ہے۔ بیچو بھی اور اپنا اخلاقی قد اور حقوق نسواں کے علمبردار ہونے، حساس اینکر پرسن ہونے کا پرچم بھی بلند کرو۔ اس ساری دھماچوکڑی میں سب سے مظلوم پاکستانی معاشرہ اور اس کے اٹھارہ کروڑ عوام ہیں۔

    ہر کوئی اس معاشرے کو گالی دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ منہ چڑانے کے لیے مغرب کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ جن دنوں ہم اپنے معاشرے کو قندیل بلوچ کے قتل کا ذمے دار ٹھہرا رہے تھے انھی دنوں کینیڈا کی سینٹ میری Saint Mary یونیورسٹی کی پروفیسر جوڈتھ ہیون (Judith Havien) جو عرف عام میں جوڈی ہیون کے طور پر مشہور ہے اس نے نیویارک کے مہذب ترین شہر میں عورت کے تنہا سڑکوں پر چلنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لگائی اور اس کا عنوان رکھا Video Proof that Some Men are Pigs (اس بات کا ویڈیو ثبوت کہ کچھ مرد سور ہوتے ہیں) ویڈیو کا نام ہے۔

    ”10 Hours of Walking in NY  as Woman” (ایک عورت کی حیثیت سے نیویارک شہر میں دس گھنٹے کی چہل قدمی)۔ ویڈیو اس شہر نیویارک کا اصل چہرہ ہے۔ کوئی اس عورت کو گندے القاب سے پکار رہا ہے تو کوئی اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے جسمانی خطوط کی تعریف کر رہا ہے، تو کوئی اسے اپنا فون نمبر دکھا رہا ہے۔ کوئی رات کی دعوت دیتا ہے تو کوئی دوستی کی۔ یہ دعوت خاموشی سے سنی جاتی ہے۔ یہ مغرب کے میڈیا کے لیے خبر نہیں۔ عورت کی یہ تذلیل، ذلت و رسوائی حقوق نسواں کے علمبرداروں کے لیے المیہ نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لائف اسٹائل ہے۔ ایسا تو ہوتا ہے۔ یہ تو نارمل ہے، اسے کیا بیان کرنا، لیکن جوڈی ہیون کے نزدیک امریکا اور مغرب میں اگر کوئی عورت غیرت کے نام پر قتل بھی کر دی جائے تو اب یہ میڈیا کے لیے ایک خبر نہیں بنتی۔ البتہ پاکستان میں کوئی عورت ایسے قتل ہو تو ایک دم ہیڈلائن ہے۔

    اکتوبر 2014ء کو جوڈی ہیون کا لکھا ہوا خط جو اس نے اس اخبار کو لکھا تھا جس نے ہیڈلائن لگائی تھی کہ پاکستان میں عدالت کے باہر عورت کو گھر والوں نے پتھر مار کر مار دیا۔ بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنا۔ کینیڈا کی دوسری قدیم اور بڑی یونیورسٹی کی اس پروفیسر نے خط میں تحریر کیا کہ مغرب کا یہ میڈیا پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ایک لڑکی کی خبر تو لگاتا ہے اور لکھتا ہے کہ 2013ء سے لے کر اکتوبر 2014ء تک وہاں 869 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ لیکن صرف امریکا میں اسی عرصے میں 1095 عورتوں کو ان کے شوہروں اور بوائے فرینڈز نے قتل کر دیا۔ ہر روز امریکا میں تین عورتیں اپنے عاشقوں یا شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ لیکن معاشرہ بھی انھیں جذباتی جرم Crime of Passion کہہ کر چپ ہے اور میڈیا تو اسے امریکی لائف اسٹائل کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک بھائی قتل کرے تو حیرت کی بات ہے، شوہر یا بوائے فرینڈ قتل کر دے تو یہ معمول۔ نہ کوئی ہیڈلائن لگتی ہے، نہ مضمون لکھے جاتے ہیں، نہ موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ خس کم جہاں پاک۔ کس قدر بدقسمت ہیں وہ عورتیں جن کی موت نہ انھیں شہرت دے سکی اور نہ ہی میڈیا کو ریٹنگ۔ شاید ایک دن ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے۔

  • سرکس کے مسخرے.. اوریا مقبول جان

    سرکس کے مسخرے.. اوریا مقبول جان

    omj-harfaraz-1466700536-530-640x480
    سرکس کے کرداروں میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک ماہر اور مشاق فنکار جو رسے پر چلتا ہے، قلابازیاں لگاتا ہے، دونوں ہاتھوں سے کس قدر مہارت سے گیندوں کو اچھالتا ہے، غرض طرح طرح کے ماہرانہ کرتب دکھا کر داد وصول کرتا ہے اور تالیوں کی گونج میں رخصت ہوتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد عجیب و غریب لباس، پھندنے والی ٹوپی اور چہرے پر چونے سے نقش و نگار بنائے ہوئے ایک مسخرہ داخل ہوتا ہے اور وہی سارے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسی پکڑ کر جھولنے لگتا ہے تو دھڑام سے زمین پر گر جاتا ہے، گیند اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں اور قلابازیاں وہ اس مضحکہ خیز انداز میں لگاتا ہے کہ پورا پنڈال ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہوتا ہے۔
    ایک اپنی مہارت کی داد وصول کرتا ہے تو دوسرا اپنے مسخراپن کی۔ دونوں کی اپنی اپنی دنیا اور اپنی اپنی حیثیت ہے۔ لیکن سرکس کے مسخرے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ہیرو نہیں بن سکتا۔ اس میں وہ صلاحیتیں ہی موجود نہیں۔ اس لیے وہ ہیرو والی داد نہیں چاہتا بلکہ مسخرے والی داد پر خوش ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب ترکی میں طیب اردگان کی حکومت کے خلاف فوج کے ایک مختصر ٹولے نے بغاوت کی کوشش کی تو ترکی کے اس مقبول صدر کی اپیل پر ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے، ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، سپاہیوں کے سامنے دیوار بن گئے۔ ایسے میں پاکستان کے کچھ سیاست دان اور عظیم دانشور بھی اپنے ’’عظیم الشان‘‘ تبصرے کرنے لگے کہ اب عوام جمہوریت کا خود دفاع کریں گے۔ طالع آزما قوتوں کے لیے یہ بہت بڑا سبق ہے۔
    اب ڈکٹیٹر شپ کے زمانے گزر گئے۔ گزشتہ دو دنوں سے پاکستانی قوم ان کے منہ سے یہ تبصرے سنتی اور ویسے ہی مسکراتی رہی جیسے مسخرے کے کرتبوں پر مسکراتی ہے۔ کیونکہ سرکس میں مسخرہ بھی اپنی ناکام پرفارمنس پر ہیرو کی طرح ہاتھ اٹھا کر داد کا طالب ہوتا ہے۔ کیا ان رہنماؤں نے ٹھنڈے دل کے ساتھ دامن میں جھانکنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں اور طیب اردگان میں کیا فرق ہے۔ اس کی بیرون ملک سے ایک ٹیلیفون پر دی گئی کال پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ان کے ہر دفعہ جانے کے بعد لوگ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ دانشوروں کا تو کیا کہنا، ان کی خبروں، ٹویٹر کے ٹویٹ اور فیس بک کے تبصروں میں صبح تک یہ خواہش امڈ امڈ کر سامنے آ رہی تھی کہ فوجی بغاوت کامیاب ہو جائے گی اور ترکی کا اسلامی چہرہ سکیولرازم اور لبرل ازم میں بدل جائے۔ یہ دانشور، تجزیہ نگار اور تبصرہ نگار پوری رات پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے میڈیا پر چھائے رہے۔
    پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور تو اپنے ان ہی آقاؤں کے نقش قدم پر چل رہے تھے۔ اپنے میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ بس اب طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کا سورج غروب ہو گیا۔ ذرا مغرب کے میڈیا اور اس کے کرتا دھرتا افراد کی ناکام خواہشوں اور حسرتوں کا تماشا ملاحظہ کریں۔ برطانیہ کا مشہور اخبار ٹیلی گراف خبر لگاتا ہے۔ The Army Sees Itself as the Guardian of Turkey’s Secular Consitution”
    (فوج اپنے آپ کو ترکی کے سکیولر آئین کی محافظ سمجھتی ہے) یعنی پارلیمنٹ نہیں فوج آئین کی محافظ ہے۔ جب فوجی دستے بغاوت کے لیے نکلے تو نیویارک ٹائمز نے تو فوج کی جانب عوام کی ہمدردیاں موڑنے کے لیے یہ خبر لگائی ”A Look at Erdogan, Controvesial Rule in Turky” (ترکی میں اردگان کے متنازعہ اقتدار پر ایک نظر)۔ اس دوران دنیا بھر کے اخبار اردگان کے بارے میں افواہیں پھیلاتے رہے۔ ڈیلی بیٹ نے ایک اپ ڈیٹ لگائی ”Erdogan Reportedly Denied Assylum in Germany, Now Headed to London” (جرمنی نے اردگان کو پناہ دینے سے انکار کر دیا، اب وہ لندن جا رہے ہیں) Vox نیوز تو کھل کر بولنے لگا۔ ”Erdogan Is Clearly a Threat to Turkish Democracy and Secularism” (اردگان واضح طور پر ترکی کی جمہوریت اور سیکولرازم کے لیے ایک خطرہ ہے)۔انتہائی معتبر جانا جانے والا فوکس (FOX) نیوز اپنے تبصرہ نگاروں میں کرنل رالف پیٹرز (Ralf Peters) کو لے کر آیا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے 2005ء میں پینٹاگان کے جرنل میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں پوری مسلم دنیا کا ایک نیا نقشہ پیش کیا تھا۔ اس کرنل صاحب نے اردگان کے خلاف ایک تفصیلی تبصرہ کیا اور کہا
    ”If The Coup Succeeds, Islamists Loose and We Win”
    (اگر بغاوت کامیاب ہو جاتی ہے تو اسلامسٹ ہار جائیں گے اور ہم جیت جائیں گے)۔ بددیانتی کا ’’شاندار‘‘ مظاہرہ روس کے اخبار سپتنک (Sputnik) نے کیا۔ عوام کی تصویریں لگا کر کیپشن لگایا ”Images From The Ground in Turkey Show People Celebrating Coup” (بغاوت پر خوشی منانے والے عوام کی تصاویر) پاکستان کے سیکولر میڈیا نے بھی اپنے مغربی آقاؤں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی خواہش کو خبر بنایا۔ ایک انگریزی معاصر نے آٹھ کالمی سرخی لگائی ”ERDO-GONE” اس سرخی میں چھپی ان کی حسرت کتنی واضح نظر آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے سیکولر اور لبرل بلاگزر تو پوری رات تڑپتے رہے کہ کسی طریقے سے طیب اردگان کے خلاف بغاوت کی خوش کن خبر سنیں۔ لیکن ناکامی کے بعد جمہوریت کی بقا اور فتح کا نعرہ لگانے لگے۔
    کیا یہ جمہوریت کی فتح ہے یا طیب اردگان کے ان نظریات کی فتح ہے جو وہ اپنے ملک کو بتدریج اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہے ہیں۔ ایک ایسا ملک جسے جنگ عظیم اول اور خلافت کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک نے سیکولر ڈھانچے میں تبدیل کر دیا تھا۔ قدیم ترکی لباس ضبط کر لیے گئے تھے اور پینٹ کوٹ اور سکرٹ اور بلاؤز کو لباس بنا دیا گیا۔ عربی رسم الخط کی جگہ رومن رسم الخط نافذ کیا گیا۔
    یہاں تک کہ اذان بھی ترکی میں دی جانے لگی۔ ظلم اس قدر کہ پارلیمنٹ میں ارکان نے عربی میں اذان دینا شروع کی تو انھیں گولیوں سے بھوننا شروع کیا گیا اور سات ارکان نے جام شہادت نوش کر کے اذان مکمل کی۔ ان اقدامات کے خلاف جلال بابار اور عدنان مندریس کی حکومت آئی تو فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے وزیراعظم عدنان مندریس کو پھانسی دے دی اور صدر جلال بابار کو عمر قید۔ سو سالہ سیکولرازم اور امریکی مدد پر چلنے والی سیکولر فوج کی موجودگی میں طیب اردگان لوگوں کے دلوں میں چھپی اسلام سے محبت کو سامنے لے آیا اور اب پورا مغرب اسے ایک ڈراؤنا خواب سمجھتا ہے ۔انھیں اندازہ ہے کہ اردگان کے یہ چند اقدامات معاشرے کو وہاں لے جائیں گے جہاں شریعت معاشرے کا قانون بن جائے گی۔
    وہ معاشرہ جہاں مساجد ویران ہو چکی تھیں، طیب اردگان نے نہ صرف انھیں آباد کیا بلکہ صرف دو سالوں 2002ء اور 2003ء میں سترہ ہزار نئی مساجد تعمیر کروائیں۔ حجاب جس پر پابندی لگائی گئی تھی، یہ پابندی اٹھالی گئی اور نومبر 2015ء میں عالمی میڈیا میں یہ خبر بن گئی کہ ایک جج نے حجاب پہن کر کیس سنا۔ اتاترک نے تمام مدارس ختم کر دیے تھے اور ان کی جگہ’’امام ہاتپ‘‘ اسکول قائم کیے گئے جہاں اسلام کی مسخ شدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ اردگان نے پہلے ان کا نصاب بدلا اور اب ان اسکولوں میں جہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا، دس لاکھ طالب علموں نے داخلہ لیا۔ جب وہ برسراقتدار آیا تو ان اسکولوں میں صرف 65 ہزار طلبہ تھے۔ تمام اسکولوں میں مذہبی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا اور قرآن پاک کی عربی میں تعلیم کا اہتمام کیا گیا۔ اتاترک کے زمانے سے ایک پابندی عائد تھی کہ بارہ سال سے پہلے آپ قرآن پاک کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔
    اردگان نے یہ پابندی اٹھا لی۔ سکیولر لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ ایک بچے کو بارہ سال تک سیکولر نظریات پر پختہ کر لیا جائے اور پھر بے شک وہ قرآن پڑھے، اسے تنقیدی نظر سے ہی دیکھے گا۔ ایک مغرب میں رچے بسے معاشرے میں 2013ء میں اردگان نے اسکول اور مسجد کے سو میٹر کے اردگرد شراب بیچنے اور اسکے اشتہار لگانے پر پابندی عائد کر دی۔ ’’زراعت اسلامی بینک‘‘ کو سودی بینکوں پر ترجیح دی۔ اگرچہ کہ یہ تمام اقدامات بنیادی نوعیت کے ہیں اور معاشرے کو مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر نہیں ڈھال پاتے لیکن اس کے باوجود بھی خوف کا یہ عالم ہے کہ اردگان کے یہی اقدامات اگر جاری رہے تو ایک دن ترک معاشرے سے ایسی لہر ضرور اٹھ سکتی ہے جو شریعت کو نافذ کر کے دکھا دے گی اور شریعت اور خلافت یہ دو لفظ تو مغرب اور سیکولر لبرل طبقات کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ لوگ جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ اردگان کے اسلامی اقدامات کے حق میں نکلے۔
    اس کے لیے کہ اس سے پہلے کئی بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا لوگ مزے سے سوتے رہے‘ یہ اسلامی اقدار جو ان کی روح میں رچی بسی ہیں۔دنیا بھر کے سیکولر لبرل ساری رات بغاوت کی کامیابی خواہش میں تڑپتے رہے۔
    اگر یہ کامیاب ہو جاتی تو پھر ان کے تبصرے دیکھنے کے قابل ہوتے۔ کیسے فوجی بغاوت کی حمایت میں رطب اللسان ہوجاتے۔اب ناکام ہوگئے ہیں تو جمہوریت اور سسٹم کے بقا کے لیے عوام کی جدوجہد کا نعرہ لگا دیا اور پھر ان کی ہمنوائی میں پاکستان کی جمہوری سیاست کے بددیانت، کرپٹ اور چورسیاستدان بھی میدان میں آگئے جنھوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی اور اپنی جائیدادیں بنائیں۔ ترک عوام نے سرکس کے ہیرو کی طرح اپنی فنکاری دکھائی اور داد وصول کی۔ لیکن اب یہ ویسی ہی داد وصول کرنا چاہتے ہیں لیکن کیا کیا جائے لوگ ان کی خواہشوں اور گفتگو پر ویسے ہی مسکراتے ہیں جیسے سرکس کے مسخرے کی حرکتوں پر مسکراتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مسخرہ اپنے مسخرے پن پر داد چاہتا ہے اور وصول کرتا ہے۔ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ حرکتیں مسخرے والی کریں اور داد ہیرو کی وصول کریں۔

  • معرکہ قریب ہے .. اوریا مقبول جان

    معرکہ قریب ہے .. اوریا مقبول جان

    omj-harfaraz-1466700536-530-640x480
    یہ وہ زمانہ تھا جب اسکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم ہونے والا تھا۔ دونوں جانب سے زور شور سے دلائل دیے جارہے تھے۔ اسکاٹ لینڈ کے قوم پرست برطانوی استحصال کی مثالیں اسی طرح دیتے ہیں جیسے بلوچستان‘ سندھ‘ خیبرپختونخوا یا جنوبی پنجاب والے شکایتوں کی ایک طویل داستان تیار رکھتے ہیں۔ ایڈنبرا میں اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کے ایک چیمبر میں مجھے پاکستانی نژاد ممبر پارلیمنٹ حنظلہ ملک سے گفتگو کا موقع ملا۔

    گلاسکو سے لیبر پارٹی کی جانب سے منتخب ہونے والا یہ شخص 1995 سے 2012 تک گلاسکو میں سٹی کونسلر رہا‘ پولیس اور فوج کی نوکری کی اور ذاتی کاروبار بھی۔ برطانیہ میں اس زمانے میں مسلمانوں‘ خصوصاً ایشیائی مسلمانوں کے بارے میں نفرت کے جذبات زور پکڑ رہے تھے۔ عراق میں دولت اسلامیہ کا عروج ہوا تھا اور اسکاٹ لینڈ کے صحافی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اس صحافی کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنے کے لیے وہاں کے مسلمان بھی جمع ہوئے تھے‘ لیکن برطانیہ کے گورے انھیں شک کی نظر سے ہی دیکھتے رہے۔
    حنظلہ میری ملاقات کے وقت یعنی آج سے دو سال قبل 58 سال کا تھا‘ پیدائشی طور پر پاکستانی باپ اور پیدائشی طور پر برطانوی ماں کا بیٹا پانچ سے زیادہ دہائیاں یہاں گزارنے کے بعد اپنے اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے مستقبل سے سخت مایوس تھا۔ کہنے لگا میں ان لوگوں کے درمیان پلا بڑھا ہوں‘ میں ان کے چہرے پر آنے والی سلوٹوں سے پہچان لیتا ہوں کہ یہ ہم سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔ لیکن جتنی نفرت یہ ہم سے آج کررہے ہیں اتنی گزشتہ پچاس سالوں میں بھی انھوں نے نہیں کی۔ مسلمانوں کو تیار رہنا چاہیے‘ ایک ایسے وقت کے لیے جب انھیں یورپ کے شہروں سے ایسے ہی نکالا جائے گا جیسے انھیں کئی صدیاں قبل اسپین سے نکالا گیا تھا۔ ہمارے گھر‘ ہماری گاڑیاں اور ہمارے کاروبار پر ان کی نظریں ہیں۔

    یہ ہماری محنت سے حسد بھی کرتے ہیں اور ہم سے شدید نفرت بھی۔ ان دو سالوں میں پاکستانی والدین کے گھر پیدا ہونے والے برطانوی مسلمان رکن پارلیمنٹ کے الفاظ ایسے لگتا ہے حرف بہ حرف سچ ہوتے نظر آ رہے ہیں پورا یورپ گزشتہ پندرہ سالوں سے آبادی کے ایک بحران میں مبتلا تھا اور آج بھی ہے۔ یورپ کے پاس افرادی قوت کی کمی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کسی بھی معاشرے کو مستحکم رکھنے کے لیے ایک بوڑھے کے مقابلے میں پانچ نوجوانوں کی تعداد موجود ہونا چاہیے۔ لیکن یورپ کے اکثر ممالک میں یہ تعداد ایک بوڑھے کے مقابلے میں دو یا زیادہ سے زیادہ تین نوجوانوں تک رہ گئی ہے۔ مانع حمل ادویات یوں تو دنیا بھر میں آبادی کو کم کرنے کے لیے مارکیٹ میں لائی گئی تھیں لیکن یورپ میں اس کا نتیجہ خوفناک نکلا۔ خاندانی نظام پہلے سے ہی تباہ ہو چکا تھا‘ اب ان ادویات کی آسان دستیابی کی وجہ سے لوگوں نے بچے پیدا کرنا ہی چھوڑ دیے۔

