ایک جہاں کی رعونت اوڑھ کر نشریاتی فضلے سے آلودگی پھیلانے والے میڈیا کو تو حیا نہیں آنی، لیکن مجھ پر ایک معذرت واجب ہے. میں عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکنان سے معافی چاہتا ہوں.
میرے جیسے لکھنے والے کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں خبروں کے لیے اخبارات اور چینلز پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے کہ فی الوقت یہی کسی خبر کے بنیادی ذرائع ہیں. ہم یہ کرتے ہیں کہ ان اخبارات اور ٹی وی چینلز سے جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے، اس پر تنقید و تبصرہ کر دیتے ہیں، یا اس کا کسی نئے زاویے سے تجزیہ کر دیتے ہیں. ہر خبر اپنی شہادت پر دینا ہماری استعداد میں نہیں ہے. یہ ممکن نہیں کہ ہم معمول کی کسی خبر پر تبصرہ کر رہے ہوں اس خبر کی صداقت کی شہادت بھی دے سکیں. یہ ایک اعتماد ہوتا ہے کہ ایک اخبار یا چینل ایک واقعے کو اپنے رپورٹر کے ذریعے جس طرح رپورٹ کر رہا ہے، کم و بیش یہ درست ہوگا. جب تک کوئی خبر انتہائی غیر معمولی نہ ہو یا اسے بادی النظر میں قبول کرنا مشکل امر نہ ہو تب تک خبر کے ان بنیادی ذرائع پر بھروسہ کیا جاتا ہے.
عمران خان جس روز سپریم کورٹ گئے، ان کے حوا لے سے ایک خبر مختلف چینلز پر چلی. کہا گیا کہ انہیں سیکورٹی اہلکار نے پاس دینے کے لیے روکا تو انہوں نے اس کا بازو پکڑ کر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم جانتے نہیں میں کون ہوں. اس خبر کے ساتھ ایک ویڈیو بھی چلائی گئی. بادی النظر میں چینلز کے رپورٹرز کی اس خبر پر شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ رپورٹرز کا ایک لشکر جرار تھا جو اس موقع کی کوریج کے لیے سپریم کورٹ میں موجود تھا. چنانچہ جب خبر بار بار چلنا شروع ہوئی تو اعتماد کے اسی رشتے سے اسے درست سمجھا. اب ظاہر ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ رویہ تھا اس لیے عمران کے اس رویے کے خلاف لکھا بھی اور بولا بھی.
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ واقعہ انتہائی شرمناک اور غیر ذمہ دارانہ طریقے سے رپورٹ ہوا. حقیقت اس کے برعکس تھی. میڈیا تو سر بازار می رقصم ہے. اس سے معذرت کی توقع ایک کار لاحاصل ہے. میں البتہ نادم ہوں اور معذرت چاہتا ہوں. ابوالکلام آزاد نے کہا تھا : سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا. زندہ ہوتے تو جان پاتے صحافت کےتو سینے میں دل رہا نہ آنکھ میں حیا.
یہ سوچنا اب عام آدمی کا کام ہے کہ جو میڈیا رپورٹرز اور کیمروں کی یلغارانہ موجودگی میں بھی درست خبر نہ دے سکا، اس کے بانکے جب ایران توران کی خبریں لاتے ہیں تو ان میں کتنی صداقت ہوتی ہو گی.
تبصرہ لکھیے