ہوم << پردے، کرم، دھرم، بھرم - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

پردے، کرم، دھرم، بھرم - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

چھوٹی ہے، ماں نے آدھی روٹی دے کر پورا پراٹھا بھائی کو دے دیا ہے. بہن کے احتجاج پر جواب میں جھڑکی کے ساتھ سننے کو ملا کہ تو پرایا دھن ہے، میرے بیٹوں نے تو جوان ہو کر میرا سہارا بننا ہے. تجھے اتنی ہی روٹی کافی ہے، اپنے گھر جا کر اپنی مرضی سے کھانا پینا. اور خبردار جو منہ سے پھوٹی تو. بہن کے معصوم دل میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر روٹی کھانے کی خواہش نے جگہ بنا لی. اور ماں کی بےانصافی پر پردہ ڈلا رہا.
عیدی ملی تو بھیا سے آدھی،
عید کے کپڑے اگر بنے تو سستے بنے یا پھر گول کر دیے گئے کہ پرایا دھن ہے.
باپ نے شفقت سے جہیز دیا تو بھائی نے چپکے سے کان میں پھونک دیا، بس یہی تیرا حصہ ہے جائیداد میں سے. اب تو فارغ ہے، مزید کی امید نہ رکھنا. بہن کے خاموش آنسوؤں نے بھائی کی محبت کا پردہ رکھ لیا.
رخصتی سے پہلے ماں کی ہلکی ہلکی سرگوشی میں کہی بات بھی اس بیٹی نے سات پردوں میں چھپائے رکھی. بڑا بھائی کماتا ہے، تم بہنیں اپنے گھر کی ہو رہی ہو، اپنے حصے سے چھوٹے بھائی کے نام پر دستبردار ہو جائو. پردہ رکھو خاموش رہو.
سسرال میں آئی تو دیور کو جہیز میں سے ریڈیو پسند آ گیا. ساس نے کہا لے جا اپنے کمرے میں، بھابی نے کوئی تجھے منع تھوڑی کرنا ہے. صبر کے گھونٹ اور پردے والی مسکراہٹ نے بھابی کی عزت کو ریڈیو کی قربانی سے مشروط کر دیا. میاں کے ساتھ رومانٹک گیت سننے کے خواب دھرے رہ گئے.
نند کو بھابی کے سوٹ اچھے لگے تو پہننے کے لیے لے کر واپس کرنا بھول گئی. کس سے کہنا ہے بھابی کو. کس کی الماری میں اپنا لباس تلاش کرے..
چپ رہ چپ رہ، پردہ پردہ، یہاں چپ ہی تیرا ہتھیار ہے، جگہ بنا ابھی.
کرم، دھرم، بھرم. بہو کی ذمہ داری ہے. بیٹے کو استثنی حاصل ہے.
ساس سسر کی خدمت، بہن بھائی سے پیار کرنے کو اپنی محبت پانے کا ذریعہ بتانے والا مرد اپنے طے کردہ اصول پر چلنے والی عورت کو کچھ ہی عرصے بعد خادمہ تو سمجھتا ہے، محبوب بیوی نہیں. سو بےاعتنائی کا شکار عورت خاموشی سے اپنی خدمت میں اضافہ کرتی رہتی ہے کہ شاید کوئی کوتاہی ہوگئی جس کی وجہ سے شوہر اب مجھے نہیں دیکھتا. اپنے شوہر کی شکایت کس سے کرے. سو اسے بھی آنسوؤں اور سسکیوں اور خدمتوں کے پردے اوڑھا دیتی ہے.
شوہر باہر وقت گزارنے کا جو بہانہ بتاتا ہے اس پر یہ وفا کی پتلی آمنا و صدقنا کرتی ہے. کہہ کر بھی جوتیاں پڑنی ہیں اور نہ کہہ کر بھی سوکناپے کی کند تلوار سے ذبح ہونا ہے. سو ایک چپ کی چادر اوڑھ لیتی ہے جس کی اوٹ میں یہ عورت خود اپنے آپ سے بھی پردہ کرنے لگتی ہے.
دل میں حساب جوڑتی رہتی ہے. کوئی بات نہیں اب چند سال کی تو بات ہے. میرے بیٹے جوان ہو جائیں گے. کچھ سال صبر کر لوں پھر تو میری حکومت ہی ہونی ہے. بس چپ کر کے یہ سال گزار لوں.
اتنے میں اوپر تلے والدین رخصت ہو گئے. اداسی اور تنہائی کا نیا دور شروع ہوا. لیکن زیادہ دیر سوگ نہیں منا پائی کیونکہ سسرال میں دھیمے دھیمے جائیداد، وراثت اور حصے کے الفاظ کان میں پڑنے لگے. دکھ سے لبریز غم کو ٹوکا. حوصلہ کر کے بھائیوں سے پوچھا. بھائی وراثت میں حصہ تو مانتے ہیں دے نہیں رہے.
سسرال میں عموما اور شوہر کی طرف سے پہلے ڈھکے چھپے اور پھر واشگاف الفاظ میں جائیداد کے حصے کا مطالبہ آنے لگتا ہے. اب صبر اور شکر کے ساتھ ساتھ خوف و ڈر بھی زبان پر چپ کے تالے ڈال دیتا ہے. چپ کا پردہ دبیز ہو جاتا ہے. جیسے اگر پہلےگونگی بن کر چپ تھی تو اب بہری بن کر چپ ہے.
شوہر سے بھائیوں کا اور بھائیوں سے شوہر کا بھرم بچاتے عورت ہلکان ہی تو ہو جاتی ہے. حصہ لے تو بھائی چھوٹتے ہیں نہ لے تو میاں فارغ کرتا ہے. پردہ رکھو بس پردہ رکھو.
بھائی حصہ دیں گے تو گھر بنائوں گی. اپنے گھر کی خواہش پوری ہوتی نظر آتی ہے. بھائیوں سے ہمت کے ساتھ بات کرتی ہے تو بھائی اپنے نئے گھر کے پورچ میں کھڑے کھڑے اپنی نئی کار کی چابی ہلاتے کاروبار میں نقصان کی خبر سنا دیتا ہے.
بہن مان لیتی ہے. نہ مانےگی تو کیا کر لے گی. بول کر میکا تو نہیں گنوانا نا.
شوہر کو بھی جھوٹی سچی بتاتی رہےگی تاکہ گرہستی بچی رہے. بھائیوں سے بھی تعلقات درست رکھےگی تاکہ میکہ سلامت رہے.
عورت کے پردے صرف کپڑے کے نہیں ہوتے. اس کے پردے دل میں دفنائے زخم اور امیدوں کے ہوتے ہیں. اپنی گونگی بہری جامد چپ سے عورت بڑی سے بڑی دلیل کو بےوقعت کر دیتی ہے.
کاش عورت اپنی اہمیت کو سمجھ لے اور کاش مرد اس کی چپ کو سننے کے قابل ہو جائے.
یہ منفی نہیں محض عورت کی قربانی کا بیان ہے. عورت اپنی خدمت سےگھر بناتی ہے اور اپنی چپ سے بساتی ہے.

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment