ہوم << عمران خان، ایک خوش نصیب سیاست دان - پروفیسر رشید احمد انگوی

عمران خان، ایک خوش نصیب سیاست دان - پروفیسر رشید احمد انگوی

رشید انگوی عمران خان کو مبارک ہو کہ حکمران خاندان کے چھوٹے بڑے بلاشک و شبہ اگر کسی ایک سیاستدان کو اپنے خاندان کے لیے چیلنج اور حقیقی خطرہ سمجھتے ہیں تو وہ عمران خان ہے۔ بالخصوص پانامہ خزانوں کی عالمی بریکنگ نیوز کے بعد جس واحد سیاستدان نے اسے کماحقہ سمجھا اور اسے ایک اہم قومی مسئلہ قرار دیتے ہوئے سرتوڑ جدوجہد کی وہ عمران خان ہے۔ اس حوالے سے اگرچہ اعتزاز احسن نے اچھا مدلل کام کیا اور بھرپور سٹینڈ لیا مگر ان کی پارٹی اس قابل نہیں کہ ایسے کسی مسئلے پر حقیقی سٹینڈ لے سکے اور اس کی وجہ وہ قائدِ ذی اموال بےحساب ہے جسے آج پاکستان میں پائوں رکھنے کی بھی جرأت نہیں۔ راقم مذہبی اصطلاحات میں تو یوں محسوس کرتا ہے کہ فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے عمران خان تن تنہا اس مسئلے پر پوری قوم کا کیس لڑ رہا ہے اور اس حوالے سے نئی سے نئی دھمکیاں سن رہا ہے بلکہ اب تو گوجرانوالہ کی طالبات نے اتنی بڑی تعداد میں ’’ڈنڈا شو‘‘بھی کردیا ہے، پتھر بھی تیار اور ٹانگیں توڑنے والے دستے بھی متعین۔ (بھٹو نے بھی ٹانگیں توڑنے کی بات کی تھی مگر ٹوٹ کوئی چیز گئی)۔ ابھی حمزہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو کہہ دو کہ وہ وزیراعظم نہیں بن سکتا اور پانامہ خزانے کی حصہ دار مریم کا بیان آیا ہے کہ عمران خان ایک بےروزگار اور بےکار و فارغ انسان ہے۔ اس کی پرواہ نہ کریں۔ ان شاہ زادوں ٗشاہ زادیوں کو وزارتِ عظمیٰ دینے نہ دینے کا اختیار کس نے دے دیا اور مریم بی بی کی یہ سیاسی اخلاقیات. اصل بات یہ ہے کہ شریف خاندان کا سیاست سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ ایک ذہین و فطین تاجر اور نیک نام بزرگ میاں محمد شریف (رحمۃ اللہ علیہ ) نے جنرل جیجلانی سے کوئی ڈیل کی( جس کی تفصیلات مؤرخین کو سامنے لانی چاہییں) اور پھر ضیاء الحق کی تھپکیوں میں انہیں سیاسی مسندیں دے دی گئیں اور پھر کاروباری لین دین بشمول چھانگامانگا، بھوربن وغیرہ سے تاجرانہ یا کاروباری سیاست کا دور شروع ہوا جس کے اہم ترین قومی کردار آصف ونواز ہیں ۔ اسی قسم کا ایک شریک لندن میں قیام پذیر ہوا اور بدقسمتی سے گزشتہ تین دہائیوں سے اس تگڑم نے قومی سیاست کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ ایسے میں ایک روشن خیال، تعلیم یافتہ، سوشل و سپورٹس ہیرو غیرتمند سیاستدان سیاست کے میدان میں وارد ہوتا ہے تو نوجوان نسل اس کا استقبال کرکے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر دیتی ہے۔
عمران خان ایک جدید طرز کا صاف ستھرا اور کھر اسیاستدان بن کر سامنے آیا ہے، اس کے ساتھ اسد عمر اور ڈاکٹر علوی جیسے بہترین لوگ ہیں۔ ترین اورعلیم خان بھی آگئے۔ چوہدری سرور بھی شامل ہوگئے تاہم مجاور اس گلدستے میں فٹ نظر نہیں آتے۔ خان صاحب کا سیاسی کزن کا تاثر بھی کوئی زیادہ بہتر ثابت نہیں ہوا۔ شیخ رشید البتہ ایک جینوئن لیڈر اور سیاسی تسلسل کا استعارہ ہیں۔ جو چیز عمران خان کو امتیاز دیتی ہے وہ اس کا قومی قیادت کے لیے امانت و دیانت کا معیار ہے۔ بھٹو کے بعد ملک کو کوئی سیاستدان نہ مل سکا (بےنظیر بھی باپ کے نام پر ہمدردی کا ووٹ لے کر آئی) مگر معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو کے بعدعمران خان کی صورت میں ایک حقیقی لیڈر ملک کو نصیب ہو رہا ہے اور اس کا بین ثبوت پانامہ خزانوں پر اس کا مسلسل درد بھرا واویلا ہے کہ اے میری قوم کے لوگو، اپنے لٹیرے لیڈروں کو جانے نہ دو۔ عمراں خان نے پانامہ خزانے پر قبضہ نہیں کرنا مگر ایک بہت بڑا مکر و فریب کا جال ضرورتوڑنا ہے۔ اس سلسلے میں اس کا اضطراب قابلِ قدر و قابلِ رشک ہے۔ کیا فضول سیاست چلائی جا رہی ہے کہ اپنی اولادیں ملک سے باہر رکھو اور ان کو لامتناہی خزانوں کا مالک بنا دو۔ ملک کے ووٹروں کو کبھی موٹروے، کبھی میٹرو اور کبھی اورنج ٹرین کے جادو کا شکارکرتے رہو ۔ یہ شعبدہ بازی، مسمرزم اور ہپناٹزم کا نفسیاتی کھیل ہے۔ آپ نفسیاتی چالاکیاں تو دیکھیے کہ مسئلہ پانامہ آیا اور کہاگیا کہ حکمران بتائیں کہ ان کی اولادوں کے پاس کتنے خزانے ہیں اور کب اور کیسے یہ دولت کے پہاڑ وجود میں آئے۔ تو جواب ملتا ہے کہ تم امیر مقام کے جلسے دیکھو، بنوں، سکھر، چترال وغیرہ میں بڑے بڑے جلسے دیکھو، اسمبلی کی کمیٹیوں کے ’’ٹی او آر‘‘ کھیل تماشے دیکھو۔ حالانکہ کل چھ افراد (حسن، حسین، مریم، صفدر، محترمہ کلثوم اور محمد نوازشریف) ایڈیٹروں کے سامنے بیٹھ جاتے کہ جو چاہو پوچھو۔ بات واضح ہوجاتی مگر قطعاً غیر متعلق اور ارریلیونٹ قسم کی بھاگ دوڑ میں مہینے گنوا دیے۔
یہ ہے وہ پس منظر جہاں عمران خان ایک عظیم مصلح اور دلیر و جرأت مند لیڈر کے طور پر خم ٹھونک کر میدان میں کھڑا ہے اور کوئی طنز یا پھبتی اس کے پائے استقامت میں لرزہ پیدا نہیں کرسکتی۔ راقم نصف صدی سے قومی سیاست کے اتار چڑھاؤ کا گہرا مشاہدہ کرنے والے فرد کے طور پر اپنی قوم کی سیاسی نفسیات سے آگاہ ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ بزبان حال شریف خاندان کے چھوٹے بڑوں نے دیوار پر لکھ دیا ہے کہ آئندہ وزیراعظم عمران خان ہے۔ جس انداز میں وزیر، مشیر، وکیل اور مخصوص اینکر خان کو ڈی گریڈ کرنے کی فضول حرکت کرتے ہیں تو شاعر خان کو مخاطب کرکے کہتا ہے :’’تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘‘۔
راقم ایک ناچیز قلم کار ہوتے ہوئے عمران خان کی سچی اورکھری سیاست خصوصاً پانامہ مسئلے پر جرأت و استقامت پر دادِ تحسین پیش کرتے ہوئے خان کی کامیابیوں کے لیے دعا گو ہے، نیز ملک کے احوال کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنے احساسات کو بعض شاعرانہ مصرعوں میں بھی پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے۔
تاریخ دا سوال اے
امریکیاں نے
نکسن نوں کیوں کڈھیا سی؟
کی واٹر گیٹ دا جرم
پانامہ خزانیاں نالوں ودھ سی
وزیراں نے ڈنڈا لشکر
ایس لئی تیار کیتے نے بئی
عمران خان پانامے دا ناں کیوں لیندا اے
سجنو تے بیلیو !
گل کنی عجیب تے غریب اے
ن پارٹی نوں لگدا اے
زہر ناں پانامے دا
اج پانامہ چھیڑ بن گئی شریفاں دی
یوں لگتا ہے کہ سرکاری پارٹی کے جیالے وزیروں، مشیروں کی نگرانی میں ’’تحریک تحفظِ پانامہ ‘‘برپا کردی گئی ہے اورڈنڈا فورس، پتھر فورس، ٹانگیں توڑ فورس وغیرہ افواجِ شریفہ شاہ زادگانِ شریف کے خزانوں پر مرمٹنے کے لیے تیار ہیں اور بڑے بڑے صاحبان بزعمِ خود اردوان بنے پھرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں تاریخ اکیسویں صدی کے پانامہ فیم حکمران کا کیا انجام کرتی ہے اور زندہ دلانِ لاہور کب آنکھیں کھولتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment