ہوم << پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

پاکستان میں انتشار، قصوروار کون؟ ملک جہانگیر اقبال

ملک جہانگیر اقبال بچپن میں جب مٹی میں کھیل کود کے بعد خیال آتا تھا کہ ابو جی نے دیکھ لیا تو ”چمپا پریڈ“ ہوجانی ہے تو فوری طور پر اٹھ کھڑے ہوتے، ہاتھ جھاڑتے اور سائیڈ پر کھڑے ہو کر مٹی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر افسوس سے سوچتے ”افففف کتنے گندے بچے ہیں“. اپنے تئیں تو ہم معزز بن جایا کرتے تھے اور اگر اس دوران ابو جی دور سے آتے دکھائی دیتے تو ان ”گندے بچوں“ کو بظاہر مٹی میں کھیلنے سے منع بھی کرنے لگ جاتے تھے کہ چلو اسی بہانے ابو جی دیکھیں گے کہ ان کا بیٹا کتنا اچھا ہے، خود مٹی میں کھیلتا ہے نہ دوسرے بچوں کو کھیلنے دیتا ہے. مگر ابو جی جب آتے تو گھوم پھر کر شامت ہماری ہی آجاتی تھی کہ ہم نے بھی صرف ہاتھ ہی جھاڑے ہوتے تھے جبکہ کپڑوں پر لگی مٹی ہمارے ”مجرم“ ہونے کی گواہی دے رہی ہوتی تھی.
کہنے کو تو یہ میرے بچپن کی بات ہے مگر یقیناً بہت سے دوستوں کے بچپن میں ایسے واقعات گزرے ہوں گے جب وہ خود کسی جرم میں شریک ہوں، ابو یا کسی اور بڑے کو آتا دیکھ کر سائیڈ پر کھڑے ہو کر شرارت کرنے والوں کو کوسنے کی اداکاری کر رہے ہوں، اور پھر بھی پکڑے جائیں.
یہ صرف ”میرے“ بچپن ہی کی شرارت نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی قوم کے بچپن کی بھی شرارت ہے. اقوام صدیوں بعد کہیں جا کر راہ کا تعین کرتی ہیں، خود میں شامل مختلف گروہوں کو سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کو تو بنے ہوئے ہی ابھی بمشکل صرف ستر سال ہوئے ہیں، اور یہ جن گروہوں پر مشتمل ہے ان کی زبان، ثقافت، رنگ، نسل، زمین اور پانی تک سب جدا جدا ہیں، اگر ان میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ ”اسلام“ ہے جس نے اسے جوڑ کر رکھا ہوا ہے. اگر ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو پاکستان میں سے نکال دیا جائے تو آپ اس قوم کا شیرازہ بکھرتا ہوا دیکھیں گے. فرض کریں کہ ہمارے درمیان ”اسلام“ کا رشتہ نہ ہو تو پنجابی اور پٹھان کیوں کر ایک دوسرے کی بات سمجھیں گے؟ بلوچوں کو سندھیوں سے کیا لینا دینا؟ اور باقی پاکستان والے ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کو اپنی زمین پر کیوں رہنے دیں؟ پاکستانی کوئی زمینی خطہ نہیں ہے بلکہ یہ مختلف اقوام کی باہمی رضامندی یا مکسچر سے طلوع ہونے والا مجموعہ اور ”ملک“ ہے. جہاں ہر قوم ہر ریاست ہر صوبے نے صرف اور صرف اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ”ہم مسلمان ہیں“، اس لیے ہمارا الگ سے ملک ہونا چاہیے جہاں ہم اکٹھے رہیں گے. وگرنہ پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان اور باقی اقوام اپنے اپنے علاقوں میں رہ ہی رہے تھے، پاکستان بنتا نہ بنتا، وہ اپنے علاقوں میں ہی رہتے. کیا ضرورت تھی کسی کو یوپی، بہار، دہلی، لکھنؤ، امرتسر وغیرہ میں اپنی آبائی زمین اور گھر چھوڑنے کی؟ کیا کوئی پکنک منانے جارہے تھے یہ لوگ؟
جواب نہیں ملے گا.
قیام پاکستان کے بعد روسی انقلاب سے متاثرہ دانشور اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی سیکولرز پاکستان کی جڑوں میں آ کر بیٹھ گئے. اسلامی جمہوریہ پاکستان نام تو رکھ دیا گیا مگر ”اسلام“ کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے پاکستان تین طبقات میں بٹ گیا، ایک بیوروکریسی جو سیکولرز پر مشتمل تھی، دوم دانشوری جو کمیونسٹ عناصر کے نرغے میں تھی جبکہ تیسری کروڑوں کی تعداد میں موجود عوام جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف ”اسلام“ تھا، اس کی آواز مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز سے بھی باریک تھی. اس دور میں ”ادیب“ کہلوانے کے لیے آپ کو تقسیم پر نوحہ لکھنا اور انقلاب انقلاب کے منجن میں سرخ انقلاب سوویت سے امپورٹ کرنے کی خواہش کا دبے لفظوں میں پرچار کرنا ضروری تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ جب سیکولر طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایوب خان کے بعد یحییٰ خان نے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت لبرلزم کا جعلی منجن بیس پچیس سال پرانا ہو چکا تھا لہٰذا مشرقی پاکستان اپنی زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہوگیا، دونوں حصوں کو جوڑ کر رکھنے والا صرف ایک اسلام کا ہی رشتہ تھا جسے پاکستان بننے کے بعد ہی فراموش
کردیا گیا. جب اسلام ہی نہ رہا تو پیچھے جھوٹے وعدے، تسلیاں، برابر کی تقسیم کے وہ نعرے رہ گئے جو اپنی کشش صرف اور صرف نعروں میں ہی رکھتے تھے. اگر لوگوں کو ساتھ جوڑے رکھنا ہے تو کوئی ایک مشترکہ نقطہ ضرور ہونا چاہیے جس پر قوم کے مختلف گروہوں کو جوڑے رکھا جا سکے.
پاکستان دو لخت ہوگیا تو یہ سیکولر لبرل لابی ہاتھ جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہوگئی، کہ دیکھو جی پاکستان تو کبھی ترقی کر ہی نہیں سکتا کہ ان میں تو آپس میں ہی اتحاد نہیں، بندہ ان سے پوچھے کہ یہ جو پاکستان سے اسلام کو نکالنے کے داغ تمہارے کپڑوں پر لگے ہیں، پہلے اس کا تو جواب دو. جو پاکستان کی بنیاد تھی، تم نے اسے ہی کمزور کردیا، تمھیں کیا لگتا ہے کہ محض سیاسی نعروں کی بنیاد پر دو ایک دوسرے سے یکسر مختلف گروہوں کو ساتھ رکھا جاسکتا ہے؟
اس کے بعد دور آیا سیاسی رسہ کشیوں کا یعنی ذولفقار علی بھٹو صاحب کا، یہاں شروع میں ملک کو استحکام دینے کے لیے اسلام کا سہارا لیا گیا، اسلامی تنظیموں کے مطالبات پہلی بار سنے گئے، اور بظاہر ایک نئی شروعات کی گئی لیکن یہاں اسلام کو جس طرح سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اسلام کو پاکستان کی اساس کے بجائے حکومت کی بقاء کے لیے استعمال کرنے کا دور ضیاء الحق تک چلا. ضیاء الحق کٹر اسلام پسند حکمران تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی مخالفت سیکولر حضرات نے کم اور کمیونسٹ حضرات نے زیادہ کی، حالانکہ آمرانہ نظام کمیونزم یا سوشلزم سے بہت زیادہ قربت رکھتا ہے. کمیونسٹوں کی ضیاء الحق کی مخالفت کی وجہ ”پاکستان“ نہیں بلکہ وہ ”سرخ انقلاب“ تھا جو افغانستان تک پہنچ چکا تھا اور جلد یا بدیر اس کے پاکستان میں آنے کے سہانے سپنے دیکھے جانے لگے تھے. ضیاء الحق کی سوویت یونین کے خلاف تاریخی جنگ سے ان کے سپنے ٹوٹ گئے. ضیاء الحق کو جہاں ایک جانب افغانستان میں موجود مختلف اقوام کی نسل کشی اور بھٹو دور میں پاکستان میں پناہ حاصل کرنے والے افغان لیڈرز کی فکر تھی تو دوسری جانب اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کا مخالف طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے، اس اندازہ تھا کہ اگر سوویت یونین پاکستانی سرحد تک آگیا تو ان ”اپنوں“ کا اس کے بعد کا کردار کتنا بھیانک ہوگا؟ لہٰذا امریکہ، پاکستان، اور پشتون قبائل ان تینوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے روس سے جنگ کی. یہاں کوئی کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوا بلکہ اپنا مقصد تینوں نے ہی حاصل کیا .
اس جنگ کے بعد کمیونسٹ حضرات کی کمر تو ٹوٹ گئی اور سیکولر لابی کی طرح وہ بھی اپنے کپڑے جھاڑ کر سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، اور نوے کی دہائی میں سیاست میں ہونے والی رسہ کشی اور عدم استحکام دیکھ کر پاکستانی قوم پر تف کرنے لگے جبکہ اس دوران وہ اپنے کپڑوں پر لگنے والے ان داغوں کو نظر انداز کرتے رہے جو انھوں نے پاکستان سے زیادہ سوویت یونین سے وفاداری نبھا کر اپنے کپڑوں پر ملے تھے.
پھر دور آیا مشرف صاحب کا یعنی لبرلزم کا، جس طرح پچھلی بار لبرلزم ہمارا مشرقی پاکستان کھا گیا تھا، ٹھیک اسی طرح اس لبرلزم نے سندھ، بلوچستان اور قبائلی پٹی پر شورش پیدا کی، سب سے پہلے پاکستان بہت خوب نعرہ ہے مگر بنا اسلام کے پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں تو نعرہ کس کام کا ؟ لیکن اس دوران مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کا بھی بھیانک روپ سامنے آیا جس میں مذہب کو بطور بلیک میلنگ اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا یعنی عملی طور پر اسلام کا دور دور تک کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا. سول سوسائٹی کے طور پر یا تو اسلام کو پاکستان میں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے والے لوگ تھے یا پھر اسلام پسندوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے.
نتیجہ کیا نکلا؟ ہر صوبے میں شورش، دنیا میں بدنامی، صوبائیت کا فروغ، قوم پرستی کا عروج.
اس دور سے لے کر اب تک پاکستانی قوم نہیں بن سکے، سیاست سے لے کر ایک عام فرد کی سوچ تک میں صوبائیت کی بو رچ بس گئی. جب اسلام سے زیادہ شخصیات طاقتور ہوئیں تو کالے کوے بھی سفید ہونے لگے، یہاں کے مذہبی حضرات سیاست کرنے لگے ہیں جبکہ سائنسدان حضرت مذہبی بحث و مباحثہ، غرض اپنے پروفیشن سے زیادہ اپنے عقائد کی ترویج پہلا مقصد بنا چھوڑا ہے. مذہبی انتہا پسندی نے اگر پاکستان کے اندر بدنام کیا تو لبرل حضرات نے پاکستان سے باہر جا کر پاکستان کو بدنام کیا. ایک طویل فہرست ہے کہ کون کس طرح کے فراڈ میں ملوث ہے.
اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان ایسے ہی بنا دیا گیا؟ کوئی اصول اور ضابطہ نہیں طے کیا گیا؟
پاکستان بہت سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا. قائد اعظم کی 22 مارچ 1940ء کی تقریر ہو یا علامہ اقبال کا جمہوریت کا وہ نظریہ جو مغربی جمہوریت سے ہزار گنا بہتر تھا، یا پھر وہ قرارداد مقاصد ہو جس نے پاکستان کی بنیاد رکھ چھوڑی تھی. اگر اس پر کاربند رہتے تو لبرلزم میں جعلی پن ہوتا نہ مذہب میں انتہا پسندی. پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد لیاقت علی خان کی قرارداد مقاصد پیش کرنے کے دوران تقریر کا اگر متن ہی پڑھ لیا جائے تو سب باتیں واضح ہوجاتی ہیں کہ پاکستان کو کن اصولوں پر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا. لیاقت علی خان نے کہا تھا:
”جناب والا! آپ کو یاد ہوگا کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے رہنمائوں نے ہمیشہ یہ واضح اور غیر مبہم اعلانات کیے کہ پاکستان کا اس لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق موجود ہے جو ہندوؤں سے الگ ہے۔ انہوں نے باربار اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہو جسے مملکت کے کاروبار میں کسی قسم کا دخل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عمرانی اخلاق کے متعلق مخصوص ہدایات ہیں اور اسلام روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے متعلق معاشرہ کے طرزِ عمل کی راہنمائی کرتا ہے۔ اسلام صرف ذاتی عقائد اور اخلاق کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے پیروؤں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جس کا مقصد حیات صالح ہو۔ یونانیوں کے برخلاف اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی اساس لازماً روحانی اقدار پر قائم ہے۔ ان اقدار کو اہمیت دینے اور انہیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقہ پر ہمنوائی کریں کہ ایک ایسا نیا عمرانی نظام قائم ہوجائے جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو، جن میں جمہوریت، حریت، رواداری اور عمرانی عدل شامل ہیں۔ ان کا ذکر تو میں نے تمثیلاً کیا ہے کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن اور سنت نبویﷺ پر مشتمل ہیں، محض اس پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اللہ اور اسوہ رسول ﷺ ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمہ ہیں۔ ان کے متعلق مسلمانوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی فرقہ نہیں ہے جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔“
جناب والا! یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ کارناموں سے پھر پور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے قومی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارباب نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں جو زمانہ کی دستبرد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون میں شعر و شاعری، فنِ تعمیر اور جمالیاتی ذوق کے لیے اسے خراج تحسین ادا کیا گیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہ قوم راہ عمل پر گامزن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آجائیں تو وہ اپنی شاندار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات کو پھاند کر ان سے بہتر کام کر دکھائے گی۔ یہ قرارداد مقاصد اس ماحول کے پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے جس میں قوم کی روح پھر بیدار ہو جائے گی۔ ہم لوگوں کو قدرت نے قوم کی اس نشاۃ ثانیہ کے زبردست ہنگامہ میں حصہ لینے کے لیے خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم ہو، منتخب کیا ہے اور ہم ان زبردست گوناگوں مواقع سے جو ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور دور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں اور مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس اللہ کے فضل وکرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائد ہوا ہے، ہماری یہ کوشش ہماری برے سے بڑی توقعات سے برھ کر بار آور ہوگی۔ قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باب ہر روز نہیں کھلتا اور ہر روز قدرت مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انہیں شاندار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر تحریر ہو۔ (لیاقت علی خان 12مارچ 1949)
دوستو! پاکستان برا نہیں ہے. ہمارے اپنے ہی کپڑوں پر داغ ہیں. قصور پاکستان کا نہیں ہے، ہم خود ہی مٹی سے کھیلتے آئے ہیں. پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو اس کی اصل اساس کو سامنے رکھ کر ہی آگے بڑھنا ہے. ورنہ ملک جہانگیر اقبال پنجابی کسی ولی افضل خان پٹھان کے دکھ درد میں شریک کیوں ہوگا؟ میر باز بلوچ کو اللہ بخش سندھی سے کیسی ہمدردی؟ اور وقاص دہلوی مہاجر کے لیے کوئی وحید عباسی ہزارے وال کیوں اپنا نوالہ چھوڑے؟ سوچیے گا ضرور، کیوں کہ سوچنے پر فی الحال کوئی حکومتی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا.
پاکستان زندہ باد