ہوم << قوموں کے لیے موٹر وے ٹو ایکسی لینس - حافظ یوسف سراج

قوموں کے لیے موٹر وے ٹو ایکسی لینس - حافظ یوسف سراج

بخاراور درد بذات خود کوئی بیماری نہیں ہوتے۔ یہ کسی نہ کسی بیماری کے انڈیکیٹر (اشارے) ضرور ہوتے ہیں۔ یہ بتاتے ہیںکہ جسم میں کوئی قابلِ علاج خرابی جنم لے چکی ہے۔ یوں یہ درد دینے کے باوجود انسانی جسم کے خیرخواہ اور محسن ہوتے ہیں۔ اپنی کم اندیشی کے باعث کچھ لوگ اس کے باوجود درد یابخار کو برا کہنے لگتے ہیں۔ یہ بھی مگر طے ہے کہ ایسے لوگ زیادہ عرصہ یہ زبردستی نبھانہیں پاتے۔ یہ اپنی عاقبت نا اندیشی کے ہاتھوں جلد ہی ناقابلِ علاج ہوکر اعزہ و اقربا کو داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ باشعور اور سیانے ہوتے ہیں وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ جس سے مرض کی تشخیص بھی ہوجاتی اوراس کا واجب علاج بھی ہوجاتا ہے۔
ہمارے جسم کی طرح ہی ہماری زندگی بھی ہے۔ موٹر وے پر کسی تیز رفتار گاڑی کی طرح دوڑتی ہماری زندگی میںبھی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ سطحی سوچ والا آدمی اس پر سر پکڑکے بیٹھ جاتاہے، تاہم اگر وہ سیدنا علی ؓجیسی سوچ رکھتا ہو تو پکار اٹھتاہے ”عرفت ربی بفسخ العزائم۔“ اپنے ارادے ٹوٹنے ہی سے تو میں نے اللہ کی قوت کا عرفان پایا ہے۔ بخار ہی کی طرح زندگی میں آ نے والی ایسی چھوٹی موٹی رکاوٹیں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت بھی ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم اپنی سرپٹ اور بگٹٹ دوڑتی زندگی کو چند لمحے روک کراپنا ، اپنی مصروفیات کا او راپنے اعمال و کردار کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ اپنی اصلاح کرلیتے اور یوں کسی بہت بڑے اور ناقابلِ تلافی نقصان سے بچ جاتے ہیں۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے: ’’ہم تمھیں چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں تاکہ تم اپنی روش کی اصلاح کرکے بڑے بحرانوں سے بچ جاؤ۔ عہد رسول میں مسلمانوں کو پہنچنے والے کم ازکم دو ایسے بڑے دردناک واقعات پر قرآن مجید نے یہی تبصرہ فرمایا ہے کہ یہ اپنے اثرات میں تلخ ہونے کے باوجود اپنے نتائج میں برے نہ تھے۔ ایک غزوہ احد اور دوسرا واقعۂ افک۔
اگر ہم خود کو غور پر آمادہ کر سکیں توموٹر وے پر پیش آنے والے حالیہ واقعہ میں بھی ہمارے لیے کئی اسباق ہیں۔ موٹر وے پولیس نے سادہ کپڑوں میں ملبوس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے ایک آرمی نوجوان کو روکا۔ اس نے گاڑی بھگا دی۔ پولیس آفیسر نے پکڑلیا۔ اب یہاں بات بڑھ کے بگڑ گئی۔ ممکن ہے موٹر وے پولیس کی طرف سے ہی زیادتی ہوئی ہو، بہرحال آرمی آفیسر نے کمک منگوالی۔ جو ہونا تھا ہوا اور اس موٹر وے آفیسر کو وہ لوگ ساتھ لے گئے او ر مناسب ”تواضع“ کے بعد لوٹادیا۔
ممکن ہے اگر یہ کوئی اور دور ہوتا تویہ واقعہ اخبارات یا میڈیا میں رپورٹ ہونے تک قابو کرکے گم کیا جاسکتا۔ یہ مگر میڈیا ہی نہیں، سوشل میڈیا کا بھی دور ہے۔ سوشل میڈیا نے بڑے کرشمے کر دکھائے ہیں۔ عرب بہار میں مشرق وسطیٰ میں بدلتی حکومتیں ہوں۔ کشمیر و فلسطین اور مصر میں سوشل میڈیا کی کارکردگی یا کامیابی ہو یا پھر اپنے آئی فون کی ایک ایپ سے بغاوت کو بھگادیتے طیب اردوان کے حالات و واقعات ہوں۔ یہ بتاتے ہیں کہ ہم بہرحال ایک اور طرح کے دور میں جی رہے ہیں۔ چنانچہ سوشل میڈیا پریہ واقعہ سیکنڈوں میں وائرل ہوگیا۔ یہاں تک کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ صاحب کو اس پر ٹویٹ کرنا پڑا کہ ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔یہی ا س واقعے کا پہلا سبق ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گاکہ زندگی پہلے جتنی ہمارے کنٹرول میں تھی اب اس سے مزید کچھ کم ہو گئی ہے۔
