ہوم << پاکستانیوں کا مقابلہ کسی اور قوم سے کیوں نہیں ہو سکتا - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

پاکستانیوں کا مقابلہ کسی اور قوم سے کیوں نہیں ہو سکتا - ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش پاکستان، بلکہ پاکستانی قوم کا باقی دنیا سے تقابل کسی لحاظ سے بھی مناسب بات نہیں.
باقی دنیا جلد بازی میں یقین رکھتی ہے جبکہ ہم پاکستانی لوگ پراسیس اور قاعدہ کے پیروکار ہیں. یہی سلیقہ مندی بھی ہے.
مثلاً دوسری اقوام کو اگر کوئی چیلینج درپیش ہو تو اتاولے ہو کر جھٹ اس سے نمٹنے میں لگ جاتے ہیں. ہمارے ہاں ایسا نہیں. باقاعدہ ایک پروٹوکول ہے جس کی پابندی کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے، قطع نظر اس سے کہ درپیش چیلینج کتنا سنجیدہ، بڑا یا ہنگامی نوعیت کا ہے. آپ خال ہی اس معمول سے اعراض دیکھیں گے.
جب بھی کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے جسے خطرناک کہا جا سکے تو مندرجہ ذیل مراحل ایک خودکار نظام کے تحت لانچ ہو جاتے ہیں:
1. پاکستان بنانے کی ضرورت پر سوالات اور بانیان پاکستان کی نیت، تدبر اور طریقہ کار پر شدید تحفظات.
2. پاکستان نہ بنانے اور متحدہ ہندوستان کے فضائل پر سیر حاصل مناظرہ. اس میں ثقاہت کا تڑکا لگانے کے لیے عزت مآب مولانا ابوالکلام آزاد، گاندھی جی وغیرہ کی کوئی کڑکڑاتی پیش گوئی جس کو سہارا دینے کے لیے سانحہ مشرقی پاکستان ہمیشہ موجود رہتا ہے.
3. حسب ذائقہ و دل چسپی، فوج یا حکومت کے خوب خوب لتے لینا اور ہر برائی کی جڑ ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو قرار دے کر کسی بھی بہتری کی تمام تر ذمہ داری اللہ تعالٰی کو سونپ دینا. یا پھر اس مرد دانا کی تمنا کرنا جس کا نہ تو کوئی وجود ہے اور نہ ہی اس کے نمودار ہونے کا امکان.
4. جہاں بین لوگ امریکہ و دیگر کی سازشوں کو بھی بیچ میں لے آتے ہیں اور انہیں سازش کی سطح سے اٹھا کر نوشتہ دیوار، بلکہ تقدیر کا اٹل فیصلہ قرار دے ڈالتے ہیں تاکہ اپنی کسل مندی و آلکس کو ایک دانشمندانہ ماسک پہنایا جا سکے.
5. بعض مہربان جو عالم رویاء میں افلاطون و سقراط وغیرہ کی کوچنگ فرماتے رہے، یہ فیصلہ سنانے لگتے ہیں کہ یہ سب اس کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے سن فلاں میں جو کہا اسے سنا نہیں گیا.
6. جو اور کچھ نہیں کر سکتے، وہ باقی سب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے سینہ کوبی کی خدمات پیش کر دیتے ہیں.
یوں پوری قوم فعال ہو جاتی ہے لیکن ایک نیا مسئلہ یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اصل چیلنج وہیں کا وہیں ہوتا ہے جبکہ گمشدہ چونچوں اور دموں کا ڈھیر الگ سے لگ جاتا ہے.
بھائی سب کچھ ہو چکا، اب کچھ اس درپیش مسئلہ کا بھی کر لیا جائے؟
اس پر ہمارے مندرجہ بالا پراسیس کا آخری اور فیصلہ کن مرحلہ آ جاتا ہے.
”اگر سب کچھ ہم ہی نے کرنا ہے تو یہ ملک /حکومت / فوج / وغیرہ کس مرض کی دوا ہیں؟“
گویا، آپ خود کسی قابل نہیں، جس ملک، حکومت اور فوج کی ایسی تیسی پھیر کر رکھ دی، کرنا کرانا بھی سب انہوں نے ہی ہے تو پھر آپ کیا کر رہے ہیں؟ صرف باتیں؟ میلے میں آئے ہوئے ہیں؟
باتوں سے کس کی بات بنی ہے آج تک؟
سب ہی ملکوں اور اقوام کو ہمہ وقت مسائل کا سامنا ہوتا ہے. امریکہ جیسی سپر پاور میں بھی شدید نسلی، سماجی اور معاشی تضادات ہیں لیکن وہ مصیبت یا چیلینج کے ہنگام ہماری طرح صف ماتم بچھا کر نہیں بیٹھ جاتے، کام کرتے ہیں، عمل سے راستہ تلاش کرتے ہیں. جدوجہد کرتے ہیں، جہد مسلسل.
اس لیے پاکستانیوں کا مقابلہ دنیا کی کسی اور قوم سے نہیں ہو سکتا. ہم سے کمنٹری کروالے کوئی، میچ کھیلنے کا نہ کہے، اور جیتنے کا تو بالکل نہیں.
باقی یہ کہ، رہے نام اللہ کا!

Comments

Click here to post a comment