ہوم << مادری زبان، قوم پرستوں کا مقدمہ - دائود ظفر ندیم

مادری زبان، قوم پرستوں کا مقدمہ - دائود ظفر ندیم

دائود ظفر ندیم جب میں بچہ تھا، تو مجھے لگتا تھا کہ اردو زبان ہی ہماری اپنی زبان ہے مگر مجھے مشکل ہوتی تھی جب گھر میں پنجابی بولی جاتی تھی، ہمارے اردو میڈیم سکول میں یہ بات سکھائی جاتی تھی کہ پنجابی ایک گنواروں کی زبان ہے جس کا لہجہ ایک مقررہ فاصلے کے بعد بدل جاتا ہے اور اس کی کا کوئی معیاری لہجہ نہیں، اس میں کوئی ادب تخلیق نہیں ہو رہا، یہ بانجھ اور جامد زبان ہے. مجھے واقعی ایسے لگتا کہ سبزی والا، دودھ والا، کام کرنے والے غریب لوگ اور ان کے بچے یہ زبان بولتے مگر اس وقت پریشان ہوجاتا جب مری ماں بھی یہی زبان استعمال کرتی، میرے والد بھی اسی بان میں گفتگو کرتے، میں بڑے شوق سے اے حمید سے لے کر اشتیاق احمد اور جبار توقیر وغیرہ کی بچوں کے لیے کہانیاں پڑھا کرتا، بچوں کے لیے اردو زبان میں نونہال، جگنو، تعلیم و تربیت نامی رسائل شائع ہوا کرتے تھے. میری اپنی کچھ کہانیاں جگنو میں چھپا کرتیں اور مجھے فخر ہوتا کہ میں دوسرے پنجابی بچوں کی طرح جاہل نہیں بلکہ ایک پڑھا لکھا بچہ ہوں جسے اردو آتی ہے، مگر میری ماں مجھے رات کو سونے سے پہلے پنجابی گیت سناتی، لکڑ بگڑ باوے دا، اسی نو نواسی، جیسےگیت دل کو چھو لیتے اور پھر پنجابی میں مختلف کہانیاں، رات کو بستر میں لیٹ کر کہانی سننے کا جو نشہ آتا، وہ بیان سے باہر ہے. مگر سکول میں اور نصاب میں مجھے اسماعیل میرٹھی کی ہماری گائے جیسی نظمیں پڑھنے کو ملتیں اور محلے کی لائبریری میں بھی اردو کتابیں ملتیں. میں نے ابن صفی بڑے شوق سے پڑھا، پاکستان ٹیلے ویژن کارپوریشن بھی اردو کی ترویج کا اہم ہتھیار تھا جہاں اردو زبان میں بڑوں کے لیے بہت سے اچھے پروگراموں کے علاوہ ننھے بچوں کے لیے پروگرام تیار کیے جاتے تھے.
مگر جب میں داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش ربا اور الف لیلی پڑھ رہا تھا تو گھر میں میرے دادا کی بڑی بہن مجھے راجہ رسالو کی کہانیاں سناتی، مجھے پورن بھگت کی کہانی بہت پسند تھی، اور پھر ہیر رانجھا اور سوہنی مہیوال کے رومانی قصے، میں سوچا کرتا کہ یہ کون لوگ ہیں جو پنجابی زبان میں لکھتے تھے، بہرحال میں یہ جانتا تھا کہ اب پنجابی کہیں نہیں لکھی جاتی اور اردو زبان ہی پاکستان کی قومی اور واحد زبان ہے. کچھ متعصب اور پاکستان دشمن عناصر نے پہلے بنگالی زبان کا نام لیا اور پاکستان توڑا، اور اب بھی کچھ نالائق لوگ سندھی اور پشتو اور بلوچی میں بات کرتے ہیں، اس میں لکھتے ہیں، یہ پاکستان کے دشمن اور غدار ہیں جو پاکستان میں لسانی اور علاقائی تعصب پھیلاتے ہیں۔ مگر جب میں بی اے کی تیاری کررہا تھا تو اس وقت مجھے پہلی دفعہ پتہ چلا کہ پنجاب میں بھی کچھ متعصب لوگ پنجابی لکھتے ہیں، پنجاب میں پنجابی کہانی لکھنے والے اور پنجابی شاعری کرنے والے شرپسند ابھی بھی موجود ہیں۔ یہ میرے لیے بہت پریشانی کی بات تھی۔
میرے نئے دوستوں نے مجھے بتلایا کہ آپ کسی بھی زبان کا ادب کسی بھی زبان میں پڑھیں، کوئی حرج نہیں. جی بالکل پڑھیے، چہ خوب. لیکن اپنی زبان کا ادب نہ پڑھیں، تو جڑیں اپنی مٹی میں پیوست نہیں ہوتیں. اگر آپ ان داستانوں کو نہ پڑھیں، سنیں جو آپ کے اطراف میں ہیں، آپ کے زمانے میں یا آپ سے پہلے اس دھرتی پہ سانس لیتی رہیں، یعنی جن سے آپ کے اجداد کا تعلق رہا تو آپ کو مکالمے کے دوران ابلاغ میں مشکل پیش آئے گی. چنانچہ مجھے رانجھن ہونا، کچا گھڑا، مہینوال، بھگت، اور پنجابی کے مختلف اکھان اور محاروں کا علم ہوا. یہ معلوم ہوا کہ غالب، داغ، مومن، انشا، جرات، حالی بڑے شاعر ہیں مگر وہ وادی گنگا و جمنا میں تھے جسے اب بھارت کہتے ہیں. ہمارے پنجاب میں بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، اور سب سے بڑھ کر بابا فرید جیسے لوگ تھے جنہوں نے پنجابی زبان میں لکھا، اور پنجابی کی اپنی اساطیر، استعارے، تشبیہات، محاورے موجود ہیں. اور جب ایم اے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ہندی زبان میں ڈپلومہ کیا تو معلوم ہوا کہ اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں جن کو مذہبی تعصب اور الگ رسم الخط کی ضد نے دو الگ زبانیں بنا رکھا ہے اور دونوں کی جڑیں ایک ہی علاقے یعنی گنگا جمنا کی وادی میں ہیں. پنجابی دنیا کی دس بڑی زبانوں میں شامل ہے پاکستان کے بعد کینیڈا میں ایک بڑی زبان ہے جہاں کچھ پاکستانی محب وطن کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی پنجابی اپنی مادری زبان کے طور پر پنجابی کے بجائے اردو لکھیں تاکہ کینیڈا میں پنجابی کا مقام ختم ہو.
میں اردو کا مخالف نہیں مگر جب اردو کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کی اپنی زبانوں کو ختم کیا جائے تو تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان میں کرتا دھرتا یہ نہیں جانتے کہ اگر پاکستانی چینلوں پر پنجابی کی کوئی جگہ نہیں رہی، پنجابی فلم کو پاکستان میں ختم کرنے کو کوشش کی جا رہی ہے، تویہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میری چھوٹی سی، بہت بڑی دنیا میں تبدیل ہوگئی اب پاکستانی چینل ہی اول و آخر نہیں، اب بچے ستر اسی نہیں تو پچاس ساٹھ ٹیلے ویژن چینل کی دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں. اگر کسی پاکستانی ٹیلے ویژن چینل پر پنجابی کے پروگرام کا 'اسپاٹ' ہی نہیں تو بھی پنجابی فلمیں اور پروگرام غیرملکی چینلوں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ اس لیے آپ کسی کے نصاب، میڈیا اور اشرافیہ سے اس کی زبان ختم کرنے کے بعد بھی یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ زبان ختم ہو سکتی ہے.
میں آج بھی اردو کو ہی اپنے ہی لکھنے پڑھنے کا ذریعہ بنائے ہوں مگر اس سارے معاملے کی تفہیم نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں قوم پرستوں کے بیانیے کو سمجھ پائوں، قوم پرستوں کا بیانیہ کچھ تحفظات اور کچھ اندیشوں پر مبنی ہے۔
ان کے بیانیے کا پہلا جز یہ ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے ایک قوم نہیں یہاں مختلف قومیتیں آباد ہیں ایک وفاق میں رہنے والی تمام قومیتوں کے لسانی، اور جغرافیائی حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔
ایک تو ان کو اپنے علاقے اور سرزمین میں اقلیت بننے کا اندیشہ ہے دوسرا ان کو اپنی لسانی شناخت چھن جانے کا اندیشہ ہے۔
بلوچوں کو خطرہ ہے کہ وہ اپنی روایتی سرزمین پر ریڈانڈین کی طرح ایک اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے. وہ اس کے لیے کراچی کی مثال دیتے ہیں کہ کراچی روایتی طور پر ایک بلوچ علاقہ تھا جہاں ایک دوسری قومیت کو بسایا گیا اور بلوچ لیاری میں محصور رہ گئے جہاں وہ روزگار کے مواقع، شناخت اور اختیار سے محرومی کی وجہ سے جرائم پیشہ بننے پر مجبور ہوگئے، ان کے فٹ بالروں اور ان کے باکسروں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ ان کو قومی ہیرو نہیں سمجھا گیا۔ ان کو سہولیات نہیں ملیں۔
بلوچوں کو یہی اندیشہ بلوچستان میں ہے کہ ان کو لسانی اقلیت بنایا جائے گا۔ وہ ایسے تحفظات چاہتے ہیں کہ انھیں اپنی سرزمین پر اپنی زبان اور اپنی عددی اقلیت کا تحفظ مل سکے کہ وہ معاملہ ہے جس پر تمام قوم پرست اور وفاق پرستون بلوچوں کا اتفاق ہے.
یہی معاملہ سندھیوں کا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کراچی کو ان سے چھینا جا رہا ہے، وہ اس کی ملکیت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سندھی زبان اور تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے.
قوم پرستوں کی تمام باتوں کو یکسر غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان ایک قوم بننے کے عمل میں ہے. اردو زبان اس سرزمین پر عوامی رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے مگر اس کے باوجود دوسری زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سرزمین کی تمام زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کی ضرورت ہے، ان کے تمام بڑے شاعروں کو قومی شعرا قرار دینے کی ضرورت ہے، اس سے قومی یک جہتی میں اضافہ ہوگا.
سندھیوں اور بلوچوں کو عددی اقلیت بننے کا بھی خوف ہے جیسے سندھ میں کوٹہ سسٹم ہے اس طرح وفاق کی سطح پر بھی بلوچی اور سندھی بولنے والوں کو مقررہ مدت تک تمام ملازمتوں میں کوٹہ دیا جا سکتا ہے. اس طرح کے کئی اقدامات ہیں جو بلوچوں اور سندھیوں کو قومی دھارے میں شریک کر سکتے ہیں
اردو بولنے والوں کے لیے کچھ الگ کرنے کی ضرورت ہے. ایک تو ان کا بیانیہ ہے کہ وہ کسی خاص صوبے میں نہیں، ایک نئے وطن پاکستان میں آئے تھے جو ان کی جدوجہد سے تشکیل پایا تھا۔ ہمارا نصاب اور میڈیا بھی یہی بتلاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو ان کے میرٹ پر پاکستان اور سندھ میں ملازمتیں دی جائیں، کسی کوٹے کی وجہ سے امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ ان کے علاقے کراچی اور حیدر آباد کا اختیار کسی صوبائی نظم یا کسی بلدیاتی نظم کے تحت ان کے حوالے کیا جائے۔ ان معاملات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے. بلدیاتی اختیار میں ان کو شریک کرنا ان کا حق ہے.
ہم پاکستانی اور مسلم قومیت کی بنیاد پر کسی کی لسانی اور جغرافیائی شناخت کو ختم نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس مسئلے کا ادراک کرنا ہوگا.

Comments

Click here to post a comment