ہوم << شادی اور معاشرتی دباؤ - فرح رضوان

شادی اور معاشرتی دباؤ - فرح رضوان

شیریں کے والد نے جب فرہاد کے لیے، ٹہرایا اپنی بیٹی کا مہر، فقط ایک عدد دودھ کی نہر، تب غالب گمان ہے کہ یہ اصل میں اپنے ہونے والے داماد کا آئی کیو لیول چیک کیا جانا تھا، کہ آیا اس فرمائش پر فرہاد چند دودھ دینے والے مویشی پکڑ کے، ہونے والے سسر کی خدمت میں پیش کرتا ہے، کہ یہ لیں چاچا جی، اب آپ صبح شام دودھو نہائیں، پوتوں پھلیں، یا پھرزبردست peer pressure کے سبب وہ سننے، دیکھنے اور سوچنے کی ہر صلاحیت سے یکسر بیگانہ ہو کر سیدھے دودھ کی نہر کھودنے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔
واقعی یہ peer pressure ہے ہی ایسی بلا، جو اکثر انسانوں کو ان کا پڑھا لکھا سارا سبق، کسی اہم ٹیسٹ یا انٹرویو کے دوران بھلا دیتی ہے۔ سنا ہے کہ موت کے وقت بعض اوقات کلمہ تک سے محروم کر دیتی ہے -
گزشتہ دنوں ایک مشہوراستاد نے peer pressure میں آکر، کھانا کھلانے سے متعلق سارے سبق بھول جانے اور مروجہ غلط رویوں پر کچھ سوالات اٹھائے۔ جیسے
1۔ کون ہے جو گھر آئے مہمان کے لیے یہ اصول اپنائے کہ میرے گھر میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار ہی چلے گا۔
یعنی سادگی رہ جائے، ہوٹلنگ اور پیزا کو بائے بائے،گھر کا کھانا، تکلف اور تکلیف سے اجتناب کرنا۔
2۔ پری ویڈنگ اور پوسٹ ویڈنگ کی جبری دعوتوں اورپروٹوکول کے ٹرینڈ سے نجات کیسے ممکن ہے؟
3۔ شادی کے کھانوں کو سادہ کس طرح بنایا جائے؟ کیونکہ یہ تو عزت کا سوال بن چکا ہے، سفید پوش والدین جمع پونجی اس پر لگا دیتے ہیں۔
(یعنی اجتماعی طور پر ہم ایسا کیا کریں کہ ہو سب کا بھلا، سب کی خیر ؟)
................................................
ماشاء اللہ اس کے مثبت اور مستحکم جوابات جس سے بھی ملے، اس کی بنیادی وجہ صرف جذباتی یا معاشرتی دباؤ / peer pressure سے ان سب کی آزادی تھی۔ یعنی اس کام کے لیے صرف دین کا علم ہونا بھی کافی نہیں کیونکہ خصوصی مواقع پر اکثر و بیشتر خوب سمجھ بوجھ رکھنے والے ہی نہیں بلکہ دین سکھانے والے تک بھی peer pressure کے سبب تمام اسباق بھول بھال کر سیدھے ”دودھ کی نہر“ کھودنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
پہلی بات یہ کہ شادی کا بڑا کھانا صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں کہ وہاں حکومت کوئی بھی پابندی لگادے، دوسرا یہ کہ پابندی کو توڑ کر ہی کچھ لوگ خود کو بڑا سمجھتے ہیں کہ پہلے اداروں کو رشوت کھلائی اور پھر رشتہ داروں کو خوب کھل کے کھانا.گویا جس نے یہ جرم کیا اس کی بلے بلے اور جس نے شرافت دکھائی وہ اپنوں ہی کی نگاہ میں اس طرح کھانا نہ کھلانے کا مجرم، مطلب کہ حل کسی پابندی میں نہیں بلکہ مسئلے کو سمجھ کر اپنے سے جڑے افراد کو اس سے بہرہ مند کرنا ہے۔
دنیا بھر میں دیکھا جائے تو یہ گھمبیر ہوتامعاملہ، کم و بیش چار طرح کے لوگوں میں تقسیم ہوتا ہے. جن میں سے دو تو الحمدللہ فوری سمجھ جانے والے ہیں، باقی دو کے لیے اللہ سے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
آخر الذکر دونوں کو، بات سمجھ نہ آنے کی وجہ، ان کے اخلاق کا نہیں بلکہ مزاج کا اونچائی پر قیام ہے۔ اس گروپ میں اکثریت ایسوں کی ہے جن کو سرے سےعلم یا فکر نہیں کہ کبھی ان سے بھی یہ سوال ہوگا کہ مال کمایا کہاں سے اور لگایا کہاں پہ، توکھانا ہی کیا کسی بھی قسم کی رسومات یا ملبوسات اور مشروبات کے حلال ہونے نہ ہونے سے ان کو فرق بھی نہیں پڑنے والا۔ دوسری قسم وہ جو بظاہر تو نارمل ہی دکھائی دیتے ہیں انسان، لیکن منہ میں بصورت زبان، لپیٹ رکھا ہوتا ہے کئی گز کا تھان۔ اس گروپ میں تو مسئلہ صرف کھانے کا ہے بھی نہیں، یہ تو بہانے بہانے سے فقط طعنے اور دل جلانے کے چسکے یا نشے کا مسئلہ ہے۔ ان افراد کو معدے کی تیزابیت کا دائمی مرض لاحق ہوتا ہے۔ کسی کی خوشی انہیں ہضم ہی نہیں ہوتی، تو وہی ایسڈ زبان پر الٹ آتا ہے۔ یہ لوگ بڑے، ان کا رشتہ بڑا، ٹیکا بڑا، زبان بڑی اور عقل...... اتنی چھوٹی سی کہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ اپنے رویے سے کس طرح کی بڑی خرابی اپنی عاقبت کے لیے خرید رہے ہوتے ہیں۔ سچی محبت، وقار، آج اور کل، سب کی تباہی کے عوض، فقط ایک انا کی تسکین ۔ اب بتائیں بھلا جن کو اپنے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے سکھ کی رتی بھر پرواہ نہ ہو، ان سے کسی کو بھی دوگھڑی کی زندگی میں سکھی رکھنےکی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
اول دو اقسام میں اکثریت سے موجود ہیں، وہ انتہائی بےبس افراد جو بس، ہرٹرینڈ کی آنکھ بند کر کے تقلید کرتے ہیں، خواہ خوشی سے یا مارے باندھے۔ ان میں نہ سوال اٹھانے کی جرأت، نہ ہی کسی کو انکار کی ہمت، باقی وہ ہیں، جن کے پاس کثرت مال ہی نہیں بلکہ صلاحیتیں بھی بےحساب ہیں، جیسے بس محبت کے مارے سب کو یکجا رکھنا، کسی فنکشن کو مینیج کرنا، کسی جگہ، لباس یا خوراک کو خوب سجانا یا پھر پرانی چیزوں سے نیا کچھ بنا لینا وغیرہ، تو جس طرح بارش میں ہے، شر اور خیر بھی ویسے ہی ہر بشر میں بھی۔جس طرح ڈیم نہ بننے کی وجہ سے ہر سال ہمارے ملک میں بارش سے تباہی تو آتی ہے مگر بجلی نہیں بن پاتی، فصلیں بہہ ضرور جاتی ہیں مگر پنپ نہیں پاتیں، بالکل اسی طرح جب ایسے باصلاحیت افراد کو درست راستہ پتہ نہ ہو یا بتایا نہ جائے تو بےسمت سیلاب کی صورت معاشرے میں، فلاح کے بجائے فساد ہی مچا پاتے ہیں، اللہ سے امید ہے کہ ہم سب کو درست رہنمائی مل جائے، یوں ان شاءاللہ بہت تیزی سے معاملات سنبھل سکتے ہیں۔
بات کیا ہے فقط اتنی کہ ہم اونٹ اور بکرے میں فرق ہی نہیں کر پاتے، کیونکہ اونٹ بھی حلال ہے، بکری بھی، دونوں ہی کی کھال، ہڈی، قربانی سبھی کچھ جائز، لیکن اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیں کہ دونوں بار برداری کے معاملے میں بھی برابر ہیں، جو بوجھ اور مشقت اونٹ اٹھا سکتا ہے وہی بوجھ بکری پر لاد دینا تو سراسر ظلم ہے۔ باکل اسی طرح ہم کاروباری، رشتہ داری تمام ترتعلقات کی نازبرداری کی مکمل باربرداری کا ذمہ فقط ایک شادی پر ہی ڈال دیتے ہیں،گویا اس کے بعد یا اس کے علاوہ نہ تو حقوق العباد ادا ہونے ہیں نہ ہی کسی سے ملاقات ہی ممکن ہے۔ اوراس سوچ کے بیچ پستا کون ہے؟ غریب یا متوسط طبقہ۔ اللہ کے بندو! جو شادی چار گواہوں اور دو نمازوں کے بیچ ہو سکتی ہے، اس کی دو دو سال کی پلانگ کرتے رہنا بھی کوئی پلاننگ ہے بھلا؟ اور ساری دنیا فلانی بجو یا بھیا کی شادی پر ہی کسی ایک ملک میں کیوں اکٹھے ہوتے ہیں؟ بس خاندان کا ایک پائیڈ پائپر محبت کی بانسری بجاتا ہے سارے رشتہ دار، اندھی محبت اندھی تقلید میں سیدھے، دودھ کی نہر کھودنے دوڑے چلے جاتے ہیں، حتی کہ کئی ایک ”مذہبی“ افراد بھی، وہ بھی صرف دل ہی میں برا جانتے ہیں تمام فضول رسومات کو اور سب کے ساتھ ہر جگہ صرف شرکت ہی نہیں فرماتے، خود بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ بات بھی سچ ہےکہ peer pressure کی بلا سوچنے اور یاد رکھنے کی طاقت ہی سلب کرلیتی ہے، تمام زندگی کے اسباق امتحان کے کٹھن لمحے میں بھولتے دیر نہیں لگتی۔
ہمارے ہاں ”مسلمان رشتہ دار“ دونوں عید کے ملا کر چھ دنوں میں کیوں جمع نہیں ہو سکتے؟ تب بڑے سے بڑے فنکشنز، ڈھیروں کھانا، کسی بھی شوقین کی جانب سے کیوں نہیں ہوتا؟ عیدکے دن کیوں سوکھے، پھیکے، سوتے سلاتے منہ بسورتے،گھر گھر کھیلتے، گزر جاتے ہیں؟
دیکھا جائے تو بڑی شادی پر صرف کھانا ہی تو مہنگا نہیں ہوتا نا؟ صرف دولہے کی اماں کے ہی کپڑے اب تو عموما لاکھوں کے ہوتے ہیں، تو غریب کے کھانے کا کوئی مقابلہ ہے اس سے؟ اور جب مقابلہ ہی نہیں تو بھائی متوسط! آپ کیوں ڈھائی تین اور چار سو بندے مدعو فرما رہے ہوتے ہیں؟ آپ کھانا بےشک اچھا رکھیں لیکن تمام خلقت کو اکٹھا کرنا جب آپ پر فرض نہیں، واجب بھی نہیں، سنت بھی نہیں تو آپ اپنے لیے بھی آسانی کی راہ اختیار کریں اور دوسرے جو، ابھی آپ جتنے بہادر اور سمجھدار نہیں، ان کے لیے بھی راستہ ہموار کریں، کیونکہ آپ کسی بھی معاشرے کے بیچ پل کا کردار ادا کرتے ہیں، تو آپ پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نہ تو کسی کی بھی غلط بات سے مرعوب ہوں نہ ہی کسی غلط بات سے کسی کو بھی مرعوب کریں۔ دوہرا صبرتو ہے لیکن ان شاءاللہ دوہرا اجر بھی پانے کی امید رکھیے۔ یاد رکھیں کہ اپنے خون پسینے کی کمائی کو یوں جذباتی یا معاشرتی دباؤ سے بنتے بھنور میں گنوا کر یا پھر کسی انسان یا بنک سے خاموشی سے مالی مدد مانگ کر آپ ان افراد کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے پر قادر نہیں، جن کے خوف سے آج آپ خود کو اتنا مجبور پاتے ہیں۔ لیکن امید ہے کہ آپ کی اس جسارت سے اللہ کی رحمت آپ کے لیےعافیت کے معاملات فرما دے۔
مالدار بھائی یا باصلاحیت اورشوقین بہن! پوری سمر ویکیشنز، عید، اور دیگر تمام تر چھٹیاں سب آپ ہی کے لیے بنی ہیں۔ کریں جو بھی، جیسا بھی ایونٹ کرنا ہے، اور پہنیں غضب کے لباس اور رکھیں کھانوں کی گولڈن کیا ڈائمنڈ ڈیلز۔ لگائیں اپنا مال اپنےکاروبار اور کولیگز پر، یا پھر کریں حقوق العباد ادا اور بلا لیں سب رشتہ داروں کو دور دراز ملکوں سے۔ کوئی نہیں آتا نا تو اسے فوری بزنس کلاس کا ٹکٹ بھیجیں، تقاضا کریں بالکل ویسے ہی جیسے اب تک شادیوں پر کرتے رہے، خوب مال خرچیں ان کے لیے۔ ایسا کریں کہ مختلف فارمز بک کروائیں، پکنک کروائیں اور سب کو منع کردیں ون ڈش کی جھنجھٹ پالنے سے، آپ خود اکیلے ہی کیٹرنگ کروائیں، وہ بھی کسی نامی گرامی جگہ سے۔ ہر روز پکنک بھی، پول پارٹی بھی بار بی کیو بھی۔ کون ارینج کرے گا کی فکر بھی نہیں، ایونٹ پلانر بھی تو موجود ہیں آپ ہی کے گروپ میں، اور پھر بھی دل نہ بھرے تو کھانے ہی کے شوق کے ذریعے دعوی کا کام کریں۔ کسی ہال میں یا روز شام کو، گھر کے باہر اوپن ہاؤس رکھیں، جو بھی جس مسلک یا جس مذھب سے آئے، آپ کے گھر سے خوب کھائے، اسلام کا بھی نام اچھا ہو اور ساتھ ہی ذرا سا آپ کا بھی نام بھی ہو جائے تو کوئی قباحت تو نہیں۔ لیکن شادی، آپ پلیز! سادی ہی فرمائیں۔ اپنے، خوف، ذوق اور شوق کی باربرداری کا کام کسی بھی اور فنکشن سے لے لیں، مگر شادی للہ سادی - کیونکہ یہ سنت بھی ہے، ہر ایک کی ضرورت بھی، تو خدارا ! اسے کھیل اور تفریح نہ بنائیں۔ آپ کو زیادہ کچھ نہیں کرنا، بس تین نقطے ہی تو ہٹانے ہیں۔ ارمان، تقلید اور خوف پھر دیکھیں، شادی ان شاءاللہ از خود سادی ہو جائے گی۔

Comments

Click here to post a comment