Author: اوریا مقبول جان

  • جمہوریت کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہو گا-اوریا مقبول جان

    جمہوریت کے لیے اتنا تو برداشت کرنا ہو گا-اوریا مقبول جان

    orya

    یوں لگتا ہے یہ ہمارا قومی رویہ ہے کہ اگر کوئی ہماری خامیاں بیان کرے‘ ہماری خرابیوں اور غلطیوں کے بارے میں سوال کرے تو ہم اس کا جواب دینے کے بجائے مخالف کی خامیاں‘ خرابیاں اور غلطیاں گنوانے لگ جاتے ہیں۔ سیاست دانوں میں تو یہ رویہ آپ کو ہر ٹی وی کے ٹاک شو میں بدرجہ اتم نظر آئے گا۔

    اس رویے پر ہمارے دانشور‘ تجزیہ نگار اور کالم نگار اکثر تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کبھی کسی نے ان کے نظریات و خیالات کی خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی‘ انھوں نے بھی اس کا جواب دینے کے بجائے تنقید کرنے والے کے نظریات و خیالات کے لتے لینے شروع کر دیے۔ اس رویے میں کمال ان دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے جو جمہوری نظام کے مدح خواں ہیں اور اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔

    اگر جمہوریت سے جنم لینے والی ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کے بارے میں گفتگو کی جائے تو وہ اس بہت بڑی اور بنیادی خرابی کا جواب نہیں دیں گے بلکہ فوراً اپنے آپ کو امت مسلمہ سے خارج کر کے پوری اسلامی تاریخ میں پائے جانے والی خرابیوں کا ذکر اس انداز سے کریں گے جیسے یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر تم جمہوریت نہیں مانتے ہو تو بتاؤ مسلمانوں نے خود کونسے کارنامے تاریخ میں چھوڑے ہیں اور کونسی قابل تقلید طرز حکومت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انھیں جمہوری نظام میں دفاع کے قابل صرف ایک ہی خوبی نظر آتی ہے کہ اس کے ذریعے ایک بدترین حاکم کو پانچ سال بعد حکومت سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے جب کہ آمریت میں تو آدمی قابض ہو جائے تو پھر یا مرنے سے جاتا ہے یا پھر جنگ و جدل سے۔

    کاش وہ تاریخ کے یہ ورق بھی الٹتے کہ خلافت کے اعلیٰ و ارفع نظام کے تیس سال سید الانبیاءﷺ کے تخلیق کردہ معاشرے کی مرہون منت تھے‘ جو تعصبات سے بالاتر تھا‘ ذمے داری کے خوف سے عہدہ لینے سے دور بھاگتا تھا۔ اپنے جانشین اولاد نہیں‘ اہل لوگوں کو چنتا تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ رائے یا ووٹ کے لیے جاننے اور نہ جاننے والے کے درمیان تمیز رکھتا تھا۔ یہ ایک ایسا جمہوری معاشرہ نہیں تھا جس میں عظیم دانشوران اور مداحین جمہوریت کی رائے یا ووٹ ڈیڑھ سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کے برابر ہوتا ہے۔ جہاں ایک تہجد گزار‘عابد و زاہد اور ہیروئن کا دھندہ کرنے والے سے حکومت چلانے کے لیے برابر رائے لی جاتی ہے اور ان کا وزن بھی برابر ہوتا ہے۔

    ہم اپنا کاروبار چلانے‘ اپنی اولادوں کا رشتہ کرنے‘ بازار سے کوئی چیز خریدنے کے لیے بھی ان سے رائے لیتے ہیں جنھیں اس کا علم اور تجربہ ہوتا ہے۔ذاتی معاملات میں ہم جمہوری مزاج اور جمہوری رویے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ کسی مالک نے اپنی فیکٹری کے مزدوروں سے ووٹ لے کر یہ فیصلہ کیا ہو کہ نیا یونٹ لگاؤں یا نہ لگاؤں‘ تمام جاننے والوں سے ووٹ لے کر بیٹی کا رشتہ کیا ہو‘ یا پھر محلے بھر کے افراد سے اکثریتی رائے کی بنیاد پر مکان میں ایک کمرے کا اضافہ کیا ہو۔ دنیا کے تمام انسانوں کی زندگیاں ہر معاملے کے بارے میں اہل الرائے یعنی رائے دینے کی اہلیت رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کے درمیان تقسیم ہوتی ہیں۔

    امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک دنیا کے کسی ملک میں بھی کوئی شخص اپنے ذاتی معاملے میں اس شخص سے رائے نہیں لے گا جو اس معاملے میں جاہل اور لاعلم ہو۔ لیکن جمہوریت کا یہ نظام انسانی رویوں کے بالکل برعکس تخلیق کیا گیا۔ لیکن میرے اللہ نے تو انسانوں کی درجہ بندی کر رکھی ہے۔’’اے نبی‘ کہہ دو‘ کوئی برابر ہوتے ہیں سمجھ والے اور بے سمجھ‘ اور سوچتے وہی ہیں جن کے پاس عقل ہے (الزمر۔9)۔ ایک اور جگہ تو اللہ نے واضح اعلان کر دیا۔ ’’اے نبی ان سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہرحال یکساں نہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا فریفتہ کرنے والی ہو۔

    بس اے لوگو‘ جو عقل رکھتے ہو‘ اللہ کی نافرمانی سے بچو‘ امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی (المائدہ 100)۔ اللہ نے بار بار قرآن پاک میں انسانوں کی اکثریت کو نہ جانے والے‘ نہ شعور رکھنے والے اور نہ عقل رکھنے والے کہا ہے بلکہ رسول اکرمﷺ کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ’’اے نبی اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو گے جو زمین پر بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں (الانعام:116)۔ یہی اکثریت کا ظلم و ناانصافی ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں اقلیت سہہ رہی ہے اور اب امریکا کے عوام اس کا مزہ چکھیں گے۔

    جمہوریت کیسے آہستہ آہستہ اکثریت کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ تم اس ملک پر اپنی آمریت قائم کر سکتے ہو‘ امریکا میں ڈالے گئے گزشتہ سولہ سال کے ووٹوں کا PEW نے تجزیہ کیا ہے۔ یہ امریکا کا سب سے معتبر تحقیقی ادارہ ہے۔

    اس کے نزدیک سفید فام مذہبی تعصب نے ٹرمپ کی صدارت کی راہ ہموار کی۔ یہ تعصب 2000 کے الیکشن سے آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا اور اب یہ امریکی سیاست پر مکمل طور پر چھا گیاہے۔ جارج بش نے دوسری دفعہ جب 2004 میں الیکشن لڑا تو اسے سفید فام ایویلنیجکل عیسائیوں نے 78فیصد ووٹ دیے اور کیری کو 21فیصد‘ پروٹسنٹ عیسائیوں نے بش کو59فیصد اور کیری کو 40 فیصد سفید فام کیتھولک عیسائیوں نے بش کو56فیصد اور کیری کو 43فیصد جب کہ یہی کیتھولک اگر لاطینی امریکی یعنی ہسپانوی تھے تو انھوں نے بش کو 33فیصد اور کیری کو 65فیصد ووٹ دیے۔

    لوگ جو مذہب کو نہیں مانتے تھے ان میں سے 67فیصد نے کیری کو 31فیصد نے بش کو ووٹ دیا۔ چونکہ بش ایک شدت پسند اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا علمبردار تھا‘ اس لیے سفید فام عیسائی اکثریت نے اسے منتخب کروایا۔ یہ تعصب آہستہ آہستہ نکھرتا گیا اور ٹرمپ کو سفید فام ایویلنیجکل عیسائیوں نے 81فیصد‘ پروٹسنٹ عیسائیوں نے 58فیصد‘ سفید فام کیتھولک نے 60فیصد‘ اور عیسائیوںکے ایک صوفیانہ گروہ مورمون Mormon نے 61فیصد ووٹ ڈالے جب کہ ہلیری کلنٹن کو لا مذہب لوگوں نے 68فیصد اور ہسپانوی عیسائیوں نے 67فیصد ووٹ ڈالے۔ ٹرمپ امریکی جمہوریت میں سفید فام عیسائی اکثریت کے تعصب کو آہستہ آہستہ اس مقام پر لانے کی علامت ہے جہاں کئی سو سال بعد گوروں نے ایک بار پھر امریکا کو فتح کیا ہے اور یہ صرف ایک جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے۔

    جمہوریت کی جب بات ہوتی ہے تو اس کی اعلیٰ صفات اور اقدار کی بات ہوتی ہے‘ کوئی دنیا میں نافذ بدترین جمہوری حکومتوں کا ذکر نہیں کرتا‘ اچھی مثالیں دے کر ثابت کیا جاتا ہے کہ یہ بہتر نظام ہے‘ آمریت کو گالی دینا ہو تو کسی کو سنگاپورکا لی کوآن ہوا یاد نہیں آتا‘ کوئی مہاتیر محمد کا نام نہیں لیتا جو اقتدار چھوڑ رہا تھا تو قوم رو رہی تھی۔ کوئی معیشت دانوں کے بتائے اس اصول کو بیان نہیں کرتا کہ قوموں کی ترقی ہمیشہ ایک خیرخواہ (Benevolent) آمر کے زمانے میں ممکن ہوتی ہے۔

    کوئی چین کی ترقی کا ذکر نہیں کرے گا۔ اسلام میں رائے کے لیے ایک معیار مقرر ہے۔ اگر ووٹ دینے کے لیے 18سال کی عمر کی شرط رکھی جا سکتی ہے تو پھر مزیدشرائط کے طور پر پڑھا لکھا ہونا‘ ایماندار ہونا‘ جرم سے پاک ہونا جیسی شرائط رکھ کر ووٹنگ کارڈ بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کوئی مشکل کی بات نہیں۔ یہ سب ممکن ہے اگر نیت نظام کے نفاذ کی ہو۔ آمریت میں تو آمر کے خلاف جلوس نکال کر تحریک چلا کر اسے نکالا جا سکتا ہے کیونکہ آمر ایک گالی ہوتا ہے۔ لیکن اگر جمہوریت میں اکثریت کی آمریت نافذ ہو گئی اور پھر وہ تاریک رات کی طرح سالوں پر محیط ہو گئی تو ایسے ظالموں کو تخت سے کون اتارے گا۔

    اقلیت کو اکثریت کے عذاب سے نجات کون دلائے گا‘ کیا ملک سے وہ ہجرت کر جائیں جیسے ٹرمپ کے جیتنے کے بعد امریکا کے عوام نے کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں شہریت کی اتنی درخواستیں جمع کروائیں ہیں کہ ان کے سسٹم بیٹھ گئے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے ان ملکوں میں جانے سے اگر وہاں بھی اکثریت کا تعصب جاگ گیا تو پھر کیا ہو گا۔ میرے عظیم دانشور کندھے اچکا کر کہیں گے جمہوریت میں اتنا تو برداشت کرنا ہو گا۔لیکن جو اپنا جمہوری وطن چھوڑ کر بھاگے اور دوسرے جمہوری ملک میں بھی اکثریت کی آمریت کے ظلم کا شکار ہو گئے تو ان کے لیے بقول ذوق

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

  • اوریا مقبول جان نےجمہوریت اور جمہوری نظام کا پردہ چاک کردیا

    اوریا مقبول جان نےجمہوریت اور جمہوری نظام کا پردہ چاک کردیا

    اوریا مقبول جان جمہوریت کا ضمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ الیکشن ہوں یا پارٹی سیاست، معاشرے میں موجود تضادات، تعصبات،گروہی اختلافات حتیٰ کہ ذاتی اور خاندانی دشمنیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا نام جمہوریت ہے۔ جب تک کسی بھی معاشرے کو دو یا دو سے زیادہ انتہاؤں میں تقسیم نہ کر دیا جائے جمہوری نظام کا پودا ثمر آور نہیں ہو سکتا۔ جیسا معاشرہ ہوگا ویسے ہی تعصبات جمہوری طرز سیاست میں کھل کر سامنے آتے جائیں گے۔ اگر معاشرے میں نظریاتی اور اعلیٰ انسانی مقاصد کے حصول کی سوچ میں اختلاف رکھنے والے اکثریت میں ہوں گے تو انتخابات اور پارٹی سیاست میں بھی ویسی ہی سوچ غالب رہے گی۔

    ایک گروہ اخلاقی اقدار، معاشرتی اصلاح اور قدیم خاندانی طرز زندگی کے احیاء کی بات کرے گا تو دوسرا معاشی ترقی، انسانی حقوق اور جدید بےلگام بدلتی اقدار کی حمایت میں آواز بلند کرے گا۔ نظریات کی یہ لڑائی جمہوری سیاست میں دونوں گروہوں کو اس قدر سخت مؤقف اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کوئی اپنی بات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں معاشرہ نظریاتی سیاست کے بجائے روایتی گروہی سیاست کا امین ہو اور دنیا کے اکثر معاشرے اسی طرح تقسیم ہوئے ہیں، وہاں جمہوری سیاست تعصبات، نفرت، غصہ، انتقام اور تصادم کے عروج پر ہوتی ہے۔

    گزشتہ تین سو سال کی جمہوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس نظام نے انسانی حقوق، عدل و مساوات، عوام کی بالادستی اور آمریت سے نجات کے جو کھوکھلے نعرے بلند کیے تھے، وہ سب کے سب وقت گزرنے اور اس نظام کے بالغ ہونے کے ساتھ ہی تعصبات اور نفرتوں کے سیلاب میں بہہ گئے۔ ہر ملک کے جمہوری سیاسی نظام نے لوگوں کو ایک سبق سکھایا کہ یہ الیکشن سسٹم اور پارٹی سیاست تمام عوام کے لیے پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہ اکثریت کی بدترین آمریت کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ یعنی ایک گروہ جس کی اکثریت ہے اگر وہ کسی دوسرے کمزور اور چھوٹے گروہ کے خلاف متحد ہو جائے تو پھر وہ اسے جمہوری طور پر شکست دے کر اس کا جینا دوبھر کر سکتا ہے۔

    امریکی معاشرے کی دو سو تیس (230) سالہ جمہوری تاریخ کا نچوڑ آخر کار یہ نکلا کہ وہ تمام تر تعصبات اور نفرتیں جو دلوں میں موجود تھیں، انھوں نے جمہوری منافقت کا لبادہ تار تار کر دیا اور سفید فام اکثریت نے متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ سیاہ فام امریکیوں، مسلمانوں اور تارکین وطن کی اقلیت کو کیسے شکست دیتے ہیں اور پورے امریکی معاشرے پر کیسے اپنے تعصب کا راج نافذ کرتے ہیں۔

    دنیا کا ہر جمہوری ملک اب اسی راستے پر گامزن ہے اور اس کا آغاز دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت سے ہوا تھا۔ وہ ملک جس کی سیاست کی بنیاد اس منافقت پر مبنی تھی کہ وہ سیکولر ہیں، تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔ انسانوں کو رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر برابر سمجھتے ہیں۔ لیکن بھلا ہو اس جمہوری سیاست اور جمہوری نظام کا کہ اس نے بار بار کے انتخابات سے بھارت میں موجود ہندو اکثریت کو یہ یقین دلا دیا کہ اگر تم ہندو مذہب کے نام پر اکٹھا ہو جاؤ تو پھر تمہیں کوئی الیکشن میں شکست نہیں دے سکے گا۔ کوئی تمہیں اقتدار میں آنے سے نہیں روک سکے گا۔ پھر وہی ہوا، جمہوری بھارت کی تخلیق کے ٹھیک انچاس (49) سال بعد 19 مارچ 1998ء میں متعصب ترین ہندو تنظیموں کی آشیرباد اور ہندو اکثریت ووٹ کی بدولت اٹل بہاری واجپائی ایک ہندو ’’مُلا‘‘ کی نفسیات لے کر حکمران بنا۔ لیکن ابھی جمہوری نظام کی منافقت جاری تھی۔ ابھی سیکولرازم، برابری اور انسانی حقوق کے نعروں کے بغیر پارٹی چلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ابھی شاید ہندو اکثریت کے دماغ میں اپنی اکثریت کی آمریت کے نفاذ کا سودا نہیں سمایا تھا، لیکن جمہوری انتخابات نے اس تعصب کو اور نکھار دیا، اور سنوار دیا۔ گجرات کی ریاست میں اسی بدترین ہندو اکثریت کی جمہوری آمریت نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کی صورت موجود تھی۔ اس نے جس طرح مسلمان اقلیت کے خون سے ہولی کھیلی، اس جمہوری تجربے نے پورے بھارت کے ہندو ووٹر کو یقین دلا دیا کہ اگر تم اکٹھے ہو جاؤ تو پھر ان مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کو کیسے غلام بنا سکتے ہو، کیسے ان کا قتل عام کرنے کے باوجود بھی ڈکٹیٹر نہیں، جائز جمہوری حکمران کہلا سکتے ہو۔ پھر وہی ہوا، گجرات کی جمہوری اکثریت کی آمریت پورے بھارت پر نریندر مودی کی صورت میں نافذ کر دی گئی۔

    بھارت کا جمہوری معاشرہ اپنے تعصبات کو نکھارنے اور سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں صرف پچاس سال میں کامیاب ہو گیا جبکہ امریکی معاشرے کو سفید فام اکثریت کے تعصبات کو نکھارنے، سنوارنے اور منافقت کا لبادہ اتارنے میں دو سو تیس (230) سال لگ گئے اور بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ اور سوئے ہوئے امریکی سفید فام کے اندر چھپے ہوئے رنگ کے تعصب اور اس سوئے ہوئے امریکی عیسائی کے اندر سے مذہبی تعصب کو جگانے میں کامیاب ہو گیا اور آج جمہوریت کی معراج یعنی اکثریت کی آمریت امریکا میں نافذ ہو گئی۔

    امریکی معاشرے کے تعصب کے بارے میں ایک ایسی خاتون مصنفہ کا تبصرہ ان دنوں انتہائی مقبول ہے جس نے امریکی معاشرے کے تعصبات کو انتہائی نچلی سطح پر  پرکھا، دیکھا اور برتا ہے۔ بیتھنی سینٹ جیمز (Bethany St. James)۔ بیس سال تک Escort Service یعنی قانونی طوائف کی زندگی گزارنے والی یہ خاتون جسے امریکی معاشرے میں آج بھی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اس نے اپنا یہ پیشہ ترک کیا۔ ایک چرچ میں جاکر مذہبی تعلیم حاصل کی اور پھر امریکی معاشرے کی غلاظتوں پر مضامین لکھنے شروع کیے۔ اس نے اپنے تمام مضامین میں امریکی معاشرے کے اندر چھپے ہوئے تعصبات کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی اس کوشش کو ”Existance of Endurance” ’’یعنی برداشت کا وجود‘‘ قرار دیتی ہے۔

    اس نے امریکی معاشرے کی تصویر اپنے ایک مضمون Stereotyping and Prejudice in Beleive and Well in American Socity (امریکی معاشرے میں تعصبات اور لکیر کی فقیر زندگی بہت اہم ہیں)۔ اس مضمون میں وہ امریکی عوام کے تعصبات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔ ’’تمام اعلیٰ مقام اور پیشہ ور خواتین کنواری اور تنہا ہوتی ہیں۔ تمام لاطینی امریکی غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ تمام سفید فام اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ تمام ہم جنس پرست مرد بزدل اور نسوانی ہوتے ہیں۔ تمام عیسائی بائبل کا پرچار کرتے ہیں اور ہم جنس پرستوں سے نفرت کرتے ہیں۔ تمام سیاہ فام افریقی امریکی خیرات پر پلتے ہیں۔ تمام نیویارک کے رہنے والے اکھڑ اور بدتمیز ہیں اور تمام سیاستدان چالباز اور فراڈ ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہے کہ ان فقروں کے پڑھنے کے بعد آپ کے جسم میں ایک سنسنی ضرور دوڑی ہوگی۔ لیکن یہ امریکی معاشرے کی ایک بدترین حقیقت ہے اور یہ میں نے اپنی زندگی کے ان تجربات سے نچوڑی ہے جو مجھے ہر طرح کے امریکی کے ساتھ انتہائی قربت کے لمحات میں حاصل ہوئے۔ اس نے اپنا شہرہ آفاق مضمون Steady Decline of Affection in America ’’امریکا میں جذبہ ترحم کا خاتمہ‘‘ لکھا تو ٹیلی ویژن پر اسے بلا کر رگیدنا  شروع کیا گیا۔ اس نے کہا کہ میرے لیے کوئی حیرت کی بات نہ تھی کہ جب امریکیوں کی اکثریت یہ ماننے سے کو تیار نہ تھی کہ ایک طوائف بھی پڑھی لکھی ہو سکتی ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ نہیں کیا۔ اس نے امریکی معاشرے میں تعصبات کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس کو معلوم ہوگیا کہ امریکا کا انسانی حقوق، برابری و مساوات اور جذبہ خیر خواہی کا لبادہ ایک منافقت ہے۔ امریکی سفید فام متعصب ہے، امریکی عیسائی مذہبی منافرت پر یقین رکھتا ہے اور امریکی عوام ایک اہم عہدے اور پیسے کے اعتبار سے کامیاب خاتون کو تنہا اور خاندانی طور پر ناکام تصور کرتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے ان تعصبات کو نعرہ بنا لیا تو پھر جمہوریت اور جمہوری نظام کا تو خمیر ہی تعصب سے اٹھتا ہے۔ وہاں فتح اسی تعصب کی ہوتی ہے جس کی اکثریت ہو۔ اکثریت کا تعصب، اکثریت کی جمہوری آمریت قائم کرتا ہے اور بالآخر منافقت کا خاتمہ کرتا ہے۔ یہ صرف ابھی دو جمہوریتوں بھارت اور امریکا میں ہوا ہے۔ باقیوں کا انتظار کرو۔

  • تین محکمے‘ تین سوال-اوریا مقبول جان

    تین محکمے‘ تین سوال-اوریا مقبول جان

    orya

    جمہوریت ہو یا آمریت‘ شہنشاہت ہو یا کمیونزم‘ کسی بھی نظام کے تحت قائم ریاست میں ایک عدالتی نظام ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ عدالتی نظام کتنا ہی مفلوج کیوں نہ ہو‘ اس کو بادشاہ کے فرامین یا پارلیمنٹ کے قوانین نے بے بس کیوں نہ کر دیا ہو‘ پھر بھی یہ تمام ریاستیں‘ عدالتی نظام کا ایک ہی اعلیٰ و ارفع مقصد بیان کرتے ہیں اور وہ ہے ’’ہر حال میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا‘‘۔ یہی اعلیٰ و ارفع مقصد دنیا کے ہر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی بنیادی ذمے داری تصور کیا جاتا ہے۔

    بادشاہ غلطی کر سکتا ہے‘ بے انصافی سے کام لے سکتا ہے‘ پارلیمنٹ قوانین بناتے وقت کسی کا حق غضب کر سکتی ہے‘ کسی چور‘ ڈاکو یا بددیانت کو تحفظ دے سکتی ہے‘ آمر یا ڈکٹیٹر کا تعصب لوگوں کو انصاف سے محروم کر سکتا ہے‘ لیکن ان سب کے خلاف دادرسی‘ فریاد یا انصاف اور عدل کی درخواست صرف اور صرف عدالت عظمیٰ میں کی جا سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی نے یہ الٹی گنگا نہیں بہائی کہ قاضی‘ جج یا عدلیہ کے خلاف بادشاہ‘ صدر‘ یا وزیراعظم کو اپیل یا درخواست دی جائے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ حرف آخر سمجھا جاتا ہے‘ کیونکہ سلطنت کے کسی اور ادارے کا مقصد اولیٰ ’’عدل و انصاف کی فراہمی‘‘ نہیں ہوتا۔ کوئی ادارہ تعلیم مہیا کرتا ہے تو کوئی صحت کی سہولیات‘ کوئی سڑکوں کا جال بچھاتا ہے تو کوئی امن و عامہ کی ذمے داریاں نبھاتا ہے۔

    اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے جب یہ ادارے کوتاہی کریں‘ بے انصافی سے کام لیں تو اس وقت عدالتی نظام انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ اسی لیے دنیا کے جدید ترین جمہوری معاشروں میں آئین کے اندر سپریم کورٹ کے اختیارات کے ضمن میں ایک شق یا آرٹیکل ایسا ضرور رکھا جاتا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات لامحدود ہوتے ہیں۔ وہ انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی بھی طریق کار اختیار کر سکتی ہے اور کسی بھی قانون میں پائی جانے والی بددیانتی اور ناانصافی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 184(3) اسی مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے آرٹیکل دنیا کے ہر ملک کے آئین میں موجود ہیں جو اپنے ملک کی عدالت کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے لامحدود اختیارات دیتے ہیں۔

    پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 184(3) کہتا ہے ’’آرٹیکل 199 کے احکام پر اثر انداز ہوئے بغیر عدالت عظمیٰ کو‘ اگر وہ یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب (1) کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلہ میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اختیار ہو گا‘‘۔

    یہ ہے وہ بنیادی مقصد کہ اگر کوئی عوامی اہمیت کا سوال درپیش ہو تو عدالت آرٹیکل 199 کے تحت دیے گئے وسیع اختیارات بھی اور اس کے علاوہ بھی کوئی حکم صادر کر سکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم نکتہ عوامی ’’اہمیت کا حامل‘‘ ہونا ہے اور دوسرا بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ ایک کرپشن فری اور مبنی پر انصاف حکومت‘ پاکستان کے عوام کا بنیادی حق ہے‘ جب کہ اس کرپشن کے حوالے سے حکومتی کرپشن اور بددیانتی اس وقت پاکستان کا سب سے اہم عوامی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے میں ’’عوامی اہمیت‘‘ کے مسئلہ کو سننا شروع کیا ہے۔

    اس وقت سے لے کر اب تک عوام سے نہیں بلکہ سیاسی افراد کی جانب سے ایک بحث کا آغاز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اس بحث کا عوام سے کوئی تعلق نہیں‘ عوام تو بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بحث کو چھیڑنے کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عدالت کے اعلیٰ و ارفع مقصد یعنی ’’انصاف کی فراہمی‘‘ کو متنازعہ بنایا جائے۔

    پاناما لیکس کا مسئلہ سپریم کورٹ تک اس لیے پہنچا کہ پاکستان میں کرپشن اور بددیانتی کے خاتمے کی ذمے داری تین اداروں کے پاس ہے۔ -1نیب‘-2 ایف آئی اے اور -3فیڈرل بورڈ آف ریونیو۔ اگر یہ تینوں ادارے اپنی ذمے داریاں نبھاتے توآج پاناما لیکس کا عفریت عوام کے دماغوں پر نہ چھایا ہوتا۔ اگر پاکستان کا کوئی محکمہ اپنی ذمے داریاں ادا نہ کرے تو سپریم کورٹ بلکہ ہائی کورٹ بھی ان کی درستگی کے لیے حکم جاری کر سکتی ہے۔

    سپریم کورٹ اگر اس کیس کے دوران نیب کے حکام کو بلا کر سوال کرے کہ تمہارے قانون کے مطابق اگر کسی حکومتی اہلکار یا فرد پر الزام ہو کہ اس نے کرپشن کی ہے‘ ناجائز ذرایع سے جائداد اور کاروبار کیا اور اپنے معلوم ذرایع سے زیادہ دولت کا مالک ہے تو نیب کا فرض ہے کہ وہ اس شخص کو بلائے اور اسے فرد جرم سنائے پھر یہ اس فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ بے قصور ہے۔ کیا نیب نے پاناما لیکس کے تمام کرداروں کو اس طرح نوٹس جاری کیے اور کیا جواب نہ آنے پر انھیں گرفتار کیا۔

    سپریم کورٹ ایف آئی اے کے حکام کو طلب کر کے یہ پوچھ سکتی ہے کہ کیا تمہارے علم میں آیا تھا کہ اس ملک کے کچھ لوگ جن کا یورپ یا بیرون ملک کوئی کاروبار نہیں‘ وہاں اچانک جائیداد خریدتے ہیں اور کاروبار کا آغاز کرتے ہیں۔ یقیناً پیسہ پاکستان سے گیا ہوگا‘ جسے منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔ تم ایک عام آدمی کو خاندان سمیت اٹھا لیتے ہو‘ کیا تم نے اس معاملے میں ایسا کیا۔سپریم کورٹ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام کو بلا کر سوال کر سکتی ہے کہ تمہارا ایک انسپکٹر اگر کوئی شخص ایک گاڑی خرید لے‘ چھوٹا سا گھر بنا لے تو اس کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ تمہارے سامنے ان لوگوں کی جائیدادیں ایسے بڑھتی چلی گئیں جیسے ان کو اعلیٰ قسم کھاد ملتی رہی۔ وہ مٹی کو ہاتھ ڈالتے تو وہ سونا بن جاتی۔ کیا تمہارے ریکارڈ کے مطابق یہ سب درست ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ انکم ٹیکس کے انسپکٹر سے لے کر کمشنر تک سب اس ’’قسمت کی باوری‘‘ کا بھید جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ ان پچاس سالوں کے بارے بھی جواب طلب کر سکتی ہے۔

    اگر یہ تینوں محکمے اپنی مجبوری کا اظہار کر دیں اور کہیں کہ ہم دباؤ کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ایک حکم نامے کے ذریعے تینوں محکموں کو فوراً ختم کردے اور اس کے افسران کو فارغ کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے ممکنہ سزا بھی سنا دے۔ صرف اس حکم نامے کی وارننگ کی دیر ہے‘ ملک بھر سے ایسے ہزاروں اہل کاروں کا ہجوم سپریم کورٹ کی طرف یہ کہتے ہوئے بھاگے گا کہ ہم اس کرپشن کی تحقیق کر سکتے۔ ہم اہل ہیں‘ ہم راضی ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جا سکتا تو پھر آئین کی کتاب سے آرٹیکل 184(3) کو کھرچ کر پھینک دینا چاہیے۔

  • اوریا مقبول جان کی نواز شریف کے اثاثوں پر خصوصی تحریر

    اوریا مقبول جان کی نواز شریف کے اثاثوں پر خصوصی تحریر

    اوریا مقبول جان انکم ٹیکس کے گوشواروں کی دنیا بھی عجیب ہے۔ ہر سال وکیل اس ملک کے سرمایہ داروں کا ٹیکس بچانے کے لیے ایسے ایسے داؤ پیچ اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں کہ آدمی حیران اور ششدر رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک گوشوارے کے بارے میں آج کے ایک اخبار میں ایک مشہور آڈٹ فرم کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ وزیراعظم پاکستان اور ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف کے ٹیکس گوشواروں میں کسی بھی قسم کی کوئی لاقانونیت نہیں پائی جاتی اور یہ عین انکم ٹیکس قانون کے مطابق ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی پرائیویٹ آڈٹ کمپنی خواہ وہ کس قدر قابل اعتماد کیوں نہ ہو، کی کوئی رپورٹ اس وقت تک قانون میں اعتماد کا درجہ نہیں رکھتی جب تک اس کام پر مامور سرکاری محکمہ آڈیٹر جنرل یا انکم ٹیکس آڈٹ کے افسران اس کی تصدیق نہ کریں۔ اس لیے کہ تمام آڈٹ فرمیں مختلف کمپنیوں کے آڈٹ اس لیے کرتی ہیں کہ ان کے نامکمل کاغذات کو مکمل کرائیں، اور ان کی خامیاں دور کریں۔ ان کمپنیوں کا خرچہ وہ سرمایہ دار خود ادا کرتے ہیں البتہ وہ رپورٹ قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے جو کسی عدالت یا حکومتی محکمہ کی جانب سے انکوائری کےلیے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے طور پر پیش کی جائے۔ اس لیے پہلی بات تو یہ کہ آڈٹ رپورٹ کی حیثیت ایک خبر سے زیادہ نہیں، جو ایک اخبار میں شہ سرخی کے طور پر شائع ہوئی۔

    آئیں اب دیکھتے ہیں کہ میاں محمد نوازشریف کے 2011ء میں انکم ٹیکس کے گوشواروں میں کیا تھا جس کی پانچ سال بعد ایک پرائیویٹ آڈٹ فرم سے تصدیق کروائی گئی۔ اس گوشوارے میں ملک کے غریب و بےنوا سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا نہ کوئی ذاتی کاروبار ہے اور نہ ہی آمدن کا کوئی ذریعہ۔ وہ لندن سے اپنے بیٹے (جن کا نام درج نہیں) سے 1،29،836،905 تقریبا تیرہ کروڑ روپے منگواتے ہیں، جن میں سے وہ اپنی زیرکفالت مریم نواز کو 31،700،1080 یعنی تین کروڑ روپے گفٹ کر دیتے ہیں اور اپنے ایک بیٹے حسن نواز کو بھی 19،459440 یعنی تقریبا دو کروڑ روپے عنایت کر دیتے ہیں۔ میں نے مریم نواز کو زیرکفالت اس لیے لکھا ہے کیونکہ اس انکم ٹیکس کے گوشوارے میں ایک خانہ ہے جس میں یہ سوال پوچھا گیا ہے (اثاثے جو آپ کی بیوی، نابالغ بچوں یا دیگر زیرکفالت افراد کے نام پر ہیں)، اس خانے میں مریم نواز کے نام پر ایک زرعی جائیداد دکھائی گئی ہے جس کا کوئی نام مقام نہیں ہے، لیکن اس کی مالیت 24،851،526 روپے یعنی تقریبا ڈھائی کروڑ روپے بتائی گئی۔

    ایک سال کے بعد خیال آیا کہ یہ زرعی زمین جو مریم نواز کے نام پر ہے، اس کا علیحدہ گوشوارہ جمع کروایا جائے، کہ کہیں لوگ یہ سوال نہ کرنے لگیں کہ باقی دو بچوں کو کوئی جائیداد نہیں دی، کس قدر ناانصاف باپ ہے۔ یوں مریم نواز نے 2012ء میں پہلی دفعہ نیشنل انکم ٹیکس نمبر حاصل کیا اور اپنے باپ سے جو تین کروڑ روپے گفٹ کے طور پر لیے تھے، اس میں سے زمین کی قیمت 24،851،526 روپے واپس کر دیے، گویا باپ کے دیے گئے پیسوں کی صورت تحفے کو زمین کے طور پر بدل دیا۔ ان سارے تحفوں کے بارے میں اس وقت ایک بےچاری اسسٹنٹ انکم ٹیکس کمشنر نے نوٹس جاری کیا کہ یہ ساری دولت جو بیٹے سے باپ اور پھر باپ سے بیٹے اور بیٹی کو دی گئی ہے، اگر یہ کراس چیک کی صورت نہیں ہے تو یہ گفٹ یا تحفہ شمار نہیں ہوگی بلکہ یہ آمدنی شمار ہوگی جس پر آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس گستاخی پر اس خاتون کو جو سزا بھگتنا پڑی، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

    یہ ہے اس گوشوارے کی مختصر سی کہانی جس کو ایک عام سی سمجھ بوجھ والا آدمی بھی اگر پڑھے تو اسے حیرت و استعجاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ وہ میاں محمد نواز شریف جس کے چوہدری شوگر مل میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے حصص ہیں، رمضان شوگر ملز اور حدیبیہ پیپرز میں حصے ہیں، وہ پہلے پیسے منگواتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لندن کے کسی کاروبار کا منافع حاصل کر رہا ہے، اور پھر یہ ”غریب آدمی“ اس میں سے بیٹے بیٹی کو کروڑوں روپے گفٹ کر دیتا ہے، اور اسی سے بیٹی باپ کو زمین کے پیسے ادا کرتی ہے، مگر کیونکہ انکم ٹیکس قوانین کے مطابق کراس چیک کے بغیر رقم دراصل آمدن شمار ہوتی ہے، (یہ وہی زرعی اراضی ہے جس کا انکار مریم نواز اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کر چکی ہیں) اس لیے سوال اٹھتا ہے مگر جواب کے بجائے بےچاری اسسٹنٹ کمشنر پر نزلہ گرا دیا جاتا ہے. یہ میاں محمد نوازشریف صاحب جن کا کوئی ذریعہ آمدن اس قابل نہ تھا کہ گزارا ہو سکے، اور وہ اپنے بیٹے سے پیسے منگوانے پر مجبور تھے، وہ اس شریف خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس کے خلاف 16مارچ 1999ء کو لندن کی ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ صادر کیا کہ حدیبیہ پیپرز، میاں شہباز شریف، میاں محمد شریف اور میاں عباس شریف کے خلاف التوفیق انوسٹمنٹ فنڈز نے جو قرضہ واپس لینے کا دعوی کیا ہے، وہ مبنی برحقیقت ہے اور رقم ادا کی جائے۔ 5 نومبر 1999ء تک قرضہ ادا نہ کیا گیا تو عدالت نے شریف خاندان کے چار فلیٹ قرضے کے بدلے میں اٹیچ کر دیے جو لندن میں واقع ہیں۔ یہ وہی فلیٹس ہیں جن کی ملکیت کے بارے میں ہر کوئی مختلف تاریخیں بتاتا ہے۔ میاں محمد شریف کی ملکیت سے فلیٹ براہ راست بچوں کو منتقل ہو گئے اور میاں محمد شریف نے اس دنیاوی دولت کی طرف اپنی درویشانہ خصلت کی وجہ سے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔

    یہ صرف ایک پہلو ہے۔ ایک جائیداد ہے، ایک گوشوارہ انکم ٹیکس ہے، جوابدہی کرنا ہو تو جس تاریخ سے یہ خاندان اقتدارکی راہداریوں میں آیا ہے، اس دن سے آج تک سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ پر قسمت کی دیوی اس قدر مہربان کیسے ہو گئی؟ یہ صرف پانامہ لیکس کا معاملہ نہیں، پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ پاکستان کا مستقبل اور ترقی صرف اور صرف ایک بنیادی تصور میں پوشیدہ ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے جو انکم ٹیکس، منی لانڈرنگ یا کرپشن ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں، وہ اس ملک کے ہر طاقتور کا گریبان پکڑ کر سوال کریں، اور اگر وہ نہ کریں تو عدالت اس پر مجبور کرے، اگر عدالت بھی کچھ نہ کرے، اور اس ظلم پر خاموشی رہے تو یہ ملک کو بربادی کی گہری کھائی میں پھینکنے کے مترادف ہوگا۔

    سوال کیا جاتا ہے کہ عدالت کی حدود کیا ہیں؟ یہ معاملہ تو پارلیمنٹ کا ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی یہی ہے کہ عام آدمی کرپشن، منی لانڈرنگ یا انکم ٹیکس چوری کرے تو یہ ایک جرم ہے لیکن سیاستدان ایسا کرے تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے، سیاسی انتقام ہے، کسی کو سوال کرنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے۔ عام آدمی بددیانتی، کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کرے تو مجرم اور چور جبکہ کوئی سیاستدان کرے تو سیاسی الزام۔ عدالت پر صرف ایک ہی بات لازم ہے کہ وہ عام آدمی اور صاحب حیثیت کے درمیان عدل کرتے ہوئے فرق کو ختم کر دے۔ کیا نیب کو بلا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمھارے قانون کے مطابق جس شخص پر الزام ہو، اسے خود اپنی صفائی میں بتانا ہوگا کہ یہ الزام غلط ہے۔ مریم نواز کو نیب قوانین کے تحت پانامہ پیپرز لا کر دکھانا ہوگا کہ اس میں اس کا نام نہیں بلکہ بھائیوں کا نام ہے۔ ایف آئی اے کو بلا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمھارے سامنے پاکستان کے خاندان نے ملک کے باہر اثاثے بنائے، جبکہ ان کا وہاں کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا، تم روز منی لانڈرنگ پر عام آدمی کو پکڑتے ہو، تم تحقیق و تفتیش کرکے بتاؤ۔ انکم ٹیکس کے حکام کو بلا کر پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک نئی گاڑی خریدنے پر تمھارا انسپکٹر عام آدمی کا جینا حرام کر دیتا ہے، تم نے گذشتہ برسوں میں اس قدر تیزی سے بڑھنے والے کاروبار کے بارے میں کیا کیا۔ اگر یہ عوام کے ٹیکس پر پلنے والے تمام ادارے انکار کر دیں اور کہہ دیں کہ ہم میں یہ ہمت و جرات نہیں کہ ہم قانون پر عملدرآمد کر سکیں تو کیا سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ ان تینوں اداروں کے تمام اہلکاروں کو بیک جنبش قلم سزا سنا دے، تمام اہلکاروں کو نوکری سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ جو ادارے اپنے بنیادی مقصد یعنی کرپشن، منی لانڈرنگ یا ٹیکس چوری کا خاتمہ کرنے سے انکار کرتے ہیں، ان کے ”وجود مسعود“ کی اس ملک کو کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے میں عدالت اس اداروں کی غیرموجودگی میں اپنی مدد کےلیے دنیا کے کسی بھی آزاد تفتیشی ادارے کی مدد لے سکتی ہے۔ لیکن شاید اس کی نوبت ہی نہ آئے۔ ان تینوں اداروں کو ختم کرنے کی وارننگ دے کر دیکھیں، خوف سے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں گی، ہزاروں اہلکار نوکری بچانے اور جیل سے بچنے کےلیے ثبوت ہاتھوں میں لے کر عدالت کی جانب بھاگیں گے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو آئین کے آرٹیکل 184 کو کھرچ دینا چاہیے۔

  • قانون کی حکمرانی نہیں انصاف کی حکمرانی، فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان

    قانون کی حکمرانی نہیں انصاف کی حکمرانی، فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان

    orya

    دنیا میں جہاں کہیں سودی سرمایہ دارانہ نظام کا پروردہ جمہوری نظام نافذ ہے وہاں ایک تصور بہت عام ہے، ’’قانون کی حکمرانی یا قانون کی بالادستی‘‘ ۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انصاف کو قانون کے ماتحت ہونا چاہیے‘ اور قانون وہ ہے جسے عوام کے منتخب نمایندے اکثریت کی بنیاد پر بناتے ہیں۔ جمہوریت کو ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کہا جاتا ہے یعنی اگر اکیاون فیصد ممبران اسمبلی انچاس فیصد اقلیت کے خلاف ایک قانون منظور کر لیتے ہیں تو وہ اس ملک کا قانون بن جاتا ہے۔

    چار سو کے لگ بھگ ارکان اسمبلی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر ایک قانون منظور کرتے ہیں کہ صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وزراء کے مالی معاملات میں کوئی عدالت‘ ملک کا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ یا بددیانتی اور کرپشن کے خلاف کارروائی پر مامور محکمہ مداخلت نہیں کر سکتا۔ انھیں طلب نہیں کر سکتا‘ ان کے کاغذات کی جانچ پڑتال نہیں کر سکتا‘ اگر وہ ایسا کرے گا تو ان کا استحقاق مجروح ہو گا۔ایسے میں یہ ملک کا قانون بن جاتا ہے اور اس پر اگر مکمل طور پر عملدرآمد ہو جائے تو اسے قانون کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لازم و ملزوم ہے۔

    اس کے مقابلے میں ایک لفظ ہوتا ہے ’’انصاف کی حکمرانی‘‘۔ اس کا بنیادی مقصد اور ہدف یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان انصاف کیا جائے۔ اگر کوئی طاقتور ایک قانون اپنے حق میں منظور کر والیتا ہے تو اس کو پس پشت ڈال کر کمزور‘ محکوم اور مجبور کو اس کا حق دلایا جائے۔ انصاف کی حکمرانی کے اصول کسی پارلیمنٹ یا کانگریس کے مرہون منت نہیں ہیں۔

    یہ اصول ہر معاشرے کو صدیوں سے ازبر ہیں۔ اس لیے کہ یہ اصول دنیا کے ہر الہامی مذہب نے اصول ہدایت کے طور پر لوگوں کو سکھائے ہیں۔ انھیں اکیاون فیصد اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ سو فیصد لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی قانون کو سچ اور جھوٹ کی تعریف کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ دھوکا‘ فریب‘ بددیانتی‘ کرپشن‘ حق تلفی‘ قتل اور تشدد جیسے جرم بھی تعارف اور تعریف کے محتاج نہیں ہوتے۔

    لوگوں کو یہ بھی خوب پتہ ہے کہ انصاف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب طاقتور ترین اور کمزور ترین کے درمیان کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ علاقہ‘ گروہ‘ قبیلہ‘ برادری یہاں تک کہ سیاسی پارٹی کا تعصب بھی انصاف کی حکمرانی کا تصور باطل کر دیتا ہے۔ اسی لیے انصاف کی حکمرانی کے تمام اصول ازلی‘ ابدی اور الہامی ہیں جب کہ قانون کی حکمرانی کے اصول انسانی اکثریت کے محتاج ہیں۔

    انسانی معاشرے نے شروع دن ہی سے اپنے درمیان عدل اور انصاف کرنے کے لیے انسانوں کو ذمے داریاں سونپیں اور ادارے تخلیق کیے۔ جرگے سے پنچایت تک اور قاضی سے جج تک ایسے تمام ادارے اور فرد اس لیے منتخب کیے گئے کہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کریں گے۔ دنیا کے ہر ملک میں موجود کہانیوں کا آغاز ایک جیسے فقرے سے ہوتا ہے ’’ایک تھا بادشاہ جس کے دور میں اس قدر انصاف تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے‘‘۔

    انصاف پہلے بھی جرگہ‘ پنچایت‘ قاضی اور جج کے پاس تھا اور آج بھی یہ انھی کی ذمے داری ہے۔ پہلے بادشاہ قاضی یا جج پر قدغن لگا کر اسے اپنے احکامات کا پابند کرتے تھے اور آجکل جمہوری معاشرے‘ قانون کی حکمرانی کے نام پر عدالتوں کے اختیار صلب کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انصاف کی بالادستی کی کہانی سناتی ہے جب کہ جمہوریت کی تاریخ پارلیمنٹ کی بالادستی کا درس دیتی ہے‘ یعنی اکثریت کی بالادستی۔

    جس طرح بادشاہوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے انصاف کی حکمرانی کے علمبردار قاضیوں کے وجود سے تاریخ کی صفحات روشن ہیں‘ اسی طرح پارلیمنٹ کی آمریت کے مقابلے میں سینہ سپر ہونے والے جج بھی دنیا کی ہر جمہوریت میں پائے جاتے ہیں۔ جب کبھی بھی کسی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ کیا وہ انصاف کی بالادستی کے لیے پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو مسترد کر سکتی ہے یا نہیں تو اس وقت عدالتوں کے سامنے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان مارشل Jan Marshall کا وہ شہرہ آفاق فیصلہ ضرور پیش ہوا جو انھوں نے مشہور مقدمے مربری بمقابلہ میڈیسن (Marbury VS Madisan) میں دیا تھا۔

    1803ء میں سپریم کورٹ کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوا جس میں یہ بنیادی سوال سامنے آیا کہ اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کر لیتی ہے جو آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق جن میں انصاف کا حق بھی شامل ہے‘ اس سے متصادم ہے تو کیا عدالت اس قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

    اس پر جسٹس مارشل کا تاریخی فیصلہ گونجتا ہے کہ انصاف کی حکمرانی ایک تصور ہے جس کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمے داری ہے اور اگر کانگریس کوئی ایسا قانون منظور کرتی ہے جس سے انصاف کے بنیادی حق پر ضرب لگتی ہے تو عدالت اسے منسوخ کر سکتی ہے اور عدالت کسی ایسی پابندی کو بھی نہیں مانتی جو کانگریس اس کے اس بنیادی اختیار کو محدود کرنے کے لیے لگاتی ہے جس کا مقصد انصاف کی حکمرانی‘ بالادستی اور فراہمی ہے۔

    دنیا کے ہر ملک میں اعلیٰ ترین عدلیہ کا یہ اختیار مسلم سمجھا گیا کہ اس کا بنیادی مقصد انصاف کی حکمرانی ہے کیونکہ اس کے بعد صرف اللہ تعالیٰ کی عدالت باقی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ایسے قوانین جو انصاف کی فراہمی سے روکیں‘ سپریم کورٹ انھیں ختم کر سکتی ہے۔

    پاکستان کی سپریم کورٹ بھی ایسی ہی ایک تاریخ مرتب کرنے جا رہی ہے۔ اس کا آغاز اس دن ہو گیا تھا جب انھوں نے حکومت کی جانب سے 1956ء کے تحت کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس طرح کی لامتناہی کوشش کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘ ہمیں بتائیں کس کس کے خلاف تحقیقات کرنا ہیں۔ حکومتوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ ایک کمیشن بنایا جائے اور پھر اس کی سفارشات پر سانپ بن کر بیٹھا جائے جیسے ماڈل ٹاؤن واقعہ میں باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ ہے۔

    گزشتہ سات ماہ سے نواز شریف حکومت اس خط کا جواب نہیں دے رہی تھی اور تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر ٹی او آر کی بانسری بجائی جا رہی تھی۔ دوسری جانب وہ ادارے جن کی ذمے داری تھی کہ پاکستانی تاریخ کے اتنے بڑے اسکینڈل پر تحقیقات کا آغاز کرتے جیسے نیب‘ ایف آئی اے‘ اور ایف بی آر‘ وہ صرف اس لیے اپنی نااہلی کا اظہار کرتے رہے کیونکہ وزیراعظم کے خاندان کے لوگوں کے نام اس میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقی دو سو کے قریب افراد جن کا نام پانامہ لیکس میں تھا ان پر بھی ہاتھ نہ ڈالا جا سکا۔

    حکومت کو اندازہ تھا کہ جیسے اس ملک میں باقی اسکینڈل دفن ہو جاتے ہیں‘ ویسے ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دفن ہو جائے گا‘ لیکن عمران خان کی پاکستانی سیاست پر یہ مہربانی یاد رکھی جائے گی کہ اس نے پانامہ لیکس کے اس اسکینڈل کو دفن نہیں ہونے دیا۔ یہ اسکینڈل زندہ رہا اور اس نے 20 کروڑ عوام کو مضطرب‘ بے چین اور بے خواب رکھا۔ لوگ مسلسل سوچتے تھے اس کا فیصلہ کون کرے گا۔ کیا یہ اس وقت کھولا جائے گا جب حکومت ختم ہو گی اور پوری ن لیگ پکارے گی کہ یہ ایک سیاسی انتقام ہے لیکن نہیں‘ ایسا نہ ہو سکا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر لیا کہ انصاف کی حکمرانی اور بالادستی صرف اور صرف انھی کا فریضہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس کیس کو سنیں گے اور قوم کو بے یقینی کے عذاب سے نکالیں گے۔ سپریم کورٹ کے پاس آئین کی دفعہ 184(3) کے مطابق جو اختیارات ہیں‘ ان کے تحت وہ عوامی اہمیت کے ہر معاملے میں کسی بھی قسم کا حکم جاری کر سکتی ہے اور آرٹیکل 190 کے تحت اس حکم کے نفاذ کی ذمے داری پاکستان میں موجود ہر انتظامی اور عدالتی فرد یا ادارے پر ہے۔

    سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ طے کرے گا کہ پاکستان میں اگر پوری پارلیمنٹ بھی انصاف‘ عدل اور اخلاق کے خلاف متحد ہو جائے‘ سپریم کورٹ اکیلی اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کی بنیادی ذمے داری انصاف کی حکمرانی ہے قانون کی حکمرانی اس کے تابع ہے۔

    نوٹ:میرے نام سے فیس بک پر بہت سے خیر خواہوں نے مختلف قسم کے پیج بنا رکھے ہیں جو میرے نام سے منسوب ہیں‘ لیکن ایک پیچ Orya Maqbool Jan Official ایسا پیج ہے جس سے لوگ اکثر یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ یہ میرا اصل پیج ہے۔ میرا اس پیج سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس پر شایع شدہ مواد کا ذمے دار ہوں۔ میرے ذاتی فیس بک پیج کا ایڈریس یہ ہےhttps://m.facebook.com./oryamj/۔

  • اس سوال کا جواب ضروری ہے-اوریا مقبول جان

    اس سوال کا جواب ضروری ہے-اوریا مقبول جان

    orya

    پورا کوئٹہ شہر سوگوار ہے۔ یوں تو اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کا تعلق بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تھا، لیکن اس شہر کی خصلت اور عادت میں شامل ہے کہ ہر کسی کے غم میں ضرور شریک ہوتا ہے۔ یوں بھی بلوچستان کے بلوچ اور پشتون قبائل میں فاتحہ کی رسم کئی مہینے تک چلتی رہتی ہے۔

    لوگ میلوں کا سفر کر کے مرنے والے کا پرسہ دینے آتے ہیں۔ فاتحہ کی رسم بھی ان کے ہاں کمال کی ہے۔ سب سے پہلے کسی کے گھر جا کر بچھی ہوئی دری یا قالین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی سے سلام دعا یا ہاتھ نہیں ملاتے، بلکہ فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ علاقے کا مولوی مستقل وہاں بیٹھا رہتا ہے۔ جو باآواز بلند دعا کرتا ہے۔ فاتحہ کرنے کے بعد ایک دوسرے کا حال پوچھا جاتا ہے۔

    اس معاشرے کا کمال یہ ہے کہ دو قبیلوں یا گھرانوں کے درمیان شدید دشمنی بھی چل رہی ہو، ایک دوسرے کے افراد قتل بھی ہو رہے  ہوں لیکن جب تک کوئی شخص اپنے عزیز کی فاتحہ پر بیٹھا ہوتا ہے اتنے عرصے کے لیے دشمنی ترک کر دیتے ہیں جسے یہاں کی زبان میں ’’خیر‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح کی روایتوں کے امین معاشرے میں ’’کوئٹہ‘‘ شہر کا سوگوار ہونا لازم تھا۔

    ویسے بھی کوئٹہ بلوچستان کے وسیع و عریض صوبے میں واحد مقام ہے جسے محدود معنوں میں شہر کہا جا سکتا ہے۔ یعنی جہاں مریضوں کے علاج کے لیے اسپتال ہیں۔ پڑھنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی ہے۔ اشیائے صرف اور ضرورت کی خریدو فروخت کے لیے بڑی بڑی مارکٹیں ہیں۔ سیوریج اور واٹر سپلائی کا نظام ہے۔ اسٹریٹ لائٹس ہیں۔ ٹریفک ہے اور ٹریفک کے سپاہی بھی ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو صرف اور صرف کوئٹہ میں نظر آئے گا۔

    اگرچہ کہ اس سب کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ آپ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ جس سنڈیمن پروونشل اسپتال کی حالت پنجاب کے کسی بھی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے بھی ابتر ہے۔ وہاں ہزار کلو میٹر دور گوادر، سات سو کلو میٹر دور تفتان، پانچ سو کلو میٹر دور کراخراسان اور اتنے ہی دور علاقوں سے مریض لائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ پورے بلوچستان میں دل، گلے، گردے، ہڈی جلد یا کسی اور جسم کے حصے کے علاج کا اسپیشلسٹ صرف اور صرف کوئٹہ میں ملے گا۔

    باقی پورا بلوچستان اس اسپیشلسٹ نام کی مخلوق سے ناآشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ہر خطے کے افراد  کوئٹہ میں آ کر آباد ہو چکے ہیں۔ اس لیے جب بھی کوئی سانحہ یا حادثہ ہوتا ہے جس میں مرنے والے کتنے دور دراز علاقے سے کیوں نہ ہوں اس کا اثر کوئٹہ پر ضرور پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر ڈیرہ بگٹی، تربت یا ژہوب میں کوئی سانحہ ہو جائے، کوئٹہ سوگوار ضرور ہوتا ہے۔

    کوئٹہ کے تمام بازار بند تھے۔ لیکن کوئٹہ کی جناح روڈ وہ مقام ہے جہاں بند دکانوں کے باہر بھی لوگ کھڑے ہوکر حالات و واقعات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا سیاسی شعور پاکستان کے کسی بھی خطے سے زیادہ بلند اور بہتر ہے۔ مثلاً لاہور گوجرانوالہ میں آپ کو عموماً گفتگو ’’کھابے، لسّی، کھانوں کے بارے میں نظر آئے گی۔

    فوڈ اسٹریٹ کہاں ہے، نئی ’’کھابوں‘‘ کی دکان کونسی ہے۔ لیکن کوئٹہ کا بلوچ، پشتون، بروہی یا ہزارہ کی محفل میں آپ کو بیٹھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو قبائلی تنازعات سے لے کر برصغیر پاک و ہند کی سیاست اور عالمی و علاقائی صورتحال سے متعلق گفتگو ملے گی۔ بلوچی میں ’’حال احوال‘‘ اور پشتو میں ’’روغبڑ‘‘ دو ایسی رسوم ہیں جن میں ایک سفر سے واپس آنے والا ہر ملنے والے کو ان علاقوں کا احوال بیان کرتا ہے جہاں سے وہ ہو کر آیا ہے۔

    یہ احوال اس قدر طویل ہوتا ہے اور اس قدر مفصل ہوتا ہے کہ اس میں رسم و رواج سے لے کر سیاست اور بازار سے لے کر حکومتی مراکز تک سب کا ذکر ہوتا ہے۔ ویسے بھی بلوچستان کے افراد کی ایک کثیر تعداد نے افغانستان اور ایران کا سفر بار بار ضرور کیا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے تجربے کی وسعت کی سطح عالمی نوعیت کی ہوتی ہے اور ایسا تجربہ آپ کو پاکستان کے اور کسی خطے میں نہیں ملے گا۔ مثلاً یہاں کے چھوٹے کاروباری اور خانہ بدوش نے بھی افغانستان یا ایران کا سفر کر کے ایک ایسا تجربہ ضرور حاصل کیا ہوتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

    پاکستان کے کسی خطے کے افراد کو بالکل علم نہیں  اور ہے بھی تو اخباری نوعیت کا ہے کہ روس افغانستان میں کیسے آیا، مجاہدین کون تھے، طالبان کیسے بنے، امریکا کیسے حملہ آور ہوا، وہاں کیا چل رہا ہے، ایران شاہ کے دور میں کیا ہوتا تھا، خمینی نے کونسی تبدیلی لائی، ایران میں بلوچوں کی حالت زار کیسی ہے، ان سب کے بارے میں بلوچستان کے لوگوں کی معلومات بہت خالص ہیں۔ بالکل ایسے جیسے قصور یا فیصل آباد کا آدمی لاہور آئے اور میٹروبس کو آنکھوں سے چلتا ہوا دیکھے۔

    بلوچستان کے لوگوں نے اس خطے میں گزشتہ چالیس سال سے آنے والی بے شمار تبدیلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جہاں آپ کو آج بھی کوئٹہ میں ایسے کئی سو افراد مل جائیں گے جو یہ بتاتے ہوں کہ وہ شام کو سیرینا یا جناح روڈ کے کسی ہوٹل میں حامد کرزئی کے ساتھ گپ لگاتے تھے یا پھر خمینی انقلاب کے بعد وہاں سے بھاگے ہوئے ایرانی وزیروں کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ وہاں سیاسی اور علاقائی معاملات پر آپ کی ذہنی وسعت باقی پورے خطے سے زیادہ ہوگی۔

    یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں 1973ء میں سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت گرا کر ذوالفقار علی بھٹو فوجی ایکشن شروع کرے، نواب اکبر بگٹی کے جاں بحق ہونے کا سانحہ ہو، پشاور کا اے پی ایس ہو، کوئٹہ کے وکلاء کی موت کا المناک واقعہ یا گزشتہ روز ہونے والا پولیس کالج کا دردناک واقعہ یہاں کے لوگوں کا ان سب کے پس منظر کے بارے میں ایک طویل اور مفصل تجزیہ ہوتا ہے۔ وہ ان سب واقعات کو ایک عام سا واقعہ نہیں سمجھتے۔ وہ اس کے تانے بانے ملکی سیاست سے بھی جوڑتے ہیں اور عالمی و علاقائی حالات سے بھی۔ دنیا کے جتنے بڑے بڑے صحافی بلوچستان نے دیکھے ہیں کسی اور صوبے نے نہیں دیکھے۔

    یہ سب 1980ء سے یہاں آنے شروع ہوئے تھے۔ عام بلوچ اور پشتون ان کے ساتھ مترجم کی ڈیوٹی دیتا تھا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد تو یوں لگتا تھا کہ جیسے بی بی سی، سی این این، فوکس، ڈی بلیو اور دیگر عالمی نیٹ ورک کے بڑے، بڑے ناموں کا ٹھکانہ ہی کوئٹہ ہے۔ یہاں کا عام پڑھا لکھا شخص جس نے ان کے ساتھ مترجم کا کام کیا ہے وہ ان عالمی میڈیا والوں کے تعصبات سے بھی واقف ہے اور ان کی نفرتوں سے بھی آشنا۔ اسے ان کے سوالوں کے پس منظر کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور دنیا بھر میں چلنے والی سازشی کہانیوں سے بھی آشنا۔

    یہی وجہ ہے کہ سریاب روڈ پر واقع پولیس کالج میں ہونے والے واقعے کو یہاں کے لوگ ایک عام واقعہ نہیں سمجھتے۔ ان کا تبصرہ پورے پاکستان سے مختلف ہے۔ آپ لاہور میں کھڑے ہوکر بازار میں لوگوں سے سوال کریں ’’سی پیک‘‘ کیا ہے شاید کوئی ایک جواب دے سکے۔ لیکن یہاں کوئٹہ میں آپ کو ایسے کئی مل جائیں گے جو اس کے روٹ کے اختلاف اور بلوچستان سے زیادتی کے بارے میں بھی گفتگو کریں گے۔

    ایسے سیاسی طور پر زندہ لوگوں کے نزدیک یہ خون بہایا گیا ہے اور اس میں بہت سے عوامل شامل ہیں۔ وہ اسے ہلمند میں تازہ ترین طالبان فتوحات کا ردعمل بھی سمجھتے ہیں لیکن وہ گزشتہ تین دنوں سے ایک سوال کا جواب ہر کسی سے پوچھ رہے ہیں کہ جب 6 ستمبر 2016ء کو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہو چکی، ان کو محرم کی ڈیوٹی کے لیے روکا گیا۔ پھر 13 اکتوبر 2016ء کو اپنے اپنے اضلاع میں ڈیوٹی کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد انھیں اس مقتل گاہ میں واپس کیوں بلایا گیا۔

    بلوچستان کے اعلیٰ ترین عہدیدار سے لے کر پولیس کے اہم اہلکار تک کسی کے پاس اس کا تسلی بخش جواب نہیں ہے۔ تمام جواب آئیں بائیں شائیں ہیں۔ کوئی مزید ٹریننگ شیڈول نہیں، کوئی ڈیوٹی کا اعلان نہیں، وہ واپس پولیس ٹریننگ کالج میں کوئی سیر کرنے کے لیے تو بلائے نہیں گئے تھے۔ جب تک یہ سوال بلوچستان کے عوام کے ذہنوں میں ہتھوڑے برساتا رہے گا وہ ایک درخواست ضرور کرتے رہیں گے جو وہ کوئٹہ کی شاہراہوں پر آج کر رہے ہیں۔ یہ تمہاری اقتدار کی جنگ ہے، اس میں ہمارا خون کیوں بہاتے ہو۔ انھیں تسلی بخش جواب دو گے، سچ بولو گے تو مسئلہ حل ہو گا ورنہ پہلے سے موجود نفرتوں کو اور آگ ملے گی۔

  • بھارت کو افغانستان میں شکست، فیصلہ کن معرکہ کا وقت آ پہنچا – اوریا مقبول جان

    بھارت کو افغانستان میں شکست، فیصلہ کن معرکہ کا وقت آ پہنچا – اوریا مقبول جان

    اوریا مقبول جان لشکرگاہ، افغانستان کے صوبہ ہلمند کا صدر مقام۔ دالبندین سے مغرب کی سمت افغان سرحد پر کھڑے ہوں تو آپ کو سنگلاخ پہاڑوں اور ریتلے میدانوں کا ملاپ نظر آئے گا جن کے درمیان سے کئی راستے اس صدر مقام تک جاتے ہیں۔ یہ راستے کچے ہیں جنھیں علاقے کے لوگ مرمت بھی کرتے رہتے ہیں اور آمد و رفت کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔

    افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے قبل یہ راستے دنیا بھر کو مارفین اور ہیروئن سپلائی کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ افغانستان طالبان سے قبل دنیا بھر کی نوے فیصد پوست کا سپلائر تھا لیکن ملا محمد عمر کے ایک حکم نامے نے اس ساری پوست کی کاشت، اس سے ہیروئن یا مارفین بنانے کے سارے کاروبار کو یکسر ختم کر کے رکھ دیا۔ قندھار کے بعد ہلمند افغانستان طالبان کا اہم ترین مرکز رہا ہے اور گزشتہ دو ماہ سے امریکی اور افغان افواج کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت اسی صوبے میں جاری ہے۔ یہ صوبہ معدنیات کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔

    پاکستان میں جو ماربل اور گرینائٹ بلوچستان کے نام سے بیچا جا رہا ہے، اس میں اکثر افغانستان کے اسی صوبے ہلمند  سے اسمگل ہو کر آتا ہے۔ چونکہ ماربل اور گرینائٹ پر کسی کارخانے کی مہر نہیں ہوتی، اس لیے ان کو پاکستانی ماربل کے ساتھ ملا کر اندرون ملک بھیجنا بہت آسان ہے۔ ہلمند سے متصل چاغی کا ضلع ہے جو افغان سرحد کے ساتھ ساتھ تقریباً چار سو میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا ایک سرا کوئٹہ اور دوسرا ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان سے ملتا ہے۔ مغرب کی جانب ہلمند، جنوب میں ایران اور مشرق کی سمت خاران اور آواران کے اضلاع ہیں۔

    یہ دونوں اضلاع گزشتہ کئی سالوں سے اس لیے اہمیت اختیار کیے ہوئے ہیں کہ یہاں بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں نے مسلح کارروائیوں کے لیے کیمپ بنائے ہوئے ہیں۔ یہاں کیمپ قائم کرنے کے خصوصی مقاصد ہیں۔ اس لیے کہ گوادر کے ساحلوں کو بقیہ پاکستان سے ملانے کے لیے نزدیک راستے یہیں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ اس پورے جغرافیے کو ذہن میں محفوظ کرنے کے بعد آپ یہ بھی تصور کریں کہ یہ پورا علاقہ پہاڑوں اور ریگستانوں سے بھرا ہوا ہے۔ کہیں کہیں پانی میسر ہو تو وہاں سبزہ نظر آ جاتا ہے۔ اس پورے علاقے کے ساتھ ایران کی 909 کلو میٹر طویل سرحد بھی ہے۔

    ہلمند سے لے کر ایران کے سیستان بلوچستان اور پاکستان کے مکران اور اس کے ملحقہ اضلاع میں گزشتہ دس سالوں سے بھارت نے اپنے اثر و نفوذ کو بڑھانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ کلبھوشن یادیو اسی علاقے سے گرفتار ہوا تھا۔ چاہ بہار کی بندرگاہ بھی اسی خطے میں ہے جس پر بھارت نے کئی ملین ڈالر لاگت سے ترقیاتی کام شروع کیے۔ چاہ بہار کو افغانستان سے ملانے والی سڑک جو زرنج سے دل آرام تک جاتی ہے، اسے بھی بھارت نے تعمیر کیا ہے۔ بلوچ ہلمند کے صوبے میں بھی رہتے ہیں اور سیستان بلوچستان میں بھی۔ یہ سب کے سب اپنے اپنے قبیلے کے ناطے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ریکی ایران میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی۔ محمد حسنی افغانستان میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی۔

    ان سب کے لیے سرحدوں کی کوئی ا ہمیت نہیں ہے۔ اہمیت ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ کنواں ایک طرف ہے تو پانی پینے والے دوسری جانب، مریض ایک جانب تو اسپتال اور ڈاکٹر دوسری جانب۔ یہ خطہ جس پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز ہے اور جس کے ساحل سے دنیا کے آئندہ اقتصادی بازاروں کا رخ متعین ہونا ہے اور جہاں سے اس پورے خطے کی آئندہ اقتصادی اور فوجی بالادستی کے فیصلے ہونا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے بھارت کی ساری منصوبہ بندی کا رخ یہی خطہ رہا ہے۔

    افغانستان میں اس نے راستہ اس وقت بنایا جب اس نے طالبان حکومت کے خلاف شمالی اتحاد کو فوجی اور مالی مدد فراہم کرنا شروع کی۔ چونکہ ایران بھی طالبان مخالف شمالی اتحاد کی  مدد کرتا تھا۔ یوں اس خطے میں شمالی اتحاد، ایران اور بھارت کا مفاد یکساں ہوتا گیا، بھارت کے نزدیک ان دونوں ملکوں کی اہمیت صرف یہ تھی کہ وہ ان کے ذریعے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بدامنی پھیلا کر خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر پاکستان کی مغربی سرحدیں بھی شعلہ اگلتی رہیں تو بھارت پاکستان کی سرحد پر جیسا چاہے تماشا لگا سکتا ہے۔

    بلوچستان کی صورت حال گزشتہ آٹھ سال سے کشیدہ رہی ہے۔ بلوچستان میں کس بھی قسم کی مزاحمتی مسلح جدوجہد کرنا آسان نہیں۔ شہروں میں مزاحمت آسان ہوتی ہے۔ وہاں چھپنے، آرام کرنے، ٹھکانے بنانے اور آبادیوں میں گم ہو جانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں جبکہ بلوچستان میں شہری آبادی نہ ہونے کے برابر ہے، گاؤں میں چھپنا مشکل اور پہاڑوں پر کیمپ بنا کر رہنا اور مشکل۔ موجودہ سیٹلائٹ دور میں تو کسی ایسے کیمپ کو ڈھونڈنا زیادہ مشکل بھی نہیں رہ گیا۔ ستر کی دہائی میں ہونے والی مسلح جدوجہد اسی لیے زیادہ دیر چلتی رہی کہ وہاں پہاڑوں میں کیمپ بنا کر رہنا آسان تھا کیونکہ چھپا جا سکتا تھا اور کمک بھی پہنچائی جا سکتی تھی۔

    لیکن اب یہ اتنا آسان نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں بھارت کا یہ خواب اپنی تمام تر مالی اور تکنیکی امداد کے باوجود پورا نہ ہو سکا۔ ایسی جدوجہد کی ایک عمر ہوتی ہے، اور ایک مدت گزرنے کے بعد ایک وقت آ جاتا ہے جب تھکاوٹ اور اکتاہٹ مزاحمتی تحریک کو ختم کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں مزاحمتی تحریک پر اب وہی وقت ہے۔ دم توڑتی بلوچستانی مزاحمت کے بعد بھارت کو بہت زیادہ امید الطاف حسین پر تھی۔ بھارت کو غلط فہمی تھی کہ ان کی ایک للکار کراچی کو جلا کر بھسم کر دے گی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد وہ گرجے لیکن یہ کیا ہوا؟ کراچی میں ایک کھوکھا بھی بند نہ ہو سکا۔ براہمداغ  بگٹی سے کہا گیا کہ تم بھارت کی شہریت کے لیے درخواست جمع کراؤ۔ایسا صرف بوکھلاہٹ میں کیا گیا۔ بلوچستان میں اس قدر محنت و کوشش کے باوجود نتائج کیوں حاصل نہیں ہو رہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں کسی بھی قسم کی آزادی کی تحریک کا عالمی سطح پر سب سے بڑا مخالف ایران ہے۔ کیونکہ ایران بلوچ تحریک آبادی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ بھارت کی بدقسمتی کہ اس کے میڈیا کے ہاتھ ایک ہی خاتون نائلہ قادری آئی۔ خطے کے حالات بدلے تو ایران نے چاہ بہار کو سی پیک کا حصہ بنانے کے لیے کہا تو نائلہ قادری نے بیان دیا کہ بھارت چاہ بہار پر سرمایہ کاری بند کرے کیونکہ یہ بلوچ علاقہ ہے جس پر ایران نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ دوسری جانب ایران نے بھارت پر واضح کیا ہے کہ براہمداغ  بگٹی کو شہریت دینے اور بلوچ تحریک کی مزید مدد کرنے سے اس کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ یہ ہیں وہ حالات اور تلخی جو بھارت اور ایران کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔

    اس بدلتی ہوئی صورت حال میں اس خطہ میں گزشتہ دو ماہ سے ایک اہم معرکہ چل رہا ہے۔ یوں تو پورے جنوبی افغانستان پر عملی طور پر طالبان کا کنٹرول ہے لیکن ہلمند کے صدر مقام لشکرگاہ میں جب اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں افغان فوجیں ایک محفوظ راستے سے واپس جا رہی تھیں تو بری طرح حملے کی زد میں آئیں اور پہلے ہلے میں سو فوجی مارے گئے۔ طالبان نے افغانستان میں کئی محاذ کھول دیے ہیں ۔وہ بڑے بڑے شہروں کو علامتی طور پر اپنے کنٹرول میں لیتے ہیں اور افغان فوج کو سراسیمہ کرتے ہیں۔ تین اکتوبر کو انھوں نے پھر قندوز پر د س دن تک قبضہ کیے رکھا۔

    نیویارک ٹائمز نے اپنی 12 اکتوبر کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مارچ سے اگست تک 4500 افغان فوجی مارے گئے اور 8,000 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں سب سے زیادہ اگست میں مارے گئے جو 2800 تھے۔ چاغی کی اس شاہراہ پر جہاں ملا اختر منصور پر امریکی ڈرون حملہ ہوا تھا۔ وہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر افغان سرحد کے پار ہلمند معرکہ اس قدر گرم ہے کہ گزشتہ دس دن سے امریکہ اور افغان حکومت طالبان سے قطر دفتر کے ذریعے مذاکرات کر کے امن اور جنگ بندی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

    وہ پورا جنوبی افغانستان جہاں بھارت نے دس سال محنت کی، یہ سب بےمعنی ہو گئے، لگتا ہے سب کسی فیصلہ کن معرکے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ کن معرکہ ایسا ہوگا جس کے اثرات پاکستان میں سی پیک پر بھی پڑیں گے اور عالمی صورتحال پر بھی۔ پاکستان کی مغربی سرحد سے خوفزدہ امریکہ اور بھاگتی افغان فوج بھارت کے لیے موت کا پیغام ہوگی۔

  • مسئلہ صرف ایک ہے-اوریا مقبول جان

    مسئلہ صرف ایک ہے-اوریا مقبول جان

    اوریا مقبول جان پاکستان کا قیام دراصل کرۂ ارض پر مسلط دو نظریات کی بدترین شکست تھی۔ ایک سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ معیشت پر مبنی طرز معاشرت اور دوسرا مزدور کی آمریت کے ذریعے کمیونسٹ معاشی نظام۔ پاکستان بننے سے پہلے ان دونوں نظریات کے پیروکار ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی نو آبادیاتی حکومت قائم تھی جو سرمایہ دارانہ سیکولر جمہوری معیشت و معاشرت کی محافظ تھی۔ اس کے مقابلے میں 17، اکتوبر 1920ء کو سوویت روس کے شہر تاشقند میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی۔

    یہ دراصل ہندوستان میں کام کرنے والے بے شمار کمیونسٹ گروہوں کا کنونشن تھا۔ یہ تمام گروہ دنیا کے مختلف ممالک کی مدد سے ہندوستان میں کام کررہے تھے اور ان پر برطانوی حکومت کی سختیاں بھی جاری تھیں۔ سوویت یونین نے ان کو اکٹھا کیا اور کمیونسٹ پارٹی بنا ڈالی، جس کا ہندوستان میں پہلا کنونشن 25 دسمبر 1925ء میں کانپور میں منعقد ہوا۔ برصغیر کے کمیونسٹ گروہ مسلح بغاوت اور انقلاب پر یقین رکھتے تھے۔

    ان کے خلاف 1920ء سے لے کر 1935ء تک لگ بھگ پچاس کے قریب بغاوت کے مقدمات مختلف عدالتوں میں چلائے گئے جن میں پانچ مقدمات پشاور سازش کیس اور اتنے ہی مقدمات میرٹھ سازش کیس سے متعلق تھے۔ بھگت سنگھ بھی ایک کمیونسٹ تھا جس نے ایسے بہت سارے گروہوں میں حصہ لیا اور بالآخر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کا اہم کارکن بن گیا۔ اسے برطانوی پولیس آفیسر جون سونڈرس کے قتل کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے لوگ مہاتما گاندھی پر یہ الزام لگاتے رہے کہ اس نے نہ صرف بھگت سنگھ کو بچانے کی کوشش نہ کی بلکہ الٹا برطانوی سرکار سے مل کر اس کی پھانسی کی راہ ہموار کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ گاندھی برصغیر میں ایک سیکولر، جمہوری سرمایہ دارانہ معیشت کا ایجنٹ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے متاثر ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں نے 1936ء میں لکھنو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی۔

    سجاد ظہیر اس کے بانی سربراہ چنے گئے۔ برصغیر کا شاید ہی کوئی بڑا ادیب ہو جو اس انجمن کاخوشہ چین نہ رہا ہو۔ متاثرین کا تو ایک وسیع حلقہ مدتوں قائم رہا۔ فیض احمد فیض سے احمد ندیم قاسمی کرشن چندر سے عصمت چغتائی اور امرتا پریتم سے لے کر ساحر لدھیانوی تک سب کمیونسٹ انقلاب کے داعی اور سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ طرز حکومت و معاشرت کے مخالف تھے۔ کمیونسٹ معاشرت کا علمبردار برطانوی اور امریکی حکومتوں کو سامراج تصور کرتا تھا اس لیے وہ اس سامراج کے خلاف نعرہ زن رہے۔ دوسری جانب سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ قوتیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر دنیا میں قومی ریاستوں کی تشکیل میں لگی ہوئی تھیں۔

    جنگ عظیم اول کے بعد یہ تقسیم ایک حقیقت بن گئی اور دنیا چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی، اور ان کی ایک تنظیم بھی بنادی گئی جس کا نام لیگ آف نیشنز رکھا گیا۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ حکومت کو بنے ہوئے ابھی صرف تین سال ہی ہوئے تھے کہ انھوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا اور آزربائیجان کے شہر باکو میں قومیتوں کی ایک کانفرنس بلائی جس میں دنیا بھر کی ان قومیتوںکو بلایا گیا جو نئی بننے والی سیکولر جمہوری قومی ریاستوں میں اپنی جگہ نہیں بناسکی تھیں۔ سوویت یونین کا خواب تھا کہ ان قومیتوں کی آزادی کے نعروں کو بلند کرکے انھیں نئی بننے والی ریاستوں سے علیحدہ کردیا جائے تاکہ اپنی مرضی کی نئی کمیونسٹ ریاستیں وجود میں آجائیں۔

    1920ء میں ہونے والی اس کانفرنس میں بلوچ قوم پرستوں کا ایک گروہ کامریڈ مصری خان مری کی سربراہی میں  شریک ہوا۔ یہ تھی وہ کشمکش جودنیا کو کمیونسٹ یا سرمایہ دارانہ معیشت کے زیراثر لانے کے جاری تھی۔ دونوں قوتیں دنیا کو انھی نظریات کی بنیاد پر تقسیم کرتی تھیں۔ ان کے تصور اور گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس خطۂ ارضی پر ایک ایسا ملک بھی وجود میں آجائے گا جو ان دونوں نظریات کی نفی کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریے کی بنیاد پر تشکیل ہوگا، جس میں ایک دادا کے پوتے آپس میں ایک قوم نہیں ہوں گے اس لیے کہ ایک نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا تھا۔

    یہ ان دونوں نظریات کی حامل قوتوں کی اتنی بڑی شکست تھی کہ اس کی ٹیسیں آج بھی ان کی تحریروں سے اٹھتی ہیں اور ان کے بیانات اور سرگرمیوں سے نفرت کے پرچم بلند کرتے ہیں۔پاکستان بن گیا۔ اس کا وجود ہی ان لوگوں کے لیے سوالیہ نشان تھا جو گزشتہ کئی سو سال سے دنیا کو دو سبق پڑھارہے تھے، ایک یہ کہ قومیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے بنتی ہیں اور دوسرے یہ کہتے تھے کہ اصل لڑائی تو معاشی ہے اور بقول کارل مارکس یہ مذہب تو ایک افیون ہے جو غریب آدمی کو جدوجہد سے روکتا ہے۔ اس کے بعد قرارداد مقاصد منظور ہوگئی۔

    ان کے نزدیک یہ بہت بڑی گڑبڑ ہوگئی تھی۔ قیام پاکستان سے انھوں نے اپنی تحریروں میں یہ لکھنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان معاشی وجوہات کی بنیاد پر بنا تھا۔ قرارداد مقاصد کے منظور ہونے کے بعد یہ گروہ اور سرگرم ہوگیا۔ 1950ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جس میں کمیونسٹ نظریات کے تمام طلبہ شامل تھے۔ اس تنظیم کا 1953ء کا احتجاج اور پولیس مقابلہ بہت مشہور ہوا۔ لیکن جب جنرل اکبر نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تو کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اس تنظیم پر بھی پابندی لگادی گئی۔نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک اہم ستون حسن ظفر عارف تھے جو کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے استاد بھی رہے۔ نظریاتی طور پر کٹر کمیونسٹ ہیں۔

    حکومت سندھ کی خاص نوازش سے انھیں ایم کیو ایم لندن کا مؤقف بیان کرنے کے لیے پریس کلب میں جگہ ملی۔ ان کے ساتھ ایک سیکولر نظریہ کے حامی، برسوں سے پیپلزپارٹی کے جیالے وکیل ساتھی اسحاق بھی شامل تھے۔ اگر پاکستان مردہ باد کہنے کے باوجود الطاف حسین کے ساتھیوں کو پریس کلب میں اپنا مؤقف بیان کرنے کی آزادی ہے تو پھر طالبان کو بھی کوئی پریس کلب دے دیا جائے۔دانشوری اور تحریر میں آپ کو جب کبھی پاکستان ٹوٹنے کے خواب دیکھنے والا کوئی ملے گا تو وہ انھی صفوں میں سے ملے گا جنہوں نے پاکستان کے نظریاتی وجود سے ہمیشہ نفرت کی۔ نواز شریف اس دن سے ان کا محبوب رہنما ہے جس دن سے اس نے اپنی گزشتہ روش چھوڑ کر سیکولر نظریات کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ الطاف حسین، محمود خان اچکزئی، اسفندیارولی، اختر مینگل، یہ سب انھیں محبوب ہیں۔ شاید خواجہ آصف بھی ان کی صف میں اپنی تقریر کے بعد شامل ہوگیا ہو۔

    وجہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے پاکستان کی فوج۔ یہ فوج ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ فوج پوری کی پوری سیکولر بھی ہوجائے تو نعرہ تکبیر بلند کرنے کے بغیر اس کا چارہ نہیں۔ آپ قیام پاکستان سے لے کر آج تک فوج کے خلاف لکھے گئے مضامین جمع کرلیں۔ خبریں اکٹھا کرلیں، تقریریں اور بیان نکال لیں۔ آپ کو مقرر، دانشور اور قلمکار وہی لوگ ملیں گے جنہوں نے 1947ء کی چودہ اگست کو شکست کھائی تھی۔ اگر پاکستان کی فوج بدنام ہو گی، کمزور ہوگی تو ریاست پاکستان کمزور ہوگی۔ ریاست پاکستان کمزور ہوگی تو ایک نعرہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ۔

  • شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟ اوریا مقبول جان

    شیعہ سنی فسادات، فاتح کون؟ اوریا مقبول جان

    اوریا مقبول جان پوری امتِ مسلمہ میں کون ہے جو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو پوری امت کا مشترکہ اثاثہ نہ سمجھتا ہو۔ اقبال نے تو انہیں ’قافلہ سالارِ عشق‘ اور ’نکتۂ پرکارِ عشق‘ جیسے القابات سے یاد کیا۔ اقبال تو اس امت کی زبوں حالی پر نوحہ بھی یوں پڑھتا ہے کہ ’قافلۂ حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں‘۔ یہ الفاظ اور سیدنا امام حسین ؓ کی ذات سے عشق، اقبال کے ہاں ایک تسلسل کا نام ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جب بھی کہانی دہرائی جائے گی قافلہ سالاری سیدنا امام حسین ؓ کے سرکا تاج رہے گی۔

    کوفہ کی سرزمین پر کربلا کے المناک سانحے کے بعد بےوفائی کا ایک اور باب رقم ہو رہا تھا۔ حضرت علی ابن حسین زین العابدین کے فرزند حضرت زید بن علی، ہشام بن عبدالملک کے دور میں کوفہ تشریف لائے تو وہاں آپ نے ایک خطبہ ارشاد کیا‘ جس میں کہا:
    ’’اللہ کی قسم مجھے یہ چیز سخت ناگوار ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کروں اور اس حالت میں کہ ان کی امت کو نہ میں نے معروف کا حکم دیا ہو اور نہ منکر سے منع کیا ہو‘‘۔
    کوفہ میں منصور بن المعتمر نے لوگوں سے زید بن علی کے لیے بیعت لینا شروع کی۔ اس زمانے میں اہلِ سنت کے امامِ اعظم امام ابو حنیفہ، بنی امیہ کے ظلم و تشدد کا مسلسل شکار ہو رہے تھے۔ منصور بن المعتمر اور امام ابو حنیفہ دونوں راتوں کو چھپ کر ملتے اور روتے رہتے۔ چند اور بزرگوں، مسلمہ بن کہیل اور نبیل الاعمش کی کوششوں سے کوفہ کے چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید بن علی کی بیعت کر لی۔ حضرت زید نے جب قیام کا ارادہ کیا تو فضیل بن زبیر کو قاصد بنا کر ابوحنیفہ کے پاس بھیجا۔ یہاں امام ابو حنیفہ کا ایک تاریخی فقرہ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ انہوں نے کہا: [pullquote]’’خروجہ یضاھی خروج رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم البدر‘‘[/pullquote]

    (زید کا اس وقت اٹھ کھڑا ہونا رسول اللہﷺ کی بدر میں تشریف آوری سے مشابہ ہے۔)
    اس کے بعد حضرت زید نے دعوت جہاد دی اور فرمایا:
    ’’ہم تم کو اللہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تمہیں بلاتے ہیں کہ آئو ظالموں سے جہاد کرو‘‘۔
    اس پر چالیس ہزار لوگوں نے حضرت زید کے ہاتھ پر بیعتِ جہاد کی۔

    اس کے بعد بے وفائی کی ایک دلگداز داستان ہے، حیلوں اور بہانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ایسے سوالات کوفہ والوں نے اٹھائے جو آج بھی اس امت مسلمہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ چال چلن بھی وہی رکھا جو کوفہ والوں کا مسلم بن عقیل اور سیدنا امام حسین ؓ کے ساتھ تھا۔ صبح جب حضرت زید بن علی میدان میں نکلے تو ان کے ساتھ اتنے ہی جانثار تھے جتنے رسول اللہﷺ کے ساتھ میدانِ بدر میں تھے یعنی 313۔ یوں امام ابوحنیفہ کے قول پر اللہ کی جانب سے مہر تصدیق ثبت ہوئی کہ ان کا خروج رسول اللہﷺ کی بدر میں آمد سے مشابہ ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کا ایک اور خونچکاں باب رقم ہوا اور یہ جانفروش شہید کر دیے گئے۔ اس وقت شیعانِ علی بھی موجود تھے اور اہلِ سنت بھی لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کسی ایک میں بھی اختلاف موجود نہ تھا۔ یہ تھی اس امت کی روایت جو صدیوں چلتی برصغیر تک پہنچی۔

    برصغیر میں مسلک شیعہ اور مسلک سنی باہم ساتھ ساتھ اپنے اپنے عقیدوں پر قائم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے صدیوں یہاں زندگی کرتے رہے۔ برصغیر میں مسلکی طور پر پہلا شیعہ خاندان سید سالار دائود غازی اور سید سالار مسعود غازی کا تھا، جو 1030 عیسوی میں اودھ کے علاقے میں آ کر آباد ہوا۔ ان کی اولاد میں سے سید عبداللہ زر بخش اور سید زید شہسوار نے بارہ بنکی کے قریب زید پور شہر آباد کیا۔ اسی دور میں ہندوستان کی چند ریاستوں کے سربراہ بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے جن میں اودھ‘ سندھ اور ملتان قابل ذکر ہیں۔ اس دور سے 1857ء میں انگریزوں کے قبضے تک یہاں ہر طرح کے حکمران برسر اقتدار آئے۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر مغل بادشاہوں تک، ان کی حکومتوں میں اہم عہدوں پر شیعہ بھی رہے اور سنی بھی۔ ان میں کبھی کبھار سیاسی نوعیت کا اختلاف ہو بھی جاتا لیکن وہ ان لوگوں کی ذاتی اقتدار کی جنگ ہوتی۔ یہ جنگ مسلک کی جنگ نہیں بنتی تھی۔ ہمایوں کی ایران سے واپسی کے بعد بہت سے ایرانیوں کی برصغیر آمد کے بعد اس مسلک کو فروغ ملا اور عزاداری، مرثیہ خوانی اور مرثیہ نویسی نے رواج پایا۔

    پورے مغلیہ دور میں کسی ایک معمولی سے شیعہ سنی فساد یا دنگے کی کوئی خبر موجود نہیں۔ یہاں تک کہ روبنسن (Robinson) جیسا مُؤرخ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو تقسیم کا درس دینے کے لیے ”Sepratism among Indian Muslims“ لکھی، وہ بھی کسی ایک واقعے کا تذکرہ نہ کر سکا جس میں شیعہ سنی فساد نظر آتا ہو۔ حالانکہ التمش سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک پورے برصغیر پر فقہ حنفیہ نافذ تھی اور قاضی اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے، سب اس پر متفق تھے اس لیے کہ دونوں مسالک کے علماء یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے جو قانون نافذ کرنے کے لیے ہوتے ہیں ان میں دونوں کے درمیان ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ چوری، زنا، جھوٹ، غیبت، قتل میں کوئی شیعہ سنی نہیں ہوتا اور ان سب کی سزا مقرر ہے۔ زکوٰۃ اور عشر میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ جو اختلافات تھے وہ فروعی نوعیت کے تھے اور جو الزامات تھے وہ بھی مجمع باز خطیبوں اور ذاکروں کے پیدا کردہ تھے یا پھر افسانہ طراز مؤرخوں نے انہیں ہوا دی۔ یہی اس امت کی اصل روح تھی کہ اختلاف کی عزت کی جائے اور نیت کو اعمال کا معیار سمجھا جائے۔

    پہلا شیعہ سنی فساد 1906ء میں لکھنؤ میں ہوا جو انگریز حکمرانوں کی ’’برکت‘‘ کا نتیجہ تھا۔ اس کے بعد 1907ء اور 1908ء میں بھی فسادات ہوئے اور معاملہ باہم افہام و تفہیم سے علماء نے طے کر لیا اور مسلم معاشرے میں رواداری قائم رہی۔ 1906ء کے فسادات کیسے ہوئے؟ اب یہ کوئی راز نہیں۔ کوئی شخص بھی برطانیہ میں انڈیا آفس لائبریری میں تمام مکتوبات دیکھ سکتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل 18 اپریل 1939ء کے اس خط میں موجود ہے جو گورنر ہیگ (Heig) نے وائسرائے لنلتھگؤ (Linlithgow) کو تحریر کیا۔ یہ خط اس لیے تحریر کیا گیا تھا کہ 1939ء میں پھر فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ لکھنؤ میں جہاں محرم کے دنوں میں تعزیہ اور علم کے جلوس نکلا کرتے تھے، وہیں سنی اپنی مساجد میں مدح صحابہ کے نام سے مجلس منعقد کیا کرتے تھے، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ 1906ء میں انگریز نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ ’’مدح صحابہ‘‘ ایک نئی اختراع ہے اس لیے محرم کے دو دنوں، چہلم اور یومِ شہادتِ علی کے دن اس پر پابندی ہوگی۔ یہ اقدام دنیا کو یہ بتانے کے لیے کیا گیا کہ ہم نے یہ امن کے لیے کیا ہے، لیکن اصل میں یہ ایسی شرارت تھی جس نے آگے چل کر اس فساد کا بیج بویا۔ اس کی تفصیل Heig papers MSS.EUR.F.125.102 IOR میں موجود ہے اور انڈیا آفس لائبریری میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد پورے برصغیر میں محرم کے جلوسوں کے روٹوں کے لائسنس انگریز ڈپٹی کمشنروں نے جاری کیے۔ آپ تمام شہروں کے روٹ ملاحظہ کریں تو ان میں شرارتاً خاص طور پر ایسے مقامات شامل کیے گئے جہاں آج نہیں تو کل کسی بھی وقت فساد برپا ہو سکتا ہے یا کروایا جا سکتا ہے۔

    1935ء میں چہلم کے دن کچھ مقامات پر ’’مدح صحابہ‘‘ پر پابندی کو غیر قانونی سمجھ کر سنی مساجد میں توڑا گیا۔ اس کے بعد 1936ء میں ذوالحج سے صفر تک کے مہینوں میں ہر جمعہ کو مدح صحابہ کو معمول بنایا گیا، قانون کی خلاف ورزی پر انگریزوں نے ہزاروں سنیوں کو گرفتار کر لیا حالانکہ دوسری جانب سے کوئی احتجاج نہ تھا۔ آگ لگانے کے لیے یہ کافی تھا۔ فسادات شروع ہوئے۔ جھانسی ڈویژن کے کلکٹر جسٹس ایلسوپ (Allsop) کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ 1909ء کے احکامات میں کیا تبدیلیاں کی جائیں۔ 28 مارچ 1938ء میں یہ رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ: The Sunni recitation were allowable in theory, but were actually provocative and should be disallowed. آگ بڑھانے کے لیے یہ فقرے کافی ثابت ہوئے کہ ’’سنی مدح صحابہ کتابی طور پر تو صحیح ہے لیکن عملی اظہار شرانگیزی ہے اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ سنیوں نے اس پر سول نافرمانی کی ایک تحریک شروع کی۔ ادھر ملک میں انتخابات کے بعد جمہوریت آ گئی تھی۔ کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی۔ 31 مارچ 1939ء کو کانگریس حکومت نے مدح صحابہ پر سے پابندی اٹھا دی اور سول نافرمانی کی تحریک ختم ہو گئی۔ لیکن اس دوران دونوں جانب گزشتہ پچاس سال سے نفرت کا بیج بویا جا چکا تھا۔ یوں مارچ، اپریل اور مئی 1939ء میں شیعہ مسلک کے لوگوں نے احتجاج شروع کیا اور گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ اٹھارہ ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو دونوں گروہوں نے منصف مقرر کیا لیکن چونکہ اختلافات کو اس طرح پالا گیا تھا کہ دوسری جانب سے تبریٰ کو بھی سرعام کرنے کی اجازت مانگ لی گئی اور اس پر از خود عمل بھی شروع ہو گیا جس پر شدید فسادات نے جنم لیا۔ یہ تمام معاملات اور کہانی گورنر ہیگ کے خطوط میں درج ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد 1940ء میں تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے عوامی مقامات پر مدح صحابہ اور تبریٰ پر پابندی لگا دی۔

    یہ ہے وہ تاریخ کہ آگ بھی خود بھڑکائی اور پھر اسے ایک دوسرے کے گھروں میں سلگنے کے لیے چھوڑ دیا۔ کس قدر بدنصیب ہیں ہم اور کس قدر ناسمجھ ہیں ہمارے فرقہ پرست کہ محرم کے جلوسوں کے وہ روٹ جنہیں انگریز ڈپٹی کمشنروں نے فساد کے ممکنہ امکانات کے لیے ڈیزائن کیا تھا، اسے کربلا کی طرح مقدس سمجھتے ہیں اور مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہر سال یہ قوم دعائیں کرتی ہے فسادات سے نجات کے لیے، دنیا بھر کی انتظامیہ ان مقامات پر کھڑی ہوتی ہے، لیکن پھر بھی فساد ہو جاتا ہے اور کوئی مل بیٹھ کر ان سب کو محفوظ راستوں پر لے جانے کی کوشش نہیں کرتا۔ کس قدر بدقسمت ہیں ہم کہ انگریز جو لکیریں کھینچ گیا، اسے مقدس سمجھ کر خون بہاتے ہیں۔ صوبے انگریز نے بنائے، آپ انہیں بدل کر دکھائیں، ضلعوں‘ تحصیلوں میں ردوبدل پر فساد، جلوس کے قدیمی روٹ پر جھگڑا۔ کوئی ہے جو عقل سیکھے۔ اس برصغیر میں نفرت کا بیج بونے والے انگریز کے قانون اور احکامات کو بدل دے۔ اس سارے فساد پر آج بھی انگریز فاتح ہے جو نفرت کا بیج بو گیا۔

    ایک اور بہت بڑا سوال امتِ مسلمہ میں مسلکی اختلافات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عدم برداشت اور خونریزی کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس برصغیر میں موجود تیس سے چالیس ہزار انگریز ہی اس کے واحد ذمہ دار ہیں؟ کیا ہمارے علماء نفرت کی آگ میں حصے دار نہیں ہیں؟ کیا ان لوگوں نے ایک مسلسل عمل کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ایک دوسرے سے نفرت کا سبق نہیں پڑھایا؟

    برصغیر کی گزشتہ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہرمکتبۂ فکر کے جیّد ترین علما نے مدتوں اس بات پر اپنی توانائیاں صرف کیں کہ مخالف مسلک کے عقائد اور ان کے علما کی تحریروں میں کون سے نقائص ہیں۔ زور دار اور پُر جوش رسالے لکھے اور تمام مکاتبِ فکر کے مدرسوں میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس کے بعد منبر و محراب ہاتھ آئے تو اپنی شعلہ بیانیوں کا سارا زور مخالف کو کذّاب، بےدین، گمراہ، اور بالآخر کافر کہنے پر صرف کیا۔ شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث سب نے اس میں پورا پورا حصہ ڈالا۔ ردِّ بریلویت، ردِّ دیوبندی، ردِّشیعہ اور ردِّ غیرمقلدین جیسے موضوعات پر آپ کو ایک وسیع مواد ہر مکتبۂ فکر میں مل جائے گا۔ وہ، جن کے اسلاف قرآن و سنت کے ہر پہلو کو لوگوں پر روشن کیا کرتے تھے، جو کبھی پوری دنیا میں کفرو شرک کے مقابلے میں توحید کے علمبردار تھے، جو سیّدالانبیاءﷺ سے عشق کی مشعل روشن کرنے کے نقیب ہوا کرتے تھے، ان کا سارا زورِ بیان اس بات پر صرف ہونے لگا کہ فلاں شخص یا گروہ اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، فلاں دل میں سیّدالانبیاءﷺ کے احترام کی مشعل روشن ہے یا بجھ چکی۔ مشرک، بدعتی، گستاخِ رسول، منکرینِ اولیاء، گستاخِ صحابہ اور منکرینِ اہل بیت جیسے موضوعات ہمارے مذہبی اکابرین کا پسندیدہ موضوع بن گئے۔

    گزشتہ چالیس سالوں سے میں ہر مکتبہ فکر کے علما کی دھواں دار تقریروں سے فیض یاب ہو رہا ہوں۔ کانفرنس توحید کے نام پر منعقد ہوتی ہے لیکن تقریریں پڑوس کی مسجد کے امام اور اس کے اسلاف کی ہرزہ سرائی کے ذکر سے بھری ہوتی ہیں، مجلس میلاد سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سجائی جاتی ہے اور شعلہ بیانیاں اپنے اسلاف کی تعریف و توصیف اور دوسروں کی گستاخیوں کی داستانیں بیان کرنے پر صرف ہو جاتی ہیں۔ آلِ رسول ﷺ کی محفلوں کا تو غضب ناک پہلو یہ ہے کہ فقرے گھما پھرا کر ایسے بولے جاتے ہیں کہ پوری بستی جو اس محفل میں شریک نہیں، یزید کی فوج قرار دے دی جاتی ہے۔ ادھر بات شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شروع ہوتی ہے مگر کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا کہ جوشِ خطابت لوگوں سے دوسرے مکتبۂ فکر کے لوگوں کے لیے کفر کے نعرے نہ لگوا دے۔ یہ تقریریں اور یہ ’’علمی‘‘ مواد اور تحقیق و تنقیص کا یہ عمل ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے، لیکن ان ڈیڑھ سو سالوں سے ایک سو بیس سال انتہائی امن اور سکون کے ہیں۔ کوئی دنگا، فساد، سر پھٹول یا قتل و غارت نہیں۔ لیکن گزشتہ تیس سال ایسے ہیں کہ جیسے ہر لمحہ سولی پر لٹکا ہوا ہو۔

    ان تیس سالوں میں ایسا کیا ہوگیا؟ اگر آج ہم نے اس پر غور نہ کیا تو اگلے سوسال ہم ایک دوسرے کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ ان تیس سالوں میں اس مسلم خطے کے سیاسی حالات میں ایسی اہم تبدیلیاں آئیں جن کا اثر یہاں کے صدیوں پرانے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی حالات پر پڑا۔ ایک پُرسکون جھیل جیسی مسلم معاشرت میں ہلچل مچ گئی۔ افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں اور ایران میں انقلاب آگیا۔ یہ دونوں واقعات جنگ عظیم اوّل کے بعد مسلم اّمہ کی خلافت کی مرکزیت کے ختم ہونے اور جدید سیکولر قومی ریاستوں کے بعد سب سے بڑے واقعات تھے۔ ایران میں، انقلاب نے جہاں سیکولر قومی ریاست کی بنیادیں ہلادیں، وہیں افغانستان کا جہاد بھی خلافتِ اسلامیہ کے قیام کا نعرہ لے کر اٹھا اور طالبان کی صورت قائم حکومت نے مغرب کی سیکولر ریاستیں قائم کرنے کی جدوجہد کو غارت کر دیا۔ ان انقلابات کے نتیجے میں پورے خطے میں ایک بےیقینی کی کیفیت پیدا ہو گئی اور وہ تمام حکمران جنہیں پہلی جنگِ عظیم کے بعد مغرب نے اپنے کا سہ لیسوں کی حیثیت سے مسلّط کیا تھا، اپنے ممکنہ انجام کی وجہ سے خوفزدہ ہوگئے اور یوں ایک کشمکش اور جنگ کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اس کشمکش اور جنگ کا ایندھن وہ مواد بنا جو سو دو سال سے اس امت کے مختلف مسالک کے علماء نے وقتاً فوقتاً تحریر کیا تھا۔ ا یک دوسرے کے ردّ میں لکھی گئی کتابیں اور کفر کے فتوے گرد آلود تہہ خانوں سے نکالے گئے اور پھر انہیں چاروں جانب پھیلا دیا گیا۔

    اسی زمانے میں ایک اور چیز نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پہلے ان تمام علماء اور ذاکرین کے بےمحابہ خطاب صرف اپنی اپنی مساجد اور امام بارگاہوں تک محددو تھے لیکن جس طرح اس دور میں پہلے آڈیو کیسٹوں اور ویڈیو کیسٹوں نے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جیسے فنکاروں کو مقبولیت بخشی، ویسے ہی ان علماء اور ذاکر ین کی آڈیو اور وڈیو کیسٹوں نے انہیں راتوں رات ملکی اور غیر ملکی مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ کیسٹیں عام دکانوں پر دستیاب ہونے لگیں۔ شیعہ ذاکر کی کیسٹ سنی گاہک کے ہاتھ میں اور سنی مقرر کی کیسٹ شیعہ گاہک کے ہاتھ میں آگئی۔ مدتوں ان لوگوں کو ان کے مولوی بتایا کرتے تھے کہ فلاں مسلک کا مولوی یا ذاکر ہمارے بارے میں یہ کہتا ہے اور پھر نفرت کا بیج بویا جاتا تھا۔ لیکن اب تو وہ سب کچھ ایک دلیل کے طور پر مخالف فرقے کے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا۔ وڈیو اور آڈیو سے سب کچھ سی ڈی اور ڈی وی ڈی پرمنتقل ہوتا چلا گیا۔ ادھر گھر گھر کمپیوٹر آیا تو یہ سارا نفرت انگیز مواد عام آدمی کی دسترس میں چلا گیا۔ آڈیو، ویڈیو کیسٹ یا سی ڈی اور ڈی وی ڈی خریدنے کے لیے پھر بھی زحمت اٹھانا پڑتی تھی، بازار جانا پڑتا تھا لیکن جیسے ہی انٹرنیٹ آیا تو یہ تمام مواد یوٹیوب سے ہوتا ہوا فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ویب سائٹس کی صورت میں ہر شخص کے گھر یہاں تک کہ موبائل تک جا پہنچا۔ اب نہ دکان پر جانے کا ترددّ، نہ کیسٹ اور سی ڈی خریدنے کی زحمت، راہ چلتے موبائل پر انٹرنیٹ کھولو اور نفرت کے ثبوت کے طور پر کسی بھی مولوی یا ذاکر کی تقریر سنا کر آگ لگوا دو۔

    یہاں ایک عجیب منطق پیش کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر ہر طرح کا جھوٹ اور افواہ چل رہی ہوتی ہے، لیکن یہ جھوٹ اور افواہ نہیں بلکہ ہمارے اپنے مذہبی قائدین کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو ہوتی ہے جسے ایک عام کمپیوٹر جاننے والا شخض بھی بڑی آسانی سے پہچان سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اور امام بارگاہ میں بولی جانے والی نفرت کی زبانیں اب گھروں کے دالانوں تک جا پہنچی ہیں۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم ایسا نہیں کہتے، یہ ہم پر الزام ہے، اس کے جواب میں سامنے والا موبائل پر کسی نہ کسی کی تقریر نکال کر سنا دیتا ہے۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس نے اس سیاسی اور علاقائی طور پر پیچیدہ صورتحال کو ایندھن فراہم کیا، آگ لگائی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ اس سارے طوفان میں نہ دیوبندی کو فتح حاصل ہوئی نہ بریلوی کو، نہ شیعہ جیتا اور نہ اہل حدیث۔ مسکراہٹ ان چہروں پر ہے، رقص کناں وہ لوگ ہیں جو مدتوں سے یہ خواہش دل میں دبائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح لوگوں کو اللہ، اس کے رسولؐ اور عقائد سے برگشتہ کیا جائے۔ یہ لوگ ہیں جو اس مواد کو اکٹھا کرتے ہیں، کبھی کالم کی صورت پروتے ہیں اور کبھی کسی ٹاک شو میں دھینگا مشتی کرواتے ہیں۔

    لوگ سوال کرتے ہیں، حل کیا ہے! جس نے درد دیا ہے وہی دوا دے گا۔، اس امت کے تمام علماء کو اکٹھا ہونا پڑے گا اور ان سب لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا جن کی نفرت پر مبنی تقریریں اور مواد ہمارے درمیان موجود ہے اور ایسے سارے مواد، سی ڈیز اور کیسٹوں کو سر عام جلانا ہوگا، ورنہ اہل نظر مسجدوں اور امام بارگاہوں میں جبہّ و دستار اور عمامے خون سے رنگین دیکھ رہے ہیں ۔

  • ایک عظیم تحقیقی کتاب-اوریا مقبول جان

    ایک عظیم تحقیقی کتاب-اوریا مقبول جان

    orya

    ایک عمر تاریخ کی راہداریوں میں گھومتے اور اس کی بھول بھلیوں میں سفر کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ گزشتہ دو ڈھائی ہزار سال سے مرتبہ تاریخ کے صفحات میں سچ ڈھونڈنا انتہائی مشکل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔

    جو بھی اس راستے کا راہی بنا اس نے سب سے پہلے اپنے اندر موجود تعصبات کے بتوں کو پاش پاش کیا‘ اپنے نظریات اور عقائد کو پس پشت ڈالا‘ اپنے آباء و اجداد اور اسلاف کے بارے میں احترام کے رشتے کو ختم کیا اور پھر وہ اگر تاریخ میں سچ ڈھونڈنے نکلا تو اسے سچ ضرور ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ سچ اسقدر کم ہے کہ انسان کی مرتب کردہ تاریخ کے خزانوں میں اتنا ہی بچتا ہے جتنا چیل کے گھونسلے میں ماس۔ لیکن یہی سچ مقدس ہے‘ محترم ہے اور لائق اعتبار ہے۔

    اسلامی تاریخ کا حال دنیا بھر کی تواریخ سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ اس لیے عرب تاریخ سے فن سے بالکل نا آشنا تھے بلکہ ان کے ہاں شاعری نے اسقدر اہمیت اور مقام حاصل کر لیا تھا کہ باقی علوم کی جانب ان کی توجہ ہی نہ گئی۔ سبعہ معلقات‘ وہ سات قصیدے تھے جو خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکائے گئے تھے‘ یہ ان سات بڑے شاعروں کے تھے جنھیں عرب صاحب معلقہ کہتے  اور معاشرے میں سب سے اہم مقام عطا کرتے۔

    ایک اور فن جس میں یہ طاق تھے وہ انساب تھا‘ یعنی نام و نسب‘ نسلی پہچان اور تفاخر۔ صدیوں پرانے اپنے آباء واجداد کے ناموں کی بنیاد پردہ اپنے شجرے مرتب کرتے‘ انھیں یاد رکھتے اور فخر کے طور پر اپنے اشعار میں ان کا تذکرہ کرتے۔ چونکہ عرب کا معاشرہ درباروں‘ شاہی کروفر اور محلات سے کوسوں دور تھا‘ اس لیے ان کے ہاں کسی نے بھی نیت باندھ کر تاریخ مرتب نہیں کی۔

    تاریخ تو بادشاہوں کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اپنے وجود اور اپنی سلطنت کے امور کو آنے والی نسلوں تک منتقل کریں اور شاہی مورخ ایک خاص شاہانہ تعصب کے ساتھ تاریخ لکھتا‘ بادشاہ کے گن گاتا‘ اس کے دشمنوں کے نقائص بیان کرتا تھا‘ بلکہ اپنی قوم‘ نسل‘ علاقے اور زبان کے حوالے سے ہر تعصب کو ذہن میں رکھ کر تاریخ مرتب کرتاتھا۔

    اسلام کی تاریخ کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی خلفاء حضرت ابو بکرؓ‘ حضرت عمرؓ‘ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جسے اس بات کا ذرا سا بھی شوق ہو کہ ان کے ادوار کی تاریخ مرتب ہو یا ان کے کارنامے کتابوں کی زینت بنیں۔ وہ تو خلافت کو ایک بار امانت تصور کرتے ہوئے ہر وقت اللہ کے سامنے جوابدہی کے خوف سے لرزتے رہتے تھے۔

    دنیا کی دو عالمی طاقتوں کو شکست دے کر ان کے علاقوں پر حکمرانی کرنے والے ان خلفاء کا نہ کوئی دربار تھا اور نہ ہی محل‘ بلکہ اتنی بڑی سلطنت کا کوئی سیکریٹریٹ تک نہیں تھا جب کہ روم اور ایران دونوں کے وسیع سیکریٹریٹ تھے۔ رومی علاقے شام و مصر اور ایرانی علاقے عراق‘ آذربائیجان‘ ایران وغیرہ میں کتنے ایسے مورخین اور قلم کار تھے جو بادشاہوں کی تاریخ مرتب کرتے‘ قصیدے کہتے اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے۔

    یہ سب کے سب چشم زدن میں بیروزگار ہو گئے۔ دونوں خطوں کے لوگ عربوں کو اپنے سے کمتر‘ پسماندہ اور تہذیب سے عاری تصور کرتے تھے‘ بلکہ ایرانیوں کا یہ فخر تو مدتوں قائم رہا اور شاہنامہ فردوسی میں یہ اس قدر کھل کر سامنے آیا کہ اس کے اشعار میں جا بجا مسلمان فاتحین کو عرب کہہ کر نفرت بھرے اشعار لکھے گئے

    شِیر شتر خوردن سو سمار
    عرب را بجائے رسید است و کار

    کہ تخت کیہاں را کنند آرزو
    تفو بر توای چرخ گرداں تفو

    ترجمہ: ’’ اونٹنیوں کا دودھ پینے اور گوہ کا گوشت کھانے والے عربوں کو یہ کیا ہو گیا ہے کہ یہ کیہان یعنی ایران کے تخت کی آرزو کرنے لگے ہیں۔ اے ٹیڑھی چال والے آسمان تم پر نفرین ہے‘‘۔

    یہی وجہ ہے کہ وہ تمام علاقے جہاں سید الانبیاءﷺ کے صحابہ‘ اسلام لے کر پہنچے وہاں کی مادری زبان تک عربی ہو گئی۔ عراق‘ شام‘ اردن‘ مصر‘ تیونس‘ الجزائر وغیرہ میں کبھی عربی نہیں بولی جاتی تھی لیکن آج وہ عرب دنیا کا حصہ ہیں۔ ایرانیوں نے اپنی تہذیب کا تشخص برقرار رکھنے کے لیے پوری جدوجہد اور سرتوڑ کوشش کی۔ اسی ایرانی تہذیب کے خوشہ چین اور اس کی مدح سرائی میں گم کتنے مورخ‘ شاعر‘ ادیب ایسے تھے جو حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

    یوں مسلمان جو فن تاریخ سے نا آشنا تھے اور اپنے عقائد کی بنیاد قرآن اور رسول اکرمؐ کی سنت پر رکھتے تھے ان کے ہاں کتب تاریخ کا رواج نہ پڑ سکا۔ سنت کا تو ان کے ہاں ایک تسلسل تھا کیونکہ ہر کوئی رسول اکرمؐ کی سنت کو اولاد تک منتقل کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے انھوں نے آپٖ کے ارشادات پر مبنی احادیث کا ایک ذخیرہ بھی مرتب کر لیاتھا۔ یہ ذخیرہ خود رسول برحقؐ کی زندگی میں ہی مرتب ہونا شروع ہو گیا تھا جس کی مثال صحیفہ ہمام ابن منبہ ہے۔

    احادیث کے بارے میں انھوں نے کمال احتیاط برتی اور ایک ایک راوی کے کردار‘ اخلاق اور ایمان و عقیدہ کو بھی زیر بحث لائے۔ لیکن تاریخ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس رہا۔ شاہی درباروں کے عادی اور نسلی تعصب سے لتھڑے ہوئے مورخین نے اسلام کی تاریخ مرتب کرنا شروع کی۔ حدیث تو سید الانبیاءﷺ کے زمانے میں حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص جیسے اصحابہ نے مرتب کرنا شروع کر دی تھی اور ان کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ لیکن تاریخ کی پہلی کتاب سیرت النبی پر ابن اسحاق کی سیرت ہے جو آپؐ کے وصال کے سو سال بعد لکھی گئی۔

    اس وقت امام مالک بن انس مدینہ منورہ میں موجود تھے اور لوگ انھیں رسول اللہ کے دین کے حوالے سے حجت مانتے تھے۔ انھوں نے جب ابن اسحاق کی کتاب دیکھی تو حیرت سے بولے کہ اس نے تو رسول اکرمؐ کے بارے میں بے بنیاد قصے اور نظمیں گھڑی ہیں۔ جس پر محمد بن اسحاق کو مدینہ بدر کر دیا گیا‘ وہ مصر اور پھر عراق چلا گیا۔

    یہ کتاب ناپید ہو گئی لیکن اس کی ایک سو سال بعد تلخیص ابن ہشام نے اپنی کتاب سیرت ابن ہشام میں پیش کی۔ لیکن اس کتاب کو طبری نے اپنی تاریخ میں خصوصی جگہ دی۔ وہ کتاب جسے امام مالک نے بے بنیاد قصوں اور نظموں کی ملاوٹ سے آلودہ کتاب قرار دیا تھا کئی صدیاں گزرنے کے بعد طبری کے ہاں معتبر  تاریخی مواد بن گئی اور آج ہر کوئی اس کی بنیاد پر اسلام کی تاریخ پر سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔

    آج سے ایک سال قبل 7 جولائی 2015ء کو میں نے طبری کے بارے میں ایک کالم ’’ہمارے افسانہ ساز مورخین‘‘ کے نام سے تحریر کیا تھا۔ جس میں اس کی تاریخ کے مواد پر اعتراضات کیے تھے۔ اس کے بعد اخبارات میں ایک طویل بحث چل نکلی۔ میرے سیکولر دوست طبری کے دفاع میں آئے لیکن پھر خاموش ہو گئے جب کہ منبر و محراب سے محمد اسماعیل ریحان صاحب نے کالموں کا ایک سلسلہ ’’علامہ طبری۔ مورخ‘ مجتہد یا افسانہ ساز‘‘ تحریر کیا۔ جس کے جواب میں4  ستمبر 2015 ء کو میں نے ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کیا اور طبری کے ان راویوں پر طویل بحث کی جنھیں آئمہ جرح و تعدیل جھوٹے اور کذاب کے طور پر گردانتے ہیں۔

    کالموں کا دامن بہت مختصر ہوتا ہے۔ اس میں علمی بحث دلائل کے ساتھ نہیں سمیٹی جا سکتی۔ اس کے لیے موثر تحقیق چاہیے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے ان دو کالموں اور محمد اسماعیل ریحان صاحب کے نو عدد کالموں کو بنیاد بنا کر پروفیسر قاضی طاہر علی الہاشمی نے ساڑھے آٹھ سو صفحات پر مشتمل ایک جامع تحقیق مرتب کر کے چھاپ دی۔ کتاب کا عنوان ہے ’’امام طبری کون؟ مورخ‘ مجتہد یا افسانہ ساز۔ یہ کتاب بہت ہی عرق‘ ریزی اور محنت سے تحریر کی گئی ہے اور تاریخ کے متعصب اور من گھڑت مواد میں سے سچ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

    پروفیسر قاضی محمد طاہر الہاشمی حویلیاں‘ ہزارہ کی جامع مسجد میں خطیب بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب پبلشنگ کے مراکز لاہور‘ اسلام آباد اور کراچی سے بہت دور ہیں۔ اس دوری نے ان میں ایک اور طرح کی جرات رندانہ بخشی ہے۔ انھوں نے ہمت کر کے یہ کتاب خود چھاپی ہے اور کمال خوبصورت چھاپی ہے اور قاضی چن پیر الہاشمی اکیڈمی‘ مرکزی جامع مسجد حویلیاں‘ ہزارہ کے زیراہتمام طباعت کی گئی ہے۔ کتاب اسقدروسیع اور تحقیق اسقدر خوبصورت ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان علماء‘ فقہا اور فضلاء یاد آ جاتے ہیں۔ تاریخ کے کوڑے دان سے سچ کو تلاش کرنے کا یہ کام بہت عظیم ہے۔مدتوں بعد منبر و محراب اور مدرسے کی چٹائیوں سے ایک اہم کام ہوا ہے۔