Author: آصف محمود

  • وزیر اعظم خان کے تین آپشنز…آصف محمود

    وزیر اعظم خان کے تین آپشنز…آصف محمود

    asif mehmood

    تحریک انصاف کا کنونشن ختم ہوا تو سرشام چودھری طاہر جمیل سے ملاقات ہوئی۔ طاہر جمیل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی پریس سیکرٹری رہ چکے ہیں اور وہ کنونشن ہی سے سیدھا اٹھا کر آ رہے تھے ۔ میں نے کہا : چودھری صاحب کنونشن کیسا رہا؟ دلگرفتہ سی مسکراہٹ بکھیر کر کہنے لگے: ’’کیا بتائیں آصف صاحب ، ٹائیگر تو ہم پہلے ہی تھے ۔ہمیں تازہ حکم اب یہ دیا گیا ہے کہ دم ہلا کر دکھائیں ورنہ تین آپشنز میں کوئی ایک چن لیں ‘‘ ۔

    یہ تین آپشنز عمران خان صاحب نے کنونشن میں اس وقت دیے جب ایک کارکن کھڑے ہو کر عمران خان کے سامنے کچھ لوگوں کی شکایت کرنا چاہی۔اس سادہ دل کارکن کو علم نہیں تھا کہ عمران خان کی تحریک انصاف اب جارج آرول کا ’’ اینیمل فارم ‘‘ جہاں کہنے کو تو تمام کارکن برابر ہیں لیکن کچھ خاص کارکن کچھ زیادہ ہی برابر ہیں۔اسے شاید علم نہیں تھا کہ وہ تحریک انصاف خواب ہو چکی جس نے پلکوں میں سپنے کاشت کیے تھے۔اب کارکن کا جذبہ اور خلوص نہیں کچھ اور عوامل ہیں جو اسے پارٹی میں معتبر بناتے ہیں۔کارکن بھی غالبا ان عوامل سے محروم ہو گا۔ جہاز کی بجائے کسی کھٹارہ سی بس پر آیا ہوگا ۔ اس کا لباس بتا رہا ہو گا کہ کم بخت برانڈڈ پیر ہن سے نا آشنا ہے۔اس کا حلیہ شکوہ کناں ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی تجوری نہیں جس میں سے نکال کے بھاری فنڈ دے سکے۔ اب نئے پاکستان کے خواب ناک ماحول میں ایسے کارکن کا کیا کام ۔ چنانچہ اس گستاخی پر وزیر اعظم خان کو غصہ آ گیا اور انہوں نے ارشاد فرمایا کہ پارٹی کے عہدوں پر وہ نامزدگیاں کریں گے۔جس کو اختلاف ہو اس کے پاس تین آ پشنز ہیں ۔ اول : وہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں چلا جائے ۔ دوم : وہ الگ سے سیاسی جماعت بنا لے ۔ سوم : وہ عمران خان کے مقابلے میں چیئر مین کا الیکشن لڑ لے۔

    ’’ شہر گر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
    صاحب اختیار ہو ، آگ لگا دیا کرو ‘‘

    یہ اس عمران خان کا رویہ ہے جو ملک میں ایک جمہوری کلچر کا علمبردار ہے۔ دوسروں کو بادشاہ سلامت کا طعنہ دیتا ہے ۔ لیکن اس کی اپنی بارگاہ میں ایک کارکن کو یہ اجازت بھی نہیں کہ دل کی بات ہی کہہ سکے۔مکرر عرض ہے کہ کسی روز نیا پاکستان بن گیا تو احباب کو لگ پتا جاے گا کہ آمریت کیا ہوتی ہے۔عمران خان کا کوئی ایک المیہ نہیں ہے۔ مطالعے کا شدید فقدان ہے ۔ مشیر بھی عون چودھری اور نعیم الحق جیسے نابغے ہیں ۔ مزاج میں ٹھہراؤ آ ہی نہیں سکا۔چنانچہ ہر صبح صاحب ایک خواب دکھاتے ہیں اور ہر شام اس کی تعبیر خود ہی پامال کر دیتے ہیں۔ایک عرصہ ڈھول پیٹا جاتا رہا جماعت میں الیکشن ہوں گے۔ پھر صاحب کے مزاج کی آمریت دو الیکشن کمشن کھا گئی۔ اول جسٹس وجیہہ الدین جیسا نجیب آدمی برداشت نہ ہوا پھر تسنیم نورانی اور سیمسن سائمن کے ساتھ بھی نہ چل سکے۔

    اب کارکنان کو کہا جا رہا ہے گونگے بہرے بن کر اطاعت کرو ورنہ تین آپشنز موجود ہیں۔تحریک انصاف کا فکری افلاس لمحہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے۔اب فکری زمام نعیم الحقوں کے ہاتھ میں ہے۔ان کا تازہ ٹویٹ بہت سوں کو گدگدا گیا ہے ۔جناب نعیم الحق لکھتے ہیں کہ کشمیر میں ن لیگ نے 689000ووٹ حاصل کیے ۔جبکہ تحریک انصاف نے 383000 ووٹ لیے اور پی پی پی نے 353000 ووٹ لیے ۔ پی پی پی اور تحریک انصاف نے مل کر ن لیگ سے زیادہ ووٹ لیے لیکن ان دونوں کی نشستیں صرف چار ہیں جب کہ ن لیگ کی 32 نشستیں ہیں۔ایسا تجزیہ صرف نعیم الحق ہی کر سکتے ہیں۔کیا اب بھی کوئی شخص نعیم الحق صاحب پر یہ تہمت لگا سکتا ہے کہ وہ سیاست کی الف ب سے واقف ہیں۔نعیم الحق صاحب کو یہ تو نہیں بتایا جا سکتا کہ بھائی دو جماعتیں ساٹھ ساٹھ ووٹ لیں اور تیسری جماعت اکسٹھ ووٹ لے جائے تو اکسٹھ ووٹ لینے والی جماعت جیت جاتی ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم دو جماعتوں نے مل کر ایک سو بیس ووٹ لیے تھے تو اکسٹھ والا کیسے جیت گیا۔ایسا مشورہ وہ یقیناًپسند نہیں کریں گے۔ انہیں وہی مشورہ دینا چاہیے جو انہیں اچھا لگے۔ تو بھائی یہ دھاندلی ہو گئی ہے۔ جلدی سے دھرنا دو اور گنگناؤ : ’’ عمران خاں دے جلسے اچ اج میرا نچنے نوں جی کردا ‘‘

    میں نے چودھری طاہر جمیل سے پوچھا اب کیا ارادہ ہے ۔سوال اٹھانا ہے یا دم ہلانی ہے۔ کہنے لگے کیا کریں دم ہلا نے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔دم بھی اگر اے ٹی ایم کے سائے میں نہ ہلے تو کوئی فائدہ نہیں۔جسٹس وجیہہ الدین ،اکبر ایس بابر، نوید خان، عدنان رندھاوا،ایڈمرل جاوید اقبال ۔۔۔کتنے ہی لوگ الگ ہو گئے۔اب نعیم الحق ہیں اور عون چودھری۔انجام دیوارپہ لکھا ہے۔
    خیر یہ ان کا جماعتی مسئلہ ہے ۔مجھے دم سے ایک نظم یاد آ رہی ہے۔یہ نئے پاکستان کا امکانی منظر نامہ نہیں ہے۔ اسے صرف ادبی ذوق کے تحت پڑھا جائے۔

    ’’جناب دم کی عجب نفسیات ہوتی ہے
    کہ اس کی جنبش ادنی میں بات ہوتی ہے

    وفا کے جذبے کا اظہار دم ہلانا ہے
    جو دم کھڑی ہے وہ نفرت کا تازیانہ ہے

    جو لمبی دم ہے وہ عالی صفات ہوتی ہے
    جو مختصر ہے بڑی واہیات ہوتی ہے

    وہ جاندار مکمل نہیں ادھورا ہے
    وہ جس کی دم نہیں ہوتی لنڈورا ہے

    جہاں میں یوں تو ہے اونچا مقام انساں کا
    مگر لنڈوروں میں آتا ہے نام انساں کا

    میں سوچتا ہوں جو انساں کے دم لگی ہوتی
    کسر جو باقی ہے وہ بھی نہ رہ گئی ہوتی

    وہ اپنی جان بچانے کو یہ سپر لیتا
    جو ہاتھ سے نہیں کر پاتا دم سے کر لیتا

    کچھ اس طرح سے رد عمل ہوا کرتا
    گزرتی دل پہ تو دم پہ اثر ملا کرتا

    خوشی کا جذبہ اترتا تو دم اچک جاتی
    کوئی اداس جو ہوتا تو دم لٹک جاتی

    کسی پہ دھونس جماتا تو دم اٹھا لیتا
    کسی سے دھونس جو کھاتا جو دم دبا لیتا

    بزرگ لوگ جوانوں سے جب خفا ہوتے
    زباں پہ ان کے یہ الفاظ برملا ہوتے

    تمہیں خبر نہیں تھی کیسی آن بان کی دم
    کٹا کے بیچ لی تم نے تو خاندان کی دم

    کہیں جو فاتح اعظم کوئی کھڑا ہوتا
    میرے خیال میں یوں پوز دے رہا ہوتا

    بڑے غرور سے لہرا رہا ہے دم اپنی
    بجائے مونچھوں کے سہلا رہا ہے دم اپنی

    سبا میں جب کوئی دستور نو بنا کرتا
    شمار رائے کچھ اس طرح سے ہوا کرتا

    جو لوگ اس کے موافق ہیں دم اٹھا لیں وہ
    جو لوگ اس کے مخالف ہیں دم گرا دیں وہ

    امیر لوگوں کی دم میں انگوٹھیاں ہوتیں
    انگوٹھیوں میں نگینوں کی بوٹیاں ہوتیں

    گھمنڈ اور بھی بڑھ جاتا اور اتراتے
    یہ لوگ جب گھڑی اپنی دم میں لٹکاتے

    حسین لوگ کسی طرح سے نباہ لیتے
    نہ ملتا کچھ تو فقط دم ہی کو ہی رنگا لیتے

    جو مفلسی سے اپنی کوئی جھلاتا
    تو ہسپتال میں جا کے دم کٹا آ تا

    حسین لوگوں کی پھولوں ے دم ڈھکی ہوتی
    کہ پھلجھڑی سے فضاؤں میں چھٹ رہی ہوتی

    دموں سے پھر قد زیبا کچھ اور سج جاتے

    کہاں کی زلف کہ دم ہی میں دل الجھ جاتے

    یہ افتخار جو ہم عاشقوں کو مل جاتا
    ہر ایک غنچہ امید دل کو کھل جاتا

    کسی کو بزم میں ہم اپنا یوں پتا دیتے
    بجائے پاؤں دبانے کے دم دبا دیتے

    کبھی کمند کا جو کام دم سے ہو جاتا
    ہم عاشقوں کا بڑا نام دم سے ہو جاتا

    اشارہ کر کے ہمیں دم وہ اپنی لٹکاتے
    ہم ان کے کوٹھے پہ دم کو پکڑ کے چڑھ جاتے

    ہماری راہ کا ہر کانٹا پھول ہو جائے
    اگر دعا یہ ہماری قبول ہو جائے

    کہ آدمی کے لیے دم بہت ضروری ہے
    بغیر دم کے ہر اک آرزولنڈوری ہے ‘‘

    لیجیے ابھی تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما کا ایس ایم ایس آیا ہے۔لکھا ہے نواز شریف اور کھوتے میں فرق ہے۔ ساتھ ہی ایک ویڈیو بھیجی گئی ہے اور کہا گیا ہے صاحب نے اس ویڈیو میں اس فرق کو مخصوص انداز میں ضاحت سے بیان کیا ہے۔ ویڈیو تو میں نے نہیں دیکھی البتہ یہ سوچ رہا ہوں کاش تحریک انصاف کے پاس بھی کوئی ایسا رہنما ہوتا جس کے بارے میں یہ صاحب ایسا ہی کوئی دعوی کر سکتے۔

  • وجاہت مسعود اور عامرخاکوانی کی خدمت میں – آصف محمود

    وجاہت مسعود اور عامرخاکوانی کی خدمت میں – آصف محمود

    آصف محمودبرادر مکرم جناب وجاہت مسعود سے برسوں پرانا تعلق ہے جو اب تعلق خاطر سے بھی بڑھ چکا ہے۔ ماہ و سال نے یہ رشتہ اب اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ ان سے اختلاف کرتے ہوئے ایک اطمینان ہوتا ہے کہ اختلاف بھلے کوئی سا بھی رخ اختیار کر لے تعلق میں دراڑ نہیں آ ئے گی چنانچہ ’’ ہم سب ‘‘ پر میں نے ان کی فکر سے اتنا شدید اختلاف کیا کہ وجاہت کی جگہ کوئی اور ہوتا تو’’ ہم سب ‘‘ میرے لیے ’’ تم سب ‘‘ ہو چکا ہوتا۔ لیکن اتنا کچھ لکھ دینے کے باوجود، یہی احساس آج بھی قائم ہے کہ اختلاف رائے کی شدت کے باوجود معاملہ ابھی تک ’’ ہم سب ‘‘ کا ہی ہے اور ان شاء اللہ ایسا ہی رہے گا۔
    برادر مکرم جناب عامر خاکوانی سے بھی محبت اور احترام کا رشتہ ہے ۔ ان کی ’’ دلیل ‘‘ سے بھی نیک تمناؤں کے ساتھ ساتھ گاہے اختلاف رہتا ہے اور اس کا اظہار کرتے ہوئے یہ اطمینان بھی کہ خاکوانی صاحب برا نہیں منائیں گے۔ باوجود اس کے کہ وہ ’’ اسلامسٹ ‘‘ہیں اور میں صف نعلین میں کھڑا ایک عام گنہ گار پاکستانی مسلمان، (سچ پوچھیے تو مجھے تو اسلامسٹ کی اصطلاح سے ہی اتفاق نہیں ہے ۔مجھے لگتا ہے اس اصطلاح میں ایک خاص تکبر اور زعم تقوی چھپا نظر آ تا ہے ) تاہم تعلق خاطر ہے اور تکلفات اور تصنع سے بے نیاز ہے ۔
    میں ’’ ہم سب ‘‘ اور ’’دلیل ‘‘ دونوں کا ایک ادنی سا قاری ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ ایک آدھ استثناء کے ساتھ دونوں فورمز پر لکھاریوں کی طبع آزمائی کا میدان فکری اور نظریاتی ہے۔ بلاشبہ فکری اور نظریاتی مباحث کی ایک اہمیت ہوتی ہے لیکن اسی کا اسیر ہو کر رہ جانا ایک صحت مند رجحان نہیں ہوتا۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ سیکولر احباب خاطر جمع رکھیں وہ اس سماج کو سیکولر نہیں بنا سکتے۔ اسلامسٹ بھی جتنا مرضی زور لگا لیں یہ سماج ان جیسا نہیں ہو سکتا۔ یہ نظری مجادلہ ایک فکری اقلیت کا مشغلہ تو ہو سکتا ہے، عام آدمی اس سے بے نیاز ہے اور اس کے مسائل کچھ اور ہیں
    سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر کیوں نہیں لکھا جا رہا؟
    جس طرح اخبارات اور چینلز کو سیاست لاحق ہو چکی ہے اسی طرح ’’ ہم سب ‘‘ اور ’’دلیل ‘‘ پر نظری بحث کی حکمرانی ہے۔ سماج کے دیگر مسائل اور رجحانات جیسے صحت، تعلیم، تہذیب، تربیت، انصاف، روزگار، تخلیق، ادب وغیرہ نظر انداز ہو رہے ہیں ۔ افتاد طبع بھلے کسی ایک موضوع کے انتخاب پر اصرار کرتی ہو سماج لیکن تنوع اور تخلیق کا متمنی ہے۔
    ہو سکتا ہے میرے بھائی میرے اس مشاہدے سے متفق نہ ہوں کہ ان کے ہاں نظری مباحث کی کثرت ماحول کو بوجھل کر رہی ہے لیکن انہیں علم ہونا چاہیے کہ سماج میں میرے جیسے کم علم بھی موجود ہیں جن کی قوت مشاہدہ میری طرح کمزور ہوتی ہے۔ مکرر عرض ہے کہ یہ سماج نہ سیکولرز کی طرح سیکولر ہو سکتا ہے، نہ اسلامسٹوں کی طرح کا اسلامسٹ ہو سکتا ہے۔ ا س لیے اس نظری اور فکری بحث سے نکل کر سماج کی تشکیل و تہذیب کے ان پہلوؤں کو موضوع بنائیے جو سیکولر اور اسلامسٹ ہر دو طبقے کی ضرورت ہیں.

  • بھارت سے آزادی یا انگیجمنٹ؟ آصف محمود

    بھارت سے آزادی یا انگیجمنٹ؟ آصف محمود

    asif mehmoodکشمیریوں نے جذبہ حریت اور ایثار کی مثالیں قائم کر دیں۔ اب اہل پاکستان کو سوچنا چاہیے : کیا ہم کشمیریوں کے خیرخواہ ہیں؟ کیا پاکستان اس قابل ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کو اگلے پانچ دس پندرہ یا بیس سال کے بعد بھی طاقت کے ساتھ کامیاب کروا لے گا؟ اگر اس بات کا جواب ہاں میں ہے تو ٹھیک ہے، کشمیریوں سے کہہ دیجیے کہ اتنے سال وہ خون سے چراغ جلاتے رہیں ۔اس کے بعد ہم پوری طاقت کے ساتھ حرکت میں آئیں گے اور ایک سویرا طلوع ہو جائے گا۔
    لیکن اگر ہم نے بیس سال بعد بھی اپنی مجبوریوں کا رونا رونا ہے اور خود کو محض زبانی تائید تک محدود رکھنا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کیسے ممکن ہو گی؟ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوت ہیں۔ کوئی جنگی معرکہ تو اب کشمیر کا فیصلہ کرنے سے رہا۔ گوریلا جنگ کی مدت بالعموم دس سال ہوتی ہے، اس کے بعد اسے بھرپور قوت سہارا نہ دے تو یہ کامیاب نہیں ہو پاتی۔ نوے کی دہائی میں بھی تحریک چلی اور قربانیوں کی انمٹ داستان چھوڑ گئی۔ ہم زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہ کر سکے۔ اب پھر ایک تحریک اٹھ رہی ہے۔ کیا اس دفعہ ہم کچھ کر سکیں گے؟
    آزادی کا کوئی روڈ میپ ہے تو بتایا جائے۔ نہیں ہے تو کیا صرف اس لیے اٹھتی جوانیاں قربان کی جاتی رہیں کہ بھارت کو انگیج رکھا جائے۔ اگر ان کی حیثیت ہمارے لیے محض ایک ٹشو پیپر کی نہیں اور ان کے دکھ کو ہم اپنا سمجھتے ہیں تو کیا یہ کشمیریوں سے خیرخواہی ہو گی۔
    ہم چاہتے کیا ہیں؟ بھارت کو صرف انگیج رکھنا ۔۔۔ یا آزادی؟

  • بہانہ پرویز خٹک، نشانہ نواز شریف- آصف محمود

    بہانہ پرویز خٹک، نشانہ نواز شریف- آصف محمود

    asif mehmoodاندر کی کوئی خبر میرے پاس نہیں ہوتی۔ میں بالعموم دستیاب خبر پر تبصرے تک محدود رہتا ہوں۔ گذشتہ کچھ دنوں سے کچھ ایسے احباب جن کے پاس گاہے اندر کی خبریں ہوتی ہیں، یہ دعویٰ کرتے پائے گئے ہیں کہ عمران خان آج کے کنونشن میں پرویز خٹک کی وزارت اعلیٰ کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔

    یہ خبر مجھے درجنوں دوست سنا چکے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کی صفوں میں موجود سکون بتا رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ڈور کا کوئی سرا اہل صحافت کی نظر سے اوجھل ہے۔ یا تو یہ خبر درست نہیں یا پھر پر ویز خٹک کو اعتماد میں لے لیا گیا ہے اور اصل نشانہ خٹک صاحب نہیں نواز شریف صاحب ہیں۔

    عمران خان پرویز خٹک کے خلاف ایسا کوئی فیصلہ کیوں کریں گے۔ جہانگیر ترین خٹک کی پشت پر ہیں اور تحریک انصاف میں جس کے ساتھ ترین صاحب ہوں اس کا کوئی مائی کا لال بال بیکا بھی نہیں کرسکتا اور مائی کا وہ لال تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا جس کی جیب میں اپنا بٹوہ تک نہیں ہوتا اور جس کا مبینہ طور پر اے ٹی ایم مشینوں پر بہت انحصار ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ اس موقع پر اپنے ہی وزیر اعلیٰ کی چھٹی کراکے اپنے خلاف فرد جرم خود ہی لگا دینا کوئی دانش مندی نہیں۔ ایک داخلی اضطراب بھی تحریک انصاف کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی خٹک صاحب کی مدد کو آسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خدشات کی ایک طویل فہرست ہے جو بتا رہی ہے کہ یا تو یہ سب صرف افواہ ہے اور بات اگر درست نکلتی ہے تو پھر بات اصل میں کچھ اور ہے۔

    اگر یہ بات درست نکلتی ہے تو اس کا مطلب ہے پرویز خٹک کو اعتماد میں لے لیا گیا ہے اور اصل نشانہ نواز شریف ہیں۔ پرویز خٹک سے کہا جا سکتا ہے آپ پر الزامات ہیں آپ جب تک ان الزامات سے خود بری الذمہ قرار نہیں دے لیتے تب تک تحریک انصاف آپ کو معطل کرتی ہے۔

    اس کے بعد ایک شور اٹھے کہ نواز شریف پر بھی الزامات ہیں۔ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ جب تک الزامات سے خود کو کلیئر نہیں کراتے وزارت عظمی چھوڑ دیں۔۔۔۔ ساتھ ہی ایک تحریک شروع ہوجائے ۔

    میں نے عرض کی کہ میرے پاس اندر کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ دستیاب خبر پر تبصرے تک ہی محدود رہتا ہوں۔ یہ افواہ یا خبر چونکہ نصف درجن سے زائد ذرائع نے دی جن کا اندر کی بات تک رسائی کا دعویٰ ہے، اس لیے اس پر ایک امکانی تبصرہ کر دیا۔۔۔ یہ خبر ہے یا افواہ اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

  • اردوان کو خطرہ صرف اردوان سے ہے – آصف محمود

    اردوان کو خطرہ صرف اردوان سے ہے – آصف محمود

    asif mehmoodطیب اردوان بلاشبہ اپنی بہت سی خوبیوں کی وجہ سے مقبول ترین رہنماءوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی ان کے ویسے ہی مقروض ہیں کہ جب ہماری اپنی حکومت خاموش رہی، اس وقت طیب اردوان نے بنگلہ دیش سے سفیر واپس بلا لیا تھا۔ ان کی مقبولیت کے بارے میں بھی ہماری آراء غلط ثابت ہوئیں۔ خیال تھا کہ اپنی آمرانہ پالیسیوں کی وجہ سے وہ خاصے غیر مقبول ہو چکے ہوں گے اور ان کے حق میں ترکی میں کوئی خاص آواز نہیں اٹھے گی لیکن ہم نے دیکھا کہ انہوں نے کال دی اور عوام نے ٹینکوں کا رخ موڑ دیا ۔ کوئی اور مانے نہ مانے، میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان کی مقبولیت کے بارے میں میری رائے غلط ثابت ہوئی۔ نہتے عوام نے تاریخ رقم کر کے ثابت کر دیا کہ اردوان آج بھی ایک مقبول اور محبوب رہنما ہیں۔
    تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اردوان جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ ان کا مزاج اور ان کی افتاد طبع ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ عقیدت کی بجائے دیانت سے معاملہ کیا جائے تو اردوان کے طرز حکومت پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کا عالی شان محل جو ایک ہزار کمروں پر مشتمل ہے اور وائٹ ہائوس سے کئی گنا بڑا ہے، نہ ایک مبینہ مرد مومن کو زیبا ہے نہ ہی کسی جمہوری رہنما کو ۔ کرپشن کے الزامات بھی ان پر لگے اور ان کے قریبی ترین عزیز رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ فتح اللہ گولن کے ساتھ بھی ان کا رویہ مبنی بر انصاف نہیں رہا ۔ اخبارات اور اہل صحافت بھی ان کا نشانہ بنتے رہے اور اس کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ ان کے مزاج میں اگر تھوڑی برداشت ہوتی تو شاید موجودہ بحران کھڑا ہی نہ ہوتا۔
    اب اس بحران کے بعد بھی طیب اردوان انصاف کے بجائے انتقام کی جانب مائل نظر آتے ہیں ۔ بغیر تحقیقات کے انھوں نے کھڑے کھڑے فتح اللہ گولن کو ملزم قرار دے دیا۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مجرموں کے ساتھ انصاف کرنے سے زیادہ یہ چاہتے ہیں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی مخالفین کا صفایا کر دیا جائے۔ چنانچہ بغاوت فوج نے کی اور صاحب نے چن چن کر ایسے گستاخ ججز برطرف کر دیے جن سے معاندانہ فیصلوں کی تکلیف تھی یا امکان ہی تھا۔ ججز کا فوجی بغاوت سے کیا تعلق؟ لیکن طیب اردوان کو موقع ملا اور انہوں نے سوچا کہ سب مخالفین کو لپیٹ لیا جائے ۔ یہ رویہ آمرانہ ہے اور یہی رویہ ترکی کو بحران سے دوچار کرے گا۔ بغیر تحقیق کے کھڑے کھڑے اڑھائی ہزار جج فارغ کر دینا کہاں کا انصاف اور کہاں کی جمہوریت ہے؟ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ فتح اللہ گولن سے اردوان کے اختلافات کب شروع ہوئے؟ اس وقت جب انہوں نے اردوان کی کرپشن اور آمرانہ پالیسیوں پر تنقید کی۔ طیب اردوان اسے برداشت نہ کر سکے۔ آنے والے دنوں میں وہ زیادہ آمرانہ انداز سے مخالفین کو کچلیں گے اور ترکی کے سماج میں فکری خلیج گہری ہوتی جائے گی ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ترکی کو کیا فائدہ ہوگا؟
    اردوان اپنی مقبولیت کو بروئے کار لا کر چاہیں تو ترکی کو مزید آگے لے جا سکتے ہیں اور چاہیں تو اب تک کی ساری کامیابیاں صرف شخصی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیں۔ انہوں نے ہی پہلے ترکی کو بنایا، اب ڈر یہ ہے کہ انہی کی پالیسیاں اس سارے عمل کو غارت نہ کر دیں۔ فوجی بغاوت تو ناکام ہو گئی ۔اردوان کو اب صرف اردوان سے خطرہ ہے ۔ اللہ اردوان کو اردوان سے محفوظ رکھے. آمین

  • برہان وانی ،جذبہ حریت اور سیکولر انتہا پسندی  –  آصف محمود

    برہان وانی ،جذبہ حریت اور سیکولر انتہا پسندی – آصف محمود

    asif mehmood
    برسوں قبل میں نے بھگت سنگھ کے جذبہ حریت کی تحسین میں کالم لکھا تو سیکولر احباب نے بہت سراہا۔ آج برہان وانی اٹھتی جوانیوں میں جذبہ حریت پر قربان ہوگیا تو سیکولر احباب پر سکوت مرگ طاری ہے۔ ایک حسرت ہی رہی کہ چی گویرا سے آن سانگ سوچی تک کے جذبہ حریت کی تحسین کرنے والے سیکولر حضرات کبھی تو ایک فقرہ سید علی گیلانی کی حریت پسندی کی تحسین میں بھی ادا کردیں ۔

    چی گویرا کے جذبہ حریت کے گن گانے والے احباب علی گیلانی کے جذبہ حریت کی تحسین میں دو لفظ ادا نہیں کرسکتے ۔

    اس کریہہ تعصب کو کیا نام دیا جائے کہ جہاں کوئی مسلمان سامنے آتا ہے یہ لبرل حضرات اپنے ہی آدرشوں سے منکر ہوجاتے ہیں ۔ اسلام اور مسلمانوں سے اتنی نفرت اور اس پر یہ دعویٰ کہ صاحب ہم تو انسانیت پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔

    مکرر عرض ہے کہ سیکولرزم اہل مذہب کی نفرت میں پروان چڑھنے والی ایک بیمار کیفیت کا نام ہے۔

    بعض اوقات تو واقعی دکھ کی کیفیات آن لیتی ہیں کہ ان احباب کے ساتھ معاملہ کیا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ آ خر کس بنیاد پر چی گویرا ما آن سانگ سوچی اور بھگت سنگھ وغیرہ کی تحسین کرتے ہیں؟ اگر تو یہ کاوش اس لیے کہ وہ جذبہ حریت کے علمبردار تھے تو پھر اسی جذبہ حریت کا مظاہرہ جب علی گیلانی، برہان وانی یا شیخ یٰسین کرتے ہیں تو یہ ان کی تحسین کیوں نہیں کرپاتے؟ آدمی جب اس سوال پر غور کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر احباب کا معاملہ جذبہ حریت سے محبت کا نہیں بلکہ اسلام اور اہل مذہب سے بغض اور عناد کا ہے اوریہ تحسین کے دو بول بولنے سے پہلے یہ تسلی کرلینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ ان کا ممدوح کہیں مسلمان تو نہیں۔ اگر وہ غیر مسلم ہو تا یہ اس کی دادو تحسین میں کسی بخل سے کام نہیں لیں گے لیکن اگر ان اعلیٰ اوصاف کا حامل کوئی مسلمان ہو تو یہ آنکھیں بند کر لیں گے۔ گونگے بہرے اور اندھے ہو جائیں گے۔

    چنانچہ آپ دیکھیے سری نگر کے محلہ حید پورہ میں ایک بوڑھا سید علی گیلانی جس کا نام ہے کس شان سے جذبہ حریت کا پاسبان بنا ہوا ہے۔ لیکن مجال ہے آج تک کسی ایک سیکولر دانش ور نے علی گیلانی کے جذبہ حریت کی دو لفظوں میں تحسین کی ہو۔

    ان سیکولر حضرات کا دعویٰ ہے انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے لیکن مجال ہے کبھی انہوں نے کشمیر یا فلسطین میں سسکتی انسانیت کے لیے دو لفظ منہ سے نکالے ہوں۔ پھر یہ کون سی انسانیت ہے صاحب جو آپ کے نزدیک سب سے بڑا مذہب ہے۔

    ان کا اصل مسئلہ نہ کوئی آدرش ہے یا کوئی اصول۔ یہ صرف اسلام ا ور اہل مذہب سے نفرت اور رد عمل میں کھولتا پانی بن چکے ہیں۔

    میرا سوال اب یہ ہے کیا اس رویے کو انتہا پسندی کہا جاسکتا ہے؟ سیکولر انتہاپسندی؟