ہوم << سوچ کے تقدیر پر اثرات - حنا تحسین طالب

سوچ کے تقدیر پر اثرات - حنا تحسین طالب

آج کے انسانوں کی اکثریت اپنی قسمت کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے. اپنی محرومیوں کا رونا روتی اور اپنی ناکامیوں اور بد قسمتی کا ملزم دوسروں کو ٹھہراتی نظر آتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی کامیابی اور ناکامی کا ذمہ دار انسان عموما خود ہوتا ہے. کیسے؟
بات یہ ہے کہ کامیابی اور ناکامی کی ابتداء اصل میں انسان کی سوچ سے ہوتی ہے، انسان جو سوچتا ہے، وہ اس کی قسمت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتا ہے.
حقیقت یہ ہے کہ سوچ اور نظریہ کبھی بھی بے نتیجہ نہیں ہوتے، ان کے لازما کچھ نتائج ہوتے ہی، ہر سوچ سے ہمارے اندر ایک خاص قسم کی کیفیت اور جذبہ پیدا ہوتا ہے. اب سوچ جتنی پختہ ہوگی، جذبہ اتنا ہی شدید ہوگا اور پھر یہ جذبہ ہماری شخصیت و کردار کو تشکیل دے گا، ہمارے اعمال پر اثرانداز ہوگا.
مثلا اگر کسی علم، مشاہدے یا تجربے کی بنا پر ایک انسان کی سوچ پختہ ہو جائے کہ بنانے والے نے کائنات کو اس اصول پر بنایا ہے کہ یہاں جو محنت کرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے، جو بیج بو کر فصل تیار کرتا ہے، اسی کے نصیب میں پھل آتا ہے تو ہو نہیں سکتا کہ وہ بےکاری اور بے عملی کو اپنا شعار بنائے، اس کی یہ سوچ اس کے اندر عمل کا جذبہ پیدا کرے گی جو محنت کی شکل میں اس کے کردار کا حصہ بن جائے گا، پھر وہ شخص ناکامی کو وقتی سمجھے گا اسے یقین ہوگا کہ مسلسل محنت سے ایک دن کامیابی ضرور ملے گی، وہ انتھک محنت کرے گا اور بالآخر کامیاب ہو جائے گا، جیسے ابراہم لنکن اپنی زندگی کے ساٹھ سال مسلسل ناکام ہوتے رہے لیکن بالآخر امریکہ کے اس قدر کامیاب صدر بنے کہ آج انھیں جدید امریکہ کا بانی کہا جاتا ہے.
یقینا جو محنت کرتا ہے وہ قسمت سے اپنا حصہ پا لیتا ہے. بالکل اسی طرح اگر کسی کے ذہن میں کوئی منفی سوچ پیدا ہو جائے تو وہ اس کے کردار و عمل کو متاثر کرے گی، مثلا اس سوچ کاپختہ ہو جانا کہ میں بہت گناہگار ہوں، اللہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے. یہ سوچ انسان کے اندر مایوسی کو جنم دے گی اور پھر یہ مایوسی انسان کے اندر بے عملی کا جذبہ پیدا کر کے اس کے کردار کو مسخ کردے گی. ایسے انسان کی شخصیت و کردار میں بے عملی نمایاں ہوگی، وہ بے دھڑک گناہوں کا ارتکاب اس لیے کرے گا کہ معافی تو اسے ویسے بھی نہیں ملنی. اس کے بد اعمال دنیا میں ہی اس کی زندگی جہنم بنا دیں گے، وہ اللہ کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرے گا، اس کے نتیجے میں فساد پھیلے گا اور اس فساد کے اثرات لازما اس تک بھی آئیں گے. اسی تناظر میں ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رض سے حضرت ابوبکر رض کے بارے میں فرمایا تھا کہ ”ابوبکر جو تم میں سبقت لے گئے ہیں تو وہ نماز روزے کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ دل کے یقین کے ساتھ آگے بڑھے ہیں.“
یہ ان کا اللہ پر یقین تھا کہ وہ ہر نیکی میں آگے رہے، اور جو سعادت ابوبکر رض کے نصیب میں آئی وہ کسی اور کے نصیب میں نھیں آئی. حضرت عمر رض باوجود کوشش کے کبھی ان سے سبقت نہیں لے جا سکے، جس کا اعتراف ایک موقع پر عمر فاروق رض نے خود کیا. یہ ایک سوچ اور نظریے کا نتیجہ تھا.
انسان کو چاہیے کہ اپنی سوچ اور نظریے کا سورس درست رکھے، اس کی سوچ، نظریہ، عقیدہ، یقین اور درست علم پر مبنی ہو، جو مثبت سوچ کو پروان چڑھائے. اور وہ یقینی علم بلاشبہ قرآن و سنت کا علم ہے، اور پھر کائنات کے مسلمہ اصولوں کا علم. اگر کوئی شخص اپنی قسمت سنوارنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنی سوچ کو سنوارے، اپنے نظریات کی اصلاح کرے، اپنے دل میں اٹھنے والے خیالات کی نگرانی کرے، اور پھر دیکھے کہ کس طرح اس کی سوچ اس کی قسمت کو سنوار دے گی.

Comments

Click here to post a comment