ہوم << جب جنرل رضوان اختر نے معذرت کی - احسان کوہاٹی

جب جنرل رضوان اختر نے معذرت کی - احسان کوہاٹی

موٹروے پولیس کے ساتھ دو نوجوان آرمی افسروں کی گرما گرمی تو عرصہ ہوا ختم ہو چکی لیکن اس موضوع پرسوشل میڈیا کی گرمی پاکستان بھارت کی گرما گرمی بھی نہیں دبا سکی۔ موٹر وے پولیس اہلکاروں کی پھٹی ہوئی یونی فارم والی تصویریں ابھی بھی گردش کر رہی ہیں اور ان تصویروں کے نیچے طنزیہ تبصرے، افسوس بھری چچ چچ، موٹر وے پولیس سے اظہار یکجہتی اورکہیں کہیں آرمی کے حق میں جملے ابھی بھی لکھے جا رہے ہیں۔ یہ معاملہ چار افراد کا نہیں بلکہ دو اداروں کا بنا دیا گیا ہے، اور کپتانوں کا رویہ ’’کاکولین ‘‘ کی تربیت بتایا جا رہا ہے، اور خوش اخلاقی، قانون پسندی اور فرض شناسی موٹر وے پولیس کے کھاتے میں جا رہی ہے۔
پہلی بات درست ہے نہ دوسری بات مکمل طور پر ٹھیک، آرمی افسران سویلین سے فاصلے پر چھاؤنیوں میں ضرور رہتے ہیں لیکن یہ چھاؤنیاں مریخ پر نہیں ہوتیں، نہ ہم انہیں کسی اور جہاں سے آرمی کے لیے درآمد کرتے ہیں۔ یہ ہماری ہی گلیوں، محلوں میں کھیل کود کر بڑھے ہوتے ہیں، انہوں نے بھی گلی مں کرکٹ کھیل کر میرے اور آپ کے گھر کی کھڑکی کے شیشے توڑے ہوتے ہیں، یہ بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں ڈور بیل دبا کر چیونگم لگا کر بھاگ جاتے ہیں، یہ بھی کالج کے باہر سگریٹ کے سٹے مار کر سونف سپاری چبا چبا کر گھر آتے ہیں، یہ اسی معاشرے کا حصہ اور پروڈکشن ہیں، جیسے ہم ہیں ویسے ہی یہ بھی مختلف مزاج، رویوں اور عادات کے مالک ہوتے ہیں۔ دو افسروں کے طرز عمل کو کسی ادارے کا طرز عمل بنا کر پیش کرنا اور سمجھنا قطعا مناسب نہیں، آپ نے موٹر وے پر دو کپتانوں کے جھگڑے کا قصہ تو سن لیا اب ایک حاضر سروس جرنیل کی معذرت کا واقعہ بھی سن لیجیے۔
یہ غالبا تین سال پہلے کی بات ہے۔ صبح سویرے رینجرز نے میرے محلے کا محاصرہ کیا اور اپنی انٹیلی جنس کی اطلاع پر یہاں موجود مشکوک افراد کو تلاش کرنی لگی،گھر گھر کی تلاشی لی گئی، میرے گھر بھی رینجرز کے جوان آئے، میں نے مکمل تعاون کیا اور وہ چلے گئے. اس کے بعد میں کسی کام سے باہر نکلا توکیا دیکھتا ہوں کہ سارے محلے دار گلی کے ایک نکڑ پر کھڑے ہیں، سامنے سے آنے والے ایک افسر نے مجھے بھی گلی کے نکڑ پر پہنچا دیا، میں نے ان سے اپنا تعارف بھی کرایا اور یہ بھی بتایا کہ میرے گھر کی تلاشی لی جا چکی ہے لیکن انہوں نے میری بات سنی ان سنی کر کے مجھے گلی کے نکڑ پر سب کے ساتھ کھڑا کر دیا جن کی نگرانی پر ایک رینجرز کا جوان بندوق لیے ایسے کھڑا تھا کہ ہم ذرا بھی ہلے تو وہ رائفل کاگھوڑا کھینچ لے گا۔ یہ میرے لیے بڑی ہی عجیب صورتحال تھی، کچھ دن پہلے ہی میں اپنے بچوں کے اسکول میں طلبہ بحیثیت ایک صحافی لیکچر دے کر آیا تھا اور میرے بیٹے جو اسکول میں اتراتے پھر رہے تھے، اب وہ گھر کے دروازے پر کھڑے مجھے قطار میں لگا دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے اور میں سخت شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اتفاق سے اس وقت موبائل فون میرے پاس ہی تھا، میں نے رینجرز کے پی آر او کو فون کیا جو میرا اچھا دوست بھی تھا، اسے ساری صورتحال بتائی اور جان چھڑانے کے لیے کہا، پہلے تو اس نے زوردار قہقہ لگایا، پھر کہا کہ وہاں موجود کسی بھی افسر سے میری بات کرا دو، جس کے بعد میری گلو خلاصی ہوئی لیکن تب تک میں اچھا خاصا ’’مشکوک‘‘ہو چکا تھا۔
دوسرے دن میں نے اس پر کالم لکھا کہ رینجرز اہلکار بنا کسی خاتون سرچر کے گھروں میں داخل ہوئے، سب کو بلاتخصیص قطار میں لگایا اور پھر جو جو مشکوک لگا اس کی قمیض اتار کر آنکھوں پر باندھ کرتفتیش کے لیے لے گئے، یہ طرزعمل لوگوں کو رینجرز کے خلاف بھڑکا رہا ہے، یہ عزت دار لوگوں سے پیش آنے کا طریقہ بھی نہیں جنہیں دن کی روشنی میں آنکھوں پر قمیضیں باندھ کر لے جایا گیا ہے، چار دن بعد چھوڑ بھی دیں گے تو وہ کس کس کو اس عزت افزائی کی وضاحتیں دیتے پھریں گے؟
میں نے اس واقعے کی اطلاع ڈی جی رینجرز کو بھی دی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے پاس وقت ہوگا نہ وہ اس کا نوٹس لیں گے، یہ تو معمول ہے لیکن جو ہوا وہ حیرت انگیز تھا۔ اس وقت کے ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر تھے جو اب لیفٹننٹ جنرل ہو کر آئی ایس آئی کی کمان کر رہے ہیں۔ خلاف توقع ان کی طرف سے مجھے معذرت کا پیغام موصول ہوا، انہوں نے مجھے ایس ایم ایس کیا کہ انہیں اس واقعے پر دلی افسوس ہوا ہے، میں کوشش کروں گا کہ آئندہ ایسا نہ ہو اور پھر انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کی بھی دعوت دی۔ ساتھ ہی لکھا کہ اپنے صاحبزادوں کو بھی لے کر آؤں، میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ ان سے جا کر ملا، وہ بڑی عزت اور تکریم سے پیش آئے، اس دن اپنے ساری ملاقاتیں انھوں نے کینسل کر دیں اور جم کر بیٹھ گئے، تفصیلی ملاقات ہوئی، میں نے ان سے عرض کیا کہ سرچ آپریشن میں اس طرح لوگوں کو گلی کے نکڑوں پر بٹھانے، میدانوں میں جمع کرنے سے لوگوں میں نفرت پھیلتی ہے، آپ نے اگر انہیں کہیں جمع کرنا اور شناخت پریڈ کرانی ہی ہے تو کسی اسکول، کسی مسجد میں بٹھا دیں، ان کی عزت کا تماشہ تو نہ بنے۔ پھر آپ کے جوان گھروں میں جاتے ہیں، تلاشی لیتے ہیں جس گھر سے کچھ نہیں ملتا، وہ یقینا ایک عزت دار شہری ہی ہوا، اس گھر سے نکلتے ہوئے آپ کا افسر وہاں موجود کسی بچے کا پیار سے گال تھپتھپا کر اپنی جیب سے دو ٹافیاں نکا ل کر دے دے تو وہ گھر والے ساری عمر رینجرز کے اس چھاپے کو نہیں بھولیں گے۔ وہ یہ سب نوٹ کرتے رہے، یہ ملاقات لگ بھگ دو گھنٹوں پر محیط رہی جس کے اختتام پر میرے بیٹے کے ہاتھ میں بہت ساری چاکلیٹس اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے تحفہ تھا۔
ایک اور واقعہ سن لیجیے۔ سال بھر پہلے اسلام آباد جانا ہوا، ایک دوست کو اطلاع دی، وہ بھی آرمی میں بریگیڈئیر ہیں اور آج کل ایک حساس ادارے میں ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ وہ مجھے لینے آئے کہ کھانا ساتھ کھائیں گے، میں ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا، وہ خود ہی ڈرائیو کر رہے تھے، انہوں نے سیٹ بیلٹ باندھا اور کن اکھیوں سے مجھے دیکھ کر کچھ کہتے کہتے چپ ہوگئے۔ ہم کراچی والے ان بیلٹون شیلٹوں کے چکروں میں کہاں پڑتے ہیں، وہ کچھ دیر تو چپ رہے پھر مجھ سے کہنے لگے ’’احسان بھائی! سیٹ بیلٹ باندھ لیں، یہاں بہت سختی ہے۔‘‘
میں ایک بریگیڈیر کے منہ سے یہ سن کر بڑا ہی حیران ہوا اور کہے بنا نہ رہ سکا ’’آپ کے لیے بھی سختی ہے؟‘‘
’’بھائی! پچھلے ہی ہفتے میرے ڈرائیور کا پانچ سو روپے کا چالان ہو گیا تھا اور بات یہ کہ قانون تو قانون ہے ناں جی۔‘‘
اب آپ بتائیں کہ وہ دو نوجوان آرمی کے کپتان ہیں تو یہ بھی اسی آرمی کے سینئر افسر، ایک جرنیل اور دوسرا بریگیڈئیر، دونوں کے طرز عمل میں فرق ہے کہ نہیں اور پھر ایک جنرل کی معذرت کو کس رویے میں فٹ کریں گے؟ جنرل رضوان اختر نے تو ایسا کچھ نہیں کیا تھا، ان کے سپاہی جنہیں وہ جانتے بھی نہ تھے، میری شکایت تو ان سے تھی لیکن یہ ان بڑا پن اور ظرف تھا۔ آخری بات موٹروے پولیس اس ملک کا قابل فخر ادارہ ہے، ان کی کارکردگی کو سلام ہے، وہ اپنے فرض کی راہ میں کچھ حائل نہیں ہونے دیتے لیکن گزارش پھر یہی ہے کہ انفرادی رویوں کو اجتماعی رویہ تو نہ بنایا جائے۔