ایک پرانی کہاوت ہے کہ اگر سال بھر کوئی منصوبہ بندی کرنی ہے تو فصلیں اگاؤ. اگرایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت اگاؤ اور اگر ایک ہزار سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ.
یہ بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ قوموں کی ترقی کا راز بہترین نظام تعلیم میں ہی ہے. تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے. اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جن قوموں نے تعلیم پر توجہ دی وہ آج کی ترقی یافتہ قوموں میں سے ایک ہیں جس کی چند بڑی مثالیں امریکہ، برطانیہ، ملائشیا، چین، فرانس، جرمنی وغیرہ ہیں. پاکستان میعار تعلیم میں بہت پیچھے ہے اور اس کی بڑی اور اہم وجہ حکمرانوں کی عدم دلچسپی اور نااہلی ہے.
ہر دور حکومت میں تعلیم کے متعلق مختلف نعرے جیسا کہ ”مار نہیں پیار“، ”ہمارا خواب پڑھا لکھا پنجاب“ اور ”ہم نے بدلا ہے پنجاب ہم بدلیں گے پاکستان“، ”تعلیم کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا“ وغیرہ وغیرہ صرف نعرے ہی رہے، کبھی حقیقت نہ بن سکے. رٹے رٹائے یہ نعرے اور فلسفے ہی ہماری قوم کا مقدر بنتے جا رہے ہیں.
موجودہ حکومت بھی یہ دعوٰی کر رہی ہے کہ وہ بھی تعلیم کے فروغ کے لیے بہت کچھ کر رہی ہے، موجودہ حکومت کی جانب سے تعلیم کے بجٹ میں 2 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے. مگر تاحال یہ صرف دعوی ہی ہے. دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کی جانے والی رقوم 1947ء سے اب تک کل قومی پیداوار کے 2.1 فیصد سے کبھی آگے بڑھ ہی نہیں سکیں.
پاکستان شرح خواندگی میں دنیا کے 162 اور پرائمری کی تعلیم کے معیار میں 116 ممالک سے پیچھے ہے. 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے سپرد ہے اور پچھلے چند سالوں میں تعلیم کی صورتحال بہتر بنانے سے متعلق صوبوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے مگر خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا.
پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے (اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن ) ”اثر“ کے مطابق اگرچہ ملک میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے تاہم اب بھی 6 سے 16 سال کی عمر کے 20 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے. ”اثر“ کی سالانہ رپورٹ برائے 2015ء کے مطابق پاکستان میں 2014ء میں سکول نہ جانے والے بچوں کا تناسب 21 فیصد تھا جو 1 فیصد بہتری کے بعد اس سال 20 فیصد رہا. ان میں سے بھی کبھی بھی سکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 14 فیصد ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر سکول چھوڑنے والے بچوں کی شرح 6 فیصد تھی.
یہ سروے پاکستان کے تقریباً 150 دیہی اور 21 شہری علاقوں میں کیا گیا. جس میں 6 سے 16 سال کی عمروں کے 2 لاکھ 20 ہزار بچوں کی زبان ( اردو، سندھی، پشتو ) سمیت انگریزی اور ریاضی میں مہارت کے حوالے سے جائزہ لیا گیا. اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں پرائمری اسکولوں میں داخلوں کی شرح سب سے کم رہی ہے. اس کے علاوہ 2015ء میں سرکاری اسکولوں میں 6 سے 16 سال کے عمر کے بچوں کے داخلوں کی شرح میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے. رپورٹ کے مطابق 2015ء میں لڑکیوں کے اسکولوں میں داخلے کی شرح میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے. یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پاکستان پچھلے پندرہ سالوں میں اقوام متحدہ کے ان آٹھ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جو ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے طےکیے گئے تھے اور ان اہداف میں ایک بنیادی ہدف پرائمری تعلیم تھی. آخر وہ کون سی کوتاہیاں ہیں جو تعلیم جیسے شعبے کو ناکام بنا رہی ہے اور صوبائی حکومتیں تعلیم کے لیے کیوں موثر اقدامات کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں. ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ”زرخیز زمین پر بنجر قوم ہیں“. عمارت اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی بنیاد مضبوط نہ ہو. اور اگر بنیاد ہی کمزور ہو تو عمارت کھڑی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. بالکل اسی طرح پرائمری اسکول بھی ہماری بنیاد ہیں اور اس کی مضبوطی اچھا استاد ہے. یونیورسٹی کا راستہ سکول سے ہو کر ہی آتا ہے. اور ہماری حکومتیں بنیاد کو ہی نہیں سنبھال پا رہی تو مضبوط عمارت کا قیام تو یقیناً ناممکن ہی ہوگا.
پاکستان میں ناکام نظام تعلیم کی ایک بہت بڑی وجہ ملک میں بیک وقت دو خصوص نظام تعلیم کا رائج ہونا ہے، ایک اُردو میڈیم اور دوسرا انگلش میڈیم اور یہی فرق بڑا مسئلہ ہے. جو استاد اور طالب علم دونوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شعبہ نظام تعلیم کے لیے بہت بڑا نظام موجود ہے مگر تیزی سے بڑھتی آبادی کے پیش نظر یہ ہماری تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہے. غربت اور مہنگائی بھی شعبہ تعلیم کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے.والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کی بجائے مزدوری کروانے کو ترجیح دیتے ہیں.بنیادی طور پر بچہ والدین سے زیادہ ریاست کی ذمہ داری ہے. والدین چاہیں نہ چاہیں وہ کہیں نہ کہیں ریاست کو ہر حال میں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے. جہاں تک میرا خیال ہے پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں تعلیم جیسا شعبہ بھی سیاست کی نذر ہوجاتا ہے. تعلیم سے متعلق پالیسیاں تو بنتی ہیں. اس پر عمل درآمد ہونا تو دور کی بات پہلی پالیسی کی جگہ دوسری پالیسی بن جاتی ہے. حکومت کو چاہیے کے تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دے اور تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے. ملک میں یکساں نصاب ونظام تعلیم کو درست راہ پر گامزن کرے. اس سے نہ صرف معاشرے سے امیر اور غریب کا فرق ختم ہو گا بلکہ معیار تعلیم میں بھی بڑھوتری آئے گی. اس کے ساتھ ساتھ امتحانی نظام کو بہتر بنایا جائے کیونکہ خراب امتحانی نظام کی وجہ سے طلبہ تعلیم سے ہی نہیں زندگی سے بھی مایوس ہو جاتے ہیں. استاد کی سلیکشن 10 منٹ کے بجائے مرحلہ وار ہونی چاہیے. اساتذہ پر تدریس کا بوجھ جتنا زیادہ ہے تدریسی تربیت کی اتنی ہی کمی ہے. یہ کچھ ایسے مسائل ہیں جنہیں ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے. یہ مسائل سنگین ضرور ہیں مگر ایسا نہیں کے انہیں حل نہیں کیا جا سکتا. ہاں تبدیلی کا سفر آہستہ اور کٹھن ضرور ہوتا ہے مگر منزل تک جانے کا راستہ مل جاتا ہے بس محنت کی ضرورت ہے. کیونکہ تاریخ ہمیشہ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ قوموں کی ترقی میں تعلیم نے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے اور جس بھی قوم نے اسے ہتھیار بنایا، دنیا اس کے سامنے سرنگوں ہوتی گئی.
(عائشہ چودھری پنجاب یونیورسٹی سے کامرس میں پوسٹ گریجویٹ ہیں. ٹوئٹر آئی ڈیayexhach1@)
تبصرہ لکھیے