ہوم << اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی - معظم معین

اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی - معظم معین

معظم معین ا تعلیمی اداروں میں طلبہ کے لیے نصابی کے ساتھ ساتھ مثبت ہم نصابی سرگرمیاں تعلیم کے لیے اتنی ہی ضروری ہیں جتنا عمران خان کے جلسوں کے لیے ڈی جے۔ وقتا فوقتا مختلف قلم کار خصوصا لال رنگ کا ماضی رکھنے والے جب کبھی ماضی کی فکری و نظریاتی شکستوں پر اداسی کا شکار ہوتے ہیں تو اپنا غم غلط کرنے کو اسلامی جمعیت طلبہ کے کردار اور اس کے اثرات پر قلم لے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ایسے میں ان کا نشانہ لے دے کے لاہور کی پنجاب یونیورسٹی ہی ہوتی ہے۔ پاکستان کی اس عظیم مادر علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا کئی دہائیوں سے وجود مستقلا قائم رہنا ہی اس کے مثبت کردار کا ثبوت ہے جہاں کئی چھوٹی بڑی تنظیمیں آئیں اور آج کسی کو ان کا نام بھی یاد نہیں، وہاں اتنے بڑے کینوس پر مسلسل موجود رہنا ہی بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ کئی باصلاحیت جرنیل اور منتظم آئے اور ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے مگر اسلامی جمعیت کے نوجوان آج بھی وہیں گھومتے پھرتے پشاوری چپلیں گھسیٹتے نظر آتے ہیں۔
جمعیت کا کردار دہائیوں سے معاشرے کے سامنے ہے۔ اس میں مثبت چیزیں بھی ہیں اور منفی بھی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی کچھ بدترین دہشت گردیوں اور غنڈہ گردیوں کا میں بھی شاہد ہوں۔ ایک مرتبہ لاہور کی ایک بڑی شاہراہ پر ایک گرلز اسکول کے سامنے چند معصوم اور بےضرر سے طلبہ کو اسلامی جمعیت طلبہ کے دہشت گردوں نے گرین بیلٹ پر مرغا بنا رکھا تھا۔ اس قدر وحشت ناک اور دردناک منظر پر اردگرد سے گزرنے والوں پر رقت طاری ہوتی تھی۔ لوگ سخت پریشان تھے کہ یہ کیا صورتحال ہے۔ جب کریدا گیا تو معلوم ہوا کہ کئی دنوں سے لڑکیوں کے اسکول کے سامنے چند نونہالان وطن اپنی علمی اور نصابی تحقیق کی خاطر جمع ہوتے تھے اور علمی و ادبی تحقیق فرماتے تھے۔ تنگ آ کر سڑک کی دوسری طرف موجود کالج میں جمعیت کے غنڈے ناظم کو اسکول کی پرنسپل نے لو لیٹر لکھا کہ آپ کا کیا فائدہ اگر اسکول کی بچیوں کو اسی طرح مشٹنڈوں نے جمع ہو کر تنگ کرنا ہے۔ اس پر غیرت کھا کر (وہی غیرت جس کے بھی لال ماضی والے خلاف ہیں) کالج کے غنڈے ناظم نے نونہالان وطن کی یہ تحقیق و تصنیف بند کروائی اور وہ منظر اسی سلسلے میں پیش کیا جا رہا تھا۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی میں بھی اکثر دیگر تعلیمی اداروں کے ہونہار طالب علم اسی قسم کی تحقیق کی خاطر تشریف لاتے اور تعلیم و تربیت کا سامان بہم پہنچاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ظلم اور تشدد کی وہ داستانیں ہیں جن کو دیکھ کے چنگیز خان اور ہلاکو خان کی روحیں بھی تڑپ اٹھتی ہوں گی۔
اسی طرح ایک الزام ایک لڑکی پر جنسی حملے کا بھی کسی جرات مند قلمکار نے لگایا ہے۔ فرمایا کہ ایک سابقہ 'سرخی' جمعیت کے پمفلٹ بانٹتی پھر رہی تھی جب پوچھا گیا تو اپنے لال دوستوں کو بتایا کہ مجھ پر چھوٹا جنسی حملہ کیا گیا ہے اور بڑے جنسی حملے کی دھمکی دی گئی ہے۔ ایسے مزاحیہ قلمکار بھی ملک میں قانون کی بالادستی کمزور ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ معاشرے میں ممنوعہ مشروبات کی کھپت کتنی بڑھ گئی ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ لال رنگ والوں کے ہاں جنسی حملہ بھی چھوٹا بڑا ہوتا ہے۔ البتہ موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ پھر لال پارٹی کے دوستوں نے اپنی دوست طالبہ کو بڑے جنسی حملے سے بچانے کے لیے کیا غیرت کھائی یا وہ بھی جیسا کہ عرض کیا عشق ممنوع ہے لال رنگ والوں کے ہاں۔
کچھ قلمکار اسلامی جمعیت طلبہ کو ایم کیو ایم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ایسے جرات مند قلمکار یا تو ایم کیو ایم کو نہیں جانتے یا پھر جمعیت کو۔ جہاں تک ہم دیکھ سکے ایم کیو ایم اور جمعیت میں ایک چیز ہی یکساں پائی جاتی ہے اور وہ ہے دونوں تنظیموں میں لفظ 'بھائی' کا کثرت استعمال۔ اثرات اس لفظ کے کچھ مختلف ہو سکتے ہیں مگر لفظ ایک ہی ہے۔ اس کے علاوہ تو مشرق و مغرب کا بعد ہے۔جمعیت کے دہشت گرد تو ایم کیو ایم کے سامنے طفل مکتب ہیں سانحہ بلدیہ ٹاؤن کو ہی دیکھ لیں۔ ایک سے ایک مقرر اسلامی جمعیت طلبہ میں ہے مگر جمعیت کے لیڈروں میں ایک بھی نابغہ نہیں جو الطاف بھائی کے پائے کی تقریر کر سکے۔
معقول تجزیہ وہ ہے جس میں مثبت منفی دونوں پہلو نمایاں کیے جائیں۔ ہر شے میں مثبت منفی کا عمل پایا جاتا ہے بلکہ کہا جائے کہ اسی پر کائنات کا دارومدار ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ مثبت ہی منفی کو کھینچتا ہے۔ مگر ہمارے لال دانشور اپنی مرضی کا مثبت منفی دکھاتے ہیں۔ "مزید اچھی اچھی تحاریر پڑھنے کے لیے میرا پیج لائک کریں" ٹائپ کے قلمکار جب تجزیہ کرتے ہیں تو وہ تجزیہ کم اور دل کی داستان زیادہ ہوتی ہے۔ بہرحال جمعیت کے نوجوانوں کو اگر اپنے آپ کو جدید دنیا کے ساتھ چلانا ہے تو یقیناً انہیں اپنے اندر بھی بےشمار جدتیں پیدا کرنا ہوں گی۔ نوجوانوں کو ڈرانے کے بجائے متاثر کرنا ہوگا۔ اپنے اندر علم دوستی کو مزید پروان چڑھانا ہوگا اور اس کے لیے محض کتاب میلہ یا ایوارڈ شو کافی نہیں بلکہ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اپنی صفوں میں بلند مرتبہ اہل علم کیسے پیدا کیے جائیں کہ ہر زمانے میں علم ہی ترقی اور عروج کا راستہ ہے۔