ہوم << کانٹ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اعتراض کا جائزہ - محمد زاہد صدیق مغل

کانٹ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اعتراض کا جائزہ - محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل ایک صاحب نے مشہور فلسفی عمانیول کانٹ کے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اعتراض کے حوالے سے پوسٹ لگائی کہ کانٹ کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو قربان کرتے وقت خدا کی طرف اپنی اخلاقی ذمہ داری تو نبھائی مگر انسان کی طرف اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھانے میں ان سے چوک ہوگئی، یعنی وہ توازن برقرار نہ رکھ سکے. صاحب پوسٹ کے خیال میں یہ نہایت عقلی اور باوزن اعتراض ہے۔
صاحب پوسٹ تو خیر فلسفی ہیں لہذا ان کا ایسی باتیں کرنا سمجھ آتا ہے مگر حیرت تو ان مذہب پسند اذہان پر ہے جو کانٹ کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے یہ کہتے دکھائی دیے کہ اللہ نے بیٹا ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ابراہیم علیہ السلام خواب کو خود ہی حقیقت بنانے کا ارادہ کرکے لغزش کے مرتکب ہوئے۔ یہ احباب کانٹ کے اخلاقی فلسفے کے مفروضات پر سوال اٹھانے کے بجائے اس کے فریم ورک میں کھڑے ہوکر جواب دینا شروع ہوجاتے ہیں. خیر اس تحریر میں ان حضرات کے خیالات کو مخاطب کرنا مقصود نہیں، یہاں صرف کانٹ کے اعتراض کا جائزہ مقصود ہے.
کانٹ کے اعتراض کا داخلی و خارجی جہات سے جائزہ لینا ممکن ہے مگر یہاں صرف اصولی و خارجی جائزہ لیا جائے گا۔ کانٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہیومنسٹ ہے اور انسان کی اٹانومی (خود مختاری) کو سب چیزوں سے مقدم سمجھتا ہے۔ کانٹ کے نزدیک فرد ایک قائم بالذات ہستی ہے اور کسی عمل کی قدر متعین کرنے کا کانٹ کا مجوزہ آفاقی قضیے (categorical imperative) کا اصول انسان کی اٹانومی کو مفروضے کے طور پر قبول کرتا ہے۔ کانٹ کے خیال میں کسی عمل کا خیر کہلانے کے لیے لازم ہے کہ وہ فرد کے خودمختار ارادے (autonomous will) کا اظہار ہو نہ کہ خدا کے حکم پر مبنی، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عمل ایک ایسی خواہش ہو جسے فرد سب کو کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہو سکے اور اس عمل کے دوران کسی دوسرے شخص کی اٹانومی کی قربانی نہ دینی پڑے (یعنی کسی فرد کو بطور ذریعہ استعمال نہ کیا جائے)۔ ان مفروضات کی بنا پر کانٹ کا خیال ہے کہ ایک خودمختار فرد کی دوسرے خودمختار فرد کی طرف یہ حتمی و آفاقی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی جان نہ لے۔ کانٹ کا تصور اخلاق فرد کی مرکزیت پر مبنی (Human centric) ہے۔ چنانچہ یہاں بھی وہ یہی کرتا ہے کہ فرد کو مرکز میں رکھ کر پھر ترازو کے دو پلڑوں میں خدا اور دیگر انسانوں کو بٹھا کر جب وہ توازن تلاش کرنے کی کوشش میں ناکام ہوجاتا ہے تو جھٹ سے نبی کے عمل پر سوال اٹھا دیتا ہے کہ دیکھیے نبی نے خدا کے حکم کی تکمیل کرتے وقت فرد کی طرف اپنی آفاقی و حتمی اخلاقی ذمہ داری نہ نبھائی۔
مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم کانٹ کے انسان کے بارے میں مفروضات کو کیونکر مان لیں نیز یہ کیوں درست سمجھا جائے کہ اخلاقی عمل وہی ہے جو انسانی خواہشات کو آفاقی بنانے والے اس کے آفاقی قضیے کے اصول پر پورا اترے؟ بات بالکل صاف ہے کہ مذہب کے اخلاقی نکتہ نگاہ سے انسان کی دوسرے انسان کی طرف خدا کے حکم کے ماسوا کوئی کمٹمنٹ و ذمہ داری سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایسے میں یہ فرض کرنا کہ انسان کی طرف اس کی کوئی ایسی ذمہ داری بھی ہے جو خدا کے قطعی حکم کے مقابلے میں آ کھڑی ہو سکتی ہے، ایک لغو خیال ہے۔ کانٹ کا خدا محض فلسفیانہ خدا ہے جو انسان کی اٹانومی کے خلاف اسے حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتا، اس کے فلسفہ اخلاق میں خدا کا حکم خودمختار انسان کے ارادے کے تابع ہے۔ اس کے یہاں قدر کا تعین خودمختار نفس کی خواہشات سے ہوتا ہے جسے وہ نادانی میں عقل سمجھتا رہا۔ کانٹ یہ سب اپنے فریم ورک میں فرض کر رہا ہے مگر ہمیں یہ فرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک دفعہ کانٹ کے انسان کے بارے میں مفروضے کو رد کردیجیے، یہ اعتراض خود بخود لغو دکھائی دے گا۔
آخری بات یہ کہ بھلا کانٹ کو کیا خبر کہ عدل اور خیر و شر کیا ہے کہ وہ منصف بن کر نبی کے عمل پر معترض ہو؟ اسے چاہیے کہ انسان کی اٹانومی کی پوجا سے توبہ کرکے پہلے اپنے اصل مقام ”مقام بندگی“ پر آئے، پھر ابو الانبیاء کے اسوہ حسنہ کو سمجھنے اور اس سے سبق سیکھنے کی پوزیشن میں آئے گا۔ اگر اس کے جواب میں کہا جائے کہ یہ تو اخلاقیات کے بارے میں آپ کے نکتہ نگاہ سے جواب ہے تو ان سے کہیے کہ کانٹ بھی تو یہی کررہا ہے کہ اپنے نکتہ نگاہ سے سوال اٹھا رہا ہے، وہ کون سا کسی آفاقی، مجرد و معروضی عقلیت پر قائم ہو کر معترض ہے کہ اس کی پوزیشن فرض کرنا لازم ہے؟