اس و۱قعہ پر عوامی ردِ عمل حیران کن تھا۔ لوگ پہلی بارایسے کسی واقعہ میں اپنی پیاری فوج کے آفیسر کے بجائے اپنی پولیس کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ وہ لوگ نہ تھے جو سائیبریا سے آئی ٹھنڈ سے ہوئے اپنے نزلے کوبھی فوج کے خلاف استعمال کرنے کا بہانہ بنالیتے ہیں۔ یہ موٹر وے پولیس کا شعبہ تعلقاتِ عامہ بھی نہ تھاکہ جو اپنی تنخواہ حلال کرنے کی تگ و دو کر رہا ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا اپنے ملک کے اس ادارے سے کسی نہ کسی طرح سابقہ پڑچکاتھا اور وہ موٹر وے پولیس کے اخلاق، خدمت اور فرض شناسی کا تجربہ کرچکے تھے۔ حیران کن طور پر مختلف جید لوگوں کی طرف فیس بک وال پر ایسی پوسٹیں نمودار ہونے لگیں، جو معاملے کی ”حساسیت“‘سے قطع نظرموٹر وے پولیس کے دفاع میں بولتی تھیں۔ بڑے بڑے ممتاز، محب وطن اور حالات و واقعات کو سمجھنے والے لوگ اپنے ذاتی واقعات شیئر کرکے موٹر وے پولیس کا کیس لڑ رہے تھے۔
یہ اس واقعہ کا دوسرا سبق ہے۔ یعنی اگر آپ دیانت داری اور فرض شناسی سے اپنا کام کرتے ہیں تو پھر بھلے اپنا تعلقاتِ عامہ کا شعبہ بنائیں یا سرے سے نہ بنائیں وقت پڑنے پر قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی۔ یہ سبق فوج، پولیس سیاستدانوں اور حکمرانوں، سبھی کے لیے ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک فلاں قوت ان کے ساتھ ہے اقتدار کا ہما ان کے سر پر رہے گا اور جونہی وہ قوت ان سے ناراض ہوئی اقتدار ان سے چھن جائے۔ ایسا ہو تا بھی ہے، لیکن یہ واقعہ ہمیں چیخ چیخ کے بتاتا ہے کہ دوامِ اقتدار کا ایک طریقہ خدمتِ عوام سے ہوکر بھی گزرتا ہے اور یہ ایسا فول پروف طریقہ ہے کہ جس کے بعد کسی عارضی اور ضمیر کی قیمت پر ادھار لیے گئے طریقے کی محتاجی نہیں رہتی۔
اس واقعہ پر ہونے والے تبصروں میں کچھ دیر کے بعد ایک اور طبقہ بھی شریک ہوگیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو فوج کے ساتھ اپنی بے لوث محبت میں مشہور تھے۔ انہوں نے قرار دیا کہ اس موقع کو فوج کے خلاف برتا جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ان لوگوں کی بد ترین غلطی تھی، کسی سادہ سے واقعہ میں قوم کے اجتماعی دھارے سے الگ ہوکر فوج سے محبت کا اظہار فوج کو متنازع بنانے کی کامیاب کوشش ہوسکتی ہے۔ جب آپ ایسے موقع پر کسی فریق کی حمایت پر تل جاتے ہیں کہ جب ایک فریق طاقت ور بھی ہو، وہ سول کپڑوں میں بھی ہو، اس کے مقابل ایک ستھرا ادارہ بھی ہو اور وہ وردی میں بھی اور پھر اپنی ڈومین میں بھی ہو تو ناصرف آپ اپنی طرف انگلیاں اٹھوانے کا خاطر خواہ سامان کرلیتے ہیں، بلکہ بیچارے اپنے ممدوح کو بھی خاصا قابلِ غور بنادیتے ہیں۔ یہی وہ تعصبات ہیں جو معاشروں سے امن، اصلاح اور ترقی کی سپرٹ چھین لیتے ہیں۔
بطورِ مسلمان اور بطور اکیسویں صدی کے باشعور شہری ہونے کے ہمیں صرف انصاف کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ہمیں کہنا چاہیے کہ جرم ہر گز کسی کا استحقاق نہیں۔ کسی کی اہمیت یا عزت اس کے لیے ظلم کا جواز نہیں ہونا چاہیے۔ اس امت میں صحابہ سے بڑھ کر کوئی قابلِ عزت و دفاع نہیں، اس کے باوجود بطور انسان ان سے ہونے والی کوتاہیوں پر انہیں ملنے والی سزائیں ہمارے نظامِ عدل کی اولیں نظیریں ہیں۔ امہات المومنین کو نبیؐ سے قربت کی بدولت جو مقام ومرتبہ حاصل تھا، اس پر انہیں رعایت یا استثنا دینے کے بجائے کسی بھی ارتکابِ جرم پر قرآن مجید نے دہری سزا کی وعید سنائی ہے۔ خالد بن ولیدؓ جیسابے مثل سپہ سالاراسلامی تو کیا عام تاریخ میں بھی نہیں گزرا۔ معمولی کوتاہی پر اور اصلاً نظم قائم کرنے کی خاطر ان کی معزولی مجمع عام میں کر دکھائی گئی۔ آفریں ہے کہ انھوں نے کسی وقار کی بات نہیں کی۔ گورنرِ مصرعمرو بن عاص ؓکے بیٹے نے کسی معاملے میںایک شخص پرکچھ ظلم کر ڈالا تو خلیفہ عمر ِ فاروقؓ نے ان کے بیٹے کو کوڑے لگانے کے بعد گورنر باپ کو بھی میدان میں طلب کرلیا کہ وہ باپ بھی کوڑوں کا مستحق ہے کہ جس کی گورنری کی شہ پاکر بیٹے کو زیادتی کی جرات ہوئی۔
یہی قوموں کی زندگی میں ترقی اور ایکسی لینس کا موٹر وے ہے اور سنا ہے مغربی قوموں نے بھی اسی سے ترقی کی ہے، واللہ اعلم!