ہوم << آنے والا دور عورتوں کا ہے - روبینہ فرید

آنے والا دور عورتوں کا ہے - روبینہ فرید

کیا سماج کے دانشوروں کو یہ بات آج پتہ چلی ہے کہ ”آنے والا دور عورتوں کا ہے؟“ کیا وہ یہ بات تسلیم کریں گے کہ سالوں پہلے این جی اوز اور امریکن سفارتخانے نے عورتوں کی قوت و اختیارات کے جس نظریے کی کاشت کا عمل شروع کیا تھا، وہ ان کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ کرا سکا اور سماج کے اہل دانش نے اسے معمول کا عمل جان کر اس کے اثرات کا اندازہ لگانے میں وہی غفلت برتی جو پاکستانی معاشرے کے مرد اپنی عورتوں کے بارے میں برتتے چلے آئے ہیں۔
اپنے مطلوبہ اہداف کا شجر اگانے کے لیے خاموشی سے معاشرے اور ذہنوں کی زمینوں میں نظریے کے بیج بوئے جاتے ہیں، مستقل مزاجی سے ان کو نعروں اور سلوگنز کا پانی دیا جاتا ہے۔ دنیاوی مناصب و آسائشات کے لالچ کی کھاد ڈالی جاتی ہے، مزاحم قوتوں کی جڑی بوٹیوں کو الزامات و جارحانہ اقدامات کی کھرپی سے اکھاڑا جاتا ہے۔ مصنوعی خلوص کی گرمی فراہم کی جاتی ہے تب وہ نظریہ جڑ پکڑتا ہے۔ پھوٹنے والی کونپل کو ہر سرد وگرم سے بچایا جاتا ہے یہاں تک کہ کونپل بنیاد مضبوط کر لیتی ہے اور پھر شجر کا اگنا کچھ عرصے کی بات رہ جاتی ہے۔ کسی بھی سماج میں کسی سوچ اور نظریے کو برگ و بار لانے میں آٹھ دس سال کا عرصہ لگ ہی جاتا ہے اور مزید آٹھ دس سال بعد اس کے اثرات رنگ لانے لگتے ہیں۔
بیجنگ کانفرنس، بیجنگ 5+ کانفرنس، CEDAW، GRAP اور ملینئیم گول کے نام سے عورت کی کلی آزادی و اختیارات کی سوچ اگرچہ پوری دنیا کی عورتوں کی دی گئی لیکن مسلم ممالک کی عورتیں اس کا خاص ہدف بنائی گئیں جہاں خاندانی نظام کی مضبوطی کو اہل باطل نے اپنے لیے ایک چیلنج قرار دیا۔
پاکستانی عورت کو اللہ نے بہترین صفات سے نوازا۔ خلوص، وفا، محبت، قناعت، محنت جس کا ورثہ تھے جو عزت دینے والی اور گھروں اور دلوں کو جوڑ کر رکھنے والی تھی۔ اللہ نے اپنی شریعت میں عورت کو ہر طرح کا معاشرتی و معاشی تحفظ فراہم کیا لیکن ہمارے معاشرے کے مردوں نے اسے سختی سے اپنے زیر اثر رکھنے کو اپنا حق سمجھا۔ اللہ نے مرد کو قوام بنا کر عورت کا محافظ بنایا تھا لیکن مرد عورت کے حاکم بن گئے۔
لڑکیوں نے آگے پڑھنا چاہا تو کہا گیا ”تمہیں اتنا پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آگے جا کر گھر داری ہی تو کرنی ہے۔“
شادی ہو گئی تو شوہر نے جانا کہ مہر تو بس طلاق کے وقت ہی دیا جانے والا حق ہے، نان نفقہ کی خواہش کی تو جواب ملا کہ ”جب ساری ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں تو الگ سے پیسوں کی ضرورت کیوں ہے؟“
وراثت تقسیم ہوئی تو بھائیوں نے کہا ”بہنیں جہیز لے چکیں اب انہیں وراثت کی کیا ضرورت ہے؟“
گھر میں سب سے پہلے اٹھنے اور سب سے آخر میں سونے والی ہستی سے جہاں خدمت میں کوئی کوتاہی ہو گئی تو فورا یہ تلخ جملے سننے کو ملے کہ ”تم گھر میں رہ کر آخر کرتی کیا ہو؟“
کسی بات میں اپنی رائے دینے کی جسارت کی تو سننے کو ملا کہ ”تمہیں باہر کا کیا پتہ، اپنے گھر کی خبر لو۔“
مرد نے اپنے کما کر لانے کو اپنا ایسا فخر گردانا کہ گھر بیٹھی عورت کی ساری کارگزاری اس کے آگے حقیر ٹھہری اور یہ بھول گیا کہ کمانا ہی سب سے بڑا کام تھا تو اللہ نے ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ کیوں رکھا؟
اللہ نے مرد و عورت کو یکساں عزت و احترام کا مستحق ٹھہرایا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں عورت اکثر و بیشتر اس حق سے محروم ہی پائی گئی۔ اور اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات پر عمل سے دوری رہی۔ البتہ وہ گھرانے جو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے رشتوں کو نبھاتے رہے، رشتوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جہاں باپ بیٹی کا ماتھا چومنے والے، بیوی کو عزت و احترام دینے والے، والدین کی خدمت کرنے والے ہوتے ہیں وہاں اولاد بھی سعادت مند اور فرمانبردار ہوتی ہے۔ لیکن معاشرے کی اکثریت عورت کے معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار رہی ہے۔ جب عورت کے صبر، ایثار، قربانی اور قناعت کو اس کی مجبوری سمجھ لیا گیا تو ایسے میں جب اس کے سامنے ایسے مسیحا آئے جنہوں نے اس کے حقوق، اس کی آزادی، اس کے اختیارات کی بات کی تو اس کی آنکھوں میں تو خوابوں کا ابھرنا لازمی امر تھا۔ کوئی غنیم نقب نہیں لگا سکتا جب تک قلعہ کی فصیل کمزور نہ ہو۔ اور جب اس طرح ایک دبایا جانے والا سپرنگ وزن سے آزادی پاتا ہے تو اپنی اصل سے بھی باہر نکل جاتا ہے۔ اسی طرح جب پاکستان کی عورتوں نے آزادی کی راہ پر چلنا شروع کیا تو آج وہ ہمیں حد اعتدال سے باہر جاتی نظر آ رہی ہیں۔ مائوں نے سوچا کہ جو خوشی اور حقوق ہم نہ پا سکے چلو وہ ہماری بیٹیاں تو پا لیں۔ سماج کے دانشوروں کو آنکھوں کی پتلیاں نہ دھونی پڑتیں اگر وہ اس بیس سال کے عرصے میں عورت کو اسلام کے عطا کردہ تمام حقوق عطا کرنے کی مہم چلا دیتے۔ اس کے گھر اور بچے سنبھالنے اور چلانے پر اس کی قدردانی کرتے۔ اس کے حاکم بننے کے بجائے محافظ بنتے۔ اس کے لیے اس کی فطرت کے مطابق نصاب تعلیم تشکیل دیتے، اس کی کچھ کر گزرنے کی خواہش کے لیے ایسے ادارے بناتے جہاں وہ اپنے ہنر اور صلاحیتوں کو مطابق کام کرنے کے لیے آزاد ہوتی۔ اس کو وہ عزت اور احترام دیتے جس کی وہ مستحق تھی۔
المیہ تو یہ ہے کہ ترقی و آزادی کے جس سراب کے پیچھے پاکستانی عورت بھاگ رہی ہے وہاں پہنچ کر بھی اس کی تشنگی ختم نہیں ہو گی۔ حاکمیت عورت کی فطرت کے خلاف ہے۔ وہ اپنے مرد کو ہمیشہ اپنے سے اوپر اور اپنا محافظ دیکھنا چاہتی ہے۔ ایک اعلی تعلیم یافتہ مرد تو میٹرک پاس بیوی کے ساتھ بھی ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکتا ہے اور کر لیتا ہے لیکن ایک اعلی تعلیم یافتہ لڑکی ایک کم پڑھے لکھے مرد کے ساتھ ذہنی مطابقت پیدا نہیں کر پاتی۔ آج جبکہ لڑکیاں تعلیم کے ہر شعبہ میں اپنی فوقیت کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں اور معاش کی دوڑ میں مردوں سے آگے نکلتی جا رہی ہیں، اس امر سے غافل ہیں کہ اس طرح معاشرے میں خاندان نہ بن سکنے، شادیاں نہ ہونے یا شادیاں قائم نہ رہ جانے کا خلا پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آج معاشی خود انحصاری کے زعم میں گرفتار عورت گھر کو قائم رکھنے کے لیے ایثار و قربانی و مصالحت کے جذبوں سے نا آشنا ہوتی جا رہی ہے، حالانکہ یہ صفات اس کا اثاثہ تھیں۔ مردوں کے دائرے میں آ کر ان کا مقابلہ کرنے کی خواہش نے اس میں مردانہ پن اور مردوں کے کمزور کاندھوں نے اس کے اندر زنانہ پن پیدا کر دیا ہے جو معاشرے کی تباہی کی علامت ہے۔ اہل دانش تو بہت پہلے بتا گئے ہیں کہ
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن
اس علم کو کہتے ہیں ارباب نظر موت
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی کونسلنگ کی جائے۔ ان پر حقیقی خوشی اور کامیابی کے تصور کو واضح کیا جائے۔ نصاب تعلیم میں معاشرے کی ضرورت کے مطابق عنوانات کو شامل کیا جائے۔ خاندانی نظام کی اہمیت اور قدر و قیمت کو ان کو سامنے لایا جائے اور ایسا نظام بنایا جائے جہاں اگر عورت اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہے تو اپنے خاندان کے ساتھ جڑے رہ کر بھی کام کر سکے۔ اسلام کے عطا کردہ تحفظ اور حقوق کی ادائیگی کو اجتماعی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ مادی ترقی سے زیادہ روحانی ترقی کو ہدف بنایا جائے۔ اور اس بات کا سبق دیا جائے کہ خوشی پیسے میں نہیں، نیکی میں پوشیدہ ہے۔
(روبینہ فرید کیمسٹری اور اسلامیات میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں، ورکنگ ویمن کی فلاح کے لیے کام کرنے والی این جی او سے گذشتہ سولہ سال سے وابستہ ہیں، خواتین کی آگہی و شعور میں اضافہ کے لیے تدریسی اور تحریری محاذ پر سرگرم مصنفہ ہیں، دو کتابیں مرتب کر کے شائع کیں۔ سماجی مسائل اور عورت کے موضوع پر پچھلے بیس سال سے قلمی جدوجہد میں مصروف ہیں)

Comments

Click here to post a comment