ہوم << اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ رضوان اسد خان

اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ رضوان اسد خان

رضوان اسد خان اوون جونز اپنی کتاب ”دی اسٹیبلشمنٹ“ میں لکھتے ہیں:
The Establishment includes politicians who make laws; media barons who set the terms of debate; businesses and financiers who run the economy; police forces that enforce a law which is rigged in favour of the powerful. The Establishment is where these interests and worlds intersect with each other, either consciously or unconsciously. It is unified by a common mentality, which holds that those at the top deserve their power and their ever-growing fortunes, and which might be summed up by the advertising slogan of cosmetics giant L’Oréal: ‘Because I’m worth it’. This is the mentality that has driven politicians to pilfer expenses, businesses to avoid tax, and City bankers to demand ever greater bonuses while plunging the world into economic disaster. All of these things are facilitated – even encouraged – by laws that are geared to cracking down on the smallest of misdemeanours committed by those at the bottom of the pecking order.
"The Establishment"
By:
Owen Jones
”اسٹیبلشمنٹ“ میں شامل ہیں:
.. وہ سیاستدان جن کا کام (اپنے مطلب کی) قانون سازی ہے.
.. میڈیا کے وہ کرتا دھرتا جو مباحث کے (موضوع اور) اصول وضع کرتے ہیں.
.. وہ تاجر اور سرمایہ دار جن کی مٹھی میں معیشت ہے.
.. وہ پولیس جو اس قانون کو بزور نافذ کرتی ہے جو طاقتور کی طرفداری کرتا ہے.
اسٹیبلشمنٹ وہ مقام ہے جہاں یہ مختلف جہان اور ان کے مفادات آپس میں ارادی یا غیر ارادی طور پر آ ملتے ہیں.
انہیں ایک ایسی متفقہ ذہنیت نے آپس میں باندھ رکھا ہے جس کے مطابق چوٹی پر موجود لوگ اپنی طاقت اور دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے اثاثوں کے ”مستحق“ ہیں. اور اس بات کو مختصراً مشہور کاسمیٹکس برانڈ ”لوری ایل“ کے اشتہاری پیغام میں بخوبی سمویا جا سکتا ہے:
”کیونکہ یہ میری حیثیت کا تقاضا ہے.“
”I am worth it“
کا حقیقی ترجمہ تقریباً ناممکن ہے
یہی وہ ذہنیت ہے جو سیاستدانوں سے غبن اور کاروباری حضرات سے ٹیکس چوری کرواتی ہے اور بینکنگ کے سورماؤں کو بونس پر بونس دلواتی ہے، باوجود اس کے کہ دنیا کو وہ معاشی تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں.
اور ان سب باتوں کی سہولت دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات حوصلہ افزائی کرتے ہیں. وہ قوانین جو اپنی ساخت کی بدولت نچلی ترین سطح کے کارکنوں کی معمولی ترین لغزشوں کو بھی نظر انداز کرنے پر تیار نہیں.
یعنی اسٹیبلشمنٹ کی یک سطری تعریف یوں بن سکتی ہے:
”ما انزل اللہ“ کے سوا کسی بھی بنیاد پر قائم نظام کے وہ تمام ”اہل حل و عقد“ جن کا مفاد اور بقا ”ہر قیمت پر“ اس کی مروجہ شکل (سٹیٹس کو) کو برقرار رکھنے سے ہی وابستہ ہو.
................
احقر کی رائے:
.. اوون جونز چونکہ برطانیہ اور مغربی اقوام کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کی وضاحت کر رہے ہیں، جہاں فوج کا کردار اور دائرہ کار محدود ہے، لہٰذا اس فہرست میں اس کا ذکر نہیں. جبکہ ہمارے ماحول میں وہ فوج جو متعدد بار اقتدار پر براہ راست قابض رہ چکی ہے، اس کے ذکر کے بغیر یہ لسٹ قطعاً نامکمل ہے.
.. بہت سے لوگ میڈیا کو اسٹیبلشمنٹ کا حصہ نہیں سمجھتے، جو کہ اس کی طاقت کے انکار کے مترادف ہے. میڈیا کے جغادریوں اور چودھریوں کا معاشی اور نظریاتی مفاد بھی اسی نظام کی بقا سے جڑا ہے جس میں ان پر پابندی صرف اور صرف اپنے ”قبیلے“ کے لوگوں کے خلاف بولنے اور لکھنے پر ہو جبکہ دنیا کے دیگر موضوعات پر انہیں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہو، خواہ معاملہ کتنا ہی سنجیدہ، حساس یا تکنیکی نوعیت کا ہی کیوں نہ ہو.
.. ہمارے یہاں سیاست دانوں کو ”پرو اسٹیبلشمنٹ“ اور ”اینٹی اسٹیبلشمنٹ“ میں تقسیم کیا جاتا ہے، جو اس لحاظ سے بجا ہے کہ اسلام پسند جماعتوں کے منشور کے مطابق وہ اقتدار کے حصول کے بعد نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی علمبردار ہیں جو کہ ”سٹیٹس کو“ کے تسلسل کی خواہاں قوتوں کے مفاد کے خلاف ہے. شاید اسی وجہ سے ان جماعتوں کو کبھی بھی ”گیم چینجنگ“ حیثیت حاصل نہیں کرنے دی گئی.
البتہ جن سیکولر پارٹیوں یا سیاستدانوں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، وہاں اسٹیبلشمنٹ کا نہایت محدود تصور کارفرما ہے.
.. اور آخر میں ہو سکتا ہے کہ آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں، لیکن ایک ایسا طبقہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا ایک طاقتور حصہ بننے میں کامیاب ہو چکا ہے جس نے (دہشتگردی کی طرح)، نہایت غیر محسوس طریقے سے ”فرقہ واریت“ کی بھی ایک نئی تعریف وضع کر دی ہے.

Comments

Click here to post a comment