ہوم << ہم لڑکیوں کو کیا چاہیے؟ جویریہ سعید

ہم لڑکیوں کو کیا چاہیے؟ جویریہ سعید

ہمارے یہاں کی ایک مشہور اور مصروف شخصیت نے نصیحت کی کہ کینیڈا میں کسی بین الاقوامی ڈگری یافتہ ڈاکٹرکا پریکٹس لائسنس حاصل کر لینا، چاند پر پہنچ جانے سے کم نہیں لہٰذا کچھ اور سوچو! خلانوردی خصوصا چاند اور مریخ پر چہل قدمی کے متبادل طریقوں کو آزمانے کا شوق رکھنے والے والے اس مظلوم مگر ”محنت کش“ طبقے کے ایک گروپ کو کسی کورس کے دوران ایک ادارے کی خاتوں ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے نصیحت کی کہ اگر کسی انٹرویو میں یہ سوال آ جائے کہ آپ مسلسل ڈیوٹی کے بعد گھر پہنچنے کے لیے بےتاب ہیں کیونکہ آپ کے بیٹے کی سالگرہ ہے، آپ کو اس کے لیے تحفہ بھی لینا ہے، ایسے میں آپ کا انچارج آپ سے کہتا ہے کہ نیکسٹ ان کال ڈاکٹر حاضر نہیں اور کام کا بوجھ زیادہ ہے، لہٰذا آپ آج بھی رک جائیں تو ایسے میں آپ کیا کریں گے؟ اس سوال پر جو لوگ سینہ چوڑا کر کے یہ کہتے ہیں کہ خدمت خلق، محنت اور اپنے پروفیشن سے بڑھ کر میرے لیے کچھ نہیں، لہٰذا میں بخوشی حامی بھر لوں گا اور گھر پر معذرت کا پیغام بھیج دوں گا تو ایسے لوگ قطعی احمق ہوتے ہیں، اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس جواب سے انہوں نے اپنے انٹرویو کرنے والے کو متاثرکر لیا. کوئی بھی ایسا جواب جو انسانی جذبات اور فطرت کے تقاضوں کی قطعی نفی کر دے، خصوصا اپنے خاندان اور محبت کرنے والوں سے تعلق کی اہمیت کو کم تر ظاہر کرے، کوئی اچھا جواب نہیں ہوتا. آپ اپنے کام سے محبت اور اپنے کولیگز کے ساتھ حسن معاملہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی جواب دیں مگر یہ ضرور کہیے کہ آپ کی اپنی ذاتی زندگی اورخاندان کی آپ کے نزدیک بہت اہمیت ہے.
مگر مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایک کالم پڑھا جس میں صاحب مضمون نے پاکستانی معاشرے کے اس ماڈل سے شدید اختلاف کیا جس کے اندر، ان کےمطابق، ہمارے معاشرے کی ایک خوفناک اکثریت خواتین کے معاملے میں بس مناسب پڑھائی، شادی، بچے اور خاندان کی مستطیل میں قید ہے. انہوں نے لڑکیوں کو بتایا کہ لڑکیوں کے لیے پڑھائی نہ صرف شادی سے زیادہ ضروری ہے بلکہ انھیں مناسب پڑھائی، شادی اور اولاد کے سلسلے کے دہراؤ کے اس ماڈل سے بھی باہر نکلنا چاہیے. دراصل یہ کسی ایک شخص کی فکر نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے غیر ضروری سماجی پابندیوں، منفی رویوں اور اخلاقی و تہذیبی طور پر زوال پذیر معاشرے کی گھٹن کی بنا پر، عورت کے لیے اپنے جائز مقام اور خوابوں کی تعبیر کو مردوں کی مقابلے میں کئی گنا زیادہ مشکل بنا دینے والے ایک منظرنامے کے ردعمل میں پیدا ہونے والا ایک باغی رویہ ہے، جسے آج بہادرانہ طرز عمل کہا جاتا ہے.
ہراس شخص کی بات کی قدرکی جانی چاہیے جو عورت کی عزت اور قدر کرے اور اس کے حقوق کا ادراک کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی بھی کرے، مگر اس مقبول عام فکر سے میرا ایک بنیادی اختلاف ہے.
میرا سوال یہ ہے کہ عورت ہونے میں ایسی کیا برائی ہے کہ کچھ قدامت پرست اس کی بنا پر عورت کو پڑھنے لکھنے، معاشرے میں متنوع کردار ادا کرنے اور اپنے کچھ خوابوں کی تکمیل کے سفر پر نکلنے پر روکتے ہیں اور کچھ جدیدیت پسند میدان عمل میں آ کر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے عورت ہونے کی خصوصیات اور ذمہ داریوں کو بوجھ اور باعث توہین بنا کر پیش کرتے ہیں اور مجھے سمجھایا جاتا ہے کہ اگر اپنا آپ منوانا ہے تو ان ”بوجھوں اور پابندیوں“ سے جان چھڑا کر آؤ.
مجھے اس بات پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی کہ میرا دل خون دیکھ کر کانپ اٹھتا ہے، شاید اسی بنا پر نسل انسانی کا خون بہانے کے گناہ سے میرا دامن تقریبا صاف ہے. میں اس پر بھی احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوتی کہ چھپکلی اور چوہا دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور کاجل سرخی اور زیور دیکھ کر میری آنکھیں چمک اٹھتی ہیں. کیونکہ میری یہی خوبیاں اس دنیا کے جمال اور رعنائی کو بڑھانے کا سبب بنی ہیں. میں یہ اعتراف کرنے میں کیوں ہچکچاؤں کہ میں خود کو غم اور ظلم پر مبنی واقعات پر آنسو بہانے اور غیر کے سامنے حیا، گریز اور احتیاط کے جذبات پیدا ہونے سے روکنے پر مجبور نہیں کر سکتی کہ اسی کے سبب انسانی معاشرہ محض مشینوں اور صارفین سے نہیں بھر کر رہ گیا. میں یہ کیوں تسلیم نہ کروں کہ روز ازل سے میرا دل اپنے آشیانے کو اپنی جنت بنانے اور ننھے پھولوں کی آبیاری کے خواب دیکھتا رہا ہے. یہ جو اس دنیا میں اسرار ہے، رومانویت ہے، نرمی ہے، محبت شفقت ہے اور رشتے ہیں، اس میں بہت بڑا حصہ میری ان ہی خوبیوں کا ہے. اور اگر آپ ان خوبیوں کو مشرقی عورت کی خصوصیات سے نتھی کرتے ہیں تو جان لیجیے اے مرد صاحب! آپ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں. بچے اور محبت بھری خانگی زندگی مشرق و مغرب کی ہر عورت کا خواب ہے.
میں نہیں مانتی کہ میری ذات کی یہ خوبیاں اور فطرت کی طرف سے عطا ہونے والا میرا یہ کردار میرے پاؤں کی زنجیر ہے اور مجھے میری حسرتوں کا قیدی بنا کر رکھتا ہے. اس بات پر تو مجھے شدید اختلاف ہے کہ ”کچھ“ کرنے کے لیے مجھے مرد نما بننا ہو گا. میں عورت رہ کر بھی سب کچھ کر سکتی ہوں.
میرا سوال یہ ہے کہ آپ اپنے معاشرے میں میری جگہ میرے اسی ”سی وی“ کو مد نظر رکھتے ہوئے کیوں نہیں بناتے. مجھ سے تبدیلی کا مطالبہ کرنے سے پہلے آپ خود تبدیل ہونے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
بات یہ ہے کہ معاشرے کی سب سےاہم بنیادی اکائی یعنی گھرانے کی تشکیل و حفاظت کی ذمہ داری تو مرد اور عورت دونوں پر عائد ہوتی ہے. اس بنیادی ادارے کا انہدام کر کے آپ صرف مشینوں، آلات، اعلی تعلیم اور قوانین کے ذریعے انسانی نسل کو بچا نہیں سکتے. لہٰذا عورت ہو یا مرد، اگر اس کی بنیادی ذمہ داریوں سے اس کے خواب متصادم ہونے لگیں تو سنبھالنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں کو ہی درمیاں کے راستے سجھائیں، ترجیحات سکھائیں. کسی ایک کاپلڑا بھاری کر دیں گے تو توازن اور اطمینان نہیں نصیب ہو گا. مجھے اس میں کوئی مسلہ نہیں لگتا کہ آج کی عورت یا مرد کو ڈاکٹر یا انجنئیر بننا ہے، پہاڑوں پر چڑھنا ہے یا مصوری یا شاعری کرنی ہے. برائی صرف اس وقت ہے جب وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو پامال کر کے اپنے خوابوں کی بازیافت کے سفر پر نکلے. یا یہ کہ نکلنے کا مقصد کبھی تسکین نہ پانے والی محض سطحی مادی خواہشات کا حصول ہو، کیونکہ یہ خود غرضی کی علامت ہے اور اس کا نتیجہ سماجی انتشار کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.
آپ کی انقلابی فکر ایک ایسا معاشرہ بنانے کا کیوں نہیں سوچتی جو نہ صرف یہ کہ رجعت پسندی اور ناجائز روایتی پابندیوں کے خلاف ہو بلکہ ایسی جدت پسندی کے بھی خلاف ہو جو انسانوں کو مشینی پرزوں کی طرح بنا کر رکھ دے. ہم ایسا معاشرہ کیوں نہ بنائیں جو عورت کو کام سونپتے ہوئے اس کی صنفی خصوصیات اور بنیادی سماجی ذمہ داری جو کہ نسل انسانی کی آبیاری ہے، کو مد نظر رکھے اوراس کا احترام بھی کرے.
مثلا سب سے پہلے تو آپ اس عورت کی عزت کریں جوآپ کے پیچھے گھر کا سارا انتظام سنبھالتی ہے. آپ اپنی آبادی کے اتنے بڑے حصے کو ”بےکار“ تو نہ کہیں. اسی مستطیل میں قید بہت ساری عورتوں نے اتنے بہت سے قابل فخر لوگ معاشروں کو دیے تو کیا یہ سماجی اور قومی خدمت نہیں؟ آج بھی بہت سی وہ لڑکیاں جو خوب محنت کر کے اعلی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور بڑے منفرد اور زبردست کارنامے انجام دے رہی ہیں، ان کی کامیابیوں کے پیچھے ان کی ان ماؤں کی بھرپور سپورٹ ہے جنہوں نے گھر کے سارے کام خود کر کے اپنی بیٹیوں کو ان کے خوابوں کی تکمیل کے لیے نکل جانے دیا. میری اپنی ماں نے جب کبھی ٹھنڈی آہ بھر کر کہا کہ میں اپنی دوستوں کی طرح ایم بی بی ایس کے بعد پوسٹ گریجویشن نہ کر سکی، تو ہم یہی کہتے کہ امی! آپ نے تین تین ڈاکٹر بھی تو بنائیں.
آپ کے لیے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہونی چاہیے کہ کہ ہم ساری لڑکیاں ایک سی نہیں ہوتیں. ہم میں سے کچھ کو پڑھنے لکھنے، جہاز اڑانے اور چوٹیاں سر کرنے کا شوق ہوتا ہے اورجی ہاں! بہت ساری ایسی بھی ہیں جو ثانوی جماعتوں میں آتے ہی بس ایک اچھے سے سجے بنے گھر کی ملکہ بننےکے خوابوں سے زیادہ کچھ اور دیکھنا سوچنا جبر سمجھتی ہیں. یہاں تک کہ بہت سی ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی اور ڈاکٹر انجینئر خواتین سے مل کر دیکھیے، اپنے گھر بیٹھ رہنے اور بچے پالنے والی زندگی سے کتنی مطمئن ہیں. باہر نکل کر کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہش ضرور کرتی ہیں مگر آپ کو شاید ہی کوئی ایسی ملے جو یہ کہے کہ کاش میں نے شادی کر کے بچے نہ پالے ہوتے تو آج کہیں کی ایگزیکٹیو ڈائرکٹر ہوتی. مزے کی بات یہ ہے کہ خود کینیڈا میں رہتے ہوئے سکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر، انجینئر، پی ایچ ڈی اور اسی قبیل کی بڑی بڑی ڈگریاں اور شعبوں میں جانے کی خواہش کا اظہار عموما ”دیسی“بچوں اور بچیوں کی طرف سے زیادہ ہے. لہٰذا آپ ہم سب کوایک ہی طرح ”اپنے“ پسندیدہ آدرش حاصل کرنے پر مجبور نہ کریں بلکہ ہماری اپنی خواہشات اور ترجیحات کو بھی اہمیت دیں.
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر عورت کو یہ اعتماد دیا جائے کہ معاشرے میں مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے معاشرہ بھی اس کے گھر، بچوں اور نسوانی تقاضوں کے لیے جگہ رکھے گا تو وہ زیادہ اطمینان کے ساتھ اپنی دیگر سماجی ذمہ داریاں نبھا سکے گی.
میرے لیے تو رول ماڈل وہ خواتین ہیں جنہوں نے ڈاکٹر، انجینئر، استاد، مصور، ادیب، صحافی، پارلیمنٹیرین، عالمہ اور نہ جانے کیا کیا ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی. اور میں ان خواتین کو بھی کم قابل احترام نہیں سمجھتی جو گھر پر ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اپنے پورے گھرانے کو سماج کی بہترین خدمت کے لیے تیار کرتی ہیں.
میرے لیے بہادر وہ عورت نہیں، جس نے مردانہ آؤٹ لک کے ساتھ، گھریلو ذمہ داریوں سے بچ کر کوئی بڑا عہدہ حاصل کر لیا کیونکہ کارپوریٹ معاشرے کو جس آئیڈیل مرد نما کارکن کی ضرورت ہے، اس نے تو اسی کردار کے لیے خود کو سرنڈر کر دیا. میرے نزدیک بہادر وہ عورت ہے، جو اپنے نسوانی شناخت اور ذمہ داریوں کے ساتھ معاشرے میں متنوع کردار ادا کرنے کا کٹھن سفر اختیار کرتی ہے کیونکہ ایسی ہی عورت کے لیے تو سماج قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے.