ہوم << بیٹی اور اس سے وابستہ دکھ - نورین تبسم

بیٹی اور اس سے وابستہ دکھ - نورین تبسم

آدم حوا کہانی میں عورت کی پہلی جھلک ایک ساتھی اور ایک دوست کی ہے جو جنت میں ملتا ہے تو جنت سے نکالے جانے کے بعد بھی ساتھ نبھاتا ہے۔ نعمتوں کا امین ہے تو خطا کے بعد توبہ کی گھڑی میں آنسوؤں کا رازداں بھی ہے۔ بی بی ہاجرہ کی صورت اللہ کی رضا کے لیے ساتھی کے حکم پر راضی ہے تو حضرت زکریا کی دعا کی قبولیت کا علم بردار بھی۔ عورت کے اس روپ کی عظمت رہتی دُنیا تک قائم رہے گی۔
عورت کا دوسرا روپ ماں کا ہے جس کی تعریف و توصیف کا حق قلم تو کیا قول و فعل سے بھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ خالق ومالک سے بڑھ کر کون ماں کے رتبے کے اسرار بیان کر سکا ہے، جس نے اپنی محبت کا پیمانہ ماں کی محبت سے مثال دے کر بیان کیا ہے۔
ماں کے بعد عورت کا ایک روپ بیٹی کا ہے۔ وہ بیٹی جس کے احترام اور اُس سے محبت کی بیش بہا مثالیں جہاں تاریخ کا حصہ ہیں تو اس کی ناقدری اور کم مائیگی بھی زمانۂ جاہلیت سے لے کر آج کے جدید دور تک جابجا دیکھنے کو ملتی ہے۔ قران پاک کی سورۂ النحل (16) میں اس رویے کو یوں بیان کیا گیا ہے:
”حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بشارت دی جائے کہ تمہارے ہاں بیٹی ہوئی تو غم اور پریشانی کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ زہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔
اس بری خبر پر اپنے قوم قبیلے سے منہ چھپائے پھرتا اور اس فکر میں ہوتا ہے کہ ذلت اٹھا کر اسے زندہ رہنے دے یا تہہ خاک چھپا دے۔ یہ لوگ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔ (آیت 58، 59)“
اور سورہ شورٰی (42) میں ارشاد فرمایا ہے:
”آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا پھر لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔(آیت 49 ،50)“
دنیائے انسانی میں ہمیشہ سے دستور چلا آیا ہے کہ عورت اور مرد جب مل کر ایک نئے رشتے کی بنیاد رکھتے ہیں تو مالک اُن کے آنگن میں اولاد کی صورت مہربانی کرتا ہے۔ اولاد اگر محض انسان کی فطری ضرورت اور جبلت کا ثمر ہے تو اُس کی جنس کا تعین بھی انسان کے شعوری احساس کی پہنچ سے کوسوں دور ہے۔ درج بالا آیت پر ایمان لاتے ہوئے کہ کسی کو بیٹا دیتا ہے تو کسی کو بیٹی یا کسی کو دونوں سے نوازتا ہے، اور کسی کو ایک دوسرے کے ”ساتھ“ کے احساس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ ”ساتھ“ کا احساس بظاہر مایوسی کا استعارہ لگتا ہے لیکن سب سے اہم بات ہےکہ پھر اس تعلق میں ایک دوسرے پر کسی قسم کا معاشرتی دباؤ نہیں ہوتا۔ ورنہ اولاد بعض اوقات پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ اور خاص طور پر اس وقت جب وہ صحت مند بھی پیدا نہ ہو۔ میاں بیوی اگر اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہیں تو وہ اولاد جو سہارا بننے کے بجائے خود سہارے کی محتاج ہو، اُس کی زندگی اُنہیں اپنے ہر احساس ہر جذبے سے آنکھ بچانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ ایسا غم ہے جس کے لیے شریکِ سفر کا کاندھا بھی نہیں ملتا۔ یہ دُنیا کے امتحانات ہیں اور اللہ جن پر یہ بوجھ ڈالتا ہے اُنہیں سہارنے کا حوصلہ بھی عطا کر دیتا ہے۔
پہلے بچے خصوصاً بیٹی کی پیدائش پر ماں اور باپ دونوں کے احساسات مختلف ہوتے ہیں۔ ماں کا ذہن اِسے اپنی زندگی کہانی کا تسلسل دیکھتا ہے جبکہ باپ کے لیے اُس لمحے اپنے وجود کا عکس دیکھنا کائنات کا سب سے خوبصورت تُحفہ ہوتا ہے جواُسے دُنیا میں اپنی ذات پر اعتبار دیتا ہے۔ اس وقت عورت اور مرد کی شخصیت کے دو الگ رُخ واضح ہوتے ہیں۔ ماں تکلیف اُٹھا کر اذیت برداشت کرکے ایک نیا وجود دُنیا میں لانے کا وسیلہ ٹھہرتی ہے تو باپ کو جسمانی طور پر خراش بھی نہیں آتی۔ یہ قانونِ فطرت ہے۔ شاید اسی وجہ سے مرد زندگی بھر عورت کے جسمانی درد یا تکلیف کا اندازہ کبھی بھی نہیں لگا سکتا۔ مغربی دُنیا کے باسی عورت کے اندر کے کھوج میں اِس نکتے کو جان گئے، اسی لیے وہاں بچے کی پیدائش کے وقت باپ کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے جبکہ یہاں کی عورت شاید اس بات پر کبھی آمادہ نہ ہو۔ شرم وحیا سے ہٹ کر عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ جتنا ہو سکے اپنے دُکھ درد کو تنہا برداشت کرتی ہے، چاہے وہ ”بی بی مریم“ کا ”دردِ زہ“ کا قرآنی واقعہ ہو یا ”بی بی ہاجرہ“ کی ”سعی“۔ یہ ربِ کریم کا عورت کے لیے اعزازِخاص ہے کہ اُس نے عورت کی مشقت کو (جس کا رازداں اُس کے سوا کوئی بھی نہیں تھا) رہتی دُنیا تک زمانے کے سامنے نہ صرف آشکار کیا بلکہ عزت وتکریم کا مینارۂ نور بنا کر کیا مرد کیا عورت سب کو اُس کے قدموں کے نشان پر سجدہ ریز کرا دیا۔
زندہ و جاوید ادب کے ترجمان اور لفظ سے دلوں کو فتح کرنے والےجناب مستنصرحسین تارڑ نے اپنے سفرنامۂ حج ”منہ ول کعبہ شریف“ میں تین لفظوں میں سب کہہ دیا کہ ”حج ہاجرہ ہے“۔ اس تین لفظی جملے کو اگر کوئی سمجھ جائے تو نہ صرف مرد بلکہ عورت بھی اپنے اصل مقام کو پہچان کر ہمیشہ کی سعی مسلسل سے قرار پا جائے۔ وہ سعی جو صرف اور صرف جان پہچان کے محدود چکروں سے عبارت ہے اور ہم اپنی خواہشات کے گرد خود ترسی اور خودفراموشی کے لاحاصل طواف کیے جارہے ہیں۔
متعدد احادیث ِمبارکہ میں بیٹیوں کی پرورش اور تربیت پر جنت کی بشارت اور نبی کریمﷺ کے ساتھ کی بشارت دی گئی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں، سب مانتے ہیں، اور اب تو سائنس کی حیرت انگیز ترقی کی بدولت انسانی جینز کی پُراسرار دُنیا کے انکشافات نے اولاد کی جنس کا راز بھی فاش کر دیا ہے۔ عورت کے اندر پھوٹتے محبت اور وفاداری کے چشموں اور ہر قسم کے حالات میں اپنے آپ کو ڈھال لینے کی خوبیوں کے باوجود بیٹی کی پیدائش ایک ان جانا سا دکھ دے جاتی ہے۔ یہ معاشرے اور آس پاس کے لوگوں کا ان کہا رویہ ہوتا ہے جسے محسوس کرتے ہوئے ایک اچھا بھلا سمجھدار انسان دوسروں سے پہلے اپنے آپ کو اس احساس پر لعن طعن بھی کرتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر ملنے والی دعائیں بھی اپنی معنویت میں اسی رویے کا ڈھکا چھپا اظہار ہوتی ہیں جیسے دل سے کسی کی دی ہوئی پرخلوص دعا ”اللہ نصیب اچھے کرے“ میں بھی کانٹے جیسی چبھن۔ یہ دعا بیٹے کی پیدائش پر شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
کیا بیٹے ہمیشہ سے ”اچھا نصیب“ لے کر پیدا ہوتے ہیں؟ کیا بیٹی کی پیدائش کے بعد سے ہی اُس کے نصیب کی فکر لگ جاتی ہے؟ کیا یہ بات سچ ہے کہ بیٹی کی ولادت سے باپ کی عمر میں یک دم اضافہ ہو جاتا ہے؟ اُس کی کمر جھک جاتی ہے؟ کیاایک صحت مند اولاد کا اپنے ماں باپ کی آغوش میں آ جانا رب کا سب سے بڑا انعام نہیں؟ کیا بیٹوں سے ہمیشہ سکھ ملتے ہیں؟ اور دکھ دینا، دکھ پانا لڑکیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے؟
جذباتی ہو کر سوچیں تو یہ سب غیر دانشمندانہ سوچ اور روایتی جاہلانہ طرز عمل کا عکاس ہے۔ حقیقت مگر بہت تلخ ہے اور ہمیں اس کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ بیٹی کا روپ عورت کا سب سے کمزور ترین پہلو ہے۔ وہ سونے کا چمچہ لے کربادشاہ کے گھر میں بھی پیدا ہو جائے، دُنیا میں”بےنظیر“ بھی ہو، وقت کے مضبوط ترین قلعے میں محفوظ ہو کر جگ پر حکومت بھی کرنے لگے، لیکن! وہ ایک عام مرد کے سامنے بےبس ہے۔ مرد کی افضلیت کا حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ عورت دُنیا فتح کر کے بھی ایک مرد سے ہار جاتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے میدانوں میں دُنیا کے افق پر جھنڈے گاڑنے والی لڑکی رات کی تاریکی میں تن تنہا گھر سے باہر نکل کرمحفوظ نہیں چاہے وہ دُنیا کے کسی مہذب اور اعلیٰ ”اخلاقی“ معیار کے حامل معاشرے میں سانس لے رہی ہو۔ اُسے کسی مرد کا سہارا درکار ہے چاہے وہ دُنیا کا سب سے نالائق آدمی کیوں نہ ہو۔ عورت کے عدم تحفظ کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنے گھر، اپنے رشتہ داروں اور بعض اوقات اپنے محرم رشتوں کے ساتھ بھی محفوظ نہیں ہوتی۔گھر سے باہر تو وہ سڑک پرگرنے والے سکے کی طرح ہے کہ چاہے جیبیں بھری ہوں لیکن ہر گزرنے والا اس آواز پر ایک بار رُک کر دیکھتا ضرور ہے۔
کہاں کی آزادی؟ کون سے حقوقِ نسواں؟ کیا فائدہ سول سوسائٹی کے نعروں کا؟ یہ نہ صرف مردوں کو بلکہ اپنے آپ کو بھی دھوکہ دینے اور لمحاتی تسکین کے نظریے ہیں۔ پرانی کہاوت ہے کہ ”بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں“ لیکن اب اس کے معنی بدل گئے ہیں۔ اب تو اپنی بیٹی بھی اپنی بات نہیں سمجھتی اور ایک خیالی دُنیا میں آزادی کے انوکھے خواب دیکھتی ہے۔ آج کی بیٹی ہرمیدان میں مرد کی برابری چاہتی ہے۔ جھکنا اس کی فطرت نہیں۔ دُنیا کو جوتی کی نوک پر رکھنے کی خواہشمند، چاہے باپ ہو، بھائی ہو یا پھر آنے والی زندگی کے شریکِ حیات کا تصور۔ باپ سے زیادہ ماں کو اس کی ناسمجھی اور نادانی ایک آسیب کی طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں اُس کے ٹھوکر نہ لگنے کی دعا کرتی ہے لیکن دُنیا کے پتھریلے رستوں پر ٹھوکر لگنا ناگزیر ہے۔ یہی نصیب ہے، یہی قسمت ہے، جس کے اچھے ہونے کے لیے ہر ماں باپ کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ بیٹیوں کے والدین کی عجیب سوچ ہوتی ہے۔
”آڑے وقت کے لیے اُن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ ’آڑا وقت‘ کبھی اُن کی زندگی میں نہ آئے۔“
یہ بات نہیں کہ بیٹوں کو کبھی ٹھوکر نہیں لگتی یا اُن کے راستوں میں دلدلیں اور کھائیاں نہیں آتیں بلکہ ان کے دکھ تو ماں باپ کو زندہ درگورکر دیتے ہیں۔ بیٹی کے دکھوں کا تو اس کی پیدائش سے ہی دھڑکا لگتا ہے، پیدائش کے ساتھ جنم لینے والی خلش آسمان پر نظر آنے والے بادل کی طرح ہوتی ہے جو جانے کب بن موسم کے برس جائے۔ جبکہ بیٹوں کے دُکھ تو آندھی طوفان کی طرح سب کچھ تہہ و بالا کر دیتے ہیں۔ بنے بنائے مکان، جمے جمائے کاروبار خاک ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹی خاک میں مل کر بھی اُس خاک کو مقدر جان کر آخری حد تک سنوارنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی عورت کی عظمت کی معراج بھی ہے جو نام نہاد آزادی کے دعوؤں سے بلند اپنی ’اوقات‘ اپنی صلاحیت پر بھروسہ کر کے سر اُٹھا کر جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔
بیٹیوں کے باپ کے دکھ سے بھی انکار نہیں۔ بیٹا جیسا بھی ہو گھر میں اس کی ضرورت اور اہمیت مسلم ہے۔گھر کے بہت سے ایسے مسئلے، ایسی آزمائشیں ہوتی ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک مرد کی ضرورت بہرحال پڑتی ہے، بیٹے کو”بازو“ کہنا بھی کسی حد تک درست ہے۔ بیٹیوں والا گھر بغیر چاردیواری کے مکان کی طرح ہے جس میں جھانکنا اور اس کے معاملات میں دراندازی کرنا ہر راہ چلتا اپنا حق اور ہر ’اپنا‘ اپنا فرض جان کر کرتا ہے۔
بیٹیوں کا ایک دُکھ وراثت سے متعلق ہے۔ معاشرے میں جس طرح بیٹوں کا باپ کی وراثت پرحق نہ صرف کھلے عام تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ کچھ بھی کریں، جب بھی اپنا حصہ مانگ بیٹھیں، جائز ٹھہرتا ہے۔ اُن سے بازپرس بھی اس انداز سے نہیں کی جاتی جبکہ بیٹی شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی جہاں تک ہو سکے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتی ہے۔ بیٹوں کے مقابلے میں ماں باپ کے دکھ درد کو دل سے محسوس کرتی ہے اور اُن کا ”شملہ“ دوسروں کے سامنے اونچا رکھنا چاہتی ہے۔
سب سے تلخ اور زہریلا نشتر بیٹیوں کے باپ کو آخری عمر تک محض جائیداد کے وارث کے لیے دوسری شادی کا ”مخلص“ کا مشورہ دینے کا ہے جو اکثر پہلی بیوی کے سامنے بڑے دھڑلے سے دیا جاتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ قریبی رشتہ دار جن کی سیوا میں بیوی کی عمر تمام ہو جاتی ہے اور ”دیندار، مسجد کے ساتھی“ بھی اس ”کارِخیر“ میں وقتاً فوقتاً اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔ جیسے یہ گارنٹی ہو کہ باپ عمرِخضر لکھوا کر آیا ہے اور بیٹا ہی پیدا ہوگا جو تمام مسائل کی فکر سے آزاد کر دے گا۔
آخری بات
اللہ کی رضا پر راضی رہا جائے اور خوشدلی سے اولاد کی صورت میں جو عطا ہو اسے قبول کرلینا چاہیے۔ بیٹےکی پیدائش پر بےجا فخر کا اظہار نہ کیا جائے اور بیٹی کی ولادت پر اپنے آپ کو اس عظیم نعمت کا اہل سمجھا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ رب کی حکمت کے اسرار کھلتے چلے جاتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment