ہوم << سوکن - نورین تبسم

سوکن - نورین تبسم

سوکن - ایک لفظ، ایک کہانی، ایک ایسا داغ جو کوئی بھی عورت اپنی پیشانی پر سجانا تو کیا اس بارے میں سوچنے کا بھی تصور نہیں کر سکتی۔ عورت کی ساری سوچ کا محور ہی اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہے کہ یہ طعنہ اس کی زندگی میں کبھی نہ آئے۔ اس میں کوئی ابہام بھی نہیں کہ یہ عورت کی اپنے اندر کی کوئی کمی ہوتی ہے جسے ایک مرد کی آنکھ جانے کیسے کھوج لیتی ہے، اور وہ اس کی ساری عنایتیں اور ساری خوبیاں بھلا کر یہ کمی گھر سے باہر پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مرد کی نگاہ ویسے تو بہت سرسری ہوتی ہے، مگر کبھی اُسے جگمگ کرتا گھر نظر نہیں آتا۔ اور یہ کمی جو کسی کونے کھدرے میں لگے مکڑی کے جالے کی طرح ہوتی ہے، اُس کے دھیان میں اپنا گھر بنا ہی لیتی ہے۔ کبھی تو وہ اپنا بڑا پن ظاہر کر کے اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے، کبھی نظرانداز بھی کردیتا ہے، اور کبھی ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ عورت آگے بڑھ کر اُس کے ذہن کا جالا دُور کر دے۔
دوسری طرف عورت اپنا آپ ایک گھر کے لیے فنا کر کے اتنی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے کہ اُس کی کرچیاں سمیٹنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اب وہ اپنا آپ سنبھالے یا ایک نئی منزل کی تعمیر کرے۔ اسی دوراہے پر عمر تمام ہو جاتی ہے اور مرد کے ذہن کا وہ جالا وقت کے ہاتھوں کبھی بنتا، کبھی سنورتا اور کبھی بکھرتا رہتا ہے، تاوقتیکہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ جالا مرد کی عقل پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ انتہائی قدم اُٹھا لیتا ہے۔ دیکھنے میں یہ عورت کے ساتھ زیادتی ہے، کھلی ناانصافی ہے، اُس کی عمر بھر کی محنت پاؤں تلے روندنے والی بات ہے، لیکن سب سے پہلے ظلم مرد اپنی ذات پرکرتا ہے کہ اپنی عقل گروی رکھ دیتا ہے، اور جو عقل سے عاری ہو جائے اُس کا ڈوبنا یقینی ہے۔ بہ نسبت اُس کے جو جان بچانے کے لیے کوشش توکرے، اور کسی کو مدد کے لیے پکارے تو سہی۔
یہ اس رویے کا منفی اور عمومی پہلو تھا جو ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے اور سنتے آئے ہیں۔ غورکیا جائے تو سوکن ایک ”رویہ“ ہے، ایک ”شخصیت“ تو بعد میں بنتی ہے اور اکثر نہیں بھی بنتی ۔ انسان ہونے کے ناطے ہر ایک کی اپنی ذاتی خواہشات اور ضروریات ہوتی ہیں جن کو وہ جہاں تک ہو سکے ماننے اور جاننے کی کوشش کرتا ہے، پانے کا مرحلہ تو بعد کی بات ہے۔
ہمارے شوق یا مشغلے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ہمارے بےضرر سے مشاغل دنیا کی تلخ حقیقتوں کو وقتی طور پر ہی سہی کچھ دیر کے لیے تو نگاہوں سے اوجھل کر دیتے ہیں۔ کبھی گردش ِدوراں انہیں ہمارے وجود میں گم کر دیتی ہے تو کبھی ہم ان میں گم ہو کر گردش ِدوراں بھلا بیٹھتے ہیں۔ جو بھی ہو یہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اتنا قیمتی کہ ہمارے ساتھی انہیں سوکن سمجھنے لگتے ہیں کہ جو ان کو ملنے والا وقت چرا لیتی ہے۔ ایسے ہی کھٹی میٹھی زندگی گزرتی چلی جاتی ہے۔ پر یہ سوکن اتنی اچھی ہوتی ہے جو ہمارے ساتھی کو ہم سےاتنا دوربھی نہیں جانے دیتی کہ اُس کی واپسی ناممکن ہو جائے اور صبح کے بھولے کو رات کو گھر بھی بھیج دیتی ہے۔
ساری بات اس کی موجودگی کے احساس کی ہے، اگر ہم اسے کھلے دل و دماغ سے تسلیم کرلیں تو یہ ہم پر بھی اپنی باہیں وا کردیتی ہے۔ یہ وہ سوکن ہے جو محبت میں شراکت پر یقین رکھتی ہے۔ اب محبوب پر ہے کہ وہ اس کا کتنا حصہ ہمیں عنایت کرتا ہے۔ بہرحال جتنا بھی مل جائے خاموشی سے لے لینا چاہیے کہ پھر وہ حصہ خود ہی بڑھنے لگتا ہے۔ اگر ہم اس سوکن سے دوستی کر لیں تو ہمارے ساتھی کو چوری چھپے اس سے ملنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور اس کی خوشبو ہمارے آنگن میں بہار بن کر اترتی ہے۔
شادی شدہ زندگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک انسان کو دوسرے انسان پر مکمل ذہنی اور جسمانی اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ جسمانی سے بڑھ کر ذہنی شکنجہ اتنا تنگ کر دیا جاتا ہےکہ عورت دم گھٹنے سے اندر ہی اندر مر جاتی ہے۔ اور حد تو یہ ہےکہ نہ صرف کسی اور کو بلکہ خود اُسے بھی اپنی اہلیت کا پتہ نہیں چلتا۔ پتہ چل بھی جائے تو سمجھوتوں کی دیمک اُسے کھوکھلا بنا دیتی ہے۔ جبکہ مغرب میں اس بندھن کے حوالے سے بالکل الٹ طرزِعمل ہے۔ وہاں فرد کی جسمانی آزادی مقدم ہے، اس کے بعد انسان کی ذہنی پختگی اس رشتےکا بھرم قائم رکھتی ہے۔ لیکن انسان بہرحال انسان ہے فرشتہ نہیں۔ جسمانی آزادی کی انتہائیں چھونے کے بعد بندھن کی پاکیزگی کی دھجیاں بکھرجاتی ہیں جو بالآخر ایک گھر، ایک خاندان کے بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔
حاصل کلام یہی ہے کہ زیادتی ہر چیز کی نقصان دہ ہے۔ مرد اور عورت دو الگ جگہ پلے بڑھے ہوتے ہیں۔ جب وہ باہم ایک چھت تلے اکھٹے رہتے ہیں تو اُن کو ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام کرنا چاہیے۔ اسی طرح اس بندھن کی گاڑی دھیمی رفتار سے چلتی رہتی ہے۔
حرفِ آخر!
عورت جتنی کمزور دکھتی ہے، اُتنی ہی طاقتور بھی ہے، ہر خانگی مسئلے کی جڑ گھر کے اندر بند کمرے سے نکلتی ہے۔ غلطی چاہے عورت کی ہو یا مرد کی لیکن اس کا احساس عورت کر لے تو بات اتنی نہیں بڑھتی۔ بچے ہونے کے بعد تو سراسر ذمہ داری عورت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ کس طرح اپنا گھر بچانے کی جدودجہد کرتی ہے۔ گھر بچانے کے ہزار طریقے ہیں، ایک طریقہ مرد کی جگہ پر جا کر اس کے ذہن سے سوچنے کا بھی ہے، گھر بچانے کے لیے اپنی ذات اور اپنی انا کی قربانی دینا سب سے پہلا سبق ہے۔ مرد کا دوسری شادی کرنا یا اس کی خواہش کرنا اور عورت کا اسے قبول بھی کر لینا اس قربانی کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
راز کی بات!
جوا کھیلنے میں بےانتہا کشش ہے لیکن ہارنے کا حوصلہ ہو تو پھر بات ہی کیا ہے۔ کسی نے کہا تھا۔
”شادی ایک جوا ہے چاہے آنکھیں پھاڑ کر کھیلو یا آنکھیں بند کر کے۔“ لیکن! پہلی شادی کے بعد یہ جوا ضرور آنکھیں کھول کر کھیلنا چاہیے ورنہ آخر میں اپنا آپ بھی داؤ پر لگانا پڑ جاتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment