ہوم << کفار و مشرکین کی تکفیر پر غامدی صاحب کے اپنے فتوے - سیّد خالد جامعی

کفار و مشرکین کی تکفیر پر غامدی صاحب کے اپنے فتوے - سیّد خالد جامعی

ہمارے محترم دوست جناب سمیع اللہ سعدی صاحب نے تکفیر کے مسئلے پر غامدی صاحب کا ایک مضمون کل ارسال فرمایا اور ہمارا نقطہ نظر جاننے کی خواہش ظاہر کی. اس کا تفصیلی جواب زیرتحریر ہے. ان کی خواہش کی تعمیل تکمیل میں ایک مختصر تحریر میرے محترم غامدی صاحب کے غور و خوض کے لیے حاضر خدمت ہے. اس تحریر میں مشرکین اور کفار کے خلاف غامدی صاحب کے فتوے ان کی دو کتابوں مقامات اور البیان سے جمع کردیے گئے ہیں. امید ہے سعدی صاحب اسے ان کی خدمت میں ارسال کردیں گے، اور ان سے صرف یہ پوچھ لیں گے کہ حضرت والا آپ تو سب کو کافر و مشرک کہتے ہیں لیکن امت کے علماء کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ کسی کو کافر و مشرک نہیں کہہ سکتے۔
(۱) غیر مسلموں کو کفار و مشرک کہا جاسکتا ہے: غامدی، البیان، لاہور، المورد، طبع اول، اگست ۲۰۱۴ء، ص۲۹۲، مقامات، طبع سوم، لاہور المورد، جولائی ۲۰۱۴ء،ص ۱۹۶
(۲) مسلمان پابند ہیں کہ سرزمین حرم کو باطل کی آلودگی سے پاک رکھیں اور یہاں کسی مشرک و کافر کو رہنے کی اجازت نہ دی جائے: غامدی، البیان ،جلد دوم ،لاہور، المورد، طبع اول، اگست ۲۰۱۴ء، ص ۲۹۲،غامدی، مقامات ،۲۰۱۴ء،ص۱۹۶، محولہ بالا
(۳) سر زمین حرم، جزیرۃ العرب میں کسی کافر مشرک کو رہنے بسنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہ احکام توحید کے اسی مرکز سے متعلق ہیں: غامدی، مقامات،۲۰۱۴ء، ص ۱۹۶،محولہ بالا
(۴) سرزمین حرم میں کافر و مشرک صرف عارضی طور پر رہ سکتے ہیں، کسی کافر و مشرک کو مستقل طور پر رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی: غامدی ،البیان،جلد دوم، ص ۲۹۲، محولہ بالا
(۵) قانون اتمام حجت کے تحت فلسطین اور کنعان کا علاقہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے خاص کر دیا ہے چنانچہ بنی اسرائیل کو اسی بنا پر حکم دیا گیا کہ اپنی میراث کے اس علاقے کو اس کے باشندوں سے خالی کرا لیں، اس میں کسی فرد مشرک کو زندہ نہ چھوڑیں اور نہ اس کی سرحدوں سے متصل کسی علاقے میں کافروں اور مشرکوں کی کوئی حکومت قائم رہنے دیں، استثناء کے باب ۲۰ میں یہ حکم پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے. سلیمان ؑ نے ملکہ سباء کو اسی کے تحت تسلیم و انقیاد کے لیے مجبور کیا تھا : غامدی، مقامات، ۲۰۱۴ء، ص ۱۹۵،۱۹۶، محولہ بالا
(۶) اسی فیصلے (قانون اتمام حجت) کی ایک فرع یہ ہے کہ جزیرہ نمائے عرب کا علاقہ بنی اسمعٰیل کے لیے خاص کر دیا ہے تاکہ دنیا کی سب قومیں ان کے ساتھ (بنی اسرائیل کے ساتھ) اس کی معیت کا مشاہدہ کریں اور ہدایت پائیں: غامدی، مقامات، ۲۰۱۴ء،ص ۱۹۵،محولہ بالا
(۷) قانون اتمام حجت اور تورات کے استثناء کے باب ۲۰ کے تحت فتح مکہ کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں مشرکین کے تمام معابد اسی کے تحت ختم کیے گئے۔ موطا کی حدیث جزیرہ نمائے عرب میں دو دین جمع نہیں ہو سکتے. (موطا،رقم،۲۶۰۷) کی ہدایت بھی اسی کے تحت ہے: غامدی،مقامات،۲۰۱۴ء،ص ۱۹۶، محولہ بالا
(۸) سرزمین عرب میں قانون اتمام حجت اور تورات استثناء کے باب ۲۰ کے تحت نہ غیر اللہ کی عبادت کے لیے کوئی معبد تعمیر کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی کافر و مشرک کو رہنے بسنے کی اجازت دی جاسکتی ہے: غامدی، مقامات،۲۰۱۴ء، ص ۱۹۶، محولہ بالا
(۹) اسلام کے سوا تمام دین منکرین کے دین ہیں، تمام منکرین کافر و مشرک ہیں: غامدی، البیان، جلددوم، ص ۲۹۲، محولہ بالا
(۱۰) اسلام کے سوا تمام مذاہب عالم باطل کی آلودگی ہیں لہٰذا سرزمین حرم میں اسلام کے سوا کوئی اور دین باقی نہ رہ جائے. یہ مرکز باطل کی ہر آلودگی سے پاک رہے. مسلمان پابند ہیں کہ سرزمین حرم کی یہ حیثیت قیامت تک برقرار رکھیں اور کسی کافر و مشرک کو یہاں مستقل رہنے کی اجازت نہ دی جائے : غامدی، البیان، جلد دوم، ص ۲۹۲، محولہ بالا
ظاہر ہے جب تک کسی کو کافر و مشرک قرار نہیں دیا جائے اسے جزیرۃ العرب اور سرزمین حرم سے باہر نہیں نکالا جاسکتا تو کیا کافر و مشرک کو اب جزیرۃ العرب اور سرزمین حرم میں مستقل رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے؟

Comments

Click here to post a comment