Author: ایڈمن

  • کشمیر کس کا ہے؟ چند سوالات – عبیداللہ عابد

    کشمیر کس کا ہے؟ چند سوالات – عبیداللہ عابد

    obaid ullah abidبھارت کیسے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دے سکتا ہے کیونکہ سن 1948 کے بعد سے اب تک متعدد بار خود بھارت نے کشمیر کو ایک ایسا علاقہ تسلیم کیا جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو اقوام متحدہ کیسے اس کا حل استصواب رائے قرار دے سکتی تھی؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو بھارت نے کیوں‌ پاکستان سے کہا کہ ہم اس کا فیصلہ باہم مذاکرات کے ذریعے کریں گے؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو کشمیر کے ایشو پر بھارت پاکستان کے ساتھ کیوں‌ مذاکرات کی میز پر بیٹھا؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو وہاں شیخ عبداللہ ’شیر کشمیر‘ نہ بنتا، وہ ہیرو اس لیے قرار پایا تھا کہ وہ کشمیر کے بھارت کا حصہ نہ ہونے کا داعی تھا، جب وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹا تو وہ زیرو ہوگیا۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو سید علی شاہ گیلانی سمیت دیگر حریت پسند رہنما کشمیری قوم کی آنکھوں‌ کا تارا کیوں بنتےSyed-Ali-Gilani-addressing-a-bog-gathering-in-Kupwara-08-11-13-800xsize
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو مسلح جدوجہد کیسے پنپ سکتی تھی اور کامیاب ہوسکتی تھی۔ نوے کی دہائی میں خود بھارت کے متعین کردہ گورنر کشمیر ، یہاں کی کٹھ پتلی حکومتیں اور یہاں قابض بھارتی فوج کے جرنیلوں نے مسلح جدوجہد کے مقابل اپنی بے بسی ظاہر کی تھی، سادہ سی بات ہے کہ اگرحریت پسندوں کو کشمیری عوام کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو ان کا کشمیر میں رہنا بھی مشکل ہوتا
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو برہان وانی اور اس سے پہلے کے شہدا کے جنازوں میں مٹھی بھر لوگ ہوتے لیکن یہاں‌لاکھوں لوگ شریک ہوتے تھے اور ہوتے ہیں۔
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج کیسے تمام گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے؟ کیسے پاکستانی پرچموں کے سائے تلے مظاہرین سڑکوں پر نکلتے؟kashmir-protest-pakistan-flag
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا تو آج بھارتی ٹی وی چینلز پر اس سوال پر مباحثے نہ ہوتے کہ یہ عسکریت پسند کیسے کشمیریوں کے ہیرو بنے ہوئے ہیں؟ ان کے جنازوں میں لاکھوں‌انسان کیوں شریک ہوتے ہیں؟ جب کشمیری عسکریت پسند بھارتی فوج کے گھیرے میں آتے ہیں تو کشمیری کیوں انھیں محاصرے سے نکالنے کے لیے بھارتی فوج پر پتھرائو شروع کر دیتے ہیں؟
    ارے بھائی!
    کشمیری قوم اور پاکستان کا یہ مطالبہ دنیا کے کس اصول کے تحت غلط ہے کہ کشمیریوں‌ سے پوچھ لیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ  یا پھر ایک خودمختار ریاست کے طور پر جینا چاہتے ہیں؟
    اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو پھر بھارتی قیادت کو ڈر کس بات کا ہے؟ وہ استصواب رائے سے کیوں انکار کرتی ہے؟ اگر کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو کشمیری بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیں گے نا !!! پھر ریفرنڈم سے گھبراتے کیوں‌ ہو؟
    کیا کشمیری کوئی گائے، بکریاں اور مویشی ہیں کہ انھیں زنجیر سے اپنے کھونٹے کے ساتھ باندھ لیاجائے؟
    یہ سوالات ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو پاکستان میں بیٹھ کر بھارت کے گن گاتے ہیں، جو مسئلہ کشمیر کو غیراہم سمجھتے ہیں، جو کشمیر کے ایشو پر پاکستان کے بجائے بھارت کے پلڑے پر اپنا وزن ڈالتے ہیں۔

  • انھیں بس ایک اور ایدھی چاہیے : سید راشد حسن

    انھیں بس ایک اور ایدھی چاہیے : سید راشد حسن

    12247867_143184039371982_2381542524907879687_o

    موسا دکا شمار دنیا کی صف اول کی خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے۔ موساد کی شہرت کا
    دارومدار اس کی سفاکیت اور بے رحمی پر کم اور اپنے ایجنٹس ؂ کی پیشہ ورانہ
    صلاحیتوں کا اعلی معیار قائم رکھنے پر زیادہ ہے۔کچھ سال ہوئے مجھے ایک کتا ب
    میں آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں اس ایجنسی کے بھرتی (recruitment) کے
    عمل کو کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا گیا تھا ۔مضمون نگار موساد کا ایجنٹ تھا اور اس
    نے سلیکشن کے مختلف مراحل سے گزرنے کی روداد بڑے دلچسپ انداز میں لکھی
    تھی۔سینکڑوں علمی،عملی اوراعصابی امتحانوں کی چھلنی سے گزارنے کے باوجود بھی
    امیدوار کو کسی ایک ڈرل میں مطلوبہ نتائج نہ دینے کی صورت میں مسترد(reject)
    کر دیا جاتا ہے ۔اس ایجنٹ کو جن مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ان میں ایک اعصاب
    شکن آزمائش سیوریج کے انڈرگراؤنڈ جنکشن میں مسلسل کئی گھنٹے گزارنا تھا۔دراصل
    شروع میں پر کئے گئے ذاتی سوال ناموں میں ایک جگہ پوچھا گیا تھا کہ امیدوار کو
    کراہت (disgust) اور الجھن سب سے زیادہ کس ماحول میں ہوتی ہے ، جواب میں اس نے
    سیورج کے تعفن اور باس والی جگہوں پر وقت گزارنے کو اپنے لئے مشکل قرار دیا
    تھا۔ اس کو وہاں اسی لئے بھیجا گیا تھا تاکہ اس کے ضبط اور صبر کی آخری حد کا
    اندازہ لگایا جا سکے۔اس ایجنٹ کے بقول وہاں گزارے وقت نے اس کے اعصاب ایسے شل
    کئے کہ وہ بمشکل اپنے حواس قائم رکھ سکا اور شاید یہ وہ واحد آزمائش تھی جس
    میں اس نے اپنے آپ کو بے بس پایا۔ یعنی کراہت (disgust)کے اس کیفیت کے اگے سپر
    صرف ہم جیسے کمزور اعصاب کے لوگ ہی نہیں ڈالتے بلکہ انتہائی برداشت کے حامل
    غیر معمولی افراد بھی اس کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں۔

    ہم سب اپنے اردگرد کی بہت سی اشیاء کے بارے میں کراہت (disgust) رکھتے
    ہیں۔انسان اور جانوروں کے فضلات، سڑی ہوئی کھانے کی چیزیں اورگندا پانی، خون
    اور اس اسے آلودہ اشیاء ، خاص طور پر مردہ اجسام کے بارے میں سب ہی اس کیفیت
    سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ کراہت (disgust) ہمیں بہت سی مضر بیماریوں اور مصیبتوں
    سے بچاتا ہے اور ہم میں نفاست کی (sense)پیدا کرتا ہے۔لیکن جب کراہت کی اس
    جبلت کا معاشرے کے افراد کی طرف رخ ہو جائے تو یہ کسی بھی سوشل فیبرککا بیڑہ
    غرق کر دیتی ہے۔

    ہمارے ہاں کراہت (disgust) غلاظتوں سے کم اور اپنی نسل، مذہب، فرقہ اور جماعت
    سے تعلق نہ رکھنے والوں سے زیادہ برتی جاتی ہے۔ہر اوپر والا اپنے سے کمتر
    افراد سے دور بھاگتا ہے۔کمتر پیشوں سے وابستہ افراد سے بے اعتنائی برتناہمارا
    معمول ہے ۔معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کا کم ہی کوئی والی وارث بننا پسند کرتا
    ہے۔یہاں اپنے پیاروں کو غسل دینے کے لئے بھی لوگو ں کو باہر سے بلانا پڑتا
    ہے۔یتیموں ، مسکینوں اور بے گھر عورتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے۔یہ سب
    ہماری بے حسی کا تماشا دیکھنے کے لئے زندہ رہتے ہیں۔

