ہوم << کاغذ قلم اٹھائیے اور لکھیے - ظفر عمران

کاغذ قلم اٹھائیے اور لکھیے - ظفر عمران

ظفر عمران جنھیں اشتیاق ہے، اور پوچھتے ہیں، کہ میں‌ کیسے لکھتا ہوں؟ صرف اُن کے لیے۔
آپ کیسے لکھتے ہیں؟ ڈراما کیسے لکھا جاتا ہے؟ کہانی کیسے لکھتے ہیں؟ کبھی کبھی اس طرح کے سوالوں کا سامنا رہتا ہے۔ جب بھی ایسا ہو، میں‌ سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ جواب کی کھوج میں لگ جاتا ہوں۔ بہت پہلے میں نے ایک رسالے کے مدیر کو ٹیلے فون کال کی، اور کہا، سر میں آپ کے لیے لکھنا چاہتا ہوں، کیسے لکھوں؟ وہاں سے جواب آیا، کہ بہت آسان ہے، بس کاغذ قلم اٹھائیے اور لکھیے۔ اس لمحے اتنا دو ٹوک جواب بہت بُرا لگا۔ ایک عرصے تک مذکورہ مدیر کو مغرور سمجھتا رہا؛ کیا ایسے رُوکھا سُوکھا جواب بنتا تھا، بھلا؟ اچھا ہوتا کچھ Tips دے دیتے!
گزشتہ دنوں یہ سوال ایک تواتر سے سامنے آتا رہا۔ ”آپ کیسے لکھتے ہیں؟“ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا؛ نہ ہے۔ ما سوائے اس کے کہ یہ جواب دوں، ”بہت آسان ہے، بس کاغذ قلم اٹھائیے اور لکھیے“۔ مجھے علم نہیں کہ اچھی نثر کسے کہتے ہیں؛ میں نہیں جانتا، کہ اچھی نثر کیسے لکھی جاتی ہے۔ میں ایسا کرتا ہوں، کہ جب کچھ کہنا ہو، قلم اٹھاتا ہوں، لکھنے لگتا ہوں۔ دل نہ چاہے تو قلم نہیں اٹھاتا۔ میں اچھی نثر لکھتا ہوں، میں بری نثر لکھتا ہوں، مجھے ان دونوں‌ باتوں کی پروا نہیں۔ تو پھر کیوں لکھتا ہوں؟ بس! اس لیے کہ میرا دل چاہتا ہے، میں‌ لکھتا ہوں۔
ہوتا یوں ہے، کہ جب آپ کی Commitments ہوں، آپ کسی ادارے کے لیے لکھنے کے پابند ہوں، تو جی نہ بھی چاہے، تو لکھنا پڑتا ہے؛ یہ صورت حال بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ خاص طور پہ ٹیلے ویژن کے لیے لکھتے یہ جبر سہنا پڑتا ہے۔ صرف اس رقم کی بات نہیں، جو تحریر کے بدلے ملتی ہے، بلکہ ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ اپنا کام بر وقت کریں۔ بالکل ایسی ہی ذمہ داری صحافی پہ عائد ہوتی ہے۔ وقت کی پابندی کرتے پرچا تیار کرے، تا کہ پریس میں جائے، اور ہاکر تک مقرر وقت پہ پہنچے۔ اس بیرونی جبر میں لکھی تحریر اچھی بھی ہو سکتی ہے، اور سطحی بھی۔ خاص بات یہ ہے کہ ذرا سی توجہ سے اس جبر کو لطف میں بدلا جا سکتا ہے۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ وہ تحریر جو اندر کا جبر لکھوائے، وہی تسکین دیتی ہے؛ کم از کم لکھنے والے کا کتھارسس اسی میں ہے۔ اندر کا جبر ایسا ہوتا ہے کہ تحریر اپنے آپ کو خود لکھوا لیتی ہے۔ آپ صرف نقش بناتے ہیں۔
جب آپ پر بیرونی جبر ہو، تو پہلے اس جبر کو لطف میں بدلیے؛ کیسے؟۔ یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ موسیقی سے لطف لیں گے، یا ریاضی الجبرا کی گھتیاں‌ سلجھا کر کے۔ مزاج رواں ہو جائے، تو ایک نکتے، ایک سطر سے ابتدا کیجیے۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ تحریر اچھی ہوگی، یا بُری۔ اگر آپ پہلے ہی سے اچھی تحریر لکھنے کی نیت سے بیٹھیں گے، تو بس بیٹھے ہی رہیں گے۔ کئی بار گھنٹوں ایک لفظ نہیں اُترتا؛ ضد کیے بیٹھے رہیں۔ (خیر میں‌اتنا بھی ضدی نہیں) لکھنے والوں کا خیال ہے کہ لکھنے کے لیے سب سے مشکل کام جم کر بیٹھنا ہے، جسے جم کر بیٹھنا آ گیا، وہ لکھنے کے لیے ”اہل“ ہے۔ پڑھیے؛ پڑھیے؛ پڑھیے؛ پڑھیے؛ خُوب پڑھیے، پھر لکھیے۔ موسیقی سُنیں؛ سفر کریں۔ یہ دونوں ہی مجھے Inspiration دیتے ہیں۔ کیا پڑھا ہے، سفر سے کیا حاصل کیا، موسیقی کے کون سے سُر تال آپ پہ کب، کیسے کیوں کر اثر انداز ہوئے، یہ سب آپ کی تحریر سے جھلکنے لگے گا۔
ہر Format کی اپنی تکنیک ہوتی ہیں؛ ابھی تکنیک کی بات نہیں ہو رہی۔ جب آپ لکھنے پہ آئیں، تو لکھتے جائیے، لکھتے جائیے، لکھتے جائیے۔ جب آپ اتنا لکھ لیں، کہ آپ کی مطلوبہ صورت ظاہر ہو جائے، تو اُسے پڑھیے۔ ایک بار، دو بار، تین بار، بار بار۔ کاٹیے، چھانٹیے۔ پھر پڑھیں، ایک بار، دو بار، تین بار۔ دیکھیے کہاں موضوع سے ہٹ گئے ہیں۔ موضوع سے ہٹی بات کو حذف کرنے میں رتی بھر تامل نہ کریں، خواہ وہ بات کتنی ہی اچھی لگے۔ کہاں‌ پڑھنے میں رکاوٹ ہے، کہاں لفظوں کی تکرار ہے، کتنے ایک جیسے الفاظ ہیں، جو قریب قریب لکھے گئے ہیں، متبادل لفظ کیا ہو سکتے ہیں، تبدیل کر لیں۔ جب خیال کی روانی ہو، تو شبدوں میں مت الجھیں۔ پہلے خیال کو قرطاس پہ اترنے دیں۔ کانٹ چھانٹ بعد کا مرحلہ ہے۔ دُہراتا ہوں، مجھے نہیں معلوم، اچھی نثر کیا ہوتی ہے؛ لیکن سُنا ہے، کہ اچھی نثر ردھم میں ہوتی ہے۔ سُر تال کی پوری۔
جب آپ یہ سب کر لیں گے، تو اسے اپنا کام دکھائیے، جسے آپ مان دیتے ہیں؛ جس کا کام آپ کو پسند ہے، جس کے جیسا آپ لکھنا چاہتے ہیں۔ تب آپ دیکھیں گے کہ آپ نے بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ تو کیا ہوا؟۔ کوئی ایک لکھنے والا دکھا دیں، جس کی تحریر غلطی سے پاک ہو، حتی کہ وہ جسے آپ استاد کہتے ہوں۔ آج کل بہت سہولت ہے؛ ادھر آپ نے لکھا، ادھر فیس بُک پر ڈال دیا۔ جب آپ یہ کر گُزرے، تو ”واہ وا، بہت خُوب، عمدہ“ اور دیگر تعریفی کلمات سے بچنے کی باری ہے۔ تعریف بناتی ہے، تو بگاڑتی بھی بہت ہے۔ ابوالکلام آزاد کی نثر کسی بونے کی نثر لگنے لگتی ہے۔ یہ اپنے ایمان کا حصہ بنا لیں کہ فیس بُک پر وصول کی داد جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی مشورہ دے، اصلاح کرے، اس کی تاک میں لگ جائیں، اس سے کچھ نہ کچھ نیا سیکھیں۔ کبھی کسی کو متاثر کرنے کی نیت سے مت لکھیں؛ کبھی کسی سے ڈر کر مت لکھیں کہ وہ کیا کہے گا۔ آپ ایسا کریں گے، تو اپنے اظہار کے فن کو متاثر کریں گے۔
پرو نوٹ:
اگر آپ اردو میں لکھتے ہیں، یا اردو زبان میں لکھنا چاہتے ہیں، تو چند تعصبات سے چھُٹکارا پانا ہوگا۔ ”اردو“ پر یہ کرم ہے کہ اسے برتنے والے ہی اس کے رقیب ہیں۔ اردو میں پڑھتے ہیں، اردو میں لکھتے ہیں، بات کرتے ہیں، اور پھر اردو ہی کی بُرائی کرتے ہیں، کہ یہ تو زبان نہیں، اس میں تو یہ مشکل ہے، وہ مشکل ہے۔ یقین کیجیے دُنیا کی ہر زبان خود رو ہوتی ہے؛ اردو بھی دیگر زبانوں کی طرح مختلف زبانوں کے میلاپ سے بنی۔ اس کی خاصیت ہے کہ یہ غیر زبانوں کے الفاظ بڑی آسانی سے سمو لیتی ہے؛ جیسے پسِ نوشت کی جگہ پرونوٹ لکھو تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اردو کا لفظ نہیں؛ اردو میں کھپ گیا ہے، تو اردو کا ہوا۔ یہ آپ کی مادری زبان نہیں، تو آپ کی مادری زبان کے لفظ بھی قبول کرے گی۔ اس لیے سب سے پہلے اس زبان سے محبت کرنا سیکھیں۔ محبت نہیں‌ کریں گے، تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ پھر ”اہل زبان“ کہیں کہ وہ بات نہیں جو ہونی چاہیے تو پروا مت کریں۔ کیوں کہ یہ آپ کی محبوبہ بن چکی ہے۔ محبوبہ کی قربت کے واسطے کون کافر ہے، جو دُنیا کی باتوں کی پروا کرے۔
(ظفر عمران تمثیل نگار، ہدایت کار، پروڈیوسر ہیں.)