    یہ سوچ پروان چڑھی کہ اپنی زندگی مزے سے گزارو‘ آیندہ نسل بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ ترغیبات دی گئیں۔ نہ صرف ماؤں بلکہ باپوں کو بھی تنخواہ سمیت چھٹیوں کا لالچ دیا گیا تاکہ بچے پیدا کریں۔ لیکن اس تباہ حال خاندانی نظام میں کوئی اولاد پیدا کرنا نہیں چاہتا۔ وہ کہتے ہیںکہ بڑھاپے میں اگر وہ ایک اولڈ ایج ہوم میںزندگی بسر کریں گے تو وہاں بہترین طبی سہولیات ہوں گی‘شاندار کھانا‘ نفسیاتی معالج‘ کھیل کود اور ورزش کا انتظام‘ غرض سب کچھ میسر ہو گا۔ ایسے میں ایسی اولاد پیدا کیوں کریں جس نے انھیں بڑھاپے میں ایسے ہی اولڈ ہوم میں چھوڑ جانا ہے۔

    اس لیے یورپ میں افرادی قوت کی شدید کمی واقع ہوئی۔ اس خلا کو پرکرنے کے لیے پہلے ایشیا اور افریقہ سے لوگ آئے تھے۔ ان کو میونسپل‘ ریلوے‘ ٹریفک اور دیگر نظام چلانے تھے۔ یورپی یونین بنا تو وہ مشرقی یورپ جو کمیونزم کے زیر اثر غربت و افلاس کی زندگی گزار رہا تھا‘ وہاں سے لوگ اٹھ کر مغربی یورپ کے امیر ملکوں میں آنے لگے۔ پولینڈ نے تو نقل مکانی میں وہی شہرت حاصل کر لی جو کبھی پاکستانی اور انڈین کو حاصل تھی۔ فرانس میں افریقی اور خصوصاً شمالی افریقہ کے لوگوں نے آباد ہونا شروع کیا کہ فرانسیسی زبان ان کے لیے مسئلہ نہ تھا۔ مدتوں یہ ملک فرانس کی کالونی رہے تھے۔ برطانیہ پر تو جیسے حملہ ہی ہو گیا۔

    یہی بنیادی وجہ تھی جس نے برطانیہ کے عوام کو یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ یہ لوگ تو یورپ کے باشندے تھے‘ ویسے ہی کا کیشیائی نسل سے تعلق اور عیسائیت مذہب کو اپنائے ہوئے‘ پھر بھی ان کو روکنے کے لیے اسقدر سخت قدم اٹھایا گیا کہ پونڈ کی قیمت تاریخی طور پر کم ترین مقام تک گر گئی۔ جب کہ مسلمانوں سے نفرت دن بدن عروج پکڑتی جا رہی ہے اور PEW ریسرچ سینٹر کی گزشتہ کئی سروے رپورٹس شایع ہوئیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ یورپ میں مسلمانوں سے نفرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

    پہلی رپورٹ میں یورپ میں موجود مسلمانوں کی پانچ اہم خصوصیات بنائی گئی ہیں۔ (1جرمنی اور فرانس میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور پورے یورپ میں یہ آبادی کا 7.5 فیصد ہیں جب کہ صرف روس میں ان کی تعداد 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ (2 مسلمان ہر دس سال بعد ایک فیصد زیادہ آبادی میں حصہ دار ہو جاتے ہیں-3مسلمان زیادہ تر نوجوان ہیں ان کی اوسط عمر 32 سال جب کہ عیسائی آبادی کی اوسط عمر42 سال ہے یعنی یہ کچھ عرصے بعد آبادی کا زیادہ بڑا حصہ بن جائیں گے۔(4 مسلمانوں کے خلاف اٹلی اور پولینڈ میں سب سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے جو بالترتیب 61 اور 56 فیصد ہے جب کہ اسپین میں42فیصد اور جرمنی‘ فرانس میں24 فیصد لوگ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔

    -5یورپ میں 2010 کے بعد ایک کروڑ تیرہ لاکھ مسلمان عراق‘ کوسود‘ بوسنیا اور مراکش سے نقل مکانی کر کے یہاں پہنچے ہیں جن کی وجہ سے معاشرتی صورت حال مزید گمبھیر ہوگئی ہے۔ PEW ریسرچ سینٹر کی دوسری رپورٹ دسمبر 2015 میں شایع ہوئی۔ اس میں انھوں نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو دنیا کے باقی مذاہب کے لیے ایک سوالیہ نشان کے طور پر بتایا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2050 تک 35فیصد اضافہ آبادی میں متوقع ہے اور جس طرح مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور دیگر مذاہب کی کم ہو رہی ہے‘ 2050 میں مسلمان دنیا میں 75فیصد زیادہ ہوں گے‘ عیسائی35 فیصد‘ ہندو34فیصد‘ یہودی 16 فیصد‘ علاقائی مذاہب 11فیصد‘ غیر مذہبی9 فیصد‘ چھوٹے مذاہب6فیصد اور بدھ منفی اعشاریہ 3فیصد بڑھیں گے۔ یعنی سب سے زیادہ اضافہ مسلمانوں کی آبادی میں ہو گا اور اگر یہی صورت حال جاری رہی تو صدی کے آخر تک مسلمان عیسائیوں سے زیادہ ہو جائیں گے۔

    اصل خطرہ آبادی سے نہیں بلکہ اصل خطرہ نظریات سے ہے اور اس سوچ سے ہے جو اس وقت مسلمانوں میں پائی جاتی ہے‘ PEW کے سروے کرنے والوں نے سوال کیا کہ کیا آپ شریعہ قوانین چاہتے ہیں یا نہیں۔ یہ سوال صرف مسلمانوں سے پوچھا گیا۔ تمام تر مغربی میڈیا‘ سیکولر تعلیم اور ترغیبات کے باوجود سوال بہت حیران کن تھا۔ یہ تازہ ترین سروے جو نومبر 2015 میں ہواہے۔ اس کے مطابق افغانستان میں99 فیصد‘ عراق میں91 فیصد‘ فلسطین میں89 فیصد‘ ملائیشیا میں86 فیصد اور پاکستان میں84فیصد مسلمان شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔ نائجیریا میں86فیصد‘ جبوٹی میں82فیصد‘ مصر میں74فیصد‘ مراکش میں85 فیصد‘ بنگلہ دیش میں 82فیصد‘ کانگو میں74فیصد‘ اردن میں71فیصد اور روس جیسے ملک میں بھی 42 فیصد مسلمان شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔ جب داعش یا دولت اسلامیہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو لوگ بات کرنے سے ہچکچاتے رہے۔

    پاکستانیوں میں سے 62فیصد نے کوئی جواب دینے سے انکار کیا۔ نائیجیریا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 14 فیصد مسلمانوں اور 7فیصد عیسائیوں نے داعش کو اچھا تصور کیا۔ باقی تمام مسلمان ملکوں میں داعش یا دولت اسلامیہ کے بارے میں اچھا تاثر نہیں تھا لیکن PEW کا سروے کہتا ہے کہ یورپ میں بسنے والے عیسائی یا انگریز‘ فرانسیسی اور جرمن وغیرہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان داعش کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یہ وہ یورپ کا تعصب اور نفرت ہے کہ وہ مسلمانوں کو اگر دہشت گرد نہ بھی سمجھیں تو ان کا ہمدرد ضرور تصور کرتے ہیں۔

    یہ ہے آج کا یورپ اور یہ ہیں آج کے مسلمان۔ یورپ جہاں ٹونی بلیئر کے خلاف رپورٹ آتی ہے اور یہ ثابت بھی ہو جاتا ہے کہ امریکا اور یورپ نے مل کر پندرہ لاکھ کے قریب عراقی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ لیکن حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ اس نے معافی صرف ان برطانوی سپاہیوں کے اہل خانہ سے مانگی جو جنگ میں مارے گئے تھے۔
    مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور ساتھ ان سے نفرت میں بھی اضافہ ہوا جب کہ اس کے ردعمل میں پوری مسلم دنیا میں جس رد عمل کا مظاہرہ ہوا وہ یہ تھا کہ رنگ نسل‘ زبان اور علاقے میں بٹے ہوئے ستاون سے زیادہ اسلامی ممالک میں صرف ایک ہی نعرے کی گونج سنائی دی اور وہ تھا شریعت کا نفاذ۔ یہی تو وہ نعرہ ہے جس سے پورا مغرب خوفزدہ ہوتا ہے۔ اسی نعرے کی گونج ہے کہ ساٹھ سال مغرب میں گزارنے والے بھی اب یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اسپین ایک دفعہ پھر بننے والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس آخری جنگ کا وقت قریب آ گیا جس کی پیش گوئی سید الانبیاء ﷺ نے فرمائی کہ اہل روم 80جھنڈوں تلے مسلمانوں سے لڑنے آئیں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار سپاہی ہوں گے (مستندرک‘ ابن حبان)۔ یورپ میں بسنے والوں کو اس کا اندازہ ہے‘ کیا ہمیں اندازہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