    لمحہ فکریہ یہ ہے کہ تعصبات اور کراہتوں(disgusts) کا شکار ہمارے سماج میں اس
    کا کیا قصور ہے جو کسی خاص فرقہ یا طبقہ میں پیدا ہوگیا؟ اس نوزائیدہ کا کیا
    قصور ہے جو مکروہ ترین گناہ کے نتیجہ میں وجود میں آگیا؟ اس لاش کا کیا قصور
    ہے جس سے آنے والے تعفن کی وجہ سے لوگ اسے ہاتھ لگانے سے دور ہے ؟اس یتیم کا
    کیا قصور ہے جس کو اپنانے کو کوئی تیا ر نہیں ہے؟

    ہماری نظر میں تو شاید بیچارگی اور ہم جیسا نہ ہونا ہی ان کے کوڑھی پن کا
    سرٹیفکیٹ ہے لیکن ہمارے رب کی نظر میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا تبھی اس نے
    عبدالستار ایدھی جیسا نادار الوجود شخص کو ہم میں پچھلے ستر سال زندہ رکھا
    تاکہ وہ ان کراہتوں (disgusts)
    کا سہارا بنے جن سے دور رہنے سے ہی ہمارے اعصاب بحال رہتے ہیں۔جدھر بڑے بڑوں
    کے ہمت جواب دے جاتی تھی وہاں ایدھی گیا اور بلاتفریق رنگ نسل اور مذہب کام
    کیا اور اس قدر خلوص ، ایمانداری اور بے لوثی سے کیاکہ آج ان کی عزت اور شہرت
    کسی میڈیا پروجیکشن کی محتاج نہیں ہے۔

    اب ایدھی صاحب کے مرنے کے بعد لوگ ان کے قصیدے لکھ رہے ہیں کہ انھوں نے پندرہ
    سو ایمبولنسسز پر مشتمل چوبیس گھنٹہ سروس فراہم کرنے والے نیٹ ورک بنایا،مردہ
    خانوں اور ایدھی ہومز کا جال بچھایا اور دنیا کے لئے رول ماڈل خیراتی نیٹ ورک
    بغیر کسی حکومتی اور غیر ملکی امداد کے بغیر بنایا، سینکڑوں امن ایوارڈ پوری
    دنیا سے اپنے نام کرا کے پاکستان کا نام روشن کیا، لیکن میری نظر میں
    یہکارنامے، اخبار کی شہ سرخیوں اور نیوز رپورٹس میں تو خوشنما اور (appealing)
    لگتے ہیں لیکن ایدھی صاحب کی اصل میراث (legacy) ریکارڈ بکس کی زینت بننا نہیں
    بلکہ پسے ہوئے اور ٹھکرائے طبقات کا سہارا بننا تھی۔ان اعدادوشمار کو پیچھے
    چھوڑنا کسی حکومت یا ارب کھرب پتی مخیر شخص کے لئے ذرا مشکل کام نہیں ہے لیکن
    انسا نی حسیات (sensations) سے بلند ہو کر سوسائٹی کی کراہتوں کو گلے لگانا وہ
    ناممکن تھا جسے ایدھی صاحب نے سات دہائیوں تک ممکن بنائے رکھا۔ایدھی کا اصل
    کارنامہ ان لوگوں کو سینہ سے لگانا تھا جن کے پاس سے گزرتے ہم اپنی ناک پر
    رومال رکھ لیتے ہیں۔ غرض ہماری غلاظتوں اور تعفن کو سمیٹے رکھنے کا جو احسان
    ایدھی نے ہم پر کیا وہ شاید ہم کبھی نہ اتار سکیں ۔

    ہماری طرف سے جو ٹریبوٹ (tribute) تھوڑا بہت پیش کیا گیا وہ ان کا سرکاری ا
    عزاز کے ساتھ جنازہ (state funeral) ، مین سٹریم ،سوشل میڈیا پر ان کو خراج
    تحسین پیش کرنے اور نامور شا ہراوں کو ان سے منسوب کرنے کا سلسلہ تھا ۔لیکن
    حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے ٹریبوٹ، خدمات کے اعترا فات اور عالمی امن ایوارڈ ان
    ٹھکرائے ہوئے پاکستانیوں کے لئے کچھ اہمیت رکھتے ہیں جن کا اصل میں ایدھی ہیرو
    تھا۔انھیں تو بس ایک اور ایدھی چاہیے جو اپنی نگاہوں کو ٹیڑھا اور ناک پر ہاتھ
    رکھے بغیران کی مدد کو آسکے، جو رنگ نسل ،مذہب اور فرقہ کی عینک لگائے بغیر ان
    کے دکھوں کا مداوا کر سکے،جو لینڈکروزر میں بیٹھے بغیر فلاحی کاموں کر سکے،جو
    سرکاری اور غیر سرکاری ڈونیشنز کی دلدل میں گھسے بغیر اتنا بڑا خیراتی نیٹ ورک
    بنا سکے اور جو دھتکارے ہوئے انسانوں کے لئے اپنی زندگی تیاگ کر سکے اور جو ان
    کے وجود سے کراہت(disgust)اور نفرت نہ محسوس کرے ۔انھیں تو ٹریبوٹ نہیں بس ایک
    ایدھی اور چاہیے۔

  • “اسلام بیزاروں کا نیا وار” : شہزاداسلم مرزا

    “اسلام بیزاروں کا نیا وار” : شہزاداسلم مرزا

    اول و آخر سب کچھ اسلام کو ماننے کے آفاقی تصور پر بار بار حملے جاری ہیں کہ
    کسی طرح عام مسلمان اسلام کے علاوہ بھی کسی نظام کی جانب متوجہ ہو۔ آج کل ایک
    نئی سوچ کو خوشنما بنا کر اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے خدانخواستہ
    کسی نئے مذہب کا ظہور ہوا ہے۔ “انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے” اس فقرے میں ہی
    تمام مذاہب سے بغاوت موجود ہے کہ جیسے تمام مذاہب انسانیت کو خدانخواستہ کچھ
    نہیں دے سکے اس لئے اب سب سے کنارہ کشی اختیار کرکے انسانیت کو ہی مذہب مان
    لیا جائے۔ یہ تناظر خود چغلی کھا رہا ہے کہ یہ کسی ملحد کے ذہن کی پیداوار ہے۔
    ایدھی صاحب اسکالر یا تعلیم یافتہ نہیں تھے اور نہ کوئی مذہبی شخصیت تھے بس
    ایک عام سادہ سا درویش بندہ تھا جس نے مظلوم عوام کی خدمت کو ہی اوڑنا بچھونا
    بنا لیا، ان سے جب نماز، روزہ یا حج وغیرہ جیسی عبادات کی پابندی کے متعلق بار
    بار سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کسی لمحے کہہ دیا کہ میرا سب کچھ انسانیت ہی
    ہے بس اتنا کہنا تھا کہ خصوصا اسلام بیزاروں کو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو
    انہوں نے اس فقرے کو فورا اچک لیا اور انسانیت انسانیت کی گردان شروع کر
    دی۔حالانکہ اس طبقے کا اپنا عمل کسی بھی لحاظ سے مہذب انسانی معیارات کے مطابق
    نہین ہوتا۔ شراب پینا انسان کو انسانیت کے مقام سے گراتا ہے، زنا کرنا انسانیت
    کے شرف کے خلاف ہے، بوڑھے والدین کو اولڈہاؤسز چھوڑ دینا انسانیت کی توہین ہے،
    اخلاقی و معاشرتی حدود کی پامالی انسانوں کو حیوان بناتی ہیں اور سب سے بڑھ کر
    انسانیت کو تمام نعمتوں سے مالامال کرنے والے رب کا انکار یا اس کے نظام کو رد
    کرنا انسانوں کو بےحس بنا دیتا ہے۔
    ویسے تو تمام مذاہب کی بنیاد ہی انسانیت کی بہتری پر ہے پر اسلام کا تو سارا
    دعوی ہی یہی ہے کہ جب انسانیت اپنی پستی کی انتہاء پر تھی تو اس کے مقابل
    اسلام کا ظہور ہوا۔ جب بیٹیوں کو زندہ جلایا جاتا تھا، عورتوں کے کوئی حقوق
    نہیں تھے، انسانوں کی خرید و فروخت جانوروں سے سستے داموں ہوتی تھی اور سب سے
    بڑھ کر محکوم انسانوں کی زندگی کو کوئی تحفظ حاصل نہ تھا تب اسلام نے اس
    جاہلانہ طرز زندگی کے مقابل عادلانہ اور باعزت نظام متعارف کروایا۔ والدین کے
    حقوق، بہن بھائیوں، بیوی شوہر کے حقوق، بچوں کے حقوق کے علاوہ ہمسائے اور
    ملازمین کے حقوق تک کون باعزت مقام سے محروم رہ گیا۔
    انسانیت کو جتنا تحفظ مذہب کے حصار میں ہے باہر ہرگز نہیں کیونکہ ثابت ہو چکا
    کہ دنیا جیسے جیسے مذاہب کا دامن چھوڑتی جا رہی ہے انسان اتنا ہی غیر محفوظ
    اور انسانیت تذلیل زدہ ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے دنیا کو امن و سلامتی چاہئے تو
    اسے مذہب کی طرف لوٹنا ہو گا ورنہ اس سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام نے تو
    انسان کو دو وقت کے کھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔
    ایدھی صاحب کی وفات کے بعد انہیں مذہب کے حوالے سے متنازع بنانے والے ایدھی
    صاحب کے دوست تو یقینا نہیں مگر اس آڑ میں ان کا اصل ہدف اسلام ہے اور ان
    سازشوں سے ہمارے نوجوان کو ہردم آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔

  • ہمارے ٹی وی اینکرز کا طرزعمل 

    ہمارے ٹی وی اینکرز کا طرزعمل 

    مولانا زاہدالراشدی

    11207283_730027597102152_1025614031351883226_nرمضان المبارک کے دوران (۱۲ سے ۱۶ رمضان ) پانچ دن کراچی میں گزارنے کا موقع ملا۔ ماہ مقدس میں مختلف ٹی وی چینلز کی خصوصی نشریات میں سے جناب انیق احمد کا سنجیدہ اور با مقصد پروگرام ’’روح رمضان‘‘ اس سفر کا باعث بنا۔ میں عام طور پر ٹی وی پروگراموں سے گریز کرتا ہوں اور دعوت کے باوجود معذرت کر دیتا ہوں جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے بہت سے اینکرز کی یہ پالیسی اور طریق کار ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو بات کہنے کا موقع دینے کی بجائے ان سے اپنی بات کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر مذہبی راہ نماؤں کے بارے میں تو یہ بات طے شدہ ہے کہ مذہب کی نمائندگی کے لیے چن چن کر ایسے حضرات کو سامنے لایا جاتا ہے اور ان سے بعض باتیں حیلے بہانے سے اس انداز سے کہلوائی جاتی ہیں کہ مذہب کے نام پر کوئی ڈھنگ کی بات پیش نہ ہو سکے۔اور جو بات بھی ہو وہ مذہب اور مذہبی اقدار پر عوامی یقین و اعتماد کو کمزور کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ یہ بہت اوپر کی سطح پر طے شدہ پالیسی ہے اور اس ماحول میں اگر کوئی سنجیدہ شخص اپنی بات کہنے کی کوشش بھی کرے تو اسے زبردستی کرنا پڑتی ہے۔ میں خود ایسے متعدد مراحل سے گزر چکا ہوں جن میں سے چند کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔
    نائن الیون کے بعد جب افغانستان کی طالبان حکومت سے امریکہ یہ مطالبہ کر رہا تھا کہ نائن الیون کے سانحہ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالہ کر دیا جائے جس پر طالبان یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کسی مسلمہ بین الاقوامی فورم پر یہ الزام ثابت کر دیا جائے تو وہ یہ مطالبہ پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس دوران لندن کے ایک ٹی وی کی دعوت پر میں ایک پروگرام میں شریک ہوا۔ محترم لارڈ نذیر احمد بھی اس کے شرکاء میں سے تھے۔ بعض دانش ور حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ جب امریکہ اسامہ کو ملزم سمجھتا ہے اور حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے تو طالبان حکومت کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے۔ جبکہ میرا موقف یہ تھا کہ طالبان حکومت کا یہ موقف بے وزن نہیں ہے کہ محض الزام پر وہ ایسا نہیں کریں گے جب تک کسی مسلمہ بین الاقوامی فورم پر اس کے ثبوت فراہم نہ کر دیے جائیں۔ پروگرام اردو زبان میں تھا اور لائیو تھا۔ ہم سب اردو میں بات کر رہے تھے لیکن میں نے جوں ہی یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکہ اس کیس میں مدعی ہے یا جج کی حیثیت بھی اسی کو حاصل ہے؟ تو پروگرام کا ماحول یکلخت تبدیل ہوگیا، گفتگو انگریزی میں ہونے لگی، اور میں انگریزی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے خاموش تماشائی بن کر رہ گیا۔
    اسی طرح ایک بار مجھے اسلام آباد میں پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کسی موضوع پر گفتگو کے لیے بلایا گیا۔ میزبان ایک معروف صحافی تھے جو وفات پا چکے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ انہوں نے پروگرام کا آغاز کیا اور میرا مختصر تعارف کرانے کے بعد گفتگو شروع کر دی۔ گفتگو زیادہ تر علماء کرام کے طرز عمل پر تنقید کے حوالہ سے تھی، وہ مسلسل گفتگو کرتے چلے گئے، میں خاموش بیٹھا سن رہا تھا، جب پروگرام کا طے شدہ وقت ختم ہونے کے قریب پہنچا تو میں نے مجبورًا مداخلت کی اور کہا کہ محترم! آپ نے مجھے اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے بلایا ہے یا اپنی تقریر سنانے کے لیے؟ یہ تو میں کسی جگہ بھی ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر سن سکتا تھا، اس پر وہ مجھے موقع دینے پر مجبور ہوئے اور میں بمشکل چند منٹ گفتگو کر پایا۔
    تیسرا واقعہ اس سے بھی دلچسپ ہے۔ چند سال قبل میں اپنے بعض تعلیمی پروگراموں کے لیے کراچی میں تھا، ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی طرف سے دعوت ملی کہ ’’اسلامائزیشن کے لیے ہوم ورک‘‘ کے حوالہ سے ایک پروگرام ہو رہا ہے، کیا آپ اس میں شریک ہوں گے؟ موضوع میری دلچسپی کا تھا اس لیے میں نے ہاں کر دی۔ جب پروگرام میں پہنچاتو گفتگو کے لیے چند دیگر حضرات بھی موجود تھے۔ میزبان نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کم و بیش طنزیہ لہجے میں سوال داغ دیا کہ آپ علماء کرام کے پاس نفاذ اسلام کے لیے کوئی ہوم ورک بھی موجود ہے یا ویسے ہی نعرے لگاتے چلے جا رہے ہیں؟ یہ کہہ کر انہوں نے سوال کا رخ ایک مولانا صاحب کی طرف کر دیا جن سے میں متعارف نہیں تھا لیکن مجھے اتنا اندازہ تھا کہ ان کی اس موضوع پر تیاری نہیں ہے، یا اس موضوع پر وہ مدلل گفتگو نہیں کر سکیں گے۔ میں ساری تکنیک سمجھ گیا کہ اس سوال پر نامکمل اور مبہم جواب ہی اینکر صاحب کی ضرورت ہے جس کے لیے یہ شریف سے مولانا صاحب قابو کیے گئے ہیں۔ جبکہ اس سوال و جواب کے موقع پر میری موجودگی دکھانا بھی پروگرام والوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
    میں نے مداخلت کی اور کہا کہ اس سوال کا جواب میں دوں گا۔ میزبان نے کہا کہ نہیں مولانا آپ سے ہم کچھ اور سوال کریں گے اور اس سوال کا جواب یہ مولانا صاحب ارشاد فرمائیں گے۔ میں اس پر ڈٹ گیا کہ نہیں اس سوال کا جواب تو میں ہی دوں گا۔ میرا اصرار اور ان کا انکار چند لمحے جاری رہا، بہرحال انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے اور میں نے وضاحت کی کہ اسلامائزیشن کے لیے ہمارے پاس اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی متعدد اجتماعی علمی و فقہی کاوشوں کی صورت میں اس قدر مکمل اور جامع ہوم ورک موجود ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلم ملک نفاذ اسلام کے لیے اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔
    یہ چند ذاتی واقعات اس لیے عرض کیے ہیں کہ میں ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں شریک ہونے سے عام طور پر گریز کرتا ہوں۔ البتہ انیق صاحب کا پروگرام چونکہ سنجیدہ اور بامقصد ہوتا ہے اس لیے اس میں شریک ہونے کے لیے مصروفیات میں سے ہر سال وقت نکالنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اس رمضان المبارک میں بھی تین دن کے دوران سحری اور افطاری کے چھ پروگراموں میں شریک ہوا اور مختلف دینی عنوانات پر کچھ معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوگئی۔