ہوم << ملزم مولانا الیاس گھمن اور اسلام - حافظ یوسف سراج

ملزم مولانا الیاس گھمن اور اسلام - حافظ یوسف سراج

یوسف سراج کچھ دن ہوئے سوشل میڈیا اور کالم لکھنے پڑھنے سے دور ہی رہا ہوں، اور مت پوچھیے کہ کیونکر جیا ہوں؎
کچھ وقت تیری یاد سے غافل رہا ہوں میں
کچھ وقت میری عمر میں شامل نہیں رہا
دراصل میرا ڈیپارٹمنٹ ’رینوویٹ‘ ہو رہا تھا اور میری اس میں کچھ ذمے داریاں تھیں۔ جسم کو تھکا اور ذہن کو الجھا دینے والے کچھ کام۔ دراصل عمارت کی تزئین و آرائش ہی نہیں ہونا تھی، کوئی تین لاکھ کی کتب بھی خریدی جانا تھیں۔ کتاب دوستوں سے مشاورت بھی ہوئی۔ جناب عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے مفت میں طویل دورانیے کی فونی کلفت اٹھا کر طویل فہرستِ کتب لکھوائی اور سریلی سرائیکی پٹی کے رسیلے یار ِ طرحدار شمس الدین امجد نے کچھ کتب کی مفت فراہمی کا سندیسہ لکھ بھیجا۔ کام توخیر ایک ہی دن میں کسی مکتبے پر کھڑے کھڑے بھی نمٹایا جا سکتا تھا اور بلکہ دفتر سے ایک فون پر بھی کہ الحمدللہ اب اردو بازار میں اتنی تو واقفیت ہو ہی گئی ہے۔ یہاں مگر جبلی بےآرامی اور کتاب سے محبت نے خوار کیا اور الحمدللہ یوں کہ؎
روح تک اتر گئی تاثیر مسیحائی کی
بہت بار ثابت ہو چکا کہ خود ساختہ ذوق کی خواری کے آگے سبھی خواریاں ہیچ ہیں۔ دفتر پہنچا تو دوستوں نے پوچھا، گھمن صاحب والی پوسٹ دیکھی، سبوخ سید نے اسے چھاپ ڈالاہے۔ عرض کی دیکھی تو ضرور مگر پڑھ کے نہیں دیکھی۔ بغیر کسی خاص ضرورت کے اس نوع کی چیزوں پر طبیعت ٹھکتی ہی نہیں۔ خیر میری درخواست پر احباب نے خلاصہ بتا دیا۔ فی الفور عرض کیا کہ سچائی تو خیر ابھی کیا معلوم مگر یہ بات پھیلانے کی تو ہرگز نہ تھی۔ بالفرض یہ سچ بھی ہے تو اسلامی صحافت توخیر چیزے دیگر است مگر عام صحافتی اصول بھی اس کی کہاں اجازت دیتے ہیں؟ ہم لیکن عرصہ ہوا صحافت میں اسلامی کیا انسانی قدروں کو بھی بصد عالم فراموشی چھوڑ چکے ہیں۔ ایک شخص کے بارے کوئی بھی بات کرتاہے اور ہم مجروح و ملزم کا موقف لیے بغیر الزام اچھالتے اور چھاپتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں بھلا ایک عالمِ دین کی عزت کی کیا قیمت ہو سکتی تھی؟ رعایت اللہ فاروقی صاحب نے مگر اللہ کے اس بندے کے دفاع کا مورچہ لگایا لیا اور میں انھیں اس جراتِ رندانہ پر سلام پیش کرتا ہوں۔ اس کے باوجود پیش کرتا ہوں کہ رعایت اللہ فاروقی صاحب کا بھی ایک مسلک ہے اور گھمن صاحب تو سنا ہے دوسرے اہل مسلک کے لیے زبان بھی خار اشگاف رکھتے ہیں۔ رعایت اللہ صاحب کی مگر میں اکثر علماء کو مثال دیا کرتا ہوں۔ ایک شخص نے کس طرح فیس بک پر بیٹھ کر دینی مدارس سے نکلے سینکڑوں لوگوں کو متحمل، معتدل ، مدلل اور مہذب کر دیا۔ یہ اس عہد کے کسی پٹھان کی ایسی کرامت ہے کہ جس پر فریفتہ ہونے کے علاوہ پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی رقم ہونا چاہیے کہ آخر جن پٹھانوں کی کبھی مذکر مونث تک درست نہیں بیٹھتی، انھی میں سے ایک شخص نے ٹھیک اُن لوگوں کی عقل کیسے ٹھکانے بٹھا دی کہ جنھیں آٹھ دس سال لگا کے ایک ہی عقل دی جاتی ہے کہ سوائے تمھاری اپنی عقل شریف کے جہاں میں کسی دوسرے کی عقل کبھی درست نہیں ہو سکتی۔
رعایت اللہ صاحب نے الزام تراشی کی اس فیکٹری کا محرک معاصرت کی مخاصمت اور چندے پر سے کھسکتی اجارہ داری تجویز فرمایا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کے علاوہ اندھے تعصبات بھی اس کھلی نارِ شیطنت کو یوں ہوا دیتے ہیں کہ پیش قدمی میں شیطان تک کو شرما دیتے ہیں۔ اچھا فرض کریں، یہ سب سچ ہے، حالانکہ یہ فرض کرنا انسانیت کے آخری مسیحا نے ہرگز ہماری من مانی کے مطابق اتنا آسان نہیں رہنے دیا۔ مثلاًایک شخص نے دربارِ رسالت میں حاضری بھر کے اپنی غلط کاری کا اعتراف کر لیا۔ جلد از جلد اس کی جان پر حد کا نفاذ کر دیا جائے۔ یہی اس کی چھلکتی خواہش تھی۔ رسول ِ اطہرﷺ نے لیکن جزئیات پر مشتمل اتنے سوالات کیے کہ کاش صحافت سے وابستہ لوگوں نے بھی کبھی وہ جاننے کی کوشش کر لی ہوتی۔ کر لی ہوتی تو انسانیت کتنی شادماں ہو گئی ہوتی۔ دراصل نوے فیصد لوگ حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے مگر مصیبت یہ کہ وہ اپنی اس نارسائی سے بھی آشنا نہیں ہوتے۔ دینی مدرسے کے ایک استاد کے مطابق، عصر کے بعد مدرسے سے چھٹی ملی تو طالب علم مدرسہ سے شہر گیا اور کوئی ایک گھنٹے میں لوٹ آیا۔ اب وہ اساتذہ کے سامنے بیٹھا روتا تھا کہ کس قیامت کی غلطی کا وہ ارتکاب کر بیٹھا ہے۔ پوچھا ، کیا کیا؟ کہنے لگا میں فلم دیکھ بیٹھا ہوں۔ اہلِ صحافت کہاں جانتے ہوں گے کہ مدرسہ کی چار دیواری کے اندر فلم اور ڈائجسٹ سے بڑا کوئی کبیرہ گناہ ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا۔ اس سے پہلے کہ یہ پٹ جاتا۔ ایک معاملہ فہم استاد نے کہا فلم تو خیر تم نے ہرگز نہیں دیکھی۔ یہ مگر بااصرار بضد کہ فلم ہی دیکھی ہے۔ استاد کہیں اللہ کے بندے ایک گھنٹے شہر جا اور آ کر پوری فلم بھی دیکھ لی۔ ٹائم اینڈ سپیس کے تھم جانے کا یہ واقعہ ہوا تو کیوں کر؟ خیر کہا، چلو مانا فلم ہی دیکھی ہے مگر یہ بتاؤ وہ فلم کیسی تھی۔ کہنے لگا کہ ایک تانگہ تھا اور وہ گلی گلی گھومتا تھا اور اس پر بیٹھے تانگہ بان اعلان کرتے تھے اور اس تانگے پر بڑی سی فلم رکھی تھی اور میں نے ٹھیک وہی فلم دیکھ لی ہے۔ کچھ سمجھے آپ؟ یعنی اس دور کے مطابق تانگے پر تشہیر کے لیے رکھے فلمی پوسٹر کے دیکھنے کو اس ناواقفِ حال نے فلم دیکھنا تصور کر لیا اور چاہتا اب یہ تھاکہ اس جرم کی سزا پا کے پاک ہو جائے۔
قرآنِ مجید نے علم کو تین درجوں میں بانٹ دیا تھا۔ علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین۔ کسی کے بتانے پر مان لیا تو یہ علم الیقین ہوا، بتانے والے نے بتایا وہاں آگ لگی ہے، بتانے والا جھوٹ بھی بول سکتاہے اور غلطی پر بھی ہو سکتا ہے، سو قرآن نے بتایا، کوئی خبرلائے، تحقیق کر لیا کرو، مبادا پھر مارے شرمندگی سے سر جھکائے پھرو۔ عین الیقین، یعنی آنکھوں دیکھی بات۔ سکرین پر ہم دیکھتے ہیں کہ آگ لگی ہے اور ہیرو اس میں جل کے مر گیا ہے۔ کئی سادہ دل اسی پر رو دیتے ہیں مگر واقفانِ حال ہی جانتے ہیں کہ بظاہر آنکھوں دیکھی فلمی آگ بھی فی الاصل آگ نہیں ہوتی اور یہی جل مرا ہیرو اب کسی اگلی فلم میں پھر سے جل مرنے کی مستعدی فرما رہا ہوتا ہے۔ یعنی آنکھوں کا دھوکہ۔ سراب اس کے لیے کیا مناسب لفظ ہے۔ حق الیقین، یعنی کسی نے آگ کا بتایا، آپ وہاں پہنچے، آنکھوں سے دیکھا مگر پھر اس آگ میں انگلی بھی ڈال دی۔ انگلی جلی تو گویا حق الیقین حاصل ہو گیا۔ افسوس ہم نے اک آوارہ چسکے کی خاطر یہ سب اور دوسرا سب کچھ طاق ِ نسیاں میں رکھ دیا۔ یہ ہمیں یاد تو آتے ہیں مگر جب ہم خود زد پر ہوں۔
ایسے ہی چلنوں میں پسا، مغرب کا ہر شہرت یافتہ آدمی آج اپنی آزادی اور پرائیویسی صحافت کے ہاتھوں گروی رکھ چکا۔ کیا یہ نہ کہا گیا کہ لیڈی ڈیانا کے اصل قاتل موت کی طرح پیچھے لگے تصویروں اور سکینڈلز کے رسیا کیمرہ تھامے وہ صحافی بھی تھے کہ جن سے بھاگتی ڈیانا جان سے ہاتھ دھو بیٹھی؟ مغرب نے نہیں، انسانی پرائیویسی کا تحفظ اسلام نے کیا تھا۔ یعنی عین اس رویے کو مذموم ٹھہرایا اور اس کی طرف کھلتے سب دروازے بھی سختی سے بند کر دیے۔ مثلاً جاسوسی سے روک دیا، مثلاً غیبت سے روک دیا، مثلاً یہ کہا کہ جو مسلمان کا کوئی دنیا کا عیب چھپائےگا، اللہ اس کے عیب کی قیامت کے دن پردہ پوشی فرمائے گا، مثلاً فرمایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کیا کم ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے کر دینے کی عادتِ بد میں مبتلا ہو۔ واقعہ افک میں ایک سبق آسمان سے ہمارے لیے یہ اترا تھا کہ ایسی بات کوسن کے تم نے اگنور کیوں نہ کر دیتے یا پھر اسے سوشلی پھیلا دینے کے بجائے محض اربابِ حل و عقد تک محدود رکھنے کی روش کیوں نہیں برتتے؟ ایک ویب سائٹ یا پیج کو ریٹنگ سے بڑھ کر بھلا کیا عزیز ہو سکتا ہے مگر کیا انسانیت اور اسلامیت سے بھی زیادہ؟ ایک مومن کی عزت سے بھی زیادہ؟ بغیر غلطی کے الزام تو خیر بہتان عظیم ہے، مگر رنگے ہاتھوں پکڑ لینے پر بھی ایسی روش تو اسلام ہمیں ہرگز نہیں سکھاتا۔ سلطانِ مدینہ کی ایک اور وعید ہم بھول بیٹھے ہیں کہ جو بھی کسی کو عار دلاتاہے، تب تک زمیں کے تختے سے وہ زمیں کی آغوش میں سما نہ سکے گا کہ جب تک اسی عیب میں مبتلا ہو کر اس کی رسوائی جھیل نہ لے۔ کیا ہم اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے کہ فحش خبر کی اشاعت بھی اسلام میں اشاعت فحاشی ہی ہے۔ ہمیں مکافات عمل سے بھی ڈرنا چاہیے ؎
جو آج ہم زد پہ ہیں تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سبھی کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

Comments

Click here to post a comment